بعثت نبوی کا ساتواں سال

مضامین سورۂ الطارق

اس سورت میں دومضامین بیان کیے گئے ہیں   ۔

xآسمان اوررات کوچمکنے والے ستارے کی قسم کھاکرفرمایاکہ اس عظیم الشان کائنات کی کوئی چیزایسی نہیں   ہے جوایک ہستی کی نگہبانی کے بغیراپنی جگہ قائم اورباقی رہ سکتی ہو ، اور پھر انسانوں   کواپنے وجودپر غور کرنے کی دعوت دی جو ابتدا میں   ایک حقیراوربدبودارپانی کی بوندتھا اوراللہ نے مختلف مراحل سے نکال کر اسے ایک تنومند،بے شمارصلاحیتوں   اور قابلیتوں   کاحامل انسان بنایا،جوخالق اس طرح انسان کی تخلیق کرسکتاہے وہ یقیناًاس کودوبارہ زندہ کرنے کی قدرت بھی رکھتاہے ،اوریہ دوبارہ زندگی اس لیے ہوگی تاکہ ہر انسان کویہ بتایاجاسکے کہ دنیامیں   اس کے اعمال پرایک پردہ ڈالاگیاتھااورآج ان اعمال کی جزاء اور بدلہ اس کو ملنے والا ہے اورجب اس کوسزاملے گی توانسان نہ اپنے بل بوتے پربچ سکے گااورنہ کوئی اس کی مددہی کرسکے گا۔

xقرآن مجیدکے برحق اورقول فیصل ہونے کاذکرہے،اس ضمن میں   چندحقائق بیان کئے گئے مثلاًآسمان سے بارش کا  برسنااورپھرزمین سے انواع اقسام کے درختوں   اور فصلوں   کا اگنا،جس طرح ان سب چیزوں   کو اللہ رب العالمین نے پیداکیاہے اسی طرح قرآن مجیداللہ کاکلام برحق ہے جودلوں   کوسیراب کرتاہے اوران دلوں   سے اعمال صالحہ کی جوپاکیزہ فصل اگتی ہے اوراس کابدلہ آخرت میں   ملے گا،کفارومشرکین ان حقائق کودیکھتے اورجانتے ہوئے بھی ایمان نہیں   لائیں   گے اورمسلمانوں   پرظلم وستم کرنے اور دعوت حق کوجھٹلانے کی نت نئی تدبیریں   کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ ان کی تمام سازشوں   کوناکام کرنے کی ایک ہی تدبیرکرے گااورپھرکفارکی سب چالیں   دھری کی دھری رہ جائیں   گی، اور ایک معین دن اللہ کی بارگاہ میں   اعمال کی جوابدہی کے لئے پیش ہوناہوگا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ ‎﴿١﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ ‎﴿٢﴾‏ النَّجْمُ الثَّاقِبُ ‎﴿٣﴾‏ إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَیْهَا حَافِظٌ ‎﴿٤﴾‏ فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ‎﴿٥﴾‏ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ ‎﴿٦﴾‏ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّهُ عَلَىٰ رَجْعِهِ لَقَادِرٌ ‎﴿٨﴾‏ یَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ ‎﴿٩﴾‏ فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ ‎﴿١٠﴾‏(الطارق)
’’قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی، تجھے معلوم بھی ہے کہ وہ رات کو نمودار ہونے والی چیز کیا ہے ؟ وہ روشن ستارہ ہے، کوئی ایسا نہیں جس پر نگہبان فرشتہ نہ ہو، انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے،بیشک وہ اسے پھیر لانے پر یقیناً قدرت رکھنے والا ہے، جس دن پوشیدہ باتوں کی جانچ پڑتال ہوگی ،تو نہ ہوگا اس کے پاس کچھ زور نہ مددگار۔‘‘

قسم ہے آسمان کی اوررات کونمودارہونے والے کی،اورتم کیاجانوکہ وہ رات کونمودارہونے والاکیاہے؟وہ رات کوآسمان میں   بے حدوحساب چمکتے ہوئے تارے اورسیارے  ہیں  ،جو اپنے وجودسے یہ شہادت دے رہے ہیں   کہ ایک قدرت کاملہ رکھنے والی ہستی نے انہیں   تخلیق کرکے روشن کردیا ہے اورپھر فضا میں   معلق ایک قانون گردش کے تحت اپنے مدارمیں   تیرتاہوا چھوڑدیاہے ،جیسے فرمایا:

وَهُوَالَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۳۳ [1]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا سب ایک ایک فلک میں   تیر رہے ہیں  ۔

لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [2]

ترجمہ:نہ سورج کے بس میں   یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے، سب ایک ایک فلک میں   تیر رہے ہیں  ۔

اوراس طرح ان کی حفاظت ونگہبانی کررہاہے کہ کوئی اس قانون سے سرتابی کرکے اپنے مدارسے باہر نہیں   نکل سکتا،اورانسان جواللہ کے بارے میں   بڑھ بڑھ کربولتاہے ذرااپنی ہستی کی طرف بھی غورکرلے کہ اسے کس طرح پیداکیاگیاہے،اللہ نے اسے باپ اورماں   کی ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں   کے اندرسے نکلنے والے مادہ تولید سے پیداکیاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ}  صُلْبِ الرَّجُلِ وَتَرَائِبِ الْمَرْأَةِ، أَصْفَرَ رَقِیقٍ لَا یَكُونُ الْوَلَدُ إِلَّا مِنْهُمَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے اس آیت کریمہ ’’جوپیٹھ اورسینے کے درمیان سے نکلتاہے۔‘‘ کی تفسیرمیں   روایت ہےپانی مردکی پشت سے نکلتاہے اورعورت کے سینے سے عورت کاپانی پیلے رنگ کااورپتلاہوتاہےاوربچہ دونوں   پانیوں   سے پیداہوتاہے۔[3]

پھروہی ماں   کے پیٹ میں   درجہ بدرجہ اسے نشوونما دیتا ہے، اللہ ہی رحم مادرمیں   اس کے جسم کی ساخت اوراس کی جسمانی صلاحیتوں   کاتناسب قائم کرتا ہے اورپھرایک وقت مقررہ پراسے ایک زندہ بچے کی شکل میں   ماں   کے پیٹ سے باہرنکال لاتاہے ،پھراسے ایک تنومندجسم اورعقل وشعورسے بہرہ ورکرتاہے ،اور پیدائش سے موت تک اس کو رزق پہنچاتا اورآفات سے مسلسل نگہبانی کرتا ہے،جیسے فرمایا:

لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللهِ۔۔۔۝۰۝۱۱ [4]

ترجمہ: ہر شخص کے آگے اورپیچھے اس کے مقررکیے ہوئے نگراں   لگے ہوئے ہیں   جواللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں  ۔

اب سوچو،وہ خالق جس نے تمہیں   پہلی مرتبہ وجود اور زندگی بخشی ہے کیاوہ تمہیں   دوبارہ پیدانہیں   کرسکتا؟جیسے فرمایا:

وَعُرِضُوْا عَلٰی رَبِّكَ صَفًّا۝۰ۭ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍؚ۝۰ۡبَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا۝۴۸ [5]

ترجمہ:اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کیے جائیں   گے، لو دیکھ لو، آگئے نا تم ہمارے پاس اسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا،تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں   کیا ہے۔

یقیناًاللہ وحدہ لاشریک تمہیں   دوبارہ پیداکرنے پربھی قددر ت رکھتاہے اوریہ اس پربہت ہی آسان ہے،جیسے فرمایا:

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ۔۔۔۝۰۝۲۷ۧ [6]

ترجمہ: وہی ہے جوتخلیق کی ابتداکرتاہے پھروہی اس کااعادہ کرے گااوریہ اس کے لئے آسان ترہے ۔

دنیاکے اندربہت سی چیزیں   پوشیدہ رہتی تھیں   اورلوگوں   کے سامنے عیاں   نہیں   ہوتی تھیں   ،مگرپچاس ہزارسال لمبے اس دن میں   ابراروں  کی نیکیاں   اورفاجروں   کافسق وفجورسب پوشیدہ اسرار ورموز کھل کر سامنے آجائیں   گے،اوران کی جانچ پڑتال ہوگی کہ کس شخص نے کونساعمل کس وجہ ،کس غرض ،کس نیت اور کس مقصدسے کیاتھا،اس نے جواعمال وآقوال دنیامیں   چھوڑے اس کے کیااچھے یابرے اثرات مرتب ہوئے ،فیصلہ سنایاجائے گا جس سے اچھائی یا برائی سب چہروں   کے صفحات پرآشکارہ ہو جائے گی ،جیسے فرمایا:

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ۔۔۔۝۰۝۱۰۶ [7]

ترجمہ:جبکہ کچھ لوگ سرخ روہوں   گے اور کچھ لوگوں   کامنہ کالاہوگا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یُنْصَبُ بِغَدْرَتِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  میں   نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کوفرماتے ہوئے سناآپ فرمایا ہرغدر (بدعہدی) کرنے والے کے سرین کے پاس جھنڈا گاڑدیاجائے گااوراعلان کردیاجائے گاکہ یہ فلاں   بن فلاں   کی غداری ہے۔[8]

اس روز اللہ کی بارگاہ میں  ہرشخص بے بس وبے کس ہوگاکسی میں   اتنی قوت نہ ہو گی کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے اورنہ ہی کوئی اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے گااورنہ ہی مددکرنے پر قادر ہوگا۔

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ ‎﴿١١﴾‏ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ ‎﴿١٢﴾‏ إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ ‎﴿١٣﴾‏ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ ‎﴿١٤﴾‏ إِنَّهُمْ یَكِیدُونَ كَیْدًا ‎﴿١٥﴾‏ وَأَكِیدُ كَیْدًا ‎﴿١٦﴾‏ فَمَهِّلِ الْكَافِرِینَ أَمْهِلْهُمْ رُوَیْدًا ‎﴿١٧﴾‏(الطارق)
’’بارش والے آسمان کی قسم ،اور پھٹنے والی زمین کی قسم، بیشک یہ (قرآن) البتہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے، یہ ہنسی کی (اور بےفائدہ) بات نہیں، البتہ کافر داؤ گھات میں ہیںاور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں تو کافروں کو مہلت دے انہیں تھوڑے دن چھوڑ دے۔‘‘

قسم ہے باربارموسم میں   اورکبھی خلاف موسم بارش برسانے والے آسمان کی ،اورچشمہ ونباتات اگتے وقت پھٹ جانے والی زمین کی ، جس طرح آسمان سے بارشوں   کابرسنا اور زمین کاشق ہوکرنباتات کواپنے اندرسے اگلنابے مقصد نہیں   ،بلاشبہ یہ قرآن حق ،صادق اورواضح ہے،یہ کوئی بے ہودہ کلام نہیں  ،بلکہ سنجیدہ کلام ہے،کفارومشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے لائے ہوئے دین کوناکام بنانے اورآباؤاجدادکے مشرکانہ دین کی سربلندی کے لئے طرح طرح کی چالیں   چل رہے ہیں  ،لوگوں   کواس دعوت سے متنفرکرنے کے لئے ان کے دلوں   میں   شک وشبہات کے بیج بو رہے ہیں   ،مسلمانوں   کوان کے دین سے پھیرنے کے لئے انسانیت سوزظلم وستم کررہے ہیں  ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جن کویہ سیرت و کردارکی بناپر صادق اورامین کہتے تھے،جس کی امانت ودیانت کے یہ خود گواہ تھے اس پرجھوٹے الزام تراش رہے ہیں  ،اللہ تعالیٰ ان کی چالوں   اورسازشوں   سے غافل نہیں   ہے ، حق کوغالب کرنے اوران کی تمام سازشوں   کوناکام کرنے کے لئے اللہ بھی ایک خفیہ تدبیر کر رہاہے ،اوراللہ کی تدبیر سے بہتر کس کی تدبیرہوسکتی ہے ،بالآخر یہ لوگ منہ کی کھائیں   گے اوروہ نور جسے یہ اپنی پھونکوں   سے بجھانے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگارہے ہیں   ہرسوپھیل کررہے گا ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  !ان کفارومشرکین کے لئے تعجیل عذاب کاسوال نہ کربلکہ انہیں   ذرا مہلت دے دو،اس دعوت کوروکنے کی جوکوششیں   یہ کرناچاہتے ہیں   کردیکھیں   ،آخرایک روزانہیں  محاسبے کے لئے اللہ کے حضور پیش ہوناہوگااور انہیں   اپنے انجام کاعلم ہو جائے گا ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۸۲ۚۖوَاُمْلِیْ لَهُمْ۝۰ۭۣ اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ ۝۱۸۳     [9]

ترجمہ:رہے وہ لوگ جنہوں   نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے ، تو انہیں   ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں   گے کہ انہیں   خبر تک نہ ہوگی ،میں   ان کو ڈھیل دے رہا ہوں   ، میری چال کا کوئی توڑ نہیں   ہے۔

خَالِدٍ الْعَدْوَانِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهُ أَبْصَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَشْرِقِ ثَقِیفٍ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى قَوْسٍ، أَوْ عَصًا حِینَ أَتَاهُمْ یَبْتَغِی عِنْدَهُمُ النَّصْرَ، قَالَ:فَسَمِعْتُهُ یَقْرَأُ: وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ حَتَّى خَتَمَهَا ، قَالَ: فَوَعَیْتُهَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ وَأَنَا مُشْرِكٌ، ثُمَّ قَرَأْتُهَا فِی الْإِسْلَامِ،

خالدبن ابوجبل عدوانی رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  میں   نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کو بازارثقیف میں   کمان یالاٹھی کے سہارے پرکھڑے دیکھا،آپ میرے پاس مددحاصل کرنے آئے تھے میں   نے وہاں   آپ سے سورہ الطارق سنی ،میں   نے اسے یادکرلیادراں   حالیکہ میں   ابھی مسلمان نہیں   ہواتھا پھراللہ نے مجھے اسلام سے نوازدیا اورمیں   نےاسلام کی حالت میں   اسے پڑھا۔[10]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: صَلَّى مُعَاذٌ الْمَغْرِبَ، فَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَالنِّسَاءَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَفَتَّانٌ یَا مُعَاذُ، مَا كَانَ یَكْفِیكَ أَنْ تَقْرَأَ بِالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا؟

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمعاذ رضی اللہ عنہ  نے ایک مرتبہ مغرب کی نمازمیں   سورۂ البقرہ اورنساء پڑھی ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کوخبرہوئی توفرمایا اے معاذ!تولوگوں   کو فتنے میں   ڈالتا ہے ؟اے معاذتولوگوں   کو فتنے میں   ڈالتا ہے ؟ تجھے یہی کافی تھاکہ سورہ الطارق اورسورہ الشمس   اوراس جیسی سورتیں   پڑھتا۔ [11]

[1] الانبیاء۳۳

[2] یٰسین۴۰

[3] تفسیرابن ابی حاتم۳۴۱۵؍۱۰

[4] الرعد۱۱

[5] الکہف۴۸

[6] الروم۲۷

[7] آل عمران۱۰۶

[8] صحیح بخاری کتاب الجزیة بَابُ إِثْمِ الغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالفَاجِرِ۳۱۸۸،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ تَحْرِیمِ الْغَدْرِ ۴۵۲۹،۴۵۳۲

[9]الاعراف ۱۸۲،۱۸۳

[10] مسند احمد ۱۸۹۵۸،مجمع الزوائد ۱۱۴۸۳

[11] السنن  الکبریٰ للنسائی ۱۱۶۰۰

Related Articles