مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

قبل ازبعثت اہل عرب کی مذہبی حالت

اہل مکہ اپنے بزرگوں ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام دونوں سے گہری عقیدت ومحبت رکھتے تھے، اوران کایہ خاندانی شرف تھاکہ وہ ان کے نسب میں تھے اس لئے وہ دوسروں سے برتر تھے، دوسرے اس لئے کہ انہی عالیٰ مرتبہ بزرگوں نے اس بے آب وگاہ سر زمین پر بیت  اللّٰہ کو تعمیر کیاتھا جو اساس توحیدہے اورعدل واحسان کامرکزہے ، انہیں بیت اللہ سے بھی بڑی عقیدت تھی جس کے متولی اورکلید بردارہونے کے ناطے وہ دوسرے عربوں سے ممتاز تھے ، ان کی سیادت وقیادت کی تمام عظمت خانہ کعبہ کے ساتھ وابستہ تھی ، اہل مکہ کوزعم تھاکہ وہ  اللّٰہ کے پسندیدہ دین ابراہیمی کے پیرو کار ہیں حالانکہ ا س فخرکے باوجودعرب اپنے گردوپیش سے متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکے ،بابل،مصر،حبشہ،نجران اوربیت المقدس کی متعددروایات ان میں رائج ہوئیں ،پہلے چارہمسایوں سے انہیں اصنام میسرآئے جن میں بابل کا بعل دیوتا عرب میں ہبل دیوتابن گیا۔

وَاِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۲۳ۭاِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۲۴اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ۝۱۲۵ [1]

ترجمہ:اور الیاس بھی یقیناً مرسلین میں سے تھایاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم لوگ ڈرتے نہیں ہو ؟کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو۔

اس کے علاوہ متعدددیویاں اور دیوتا درآمدہوئے، دین کے اندربعدکی صدیوں میں قبائل کے سرداروں ،خاندان کے بڑے بوڑھوں اور چالاک ومکار مذہبی پیشواوں نے لوگوں پر اپنی خدائی کاسکہ جمانے اوران کی کمائیوں میں حصہ بٹورنے کے لئے لوگوں کو بناوٹی معبوددوں کامعتقد بنایااوراپنے آپ کوکسی نہ کسی طور پران کانمائندہ ٹھہراکراپنا الو سیدھا کرنے کے لئے طرح طرح کے عقائد،اعمال اوررسومات کا اضافہ کرتے چلے گئے جنھیں آنے والی نسلوں نے اصل مذہب کا جزو سمجھ لیا اوران کاپورادین مشتبہ ہوکررہ گیااس طرح انہیں پتہ ہی نہیں تھاکہ دین کہتے کسے ہیں ، اسلام نے جن اعلیٰ اخلاقیات کادرس دیا تھا انہیں ان سے دور کا بھی واسطہ نہ رہا تھا جنہیں ترک کر کے وہ گردنوں تک گناہوں کی دلدل میں دھنس چکے تھے ، وہ بتوں پر مجاور بن کربیٹھتے ، ان کی خوشنودی کے لئے مراسم عبودیت جیسے ان کے نام کی قربانی کرنا ، نذرانے چڑھانا ان کاحج اور طواف کرنا اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہونا بجا لاتے ، اور اپنی پریشانیوں و مشکلات اور ضروریات میں ان سے اونچی آوازوں میں فریادیں کرتے،مگر بسا اوقات جب اس کی دعا ؤ ں اور تمناوئں کے خلاف کوئی واقعہ پیش آ جاتاتو یہی عرب اپنے معبودکی توہین بھی کر ڈالتا اوراس کی نذرنیازدینا بندکر دیتا ،

ایک واقعہ یوں ہے

وَكَانَ أَبُوهُ قُتِلَ، فَأَرَادَ الطَّلَبَ بِثَأْرِهِ، فَأَتَى ذَا الْخَلَصَةِ، فَاسْتَقْسَمَ عِنْدَهُ بِالْأَزْلَامِ، فَخَرَجَ السَّهْمُ بِنَهْیِهِ عَنْ ذَلِكَ

ایک عرب جواپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھااس نے اپنے معبود ذوالخلصہ کی رضا معلوم کرنے کے لئے اس کے آستانے پرجاکرفال نکلوائی ، جواب ملاکہ یہ کام نہ کیا جائے،فال کایہ جواب سن کرعرب طیش میں آگیا اور کہنے لگا

لَوْ كُنْتَ یَا ذَا الْخُلُصِ الْمَوْتُورَا مِثْلِی وَكَانَ شَیْخُكَ الْمَقْبُورَا   لَمْ تَنْهَ عَنْ قَتْلِ الْعُدَاةِ زُورَا

اے ذوالخلصہ!اگرمیری جگہ تو ہوتا اورتیراباپ ماراگیا ہوتا توہرگزتویہ جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے۔[2]

اسی طرح کا ایک واقعہ یوں ہے

 وَكَانَ لِبَنِی مِلْكَانَ بْنِ كِنَانَةَ بْنِ خُزَیْمَةَ بْنِ مُدْرِكَةَ بْنِ إلْیَاسَ بْنِ مُضَرَ صَنَمٌ، یُقَالُ لَهُ سَعْدٌ، صَخْرَةٌ بِفَلَاةِ مِنْ أَرْضِهِمْ طَوِیلَةٌ. فَأَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی مِلْكَانَ بِإِبِلِ لَهُ مُؤَبَّلَةٌ لِیَقِفَهَا عَلَیْهِ، الْتِمَاسَ بَرَكَتِهِ، فِیمَا یَزْعُمُ، فَلَمَّا رَأَتْهُ الْإِبِلُ، وَكَانَتْ مَرْعِیَّةً لَا تُرْكَبُ، وَكَانَ یُهْرَاقُ عَلَیْهِ الدِّمَاءُ، نَفَرَتْ مِنْهُ،فَذَهَبَتْ فِی كُلِّ وَجْهٍ ثُمَّ قَالَ:لَا بَارَكَ اللَّهُ فِیكَ، نَفَّرْتَ عَلَیَّ إبِلِی، ثُمَّ خَرَجَ فِی طَلَبِهَا حَتَّى جَمَعَهَا، فَلَمَّا اجْتَمَعَتْ لَهُ قَالَ

بنو ملکان بن کنانہ بن خزیمہ کی اولادکاایک بت تھاجس کانام سعدتھاوہ ایک جنگل میں ایک طویل بے ڈول پتھرتھا( جس پرقربانیوں کاخون لتھڑاہوا تھا) ایک دفعہ ملکان کی اولادسے ایک شخص اپنے بیماراونٹ کو برکت حاصل کرنے کے لئے اس کے آستانے پر لےآیا،اونٹ نے جب( یہ ہیبت ناک منظردیکھا) توبدک کر بھاگ گیا

 وَغَضِبَ رَبُّهَا الْمِلْكَانِیُّ، فَأَخَذَ حَجَرًا فَرَمَاهُ بِهِ

اس سے عرب کواپنے معبود پرشدیدغصہ آیا اور اپنے معبود پر ایک پتھردے مارااورپھرکہنے لگا اے بے برکت تو نے میرااونٹ بھگا دیاپھراونٹ کی تلاش میں نکلا،جب اس کوپالیاتواپنے معبودکی مذمت میں یہ اشعارکہے۔

أَتَیْنَا إلَى سَعْدٍ لِیَجْمَعَ شَمْلَنَا،فَشَتَّتَنَا سَعْدٌ فَلَا نَحْنُ مِنْ سَعْدِ

ہم سعدکے پاس آئے کہ ہمارے بچھڑے ہوئے دوستوں کوجمع کردے گا،اس کم بخت نے تواوربھی تفریق کرادی، پس ہماراسعدسے کوئی تعلق نہیں ہے

وَهَلْ سَعْدُ إلَّا صَخْرَةٌ بِتَنُوفَةٍ،مِنْ الْأَرْضِ لَا تَدْعُو لِغَیٍّ وَلَا رُشْدٍ

آخرسعدزمین کے جنگل کاایک پتھرہی ہے جس میں ہدایت وگمراہی کی طاقت نہیں ہے۔[3]

مشرکین مکہ  اللّٰہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہرگز نہ تھے ،اورنہ ہی اپنے دیوتاوں میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابرقرار دیتے تھے ،اس لئے آپ جہاں ان کے ناموں میں اپنے معبودوں کے نام پر عبدالعزیٰ ، عبد مناة ، عبدود، زیداللت ،تمیم اللت ، عبد یغوث وغیرہ پائیں گئے تو عبد اللّٰہ ، عبید اللّٰہ وغیرہ نام بھی دیکھیں گے۔

مشرکین یہ تسلیم کرتے تھے کہ انہیں اللہ نے پیداکیاہے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ۝۸۷ۙ [4]

ترجمہ:اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے، پھر کہاں سے یہ دھوکاکھا رہے ہیں ۔

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۴سَیَقُوْلُوْنَ لِلهِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۸۵ [5]

ترجمہ: ان سے کہو، بتاؤ، اگر تم جانتے ہوکہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے ؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی، کہوپھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے ؟۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ  ۭ ۔۔۔۝۳۸ [6]

ترجمہ:ان لوگوں سے اگرتم پوچھوکہ زمین اورآسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہ خودکہیں گے کہ اللہ نے۔

مشرکین یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ اللہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کاخالق ومالک ہے۔

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۝۸۶سَیَقُوْلُوْنَ لِلهِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۸۷ [7]

ترجمہ: ان سے پوچھوساتوں آسمانوں اورعرش عظیم کامالک کون ہے ،یہ ضرورکہیں گے اللہ،پھرتم ڈرتے کیوں نہیں ۔

مشرکین یہ بھی مانتے تھے کہ اقتدارکامالک صرف اللہ ہی ہے،جو زندہ کومردہ سے اور مردہ کوزندہ سے نکالتا ہے ، جوپناہ دیتا ہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ، اسی نے انسان کی خدمت کے لئے جانور پیدا کیے ،پھرآسمان سے پانی برسا کر زمین کوہرا بھرا بھی  اللّٰہ کرتاہے جس سے انسان اور جانور دونوں کھاتے ہیں ،  اللّٰہ جو زندہ کومردہ سے اور مردہ کوزندہ سے نکالتاہے اور اس سارے جہاں کامنتظم ہے ، جس کا ہر چیزپر اقتدارہے ،اور جوپناہ دیتاہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔

قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّهُوَیُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۸۸سَیَقُوْلُوْنَ لِله۔۔۔ ۝۸۹ [8]

ترجمہ:ان سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے ؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ؟ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے۔

مشرکین یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ اس بڑی کائنات کامنتظم اللہ ہی ہے جوہرجاندارکواپنی رحمت سے رزق دینے والاہے اور اسی نے انسان کودیکھنے اورسننے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے ۔

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللهُ۔۔۔۝۰۝۳۱ [9]

ترجمہ :اِن سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں ؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔

مشرکین یہ بھی مانتے تھے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کاخالق اللہ ہی ہے اوران کے درمیان چاندوسورج دونوں (جس سے رات اور دن کانظام بنتاہے) بھی رب کے ہی حکم کے پابند ہیں ۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللهُ۔۔۔۝۶۱ [10]

ترجمہ: اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اورآسمانوں کو کس نے پیدا کیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکررکھاہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔

مشرکین یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں سے بارش برسانے والی ذات ان کے معبودنہیں بلکہ صرف اللہ ہی ہے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُوْلُنَّ اللهُ۔۔۔۝۰  [11]

ترجمہ:اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔

اسی طرح جب کشتیوں میں سفرکرتے اور ناگہانی طوفانی مصیبت میں گھر جاتے، تو اس وقت ان کے باطل معبود ان سے گم ہو جاتے تھے پھرمددکے لئے خالص  اللّٰہ کو پکارتے۔

فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَ۝۶۵ۙ [12]

ترجمہ:جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں ۔

ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِ۝۰ۚ وَجَرَیْنَ بِهِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّفَرِحُوْا بِهَا جَاۗءَتْهَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِهِمْ۝۰ۙ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَیْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ۝۲۲فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِكُمْ۝۰ۙ مَّتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۡثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۲۳ [13]

ترجمہ: وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر باد موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ گھِر گئے اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے،مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ، لوگو، تمہاری یہ بغاوت تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے۔ دنیا کے چند روزہ مزے ہیں ( لوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اس وقت ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۔۔۔۝۰۝۶۷ [14]

ترجمہ:جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں ، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔

مشرکین ایک دوسرے کوسلام بھی کیاکرتے تھے ،

وكانت العرب تقول عِنْدَ التَّلَاقِی حیاك الله. دعاء له بالحیاة فأبدل الله ذلك بالسلام

اہل عرب جس آپس میں ملتے توایک دوسرے کوکہتےاللہ تمہاری عمردرازکرے،اللہ تعالیٰ نے اسے سلام

(السَّلَامُ عَلَیْك وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ)

میں بدل دیا۔[15]

 تَحِیَّةُ الْجَاهِلِیَّةِ،حَیَّاكَ اللَّهُ

ایک مقام پرلکھتے ہیں یہ جاہلیت کاسلام تھااللہ تمہاری عمردرازکرے۔[16]

أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ، قَالَ:كُنَّا نَقُولُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَیْنًا، وَأَنْعِمْ صَبَاحًا، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ نُهِینَا عَنْ ذَلِكَ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدور جاہلیت میں ہم کہاکرتے تھے اللہ تیری وجہ سے ہم پرانعام کرے اورتیری صبح بخیرہولیکن اسلام کے آنے کے بعدہمیں اس سے روک دیاگیا۔[17]

مگر ان ساری باتوں کاقرارمحض زبانی حدتک تھا حقیقی زندگی میں وہ  اللّٰہ کی عظمت وجلال کو فراموش کرچکے تھے ، اور تمام طرح کے حقوق جورب سے متعلق ہیں وہ اپنے دیوتاوں جنوں ، بزرگوں کی ارواح،اپنے اسلاف واجداد، انبیاء اولیاء اورشہدا ء کوسونپ چکے تھے ،ان کاخیال تھاکہ فلاں دیوتاکوزندگی وموت کااختیارہے ،فلاں دیوتاکاکام آندھیاں پیداکرنااورفلاں کاکام بارش برساناہے،مال ودولت کی تقسیم فلاں دیوی کے ہاتھ میں ہے، اس لئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے دیوی دیوتاؤ ں کو چھوڑ کر تنہا اللہ تبارک وتعالیٰ کانام لیتے توچڑجاتے۔

۔۔۔ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا۝۴۶ [18]

ترجمہ: اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

وَاِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۵ [19]

ترجمہ:جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں ، اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں ۔

ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗٓ اِذَا دُعِیَ اللهُ وَحْدَهٗ كَفَرْتُمْ۝۰ۚ وَاِنْ یُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ فَالْحُكْمُ لِلهِ الْعَلِیِّ الْكَبِیْرِ۝۱۲ [20]

ترجمہ: (جواب ملے گا) یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کردیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم نے اس کائنات کوپیداکیاہے اورہم ہی اس کے فرمانرواہیں ہم نے اپنی خلق کودوسروں کے حوالے نہیں کردیا اورنہ ہی کسی مخلوق کویہ حق دیاہے کہ وہ خود مختارہوکرجوچاہے کرتی پھرے۔

۔۔۔ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۵۴ [21]

ترجمہ: خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔

اہل عرب جوخودکودین ابراہیمی کاپیروکارسمجھتے تھے اللہ کوآسمانوں زمینوں ،حیوانوں کاخالق ومنتظم ورزاق ومشکل کشاتسلیم کرنے کے باوجودگزشتہ قوموں کی طرح جن پراللہ کاغضب نازل ہوا ،اپنی کوتاہ فکری ،اللہ تعالیٰ کے ناقص تصور،دنیاپرستی ،دولت وعیش کی بدمستی کی وجوہات کی بناپردوبارہ زندہ ہوکر رب کے حضوراعمال کی جواب دہی کے لئے پیش ہونے کے قائل نہیں تھے،ان کے اس عقیدے کے خلاف پوراقرآن بھراپڑاہے۔

وَقَالُوْا مَا هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِكُنَآ اِلَّا الدَّهْرُ۔۔۔۝۰۝۲۴ [22]

ترجمہ :اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے۔

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙ [23]

ترجمہ : اور کہا کرتے تھے کہ بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے اور ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ گئے تو کیا ہمیں پھر اٹھنا ہوگا ؟۔

وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا۝۶۶ [24]

ترجمہ: اورانسان کہتا ہے کیاواقعی جب میں مرچکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا ؟ ۔

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ۝۱۰ [25]

ترجمہ:اوریہ لوگ کہتے ہیں جب ہم مٹی میں رل مل چکے ہوں گے توکیاہم پھر نئے سرے سے پیداکیے جائیں گے۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ۝۰ۙ لَا یَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَّمُوْتُ۔۔۔۝۰۝۳۸ۙ [26]

ترجمہ : یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھاکرکہتے ہیں کہ اللہ کسی مرنے والے کوپھرسے زندہ کرکے نہ اٹھائے گا۔

یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَةِ۝۱۰ۭءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً۝۱۱ۭقَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ۝۱۲ [27]

ترجمہ: یہ لوگ کہتے ہیں کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں گے ؟ کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے ؟ کہنے لگے یہ واپسی تو پھر بڑے گھاٹے کی ہوگی۔

وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً۝۰ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا۝۳۶ [28]

ترجمہ:اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی،تاہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤ ں گا۔

وہ سمجھتے تھے کہ زمانہ ہی ہمیں مارتا ہے ،اور زمانہ ہی کی وجہ سے ہمیں تکالیف رنج ومصیبتیں پہنچتی ہیں اور اس زندگی کے بعدکوئی زندگی نہیں ،کوئی جزاء یاسزانہیں ،اس لئے جانوروں کی طرح کھاؤ پیو اور مرجاؤ ،ان کے دین میں بس روزہ کاایک طریقہ رائج تھا،وہ اعتکاف بھی کرتے تھے، ابراہیم علیہ السلام کی مقررکردہ حج کی چندرسومات جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کے سرداروں نے اپنے معبودوں کی عقیدت میں بے شمار بدعات و خرافات شامل کردی تھیں کچھ نہیں بچا تھا،اب جوتھا وہی دین ابراہیم علیہ السلام تھا اوران کی عبادت بھی کیاتھی بس ننگے جسم (قریش کے سوا) جس میں مردیا عورت کی کوئی تمیز نہیں تھی کعبہ کا طواف اور دعائیں مانگ لیاکرتے تھے ، انہوں نے ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کے دورمسعودسے حج میں تلبیہ کے یہ الفاظ

لَبَّیْكَ اللَّهُمَّ لَبَّیْكَ لَبَّیْكَ، لَا شَرِیكَ لَكَ لَبَّیْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِیكَ لَكَ

ترجمہ:میں حاضرہوں اے  اللّٰہ !میں حاضرہوں ،میں حاضرہوں تیراکوئی شریک نہیں ،اے  اللّٰہ میں حاضر ہوں ،تمام حمدوثناء تیرے لئے ہیں اورسب نعمتیں تیری ہیں اور سارا ملک تیراہے اورتیراکوئی شریک نہیں ۔[29]

کو جس میں خالص توحید تھی بدل ڈالا اوراپنے معبودوں کوشامل کرکے یوں تلبیہ پکارنے لگے ۔

لَبَّیْكَ لَا شَرِیكَ لَكَ إِلَّا شَرِیكًا هُوَ لَكَ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ

ترجمہ:میں حاضرہوں ، اے  اللّٰہ ! میں حاضر ہوں تیراکوئی شریک نہیں ، مگروہ تیرا شریک ہے جس کاتو مالک ہے اور جس کاوہ مالک ہے اس کابھی توہی مالک ہے۔[30]

عَمْرُو بْنُ لُحَیّ، فَبَیْنَمَا هُوَ یُلَبّی تَمَثّلَ لَهُ الشّیْطَانُ فِی صُورَةِ شَیْخٍ یُلَبّی مَعَهُ فَقَالَ عَمْرٌو: لَبّیْكَ لَا شَرِیك لَك فَقَالَ الشّیْخُ إلّا شَرِیكًا هُوَ لَك، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَمْرٌووَقَالَ مَا هَذَا؟فَقَالَ الشّیْخُ قُلْ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ فَإِنّهُ لَا بَأْسَ بِهَذَا فَقَالَهَا عَمْرٌو، فَدَانَتْ بِهَا الْعَرَبُ

اس تلبیہ کا سبب یہ بتایا جاتا ہےجب خزاعہ میں عمروبن لحی کاوقت آیاتو ایک دفعہ وہ بیت  اللّٰہ کا طواف کرتے ہوئے ابراہیمؑ کی تلبیہ پکار رہا تھا ابلیس بھی ایک بزرگ کی شکل میں اس کے ساتھ تلبیہ پکارنے لگا جب عمرو بن لحی نے لبیک لبیک لاشریک لک لبیک کہاتوابلیس نے الاشریکاھولک کے مشرکانہ الفاظ کا اضافہ کردیا عمرو بن لحی نے چونک کران بڑھے ہوئے الفاظ کاانکارکردیااورکہایہ کیاالفاظ ہیں ؟مگرابلیس نے کہا آگے یہ الفاظ بھی کہہ دو’’تملکہ وماملک‘‘ ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں ،عمرونے ابلیس کے کہنے پر ان الفاظ کا اضافہ کردیا اس کے دیکھادیکھی عرب کے لوگ حج کی تلبیہ پکار کر توحید کا اظہار کرتے مگرابلیس کے بتائے ہوئے شرکیہ الفاظ بڑھا کر اپنے معبودوں کو شامل کردیتے اور ان پر  اللّٰہ کا قبضہ بھی تسلیم کرتے۔[31]

اس کے علاوہ قریش جب بیت اللہ کاطواف کرتے تویہ شرکیہ فقرے دہراتے۔

اللاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأخْرَى تِلْكَ الغَرَانیق الْعُلَى. وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ تُرْتَجَى

ترجمہ:لات اورعزی اور تیسرے بت مناة کی قسم یہ بلند و بزرگ ہیں ، اوران کی شفاعت کی امید ہے۔[32]

جب بنوخزاعہ نے قبیلہ جرہم کو شکست دے کرمکہ سے نکالا تو عرب کے لوگوں نے عمروبن لحی بن قمعہ بن خندف جوپستہ قدسرخ آنکھیں ،کرنجی آنکھ والاشخص تھا کو (جس کی والدہ کانام فہیرہ بنت عمروبن حارث تھا)لوگوں کی تعظیم کرنے ،حج کے موقعہ پر انہیں کپڑے پہنانے،حج کے دنوں میں ہزاروں اونٹ ذبح کرنے اور بڑی فراخ دلی سے لوگوں میں حلّے بانٹتے دیکھ کراپنابڑا تسلیم کرلیا ، چنانچہ وہ جوبھی نیاکام جاری کرتا لوگ آنکھیں بندکرکے  اللّٰہ کے حکم کی طرح اس پرعمل کرتے ایک مرتبہ عمروبن لحی اپنے کسی کام سے مکہ مکرمہ سے شام کوگیا

فَلَمَّا قَدِمَ مَآبَ مِنْ أَرْضِ الْبَلْقَاءِ، وَبِهَا یَوْمَئِذٍ الْعَمَالِیقُ وَهُمْ وَلَدُ عِمْلَاقٍ. وَیُقَالُ عِمْلِیقُ بْنُ لَاوِذْ بْنِ سَامَ بْنِ نُوحٍ رَآهُمْ یَعْبُدُونَ الْأَصْنَامَ،فَقَالَ لَهُمْ: مَا هَذِهِ الْأَصْنَامُ الَّتِی أَرَاكُمْ تَعْبُدُونَ؟ قَالُوا لَهُ: هَذِهِ أَصْنَامٌ نَعْبُدُهَا، فَنَسْتَمْطِرُهَا فَتُمْطِرُنَا ونَسْتَنْصِرُهَا فَتَنْصُرُنَا فَقَالَ لَهُمْ: أَفَلَا تُعْطُونَنِی مِنْهَا صَنَمًا، فَأَسِیرَ بِهِ إلَى أَرْضِ الْعَرَبِ، فَیَعْبُدُوهُ؟ فَأَعْطَوْهُ صَنَمًا یُقَالُ لَهُ هُبَلُ فَقَدِمَ بِهِ مَكَّةَ، فَنَصَبَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِعِبَادَتِهِ وَتَعْظِیمِهِ

جب وہ بلقاء کی زمین میں ایک مقام مآب پرپہنچاتووہاں کے باشندوں کوجوعمالیق کہلاتے تھے بتوں کی پرستش کرتے ہوئے پایا(یہ عمالیق،عملاق یاعملیق کی اولادہیں جولاوذبن سام بن نوح کی اولادسے تھا)عمرونے ان سے پوچھایہ بت کیسے ہیں جن کی تم پرستش کرتے ہو؟ انہوں نے کہایہ ایسے بت ہیں کہ جب ہم ان سے بارش کی درخواست کرتے ہیں توبارش ہو جاتی ہے اورجب ان سے مددمانگتے ہیں توہماری مددکرتے ہیں ،(مشرک چاہئے دنیاوی زندگی میں کتنا ہی عقل مند اور صائب الرائے ہوہمیشہ احمق اور بے وقوف ہی ہوتاہے ) عبادت کایہ طریقہ اسے بہت پسند آیا ، اس کے دل میں خیال پیداہوا کہ وہ بہترین اسلاف ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کاطریقہ چھوڑ کر یہ طریقہ عبادت مکہ میں رائج کرے،عمرونے کہاکیاآپ لوگ ان میں سے ایک بت مجھے نہیں دے سکتے کہ میں اس کوعرب میں لے جاؤ ں تاکہ وہاں کے لوگ ان کی عبادت کریں ؟انہوں نے اس کوایک بت دے دیاجس کانام ہبل تھا،اس نے اس کومکہ مکرمہ میں لاکرنصب کردیااورلوگوں کواس کی عبادت اورتعظیم کاحکم دیا۔[33]بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ بت جوانسانی شکل پر سرخ عقیق کابناہواتھا اسے ساحل سمندر پر پڑا ہواملا تھا جو وہ اٹھا لایا،

وروى الفاكهی عن هشام بن السائب قال:كان لعمرو بن ربیعة رئی من الجن فأتاه فذكر له شعرا یأمره فیه بإخراج الأصنام من ساحل جدة فأتى عمرو ساحل جدة فوجد بها ودا وسواعا ویغوث ویعوق ونسرا وهی الأصنام التی عبدت زمن نوح وإدریس ثم إن الطوفان طرحها هناك، فسقى علیها الرمل، فاستخرجها عمرو وخرج بها إلى تهامة وحضر الموسم فدعا إلى عبادتها فأجیب

فاکہی ،ہشام بن سائب سے روایت کرتے ہیں جب نوح  علیہ السلام کی قوم دعوت حق پرایمان نہ لانے کے جرم میں غرق ہوئی تویہ پانچ بت ود،سواع ،یغوث،یعوق اورنسرپانی کے ساتھ بہتے ہوئے دوسری جگہ ساحل سمندر پر آپڑے، عمروبن لحی کاایک تابع جن تھااس نے اسے اطلاع دی کی فلاں ساحل پر چندبت پڑے ہیں اسے اٹھالاؤ چنانچہ وہ وہاں گیا اوریہ بت اٹھالایا جسے اس نے مکہ مکرمہ لاکرخانہ کعبہ کے اوپر نصب کردیااورلوگوں کواس کی عبادت کرنے کی ترغیب دی جسے تمام اہل عرب نے تسلیم کر لیا۔[34]

ابْنُ لُحَیِّ بْنِ قَمَعَة، أَحَدُ رُؤَسَاءِ خُزَاعَةَ، الَّذِینَ ولَوا الْبَیْتَ بَعْدَ جَرْهم. وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ غَیَّرَ دِینَ إِبْرَاهِیمَ الْخَلِیلِ، فَأَدْخَلَ الْأَصْنَامَ إِلَى الْحِجَازِ، وَدَعَا الرَّعَاعَ مِنَ النَّاسِ إِلَى عِبَادَتِهَا وَالتَّقَرُّبِ بِهَا

حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں ابن لحی بن قمعہ جوخراعہ کے سرداروں میں سے تھاجوقبیلہ جراہم کے بعدبیت اللہ کی تولیت انہی کے پاس تھی،یہی شخص تھاجس نے دین ابراہیم خلیل اللہ کے خلاف کام کیا اور حجازمیں بتوں کوداخل کیااورسفلےلوگوں کودعوت دی کہ وہ ان کی عبادت کریں اورتقرب حاصل کریں ۔[35]

فیقال: إنه كان أول من غیر الحنیفیة دین إبراهیم ونصب الأوثان حول الكعبة ودعا إلى عبادتها:عَمْرُو بْنُ لُحَیِّ بْنِ قَمَعَةَ بْنِ إِلْیَاسَ بْنِ مُضَرَ

وہ پہلاشخص جس نے ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف دین میں بگاڑپیداکیااورکعبہ کے اوپربتوں کونصب کیااورلوگوں کوان کی پرستش کی دعوت دی وہ عمروبن لحی بن قمہ بن الیاس بن مضر تھا۔[36]

ایک ضعیف روایت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں عمروبن لحی کی عقیدت کایہ عالم تھا کہ طائف میں ایک شخص جو قبیلہ ثقیف سے تھاجس کا نام لات کہا جاتا ہے

كَانَ اللَّاتُ رَجُلًا یَلُتُّ سَوِیقَ الْحَاجِّ

لات حاجیوں کوستو بھگو کر پلایا کرتا تھا۔

وَلَفْظُهُ فِیهِ زِیَادَةٌ كَانَ یَلُتُّ السَّوِیقَ عَلَى الْحَجَرِ

ایک روایت میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ لات ایک چوکورپتھرپربیٹھ کرحاجیوں کوستوپلایاکرتاتھا۔[37]

مَعْرُوفَةٍ تُسَمّى: صَخْرَةَ اللّاتِی

لوگ اس پتھرکو جس پربیٹھ کروہ ستو پلایاکرتاتھالات کا پتھر کہنے لگے۔

عَنِ بن عَبَّاسٍ أَنَّ اللَّاتَ لَمَّا مَاتَ قَالَ لَهُمْ عَمْرُو بْنُ لُحَیٍّ إِنَّهُ لَمْ یَمُتْ وَلَكِنَّهُ دَخَلَ الصَّخْرَةَ فَعَبَدُوهَا وَبَنَوْا عَلَیْهَا بَیْتًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب لات فوت ہوگیاتوعمروبن لحی نے لوگوں میں یہ مشہورکردیا کہ لات مرانہیں ہے بلکہ اس پتھرمیں چلا گیا ہے ،اس کی پرستش کرواوراس کے لیے عمارت بناؤ ۔[38]

وقد انتهت إلینا أسماء رجال أضیفت إلى اللات، مثل:تیم اللات، وزید اللات، وعائذ اللات، وشیع اللات. وشكم اللات، ووهب اللات

چنانچہ اس نے مناة کے بعد اس پتھر(لات ) پر ایک عالیشان بت خانہ تعمیر کرادیااورلوگ اس پتھر کو پوجنے اور اس سے عقیدت کی بنا پر اپنے بچوں کے نام تیم اللات، اورزہداللات، اورعائذ اللات، اورشیع اللات اورشکم اللات، اوروھب اللات رکھنے لگے۔[39]

حالانکہ قرآن مجیدلات کومرد دیوتا نہیں دیوی بتاتا ہے ، ا سی لات دیوی کوبچانے کے لئے جن کے بارے میں ان کا عقیدہ تھاکہ  اللّٰہ جاڑالات کے ہاں گزارتا تھا ،قبیلہ ثقیف کے سردار (جومانتاتھاکہ کعبہ  اللّٰہ کا گھر ہے ) نے یمن کے ابرہہ کوراستہ بتانے کے لئے بدرقے فراہم کیے تھےتاکہ پہاڑی علاقہ سے اس لشکرکومکہ مکرمہ تک بحفاظت پہنچا دیں ، جس کے جرم میں مدتوں اہل عرب اس سردار کی قبر پر پتھر برسا کر اپنے دل ٹھنڈے کرتے رہے۔

وَكَانَتِ الْعُزَّى أَحْدَثُ مِنَ اللَّاتِ وَكَانَ الَّذِی اتَّخَذَهَا ظَالِمُ بْنُ سَعْدٍ بِوَادِی نَخْلَةَ فَوْقَ ذَاتِ عِرْقٍ

لات کے بعد ظالم بن سعد نے عزیٰ دیوی کا بت بنا کر وادی نخلہ میں نصب کرکے اس پرعمارت تعمیر کرا دی ۔

وَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرِ بْنِ لُحَیٍّ الخُزَاعِیَّ یَجُرُّ قُصْبَهُ فِی النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَیَّبَ السَّوَائِبَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے عمروبن لحی کو دیکھا کہ جہنم میں وہ اپنی انتڑ یوں کو گھسیٹ رہاتھا یہی عمرو پہلا شخص ہے جس نے سائبہ کی رسم نکالی۔[40]

سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لِأَكْثَمَ بْنِ الْجَوْنِ الْخُزَاعِیِّ: یَا أَكْثَمُ، رَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ لُحَیِّ بْنِ قَمَعَةَ بْنِ خِنْدِفَ یَجُرُّ قُصْبَهُ فِی النَّارِ، فَمَا رَأَیْتُ رَجُلًا أَشْبَهَ بِرَجُلٍ مِنْكَ بِهِ، وَلَا بِكَ مِنْهُ ، فَقَالَ أَكْثَمُ: عَسَى أَنْ یَضُرَّنِی شَبَهُهُ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لَا، إنَّكَ مُؤْمِنٌ وَهُوَ كَافِرٌ إنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ غَیَّرَ دِینَ إسْمَاعِیلَ، فَنَصَبَ الْأَوْثَانَ، وَبَحَرَ الْبَحِیرَةَ ، وَسَیَّبَ السَّائِبَةَ، وَوَصَلَ الْوَصِیلَةَ، وَحَمَى الْحَامِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کواکثم خزاعی سے فرماتے ہوئے سناکہ میں نے عمروبن لحی بن قمعہ بن خندف کوآگ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹتے ہوئے دیکھا ہے ، میں اس میں اورتجھ میں نہایت جسمانی مشابہت دیکھتاہوں ،اکثم نے کہااے  اللّٰہ کے نبی !ممکن ہے اس کی مشابہت مجھے کوئی نقصان نہ پہنچائے ؟آپ علیہ السلام نے فرمایانہیں تم مومن ہو اوروہ کافر تھاوہ پہلاشخص تھا جس نے سب سے پہلے اسماعیل علیہ السلام کےدین کوتبدیل کیا ،جگہ جگہ بتوں کو نصب کیا اور(مختلف جانوروں کو  اللّٰہ کی قائم کردہ حرمت سمجھ کر) بحیرہ ،سائبہ اور وصیلہ کانام دے کر بتوں کے نام پرچھوڑا ۔[41]

اس کے بعد لالچی پجاری اور پروہت اپنی مرکزی حیثیت ومرتبہ اورآمدن کے لئے اس تعصب کومزیدبھڑکاتے رہتے تاکہ ان بتوں کی عقیدت کسی کے دل سے ختم نہ ہونے پائے ، بیت اللہ ہونے کے ناطے وہ کعبہ کے رعب و دبدبہ سے خائف رہتے اور اس کی عزت وتکریم کرتے تھے جس کی وجہ سے ایک زمانے تک وہ کعبہ کے قریب کوئی عمارت بھی نہیں بناتے تھے مگر قصیٰ نے خزاعہ سے حکومت حاصل کرکے بیت  اللّٰہ کے قریب دارالندوہ تیار کرکے ان کے دلوں سے کعبہ کاخوف دور کیاتو تب وہ اس کے چاروں طرف آکر قیام پذیر ہوئے مگروہ کعبہ سے مشابہہ یا اس سے اونچی عمارت نہیں بناتے تھے ، یہ محبت وعقیدت صرف اسی حدتک ہی محدودنہ تھی بلکہ بیت  اللّٰہ کے گردا گرد جو پتھرتھے وہ بھی ان کو بہت محبوب تھے ، چنانچہ ان میں سے جب کوئی سفرپر جاتا تواپنے ہمراہ مکہ کے چار پتھرلے جاتا ، تین پتھروں پرتواپنی ہانڈی پکاتا اور چوتھاپتھر عبادت کے کام آتا وقت کے ساتھ ساتھ مکہ کی آبادی بڑھتی گئی اور جگہ تنگ ہوگئی تولوگ دوسرے علاقوں کی طر ف نکلے،مکہ معظمہ میں توان کایہ حال تھاکہ بیت  اللّٰہ ہر وقت ان کے سامنے تھا مگر اب جگہ کی قلت اورلڑائی وغیرہ کی وجہ سے مجبورا ًمستقل طورپر جانا پڑ رہاتھا چنانچہ جب وہ مکہ سے باہرنکلے توجس طرح سفرمیں پتھروں کومقدس جان کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے مکہ کے پتھروں کواپنے ہمراہ لیتے چلے گئے اور وہاں ان مقدس پتھروں کاکعبہ کی طرح طواف کرنے لگے ، پھرمعاملہ کچھ اور آگے بڑھاا ور بلاتخصیص جس پتھرکواچھاسمجھتے اس کی عبادت کرنے لگے، اور اگر پہلے پتھرسے زیادہ دوسرا خوبصورت پتھر مل جاتاتوپہلے پتھرکوپھینک دیتے اور دوسرے کی پوجا شروع کر دیتے،

أَنَّهُ كَانَ لَا یَظْعَنُ مِنْ مَكَّةَ ظَاعِنٌ مِنْهُمْ، حِینَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ، وَالْتَمَسُوا الفَسَحَ فِی الْبِلَادِ، إلَّا حَمَلَ مَعَهُ حَجَرًا مِنْ حِجَارَةِ الْحَرَمِ تَعْظِیمًا لِلْحَرَمِ، فَحَیْثُمَا نَزَلُوا وَضَعُوهُ فَطَافُوا بِهِ كَطَوَافِهِمْ بِالْكَعْبَةِ، حَتَّى سَلَخَ ذَلِكَ بِهِمْ إلَى أَنْ كَانُوا یَعْبُدُونَ مَا اسْتَحْسَنُوا مِنْ الْحِجَارَةِ، وَأَعْجَبَهُمْ

ابن ہشام لکھتے ہیں جب شروع میں مکہ معظمہ میں بنی اسماعیل کے درمیان پتھروں کی پرستش شروع ہوئی توان کاقاعدہ تھاکہ جب کوئی شخص سفرمیں جاتاتوپتھرکواپنے ساتھ لے جاتااوراس کواپنی قضاء حاجات کا وسیلہ خیال کرتا اورجہاں جاکرقیام کرتاوہاں اس کونصب کردیتااوراس کے گردطواف کرتااوراس کی تعظیم وتکریم کرتالیکن رفتہ رفتہ جب ان کوپتھروں کے اٹھانے سے تکلیف محسوس ہونے لگی تو ان کوساتھ لے جاناچھوڑدیا،وہ جہاں جاتے وہاں کسی خوب صورت پتھرکولے کراس کے گردطواف وغیرہ کی رسوم اداکرلیتے۔[42]

أَبَا رَجَاءٍ العُطَارِدِیَّ، یَقُولُ: كُنَّا نَعْبُدُ الحَجَرَ، فَإِذَا وَجَدْنَا حَجَرًا هُوَ أَخْیَرُ مِنْهُ أَلْقَیْنَاهُ، وَأَخَذْنَا الآخَرَ، فَإِذَا لَمْ نَجِدْ حَجَرًا جَمَعْنَا جُثْوَةً مِنْ تُرَابٍ، ثُمَّ جِئْنَا بِالشَّاةِ فَحَلَبْنَاهُ عَلَیْهِ، ثُمَّ طُفْنَا بِهِ

ابورجاء عطاردی کہتے ہیں ہم پتھروں کی عبادت کرتے تھے اگر ہمیں اس سے زیادہ خوبصورت پتھر مل جاتا تو ہم پہلے کو پھینک کر اس کواٹھا لیتے اور اگر ہمیں کوئی پتھر نہ ملتا تو ہم مٹی کا ڈھیر جمع کرکے ایک بکری لاتے اور اس پر اس کا دودھ دوھ کر اس کا طواف کرتے ۔[43]

مرور زمانہ سے ان لوگوں نے سب باتیں بھلا کر ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کامذہب بالکل بدل ڈالا اور جس طرح نوح  علیہ السلام کی قوم ورثہ میں ملی ہوئی بقیہ یادگاروں کی پرستش کرنے لگی تھی اسی طرح یہ لوگ بھی پہلی مسخ شدہ قوموں کے مسلک پر گامزن ہوگئے، چنانچہ ہرقبیلہ کااپنااپنامعبودبت بن گیا اور وہی اس قبیلے کی قسمت کامالک تصورہوتا،اگرکسی قبیلے کی دوسرے قبیلے سے ٹھن جاتی تواس قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ان بتوں سے بھی عداوت شروع ہوجاتی، الغرض انہوں نے گزشتہ تمام قوموں کی طرح بتوں ،مظاہرفطرت سورج چاند ستارے ،پہاڑ ، پتھر، درخت اور دریاوں کو اپنا معبود بنالیاتھا اور ان کی مذہبی اورمعاشرتی زندگی میں ہر طرح کی جہالتیں اور ضلالتیں شامل ہوتی چلی گئیں ،اس طرح دین ابراہیمی صرف نام کی حد تک رہ گیاتھااس کے علاوہ عرب میں یہودونصاریٰ بھی کثرت سے تھے جو اپنے انبیاء ،اولیاء وغیرہ کی پرستش کرتے اوران کومشکل کشائی ، حاجت روائی کے لئے پکارتے۔

قوم نوح کے پانچ مشہوربتوں سمیت اہل عرب کے تین سو ساٹھ بت جن میں زیادہ تردیویاں تھیں ،خانہ کعبہ کے فرش ،چھت،دیواروں غرض اندراورباہربت ہی بت نصب تھے ، گویا کہ دنیاکے بڑے بڑے بت خانوں کی طرح کعبہ کو بھی ایک مشترک معبدہونے کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی ،بیت اللہ میں یہ بت مختلف قسموں کے تھے اوراسی طرح ان کے مختلف نام بھی تھے مثلاًاگریہ بت انسانی شکل کے ہوتے توأَصْنَامٌ وأَوْثَانٍ کہلاتااگریہ بت لکڑی کابناہواہوتاتوبِغَیْم کہلاتااگربت کسی مسالے سے بنا ہوتا اوراس پررنگ بھی لگایا ہوتا تووہ دُمْیَةٍ کہلاتا اگرکسی خوبصورت پتھرکو بغیر تراش خراش کے کھڑاکرتے اس پرجانورذبح کرتے اورچڑھاوے چڑھاتے تووہ أَنْصَاب اور نَصَب کہلاتا اور اگرپتھروں کا ڈھیر لگا کر اس کے گردا گرد طواف کرتے تووہ رَجَمَه کہلاتا کچھ بتوں کے گھربھی بنے ہوئے تھے جن میں بت پرستی کی رسومات اداکی جاتی تھیں وہ بیُوتکہلاتے،جن بتوں کے گردا گرد طواف کیاجاتاوہ دُوَار کہلاتاجن پر قربانی کی رسم اداکی جاتی وہ عَتِیرَة کہلاتا،

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ان بتوں کے لئے یہ الفاظ بیان کئے ہیں ، اصنام ،اوثان ،انصاب ،نصب اور تماثیل ،مگرخاص اہل عرب کے بتوں کے لئے ایک مرتبہ اوثان اوردومرتبہ انصاب کالفظ استعمال کیاہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے باطل معبودوں کے بارے میں فرمایا۔

اَمِ اتَّخَذُوْٓا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ هُمْ یُنْشِرُوْنَ۝۲۱ [44]

ترجمہ:کیا ان لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ (بےجان کو جان بخش کر) اٹھا کھڑا کرتے ہوں ؟۔

اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۱۷ [45]

ترجمہ:پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں ؟ کیاتم ہوش میں نہیں آتے۔

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــًٔـا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ۝۲۰ۭاَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ [46]

ترجمہ: اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ،مردہ ہیں نہ کہ زندہ، اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب(دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا۔

قرآن مجیدمیں دس مشہور بتوں لات ،عزیٰ ، منات دیوی،بعل دیوتا،ود،سواع ، یغوث ،یعوق ،نسر اورشعری ٰکانام لیاگیاہے۔

اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى۝۱۹ۙوَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى۝۲۰ [47]

ترجمہ:اب ذرابتاؤ تم نے کبھی اس لات اوراس عزی اورتیسری ایک دیوی منات کی حقیقت پرکچھ غوربھی کیاہے۔

اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ۝۱۲۵ۙ [48]

ترجمہ:کیا تم بعل کو پکارتے ہو اوراحسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو۔

وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۝۰ۥۙ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا۝۲۳ۚ [49]

ترجمہ:انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو، اور نہ چھوڑو ود اور سواع کو، اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو ۔

وَاَنَّهٗ هُوَرَبُّ الشِّعْرٰى۝۴۹ۙ [50]

ترجمہ :اور یہ کہ وہی شعریٰ(ستارے) کا رب ہے۔

بہرحال ان چندگونگے،بہرے،لولے اورلنگڑے بتوں کے نام جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ گزشتہ بزرگوں کے مجسمے تھے،جن کواہل عرب نے بعدمیں پوجناشروع کردیا،مگرصحیح یہ ہے کہ یہ بت مختلف ستاروں کی خیالی صورتیں تھیں اور زیادہ تردیویاں تھیں ،جابر رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ان دیوی دیوتاؤ ں کی مذہبی رسومات اداکرنے کے لئے عرب کے ہرقبیلے میں ایک کاہن کاعہدہ ہوتاتھاجسے حبشی زبان میں طاغوت کہاجاتاتھا،ان چندبتوں کے مختصرا حوال جن کاقرآن مجیدمیں ذکرہے درج ہیں ۔

سواع :

وَأما سواع: فَكَانَت لهذیل

یہ ایک عورت کی شکل پربت تھااوریہ قبیلہ ہذیل کی دیوی تھی یثرب کے مغرب میں ینبع کے قریب رہاط کے مقام پر اس کی پوجاہوتی تھی۔

العزیٰ:(العزی کامعنی ہے بہت غالب آنے والی دیوی)

یہ قریش کی لڑائی کی دیوی تھی ،اس دیوی کا بت لات ومنات کے بعدکاجدیدترین بت تھاجس کااستھان مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حراض کے مقام پرچاردیواری میں ببول کے درخت کے نیچے تھا، بنوسلیم کے قبیلہ بنی شیبان جوبنی ہاشم کے حلیف تھے اس بت کے مجاورتھے ،اس کابت حرم میں بھی رکھا ہوا تھا۔

وَكَانَت أعظم الْأَصْنَام عِنْد قُرَیْش

یہ تمام بتوں میں قریش کی خاص دیوی تھی۔

جس کے بارے میں ان کایہ خیال تھاکہ  اللّٰہ گرمی عزی ٰ کے ہاں بسرکرتاتھااس کی تمام بتوں سے بڑھ کرعزت وتکریم کی جاتی تھی اورکہاجاتا تھا جو عزی کوگالی دے گااسے برص یاجذام یاجنون کامرض ضرورہوگا۔

جب بنی سعدبن بکرکاوفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا۔

ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ، فَاجْتَمَعُوا إلَیْهِ، فَكَانَ أَوَّلُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ أَن قَالَ: بئست اللَّاتُ وَالْعُزَّى!قَالُوا: مَهْ یَا ضِمَامُ! اتَّقِ الْبَرَصَ، اتَّقِ الْجُذَامَ، اتَّقِ الْجُنُونَ!

اوراسلام قبول کرکے واپس اپنے وطن میں پہنچاتوساری قوم ضمام کے پاس جمع ہوئی ،ضمام نے پہلی بات جوکہی وہ یہ تھی کہ اے قوم!لات اورعزیٰ باطل ہوگئے،قوم نے کہاخبرداراے ضمام!ایسی بات نہ کہہ،تونہیں ڈرتاکہ کہیں تجھ کوبرص یاجذام یاجنون نہ ہوجائے۔[51]

وَكَانُوا یزورونها، ویهدون لَهَا، ویتقربون عِنْدهَا بِالذبْحِ

کعبہ کی طرح اس کی طرف ہدی کے جانورلے جائے جاتے،اہل قریش کے علاوہ لوگ دوردرازسے اس کی زیارت کرنے آتے ،اس کے سامنے ہدایاپیش کرتے ،تقرب حاصل کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی کرتے اوراپنی حاجات کے لئے گڑگڑاتے۔[52]

مدتوں اس کی پرستش جاری رہی ،اسی زمانہ میں جب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کوبتوں کی پرستش سے منع فرماتے اور صرف ایک  اللّٰہ کی عبادت کی تلقین فرماتے تھے اس کی پرستش کرنے کے بارے میں ایک واقعہ بھی ہوا،

أَنه لما مرض أَبُو أحیحة مَرضه الّذی مَاتَ فِیهِ دخل عَلَیْهِ أَبُو لَهب یعودهُ، فَوَجَدَهُ یبكى فَقَالَ: مَا یبكیك یَا أَبَا أحیحة! أَمن الْمَوْت تبكى، وَلَا بُد مِنْهُ؟ قَالَ: لَا وَالله، وَلَكِن أَخَاف أَن لَا تعبد الْعُزَّى بعدِی، قَالَ أَبُو لَهب:وَالله مَا عبدت حیاتك لِأَجلِك، وَلَا تتْرك عبادتها بعْدك لموتك فَقَالَ أَبُو أحیحة: الْآن علمت أَن لی للَّه خَلیفَة

ابواحیحہ سعیدبن عاصی بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف مرض الموت میں گرفتارہواتوابولہب اس کی عیادت کو آیااورابواحیحہ کوروتے ہوئے پایا، ابولہب نے دریافت کیااے ابواحیحہ !کیوں رورہے ہو؟کیاموت کے ڈرسے روتے ہو حالانکہ وہ توایک دن آکر رہے گی ؟ابواحیحہ نے جواب دیا واللہ !میں موت کے خوف سے نہیں رورہابلکہ اس لئے رورہاہوں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ شایدمیرے بعدعزیٰ کی پرستش نہ کی جاسکے گی،اس پر ابولہب نے کہاتمہاری زندگی میں عزیٰ کی پرستش صرف تمہاری وجہ سے نہیں ہو رہی تھی اورنہ تمہارے مرنے کے بعداس کی عبادت متروک ہوجائے گی،ابولہب کی بات سن کرابواحیحہ کومسرت ہوئی اوراس نے کہاآج مجھے معلوم ہواکہ میرابھی ایک قائم مقام ہے ۔[53]

 فَهَدَمَهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِأَمْرِ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ

فتح مکہ کے موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پرخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدنے اسے زمین بوس کردیا۔[54]

لات،اللوات ،طاغی یاربہ:

 فَهَدَمَهَا الْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ بِأَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَا أَسْلَمَتْ ثَقِیفٌ

جب قبیلہ ثقیف دائرہ اسلام میں داخل ہواتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پرمغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ اورابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب نے اسے گراکر اس کے ملبے کوآگ لگادی۔[55]

مناة:(تقدیراورموت کی دیوی)

وَكَانَتْ مَنَاةُ لِلْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ، وَمَنْ دَانَ بِدِینِهِمْ مِنْ أَهْلِ یَثْرِبَ، عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ مِنْ نَاحِیَةِ الْمُشَلّلِ بِقُدَیْدٍ

یہ پتھرکی ایک چٹان تھی جوبحیرہ احمرکے ساحل پرقدیدکے قریب مشلل میں نصب تھی ، یہ ہذیل ،اوس ،خزرج ا ور بنی خزاعہ کامخصوص بت تھا۔[56]

ویسے توعرب کے تمام لوگ ہی اس کی تعظیم کرتے تھے مگراوس ،خزرج بنوازداورغسان خصوصاًاس کی تعظیم وتکریم میں پیش پیش تھے ،وہ اس کے نام پرجانوروں کی قربانی کرتے اوربیش قیمت نذرانے اورتحائف چڑھاتے ، اوس وخزرج اور نواحی بستیوں کے لوگ جب حج کرنے آتے تو دوسرے حاجیوں کی طرح تمام مواقف میں حاضر ہوتے مگرمناسک حج سے فارغ ہوکردوسرے حاجیوں کی طرح اپناسرنہیں منڈاتے بلکہ حج کے بعد لبیک لبیک کہتے ہوئے مناة کی زیارت کے لئے جاتے ،اس کے پاس آکراحرا م اتارتے ، سر منڈاتے اورچنددن قیام کرتے ، اس کے بغیروہ اپناحج نامکمل تصورکرتے ،نیزان کادستورتھاکہ جب مناة کاتلبیہ پڑھناہوتاتوحج بیت اللہ کے دوران صفااورمروہ کی سعی نہیں کرتے تھے۔

وَبَعَثَ سَعْدَ بْنَ زَیْدٍ الْأَشْهَلِیّ إلَى مَنَاةَ بِالْمُشَلّلِ فَهَدَمَهُ

رمضان آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ بن زیدکواس بت کومنہدم کرنے کے لیے مشلل بھیجاانہوں جاکرنے اسے زمین بوس کردیا۔[57]

نسر:(گدھ)

نسردیوتاکی حیثیت سے سامی قوموں میں بہت مدت سے پوجاجاتاتھا،اہل بابل کے دیوتاوں میں ایک نسردک بھی تھا،اب بابل میں اس دیوتاکامجسمہ بھی نکلا ہے،یہ گدھ کی شکل کاتھا،

وَذُو الْكُلَاعِ مِنْ حِمْیَرَ، اتَّخَذُوا نَسْرًا بِأَرْضِ حِمْیَرَ

حمیر(یمن)کے علاقہ میں نجران کے پاس قبیلہ ذی الکلاع کے لوگ اس کی پوجا کرتے تھے۔[58]

ود:(بابلی میں آفتاب )

یہ بت ایک نہایت عظیم الجثہ مردکی شکل پرتھاجس کااستھان دومتہ الجندل میں تھااورقبیلہ قضاعہ کی شاخ بنوکلب اس کی پوجاکرتے تھے،قریش بھی اس کومعبودمان کر اس کی پوجاکرتے اوراس کے نام پرعبدودجیسے نام رکھے جاتے تھے۔

وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ الْأَنْصَارِیُّ:

اس کی مذمت میں کعب بن مالک انصاری نے یہ شعرکہاتھا۔

وَنَنْسَى اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَوَدَّا

وَنَسْلُبُهَا الْقَلَائِدَ وَالشُّنُوفَا

ہم لات وعزی ودودکوچھوڑدیتے ہیں

اوران کے قلادے اورہارچھین لیتے ہیں ۔[59]

یغوث:(فریادرسی کرنے والا)

وَأَهْلُ جُرَشَ مِنْ مَذْحِجَ اتَّخَذُوا یَغُوثَ بِجُرَشَ

اس کی شکل شیرکی تھی اوریہ یمن اورحجازکے درمیان جرش کے مقام پر نصب تھا۔[60]

بنومذحج اورہمدان اس کی پوجاکرتے تھے ، قبیلہ طے کی شاخ انعم ، مراد اور بنو غطیف بھی اسے پوجتے تھے ،قریش کے کچھ لوگ اس کے نام پرعبدیغوث نام رکھتے تھے۔

یعوق:(مصیبتوں کوروکنے والا)

وَخَیْوَانُ بَطْنٌ مِنْ هَمْدَانَ، اتَّخَذُوا یَعُوقَ بِأَرْضِ هَمْدَانَ مِنْ أَرْضِ الْیَمَنِ

اس کی شکل گھوڑے کی تھی اس کااستھان یمن کے علاقہ ہمدان میں صنعاء سے دوراتوں کے فاصلے پرمکہ کی جانب ارحب کے مقام پرواقع تھا ،بنوہمدان وخولان اس کی پوجا کرتے تھے۔[61]

اُساف:

یہ انسانی شکل میں زمزم کے پاس تھا،اس کاطواف کیاجاتاتھااورقربانی دی جاتی تھی۔

ذوالخلصہ:

 أنه كان مروة بیضاء منقوشة، علیها كهیئة التاج

یہ عورت کی شکل میں سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا اوراس کے سر پرتاج جیسی کوئی چیز نقش تھی۔[62]

وَكَانَ ذُو الْخَلَصَةِ لِدَوْسٍ وَخَثْعَمٍ وَبَجِیلَةَ وَمَنْ كَانَ بِبِلَادِهِمْ مِنَ الْعَرَبِ بِتَبَالَةَ وَكَانَ یُقَالَ لَهُ الْكَعْبَةُ الْیَمَانِیَةُ ،تبَالَة: قرب مَكَّة على مسیرَة سبع لَیَال مِنْهَا

اس پرایک خوب صورت عمارت بنی ہوئی تھی دوس ، خثعم اوربجیلہ قبائل اس بت ذوالخلصہ کی پوجا کرتے تھے،اس کویمن کاکعبہ کہاجاتاتھا، اس کابت مکہ سے سات منزل یمن کی جانب بتالہ کے مقام پرنصب تھا۔[63]

اس کی وقعت اہل عرب میں اتنی تھی کہ اس کے استھان کویمن کاکعبہ کہا جاتا تھا۔[64]

یذبحون علیه

اوراس کے آگے جانورذبح کیے جاتے تھے۔[65]

اورتعظیم کے طورپراس کے گلے میں ہارڈالے جاتے تھے ، شتر مرغ کے انڈے لٹکائے جاتے تھے،

وَهُوَ صَنَمٌ وَكَانَتِ الْعَرَبُ تَسْتَقْسِمُ عِنْدَهُ

یہ وہ بت تھاجس کے سامنے اہل عرب تیرڈال کرشگون لیتے تھے۔[66]

فَبَعَثَ إلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَرِیرَ ابْن عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِیَّ فَهَدَمَهُ

اس بت کوزمین بوس کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جریر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ البجلی کوبھیجاتھا۔[67]

فخربها وحرقها

انہوں نے اسے گراکرجلادیا۔[68]

صار مكانه موضع عتبة باب مسجد تبالة

اورپھربعدمیں اسے لاکر مسجدتبالہ کے دروازے کی دیلیزپرڈال دیا۔[69]

فَحَدَّثَنِی بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إلَیْهَا عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَهَدَمَهَا، فَوَجَدَ فِیهَا سَیْفَیْنِ، یُقَالُ لِأَحَدِهِمَا:الرَّسُوبُ، وَلِلْآخِرِ: الْمِخْذَمُ. فَأَتَى بِهِمَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَوَهَبَهُمَا لَهُ، فَهُمَا سَیْفَا عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ

ابن اسحاق کہتے ہیں بعض اہل علم نے مجھ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بت کوگرانے کے لیے سیدناعلی رضی اللہ عنہ ابن ابوطالب کوبھیجاتھاجنہوں نے اسے زمین بوس کردیاانہوں نے اس میں سے دوتلواریں پائیں جن میں سے ایک کانام رسوب اوردوسری کامخذم تھا،سیدناعلی رضی اللہ عنہ دونوں تلواریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ان کوبخش دیں ،پس وہی دوتلواریں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی تھیں ۔[70]

ذوالشریٰ:

دوس اورازدقبائل کادیوتاتھا،عسیرکے علاقہ میں اس کی پوجاہوتی تھی ادوم (اردن )میں ایک پہاڑی کانام شری ٰ تھایہاں بھی خصوساپیڑا(بطرائ)میں پوجا جاتا تھا

ذوالکفین:

یہ قبیلہ دوس کادیوتاتھا،فتح مکہ کے بعدطفیل دوسی رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پاکرواپس گئے اوراسے جلادیا۔

ھبل:

وكان هبل عظیم أصنام قریش بمكة

یہ قریش مکہ کاسب سے بڑادیوتاتھا۔

جس کااصل نام بعل(قوت) تھاجواہل شام کادیوتا تھا ، قریش کویہ بت انسانی مورت کی شکل میں ملاتھااورسرخ عقیق سے تراشا ہوا تھا،قریش کویہ اس حا ل میں ملاتھاکہ اس کا ایک ہاتھ ٹوٹاہواتھا بعدمیں اس کاوہ ہاتھ سونے کابناکرلگادیاگیا،

وكان على بئر فی جوف الكعبة وكانت تلك البئر التی یجمع فیها ما یهدی للكعبة

سب سے پہلے اس بت کوخزیمہ بن مدرکہ بن یاس بن مضرنے خانہ کعبہ کے اوپر اس کنویں پرنصب کیاتھاجس میں کعبہ کے لئے نذرکیے ہوئے ہدایارکھے جاتے تھے۔[71]

اس لئے اس کانام ہبل خزیمہ پڑگیا تھا، اونٹ کی قربانی اس کے لئے سب سے بہترسمجھی جاتی تھی،

وَكَانَ عِنْدَ هُبَلَ قِداح سَبْعَةٌ، كُلُّ قِدْح مِنْهَا فِیهِ كِتَابٌ. قِدْح فِیهِ “العَقْل”، إذَا اخْتَلَفُوا فِی الْعَقْلِ مَنْ یَحْمِلُهُ مِنْهُمْ، ضَرَبُوا بِالْقِدَاحِ السَّبْعَةِ، فَإِنْ خَرَجَ الْعَقْلُ فَعَلَى مَنْ خرج حمله. وقدح فیه “نَعَم” للأمر إذ أرادوه یُضرب به الْقِدَاحِ، فَإِنْ خَرَجَ قِدْحُ نَعَمْ، عَمِلُوا بِهِ. وَقِدْحٌ فِیهِ “لَا” إذَا أَرَادُوا أَمْرًا ضَرَبُوا به القِداح، فَإِنْ خَرَجَ ذَلِكَ الْقِدْحُ لَمْ یَفْعَلُوا ذَلِكَ الْأَمْرَ، وقِدْح فِیهِ “مِنْكُمْ” وَقِدْحٌ فِیهِ “مُلصَق”، وَقِدْحٌ فِیهِ “مِنْ غَیْرِكُمْ”، وَقِدْحٌ فِیهِ “المیاه”، إذا أرادوا أن یحفروا الماء ضَرَبُوا بِالْقِدَاحِ، وَفِیهَا ذَلِكَ القِدْح، فَحَیْثُمَا خَرَجَ عَمِلُوا بِهِ.وَكَانُوا إذَا أَرَادُوا أَنْ یَخْتِنُوا غُلَامًا، أَوْ یُنكحوا مَنْكحا، أَوْ یَدْفِنُوا مَیْتًا، أو شَكوا فِی نَسَبِ أَحَدِهِمْ، ذَهَبُوا بِهِ إلَى هُبَل وبمائة دِرْهَمٍ وَجَزُورٍ، فَأَعْطَوْهَا صَاحِبَ الْقِدَاحِ الَّذِی یَضْرب بِهَا، ثُمَّ قرَّبوا صَاحِبَهُمْ الَّذِی یُرِیدُونَ بِهِ مَا یُرِیدُونَ، ثُمَّ قَالُوا: یَا إلَهَنَا هَذَا فلان ابن فلان قد أردنا به كذا، فَأَخْرِجْ الحقَّ فِیهِ. ثُمَّ یَقُولُونَ لِصَاحِبِ القِداح: اضْرِبْ

اس بت ہبل کے پاس سات قداح (پانسے یافال نکالنے کے تیر) رکھے رہتے تھے جن پر مخصوص الفاظ لکھے ہوئے تھے ، عربوں میں جب کوئی تنازعہ ہوتاتوان قرعوں کومخصوص اندازمیں ڈال کردیکھتے، جس کے نام پرخوں بہا والاقرعہ نکلتااسی کے ذمہ خوں بہاکیاجاتاتھا،اورایک تیرپرنعم لکھاہواتھایعنی یہ اچھاکام ہے اس کوکرو،اورایک تیرپرلا لکھاہواتھایعنی اس کونہ کرواورایک تیرپر منکم اورایک پرملصق اورایک پر من غیرکم لکھاتھایعنی جب کسی کے نسب میں شک ہوتااوراس بات کے معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی کہ یہ شخص ہمارے قبیلہ سے ہے یانہیں توان قرعوں سے معلوم کرتے اگر’’منکم ‘‘کاقرعہ نکلتاتوسمجھتے کہ یہ ہمارے قبیلے کاہے اوراگر’’ من غیرکم ‘‘ کاقرعہ نکلتاتوسمجھتے کہ ہم میں سے نہیں ہے اوراگر’’ملصق ‘‘کاقرعہ نکلتاتواس کواسی حالت پررہنے دیتےاوراپنے نسب میں شریک نہ کرتے، اورنکاح یامنگنی وغیرہ کے واسطے بھی قرعہ ڈالتے تھے جیساقرعہ نکلتااس کے موافق عمل کرتے،اوراس قرعہ اندازی کایہ طریقہ تھاکہ جوشخص حاجت مندہوتاوہ سودرہم اورایک اونٹ لاکراس قرعہ اندازکوجوہبل کاخادم خاص تھاکی نذرکرتااوراس شخص کوجس کے متعلق دریافت کرناہوتاتھا، پھربت کے آگے کرکے سب نیازمندی سے عرض کرتے اے ہمارے معبود!یہ فلاں بن فلاں حاضرہے اورہم نے اس کے ساتھ ایساارادہ کیا ہے توحق کو ظاہر کر دے، پھرقرعہ اندازسے کہتے قرعہ ڈال ، وہ قرعہ ڈالتااورجیساقرعہ نکلتااس کے موافق عمل کرتے۔[72]

عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبد اللّٰہ کے لئے فا ل کاتیراسی بت کے پاس پھینکاتھا،

وَهُوَ الَّذِی یَعْنِی أَبُو سُفْیَانَ ابْن حَرْبٍ یَوْمَ أُحُدٍ حِینَ قَالَ: أُعْلِ هُبَلُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ یَا عُمَرُ فَأَجِبْهُ، فَقُلْ: اللَّهُ أَعَلَى وَأَجَلُّ، لَا سَوَاءَ ، قَتَلَانَا فِی الْجَنَّةِ، وَقَتْلَاكُمْ فِی النَّارِ

یہی وہ بت ہے جس کی بڑائی کانعرہ غزوہ احدمیں ابوسفیان نے لگایاتھارسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھااے عمر رضی اللہ عنہ !کھڑے ہواور اس کے جواب میں اللہ اعلی واجل کا نعرہ بلند کرواورکہوہمارے مقتول جنت میں اورتمہارے مقتول جہنم میں داخل ہوگئے۔[73]

فتح مکہ کے موقعہ پر سیدناعلی  رضی اللہ عنہ نے اسے توڑدیا۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَكَانَ لِحِمْیَرَ وَأَهْلِ الْیَمَنِ بَیْتٌ بِصَنْعَاءَ یُقَالُ لَهُ: رِئَامٌ . وَكَانَتْ رُضَاءٌ بَیْتًا لِبَنِی رَبِیعَةَ بْنِ كَعْبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زَیْدِ مَنَاةَ بْنِ تَمِیمٍ وَلَهَا یَقُولُ المُسْتَوْغِرُ بْنُ رَبِیعَةَ بْنِ كَعْبِ بْنِ سَعْدٍ حِینَ هَدَمَهَا فِی الْإِسْلَامِ:

ابن اسحاق کہتے ہیں قبیلہ حمیراوراہل یمن کاایک بت تھاجس کانام رِئَامٌ تھا،اورقبیلہ ربیعہ بن کعب بن سعدبن زیدمناة بن تمیم کی اولادکاایک بت خانہ تھاجس کانام رضاتھاجب زمانہ اسلام میں اس بت کومنہدم کردیاگیاتواس کی مذمت میں مستوغربن ربیعہ بن کعب بن سعدنے یہ شعرکہے۔

وَلَقَدْ شَدَدْتُ عَلَى رُضَاءٍ شَدَّةً                          فَتَرَكْتُهَا قَفْرًا بِقَاعِ أَسْحَمَا

میں نے رضا(بت خانہ)پرسخت حملہ کیا    اوراس کومیدان میں ننگاکردیا۔[74]

ان کے علاوہ یہ بت بھی تھے۔

بعیم ، بلج،جبہ ،جلسد،دوار
دیویاں تھیں جن کاعورتیں اورنوجوان لڑکیاں طواف کرتی تھیں ۔
ان کے علاوہ یہ بت بھی تھے،
ذوالرجل، سجہ، شارق، صدا، صمودا، عوف، غبغب، کسعہ، منہب، ہبا، ذات الوداع

الغرض مکہ مکرمہ کے ہرگھرمیں ایک ایک بت رکھاہواتھا جس کی اس گھروالے رات کوسونے سے قبل عبادت کیاکرتے تھے ،ان میں جب کوئی سفرپرروانہ ہوتاتواس بت کوچھوکر روانہ ہوتا اورجب واپس آتاتوتب بھی اسے چھوتا،چنانچہ بڑھتے بڑھتے کعبہ میں تین سوساٹھ بت ہوگئے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، وَحَوْلَ البَیْتِ سِتُّونَ وَثَلاَثُ مِائَةِ نُصُبٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں (فتح کے بعد)داخل ہوئے توکعبہ کے چاروں طرف تین سوساٹھ بت نصب تھے۔[75]

چونکہ کعبہ تمام عرب کامرکزتھااس لئے ہرفرقہ کے معبود اوربزرگان دین کااس گھرمیں مجمع تھا،یہ ساری پتھرکی مورتیاں نہ تھیں کہ اتنی تعدادتوکعبہ میں سماہی نہ سکتی تھی بلکہ ان میں خاصی تعداد میں دیواروں پربزرگوں اور دیوتاوں کی رنگین تصویریں بنی ہوئی تھیں ، مشرکین جب کوئی جانورذبح کرتے تواس کے کئی حصہ دارہوجاتے،پھرکئی تیرجوپہلے سے کعبہ  اللّٰہ میں رکھتے تھے جن کا جدا جدا نام ہوتاتھاکسی تیرپرزیادہ حصہ دارتھے کسی پرکم حصے تھے اورکسی پرکچھ حصہ نہ ہوتا تھا ، مشرکین ان تیروں کولے کرایک تھیلے میں ڈال لیتے تھے پھر حصہ داروں میں سے ہرایک کے نام پرایک ایک تیرنکالتے تھے جس کے نام کے ساتھ زیادہ حصوں والاتیرنکلتاوہ بہت سعادت مندسمجھاجاتاحتی کہ جس کے نام پرایساتیرنکلتاجس کاکوئی حصہ نہ ہوتاتووہ شخص منحوس سمجھاجاتااورپھراس کودوسرے ساتھی لعن طعن کرتے تھے ،اس شرک وبدعت کی مشرکین کے ہاں بڑی وقعت تھی،اس لئے انھوں نے کعبہ میں بھی(نَعُوذُ بِاللَّهِ)ابراہیم واسماعیل کی تصویروں میں یہ تیرپکڑارکھے تھے ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردیدکرتے ہوئے فرمایا:

قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، لَقَدْ عَلِمُوا: مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ

اللّٰہ ان پرلعنت کرے وہ اچھی طرح جانتے بھی ہیں کہ ہمارے بزرگ(ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام ) نے کبھی تیروں کے ساتھ یہ تقسیم نہیں کی۔[76]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، وَحَوْلَ البَیْتِ سِتُّونَ وَثَلاَثُ مِائَةِ نُصُبٍ، فَجَعَلَ یَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِی یَدِهِ، وَیَقُولُ:جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ، إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں ( فتح کے بعد)داخل ہوئے توکعبہ کے چاروں طرف تین سوساٹھ بت نصب تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ہرایک کو چوکامارتے اورفرماتےحق آگیااورباطل مٹ گیا،باطل تومٹنے ہی والا ہے۔جس سے بت منہ کے بل گرپڑتے۔[77]

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، أَبَى أَنْ یَدْخُلَ البَیْتَ وَفِیهِ الآلِهَةُ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ

اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے توآپ بیت اللہ میں اس وقت تک داخل نہیں ہوئے جب تک اس میں بت موجودتھے ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیااوربتوں کوباہرنکال کر پھینکوا دیا۔[78]

چنانچہ کعبہ کے سارے بت توڑدیئے گئے،ساری جاری رسمیں مٹادی گئیں ،اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم فرمایاکہ اس طریقہ پرعبادت کرو ۔

وَاذْكُرُوْهُ كَـمَا ھَدٰىكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّیْنَ۝۱۹۸  [79]

ترجمہ: پھر جب عرفات سے چلو ، تو مشعر حرام ( مزدلفہ ) کے پاس ٹھہر کر اللہ کو یاد کرو اور اس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔

 ملائکہ کی عبادت :

اہل عرب فرشتوں کی ہستی کے منکرنہ تھے،وہ اس بات کوتسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی روح فرشتے ہی نکالتے ہیں ،ان کایہ بھی عقیدہ تھاکہ فرشتے انتہائی تیزی سے حرکت کرتے ہیں ،وہ زمین سے آسمان کی بلندیوں اورایک جگہ سے دوسری جگہ تک آناًفاناًپہنچ جاتے ہیں ،اوراللہ انہیں جوحکم دیتاہے اسے فوراً سرانجام دیتے ہیں ،ان کا یہ بھی عقیدہ تھاکہ فرشتے خودمختیاراوراپنی مرضی کے مالک نہیں بلکہ اللہ کے تابع فرمان ہیں اوراللہ کے حکم سے کائنات کاانتظام چلاتے ہیں ،مگر جہالت کی بناپرقریش ، جہینہ ، بنی سلمہ،خزاعہ،بنی ملیح اوربعض دوسرے قبائل کاعقیدہ تھاکہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اس لئے انہیں معبودبناکران کی پرستش کی جاتی تھی،مگروہ یہ بھی کہتے تھے کہ اصل اختیارات ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں ،اہل عرب اپنے گھروں میں لڑکی کی پیدائش پسندنہیں کرتے تھے تاکہ ان کی حفاظت بھی نہ کرنی پڑے اور داماد کے آگے سر بھی نہ جھکاناپڑے، اس لئے ان کی خواہش ہوتی تھی کہ بس لڑکے ہی پیداہوتے رہیں تاکہ ان کاقبیلہ مردانہ افرادی قوت کی وجہ سے خوب طاقتوراورمضبوط ہو ،لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارے میں ان کااعتقادالٹاتھا ، قبائل قریش میں ، بہنیہ،بنی سلمہ،خزاعہ،بنی ملیح وغیرہ (نعوذب اللّٰہ )فرشتوں کو اللّٰہ کی بیٹیاں کہتے اوردیویاں مانتے تھے ، ان کے عورتوں کی طرح بت بناتے، انہیں خوبصورت کپڑے اور زیور پہنا کر ان کی پرستش کرتے اوران سے منتیں مرادیں مانگتے اوراس بات کے قائل تھے کہ یہ دیویاں  اللّٰہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گی ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس اعتقادکے بارے میں فرمایا۔

وَجَعَلُوْا بَیْنَهٗ وَبَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا۝۰ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ۝۱۵۸ۙ [80]

ترجمہ : انہیں نے اللہ اور ملائکہ کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے، حالانکہ ملائکہ خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ مجرم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔

پھر لوگوں کی اپنی خواہش کاحوالہ دے کرفرمایا۔

وَیَجْعَلُوْنَ لِلهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ۝۰ۙ وَلَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ۝۵۷ [81]

ترجمہ:یہ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں سبحان اللہ ! اور ان کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں ؟۔

اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى۝۲۱تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى۝۲۲ [82]

ترجمہ:کیا بیٹے تمہارے لیئے ہیں اور بیٹیاں اللہ کے لیے ؟یہ تو بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی ! ۔

فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُوْنَ۝۱۴۹ۙ [83]

ترجمہ: پھر ذرا ان لوگوں سے پوچھو ، کیا (ان کے دل کو یہ بات لگتی ہے کہ ) تمہارے رب کے لیے تو ہوں بیٹیاں اور ان کے لیے ہوں بیٹے !۔

اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى۝۲۷ [84]

ترجمہ:مگرجولوگ آخرت کونہیں مانتے وہ فرشتوں کودیویوں کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں ۔

پھر ان لوگوں کی کم عقلی کی بات فرمائی۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶َۙ [85]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں رحمان اولاد رکھتا ہے سبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔

وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۝۰ۭ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۹ [86]

ترجمہ:انہوں نے فرشتوں کوجو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا، کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں نے دیکھی ہے ؟۔

پھرفرشتوں کاصحیح مقام بتلایا

اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَیُسَبِّحُوْنَهٗ وَلَهٗ یَسْجُدُوْنَ۝۲۰۶ۧ۞ [87]

ترجمہ: جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے ، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں ۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶ۙلَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ۝۲۷ [88]

ترجمہ: یہ کہتے ہیں رحمان اولاد رکھتا ہے سبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے،اس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔

اور پھر قیامت کی گھڑی کی یاددلاکرتنبیہ فرمائی کہ جن مقرب بندوں (فرشتوں ) کوتم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بیٹیاں قراردے کرپرستش کرتے ہو روز قیامت تمہارے خلاف گواہی دیں گے ۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاۗءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۝۴۰قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ۝۰ۚ بَلْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ۝۰ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ۝۴۱ [89]

ترجمہ:اور جس دن وہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے ؟تو وہ جواب دیں گے کہ پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان لوگوں سے، دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔

کیونکہ شیاطین ہی نے ان کویہ راستہ دکھایاتھاکہ اللہ کوچھوڑ کر دوسروں کواپناحاجت رواسمجھواوران کے آگے نذونیازپیش کیاکرو ۔

 جنوں کی عبادت:

اہل عرب جنات کوبھی  اللّٰہ کاعزیزومقرب اور اللّٰہ کاشریک سمجھتے تھے ،اس لئے ان کی بھی پوجاکی جاتی تھی ،ان کایہ عقیدہ تھاکہ ہرغیرآبادیاسنسان جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں ہے،اگران کی اجازت کے بغیروہاں قیام کرلیاجائے تواول تووہ قابض جن خودستاتاہے یاکسی ستانے والے جن کوستانے دیتاہے ،چنانچہ اگرکسی وادی میں پانی اور جانوروں کا چارہ ختم ہوجاتاتوپانی اورچارے کی تلاش شروع ہوتی، پھرجہاں یہ چیزیں مل جاتیں تووہاں چلے جاتے

أنهم كانوا إذا نزلوا الوادی، قالوا: نعوذ بسید هذا الوادی من شر ما فیه

مگر اترنے سے پہلے زورزورسے پکارکرکہتے ہم اس وادی کے رب کی پناہ چاہتے ہیں تاکہ ہم یہاں بخیروخوبی قیام کرسکیں ۔

اسی طرح اگر دوران سفرکسی وادی میں رات ہوجاتی توشب بسری کے لئے اسی طرح جنوں ،بھوتوں ،جنگلی شیروں اورشیطانوں کی شرارت سے پناہ چاہتے،

أن أحدهم كان إذا اشترى دارا أو استخرج ماء عین أو بنى بنیانا وما أشبهه، ذبح ذبیحة

اس کے علاوہ جب کوئی گھربناتایاکنواں کھودتا تب بھی جنوں کے شرسے محفوظ رہنے کے لئے کوئی جانور ذبح کرتے۔[90]

مشہور مقام دراہم پررہنے والے جنوں ( مکان الدراہم) پران کے نام کی قربانی بھی کرتے تھے، قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنوملیح توخاص طورپرجنوں کی عبادت کرتا تھااللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اہل عرب کے اس عقیدے کے بارے میں جنوں کامقولہ نقل فرمایا۔

وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا۝۶ۙ [91]

ترجمہ: اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اس طرح انہوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔

وَجَعَلُوْا لِلهِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَبَنٰتٍؚبِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۱۰۰ۧ [92]

ترجمہ:اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیاحالانکہ وہ ان کا خالق ہے، اور بےجانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کاانجام یہ بیان فرمایا۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا۝۰ۚ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ۝۰ۚ وَقَالَ اَوْلِیٰۗـؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِیْٓ اَجَّلْتَ لَنَا۝۰ۭ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ۝۱۲۸وَكَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِـمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۱۲۹ۧیٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۝۰ۭ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰٓی اَنْفُسِـنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَشَهِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ۝۱۳۰ [93]

ترجمہ:جس روزاللہ ان سب لوگوں کوگھیرکرجمع کرے گااس روزوہ جنوں (یعنی شیاطین جن) سے خطاب کرکے فرمائے گاکہ اے گروہ جن!تم نے تونوع انسانی پرخوب ہاتھ صاف کیا،انسانوں میں سے جوان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے پروردگار!ہم میں سے ہرایک نے دوسرے کوخوب استعمال کیاہے اوراب ہم اس وقت پر آپہنچے ہیں جوتونے ہمارے لئے مقررکردیاتھا،اللہ فرمائے گااچھااب آگ تمہاراٹھکاناہے اس میں تم ہمیشہ رہوگے،اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہئے گا،بیشک تمہارارب دانااورعلیم ہے،دیکھواس طرح ہم آخرت میں ظالموں کوایک دوسرے کاساتھی بنائیں گے اس کمائی کی وجہ سے جووہ (دنیامیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر)کرتے تھے(اس موقع پراللہ ان سے یہ بھی پوچھے گاکہ)اے گروہ جن وانس،کیاتمہارے پاس خودتم ہی میں سے وہ پیغمبرنہیں آئے تھے جوتم کومیری آیات سناتے اوراس دن کے انجام سے ڈراتے،وہ کہیں گے ہاں ،ہم اپنے خلاف خودگواہی دیتے ہیں ،آج دنیاکی زندگی نے ان لوگوں کودھوکے میں ڈال دیاہے مگراس وقت وہ خوداپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافرتھے۔

کہانت :

اہل عرب کاعقیدہ تھاکہ دنیامیں کچھ خارق عادات قوتیں ہیں جوجنوں اورشیاطین کی مددسے دنیاپرغالب رہتی ہیں ،ان کاعقیدہ یہ بھی تھاکہ جادوگروں اورکاہنوں سے جنوں کا گہراتعلق ہوتاہے ،چنانچہ یہ لوگ اپنے مستقبل کے حالات معلوم کرنے کے لئے کاہنوں کے پاس جاتے رہتے تھے ،یہی وجہ تھی کہ سحراورکہانت ان کی نگاہ میں بڑا معزز اور محترم پیشہ تھا،یہ کاہن اورکاہنہ بڑے ہوشیارتھے ،یہ بت خانوں میں رہتے اوراپنی وضع قطع ایسی بناتے کہ دوسروں سے مختلف نظرآتے ،بتوں کے پجاری ہونے کی وجہ سے ان کے اثرات تمام ملک پرچھائے ہوئے تھے ،ان کاہنوں کایہ دعویٰ ہوتاتھاکہ کوئی جن اس کا دوست یاتابع ہے جواسے آنے والے وقت کے متعلق خبریں پہنچاتاہے ،اس طرح وہ آنے والے وقت کے متعلق درست پیشین گوئی کرسکتاہے ،یہ اپنے طورطریقوں سے عوام میں فریب کاری کاجال پھیلاتے جن میں پھنس کر سادہ لوح لوگ ان کے پاس کہانت کے لئے آتے اوراس کے عوض بڑی بڑی رقومات ان کاہنوں یاکاہنہ کے نذرکرتے ،یہ نذرانہ حلوان الکاہن کہلاتا(یعنی وہ تحفہ جوکاہن کامنہ میٹھاکرنے کے لئے دیا گیا) اس کے علاوہ یہ کاہن مختلف نزاعات کافیصلہ بھی کرتے تھے ۔

عراف جن کا دعویٰ ہوتاتھا کہ وہ اس بات کے اہل ہیں کہ وہ چوری کامال برآمدکراسکتے ہیں ،گم شدہ جانور کااتہ پتہ بتا سکتے ہیں وغیرہ۔

نجومی جن کایہ دعویٰ تھاکہ وہ ستاروں کی حرکات سے معلوم کرکے آئندہ پیش آنے والے واقعات کاعلم دے سکتے ہیں ،پرایمان ویقین رکھتے اوراپنی ضروریات کے لئے ان کے پاس جاتے تھے۔

اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں اوہام وخرافات جڑپکڑچکے تھے ،اسلام نے اس دجل وفریب کے خلاف جس کوعلم وہدایت اورکتاب الہٰی سے کوئی واسطہ نہ تھااعلان جنگ کیا ، اورتعلیم دی

قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللهُ۔۔۔۝۰۝۶۵ [94]

ترجمہ:ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔

اوردرحقیقت غیب کاعلم نہ فرشتے رکھتے ہیں نہ جن اورنہ انسان ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کایہ فرمان سنایا۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ۝۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْۗءُ۝۰ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۱۸۸ۧ [95]

ترجمہ: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ۔

اور سلیمان علیہ السلام کے جنوں کے بارے میں واضح فرمایا۔

فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰی مَوْتِهٖٓ اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ۝۰ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ۝۱۴ۭ [96]

ترجمہ:پھر جب سلیمان ( علیہ السلام ) پرہم نے موت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کو سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا اس طرح جب سلیمان ( علیہ السلام ) گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ۔

لہذاجوشخص اس بات کامدعی ہوکہ حقیقتاًاس کوغیب کاعلم ہے وہ اللہ ،حقیقت اورلوگوں ،سب کوفریب دینے کی کوشش کرتاہے،اسلام نے کاہنوں اوردجالوں کی مخالفت پراکتفاء نہیں کیابلکہ ان لوگوں کوبھی گناہ میں شریک ٹھہرایاجوان کے پاس جاکرسوالات کرتے ہیں اوران کے اوہام اورگمراہ کن باتوں کی تصدیق کرتے ہیں ،

عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَیْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً

بعض ام المومنین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص نجومی کے پاس گیااورسوالات کیے پھراس کی باتوں کی تصدیق کی اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی۔[97]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَتَى كَاهِنًا، أَوْ عَرَّافًا، فَصَدَّقَهُ بِمَا یَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص غیب کی خبرمعلوم کرنے کے لئے کاہن کے پاس گیایاعراف کے پاس گیا اوراس کی باتوں کی تصدیق کی اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل شدہ ہدایت (قرآن مجید) سے کفرکیا۔[98]

کفراس وجہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریہ ہدایت نازل کی گئی ہے کہ غیب اللہ وحدہ ہی کے لئے ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کوغیب کاعلم نہیں ہے اورکسی اورکوتوبدرجہ اولیٰ نہیں ہے۔

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاۗىِٕنُ اللهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۝۰۝۵۰ۧ [99]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سےکہو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ،میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پرنازل کی جاتی ہے۔

قرآن کی اس صریح اورواضح ترین بات کوجاننے کے باوجوداگرایک مسلمان اس بات کی تصدیق کرتاہے کہ بعض لوگ پردہ ہٹاکرتقدیرکودیکھ سکتے ہیں اورغیب کے رازہائے سربستہ معلوم کرسکتے ہیں تووہ اس ہدایت کے ساتھ کفرکرتاہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی ہے۔

اسلام نے جس طرح نجومی کے پاس غیب اوررازکی باتیں معلوم کرنے کی غرض سے جاناحرام ٹھہرایاہے اسی طرح جادوسیکھنے یاجادوگروں کے پاس کسی مرض کے علاج یاکسی مشکل کوحل کرنے کے لئے جانابھی حرام قراردیاہے۔

عَنْ حَدِیثِ أَبِی مُوسَى،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثَلَاثَةٌ لَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: مُدْمِنُ خَمْرٍ وَقَاطِعُ رَحِمٍ وَمُصَدِّقٌ بِالسِّحْرِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین قسم کے اشخاص جنت میں داخل نہیں ہوں گے شراب پینے والاقطع رحمی کرنے والااور جادو پر اعتقاد رکھنے والا ۔[100]

یہ حرمت جادوگرہی کی حدتک نہیں ہے بلکہ اس میں جادوپراعتقادرکھنے والے،اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے اورجادوگرکی باتوں کوصحیح سمجھنے والے بھی شامل ہیں ۔

بتوں کے آستانوں پرفال گری :

عرب کے لوگ بڑے ہی توہم پرست تھے انہیں جب کوئی ایسامسئلہ پیش آجاتا جیسے وہ حل کرنے سے قاصررہتے یاسفرپرجاناہوتایانکاح کرنا ہوتا ،قتل کی دیت کامسئلہ ہوتا، یاکسی کے حسب ونسب پرشک وشبہ ہوتایاجوا کھیلناہوتا تواپنے دیوتاہبل کی رضا مندی معلوم کرنے کے لئے مہنت کے زریعہ جسے صاحب القداح کہا جاتا تھا نذرانہ پیش کرکے تیر پھینکتے، جوبھی تیرنکل آتااسے ہبل دیوتاکافیصلہ سمجھاجاتاتھایہ تیرتین اقسام کے تھے ۔

x سفرپرجانے اورنکاح کے لئے جوتیرتھے ان میں ایک تیرپرہاں دوسرے پرنہیں لکھاہواہوتا ، اگرہاں والا تیرپڑتاتواسے اپنے حق میں نیک شگون تصورکرتے اوراگر ناں کاتیر پڑتاشگون بدلیتے اورایک سال کے لئے سفر یانکاح ملتوی کردیتے۔

x دوسری قسم یہ تھی کہ تیروں پرقتل کی دیت وغیرہ لکھی ہوئی ہوتی ،جتنی دیت کاتیرپڑتااداکرنی پڑتی۔

x تیسری قسم حسب ونسب کے بارے میں تھی اگرکسی کوکسی کے حسب ونسب کے بارے میں شبہ ہوتاتو سو اونٹ لے کرآتے ، مہنت ایک خاص طریقہ پرتین تیرپھینکتا ، ایک تیر پر لکھا ہوا ہوتاکہ یہ تم میں سے ہے دوسرے پرلکھاہواہوتاتمہارے غیرسے ہے اور تیسرے تیر پر لکھاہواہوتاتم سے ملحق ہے ،اگر پہلا تیرنکلتاتوقبیلہ کافردمان لیاجاتادوسرا تیر نکلتاتو اسے حلیف مان لیاجاتا اور تیسراتیرنکلتاتونہ تواسے اپنے قبیلہ کافردتسلیم کرتے اورنہ ہی حلیف مانتے مگروہ اپنی حیثیت پر برقرار رہتا۔

اللہ تعالیٰ نے پانسوں ،دست شناسی ،علم جفر،علم اعداداورزائچہ وغیرہ کے زریعہ سے قسمت کاحال معلوم کرنے سے منع فرمایا۔

۔۔۔ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ۔۔۔۝۰۝۳ [101]

ترجمہ: نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو ، یہ سب افعال فسق ہیں ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ [102]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!یہ شراب اورجوااوریہ آستانے اور پانسےیہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیزکرو،امیدہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگئی۔

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَنَالُونَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى: مَنْ تَكَهَّنَ أَوِ اسْتَقْسَمَ، أَوْ رَجَعَ مِنْ سَفَرِهِ طِیَرَةَ

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص بلنددرجات کونہیں پہنچ سکتاجوکہانت کرے یاپانسوں کے ذریعہ قسمت کاحال معلوم کرے یابدشگونی کی وجہ سے سفرسے واپس لوٹ آئے۔[103]

اسلام نے اس چیزکی ممانعت کی اور قرعہ کے بجائے نمازاستخارہ اوراس کی مخصوص دعا کومشروع کیا،

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِیرِ، فَكَأَنَّمَا صَبَغَ یَدَهُ فِی لَحْمِ خِنْزِیرٍ وَدَمِهِ

ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص چوسرکھیلااس نےگویااپنے ہاتھوں کوسورکے گوشت اورسورکے خون سے آلودہ کیا۔[104]

بدشگونی :

تیروں سے قسمت کاحال معلوم کرنے کے علاوہ اہل عرب ایک اور طرح بھی شگون یابدشگون لیتے تھے ،اس کاطریقہ یوں ہوتا۔

 كَانَ الرَّجُلُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ إذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ أَتَى الطَّیْر فِی وَكْرِهِ فَنَفَّرَهُ فَإِنْ أَخَذَ ذَاتَ الْیَمِینِ مَضَى لِحَاجَتِهِ وَإِنَّ أَخَذَ ذَاتَ الشِّمَالِ رَجَعَ فَنَهَى النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ

دورجاہلیت میں جب کسی شخص کو کوئی حاجت ہوتی توکسی چڑیا کو اڑاتے یاہرن کے پاس جاکر اسے دوڑاتے ،اگروہ دائیں ہاتھ کی طرف جاتا تو نیک شگون لیتے اوراگرالٹے ہاتھ کی طرف جاتاتوشگون بدسمجھ کراپنے ارادے سے باز رہتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔[105]

اسی طرح پرندوں اورجانوروں کی آوازوں پربھی بدشگون لیتے تھے،

أُمِّ كُرْزٍ الْكَعْبِیَّةِ الَّتِی تُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: أَقِرُّوا الطَّیْرَ عَلَى مَكِنَاتِهَا

ام کرزالکعبیہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناتم پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں بیٹھارہنے دو( اور اللہ پر بھروسہ کرکے سفرپرروانہ ہوجاو) ۔[106]

اسی طرح اگرکوئی پرندہ یاجانور راستہ کاٹ دیتا تو اسے منحوس تصور کرتے، پالتو جانوروں کی نقل وحرکت کابہت خیال رکھاجاتاتھا،سواری کا جانور(گھوڑایاگدھا)کیسے کھڑا ہوتاہے ،اس کاکونساکان ہلتاہے ، باہرنکلتے وقت کونسا پاوں پہلے دہلیزسے باہررکھتاہے ، سواری کے وقت کونسے نتھنے سے سانس لے رہاہے ، ان سب باتوں سے سفرکے وقت اورمقصدمیں کامیابی یاناکامی کا فیصلہ کیا جاتا تھا ، موذی سانپ کواس توہم کے ساتھ نہ مارتے کہ اس کاجوڑاآکراس کابدلہ ضرورلے گا،ان کا ایک توہم یہ بھی تھاکہ ہرانسان کے پیٹ کے اندر ایک سانپ رہتا ہے جوبھوک کے وقت کاٹتاہے ،اسی طرح وہ الو کو منحوس جانورسمجھتے تھے انکاخیال تھاکہ یہ مردے کی کھوپڑی سے پیداہوتاہے،ستاروں اورچاندوسورج کی نقل وحرکت سے انسانی قسمت معلوم کرنے کارواج بھی دنیاکی تمام قدیم قوموں میں رہاہے اسی طرح اہل عرب بھی وہ چاند سے شگون لیتے ، ماہ صفرکومہینوں کومنحوس تصورکرتے اوراس میں شادی بیاہ وغیرہ نہ کرتے،بعض دنوں کوکسی کام کے شروع کرنے یا سفر پر روانہ ہونے یانہ ہونے ، بعض جانوروں کوجس کے آنے سے دوسرے جانوروں میں بیماری یااموات واقع ہوجاتیں ،بعض گھروں کوجس میں ان کے عزیزفوت ہونے لگتے اور بعض عورتوں کوجن کے آنے سے تجارت میں خسارہ یاکوئی موت وغیرہ واقع ہوجاتی تواس کو منحوس خیال کرتے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا عَدْوَى، وَلَا صَفَرَ، وَلَا هَامَةَ؟

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی ،نہ کوئی صفرکامہینہ منحوس ہے اورنہ کسی مردے کی کھوپڑی سے الونکلتاہے۔[107]

پیتل کی انگوٹھی اس غرض سے پہنتے کہ اس سے ضعف نہیں رہتا۔

 عربوں میں اوہام پرستی:

اہل عرب تاجرتھے اوراس سلسلے میں ان کو دوردرازکاسفردرپیش رہتاتھامگریہ لوگ نہایت ہی شکی مزاج تھے ،ان کواپنی زوج پر اعتبارہی نہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے عورتوں کی زندگی ایک ہولناک جہنم میں گزرتی تھی ،جس کی ایک مثال یوں ہے،یہ معلوم کرنے کے لئے کہ ان کی بیوی نے ان کی عدم موجودگی میں بدکاری تو نہیں کی سفرپرجانے سے بیشتر ایک درخت پرڈورباندھ دیتے پھرسفرسے واپسی پراس ڈورکوآکردیکھتے کہ وہ بندھی ہوئی یاکھل گئی ہے اگربندھی ہوئی ملتی تویہ سمجھتے کہ ان کی بیوی نے بدکاری نہیں کی اوراگرڈورکھلی ہوئی ملتی توسمجھتے کہ بیوی نے بدکاری کی ہے(کیاعقل اس کوتسلیم کرتی ہے)

بدشگونی کے بارے میں قوموں میں مختلف عقائدرہے ہیں ۔

صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا

قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ۔۔۔ ۝۴۷ [108]

ترجمہ:انہوں نے کہا ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بدشگونی کا نشان پایا ہے۔

اورفرعون اوراس کی قوم پرجب کوئی مصیبت آتی تووہ بھی ۔

۔۔۔یَطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَهٗ۔۔۔۝۱۳۱ [109]

ترجمہ: موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فالِ بد ٹھہراتے ۔

اکثرکفارجوگمراہی میں مبتلارہے ہیں کسی مصیبت کے نازل ہوجانے پریہی کہتے رہے ہیں ۔

قَالُوْٓااِنَّا تَــطَیَّرْنَا بِكُمْ۔۔۔۝۱۸ [110]

ترجمہ:بستی والے کہنے لگےہم تمہیں اپنے لئے شگون بدسمجھتے ہیں ۔

اس کاجواب انبیاء یہ دیتے رہے ہیں ۔

 قَالُوْا طَاۗىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ۔۔۔۝۱۹ [111]

ترجمہ:تمہاری بدشگونی تمہارے ساتھ لگی ہوئی ہے۔

یعنی تمہاری مصیبت کاسبب تمہارے ساتھ لگاہواہے اوروہ ہے تمہارا کفروعناد اور تمہاری سرکشی۔

اسلام نے ان عقائدکوباطل قراردے کرلوگوں کوعقلیت کی راہ لگایا،

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطُیِّرَ لَهُ، أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكُهِّنَ لَهُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ، وَمَنْ عَقَدَ عُقْدَةً – أَوْ قَالَ: مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص ہم میں سے نہیں جوبراشگون لے یاجس کے لئے براشگون لیاجائے یاجس کے لئے کہانت کی جائے یاجادوکرے یاجوجادوکرائے۔[112]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الطِّیَرَةُ شِرْكٌ، الطِّیَرَةُ شِرْكٌ، ثَلَاثًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابدشگونی شرک ہے ، بدشگونی شرک ہے،بدشگونی شرک ہے۔ [113]

حرام مہینوں (اشہرحرم) میں ردوبدل:

عرب میں کبیسہ کارواج ہنداوربعض دوسرے ممالک سے مدتوں بعدہوا،ابتدااس کاطریقہ یہ تجویزہواکہ ہرسال کے اختتام پرایک سال تودس دن کااضافہ کرلیاجایاکرے اوراس سے اگلے سال گیارہ دن کا،اس طرح حج عموماایک ہی موسم میں آتاتھا،مگرکبیسہ کایہ طریق عرب میں مقبول نہ ہوسکا،عرب کی بیشترآبادی دیہاتی تھی جوخالصة قمری تقویم کاحساب رکھتے تھے ،شہروں میں البتہ بعض لوگ حقیقی کلینڈرکے علاوہ مخلوط کیلنڈر کاحساب بھی رکھتے تھے ،اس کے بعددوسراطریق یہ وضع ہواکہ اہل ہندکی طرح ہرتین سال بعدایک ماہ کااضافہ کرلیاجایاکرے اوریہ اضافہ الترتیب باری باری ہرماہ کے ساتھ ہومثلا تیسرے سال دومحرم شمارکرلئے جائیں ،پھرچھٹے سال دوصفر،پھرنویں سال تین ربیع الاول،اس طرح بھی حج ایک ہی موسم میں آتااورآخری مرحلہ پرذی الحجہ کادوسرامہینہ فی الواقع ذی الحجہ کاہی مہینہ ہوتاتھا،لیکن ۳۶قمری سال کے اس چکرمیں پوراایک سال یاایک حج گم کردیاجاتاتھا،عرب میں ہرتیسرے سال مہینہ بڑھانے کاکام سب سے پہلے حذیفہ بن عبدکنانی مضری نے جوقلمس کے نام سے جاناجاتاہے نے سرانجام دیااوریہ کام بھی اپنے ذمہ لیاکہ ہرحج کے اجتماع کے موقعہ پریہ اعلان کردے کہ اس سال اضافہ ہوگایانہیں اور اگرہوگاتوکس ماہ کے ساتھ یہ تیرھواں ماہ بڑھایاجائے گا،نیزیہ کہ آئندہ سال حج کس ماہ میں ہوگا،قلمس کے بعدیہ عہدہ اس کی اولادمیں منتقل ہوگیا،اب قلمس کالفظ ایک شخصی نام کے بجائے اس عہدے کے نام سے معروف ہواجوحج کے ایام میں بھرے اجتماع میں آئندہ سال ہونے والے حج کی تاریخوں کااعلان کرتاتھا،قلمس کی اولادمیں سے جن لوگوں نے یہ فریضہ سرانجام دیاانہیں قلامسہ کے نام سے یادکیاجاتاہے،قلامسہ کے فرائض میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ اعلان حج کے ساتھ ان مہینوں کابھی اعلان کرے کہ آئندہ سال کون کون سے مہینے حرمت والے ہوں گے ، اس تقدیم وتاخیرکواہل عرب نسی کہتے تھے ، ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے یہ دستور چلاآرہاتھا کہ حرام مہینوں یعنی ذی القعدہ ، ذی الحجہ اورمحرم جوحج کے لئے اور رجب عمرے کے لئے مخصوص تھاجس میں کسی بھی قسم کاجنگ و جدل ، خونریزی ، قتل وغارت ممنوع تھی تاکہ زائرین بیت  اللّٰہ کے حج علاوہ سال میں کم ازکم ایک بارمزید عمرہ اورتجارت وغیرہ امن وامان کے ساتھ کسی قسم کے فکرواندیشے کے بغیراداکرسکیں اوراپنے گھروں کو بحفاطت لوٹ سکیں ان چارمہینوں میں جنگ حرام خیال کی جاتی تھی اور انہیں اشہرحرم کہتے تھے ، چونکہ یہ ایک پسندیدہ دستورتھالہذااسلام نے بھی اس حرمت کو برقرار رکھا ، یہ گڑبڑصرف حج تک ہی محدودنہ رہی،عربوں نے اللہ کی طرف سے انسانوں کی فلاح وبہبودکے لئے مقررکردہ حرام مہینوں میں بھی اپنی من مرضیاں شامل کردیں تھیں قلمس کے پیداکردہ رواج کافائدہ اٹھاکر قریش اپنی جنگی ضرورتوں کے تحت ان مہینوں میں ردوبدل اورکمی بیشی کرتے ہوئے بعض حرام مہینوں میں سے بعض کوحلال اوران کی جگہ بعض حلال مہینوں کوحرام مہینوں میں داخل کردیا کرتے اور اس حرام مہینے کو موخر کر دیا کرتے، جس کااعلان فلامسہ حج کے موقعہ پرکرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ عام تاجروں کے علاوہ بڑے بڑے سرداروں کے اسباب تجارت بھی بازاروں میں اسی وقت بحفاظت آسکتے تھے جب ان کی باربرداری اورصیانت کی ضمانت قرب وجوارکے قبائل نے لی ہو،اس ضمانت کے لئے انہیں ایک رقم دیناپڑتی تھی جسے خفارہ کہتے تھے،جس کے لفظی معنی معاوضہ کے ساتھ یابلامعاوضہ پناہ لیناکے ہیں ،اس کے علاوہ تاجرکوبازارکی زمین استعمال کرنے اورراہداری کے عوض ایک رقم جسےعُشُورکہتے تھے دینا پڑتی تھی ۔[114]نسی کی دو صورتیں تھیں ایک تویہ کہ جنگ و جدل ،غارت گری اورخون کاانتقام لینے کے لئے کسی مہینے کوحلال قراردے دیتے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کوحرام کرکے مہینوں کی تعدادپوری کردیتے ، ایک صورت یہ تھی کہ قمری سال کوشمشی سال کے مطابق کرنے کے لئے اس میں لبیسہ کاایک ماہ بڑھادیتے تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتارہے اوروہ ان زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کے مطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں اس طرح تینتیس سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہوتارہتاتھا اور صرف چونتیسویں سال میں ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی نودس تاریخ کو ادا ہوتا تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حجة الوداع ادا فرمایاتھااس سال حج اپنی اصلی تاریخوں میں آیاتھا اور اسی وقت سے اللہ نے نسی کوعین کفرقراردیا۔

اِنَّمَا النَّسِیْۗءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللهُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللهُۭ۔۔۔ ۝۳۷ [115]

ترجمہ: نسی توکفرمیں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافرلوگ گمراہی میں مبتلا کئے جاتے ہیں کسی سال ایک مہینے کوحلال کر لیتے ہیں اورکسی سال اس کوحرام کردیتے ہیں تا کہ  اللّٰہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعدادپوری بھی کردیں اور اللّٰہ کاحرام کیا ہوا حلال بھی کرلیں ۔

اورحجة الوداع کے موقعہ پراس طرح کی پیوندکاری کوحرام قراردیاگیا۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۝۰ۥۙ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَاۗفَّةً كَـمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً۝۰ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ۝۳۶ [116]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے، لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے ۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پراس پیوندکاری کوحرام قراردے دیااورپھرکبیسہ کابریق حکماًاوریکسربندکردیاگیا،بعدازاں عرب اوردیگراسلامی ممالک میں قمری تقویم اپنی حقیقی بنیادوں پررائج ہوگئی جسے بعدمیں ہجری تقویم کانام دیاگیا۔

إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَیْئَتِهِ یَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلاَثٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وَذُو الحِجَّةِ، وَالمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ، مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَى، وَشَعْبَانَ

دیکھو!زمانہ گھوم پھرکرپھراسی نقشہ پرآگیاہے جس پراللہ نے زمین وآسمان پیداکیے تھے ،دیکھوایک سال بارہ مہینے کاہوتاہے ،ان میں چارمہینے حرمت والے ہیں تین تو لگاتارذوالقعدہ،ذی الحجة اورمحرم ہیں اورچوتھامضرکارجب(قبیلہ مضراس مہینہ کی بہت تعظیم کرتاتھا)جوجمادی الاخرٰی اورشعبان کے درمیان ہوتاتھا۔[117]

حج کاطریقہ کار:

ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج بیت  اللّٰہ کاطریقہ یہ تھاکہ نو ذی الحجہ کومنیٰ سے عرفات جاتے رات کووہاں سے پلٹ کر مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے، مگرجب قریش کی طاقت کاسکہ بیٹھ گیا تو انہوں نے بیت اللہ کے متولی اورکلیدبردار ہونے کے ناطے عام لوگوں کی طرح عرفات میں جانااپنی شان ومرتبہ کے خلاف جانا، چنانچہ

وَكَانَ الْحُمْسُ یُفِیضُونَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ

حمس(قریش نے)مزدلفہ تک جاکرہی واپس لوٹ آتے اور وہیں افاضہ کرلیتے۔[118]

قریش نے عام الفیل کے بعدایک بدعت نکالی اوراس کانام حمس رکھااوراس کورواج دیا،ان کے ذہن میں یہ خیال پیداہوا ،

نَحْنُ بَنُو إبْرَاهِیمَ وَأَهْلُ الْحُرْمَةِ، وَوُلَاةُ الْبَیْتِ، وَقُطَّانُ مَكَّةَ وَسَاكِنُهَا، فَلَیْسَ لِأَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ مِثْلُ حَقِّنَا، وَلَا مِثْلُ مَنْزِلَتِنَا، وَلَا تَعْرِفُ لَهُ الْعَرَبُ مِثْلَ مَا تَعْرِفُ لَنَا، فَلَا تُعَظِّمُوا شَیْئًا مِنْ الْحِلِّ كَمَا تُعَظِّمُونَ الْحَرَمَ، فَإِنَّكُمْ إنْ فَعَلْتُمْ ذَلِكَ اسْتَخَفَّتْ الْعَرَبُ بِحُرْمَتِكُمْ، وَقَالُوا قَدْ عَظَّمُوا مِنْ الْحِلِّ مِثْلَ مَا عَظَّمُوا مِنْ الْحَرَم فَتَرَكُوا الْوُقُوفَ عَلَى عَرَفَةَ، وَالْإِفَاضَةَ مِنْهَا، وَهُمْ یَعْرِفُونَ وَیُقِرُّونَ أَنَّهَا مِنْ الْمَشَاعِرِ وَالْحَجِّ وَدِینِ إبْرَاهِیمَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

ہم لوگ ابراہیم علیہ السلام کی اولادہیں اوراہل حرمت اوربیت اللہ کے متولی اوراس کے رہنے والے ہیں ،عرب میں کسی کوہمارے برابرفضیلت نہیں ہے،اورجوحق اورمرتبہ ہمیں حاصل ہے اس میں کوئی ہماری برابری نہیں کرسکتاہے،چنانچہ انہوں نے آپس میں صلاح کی اورکہاکہ تم کولازم ہے کہ جیسی تم مقامات حرم کی تعظیم وتکریم کرتے ہوایسی تعظیم حل (حرم کے باہرکی تمام جگہ حل کہلاتی ہے)میں سے کسی مقام کی نہ کرو،اگرتم حل کے مقامات کی بھی تعظیم وتکریم کروگے توعرب کہیں گے کہ جب اورجگہوں کی تعظیم وتکریم کی جاتی ہے توپھرحرم کی کیاخصوصیت ہے، چنانچہ اسی قسم کے خیالات پیداکرکے قریش نے عرفات کاوقوف اوروہاں سے افاضہ ترک کردیاحالانکہ یہ لوگ اس بات کوجانتے اوراقرارکرتے تھے کہ عرفات کاوقوف بھی مشاعرحج میں داخل ہے اور ابراہیم علیہ السلام کاطریقہ ہے مگرپھربھی اس کوترک کردیا،

وَیَرَوْنَ لِسَائِرِ الْعَرَبِ أَنْ یَقِفُوا عَلَیْهَا، وَأَنْ یُفِیضُوا مِنْهَا، إلَّا أَنَّهُمْ قَالُوا: نَحْنُ أَهْلُ الْحَرَمِ، فَلَیْسَ یَنْبَغِی لَنَا أَنْ نَخْرُجَ مِنْ الْحُرْمَةِ وَلَا نُعَظِّمُ غَیْرَهَا كَمَا نُعَظِّمُهَا نَحْنُ الْحُمْسُ، وَالْحُمْسُ أَهْلُ الْحَرَمِ، ثُمَّ جَعَلُوا لِمِنْ وُلِدُوا مِنْ الْعَرَبِ مِنْ سَاكِنِ الْحِلِّ وَالْحَرَمِ مِثْلَ الَّذِی لَهُمْ، بِوِلَادَتِهِمْ إیَّاهُمْ، یَحِلُّ لَهُمْ مَا یَحِلُّ لَهُمْ، وَیَحْرُمُ عَلَیْهِمْ مَا یَحْرُمُ عَلَیْهِمْ وَكَانَتْ كِنَانَةُ وَخُزَاعَةُ قَدْ دَخَلُوا مَعَهُمْ فِی ذَلِكَ أَنَّ بَنِی عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِیَةَ بْنِ بَكْرِ بْنِ هَوَازِنَ دَخَلُوا مَعَهُمْ فِی ذَلِكَ

اورعرب سے کہتے کہ تم جاکرعرفات میں وقوف کرومگرہم لوگ چونکہ اہل حرم ہیں ہم کووہاں جانازینانہیں ہے،ہم حمس ہیں اورحمس اہل حرم کوکہتے ہیں ،پھراورعرب کے واسطے بھی جویہاں پیداہوئے حل کے رہنے والے یاحرم کے رہنے والے انہوں نے یہی قاعدہ مقررکیاجوان کے واسطے حلال ہوتا،ان کے واسطے بھی حلال ہوتااورجوان کے واسطے حرام ہوتاان کے واسطے بھی حرام ہوتااور(آہستہ آہستہ وہ قبائل جن سے قریش کی رشتہ داریاں تھیں )بنی کنانہ اورخزاعہ بھی اس کام میں ان کے شریک ہوگئے، اوربنی عامربن صعصعہ اورقریش کے حلیف قبائل بھی قریش کی شان بن گئے اور انہوں نے بھی عرفہ جانابندکردیا۔ [119]

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ پرکبھی قریش کاساتھ نہیں دیا۔

جبیر بن مطعم قال:لقد رأیت رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وهو على دین قومه، وهو یقف على بعیر له بعرفات

جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم کی روایت ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی سے قبل عام عربوں کی طرح وقوف عرفات کرتے دیکھا ہے۔[120]

۔۔۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۝۰۠ وَاذْكُرُوْهُ كَـمَا ھَدٰىكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّیْنَ۝۱۹۸ [121]

ترجمہ :پھرجب عرفات سے چلوتومشعرحرام (مزدلفہ)کے پاس ٹھہرکراللہ کویادکرواوراس طرح یادکروجس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ورنہ اس سے پہلے توتم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔

دھوپ میں پاپیادہ حج :

بعض لوگ بیت اللہ تک دھوپ میں پیدل چل کرجانے کی منت مان لیتے تھےجس کووہ بڑے ثواب کاکام سمجھتے تھے ،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى شَیْخًا یُهَادَى بَیْنَ ابْنَیْهِ، قَالَ:مَا بَالُ هَذَا؟ قَالُوا: نَذَرَ أَنْ یَمْشِیَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَنْ تَعْذِیبِ هَذَا نَفْسَهُ لَغَنِیٌّ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَرْكَبَ ،قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَنْ تَعْذِیبِ هَذَا نَفْسَهُ لَغَنِیٌّ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَرْكَبَ

چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ ے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے شخص کودیکھاکہ وہ اپنے دوبیٹوں کا سہارالے کر چل رہاہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاان صاحب کاکیاحال ہے؟ لوگوں نے بتایاکہ انہوں نے بیت اللہ تک پیدل چلنے کی نذر مانی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کے اپنے آپ کوعذاب دینے سے بے پرواہ ہے اوراسے حکم دیاکہ وہ سواری پرسوارہوجائے۔[122]

کھلے سر اورننگے پاوں حج :

بعض عورتیں بیت اللہ تک کھلے سراورننگے پاوں جانے کی نذر مان لیتی تھیں ،

أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أُخْتٍ لَهُ نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ حَافِیَةً غَیْرَ مُخْتَمِرَةٍ، فَقَالَ:مُرُوهَا فَلْتَخْتَمِرْ، وَلْتَرْكَبْ، وَلْتَصُمْ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ

عقبہ بن عامرجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بہن کے متعلق دریافت کیاجس نے یہ نذرمانی تھی کہ وہ ننگے پاؤ ں اورننگے سرحج کرے گی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس سے کہوکہ وہ سرڈھانکے اورسواری پر سوار ہو اورتین دن کے روزے رکھے۔[123]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُخْتِی نَذَرَتْ یَعْنِی أَنْ تَحُجَّ مَاشِیَةً،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ لَا یَصْنَعُ بِشَقَاءِ أُخْتِكَ شَیْئًا، فَلْتَحُجَّ رَاكِبَةً، وَلْتُكَفِّرْ عَنْ یَمِینِهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری بہن نے نذرمانی ہے کہ وہ پیدل حج کرے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ تیری بہن کے مشقت اٹھانے سے کچھ نہیں کرے گا(اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا)اسے چاہئے کہ سوارہوکرحج کرے اوراپنی قسم کاکفارہ دے۔[124]

 ننگاہوکرحج کرنا:

قریش کی جاری کردہ بدعتوں میں ایک بدعت یہ بھی تھی جسے اہل عرب نے دین کی حیثیت سے بغیرکسی چوں وچراکے قبول کرلیاتھا حجاج پرایک پابندی تھی کہ حرم میں داخل ہونے کے بعدپہلاطواف قریش سے کپڑے حاصل کرکے کریں ،

قَالَ عُرْوَةُ: كَانَ النَّاسُ یَطُوفُونَ فِی الجَاهِلِیَّةِ عُرَاةً إِلَّا الحُمْسَ، وَالحُمْسُ قُرَیْشٌ وَمَا وَلَدَتْ، وَكَانَتِ الحُمْسُ یَحْتَسِبُونَ عَلَى النَّاسِ، یُعْطِی الرَّجُلُ الرَّجُلَ الثِّیَابَ یَطُوفُ فِیهَا وَتُعْطِی المَرْأَةُ المَرْأَةَ الثِّیَابَ تَطُوفُ فِیهَا فَمَنْ لَمْ یُعْطِهِ الحُمْسُ طَافَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانًا

چنانچہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےحمس کے سوابقیہ سب لوگ جاہلیت میں ننگے ہوکرطواف کرتے تھے ،حمس، قریش اوراس کی آل اولادکوکہتے تھے(اوربنوکنانہ وغیرہ جیسے خزاعہ)لوگوں کو(اللہ کے واسطے)کپڑے دیاکرتے تھے (قریش)کے مرددوسرے مردوں کوتاکہ انہیں پہن کرطواف کرسکیں اور(قریش کی)عورتیں دوسری عورتوں کوتاکہ وہ انہیں پہن کرطواف کرسکیں ،اورجن کوقریش کپڑانہ دیتے( کپڑے کم پڑجاتے) تومردوعورت ننگے ہوکرطواف کر لیتے ۔[125]

أَطُوفُ بِالْبَیْتِ كَمَا وَلَدَتْنِی أُمِّی

وہ کہتے تھےہم اس حالت میں بیت اللہ کاطواف کرنے جارہے ہیں جس حالت میں ہماری ماوں نے ہمیں جناہے۔[126]

اور اگر کوئی بیرونی شخص اپنے کپڑوں میں طواف کرلیتاتو طواف کے بعد کپڑے اتارکر پھینک دیتا پھرکوئی دوسرابھی اس سے فائدہ حاصل نہ کرتا ۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوہجری کوسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوامیرحج بناکرمکہ روانہ فرمایاکہ وہ جا کر اعلان کر دیں ،

لاَ یَحُجُّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ، وَلاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ

آئندہ کوئی مشرک حج بیت اللہ نہیں کرسکتااورنہ کوئی شخص ننگا ہوکربیت اللہ کاطواف کرسکتاہے۔[127]

اس طرح اسلام نے اس بے حیائی کی رسم کامکمل خاتمہ کردیا۔

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللهِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ۔۔۔۝۰۝۳۲ [128]

ترجمہ:اے نبی! ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا۔

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ۔۔۔۝۳۱ۧ [129]

ترجمہ:اے بنی آدم !ہرعبادت کے موقعہ پر اپنی زینت سے آراستہ رہو۔

اس کے علاوہ حج یاعمرے پرآئے ہوئے حجاج باہرسے لایاہواکھانا نہیں کھاسکتے تھے ، وہ صرف حرم کاہی کھاناکھاسکتے تھے۔

حج مصمت (گونگا حج) :

حج کاایک طریقہ یوں بھی تھاکہ جب حج کے لئے احرام باندھ لیتے توخاموش رہتے اوربات چیت ترک کردیتے،

دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ یُقَالُ لَهَا زَیْنَبُ، فَرَآهَا لاَ تَكَلَّمُ، فَقَالَ: مَا لَهَا لاَ تَكَلَّمُ؟ قَالُوا: حَجَّتْ مُصْمِتَةً، قَالَ لَهَا: تَكَلَّمِی، فَإِنَّ هَذَا لاَ یَحِلُّ، هَذَا مِنْ عَمَلِ الجَاهِلِیَّةِ

سیدناابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے جس کانام جسے زینب بنت مہاجرتھا،آپ نے دیکھاکہ وہ بات ہی نہیں کرتیں ،آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں ؟لوگوں نے بتایاکہ اس نے مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہوئی ہے، سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس عورت سےفرمایابات کرو اس طرح حج کرنا توجاہلیت کی رسم ہے ۔[130]

بھوکاحج :

بہت سے لوگ حج کے دوران کھاناپیناچھوڑدیتے تھے اوراسے داخل عبادت سمجھتے تھے۔اسلام نے جاہلیت کے اس طریقہ کومٹادیا۔

ناک میں نکیل ڈال کرحج کرنا:

بعض لوگ خودکوبڑامجرم اورگنہگارسمجھ کرحج کے دنوں میں اس کااس طرح اظہارکرتے کہ اپنی ناک میں اونٹ کی طرح نکیل ڈلوالیتے اور ایک شخص اس نکیل میں ڈالی رسی پکڑکر کھنچتا پھرتا ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ وَهُوَ یَطُوفُ بِالكَعْبَةِ بِإِنْسَانٍ یَقُودُ إِنْسَانًا بِخِزَامَةٍ فِی أَنْفِهِ، فَقَطَعَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ، ثُمَّ أَمَرَهُ أَنْ یَقُودَهُ بِیَدِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کواس حالت میں دیکھاکہ دوسراشخص اس کی ناک میں نکیل ڈال کراس کے آگے سے اس کی رہنمائی کررہاتھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رسی اپنے ہاتھ سے کاٹ دی پھرحکم دیاکہ ہاتھ سے اس کی رہنمائی کرے۔[131]

 ایک دوسرے سے ہاتھ باندھ کرحج کرنا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ وَهُوَ یَطُوفُ بِالكَعْبَةِ بِإِنْسَانٍ رَبَطَ یَدَهُ إِلَى إِنْسَانٍ بِسَیْرٍأَوْ بِخَیْطٍ أَوْ بِشَیْءٍ غَیْرِ ذَلِكَ ، فَقَطَعَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ،ثُمَّ أَمْرَهُ أَنْ یَقُودَهُ بِیَدِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کاطواف کرتے ہوئےایک شخص کے پاس سے گزرے جس نے اپناہاتھ ایک دوسرے شخص کے ہاتھ سے تسمہ یارسی یاکسی اورچیزسے باندھ رکھاتھا (یہ دیکھ کر)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سےبندھی رسی کاٹ ڈالی اور پھر فرمایاکہ اگرساتھ ہی چلناہے تواس کاہاتھ پکڑکرچلو۔[132]

دواشخاص کاایک ساتھ بندھ کرحج کرنا:

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ رَجُلَیْنِ وَهُمَا مُقْتَرِنَانِ فَقَالَ مَا بَالُ الْقِرَانِ قَالَا إِنَّا نَذَرْنَا لَنَقْتَرِنَنَّ حَتَّى نَأْتِیَ الْكَعْبَةَ ، فَقَالَ أَطْلِقَا أَنْفُسَكُمَا لَیْسَ هَذَا نَذْرًا إِنَّمَا النَّذْرُ مَا یُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ

اسی طرح ایک بارنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاکہ دواشخاص ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس طریقہ کی وجہ معلوم کی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے یہ منت مانی تھی کہ اس طرح جڑے ہوئے بیت اللہ کاحج کریں گے،یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس شکنجے کودورکرویہ نذرنہیں ہے ،نذروہ ہے جس سے اللہ کی ذات مقصودہو ۔ [133]

حج کے لئے خالی ہاتھ روانہ ہونا:

اہل یمن کاایک نرالادستورتھاکہ جب وہ حج کی نیت سے بیت اللہ کی طرف سفرکرتے توسفرکے لئے کوئی ذادراہ لے کرنہیں چلتے تھے ، ان کا خیال تھاکہ وہ متوکل علی اللہ ہیں ،اللہ کے گھرکی طرف جارہے ہیں پھردنیاوی سامان ساتھ کیوں لیں ،چنانچہ مکہ میں پہنچ جاتے توبھیگ مانگ کرگزارہ کرتے ،اللہ نے ان کے اس طریقہ کی نفی فرمائی اور آیت نازل فرمائی ۔

۔۔۔ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ۝۱۹۷ [134]

ترجمہ:سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ ، اور سب سے بہتر زادِ راہ پرہیز گاری ہےپس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔

حج اورعمرہ ایک ساتھ نہ کرنا:

اہل عرب ایام حج میں عمرہ ادانہیں کرتے تھے،ان کاخیال تھاکہ جب سواریاں حج سے واپس آجائیں پھران کے کوہان کے زخم وغیرہ بھی ٹھیک ہو جائیں ،اس کے بعدعمرہ جائز ہو سکتاہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں حجة الوداع میں عمرہ ادافرماکراس رسم کوبھی مٹادیا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ العُمْرَةَ فِی أَشْهُرِ الحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الفُجُورِ فِی الأَرْضِ، وَیَجْعَلُونَ المُحَرَّمَ صَفَرًا، وَیَقُولُونَ: إِذَا بَرَا الدَّبَرْ، وَعَفَا الأَثَرْ، وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ العُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِیحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّینَ بِالحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ یَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَیُّ الحِلِّ؟ قَالَ:حِلٌّ كُلُّهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعرب سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرناروئے زمین پرسب سے بڑاگناہ ہے ،یہ لوگ محرم کوصفربنالیتے اورکہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ سستالے اور اس پرخوب بال اگ جائیں اورصفرکامیہنہ ختم ہوجائے (یعنی حج کے ایام گزرجائیں )توعمرہ حلال ہوتاہے،پھرجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چوتھی کی صبح کوحج کااحرام باندھے ہوئے آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیاکہ اپنے حج کوعمرہ بنالیں ،یہ حکم (عرب کے پرانے رواج کی بناپر)عام صحابہ پربڑابھاری گزراانہوں نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !عمرہ کرکے ہمارے لئے کیاچیزحلال ہوگئی ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمام چیزیں حلال ہوگئیں ۔[136]

 ہدیٰ کے جانورپرسواری نہ کرنا:

اہل عرب جب حج کے لئے روانہ ہوتے توقربانی کاجانوراپنے ساتھ لے کرجاتےمگران کایہ خیال تھاکہ کیونکہ یہ قربانی کے لئے مختص ہو چکا ہے اس لئے اس پرسواری کرنا جائز نہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کی تردیدکی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا یَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ:ارْكَبْهَاقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهَا بَدَنَةٌ،فَقَالَ: ارْكَبْهَا، وَیْلَكَ، فِی الثَّانِیَةِ أَوْ فِی الثَّالِثَةِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سےمروی ہے(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے لئے روانہ ہوئے توراستہ میں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھاکہ وہ قربانی کے اونٹ کوہانکے جا رہاتھا( اورخودپیدل چل رہاتھا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایااس پرسوارہوجا،اس نے عرض کیایہ قربانی کااونٹ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایاسوارہوجا،اس نے پھروہی عرض کی(یہ قربانی کااونٹ ہے)،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یادوسری بار فرمایاتیرے لئے خرابی ہوسوارہوجا۔[137]

یعنی اگرچلنے میں مشقت ہوتوقربانی کے جانورپرسوارہونے میں کوئی حرج نہیں ،اگرسفرلمباہوتویہ بھی مشقت ہی کی ایک صورت ہے ،ضروری نہیں کہ وہ بالکل چلنے سے عاجزہوتب ہی سوارہو۔

کسب معاش :

چونکہ ایام جاہلیت میں عرب کسب معاش کودنیاداری کافعل تصورکرتے تھے اس لئے دوران سفر حج کسب معاش کاارتکاب مذموم سمجھتے تھے،جس کی وجہ سے حج کی حیثیت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے بجائے ایک میلہ سے زیادہ نہیں رہی تھی،جس میں مختلف جگہوں سے بھانت بھانت کے لوگ جمع ہوجاتے ،بعض لوگ عکاظ اور ذوالمجار میلوں میں تجارت کے لئے آتے تھے ،کیونکہ حج اورتجارت کا الگ الگ سلسلہ تھااس لئے ان بیوپاری حضرات کو حج سے کوئی سروکارنہ ہوتاتھابس ان کی آمدسے ایک بھیڑ جمع ہوجاتی ، ان لوگوں کی وجہ سے حج میں ننگی ہوکرطواف کرنے والی عورتوں سے چھڑخانی ہوتی ،لوگوں کابے ہنگم شوروغل،دھکم پھیلی اورلڑائی جھگڑے ہوتے،مگراسلام نے کسب معاش اورحج کو یکجا کردیااورتمام بیہودہ افعال کی سخت ممانعت فرمادی گئی ۔

۔۔۔فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ۝۰ۙ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ۝۰ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللهُ۔۔۔ ۝۱۹۷ [138]

ترجمہ: جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل ، کوئی بد عملی ، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سر زرد نہ ہو ، اور جو نیک کام تم کرو گے ، وہ اللہ کے علم میں ہو گا ۔

اور یہ اجازت بخشی کہ حج کے دوران اگراللہ کافضل بھی تلاش کرلیاجائے توکوئی مضائقہ نہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَتْ عُكَاظُ، وَمَجَنَّةُ، وَذُو المَجَازِ أَسْوَاقًا فِی الجَاهِلِیَّةِ، فَتَأَثَّمُوا أَنْ یَتَّجِرُوا فِی المَوَاسِمِ، فَنَزَلَتْ: {لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ} [139]. فِی مَوَاسِمِ الحَجِّ

عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعکاظ،مجنہ اورذوالمجاززمانہ جاہلیت کے بازار (میلے)تھے،اس لئے (اسلام کے بعد)موسم حج میں صحابہ کرام نے وہاں کاروبار کو برا سمجھاتوآیت نازل ہوئی،(حج کے ساتھ ساتھ) تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ تو (اس میں ) تم پر کچھ گناہ نہیں ۔(اس طرح اللہ نے تجارت اورحج کوجمع فرمادیاجس سے تمام خبائث کاخاتمہ ہو گیا)۔[140]

گھرمیں سامنے سے داخل نہ ہونا:

ایک توہم پرستانہ رسم یہ بھی تھی کہ جب وہ حج کے لئے احرام باندھ لیتے اورپھرکسی ضرورت کے لئے گھرجاتے توگھرکے سامنے کے دروازے سے داخل ہونے کے بجائے گھر کے پیچھے کھڑکی سے یا دیوارپھلانگ کریااس میں راستہ بناکرداخل ہوتے،اسی طرح جب وہ سفرکرکے گھرمیں داخل ہوتے تو بھی ایسا ہی کرتے اوراسے وہ نیکی تصور کرتے،چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص جب حج کرکے واپس آیاتودستورکے مطابق پیچھے سے اندرداخل ہونے کے بجائے سامنے دروازےسے گھرمیں داخل ہوگیااس پر لوگوں نے رواج کی خلاف ورزی پراسے خوب لعنت ملامت کی،اللہ سبحا نہ وتعالیٰ نے ان کے اس رواج کی یوں نفی فرمائی۔

۔۔۔ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى۝۰ۚ وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۝۰۠ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۸۹ [141]

ترجمہ: یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے، لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو ،البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے

قریش کی ایک بدعت یہ تھی کہ حالت احرام میں چمڑے والے خیمہ میں توسایہ حاصل کرتے مگربالوں والے خیمہ میں داخل نہ ہوتے۔

لَا یَنْبَغِی لِلْحُمْسِ أَنْ یَأْتَقِطُوا الْأَقِطَ ، وَلَا یَسْلَئُوا السَّمْنَ وَهُمْ حُرُمٌ

احرام کی حالت میں کوئی شخص پنیراورگھی نہ کھائے اورنہ کمبل کے خیمہ میں رہے اورنہ سایہ میں بیٹھے،مگرچمڑے کے خیمہ میں فقط آرام لے۔[142]

نذرونیازکے جانور:

ان کے علاوہ مخصوص منتوں اورنذرونیاز کے بعض جانوراورکھیت ایسے بھی ہوتے جن کادودھ دوہتے وقت یاسوارہونے کی حالت میں اورذبح کے وقت  اللّٰہ کانام لیناجائزنہ سمجھتے اورنہ ہی ان پرسوارہوکرحج کوجاتے ،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا یَسُوقُ بَدَنَةً،فَقَالَ: ارْكَبْهَا قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ،قَالَ:ارْكَبْهَاقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ ،قَالَ:ارْكَبْهَا، ثَلاَثًا

انس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاایک آدمی کودیکھاکہ وہ قربانی کاجانور( اونٹ کوبیت اللہ) کی طرف ہانکے لئے جارہاہے( مگراس پر سوار نہیں ہورہا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس پر سوار ہو جاؤ ،اس شخص نے جواب دیایہ تو قربانی کاجانور ہے( میں اس پرکیسے سوارہوسکتاہوں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سوارہوجا ،اس نے پھرعرض کیاکہ یہ توقربانی کاجانورہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ پھرفرمایاکہ سوارہوجا۔[143]

اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔ ۝۳۳ۧ [144]

ترجمہ:تمہیں ایک وقت مقررہ تک ان(ہدی کے جانوروں )سے فائدہ اٹھانے کاحق ہے ۔

قربانی:

حج کے بعداللہ کے نام پرقربانی کرتے مگراس خیال سے کہ(نَعُوذُ بِاللَّهِ) خون اورگوشت اللہ کومطلوب ہے جانورکاخون کعبے کی دیواروں سے لتھڑاجاتااوراس کاگوشت اس کے دروازے پرڈالاجاتا،اسلام نے اس طریقہ کوموقوف کردیا۔

لَنْ یَّنَالَ اللهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْۭ۔۔۔ ۝۳۷ [145]

ترجمہ: (یاد رکھو) اللہ تک تو نہ ان کے گوشت ہی پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، البتہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

جانوروں کودیوتاؤ ں کے لئے آزادکرنا :

زمانہ جاہلیت میں اہل عرب مختلف طریقوں سے جانوروں کودیوی دیوتاؤ ں کے نام کرکے چھوڑدیاکرتے تھے ،جن کے مختلف نام تھے۔

بحیرہ:

اہل عرب اس اونٹنی کوکہتے تھے جوپانچ بچے دے چکی ہواوراس نے آخری بار نربچہ جناہو،اس کے بعداس کاکان چیرکراسے آذادچھوڑ دیا جاتا تھا اب وہ کسی بھی کھیت یا کسی کی چراہ گاہ سے چرلے اورجہاں سے چاہئے پانی پی لے،اس پراب نہ کوئی سوار ہوتا،نہ ہی کوئی اورکام لیاجاتااورنہ ہی اس کادودھ پیاجاتااورنہ ہی اس کی اون کاٹی جاتی ۔

 وصیلہ :

اگربکری کاپہلابچہ نرپیداہوتاتووہ اپنے دیوتاوں کی خوشنودی کے لئے ذبح کردیاجاتالیکن اگربکری پہلابچہ مادہ جنتی تواسے ذبح نہ کیاجاتا،اگربکری دوبچے ایک ساتھ دیتی جن میں ایک نرہوتااورایک مادہ تونربچے کودیوتاوں کے نام پرذبح کرنے کے بجائے ایسے ہی آزادچھوڑدیاجاتاتھا۔

سائبہ:

یہ وہ اونٹ یااونٹنی ہوتی جسے کسی نے اپنی کسی بیماری سے شفامندی،کسی ضرورت کے پوراہونے یاکسی بڑے خطرے سے نجات پانے کے بعداپنی نذرکوپوراکرنے کے لئے شکرانے کے طورپرآزادچھوڑدیاجاتا،اسی طرح جواونٹنی لگاتار دس مادہ ہی جنتی اسے بھی کان چیرکر آزادچھوڑدیتے تھے۔جواس بات کی علامت ہوتی کہ اسے آزاد کر دیاگیاہے۔

حام :

اگرکسی اونٹ کے نطفہ سے دس بچے ہو جاتے،یاکسی اونٹ کے بچے کابچہ سواری کے قابل ہوجاتاتھاتواسے بھی آزادچھوڑدیتے تھے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس جھوٹی تہمت پر سرزنش فرمائی۔

مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِیْلَةٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰهِ الْكَذِبَ ۔۔۔ ۝۱۰۳

ترجمہ: اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے، نہ سائبہ، نہ وصیلہ اور نہ حام، مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ جواونٹنی پہلابچہ دیتی(جسے فرع کہتے تھے) اسے بتوں کے نام پر ذبح کردیتے اوررجب کے مہینے میں بھی قربانی کرتے تھے (جسے عتیرہ کہتے تھے) اوراس کی کھال درخت پرلٹکادیتے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ فَرَعَ وَلاَ عَتِیرَةَ قَالَ: وَالفَرَعُ: أَوَّلُ نِتَاجٍ كَانَ یُنْتَجُ لَهُمْ، كَانُوا یَذْبَحُونَهُ لِطَوَاغِیَتِهِمْ، وَالعَتِیرَةُ فِی رَجَبٍ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اسلام میں )فرع اورعتیرہ نہیں ہے،بیان کیاکہ فرع سب پہلے بچے کوکہتے تھے جوان کے یہاں (اونٹنی سے)پیداہوتاتھااسے وہ اپنے بتوں کے نام پرذبح کرتے تھے اورعتیرہ وہ قربانی تھی جسے وہ رجب میں کرتے تھے۔[146]

من مرضی کاحلال وحرام :

اسی طرح ان جانوروں سے جوبچہ زندہ پیدا ہوتا اس نیازکوہرشخص تناول نہیں کرسکتاتھا بلکہ ضابطہ کی روسے مختلف نیازوں کومختلف اقسام کے مخصوص لوگ ہی کھاسکتے تھے اس کاگوشت صرف مردہی کھاسکتے تھے عورتوں کااس میں کوئی حصہ نہیں تھالیکن اگربچہ مردہ پیداہواہوتا یامرجاتاتواس کے گوشت کھانے میں مرد و عورت دونوں شامل ہوسکتے تھے۔

وَقَالُوْا هٰذِهٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ۝۰ۤۖ لَّا یَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَاۗءُ بِزَعْمِهِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللهِ عَلَیْهَا افْتِرَاۗءً عَلَیْهِ۝۰ۭ سَیَجْزِیْهِمْ بِمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۱۳۸وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓی اَزْوَاجِنَا۝۰ۚ وَاِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَهُمْ فِیْهِ شُرَكَاۗءُ۝۰ۭ سَیَجْزِیْهِمْ وَصْفَهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۳۹ [147]

ترجمہ: کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے، پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے، اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افترا کیا ہے، عنقریب اللہ انہیں ان افترا پردازیوں کا بدلہ دے گااور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام، لیکن اگر وہ مردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ، یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا۔

اللہ تعالیٰ نے جانوروں کواس طرح حرام کرنے کے رسم ورواج کے بارے میں فرمایا:

ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ۝۰ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ۝۰ۭ قُلْ ءٰۗالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـیَیْنِ اَمَّا اشْـتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَـیَیْنِ۝۰ۭ نَبِّــــُٔــوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۴۳ۙوَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ۝۰ۭ قُلْ ءٰۗالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَـیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَـیَیْنِ۝۰ۭ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللهُ بِھٰذَا۝۰ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللهِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِـمِیْنَ۝۱۴۴ۧقُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهٖ۝۰ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۴۵ [148]

ترجمہ:یہ آٹھ نرومادہ ہیں دوبھیڑکی قسم سے اوردوبکری کی قسم سے،اے نبی!ان سے پوچھوکہ اللہ نے ان کے نرحرام کیے ہیں یامادہ یاوہ بچے جوبھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگرتم سچے ہو،اوراسی طرح دواونٹ کی قسم سے ہیں اوردوگائے کی قسم سے،ان سے پوچھوان کے نراللہ نے حرام کیے ہیں یامادہ یاوہ بچے جواونٹنی اورگائے کے پیٹ میں ہوں ؟کیاتم اس وقت حاضرتھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کاحکم تمہیں دیاتھا ؟ پھراس شخص سے بڑھ کرظالم اورکون ہوگاجواللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیرلوگوں کوغلط راہ نمائی کرے،یقیناًاللہ ایسے ظالموں کوراہ راست نہیں دکھاتا،اے نبی!ان سے کہوکہ جووحی میرے پاس آئی ہے اس میں تومیں کوئی چیزایسی نہیں پاتاجوکسی کھانے والے پرحرام ہوالایہ کہ وہ مردارہو،یابہایاہواخون ہو یاسورکاگوشت ہوکہ وہ ناپاک ہے یافسق ہوکہ اللہ کے سواکسی اورکے نام پرذبح کیاگیاہو،پھرجوشخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیزان میں سے کھالے) بغیراس کے کہ وہ نافرمانی کاارادہ رکھتاہواوربغیراس کے کہ وہ حدضرورت سے تجاوز کرے،تویقیناًتمہارارب درگزرسے کام لینے والااوررحم فرمانے والاہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاتم خودحلال وحرام کے مختارنہ بن جاؤ حلال وہی ہوگاجواللہ نے حلال کیاہوگااورحرام بھی وہی ہوگاجواللہ حرام فرمائے گا،اگرتم اپنے اختیارسے کسی کو حلال اور کسی کوحرام کروگے تو اللہ کے قانون کی پیروی کرنے کے بجائے اپنے نفس کے پیروکارہوجاوگے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۔۔۔۝۰۝۸۷ [149]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو!جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کردی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔

اموال میں اللہ اوربتوں کاحصہ:

اہل عرب مانتے تھے کہ تمام چیزوں کاخالق اللہ ہی ہے،فصل بھی وہی اگاتاہے اورجانوربھی اسی نے پیدافرمائے ہیں جن سے ہم مختلف خدمات لیتے ہیں مگران کاتصوریہ تھاکہ اللہ ان پراپنافضل وکرم ہمارے دیوی ،دیوتاوں ،فرشتوں ،جنات،کوکب اورہمارے بزرگوں کی ارواح کے طفیل سے ہے ،جن کی ہم پرنظر کرم ہے،ان کااپنے معبودوں کی تعظیم وتکریم کا یہ حال تھاکہ  اللّٰہ نے انہیں جومال ودولت اور مویشی عطا فرمائے تھے ان میں سے دوحصے نکالتے ایک حصہ شکریہ کے طور پر اللہ کے نام اور دوسراحصہ اپنے قبیلہ یاخاندان کے معبودوں کے نام جوان کے اور اللّٰہ کے درمیان واسطے اوروسیلے بن کرحائل تھے وقف کرتے تھے تاکہ ان کی نوازشیں اس طرح شامل حال رہیں ،مگربتوں کو پوجتے پوجتے ان کی عقلیں اتنی موٹی ہوچکی تھیں کہ اگر کسی بنا پر اونچ نیچ ہوجاتی تو اس میں طرح طرح کی چالبازیاں کرکے کمی کرتے رہتے تھے،اورہرصورت سے اپنے خودساختہ شریکوں کاحصہ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے ،مثلا جو غلے ،پھل وغیرہ اللہ کے نام پرنکالے جاتے ان میں سے اگرکچھ گرجاتا تو وہ شریکوں کے حصہ میں شامل کردیا جاتااوراگرشریکوں کے حصہ میں سے گرتایااللہ کے حصہ میں مل جاتا تو اسے انہی کے حصہ میں واپس کیاجاتا،اگرکسی وجہ سے نذرونیازکاغلہ خوداستعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تواللہ کاحصہ کھالیتے تھے مگرشریکوں کے حصہ کوہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلانازل نہ ہوجائے ،کھیت کاجوحصہ شریکوں کی نذرکے لئے مخصوص کیاجاتااگراس میں سے پانی اس حصہ کی طرف پھوٹ بہتاجواللہ کی نذرکے لئے مختص ہوتاتھاتواس کی ساری پیداوارشریکوں کے حصہ میں داخل کردی جاتی لیکن اگراس کے برعکس صورت حال ہوتی تو اللہ کے حصہ میں کوئی اضافہ نہ کیاجاتاتھا،اگرکسی وجہ سے شریکوں کے حصہ میں کچھ کمی آجاتی تووہ اللہ کے حصہ میں سے پوری کی جاتی تھی ،لیکن اللہ کے حصہ میں کمی ہوتی تو شریکوں کے حصہ میں سے ایک دانہ بھی اس میں نہ ڈالاجاتا،اگرکوئی اس طرزعمل پرنکتہ چینی کرتاتوجواب میں طرح طرح کی دلفریب توجیہیں کی جاتیں ،چنانچہ اللہ کاحصہ تویتیموں ،مسکینوں ، بیواوئں ،مسافروں وغیرہ کی امدادکی مدمیں خرچ کیاجاتامگرشریکوں کاحصہ آستانوں پر چڑھاؤ ں کی صورت میں پیش کیاجاتااس طرح یہ حصہ مجاوروں اورپوجاریوں تک بالواسطہ پہنچ جاتاتھا،اس لئے ان خودغرض وحریص مذہبی پیشواؤ ں سے یہ تلقین کی جاتی رہتی تھی کہ اللہ کے حصہ میں کچھ کمی واقع ہوجائے توکچھ مضائقہ نہیں وہ غنی ہے اسے کیاپرواہ ہو سکتی ہے مگر اس کے پیاروں کے حصہ میں بالکل کمی نہیں ہونی چاہیے بلکہ حتی الامکان کچھ بیشی ہی ہوتی رہے توبہترہے،کیونکہ یہ اللہ کی طرح غنی نہیں ہیں اس لئے معمولی سی کمی سے ان کے ہاں گرفت ہوجاتی ہے، اس طرح وہ تعصب کی حدتک کفرو شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔

وَجَعَلُوْا لِلهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا۝۰ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللهِ۝۰ۚ وَمَا كَانَ لِلهِ فَهُوَیَصِلُ اِلٰی شُرَكَاۗىِٕهِمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۱۳۶ [150]

ترجمہ :ان لوگوں نے اللہ کے لیے خود اسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے، بزعم خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے، پھر جو حصہ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے، کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ۔

نمازکی ادائیگی :

عمروبن لحی کی بت پرستی اور ان کی خوشنودی کے لئے رسومات شروع کرنے کی وجہ سے ان میں دین ابراہیمی تو نہ رہا اورنہ ہی ان میں توحیدکی کوئی رمق رہی مگروہ خودکو ان کے پھیلائے ہوئے دین کا پیروکار ہی سمجھتے تھے حالانکہ وہ رب کویاد کرنے کے لئے نماز(جوایمان کی فیصلہ کن علامت،دائرہ اسلام میں داخلہ کا ثبوت ، اتباع شریعت کی ضمانت ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت کاذریعہ،روحانی قوتوں اورصبرواستقامت کاسرچشمہ ،برائیوں سے روکنے والی ہے) تک نہیں پڑھتے تھے اور اگر پڑھتے بھی توبیت  اللّٰہ کے پاس سیٹیاں تالیاں پیٹی جاتیں ،سیٹیاں بجائی جاتیں اورنرسنگھے پھونکے جاتے تھے ۔

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِیَةً۔۔۔۝۳۵ [151]

ترجمہ: بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں ۔

اورنہ ہی زکوٰة ادا کرتے تھے جو دین اسلام کاہمیشہ سے خاصہ رہاہے۔

تعویذ،گنڈے:

جس طرح آج کل بیماری سے شفایابی یاتحفظ کے اعتقاد کے ساتھ بازؤ ں پر تعویذ باندھے جاتے ہیں ،گلے میں منکے ڈالے جاتے ہیں اورکلائیوں میں کڑے پہنے جاتے ہیں اسی طرح اہل عرب بھی نظربد،جادواورمکروفریب سے بچنے کے لئے خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی پہن لیتے تھے، اہل عرب کایہ بھی خیال تھاکہ بعض پتھر ، درختوں ،حیوانوں اوربعض دھاتوں میں بھی کچھ ایسے اثرات ہوتے ہیں جوان سے جنوں کاخطرہ یاانسانوں کی نظربدٹال سکتے ہیں ،لہذاانہوں نے کثرت سے ان کے تعویذلٹکائے اوراس کاعقیدہ دلوں میں بٹھالیا،بطورنمونہ ان کے بعض تعویذیہ تھے۔

xنفرہ:نظربدکے خوف سے کوئی چیزجس سے جنات اورانسان دونوں نفرت کرتے بچے کی گردن میں لٹکادی جاتی،ان کاخیال تھاکہ اس سے بچے کونظرنہیں لگتی،کبھی کبھی یہ کام نجس وناپاک چیزسے بھی کیاجاتاتھامثلاحیض کے گندے چیتھڑے یاہڈیاں وغیرہ لٹکادیتے،کبھی گندے قسم کے جانوروں مثلاقنفذ(سہیہ)وغیرہ کے نام لکھ کرلٹکادیاکرتے تھے۔

xلومڑی اوربلی کے دانت کے تعویذبھی لٹکائے جاتے تھے۔

xعقرہ:ریٹھوں کے تعویذتیارکیے جاتے جسے عورت اپنی کمرمیں باندھ لیتی تاکہ وہ بانجھ ہوجائے اوربچہ پیدانہ ہو۔

xینجلب:روٹھے ہوئے شوہرکومناتے اورناراضگی کے بعداس کی شفقت ومحبت کودوبارہ واپس لانے کے لئے بھی ریٹھوں کے تعویذتیارکیے جاتے تھے۔

xتولہ:قرزحلہ،دردبیس،کحلہ،کراراورہمرہ یہ سب تعویذریٹھوں اورموتیوں کے بنے ہوتے تھے جوپریم منترکی حیثیت رکھتے تھے اورشوہرکی محبت حاصل کرنے کے لئے لٹکائے جاتے تھے،ان کے خیال میں کراراورہمرہ نام کے تعویذکاایک خاص منترہے اوروہ یہ ہے،یاکرارکریہ،یاھمرہ اھمریہ،ان اقبل فسریہ،وان ادبرفضریہ من فرجہ الی فیہ ترجمہ:اے لوٹانے والے ریٹھے تواسے لوٹادے،اے رلانے والی موتیاں تواسے رلادے ،اگروہ واپس آتاہے تواسے خوش رکھ اوراگروہ دورجاتاہے تواسے اس کی شرمگاہ سے لے کراس کے منہ تک تکلیف میں مبتلاکردے۔

xخصمہ:یہ موتیوں کے وہ تعویذہوتے تھے جوبادشاہ کے دربارمیں حاضری کے لئے یامیدان جنگ میں جانے سے پہلے انگوٹھی کے نیچے،قمیص کے بٹن یاتلوارکے پٹہ میں رکھے جاتے تھے۔

xعطفہ:یہ موتیوں کے وہ تعویذتھے جوپہننے والے کوشفقت ومحبت دلاتے تھے۔

xقبلہ:یہ سفیددانوں کاتعویذہوتاتھاجوگھوڑوں کونظربدسے بچانے کے لئے ان کے گلے میں ڈال دیاجاتاتھا،اگرکسی شخص کے پاس ایک ہزاراونٹ ہوجاتے تواونٹوں کونظرلگ جانے کے خوف سے ازالہ کے طور پرایک اونٹ کی آنکھ پھوڑڈالتا۔

xودعہ:یہ سمندرسے حاصل ہونے والے ایک طرح کے پتھر(کوڑی،گھونگا)کاتعویذہوتاتھاجوآنکھ کی تکلیف دورکرنے کے لئے استعمال ہوتاتھا۔

جس شخص کوسانپ یابچھوکاٹ لیتاتواسے سونے کازیورپہنادیاجاتا،ان کااعتقادتھاکہ اس سے شفاہوجاتی ہے،اس کے برعکس ان کاعقیدہ تھاکہ اس ڈسے ہوئے شخص کواگردھات کازیورپہنایاگیاتووہ مرجائے گا۔

xتحویطہ:نظربدسے بچنے کے لئے عورتیں سرخ وسیاہ رنگ کابٹاہوادھاگہ جس میں کچھ موتیاں اورچاندی کابناہواچاندہوتاتھااپنی کمرمیں باندھ لیتی تھیں ۔

(تعویذوں کے لئے ملاحظہ فرمائیں المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کے ردمیں فرمایا

وَاِنْ یَّمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَاِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۷ [152]

ترجمہ: اور اگر اللہ تمہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جوتمہیں اس نقصان سے سکے اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہرچیز پرقادرہے۔

وَاِنْ یَّمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ وَاِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ۝۰ۭ یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ۝۰ۭ وَھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۱۰۷ [153]

ترجمہ:اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

۔۔۔وَعَلَی اللهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۲۳ [154]

ترجمہ:، اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر تم واقعی ایماندار ہو۔

۔۔۔ وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝۱۲ۧ [155]

ترجمہ: اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسہ اللہ ہی پرہونا چاہیے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ: أَنَّهُ رَكِبَ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا غُلامُ، إِنِّی مُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: احْفَظِ اللَّهَ یَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، وَإِذَا سَأَلْتَ فاَسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ یَنْفَعُوكَ، لَمْ یَنْفَعُوكَ إِلا بِشَیْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ یَضُرُّوكَ، لَمْ یَضُرُّوكَ إِلا بِشَیْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَیْكَ، رُفِعَتِ الْأَقْلامُ، وَجَفَّتِ الصُّحُفُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پربیٹھاہواتھاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایااے لڑکے!میں تجھے چندکلمات سکھاتاہوں (اسے یادرکھنا)اللہ کویادرکھووہ تمہاری حفاظت کرے گااللہ کویادرکھوتم اسے اپنے سامنے پاؤ گے،جب تم مانگوتواللہ ہی سے مانگواورجب تم مددطلب کروتواللہ ہی سے مددطلب کرواوریہ یقین جانوکہ اگرپوری دنیاوالے تمہیں نفع پہنچانے کے لئے جمع ہوجائیں توتمہیں اتناہی نفع پہنچاسکیں گے جتنااللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھاہے، اوراگرساری دنیاوالے تمہیں نقصان پہنچانے پرتل جائیں تواتناہی نقصان دے سکیں گے جتنااللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھاہے،قلم اٹھالئے گئے ہیں اورصحیفے خشک ہوگئے ہیں ۔[156]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَیْهِ رَهْطٌ، فَبَایَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، بَایَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا؟ قَالَ:إِنَّ عَلَیْهِ تَمِیمَةً» فَأَدْخَلَ یَدَهُ فَقَطَعَهَا، فَبَایَعَهُ، وَقَالَ:مَنْ عَلَّقَ تَمِیمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ

عقبہ بن عامرجہنی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے دس افرادپرمشتمل ایک وفدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے نوافرادسے بیعت کی لیکن ایک شخص سے نہیں کی،انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے نوافرادسے بیعت کی مگرایک شخص کوچھوڑدیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے بازومیں تعویذبندھی ہے اس شخص نے ہاتھ اندرداخل کرکے تعویذکاٹ ڈالی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کی، اورفرمایاجس نے تعویذباندھی اس نے شرک کیا۔[157]

عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیمَةً، فَلَا أَتَمَّ اللَّهُ لَهُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةً، فَلَا وَدَعَ اللَّهُ لَهُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں ہے جس نے تعویذباندھا اللہ اس کوکامیاب نہ کرے اورجس نے منکے باندھے اللہ اسے راحت و سکون نصیب نہ کرے ۔ [158]

أَخْبَرَنِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ عَلَى عَضُدِ رَجُلٍ حَلْقَةً، أُرَاهُ قَالَ مِنْ صُفْرٍ، فَقَالَ:وَیْحَكَ مَا هَذِهِ؟ قَالَ: مِنَ الْوَاهِنَةِ؟ قَالَ:أَمَا إِنَّهَا لَا تَزِیدُكَ إِلَّا وَهْنًا انْبِذْهَا عَنْكَ؛ فَإِنَّكَ لَوْ مِتَّ وَهِیَ عَلَیْكَ مَا أَفْلَحْتَ أَبَدًا

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں تانبے کاچھلہ دیکھاتوفرمایایہ کیاہے ؟اس نے عرض کیاریاح کی وجہ سے پہن رکھاہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایااسے نکال دوکیونکہ یہ بیماری کوزیادہ ہی کرے گااوراگرتم اس حال میں مرگئے کہ یہ تمہارے جسم پرباقی رہاتوکبھی کامیاب نہ ہوگے۔[159]

عِیسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَیْمٍ وَهُوَ مَرِیضٌ نَعُودُهُ فَقِیلَ لَهُ: لَوْ تَعَلَّقْتَ شَیْئًا، فَقَالَ: أَتَعَلَّقُ شَیْئًا، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُكِلَ إِلَیْهِ

عیسیٰ بن عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم عبداللہ بن عکیم کے پاس عیادت کے لئے گئے ،ان کے بدن پرسرخی تھی،ان سے کہاگیاکہ اگرآپ کوئی تعویذ لٹکا لیں (تو شایدعافیت ہو جائے)توانہوں نے کہاکیامیں تعویزلٹکاؤ ں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہےجوشخص (اپنے گلے میں ) کوئی چیزلٹکائے اس کو اسی کے حوالہ کردیاجائے گا یعنی پھرتائیدغیبی نہ ہوگی۔[160]

رُوَیْفِعَ بْنَ ثَابِتٍ یَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَا رُوَیْفِعُ، لَعَلَّ الْحَیَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِی، فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْیَتَهُ، أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا، أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِیعِ دَابَّةٍ أَوْ عَظْمٍ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا بَرِیءٌ مِنْهُ

رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے رویفع !شایدمیرے بعدتمہاری زندگی لمبی ہوتوتم لوگوں کوبتادیناکہ جس نے اپنی داڑھی میں گرہ لگائی یاتانت کاپٹہ پہنایاجانوروں کے گوبریاہڈی سے استنجاکیا تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اس سے بری ہیں ۔[161]

عَنْ عُرْوَة قَالَ: دَخَلَ حُذَیْفَةُ عَلَى مَرِیضٍ، فَرَأَى فِی عَضُدِهِ سَیْرًا فَقَطَعَهُ أَوِ: انْتَزَعَهُ ثُمَّ قَالَ:{وَمَا یُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک بیمار کے پاس گئے تواس کے بازومیں پٹہ دیکھاتواسے کاٹ دیایااتارکرپھینک دیااورقرآن مجید کی یہ آیت پڑھی۔ ان میں سے اکثرلوگ تواللہ کومانتے ہیں مگراس طرح سے کہ اس کے ساتھ دوسروں کوشریک ٹھہراتے ہیں ۔[162]

اہل عرب اپنے عقیدے کے مطابق نظربدسے بچنے کے لئے اونٹ کی گردن میں مضبوط تانت کی مالاڈال دیتے تھے ،

عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ؛ أَنَّ أَبَا بَشِیرٍ الْأَنْصَارِیَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله علیه وسلم فِی بَعْضِ أَسْفَارِهِ. قَالَ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صلى الله علیه وسلم رَسُولاً . فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: وَالنَّاسُ فِی مَقِیلِهِمْ: لاَ تَبْقَیَنَّ فِی رَقَبَةِ بَعِیرٍ قِلاَدَةٌ مِنْ وَتَرٍ، أَوْ قِلاَدَةٌ، إِلاَّ قُطِعَتْ.

اس کے بارے میں عبادبن تمیم  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوبشیرانصاری رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفرمیں تھے ،عبداللہ بن ابی بکرکہتے ہیں میراخیال ہے کہ انہوں نے کہاکہ اورلوگ سورہے تھے،توآپ نے قاصدبھیج کرلوگوں کوحکم فرمایاکسی اونٹ کی گردن میں تانت کی مالایاکوئی مالاہرگزباقی نہ رہے بلکہ کاٹ دیاجائے۔[163]

قَالَ یَحْیَى: سَمِعْتُ مَالِكاً یَقُولُ: أُرَى ذلِكَ مِنَ الْعَیْنِ.

یحییٰ کہتے ہیں میں نے امام مالک رحمہ اللہ کوکہتے ہوے سنا میراخیال ہے کہ یہ تانت کی مالانظربدکی وجہ سے تھی۔[164]

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ، هُمُ الَّذِینَ لاَ یَسْتَرْقُونَ، وَلاَ یَتَطَیَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری امت میں سےسترہزارآدمی جنت میں بغیرحساب وکتاب کے داخل ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جونہ بدشگونی لیں گے ،نہ داغنے سے علاج کریں گے اورنہ جھاڑپھونک کرائیں گے بلکہ اپنے رب پرکامل بھروسہ کریں گے۔ [165]

عَنْ زَیْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَةٍ فَانْتَهَى إِلَى الْبَابِ، تَنَحْنَحَ وَبَزَقَ، كَرَاهِیَةَ أَنْ یَهْجُمَ مِنَّا عَلَى شَیْءٍ یَكْرَهُهُ، قَالَتْ: وَإِنَّهُ جَاءَ ذَاتَ یَوْمٍ، فَتَنَحْنَحَ، قَالَتْ: وَعِنْدِی عَجُوزٌ تَرْقِینِی مِنَ الْحُمْرَةِ، فَأَدْخَلْتُهَا تَحْتَ السَّرِیرِ، فَدَخَلَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِی، فَرَأَى فِی عُنُقِی خَیْطًا، قَالَ: مَا هَذَا الْخَیْطُ؟ قَالَتْ: قُلْتُ خَیْطٌ أُرْقِیَ لِی فِیهِ، قَالَتْ: فَأَخَذَهُ فَقَطَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ لَأَغْنِیَاءُ عَنِ الشِّرْكِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں عبداللہ جب گھرآتے تودروازہ پرپہنچ کرکھنکھارتے اورتھوکتے تاکہ اچانک ہم میں کوئی ایسی چیزنہ دیکھ لیں جوانہیں ناپسندیدہ ہو، فرماتی ہیں کہ ایک دن وہ آئے اورحسب عادت کھنکھارا،اس وقت میرے پاس ایک بوڑھی عورت تھی جومجھے حمرہ (ایک قسم کی وبائی بیماری جس سے بخار آجاتاہے)کی وجہ سے جھاڑپھونک کررہی تھی ،میں نے اس عورت کوچارپائی کے نیچے چھپادیا،عبداللہ میرے پاس آئے اورمیرے بغل میں بیٹھ گئے ،انہوں نے میرے گلے میں ایک دھاگادیکھا،پوچھایہ کیسا دھاگا ہے؟میں نے کہایہ دھاگاہے جس میں میرے لئے دم کیاگیاہے، وہ کہتی ہیں یہ سن کرعبداللہ نے اسے پکڑکرکاٹ دیا اورکہابیشک عبداللہ کاخاندان شرک سے بے نیازہے،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرمارہے تھےجھاڑ،پھونک ،تعویذ اور محبت کامنتریہ سب شرک ہیں ۔[166]

اوراللہ تعالیٰ نے شرک کے بارے میں ارشاد فرمایا۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِیْمًا  [167]

ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے، اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی ۔

یہ تھی اہل عرب کی معاشرتی زندگی جس میں لوگوں کاخصوصاعورتوں اورلونڈی غلاموں کاسانس لینابھی مشکل ہورہاتھا الغرض بتوں ،ملائکہ،جنوں کی عبادات ان پراداکی جانے والی رسومات ،ہرطرح کی توہمات،قبائل کے باہمی نزاع وقتل وغارت،کہانت ،رہزنی وسرقہ،شراب وقماربازی اورفحاشی ان کی زندگی کے لازمی جزوبن چکے تھے ، مگر وہ خودکو ہرقوم کی مذہبی و معاشی اور معاشرتی حالت اوران کی تہذیب وتمدن سے خودکو بہترتصورکرتے تھے ،یہ تھاعرب جس کوکفروالحادکی تاریکیوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اوریہ ظلمتیں صرف عرب کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھیں بلکہ عرب کے گرداگردایران ،ہند،مصر،یورپ اوربراعظم افریقہ بھی عالمگیراندھیروں کی ذدمیں گھرے ہوئے تھے اور اعلائے کلمة اللہ اوردعوت توحیدکے لئے چپہ بھرزمین ڈھونڈھے سے نہیں ملتی تھی ۔

[1] الصافات۱۲۵

[2] ابن ہشام ۸۶؍۱، الروض الانف۲۲۲؍۱

[3] ابن ہشام۸۱؍۱ ،البدایة والنہایة۱۹۱؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۶۹؍۱

[4] الزخرف۸۷

[5] المومنون۸۴،۸۵

[6] الزمر۳۸

[7] المومنون ۸۶،۸۷

[8] المومنون۸۸،۸۹

[9] یونس ۳۱

[10] العنکبوت ۶۱

[11] العنکبوت ۶۳

[12] العنکبوت۶۵

[13] یونس۲۲،۲۳

[14] بنی اسرائیل۶۷

[15] تفسیرالنیساپوری۴۶۰؍۲

[16] تفسیر النیساپوری۴۶۱؍۲

[17] سنن ابوداود كِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ: أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَیْنًا۵۲۲۷

[18]بنی اسرائیل۴۶

[19]الزمر۴۵

[20]المومن۱۲

[21] الاعراف ۵۴

[22] الجاثیة۲۴

[23] الواقعة ۴۷

[24] مریم ۶۶

[25]السجدة ۱۰

[26] النحل ۳۸

[27] النازعات ۱۰تا۱۲

[28]الکہف ۳۶

[29] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ التَّلْبِیَةِ۱۵۴۹،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ التَّلْبِیَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا عن ابن عمر ۲۸۱۱ ،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ كَیْفَ التَّلْبِیَةُ ۱۸۱۲،سنن نسائی کتاب الحج بابكَیْفَ التَّلْبِیَةُ۲۷۴۸، مسند احمد ۴۸۲۱

[30] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ التَّلْبِیَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا عن ابن عباس ۲۸۱۵

[31] الروض الانف۲۱۲؍۱

[32] تفسیرالبیضاوی۷۵؍۴،تفسیرابن کثیر۴۴۲؍۵،تفسیر النیساپوری۹۰؍۵، تفسیرالجلالین۴۴۱؍۱، تفسیرالقرطبی۶۵؍۱۲، تفسیر الخازن۲۶۰؍۳،عیون الاثر ۱۳۹؍۱

[33] ابن ہشام۷۷؍۱

[34] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۱۷۷؍۲

[35] تفسیرابن کثیر ۲۰۹؍۳

[36] الاكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله صلى الله علیه وسلم والثلاثة الخلفاء۶۳؍۱

[37] فتح الباری ۶۱۲؍۸

[38] فتح الباری ۶۱۲؍۸، السرایا والبعوث النبویة حول المدینة ومكة۲۹۶؍۱

[39] المفصل فى تاریخ العرب قبل الإسلام۲۳۳؍۱۱

[40]صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ قِصَّةِ خُزَاعَةَ ۳۵۲۱،وكِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِیرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ، وَلاَ وَصِیلَةٍ وَلاَ حَامٍ ۴۶۲۳،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ ۷۱۹۲، مسند احمد ۷۷۱۰

[41] ابن ہشام ۷۶؍۱

[42] ابن ہشام۷۷؍۱

[43] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ وَفْدِ بَنِی حَنِیفَةَ، وَحَدِیثِ ثُمَامَةَ بْنِ أُثَالٍ ۴۳۷۶

[44] الانبیاء ۲۱

[45] النحل ۱۷

[46] النحل ۲۰،۲۱

[47]النجم۱۹،۲۰

[48] الصافات۱۲۵

[49] نوح۲۳

[50] النجم ۴۹

[51] ابن ہشام۵۷۴؍۲

[52] ابن ہشام ۸۳؍۱

[53] ابن ہشام۸۴؍۱

[54] فتح الباری ۶۱۲؍۸

[55] فتح الباری ۶۱۲؍۸

[56] الروض الانف۲۲۱؍۱

[57] مغازی واقدی۸۷۰؍۲

[58]ابن ہشام۸۰؍۱

[59] ابن ہشام۷۸؍۱

[60] ابن ہشام۷۸؍۱

[61] ابن ہشام۷۹؍۱

[62] المفصل فى تاریخ العرب قبل الإسلام۲۷۰؍۱۱

[63] ابن ہشام۸۵؍۱

[64] البدایة والنهایة۲۴۳؍۲

[65] المفصل فى تاریخ العرب قبل الإسلام۲۱؍۱۲

[66] البدایة والنهایة۲۷۸؍۲

[67] ابن ہشام۸۷؍۱

[68] مرآة الجنان وعبرة الیقظان فی معرفة ما یعتبر من حوادث الزمان۱۰۲؍۱

[69] المفصل فى تاریخ العرب قبل الإسلام۲۱؍۱۲

[70] ابن ہشام۸۷؍۱

[71] سیرة ابن إسحاق۔السیر والمغازی۳۲؍۱

[72] ابن ہشام ۱۵۲؍۱،سیرة ابن إسحاق ۔ السیر والمغازی۳۲؍۱

[73] ابن ہشام۹۳؍۲

[74] الروض الانف۲۲۴؍۱

[75] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سورۂ بنی اسرائیل بَابُ وَقُلْ جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا۴۷۲۰

[76] صحیح بخاری کتاب المغازی بابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟۴۲۸۸

[77] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ بنی اسرائیلبَابُ وَقُلْ جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ إِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۴۷۲۰،صحیح مسلم کتاب الجھادوالسیربَابُ إِزَالَةِ الْأَصْنَامِ مِنْ حَوْلِ الْكَعْبَةِ ۴۶۲۵

[78] صحیح بخاری کتاب المغازی بابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟۴۲۸۸

[79] البقرة ۱۹۸

[80] الصافات ۱۵۸

[81] النحل ۵۷

[82]النجم ۲۲،۲۱

[83] الصافات ۱۴۹

[84]النجم ۲۷

[85] الانبیاء ۲۶

[86] الزخرف ۱۹

[87] الاعراف ۲۰۶

[88] الانبیاء ۲۶،۲۷

[89] سبا ۴۰،۴۱

[90] المفصل فی تاریخ العرب قبل اسلام۳۸۴؍۱۲

[91] الجن ۶

[92] الانعام ۱۰۰

[93] الانعام۱۲۸تا۱۳۰

[94] النمل ۶۵

[95] الاعراف۱۸۸

[96] سبا۱۴

[97] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ تَحْرِیمِ الْكَهَانَةِ وَإِتْیَانِ الْكُهَّانِ ۵۸۲۱، مسنداحمد ۱۶۶۳۸،السنن الکبری للبیھقی۱۶۵۱۰،معجم الاوسط ۱۴۰۲

[98] مسند احمد ۹۵۳۶، جامع ترمذی کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ إِتْیَانِ الحَائِضِ۱۳۵،سنن ابی داودکتاب الکھانة والتطیربَابٌ فِی الْكَاهِنِ۳۹۰۴

[99] الانعام ۵۰

[100] مسند احمد ۱۹۵۶۹،مستدرک حاکم۷۲۳۴ ،صحیح ابن حبان ۵۳۴۶

[101] المائدة ۳

[102] المائدہ ۹۰

[103] المعجم الاوسط للطبرانی۲۶۶۳،شعب الایمان ۱۰۲۵۴

[104] صحیح مسلم کتاب الشعربَابُ تَحْرِیمِ اللَّعِبِ بِالنَّرْدَشِیرِ ۵۸۹۶،مسنداحمد۲۳۰۵۶،صحیح ابن حبان۵۸۷۳،شعب الایمان ۶۰۷۷، السنن الکبری للبیہقی۲۰۹۴۹

[105] المجموع شرح المھذب۴۴۶؍۸

[106] مسند احمد ۲۷۱۳۹، المجموع شرح المھذب۴۴۶؍۸

[107] سنن ابوداودکتاب الکھانة والتطیر بَابٌ فِی الطِّیَرَةِ۳۹۱۱

[108] النمل۴۷

[109] الاعراف ۱۳۱

[110] یٰسین۱۸

[111] یٰسین ۱۹

[112] مسندالبزار۳۵۷۸،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۵۵

[113] سنن ابوداودکتاب الکھانة والتطیر بَابٌ فِی الطِّیَرَةِ ۳۹۱۰

[114] الازمنہ والامکنہ ۳۸۵؍۱

[115]التوبة ۳۷

[116] التوبة۳۶

[117] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ قَوْلِهِ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِی كِتَابِ اللَّهِ، یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّینُ۴۶۶۲

[118] صحیح مسلم کتاب الحج بَابٌ فِی الْوُقُوفِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ۲۹۵۵

[119]ابن ہشام۱۹۹،۲۰۰؍۱

[120] ابن اسحاق۹۸؍۱

[121] البقرة ۱۹۸

[122] صحیح بخاری کتاب العمرة بَابُ مَنْ نَذَرَ المَشْیَ إِلَى الكَعْبَةِ ۱۸۶۵،جامع ترمذی ابواب النذور بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَحْلِفُ بِالمَشْیِ وَلاَ یَسْتَطِیعُ ۱۵۳۷،سنن ابوداودکتاب الایمان والنذر بَابُ مَنْ رَأَى عَلَیْهِ كَفَّارَةً إِذَا كَانَ فِی مَعْصِیَةٍ۳۳۰۱،سنن ابن ماجہ کتاب الکفارت بَابُ مَنْ نَذَرَ أَنْ یَحُجَّ مَاشِیًا ۲۱۳۶

[123] سنن ابوداود کتاب الایمان والنذوربَابُ مَنْ رَأَى عَلَیْهِ كَفَّارَةً إِذَا كَانَ فِی مَعْصِیَةٍ ۳۲۹۳،سنن نسائی کتاب الایمان النذورإِذَا حَلَفَتِ الْمَرْأَةُ لِتَمْشِیَ حَافِیَةً غَیْرَ مُخْتَمِرَةٍ۳۸۴۶،سنن ابن ماجہ کتاب الکفارت بَابُ مَنْ نَذَرَ أَنْ یَحُجَّ مَاشِیًا۲۱۳۵

[124]سنن ابوداود کتاب الایمان والنذوربَابُ مَنْ رَأَى عَلَیْهِ كَفَّارَةً إِذَا كَانَ فِی مَعْصِیَةٍ۳۲۹۵

[125] صحیح بخاری کتاب الحجبَابُ الوُقُوفِ بِعَرَفَةَ۱۶۶۵،صحیح مسلم کتاب الحج بَابٌ فِی الْوُقُوفِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ۲۹۵۵

[126] عیون الاثر ۲۸۴؍۲، إمتاع الأسماع۹۲؍۲،السیرة الحلبیة = إنسان العیون فی سیرة الأمین المأمون۲۹۶؍۳،شرح الزرقانی على المواهب اللدنیة۱۱۶؍۴

[127] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ لاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَلاَ یَحُجُّ مُشْرِكٌ ۱۶۲۲

[128] الاعراف ۳۲

[129] الاعراف ۳۱

[130] صحیح بخاری  کتاب مناقب الانصار  باب أَیَّامِ الجَاهِلِیَّةِ ۳۸۳۴

[131]صحیح بخاری کتاب الایمان والنذوربَابُ النَّذْرِ فِیمَا لاَ یَمْلِكُ وَفِی مَعْصِیَةٍ ۶۷۰۳،سنن نسائی کتاب الایمان والنذورباب النَّذْرُ فِیمَا لَا یُرَادُ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ۳۸۴۲

[132] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ الكَلاَمِ فِی الطَّوَافِ ۱۶۲۰،سنن نسائی کتاب الایمان والنذوربابالنَّذْرُ فِیمَا لَا یُرَادُ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ۳۸۴۲

[133] فتح الباری۴۸۲؍۳

[134]البقرة ۱۹۷

[136] صحیح بخاری کتاب المناسک بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالحَجِّ، وَفَسْخِ الحَجِّ لِمَنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُ هَدْیٌ عن ابن عباس ۱۵۶۴،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِی أَشْهُرِ الْحَجِّ۳۰۰۹ ،وبَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ یَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى یَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ ۲۹۱۰

[137] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ رُكُوبِ البُدْنِ ۱۶۸۹،صحیح مسلم کتاب الج بَابُ جَوَازِ رُكُوبِ الْبَدَنَةِ الْمُهْدَاةِ لِمَنِ احْتَاجَ إِلَیْهَا عن ابوہریرہ ۳۲۰۸،جامع ترمذی کتاب ابواب الحج بَابُ مَا جَاءَ فِی رُكُوبِ البَدَنَةِ عن انس بن مالک ۹۱۱،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابٌ فِی رُكُوبِ الْبُدْنِ ۱۷۶۰،سنن نسائی کتاب الحج بَابٌ رُكُوبِ الْبُدْنِ۲۸۰۳

[138] البقرة ۱۹۷

[139] البقرة: 198

[140] صحیح بخاری کتاب التفسیر البقرة بَابُ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ۴۵۱۹

[141] البقرة ۱۸۹

[142] ابن ہشام۲۰۲؍۱

[143] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ رُكُوبِ البُدْنِ ۱۶۹۰،صحیح مسلم کتاب الج بَابُ جَوَازِ رُكُوبِ الْبَدَنَةِ الْمُهْدَاةِ لِمَنِ احْتَاجَ إِلَیْهَا  ۳۲۱۱

[144] الحج ۳۳

[145] الحج ۳۷

[146] صحیح بخاری کتاب العقیقة بَابُ العَتِیرَةِ ۵۴۷۴، شرح السنة للبغوی۱۱۲۹،السنن الکبری للبیہقی۱۹۳۴۷،مصنف ابن ابی شیبة۲۴۲۹۸

[147]الانعام ۱۳۸،۱۳۹

[148] الانعام۱۴۳تا۱۴۵

[149] المائدة ۸۷

[150] الانعام ۱۳۶

[151] الانفال ۳۵

[152]الانعام ۱۷

[153] یونس۱۰۷

[154] المائدة۲۳

[155] ابراہیم۱۲

[156] مسنداحمد۲۶۶۹

[157] مسنداحمد۱۷۴۲۲

[158] مسنداحمد ۱۷۴۰۴ ، مستدرک حاکم۷۵۰۱،صحیح ابن حبان ۶۰۸۶

[159] مسند احمد ۲۰۰۰۰

[160] مسنداحمد ۱۸۷۸۱،جامع ترمذی کتاب الطب بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ التَّعْلِیقِ ۲۰۷۲،سنن نسائی کتاب المحاریة باب الْحُكْمُ فِی السَّحَرَةِ ۴۰۸۴

[161] سنن نسائی كِتَابُ الزِّینَةِ من السنن عَقْدُ اللِّحْیَةِ ۵۰۷۰،مسند احمد ۱۶۹۹۶

[162] تفسیرابن کثر۴۱۸؍۴

[163] موطاامام مالک کتاب الجامع باب مَا جَاءَ فِی نَزْعِ الْمَعَالِیقِ وَالْجَرَسِ مِنَ الْعَیْنِ۷۳۳

[164] موطاامام مالک کتاب الجامع باب مَا جَاءَ فِی نَزْعِ الْمَعَالِیقِ وَالْجَرَسِ مِنَ الْعَیْنِ۷۳۳

[165]صحیح بخاری كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابٌ وَمَنْ یَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ۶۴۷۲،مسنداحمد۲۹۵۲

[166] مسند احمد ۳۶۱۵، سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ تَعْلِیقِ التَّمَائِمِ ۳۵۳۰

[167] النسا ئ۴۸

Related Articles