مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

قحبہ گری اورزناکاری

عرب میں قحبہ گری اورزناکاری عام سی بات تھی ماسوائے چنداشخاص کے کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتاتھا اس سے مستثنیٰ نہیں تھا، جنہیں انہوں نے نکاح کا نام دیاہواتھا۔اس زنا کاری (نکاح)کے کئی طریقے تھے ۔

صواحبات الرایات(جھنڈیوں والیاں ):

نکاح کی ایک صورت میں ایسی آزادشدہ لونڈیاں شامل ہوتیں جن کی پشت پرکوئی خاندان یاقبیلہ نہ ہوتا،اس کاطریقہ یوں تھا

یَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِیرُ، فَیَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَایَا كُنَّ یَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَایَاتٍ یَكُنَّ عَلَمًا لِمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَیْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ فَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا، وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِی یَرَوْنَ فَالْتَاطَهُ، وَدُعِیَ ابْنَهُ لَا یَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ

بہت سے لوگ اکٹھے ہوتے اور عورت پرداخل ہوتے وہ کسی کوبھی انکارنہ کرتی اوریہ طوائفیں ہوتی تھیں ،انہوں نے اپنے خواہش مندوں کے لئے بطور علامت اپنے دروازوں پرجھنڈے لگائے ہوتے تھے جوبھی ان کاخواہش مندہوتاان کے پاس چلاجاتاتھاجب کوئی حاملہ ہوتی اوربچہ جنتی توان لوگوں کواکٹھاکیاجاتااوروہ لوگ اپنے لئے کسی قیافہ شناس کوطلب کرتے،پھروہ اس بچے کوجس کے(مشابہ)دیکھتاملحق کردیتااوروہ اس کے ساتھ منسوب وملحق ہوجاتااوراس کابیٹاپکاراجاتا،وہ اس کاانکارنہ کرسکتا تھا،ان پیشہ ورعورتوں کوصواحبات الرایات (جھنڈیوں والیاں )کہاجاتاتھا۔[1]

نکاح استبضاع :

زناکاری کی ایک قسم نکاح استبضاع تھا اس کا مقصد کسی شریف ،فیاض ، بہادریاکسی وصف میں صاحب کمال شخص سے نطفہ حاصل کرنا ہوتا تھااس کاطریقہ یوں تھا۔

 كَانَ الرَّجُلُ یَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا: أَرْسِلِی إِلَى فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِی مِنْهُ، وَیَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلاَ یَمَسُّهَا أَبَدًا، حَتَّى یَتَبَیَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِی تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَیَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ

کوئی شخص اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو اس کامرداس سے کہتاتوفلاں (صاحب کمال) شخص کے پاس چلی جااوراس سے منہ کالاکرالے( نطفہ حاصل کرلے) اس مدت میں شوہراپنی بیوی سے جدارہتااوراسے چھوتا بھی نہیں ، پھرجب اس غیرمردسے اس کاحمل ظاہرہوجاتاجس سے وہ عارضی طورپرصحبت کرتی رہتی توحمل کے ظاہرہونے کے بعداس کاشوہراگرچاہتاتواس سے صحبت کرتا۔[2]

یعنی عورت اوراس کی عفت وعصمت کے متعلق جاہلی احساسات ذلت وکمینگی کی حدودتک پہنچ چکے تھے۔

نکاح کاایک اورطریقہ:

یَجْتَمِعُ الرَّهْطُ دُونَ الْعَشَرَةِ، فَیَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ یُصِیبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ، وَمَرَّ لَیَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا، أَرْسَلَتْ إِلَیْهِمْ فَلَمْ یَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ یَمْتَنِعَ حَتَّى یَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا فَتَقُولُ لَهُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِی كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ، وَهُوَ ابْنُكَ یَا فُلَانُ، فَتُسَمِّی مَنْ أَحَبَّتْ مِنْهُمْ بِاسْمِهِ، فَیَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا

نکاح کاایک طریقہ یوں تھاایک جماعت دس افرادسے کم اکٹھے ہوتے اورایک عورت کے پاس جاتے،ہرایک اس سے صحبت کرتاجب وہ حاملہ ہوجاتی اوربچہ جنتی اوربچہ جننے کے بعدچندراتیں گزرجاتیں تووہ اب سب کوبلواتی اوران میں سے کوئی بھی آنے سے انکارنہ کر سکتاتھاجب وہ اس کے پاس جمع ہوجاتے تووہ کہتی تمہیں اپنے معاملے کاعلم ہی ہے اورمیں نے بچے کوجنم دیاہے تویہ بچہ اے فلاں !تیراہے ،وہ ان میں سے جس کاچاہتی نام لے دیتی اورپھربچہ اس مردکے ساتھ منسوب ہوجاتا۔[3]

 نکاح متعہ :

نکاح کی ایک قسم نکاح متعہ تھی،یہ ایک عارضی نکاح ہوتاتھا جس میں کوئی مرد کسی عورت سے ایک متعین مدت خواہ وہ ایک گھنٹہ ہوتایادن یاسال تک نکاح کرلیتا اوریہ نکاح مدت ختم ہونے سے خودبخودہی ختم ہوجاتا،طلاق دینے کی ضرورت نہیں تھی ،چنانچہ اس مدت کے گزرنے کے بعد مقررہ معاوضہ اداکرکے رخصت کردیتا۔

جبکہ اسلام میں نکاح کی حیثیت ایک مضبوط عقداورپختہ عہدکی ہے ،جس کی پشت پرزوجین کاابدی زندگی گزارنے کاارادہ کارفرماہوتاہے تاکہ باہم نفسیاتی سکون اورمودت ورحمت کی فضاپیداہو،علاوہ ازیں اس کامقصدعمرانی بھی ہے یعنی سلسلہ تناسل کوجاری رکھناتاکہ نوح انسانی کی بقاکاسامان ہو۔پہلے یہ نکاح مباح تھااوراس کی اجازت شریعت کی تکمیل سے پہلے سفراورغزوات کے موقع پردی گئی تھی ، شروع میں متعہ کواس لئے جائزقراردیاگیاتھاکہ مسلمان جاہلیت سے اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے عبوری دورسے گزررہے تھے ،زمانہ جاہلیت میں زناآسان اورعام تھا،جب اسلام آیااورغزوات وجہادکے لئے سفرکامعاملہ درپیش ہواتوعورتوں سے دوری لوگوں پرشاق گزرنے لگی ،مسلمانوں کے اندرایمان کے لحاظ سے قوی اورضعیف دونوں طرح کے لوگ تھے ،ضعیف الایمان لوگوں کے زنامیں مبتلاہوجانے اوربے حیائی کے راستہ پرجاپڑنے کا اندیشہ تھا،لیکن جولوگ قوی الایمان تھے انہوں نے خودکوخصی کرلینے کاارادہ کرلیاتھا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا نَغْزُو مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَیْسَ مَعَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: أَلاَ نَخْتَصِی؟ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ، فَرَخَّصَ لَنَا بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ نَتَزَوَّجَ المَرْأَةَ بِالثَّوْبِ ثُمَّ قَرَأَ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ}

جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے اورہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں ،اس لئے ہم نے عرض کیاکہ ہم اپنے آپ کوخصی کیوں نہ کرلیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور پھرہمیں یہ رخصت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے (یاکسی بھی چیز)کے بدلے نکاح کرسکتے ہیں پھر یہ آیت تلاوت کی اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔[4]

متعہ کایہ جوازرخصت کی حیثیت رکھتاتھاتاکہ ضعیف الایمان اورقوی الایمان دونوں گروہوں کی مشکلات کاحل نکل آئے،اسلام مسلمان کی ازواجی زندگی کے لئے جوشرعی قوانین بناناچاہتاتھااس راہ میں ایک قدم تھاجونکاح کے جملہ مقاصدکوپوراکرے مثلاًپاکدامنی ،رشتہ نکاح کی مستقل حیثیت ،سلسلہ تناسل ، مودت ورحمت نیزخاندان کے دائرہ مصاہرت(سسرال)کے ذریعہ توسع وغیرہ ،جس طرح قرآن نے شراب اورسودکی حرمت کے بارے میں تدریجااحکام دیے جبکہ زمانہ جاہلیت میں ان چیزوں کا بڑا رواج اورغلبہ تھا،اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرمگاہوں کی حرمت کے سلسلہ میں بھی احکام دینے میں تدریج کالحاظ فرمایا،چنانچہ مجبوری کی صورت میں متعہ کی اجازت دی لیکن پھر اس نکاح سے قیامت تک کے لئے روک دیا۔

أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ المُتْعَةِ، وَعَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِیَّةِ، زَمَنَ خَیْبَرَ

جیساکہ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبرکے وقت نکاح متعہ اورگھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا۔[5]

دوسری مرتبہ فتح مکہ کے موقع پراس عمل کوروکا،

عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:رَخَّصَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ أَوْطَاسٍ، فِی الْمُتْعَةِ ثَلَاثًا، ثُمَّ نَهَى عَنْهَا

سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اوطاس(فتح مکہ)کے موقع پرتین روز کے لئے نکاح متعہ کی اجازت دی پھراس سے روک دیا۔[6]

حَدَّثَنِی الرَّبِیعُ بْنُ سَبْرَةَ الْجُهَنِیُّ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنِّی قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِی الِاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ، وَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

ربیع بن سبرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں فتح مکہ کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکائے غزوہ کوعورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مکہ مکرمہ سے نکلنے سے پہلے) فرمایااے لوگو!میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیاہے۔[7]

یہ حدیث سبرہ رضی اللہ عنہ نے (بیت اللہ)کے رکن اور دروازے کے پاس بیان کی تھی۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا وَلِیَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَذِنَ لَنَا فِی الْمُتْعَةِ ثَلَاثًا، ثُمَّ حَرَّمَهَا، وَاللَّهِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا یَتَمَتَّعُ وَهُوَ مُحْصَنٌ إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ

چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے توانہوں نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین مرتبہ متعہ کی اجازت دی پھراسے حرام کردیا ، اللہ کی قسم!اگر مجھے کسی بھی شادی شدہ کے نکاح متعہ کاعلم ہوگا تومیں اسے پتھروں کے ساتھ رجم کردوں گا۔[8]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہاہے۔[9]

سیدناعلی  رضی اللہ عنہ متعہ النساء کوجائزنہیں سمجھتے تھے جیساکہ صحیح روایت میں آیاہے،

عن الزهریّ، قال: أخبرنی الحسن وعبد الله أبناء محمَّد بن علی أنَّهما أخبراه عن أبیهما محمَّد بن علی أنه سمع أباه علی بن أبی طالب ولقی ابن عباس رضی الله عنهما، وبلغه أنّه یرخص فی متعة النساء، فقال له علی: إنّك امرؤ تائه

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی کاذکرکیاگیاکہ وہ متعہ النساء کوجائزسمجھتا ہے توسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے اسے کہاتوبیوقوف آدمی ہے۔

[10]حَدَّثَنِی الزُّهْرِیُّ، عَنْ الْحَسَنِ، وَعَبْدِ اللَّهِ، ابْنَیْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِیهِمَا، أَنَّ عَلِیًّا، بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا لَا یَرَى بِالْمُتْعَةِ بَأْسًا، فَقَالَ: إِنَّكَ تَائِهٌ، إِنَّهُ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِیَّةِ یَوْمَ خَیْبَرَ

محمدابن حنفیہ رحمہ اللہ سے مروی ہےسیدناعلی رضی اللہ عنہ کویہ بات پہنچی کہ ایک آدمی متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتا آپ اسے فرمانے لگے توتوراہ راست سے بھٹکاہواہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر(کی جنگ)کے بعدمتعہ اورگھریلوگدھوں کے گوشت سے روک دیاتھا۔[11]

وَبَیَّنَهُ عَلِیٌّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا علی  رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی روایت بیان کی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ نکاح متعہ کی حلت منسوخ ہے۔[12]

فَتَحَصَّلَ مِمَّا أَشَارَ إِلَیْهِ سِتَّةُ مَوَاطِنَ خَیْبَرُ ثُمَّ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ ثُمَّ الْفَتْحُ ثُمَّ أَوَطَاسُ ثُمَّ تَبُوكُ ثُمَّ حَجَّةُ الْوَدَاعِ

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں رخصت کے بعدچھ مختلف مقامات پرنکاح متعہ کامنسوخ ہوجانا مروی ہے خیبر میں ، عمرة القضاء میں ،فتح مکہ کے سال،اوطاس کے سال،غزوہ تبوک میں ،حجة الوداع میں ۔[13]

وَالصَّوَابُ الْمُخْتَارُ أَنَّ التَّحْرِیمَ وَالْإِبَاحَةَ كَانَا مَرَّتَیْنِ وَكَانَتْ حَلَالًا قَبْلَ خَیْبَرَ ثُمَّ حُرِّمَتْ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ أُبِیحَتْ یوم فتح مكة وهو یوم أوطاس لا تصالهما ثُمَّ حُرِّمَتْ یَوْمَئِذٍ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ تَحْرِیمًا مُؤَبَّدًا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں درست بات یہ ہے کہ متعہ دومرتبہ حرام ہوااوردوہی مرتبہ جائز ہوا ، چنانچہ یہ غزوہ خیبرسے پہلے حلال تھاپھراسے غزوہ خیبرکے موقع پرحرام کیاگیا،پھراسے فتح مکہ کے موقع پرجائزکیاگیااورعام اوطاس بھی اسی کوکہتے ہیں ،اس کے بعدہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام کردیاگیا۔[14]

تَحْرِیمُ الْمُتْعَةِ كَالْإِجْمَاعِ إِلَّا عَنْ بَعْضِ الشِّیعَةِ

خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں متعہ کی حرمت مسلمانوں میں اجماع کی طرح ہے الاکہ بعض شیعہ حضرات اس کے جوازکے قائل ہیں ۔[15]

أَجْمَعَ السَّلَفُ وَالْخَلَفُ عَلَى تَحْرِیمِهَا

جمہورسلف وخلف کے مطابق نکاح متعہ منسوخ ہو چکاہے۔[16]

ثُمَّ وَقَعَ الْإِجْمَاعُ مِنْ جَمِیعِ الْعُلَمَاءِ عَلَى تَحْرِیمِهَا إِلَّا الرَّوَافِضَ

قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی حرمت پرعلمانے اجماع کیاہے الا کہ روافض اسے جائزکہتے ہیں ۔[17]

جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کی رائے میں یہ تحریم قطعی ہے جس میں رخصت کے لئے کوئی گنجائش شریعت کے اس حکم کو مستقل حیثیت دینے کے بعدباقی نہیں رہی ،البتہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے اختلاف کیاتھا،ان کی رائے میں مجبوری کی صورت میں جائزتھا ،

عَنْ أَبِی جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: سُئِلَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ فَرَخَّصَ، فَقَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِی الحَالِ الشَّدِیدِ، وَفِی النِّسَاءِ قِلَّةٌ؟ أَوْ نَحْوَهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:نَعَمْ

چنانچہ ابوجمرہ نے بیان کیا میں نے عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے سناان سے عورتوں کے ساتھ متعہ کے متعلق سوال کیاگیا تو انہوں نے اس کی اجازت دی،پھران کے ایک غلام نے ان سے پوچھا کہ اس کی اجازت سخت مجبوری یاعورتوں کی کمی یااس جیسی صورتوں میں ہوگی تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاہاں ۔[18]

وَلَمْ یَقِفْ عِنْدَ الضَّرُورَةِ، أَمْسَكَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الْإِفْتَاءِ بِحِلِّهَا، وَرَجَعَ عَنْهُ

لیکن جب انہیں معلوم ہوگیاکہ لوگوں نے اس معاملہ میں کافی گنجائش پیداکرلی ہے اوربات مجبوری کی حدتک نہیں رہی تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جوازکافتوی دینا بند کردیا اور اس سے رجوع کر لیا۔[19]

عن ابن شهاب أنّه قال: ما مات ابن عباس حتى رجع عن هذا الفتیا

ابن شہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فوت ہونے سے پہلے اس(متعہ النکاح کے)فتوے سے رجوع کرلیاتھا۔[20]

قال ابن جریج یومئذ: اشھدوا أنی قد رجعت عنھا

ابن جریج رحمہ اللہ نے فرمایاگواہ رہوکہ میں نے اس(متعہ النکاح)سے رجوع کرلیاہے۔[21]

أَخْبَرَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ الْمُتْعَةِ فَقَالَ: حَرَامٌ ، قَالَ: فَإِنَّ فُلَانًا یَقُولُ فِیهَا فَقَالَ: وَاللهِ لَقَدْ عُلِمَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَهَا یَوْمَ خَیْبَرَ وَمَا كُنَّا مُسَافِحِینَ، قَالَ الشَّیْخُ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ فِی نِكَاحِ الْمُتْعَةِ زَمَنَ الْفَتْحِ فَتْحِ مَكَّةَ ثُمَّ حَرَّمَهَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

سالم بن عبداللہ سے مروی ہے ایک آدمی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے متعہ کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہاحرام ہے، اس نے کہافلاں تواس بارے میں یہ کہتاہے پس انہوں نے فرمایااللہ کی قسم!وہ جانتاہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خیبروالے دن حرام قراردیاتھااورہم زانی نہیں تھے،پھرفرمایاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتح مکہ کے موقع پراجازت دی تھی پھراسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دیاہے۔[22]

قَالَ: سَمِعْتُ مَكْحُولًا، یَقُولُ فِی الرَّجُلِ تَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ إِلَى أَجَلٍ ، قَالَ: ذَلِكَ الزِّنَا

امام مکحول الشامی رحمہ اللہ سے پوچھاگیاایک آدمی نے ایک عورت سے خاص مقرروقت تک کے لیے نکاح (یعنی متعہ)کیا؟توانہوں نے جواب دیایہ زناہے۔[23]

سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنِ الْمُتْعَةِ، فَوَصَفْتُهَا فَقَالَ لِی: ذَلِكَ الزِّنَا

جعفربن محمدسے متعہ کے بارے میں سوال کیاگیا انہوں نے جواب دیایہ زناہے۔[24]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ , عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: حَرَّمَ أَوْ هَدَمَ الْمُتْعَةَ النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالْعُدَّةُ وَالْمِیرَاثُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایانکاح،طلاق،عدت اورمیراث نے متعہ کوحرام اورختم کردیاہے۔[25]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ: نَسَخَ الْمُتْعَةَ الْمِیرَاثُ

مشہورثقہ تابعی امام سعیدبن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایامتعہ کومیراث نے منسوخ کردیا۔[26]

نکاح البدل :

ایک نکاح نکاح البدل بھی تھا،اس کاطریقہ یوں تھاکہ ایک شخص کسی دوسرے شخص سے کہتاکہ تومیرے حق میں اپنی بیوی سے دستبردارہوجااورمیں تیرے حق میں اپنی بیوی سے دستبردارہوجاتاہوں ۔

نکاح الشغار :

ایک طریقہ نکاح الشغارکاتھا،جس میں ایک شخص اپنی بیٹی ،بہن یابھتیجی کی شادی کسی شخص کے ساتھ اس شرط پرکرتاکہ دوسرابھی اپنی بیٹی ،بہن یابھتیجی کی شادی اس سے کردے گا ، اس طرز کے نکاح میں عورت کامہرنہیں باندھاجاتاتھا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ، وَالشِّغَارُ أَنْ یُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ یُزَوِّجَهُ الآخَرُ ابْنَتَهُ، لَیْسَ بَیْنَهُمَا صَدَاقٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغارسے منع فرمایاہے،شغاریہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یابہن کانکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسراشخص اپنی(بیٹی یابہن)اس کوبیاہ دے اورکچھ مہرنہ ٹھہرے۔[27]

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ:لَا شِغَارَ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا الشِّغَارُ؟قَالَ:نِكَاحُ الْمَرْأَةِ بِالْمَرْأَةِ , وَلَا صَدَاقَ بَیْنَهُمَا

ابی  رضی اللہ عنہ بن کعب سے مروی ہےاسلام میں شغارنہیں ہے ،میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! شغارکیاہے؟ عورت کے بدلے عورت سے نکاح کرلیاجائے اوردونوں کاحق مہرنہ باندھاجائے۔[28]

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نکاح کی ان صورتوں کوبیان کرکے فرماتی ہیں

فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ، هَدَمَ نِكَاحَ الجَاهِلِیَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الیَوْمَ

محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حق لے کرمبعوث ہوئے توآپ نے تمام جاہلی نکاحوں کوبندکردیاصرف اس نکاح کوباقی رکھاجوآج رائج ہے۔[29]

اوراسلام نے دوسرے ان تمام طریقوں کوبھی حرام قراردے دیاجس سے عفت وعصمت پرزدپڑسکتی تھی ،جس سے نسل اورمیراث میں گڑبڑپیداہوتی تھی ،جس سے صلہ رحمی اورمروت کی شہ رگ کٹتی تھی اوران کوزناکانام دے کرلوگوں کوآگاہ کردیاکہ

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِیْلًا۝۳۲ [30]

ترجمہ: اور زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برافعل ہے اور بڑاہی براراستہ۔

زناجس پر یوسف علیہ السلام نے جیل کی کال کوٹھری میں قیدکی زندگی کواس جرم کے اقدام پرترجیح دی گوقتل نہ سہی مگرانجام کے اعتبارسے قتل سے کم بھی نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے زناکوقتل کے بعدشمارکیا۔

وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًا۝۶۸ۙ [31]

ترجمہ: جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ، یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لاَ یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ یَشْرَبُ الخَمْرَ حِینَ یَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ یَسْرِقُ السَّارِقُ حِینَ یَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ یَنْتَهِبُ نُهْبَةً، یَرْفَعُ النَّاسُ إِلَیْهِ فِیهَا أَبْصَارَهُمْ، وَهُوَ مُؤْمِنٌ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازنا کار جس وقت زناکرتاہے اس وقت مومن نہیں ہوتا،جب بھی کوئی شراب پینے والا شراب پیتاہے تووہ مومن نہیں رہتا،جب بھی کوئی چوری کرنے والاچوری کرتاہے تووہ مومن نہیں رہتا،جب بھی کوئی لوٹنے والالوٹتاہے کہ لوگ نظریں اٹھااٹھاکراسے دیکھنے لگتے ہیں تووہ مومن نہیں رہتا۔[32]

یعنی جب کوئی شخص زنا کرتاہے اس وقت ایمان زانی کوچھوڑکرجداہوجاتاہے ،گویامومن مومن رہتے ہوئے اس جرم عظیم کاارتکاب نہیں کرسکتا۔

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا زَنَى الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الْإِیمَانُ كَانَ عَلَیْهِ كَالظُّلَّةِ، فَإِذَا انْقَطَعَ رَجَعَ إِلَیْهِ الْإِیمَانُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی جب زناکرتاہے اس وقت ایمان اس سے نکل جاتاہے اوراس کے اوپرچھری کی مانندرہتاہے،پس جب وہ اپنی بدکاری سے فارغ ہوتاہے توایمان اس کی طرف پلٹ آتاہے۔[33]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ۔۔۔ثُمَّ قَالَ: یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْیَرُ مِنَ اللَّهِ أَنْ یَزْنِیَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِیَ أَمَتُهُ، یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِیلًا وَلبَكَیْتُمْ كَثِیرًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج کوگرہن لگاتونمازکسوف کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اوراسی میں فرمایا اے محمدکی امت کے لوگو!اللہ کی قسم!اس بات پر اللہ تعالیٰ سے بڑھ کرکسی کوغیرت نہیں ہوتی کہ اس کا کوئی بندہ یابندی زناکرے،اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! واللہ! جوکچھ میں جانتاہوں تم جانتے تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔[34]

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، أَنَّ یَهُودِیَّیْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِیِّ نَسْأَلُهُ، فَقَالَ: لاَ تَقُلْ لَهُ نَبِیٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَهَا تَقُولُ نَبِیٌّ كَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْیُنٍ، فَأَتَیَا النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلاَهُ عَنْ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ} فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَیْئًا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَسْحَرُوا، وَلاَ تَمْشُوا بِبَرِیءٍ إِلَى سُلْطَانٍ فَیَقْتُلَهُ، وَلاَ تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلاَ تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلاَ تَفِرُّوا مِنَ الزَّحْفِ

صفوان سے مروی ہے ایک یہودی نےاپنے ساتھی سے کہا کہ چلو میرے ساتھ اس نبی کے پاس چلو،اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو کیونکہ اگر انہوں نے سن لیا تو خوشی سے ان کی آنکھیں چار ہو جائیں گی ، وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نو نشانیوں کے متعلق پوچھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاکسی کو اللہ تعالیٰ کاکسی کوشریک ٹھہراؤ ،زنامت کرو،کسی جاندارکوقتل نہ کروجس کاقتل کرنااللہ نے حرام کیاہے مگرقصاص وغیرہ میں ،اور چوری نہ کرو اور جادو مت کرواورکسی بے قصورکو(قتل کی تہمت لگاکر)حاکم کے پاس مت لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کرے ،اورسودمت کھاؤ اورکسی پاک دامن عورت پرزناکی تہمت نہ لگاؤ اورجہادسے مت بھاگو۔[35]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مِنْ أَجْلِ أَنْ یَطْعَمَ مَعَكَ قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ: أَنْ تُزَانِیَ حَلِیلَةَ جَارِكَ

اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑاگناہ یعنی اکبر الکبائرکون ساہے؟آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ کاکسی کوشریک بناناحالانکہ اس نے ہی پیداکیا،میں نے پوچھاکہ اس کے بعدپھر کونسا کام ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے بچے کو اس خوف سے مارڈالناکہ وہ ساتھ کھائے گا،میں نے پوچھاپھرکون سا؟آپ نے فرمایاتیرااپنے پڑوسی کی بیوی سے زناکرنا۔[36]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللَّهُ یَوْمَ القِیَامَةِ فِی ظِلِّهِ، یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِی عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ فِی خَلاَءٍ فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِی المَسْجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِی اللَّهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ إِلَى نَفْسِهَا، قَالَ: إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ یَمِینُهُ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن کہ سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگاعادل حاکم،اور وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی پائی،اوروہ شخص جس نے اللہ کوتنہائی میں یادکیااوراس کی آنکھوں سے آنسونکل پڑے ، اور وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو،اور وہ دو اشخاص جو باہم صرف خدا کے لئے دوستی کریں جب جمع ہوں تو اسی کے لئے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لئے،اور وہ شخص جس کوایک حسین وجمیل عالی نسب عورت نے دنیا میں اپنی طرف بلایااورزناکی دعوت دی مگراس اللہ کے عفیف بندہ نے اس حسین مہ جبین کوجواب میں یہ کہہ کرانکارکردیامیں اللہ سے ڈرتاہوں ،اوروہ شخص جس نے اتناپوشیدہ صدقہ کیاکہ اس کے بائیں ہاتھ کوبھی پتہ نہ چل سکاکہ دائیں نے کتنااورکیاصدقہ کیاہے۔[37]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:مَا ظَهَرَ الْغُلُولُ فِی قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا أُلْقِیَ فِی قُلُوبِهِمُ الرُّعْبُ، وَلَا فَشَا الزِّنَا فِی قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا كَثُرَ فِیهِمُ الْمَوْتُ، وَلَا نَقَصَ قَوْمٌ الْمِكْیَالَ وَالْمِیزَانَ إِلَّا قُطِعَ عَنْهُمُ الرِّزْقُ، وَلَا حَكَمَ قَوْمٌ بِغَیْرِ الْحَقِّ إِلَّا فَشَا فِیهِمُ الدَّمُ، وَلَا خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَهْدِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَیْهِمُ الْعَدُوَّ

عبداللہ بن عبا س  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو قوم غنیمت کے مال میں چوری کرتی ہے ان کے دل بودے ہوجاتے ہیں ،اورجس قوم میں زنا عام ہوجاتاہے ان میں موت کی بھی کثرت ہو جاتی ہے،اورجوقوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ان کی روزی بند ہوجاتی ہے،اورجوقوم ناحق فیصلہ کرتی ہے ان میں خون زیادہ ہوجاتاہے،اورجوقوم عہدتوڑتی ہے ان پردشمن غالب ہوجاتاہے۔[38]

عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا مِنْ قَوْمٍ یَظْهَرُ فِیهِمُ الرِّبَا، إِلَّا أُخِذُوا بِالسَّنَةِ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ یَظْهَرُ فِیهِمُ الرُّشَا، إِلَّا أُخِذُوا بِالرُّعْبِ

ایک اورحدیث میں عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس قوم میں سود عام ہوجائے وہ قحط سالی میں مبتلا ہو جاتی ہے، اور جس قوم میں رشوت عام ہوجائے وہ مرعوب ہوجاتی ہے۔[39]

اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کوجوعفت وعصمت کی دمکتی پیشانی پرکلنک کاٹیکہ نہیں لگنے دیتے ان کے متعلق فرمایا

مَنْ تَوَكَّلَ لِی مَا بَیْنَ رِجْلَیْهِ وَمَا بَیْنَ لَحْیَیْهِ، تَوَكَّلْتُ لَهُ بِالْجَنَّةِ

جس نے مجھے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان (یعنی شرمگاہ)کی اوراپنے دونوں جبڑوں کے درمیان( یعنی زبان) کی ضمانت دے دی تو میں اسے جنت میں جانے کایقین دلاتاہوں ۔[40]

[1] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی وُجُوهِ النِّكَاحِ الَّتِی كَانَ یَتَنَاكَحُ بِهَا أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ۲۲۷۲

[2] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ ۵۱۲۷،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی وُجُوهِ النِّكَاحِ الَّتِی كَانَ یَتَنَاكَحُ بِهَا أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ۲۲۷۲

[3] سنن ابوداود کتاب الطلاق بَابٌ فِی وُجُوهِ النِّكَاحِ الَّتِی كَانَ یَتَنَاكَحُ بِهَا أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ ۲۲۷۲

[4] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۂ المائدہ بَابُ قَوْلِهِ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ۴۶۱۵،وکتاب النکاح بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّبَتُّلِ وَالخِصَاءِ ۵۰۷۵، صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ۳۴۱۰،معجم ابن عساکر۱۱۸۸،صحیح ابن حبان ۴۱۴۱،السنن الکبری للبیہقی۱۳۴۶۴، مسند احمد ۳۶۵۰، مسندابی یعلی۵۳۸۲

[5]صحیح بخاری کتاب النکاح ابُ نَهْیِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِكَاحِ المُتْعَةِ آخِرًا  ۵۱۱۵،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ۳۴۳۱، موطاامام مالک کتاب النکاحبَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ، سنن نسائی کتاب النکاح تَحْرِیمُ الْمُتْعَةِ ۳۳۶۸ ، جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی تَحْرِیمِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ۱۱۲۱،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ النَّهْیِ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ۱۹۶۲،سنن الدارمی۲۲۴۳،مسندالبزار۶۴۱،معجم ابن عساکر۹۰۰،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۱۴۶،مصنف ابن ابی شیبة۱۷۰۶۵،السنن الصغیرللبیہقی ۲۴۹۰

[6] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَبَیَانِ أَنَّهُ أُبِیحَ، ثُمَّ نُسِخَ، ثُمَّ أُبِیحَ، ثُمَّ نُسِخَ، وَاسْتَقَرَّ تَحْرِیمُهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ۳۴۱۳،مسند احمد۱۶۵۵۲، السنن الکبری للبیہقی۱۴۱۶۱،معرفة السنن والآثار۱۴۱۰۷،مصنف ابن ابی شیبة۱۷۰۶۸

[7] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَبَیَانِ أَنَّهُ أُبِیحَ، ثُمَّ نُسِخَ، ثُمَّ أُبِیحَ، ثُمَّ نُسِخَ، وَاسْتَقَرَّ تَحْرِیمُهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۳۴۲۰،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی نِكَاحِ الْمُتْعَةِ۲۰۷۲، سنن نسائی کتاب النکاح بابتَحْرِیمُ الْمُتْعَةِ۳۳۷۰،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ النَّهْیِ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ۱۹۶۳، مسنداحمد۱۵۳۵۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۵۱۳،صحیح ابن حبان ۴۱۴۷،سنن الدارمی ۲۲۴۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۱۵۴،معرفة السنن والآثار۱۴۱۰۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۷۰۶۷،شرح السنة للبغوی ۲۲۹۲

[8] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ النَّهْیِ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ ۱۹۶۴

[9] تلخیص الجیر ۳۳۳؍۳

[10] مسندابی عوانہ ۴۵۰۸ ،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۱۴۷

[11] سنن النسائی کتاب النكاح بَابٌ فِی تحریم الْمُتْعَةِ۳۳۶۵

[12] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ نَهْیِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِكَاحِ المُتْعَةِ آخِرًا ۵۱۱۹

[13] فتح الباری ۱۶۹؍۹

[14] شرح نووی علی مسلم ۱۸۱؍۹

[15] معالم السن ۱۹۰؍۳

[16] فتح الباری ۱۷۳؍۹

[17] فتح الباری ۱۷۳؍۹

[18] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ نَهْیِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِكَاحِ المُتْعَةِ آخِرًا ۵۱۱۶

[19] زادالمعاد۴۰۳؍۳

[20] مسندابی عوانہ ۴۴۹۳

[21] مسندابی عوانہ ۴۵۲۴

[22] السنن الکبری للبیہقی۱۴۱۴۸

[23] مصنف ابن ابی شیبة۱۷۰۷۸

[24] السنن الکبری للبیہقی۱۴۱۸۲

[25] سنن دارقطنی۳۶۴۴،صحیح ابن حبان۴۱۳۷

[26]السنن الکبری للبیہقی ۱۴۱۷۹،مصنف ابن ابی شیبة۱۷۰۷۰

[27] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ الشِّغَارِ ۵۱۱۲، صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ تَحْرِیمِ نِكَاحِ الشِّغَارِ وَبُطْلَانِهِ۳۴۶۵،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الشِّغَارِ۲۰۷۴

[28] المعجم الصغیر للطبرانی۴۴۱

[29] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ ۵۱۲۷

[30] بنی اسرائیل ۳۲

[31] الفرقان ۶۸

[32] صحیح بخاری کتاب الحدودبَابُ لاَ یُشْرَبُ الخَمْرُ ۶۷۷۲

[33] سنن ابوداود کتاب السنة بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى زِیَادَةِ الْإِیمَانِ وَنُقْصَانِهِ ۴۶۹۰

[34] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ الصَّدَقَةِ فِی الكُسُوفِ  ۱۰۴۴

[35] جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۱۴۴

[36] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ۶۸۱۱، ۶۸۶۱،۷۵۲۰، ۷۵۳۲،۷۷۲۲،وکتاب الاداب بَابُ قَتْلِ الوَلَدِ خَشْیَةَ أَنْ یَأْكُلَ مَعَهُ ۶۰۰۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ الشِّرْكِ أَقْبَحَ الذُّنُوبِ، وَبَیَانِ أَعْظَمِهَا بَعْدَهُ۵۷،سنن ابوداودکتاب بَابٌ فِی تَعْظِیمِ الزِّنَا۲۳۱۰،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الفُرْقَانِ ۳۱۸۲

[37] صحیح بخاری کتاب المحاربین بَابُ فَضْلِ مَنْ تَرَكَ الفَوَاحِشَ ۶۸۰۶

[38] موطا امام مالک کتاب الجہاد مَا جَاءَ فِی الْغُلُولِ

[39] مسنداحمد ۱۷۸۲۲

[40] صحیح بخاری کتاب المحاربین بَابُ فَضْلِ مَنْ تَرَكَ الفَوَاحِشَ ۶۸۰۷

Related Articles