ہجرت نبوی کا پہلا سال

قصاص کاحکم

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِیَ لَهُ مِنْ أَخِیهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَیْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِیفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٧٨﴾‏ وَلَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿١٧٩﴾‏(البقرة )
 ’’اے ایمان والو !تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد، آزاد کے بدلے ، غلام ، غلام کے بدلے ،عورت ، عورت کے بدلے ،ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا ،عقلمندو ! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے ۔ ‘‘

قصاص کی شرعی تعریف یہ ہے کہ مجرم کواس کے جرم کی مثل سزادینا۔

زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اورقانون نہیں تھا اس لئے زور آور قبیلے کمزورقبیلوں پرجس طرح چاہتے ظلم وجورکاارتکاب کرلیتے ،ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقت ورقبیلے کاکوئی مردقتل ہوجاتاتووہ صرف قاتل کوقتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کوبلکہ بسااوقات پورے قبیلے ہی کوتہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اورعورت کے بدلے مردکواورغلام کے بدلے آزادکوقتل کرتے ،طاقتوارقبیلہ کمزورقبیلہ کی لڑکیاں بلامہرلے لیتا،

كَانَتْ بَنُو النَّضِیرِ قَدْ غَزَتْ قُرَیْظَةَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ وَقَهَرُوهُمْ، فَكَانَ إِذَا قَتَلَ النَّضَرِیُّ القرظیَّ لَا یُقْتَلُ بِهِ، بَلْ یُفَادَى بِمِائَةِ وَسْقٍ مِنَ التَّمْرِ وَإِذَا قَتَلَ الْقُرَظِیُّ النَّضَرِیَّ قُتِلَ بِهِ، وَإِنْ فادَوْه فَدَوه بِمِائَتَیْ وَسْقٍ مِنَ التَّمْرِ ضعْف دِیَةِ الْقُرَظِیِّ

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں جاہلیت کے زمانہ میں بنوقریظہ اوربنونضیرکی جنگ ہوئی تھی جس میں بنو نضیرغالب آئے ،اس وقت سے یہ دستورہوگیاکہ جب نضیری کسی قرظی کوقتل کرے تو اس کے بدلے میں اس قتل نہیں کیاجاتاتھابلکہ ایک سووسق کھجوردیت میں لی جاتی تھی،اور جب کوئی قرظی نضیری کومارڈالے توقصاص میں اسے قتل کردیا جاتا تھا اور اگردیت لی جائے تودوسووسق کھجورلی جاتی تھی۔[1]

ابوحاتم رحمہ اللہ اس کی شان نزول میں لکھتے ہیں

وَذَلِكَ أَنَّ حیَّیْنِ مِنَ الْعَرَبِ اقْتَتَلُوا فِی الْجَاهِلِیَّةِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ بِقَلِیلٍ، فَكَانَ بَیْنَهُمْ قَتْلٌ وَجِرَاحَاتٌ، حَتَّى قَتَلُوا الْعَبِیدَ وَالنِّسَاءَ، فَلَمْ یَأْخُذْ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ حَتَّى أَسْلَمُوا، فَكَانَ أَحَدُ الْحَیَّیْنِ یَتَطَاوَلُ عَلَى الْآخَرِ فِی الْعُدَّةِ وَالْأَمْوَالِ، فَحَلَفُوا أَلَّا یَرْضَوْا حَتَّى یُقْتَلَ بِالْعَبْدِ مِنَّا الْحُرُّ مِنْهُمْ، وَبِالْمَرْأَةِ مِنَّا الرَّجُلُ مِنْهُمْ ، فَنَزَلَتْ فِیهِمْ

عرب کے دوقبیلوں میں جنگ وجدال ہواتھااوردونوں کے بہت سے لوگ قتل اورزخمی ہوئے تھےجن میں مردبھی تھے اورعورتیں بھی ،جب یہ لوگ مسلمان ہوئے توان کے خون کے بعض معاملات تصفیہ طلب تھے،طاقتوارقبیلہ نے حسب دستورقدئم خواہش کی کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کاآزادقتل ہواورعورت کے بدلے مردقتل ہو جبکہ اللہ کویہ حق تلفی پسندنہ تھی اس لئے ان کے تصفیہ کے لئے یہ آیت نازل ہوئی ۔[2]

اللہ تعالیٰ نے اس فرق وامتیازکوختم کردیااورفرمایااے مومنو!تمہارے لئے قتل کے مقدموں میں قصاص کاحکم لکھ دیاگیاہے،اب جوقاتل ہوگاقصاص (بدلے)میں اسی کوقتل کیاجائے گا،قاتل آزادہے توقصاص میں وہی آزادقتل کیاجائے گا،اگرقاتل غلام ہے توقصاص میں وہی غلام قتل کیاجائے گا اورعورت ہے توقصاص میں وہی عورت ہی قتل کی جائے گی ،نہ کہ غلام کی جگہ آزاداورعورت کی جگہ مرد،یاایک مردکے قصاص میں متعددمرد،یعنی جس نے بھی قتل کیاہے قصاص میں صرف اسی کوہی قتل کیاجائے گا،جیسے ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۔۔۔۝۰۝۴۵ [3]

ترجمہ:جان کے بدلے جان ۔

اس سلسلہ میں کوئی مردوعورت میں کوئی امتیازنہیں ہے،

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، یَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَیُجِیرُ عَلَیْهِمْ أَقْصَاهُمْ،وَهُمْ یَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ یَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ ، وَمُتَسَرِّیهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ، لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِی عَهْدِهِ

عمروبن شعیب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں فرمایا مسلمانوں کے خون (چاہے وہ مردہویاعورت) برابر ہیں ،ادنی مسلمان کسی کافر کو امن دے سکتا ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری ہے ، اسی طرح دور مقام کا مسلمان پناہ دے سکتا ہے اگرچہ اس سے نزدیک والا موجود ہو اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کرے اپنے مخالفین پر اور جس کی سواریاں تیز رفتار ہوں وہ ان کے ساتھ رہے جن کی سواریاں کمزور ہوں اور جب لشکر میں سے کوئی ٹکڑی نکل کر مال غنیمت حاصل کرے تو باقی لوگوں کو بھی اس میں شریک کرے، اور مسلمان قتل نہ کیا جائے کسی کافر کے بدلہ میں اور نہ ذمی جس سے عہد ہو گیا ہو۔[4]

اورفرمایا اگرکسی مقتول کاولی کچھ نرمی کرنے کے لئے تیار ہو تو یا تو بغیرمعاوضہ محض اللہ کی رضاکے لئے معاف کردے یامعروف طریقے کے مطابق خوں بہا(دیت)قبول کرلے،

ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یَقُولُ:فَالعَفْوُ أَنْ یَقْبَلَ الدِّیَةَ فِی العَمْدِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عفوسے مرادقتل عمدمیں دیت قبول کرنا ہے۔[5]

کیونکہ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کی ہے اس لئےقاتل پرواجب ہے کہ وہ احسان فراموشی کرنے کے بجائےاچھے طریقے سے خوں بہااداکرے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ یَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّی رَسُولُ اللهِ، إِلَّا أَحَدُ ثَلَاثَةِ نَفَرٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّیِّبُ الزَّانِی، وَالتَّارِكُ لِدِینِهِ، الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی مسلمان کاخون حلال نہیں ہے مگرتین میں سے ایک سبب کے ساتھ (قصاص میں )جان کے بدلے جان،شادی شدہ زانی،اوراپنادین چھوڑنے والااور جماعت سے علیحدہ ہوجانے والا ۔[6]

 وأجمعت الأمة على وجوب القصاص

قصاص کے وجوب پر امت کااجماع ہے۔[7]

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، یَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ ، رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ، فَإِنَّهُ یُرْجَمُ،وَرَجُلٌ خَرَجَ مُحَارِبًا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، فَإِنَّهُ یُقْتَلُ، أَوْ یُصْلَبُ، أَوْ یُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ، أَوْ یَقْتُلُ نَفْسًا، فَیُقْتَلُ بِهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجومسلمان گواہی دیتا ہوکہ اللہ کے سوااورکوئی معبودنہیں اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں اس کوقتل کرناجائزنہیں سوائے تین خصائل میں سے کسی ایک کے ساتھ مرتکب ہو،شادی شدہ ہونے کے بعدزناکرےتواسے پتھروں سے رجم کیاجائے گااورکوئی اللہ اوراس کے رسول کے خلاف ہتھیاراٹھاکرنکلے تواسے قتل کیاجائے یاسولی چڑھایاجائے یاملک بدرکردیاجائےگایاکوئی کسی نفس کوقتل کردے اورپھراس کے بدلے میں قتل کردیاجائے گا ۔[8]

أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِیلٌ فَهُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ، إِمَّا أَنْ یُفْدَى وَإِمَّا أَنْ یُقِیدَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایاجس کسی کاکوئی آدمی قتل کیاگیاہو اسے دوباتوں کااختیارہے، یا(قاتل سے)فدیہ وصول کرلے یا جان کے بدلے جان لے۔[9]

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس فرق وامتیاز کومٹایااورعدل وانصاف کاحکم دیااور اپنے بندوں پراس احسان کاذکرفرمایاکہ اس نے مقتولین کے بارے میں قصاص کوفرض کیاہے،یہ بندوں پرعدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ جوقاتل ہوگاقصاص (بدلے)میں اسی کوقتل کیاجائے گا ، قاتل آزادہے توبدلے میں وہی آزاد،غلام ہے توبدلے میں وہی غلام اورعورت ہے توبدلے میں وہی عورت ہی قتل کی جائے گی ،نہ کہ غلام کی جگہ آزاداورعورت کی جگہ مرد یا ایک مردکے بدلے متعددمرد،اور قاتل کومقتول کے بدلے میں اسی طریقہ سے قتل کیاجائے جس طریقے سے اس نے مقتول کوقتل کیا تھا

الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ

تمام مسلمانوں کے خون مردہویاعورت برابرہیں ۔[10]

یہ تخفیف اوررحمت(قصاص ،معافی یادیت)خاص طورپرتم پرکی گئی ہے ورنہ اس سے پہلے قتل عمدمیں اہل تورات(یہودیوں ) پرقصاص فرض تھا،اسے قصاص سے درگزرکرنے اوردیت لینے کی اجازت نہ تھی ،اوراہل انجیل(عیسائیوں ) کے ہاں صرف معافی ہی تھی،قصاص تھانہ دیت ،اگرکوئی معاف کردینے یاخوں بہاوصول کردینے کے بعدانتقام لینے کے لئےقتل کردے تویہ سرکشی اورزیادتی ہے جس کی سزااسے دنیاوآخرت میں بھگتنی پڑے گی ،عقل وخردرکھنے والو!تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے امیدہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیزکرگے۔

قصاص کے مسائل

قتل کی تین اقسام ہیں ۔

قتل عمد۔قتل شبہ عمد۔قتل خطا

xقتل عمد:قتل عمدسے مرادایساقتل ہے جس سے مکلف شخص کسی قتل کے غیرمستحق شخص کوایسے آلہ سے قتل کرنے کی نیت کرے جس میں اغلب گمان یہی ہوکہ وہ اسے قتل کردے گا (مثلاًبندوق،تلواریاتیروغیرہ)

xقتل شبہ عمد:وہ قتل جس میں مکلف کسی کوایسی چیزسے مارنے کاارادہ کرے جس سے عموماًانسان مرتانہیں مثلاًچھڑی،کنکری یاچھوٹاپتھروغیرہ اوراس سے وہ شخص مرجائے اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت واجب ہوگی۔

xقتل خطا:یہ ہے کہ مارناکسی اورکوچاہئے لیکن قتل کوئی اورہوجائے مثلاًشکاری گولی توشکارکی طرف چلائے لیکن کسی انسان کولگ جائے ،اسی طرح اگرکوئی کنواں کھودے تواس میں کوئی انسان گرجائے وغیرہ

الدِّیَةَ وَالْكَفَّارَةَ فِی قَتْلِ الْخَطَأِ

اس میں دیت اورکفارہ (ایک گردن کی آزادی )لازم آئے گی۔[11]

xآزادکوغلام کے بدلے قتل کرنا۔

عَنْ سَمُرَةَ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ

سمرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے اپنے غلام کوقتل کیاہم اسے قتل کریں گے اورجس نے اس کاناک کان کاٹا ہم بھی اس کاناک کان کاٹ دیں گے۔[12]

عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ خَصَى عَبْدَهُ خَصَیْنَاهُ

قتادہ سےایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے غلام کوخصی کیاہم اسے خصی کردیں گے[13]

یہ روایات ان حضرات کی دلیل ہیں جوکہتے ہیں کہ مالک کو غلام کے بدلے قتل کیاجائے گالیکن بعض ائمہ کے نزدیک مذکورہ دونوں روایات ضعیف ہیں جیساکہ شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے ضعیف قراردیاہے۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: أُتِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَتَلَ عَبْدَهُ مُتَعَمِّدًا , فَجَلَدَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِائَةَ جَلْدَةٍ وَنَفَاهُ سَنَةً وَمَحَى سَهْمَهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ , وَلَمْ یُقِدْهُ بِهِ،وَأَمَرَهُ أَنْ یُعْتِقَ رَقَبَةً

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےایک آدمی لایا گیا جس نے اپنے غلام کوجان بوجھ کر قتل کردیاتھاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسےسو کوڑے لگائے اورایک سال کے لئے جلاوطن کردیااوراس کاحصہ مسلمانوں سے ختم کردیااوراس سے قصاص نہیں لیااوراسے حکم دیاکہ ایک گردن آزاد کر دے۔[14]

یہ روایت ان کی دلیل ہے جومالک کوغلام کے بدلے نہ قتل کرنے کے قائل ہیں لیکن یہ روایت کمزورہے،

قال النسائی: ضعیف،وقال ابن حبان: كثیر الخطأ فی حدیثه

امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اسماعیل بن عیاش ضعیف ہے،اورامام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ احادیث میں بہت غلطیاں کرتاتھا۔[15]

عَنْ إِسْرَائِیلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ:قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ:مِنَ السُّنَّةِ أَنْ لَا یُقْتَلَ حُرٌّ بِعَبْدٍ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سنت یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا۔[16]

وفی إسناده جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ وَهُوَ مَتْرُوكٌ

اس کی سندمیں جابر جعفی راوی متروک ہے۔[17]

وَقَدْ رَوَى اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عِیسَى الْقُرَشِیِّ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قِصَّةٍ ذَكَرَهَا قَالَ:فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا یُقَادُ مَمْلُوكٌ مِنْ مَالِكِهِ، وَلَا وَلَدٌ مِنْ وَالِدِهِ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغلام کاقصاص اس کے مالک سے نہیں لیاجائے گا اور نہ ہی بچے کاباپ سے۔[18]

وفی إسناده عمر بن عیسى الأسلمی، وهو منكر الحدیث؛ كما قال البخاری

اس کی سندمیں عمر بن عیسی اسلمی راوی منکرالحدیث ہے،جیساکہ امام بخاری نے کہا۔[19]

سعیدبن مسیب رحمہ اللہ ،شعبی رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ اورثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں

قَتْلِ الْحُرِّ بِالْعَبْدِ قَتْلُ الْحُرِّ بِعَبْدِ غَیْرِهِ

آزادکوغلام کے بدلے قتل کیاجائے گاجبکہ مقتول قاتل کااپناغلام نہ ہواور اگر مالک کااپناغلام ہو تو بالاجماع اسے قتل نہیں کیاجائے گا،

امام اسحا ق رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں ،

أَنَّهُ لَیْسَ بَیْنَ الْحُرِّ وَالْعَبْدِ قِصَاصٌ لَا فِی النَّفْسِ وَلَا فِیمَا دُونَ النَّفْسِ

مطلق طورپرمالک کوغلام کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گاخواہ اس کااپنا ہو یا کسی اور کا ہو۔[20]

والظاهر عدم ثبوت قتل الحر بالعبد

راجع قول یہی ہے کہ آزادکو غلام کے بدلے قتل کرنے کاکوئی ثبوت موجود نہیں ۔[21]

xمر دکوعورت کے بدلے قتل کرنا۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ یَهُودِیًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِیَةٍ بَیْنَ حَجَرَیْنِ ، فَقِیلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا؟ أَفُلاَنٌ أَوْ فُلاَنٌ، حَتَّى سُمِّیَ الیَهُودِیُّ،فَأُتِیَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،فَلَمْ یَزَلْ بِهِ حَتَّى أَقَرَّ بِهِ،فَرُضَّ رَأْسُهُ بِالحِجَارَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک یہودی نے ایک لڑکی کاسردوپتھروں کے درمیان میں رکھ کرکچل دیا(ایک روایت میں ہے یہ لونڈی زیورپہنے ہوئے تھی)(اس وقت اس میں کچھ جان باقی تھی)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے دریافت کیاکہ تمہارے ساتھ کس نے ایساکیاہے ؟ پھرخودہی کہافلاں فلاں نے ،آخرجب اس یہودی کانام لیاگیا(تولڑکی نے سرکے اشارہ سے ہاں کہا!پھریہودی کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لایاگیااوراس سے پوچھ گچھ کی جاتی رہی ،خاصی جرح کے بعد اس نے اس جرم کااقرارکرلیاچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم دیاکہ اس کاسربھی پتھروں سےکچل دیاجائے۔[22]

اس حدیث سے مستنبط ہوتاہے کہ قاتل کواسی اندازمیں قتل کیاجائے گاجواس نے قتل کے وقت اختیارکیاتھامثلاًپتھریااینٹ مارنا،گلادباناوغیرہ ،اس کی تائیدان آیات سے بھی ہوتی ہے،

۔۔۔ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۔۔۔[23]

ترجمہ: جوتم پرزیادتی کرے اس پراتنی ہی زیادتی کروجتنی اس نے تم پرکی ہے۔

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ۔۔۔[24]

ترجمہ:اگرتم بدلہ لیناچاہتے ہوتوتم اسی طرح بدلہ لوجس طرح تمہارے ساتھ کیاگیا۔

وَجَزَاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِثْلُهَا۔۔۔[25]

ترجمہ:برائی کابدلہ اسی کی مانندہے۔

النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَرَّقَ حَرَقْنَاهُوَمَنْ غَرَّقَ غَرَّقْنَاهُ

اس سلسلہ میں ایک روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کسی کوجلایااسے ہم جلائیں گے اورجس نے کسی کوپانی میں ڈبوکرمارااسے ہم پانی میں ڈبوکرماریں گے ۔[26]

وَفِی هَذَا الْإِسْنَادِ بَعْضُ مَنْ یُجْهَلُ

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی سندمیں بعض مجہول راوی ہیں ۔

وَقَالَ أَهْلُ العِلْمِ: یُقْتَلُ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَةِ

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اہل علم نے کہاہے مردکوعورت کے بدلے قتل کیاجائے گا۔[27]

قَوْله تَعَالَى: {النَّفْسَ بِالنَّفْسِ} [28] . وَقَوْلُهُ: {الْحُرُّ بِالْحُرِّ}[29]

ابن قدامہ نے ارشادباری تعالیٰ ’’جان کے بدلے جان۔‘‘اور’’آزادآدمی نے قتل کیاہوتواس آزادہی سے بدلیاجائے۔‘‘سے اوردیگرنصوص سے استدلال کیاہے،

وَرَوَى أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إلَى أَهْلِ الْیَمَنِ بِكِتَابٍ فِیهِ الْفَرَائِضُ وَالْأَسْنَانُ، وَأَنَّ الرَّجُلَ یُقْتَلُ بِالْمَرْأَةِ،وَهُوَ كِتَابٌ مَشْهُورٌ عِنْد أَهْلِ الْعِلْمِ

وہ عمروبن حزم کی روایت کردہ اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کوایک خط لکھوایاجس میں وراثت اورقابل زکوٰة مویشیوں کی عمرکے ساتھ یہ مسئلہ بھی تحریرتھاکہ مردکوعورت کے بدلے قتل کیاجائے گا،ابن قدامہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کتاب اہل علم کے یہاں مشہورومقبول ہے۔[30]

وَحَكَى ابْنُ الْمُنْذِرِ الْإِجْمَاعَ عَلَیْهِ إلَّا رِوَایَةً عَنْ عَلِیٍّ، وَعَنْ الْحَسَنِ وَعَطَاءٍ یُقْتَلُ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَةِ

ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، حسن رحمہ اللہ اورامام عطاء رحمہ اللہ سے منقول روایت کے سواعورت کے بدلے مردکوقتل کرنے پراجماع ہے۔ [31]

وَالْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ وَعِكْرِمَةَ وَعَطَاءٍ وَمَالِكٍ وَأَحَدُ قَوْلَیْ الشَّافِعِیِّ أَنَّهُ لَا یُقْتَلُ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَةِ وَإِنَّمَا تَجِبُ الدِّیَةُ

حسن بصری رحمہ اللہ ،عکرمہ رحمہ اللہ ،عطاء رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ اورکہتے ہیں مردکوعورت کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گابلکہ صرف دیت ہی واجب ہوگی (لیکن یہ بات درست نہیں )

أَنَّهُ یُقْتَلُ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَةِ

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں مردکوعورت کے بدلے قتل کیاجائے گا۔ [32]

جمہورکاقول بھی یہی ہے کہ مردکوعورت کے بدلے قتل کیاجائے گا اور تمام اہل ایمان پریہ فرض ہے حتی کہ قاتل کے اولیاء اورخودقاتل بھی کہ جب مقتول کاولی قصاص کا مطالبہ کرے اورقاتل سے قصاص لیناممکن ہوتومقتول کے ولی کی مددکی جائے اوریہ کہ ان کے لئے یہ جائزنہیں کہ وہ اس حدکے درمیان حائل ہوں ۔

معافی کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ دیت لیے بغیرہی محض رضائے الہٰی کے لئے معاف کردینا،دوسری صورت قصاص کی بجائے دیت قبول کرلینااگریہ صورت اختیارکی جائے توپھرطالب دیت بھلائی کااتباع کرےاورقاتل اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے اور احسان کابدلہ احسان سے دے ۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں قصاص اوردیت واجب ہیں لیکن ان دونوں میں اختیارہےاوریہی قول راجع ہے ۔

xمسلمان کوکافرکے بدلے قتل کرنا۔

لَا یُقْتَلْ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اورمسلمان کافرکے بدلے میں قتل نہیں کیاجائے گا۔[33]

قَالَ عَلِیٌّ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی مومن کوکافرکے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا۔[34]

ذمی کے متعلق اختلاف ہے ،جمہورکاقول ہے ذمی بھی کافرہے اس لئے مسلمان کواس کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا ،

یُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالذِّمِّیّ

ِشعبی رحمہ اللہ ،نخعی رحمہ اللہ اورابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ذمی کے بدلے مسلمان کوقتل کیاجائے گا۔[35]

امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان کوکسی کافرکے بدلے قتل نہیں کیا جائے گاالاکہ مسلمان اسے دھوکے سے قتل کر دے ،

 وَلَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کسی مسلمان کو کافرکے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔[36]

جن حضرات کے نزدیک ذمی کے بدلے مسلمان کوقتل کیاجائے گاان کی دلیل یہ ہے

لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِی عَهْدِهِ

کسی مسلمان کوکافرکے بدلے قتل نہیں کیاجائے گااورنہ ہی کسی معاہد(ذمی)کواپنے عہد میں ۔[37]

اس حدیث میں صرف یہ ہے کہ ذمی کوعہدتوڑنے سے پہلے قتل نہیں کیاجائے گایہ وضاحت نہیں ہے کہ مسلمان کوذمی کے بدلے قتل کردیاجائے گااورنہ ہی اس پر کوئی قابل حجت دلیل موجودہے ،لہذایہی معلوم ہوتاہے کہ

لَا یُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالذِّمِّیّ ذمی کے بدلے بھی مسلمان کوقتل نہیں کیاجائے گا۔[38]

xاورفر ع(اولاد)کواصل (والدین)کے بدلے (قتل کیاجائے گا)لیکن اصل(والدین) کوفرع(اولاد) کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لاَ یُقَادُ الوَالِدُ بِالوَلَدِ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ والدسے بچے کے بدلے قصاص نہیں لیاجائے گا۔[39]

قَالَ الشَّافِعِیُّ: حَفِظْت عَنْ عَدَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لَقِیتُهُمْ أَنْ لَا یُقْتَلَ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ وَبِذَلِكَ أَقُولُ وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ الْجَمَاهِیرُ مِنْ الصَّحَابَةِ وَغَیْرِهِمْ كَالْهَادَوِیَّةِ وَالْحَنَفِیَّةِ وَالشَّافِعِیَّةِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ مُطْلَقًا لِلْحَدِیثِ قَالُوا: لِأَنَّ الْأَبَ سَبَبٌ لِوُجُودِ الْوَلَدِ، فَلَا یَكُونُ الْوَلَدُ سَبَبًا لِإِعْدَامِهِ

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے اکثرعلماسے ملاقات کی(وہ یہی کہتے ہیں کہ)والدکو بچے کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گاجمہور،احناف اوراحمد رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کیونکہ باپ بچے کے وجودکاسبب ہے لہذابچہ باپ کے خاتمے کاسبب نہیں بن سکتا۔[40]

xاعضاء وغیرہ میں بھی قصاص لاگو ہوگااوراسی طرح زخموں میں بھی اگرممکن ہو۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

وَكَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۝۰ۙ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ۝۰ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ۝۰ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَكَفَّارَةٌ لَّهٗ۝۰ۭ وَمَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۴۵ [41]

ترجمہ:اورہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقررکردی تھی کہ جان کے بدلے جان اورآنکھ کے بدلے آنکھ اورناک کے بدلے ناک اورکان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کابھی بدلہ ہے پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جوشخص اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کرے وہی لوگ ظالم ہیں ۔

اگرچہ آیت میں خطاب بنی اسرائیل کوہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حکم کوقائم وثابت رکھا،

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ الرُّبَیِّعَ عَمَّتَهُ كَسَرَتْ ثَنِیَّةَ جَارِیَةٍ ،فَطَلَبُوا إِلَیْهَا العَفْوَ فَأَبَوْا فَعَرَضُوا الأَرْشَ فَأَبَوْا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَوْا، إِلَّا القِصَاصَ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالقِصَاصِ،فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: یَا رَسُولَ اللهِ أَتُكْسَرُ ثَنِیَّةُ الرُّبَیِّعِ؟لاَ وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالحَقِّ لاَ تُكْسَرُ ثَنِیَّتُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَنَسُ، كِتَابُ اللهِ القِصَاصُ، فَرَضِیَ القَوْمُ فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ

جیسے انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کی پھوپھی ربیع بنت نضرنے ایک انصاری لڑکی کے(طمانچہ مارکراگلےدو) دانت توڑڈالے،ربیع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی توانہوں نے انکارکردیاپھرانہوں نے دیت دینے کی پیش کش کی تواسے بھی انہوں نے ردکردیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں حاضرہوکرقصاص کامطالبہ کیااورقصاص کے سواکسی بھی چیزکولینے سے انکارکردیا،لہذارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کافیصلہ فرمادیا،یہ سن کر انس بن نضیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاربیع کادانت توڑاجائے گا؟نہیں اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ کوحق دے کر مبعوث فرمایاہے !اس کادانت نہیں توڑاجائے گا، یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ !اللہ کانوشتہ توقصاص ہی ہے،اتنے میں وہ لوگ اس پررضامندہوگئے اورپھرمعافی دے دی،پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگروہ اللہ کی قسم کھالیتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتاہے۔[42]

ظَاهِرُ الْحَدِیثِ وُجُوبُ الْقِصَاصِ وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ كَسْرًا لَا قَلْعًا، وَلَكِنْ بِشَرْطِ أَنْ یُعْرَفَ مِقْدَارُ الْمَكْسُورِ. وَیُمْكِنَ أَخْذُ مِثْلِهِ مِنْ سِنِّ الْكَاسِرِ فَیَكُونَ الِاقْتِصَاصُ بِأَنْ تُبْرَدَ سِنُّ الْجَانِی إلَى الْحَدِّ الذَّاهِبِ مِنْ سِنِّ الْمَجْنِیِّ عَلَیْهِ كَمَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ. وَقَدْ حُكِیَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّهُ لَا قِصَاصَ فِی الْعَظْمِ الَّذِی یُخَافُ مِنْهُ الْهَلَاكُ

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں حدیث کاظاہرقصاص کے وجوب پر دلالت کرتاہے اگرچہ دانت اکھیڑانہ گیاہوبلکہ ٹوٹاہی ہولیکن ٹوٹے ہوئے دانت کی مقدارمعلوم ہونااوربدلے میں اتنی ہی مقدارکے توڑنے کاامکان ہوناشرط ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں ایسی ہڈی میں قصاص نہیں ہے جس سے ہلاکت کاخدشہ ہو،

قَالَ الطَّحَاوِیُّ: اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّهُ لَا قِصَاصَ فِی عَظْمِ الرَّأْسِ فَیُلْحَقُ بِهِ سَائِرُ الْعِظَامِ,حُكِیَ عَنْ اللیْثِ وَالشَّافِعِیِّ وَالْحَنَفِیَّةِ أَنَّهُ لَا قِصَاصَ فِی الْعَظْمِ الَّذِی لَیْسَ بِسِنٍّ

امام طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (اہل علم نے)اتفاق کیاہے کہ سرکی ہڈی میں قصاص نہیں ہےاور اس میں ساری ہڈیاں شامل ہیں ،اورامام لیث، شافعی رحمہ اللہ واحناف رحمہ اللہ کہتے ہیں دانت کے علاوہ کسی ہڈی میں قصاص نہیں اوریہی قول مرجوع ہے۔[43]

إن كل طرف له مفصل معلوم لو قلع سنه، أو قطع أنفه، أو أذنه، أو فقأ عینه، أو جب ذكره، أو قطع أنثییه؛ یقتص منه

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کہتے ہیں ہرمعلوم جوڑمثلاً انگلی،ہاتھ،کہنی، پاؤں ، دانت، ناک، کان،آنکھ،ذکراورخصیتیں وغیرہ ہرایک میں قصاص ہے۔[44]

xزخم صحیح ہونے سے پہلے قصاص نہیں ۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ قَالَ:قَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی رَجُلٍ طَعَنَ آخَرَ بِقَرْنٍ فِی رِجْلِهِ ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَقِدْنِی ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَعْجَلْ حَتَّى یَبْرَأَ جُرْحُكَ،فَأَبَى الرَّجُلُ إِلَّا أَنْ یَسْتَقِیدَ فَأَقَادَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَصَحَّ الْمُسْتَقَادُ مِنْهُ،فَأَتَى الْمُسْتَقِیدُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: یَا رَسُولَ اللهِ، عَرِجْتُ، وَبَرَأَ صَاحِبِی؟فَقَالَ: عَرِجْتُ وَبَرَأَ صَاحِبِی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَمْ آمُرْكَ أَنْ لَا تَسْتَقِیدَ حَتَّى تَبْرَأَ جِرَاحُكَ فَعَصَیْتَنِی، فَأَبْعَدَكَ اللهُ وَبَطَلَ عَرْجُكَ،ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ بِهِ جُرْحٌ بَعْدَ الرَّجُلِ الَّذِی عَرَجَ أَنْ لَا یَسْتَقِیدَ حَتَّى یَبْرَأَ جُرْحُ صَاحِبِهِ؟

عمروبن شعیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقدمہ کافیصلہ فرمایاجس میں ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں سینگ چبھودیاتھاتووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورعرض کیامجھے اس سے قصاص لے کر دیں (کیونکہ زخم کی صحیح نوعیت کااندازہ اس کے اندمال کے بعدہی ممکن ہے اس لئے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجلدی نہ کروزخم مندمل ہونے کاانتظارکرو،وہ پھرآپ کے پاس آگیااوربولامجھے قصاص دلوائے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قصاص دلوادیا،اس کے بعدوہ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرشکایت کرنے لگااے اللہ کے رسول !میں لنگڑا ہو گیا ہوں اوروہ شخص جس سے قصاص لیاگیاتھاتندرست ہوگیاہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے تجھے منع کیاتھاکہ زخم کے مندمل ہونے تک قصاص نہ لےمگر تونے میری بات نہ مانی،اس کانتیجہ یہ نکلاکہ اللہ تعالیٰ نے تجھے(اپنی عافیت سے) دورکردیااورتیرے لنگڑے پن کو رائیگاں کردیا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا زخموں کاقصاص اس وقت تک لیناممنوع ہے جب تک زخمی آدمی صحت مندنہ ہو جائے۔[45]

xقصا ص کسی ایک وارث کے معاف کرنے سے ساقط ہوجائے گااوردوسرے ورثاکے لئے دیت لینالازم ہوگا۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:عَلَى الْمُقْتَتِلِینَ أَنْ یَنْحَجِزُوا الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، وَإِنْ كَانَتِ امْرَأَةً

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامقتول کے اولیاء پرلازم ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی قریبی کے معاف کرنے سے قصاص سے رک جائیں خواہ وہ ایک عورت ہی ہو۔[46]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہضعیف روایت ہے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ قَتَلَ عَمْدًا دُفِعَ إِلَى وَلِیِّ الْمَقْتُولِ، فَإِنْ شَاءَ قَتَلَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَخَذَ الدِّیَةَ

عمروبن شعیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کیااسے مقتول کے ورثاء کے سپردکردیاجائے گا،پھراگروہ چاہیں تواسے قتل کردیں اوراگر چاہیں تودیت وصول کرلیں ۔[47]

حدیث کے یہ لفظ اگروہ چاہیں تواسے قتل کردیں ،اس بات کوواضح کرتے ہیں کہ یہ ان سب کاحق ہے لہذاقصاص ان سب کے یابعض کے معاف کردینے سے ساقط ہوجائے گاایک کے معاف کرنے سے باقیوں پردیت لازم کرنے کاسبب یہ بھی ہے کہ جب ایک معاف کر دے گاتواس کاحصہ ساقط ہوجائے گااب یہ کیسے معلوم ہوسکتاہے کہ قتل میں ایک کاحصہ کتنا ساقط ہے باقیوں کے لئے کتناقتل لیاجائے لہذاباقیوں پر بھی دیت لیناہی لازم ہے۔

وَإِلَیْهِ الشَّافِعِیُّ وَأَبُو حَنِیفَةَ وَأَصْحَابُهُ. وَذَهَبَ الزُّهْرِیُّ وَمَالِكٌ إلَى أَنَّ ذَلِكَ یَخْتَصُّ بِالْعَصَبَةِ

امام شافعی رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی اسی کے قائل ہیں ،امام مالک رحمہ اللہ اورامام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ صرف عصبہ رشتہ داروں کے ساتھ خاص ہے۔[48]

xقصا ص لینے سے معافی بہترہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رُفِعَ إِلَیْهِ شَیْءٌ فِیهِ قِصَاصٌ، إِلَّا أَمَرَ فِیهِ بِالْعَفْوِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے ہمیشہ یہی دیکھاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب بھی کوئی قصاص کامعاملہ لایاجاتامگرآپ اس میں معافی کاہی حکم دیتے۔[49]

فإذا كان فیهم صغیر ینتظر فی القصاص بلوغه

اگرورثاء میں کوئی چھوٹاہوتوقصاص کے لئے اس کے بالغ ہونے کاانتظارکیاجائے گا۔[50]

xجب ایک شخص پکڑے اوردوسراقتل کرے توقاتل کوقتل کیاجائے گااورپکڑنے والے کوقیدکیاجائے گا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا أَمْسَكَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ وَقَتَلَهُ الْآخَرُ یُقْتَلُ الَّذِی قَتَلَ , وَیُحْبَسُ الَّذِی أَمْسَكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب ایک آدمی (دوسرے)آدمی کوپکڑے اوردوسراقتل کرے توقتل کرنے والے کوقتل کیاجائے گااورپکڑنے والے کو قید کیا جائے گا۔[51]

عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّةَ، رَفَعَ الْحَدِیثَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یُقْتَلُ الْقَاتِلُ، وَیُصْبَرُ الصَّابِرُ

یہ حدیث معمراورابن جریج نے اسماعیل بن امیہ سے مرفوعاًروایت کی ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقاتل کوقتل کیاجائے اور پکڑکررکھنے والے کوقیدکیاجائے۔[52]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّهُ قَضَى فِی رَجُلٍ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا وَأَمْسَكَهُ آخَرُ , قَالَ: یُقْتَلُ الْقَاتِلُ وَیُحْبَسُ الْآخَرُ فِی السِّجْنِ حَتَّى یَمُوتَ

قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے اسی کی مثل ایک معاملے میں یوں فیصلہ کیاقاتل کوقتل کردیا جائے گااوردوسرے کوجیل میں قید کر دیا جائے گاحتی کہ وہ فوت ہوجائے[53]

احناف اورشافعیہ کہتے ہیں قاتل کوقتل اورپکڑنے والے کوقیدکیاجائے گا،اس کی تائیداس آیت سے بھی ہوتی ہے

۔۔۔فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ ۔۔۔[54]

ترجمہ: جوتم پرزیادتی کرے اس پراتنی ہی زیادتی کروجتنی اس نے تم پرکی ہے۔

عَنْ النَّخَعِیّ وَمَالِكٍ وَاللیْثِ أَنَّهُ یُقْتَلُ الْمُمْسِكُ كَالْمُبَاشِرِ لِلْقَتْلِ لِأَنَّهُمَا شَرِیكَانِ، إذْ لَوْلَا الْإِمْسَاكُ لَمَا حَصَلَ الْقَتْلُ. وَأُجِیبَ بِأَنَّ ذَلِكَ تَسْبِیبٌ مَعَ مُبَاشَرَةٍ وَلَا حُكْمَ لَهُ مَعَهَا

امام مالک رحمہ اللہ اورلیث رحمہ اللہ کہتے ہیں پکڑنے والے کو بھی قتل کیاجائے گاکیونکہ اگروہ نہ پکڑتاتوقتل ممکن ہی نہیں تھا،امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں حدیث پرعمل کرناہی زیادہ بہتر ہے نیزقیدکرنے کی مدت جمہور نے حاکم کی رائے پرچھوڑدی ہے۔[55]

اورراجع قول یہ ہے کہ اگرقاتل کے پکڑنے کے سوامقتول کوقتل کرناممکن نہیں تھااوروہ قتل کے وقت حاضرتھاتودونوں کوقتل میں شریک ہونے کی وجہ سے قتل کردیاجائے گااورجس حدیث میں قیدکاذکرہے اس کامفہوم یہ ہوگاکہ جب پکڑنے والاقتل کے وقت حاضرنہ ہووہ محض پکڑکے حوالے کرگیاہوتواسے قید کردیاجائے گا۔(وَاللهُ أَعْلَم)

xا گرجماعت ایک آدمی کے قتل میں شریک ہوتوجماعت کے تمام افرادکوقتل کردیاجائے گا۔

صنعاء شہرکی ایک عورت کاخاوندغائب ہوگیااس کاایک چھوٹابچہ اس عورت کے پاس رہ گیاوہ بچہ کسی دوسری عورت کے بطن سے تھابچے کانام اصیل تھا،اس عورت نے خاوندکی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی اورسے مراسم قائم کرلئے،اس عورت نے اپنے آشناکواکسایاکہ یہ بچہ ہمیں رسواکرے گااس لئے اسے ٹھکانے لگاناہی بہتر ہے ،شروع میں وہ شخص اس بھیانک فعل کے لئے آمادہ نہ ہوامگراس پرعورت نے اس سے بے رخی برتی تواس نے عورت اس کے خادم اورایک تیسرے آدمی کے ساتھ مل کراس بچے کوقتل کردیااوراس کے ٹکڑے کرکے کنوئیں میں ڈال دیا،جب تمام شہرمیں اس حادثے کاچرچاہواتویمن کے حاکم نے اس عورت کے آشناکوگرفتارکرلیا،اس نے اپنے جرم کااعتراف کرلیاپھردوسرے ملزموں نے بھی اعتراف جرم کرلیا،حاکم شہرنے یہ ساراواقعہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجاجس کے جواب میں آپ نے لکھاکہ ان سب کوقتل کروادواورساتھ ہی یہ بھی فرمایا

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ:أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَتَلَ نَفَرًا، خَمْسَةً أَوْ سَبْعَةً بِرَجُلٍ وَاحِدٍ قَتَلُوهُ قَتْلَ غِیلَةٍ وَقَالَ عُمَرُ:لَوْ تَمَالَأَ عَلَیْهِ أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ جَمِیعًا

سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کودھوکے سے قتل کرنے والے پانچ یاسات افرادکوقتل کیااورکہااگرتمام اہل صنعاء اس کے خلاف تعاون کرتے تومیں سب کوقتل کردیتا۔[56]

اورصحیح بخاری میں یہ لفظ ہیں

فَقَالَ عُمَرُ:لَوِ اشْتَرَكَ فِیهَا أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہااگرتمام اہل صنعاء بھی اس کے قتل میں شریک ہوتے تومیں اس کے بدلے سب کوقتل کردیتا۔[57]

عَنْ أَنَسٍ:أَنَّ نَاسًا كَانَ بِهِمْ سَقَمٌ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ آوِنَا وَأَطْعِمْنَافَلَمَّا صَحُّوا، قَالُوا: إِنَّ المَدِینَةَ وَخِمَةٌ، فَأَنْزَلَهُمُ الحَرَّةَ فِی ذَوْدٍ لَهُ، فَقَالَ: اشْرَبُوا أَلْبَانَهَا،فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِیَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا ذَوْدَهُ،فَبَعَثَ فِی آثَارِهِمْ،فَقَطَعَ أَیْدِیَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسَمَرَ أَعْیُنَهُمْ، فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ مِنْهُمْ یَكْدِمُ الأَرْضَ بِلِسَانِهِ حَتَّى یَمُوتَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکچھ لوگوں (آٹھ افراد)کو(پیٹ کی)بیماری تھی ،انہوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں قیام کی جگہ عنایت فرمادیں اورہمارے کھانے کاانتظام کردیں ، پھرجب وہ لوگ تندرست ہوگئے توانہوں نے کہاکہ مدینہ کی آب وہواخراب ہےچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حرہ میں اونٹوں کے ساتھ ان کے قیام کاانتظام کردیااورفرمایاکہ ان کادودھ پیو،جب وہ تندرست ہوگئے توانہوں نے آپ کے چرواہے کوقتل کردیااوراونٹوں کوہانک کرلے گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے اوروہ پکڑے گئے،(جیساکہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیاتھا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ویساہی کیاان کے ہاتھ پاؤں کٹوادیئے اوران کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی،میں نے ان میں سے ایک شخص کودیکھاکہ زبان سے زمین چاٹتاتھااوراسی حالت میں مرگیا۔[58]

إذا اجتمع جماعة على قتل واحد یقتلون به قصاصا

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں اگر ان تمام سے قتل کرناثابت ہوجائے توسب کوقصاصاًقتل کر دیا جائے۔[59]

اہل ظاہرکامسلک اس سے مختلف ہے اوروہ یہ کہ فردواحدکے بدلے پوری جماعت کوقتل نہیں کیاجاسکتا،ابن زبیر رحمہ اللہ اورزہری رحمہ اللہ کاقول بھی یہی ہے،

وبمجموع ما ورد فی العقل یرد على من قال إنه غیر ثابت فی الشریعة

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک کے بدلے جماعت کوقتل کرنے کے خلاف کوئی شرعی دلیل ثابت نہیں ۔ [60]

xقتل خطامیں دیت اورکفارہ دونوں لازم ہیں ۔

ارشادباری تعالیٰ ہے

۔۔۔ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــــًٔا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ۔۔۔ ۝۹۲ [61]

ترجمہ: جوشخص کسی مسلمان کوبلاقصدمارڈالے اس پرایک مسلمان غلام کی گردن آزادکرنااورمقتول کے عزیزوں کوخون بہاپہنچاناہے۔

کفارہ یہ ہے کہ ایک مسلمان گردن آزادکردی جائے اگراس کی طاقت نہ ہوتودوماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فِی دِیَةِ الْخَطَإِ عِشْرُونَ حِقَّةً، وَعِشْرُونَ جَذَعَةً، وَعِشْرُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَعِشْرُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَعِشْرُونَ بَنِی مَخَاضٍ ذُكُرٍ

دیت خطاء کے متعلق عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقتل خطاکی صورت میں پانچ قسم کے اونٹ دیت میں وصول کیے جائیں گے بیس ایسے جن کی عمرتین سال ہواوربیس جن کی عمرچارسال ہواوربیس مادہ اونٹ جن کی عمردوسال ہواوربیس مادہ جن کی عمرایک ایک سال ہواوربیس نراونٹ جن کی عمرایک سال ہو۔[62]

وَذَهَبَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَالزُّهْرِیُّ وَعِكْرِمَةُ وَاللیْثُ وَالثَّوْرِیُّ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَسُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ وَمَالِكٌ وَالْحَنَفِیَّةُ وَالشَّافِعِیَّةُ إلَى أَنَّ الدِّیَةَ تَكُونُ أَخْمَسًاعَنْ أَبِی حَنِیفَةَ أَنَّ النَّوْعَ الْخَامِسَ یَكُونُ أَبْنَاءَ مَخَاضٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،امام زہری رحمہ اللہ ،امام عکرمہ رحمہ اللہ ،امام لیث رحمہ اللہ امام ثوری رحمہ اللہ ،عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ ،سلیمان بن یسار رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ، احناف اورشافعیہ ان سب کاوہی مذہب ہے جوگزشتہ حدیث میں مذکورہے صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک آخری قسم میں بیس دوسال کے عمرکے نراونٹ ہیں ۔[63]

راجع یہ ہے کہ دیت خطاکے متعلق عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ضعیف ہے لہذاکوئی سے سواونٹ دیے جاسکتے ہیں اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ قَالَ:أَلَا إِنَّ دِیَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ، وَالْعَصَا، مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ: مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِی بُطُونِ أَوْلَادِهَا

جس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مروی ہےپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(فتح مکہ کے موقع پر) فرمایا قتل خطاجوعمدکے مشابہ ہوجوکوڑے اورلاٹھی سے ماراگیاہواس کی دیت سواونٹ ہے ان میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں جن کے پیٹوں میں بچے ہوں ۔[64]

xبچوں اورپاگل پرقصاص نہیں ۔

عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهِ، فَقَالَ: أَنَّ الْقَلَمَ قَدْ رُفِعَ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى یَبْرَأَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى یَسْتَیْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِیِّ حَتَّى یَعْقِلَ؟

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہےتین آدمیوں سے قلم اٹھالیاگیاہے ،پاگل مجنون سے حتی کہ وہ صحت مندہوجائے،سونے والے سے حتی کہ وہ جاگ جائےاوربچے سے حتی کہ وہ بالغ (عقل مند) ہو جائے۔[65]

قَالَ مَالِكٌ: الأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَیْهِ عِنْدَنَا: أَنَّهُ لاَ قَوَدَ بَیْنَ الصِّبْیَانِ، وَإِنَّ عَمْدَهُمْ خَطَأٌ، مَا لَمْ یجِبْ عَلَیْهِمُ الْحُدُودُ، وَبْلُغُوا الْحُلُمَ، قال: وقَتْلَ الصَّبِیِّ، لاَ یَكُونُ إِلاَّ خَطَأً

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ مسلہ متفق علیہ ہے کہ بچوں پرقصاص نہیں ہے کیونکہ ان کاقصاقتل کرنابھی خطاہی ہے ،جب تک کہ ان پرشرعی حدودواجب نہ ہو جائیں اوروہ بالغ نہ ہوجائیں اوربچے کاکسی کوقتل کردیناصرف قتل خطا ہی ہوگا۔(موطاامام مالک ۸۵۱؍۲)

xد یت برادری کے لوگوں پرلازم ہے۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَیْلٍ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِحَجَرٍ فَقَتَلَتْهَا وَمَا فِی بَطْنِهَا،فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَضَى أَنَّ دِیَةَ جَنِینِهَا غُرَّةٌ، عَبْدٌ أَوْ وَلِیدَةٌ، وَقَضَى أَنَّ دِیَةَ المَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہذیل قبیلہ کی دوعورتیں آپس میں جھگڑپڑیں اورایک نے دوسری کوپتھردے مارااس پتھرسے وہ عورت اوراس کے پیٹ کابچہ مرگیا،اس کے وارث مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایاکہ پیٹ کے بچے کاخون بہاایک غلام یاکنیزدینی ہوگی ،اور عورت کے خون بہاکو قاتل عورت کے ورثاء پرذمہ واجب قراردیا۔[66]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَأَنَّ العَقْلَ عَلَى عَصَبَتِهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں یہ الفاظ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااوردیت اس کے عصبہ رشتہ داروں (جو اصحاب الفروض کے علاوہ ہوں ) پر لازم ہے۔[67]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ امْرَأَتَیْنِ، مِنْ هُذَیْلٍ قَتَلَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا زَوْجٌ وَوَلَدٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دِیَةَ الْمَقْتُولَةِ عَلَى عَاقِلَةِ الْقَاتِلَةِ، وَبَرَّأَ زَوْجَهَا وَوَلَدَهَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےقبیلہ ہذیل کی دو عورتیں میں سے ایک نے(جس کانام عفیف بنت مسروح تھااوربنوسعدبن ہذیل قبیلے سے تعلق رکھتی تھی) دوسری(سوکن جس کانام ملکیہ بنت عمویمرتھااوربنولحیان بن ہذیل قبیلہ سے تھی ) کوقتل کردیا(ان کے خاوندکانام حمل بن مالک بن نالبغہ تھا)اوران میں سے ہرایک کاخاونداوراولادتھی،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتل عورت کے ورثاء پرڈال دی اوراس کے خاونداوراولادکوبری قراردے دیا۔[68]

اس سے ثابت ہواکہ قتل کرنے والے کے تمام رشتہ دار دیت کی ادائیگی میں اس کے شریک ہوں گے جب کہ خاوندیابیوی اوراولاداس سے مستثنی ہوں گے ۔

جمہوراسی کی قائل ہے۔[69]

مگربعض نے اس آیت کی وجہ سے مخالفت کی ہے ۔

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔۔۔۝۰۝۱۶۴ [70]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھاتا۔

لاَ یَجْنِی جَانٍ إِلاَّ عَلَى نَفْسِهِ

جرم کرنے والے کاجرم صرف اسی پرہوگا۔[71]

ان میں تطبیق یوں کی گئی ہے کہ دیت کے احکام اس سے خاص ہیں ،ان دلائل میں اخروی جزاکاذکرہے جبکہ دیت کاتعلق دنیاوی امورسے ہے۔[72]

xقصاص کس چیزسے لیاجائے گا۔

أَبُو حَنِیفَةَ وَأَصْحَابُهُ إلَى أَنَّ الِاقْتِصَاصَ لَا یَكُونُ إلَّا بِالسَّیْفِ

احناف کے نزدیک قصاص صرف تلوارسے ہی لیاجائے گا۔[73]

ان کی دلیل یہ روایت ہے

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّیْفِ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقصاص صرف تلوارکے ساتھ ہے۔[74]

اس روایت کی سندمیں جابربن جعفی کذاب ہے

وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: هَذَا حَدِیثٌ مُنْكَرٌ

ابوحاتم کہتے ہیں یہ حدیث منکرہے۔[75]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ؛ رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِیُّ وَالْبَیْهَقِیُّ، وَفِیهِ سُلَیْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ؛ وَهُوَ مَتْرُوكٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں امام دارقطنی رحمہ اللہ اورامام بیہقی رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اس میں سلیمان بن ارقم متروک ہے۔[76]

وَعَنْ عَلِیٍّ رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِیُّ، وَفِیهِ یَعْلَى بْنُ هِلَالٍ؛ وَهُوَ كَذَّابٌ

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اس میں راوی یعلی بن ہلال کذاب ہے۔[77]

وَعَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ وَالْبَیْهَقِیُّ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِیفٌ

امام طبرانی رحمہ اللہ اورامام بیہقی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے اس کی سندضعیف ہے۔[78]

کیونکہ یہ روایت ضعیف ہے لہذایہ مسئلہ صحیح نہیں اورقصاص کسی بھی چیزکے ذریعے لیاجاسکتاہے۔

xگھرمیں جھانکنے والااوردیت۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْكَ بِغَیْرِ إِذْنٍ فَخَذَفْتَهُ بِعَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَیْنَهُ، لَمْ یَكُنْ عَلَیْكَ جُنَاحٌ

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابوقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرکوئی آدمی بغیراجازت کے آپ(کے گھرمیں )جھانکے اورآپ اسے کنکری مارکراس کی آنکھ پھوڑدیں توآپ پرکوئی گناہ نہیں ۔[79]

xحرم میں قصاص یاحدقائم کرناکیساہے۔

أَنَّ مَنْ جَنَى جِنَایَةً تُوجِبُ قَتْلًا خَارِجَ الْحَرَمِ، ثُمَّ لَجَأَ إلَیْهِ، لَمْ یُسْتَوْفَ مِنْهُ فِیهِ

حرم میں خون بہانااورحدقائم کرناجائزنہیں ہے حتی کہ پناہ لینے والاحرم سے خارج ہوجائے۔[80]

اورجوشخص حرم کے اندرحدیاقصاص کے موجب فعل کامرتکب ہوتوبعض اہل علم کے نزدیک اسے حرم سے باہرنکال کرسزادی جائے گی،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:وَإِنْ قُتِلَ فِی الْحَرَمِ أَوْ سَرَقَ أُقِیمَ عَلَیْهِ فِی الْحَرَمِ

تاہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جوشخص حرم میں قتل یاچوری کرے اس پرحرم میں ہی حدقائم کی جائے گی۔[81]

راجع یہ ہے کہ احادیث میں مطلق طورپرحرم میں خون بہانے یاحدقائم کرنے کی ممانعت ہے خواہ کوئی وہاں آکرپناہ لینے والاہویاحرم کے اندرہی حدیاقصاص کے موجب فعل کامرتکب ہواہواوریہ آیت

۔۔۔ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى یُقٰتِلُوْكُمْ فِیْهِ۔۔۔[82]

ترجمہ: اورتم مسجدحرام کے نزدیک اس سے قتال مت کروحتی کہ وہ اس میں تم سے لڑائی شروع کردیں ۔

صرف لڑائی کے وقت دفاع کے جوازپردلالت کرتی ہے۔

xبعض اوقات قاتل اورمقتول دونوں جہنمی ہوتے ہیں ۔

إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِی النَّارِ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا القَاتِلُ، فَمَا بَالُ المَقْتُولِ؟قَالَ:إِنَّهُ كَانَ حَرِیصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ

حدیث نبوی ہےجب دومسلمان اپنی تلواریں لے کرایک دوسرے کے سامنے آجائیں اوران میں سے ایک اپنے(دوسرے)ساتھی کوقتل کردے توقاتل اورمقتول دونوں آگ میں جائیں گے،عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ قاتل (توجہنمی ہے)مقتول کیوں آگ میں جائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کیونکہ)وہ بھی اپنے مدمقابل ساتھی کوقتل کرنے کا ارادہ رکھتاتھا۔[83]

xقتل عمدکے بعداگرقاتل توبہ کرلے۔

قتل عمدکے بعداگرقاتل توبہ کرلے تواس کی توبہ انشاء اللہ قبول ہوجائے گی،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًا۝۶۸ۙیُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَیَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًا۝۶۹ۤۖاِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ یُبَدِّلُ اللهُ سَـیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۷۰ [84]

ترجمہ: اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ، یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گاالا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُهٗ جَهَنَّمُ۔۔۔ ۝۹۳ [85]

ترجمہ:اورجوکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے گااس کی جزاجہنم ہے۔

کامعنی یہ ہے کہ اس گناہ کی سزاجہنم ہی ہے لیکن اگروہ توبہ کرلے تودیگرشواہدسے پتہ چلتاہے کہ یہ سزامعاف ہوجائے گی۔

كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَۨا۝۰ۚۖ الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ۝۱۸۰ۭفَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُهٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۱۸۱ۭفَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۸۲ۧ [86]

ترجمہ:تم پرفرض کیاگیاہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اورمال چھوڑرجاتاہوتواپنے ماں باپ اورقرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے،پرہیزگاروں پریہ حق اورثابت ہے ،اب جوشخص اسے سننے کے بعدبدل دےاس کاگناہ بدلنے والے پرہی ہوگا،واقعی اللہ تعالٰی سننے والاجاننے والاہے ،ہاں جوشخص وصیت کرنے والے کی جانب داری یاگناہ کی وصیت کردینے سے ڈرے پس وہ ان میں آپس میں اصلاح کرادے تواس پرگناہ نہیں ،اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

[1] تفسیرابن کثیر۴۸۹؍۱،سنن نسائی كِتَابُ الْقَسَامَةِ الْقَوَدُ مِنَ السَّیِّدِ لِلْمَوْلَى۴۷۳۶

[2]تفسیرابن ابی حاتم۲۹۳؍۱

[3] المائدة۴۵

[4] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی السَّرِیَّةِ تَرُدُّ عَلَى أَهْلِ الْعَسْكَرِ۲۷۵۱ ،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات باب المسلمون تتکافادماوھم عن ابن عباس ۲۶۸۴،مصنف ابن ابی شیبة۲۷۹۶۸،مستدرک حاکم ۲۶۲۵

[5] صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن بَابُ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَیْكُمُ القِصَاصُ فِی القَتْلَى الحُرُّ بِالحُرِّ۴۴۹۸ ، ۶۸۸۱،السنن الکبری للنسائی ۶۹۵۷،سنن الدارقطنی ۳۴۵۰

[6] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۶۸۷۸، صحیح مسلم کتاب القسامة بَابُ مَا یُبَاحُ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ۴۳۷۵،جامع ترمذی ابواب الدیات بَابُ مَا جَاءَ لاَ یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ ۱۴۰۲،سنن ابوداود کتاب الحدودبَابُ الْحُكْمِ فِیمَنِ ارْتَدَّ۴۳۵۲، سنن نسائی كِتَابُ تَحْرِیمِ الدَّمِ ذِكْرُ مَا یَحِلُّ بِهِ دَمُ الْمُسْلِمِ۴۰۲۱ ،سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، إِلَّا فِی ثَلَاثٍ۲۵۳۵، مسنداحمد۴۲۴۵،مصنف ابن ابی شیبة۲۴۴،مسندابی یعلی ۵۲۰۲،صحیح ابن حبان ۴۴۰۸

[7] الفقہ الاسلامی وادلتہ ۵۶۶۲؍۷

[8] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ الْحُكْمِ فِیمَنِ ارْتَدَّ۴۳۵۳

[9] صحیح بخاری کتاب فی اللقطةبَابُ كَیْفَ تُعَرَّفُ لُقَطَةُ أَهْلِ مَكَّةَ۲۴۳۴، سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ وَلِیِّ الْعَمْدِ یَرْضَى بِالدِّیَةِ ۴۵۰۵،جامع ترمذی ابواب الدیات بَابُ مَا جَاءَ فِی حُكْمِ وَلِیِّ القَتِیلِ فِی القِصَاصِ وَالعَفْوِ ۱۴۰۵ ،سنن نسائی کتاب القسامت هَلْ یُؤْخَذُ مِنْ قَاتِلِ الْعَمْدِ الدِّیَةُ إِذَا عَفَا وَلِیُّ الْمَقْتُولِ عَنِ الْقَوَدِ۴۷۸۹، سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِیلٌ فَهُوَ بِالْخِیَارِ بَیْنَ إِحْدَى ثَلَاثٍ۲۶۲۵ ، صحیح ابن حبان ۳۷۱۵، مسند احمد ۷۲۴۲

[10] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی السَّرِیَّةِ تَرُدُّ عَلَى أَهْلِ الْعَسْكَرِ۲۷۵۱

[11] الروضة الندیة ۳۰۵؍۲،تهذیب الآثار وتفصیل الثابت عن رسول الله من الأخبار۳۹؍۱

[12] سنن ابوداود کتاب الدیات بَابُ مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ أَوْ مَثَّلَ بِهِ أَیُقَادُ مِنْهُ ۴۵۱۵،جامع ترمذی ابواب الدیات بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ یَقْتُلُ عَبْدَهُ ۱۴۱۴،سنن نسائی کتاب القسامت الْقَوَدُ مِنَ السَّیِّدِ لِلْمَوْلَى۴۷۴۰،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ هَلْ یُقْتَلُ الْحُرُّ بِالْعَبْدِ۲۶۶۴

[13]۔سنن ابوداود کتاب الدیات بَابُ مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ أَوْ مَثَّلَ بِهِ أَیُقَادُ مِنْهُ۴۵۱۶،سنن نسائی كِتَابُ الْقَسَامَةِ باب الْقَوَدُ مِنَ السَّیِّدِ لِلْمَوْلَى ۴۷۴۰

[14] سنن الدارقطنی ۳۲۸۳

[15] میزان الاعتدال ۲۴۱؍۱

[16] السنن الکبریٰ للبیھقی ۱۵۹۳۸

[17] المجروحین ۲۸۷؍۱، الجرح والتعدیل ۷۷؍۱، الدررالبھیة والروضة الندیة۳۵۷؍۳ ،الروضة الندیة ۳۰۲؍۲

[18] السنن الصغیر للبیہقی ۲۹۴۸

[19] الروضة الندیة۳۰۲؍۲،فقہ السنة۵۳۰؍۲

[20] نیل الاوطار ۲۱؍۷، المبسوط ۱۳۰؍۲۶، المغنی ۲۷۸؍۸

[21] السیل الجرار۸۷۶؍۱

[22] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ سُؤَالِ القَاتِلِ حَتَّى یُقِرَّ، وَالإِقْرَارِ فِی الحُدُودِ۶۸۷۶، وباب إِذَا أَقَرَّ بِالقَتْلِ مَرَّةً قُتِلَ بِهِ۶۸۸۴،وکتاب الوصایابَابُ إِذَا أَوْمَأَ المَرِیضُ بِرَأْسِهِ إِشَارَةً بَیِّنَةً جَازَتْ۲۷۴۶، وکتاب الخصومات بَابُ مَا یُذْكَرُ فِی الإِشْخَاصِ وَالخُصُومَةِ بَیْنَ المُسْلِمِ وَالیَهُودِ۲۴۱۳،صحیح مسلم کتاب القسامة بَابُ ثُبُوتِ الْقِصَاصِ فِی الْقَتْلِ بِالْحَجَرِ وَغَیْرِهِ مِنَ الْمُحَدَّدَاتِ، وَالْمُثَقَّلَاتِ، وَقَتْلِ الرَّجُلِ بِالْمَرْأَةِ ۴۳۶۱ ،سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ یُقَادُ مِنَ الْقَاتِلِ بجراوبمثل ماقتل۴۵۲۷ ، سنن نسائی کتاب القسامت باب الْقَوَدُ بِغَیْرِ حَدِیدَةٍ ۴۷۸۳ ،جامع ترمذی ابواب الدیات بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ رُضِخَ رَأْسُهُ بِصَخْرَةٍ ۱۳۹۴،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ یُقْتَادُ مِنَ الْقَاتِلِ كَمَا قَتَلَ ۲۶۶۷، مسنداحمد۱۳۱۰۷

[23] البقرة ۱۹۴

[24] النحل۱۲۶

[25] الشوریٰ۴۰

[26] معرفة السنن والآثار۱۷۱۸۵

[27] صحیح بخاری کتاب الد یات بَابُ القِصَاصِ بَیْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ فِی الجِرَاحَاتِ

[28]المائدہ۴۵

[29] البقرة: 178

[30] المغنی لابن قدامہ ۲۹۶؍۸

[31] نیل الاوطار ۲۳؍۷

[32]نیل الاوطار۲۳؍۷،السیل الجرار۸۷۹ ؍۱

[33] فتح الباری۸۵؍۴

[34] سنن نسائی کتاب القسامت سُقُوطُ الْقَوَدِ مِنَ الْمُسْلِمِ لِلْكَافِرِ۴۷۵۰، ۴۷۵۱،سنن ابوداودكِتَاب الدِّیَاتِ بَابُ وَلِیِّ الْعَمْدِ یَرْضَى بِالدِّیَةِ۴۵۰۶ ،مسند احمد ۴۷۴۵

[35] نیل الاوطار۱۵؍۷

[36] نیل الاوطار۱۶؍۷،الام للشافعی ۳۳۸؍۷،سبل الاسلام۳۴۱؍۲، المبسوط ۱۳۱؍۲۶

[37] صحیح ابوداودکتاب الدیات بَابُ أَیُقَادُ الْمُسْلِمُ بِالْكَافِرِعن علی ۴۵۳۰

[38] فقہ السنة ۵۲۹؍۲،سبل السلام۳۴۱؍۲

[39] جامع ترمذی ابواب الدیات بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ یَقْتُلُ ابْنَهُ یُقَادُ مِنْهُ أَمْ لاَ ۱۴۰۰،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ لَا یُقْتَلُ وَالِدٌ بِوَلَدِهِ ۲۶۶۲،مسنداحمد۹۸

[40] سبل السلام ۳۳۹؍۲،تحفة الاحوذی۵۴۶؍۴،السیل الجرار۸۷۵؍۱،السنن الکبری للبیھقی ۱۵۹۶۳

[41] المائدة ۴۵

[42] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن بَابُ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَیْكُمُ القِصَاصُ فِی القَتْلَى الحُرُّ بِالحُرِّ ۴۵۰۰، سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ الْقِصَاصِ مِنَ السِّنِّ۴۵۹۵،سنن نسائی کتاب القسامت باب الْقِصَاصُ فِی السِّنِّ۴۷۵۹،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ الْقِصَاصِ فِی السِّنِّ۲۶۵۰ ، مسنداحمد۱۲۷۰۴

[43] نیل الاوطار۳۲؍۷،سبل السلام۳۴۹؍۲

[44]الروضة الندیة ۳۰۳؍۲

[45] مصنف عبدالرزاق۱۷۹۹۱، مسنداحمد ۷۰۳۴،سنن الدارقطنی ۳۱۱۴،السنن الکبری للبیہقی۱۶۱۱۵

[46] سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ عَفْوِ النِّسَاءِ عَنِ الدَّمِ ۴۵۳۸،سنن نسائی کتاب القسامت باب عَفْوُ النِّسَاءِ عَنِ الدَّمِ ۴۷۹۲ ،السنن الصغیرللبیہقی ۲۹۸۸،معرفة السنن الآثار ۱۵۹۱۶،شرح السنة للبغوی ۲۲۳۴

[47] سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ مَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَرَضُوا بِالدِّیَةِ ۲۶۲۶ ،مصنف عبدالرزاق ۱۷۲۱۸،السنن الکبری للبیہقی ۱۶۰۷۶،۱۶۱۳۹

[48] نیل الاوطار۳۸؍۷

[49] سنن ابوداود کتاب الدیات بَابُ الْإِمَامِ یَأْمُرُ بِالْعَفْوِ فِی الدَّمِ۴۴۹۷،سنن نسائی کتاب القسامت باب الْأَمْرُ بِالْعَفْوِ عَنِ الْقِصَاصِ۴۷۸۸ ،سنن ابن ماجہ کتاب الدیات باب العفو فی القصاص۲۶۹۳ ، مسنداحمد ۱۳۲۲۰

[50] الروضة الندیة ۳۰۴؍۲

[51] سنن الدارقطنی ۳۲۷۰

[52] مصنف عبدالرزاق۱۷۸۹۲

[53]۔ معرفة السنن والآثار۱۵۸۵۷،نیل الاوطار۳۰۱۳،۳۰؍۷،مصنف عبدالرزاق ۱۷۸۹۴

[54] البقرة ۱۹۴

[55] نیل الاوطار۳۱؍۷، الروضة الندیة ۳۰۵؍۲

[56] موطا امام مالک کتاب العقول باب ماجآء فی الغیلة والسحر۹۷،مصنف عبدالرزاق۱۸۰۶۹،مصنف ابن ابی شیبة۲۷۶۹۳،سنن الدارقطنی۳۴۶۳

[57] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ إِذَا أَصَابَ قَوْمٌ مِنْ رَجُلٍ، هَلْ یُعَاقِبُ أَوْ یَقْتَصُّ مِنْهُمْ كُلِّهِمْ۶۸۹۶،مصنف ابن ابی شیبة۲۷۶۹۴

[58] صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ الدَّوَاءِ بِأَلْبَانِ الإِبِلِ ۵۶۸۵

[59] الدررالبھیتہ۳۶۴؍۳

[60]الروضة الندیة ۳۰۶؍۲

[61] النساء ۹۲

[62] سنن ابوداود کتاب الدیات بَابُ الدِّیَةِ كَمْ هِیَ؟۴۵۴۵

[63] نیل الاوطار ۹۴؍۷،الام للشافعی ۱۲۲؍۶، المغنی ۳۷۸؍۸،الفقہ الاسلامی والدلتہ ۵۷۰۹؍۷

[64] سنن ابوداود کتاب الدیات بَابٌ فِی دِیَةِ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ ۴۵۴۷،سنن نسائی کتاب القسامت باب كَمْ دِیَةُ شِبْهِ الْعَمْدِ ۴۷۹۵ ، سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ دِیَةِ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظَةً ۲۶۲۸، صحیح ابن حبان۶۰۱۱،السنن الکبری للبیہقی۱۵۹۹۸

[65]سنن ابوداود کتاب الحدودبَابٌ فِی الْمَجْنُونِ یَسْرِقُ أَوْ یُصِیبُ حَدًّا ۴۳۹۹

[66] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ جَنِینِ المَرْأَةِ، وَأَنَّ العَقْلَ عَلَى الوَالِدِ وَعَصَبَةِ الوَالِدِ، لاَ عَلَى الوَلَدِ۶۹۱۰

[67] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ جَنِینِ المَرْأَةِ، وَأَنَّ العَقْلَ عَلَى الوَالِدِ وَعَصَبَةِ الوَالِدِ، لاَ عَلَى الوَلَدِ۶۹۰۹،صحیح مسلم کتاب القسامة بَابُ دِیَةِ الْجَنِینِ، وَوُجُوبِ الدِّیَةِ فِی قَتْلِ الْخَطَإِ، وَشِبْهِ الْعَمْدِ عَلَى عَاقِلَةِ الْجَانِی۴۳۹۰

[68] سنن ابوداودکتاب الدیات بَابُ دِیَةِ الْجَنِینِ۴۵۷۵

[69] المغنی ۳۹۳؍۸

[70] الانعام ۱۶۴

[71] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ۳۰۸۷ ،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ الْخُطْبَةِ، یَوْمَ النَّحْرِ ۳۰۵۶، مسنداحمد۱۶۰۶۴،المعجم الکبیرللطبرانی ۵۸،السنن اکبری للبیہقی ۱۵۸۹۹،مصنف ابن ابی شیبة۵۶۱

[72] بدائع الصنائع ۴۶۶۶؍۱۰ ، المغنی ۳۹؍۱۲،نیل الاوطار۵۱۴؍۴

[73] المبسوط ۱۲۲؍۶۶،نیل الاوطار۲۷؍۴

[74]سنن ابن ماجہ کتاب الدیات بَابُ لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّیْفِ۲۶۶۸،شرح معانی الاثار۵۰۲۶،معرفة السنن والآثار۱۵۹۴۴،مصنف ابن ابی شیبة۲۷۷۲۲،سنن الدارقطنی۳۱۷۵،السنن الصغیرللبیہقی۲۹۹۱

[75] التلخیص الجبیر۶۰؍۴

[76] التلخیص الجبیر۶۰؍۴

[77] التلخیص الجبیر۶۳؍۴

[78] التلخیص الجبیر۶۳؍۴

[79] صحیح بخاری کتاب الدیات باب مَنِ اطَّلَعَ فِی بَیْتِ قَوْمٍ فَفَقَئُوا عَیْنَهُ، فَلاَ دِیَةَ لَهُ ۶۹۰۲ ،صحیح مسلم کتاب الادب بَابُ تَحْرِیمِ النَّظَرِ فِی بَیْتِ غَیْرِهِ۵۶۴۳،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الِاسْتِئْذَانِ۵۱۷۲،سنن نسائی کتاب القسامة باب مَنْ اقْتَصَّ وَأَخَذَ حَقَّهُ دُونَ السُّلْطَانِ ۴۸۶۴ ، مسنداحمد ۹۵۲۵

[80] المغنی ۱۰۰؍۹،نیل الاوطار۵۴؍۷

[81] مصنف عبدالرزاق ۱۷۳۰۶،السنن الکبری للبیہقی۱۸۷۸۷

[82] البقرة ۱۹۱

[83] صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَمَنْ أَحْیَاهَا۶۸۷۵، سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابٌ إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْهِمَا۳۹۶۴ ، مسنداحمد ۲۰۴۳۹

[84] الفرقان ۶۸تا۷۰

[85] النساء ۹۳

[86]البقرة ۱۸۰تا۱۸۲

Related Articles