بعثت نبوی کا ساتواں سال

مقاطعہ بنی ہاشم(محرم سات بعثت نبوی۶۱۷ء)

ثُمَّ أَسْلَمَ حمزة عَمُّهُ وَجَمَاعَةٌ كَثِیرُونَ، وَفَشَا الْإِسْلَامُ،یَا أَبَا طَالِبٍ، إنَّ لَكَ سِنًّا وَشَرَفًا وَمَنْزِلَةً فِینَا  وَإِنَّا قَدْ اسْتَنْهَیْنَاكَ مِنْ ابْنِ أَخِیكَ فَلَمْ تَنْهَهُ عَنَّا وَإِنَّا وَاَللَّهِ لَا نَصْبِرُ عَلَى هَذَا مِنْ شَتْمِ آبَائِنَا، وَتَسْفِیهِ أَحْلَامِنَا، وَعَیْبِ آلِهَتِنَا، حَتَّى تَكُفَّهُ عَنَّا، أَوْ نُنَازِلَهُ وَإِیَّاكَ فِی ذَلِكَ، حَتَّى یَهْلِكَ أَحَدُالْفَرِیقَیْنِ، أَوْ كَمَا قَالُوا لَهُ،  (ثُمَّ) انْصَرَفُوا عَنْهُ، فَعَظُمَ عَلَى أَبِی طَالِبٍ فِرَاقُ قَوْمِهِ وَعَدَاوَتُهُمْ، وَلَمْ یَطِبْ نَفْسًا بِإِسْلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ وَلَا خِذْلَانِهِ

سیدالشہداء حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے یکے بعد اسلام قبول کرنے سے مشرکین کازورٹوٹ گیاجس سے اسلام دوردرازکے قبائل تک پھیلنے لگااور مسلمانوں   کی تعدادمیں   روز بروز اضافہ ہوتاچلاگیامسلمانوں   کازوربڑھنے لگا اوران میں   کافی قوت پیداہوگئی ، قریش ہرطرح کے ظلم وستم کے باوجوددین حق کاراستہ روکنے میں   بری طرح ناکام ہوچکے تھے ،ان کی سمجھ میں   کچھ نہیں   آرہاتھاکہ ان حالات میں   اب وہ کیاکریں  چنانچہ معاملہ طے کرکے وہ ابوطالب کے پاس آئے اورکہااے ابوطالب! آپ ہم سب میں   معمرہیں   اور مرتبہ وعزت میں   بھی ہم سب سے بڑھے ہوئے ہیں  ،ہم نے پہلے بھی آپ سے خواہش کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کواس نئے دین کی دعوت سے روک لیں  مگرآپ نے کچھ بھی نہیں   کیااوروہ کھلے عام ہمارے معبودوں   کو برابھلااور دعوت اسلام دیتے پھررہے ہیں  ،ہم نے بہت برداشت کیامگرواللہ!اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریزہوگیاہے،اب ہم مزیدضبط وبرداشت نہیں   کرسکتے کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں   اورآباؤاجدادکوگمراہ کہے اورہمیں   بے عقل اورنادان گردانے،ہم آپ کوواضح طورپرآگاہ کررہے ہیں   کہ یاتوآپ انہیں   اس دعوت کی تبلیغ سے روک دیں   ورنہ ہم آپ سے اوران سے مقابلہ کریں   گے یہاں  تک کہ ہم دونوں   فریقوں   میں   سے ایک تباہ وبربادہوجائے،اس طرح دھمکی دے کروہ لوگ واپس چلے گئے،ابوطالب پرقوم کا چھوٹ جانااوران کادشمن بن جانابہت شاق گزرااورانہی وجوہات سے نہ وہ بخوشی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پراسلام لاسکے اورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مددسے ہاتھ اٹھاسکے،

أَنَّ قُرَیْشًا حِینَ قَالُوا لِأَبِی طَالِبٍ هَذِهِ الْمَقَالَةَ، بَعَثَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: یَا ابْنَ أَخِی، إنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَاءُونِی، فَقَالُوا لِی كَذَا وَكَذَا، لِلَّذِی كَانُوا قَالُوا لَهُ، فَأَبْقِ عَلَیَّ وَعَلَى نَفْسِكَ، وَلَا تُحَمِّلْنِی مِنْ الْأَمْرِ مَا لَا أُطِیقُ،قَالَ: فَظَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ بَدَا لِعَمِّهِ فِیهِ بَدَاءٌ  أَنَّهُ خَاذِلُهُ وَمُسْلِمُهُ، وَأَنَّهُ قَدْ ضَعُفَ عَنْ نُصْرَتِهِ وَالْقِیَامِ مَعَهُ

جب قریش کے وفد نے یہ شکایت کی توابوطالب نےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کوبلابھیجااور اے میرے بھتیجے! تمہاری قوم نے میرے پاس آکرتمہاری شکایتوں   کادفترکھولاہے پس میں   مناسب سمجھتاہوں   کہ تم اپنی اورمیری جان کے ہلاک کرنے کی بات نہ کرواور مجھ پرمیری طاقت سے زیادہ بارنہ ڈالو،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوخیال گزراکہ ان کاچچاجواب تک پوری قوم کے سامنے ان کاپشت پناہ بناکھڑاتھا انہیں   بے سہاراچھوڑرہاہے اوراب وہ ان کی پشت پناہی کرنے سے قاصرہیں  ،

قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا عَمُّ، وَاَللَّهِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِینِی، وَالْقَمَرَ فِی یَسَارِی  عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى یُظْهِرَهُ اللَّهُ، أَوْ أَهْلِكَ فِیهِ، مَا تَرَكْتُهُ،قَالَ: ثُمَّ اسْتَعْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَى ثُمَّ قَامَ،فَلَمَّا وَلَّى نَادَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: أَقْبِلْ یَا بن أَخِی، قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اذْهَبْ یَا بن أَخِی، فَقُلْ مَا أَحْبَبْت، فو الله لَا أُسْلِمُكَ لِشَیْءِ أَبَدًا

اس لئے جواباًعرض کیااے چچا!اللہ کی قسم اگریہ لوگ میرے دائیں  ہاتھ پرسورج اوربائیں   ہاتھ پر چاند لا کر بھی رکھ دیں   میں   تب بھی اپنے وعظ ونصیحت سے بازنہیں   آؤں   گایہاں   تک کہ اللہ تعالیٰ اسلام کابول بالافرمادے گایامیں   خوداس راہ میں   فناہوجاؤں  ،یہ کہہ کررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  شدت جذبات سے روپڑے اوروہاں   سے جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے،جب آپ لوٹنے لگے توابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوآوازدی اورکہااے میرے بھتیجے!تم اپنی دعوت جس کو چاہودیتے پھرو،واللہ! میں   تمہیں   کسی قیمت پرکسی کے حوالہ نہ کروں   گا۔[1]

جب قریش کومعلوم ہواکہ ابوطالب ہماری انتہائی دھمکی کے باوجودرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاساتھ چھوڑنے اورانہیں   دشمنوں   کے حوالے کرنے کوتیارنہیں   تومعاملہ نے نازک صورت اختیارکرلی۔

ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِینَ اشْتَدُّوا عَلَى الْمُسْلِمِینَ كَأَشَدِّ مَا كَانُوا حَتَّى بَلَغَ المسلمین الجهد، واشتد علیهم البلاء

مشرکین قریش کاظلم وستم نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بلکہ اس وقت تک مسلمان ہوجانے والے لوگوں   پراس قدربڑھاکہ ان پرعرصہ حیات تنگ ہوگیااورانہوں   نے انتقامی کاروائی کے لئے ایک دوسرے کوبھڑکایاجس کا نتیجہ یہ ہواکہ ہرقبیلے نے اپنے میں   سے ایمان لانے والوں   کوسخت ترین عذاب میں   مبتلاکردیااوران کودین سے برگشتہ کرنے کے لئے ہرحربہ استعمال کیا

فَلَمَّا رَأَى أَبُو طَالِبٍ عَمَلَ الْقَوْمِ جَمَعَ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ یُدْخِلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شِعْبَهُمْ،اجتمع عَلَى ذَلِكَ مُسْلِمُهُمْ وَكَافِرُهُمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ فَعَلَهُ حَمِیَّةً، وَمِنْهُمْ مَنْ فَعَلَهُ إِیمَانًا وَیَقِینًا.

جب ابوطالب نے قریش کوصحابہ کرام  رضی اللہ عنہما  پرمظالم ڈھاتے دیکھاتوابوطالب کوشدیدخطرہ محسوس ہواچنانچہ انہوں   نے بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب کومشورے کے لئے جمع کیااورانہیں   تمام خطرات سے آگاہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کرنے کے لئے شعب بنی ہاشم میں   جمع ہونے کا کہاچنانچہ اس پرتمام مسلمان ومشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت اورساتھ دینے کاعہدکیا،جن لوگوں   نے اسلام قبول نہیں   کیا تھا انہوں   نےقبائلی حمیت کے پیش نظراورمسلمانوں   نے اپنے ایمان ویقین پرساتھ دیا،

مگرابولہب اوراس کے بیٹوں   نے اپنے قبیلے کاساتھ دینے کے بجائے قریش کاساتھ دیا اور انہیں   بنوہاشم اوربنوعبد المطلب کے خلاف بھڑکایا ،دوسری طرف قریش کی سفارت حبشہ بری طرح ناکام ہو گئی ،جب وہ وفدمکہ مکرمہ پہنچااورقریش کوعلم ہواکہ شاہ حبشہ نجاشی نے                جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور دوسرے مسلمانوں   کی حفاظت کاذمہ لے لیاہےتووہ سیخ پاہوگئے ،ان پے درپے واقعات سے قریش غصہ سے بے قابوہوگئےمگروہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان حالات میں   اگرانہوں   نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کرنے کی کوشش کی توبنوہاشم ،بنوعبدالمطلب اوران کے حلیف میدان میں   آجائیں   گے اورپھروادی مکہ میں  خون کی ندیاں   بہنے لگیں   گی اورنامعلوم کب تک دونوں   طرف سے یہ خون بہتا رہے گا،یہ ہولناک صورت دیکھ کرانہوں   نے قتل کاارادہ توترک کردیااور آخری کوشش کے طورپرتمام قبائل قریش وادی محصب میں   خیف بنی کنانہ میں   جمع ہوئے اور اس مسئلہ پر باہم مشورہ کیا،بحث وتمحیص کے بعد اکثریت نے جبکہ کچھ لوگ اس عہدوپیمان کے مخالف بھی تھے ایک تحریری معاہدہ کیا۔

أَنْ لَا یُبَایِعُوهُمْ، وَلَا یُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا یُكَلِّمُوهُمْ، وَلَا یُجَالِسُوهُمْ، حَتَّى یُسَلِّمُوا إِلَیْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَتَبُوا بِذَلِكَ صَحِیفَةً وَعَلَّقُوهَا فِی سَقْفِ الْكَعْبَةِ ،

جب تک بنوہاشم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو قتل کرنے کے لئے قریش کے حوالے نہیں   کریں   گے اس وقت تک بنوہاشم اوربنوعبدالمطلب سے تمام تعلقات قطع کردیئے جائیں  ،نہ کوئی شخص بنوہاشم سے نکاح کرے گااورنہ ہی ان سے میل جول رکھے گا اورنہ ہی تجارتی معاملات کریں   گے اورنہ ہی بنی ہاشم کی طرف سے کسی صلح کی پیش کش کوقبول کریں   گے ، چنانچہ یہ دستخط شدہ تحریراندرون کعبہ آویزاں   کردی گئی۔[2]

وَیُقَالُ إِنَّ الَّذِی كَتَبَهَا النَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ وَقِیلَ طَلْحَةُ بْنُ أَبِی طَلْحَة الْعَبدَرِی

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں  کہاجاتاہے یہ تحریرنضربن حارث نے لکھی تھی اوریہ بھی کہاجاتاہے طلحہ بن ابی طلحہ العبدری نے لکھی تھی۔[3]

كَتَبَهَا: منصور بن عكرمة بن عامر بن هاشم، وَیُقَالُ: النضر بن الحارث، وَالصَّحِیحُ: أَنَّهُ بغیض بن عامر بن هاشم،فَدَعَا عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَشُلَّتْ یَدُهُ

اورعلامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں  اس ظالمانہ اورسفاکانہ معاہدہ کو منصوربن عکرمہ بن عامربن ہاشم نے لکھاتھایہ بھی کہاجاتاہے نضر بن حارث نے لکھاتھامگرصحیح یہ ہے کہ یہ تحریر بغیض بن عامربن ہاشم نے تحریر کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے حق میں   بددعاکی ،جس سے اس کاہاتھ ہمیشہ کے لئے بیکار ہوگیا۔[4]

كَانَ ابْتِدَاءُ حَصْرِهِمْ فِی الْمُحَرَّمِ سَنَةَ سَبْعٍ مِنَ الْمَبْعَثِ

مجبوراًمحرم سات بعثت نبوی میں  ابوطالب نے شعب بنوہاشم میں   پناہ لی۔[5]

بنوہاشم اوربنوعبدالمطلب بن عبدمناف کے تمام لوگوں   نے چاہئے وہ مسلمان تھے یاخاندانی نسبت کی وجہ سے ابوطالب کے ساتھ گھاٹی میں   جمع ہوگئے۔

وَخَرَجَ أَبُو لَهَبٍ إِلَى قُرَیْشٍ  فَظَاهَرَهُمْ عَلَى بَنِی هَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ، وَقَطَعُوا عَنْهُمُ الْمِیرَةَ وَالْمَادَّةَ

اورابولہب قریش سے جاملا اوراس نے بنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب کے خلاف قریش کو قوت پہنچائی اورقریش نے ان دونوں   خاندانوں   پرکھانے پینے اور ضروریات زندگی کی تمام چیزیں   بند کر دیں  ۔[6]

فَلَبِثَ بَنُو هَاشِمٍ فِی شِعْبِهِمْ ثَلَاثَ سِنِینَ

بنوہاشم تین سال تک اس گھاٹی میں   محصوررہے۔[7]

فَكَانُوا لا یَخْرُجُونَ إِلا مِنْ مَوْسِمٍ إِلَى مَوْسِمٍ

محصورین صرف حرمت والے مہینوں   میں   گھاٹی سے باہرنکل سکتے تھے۔[8]

اورجومسلمان گھاٹی میں   نہیں   جاسکتے تھے اہل مکہ نے ان پروہ مظالم توڑے اوران پراتنے مصائب نازل کیے کہ الامان والحفیظ۔

اسی عرصہ میں   جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوران کے رفقاء شعب بنوہاشم میں   محصورتھے

حِینَ ضَاقَتْ عَلَیْهِ مَكَّةُ وَأَصَابَهُ فِیهَا الْأَذَى، وَرَأَى مِنْ تَظَاهُرِ قُرَیْشٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مَا رَأَى، اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْهِجْرَةِ ،  فأذنَّ لَهُ، حَتَّى إِذَا سَارَ مِنْ مَكَّةَ یَوْمًا  أَوْ یَوْمَیْنِ  لَقِیَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ  أَخُو بَنِی الْحَارِثِ بْنِ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ مَنَاةَ بْنِ كِنَانَةَ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ سَیِّدُ الْأَحَابِیشِ،فَقَالَ: إِلَى أَیْنَ یَا أَبَا بَكْرٍ؟قَالَ أَخْرَجَنِی قَوْمِی وَآذَوْنِی وَضَیَّقُوا عَلَیَّ، قَالَ وَلِمَ؟

اورمشرکین مکہ نے مسلمانوں   پرظلم وستم کرکے ان کاجیناحرام کردیاتوسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اجازت طلب کی کہ وہ ہجرت کرکے مہاجرین حبشہ سے جاملیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں   ہجرت حبشہ کی اجازت فرما دی، لیکن جب آپ نے قریباًایک یادودن کی مسافت طے کرلی تھی توانہیں   حارث بن بکربن عبد مناة بن کنانہ ملے جواس زمانے میں   مکہ کے احابیش میں   سب سے زیادہ معززشخص تھے، انہوں   نے پوچھااے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کہاں   کاارادہ ہے؟ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں   مسلمانوں   پرکفارقریش کے ظلم وستم کاحال سنایا اوربتایاکہ وہ بھی مجبوراًہجرت کرکےحبشہ جارہے ہیں  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سن کرابن دغنہ بولے آپ یہاں   سے کہیں   نہیں   جائیں   گے،

 فَوَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَزِینُ الْعَشِیرَةَ، وَتُعِینُ عَلَى النَّوَائِبِ، وَتَفْعَلُ الْمَعْرُوفَ وَتُكْسِبُ الْمَعْدُومَ ،ارْجِعْ فَإِنَّكَ فِی جِوَارِی، فَرَجَعَ مَعَهُ حتَّى إذا دخل مكة قام معه ابْنُ الدَّغِنَةِ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إِنِّی قَدْ أَجَرْتُ ابْنَ أَبِی قُحَافَةَ فَلَا یَعْرِضْ لَهُ أَحَدٌ إِلَّا بِخَیْرٍ قَالَتْ  : فَكَفُّوا عَنْهُ

اللہ کی قسم ! تم توقوم کی زینت ہواورہرایک کے دکھ دردمیں   شریک ہوتے ہو اور مسافروں   کے ساتھ اچھاسلوک کرتے ہو،آپ پچھلی باتوں   کوبھول کرمیرے ساتھ مکہ مکرمہ واپس چلیں   میں   آپ کوپناہ دیتاہوں  ، چنانچہ وہ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کواپنے ساتھ واپس مکہ مکرمہ میں   لے آئے اورابن دغنہ نے انہیں  اپنے پڑوس کے ایک خالی مکان میں   ٹھرادیا،ابودغنہ نے کہااے گروہ قریش !میں   نے ابن ابی قحافہ  رضی اللہ عنہ  کو پناہ دی ہے کوئی شخص ان سے سوائےبھلائی کے دوسراسلوک نہ کرے، قریش نے کہاہم انہیں   کوئی تکلیف نہیں   پہنچائیں   گے،

قَالَتْ: وَكَانَ لِأَبِی بَكْرٍ مَسْجِدٌ عِنْدَ بَابِ دَارِهِ فِی بَنِی جُمَحَ فَكَانَ یُصَلِّی فِیهِ، وَكَانَ رَجُلًا رَقِیقًا إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ اسْتَبْكَى قَالَتْ: فَیَقِفُ عَلَیْهِ الصِّبْیَانُ وَالْعَبِیدُ وَالنِّسَاءُ یَعْجَبُونَ لِمَا یَرَوْنَ مِنْ هَیْئَتِهِ، قَالَتْ: فَمَشَى رِجَالٌ من قریش إلى ابن الدغنة  فقالوا له : یا ابن الدَّغِنَةِ إِنَّكَ لَمْ تُجِرْ هَذَا الرَّجُلَ لِیُؤْذِیَنَا، إِنَّهُ رَجُلٌ إِذَا صَلَّى وَقَرَأَ مَا جَاءَ به محمد یرق  ویبكی  وكانت له هیئة، ونحن نَتَخَوَّفُ.عَلَى صِبْیَانِنَا وَنِسَائِنَا وَضُعَفَائِنَا أَنْ یَفْتِنَهُمْ،فَأْتِهِ فَمُرْهُ بِأَنْ یَدْخُلَ بَیْتَهُ فَلْیَصْنَعْ فِیهِ مَا شَاءَ.

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ  بنی جمع کےجس مکان میں   قیام پذیرتھے اس کے دروازے پرایک نمازپڑھنے کے لیےمسجدبنالی اوراس میں   نمازپڑھنے لگے،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ رقیق القب انسان تھے جب وہ نمازمیں   قرآنی آیات تلاوت فرماتے توان کی ریش آنسوؤں   سے ترہوجاتی تھی ان کی یہ حالت دیکھ کرقریش کے مرد،عورتیں   اوربچے وہاں   رک جاتے اوران کی حالت دیکھ کراورقرآنی آیات سن کران لوگوں   کے دل پسیجنے لگے، یہ دیکھ کربہت سے قریش مل کرابن دغنہ کے پاس آئےاوراسے کہااے ابن دغنہ!ہم اس شخص کواجازت نہیں   دے سکتے کہ وہ ہمیں   اس طرح تکلیف پہنچائے،یہ شخص جب نمازپڑھتاہے اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )پرجونازل ہواہےاس میں   سے تلاوت کرتاہے توروتاہے جس سے اس کی ریش تک بھیگ جاتی ہے اگرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس طرح اپنے مکان کے باہرنمازپڑھتے رہے توانہیں   اندیشہ ہے کہ ان کے مرد،عورتیں   بلکہ بچے تک بہکنے اوراپنی تہذیب سے روگردانی کرنے لگیں   گے،ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں   کہ آپ اسے کہیں   کہ وہ اپنے گھرکے اندر مسجدبنائے اورپھرجس طرح چاہے نمازپڑھے،

قَالَتْ: فَمَشَى ابْنُ الدَّغِنَةِ إِلَیْهِ فقال له : یَا أَبَا بَكْرٍ، إِنِّی لَمْ أُجِرْكَ لِتُؤْذِیَ قَوْمَكَ.وَقَدْ كَرِهُوا مَكَانَكَ الَّذِی أَنْتَ بِهِ، وَتَأَذَّوْا بِذَلِكَ مِنْكَ، فَادْخُلْ بَیْتَكَ فَاصْنَعْ فِیهِ مَا أَحْبَبْتَ،قَالَ: أَوْ أَرُدُّ عَلَیْكَ جِوَارَكَ وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ،قَالَ فَارْدُدْ عَلَیَّ جِوَارِی.قَالَ: قَدْ رَدَدْتُهُ عَلَیْكَ،قَالَتْ: فَقَامَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إِنَّ ابْنَ أَبِی قُحَافَةَ قَدْ رَدَّ عَلَیَّ جِوَارِی فَشَأْنُكُمْ بِصَاحِبِكُمْ

چنانچہ ابن دغنہ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اوران سےکہااے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ !میں   نے تمہیں   اس لیے پناہ نہیں   دی تھی کہ تم اپنی قوم کوتکلیف پہنچاؤ،وہ تمہیں   گھرسے باہر نماز پڑھتےپسندنہیں   کرتےاورانہیں   اس سے تکلیف پہنچتی ہےآپ گھرکے اندرمسجدبناکرجس طرح نمازپڑھتے رہیں  ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہااگرمیں   تمہاری پناہ تمہیں   واپس لوٹادوں   اور اللہ کی پناہ میں   چلاجاؤں   توکیسارہے گا،ابن دغنہ نے کہاٹھیک ہے آپ میری پناہ مجھے واپس لوٹادیں  ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے کہامیں   نے تمہاری پناہ تمہیں   لوٹادی،ابن دغنہ کھڑ اہوااوربلندآوازسے     بولااے گروہ قریش!ابن ابی قحافہ (سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ )نے میری پناہ مجھے لوٹادی ہے اب تم اپنے ساتھی کے ساتھ جوسلوک چاہے کرو۔[9]

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایساہی دلیرانہ رویہ اختیارکیا،اسلام لانے کے بعدانہوں   نے اپنے ماموں   عاص بن وائل کی پناہ کالعدم کردی تاکہ اللہ اوراس کے رسول کی پناہ میں   اسی طرح زندگی بسرکریں   جس طرح دیگربے بس مسلمان بسرکررہے تھے اورجنہیں   کوئی کافرپناہ دینے کے لیے تیارنہ تھا۔

دوسری طرف کیونکہ قریش کی جانب سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قتل کااندیشہ تھا

 فَكَانَ أَبُو طَالِبٍ إِذَا أَخَذَ النَّاسُ مَضَاجِعَهُمْ أَمَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاضْطَجَعَ عَلَى فِرَاشِهِ حَتَّى یَرَى ذَلِكَ مَنْ أَرَادَ به مكراً واغتیالاً له، فإذا نام النَّاسُ أَمَرَ أَحَدَ بَنِیهِ أَوْ إِخْوَتِهِ أَوْ بنی عمه فاضطجعوا عَلَى فِرَاشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَأْتِیَ بَعْضَ فُرُشِهِمْ فَیَنَامَ عَلَیْهِ

اس لئے ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کایہ انتظام کیاکہ جب رات کولوگ سونے لگتے توابوطالب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوان کے مخصوص بسترپرلٹاتے تاکہ قاتلانہ حملہ کاارادہ کرنے والے دیکھ لیں   کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کہاں   سورہے ہیں   مگرجب لوگ سوجاتے توابوطالب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بستر پراپنے کسی عزیزکوسلادیتے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کواس کے بسترمیں   منتقل کردیتے[10]

حرمت والے مہینوں   میں  جب محصورین اپنی ضروریات کی چیزیں   لینے کے لئے اس گھاٹی سے باہرنکلتے تو اس دوران قریش چیزوں   کے دام اس قدر بڑھادیتے کہ مسلمانوں   کے لئے انہیں   خریدناممکن نہ رہتا،ان مہینوں   میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  گھاٹی سے باہرتشریف لاتے اورلوگوں   کودعوت اسلام دے کر اپنا فرض منصبی ادافرماتے،

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کی پیدائش اسی اسیری کے زمانے میں   ہوئی ۔

یہ مظلومین تین سال تک ابن سعدکے بقول دوسال اس گھاٹی میں   محصورومحبوس رہے یہاں   تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ،ابوطالب اور خدیجہ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا نے اپنااپناتمام سرمایہ خرچ کرڈالااوراس کے بعدنوبت فقروفاقہ تک آپہنچی ،مقاطعہ نہایت شدیدتھاکہ محصورین کی حالت بہت سنگین ہوگئی۔

وَسُمِعَ أَصْوَاتُ صِبْیَانِهِمْ بِالْبُكَاءِ مِنْ وَرَاءِ الشِّعْبِ،فَمِنْ قُرَیْشٍ مَنْ سَرَّهُ ذَلِكَ وَمِنْهُمْ مَنْ سَاءَهُ وَقَالَ: انْظُرُوا مَا أَصَابَ مَنْصُورَ بْنَ عِكْرِمَةَ

بھوک سے بچوں   اورعورتوں   کے بلبلانے اورتڑپنے کی آوازیں   گھاٹی سے باہرسنائی دینے لگیں  ،سنگدل لوگ ان معصوم آوازوں   پرخوش ہوتے اورخیال کرتے کہ ان کا حربہ آخرکارکامیاب ہوجائے گا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم  جونہایت رحم دل ہیں   بچوں   اورعورتوں   کے بلبلانے اور تڑپنے کی آوازیں   سن کرخودکوقریش کے حوالے کردیں   گےیابنوہاشم ہی ہمت ہارجائیں   گے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوپکڑکران کے سپرد کردیں   گے، مگرقریش میں   بعض تواس پرخوش ہوتے تھے لیکن جولوگ رحم دل تھے ان کوقریش کایہ وطیرہ سخت ناگوارگزراانہوں   نے کہاکیاتم لوگوں   نے دیکھانہیں   کہ اس سفاکانہ معاہدہ لکھنے کی وجہ سے منصوربن عکرمہ پرکیاگزری ہے ؟۔[11]

یحْكى أَن الْمُؤمنِینَ جهدوا من ضیق الْحصار، حَتَّى إِنَّهُم كَانُوا یَأْكُلُون الْخبط، وورق السمر وَكَانَ فِیهِمْ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقّاصٍ. رُوِیَ أَنّهُ قَالَ لَقَدْ جُعْت، حَتّى إنّی وَطِئْت ذَاتَ لَیْلَةٍ عَلَى شَیْءٍ رَطْبٍ فَوَضَعْته فِی فَمِی وَبَلَعْته، وَمَا أَدْرِی مَا هُوَ إلَى الْآنَ

اس دوران مسلمانوں   نے بھوک سے مجبورہوکرکیکرکے پتے کھاکرپیٹ کی آگ بجھائی،ان محاصرین میں   سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ بھی تھے وہ کہتے ہیں   کہ میں   سخت بھوکاتھاایک رات اتفاق سے میراپیرکسی ترچیزپرپڑاجوگیلی تھی میں   نے اسے دیکھے بنااٹھاکرزبان پررکھااورنگل گیامجھے معلوم نہیں   وہ کیاشے تھی؟۔[12]

 أَنّ سَعْدًا قَالَ خَرَجْت ذَاتَ لَیْلَةٍ لِأَبُولَ فَسَمِعْت قَعْقَعَةً تَحْتَ الْبَوْلِ فَإِذَا قِطْعَةٌ مِنْ جِلْدِ بَعِیرٍ یَابِسَةٍ فَأَخَذْتهَا وَغَسَلْتهَا، ثُمّ أَحْرَقْتهَا ثُمّ رَضَضْتهَا، وَسَفِفْتهَا بِالْمَاءِ فَقَوِیت بِهَا ثَلَاثًا

سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  اپنا ایک اورواقعہ بیان کرتے ہیں  ایک رات میں   پیشاب کے لئے نکلا راستے میں   مجھے اونٹ کی کھال کاسوکھا ہوا چمڑا ملاپیٹ بھرنے کے لئے میں   نے اسے دھوکر جلایا اور اس کاسفوف بناکرپانی کے ساتھ پی لیا،تین دن میں   نے اسی سفوف پرگزاراکیا۔[13]

نوبت یہاں   تک پہنچی ہوئی تھی کہ اگرکسی کوحاجت ہوتی تووہ بکری کی طرح منگنیاں   کرتاتھا۔[14]

بعض لوگوں   کااپنے عزیزوں   کی اس تکلیف پردل کڑھتاتھا،وہ خفیہ طورپرکھانے پینے کی چیزیں   بھیجتے،

وَقَدْ كَانَ أَبُو جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ فِیمَا یَذْكُرُونَ لَقِیَ حَكِیمَ بْنَ حِزَامِ بْنِ خُوَیْلِدِابْن أَسَدٍ، مَعَهُ غُلَامٌ یَحْمِلُ قَمْحًا یُرِیدُ بِهِ عَمَّتَهُ خَدِیجَةَ بِنْتَ خُوَیْلِدٍ، وَهِیَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ فِی الشِّعْبِ، فَتَعَلَّقَ بِهِ وَقَالَ: أَتَذْهَبُ بِالطَّعَامِ إلَى بَنِی هَاشِمٍ؟ وَاَللَّهِ لَا تَبْرَحُ أَنْتَ وَطَعَامُكَ حَتَّى أفضحك بِمَكَّة،فَجَاءَهُ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ ابْن هَاشِمِ  بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَسد، فَقَالَ: مَالك وَلَهُ؟ فَقَالَ: یَحْمِلُ الطَّعَامَ إلَى بَنِی هَاشِمٍ

ام المومنین خدیجہ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا  کے بھتیجے حکیم بن حزام بن خویلدبن اسد نے جوفتح مکہ کے دن ایمان لائے ،احسان اورصلہ رحمی جن کافطری اورجبلی وصف تھا ایک روزخفیہ طورپر اپنی پھوپھی کو کچھ غلہ بھیجنے کے لئے غلام کے ہمراہ جارہے تھے اوروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھرمیں   تھیں   مگر ابوجہل نے کسی طرح انہیں   دیکھ لیااوران پرجھپٹ پڑااورسختی سے کہامیں   تجھ کو بنوہاشم کے ہاں   غلہ لے جانے نہ دوں   گااورتمہاری اس حرکت پرسب قبائل قریش میں   تمہیں   ذلیل ورسوا کروں   گا،اتفاق سے ابوالبختری ابن ہاشم بن حارث بن اسد بھی وہیں   پہنچ گیااس نے پوچھاکیابات ہے؟ابوجہل نے کہایہ بنوہاشم کے لیے غلہ لے کرجارہاہے،

فَقَالَ (لَهُ) أَبُو الْبَخْتَرِیِّ: طَعَامٌ كَانَ لِعَمَّتِهِ عِنْدَهُ بَعَثَتْ إلَیْهِ (فِیهِ)  أَفَتَمْنَعُهُ أَنْ یَأْتِیَهَا بِطَعَامِهَا! خَلِّ سَبِیلَ الرَّجُلِ، فَأَبَى أَبُو جَهْلٍ حَتَّى نَالَ أَحَدُهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ، فَأَخَذَ (لَهُ)  أَبُو الْبَخْتَرِیِّ لَحْیَ بَعِیرٍ فَضَرَبَهُ بِهِ فشجّه، ووطئه وطأ شَدِیدًا وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَرِیبٌ یَرَى ذَلِكَ، وَهُمْ یَكْرَهُونَ أَنْ یَبْلُغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، فَیَشْمَتُوا بِهِمْ

ابوالبختری نے ابوجہل سے کہااس کی پھوپھی کاغلہ اس کے پاس رکھاہواتھااس نے اپناغلہ منگوایاہے اوریہ اپنی پھوپھی کے پاس لے کرجارہاہے تیرااس میں   کیاحرج ہےاس شخص کاراستہ چھوڑدو،فرعون امت ابوجہل نے یہ بات کب برداشت کرنی تھی اسے اس نرم جواب پرسخت غصہ آیا اور ابوالبختری کوبرابھلاکہنے لگا اورپھرنوبت زدوکوب تک پہنچ گئی،ابوالبختری نے ابوجہل کے اونٹ کی جس پروہ سوارتھاگردن پکڑکرمروڑڈالی اورایساجھٹکادیاکہ اونٹ بیٹھ گیاپھرابوجہل کی گدی پکڑکے کھینچ لیااور قریب پڑی اونٹ کی ہڈی اٹھاکرابوجہل کے سر پرایسی ضرب لگائی جس سے اس کاسرزخمی ہوگیاپھرابوالبختری نے اسےاپنے پیروں   اورلاتوں   سے خوب  روندا، اوریہ ساری کاروائی شعب بنوہاشم میں   کھڑے حمزہ  رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب دیکھ رہے تھے،ابوجہل کومارکھانے سے زیادہ اس بات سے تکلیف پہنچی کہ یہ خبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہما  کوپہنچے گی اوروہ میری ذلت کاسن کر خوش ہوں   گے۔[15]

مسلمانوں   کی تکالیف اور مصائب کودیکھ کربعض رحم دل لوگوں   نے اس معاہدہ کوجوقریش نے بنوہاشم کے خلاف لکھاتھاتوڑنے کاارادہ کیا جن میں  سب سے پہلے ہشام بن عمروبن حارث بن مالک بن عامرتھے جوبنوعامربن لوی سے تعلق رکھتے تھے اور فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے کے دل میں   یہ خیال پیداہوا کہ افسوس ہم توسب نعمتیں   کھائیں   پئیں   اورہمارے عزیزواقارب دانے دانے کوترسیں   اورفاقے پرفاقے کریں  ،

فَكَانَ فِیمَا بَلَغَنِی یَأْتِی بِالْبَعِیرِ، وَبَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ فِی الشِّعْبِ لَیْلًا، قَدْ أَوْقَرَهُ طَعَامًا، حَتَّى إذَا أَقْبَلَ بِهِ فَمَ الشِّعْبِ خَلَعَ خِطَامَهُ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى جَنْبِهِ، فَیَدْخُلُ الشِّعْبَ عَلَیْهِمْ ثُمَّ یَأْتِی بِهِ قَدْ أَوْقَرَهُ بَزًّا  ، فَیَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ ذَلِكَ

چنانچہ ہشام بن عمرو نے یہ طریقہ اختیارکیاتھاکہ رات کے وقت اونٹ پرگہیوں   لادکربنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب کو پہنچا دیا کرتا تھااوروہ اونٹ پرسے گہیوں   کواتار کراونٹ کوواپس کردیتے تھے وہ پھرموقعہ دیکھ کراس پر لاد کر پہنچا دیتا غرضیکہ اسی طریقہ سے ان کاگزارہ ہوتاتھا۔[16]

 ثُمَّ إنَّهُ مَشَى إلَى زُهَیْرِ بْنِ أَبِی أُمَیَّةَ بْنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ مَخْزُومٍ، وَكَانَتْ أُمُّهُ عَاتِكَةَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: یَا زُهَیْرُ، أَقَدْ رَضِیتَ أَنْ تَأْكُلَ الطَّعَامَ، وَتَلْبَسَ الثِّیَابَ، وَتَنْكِحَ النِّسَاءَ، وَأَخْوَالُكَ حَیْثُ قَدْ عَلِمْتَ، لَا یُبَاعُونَ وَلَا یُبْتَاعُ مِنْهُمْ، وَلَا یَنْكِحُونَ وَلَا یُنْكَحُ إلَیْهِمْ؟أَمَا إنِّی أَحْلِفُ باللَّه أَنْ لَوْ كَانُوا أَخْوَالَ أَبِی الْحَكَمِ بْنِ هِشَامٍ، ثُمَّ دَعَوْتَهُ إلَى (مِثْلِ) مَا دَعَاكَ إلَیْهِ مِنْهُمْ، مَا أَجَابَكَ إلَیْهِ  أَبَدًا

کچھ عرصہ بعدہشام بن عمرو، عبدالمطلب کے نواسے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے زہیربن امیہ مخزومی جوفتح مکہ کے دن ایمان لائےتھے کے پاس گئےاورانہیں   اپناہم خیال بنانے کی غرض سے کہااے زہیر!کیاتم اس بات کوپسندکرتے ہوکہ تم توہرنعمت کھاؤ،اچھے کپڑے پہنو،عورتوں   سےنکاح کرو اور تمہارے ماموں   بنی مطلب کسی چیزکی خریدوفروخت نہ کرسکیں   اوران سے شادی بیاہ بھی نہ کرسکیں  ،اللہ کی قسم اگر ابوجہل کے ننھیال اس حال میں   ہوتے تووہ ہرگزہرگزاس معاہدہ کی پرواہ نہ کرتااورکھلم کھلاان کی مدد کرتا،

قَالَ: وَیْحَكَ یَا هِشَامُ! فَمَاذَا أَصْنَعُ؟ إنَّمَا أَنَا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَاَللَّهِ لَوْ كَانَ مَعِی رَجُلٌ آخَرُ لَقُمْتُ فِی نَقْضِهَا حَتَّى أَنْقُضَهَا، قَالَ: قَدْ وَجَدْتَ رَجُلًا قَالَ: فَمَنْ هُوَ؟قَالَ: أَنَا،قَالَ لَهُ زُهَیْرٌ: أَبْغِنَا رَجُلًا ثَالِثًا، فَذَهَبَ إلَى الْمُطْعِمِ بْنِ عَدِیِّ (بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ) ، فَقَالَ لَهُ: یَا مُطْعِمُ أَقَدْ رَضِیتَ أَنْ یَهْلِكَ بَطْنَانِ مِنْ بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ، وَأَنْتَ شَاهِدٌ عَلَى ذَلِكَ، مُوَافِقٌ لِقُرَیْشِ فِیهِ! أَمَا وَاَللَّهِ لَئِنْ أَمْكَنْتُمُوهُمْ مِنْ هَذِهِ لَتَجِدُنَّهُمْ  إلَیْهَا مِنْكُمْ سِرَاعًا، قَالَ  وَیْحَكَ! فَمَاذَا أَصْنَعُ؟ إنَّمَا أَنَا رَجُلٌ وَاحِدٌ،قَالَ: قَدْ وَجَدْتَ ثَانِیًا،قَالَ: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: أَنَا

زہیربن امیہ نے کہاآپ ٹھیک کہتے ہیں   مگرمیں   اکیلاکیاکر سکتا ہوں   ؟اگرمجھے کوئی اورہم خیال مل جائے توپھرمیں   اس کام کے لئے تگ ودوکروں  ،ہشام نے کہاایک آدمی اوربھی ہے ، زہیرنے پوچھاوہ کون ہے ؟ہشام نے کہامیں   تمہارے سامنے موجودہوں  ،زہیرنے کہااب کسی تیسرے آدمی کی تلاش کی جائے،زہیربن امیہ کوہم خیال بنا کر ہشام بن عمرووہاں   سے اٹھے اورمطعم بن عدی کے پاس چلے گئے جن کاتعلق نوفل عبدمناف سے تھااس طرح مطعم کا بنوہاشم اوربنوعبدالمطلب سے قریبی نسبی تعلق تھا،ہشام بن عمرونے کہااے مطعم!کیاتواس بات کوپسندکرتاہے کہ بنی عبدمناف کے دوگروہ ہلاک ہوجائیں   اور تو ان کی ہلاکت میں   قریش کاساتھ دے،واللہ!اگرقریش سے تم ایسی بات چاہتے تووہ ہرگزتمہارے ساتھ شریک نہ ہوتے اوراگرہوتے بھی توفورااس عہد کا توڑ دیتے،مطعم بن عدی نے بھی یہی کہاکہ وہ اکیلاکیاکرسکتاہے کوئی دوسراآدمی ہوتووہ بھی کچھ کوشش کرے،ہشام نے کہادوسرابھی تیرے پاس موجودہے،مطعم نے کہاوہ کون ہے،ہشام نے کہامیں   تمہارے ساتھ ہوں  ،

قَالَ: أَبْغِنَا ثَالِثًا قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ،قَالَ: مَنْ هُوَ؟ قَالَ:زُهَیْرُ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ،قَالَ: أَبْغِنَا رَابِعًافَذَهَبَ إلَى الْبَخْتَرِیِّ بْنِ هِشَام، فَقَالَ لَهُ نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِلْمُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ، فَقَالَ: وَهَلْ مِنْ أَحَدٍ یُعِینُ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: زُهَیْرُ ابْن أَبِی أُمَیَّةَ، وَالْمُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ، وَأَنَا مَعَكَ،قَالَ: أَبْغِنَا خَامِسًافَذَهَبَ إلَى زَمْعَةَ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدٍ، فَكَلَّمَهُ، وَذكر لَهُ قَرَابَتَهُمْ وَحَقَّهُمْ،فَقَالَ لَهُ: وَهَلْ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الَّذِی تَدْعُونِی إلَیْهِ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَ:نَعَمْ، ثُمَّ سَمَّى لَهُ الْقَوْمَ،فَاتَّعَدُوا خَطْمَ الْحَجُونِ  لَیْلًا بِأَعْلَى مَكَّةَ، فَاجْتَمَعُوا هُنَالِكَ. فَأَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَتَعَاقَدُوا عَلَى الْقِیَامِ فِی  الصَّحِیفَةِ حَتَّى یَنْقُضُوهَا

مطعم نے کہاپھرتیسراآدمی تلاش کرناچاہیے، ہشام نے کہاوہ بھی موجودہے،مطعم نے کہاوہ کون ہے؟ہشام نے کہازہیربن امیہ مخزومی، مطعم نے کہاتوپھرچوتھاآدمی تلاش کرناچاہیے تاکہ کام پختہ ہوجائے،ہشام بن عمرویہاں   بھی کامیاب ہوکر ابوالبختری بن ہشام کے پاس پہنچے اوراس سے بھی وہی گفتگو کی جومطعم بن عدی سے کی تھی،اس نے کہااورکون ہماراشریک ہے؟ ہشام نے کہااوربھی ہیں  ، ابوالبختری  نے کہااورکون لوگ ہیں  ؟ ہشام نے کہازہیرابن ابی امیہ اورمطعم بن عدی اورمیں   بھی ان کے ساتھ ہوں    ابوالبختری نے کہاپھرپانچواں   آدمی تلاش کرناچاہیے، اس کے بعدہشام زمعہ بن الاسودبن مطلب بن اسدکے پاس پہنچے اوراس سے بات چیت کی اورقرابت داری اوران کے حقوق کاذکرکیا، وہ بھی ہشام بن عمروکا ہم خیال بن گیااورکہاکیاتم نے کسی اورکوبھی اپنے ساتھ ملایاہے؟ہشام نے کہاہاں   اورسب لوگوں   کے اتفاق کاذکرکیا،اس طرح یہ پانچ آدمی مکہ معظمہ کی بالائی جانب باب الحجون میں   جمع ہوئے اور اس معاہدے کوتوڑنے کے لئے عہدوپیمان کیاکہ کل ہم ضروراس عہدنامہ کوپارہ پارہ کردیں   گے،

وَقَالَ زُهَیْرٌ: أَنَا أَبْدَؤُكُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ یَتَكَلَّمُ،فَلَمَّا أَصْبَحُوا غَدَوْا إلَى أَنْدِیَتِهِمْ، وَغَدَا زُهَیْرُ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ عَلَیْهِ حُلَّةٌ، فَطَافَ بِالْبَیْتِ سَبْعًا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: یَا أَهْلَ مَكَّةَ، أَنَأْكُلُ الطَّعَامَ وَنَلْبَسُ الثِّیَابَ، وَبَنُو هَاشِمٍ هَلْكَى لَا یُبَاعُ وَلَا یُبْتَاعُ مِنْهُمْ، وَاَللَّهِ لَا أَقْعُدُ حَتَّى تُشَقَّ هَذِهِ الصَّحِیفَةُ الْقَاطِعَةُ الظَّالِمَةُ،قَالَ أَبُو جَهْلٍ: وَكَانَ فِی نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ: كَذَبْتَ وَاَللَّهِ لَا تُشَقُّ ، قَالَ زَمْعَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ: أَنْتَ وَاَللَّهِ أَكْذَبُ، مَا رَضِینَا كِتَابَهَا حَیْثُ كُتِبَتْ، قَالَ أَبُو الْبَخْتَرِیِّ:صَدَقَ زَمْعَةُ، لَا نَرْضَى مَا كُتِبَ فِیهَا، وَلَا نُقِرُّ بِهِ، قَالَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ:صَدَقْتُمَا وَكَذَبَ مَنْ قَالَ غَیْرَ ذَلِكَ، نَبْرَأُ إلَى اللَّهِ مِنْهَا، وَمِمَّا كُتِبَ فِیهَاقَالَ هِشَامُ ابْن عَمْرٍو نَحْوًا مِنْ ذَلِكَ،فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: هَذَا أَمْرٌ قُضِیَ بِلَیْلِ، تُشُووِرَ فِیهِ بِغَیْرِ هَذَا الْمَكَانِ

زہیربن امیہ نے کہااس معاہدے کے خلاف سب سے پہلے میں   آواز اٹھاؤں   گاتم میری ہاں   میں   ہاں   ملانا،دوسری صبح جب حسب دستور قریش خانہ کعبہ میں  آکراپنی اپنی جگہ فروکش ہوئے تو  زہیربن امیہ بھی ریشمی حلہ زیب تن کرکے وہاں   پہنچ گیااورسب یاران جلسہ بھی ان کے ساتھ شریک تھے،آتے ہی پہلے بیت اللہ کاسات مرتبہ طواف کیا،پھرقریش کے مجمع میں   آیااور وعدے کے مطابق کھڑے ہوکرکہااے اہل مکہ!یہ تو بڑے افسوس اورغیرت کی بات ہے کہ ہم توہرطرح کی نعمتیں   کھائیں   اور پئیں   ، نکاح کریں  اوربنوہاشم فاقوں   سے مریں  ،نہ ان کے ہاتھ کوئی چیزبیچی جائے اورنہ خریدی جائے ،اللہ کی قسم جب تک یہ غیرمنصفانہ معاہدہ جوقوم میں   قطع رحمی کاسبب بناہواہے چاک نہیں   کیا جائے گامیں   اس وقت تک چین سے نہیں   بیٹھوں   گا،ابوجہل جوایک کونے میں   بیٹھاہواتھانے بڑی رعونت سے جواب دیااللہ کے گھرمیں   آویزاں  یہ عہدنامہ کبھی چاک نہیں   کیا جا سکتا،زمعہ بن الاسودنے کھڑے ہوکرابوجہل سےکہااللہ کی قسم !توسب سے زیادہ جھوٹاہے یہ جانبدارانہ عہدنامہ ضرورچاک کیاجائے گا ، جس وقت یہ لکھاجارہاتھاہم لوگ اس وقت بھی اس پرراضی نہ تھے،ابوالبختری بن ہشام نے ان لوگوں   کی تائیدکرتے ہوئے کہازمعہ ٹھیک کہتاہےہم بھی اس عہدنامے پرراضی نہ تھے ، اس عہدنامہ کو فوراًچاک کردو، مطعم نے کہابلاشبہ یہ دونوں   سچ کہہ رہے ہیں  اورابوجہل جھوٹاہے ہم اللہ کے حضورایسے ظلم سے توبہ کرتے ہیں  جس کے واسطے یہ عہدنامہ لکھاگیاہے،پھرہشام بن عمرو نے بھی اس بات کی تائیدکی کہ اس معاہدے کوختم کردیناچاہیے،ابوجہل کے یہ وہم وگمان میں   بھی نہیں   تھاکہ ایسی آوازاٹھائی جائے گی بنوہاشم کے حق میں  ان پانچوں   لوگوں   کی آراء سن کروہ ہکابکارہ گیااورسنبھل کرکہایہ تورات میں   پہلے سے طے کیاہوامنصوبہ معلوم ہوتا ہے۔[17]

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِی طَالِبٍ: یَا عَمِّ، إنَّ رَبِّی اللَّهَ قَدْ سَلَّطَ الْأَرَضَةَ عَلَى صَحِیفَةِ قُرَیْشٍ، فَلَمْ تَدَعْ فِیهَا اسْمًا هُوَ للَّه إلَّا أَثْبَتَتْهُ فِیهَا،وَنَفَتْ مِنْهُ الظُّلْمَ وَالْقَطِیعَةَ وَالْبُهْتَانَ، فَقَالَ:أَرَبُّكَ أَخْبَرَكَ بِهَذَا؟قَالَ: نعم،قَالَ: فو الله مَا یَدْخُلُ عَلَیْكَ أَحَدٌ ، فَانْطَلَقَ فِی عِصَابَةٍ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَتَّى أَتَوُا الْمَسْجِدَ وَهُمْ خَائِفُونَ لِقُرَیْشٍ، فَلَمَّا رَأَتْهُمْ قُرَیْشٌ فِی جَمَاعَةٍ أَنْكَرُوا ذَلِكَ، وَظَنُّوا أَنَّهُمْ خَرَجُوا مِنْ شِدَّةِ الْبَلاءِ لِیُسَلِّمُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِرُمَّتِهِ إِلَى قُرَیْشٍ

محرم دس بعثت نبوی کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابوطالب کوخبردی اے چچا! اس عہدنامہ کے تمام حروف کوجوظلم ،قطع رحمی اوربھتان پرمبنی تھےسوائے باسمک الھم کے علاوہ جوبطورعنوان ہرتحریرکے شروع میں   لکھا جاتاتھادیمک نے کھالیاہے، ابوطالب نے کہاکیایہ خبرتمہیں   رب نے دی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں   مجھے میرے رب نے یہ خبرپہنچائی ہے،ابو طالب نے کہا واللہ ! آپ تک کوئی نہیں   پہنچ سکتا،ابوطالب نے یہ خبردوسرے اہل خاندان سے بیان کی اورسب مل کرمسجدمیں   گئےجب قریش نے ابوطالب کوآتے دیکھاتوسمجھاکہ شدیدقسم کی بھوک سے تنگ آکر اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوہمارے حوالے کرنے آرہے ہیں  ،

فَتَكَلَّمَ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ: قَدْ جَرَتْ أُمُورٌ بَیْنَنَا وبینكم نذكرها لكم فأتوا بِصَحِیفَتِكُمُ الَّتِی فِیهَا مَوَاثِیقُكُمْ فَلَعَلَّهُ أَنْ یَكُونَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ صُلْحٌ، وَإِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ أَبُو طَالِبٍ خَشْیَةَ أَنْ یَنْظُرُوا فِی الصَّحِیفَةِ قَبْلَ أَنْ یَأْتُوا بِهَا، فَأَتَوْا بِصَحِیفَتِهِمْ مُعْجِبِینَ، لا یَشُكُّونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُدْفَعُ إِلَیْهِمْ، فَوَضَعُوهَا بَیْنَهُمْ، وَقَالُوا لأَبِی طَالِبٍ: قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تَرْجِعُوا عَمَّا أَحْدَثْتُمْ عَلَیْنَا وَعَلَى أَنْفُسِكُم

ابوطالب بولے اور قریش سے کہاایک واقعہ رونماہواہے ممکن ہے وہ ہمارے اورتمہارے درمیان صلح کاذریعہ بن جائے ،یہ سن کرقریش بہت خوش ہوئے اوران کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حوالے کرنے میں   کوئی شک باقی نہ رہاپس اس دستاویز کو سامنے رکھ دیا گیاوہ کہنے لگے اب تمہارے ہوش ٹھکانے آئے ہیں   اورتم قوم کی بات سننے پرتیار ہوئے ہو،

فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ: إِنَّمَا أَتَیْتُكُمْ فِی أَمْرٍ هُوَ نِصْفٌ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ، إِنَّ ابْنَ أَخِی أَخْبَرَنِی وَلَمْ یَكْذِبْنِی ، أَنَّ هَذِهِ الصَّحِیفَةَ الَّتِی فِی أَیْدِیكُمْ قَدْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَیْهَا دَابَّةً فَلَمْ تَتْرُكْ فِیهَا اسْمًا لَهُ إِلَّا لَحَسَتْهُ، وَتَرَكَتْ فِیهَا غَدْرُكُمْ وَتَظَاهُرُكُمْ عَلَیْنَا بِالظُّلْمِ،فَإِنْ كَانَ الْحَدِیثُ كَمَا یَقُولُ فَأَفِیقُوا فَلا وَاللَّهِ لا نُسَلِّمُهُ حَتَّى نَمُوتَ مِنْ عِنْدِ آخِرِنَا وَإِنْ كَانَ الَّذِی یَقُولُ بَاطِلا دَفَعْنَا إِلَیْكُمْ صَاحِبَنَا فَقَتَلْتُمْ أَوِ اسْتَحْیَیْتُمْ، فَقَالُوا: قَدْ رَضِینَا بِالَّذِی تَقُولُ

ابوطالب نے کہامیں   تمہیں   ایک انصاف کی بات کہتاہوں  اس کومان لوگے توہمارے تمہارے درمیان صلح ہوسکتی ہے ،میرے بھتیجے نے کبھی جھوٹ نہیں   بولا آج اس نے یہ خبردی ہے اوراس کی کوئی بات غلط ثابت نہیں   ہوئی کہ اللہ نے تمہاری دستاویزپردیمک کومسلط کردیاہے جس نے ظلم وجوراورقرابت داروں   سے قطع تعلق کی عبارتوں   کوچاٹ لیاہے آؤاسی خبرپرفیصلہ کرلیتے ہیں  ،اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحیح خبردی ہے توجب تک ہمارابچہ بچہ کٹ نہیں   جائے گاہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوتمہارے حوالے نہیں   کریں   گےاوراگریہ خبرانہوں   نے غلط دی ہے تومیں   اپنے بھتیجے کو تمہارے سپرد کردوں   گاپھرتمہیں   اختیارہے کہ چاہے تم انہیں   قتل کرویاشرمندہ کرکے زندہ چھوڑ دو ، قریش تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کواللہ کارسول ماننے کوتیارہی نہ تھے اورنہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے اور اللہ تعالیٰ قدم قدم پران کی رہنمائی فرماتاہے چنانچہ انہیں   یہ موقعہ غنیمت سمجھااور انہوں  نے اس پیشکش کوفوراًقبول کرلیا،

فَفَتَحُوا الصَّحِیفَةَ فَوَجَدُوا الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخْبَرَ بِخَبَرِهَا قَبْلَ أَنْ تُفْتَحَ،فَلَمَّا رَأَتْ قُرَیْشٌ صِدْقَ مَا جَاءَ بِهِ أَبُو طَالِبٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: هَذَا سِحْرُ ابْنِ أَخِیكَ وَزَادَهُمْ ذَلِكَ بَغْیًا وَعُدْوَانًا فَعِنْدَ ذَلِكَ صَنَعَ الرَّهْطُ مِنْ قُرَیْشٍ فِی نَقْضِ الصَّحِیفَةِ مَا صَنَعُوا

اسی وقت کچھ لوگوں   کواس دستاویزکاحال دیکھنے کوبھیجا انہوں   نے اس دستاویز کو کھولاتو دیکھا کہ واقعی صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم  کی خبرکے مطابق دیمک اللہ کے نام کے سواتمام عبارت کو چاٹ چکی ہے، جب قریش نے دیکھاکہ یہ خبرجوابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سن کرآئے تھےسچ ثابت ہوگئی ہے تو ندامت وشرمندگی سے سب کی گردنیں   جھک گئیں  مگربولے یہ تمہارے بھتیجے کے جادوکاکرشمہ ہے،یہ کہہ کرانہوں   نے اس فیصلے کو ماننے سے انکارکردیااورپہلے سے بھی زیادہ فسادپرآمادہ ہوگئے ، لیکن عہدنامہ پھاڑنے پر اتفاق کرنے والے لوگ آگے بڑھے اوراس معاہدے کوپارہ پارہ کردیا۔[18]

ثُمَّ دَخَلَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ بَیْنَ أَسْتَارِ الْكَعْبَةِ وَالْكَعْبَةِ فَقَالَ: اللَّهُمَّ انْصُرْنَا مِمَّنْ ظَلَمَنَا. وَقَطَعَ أَرْحَامَنَا. وَاسْتَحَلَّ مِنَّا مَا یَحْرُمُ عَلَیْهِ مِنَّا!ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى الشِّعْبِ

ابو طالب اوران کے رفقاء حرم میں   پہنچے اوربیت اللہ کاپردہ پکڑکر دعامانگی اے اللہ!جن لوگوں   نے ہم پرظلم کیاہے اورہماری قرابتوں   کو قطع کیااوراللہ کی حرام کردہ چیزوں   کوحلال کرلیاان کے مقابلہ میں   ہماری مددفرما اس دعاکے بعدسب واپس گھاٹی میں   چلے گئے۔[19]

وَتَلاوَمَ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَى مَا صَنَعُوا بِبَنِی هَاشِمٍ. فِیهِمْ: مُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ. وَعَدِیُّ بْنُ قَیْسٍ. وَزَمْعَةُ بْنُ الأَسْوَدِ. وَأَبُو البختری بْنُ هَاشِمٍ. وَزُهَیْرُ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ. وَلَبِسُوا السِّلاحَ ثُمَّ خَرَجُوا إِلَى بَنِی هَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ. فَأَمَرُوهُمْ بِالْخُرُوجِ إِلَى مَسَاكِنِهِمْ فَفَعَلُواأَنَّ خُرُوجَهُمْ مِنَ الشِّعْبِ كَانَ فِی سَنَةِ عَشْرٍ مِنَ الْمَبْعَثِ

چنانچہ قریشیوں   نے بنی ہاشم کے خلاف جونامناسب کاروائی کی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے مطعم بن عدی،عدی بن قیس،زمعہ بن اسود،ابوالبختری بن ہشام،زہیربن ابی امیہ نے ہتھیارلگائے اوربنوہاشم وبنوعبدالمطلب کے پاس گھاٹی میں   پہنچے اورانہیں   اپنے اپنے گھروں   کوجانے کی اجازے دے دی اوربنوہاشم اوربنی عبدالمطلب اپنے گھروں   کوچلے گئے اس طرح اس سفاکانہ عہدنامہ کاخاتمہ ہوا ،تین سال کی مسلسل مصیبت کے بعددس بعثت نبوی کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ام المومنین خدیجہ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا  ،ابوطالب اوربنوہاشم وبنوعبدالمطلب اس گھاٹی سے باہرآئے۔[20]

نبوت کی نشانی دیکھ لینے کے باوجودقریش اسلام قبول کرنے کے بجائے اپنے کفر پر اور مضبوطی سے جم گئے ۔

اس روایت کی روسے قریش کاہرقبیلہ اس بات کاپابندتھاکہ وہ:

أَنْ لَا یُبَایِعُوهُمْ، وَلَا یُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا یُكَلِّمُوهُمْ، وَلَا یُجَالِسُوهُمْ، حَتَّى یُسَلِّمُوا إِلَیْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

کوئی شخص بنوہاشم سے تجارت نہیں   کرے گااورکوئی شخص بنوہاشم سے شادی بیاہ نہیں   کرے گااورکوئی شخص بنوہاشم سے بات چیت نہیں   کرے گااورنہ ہی اس کے میل جول رکھے گاجب تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کوان کے حوالے نہیں   کردیتے۔

xبعض روایات میں   ہے قریش نے بنوہاشم کوشعب ابی طالب میں   محصورکردیااوربعض میں   ہے اپنی مصلحت کے تحت شعب بنی ہاشم میں   یکجاہوئے۔

xبعض روایات میں   محصوری کی مدت دوسال بتلائی جاتی ہے اوربعض میں   تین سال۔

xمعاہدہ کے جس حصہ کودیمک نے چاٹ لیاتھااس میں   بھی اختلاف ہے کہ وہ ابتدائی الفاظ تھے یایہ الفاظ توباقی رہ گئے اوراصل معاہدہ تلف ہوگیا۔

ان روایات پرکچھ سوالات ذہن میں   ابھرتے ہیں   مثلا ً :

xمعاہدہ کی روسے بنوہاشم سے تجارتی لین دین، شادی بیاہ، بات چیت اور میل جول پرپابندی لگائی تھی مگربنی ہاشم کامحاصرہ کرنے کی توکوئی شق موجودنہیں   تھی،لہذااس معاہدہ کے تحت قریش کابنوہاشم کامحاصرہ کرنے کاتوکوئی جوازنہ تھااورنہ ہی کوئی قبیلہ ان کامحاصرہ کرنے کاپابندتھا،چنانچہ جوشق معاہدہ میں   شامل ہی نہیں   تھی اس پرتمام قریش نے اتفاق کیسے عمل کرلیا۔

xاورکیابنوہاشم اوربنی عبدالمطلب کو گھاٹی میں  محصورکرکے پہرہ بٹھادیاگیاتھاکہ نہ کوئی اندرجاسکتاتھااورنہ کوئی باہرنکل سکتاتھااورنہ کوئی چیزاندرجاسکتی تھی اورنہ باہرنکل سکتی تھی تاکہ بنی ہاشم بھوک پیاس سے مرجائیں  ۔

xیہ معاہدہ صرف بنی ہاشم اوراس کے حمایتی بنی عبدالمطلب کے خلاف تھادوسرے قبائل کے خلاف نہیں   تھالیکن روایت میں   ہے کہ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جن کاتعلق بنوزہرہ سے تھا بنوہاشم اوربنی عبدالمطب کے ساتھ محاصرے میں   موجودتھے،وہ ان محاصرین میں   کیسے شامل ہوگئے؟اگریہ کہاجائے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت کی وجہ سے ان کے ساتھ تھے توکیاسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اورسیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان اوردوسرے مسلمانوں   کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کوئی محبت وعقیدت نہیں   تھی کہ وہ بھی سعدبن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتےاوراپنی محبت کااظہارکرتے۔

xمعاہدے کی شق کے مطابق صرف قریش پر بنوہاشم سے تجارتی لین دین پرپابندی عائدکی گئی تھی اس طرح اردگردکےدوسرے قبائل اورباہرسے آئے ہوئے تاجروں   پریہ پابندی لاگونہیں   ہوتی تھی ،اس صورت میں   بنی ہاشم کے لیے اردگردکے قبائل اورباہرسے آئے ہوئے دوسرے تاجروں   سے لین دین کرنے کے لیے کوئی روکاوٹ نہیں   تھی کہ وہ ان سے ضرورت کی اشیاحاصل کریں  اورعورتوں   اوربچوں   کوبھوک سے ہلکان نہ کریں  ،لیکن روایت میں   یہ ذکرکیاگیاہے کہ بنی ہاشم اوربنی عبدالمطب تین سال تک بھوکے اس شعب میں   محصوررہے۔

xعرب کے قبائیلی معاشرہ میں   کسی شخص کوقتل کردیناآسان کام نہیں   تھا،قریش اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کردیناچاہتے تھے تومشاورت کرنے کی صحیح جگہ دارالندوہ تھی جہاں   قریش جمع ہوکر اپنے اہم اور اجتماعی فیصلے پوری سوچ وبچاراوربہت بحث وتمحیص کے بعدکرتے تھے اوروہی فیصلے قابل عمل بھی ہوتے تھے،دارالندوہ کے باہرکیے ہوئے فیصلے قبول نہیں   کیے جاتے تھے لیکن اس مقصدکے لیے دارالندوہ میں   کوئی مجلس منعقدنہیں   کی گئی ،لیکن بعدمیں   جب قریش نے سنجیدگی سے دارالندوہ میں   جمع ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قتل کافیصلہ کیاتواللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوہجرت کاحکم فرمایااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  دوپہرکے وقت ہی سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرتشریف لے گئے اوروہیں   سے ان کوساتھ لے کرغارحراکی طرف روانہ ہوگئے۔

xتین سال تک بنی ہاشم اوربنی عبدالمطب کامحاصرہ کوئی معمولی واقعہ نہیں   تھااگریہ واقعہ پیش آتاتواس ظلم کی بازگشت پورے عرب میں   گونج اٹھتی کیونکہ بنوہاشم زائرین عمرہ وحج کی مہمان داری،ان کے لیے پانی کابندوبست کرنا،بیت اللہ کی دیکھ بھال اورمسافروں   کی خدمت کرنے پرمامورتھے،اگروہ اپنے ان فرائض کوسرے سے ہی پورانہ کرتے یاکوتاہی کے مرتکب ہوتے تو پورے عرب میں   ہلچل پیداہوجاتی لیکن تاریخ میں   ایساکچھ مذکورنہیں  ،اور اگربنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب منظرسے ہی غائب تھے توان فرائض کوکس نے سرانجام دیاتھاتاریخ میں   یہ بھی کہیں   نظرنہیں   آتا۔

xروایت میں   بیان کیاگیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  صرف حرام مہینوں   میں   گھاٹی سے باہرنکل سکتے تھے یعنی سال میں   صرف چارماہ ،باقی آٹھ ماہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وعظ وتبلیغ کے لیےگھاٹی سے باہرنہیں   نکل سکتے تھے ،دوسرے معنوں   میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین سالوں   میں   صرف ایک سال اپنافرض منصبی سرانجام دیااورباقی دوسال اپنی جان کے خوف سےگھاٹی میں   چھپے رہے،کیاایساممکن ہے کہ اللہ کارسول جس کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہوتی ہے اپنی جان بچانے کے لیے اپنافرض منصبی ترک کردے،

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ۝۰ۭ وَاللهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۝۶۷   [21]

ترجمہ:اے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں   تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں   کے شر سے بچانے والا ہے، یقین رکھو کہ وہ کافروں   کو(تمہارے مقابلہ میں  ) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا ۔

اگریہ صحیح ہے توپھرقریش اپنے مقصدمیں  یقیناًمیں   کامیاب رہے کہ انہوں   نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کووعظ وتبلیغ سے دورکردیا۔

ان حقائق کی روشنی میں   ان مضطرب روایات پراعتمادنہیں   کیاجاسکتا۔

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ بِمِنًى:نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَیْفِ بَنِی كِنَانَةَ، حَیْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ وَذَلِكَ إِنَّ قُرَیْشًا وَبَنِی كِنَانَةَ تَحَالَفَتْ عَلَى بَنِی هَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ أَنْ لَا یُنَاكِحُوهُمْ وَلَا یُبَایِعُوهُمْ، حَتَّى یُسْلِمُوا إِلَیْهِمْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْنِی بِذَلِكَ، الْمُحَصَّبَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم منی میں   تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ہم کل خیف بنی کنانہ میں   اترنے والے ہیں   جس جگہ کافروں   نے کفر پر قسمیں   کھائیں   تھیں   اور یہ کہ قریش اور بنوکنانہ نے قسم کھائی کہ وہ بنوہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ نہ نکاح کریں   گے اور نہ ہی ان کے ساتھ خرید وفروخت کریں   گے جب تک کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سپرد نہ کر دیں   یعنی وہ جگہ وادی محصب تھی۔[22]

یہ روایت حقیقت سے قریب ترین معلوم ہوتی ہے جس میں   ہے کہ مشرکین قریش کے چندلوگوں   نے دارالندوہ میں   نہیں   بلکہ منی میں   بنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب کے معاشرتی مقاطعہ پرآپس میں   قسمیں   کھائیں   جس کے تحت بنوہاشم سے تجارتی لین دین،شادی بیاہ اورمیل جول ختم کردیاگیامگراس میں   ایسی کوئی شق موجودنہ تھی کہ بنوہاشم کوخوراک نہیں   پہنچانے دی جائے گی یاان کونظربندکردیاجائےگا،حلف اٹھانے والوں   کی نظرمیں   یہ حلف کیساہی رہاہومگریہ قریش کامعاہدہ نہیں   تھالہذااس کے لکھنے کی نوبت بھی نہیں   آسکتی،اس سے یہ نتائج باآسانی اخذکیے جاسکتے ہیں  ۔

xیہ قبائل قریش کاکوئی اجتماعی معاہدہ نہیں   تھاجوسوچ وبچاراوربحث وتمحیص سے طے پایاہواوراس کی کوئی مدت بھی مقررکی گئی ہواورپھراس کے لکھنے کی نوبت آئی ہو۔بنوکنانہ اورقریش کے کچھ لوگوں   نے جن میں   زیادہ امکان یہ ہے کہ اس میں   خاندانوں   کے بڑے شامل نہیں   تھے بنی ہاشم کوپسپاکرنے کے لیے گھاٹی میں   جمع ہوکرمعاشرتی مقاطعہ کافیصلہ کیااوراس پرقسمیں   کھائیں   مگربنوہاشم کی محصوری کی کوئی بات نہ تھی۔

xاس معاہدہ میں  قریش کے اہم سرداروں   کی تائیدحاصل نہ تھی چنانچہ وہ بنوہاشم کے خلاف اس ظلم وزیادتی کے خلاف آوازبلندکرتے رہے اورآخرکارانہی سرداروں   کی کوششوں   سے یہ محاذآرائی ختم ہوئی۔

xکیونکہ بنوہاشم اوربنی عبدالمطلب کے محاصرہ نام کی کوئی چیزنہ تھی اس لیے بنوہاشم کے عزیزواقارب مثلاًہشام بن عمرواورحکیم بن حزام اپنے عزیزوں   کوضرورت کی چیزیں   پہنچاتے رہتے تھے،مگرروایات میں   سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ،سیدناعمراورسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کاکہیں   ذکرنہیں   ملتاکیاانہیں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کوئی محبت نہیں   تھی ۔

xابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ معلوم نہیں   ہوتاکہ یہ حلف کتناعرصہ قائم رہااوربنوہاشم کتناعرصہ اس حلف کی وجہ سے پریشان رہے لیکن یہ پریشانی یقیناًمحصوری اورخوراک کے نہ ملنے کی وجہ سے نہیں   تھی ۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت دین کے سبب قریش اوربنوکنانہ کے بطون میں   سے بہت لوگ دین اسلام قبول کرچکے تھے مگرچونکہ یہ حلف صرف بنوہاشم اوربنی عبدالمطلب کے خلاف تھالہذاباقی بطون کے مسلمان مثلاً سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اوردوسرے لوگ اس سے قطعاًمتاثرنہیں   ہوئے،اس لیے اس معاشرتی مقاطعہ نے دعوت دین کے معاملہ میں   مسلمانوں   کے لیے کوئی رخنہ نہیں   ڈالا۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اوردوسرے لوگوں   کے بیت اللہ میں   آنے جانے یامکہ معظمہ میں   گھومنے پھرنے پرکسی قسم کی کوئی پابندی نہیں   تھی اس لیے اس تمام عرصہ میں   رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنافرض منصبی بااحسن خوبی پورافرماتے رہے اوربنوہاشم زائرین حج وعمرہ کے لیے اپنی ذمہ داریاں   پوری کرتے رہے۔

xبنوہاشم ان لوگوں   کے سواجنہوں   نے حلف اٹھایاتھادوسرے لوگوں   لین دین کرسکتے تھے جن پریہ حلف لاگونہیں   ہوتاتھا۔

xروایت میں   ہے کہ ممکنہ خطرے کوبھانپ کر ابوطالب بنوہاشم اوربنی عبدالمطلب کولے کرشعب ابی طالب میں   محصورہوگئے مگراس نام کی کوئی جگہ مکہ معظمہ کے اردگردثابت نہیں   ہے البتہ شعب بنوہاشم ایک محلہ تھاجس میں   بنوہاشم کی ایک بڑی تعدادرہتی تھی اوریہ بھی مکہ معظمہ سے دوردرازکوئی گھاٹی نہ تھی بلکہ مکہ معظمہ کے دوسرے محلوں   کے ساتھ واقع تھی اس لیے بچوں   کے رونے کی آوازیں   اہل مکہ سنتے تھے

وَسُمِعَ أَصْوَاتُ صِبْیَانِهِمْ بِالْبُكَاءِ مِنْ وَرَاءِ الشِّعْبِ

بھوک سے بچوں   اورعورتوں   کے بلبلانے اورتڑپنے کی آوازیں   گھاٹی سے باہرسنائی دینے لگیں  ۔

اگریہ محلہ مکہ مکرمہ سے دوراورالگ تھلگ ہوتاتوپھرآوازیں   کیسے سنائی دیتیں  ۔

[1] ابن ہشام۲۶۵؍۱،الروض الانف۹؍۳

[2] عیون الاثر۱۴۷؍۱

[3] فتح الباری۱۹۲؍۷

[4] زادالمعاد۲۷؍۳

[5] فتح الباری۱۹۲؍۷

[6] ابن سعد۱۶۳؍۱

[7]البدایة والنہایة ۱۰۵؍۳ 

[8] ابن سعد۱۶۳؍۱

[9] البدایة والنہایة ۱۱۷؍۳

[10] ۔البدایة والنہایة۱۰۶؍۳

[11] ابن سعد۱۶۳؍۱

[12] ابن ہشام۳۷۷؍۱،الروض الانف۲۱۶؍۳

[13] الروض الانف۲۱۷؍۳،سیرة ابن اسحاق۱۹۴؍۱،فقہ السیرة للغزالی۱۲۸؍۱

حَتّى إنّ أَحَدَهُمْ لَیَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشّاةُ

[14] ابن ہشام۳۷۷؍۱،الروض الانف ۲۱۶؍۳

[15] ابن ہشام۳۵۳؍۱

[16] ابن ہشام۳۷۴؍۱

[17] تاریخ طبری ۳۴۲؍۲،ابن ہشام ۳۷۶؍۱،الروض الانف۲۱۷؍۳

[18] ابن ہشام۳۷۶؍۱،الروض الانف۲۱۸؍۳،عیون الآثر ۱۴۸؍۱

[19] ابن سعد۱۶۳؍۱،تاریخ طبری ۲۲۹؍۲

[20] فتح الباری۱۹۲؍۷

[21]   المائدہ۶۷

[22] صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ اسْتِحْبَابِ النُّزُولِ بِالْمُحَصَّبِ یَوْمَ النَّفْرِ وَالصَّلَاةِ بِهِ۳۱۷۵

Related Articles