بعثت نبوی کا ساتواں سال

مضامین سورۂ الدخان

کتاب مبین کی قسم کھاکرفرمایاگیاکہ ایک خیرو برکت والی رات میں   اس کونازل کیا ہے جوکہ ساری راتوں   سے افضل ہے اوراس میں   اللہ رب العزت تمام اہم امور کاحکیمانہ فیصلہ صادرفرمادیتاہے،یہ وہی رات ہے جس کے بارے میں   ایک مقام پرفرمایا

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ [1]

ترجمہ:بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں   اتارا ہے۔

ایک مقام پر فرمایا:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ۔۔۔۝۰۝۱۸۵ [2]

ترجمہ:رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں   قرآن اتارا گیا جو لوگوں   کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں   اور حق و باطل میں   فرق کرنے والا ہے۔

یعنی پندرہ شعبان نہیں   بلکہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں   میں   سے کوئی رات جس میں   قرآن نازل ہوااورجس میں   اللہ تعالیٰ اہم امور کے فیصلے فرمادیتاہے۔

xمشرکین مکہ کتاب مبین کواللہ کاکلام ماننے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاپرانے وقتوں   کے قصے کہانیاں   اورکہاوتیں   پرمشتمل اپنا تصنیف کردہ کلام کہتے تھے ،اورکہتے تھے کہ اس کلام کے نازل ہونے کے ساتھ ہی ہم مصائب ومشکلات کاشکارہوگئے ہیں  ،ان کی تردیدمیں  فرمایاکہ یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کاتصنیف کردہ کلام نہیں   ہے بلکہ انسانیت کی فوزوفلاح اوردنیاکے لوگوں   کی رحمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے نازل فرمایاہے،نیزیہ کلام اس قادروقیوم ذات نے نازل کیاہے جس کوتم ہرچیزکاخالق ورازق مانتے ہو اور یہ بھی مانتے ہوکہ زندگی اورموت اسی کے اختیار میں   ہے،لیکن یہ تعلیمات چونکہ تمہارے آباؤاجدادکے باطل عقائدونظریات کی اصلاح کرتی ہے اس لیے تم شک اورترددمیں   مبتلاہو گئے ہو ،حالانکہ یہ بات ہرباشعور اور سلیم الفطرت انسان خودسوچ سکتا ہے کہ جس ذات نے تم کووجودبخشاہے،جوزندگی اورموت کامختارہے وہی اس لائق ہے تم ہر طرف سے منہ پھیر کر اس کی عبادت کرواور اسی کو اپنا حقیقی کارساز سمجھو،اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کوآگاہ کرنے اور تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لیے انبیاء ورسل اوران پرکتابوں  کاسلسلہ جاری فرمایا۔

xقحط کی وجہ سے بڑے بڑے دشمنان حق کی گردنیں   جھک رہی تھیں   اوروہ پکاررہے تھے کہ اے پروردگار!یہ عذاب ہم پرسے ٹال دے توہم دعوت اسلام قبول کرلیں   گے ، ان کے قول کی تردیدکے لیے فرعون کاذکرفرمایاکہ ہم ان پریکے بعددیگرے مختلف عذاب بھیجتے رہے،جب وہ کسی عذاب کاشکارہوتے توموسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کروعدہ کرتےکہ اگر تمہارارب اب یہ عذاب ٹال دے توہم دعوت ایمان قبول کرلیں   گےمگرجب اللہ ایک مدت کے لیے عذاب کوٹال دیتاتووعدہ خلافی کرتے اوراپنے کفروشرک پرمصر رہتے ، اہل مکہ کوبتلایاکہ تمہاری کیفیت بھی ان سے مختلف نہیں   ہےتم بھی ان لوگوں   کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے جان کے دشمن ہواوراس کاقتل کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہو ، یہ واقعہ اہل مکہ کوتمثیلاًبتایاکہ جیسے ظاہری شان وشوکت اورحکومت واقتدارکے باوجودفرعون اورآل فرعون کوذلت ورسوائی کاشکارہوناپڑااورقیامت تک ان کوسامان عبرت بنادیا اگرتم لوگ دعوت اسلام کوقبول نہیں   کروگے اورفرعون اورآل فرعون کی روش اختیارکروگے تو تمہاراانجام بھی ان جیساہی ہوگا۔

xبعث بعدالموت کے سلسلہ میں   کفارمکہ کہتے تھے کہ اگرمرکرجی اٹھنابرحق ہے تو ہمارے آباؤاجداد میں   سے کسی ایک کوزندہ کرکے دکھادو،اس بارے میں   فرمایاکہ اس عظیم الشان کائنات کانظام کوئی کھیل تماشہ نہیں   کہ جب چاہابنالیااورجب چاہابگاڑدیا،اس قادرمطلق کے ہاں   ہرکام کے لیے ایک وقت متعین ہے اورہرکام اپنے اپنے وقت پر ہوکررہے گا،اورعقیدہ آخرت کاانکارتمہاری ہراخلاقی برائی کاسبب ہے جن کامحاسبہ موت کے یقیناًہوگا،اس دن کوئی عزیز کسی قریبی عزیز کے کام نہیں   آئے گااورنہ ان کوکہیں   سے کوئی مددہی ملے گی ،جب مجرم سزاپاکرجہنم میں   داخل ہو گے توانہیں   تیل کی تلچھٹ جیسازقوم کے درخت کوکھانے کے لیے دیاجائے گاجسے کھاتے ہی وہ پیٹ میں   اس طرح جوش مارے گاجیسے کھولتاہواپانی جوش مارتاہے،اللہ کے حکم سے ان کے سروں   پرکھولتاہواپانی ڈالاجائے گا اورمومن کامیاب وکامران ہوکرجنت کاحریری لباس پہن کرجنت الفردوس کے عیش وآرام میں   دائمی زندگی گزاریں   گے،آخرمیں   فرمایاکہ قرآن مجیدکی یہ سیدھی سادی باتیں   تمہاری سمجھ میں   نہیں   آتیں   یاتم سمجھ کران کاانکارکررہے ہو،دونوں   صورتوں   میں   اپنے برے انجام کاانتظارکرووقت مقررہ پرہر حقیقت کھل کرسب کے سامنے آجائے گی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ‎﴿١﴾‏ وَالْكِتَابِ الْمُبِینِ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَةٍ مُبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِینَ ‎﴿٣﴾‏ فِیهَا یُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِیمٍ ‎﴿٤﴾‏ أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِینَ ‎﴿٥﴾‏ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٦﴾‏(الدخان)
’’حم ،قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی ،یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہےبیشک ہم ڈرانے والے ہیں، اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ہمارے پاس سے حکم ہو کر ،ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے آپ کے رب کی مہربانی سے، وہ ہی سننے والا جاننے والا۔‘‘

ہرطرح کے دلائل کے باوجوداہل مکہ کاخیال تھا کہ یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کااپناتصنیف کردہ کلام ہے جوپرانے وقتوں   کے قصے کہانیوں   اورکہاوتوں   پرمشتمل ہے،جیسے فرمایا:

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ۝۰ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۳۱ [3]

ترجمہ:جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں   تو کہتے تھے کہ ہاں   سن لیا ہم نے، ہم چاہیں   تو ایسی ہی باتیں   ہم بھی بنا سکتے ہیں   یہ تو وہی پرانی کہانیاں   ہیں   جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں  ۔

 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۲۴ۙ [4]

ترجمہ:اور جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے تو کہتے ہیں   اجی وہ تو اگلے وقتوں   کی فرسودہ کہانیاں   ہیں  ۔

قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲لَقَدْ وُ عِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۸۳ [5]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں   کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں   گے اور ہڈیوں   کا پنجر بن کر رہ جائیں   گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ؟ہم نے بھی یہ وعدے بہت سنے ہیں   اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں   یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں   ۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ۝۶۷لَقَدْ وُعِدْنَا ہٰذَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ۝۰ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۶۸ [6]

ترجمہ:یہ منکرین کہتے ہیں   کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں   گے تو ہمیں   واقعی قبروں   سے نکالا جائے گا ؟یہ خبریں   ہم کو بھی بہت دی گئی ہیں   اور پہلے ہمارے آبا و اجداد کو بھی دی جاتی رہی ہیں   مگر یہ بس افسانے ہی افسانے ہیں   جو اگلے وقتوں   سے سنتے چلے آرہے ہیں  ۔

اِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۱۵ [7]

ترجمہ:جب ہماری آیات اس کو سنائی جاتی ہیں   تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں   کے افسانے ہیں  ۔

اوراس کلام کی وجہ سے ہم پرمصائب ومشکلات کا نزول شروع ہوگیاہے ،جیسے فرمایا

قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْ۔۔۔۝۱۸ [8]

ترجمہ:بستی والے کہنے لگے ہم تو تمہیں   اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں  ۔

قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ۔۔۔۝۴۷ [9]

ترجمہ:انہوں   نے کہا ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں   کو بدشگونی کا نشان پایا ہے۔

ان بات کے پیش نظراللہ تبارک وتعالیٰ نے کتاب مبین یعنی جس کے احکامات کھلے اورواضح ہیں   اوراس میں   کوئی پیچیدگی نہیں   ہے کی قسم کھا کر فرمایا اس کتاب کوہم نے رمضان المبارک کی خیرکثیروبرکت والی رات یعنی لیلةالقدر(جورمضان کے آخرعشرے میں   طاق راتوں   میں   کوئی ایک رات ہے)۔

 لَیْلَةُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ [10]

ترجمہ:اورشب قدر ہزار مہینوں   سے بہترہے ۔

میں   غفلت میں   پڑے ہوئے لوگوں   کوچونکانے کے لئے بیت العزت (آسمان دنیا)میں   نازل کیاہے پھروہاں   سے حسب ضرورت ومصلحت تئیس سالوں   تک مختلف اوقات میں   نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم پراترتارہا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَنْزَلَ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ، ثُمَّ أُنْزِلَ بَعْدَ ذَلِكَ فِی عِشْرِینَ سَنَةً

عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے پوراقرآن لیلة القدرکی رات کوآسمان دینا پر اتارا گیا اور پھر ۲۰سالوں   تک حسب حکمت مختلف اوقات میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پرنازل ہوتا رہا۔ [11]

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ۔۔۔۝۰[12]

ترجمہ:رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں   قرآن اتارا گیا جو لوگوں   کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں   اور حق و باطل میں   فرق کرنے والا ہے۔

 اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ [13]

ترجمہ:ہم نے اس (قرآن)کوشب قدرمیں   نازل کیاہے۔

اس کے مصنف محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نہیں   ہیں  ، لیلة القدر وہ مبارک رات ہے جس میں   اللہ تعالیٰ مخلوقات کی تقدیر،ان کاوقت مقرر،وسائل زندگی،ان کے اعمال واموال اور قوموں   وملکوں   کے عروج وزوال کے حکمت پرمبنی فیصلے فرماتا ہے جس میں   تغیروتبدیلی کاامکان نہیں   ہوتا، اور حکمت سے لبریزیہ فیصلے لے کرملائکہ وروح الامین علیہ السلام  اپنے رب کے اذن سے زمین پراترتے ہیں   اور سارا سال انہی فیصلوں   کے مطابق عملدرآمدکرتے رہتے ہیں   ،اورفرمایاکہ ایک رسول کویہ عظیم کتاب دے کربھیجنااللہ کی حکمت اوررحمت ہے تاکہ وہ تمہاری مادی ضروریات کے ساتھ تمہارے روحانی تقاضوں   کی تکمیل کے لئے صحیح علم سے رہنمائی کرے ،حق وباطل کے فرق کوکھول کھول کربیان کرے ،انہیں   جہالتوں   اور ظلمتوں   سے نکال کر روشنی میں   لائے تاکہ انہیں   دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہو اور اللہ ہی تمام ظاہری وباطنی امورکوجانتاہے اوروہی انسان کو ہدایت وضلالت ،حق وباطل ، خیر وشر،نیکی وبدی کافرق بتا سکتا ہے تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے۔

رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِینَ ‎﴿٧﴾‏ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ یُحْیِی وَیُمِیتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٨﴾‏ بَلْ هُمْ فِی شَكٍّ یَلْعَبُونَ ‎﴿٩﴾‏(الدخان)
جو رب ہے آسمانوں   کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو، کوئی معبود نہیں   اس کے سوا وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے، وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں   کا، بلکہ وہ شک میں   پڑے کھیل رہے ہیں   ۔

تم لوگ اس بات کااقرارکرتے ہوکہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں   اورزمین کاپیداکرنے والاہے،جیسے فرمایا

وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۝۰۔۔۔ۭ [14]

ترجمہ:ان لوگوں   سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں   کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں   گے کہ اللہ نے۔

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۝۸۶سَیَقُوْلُوْنَ لِلہِ۔۔۔۝۸۷ [15]

ترجمہ:ان سے پوچھو، ساتوں   آسمانوں   اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرور کہیں   گے اللہ ۔

چنانچہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ان کی تدبیرکرنے اوراپنی مشیت کے مطابق ان میں   تصرف کرنے والاہے ،اگرواقعی تمہیں   اس کی الوہیت اورربوبیت کاشعورویقین ہے توتمہیں   اس پرایمان لاناچاہیے کہ مخلوقات کارب ہی تمہارامعبودحقیقی ہے، اور انسانوں   کی صراط مستقیم پر رہنمائی کے لئے رسول اورکتاب بھیجنااس کے رحم وکرم کاعین تقاضا ہے ، اورمملوک ہونے کی حیثیت سے تمہارایہ فرض عین ہے کہ اس کی طرف سے بھیجی ہوئی ہدایات کومانواوراس کے آگے سراطاعت جھکادو،موت وزیست اورہرطرح کی قدرت واختیاراسی اکیلے کے ہاتھ میں   ہے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَیُـحْیٖ وَیُمِیْتُ۔۔۔۝۱۵۸ [16]

ترجمہ: اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں   ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔

وہی تمہارے مرنے کے بعدتمہیں   میدان محشرمیں   جمع کرے گااورتمہارے اعمال کی جزاوسزا دے گا،اگراعمال اچھے ہوئے تواچھی جزاہوگی اوراگراعمال برے ہوئے توبری جزاہوگی ،جیسے فرمایا:

قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۲۶ [17]

ترجمہ:کہو ہمارا رب ہمیں   جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا۔

۔۔۔اَللہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا۝۰ۚ وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ۝۱۵ۭ [18]

ترجمہ: اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے ۔

اس لئے اس کاحق ہے کہ اس کے ساتھ دوسروں   کوشریک نہ کرو اورخالص اس کی بندگی وپرستش کرو،وہی اولین وآخرین کارب ،نعمتوں   کی ذریعے سے ان کی تربیت کرنے والااوران سے سختیوں   کودورکرنے والاہے مگرتمہارے اسلاف نے شیطان کے جھانسے میں   آکر اپنے رب حقیقی سے منہ موڑکرگمراہی اختیارکی ،اس لئے تم ان کی تقلید میں   حق بجانب نہیں   ہوچنانچہ تم پرلازم ہے کہ سب سے منہ موڑکراسی ایک اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کروجوتمہاراحقیقی رب ہے، اب جبکہ حق پورے دلائل وبراہین کے ساتھ ان کے سامنے آچکاہے لیکن یہ اس پرایمان لانے کے بجائے شک وشبہ میں   غوطہ زن ہیں  ۔

فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ ‎﴿١٠﴾‏ یَغْشَى النَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١١﴾‏(الدخان)
آپ اس دن کے منتظر رہیں   جب کہ آسمان ظاہر دھواں   لائے گا جو لوگوں   کو گھیر لے گا،  یہ دردناک عذاب ہے۔

دھواں ہی دھواں اورکفار:

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورمومنین کوتسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ اب ان انسانیت سوز ظلم وستم کرنے والے کفارومشرکین جونہ رسول کے سمجھانے سے مانتے ہیں  ،نہ قحط کی شکل میں   جوتنبیہ کی گئی ہے اس سے ہوش میں   آتے ہیں  ،

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا، لِأَنَّ قُرَیْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَیْهِمْ بِسِنِینَ كَسِنِی یُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا العِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَیَرَى مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَهَا كَهَیْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الجَهْدِ،

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب لوگوں   کی کیفیت دیکھی کہ وہ سمجھانے سے نہیں   مانتے توفرمایا اےللہ! ان پرسات برس کاقحط بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے زمانے میں   سات سال تک قحط ہواتھا،آخرقریش پرقحط پڑا جو ہر چیز کوکھاگیایہاں   تک کہ لوگ ہڈیاں   تک کھانے لگے، جب وہ آسمان کی طرف نظراٹھاتے توبھوک اورفاقہ کی شدت کی وجہ سے انہیں   دھواں   کے سواکچھ نظرنہ آتاتھا۔[19]

 ثم إن قریشا لما استعصت على رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وأبطأوا عن الإسلام، وأوغلوا فی عداوة النبی وإیذائه وإیذاء أصحابه، دعا علیهم فقال:اللهمّ أعنّی علیهم بسبع كسبع یوسف،  فأصابتهم سنة  حتى أكلوا الجیف والمیتة، والعظام، وحتى كان الواحد منهم یرى ما بینه وبین السماء كهیئة الدخان من الجوع،  ثم جاء إلیه أبو سفیان فی ناس من قومه، فقالوا: یا محمد إنك تزعم أنك قد بعثت رحمة، وإن قومك قد هلكوا، فادع الله لهم،فدعا لهم الرؤوف الرحیم، فكشف الله عنهم ما هم فیه، فسقوا الغیث، وأطبقت علیهم سبعا، فشكا الناس كثرة المطر

جب قریش نےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پرعرصہ حیات تنگ کردیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  اورصحابہ کرام  رضی اللہ عنہما کی دشمنی اورایذارسانی میں   حدسے بڑھ گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعافرمائی اے اللہ!ان پریوسف علیہ السلام کی طرح سات برس کا قحط نازل فرمادے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعاکوقبول فرمایااوران پر قحط نازل فرمادیا،قحط اتناشدیدتھاکہ قریش مردار،ہڈیاں   وغیرہ کھانے پرمجبورہوگئے،یہاں   تک کہ اگران میں   کوئی آسمان کی طرف دیکھتا توبھوک کی شدت سے اسے آسمان دھواں  سادکھائی دیتا تھا،چنانچہ ابوسفیان اپنی قوم کے چندلوگوں   کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں   حاضرہوااورکہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )آپ کہتےہیں   کہ آپ کو رحمت بناکربھیجاگیاہے اورآپ کی قوم قحط کی وجہ سےہلاک ہورہی ہے ان کے لیے اللہ سے دعاکریں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعافرمائی تواللہ تعالیٰ نے بارش برسائی جولگاتاسات دن تک برستی رہی یہاں   تک کہ کثرت بارش سے لوگ پریشان ہوگئے۔[20]

تو پھریہ لوگ قیامت کا انتظار کریں  ،جس دن آسمان صریح دھواں   لائے گااور(چالیس دنوں   تک)سب لوگوں   کواپنی لپیٹ میں   لے لے گااوریہ قیامت کی نشانیوں   میں   سے ایک نشانی ہے،

عَنْ أَبِی سَرِیحَةَ حُذَیْفَةَ بْنِ أَسِیدٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غُرْفَةٍ وَنَحْنُ أَسْفَلَ مِنْهُ، فَاطَّلَعَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: مَا تَذْكُرُونَ؟قُلْنَا: السَّاعَةَ، قَالَ:إِنَّ السَّاعَةَ لَا تَكُونُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آیَاتٍ: خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ فِی جَزِیرَةِ الْعَرَبِ وَالدُّخَانُ وَالدَّجَّالُ، وَدَابَّةُ الْأَرْضِ،

ابوسریحہ حذیفہ بن اسیدغفاری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک بالاخانے میں   تھے اورہم نیچے بیٹھے ہوئے تھے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہماری طرف جھانکا اور فرمایاتم کیاذکرکررہے ہو؟ ہم نے عرض کی قیامت کاذکرکررہے ہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں   ہوگی جبتک دس نشانیاں   ظاہر نہ ہوں  ۔

مشرق میں   زمین کادھنسنا، مغرب میں   زمین کادھنسنا،جزیرہ العرب میں   زمین کادھنسنا،دھواں  اوردجال اورزمین کاجانور

قَالَ الْمُفَسِّرُونَ هِیَ دَابَّةٌ عَظِیمَةٌ تَخْرُجُ مِنْ صدع فى الصفاوعن ا بن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهَا الْجَسَّاسَةُ الْمَذْكُورَةُ فِی حَدِیثِ الدَّجَّالِ

مفسرین نے کہاہے یہ جانوربہت بڑاہوگاجب صفاپہاڑپھٹے گاتویہ اس میں   سے نکلے گااورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورابن عاص سے منقول ہے یہ وہی جساسہ ہے جس کاذکردجال کی حدیث میں   ہے۔[21]

اوراس جانورکاحلیہ اس طرح بیان کیاگیاہےمکہ میں   زمین سے ایک جانورنکلے گاساٹھ گزلمبا،سراس کاجیسے بیل کااورآنکھ جیسے سورکی اورکان جیسے ہاتھی کے اورسینگ جیسے پہاڑی بکری کے،سینہ جیسے شیرکااورکوکھ جیسے بلی کے اوردم جیسے مینڈھے کی اوررنگ جیسے چیتے کا،ہاتھ پاؤں   جیسے اونٹ کے ،اس کے پاس موسیٰ علیہ السلام کاعصا اورسلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی،مسلمان اورکافرکوسونگھ کربتلائے گااورکہے گااس کادین سچاہے اورسب دین جھوٹے ہیں  ۔[22]

جیسے فرمایا

وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ اَخْرَجْنَا لَہُمْ دَاۗبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُہُمْ۝۰ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۝۸۲ۧ [23]

ترجمہ:اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان پر آپہنچے گا تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں   گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں    کرتے تھے۔

وَیَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قُعْرَةِ عَدَنٍ تَرْحَلُ النَّاسَ تَنْزِلُ مَعَهُمْ إِذَا نَزَلُوا، وَتَقِیلُ مَعَهُمْ حَیْثُ  نُزُولُ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ

یاجوج وماجوج  اورسورج کامغرب سے طلوع ہونااورایک آگ جوعدن کے کنارے سے نکلے گی اورلوگوں   کوہانک کرلے جائے گی وہ آگ لوگوں   کے ساتھ رہے گی جہاں   وہ اترپڑیں   گے آگ بھی اترپڑے گی اورجب وہ دوپہرکوسورہیں   گے توآگ بھی ٹھہرجائے گی اورعیسیٰ علیہ السلام  کانزول۔[24]

اورسرزنش کے طورپرانہیں  کہاجائے گایاوہ ایک دوسرے سے کہیں   گےیہ ہے دردناک سزا،جیسےفرمایا:

یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا۝۱۳ۭ ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝۱۴ [25]

ترجمہ:جس دن انہیں   دھکے مار مار کر نار جہنم کی طرف لے چلا جائے گااس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ ‎﴿١٢﴾‏ أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِینٌ ‎﴿١٣﴾‏ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ ‎﴿١٤﴾‏ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِیلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ ‎﴿١٥﴾‏ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ ‎﴿١٦﴾‏(الدخان)
’’کہیں گے اے ہمارے رب ! یہ آفت ہم سے دور کر ہم ایمان قبول کرتے ہیں، ان کے لیے نصیحت کہاں ہے ؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکےپھر بھی انہوں نے منہ پھیرا اور کہہ دیا کہ سکھایا پڑھایا ہوا باؤلا ہے، ہم عذاب کو تھوڑا دور کردیں گے تو تم پھر اپنی سی حالت پر آجاؤ گے،جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے بالیقین ہم بدلہ لینے والے ہیں۔‘‘

اب عذاب الٰہی کودیکھ کر گڑگڑاکرالتجاکرتے ہیں   کہ پروردگار!،ہم پرسے یہ دردناک عذاب ٹال دے ،ہم تمہیں   وحدہ لاشریک تسلیم کرتے ہیں   ، تمہارے رسولوں   اوران پرنازل کتابوں   پر ایمان لاتے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۷ [26]

ترجمہ:کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں   گے اس وقت وہ کہیں   گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں   پھر واپس بھیجے جائیں   اور اپنے رب کی نشانیوں   کو نہ جھٹلائیں   اور ایمان لانے والوں   میں   شامل ہوں  ۔

وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْہِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِـــعِ الرُّسُلَ۝۰ۭ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ۝۴۴ۙ [27]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اس دن سے تم انہیں   ڈراؤ جب کہ عذاب انہیں   آلے گا اس وقت یہ ظالم کہیں   گے کہ اے ہمارے ربّ!ہمیں   تھوڑی سے مہلت اور دیدےہم تیری دعوت کو لبّیک کہیں   گے اور رسولوں   کی پیروی کریں   گے( مگر انہیں   صاف جواب دے دیا جائے گا)کہ کیا تم وہی لوگ نہیں   ہو جو اس سے پہلے قسمیں   کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں   ہے؟۔

اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا

بَلْ بَدَا لَہُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۲۸  [28]

ترجمہ:درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں   گے کہ جس حقیقت پر انہوں   نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بےنقاب ہو کر ان کے سامنے آچکی ہوگی، ورنہ اگر انہیں   سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں   جس سے انہیں   منع کیا گیا ہے۔

ان کوخواب غفلت سے جگانے کے لئے ہم نے کی ان کی طرف رسول مبین مبعوث کیاجس کے کرداروگفتاراورامانت ودیانت سے یہ خوف واقف تھے ، رسول نے الہامی تعلیمات کوکھول کھول کربیان کرنے میں   کوئی کسرنہیں   اٹھارکھی مگر ان لوگوں   نے اس کی دعوت حق پرکوئی توجہ نہ کی ،اس پاکیزہ تعلیمات پرایمان لانے کے بجائے اس کامذاق اڑایا اور یہ کہہ کروہ ان ساری دلیلوں   ،نصیحتوں   اورسنجیدہ تعلیمات کو مذاق میں  اڑاتے رہے کہ درپردہ کچھ لوگ قرآن کی آیتیں   گھڑ گھڑ کراسے پڑھادیتے ہیں   اوریہ شریف آدمی عام لوگوں   کے سامنے انہیں   پیش کردیتاہے،جیسے فرمایا:

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْكُۨ افْتَرٰىہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔۔۔۝۴ۚۛ [29]

ترجمہ:جن لوگوں   نے نبی کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں   کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں   نے اس کام میں   اس کی مدد کی ہے۔

حالانکہ اگرکوئی شخص سکھانے پڑھانے والاہوتاتوکبھی تو کسی کونظرآتااورپکڑاجاتاجبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاگھرآپ کے چچاابولہب کے گھرکے ساتھ ہی ہم دیوارتھامگرپھربھی پروپیگنڈاجاری رہا ، اوراللہ تعالیٰ نے تودعویٰ کیاکہ اگر تم اسے انسانی کلام سمجھتے ہوتواس جیسی چندآیات ہی بنا کر دکھا دو مگرصدیاں   گزرنے کے باوجودآج تک کوئی اس دعویٰ کے خلاف کھڑانہ ہوسکا کیایہ قرآن کی صداقت کی دلیل نہیں   ہے،اچھاہم اپنے رسول کی دعاسے قحط کایہ عذاب کچھ عرصہ کے لئے موخرکردیتے ہیں   لیکن ہمیں   معلوم ہے کہ تم لوگ کفروشرک،قتل وغارت ،حق تلفیوں   اوربدکاریوں   کو چھوڑ کر راہ ہدایت پرنہیں   چلوگے،جیسے فرمایا :

وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۷۵ [30]

ترجمہ: اگرہم ان پررحم کریں   اوروہ تکلیف جس میں   آج کل یہ مبتلاہیں   دورکردیں   تویہ اپنی سرکشی میں   بالکل ہی بہک جائیں   گے۔

اس لیے قیامت کے روزتمہیں  تمہاری نافرمانیوں   پر دردناک عذاب سے دوچارکریں   گے۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِیمٌ ‎﴿١٧﴾‏ أَنْ أَدُّوا إِلَیَّ عِبَادَ اللَّهِ ۖ إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ ‎﴿١٨﴾‏ وَأَنْ لَا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ ۖ إِنِّی آتِیكُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ‎﴿١٩﴾‏ وَإِنِّی عُذْتُ بِرَبِّی وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ ‎﴿٢٠﴾‏ وَإِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لِی فَاعْتَزِلُونِ ‎﴿٢١﴾‏ فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ مُجْرِمُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ فَأَسْرِ بِعِبَادِی لَیْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ ‎﴿٢٤﴾(الدخان)
’’یقیناً ان سے پہلے ہم قوم فرعون کو (بھی) آزما چکے ہیں جن کے پاس (اللہ کا) با عزت رسول آیا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو یقین مانو کہ میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں اور تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس کھلی دلیل لانے والا ہوں، اور میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ تم مجھے سنگسار کردو اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہی رہو، پھر انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ سب گناہ گار لوگ ہیں (ہم نے کہہ دیا) کہ راتوں رات تو میرے بندوں کو لے کر نکل، یقیناً تمہارا پیچھا کیا جائے گا، تو دریا کو ساکن چھوڑ کر چلا جا بلاشبہ یہ لشکر غرق کردیا جائے گا۔‘‘

قبطیوں   کاانجام :

ان سے پہلے ہم فرعون کی قوم کوبھی دنیوی خوشی ،خوشحالی وفراغت سے نوازچکے  ہیں  ،ان کی ہدایت ورہنمائی کے لیے ہم نے ان کی طرف اپنےجلیل القدر پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا ،انہوں   نے فرعون اوراس کے درباریوں   کومیراپیغام پہنچایاکہ بنی اسرائیل کوناحق غلامی سے آزاد کر دو اور انہیں   میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دو تاکہ یہ اپنے رب کی عبادت کرسکیں   ،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۥۙ وَلَا تُعَذِّبْہُمْ۝۰ۭ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰى۝۴۷ [31]

ترجمہ:بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں   اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہ راست کی پیروی کرے۔

میں   ایک امانت دار رسول ہوں   اوررب کائنات نے مجھے جوپیغام دے کربھیجاہے وہی پوری امانت ودیانت کے ساتھ تمہیں   پہنچارہا ہوں   ، اب جبکہ اللہ نے تمہاری طرف رحمت کاارادہ کیاہے تو اپنی بڑائی اور سرکشی کااظہارکرنے کے بجائے میری دعوت قبول کرلواور اوراللہ کے حکم سے میری اطاعت کرو،میں   تمہارے سامنے اپنی رسالت کی صداقت میں   ناقابل تردید دلائل پیش کرتا ہوں  ، جب موسیٰ علیہ السلام کودعوت پیش کرتے ایک عرصہ ہوگیااورفرعون مقابلے میں   بدترین شکست کھانے اوربعدمیں   مختلف عذابوں   سے حواس باختہ ہوگیااوراسے اپنے پیروں   کے نیچے سے زمین سرکتی نظرآئی تواس نے بھرے دربارمیں   موسیٰ علیہ السلام کوقتل کی دھمکی دی۔

 وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْیَدْعُ رَبَّهٗ۝۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَكُمْ اَوْ اَنْ یُّظْهِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ۝۲۶ [32]

ترجمہ:اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو میں   موسیٰ کو قتل کر دوں   اور وہ اپنے رب کو پکارے میں   ڈرتا ہوں   کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا یہ کہ زمین میں   فساد پھیلائے گا۔

جب موسیٰ علیہ السلام کوفرعون کے ارادے کاعلم ہوا تو انہوں  نے کہامیں   تمہارے سارے منصوبوں   اورشرارتوں  کے مقابلے میں   اللہ احکم الحاکمین کی پناہ طلب کرچکاہوں   ،میں   نے توہراس متکبرکے مقابلے میں   جویوم الحساب پرایمان نہیں   رکھتااپنے رب اورتمہارے رب کی پناہ لے لی ہے ، اورکہا اگرتم اس دعوت کوقبول نہیں   کرتے تویہ تمہارافیصلہ ہے اورتم نے ہی اس کی جوابدہی کرنی ہے مگر دعوت حق کا راستہ بندکرنے کے لیے مجھے قتل کرنے یاکوئی ایذا پہنچانے سے بازرہوورنہ اس کاانجام بڑادردناک ہوگا،فرعون اپنی دولت اوراقتدارکے نشے میں   مخموربنی اسرائیل پرظلم ڈھاتارہا،جب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھاکہ دعوت حق کااثرقبول کرنے کے بجائے قبطیوں   کاکفروعناداوربڑھتاجارہاہے توانہوں   نے اللہ کی بارگاہ میں   دعاکے لیے ہاتھ پھیلادیئے اورکہاکہ اے میرے پروردگار !فرعون اوراس کی قوم نے میری ہرطرح کی کوششوں   کے باوجودتیری دعوت قبول کرنے سے انکارکردیاہے اور اب توہی ان کے بارے میں   آخری فیصلہ فرما ،جیسے فرمایا

وَقَالَ مُوْسٰى رَبَّنَآ اِنَّكَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَهٗ زِیْنَةً وَّاَمْوَالًا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْــلِكَ۝۰ۚ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۸۸  [33]

ترجمہ:موسیٰ نے دعا کی اے ہمارے رب !تو نے فرعون اور اس کے سرداروں   کو دنیا کی زندگی میں   زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے، اے رب ! کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں   کو تیری راہ سے بھٹکائیں  ؟ اے رب ! ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں   پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں   جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں  ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی التجاقبول فرمائی اورحکم ہجرت فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام ! فرعون کی بے خبری میں   بنی اسرائیل اوردوسرے اہل ایمان کو رات کی تاریکی میں   مصرسے نکال کر سمندرکی طرف چل پڑواوردیکھوگھبراناہرگزنہیں  ،فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت تمہاراتعاقب کرے گاجب تم سمندر پر پہنچو تو سمندرمیں   اپنا عصا مارناتیرے عصا مارنے سے سمندرمعجزانہ طورپرساکن یاخشک ہوجائے گااوراس میں   خشک اورکشادہ  بارہ راستے بن جائیں   گے تم اطمینان سے بنی اسرائیل کواس میں   سے گزارلے جانا،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى۝۰ۥۙ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا۝۰ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى۝۷۷ [34]

ترجمہ:ہم نے موسی علیہ السلام پر وحی کی کہ اب راتوں   رات میرے بندوں   کو لے کر چل پڑ اور ان کے لیے سمندر میں   سے سوکھی سڑک بنالے ، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ ﴿(سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے) ڈر لگے۔

موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے بنی اسرائیل اوردیگراہل ایمان کورات کےایک مقررہ وقت پرلے کر چل پڑے اوراللہ کے حکم سے سمندرکے درمیان خشک راستوں   سے گزرنے لگے ۔

لَمَّا جَاوَزَ هُوَ وَبَنُو إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ، أَرَادَ مُوسَى أَنْ یَضْرِبَهُ بِعَصَاهُ حَتَّى یَعُودَ كَمَا كَانَ، لِیَصِیرَ حَائِلًا بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ فِرْعَوْنَ، فَلَا یَصِلُ إِلَیْهِمْ. فَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ یَتْرُكَهُ عَلَى حَالِهِ سَاكِنًا

جب موسیٰ علیہ السلام دوسرے کنارے پر پہنچے اورچاہاکہ عصامارکر سمندرکورواں   کردیں   تاکہ فرعون کے درمیان حائل ہوجائے اوروہ ان تک نہ پہنچ سکے تواللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اے موسیٰ علیہ السلام  ! سمندرکواسی طرح ساکن رہنے دیں  ۔[35]

اورساتھ ہی خوش خبری بھی سنائی کہ ہم چاہتے ہیں   کہ فرعون اوراس کالاؤلشکرتمہارے تعاقب میں   ان راستوں   میں   داخل ہواورہم انہیں   وہیں   غرق کرکے رہتی دنیاتک عبرت کا نشان بنادیں  ۔

‏ كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ‎﴿٢٥﴾‏ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِیمٍ ‎﴿٢٦﴾‏ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِیهَا فَاكِهِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ كَذَٰلِكَ ۖ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِینَ ‎﴿٢٨﴾‏ فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِینِ ‎﴿٣٠﴾‏ مِنْ فِرْعَوْنَ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَالِیًا مِنَ الْمُسْرِفِینَ ‎﴿٣١﴾‏ وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَآتَیْنَاهُمْ مِنَ الْآیَاتِ مَا فِیهِ بَلَاءٌ مُبِینٌ ‎﴿٣٣﴾‏(الدخان)
’’وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئےاور کھتیاں اور راحت بخش ٹھکانے اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کر رہے تھے،اسی طرح ہوگیا اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنادیا، سو ان پر نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی، اور بیشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو (سخت) رسوا کن سزا سے نجات دی(جو) فرعون کی طرف سے (ہو رہی) تھی، فی الواقع وہ سرکش اور حد سے گزر جانے والوں میں تھا،اور ہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی۔

کتنے ہی بہترین اقسام کے پھلوں   سے لدے ہوئے باغات اورمیٹھے پانی کے ابلتے چشمے اوراناج سے بھرے کھیت اورشاندارمحل تھے جووہ اس دنیامیں   چھوڑگئے،کتنے ہی عیش وعشرت کے سروسامان جن میں   وہ مزے کررہے تھے ان کے پیچھے دھرے کے دھرے رہ گئے ،یہ ہوا دعوت حق کی تکذیب اوررسولوں   کی مخالفت کرنے والوں   کا دردناک انجام، اور ہم نے بنی اسرائیل کوجوغلام بناکررکھے گئے تھے،جن پرہرطرح کاظلم وستم رواتھاجن کے بیٹوں   کوفرعون کے حکم سے قتل کردیاجاتاتھااوربیٹیوں   کوزندہ چھوڑدیاجاتاتھاان چیزوں   کاوارث بنادیا،جیسے فرمایا

فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۝۵۷ۙوَّكُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ كَرِیْمٍ۝۵۸ۙكَذٰلِكَ۝۰ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۵۹ۭ [36]

ترجمہ:اس طرح ہم انہیں   ان کے باغوں   اورچشموں   اورخزانوں   اوران کی بہترین قیام گاہوں   سے نکال لائےیہ تو ہواان کے ساتھ ،اور(دوسری طرف )بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں   کاوارث کردیا۔

وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا۔۔۔ ۝۱۳۷ [37]

ترجمہ: اوران کی جگہ ہم نے ان لوگوں   کوجوکمزوربناکررکھے گئے تھے اس سرزمین کے مشرق ومغرب کاوارث بنادیاجسے ہم نے برکتوں   سے مالامال کیا تھا ۔

جب تک وہ اقتدارپربراجمان تھے ان کی طاقت کی بڑی دھوم تھی مگرجب اللہ کے عذاب میں   گرفتارہوکرسمندرمیں   غرق ہوئے توان کی کسمپرسی کایہ حال تھاکہ ان کے اس عبرت ناک انجام پر آسمان و زمین میں  کوئی رونے والانہ تھااورنہ ہی انہیں  ذراسی مہلت دی گئی ،یعنی ان کے ظلم وجبرکی بدولت کسی نے ان کی موت پر حزن وغم کااظہار کیااورنہ ان کی جدائی پرکسی کوافسوس ہوابلکہ ان کی ہلاکت وبربادی پرخوشیاں   منائیں  ،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: أَتَى ابنَ عَبَّاسٍ رجلٌ فَقَالَ: یَا أَبَا عَبَّاسٍ أَرَأَیْتَ قَوْلَ اللَّهِ: {فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَاءُ وَالأرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِینَ}  فَهَلْ تَبْكِی السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ عَلَى أَحَدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ ، إِنَّهُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ إِلَّا وَلَهُ بَابٌ فِی السَّمَاءِ مِنْهُ یَنْزِلُ رِزْقُهُ  وَفِیهِ یَصْعَدُ عَمَلُهُ،  فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ فَأُغْلِقَ بَابُهُ مِنَ السَّمَاءِ الَّذِی كَانَ یَصْعَدُ فِیهِ عَمَلُهُ وَیَنْزِلُ مِنْهُ رِزْقُهُ بَكَى عَلَیْهِ ، وَإِذَا فُقِدَ مُصَلَّاهُ مِنَ الْأَرْضِ الَّتِی كَانَ یُصَلِّی فِیهَا وَیَذْكُرُ اللَّهَ فِیهَا بَكَتْ عَلَیْهِ، وَإِنَّ قَوْمَ فِرْعَوْنَ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ آثَارٌ صَالِحَةٌ، وَلَمْ یَكُنْ یَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ مِنْهُمْ خَیْرفَلَمْ تَبْكِ عَلَیْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ

سعیدبن جبیرسے روایت ہے ایک شخص نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں   عرض کی اے ابوالعباس!ارشادباری تعالیٰ ہے ’’پھرنہ آسمان ان پررویانہ زمین اورذراسی مہلت بھی ان کونہ دی گئی۔‘‘توکیاآسمان وزمین بھی کسی پرروتے ہیں  ؟عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  نے فرمایاہاں  ،مخلوقات میں   سے ہرایک کے لیے آسمان میں   ایک دروازہ ہے جس سے رزق نازل ہوتاہےاورعمل اوپر چڑھتا ہے،جب مومن فوت ہوجاتاہے تواس کاوہ دروزہ بندکردیاجاتاہے جس سے اس کاعمل اوپرجاتااوررزق نازل ہوتاتھا، اورجب وہ اس کے عمل کواوپرآتے ہوئے نہیں   دیکھتاتورونے لگتاہے،اسی طرح جب وہ زمین اسے نہیں   دیکھتی جس پروہ نمازاداکیاکرتاتھااوراللہ کاذکرکیاکرتاتھاتووہ زمین بھی اس پرروتی ہے، قوم فرعون کے نہ توزمین میں   نیک آثارتھے اورنہ ان کاکوئی نیک عمل ہی اوپرجاتاتھا اس لیے ان پرنہ آسمان رویااورنہ زمین۔[38]

اس طرح بنی اسرائیل کو فرعون سے جوایک مجسم عذاب تھا سے نجات دی جوحدبندگی سے تجاوز کر جانے والوں   میں   بڑے اونچے درجے کاآدمی تھا،اوربنی اسرائیل کو توحیدکی دعوت دینے کے لیے اس وقت کی دوسری قوموں   پرترجیح دی اورانہیں   ایسی کھلی نشانیاں   دکھائیں   جن میں   صریح آزمائش تھی۔

إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَیَقُولُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ إِنْ هِیَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِینَ ‎﴿٣٥﴾‏ فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ أَهُمْ خَیْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لَاعِبِینَ ‎﴿٣٨﴾‏ مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٩﴾‏(الدخان)
’’یہ لوگ تو یہی کہتے ہیں کہ (آخری چیز) یہی ہمارا پہلی بار (دنیا سے) مرجانا اور ہم دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے، اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لے آؤ، کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا تمہاری قوم کے لوگ اور جو ان سے بھی پہلے تھے ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا، یقیناً وہ گناہ گار تھے، ہم نے زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

کفارومشرکین حیات بعدالموت کی تردیدمیں   یہ مہمل دلیل لاتے ہیں   کہ انہوں   نے مرنے کے بعد کبھی کسی کودوبارہ زندہ ہوتے نہیں   دیکھااس لئے پہلی دفعہ مرنے کے بعدہم بھی مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں   گے ،حیات بعدالموت بعیدازامکان اوراعمال کاحساب کتاب،جزاوسزا اورجنت و دوزخ صرف گھڑی ہوئی باتیں  ہیں  ،حیات بعدالموت کاعقیدہ قیامت سے متعلق ہے دنیاکے متعلق نہیں   ہے مگرمشرکین کٹ حجتی کے طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مطالبہ کرتے کہ اگرواقعی ہی تم اپنے دعویٰ میں   سچے ہوکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہوگی توہمارے آبا ؤواجداد کو قبروں   سے زندہ کرکے دکھادوتاکہ ہمیں   تمہارے دعویٰ کایقین آجائے،اگرتم انہیں   زندہ نہ کرسکے توہم یہ سمجھیں   گے کہ تم اپنے دعویٰ میں   جھوٹے ہو ، اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایایہ کفارومشرکین معمولی سے پونجی،مختصرذرائع ووسائل اورمحدودسرداری پراتنااتراتے ہیں   کہ اپنے رب کوبھول بیٹھے ہیں  ،کیایہ لوگ قبیلہ حمیرکے بادشاہ تبع (جوقوم سباکی ایک شاخ سے تھے اورملک سباپر۱۱۵تا۳۳۰ء تک حکمران رہے،اوربعض کوبڑاعروج حاصل ہوا) سے یاان سے پہلی طاقتور قوموں   عادوثمود، سبااورقوم فرعون وغیرہ سے زیادہ طاقت وراور بہترہیں   جن کی خوشحالی اورشوکت وحشمت کے افسانے ان کی زبانوں   پرہیں   ،انہوں   نے بھی مادی فراغت و خوشحالی اوردنیاوی شان وشوکت کے نشے میں   مخمور ہو کر اللہ کے رسول،اس کی کتاب اور حیات بعدالموت کا انکارکیاتھا،رسولوں   اوران کی پاکیزہ تعلیمات کامذاق اڑایا تھا اور دعوت حق کودبانے کے لئے بڑے جتن کیے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت وحکمت سے ایک وقت تک انہیں   سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کی مہلت عطافرمائی ،مگراس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کی سرکشی اوربڑھ گئی ،آخرایک وقت مقررہ پراللہ نے ان کے گناہوں   کی پاداش میں  ان پر اپنا عذاب نازل کیا تو کیاان کی مادی خوشحالی ،ذرائع ووسائل ،طاقت وقوت اوردنیاوی شوکت وحشمت انہیں   اللہ کے عذاب سے بچاسکی؟ ہرگزنہیں   بلکہ اللہ نے انہیں   اس طرح تہس نہس کیا کہ وہ نشان عبرت ہوکررہ گئے،چنانچہ ابھی وقت ہے ایمان لے آؤ کہیں   ایسانہ ہوجائے اسی جرم میں   ہمارے جوعذاب اگلی قوموں   میں   آئے وہ تم پربھی آجائیں  اورانہی کی طرح تم بھی بے نام ونشان ہوکررہ جاؤ،یہ کائنات کسی کھلنڈرے کاکھیل نہیں   کہ اس نے آسمانوں   اورزمین کوکھیل تماشے کے طورپرعبث اوربے فائدہ تخلیق کردیاہو، اورنہ ہی تمہیں  بے کاروعبث پیداکرکے چھوڑ دیاگیاہے بلکہ ایک خالق حکیم نے اسے حق کے ساتھ  اورایک مقررہ مدت تک کے لیے تخلیق فرمایاہے،اس مضمون کومتعددمقامات پربیان فرمایا

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا  ۔۔۔۝۲۷ۭ [39]

ترجمہ:اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں   ہے بیکار تو پیدا نہیں   کیا۔

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [40]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں   فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں   ہماری طرف لوٹ کبھی پلٹناہی نہیں   ہے؟۔

 وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ۝۸۵ [41]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں   کیا ہے اور فیصلے کی گھڑی یقینا آنے والی ہے، پس اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تم (ان لوگوں   کی بےہودگیوں   پر )شریفانہ درگزر سے کام لو۔

اورصورپھونکنے کے بعد وہ تمہیں  اعمال کی جوابدہی کے لئے تمہاری قبروں   سے دوبارہ زندہ کرے گااور اپنے بندوں   کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے فرمائے گا،مگریہ لوگ کائنات کی تخلیق اوررسول مبعوث کرنے اوران پرکتابیں   نازل کرنے کامقصد ،روزآخرت اوراس کی سختیوں   پر غوروتدبرنہیں   کرتے ۔

إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیقَاتُهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ یَوْمَ لَا یُغْنِی مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَیْئًا وَلَا هُمْ یُنْصَرُونَ ‎﴿٤١﴾‏ إِلَّا مَنْ رَحِمَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿٤٢﴾‏ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ‎﴿٤٣﴾‏ طَعَامُ الْأَثِیمِ ‎﴿٤٤﴾‏ كَالْمُهْلِ یَغْلِی فِی الْبُطُونِ ‎﴿٤٥﴾‏ كَغَلْیِ الْحَمِیمِ ‎﴿٤٦﴾‏ خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَىٰ سَوَاءِ الْجَحِیمِ ‎﴿٤٧﴾‏ ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیمِ ‎﴿٤٨﴾‏ ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْكَرِیمُ ‎﴿٤٩﴾‏ إِنَّ هَٰذَا مَا كُنْتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ ‎﴿٥٠﴾‏(الدخان)
’’یقیناً فیصلے کا دن ان سب کا طے شدہ وقت ہے، اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام بھی نہ آئے گا، اور نہ ان کی امداد کی جائے گی، مگر جس پر اللہ کی مہربانی ہوجائے ،وہ زبردست اور رحم کرنے والا ہے، بیشک زقوم (تھوہر) کا درخت گناہ گار کا کھانا ہے، جو مثل تلچھٹ کے ہے اور پیٹ میں کھولتا رہتا ہےمثل تیز گرم پانی کے، اسے پکڑ لو پھر گھسیٹتے ہوئے بیچ جہنم تک پہنچاؤ ،پھر اس کے سر پر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ،(اس سے کہا جائے گا) چکھتا جا ،تو تو بڑا ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا، یہی وہ چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔‘‘

گمراہوں  کوتنبیہ:

حیات بعدازموت کوئی کھیل تماشانہیں   کہ کوئی اس کاانکارکرے اورفوراًکسی مردے کوزندہ کرکے دکھادیاجائے،بلکہ اللہ رب العالمین نے اولین و آخرین کواپنی عدالت میں  جمع کرنے کے لئے ایک وقت مقررفرمایاہواہے،وہ ایساہولناک دن ہوگا جب کوئی عزیزقریب اپنے کسی عزیزقریب کے کچھ بھی کام نہ آئے گااورنہ کہیں   سے انہیں   کوئی مددپہنچے گی ،جیسے فرمایا

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۱۰۱ [42]

ترجمہ:پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں   گے ۔

وَلَا یَسْـَٔــلُ حَمِیْمٌ حَمِـیْمًا۝۱۰ۚۖیُّبَصَّرُوْنَهُمْ۝۰ۭ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍؚبِبَنِیْهِ۝۱۱ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِیْهِ۝۱۲ۙوَفَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُـــــْٔـوِیْهِ۝۱۳ۙوَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ ثُمَّ یُنْجِیْهِ۝۱۴ۙ [43]

ترجمہ:اورکوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کونہ پوچھے گاحالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں   گے،مجرم چاہے گاکہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو ، اپنی بیوی کو،اپنے بھائی کواپنے قریب ترین خاندان کوجواسے پناہ دینے والا تھا اور روئے زمین کے سب لوگوں   کوفدیہ میں   دے دے اوریہ تدبیراسے نجات دلا دے ۔

اس دن کلی اختیارات اللہ مالک یوم الدین کے ہاتھ میں   ہوں   گے ، وہ عدل وانصاف کے تمام تقاضوں   کوبروے کارلاکر مقدمات کے فیصلے صادرفرمائے گا ، اس دن کسی کی مددیاحمایت کسی مجرم کونہ چھڑاسکے گی نہ ہی کوئی سزامیں   تخفیف کراسکے گااورنہ ہی کوئی طاقت اللہ کے فیصلوں   کو نافذہونے سے روک سکے گی،ہاں  یہ اللہ مالک یوم الدین کے اختیارتمیزی پرموقوف ہے کہ کسی پررحم فرماکراس کوسزانہ دے یااس میں   تخفیف فرما دے،جنہوں   نے کفراورشرک کاارتکاب کیاوہ بیشک جہنم میں   تیل کی تلچھٹ جیسا زقوم(تھوہر) کا درخت کھائیں   گے جس کاذائقہ بدبودارپیپ کی مانندہوگا ،

عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَوْ أَنَّ قَطْرَةً، مِنْ زَقُّومِ جَهَنَّمَ أُنْزِلَتْ إِلَى الدُّنْیَا لَأَفْسَدَتْ عَلَى النَّاسِ مَعَایِشَهُمْ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں   اگراس کاایک قطرہ زمین پرگرجائے تواہل زمین کی زندگی خراب ہوجائے۔[44]

جو اپنی حرارت وتمازت ،بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں   کھولتے ہوئے پانی کی طرح جوش کھائے گا،جیسے فرمایا:

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝۴۳ۙطَعَامُ الْاَثِیْمِ۝۴۴ۚۖۛكَالْمُہْلِ۝۰ۚۛ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ۝۴۵ۙكَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۝۴۶ [45]

ترجمہ:زقوم کا درخت گناہ گار کا کھاجا ہوگا، تیل کی تلچھٹ جیسا،پیٹ میں   وہ اس طرح جوش کھائے گاجیسےکھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔

عدل وانصاف کی عدالتی کاروائی کے بعداللہ تعالیٰ جہنم پر مقررفرشتوں   کوحکم فرمائے گا کہ اس مجرم کوپکڑلو،

عن المنهال بن عمرو قال: إذا قال الله تعالى: {خذوه فغلوه}ابْتَدَرَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا ملك

منہال بن عمروسے منقول ہےجب اللہ تعالیٰ دوزخ کے فرشتوں   سے یہ فرمائے گااس کافرکوپکڑلو توسترہزارفرشتے اسے جلدی سے اپنی گرفت میں   لے لیں   گے ۔[46]

اورسترگزلمبی زنجیروں   میں   جکڑ کر،گلے میں   طوق ڈال کرپشت کے بل رگیدتے اورمنہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم کے بیچوں   بیچ پھینک دو،اوراس کے سرپرکھولتے ہوئے پانی کوڈالو،جیسے فرمایا:

۔۔۔یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُ۝۱۹ۚیُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ۝۲۰ۭ [47]

ترجمہ:ان کے سروں   پرکھولتاہواپانی ڈالاجائے گاجس سے ان کی کھالیں   ہی نہیں   پیٹ کے اندرکے حصے تک گل جائیں   گے۔

وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ الْمَلَكَ یَضْرِبُهُ بِمِقْمَعَةٍ مِنْ حَدِیدٍ، تَفْتَحُ  دِمَاغَهُ

فرشتے ان کے سرپر لوہے کے ہتھوڑے ماریں   گے جن سے ان کے دماغ پاش پاش ہوجائیں   گے،یہ کھولتا ہوا پانی جہاں   جہاں   پہنچے گاہڈی کوکھال سے جداکردے گایہاں   تک کہ اس کی آنتیں   کاٹتاہواٹخنوں   میں   سے نکل جائے گا۔[48]

أَعَاذَنَا اللَّهُ تَعَالَى مِنْ ذَلِكَ

اوراسے ذلت ورسوائی کے طورپر کہا جائے گاچکھواب اپنی کرنی کاپھل ،دنیامیں   تو خود کو بڑامعزز اورصاحب اکرام آدمی سمجھتا تھا،اپنے اسی فخروغرور میں   تونے دعوت حق کوقبول نہیں   کیاتھا اوراہل ایمان کوحقارت بھری نظروں  سے دیکھتاتھا آج تجھ پرواضح ہوگیا کہ اللہ کے ہاں   نہ عزت والے ہونہ بزرگی والے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ: ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْكَرِیمُ، یَقُولُ: لَسْتُ بِعَزِیزٍ وَلا كَرِیمٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ اس آیت کریمہ ’’چکھتاجا،توتوبڑاذی عزت اوربڑے اکرام والاتھا۔‘‘ کامفہوم یہ ہےکہ تونہ عزت والاہے اورنہ سردار۔[49]

یہی جہنم کاعذاب ہے جس سے رب تمہیں   ڈراتاتھامگرتم لوگ شک وشبہ میں   ڈوب کراسے جھٹلاتے رہے،جیسے فرمایا

یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا۝۱۳ۭہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝۱۴اَفَسِحْرٌ ھٰذَآ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ۝۱۵ۚ [50]

ترجمہ:جس دن انہیں   دھکے مار مار کر نار جہنم کی طرف لے چلا جائے گااس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے،اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تمہیں   سوجھ نہیں   رہا ہے ؟۔

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی مَقَامٍ أَمِینٍ ‎﴿٥١﴾‏ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ‎﴿٥٢﴾‏ یَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ كَذَٰلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِینٍ ‎﴿٥٤﴾‏ یَدْعُونَ فِیهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِینَ ‎﴿٥٥﴾‏ لَا یَذُوقُونَ فِیهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ ۖ وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِیمِ ‎﴿٥٦﴾‏ فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿٥٧﴾(الدخان)
’’بیشک (اللہ سے) ڈرنے والے امن چین کی جگہ میں ہونگے باغوں اور چشموں میں، باریک اور ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے یہ اسی طرح ہے، اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کردیں گے، دل جمعی کے ساتھ وہاں ہر طرح کے میووں کی فرمائشیں کرتے ہوں گے، وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں ہاں پہلی موت (جو وہ مرچکے)،انہیں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی سزا سے بچا دیا، یہ صرف تیرے رب کا فضل ہے یہی ہے بڑی کامیابی۔‘‘

اہل کفروفسق کے مقابلے میں  اہل ایمان جواپنے خالق ومالک پرایمان لائے تھے ،اورانہوں   نے اپنادامن کفروفسق اورمعاصی سے بچائے رکھاتھااوردنیامیں   ڈرتے ہوئے خوف و رجاء کے عالم میں   اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں   زندگی گزاری ہوگی اللہ کے فضل وکرم اوررحمت سے جنتوں   میں   قیام پذیر ہوں   گے جہاں   انہیں   کوئی غم ، کوئی پریشانی ،کوئی خطرہ اوراندیشہ ، کوئی مشقت اورتکلیف لاحق نہ ہوگی ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، وَأَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یُنَادِی مُنَادٍ: إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْیَوْا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایک پکارنے والا پکارکرکہے گااے جنت کے لوگو!تمہارے لئے یہ ٹھہرچکاہے کہ تم تندرست رہو کبھی بیمار نہیں   پڑوگے، اور تمہارے لئےیہ ٹھہرچکاہے کہ اب زندگی رہوگے اورکبھی تم پرموت نہیں   آئے گی، اورسداجوان رہوگے کبھی تم پر بڑھاپاطاری نہیں   ہوگااوراب تم ہمیشہ عیش وآرام میں   رہوگے تمہیں   کوئی رنج نہیں   ہوگا۔[51]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنِ اتَّقَى اللَّهَ دَخَلَ الْجَنَّةَ، یَنْعَمُ فِیهَا، لَا یَبْؤُسُ، وَیَحْیَا فَلَا یَمُوتُ، لَا تَبْلَى ثِیَابُهُ، وَلَا یَفْنَى شَبَابُهُ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجوشخص اللہ تعالیٰ سے ڈرجائے وہ جنت میں   داخل ہوگااس میں   ہمیشہ خوش وخرم رہے گااورکبھی پریشان حال نہ ہوگا زندہ رہے گااورکبھی فوت نہیں   ہوگا،نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں   گے، اورنہ اس کاشباب کبھی ختم ہوگا۔ [52]

جنتی بڑی شان سے جنت کے سدا بہار ،دل فریب باغوں   میں   درختوں   کے گھنے سائے کے نیچے جو انواع واقسام کے پھلوں   سے لدے ہوئے ہوں   گے، جن کے نیچے طرح طرح کی نہریں   اور چشمے بہہ رہے ہوں   گے ، سبز باریک ودبیزچمکیلے ریشمی کپڑے پہنے تختوں   پربڑے طمطراق سے تکیے لگائے مکمل راحت ،اطمینان کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھے ہوں   گے،ان کی خدمت کے لئے خوبصورت موتیوں   کی طرح چمکتے ہوئے نوجوان خدمت گارکمربستہ ہوں   گے، اللہ تعالیٰ ان کا نکاح حسین وجمیل گوری گوری اوربڑی بڑی خوبصورت،رسیلی آنکھوں   والی دوحوروں   سے کردے گا،البتہ شہیدکوبہترحوریں   ملیں   گی ،

عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لِلشَّهِیدِ عِنْدَ اللهِ سِتُّ خِصَالٍ: یُغْفَرُ لَهُ فِی أَوَّلِ دَفْعَةٍ، وَیَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الجَنَّةِ، وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَیَأْمَنُ مِنَ الفَزَعِ الأَكْبَرِ، وَیُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الوَقَارِ، الیَاقُوتَةُ مِنْهَا خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا، وَیُزَوَّجُ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ زَوْجَةً مِنَ الحُورِ العِینِ، وَیُشَفَّعُ فِی سَبْعِینَ مِنْ أَقَارِبِهِ.

مقدام بن معدیکرب  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااللہ تعالیٰ کے ہاں   شہید کے لئے چھ انعامات ہیں  خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی بخشش ہو جاتی ہے،وہ جنت میں   اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہےاورِ عذاب قبر سے محفوظ اور قیامت کے دن کی بھیانک وحشت سے مامون کر دیا جاتا ہےاور اس کے سر پر ایسے یاقوت سے جڑا ہوا وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جو دنیا اور جو کچھ اس میں   ہے جو دنیا اور جو کچھ اس میں   ہے سے بہتر ہےاور اس کا نکاح بہتر( ۷۲) بڑی بڑی آنکھوں   والی حوروں   سے کردیاجائے گا اور ستّر رشتہ داروں   کے معاملہ میں   اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔ [53]

موتیوں   جیسی حسین اوربڑی بڑی آنکھوں   والی ہم سن حوریں   جن کے پاک جسم کوان سے پہلے کسی نے نہ چھوا ہو گا ، جیسے فرمایا

فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝۰ۙ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۵۶ۚ [54]

ترجمہ:ان نعمتوں   کے درمیان شرمیلی نگاہوں   والیاں   ہوں   گی جنہیں   ان جنتیوں   سے پہلے کسی انسان یا جن نے چھوا نہ ہوگا ۔

جو حسن و جمال کے اعتبارسے چندے آفتاب وماہتاب ہونگی ،جیسے فرمایا

كَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ۝۵۸ۚ [55]

ترجمہ:ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔

جنتی ان کے حسن وجمال کودیکھ کرحیرت زدہ رہ جائیں   گےاوران کی عقل مبہوت رہ جائے گی، جنتی جب کبھی بھی اپنے خادموں   سے انواع واقسام کے پھل اورمیوے طلب کریں   گے وہ ان کے سامنے بغیرکسی مشقت اور تکلیف کے حاضر کر دیں   گے،وہ ان پھلوں   کے ختم ہونے اوران کے کسی ضررکے خوف سے مامون ،ہرقسم کے تکدرسے پاک اورجنت سے نکالے جانے اورموت سے محفوظ ہوں   گے، اس طرح ہروقت راحت ولذت میں   مشغول رہیں   گے، دنیامیں   انہیں   جوموت آئی تھی اس موت کے بعدانہیں   موت کامزہ نہیں   چکھناپڑے گا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَهَیْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ، فَیُنَادِی مُنَادٍ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ، فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ، فَیَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا المَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، ثُمَّ یُنَادِی: یَا أَهْلَ النَّارِ، فَیَشْرَئِبُّونَ وَیَنْظُرُونَ، فَیَقُولُ: وهَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا المَوْتُ، وَكُلُّهُمْ قَدْ رَآهُ، فَیُذْبَحُ ثُمَّ یَقُولُ: یَا أَهْلَ الجَنَّةِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ، وَیَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلاَ مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الحَسْرَةِ إِذْ قُضِیَ الأَمْرُ وَهُمْ فِی غَفْلَةٍ}[56]، وَهَؤُلاَءِ فِی غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْیَا {وَهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ}  [57]

ابوسعیدخدری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن موت ایک چتکبڑے مینڈھے کی شکل میں   لائی جائے گی،ایک آوازدینے والافرشتہ آوازدے گاکہ اے جنت والو!تمام جنتی گردن اٹھااٹھاکردیکھیں   گےآوازدینے والافرشتہ پوچھے گاتم اس مینڈھے کوبھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں   گے کہ ہاں  ،یہ موت ہے اوران سے ہرشخص اس کاذائقہ چکھ چکاہے، پھرفرشتہ آوازدے گاکہ اے اہل النار!تمام جہنمی گردن اٹھااٹھاکردیکھیں   گےآوازدینے والافرشتہ پوچھے گاتم اس مینڈھے کوبھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں   گے کہ ہاں  ،یہ موت ہے اوران سے ہرشخص اس کاذائقہ چکھ چکاہے، پھراسے ذبح کردیاجائے گا اورآوازدینے والافرشتہ کہے گااےاہل جنت! اب تمہارے لئے ہمیشگی ہے موت تم پرکبھی نہ آئے گی اوراے جہنمیو ! تمہارے لئے جہنم کاعذاب دائمی ہے تم پربھی موت کبھی نہیں   آئے گی،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت فرمائی’’ اے نبی ! اس حالت میں   جب کہ یہ لوگ غافل ہیں   اور ایمان نہیں   لا رہے ہیں   انہیں   اس دن سے ڈرا دو جب کہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔‘‘[58]

اوراللہ اپنے فضل سے ان کوجہنم کے عذاب سے بچادے گااورمحفوظ رکھے گا،یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہوگااوریہی بہت بڑی کامیابی ہے،

عَنْ عَائِشَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ لَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُهُ، قَالُوا: وَلَا أَنْتَ؟ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ، وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَى اللهِ أَدْوَمُهُ  وَإِنْ قَلَّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایادرمیانی چال اختیارکرواوربلندپروازی نہ کرواور عمل کرتے رہوتم میں   سے کسی کاعمل اسے جنت میں   نہیں   داخل کرسکے گا، لوگوں   نے عرض کیااے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !آپ کوبھی نہیں  ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایانہ مجھ کو،مگریہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے رحمت سے ڈھانپ لے،اورجان لوکہ اللہ کاسب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پرہمیشگی کی جائےاگرچہ تھوڑاہو۔ [59]

فَإِنَّمَا یَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ فَارْتَقِبْ إِنَّهُمْ مُرْتَقِبُونَ ‎﴿٥٩﴾‏(الدخان)
ہم نے اس (قرآن) کو تیری زبان میں   آسان کردیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں  ، اب تو  منتظر رہ یہ بھی منتظر ہیں  ۔

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم نے اس قرآن کوآپ کی زبان میں  جوعلی الاطلاق فصیح ترین اورجلیل ترین زبان ہے ،جس کے الفاظ ومعانی نہایت آسان ہیں   سہل بنایاہے تاکہ یہ اپنے نفع وضررپرغوروفکرکریں   ،اگر اب بھی یہ لوگ دعوت حق پرایمان نہیں   لاتے تواللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ جس بھلائی اورنصرت کاوعدہ فرمایاہے اس کاانتظارکریں   ،اوروہ بھی اس عذاب کے منتظرہیں   جوان پرنازل ہونے والاہے ۔

[1] القدر۱

[2] البقرة۱۸۵

[3] الانفال۳۱

[4] النحل۲۴

[5] المومنون۸۲،۸۳

[6] النمل۶۷،۶۸

[7] القلم۱۵

[8] یٰسین۱۸

[9] النمل۴۷

[10] القدر۳

[11] تفسیرطبری۵۷۴؍۱۷

[12] البقرة۱۸۵

[13] القدر۱

[14] الزمر۳۸

[15] المومنون۸۶،۸۷

[16] الاعراف۱۵۸

[17] سبا۲۶

[18] الشوری۱۵

[19] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ الدخان بَابُ یَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِیمٌ ۴۸۲۱ ، صحیح مسلم کتاب صفات المافقین بَابُ الدُّخَانِ ۷۰۶۶،مسند احمد ۳۶۱۳، السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۱۷

[20] السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۳۸۷؍۱

[21] شرح النوی علی مسلم۲۷؍۱۸

[22] تحفة الاخیار

[23] النمل۸۲

[24] صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِی الْآیَاتِ الَّتِی تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ،۷۲۸۶،۷۲۸۷

[25] الطور۱۳،۱۴

[26] الانعام۲۷

[27] ابراہیم۴۴

[28] الانعام۲۸

[29] الفرقان۴

[30] المومنون۷۵

[31] طہ۴۷

[32] المومن۲۶

[33] یونس۸۸،۸۹

[34] طہ۷۷

[35] تفسیرابن کثیر۲۵۲؍۷

[36] الشعراء ۵۷ تا ۵۹

[37] الاعراف۱۳۷

[38] تفسیرطبری۳۴؍۲۲

[39] ص۲۷

[40] المومنون۱۱۵

[41] الحجر۸۵

[42] المومنون۱۰۱

[43] المعارج۱۰تا۱۴

[44] تفسیر طبری۱۲۶؍۲۱

[45] الدخان۴۳تا۴۶

[46] التخویف من النار والتعریف بحال دار البوار۲۲۲؍۱

[47] الحج۱۹،۲۰

[48] تفسیرابن کثیر۲۶۰؍۷

[49] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۹۰؍۱۰

[50] الطور۱۳تا۱۵

[51] صحیح مسلم کتاب الجنة  بَابٌ فِی دَوَامِ نَعِیمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وقَوْلِهِ تَعَالَى وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۷۱۵۷،جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ۳۲۴۶،المعجم الصغیر للطبرانی ۲۱۳

[52] المعجم الاوسط للطبرانی ۸۰۴۵

[53] جامع ترمذی ابواب فضائل الجہادبَابٌ فِی ثَوَابِ الشَّهِیدِ۱۶۶۲

[54]الرحمٰن۵۶

[55] الرحمٰن۵۸

[56] مریم: 39

[57]مریم: 39

[58] صحیح بخاری تفسیرسورۂ مریم بَابُ قَوْلِهِ وَأَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الحَسْرَةِ  ۴۷۳۰،صحیح مسلم کتاب الجنة  بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ ۷۱۸۱، شرح السنة للبغوی ۴۳۶۶

[59] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ۶۴۶۴،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۲۲،مسنداحمد۲۴۹۴۱

Related Articles