بعثت نبوی کا ساتواں سال

مضامین سورۂ الجاثیہ

سورۂ کاآغازتوحیدکے دلائل سے ہے ۔

xانسان کی اپنی جان سے لے کرآفاق میں   پھیلی ہوئی تمام اشیاء کاوجوداللہ کی عظمت وجلال اورقدرت ووحدانیت کی زندہ گواہ ہیں  ،زمینی نباتات، حیوانات، شب وروزکا لگا بندھا نظام،پانی کے ایک حقیرقطرے سے انسان کی پیدائش اوراس کی زندگی میں   پیش آنے والے مختلف مراحل پراگربغض وعناد اورتعصب سے بالاترہوکرغوروتدبر کیاجائے تو عقل سلیم اس بات کاقطعی فیصلہ دے گی کہ اس کائنات کاخالق اللہ ہی ہے،جس کی خالقیت ، مالکیت ،الوہیت ،وحدانیت اوررزاقیت میں   کوئی شریک نہیں  ۔

xاس ضمن میں   سلیم الفطرت انسان کوغوروتدبرکے لیے فرمایاکہ اس کائنات کی جس قدرچیزیں   تمہاری شب وروزخدمت میں   مصروف ہیں   وہ از خود تو وجودمیں   نہیں   آگئیں   اور نہ ہی تمہاری دیویوں   یادیوتاؤں   نے انہیں   تخلیق کیاہے بلکہ وہ توخودتمہارے ہاتھوں   سے تراشے ہوئے ہیں  ، اورنہ ہی یہ بے مثال مربوط نظام خودبخودقائم ہوگیاہے،اس بارے میں   کوئی بھی انسان اگرسوچ وبچارسے کام لے تواس کی عقل یہ فیصلہ دے گی کہ یہ اللہ ارحم الراحمین کا انعام ہے اورانسان کواسی کاشکرگزارہوناچاہیے۔

xمشرکین دانش ہدایت اوررحمت کے سرچشمہ کلام الٰہی کامذاق اڑاتے تھے اوراس جلیل القدرکلام کو قصے کہانیوں   اورکہاوتوں   کی کتاب گردانتے تھے،انہیں   ملامت کی گئی کہ تم اپنی جہالت و حماقت کے سبب اللہ کے پاکیزہ کلام کامذاق اڑاتے ہو،مگربعدالموت اس کاانجام تمہاری تباہی وبربادی کے سواکچھ نہیں   ہے،ہاں  !اگرتم لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوارہوتو کلام الٰہی کی تعلیمات کواپناکرتقویٰ کی روش اختیارکرو،اہل مکہ کہتے تھے کہ زندگی صرف یہی دنیاکی زندگی ہے اورمرنے کے بعدکوئی دوسری زندگی نہیں   ہے،اس شک کے ازالہ کے لیے فرمایاتمہارایہ خیال اپنے تجربے اورمشاہدے کی بنیادپرہے کہ تم نے کوئی شخص آج تک مرنے کے بعدزندہ ہوتے نہیں   دیکھاتوکیاجوچیزتمہارے مشاہدے میں   نہ ہو توکیاسوچے سمجھے بغیراس کے وجود کاانکارکردوگے؟

xآخرت کے بارے میں   فرمایاکہ عقل وانصاف کاتقاضاہے کہ ہرظالم کواس کے ظلم وستم اورہرفرمانبردارکواس کی اطاعت کاصلہ ملناچاہیے،اگرتم آخرت کی زندگی کا انکار کرتے ہوتواس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ظالم ومظلوم ، نیکوکار وبدکار،اندھاوبینا،سننے والااوربہرہ ،روشنی وتاریکی اوررات ودن سبھی کویکساں   قراردیاجائے حالانکہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت کوکسی صورت گوارانہیں  ،اس روزمیدان محشرمیں  اللہ کی بارگاہ میں   توہرشخص خوف کے مارے گھٹنوں   کے بل گرا ہوا ہو گا اوراللہ رب العزت ہرانسان کے اعمال کے مطابق ہی اس کامعاملہ فرمائے گا،ان دلائل کے بعدفرمایاکہ اپنے وجود پر غور کرواوربتاؤکہ تمہارایہ متناسب وجود اپنے آپ کیسے بن گیا؟دوسری مخلوقات کے مقابلے میں   تمہیں   یہ عقل وشعورکس نے عطاکیا؟یہ بہترین قابلیتیں  وصلاحتیں   کیسے پیداہو گئیں  ؟تمہیں   اچھائی اوربرائی کی تمیز کس نے بخشی ؟یقیناًیہ کائنات اور تمہاراوجودخودبخود وجود میں   نہیں   آگیابلکہ تمہارے وجودکوتخلیق کرنے والا کوئی اورہے،اوروہ صانع اللہ وحدہ لاشریک ہے جوتم کوعدم سے وجودمیں   لایا ،پھر ایک وقت مقررہ پرموت دیتاہے اور پھرموت کے بعددوبارہ زندہ کرکے اعمال کاحساب لے گااوراسی کے مطابق جزادے گاآج تمہاراآخرت کی ابدی زندگی سے انکاراورمذاق تمہارے انجام کی تباہی کے لیے کافی ہے۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ کے پیروکاروں   کوکہاگیاکہ دشمنان حق کی ساری زیادتیاں   اورظلم وستم دراصل اللہ تعالیٰ کی شدیدپکڑسے بے خوف ہونے کی وجہ سے ہیں  ،اگرتم ان مصائب اورظلم وستم پر صبر کروگے توتمہاراخالق تمہیں   یقیناًاس کابے بہااجروثواب عنایت فرمائے گا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ‎﴿١﴾‏ تَنْزِیلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٣﴾‏ وَفِی خَلْقِكُمْ وَمَا یَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آیَاتٌ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ ‎﴿٤﴾‏ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقٍ فَأَحْیَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ آیَاتٌ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ‎﴿٥﴾‏ تِلْكَ آیَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآیَاتِهِ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٦﴾‏(الجاثیہ)
’’حم ،یہ کتاب اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے، آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری پیدائش میں اور ان جانوروں کی پیدائش میں جنہیں وہ پھیلاتا ہے، یقین رکھنے والی قوم کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، اور رات دن کے بدلنے میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے (اس میں)، اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں، یہ ہیں اللہ کی آیتیں جنہیں ہم آپ کو راستی سے سنا رہے ہیں، پس اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کے بعد یہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔‘‘

حم،یہ کتاب قرآن مجیدمحمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصنیف کردہ نہیں   بلکہ اس کو اللہ غفورورحیم نے انسانوں   کی ہدایت ورہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے جوزبردست اورحکیم ہے، اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے والوں   کے لئے آسمانوں   اورزمین میں  بے شمارنشانیاں   ہیں   جوشہادت دے رہی ہیں   کہ اس عظیم الشان کائنات کاخالق ،حاکم اورمتصرف صرف ایک اللہ ہی ہے ، اورتمہاری اپنی پیدائش اوراپنے وجودکی ساخت میں  اورزمین میں   پھیلے ہوئے انواع واقسام کے حیوانات کی پیدائش میں   ان لوگوں   کے لئے بڑی نشانیاں   ہیں   جو اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے کے لئے تیارہوں  ،اورشب وروزکے باقاعدگی سے آنے جانے اور دنوں   کے چھوٹے بڑے ہونے میں  اوراس بارش میں   جسے اللہ آسمان سے جہاں   چاہتا ہے ایک خاص مقدارمیں  برساتاہے ،پھراس کے ذریعہ سے مردہ زمین میں   زندگی کی لہردوڑجاتی ہے ، اورمختلف ہواؤں   کی گردش میں   جس سے موسموں   کی تبدیلیاں   واقع ہوتی ہیں  ،ان کے علاوہ زمین میں   بکھری ہوئی بے شمار چیزیں   ببانگ دھل کہہ رہی ہیں   کہ کائنات میں   آسمان،زمین، سورج،زمین ،ہوا،پانی، نباتات اورحیوانات وغیرہ کے بہت سے الٰہ نہیں   اورنہ ہی کائنات کا یہ لگابندھانظام خود بخودوجودمیں   آگیاہے اور چل رہاہے بلکہ ان تمام کاموں   کے پیچھے اللہ وحدہ لاشریک ہی کی حکمت ومشیت کارفرماہے جواس تمام نظام کوچلارہی ہے،جیسےفرمایا:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ۝۰۠ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴ [1]

ترجمہ: بے شک آسمانوں   اور زمین کے پیدا کرنے میں   اور رات اور دن کے بدلنے میں   اور جہازوں   میں   جو دریا میں   لوگوں   کی نفع دینے والی چیزیں   لے کر چلتے ہیں   اور اس پانی میں   جسے اللہ نے آسمان سے نازل کیا ہے پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور اس میں   ہر قسم کے چلنے والے جانور پھیلاتا ہے اور ہواؤں   کے بدلنے میں   اور بادل میں   جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کا تابع ہے البتہ عقلمندوں   کے لیے نشانیاں   ہیں  ۔

یہ اللہ کی وحدانیت وربوبیت کے دلائل ہیں   جنہیں   ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کررہے ہیں  ،اب آخراللہ کے توحیدکے معقول دلائل وبراہین کے بعدبھی یہ ایمان نہیں   لاتے تواورکون سی نشانیاں   ہیں   جس پریہ لوگ ایمان لائیں   گے۔

وَیْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِیمٍ ‎﴿٧﴾‏ یَسْمَعُ آیَاتِ اللَّهِ تُتْلَىٰ عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ یَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٨﴾‏ وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آیَاتِنَا شَیْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِینٌ ‎﴿٩﴾‏ مِنْ وَرَائِهِمْ جَهَنَّمُ ۖ وَلَا یُغْنِی عَنْهُمْ مَا كَسَبُوا شَیْئًا وَلَا مَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِیَاءَ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٠﴾(الجاثیہ)
’’ ویل ‘‘اور افسوس ہے ہر ایک جھوٹے گناہ گار پر، جو آیتیں اللہ کے اپنے سامنے پڑھی جاتی ہوئی سنے، پھر بھی غرور کرتا ہوا اس طرح اڑا رہے کہ گویا سنی ہی نہیں تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر (پہنچا) دیجئے، وہ جب ہماری آیتوں میں سے کسی آیت کی خبر پا لیتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوائی کی مار ہے، ان کے پیچھے دوزخ ہے، جو کچھ انہوں نے حاصل کیا تھا وہ انہیں کچھ بھی نفع نہ دے گا اور نہ وہ (کچھ کام آئیں گے) جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا تھا، ان کے لیے تو بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘

تباہی وبربادی ہے جھوٹے ،بدعمل اورغروروتکبرمیں   مبتلادنیادارلوگوں   کے لئے جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کاپاکیزہ کلام پڑھاجاتاہے تاکہ وہ اس پرایمان لائیں  اوراپنی زندگیوں   کواس کی ہدایت کی مطابق ڈھالیں   اورعذاب جہنم سے بچ کرانواع واقسام کی لازوال نعمتوں   بھری جنتوں   کے مستحق قرارپائیں  ،وہ اس دعوت کوسنتے ہیں  ،ان کے دل اس کی سچائی کوتسلیم کرتے ہیں   مگرمحض اپنے تعصبات اورفخروغرور میں   کفرپراس طرح ڈٹے رہتے ہیں   گویاانہیں   دعوت حق دی ہی نہیں   گئی، اوراپنے کفرومعصیت پر اصرارواستکبارکی وجہ سے اس قرآن کی تعلیمات میں   سیدھے معنی لینے کے بجائے ٹیڑھ تلاش کرتے ہیں   تاکہ اسے استہزااور مذاق کاموضوع بنائیں  ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ یُسَافَرَ بِالقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ العَدُوِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن مجیدکو دشمنوں   کے علاقے میں   لے جانے سے منع فرمایاتھا۔[2]

أُرَاهُ مَخَافَةَ أَنْ یَنَالَهُ الْعَدُوُّ

امام مالک رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  میراخیال ہے اس نہی کی حکمت یہ ہے کہ کہیں   یہ دشمن(کافر)کے ہاتھ نہ لگ جائے (اور وہ اس کی اہانت وبے قدری کریں  )۔

یہ لوگ آخرت سے بے فکر ہو کر کفرانہ روش پرسرپٹ گامزن ہیں   اورانہیں   ذرابھی احساس نہیں   کہ جہنم ان کی گھات میں   لگی ہوئی ہے جس میں   ذلت کاعذاب ان کا منتظر ہے،جیسے فرمایا

اِنَّ جَہَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا۝۲۱۠ۙلِّلطَّاغِیْنَ مَاٰبًا۝۲۲ۙلّٰبِثِیْنَ فِیْہَآ اَحْقَابًا۝۲۳ۚ [3]

ترجمہ:درحقیقت جہنم ایک گھات ہے سرکشوں   کا ٹھکانا جس میں   وہ مدتوں   پڑے رہیں   گے۔

آج یہ لوگ اپنے مال ودولت ،مرتبہ وحیثیت ،عزت وقار،اولاداوراپنے مضبوط جھتے پرفخروغرورمیں   مبتلاہیں   مگرروزمحشردنیامیں   کمائی ہوئی دولت،مرتبہ وحیثیت اور عزت وقار کچھ کام نہیں   آئے گی،جن اولاداورجتھے پروہ فخرکرتے ہیں   انہیں   کوئی فائدہ نہیں   پہنچاسکیں   گے ،اورنہ ہی ان کی دیویاں   ودیوتا،زندہ یامردہ بزرگ،سردار،لیڈر اورامراء وحکام جن کودنیامیں   ان لوگوں   نے اپنادوست،مددگاراورمعبودبنارکھاہے، جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے غضبناک ہونے کی پرواہ نہیں   کرتے وہ اس روزانہیں   نظرہی نہیں   آئیں   گے ،نہ انہیں  جہنم کے ہولناک عذاب سے بچاسکیں   گے اورنہ ہی اس میں   تخفیف کراسکیں   گے۔

هَٰذَا هُدًى ۖ وَالَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِیمٌ ‎﴿١١﴾‏ ۞ اللَّهُ الَّذِی سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْكُ فِیهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْهُ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿١٣﴾‏(الجاثیہ)
’’یہ (سرتاپا) ہدایت ہے اور جن لوگوں نے اپنے رب کی آیتوں کو نہ مانا ان کے لیے بہت سخت دردناک عذاب ہے، اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے دریا کو تابع بنادیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ، اور آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کردیا ہے، جو غور کریں یقیناً وہ اس میں بہت سی نشانیاں پالیں گے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے ابن آدم پراحسانات :

یہ قرآن لوگوں   کے لیے سراسرہدایت ہے،جیسے فرمایا:

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۝۰ۚۖۛ فِیْہِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۲ۙ [4]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں   کوئی شک نہیں   ہے،ہدایت ہے پرہیزگاروں   کے لئے۔

طٰسۗ۝۰ۣ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِیْنٍ۝۱ۙہُدًى وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۝۲ۙ [5]

ترجمہ:ط۔ س۔ یہ آیات ہیں   قرآن اور کتاب مبین کی،ہدایت اور بشارت ان ایمان لانے والوں   کے لیے۔

تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ۝۲ۙہُدًى وَّرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِیْنَ۝۳ۙ [6]

ترجمہ:یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں   ہدایت اور رحمت نیکوکار لوگوں   کے لیے۔

جو انہیں  کفروشرک کی تاریکیوں   سے نکال کرایمان کی روشنی میں   لاتاہے،جیسے فرمایا

ہُوَالَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍؚبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۹ [7]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں   نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں   تاریکیوں   سے نکال کر روشنی میں   لے آئے ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہر بان ہے۔

رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللہِ مُبَـیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۔۔۝۱۱ [8]

ترجمہ:ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سنا تا ہے تاکہ ایمان لانے والوں   اور نیک عمل کرنے والوں   کو تاریکیوں   سے نکال کر روشنی میں   لے آئے۔

اورجن لوگوں   نے دعوت توحید پر ایمان لانے سے انکارکیا ہے ان کے لئے بڑادردناک عذاب تیار ہے ،وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی توہے جس نے تمہارے لئے سمندرکو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم اورمشیت سے کشتیاں   اوربڑے بڑے جہاز اس میں   چلیں   اور تم تجارت ،ماہی گیری ،جہازرانی اوردوسرے ذرائع سے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرو ،اور تسخیر بحر کی وجہ سے جونعمتوں   تمہیں   حاصل ہیں   اس پراپنے رب کاشکراداکرو،سورج ،چاند،سیارے،ستارے وغیرہ جن کی تم سیواکررہے ہووہ تواللہ کی مخلوق ہیں   اوراللہ نے ہی اپنے فضل خاص سے کائنات کی ساری ہی چیزوں   کوتمہاری خدمت پرمامور کر دیاہے،جیسے فرمایا

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ۝۵۳ۚ  [9]

ترجمہ:اور نعمتوں   میں   سے جو کچھ تمہارے پاس ہے سو اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں   کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے فریاد کرتے ہو ۔

سمندراورکائنات کی دوسری مسخرچیزیں   واضح اشاری کررہی ہیں   کہ کائنات کی تمام اشیا کے خالق ومالک اور مدبر و منتظم بہت سے الٰہ نہیں   بلکہ ایک اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جس نے ان چیزوں   کوایک قانون کاپابندبنادیاہے،مگر ان نشانیوں   سے رہنمائی وہی حاصل کرتے ہیں   جوکائنات کی تخلیق اوراس کی تسخیرپر غوروتدبر کرتے ہیں  ۔

قُلْ لِلَّذِینَ آمَنُوا یَغْفِرُوا لِلَّذِینَ لَا یَرْجُونَ أَیَّامَ اللَّهِ لِیَجْزِیَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿١٤﴾‏ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَیْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ‎﴿١٥﴾(الجاثیہ)
آپ ایمان والوں   سے کہہ دیں   کہ وہ ان لوگوں   سے درگزر کریں   جو اللہ کے دنوں   کی توقع نہیں   رکھتے، تاکہ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ان کے کرتوتوں   کا بدلہ دے،  جو نیکی کرے گا وہ اپنے ذاتی بھلے کے لیے اور جو برائی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے، پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

مکہ مکرمہ میں   کفارکے ظلم وستم پرمسلمانوں   کے لئے جہادکاکوئی حکم نازل نہیں   ہواتھااس لئے اہل ایمان کوتسلی دینے کے لئے فرمایااے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  !مومن بندوں   سے کہہ دیں   کہ وہ ان لوگوں   سے جواللہ تعالیٰ کی نعمتوں   کے امیدوارہیں   نہ گنہگاروں   کے بارے میں   سنت الٰہی سے خائف ہیں  ۔

وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ۝۱۵ۙ [10]

ترجمہ: انہوں   نے فیصلہ چاہا تھا ( تو یوں   ان کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبار دشمن ِحق نے منہ کی کھائی۔

انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود عفوودرگزر سے کام لیں   اوران مشرکین کی ایذارسانی پر صبر و تحمل کریں  ،اللہ تعالیٰ روزقیامت مظلوموں   کے غیرمتزلزل ایمان ویقین،ظالم گروہ کی زیادتیوں   سے درگزراورصبروتحمل کے صلے کے طورپر انہیں   بہترین جزا سے بہرہ مند کرے گا ، اور ان لوگوں   کوجودعوت کا مذاق اڑاتے ہیں   ، اہل ایمان کومشرکانہ ملت پرپھیرنے کے لیے ان پرظلم وستم کرتے ہیں  ،دعوت حق کاراستہ روکنے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں  دردناک عذاب سے دوچارکرے گا،جوکوئی عمل صالحہ اختیارکرتاہے اس کافائدہ اسی کوپہنچے گا اورجوکوئی براعمل کرے گاتووہی اس کاخمیازہ بھگتے گا،جیسے فرمایا

قَدْ جَاۗءَكُمْ بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْہَا۝۰ۭ وَمَآ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ۝۱۰۴ [11]

ترجمہ:دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں   آگئی ہیں  ، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا میں   تم پر کوئی پاسبان نہیں   ہوں   ۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْہَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [12]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا، اور تیرا رب اپنے بندوں   کے حق میں   ظالم نہیں   ہے ۔

پھرتم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے اوروہ ہرایک کواس کے اعمال کے مطابق جزادے گا ۔

وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿١٦﴾‏ وَآتَیْنَاهُمْ بَیِّنَاتٍ مِنَ الْأَمْرِ ۖ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَهُمْ ۚ إِنَّ رَبَّكَ یَقْضِی بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ‎﴿١٧﴾(الجاثیہ)
’’یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت اور نبوت دی تھی، اور ہم نے انہیں پاکیزہ اور نفیس روزیاں دی تھیں اور انہیں دنیا والوں پر فضیلت دی تھی،اور ہم نے انہیں دین کی صاف صاف دلیلیں دیں، پھر انہوں نے اپنے پاس علم کے پہنچ جانے کے بعد آپس کی ضد بحث سے ہی اختلاف برپا کر ڈالا، یہ جن جن چیزوں میں اختلاف کر رہے ہیں ان کا فیصلہ قیامت والے دن ان کے درمیان (خود) تیرا رب کرے گا ۔‘‘

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  !اللہ نے بنی اسرائیل میں   پے درپے رسول مبعوث کیے ،ان کی رشدوہدایت کے لئے تورات وانجیل جیسی کتابیں   نازل کیں  ،ان کتابوں   کاعلم وفہم ،لوگوں   کے درمیان فیصلہ کرنے کی قوت اورنبوت عطاکی تھی ،ان کوہم نے عمدہ سامان زیست سے نوازا،ان کے زمانے کے اعتبارسے تمام قوموں   پرانہیں   فضیلت عطا کی تاکہ وہ شیطان کے پنجوں   میں   گرفتار،ظلمتوں   میں   ڈوبے لوگوں   کودعوت دین دیں   اوردین کے معاملہ میں   انہیں   واضح ہدایات دے دیں  ،مگرانہوں   نے علم پانے کے باوجود اپنے بغض وعناد کا مظاہرہ کرتے اورجاہ ومنصب کے حصول کے لیے دین میں   ایسے اختلاف برپاکیے اور آپس میں   ایسی گروہ بندیاں   کرڈالیں   جس سے وہ اس قابل نہ رہے کہ دنیاکواللہ کے راستے پر بلا سکیں  ،جیسے فرمایا

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۹ [13]

ترجمہ:ابتداءً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں   انہوں   نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں   وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں   اس کا فیصلہ کر دیا جاتا ۔

وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَہُمْ۝۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ۔۔۔۝۱۴ [14]

ترجمہ:لوگوں   میں   جو تفرقہ رونما ہوا وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا ، اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں   ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا ۔

اللہ مالک یوم الدین قیامت کے روزان معاملات کافیصلہ فرمادے گاجن میں   وہ اختلاف کرتے رہے ہیں  ،پھرنیکوکاروں   کوبہترین جزا اوربدکاروں   کودردناک عذاب دے گا۔

ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِیعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٨﴾‏ إِنَّهُمْ لَنْ یُغْنُوا عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا ۚ وَإِنَّ الظَّالِمِینَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ۖ وَاللَّهُ وَلِیُّ الْمُتَّقِینَ ‎﴿١٩﴾‏ هَٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ ‎﴿٢٠﴾‏(الجاثیہ)
’’ پھر ہم نے آپ کو دین کی (ظاہر) راہ پر قائم کردیا، سو آپ اس پر لگیں رہیں اور نادانوں کی خواہش کی پیروی میں نہ پڑیں(یاد رکھیں) کہ یہ لوگ ہرگز اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آسکتے (سمجھ لیں کہ) ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں اور پرہیزگاروں کا کارساز اللہ تعالیٰ ہے، یہ (قرآن) ان لوگوں کے لیے بصیرت کی باتیں اور ہدایت و رحمت ہے اس قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے تم کودین کے ایک واضح راستے پرقائم کردیاہے لہذا وہی کام یعنی نیکی کاحکم کرنااوربرائی سے روکنا جوبنی اسرائیل چھوڑچکی ہے اوراداکرنے کے اہل بھی نہیں   رہے ہیں  اب آپ کے سپرکیاگیاہے لہذاآپ وحی الٰہی کے مطابق لوگوں   کوراہ راست کی دعوت دیں  اوران لوگوں   کی کچھ پرواہ نہ کریں   جن کی خواہشات علم کے تابع ہیں   نہ علم کی پیروی کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا:

اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۰۶ [15]

ترجمہ: اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اس وحی کی پیروی کیے جا و جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیونکہ اس ایک رب کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں   ہےاور ان مشرکین کے پیچھے نہ پڑو ۔

اگرآپ ان کوراضی کرنے کے لیے اللہ کے دین میں   کسی قسم کاردوبدل کریں   گے تویہ اللہ تعالیٰ کے ہاں   آپ کوکوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں   گے، ظالم لوگ چاہے وہ یہود، عیسائی ، مجوسی ، ہندواوردہریئے وغیرہ ہوں   یا ان کاکوئی بھی نام ہوایک ملت واحدہ ہیں  ،یہ لوگ اہل ایمان کوزک پہنچانے میں   کوئی کسرنہیں   اٹھارکھیں   گے مگر اللہ رب العالمین پرہیزگاروں   لوگوں   کا رفیق وکارساز ہے، یہ قرآن کریم اورذکرحکیم ان دلائل کامجموعہ ہے جواحکام دین سے متعلق ہیں   اورجن سے انسانی ضروریات وحاجات وابستہ ہیں   دنیاکے تمام انسانوں   کے لئے وہ روشنی پیش کرتا ہے جس سے حق وباطل اورحلال وحرام کافرق نمایاں   ہوجاتا ہے اوردنیاوآخرت میں   رحمت الٰہی کاموجب ہے،چنانچہ اب دانائی اورہدایت عطاکرکے تمہیں   آزمایاجارہاہے کہ تم کس کااتباع کرتے ہوکیونکہ تمہیں   ان نعمتوں   کی بابت حساب بھی دیناہوگاکہ ان کا استعمال کیسے کیاگیاتھا، مگرقرآن سے ہدایت وہی لوگ پاتے ہیں   جواس کی صداقت پر ایمان لائیں   اورانہی کے حق میں   یہ شفاو رحمت ہے۔

 أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا یَحْكُمُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿٢٢﴾‏(الجاثیہ)
’’کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں جو ایمان لائے اور نیک کام کئےکہ ان کا مرنا جینا یکساں ہوجائے، برا ہے وہ فیصلہ وہ جو کر رہے ہیں،اور آسمانوں اور زمین کو اللہ نے بہت ہی عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کام کا پورا پورا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے۔‘‘

دعوت توحیدکے بعدآخرت کے بارے میں   فرمایاکیاجن لوگوں  نے دعوت حق کی تکذیب کی ہے،اپنے باطل معبودوں   کی عقیدت میں  اس پاکیزہ دعوت کاراستہ روکنے کے ہرممکن جتن کیے ہیں  ،اہل ایمان کوراہ راست سے ہٹانے کے لیے ان پرناجائزظلم وستم ڈھائے ہیں  ،ان کے علاوہ بڑی بڑی اخلاقی برائیوں   کاارتکاب کیاہے وہ یہ سمجھتے ہیں   کہ   اللہ احکم الحاکمین انہیں   اورایمان لانے والوں   اور اعمال صالحہ کرنے والوں   کو موت وزیست میں   برابرکردے گا ؟جیسے فرمایا

لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰   [16]

ترجمہ:دوزخ میں   جانے والے اور جنت میں   جانے والے کبھی یکساں   نہیں   ہو سکتے، جنت میں   جانے والے ہی اصل میں   کامیاب ہیں  ۔

کیاوہ کافروں   اورفاسقوں   کااورمتقین کاانجام یکساں   کردے گا ؟جیسے فرمایا

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا۝۰ۭؔ لَا یَسْـتَوٗنَ۝۱۸۬ [17]

ترجمہ:بھلا کہیں   یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں   برابر نہیں   ہو سکتے۔

ہرگزنہیں  ،کیارات اوردن ،اندھیرااور اجالابرابرہوسکتے ہیں  ،جیسے فرمایا:

۔۔۔ۥۙ اَمْ ہَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ۔۔۔۝۱۶ [18]

ترجمہ: کیا روشنی اور تاریکیاں   یکساں   ہوتی ہیں  ؟ ۔

کیا دھوپ اورسایہ برابرہیں   ،جیسے فرمایا:

وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ۝۲۱ۚ [19]

ترجمہ:نہ ٹھنڈی چھاؤں   اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے۔

اندھا اور بینا کبھی مساوی نہیں   ہوسکتے ،جیسے فرمایا

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۰ۭ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۝۵۰ۧ [20]

ترجمہ:پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں   والا دونوں   برابر ہو سکتے ہیں   ؟ کیا تم غور نہیں   کرتے ؟ ۔

وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ۝۱۹ۙ [21]

ترجمہ:اندھا اور آنکھوں   والا برابر نہیں   ہے۔

کیااہل علم اورجاہل برابرہوسکتے ہیں  ،جیسے فرمایا:

۔۔۔قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۰ۭ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۹ۧ [22]

ترجمہ: ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں   کبھی یکساں   ہو سکتے ہیں   ؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں  ۔

یہ لوگ اللہ کے عدل کے بارے میں  بہت برے فیصلے کررہے ہیں  ،اللہ نے توآسمانوں   اور زمین کوکھیل تماشے کے طورپرنہیں   بلکہ ایک بامقصد حکیمانہ نظام کے تحت تخلیق کیاہے اوراس لئے کیاہے کہ نیکوکاروں   کوان کی نیکیوں   کی جزادی جائے اورظالموں   کوان کے ظلم کی سزادی جائے اوراللہ نیکوکاروں   کوبڑھاچڑھاکرجزاعطافرمائے گامگرگناہ گاروں   کوان کے استحقاق سے زیادہ عذاب نہیں   دیا جائے گا۔

أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ یَهْدِیهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٢٣﴾‏(الجاثیہ)
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔

اے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  !کیاآپ نے اس گمراہ شخص کودیکھاجس نے آخرت کے دردناک عذاب سے بے پرواہ ہوکر اللہ اوررسول کے احکام کے مقابلے میں   اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبودبنالیاہے ، جوشب وروزاپنی اغراض وخواہشات ہرجائزوناجائزطریقے سے پوری کرنے کی ادھیڑبن ہی میں   لگارہتاہے ،جس چیزکی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کرگزرتاہے،جو نہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کوحرام کرتاہے اورنہ اس کے حلال کیے ہوئے کوحلال ،کیونکہ وہ شخص جاننے کے باوجودکہ بالآخر ایک روزمرناہے اور اپنے رب کی بارگاہ میں   پیش ہوکراپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے خواہش نفس کابندہ بن گیااوراپنی گمراہی میں   روز بروززیادہ ہی بھٹکتاچلاگیا، اس لئے اللہ نے اسے ہدایت کے لائق نہ سمجھتے ہوئے گمراہی میں   پھینک دیااوران کے کان اوردل پرمہرلگادی اورآنکھوں   پرغفلت کاپردہ ڈال دیا جس سے اس کے کان وعظ ونصیحت سننے،اس کادل رشدو ہدایت کے سمجھنے اوران کی آنکھیں   حق کی کوئی دلیل دیکھنے سے محروم ہوگئیں  ،جب اس نے خودپرظلم کیااورایسے اعمال اختیارکیے جواللہ کی رحمت کے مانع تھے تو اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بندکرکے گمراہی کے دروازے کھول دیئے ،چنانچہ کوئی شخص اب اس کوہدایت سے بہرہ مندنہیں   کرسکتا،جیسے فرمایا

مَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ۝۰ۭ وَیَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۸۶ [23]

ترجمہ:جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں   ہے، اور اللہ انہیں   ان کی سرکشی ہی میں   بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے۔

کیاتم اللہ کی ہرسوبکھری نشانیوں   پرغوروتدبراورتباہ شدہ اقوام کے حالات وواقعات سے عبرت حاصل نہیں   کرتے تاکہ حقیقت حال تم پرآشکارا ہو جائے۔

‏ وَقَالُوا مَا هِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُمْ بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا یَظُنُّونَ ‎﴿٢٤﴾(الجاثیہ)
کیا اب بھی تم نصیحت نہیں   پکڑتے، انہوں   نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے، ہم مرتے ہیں   اور جیتے ہیں   اور ہمیں   صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے(دراصل) انہیں   اس کا علم ہی نہیں  ، یہ تو صرف( قیاس اور) اٹکل سے ہی کام لے رہے ہیں  ۔

کفارکے لئے یہ دنیاہی سب کچھ ہے :

پچھلی تباہ شدہ اقوام کی طرح اہل عرب بھی بغیرکسی دلیل وبرہان کے آخرت کے منکرتھے،بس ان کاظن وگمان تھا کہ یہ دنیاکی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے اس کے بعدکوئی زندگی نہیں   جس میں   جزایاسزاکاسلسلہ ہو، موت وحیات کاسلسلہ محض گردش لیل ونہار کانتیجہ ہے ،یہ نظریہ عقلی طور پرقابل قبول نہیں   ،

وَیَقُولُهُ الْفَلَاسِفَةُ الدَّهْرِیَّةُ الدَّوْرِیَّةُ الْمُنْكِرُونَ لِلصَّانِعِ الْمُعْتَقِدُونَ أَنَّ فِی كُلِّ سِتَّةٍ وَثَلَاثِینَ أَلْفَ سَنَةٍ یَعُودُ كُلُّ شَیْءٍ إِلَى مَا كَانَ عَلَیْهِ. وَزَعَمُوا أَنَّ هَذَا قَدْ تَكَرَّرَ مَرَّاتٍ لَا تَتَنَاهَى، فَكَابَرُوا الْمَعْقُولَ وَكَذَّبُوا الْمَنْقُولَ، وَلِهَذَا قَالُوا {وَمَا یُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ}

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں  جیسے فلاسفہ اورعلم کلام کے قائل بھی یہی کہتے تھے،یہ لوگ ابتدااورانتہاکے قائل نہ تھے،اورفلاسفہ میں   سے جولوگ دہریہ اوردوریہ کہلاتا تھے وہ اس کائنات کے خالق کے ہی منکرہیں   ان کایہ عقیدہ ہے کہ ہرچھتیس ہزارسال کے بعد زمانے کاایک دورختم ہوتاہے اورہر چیز دوبارہ اپنی پہلی شکل وصورت پر لوٹ آتی ہے  اوران کایہ گمان ہے کہ ایسابے شمارمرتبہ ہو چکا ہے،ان لوگوں   نے معقول کی بھی مخالفت کی ہے اورمنقول کی بھی تکذیب کی ہےاس لیے وہ کہتے تھے گردش زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے نہ کہ اللہ۔[24]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ  بِیَدِی الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتاہے ابن آدم مجھے ایذاپہنچاتاہے ، زمانے کو برا بھلا کہتاہے یعنی اس کی طرف افعال کی نسبت کر کے اسے براکہتاہے ، حالانکہ (زمانہ بجائے خودکوئی چیزنہیں  )میں   خودزمانہ ہوں  ، میرے ہاتھ ہی میں   تمام اختیارات ہیں  ،رات دن بھی میں   ہی پھیرتاہوں  ۔[25]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَلاَ تَقُولُوا: خَیْبَةَ الدَّهْرِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الدَّهْرُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااوریہ نہ کہوکہ ہائے زمانہ کی نامرادی کیونکہ زمانہ تواللہ ہی کے اختیارمیں   ہے۔[26]

اس لئے اس زندگی میں   جو مزے اڑاسکتے ہو اڑالو، یہی دنیازندگی کی معراج ہے اس کے بعد کوئی زندگی نہیں  جس میں   کسی طرح کا حساب کتاب ہوآخرت ،حیات بعدالموت ، جنت ودوزخ دقیانوسی باتیں   تھیں   یعنی بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ مَا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ قُلِ اللَّهُ یُحْیِیكُمْ ثُمَّ یُمِیتُكُمْ ثُمَّ یَجْمَعُكُمْ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَا رَیْبَ فِیهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ یَوْمَئِذٍ یَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ ‎﴿٢٧﴾(الجاثیہ)
’’اور جب ان کے سامنے ہماری واضح اور روشن آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے پاس اس قول کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لاؤ، آپ کہہ دیجئے !اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مار ڈالتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے، اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن اہل باطل بڑے نقصان میں پڑیں گے۔‘‘

 زندگی اورموت کی حقیقت:

جب ان لوگوں   کو قیامت قائم ہونے اورحیات بعدالموت کے مضبوط عقلی دلائل دیے جاتے ہیں   تولاجواب ہوکرجھٹ سے کہہ دیتے ہیں   کہ اچھا اگرموت کے بعد دوبارہ زندگی ہے توہمارے آباواجدادکوزندہ کرکے دکھادوہم اس بات پرایمان لے آئیں   گے ،اللہ رب العزت نے فرمایاتم لوگ اپنا پیداکیا جانا اور مر جانا تو اپنی آنکھوں   سے دیکھ رہے ہوکہ تم کچھ بھی نہ تھے ،جیسے فرمایا

هَلْ اَتٰى عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَـیْــــًٔا مَّذْكُوْرًا۝۱ [27]

ترجمہ:کیاانسان پرلامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزراہے جب وہ کوئی قابل ذکرچیزنہ تھا۔

پھراس نے اپنی قدرت وحکمت سے تمہیں   وجودبخشا،پھروہ تمہیں   ایک وقت مقررہ پرموت سے ہمکنار کر دیتا ہے تو اللہ جو خالق الارض وسماوات ہےابتدا مخلوق کوپیداکرنے پرقادرہے کیا وہ وہ دوبارہ تمہیں   پیدا کرنے پرقادرنہیں   ہوسکتا،حالانکہ دوبارہ پیداکرناپہلی دفعہ پیداکرنے سے آسان ترہے ، جیسے فرمایا:

كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ۔۔۔۝۲۸ [28]

ترجمہ: تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بےجان تھے ، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا پھر وہی تمہیں   دوبارہ زندگی عطا کرے گا ۔

وَہُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَاَہْوَنُ عَلَیْہِ۔۔۔۝۲۷ۧ [29]

ترجمہ:وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہےپھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے ۔

یہ دنیاتودارعمل ہے اور دار جزا قیامت کادن ہے جس میں   کوئی شک وشبہ نہیں  ،جس میں   اللہ تعالیٰ سب اولین وآخرین کو ان کی قبروں   سے جسم وجان کے ساتھ زندہ کرکے میدان محشرمیں   جمع کرے گا،جیسے فرمایا

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۝۴۹ۙلَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ  اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰ [30]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں   گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں   گے ؟اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں   گے جو پہلے گزر چکے ہیں  ؟اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان لوگوں   سے کہو ، یقینا اگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں   جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے۔

اورمالک یوم الدین فرداًفرداًہرشخص کے اعمال کا حساب کرے گا،جیسے فرمایا:

وَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [31]

ترجمہ: سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں   گے۔

اچھے عمل کی اچھی جزااوربرے عمل کی بری سزاملے گی،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّكَفِّرْ عَنْہُ سَـیِّاٰتِہٖ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۹وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۱۰ۧ [32]

ترجمہ:جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اللہ اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور ایسی جنتوں   میں   داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں   بہتی ہوں   گی یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں   رہیں   گے،یہ ہےبڑی کامیابی اور جن لوگوں   نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخ کے باشندے ہوں   گے جس میں   وہ ہمیشہ رہیں   گے اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے۔

مگریہ لوگ اس دن کی نفسانفسی اور ہولناکی کوسمجھ نہیں   رہے،مگرجس روزقیامت قائم ہوگی اس دن اللہ وحدہ لاشریک ، اس کے رسولوں   اوران پرمنزل کی گئی کتابوں   کے منکر خسارے میں   پڑجائیں   گے۔

وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِیَةً ۚ كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ هَٰذَا كِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّ ۚ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِی رَحْمَتِهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِینُ ‎﴿٣٠﴾(الجاثیہ)
’’اور آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی، ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا آج تمہیں اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا، یہ ہےہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے تھے ،پس لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو ان کو ان کا رب اپنی رحمت تلے لے لے گا یہی صریح کامیابی ہے۔‘‘

قیامت کے روزہرگروہ گھٹنوں   کے بل گراہوگا:

میدان حشرمیں   ہرشخص چاہے وہ اپنے نبی کااطاعت گزارتھایامخالف شدت وعظمت، خوف ودہشت کے مارے عاجزی کے ساتھ گھٹنوں   کے بل گراہوااللہ مالک یوم الدین کے فیصلے کا منتظرہوگا ،ہرشخص کوپکاراجائے گاکہ آئے اوراپناکارنامہ حیات دیکھے،جب وہ اپنانامہ اعمال دیکھ لیں   گے توان سے کہاجائے گاآج تم لوگوں   کو ان اقوال واعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دیاجائے گاجوتم دنیامیں   کرتے رہے تھے ،یہ ہمارا تیارکرایاہوااعمال نامہ ہے جوتمہارے اوپرٹھیک ٹھیک شہادت دے رہاہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔   وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِایْۗءَ بِالنَّـبِیّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ۔۔۔ ۝۶۹ [33]

ترجمہ:کتاب اعمال لاکررکھ دی جائے گی ،انبیاء اور تمام گواہ حاضرکردیے جائیں   گے۔

یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍؚبِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝۱۳ۭ [34]

ترجمہ: اس روزانسان کواس کاسب اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گا۔

اپنانامہ اعمال دیکھ کرجس میں   ہرچھوٹابڑا اوراچھابراعمل درج ہوگاانسان ہک دھک رہ جائیں   گے اورکہیں   گے،جیسے فرمایا

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ  [35]

ترجمہ:اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گااس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں   گے اور کہہ رہے ہوں   گے کہ ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں   رہی جو اس میں   درج نہ ہو گی ہو ،جو کچھ انہوں   نے کیا تھا وہ سب  اپنے سامنے حاضر پائیں   گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا۔

جواقوال وافعال جن نیتوں   اور ارادوں   کے ساتھ تم کرتے تھے اسے معزز کاتبین ہمارے حکم سے لکھتے جارہے تھے ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَغَیْرُهُ: تَكْتُبُ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ الْعِبَادِ، ثُمَّ تَصْعَدُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَیُقَابِلُونَ الْمَلَائِكَةَ الَّذِینَ فِی دِیوَانِ الْأَعْمَالِ عَلَى مَا بِأَیْدِیهِمْ مِمَّا قَدْ أُبْرِزَ لَهُمْ مِنَ اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ فِی كُلِّ لَیْلَةِ قَدْرٍ، مِمَّا كَتَبَهُ  اللَّهُ فِی الْقِدَمِ عَلَى الْعِبَادِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَهُمْ، فَلَا یَزِیدُ حَرْفًا وَلَا یَنْقُصُ حَرْفًا، ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ} .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں   فرشتے بندوں   کے اعمال کولکھتے ہیں  اورپھرانہیں   لے کرآسمانوں   پرچڑھ جاتے ہیں  تودیوان اعمال کے فرشتے کراماًکاتبین کے ہاتھوں   کے لکھے ہوئے ان اعمال کا،ان کے ان اعمال کے ساتھ تقابل کرتے ہیں   جوہرلیلة القدرمیں   لوح محفوظ سے ظاہرکردیے گئے تھےاورجنہیں   اللہ تعالیٰ نے بندوں   کے پیدافرمانے سے قبل ازل ہی سے ان کے بارے میں   لکھ دیاتھاتوفرشتے دیکھتے ہیں   کہ اس میں   ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں  پھرانہوں   نے اس آیت کریمہ کوپڑھا’’  جوکچھ بھی تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جارہے تھے۔‘‘[36]

پھرجولوگ دعوت حق پر ایمان لائے اور اطاعت رسول میں  اعمال صالحہ کرتے رہے تھے انہیں   ان کارب اپنی رحمت یعنی انواع واقسام کی لازوال نعمتوں   سے بھری جنتوں   میں   داخل کرے گا اوریہی صریح کامیابی ہے،جیسے فرمایا

لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَیُكَفِّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ۝۰ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللہِ فَوْزًا عَظِیْمًا۝۵ۙ [37]

ترجمہ:(اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے) تاکہ مومن مردوں   اور عورتوں  کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں   میں   داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں   بہہ رہی ہوں   گی اور ان کی برائیاں   ان سے دور کر دے، اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ “ تَحَاجَّتِ الجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَقَالَتِ النَّارُ: أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِینَ وَالمُتَجَبِّرِینَ، وَقَالَتِ الجَنَّةُ: مَا لِی لاَ یَدْخُلُنِی إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِی أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِی، وَقَالَ لِلنَّارِ: إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِی أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِی، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِلْؤُهَا، فَأَمَّا النَّارُ: فَلاَ تَمْتَلِئُ حَتَّى یَضَعَ رِجْلَهُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ، فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَیُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، وَلاَ یَظْلِمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا، وَأَمَّا الجَنَّةُ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجنت اوردوزخ نے بحث کی،دوزخ نے کہامیں   متکبروں   اورظالموں   کے لئے خاص کی گئی ہوں   اورجنت نے کہامجھے کیاہواکہ میرے اندرصرف کمزوراورکم رتبہ والے لوگ داخل ہوں   گے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہاکہ تومیری رحمت ہےتیرے ذریعہ میں   اپنے بندوں   میں   جس پرچاہوں   رحم کروں   اوردوزخ سے کہاکہ توعذاب ہے تیرے ذریعہ میں   اپنے بندوں   میں   سے جسے چاہوں   عذاب دوں  ،جنت اوردوزخ دونوں   بھریں   گی،دوزخ تواس وقت تک نہیں   بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپناقدم اس پرنہیں   رکھ دے گا،اس وقت وہ بولے گی بس ،بس،بس!اوراس وقت بھرجائے گی اور اس کابعض حصہ بعض دوسرے حصے پرچڑھ جائے گااوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں   میں   کسی پربھی ظلم نہیں   کرے گااورجنت کے لئے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیداکرے گا ۔[38]

وَأَمَّا الَّذِینَ كَفَرُوا أَفَلَمْ تَكُنْ آیَاتِی تُتْلَىٰ عَلَیْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنْتُمْ قَوْمًا مُجْرِمِینَ ‎﴿٣١﴾‏ وَإِذَا قِیلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَیْبَ فِیهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِی مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَبَدَا لَهُمْ سَیِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٣٣﴾‏(الجاثیہ)
’’لیکن جن لوگوں نے کفر کیا تو (میں ان سے کہوں گا) کیا میری آیتیں تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں؟ پھر بھی تم تکبر کرتے رہے اور تم تھے ہی گناہ گار لوگ، اور جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں تو تم جواب دیتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے ؟ ہمیں کچھ یوں ہی سا خیال ہوجاتا ہے لیکن ہمیں یقین نہیں، اور ان پر اپنے اعمال کی برائیاں کھل گئیں اور جس کا وہ مذاق اڑا رہے تھے اس نے انہیں گھیر لیا۔‘‘

اورجن لوگوں   نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرکیاتھااللہ تعالیٰ ان سے بطورتوبیخ کہے گاکیامیری آیات تم کونہیں   سنائی جاتی تھیں  ؟جن میں   سراسر تمہاری بھلائی ہی بھلائی تھی، یقیناًاللہ کے پیغمبروں   نے اللہ کاکلام پہنچانے میں   حق اداکردیاتھامگرتم نے غرورونخوت میں   آکر اللہ کی آیات کے مطیع فرمان بن جانااپنی شان کے خلاف سمجھااورمجرم بن کر رہے ، اورجب کہاجاتاتھاکہ اللہ کاوعدہ یقیناًسچا ہے اورقیامت کے آنے میں   کوئی شک شبہ نہیں   توتم پلٹ کرکہتے تھے کہ ہم نہیں   جانتے قیامت کیاہوتی ہے ،ہم تواس کے بارے میں  ایک ظن وتخمین سارکھتے ہیں  مگرہمیں  یقین نہیں   ہے کہ قیامت قائم ہوگی،اس وقت ان پران کے باطل اقوال و اعمال کی سزاظاہرہوجائے گی اوروہ اسی عذاب کی لپیٹ میں   آجائیں   گے جس کاوہ تمسخر اڑایاکرتے تھے۔

وَقِیلَ الْیَوْمَ نَنْسَاكُمْ كَمَا نَسِیتُمْ لِقَاءَ یَوْمِكُمْ هَٰذَا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ ذَٰلِكُمْ بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آیَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا ۚ فَالْیَوْمَ لَا یُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُونَ ‎﴿٣٥﴾‏(الجاثیہ)
’’اور کہہ دیا گیا کہ آج ہم تمہیں بھلا دیں گے جیسے کہ تم نے اپنے اس دن سے ملنے کو بھلا دیا تھا ،تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور تمہارا مددگار کوئی نہیں،یہ اس لیے ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی ہنسی اڑائی تھی اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، پس آج کے دن نہ تو یہ (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے عذر و معذرت قبول کیا جائے گا۔‘‘

اورمجرمین سے کہہ دیاجائے گاکہ آج ہم بھی اسی طرح تمہیں   بھلائے دیتے ہیں   جس طرح تم اس دن کی ملاقات کوبھول گئے تھے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ: فَیَلْقَى الْعَبْدَ، فَیَقُولُ: أَیْ فُلْ أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَیْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟ فَیَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَیَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِیَّ؟ فَیَقُولُ: لَا، فَیَقُولُ: فَإِنِّی أَنْسَاكَ كَمَا نَسِیتَنِی، ثُمَّ یَلْقَى الثَّانِیَ فَیَقُولُ: أَیْ فُلْ أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَیْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ، وَتَرْبَعُ، فَیَقُولُ: بَلَى، أَیْ رَبِّ فَیَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِیَّ؟ فَیَقُولُ: لَا، فَیَقُولُ: فَإِنِّی أَنْسَاكَ كَمَا نَسِیتَنِی،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاپھرحق تعالیٰ حساب کرے گا،بندے سے کہے گااے فلاں   بندے !بھلامیں   نے تجھ کوعزت نہیں   دی اورتجھ کوسردارنہیں   کیااورگھوڑوں   اوراونٹوں   کوتیراتابع فرمان نہیں   کیااورتجھ کوچھوڑاکہ تو اپنی قوم کی سرداری بھی کرتاتھااورچوتھائی حصہ چنگی بھی وصول کرتاتھا، بندہ عرض کرے گاہاں   میرے رب !یہ سچ ہے ،بیشک تیرے یہ تمام احسانات مجھ پر تھے ، سرورعالم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاتوحق تعالیٰ فرمائے گاکیاتجھ کومیری ملاقات کایقین تھا؟بندہ کہے گاکہ نہیں  ،تواللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ اب میں  بھی تجھ کو(جہنم میں   ڈال کر)بھول جاؤں   گا( یعنی تیری خبرنہ لیں   گے اورتجھ کوعذاب سے نہ بچائیں   گے) جیسے تودنیاکی رنگینیوں   میں  مجھے بھولا رہا۔[39]

تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اورکوئی تمہاری مددکرنے والانہیں   ہے،یہ تمہاراانجام اس لئے ہواہے کہ تم نے اللہ کی آیات واحکام کامذاق بنا لیاتھااور دنیاکی چکاچونداور لذات وشہوات نے تمہیں   دھوکے میں   ڈال دیا تھا ،لہذاآج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں   گے اورنہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی کیونکہ توبہ تودنیاکی زندگی تک ہے ،موت کے آثارشروع ہوتے ہی توبہ کادروازہ بندہوجاتاہے۔

‏ فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَلَهُ الْكِبْرِیَاءُ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٣٧﴾‏
پس اللہ کی تعریف ہے جو آسمانوں   اور زمین اور تمام جہان کا پالنہار ہے، تمام (بزرگی اور) بڑائی آسمانوں   اور زمین میں   اسی کی ہے، اور وہی غالب اور حکمت والا ہے۔

تمام حمدوستائش جیسی کہ اس کے جلال اوراس کی عظمت سلطان کے لائق ہے کائنات کے خالق ومالک ہی کے لئے ہے جوسارے جہانوں   کی مخلوقات کاروزی رساں   ہے ،اسی کی کبریائی یعنی سلطنت اوربڑائی آسمانوں   اورزمینوں   میں   ہے ،وہ بڑی عظمت وجلال اوربزرگی والاہے ،ہرچیزاس کے سامنے پست ہے ،وہ غنی ہے اورہرمخلوق اس کے درکی محتاج ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:الْكِبْرِیَاءُ رِدَائِی، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِی، فَمَنْ نَازَعَنِی وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِی النَّارِ

ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ  اورابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتاہےبڑائی میری (اوپرکی)چادرہےاورعظمت میری (نیچے کی)چادرہے (یعنی یہ دونوں   اس کی صفتیں   ہیں  )  چنانچہ جوکوئی ان میں   سے کسی ایک کوبھی کھینچنے کی کوشش کرے گا(میراشریک ہونے کی کوشش کرے گا)میں   اسے جہنم میں   جھونک دوں   گا۔[40]

وہ غالب ہے یعنی وہ کسی سے مغلوب نہیں   ہوسکتا ، کسی کے پاس کوئی طاقت و قوت اوراختیارنہیں   جواس کے حکمت پرمبنی فیصلوں   پرروک ٹوک کرسکے،وہ حکمت والاہے ،اس نے ہرچیزکواپنے اپنے مقام پررکھاہے ،اس نے جو چیزبھی مشروع فرمائی حکمت کے تحت مشروع کی،جوچیزبھی پیداکی وہ فائدے اورمنفعت کے لئے پیدافرمائی ہے۔

[1] البقرة۱۶۴

[2] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ السَّفَرِ بِالْمَصَاحِفِ إِلَى أَرْضِ العَدُوِّ۲۹۹۰،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ النَّهْیِ أَنْ یُسَافَرَ بِالْمُصْحَفِ إِلَى أَرْضِ الْكُفَّارِ إِذَا خِیفَ وُقُوعُهُ بِأَیْدِیهِمْ۴۸۳۹،سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی الْمُصْحَفِ یُسَافَرُ بِهِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ ۲۶۱۰، مسند احمد ۵۱۷۰، مسندالبزار۵۵۸۹، السنن الکبری للبیہقی ۱۸۲۳۹

[3] النبا۲۱تا۲۳

[4] البقرة۲

[5] النمل۱،۲

[6] لقمان۲،۳

[7] الحدید۹

[8] الطلاق۱۱

[9] النحل۵۳

[10] ابراہیم۱۵

[11] الانعام۱۰۴

[12] حم السجدة۴۶

[13] یونس۱۹

[14] الشوری۱۴

[15] الانعام۱۰۶

[16] الحشر۲۰

[17] السجدة۱۸

[18] الرعد۱۶

[19] فاطر۲۱

[20] الانعام۵۰

[21] فاطر۱۹

[22] الزمر۹

[23] الاعراف۱۸۶

[24] تفسیرابن کثیر۲۶۹؍۷

[25] صحیح بخاری تفسیرسورۂ الجاثیہ بَابُ وَمَا یُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۴۸۲۶ ،صحیح مسلم کتاب الالفاظ من الادب بَابُ النَّهْیِ عَنْ سَبِّ الدَّهْرِ۵۸۶۳،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَسُبُّ الدَّهْرَ ۵۲۷۴، مسنداحمد۷۲۴۵، المعجم الاوسط ۸۸۵۶، مستدرک حاکم ۱۴۵۲۶،السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۲۲،السنن الکبری للبیہقی ۶۴۹۳،شرح السنة للبغوی ۸۸۸۹

[26] صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ ۶۱۸۲،صحیح مسلم کتاب الالفاظ من الادب  بَابُ النَّهْیِ عَنْ سَبِّ الدَّهْرِ۵۸۶۶، مسنداحمد۹۱۳۷، مسندالبزار۸۸۹۳،المعجم الاوسط ۵۵۵۲،السنن الکبری  للبیہقی ۶۴۹۱،مسندابی یعلی ۶۰۶۶

[27] الدھر  ۱

[28] البقرة۲۸

[29] الروم۲۷

[30] الواقعة۴۷تا۵۰

[31] مریم۹۵

[32] التغابن ۹،۱۰

[33] الزمر۶۹

[34] القیامة ۱۳

[35] الکہف ۴۹

[36] تفسیرابن کثیر۲۷۱؍۷،التفسیر المنیر فی العقیدة والشریعة والمنهج۲۸۶؍۲۵،الأساس فی التفسیر۵۲۳۴؍۹

[37] الفتح۵

[38] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ ق بَابُ قَوْلِهِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِیدٍ ۴۸۵۰،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ مسند احمد ۸۱۶۴

[39] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکافر۷۴۳۸،صحیح ابن حبان ۴۶۴۲،شعب الایمان ۲۶۲،شرح السنة للبغوی ۴۳۲۸

[40] صحیح مسلم کتاب البر و الصلةبَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ ۶۶۸۰ ،سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الْكِبْرِ۴۰۹۰،شعب الایمان ۷۸۰۸،المعجم الاوسط ۴۶۹۵، مسندالبزار۸۲۷۱،مسنداحمد۹۳۵۹

Related Articles