بعثت نبوی کا ساتواں سال

مضامین سورۂ الزخرف

اہل مکہ اپنے مشرکانہ عقائدو نظریات کے سلسلہ میں   جودلائل پیش کرتے تھے اس سورۂ میں   ان کے ان جاہلانہ عقائدوادہام پرتنقید اورتوحیدکی عظمت کو اجاگر کیا گیاہے۔

xرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزہ روشن اورواضح کتاب  کی قسم کھاکرفرمایاکہ ہم نے اسے عربی قرآن بنایاہے تاکہ تم سمجھواوریہ لوح محفوظ میں   ہمارے پاس لکھی ہوئی اوربڑی فضیلت اورحکمت والی ہے ۔

xاللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے بارے میں   فرمایایہ بغیرستونوں   کے آسمان کی بلندنیلی چھت،یہ زمین کاہموارفرش،یہ بلندوبالاٹھوس پہاڑ،یہ پانی سے لبریز بہتی نہریں  ،یہ تاحدنظرپھیلے ہوئے سمندر،یہ آسمان سے قطرہ قطرہ برسنے والی بارش،یہ سطح آب پررواں   دواں   کشتیاں   اورجہازاوریہ ہرطرح کے چوپائے جن کاگوشت کھانے کے کام بھی آتاہے اوروہ نقل وحمل کے بہترین ذرائع بھی ثابت ہوتے ہیں  ،یہ سب اپنے خالق اورصانع کی قدرت اورحکمت کے زندہ گواہ ہیں  ،تم اللہ کی ان نعمتوں   سے فائدہ حاصل کرتے ہومگرپھربھی غیراللہ کو اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شریک کرنے پراصرارکیے جاتے ہو۔

xمشرکین کے پاس اپنے شرک کے حق میں   ایک دلیل یہ تھی کہ ہمارے آباؤاجداداسی دین پرکاربندتھےاس کے جواب میں   فرمایاکہ کسی مذیب ودین کی حقانیت کی بنیاد آباؤاجداد اوراسلاف کاتعامل نہیں  ،تمہارے سامنے ابراہیم علیہ السلام  کی مثال موجودہے جن کی اولادہونے پرہی تمہارے سارے فخروامتیازکامدارہے اورجن کے بارے میں   دعویٰ کرتے ہوکہ تم ان کی ملت اورشریعت کے پیروکار ہو کہ انہوں  نے توآباؤاجدادکی اندھی تقلید کے بجائے اپنی مشرک قوم اورآباؤاجدادکے مذہب کوببانگ دھل ٹھکرا دیاتھا کیونکہ اس میں   آسمانی تعلیم کی تائیدشامل نہ تھی،اس لیے تم بھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح آباؤاجدادکے اس خلاف فطرت اورخلاف شریعت دین کو خیر باد کہہ دواورحقیقی دین یعنی ملت ابراہیمی میں   داخل ہوجاؤ۔

xایک دلیل یہ پیش کی جاتی تھی کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کواللہ تعالیٰ کابیٹامان کران کی پوجاکرتے ہیں   حالانکہ وہ انجیل کے علمبرداراورامین ہیں  ،اس اشکال کے ازالے کے لیے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام یاان کے علاوہ کسی اورنبی نے کبھی نہ توشرک کیااورنہ ہی اپنے پیروکاروں   کوشرک کی تلقین کی ،ان کی تعلیم تووہی تھی جودنیاکے ہرنبی نے دی تھی کہ میرارب بھی اللہ ہے

اورتمہارارب بھی ،لہذاتم اسی کی عبادت کرو،اور میدان حشرمیں   جب عیسیٰ علیہ السلام سے اس شرک کی بابت سوال کیا جائے گا تو آپ اس سے برات کااعلان کردیں   گے۔[1]

اصل حقیقت یہ ہے کہ عیسائیوں   نے ازخودشرک کاآغازکیااس لیے ان کی گمراہی کوبطور دلیل پیش نہیں   کیاجاسکتا۔

xمشرکین کے عقائدونظریات کی نامعقولیت کے ذکرکے بعدفرمایاکہ اللہ تعالیٰ شریرلوگوں   کی شرانگیزی کی وجہ سے وحی کاسلسلہ منقطع نہیں   کیاکرتابلکہ جولوگ اس وحی کونہ مانیں   اور اس وحی کے امین نبی کی مخالفت پرکمربستہ ہوجائیں   ان کوہلاک کرکے اللہ کی زمین کوان کے شرسے پاک کردیاجاتاہے،صراحت کی گئی کہ یہ دعوائے توحیدکوجزوی طورپر تسلیم کرتے ہیں  یعنی زمین وآسمان،جن وانس اوراس عظیم الشان کائنات کے ہرذرے کاخالق اللہ تعالیٰ ہی کوسمجھتے ہیں   مگراس صحیح عقیدہ میں   شیطان مردودکے بہکاوے میں   آ کر شرک کی آمیزش کردیتے ہیں   اورپھرانانیت اورنفس پرستی کے باعث اسی غلط عقیدے پرجم جاتے ہیں  ،اس شرک میں   ان کے غلوکی انتہایہ ہے کہ وہ فرشتوں   کواللہ کی بیٹیاں   قراردے کران کے مجسمے تراشتے ہیں  اورزنانہ کپڑے اورزیورپہناکران کی پرستش میں   مشغول ہوجاتے ہیں   کیایہ وقت وہاں   موجودتھے جب اللہ نے فرشتوں   کو پیدا کیا تھا؟ اور انہیں   علم ہوگیاکہ فرشتے عورتیں   ہیں  ؟ حالانکہ یہ خودبیٹیوں   کواپنے لیے ننگ وعارسمجھتے ہیں   اورانہیں   زندہ درگورکردینے کی تدبیریں   سوچنے لگتے ہیں   مگراللہ کے لیے بیٹیاں   تجویز کرتے ہیں  ۔

xجب انہیں   اس کفروشرک پرٹوکاجاتاہے توتقدیرکوبہانہ بناکراپنے شرک کے لیے جوازپیداکرناشروع کردیتے ہیں   اوراس کی توجیہ یوں   کرتے ہیں   کہ اگر ہمارے اس عمل میں   اللہ تعالیٰ کی رضاشامل حال نہ ہوتی تووہ ہم کواس شرک کی مہلت ہی کیوں   دیتا؟حالانکہ اللہ کی پسندوناپسندمعلوم کرنے کایہ معیاراورکسوٹی نہیں   اورنہ ان کے آباؤاجداد کا پشت درپشت ان نظریات پرکاربندرہناکوئی دلیل ہے،اصل دلیل اورمعیارتووحی الٰہی ہے جس کے ذریعے ہم اللہ کی پسندوناپسندکی پہچان کرسکتے ہیں  ،باقی رہامعاملہ اللہ کی مشیت کاتوکیااس دنیامیں   جس قدرکام ہورہے ہیں   مثلاًزنا،قتل وغارت،چوری اورڈکیٹی وغیرہ یہ سب اللہ کی رضاکے تحت ہورہے ہیں  ؟کوئی بھی سلیم الفطرت انسان یہ بات قبول نہیں   کرسکتا۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت ونبوت کوتسلیم کرنے کے سلسلہ میں   کفارمکہ کویہ اعتراض تھاکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال و دولت،اقتدار اورظاہری شان وشوکت کابھی کوئی سامان نہیں   ہے،اگراللہ نے کسی کونبی بناناتھا توپھرطائف اورمکہ مکرمہ کے کسی بڑے آدمی کوبناناچاہیے تھااس کے جواب میں   فرمایاکہ موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے اقرار سے فرارکے لیے فرعون کی دلیل بھی ایسی ہی تھی کہ اگر اللہ نے میرے پاس کوئی ایلچی بھیجناتھاتواسے سونے کے کنگن پہناکراورفرشتوں   کاایک دستہ اس کی اردلی میں   دے کربھیجتا،فرمایا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت ورسالت دینے کے لیے انسان کے پاس ان مادی اسباب کا ہوناشرط نہیں   ہے۔

xاہل مکہ نے عیسائیوں   کے عمل سے جواستدلال کیااس کے جواب میں   فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولادنہیں   اورنہ اللہ کے ہاں   ایساکوئی سفارشی سفارش کرسکے گاجواللہ تعالیٰ کے عذاب اورسزاسے تم کوبچاسکے کیونکہ شفاعت کاحق اللہ تعالیٰ صرف صالحین اورنیک لوگوں   کودے گا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ‎﴿١﴾‏ وَالْكِتَابِ الْمُبِینِ ‎﴿٢﴾‏ إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٣﴾‏ وَإِنَّهُ فِی أُمِّ الْكِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیمٌ ‎﴿٤﴾‏(الزخرف)
’’حم،قسم ہے اس واضح کتاب کی،ہم نے اسکو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو ،یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے۔‘‘

حم،قسم ہے اس قرآن کریم کی جس کے الفاظ ومعنی اور مضامین واضح اورعام فہم ہیں  ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۱۷ [2]

ترجمہ:ہم نے اس قرآن کونصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنادیا ہےپھرکیاہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔

اسے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تصنیف نہیں   کیابلکہ ہم نے اسے دنیاکی فصیح وبلیغ ترین زبان عربی زبان میں   نازل کیا ہے،جیسے فرمایا

بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۝۱۹۵ۭ [3]

ترجمہ:صاف صاف عربی زبان میں  ۔

تاکہ تم لوگ اس کے الفاظ ومعنی کو آسانی سے جانچ،پرکھ اور سمجھ سکو اوراس سے نصیحت وعبرت حاصل کرو،درحقیقت یہ لوح محفوظ میں   ثبت ہے جو اللہ کے ہاں   بڑی بلند مرتبہ اورحکمت سے لبریزکتاب ہے ،قرآن مجیدکی رفعت و عظمت کوواضح کرنے کے لیے متعددمقامات پر فرمایا

فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ۝۷۵ۙوَاِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ۝۷۶ۙاِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ۝۷۷ۙفِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝۷۸ۙلَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۝۷۹ۭتَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۸۰ [4]

ترجمہ:پس نہیں   میں   قسم کھاتاہوں   تاروں   کے مواقع کی اوراگرتم سمجھوتویہ بہت بڑی قسم ہے کہ یہ ایک بلندپایہ قرآن ہے ،ایک محفوظ کتاب میں   ثبت ،جسے مطہرین کے سواکوئی چھونہیں   سکتایہ رب العالمین کانازل کردہ ہے۔

كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ۝۱۱ۚفَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ۝۱۲ۘفِیْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ۝۱۳ۙمَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍؚ۝۱۴ۙبِاَیْدِیْ سَفَرَةٍ۝۱۵ۙكِرَامٍؚبَرَرَةٍ۝۱۶ۭ  [5]

ترجمہ: ہرگز نہیں  ،یہ توایک نصیحت ہےجس کاجی چاہے اسے قبول کرے ،یہ ایسے صحیفوں   میں   درج ہے جو مکرم ہیں   ، بلند مرتبہ ہیں  ،پاکیزہ ہیں   معزز اور نیک کاتبوں   کے ہاتھوں   میں   رہتے ہیں   ۔

بَلْ هُوَقُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ۝۲۱ۙفِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۝۲۲ۧ [6]

ترجمہ: (ان کے جھٹلانے سے اس قرآن کاکچھ نہیں   بگڑتا )بلکہ یہ قرآن بلندپایہ ہے اس لوح میں   ( نقش ہے)جومحفوظ ہے۔

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙبِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۝۱۹۵ۭوَاِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ۝۱۹۶ [7]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیزہے،اسے لے کرتیرے دل پرامانت دارروح اتری ہے تاکہ توان لوگوں   میں   شامل ہوجو(اللہ کی طرف سے اس کی مخلوق کو)متنبہ کرنے والے ہیں  ،صاف صاف عربی زبان میں   اوراگلے لوگوں   کی کتابوں   میں   بھی یہ موجودہے ۔

أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِینَ ‎﴿٥﴾‏ وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِنْ نَبِیٍّ فِی الْأَوَّلِینَ ‎﴿٦﴾‏ وَمَا یَأْتِیهِمْ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٧﴾‏ فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَىٰ مَثَلُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٨﴾‏(الزخرف)
’’کیا ہم اس نصیحت کو تم سے اس بنا پر ہٹا لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو، اور ہم نے اگلے لوگوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجےجو نبی ان کے پاس آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا پس ہم نے ان سے زیادہ زورآوروں کو تباہ کر ڈالا اور اگلوں کی مثال گزر چکی ہے۔‘‘

کفرکاانجام بد:

اللہ نے اپنی رحمت سے صدیوں   سے سخت جہالت اورپستی میں   مبتلاقوم میں   اپنارسول مبعوث فرمایا،انہیں   زندگی گزارنے کاصحیح راستہ اختیارکرنے، حقیقت سے اگاہ کرنے ، غفلت سے بیدارکرنے ،جاہلانہ ادہام کے چکروں   سے نکالنے کے لئے خوداپناجلیل القدرکلام نازل فرمایامگرخودغرض قبائلی سرداراس پاکیزہ دعوت پر غوروفکر کرنے کے بجائے اپنے مفادات اورتعصبات کی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہاتھ دھوکرپڑگے،اس پاکیزہ دعوت کوروکنے اورناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ، وقت کے ساتھ ساتھ جن لوگوں   میں   حق قبول کرنے کی لگن وامنگ اورجستجوتھی لوگ دائرہ اسلام میں   داخل ہوتے چلے گئے ویسے ویسے ان کی عداوت اورشرارتیں   بڑھتی چلی گئیں  یہاں   تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کوقتل کردینے کی ٹھان لی گئی،ان حالات میں   اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیاہم تم لوگوں   سے تمہارے اعراض اورعدم اطاعت کی بناپرمنہ موڑکر انزال قرآن کا سلسلہ بندکرکے درس نصیحت روک دیں  ،حالاں  کہ یہ تواللہ کولطف وکرم ہے کہ وہ روگردانی کرنے والوں   کے انکاراورشیطان صفت لوگوں   کی شرارتوں   کے باوجود انہیں   نصیحت وموعطت کرنی نہیں   چھوڑتاتاکہ جوان میں   دعوت حق قبول کرنے والے ہیں   اس پرایمان لاکر راہ راست پرآجائیں   اورجومحض اپنے فخروغروراورتعصب کی بنا پر قبول نہیں   کرتے ان پر حجت قائم ہوجائے ،اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے بھی ہم نے ہربستی میں  نبی بھیجے ہیں   جواپنی اپنی قوموں   کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت واطاعت کا حکم دیتے تھے ، جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۝۵۱ [8]

ترجمہ:اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ، لہٰذا تم اسی کی بندگی اختیار کرویہی سیدھا راستہ ہے۔

وَاِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۝۳۶ [9]

ترجمہ:اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ، پس تم اس کی بندگی کرویہی سیدھی راہ ہے۔

مگر ہردورکے کفارومشرکین نے اپنے باطل معبودوں   کی محبت اوران کی خیالی طاقت وقدرت کے گھمنڈ میں   ان آسمانی تعلیمات کا مذاق اڑایاہومگراللہ تعالیٰ نے انسانوں   پر لطف وکرم کرتے ہوئے رسولوں   کومبعوث کرنااوران پرکتابیں   اورصحیفے نازل کرنے کاسلسلہ بندنہیں   کیا ،

عَنْ قَتَادَةَ، {أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِینَ}أَیْ مُشْرِكِینَ، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ رُفِعَ حِینَ رَدَّهُ أَوَائِلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهَلَكُوا فَدَعَاهُمْ إِلَیْهِ عِشْرِینَ سَنَةً، أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ

قتادہ رحمہ اللہ  اس آیت کریمہ’’کیاہم اس نصیحت کوتم سے اس بناپرہٹالیں   کہ تم حدسے گزرجانے والے لوگ ہو۔‘‘َکے بارے میں   قول ہےاللہ کی قسم !اگریہ قرآن اس وقت اٹھالیاجاتاجب اس امت کے ابتدائی لوگوں  نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا تووہ سب ہلاک ہوجاتے،مگراللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت وبھلائی کے ساتھ ان پررجوع فرمایا اور تکرار کے ساتھ بیس سال یاجتناعرصہ اس کی مرضی تھی انہیں   اس کی طرف دعوت دی۔ [10]

پھر جولوگ باطل پرستی کے نشے اورطاقت وقوت کے گھمنڈ میں   بد مست ہو کرانبیاء ومرسلین کاتمسخراڑانے سے بازنہ آئے توآخرکارایک وقت مقررہ پر انہیں   صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ،پھرجب ان پر اللہ کاقہروغضب ٹوٹ پڑاتواللہ نے ان لوگوں   کوجوتم سے تعداد ، طاقت،قوت اوروسائل واسباب میں   زیادہ تھے،جیسے فرمایا

۔۔۔كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِی الْاَرْضِ۔۔۔ ۝۸۲   [11]

ترجمہ:وہ اِن سے تعداد میں   زیادہ تھے ، اِن سے بڑھ کر طاقتور تھےاور زمین میں   اِن سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں   ۔

مچھروں   کی طرح مسل کرہمیشہ کے لئے نگاہ عبرت بنادیا،اللہ تعالیٰ کی یہ ہمیشہ سے سنت چلی آتی ہے کہ جوقوم اللہ کی دعوت کوتسلیم نہیں   کرتی پہلے اسے ایک خاص وقت تک مہلت دی جاتی ہے مگرجب وہ قوم اپنی سرکشی سے بازنہیں   آتی توپھرصفحہ ہستی سے مٹادی جاتی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔سُنَّتَ اللہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ۔۔۔۝۸۵ۧ [12]

ترجمہ:کیوں   کہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں   میں   جاری رہا ہے ۔

سُـنَّةَ اللہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللہِ تَبْدِیْلًا۝۲۳ [13]

ترجمہ:یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہےاور تم اللہ کی سنت میں   کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔

تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لیے پچھلی تباہ شدہ اقوام کے عبرت ناک واقعات ہم بیان کرچکے ہیں   ۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِیزُ الْعَلِیمُ ‎﴿٩﴾‏ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِیهَا سُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿١٠﴾ وَالَّذِی نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَیْتًا ۚ كَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ ‎﴿١١﴾ (الزخرف)‏
’’اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا (اللہ) ہی نے پیدا کیا ہے، وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش (بچھونا) بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے کردیئے تاکہ تم راہ پا لیا کرو، اسی نے آسمان سے ایک اندازے کے مطابق پانی نازل فرمایا، پس ہم نے اس مردہ شہر کو زندہ کردیا اسی طرح تم نکالے جاؤ گے۔‘‘

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ ان کفارومشرکین سے پوچھیں   کہ زمین اورآسمانوں   اوران کے درمیان جوکچھ ہے کس نے تخلیق کیاہے تووہ یقیناًیہی جواب دیں   گے کہ انہیں   غالب و دانااللہ مالک الملک نے ہی پیدافرمایاہے ،جس کے اقتداراور غلبہ کے سامنے اولین وآخرین تمام مخلوقات اپنے ظاہروباطن کے ساتھ سرنگوں   ہیں   لیکن اس کی وحدانیت کوتسلیم کرنے کے باوجودیہ لوگ اس کے بیشمارشریک ٹھہراتے ہیں  ،جونہ کچھ پیداکرسکتے ہیں  ،نہ رزق عطاکرسکتے ہیں  ،نہ نفع ونقصان کے مالک ہیں  اورنہ ہی زندگی وموت ان کے اختیارمیں   ہے ،جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [14]

ترجمہ:لوگوں   نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں   کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں  ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں   رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں   نہ جلا سکتے ہیں  ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں   ۔

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ قُلِ اللہُ۝۰ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاۗءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا۔۔۝۱۶ [15]

ترجمہ:اِن سے پوچھو آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہواللہ،پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں   کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں   رکھتے؟ ۔

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۔۔۔۝۷۶ [16]

ترجمہ:اِن سے کہو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا ؟ ۔

اسی اللہ قادرمطلق نے تمہارے لئے اس زمین کوجوایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے اپنے محورپرگھوم رہی ہے،جو۶۶۶۰۰میل فی گھنٹہ کی رفتارسے رواں   دواں   ہے ،مگراس کے باوجود اسے پرسکون گہوارہ کی طرح بنادیا،اورانسانوں   کی نقل وحمل کے لیے پہاڑی سلسلوں   کے درمیان میں   درے اورکوہستانی اورمیدانی علاقوں   میں   دریاؤں   کے قدرتی راستے بنادیے اورروئے زمین میں   قسم قسم کے امتیازی نشانات قائم کردیے تاکہ تم ان قدرتی راستوں   اورنشانات کی مددسے کاروباری ،تجارتی اور دیگر مقاصدکے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچ سکو،جیسے فرمایا

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِیْہَا سُـبُلًا ۔۔۔۝۵۳ [17]

ترجمہ:وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں   تمہارے چلنے کو راستے بنائے۔

وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ۝۰۠ وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَـاجًا سُـبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ۝۳۱ [18]

ترجمہ:اور ہم نے زمین میں   پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں   لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں   کشادہ راہیں   بنا دیں  شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں   ۔

وَاللہُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۝۱۹ۙلِّتَسْلُكُوْا مِنْہَا سُـبُلًا فِجَاجًا۝۲۰ۧ [19]

ترجمہ:اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیاتاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں   میں   چلو۔

اسی اللہ رزاق متین نے اپنی قدرت وحکمت سے ہرعلاقے کے لیے بارش کی ایک خاص مقدارمقررفرمائی ،جیسے فرمایا

وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُہٗ۝۰ۡوَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۝۲۱ [20]

ترجمہ:کوئی چیز ایسی نہیں   جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں  ، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں   ایک مقرر مقدار میں   نازل کرتے ہیں   ۔

جس کے ذریعے سے وہ مردہ زمین کوجلااٹھاتاہے،یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اسی طرح ایک روزاللہ تم بھی اپنی قبروں   سے اسی جسم وجان کے ساتھ دوبارہ زندہ کرے گااورتمہارے اعمال کی جزادے گا،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۵۷ [21]

ترجمہ: اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں   کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں   تو انہیں   کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں   مینہ برسا کر( اسی مری ہوئی زمین سے )طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے، دیکھو، اس طرح ہم مردوں   کو حالت موت سے نکالتے ہیں   شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو ۔

وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ ‎﴿١٢﴾‏ لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِینَ ‎﴿١٣﴾‏ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ‎﴿١٤﴾‏(الزخرف)
’’جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے اور تمہارے لیے کشتیاں بنائیں اور چوپائے جانور (پیدا کیے) جن پر تم سوار ہوتے ہو، تاکہ تم ان کی پیٹھ پر جم کر سوار ہوا کرو پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے اس کی جس نے ہمارے بس میں کردیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی، اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘

وہی توتمہارارب ہے جس نے اپنی قدرت کاملہ سے انسانوں  ،حیوانات ،پرندوں  ،نباتات ،کھیتیاں  ،پھل پھول الغرض ہرچیزکے جوڑے بنائے،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ۔۔۔۝۳ [22]

ترجمہ: اسی نے ہر طرح کے پھلوں   کے جوڑے پیدا کیے ہیں  ۔

وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹ [23]

ترجمہ: اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں   شاید کہ تم اس سے سبق لو ۔

اورجس نے تمہارے لئے کشتیوں   اورجانوروں   کوسواری بنایاتاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو اور جب ان پر بیٹھو تو اپنے پروردگارکااحسان یادکروجس نے ان جانوروں   کوتمہارے کام پرلگادیا،اورجب ان پرسواری کروتوکہوکہ پاک ہے وہ جس نے ہمارے لئے ان چیزوں   کوتابع کردیاورنہ ہم انہیں   قابومیں   لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے،اورایک روزیقیناًہمیں   اپنے رب کی طرف پلٹناہے،

أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ عَلَّمَهُمْ؛ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بَعِیرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ، كَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِینَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِی سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللهُمَّ هَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ، وَالْخَلِیفَةُ فِی الْأَهْلِ، اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَهْلِ، وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِیهِنَّ:آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب بھی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر کسی سفر کے لئے نکلتےتو تین مرتبہ اللہ اکبرکہتے پھر فرماتے پاک ہے وہ ذات کہ جس نے ہمارے لئے اسے مسخر فرما دیا اور ہم اسے مسخر کرنے والے نہ تھے اور ہم اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں  ،پھریہ دعامانگتےاےاللہ! میں   تجھ سے اپنے اس سفرمیں   نیکی اورپرہیزگاری کاطالب ہوں   اوران اعمال کا جن سے توخوش ہوجائے،اے اللہ! ہم پر ہمارا سفر آسان کردے اورہمارے لیے دوری کو لپیٹ لے، اے میرے پروردگار!توہی سفرکاساتھی اوراہل وعیال کا نگہبان ہے،اے میرے معبود! ہمارے سفرمیں   ہمارا ساتھ دے اور ہمارے گھروں   میں   ہماری جانشینی فرما،اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سفر سے واپس آتے تو یہی دعا پڑھتے اور ان میں   ان کلمات کا اضافہ فرماتے  توبہ کرنے والے ہیں   عبادت کرنے والے ہیں   اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں   ۔[24]

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِینٌ ‎﴿١٥﴾‏ أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُمْ بِالْبَنِینَ ‎﴿١٦﴾‏ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِیمٌ ‎﴿١٧﴾‏ أَوَمَنْ یُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَةِ وَهُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِینٍ ‎﴿١٨﴾‏ وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِینَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَٰنِ إِنَاثًا ۚ أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَیُسْأَلُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ ۗ مَا لَهُمْ بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا یَخْرُصُونَ ‎﴿٢٠﴾‏(الزخرف)
’’اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو جز ٹھہرا دیا یقیناً انسان کھلا ناشکرا ہے، کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں تو خود رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا،  (حالانکہ) ان میں سے کسی کو جب اس چیز کی خبر دی جائے جس کی مثال اس نے (اللہ) رحمٰن کے لیے بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غم گین ہوجاتا ہے، کیا (اللہ کی اولاد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کرسکیں ؟ اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا، کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے ؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی ، اور کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے، انہیں اس کی کچھ خبر نہیں، یہ صرف اٹکل پچو (جھوٹ باتیں) کہتے ہیں۔‘‘

مشرکین کابدترین فعل :

اللہ نے جب آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام ارواح کونکال کران سے وعدہ لیاتھا کیامیں   تمہارارب نہیں   ہوں  ؟ توسب ارواح نے تسلیم کیاتھاکہ بیشک آپ ہمارے رب ہیں   ۔مگریہ سب کچھ جاننے کے باوجودیہودیوں   نے(نعوذباللہ) عزیر علیہ السلام  کواللہ کابیٹامان کراللہ کاجزوبنادیا ،عیسائیوں   نے مسیح علیہ السلام  کو اللہ کا بیٹامان کراللہ کاجزوبنادیا،جیسے فرمایا

وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ۝۳۰ [25]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں   کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں   کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔

اوران کی والدہ مریم کو اس کی بیوی تسلیم کرکے اللہ کاجزوبنالیا،کفار فرشتوں   کواس کی بیٹیاں  سمجھ کران کی عبادت کرتے ہیں   اس طرح انہوں   نے بھی فرشتوں   کواللہ کا جزوبنالیا،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى۝۲۷ [26]

ترجمہ:مگر جو لوگ آخرت کو نہیں   مانتے وہ فرشتوں   کو دیویوں   کے ناموں   سے موسوم کرتے ہیں  ۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶ۙ [27]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں   کہ رحمن اولاد رکھتا ہے سبحان اللہ!وہ (یعنی فرشتے )تو بندے ہیں   جنہیں   عزت دی گئی ہے۔

حالاں   کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور تمام مخلوق اس کے بندے ہیں   اوربندگی اولادہونے کے منافی ہے ،اورمشرکین نے اللہ کے بندوں   کوان صفات اوراختیارات کاحامل قراردے رکھا ہے جواللہ کے ساتھ مخصوص ہیں  اوراسی تصورکے ساتھ ان سے دعائیں   مانگی جاتی اوران کی درگاہوں   پرمراسم عبودیت اداکی جاتی ہیں   ، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑاہی ناشکرا ہے،مشرکین مکہ کاجاہلانہ خیال تھاکہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں   ہیں  اس لئے وہ لوگ فرشتوں   کے عورتوں   جیسے بت بناکراوران کوعورتوں   جیسے کپڑے اورزیورات پہناکران کی پرستش کرتے تھے،اللہ تعالیٰ نے فرمایااگر خودان کے گھرمیں   لڑکی کی پیدائش کی خوش خبری دی جاتی ہے توان کی کراہت کایہ حال ہوتاہے کہ سخت ناپسندیدگی اورناراضی کے باعث ان کا چہرہ سیاہ پڑجاتاہے اوران کادل غم وحزن سے بھرجاتاہے، اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے جلد از جلد زندہ ہی کہیں   گاڑ دیں  ،اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اگراللہ کی اولادہوتی توکیاایساہوتاکہ خودتواپنے لیے لڑکیاں   پسندکرتاجونرم ونازک ہوتی ہیں   اورحسن وجمال میں   کمی کی وجہ سے بناؤ سنگھار کے ذریعہ خوبصورتی پیداکرنے کی کوشش کرتی ہے اوراگرکسی سے بحث وتکرارہوتووہ فطری حجاب کی وجہ سے اپنامافی الضمیربھی صحیح طریقے سے واضح نہیں   کر سکتی اورتمہیں   وہ قابل فخر لڑکوں   سے نوازتا،پھریہ توبڑی بے ڈھنگی تقسیم ہے،جیسے فرمایا:

اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى۝۲۱تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى۝۲۲ [28]

ترجمہ: کیا بیٹے تمہارے لیے ہیں   اوربیٹیاں   اللہ کے لیے؟یہ تو بڑی ہی بےڈھنگی تقسیم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی تردیدکرتے ہوئے فرمایاان لوگوں   نے فرشتوں   کوجومذکراورمونث سے مبرا ہیں  عورتیں   قراردے لیاجب ہم فرشتوں   کی تخلیق فرمارہے تھے کیایہ اس وقت وہاں   موجودتھے اورانہوں   نے ان کے جسم کی ساخت دیکھی تھی ،اپنے قول کے ضمن میں   ان کے پاس کوئی علم،دلیل وبرہان نہیں   بلکہ محض اپنی خواہشات ،آباؤاجدادکی اندھی تقلیداوراندھی جاہلیت میں   ٹامک ٹوئیاں   ماررہے ہیں  ،اورروزمحشران سے فرشتوں   کے اللہ کی بیٹیاں  ہونے کے بارے میں   جوابدہی کرنی ہوگی اورانہیں  مخلوق کواللہ کا جزوبنانے کے جرم عظیم پربدترین سزادی جائے گی، مشرکین ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کواپنی گمراہی کی دلیل بناتے چلے آئے ہیں   اسی طرح اہل مکہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے تھے ،وہ بھی فرشتوں   کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کودلیل بناتے تھے اورکہتے تھے چونکہ اللہ کی مشیت کے بغیردنیامیں   کوئی کام نہیں   ہوتااس لئے ہمارافرشتوں   کی عبادت کرنااسی لئے توممکن ہواکہ اللہ نے ہمیں   یہ کام کرنے دیااگروہ نہ چاہتاکہ ہم ان کی عبادت کریں   توہم کیسے کرسکتے ہیں  اس کے معنی یہ ہیں   کہ اللہ کوہمارایہ کام ناپسندنہیں   ہے،حالانکہ اللہ کے مشیت اس کی رضاسے مختلف چیزہے ،ہرکام یقیناًاس کی مشیت ہی سے ہوتاہے لیکن راضی وہ انہی کاموں   سے ہوتاہے جن کااس نے حکم فرمایا ہے،اہل مکہ معظمہ کااپنی گمراہی پر تقدیرسے یہ استدلال محض ان کے دل کی تسلی تھی ورنہ اللہ تعالیٰ نے ہرامت میں   رسول بھیج کرطاغوت کی پرستش سے منع فرمایا ہے ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ  ۔۔۔۝۳۶ [29]

ترجمہ:ہم نے ہرامت میں   ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردارکردیاکہ اللہ کی بندگی کرواورطاغوت کی بندگی سے بچو،اس کے بعدان میں   سے کسی کواللہ نے ہدایت بخشی اورکسی پرضلالت مسلط ہوگئی۔

اسی طرح یہ تیرتکے چلاکرخودکوحق بجانب قراردیتے ہیں  ۔

أَمْ آتَیْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ ‎﴿٢١﴾‏ بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِی قَرْیَةٍ مِنْ نَذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ ۞ قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَیْهِ آبَاءَكُمْ ۖ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۖ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٢٥﴾(الزخرف)
’’کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی (اور) کتاب دی ہے جسے یہ مضبوط تھامے ہوئے ہیں،(نہیں نہیں) بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک مذہب پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل کر راہ یافتہ ہیں، اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راہ پر اور) ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں،(نبی نے) کہا بھی کہ اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر (مقصود تک پہنچانے والا) طریقہ لے کر آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے منکر ہیں جسے دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے، پس ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لے جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا ؟۔‘‘

اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَیَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ یُشْرِكُوْنَ۝۳۵ [30]

ترجمہ:کیاہم نے کوئی سنداوردلیل ان پرنازل کی ہے جوشہادت دیتی ہواس شرک کی صداقت پرجویہ کررہے ہیں   ؟ ۔

یعنی ان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں   ہے،ان کے پاس طاغوت کی بندگی کی صرف ایک سندہے کہ ہم نے اپنے آباؤاجدادکوایک دین اورملت پرپایاہے اس لئے ہم آنکھیں   بندکرکے انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں   ،جیسے فرمایا

وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا۔۔۔۝۲۱ [31]

ترجمہ:اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں   کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں   گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔

چنانچہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  جودعوت پیش کررہے ہم اس پرایمان نہیں   لائیں   گے ، اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں   کایہ رویہ کوئی انوکھی بات نہیں   ہے اورنہ یہ پہلے لوگ ہیں   جنہوں   نے یہ بات کہی ہو،اللہ تعالیٰ نے جس بستی میں   بھی اپنارسول بھیجاوہاں   کے آسودہ حال لوگوں   نے جن کودنیاکے مال واسباب اورجاہ ومنصب نے سرکش اور مغروربنادیاتھااپنے مفادات کی حفاظت ، اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے اوراکل حرام اورفعل حرام کی آزادی کے لئے حق کی مخالفت میں   پیش پیش اورقائم شدہ جاہلیت کوبرقرار رکھنے کی کوشش میں   سرگرم رہے ، انہوں   نے بھی ہمیشہ یہی کہاکہ ہم نے اپنے آباؤاجدادکوایک دین اورملت پرپایاہے اورہم انہی کے نقش قدم کی تقلید کررہے ہیں   ، ہرنبی نے ان کونصیحت کی کہ کیا تم اپنے آباؤاجدادکی طرح اسی طرح گھپ اندھیروں   میں   ٹھوکریں   کھاتے رہوگے خواہ میں   تمہیں   گمراہی کے اس راستے کے بجائے راہ راست کی طرف رہنمائی کروں   ، مگر مشرکین نے اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں  سارے رسولوں   کویہی جواب دیاکہ جس دین کی طرف بلانے کے لئے تم بھیجے گئے ہوہم اس پرایمان نہیں   لاتے ہیں  ، آخرکار ہم نے ان اڑیل ٹٹوؤں   کے حق کی تکذیب کرنے اوراس کوٹھکرانے کاہم نے انتقام لیااورمختلف صورتوں   سے انہیں   تہ وبالاکردیاتودیکھ لودعوت حق کوجھٹلانے والوں   کا کیسا انجام ہو؟اس لئے ان لوگوں   کو اپنی تکذیب پرجمے رہنے سے بچناچاہیے کہیں   ایسانہ ہوکہ ان پربھی وہی عذاب نازل ہوجائے جوان پرنازل ہواتھا۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ لِأَبِیهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِی بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ إِلَّا الَّذِی فَطَرَنِی فَإِنَّهُ سَیَهْدِینِ ‎﴿٢٧﴾‏ وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِیَةً فِی عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ بَلْ مَتَّعْتُ هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُولٌ مُبِینٌ ‎﴿٢٩﴾‏ وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ ‎﴿٣٠﴾‏(الزخرف)
’’اور جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو، بجز اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے ہدایت بھی کرے گا، اور (ابراہیم (علیہ السلام)) اسی کو اپنی اولاد میں بھی باقی رہنے والی بات قائم کرگئے تاکہ لوگ (شرک سے) باز آتے رہیں، بلکہ میں نے ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادوں کو سامان (اور اسباب) دیا، یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف صاف سنانے والا رسول آگیا ، اور حق کے پہنچتے ہی یہ بول پڑے کہ یہ جادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں۔‘‘

اہل کتاب یہودونصاریٰ اور قریش مکہ خودکودین ابراہیمی سے منسوب سمجھتے تھے ،ان میں   سے ہرایک اس زعم میں   مبتلاتھاکہ وہ ابراہیم علیہ السلام  کے طریقے پرچل رہاہے ،اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام  کی سنت ان کے سامنے رکھی کہ اگرتم خودکو ابراہیم علیہ السلام کاپیروکارسمجھتے ہوتوانہوں   نے حق وباطل کی تمیزکیے بغیرآنکھیں   بندکرکے اپنے آباؤاجدادکی تقلیدنہیں   کی تھی بلکہ کھلے لفظوں   میں   اپنے والداوراپنی قوم کے خودساختہ معبودوں   سے برات کااعلان کرتے ہوئے کہاتھاکہ تم جن باطل معبودوں   کی بندگی کرتے ہومیراان سے کوئی تعلق نہیں   ، جیسےفرمایا

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَـنَةٌ فِیْٓ اِبْرٰهِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَحْدَهٗٓ۔۔۔ ۝۴ [32]

ترجمہ:بے شک تمہارے لیے ابراہیم میں   اچھا نمونہ ہے اور ان لوگوں   میں   جو اس کے ہمراہ تھے جب کہ انہوں   نے اپنی قوم سے کہا تھا بیشک ہم تم سے بیزار ہیں   اور ان سے جنہیں   تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ہم نے تمہارا انکار کر دیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور بیَر ہمیشہ کے لیے ظاہر ہو گیا یہاں   تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لاؤ ۔

ہاں   میں  اس اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کروں   گا جس نے مجھے پیدا کیا جو مجھے رزق عطا فرماتا ہے ، جس نے مجھے اپنے دین کی سمجھ عطافرمائی اوراس پر میری صحیح راہ نمائی بھی فرمائے گااوراس کلمہ اخلاص لاالٰہ الااللہ کو ابراہیم علیہ السلام  اپنی اولادمیں   وصیت کرگئےتاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں  ۔

وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْهِ وَیَعْقُوْبُ۰ۭ یٰبَنِىَّ اِنَّ اللهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ [33]۝۱۳۲ۭ

ترجمہ:اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب (علیہ السلام) اپنی اولاد کو کر گیا اس نے کہا تھا کہ میرے بچو، اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک تم مسلم ہی رہنا۔

چنانچہ جرات حق گوئی اورجوش توحیدکایہ بدلہ دیاکہ یہ کلمہ ہمیشہ ابراہیم علیہ السلام کی اولادمیں   موجود رہا یہاں   تک کہ خوشحالی اورسرکشی ان پرغالب آگئی ،لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کواوران کے آباؤاجداد کومٹانہیں   دیابلکہ انہیں  مختلف انواع کی شہوات سے متمتع ہونے دیایہاں   تک کہ یہی شہوات ان کامطمع نظراوران کامقصدحیات بن گئیں  ،پھراللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے پاس رسول بھیجا جوحق کوکھول کھول کربیان کرتاہے،لیکن جب دین حق ان کے پاس پہنچ گیاتاکہ لوگ اس پرایمان لائیں   اور اطاعت کریں   ، مگر افترا پرداز لوگوں   نے سامان زیست کی فراوانی پر مغرور ہو کر سرکشی کی اور دعوت حق کو جھٹلایااور تعصب اور بغض وعنادکی بناپراللہ تعالیٰ کے منزل کلام کے بارے میں  کہنے لگے یہ توکھلا جادو ہے اورہم اس پرایمان نہیں   لاتے،جیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَتْہُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۳ۚ [34]

ترجمہ:مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں   ان لوگوں   کے سامنے آئیں   تو انہوں   نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔

۔۔۔وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ۝۰ۙ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۴۳  [35]

ترجمہ:ان کافروں   کے سامنے جب حق آیا تو انہیں   نے کہہ دیا کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ۝۰ۙ ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۷ۭ [36]

ترجمہ:ان لوگوں   کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں   اور حق ان کے سامنے آ جاتا ہے تو یہ کافر لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں   کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔

‏ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ ‎﴿٣١﴾‏(الزخرف)
اور کہنے لگے یہ قرآن ان دونوں   بستیوں   میں   کسی بڑے آدمی پر کیوں   نازل نہیں   کیا گیا۔

سرمایہ پرستی ۔ایک قدیم مرض :

پہلی قوموں   کی طرح اہل مکہ بھی یہ ماننے کوتیارنہیں   تھے کہ کوئی بشربھی رسول ہوسکتاہے ،مگرجب قرآن نے پے درپے دلائل دے کران کے خیالات کاپوری طرح ردکردیاکہ دنیامیں   انسانوں   کے پاس ہمیشہ بشرہی رسول آتے رہے ہیں  ،جیسے فرمایا

 وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۴۳ۙ [37]

ترجمہ:اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں   آدمی ہی بھیجے ہیں   جب کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیاکرتے تھے،اہل ذکرسے پوچھ لواگرتم خودنہیں   جانتے۔

اورانسانوں   کے لئے انسان ہی رسول ہوسکتاہے نہ کہ غیربشر،جیسے فرمایا

قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۝۹۵ [38]

ترجمہ:ان سے کہو اگر زمین میں   فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کوان کے لیے پیغمبر بنا کربھیجتے۔

اور جورسول بھی دنیامیں   مبعوث ہوئے وہ یکایک آسمانوں   سے نہیں   اترآئے تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں   ہی میں   پیداہوئے تھے،انہی لوگوں   میں   پرورش پائی تھی ،اورلوگ ان کی سیرت وکردارسے خوب واقف تھے،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى۔۔۔۝۰۝۱۰۹ [39]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں   کے رہنے والوں   میں   سے تھے ، اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں  ۔

انہی کی زبان بولتے تھے ،اپنی ضروریات کے لیےبازاروں   میں   چلتے پھرتے اوراللہ کاپاکیزہ رزق کھاتے پیتے تھے ، جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔۝۰۝۲۰ۧ  [40]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے جورسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ بھی کھاناکھانے والے اوربازاروں   میں   چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۷وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ۝۸ [41]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں   ہی کورسول بناکربھیجاتھاجن پر ہم وحی کیاکرتے تھے ،تم لوگ اگرعلم نہیں   رکھتے تواہل کتاب سے پوچھ لو،ان رسولوں   کوہم نے کوئی ایساجسم نہیں   دیاتھاکہ وہ کھاتے نہ ہوں   اورنہ وہ سداجینے والے تھے۔

اوروہ بھی بال بچوں   والے تھے۔

 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّةً  ۔۔۔۝۳۸ [42]

ترجمہ: تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں   اور ان کو ہم نے بیوی بچوں   والا ہی بنایا تھا۔

تواہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تحقیروتنقیص اور اللہ تعالیٰ پراعتراض کرتے ہوئے کہاکہ اچھابشررسول ہی سہی مگراگراللہ نے کوئی نبی بھیجناہی تھایاکوئی کتاب نازل کرنی ہی تھی تووہ دونوں   بستیوں  (مکہ معظمہ وطائف) میں   سے کسی ایسی شخصیت پرنازل ہوتاجو عظیم جاہ ومنصب کاحامل،کثیرالمال اوراپنی قوم میں   ماناہوا بڑاآدمی ہوناچاہیے تھا، جیسے مکہ معظمہ میں   ولیدبن مغیرہ اورعتبہ بن ربیعہ جیسے نامی گرامی سردار اور طائف میں   عروہ بن مسعودثقفی،عمیربن عمرو،حبیب بن عمرو،کنانہ بن عمرواورابن عبدیالیل جیسے رئیس اورجاگیردار موجودہیں  ،جن کونظراندازکرکے اللہ تعالیٰ کونبوت جیسی سعادت کے لئے محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہی ملے جن کادامن دولت دنیاسے بھی خالی ہے اوراپنی قوم میں   قیادت وسیادت کے منصب پربھی فائزنہیں   ہیں  ،بالکل اسی طرح جب بنی اسرائیل کی فرمائش پراللہ تعالیٰ نے طالوت علیہ السلام  کو بادشاہ بناکر بھیجا تو انہوں   نے یہی اعتراض کیا تھا کہ وہ کمزوراورغریب آدمی ہے اور بادشاہت کے ہم زیادہ لائق ہیں  ،جیسے فرمایا:

وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ۔۔۔۝۰[43]

ترجمہ:ان کے نبی نے ان سے کہاکہ اللہ نے طالوت کوتمہارے لیے بادشاہ مقررکیاہے ،یہ سن کروہ بولے ہم پربادشاہ بننے کاوہ کیسے حقدارہوگیا؟اس کے مقابلے میں   بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں   ،وہ توکوئی بڑاامالدارآدمی نہیں   ہے۔

أَهُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَعِیشَتَهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ ‎﴿٣٢﴾(الزخرف)
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں   ؟ ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں   تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کرلے ،جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں   اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کاجواب دیتے ہوئے فرمایاکیاوہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانچی ہیں   اوران کے ہاتھ میں   اس کی رحمت کی تدبیرہے کہ جس کوچاہیں   نبوت اور رسالت عطاکردیں   اورجس کوچاہیں   اس سے محروم کردیں  ،جب بندوں   کی معیشت اوران کادنیاوی رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں   ہے وہی اسے اپنے بندوں   کے درمیان تقسیم کرتاہے ،اوراسی نے اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان میں   سے کچھ لوگوں   کوکچھ دوسرے لوگوں   پرمال ودولت ،جاہ ومنصب ،عقل وفہم قوت وطاقت میں   بدرجہافوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں   ،اگراللہ دنیامیں  سب لوگوں   کوبرابرکردیتا توکوئی کسی کاکام نہ کرتا، تواس کی رحمت دینی جس میں   سب سے اعلیٰ وافضل چیزنبوت اور رسالت ہے اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں   ہو،پس اللہ تعالیٰ زیادہ جانتاہے کہ وہ اپنی رسالت سے کیسے سرفراز فرمائے،جیسے فرمایا

۔۔۔ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ۔۔۔ ۝۵۴ [44]

ترجمہ:یہ اللہ کافضل ہے جس کو چاہتاہے دے دیتاہے ۔

اورتیرے رب کی رحمت(یعنی نبوت) اس دنیاوی دولت سے کہیں   زیادہ قیمتی ہے جوان کے رئیس سمیٹ رہے ہیں  ،جیسےفرمایا

قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا۝۰ۭ ھُوَخَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۵۸ [45]

ترجمہ :اے نبی! کہوکہ یہ اللہ کافضل اوراس کی مہربانی ہے کہ یہ چیزاس نے بھیجی ہے ،اس پرتولوگوں   کوخوشی منانی چاہیے ،یہ ان سب چیزوں   سے بہترہے جنہیں   لوگ سمیٹ رہے ہیں  ۔

‏ وَلَوْلَا أَنْ یَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ یَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُیُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ وَلِبُیُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِئُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ وَزُخْرُفًا ۚ وَإِنْ كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿٣٥﴾(الزخرف)
’’اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہوجائیں گے تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنا دیتےاور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے، اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا لگا کر بیٹھتے ،اور سونے کے بھی، اور یہ سب کچھ یونہی سا دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیزگاروں کے لیے (ہی) ہے ۔‘‘

تم لوگ ان لوگوں   کوبڑی عزت واہمیت دیتے ہوجن کے پاس مال ودولت اورجاہ ومنصب ہو چاہے ان کاکردارکیساہی ہو،مگراللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیاکے مال ودولت اورجاہ ومنصب کی کوئی حیثیت نہیں  ہے ،

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كَانَتِ الدُّنْیَا( تَزِنُ) تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ

سہل بن سعیدسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااگردنیااللہ تعالیٰ کے ہاں   ایک مچھرکے برابربھی وزنی ہوتی تووہ اس سے کبھی کسی کافرکوپانی کاایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔[46]

قوسین والالفظ سنن ابن ماجہ میں   ہے۔

اگرتمام انسانوں   کا دنیاکی محبت کے باعث کفراختیارکرنے کا اندیشہ نہ ہوتاتوہم کفرکرنے والوں   کے گھروں   کی چھتیں   اوران کی سیڑھیاں   جن سے وہ اپنے بالا خانوں   پرچڑھتے ہیں  ، ان کے دروازے اوران کے تخت جن پروہ تکیے لگاکربیٹھتے ہیں  سب چاندی اورسونے کے بنادیتےمگربندوں   پراللہ تعالیٰ کی بے پایاں   رحمت نے ایساکرنے سے روک دیا،لوگو!یہ سوناچاندی ،مال ودولت،جاہ ومنصب تومحض دنیاکی زندگی کی عارضی چیزیں   ہیں   ،یہ کسی انسان کی شرافت اورنفس کی پاکیزگی کی نشانی نہیں   ہیں  ،جیسے فرمایا

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝۱۴ [47]

ترجمہ:لوگوں   کے لیے مرغوبات نفس عورتیں  ، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے ، مویشی اور زرعی زمینیں   بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں   مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں   حقیقت میں   جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِذِی الْحُلَیْفَةِ، فَإِذَا هُوَ بِشَاةٍ مَیِّتَةٍ شَائِلَةٍ بِرِجْلِهَا، فَقَالَ:أَتُرَوْنَ هَذِهِ هَیِّنَةً عَلَى صَاحِبِهَا؟ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَلدُّنْیَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى صَاحِبِهَا، وَلَوْ كَانَتِ الدُّنْیَا تَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا قَطْرَةً أَبَدًا

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے ہم ذوالحلیفہ میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیکھا تو ایک مردہ بکری پیر اٹھائے ہوئے پڑی تھی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم کیا سمجھتے ہو یہ اپنے مالک کے نزدیک ذلیل ہے،  اللہ کی قسم جس کے قبضے میں   میری جان ہے البتہ دنیا اللہ کے نزدیک اس بکری سے بھی زیادہ ذلیل ہے اس کے مالک کے نزدیک  اور اگر دنیا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے بازو کے برابر بھی نہیں   رکھتی تو اللہ تعالیٰ اس میں   سے ایک قطرہ پانی کا کافر کو پینے نہ دیتا۔[48]

حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی لَیْلَى: أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَ حُذَیْفَةَ، فَاسْتَسْقَى فَسَقَاهُ مَجُوسِیٌّ، فَلَمَّا وَضَعَ القَدَحَ فِی یَدِهِ رَمَاهُ بِهِ، وَقَالَ: لَوْلاَ أَنِّی نَهَیْتُهُ غَیْرَ مَرَّةٍ وَلاَ مَرَّتَیْنِ، كَأَنَّهُ یَقُولُ: لَمْ أَفْعَلْ هَذَا، وَلَكِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لاَ تَلْبَسُوا الحَرِیرَ وَلاَ الدِّیبَاجَ، وَلاَ تَشْرَبُوا فِی آنِیَةِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَلاَ تَأْكُلُوا فِی صِحَافِهَا، فَإِنَّهَا لَهُمْ فِی الدُّنْیَا وَلَنَا فِی الآخِرَةِ

عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں  م لوگ حذیفہ  رضی اللہ عنہ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں   نے پانی مانگا، ایک مجوسی ان کے پاس پانی لے کر آیاجب پیالہ ان کے ہاتھوں   میں   رکھا تو انہوں   نے اس کو پھینک دیا اور کہا کہ اگر میں   اس کو ایک یا دو مرتبہ منع کر چکا ہوتا تو ایسا نہ کرتا (پیالہ کو نہ پھینکتا) میں   نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ ریشم اور دیباج نہ پہنو اور نہ سونا چاندی کے برتن میں   پانی پیو اور نہ ان کی رکابیوں   میں   کھاؤ اس لئے کہ یہ دنیا میں   کفار کا سامان ہے اور ہمارے لئے آخرت میں   ہے۔[49]

اورتیرے رب کے ہاں  آخرت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتیں   تو صرف ان لوگوں   کے لیے ہے جوکفروشرک اورگناہوں   سے اجتناب کرتے اور اپنے رب کی اطاعت پر کمربستہ رہتے ہیں  ۔

وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَیِّضْ لَهُ شَیْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِینٌ ‎﴿٣٦﴾‏ وَإِنَّهُمْ لَیَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِیلِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ یَا لَیْتَ بَیْنِی وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِینُ ‎﴿٣٨﴾‏ وَلَنْ یَنْفَعَكُمُ الْیَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ‎﴿٣٩﴾‏(الزخرف)
’’اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر شیطان مقرر کردیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے اور وہ انہیں راہ سے روکتے ہیں اور یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں، یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا کہے گا کاش ! میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی (تو) بڑا برا ساتھی ہے ،اور جب کہ تم ظالم ٹھہر چکے تو تمہیں آج ہرگز تم سب کا عذاب میں شریک ہونا کوئی نفع نہ دے گا۔‘‘

ذکراللہ سے غفلت کانتیجہ ،شیطان کاتسلط:

جوشخص اللہ رب العالمین کی طرف سے انسانوں   کی ہدایت ورہنمائی کے لیے نازل کردہ جلیل القدر کلام سے روگردانی کرتا ہے توہم اس کے لیے ایک شیطان مقررکردیتے ہیں   جواس شخص پر قابوپالیتاہے اور اس کامستقل ساتھی بن کرحق کے راستے کے درمیان حائل ہوجاتاہے،جیسے فرمایا

 وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَیَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِیْرًا۝۱۱۵ۧ [50]

ترجمہ:مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں   حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں   گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں   جھونکیں   گے جو بدترین جائے قرار ہے ۔

۔۔۔فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ۝۰ۭ وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۵ [51]

ترجمہ:پھر جب انہوں   نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے اللہ فاسقوں   کو ہدایت نہیں   دیتا۔

وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الشَّیْطَانَ وَاضِعٌ خَطْمَهُ عَلَى قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، فَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ خَنَسَ، وَإِذَا نُسِیَ اللَّهُ الْتَقَمَ قَلْبَهُ فَوَسْوَسَ۔

انس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاشیطان انسان کے دل میں   دھرنامارکربیٹھارہتاہے ،جب انسان اللہ کے ذکرمیں   لگ جاتاہے توشیطان منہ کی کھا کر بھاگ جاتاہے اورجب انسان غافل ہوجاتاہے تووہ پھرسے آجاتاہے اوروسوسے ڈالناشروع کردیتاہے۔[52]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ:إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِی مِنَ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ

انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاشیطان انسان کے جسم میں   خون کی طرح دوڑتاہے۔[53]

اوراس کاراستہ روکنے کابہترین نسخہ تجویز فرمایا کہ اس کے راستے بھوک اور پیاس سے بندکرویعنی روزے رکھو۔ اس کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتاہے ،تصورات کی دنیامیں   الجھاتاہے، ایسی تجاویزدیتاہے جوبظاہربہت مرغوب اورطبیعت کوخوش کرنے والی ہوتی ہیں   حتیٰ کہ وہ شخص واقعی اپنے اعراض کے باعث یہی گمان کرنے لگ جاتا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہے، جیسے فرمایا

وَقَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاۗءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۔۔۔۝۲۵ۧ [54]

ترجمہ:ہم نے ان پرایسے ساتھی مسلط کردیے تھے جوانہیں   آگے اورپیچھے ہرچیز خوشنما بناکر دکھاتے تھے۔

مگر روزمحشرجب سب اولین وآخرین جن وانس اللہ کے دربارمیں   حاضرہوں   گے اوراس شخص کواپنے اعمال کی حقیقت کاپتاچلے گاتوشیطان بھی سامنے آجائے گا،ندامت ،حسرت اورحزن وغم میں   ڈو ب کراس وقت یہ کافراس ساتھی شیطان سے برات ظاہرکرے گااور کہے گااے شیطان! تواللہ کے ذکرمیں   غفلت کی وجہ سے مجھ پرمسلط ہوگیا اوربہت براساتھی نکلا،کاش! میرے اورتمہارے درمیان اتنافاصلہ ہوتا جتنامشرق ومغرب میں   ہے لیکن اس دن اس افسوس اور اعتراف کاکوئی فائدہ نہ ہوگا،جیسے فرمایا:

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹ [55]

ترجمہ: ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گااورکہے گا کاش! میں   نے رسول کاساتھ دیاہوتا،ہائے میری کم بختی کاش! میں   نے فلاں   شخص کو دوست نہ بنایاہوتااس کے بہکائے میں   آکر میں   نے وہ نصیحت نہ مانی جومیرے پاس آئی تھی،شیطان انسان کے حق میں   بڑاہی بے وفانکلا۔

چنانچہ اس شخص کواس شیطان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں   ڈال دیا جائے گا اس وقت ان لوگوں   سے کہاجائے گاکہ جب دنیامیں   تم اپنے نفس پرظلم کرچکے توآج تمہارا اعتراف تمہارے لئے کچھ بھی فائدہ مند نہیں   ہے ، دنیامیں  ظلم میں   بھی تم ایک دوسرے کے ساتھی تھے اس لیے اس عذاب میں   بھی ایک دوسرے کے ساتھی ہو۔

أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِی الْعُمْیَ وَمَنْ كَانَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ‎﴿٤٠﴾‏ فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ ‎﴿٤١﴾‏ أَوْ نُرِیَنَّكَ الَّذِی وَعَدْنَاهُمْ فَإِنَّا عَلَیْهِمْ مُقْتَدِرُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِی أُوحِیَ إِلَیْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ‎﴿٤٣﴾‏ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً یُعْبَدُونَ ‎﴿٤٥﴾‏(الزخرف)
’’کیا پس تو بہرے کو سنا سکتا ہے یا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے اور اسے جو کھلی گمراہی میں ہو، پس اگر ہم تجھے یہاں سے لے جائیں تو بھی ہم ان سے بدلہ لینے والے ہیں، یا جو کچھ ان سے وعدہ کیا ہے وہ تجھے دکھا دیں ہم ان پر بھی قدرت رکھتے ہیں، پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوط تھامے رہیں بیشک آپ راہ راست پر ہیں، اور یقیناًیہ (خود) آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے اور عنقریب تم لوگ پوچھے جاؤ گے، اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو ! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے؟۔‘‘

شیطان کے شرسے بچنے کاطریقہ :

اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !اب کیاتم بہروں   کوسناؤگے جو حق کی آوازنہیں   سن سکتے؟یااندھوں   کوراہ راست پرچلاؤگے جوراہ حق دیکھ نہیں   سکتے یا صریح گمراہی میں   پڑے ہوئے لوگوں   کوراہ راست دکھاؤگے جوہدایت قبول نہیں   کر سکتے ،ایسے لوگوں   کے لیے جودعوت حق سنناہی نہ چاہیں   ،جو اللہ وحدہ لاشریک کی ہرسوبکھری نشانیوں   کودیکھناہی نہ چاہیں   ،جومحض اپنے تعصبات اوربغض وعنادمیں   حق بات قبول ہی نہ کرناچاہیں   شقاوت ابدی لکھ دی گئی ہے اب تویہ دردناک عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں   ، اللہ کی مشیت متقاضی ہوئی تو مکہ معظمہ میں   آپ کی آنکھوں   کے سامنے یا آپ کی مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد یاآپ کی موت کے بعدیعنی جب چاہیں   ان پر دنیامیں   ہی عذاب نازل کردیں   جس کاوعدہ ہم نے ان سے کیاہے اورہم اس سے عاجزنہیں   ہیں   بصورت دیگرعذاب اخروی سے تووہ کسی صورت نہیں   بچ سکتے، اورشیطان کی دشمنی سے بچنے کاواحدطریقہ یہی ہے کہ جوپاکیزہ کلام ہم نے آپ پر سراسرحق وصدق  کے ساتھ نازل کیاہے ،اوروہ حقانیت کی سیدھی اورصاف راہ کی طرف رہنمائی کرتاہے لہذاآپ اپنے افعال میں   اسے مضبوطی سے تھامے رہیں   یہی جنت نعیم اور راہ مستقیم کا رہبرہے ،اورنتائج کی پرواکیے بغیراپنافرض منصبی اداکرتے رہیں  ،یہ قرآن آپ کے لئے اورآپ کی قوم کے لئے شرف وبزرگی ہے ،یہ ایسی نعمت ہے جس کااندازہ ہی نہیں   کیاجاسکتا،

أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِیَةَ،فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ هَذَا الأَمْرَ فِی قُرَیْشٍ، لاَ یُعَادِیهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ فِی النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّینَ

امیرمعاویہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں  میں   نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ فرماتے سناہے کہ یہ امر (خلافت )قریش میں   ہی رہے گاجوان سے دشمنی کرے گاتو اللہ تعالیٰ اسے رسواکردے گا لیکن اس وقت تک جب تک دین کوقائم رکھیں   گے۔[56]

اس شرف عظیم کااحساس اگر قریش اوراہل عرب کونہیں   ہے اوروہ اس کی ناقدری کرناچاہتے ہیں   توایک وقت آئے گاجب انہیں   اس کی جوابدہی کرنی ہوگی کہ آیاتم نے اس کوقائم کرکے رفعت حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھایایاتم نے اس کوقائم نہیں   کیاتویہ تمہارے خلاف حجت ہواورتمہاری طرف سے اس نعمت کی ناسپاسی گردانی جائے ،تم سے پہلے ہم نے ہربستی میں   رسول بھیجے تھے اوربعض پرکتابیں   اورصحیفے بھی نازل کیے تھے ان کتابوں   اوررسولوں   نے جوتعلیمات چھوڑیں   ان میں   تلاش کرکے دیکھ لو،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۵۹ۧ [57]

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اولوالامر کی اور اگر تم کسی معاملے میں   آپس میں   جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم (واقعی) اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اسی میں   ہی (تمہارے حق میں  ) بہتری ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی (یہی طریقہ) بہت اچھا ہے۔

یعنی اللہ کی کتاب جوحق وباطل کافرق کرنے والی ہے اوررسول کی سنت سے رہنمائی حاصل کرو،

أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّهَا النَّاسُ , إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ شَیْءٍ یُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ وَیُبْعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااے لوگو ! کوئی ایسی چیز نہیں   ہے جو تمہیں   جنت سے قریب کرے اور جہنم سے تمہیں   دور کرے مگر یہ کہ میں   نے تمہیں   اس چیز کا حکم دے دیا ہے۔[58]

کیاخالق کائنات نے اپنی بندگی واطاعت کے سواکسی غیراللہ کی بندگی کاحکم دیاتھا؟ہرگزنہیں   بلکہ اس کے برعکس ہرنبی کودعوت توحیدہی کاحکم دیا گیاتھا

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔۔۔۝۰[59]

ترجمہ:اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں   یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآیَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّی رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِآیَاتِنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا یَضْحَكُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَمَا نُرِیهِمْ مِنْ آیَةٍ إِلَّا هِیَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا ۖ وَأَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَقَالُوا یَا أَیُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ ‎﴿٤٩﴾‏ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ یَنْكُثُونَ ‎﴿٥٠﴾‏(الزخرف)
’’اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تو (موسیٰ (علیہ السلام) نے جاکر) کہا کہ میں تمام جہانوں کے رب کا رسول ہوں، پس جب وہ ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے تو وہ بےساختہ ان پر ہنسنے لگے، اور ہم نے انہیں جو نشانی دکھاتے تھے وہ دوسری سے بڑھی چڑھی ہوتی تھی اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاکہ وہ باز آجائیں ،اور انہوں نے کہا اے جادوگر ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے، یقین مان کہ ہم راہ پر لگ جائیں گے، پھر جب ہم نے وہ عذاب ان سے ہٹا لیا انہوں نے اسی وقت اپنا قول و اقرار توڑ دیا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوتسلی دینے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کاواقعہ بیان فرمایاکہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کواپنی نشانیوں   کے ساتھ فرعون اوراس کے اعیان سلطنت کے پاس دعوت حق پہنچانے کے لیے بھیجا ،موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربارمیں   پہنچ کراس سے کہاکہ میں   اللہ رب العالمین کی طرف سے رسو ل ہوں  اورانہیں   طاغوت کی بندگی سے روکااور دعوت توحیدپیش کی ، فرعون اوراہل دربارنے موسیٰ علیہ السلام کے رسول ہونے کی دلیل طلب کی ،جس پرانہوں   نے اللہ تعالیٰ کی طرف عطاکیے گئے توحیدکے دلائل اورعصااوریدبیضادونوں  معجزات پیش کیے مگر فرعون نے اپنی مضبوط سلطنت ،اپنی شان و شوکت اور دولت کے نشے میں  موسیٰ علیہ السلام کوحقیرسمجھااورمعجزات دیکھ کر ٹھٹھے مارنے لگااورکہنے لگاجادوکے زور پر ایسے شعبدے توہم بھی دکھاسکتے ہیں  ،حالانکہ ان کے دل قائل ہو چکے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام جوکچھ پیش کررہے ہیں   وہ جادوہرگزنہیں   ہوسکتے،جیسے فرمایا:

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا  ۝۱۴ۧ [60]

ترجمہ :انہوں   نے سراسر ظلم اور غرورکی راہ سے ان نشانیوں   کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔

فرعون اوراس کی قوم کوراہ راست پر لانے کے لیے ہم نے پورے ملک میں   ان پر یکے بعددیگرے چھوٹے چھوٹے عذاب نازل کیےاورہربعدوالا عذاب پہلے عذاب سے بڑھ کرتھاشایدکہ حق کی طرف مائل ہوں  ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّـنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّـرُوْنَ۝۱۳۰ [61]

ترجمہ:ہم نے فرعون کے لوگوں   کو کئی سال تک قحط اورپیداوارکی کمی میں   مبتلا رکھاکہ شایدان کوہوش آئے ۔

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ۝۰ۣ فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ۝۱۳۳   [62]

ترجمہ:آخرکارہم نے ان پرطوفان بھیجا،ٹڈی دل چھوڑے ، سرسریاں   پھیلائیں  ،مینڈک نکالے اورخون برسایا ،یہ سب نشانیاں   الگ الگ کر کے دکھائیں   مگروہ سرکشی کیے چلے گئے اوروہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔

اور انہوں   نے ان عذابوں   سے کوئی سبق حاصل نہ کیا آخرمہلت عمل ختم ہونے پرہم نے فرعون اور اس کے سرداروں   اورکمانداروں   کوعذاب میں   گرفتار کرلیا ، جب بھی کوئی عذاب نازل ہوتاتووہ عذاب سے عاجزہوکرموسیٰ علیہ السلام سے گزارش کرتے کہ اے ساحر! (کیونکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو جادو گر سمجھتے تھے)اپنے رب کی طرف سے جومنصب تجھے حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے لئے اس سے دعاکرکہ وہ یہ عذاب ٹال دے،اگریہ عذاب ٹل گیا توہم تجھے اللہ کاسچا رسول تسلیم کرلیں   گے اورتیرے رب کی عبادت کریں   گے مگرجوں   ہی کہ ہم ان پرسے عذاب ہٹادیتے وہ اپنی بات سے پھرجاتے تھے ،جیسے فرمایا

وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ۝۰ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۱۳۴ۚفَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓی اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ۝۱۳۵ [63]

ترجمہ: جب کبھی ان پربلانازل ہو جاتی تو کہتے اے موسیٰ علیہ السلام ! تجھے اپنے رب کی طرف سے جومنصب حاصل ہے اس کی بناپرہمارے حق میں   دعاکر،اگراب کے توہم پرسے یہ بلاٹلوادے توہم تیری بات مان لیں   گے اور نبی اسرائیل کوتیرے ساتھ بھیج دیں   گے ، مگر جب ہم ان پرسے اپناعذاب ایک وقت مقررتک کے لیے جس کووہ بہرحال پہنچنے والے تھے ہٹالیتے تووہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔

وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِی قَوْمِهِ قَالَ یَا قَوْمِ أَلَیْسَ لِی مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِی مِنْ تَحْتِی ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ‎﴿٥١﴾‏ أَمْ أَنَا خَیْرٌ مِنْ هَٰذَا الَّذِی هُوَ مَهِینٌ وَلَا یَكَادُ یُبِینُ ‎﴿٥٢﴾‏ فَلَوْلَا أُلْقِیَ عَلَیْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ ‎﴿٥٤﴾‏ فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٥٥﴾‏ فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِلْآخِرِینَ ‎﴿٥٦﴾‏(الزخرف)
’’اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور کہا اے میری قوم ! کیا مصر کا ملک میرا نہیں ؟ اور میرے (محلوں کے) نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ؟ بلکہ میں بہتر ہوں بہ نسبت اس کے جو بےتوقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا، اچھا اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں آپڑےیا اس کے ساتھ پر اباندھ کر فرشتے ہی آجاتے، اس نے اپنی قوم کو بہلایا پھسلایا اور انہوں نے اسی کی مان لی، یقیناً یہ سارے ہی نافرمان لوگ تھے، پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا، پس ہم نے انہیں گیا گزرا کردیا اور پچھلوں کے لیے مثال بنادی۔‘‘

فرعون کے دعوے :

روشن دن میں   جادوگروں   کی شکست اورپھران کے اعلان ایمان نے فرعون اوراس کے درباریوں   کاسرتونیچاکرہی دیاتھااس پراس کی ملکہ اورایک طاقتور سردار کاایمان لے آنامزیدشرمندگی کاباعث تھا،پھرجب پورے ملک میں   موسیٰ علیہ السلام  کے پے درپے معجزات رونماہوئے تو عوام کاعقیدہ اپنے دیوتاؤں   سے متزلزل ہونے لگا ،اس صورت حال کودیکھ کرفرعون کوخطرہ لاحق ہواکہ کہیں   میری قوم موسیٰ علیہ السلام  کی طرف مائل نہ ہوجائے ،چنانچہ فرعون جس کواقتدارنے فریب میں   مبتلاکردیاتھااوراس کے مال وثروت اورلشکروں   نے اس کوسرکش بنادیاتھانے اپنی ہزیمت کاداغ چھپانے اور موسیٰ علیہ السلام کی بے توقیری اورکمتری کونمایاں   کرنے کے لئے ایک نئی چال چلی ،اس نے اپنے دربارمیں   سلطنت کے اعیان واکابر اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں   کوجمع کیااور تکبر کا اظہار کرتے ہوئے کہاکیاتمہیں   نظرنہیں   آتاکہ میں   تمہارابلندوبالارب ہوں  ؟جیسے فرمایا

فَحَشَرَ فَنَادٰى۝۲۳ۡۖفَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖفَاَخَذَہُ اللہُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى۝۲۵ۭ [64]

ترجمہ:اور لوگوں   کو جمع کر کے اس نے پکارکرکہا میں   تمہارا سب سے بڑا رب ہوں  ،آخرکار اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں   پکڑ لیا۔

کیاتم میری عظمت اور وسیع وعریض مضبوط سلطنت کونہیں   دیکھتے کہ میں   اس ملک مصر کابادشاہ اور اس میں   تصرف کرنے والاہوں  ؟ اوردریائے نیل سے نکلی ہوئی یہ نہریں  جومیرے محل کے نیچے بہہ رہی ہیں   جن پرتمہاری ساری معیشت کا انحصارہے کس کے حکم سے جاری ہیں   ؟بتاؤ ہم میں   سے کون بہتر ہے؟میں   غالب اورقوت والابادشاہ یا موسیٰ علیہ السلام جس کے پاس نہ مال ودولت ہے ،نہ اختیارواقتدار (اہل مکہ بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پریہی اعتراض کرتے تھے )جوفصیح اللسان نہیں   ہے جواپنامافی الضمیرکو کھل کربیان نہیں   کر سکتا؟ فرعون کایہ دعوی بھی جھوٹ پرمبنی تھا،موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طورپربارگاہ ربی میں   عرض کیاتھا:

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ۝۲۷ۙ [65]

ترجمہ:اورمیری زبان کی گرہ سلجھادے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں   ۔

اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پران کی لکنت دورکردی تھی،

قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى۝۳۶ [66]

ترجمہ:فرمایادیاگیاجوتونے مانگااے موسیٰ علیہ السلام ۔

اگروہ سچاہے تو جس رب کاوہ دعویٰ کرتااورجس کی طرف دعوت دیتاہے اس نے امتیازی نشان اورخصوصی حیثیت کونمایاں   کرنے کے لیے اس پرسونے کے کنگن کیوں   نازل نہیں   کیے تاکہ وہ کنگن اورزیورسے آراستہ ہوتا یااس کے ساتھ بادشاہوں   کی طرح چوبداروں   اور خدام کادستہ ہوتاجو اس کارعب ودبدبہ قائم رکھتے اوراس رب کی شان وشوکت کا اظہار ہوتا جس کی طرف سے وہ سفیربن کرآیاہے،اس نے اپنی قوم کی عقل وفہم کوہلکاسمجھااورانہیں   اپناہم سخن بنالیا،قوم خودفسق وفجورمیں   مبتلاتھی اس لیے فسق وفجورکی پکارپرفوراًریجھ گئی ،تباہ شدہ اقوام کی طرح جب وہ لوگ بھی اللہ کی تنبیہات پر نہ پلٹے اوراپنے کفروشرک پرجمے رہے ،اللہ کی عطاکی ہوئی مہلت سے فائدہ نہ اٹھایااوراللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کودعوت دی تواللہ تعالیٰ نے ان کی پیٹھ پر عذاب کاکوڑا برسایا ، اور اگلے پچھلے سارے کرتوتوں   پرانہیں  پکڑلیااور فرعون اوراس کے سرداروں   کوایک ساتھ پانی میں   غرق کرکے صفحہ ہستی سے مٹادیا ،

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا رَأَیْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یُعْطِی الْعَبْدَ مَا شَاءَ  وَهُوَ مُقِیمٌ عَلَى مَعَاصِیهِ  فَإِنَّمَا ذَلِكَ اسْتِدْرَاجٌ مِنْهُ لَهُ، ثُمَّ تَلافَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں   نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوارشادفرماتے سناہےجب تم یہ دیکھوکہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کوکچھ دے رہاہے جووہ چاہتاہےحالانکہ وہ بندہ گناہوں   کامرتکب ہے اوراس پرمصرہے تویہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ڈھیل ہوتی ہے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ’’آخرکارجب انہوں   نے ہمیں   غضب ناک کردیاتوہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کواکٹھاغرق کردیا۔‘‘[67]

اورآئندہ آنے والی نسلوں   کے لیے عبرت کانشان بنادیاتاکہ ان کے احوال سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت اورنصیحت حاصل کرنے والے نصیحت حاصل کریں  ۔

وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّونَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَیْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِی إِسْرَائِیلَ ‎﴿٥٩﴾‏ وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَائِكَةً فِی الْأَرْضِ یَخْلُفُونَ ‎﴿٦٠﴾‏(الزخرف)
’’اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے، اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو، عیسٰی (علیہ السلام) بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے نشان قدرت بنایا، اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کردیتے جو زمین میں جانشینی کرتے ۔‘‘

جب آیت نازل ہوئی۔

 وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۝۴۵ۧ [68]

ترجمہ:تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے ان سب سے پوچھ لو کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سواکچھ دوسرے معبودبھی مقررکیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے؟۔

اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص عبداللہ ابن الزبعریٰ یاعبداللہ بن زہیری تمیمی نے اعتراض کیاکہ ہم فرشتوں   کی بھی عبادت کرتے ہیں  ، یہود عزیر علیہ السلام  کواللہ کابیٹاقراردیتے ہیں  ، عیسائی مسیح علیہ السلام ابن مریم کواللہ کا بیٹا قراردے کراس کی عبادت کرتے ہیں   ،پھرہمارے معبودکیوں  برے ہیں  ؟کیاوہ بھی بہترنہیں  ؟اوراگرہمارے معبودجہنم میں   جائیں   گے توپھرسارے فرشتے ، عزیر علیہ السلام  اور مسیح علیہ السلام ابن مریم بھی جہنم میں   جائیں   گے ،اور اللہ تعالیٰ کاارشادہے

 اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ۝۰ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ۝۹۸ [69]

ترجمہ: بیشک تم اورتمہارے وہ معبودجنہیں   تم اللہ کوچھوڑکرپوجتے ہوجہنم کاایندھن ہیں  وہیں   تم کوجاناہے۔

اس پرکفارکے مجمع نے ایک زوردارقہقہہ بلندکیااورخوشی سے نعرے لگانے لگے کہ ہم نے اس دلیل سے غلبہ حاصل کرلیاہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام  ابن مریم کی عبادت کی ممانعت اوربتوں   کی عبادت کی ممانعت کومساوی قراردیاہے ،اور نہ فرشتوں   نے اورنہ ہی نبیوں   نے اورنہ ہی کسی بزرگ نے یہ کہاہے کہ ہماری عبادت کرنا،مشکلات ومصائب میں   ہمیں   پکارنا،وہ لوگ توشرک سے بیزار،اس سے روکنے والے اوراللہ کی اطاعت پرتھے ، ان کے بعد گمراہوں   نے انہیں   معبودبنالیاتواس میں   ان کاکیاقصورہے اور روزقیامت وہ ان کی پرستش سے لاعلمی کااظہارکریں   گے،جیسے فرمایا:

وَاِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰــهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ۝۰ۭ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۱۶مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۚ وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ۝۰ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ۝۰ۭ وَاَنْتَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۱۷ [70]

ترجمہ:اے عیسیٰ علیہ السلام بن مریم! کیاتونے لوگوں   سے کہاتھاکہ خداکے سوامجھے اورمیری ماں   کوبھی خدابنالو،تووہ جواب میں   عرض کرے گاکہ سبحان اللہ! میرایہ کام نہ تھاکہ وہ بات کہتاجس کے کہنے کامجھے حق نہ تھا،اگرمیں   نے ایسی بات کہی ہوتی توآپ کوضرورعلم ہوتا،آپ جانتے ہیں   جوکچھ میرے دل میں   ہے اورمیں   نہیں   جانتا جو کچھ آپ کے دل میں   ہے آپ توساری پوشیدہ حقیقتوں   کے عالم ہیں  ،میں   نے ان سے اس کے سواکچھ نہیں   کہاجس کاآپ نے حکم دیاتھا،یہ کہ اللہ کی بندگی کروجو میرا رب بھی ہے اور تمہارارب بھی ، میں   اسی وقت تک ان کانگران تھاجب تک کہ میں   ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلایا تو آپ ان پر نگران تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں   پر نگران ہیں  ۔

اوراللہ تعالیٰ انبیاء اورصالحین ومتقین کو جنتوں   میں   داخل فرمائے گا،جیسے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ۝۱۰۱ۙلَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا۝۰ۚ وَهُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۲ۚلَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ۝۰ۭ ھٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۱۰۳ [71]

ترجمہ:رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کاپہلے ہی فیصلہ ہوچکاہوگاتووہ یقیناًاس سے دوررکھے جائیں   گے،اس کی سرسراہٹ تک نہ سنیں   گے اوروہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں   کے درمیان رہیں   گے ،وہ انتہائی گھبراہٹ کاوقت ان کوذراپریشان نہ کرے گااورملائکہ بڑھ کران کوہاتھوں   ہاتھ لیں   گے کہ یہ تمہاراوہی دن ہے جس کاتم سے وعدہ کیاجاتاتھا۔

اللہ تعالیٰ نے اس پرفرمایاان لوگوں   کے پاس اپنے معبودوں   کے بارے میں   کوئی دلیل نہیں  یہ لوگ محض اپنی بات کی پچ میں   بحث وتکرارکرتے ہیں  ،بے دلیل جھگڑااوربے وجہ حجت بازی کرتے ہیں   ،

ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَیْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ

وَقَالُوْٓا ءَ اٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ۝۰ۭ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا۝۰ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکوئی قوم اس وقت تک ہلاک نہیں   ہوتی جب تک بے دلیل حجت بازی اس میں   نہ آجائے ،پھرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت ’’اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے، اور انہوں   نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں   یا وہ ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے بلکہ یہ لوگ ہیں   جھگڑالو۔‘‘تلاوت فرمائی۔[72]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا عیسیٰ علیہ السلام توہمارابندہ ہے ، ہم نے انہیں   اپنی مشیت وحکمت سے بغیرباپ کے پیداکیااور نبوت وحکمت اورعلم وعمل کی نعمت سے سرفرازفرمایا اور انہیں   ایسے معجزات سے نوازا جو ان سے پہلے کسی کوعطانہیں   کیے گئے تھے،جیسے فرمایا

 وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۥۙ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــــَٔــةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَاُبْرِیُٔ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَا ُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ۝۰ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۴۹ۚ [73]

ترجمہ: (اور جب وہ بحیثیت رسول بنی اسرائیل کے پاس آیاتواس نے کہا)میں   تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کرآیاہوں  ،میں   تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کاایک مجسمہ بناتاہوں   اوراس میں   پھونک مارتاہوں  وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتاہے ،میں   اللہ کے حکم سے مادرزاداندھے اورکوڑھی کواچھاکرتاہوں   اوراس کے اذن سے مردے کوزندہ کرتاہوں  ،میں   تمہیں   بتاتاہوں   کہ تم کیا کھاتے ہواورکیااپنے گھروں   میں   ذخیرہ کرکے رکھتے ہواس میں   تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگرتم ایمان لانے والے ہو۔

اوراپنی قدرت سے بغیرباپ کے پیداکرکے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا اوراسی طرح اگرہم چاہیں   توتم سے انسانوں   کے بجائے فرشتے پیداکردیں   جو زمین میں   تمہارے جانشین ہوں  ،اوران کی طرف فرشتے رسول بناکربھیجتے ،کوئی چیزاللہ کی قدرت سے باہرنہیں   ہےاس میں   تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ ‎﴿٦١﴾‏ وَلَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطَانُ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ ‎﴿٦٢﴾‏(الزخرف)
’’اور یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی علامت ہے، پس تم (قیامت) کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے، اور شیطان تمہیں روک نہ دے، یقیناً وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔‘‘

اورجو قادرمطلق عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کوبغیروالدکے وجودمیں   لانے کی قدرت رکھتا ہے ،اس کاوہی برگزیدہ بندہ اللہ کے حکم سے مٹی کے پرندہ میں   جان ڈال سکتاہے ،مردوں   کوزندہ کرسکتاہے ،کوڑھی اوربرص کے مریضوں   کوشفادے سکتاہے اس کے لئے تمہیں   اورتمام انسانوں   کومرنے کے بعدان کی قبروں   میں   سے دوبارہ زندہ کردیناکیامشکل امرہے  ، اس لئے قدرت الٰہی(عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش) کودیکھتے ہوئے وقوع قیامت میں   کوئی شک وشبہ نہ کرو،اس کے بارے میں   شک کرناکفرہے اور میری دعوت حق کوتسلیم کرلواوراللہ کے حکم سے میری اطاعت کرو،جومیں   تمہیں   حکم دوں   اس کی تعمیل کرواورجس سے روک دوں   اس سے اجتناب کرویہی سیدھاراستہ ہے جوسیدھا اللہ رب العالمین  کی طرف جاتاہے،جیسے فرمایا

وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۷ۘ [74]

ترجمہ: جو کچھ رسول تمہیں   دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرواللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

ایسانہ ہوشیطان تم کواس راستہ سے گمراہ کر دے کہ وہ تمہاراازلی کھلادشمن ہے۔

وَلَمَّا جَاءَ عِیسَىٰ بِالْبَیِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِی تَخْتَلِفُونَ فِیهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ ‎﴿٦٣﴾‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ ‎﴿٦٤﴾‏ فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَیْنِهِمْ ۖ فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ أَلِیمٍ ‎﴿٦٥﴾(الزخرف)
’’اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) معجزے لائے تو کہا کہ میں تمہارے پاس حکمت لایاہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ جن بعض چیزوں میں تم مختلف ہو انہیں واضح کردوں، پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہا مانو، میرا اور تمہارا رب فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے، پس تم سب اس کی عبادت کرو، راہ راست (یہی) ہے، پھر (بنی اسرائیل) کی جماعتوں نے آپس میں اختلاف کیا، پس ظالموں کے لیے خرابی ہے دکھ والے دن کی آفت سے۔‘‘

اور جب عیسیٰ علیہ السلام معجزات لیے ہوئے آیاتھاجوان کی نبوت کی صداقت کامنہ بولتاثبوت تھے تواس نے بنی اسرائیل سے کہاتھاکہ میں   تم لوگوں   کے پاس شریعت موسوی اور احکام تورات کی تکمیل کے لیے آیاہوں   تا کہ جن دینی امور میں   تم اختلاف کررہے ہو ان میں   جوحق ہے اسے تم پر کھول دوں  لہذاتم اللہ مالک الملک سے ڈرواوراس اکیلے کی بندگی کرو وہ جس چیزکاحکم دے اسے بجالاؤاورجس چیزسے روک دے اس سے اجتناب کرواوراللہ کے حکم سے میری رسالت کی تصدیق اور میری اطاعت کرو،یقیناً اللہ وحدہ لاشریک ہی میرارب بھی ہے اورتمہارارب بھی اس لیے طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکرخالص اسی کی عبادت کرویہی سیدھاراستہ کامیابی وکامرانی کی منزل پر پہنچاتا ہے،اگراس کی اس صاف تعلیم کے باوجود گروہ بندی کرنے والوں   نے اختلاف کیا ،یہودیوں   نے عیسیٰ علیہ السلام کی تنقیص کی اور انہیں   ناجائزبیٹاقراردیا ،نصاریٰ کے ایک گروہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو کلمة اللہ اوررسول ہی تسلیم کیا اوریہی جماعت حق پرتھی اور بعض نے غلوکرکے انہیں  (نعوذباللہ)  اللہ کابیٹا بنا لیا اوربعض نے اس سے بھی بڑھ کردعویٰ کیاکہ آپ ہی اللہ ہیں  ،اللہ وحدہ لاشریک ہرطرح کے شرک سے پاک ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ سُبْحٰنَ اللهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۲۳ [75]

ترجمہ:پاک ہے اللہ اس شرک سے جولوگ کررہے ہیں  ۔

پس مشرکین کوجنہوں   نے اس کی مخلوق کواس کاشریک ٹھہرایا روز قیامت دردناک عذاب میں   داخل کیاجائے گا ۔

هَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ الْأَخِلَّاءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِینَ ‎﴿٦٧﴾(الزخرف)
’’یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آپڑے اور انہیں خبر بھی نہ ہو، اس دن(گہرے) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے انہی لوگوں   میں   سے ان کی طرف رسول مبعوث فرمایاہے،ان کی رشدوہدایت کے لئے اس پرجلیل القدر کتاب نازل فرمائی ہے جوطرح طرح کی مثالوں   سے راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے مگریہ لوگ محض فخروغروراورتعصبات میں   دعوت حق پرایمان لانے کوتیارنہیں   ہیں  ،کیاقیامت کی تکذیب کرنے اوراس کے بارے میں   آگاہ کرنے والے کامذاق اڑانے والے لوگ اب صرف قیامت کی گھڑی کے منتظرہیں   جواچانک ان پرآپڑے گی اورانہیں   خبربھی نہ ہوگی ،جیسے فرمایا

بَلْ تَاْتِیْہِمْ بَغْتَةً فَتَبْہَتُہُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّہَا وَلَا ہُمْ یُنْظَرُوْنَ۝۴۰ [76]

ترجمہ:وہ بلا اچانک آئے گی اور انہیں   اس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اس کو دفع کر سکیں   گے اور نہ ان کو لمحہ بھر مہلت ہی مل سکے گے۔

مَایَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَهُمْ یَخِصِّمُوْنَ۝۴۹فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَةً وَّلَآ اِلٰٓى اَهْلِهِمْ یَرْجِعُوْنَ۝۵۰ۧ [77]

ترجمہ:وہ بس ایک دھماکہ ہے جویکایک انہیں   اس حالت میں   دھرلے گاجب یہ (اپنے دنیوی معاملات) میں   جھگڑرہے ہوں   گے ،اوراس وقت یہ وصیت تک نہ کرسکیں   گے اور نہ ہی اپنے گھروں   کوپلٹ سکیں   گے۔

فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَہُمْ بَغْتَةً۝۰ۚ فَقَدْ جَاۗءَ اَشْرَاطُہَا۝۰ۚ فَاَنّٰى لَہُمْ اِذَا جَاۗءَتْہُمْ ذِكْرٰىہُمْ ۝۱۸ [78]

ترجمہ:اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں   کہ وہ اچانک ان پر آ جائے؟ اس کی علامات تو آچکی ہیں   جب وہ خود آجائے گی تو ان کے لیے نصیحت قبول کرنے کا کونسا موقع باقی رہ جائے گا ؟۔

روزمحشرمیں   کفارومشرکین کے احوال کے بارے میں   مت پوچھواس دن تمام دوستیاں   جودنیامیں  کفروفسق پرقائم ہیں   شدیددشمنی میں   تبدیل ہوجائیں   گی،اس نفسانفسی کے دن سب مشرکین ایک دوسرے کوموردالزام ٹھہرائیں   گے اوراپنی جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہوں   گے،جیسے ابراہم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایاتھا۔

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا۝۰ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۡوَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۲۵ۤۙ [79]

ترجمہ:اوراس نے کہاتم نےزندگی میں   تواللہ کوچھوڑکربتوں   کواپنے درمیان محبت کاذریعہ بنالیاہے مگرقیامت کے روزتم ایک دوسرے کاانکاراورایک دوسرے پرلعنت کروگے اورآگ تمہاراٹھکانہ ہو گی اورکوئی تمہارامددگارنہ ہوگا۔

اورصرف متقین کی دوستیاں   باقی رہ جائیں   گی جودنیامیں   نیکی اوررضائے الٰہی کی بنیاد پرقائم تھیں   ۔

‏ یَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ الَّذِینَ آمَنُوا بِآیَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِینَ ‎﴿٦٩﴾‏ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ وَفِیهَا مَا تَشْتَهِیهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْیُنُ ۖ وَأَنْتُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٧١﴾‏ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِی أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٧٢﴾‏ لَكُمْ فِیهَا فَاكِهَةٌ كَثِیرَةٌ مِنْهَا تَأْكُلُونَ ‎﴿٧٣﴾‏(الزخرف)
’’میرے بندو ! آج تم پر کوئی خوف (و ہراس) ہے اور نہ تم (بد دل اور) غمزدہ ہوگے، جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور تھے بھی وہ (فرماں بردار) مسلمان، تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ، ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا، ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں سب وہاں ہوگا، اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے، یہی وہ بہشت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو، یہاں تمہارے لیے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے۔‘‘

اس روزمتقین سے جودنیامیں  محض اللہ کی رضاکے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے کہاجائے گاکہ اے میرے بندو!اس نفسانفسی کے دن تمہارے لئے کوئی خوف نہیں   اورنہ تمہیں  کوئی غم لاحق ہوگا،تم اورتمہاری مومن بیویاں   ہشاش بشاش ہوکرانواع واقسام کی لازوال نعمتوں   سے بھری جنت میں   داخل ہوجاؤ ،جب وہ جنتوں   میں   داخل ہوکر گھنے درختوں   کے نیچے رواں   چشموں   کے کنارے اونچی سجی ہوئیں   مسندوں   پرآمنے سامنے بیٹھیں   گے تو ان کو سونے کے برتنوں  میں   خوش ذائقہ مرغوب کھانے،بھنے ہوئے پرندوں   کاگوشت اور مختلف قسم کی شرابوں   سے چھلکتے ہوئے سونے کے ساغرپیش کیے جائیں   گے،ان کے علاوہ ان کے لیے ہرمن بھاتی اورنگاہوں   کولذت دینے والی چیز (جس کی خوشبواورذائقہ بہت اچھاہوگا)وہاں   موجودہوگی ،ان سے کہاجائے گاتم اب یہاں   ہمیشہ رہوگے ،دنیامیں   ہرطرح کی ترغیبات ،ملامتوں   اورمصائب کے باوجودتم جو اعمال صالحہ کرتے تھے اس کی بدولت آج تم بہشت کے وارث بنے ہو،تمہارے لئے یہاں   تمام انواع واقسام کے مختلف پھل موجودہیں  ،جیسے فرمایا

فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ۝۵۲ۚ [80]

ترجمہ: دونوں   باغوں   میں   ہرپھل کی دوقسمیں  ۔

ان مزے داراورلذیذپھلوں   کوتم چن چن کر کھاؤگے ۔

إِنَّ الْمُجْرِمِینَ فِی عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ لَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِیهِ مُبْلِسُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِینَ ‎﴿٧٦﴾‏ وَنَادَوْا یَا مَالِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ ۖ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ ‎﴿٧٧﴾‏ لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ ‎﴿٧٨﴾
’’بیشک گناہ گار لوگ عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے، یہ عذاب کبھی بھی ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اسی میں مایوس پڑے رہیں گے، اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی ظالم تھے،اور پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک ! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے، وہ کہے گا کہ تمہیں تو (ہمیشہ) رہنا ہے، ہم تو تمہارے پاس حق لے آئے لیکن تم میں اکثر لوگ حق سے نفرت رکھنے والے تھے۔‘‘

کفارومشرکین کی دوزخ میں درگت :

اورگنہگاروں   کو جہنم میں   داخل کردیا جائے گا اورایک ساعت بھی انہیں   ان عذابوں   میں   تخفیف نہ ہوگی اوروہ نجات سے مایوس وناامید ہوکر پڑے رہیں   گے ، جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ۝۰ۚ لَا یُقْضٰى عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُلَّ كَفُوْرٍ۝۳۶ۚ [81]

ترجمہ :اور جن لوگوں   نے کفرکیاہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے ،نہ ان کاقصہ پاک کردیاجائے گاکہ مرجائیں   اورنہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں   کوئی کمی کی جائے گی اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں   ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو۔

خٰلِدِیْنَ فِیْہَا۝۰ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ۝۱۶۲ [82]

ترجمہ:اسی لعنت زدگی کی حالت میں   وہ ہمیشہ رہیں   گے اور نہ ان کی سزا میں   تخفیف ہوگی اور نہ انھیں   پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔

ان پرہم نے ظلم نہیں   کیابلکہ وہ خودہی اپنے اوپرظلم کرتے رہے ، وہ اپنے رب کوپکاریں   گے

 رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸ [83]

ترجمہ:اے پروددگار!اب ہمیں   یہاں  سے نکال دے پھرہم ایساقصورکریں   توظالم ہوں   گے،اللہ تعالیٰ جواب دے گادوررہومیرے سامنے سے،پڑے رہواسی میں اورمجھ سے بات نہ کرو۔

پھرجہنمی بڑی لجاجت سے مالک داروغہ سے التماس کریں   گے کہ آپ اپنے رب سے دعاکریں   کہ وہ ہمیں   موت ہی دے دے تاکہ اس دردناک عذاب سے جان چھوٹ جائے جس میں   ہم نہ صبر کر سکتے ہیں   اورنہ برداشت کی قوت ہے ،وہ جواب دے گااب موت کہاں  ،موت کوایک دنبے کی شکل میں  تمہارے سامنے ذبح کردیاگیاہے،اب تم یوں   ہی ہمیشہ ہمیشہ اس عذاب میں   مبتلارہوگے ، مالک دروغہ کہے گااللہ نے تمہارے پاس پے درپے رسول بھیجے ،تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے کتابیں   نازل کیں  ،رسولوں   نے مضبوط دلائل وبراہین سے حق کو تمہارے سامنے کھول کررکھ دیا،اگرتم حق کی اتباع کرتے تو فوزوسعادت سے بہرہ مندہوتے مگردعوت حق تمہیں   انتہائی ناگوار تھی ،تم اپنے باطل معبودوں   کی حمایت میں   رسولوں   کے مقابلے میں   کھڑے ہوئے ،دعوت حق کوروکنے کے لیے منظم تدبیریں   اورسازشیں   کرتے رہے ،اللہ کی منزل کتابوں   کا مذاق اڑاتے رہے ، باربارتلقین کے باوجودروز آخرت کاتمہیں  یقین ہی نہ تھاکہ وہاں   تمہارے اعمال کا حساب ہوگا،اس طرح تم لوگ اپنی بدبختی کاشکارہوگئے ،اللہ نے تم پرکوئی ظلم نہیں   کیالہذا اب اپنے اس احمقانہ انتخاب کاانجام دیکھ کر بلبلاتے کیوں   ہو؟اس الٹ جواب سے ان کے غم میں   اوراضافہ ہوجائے گا۔

‏ أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ أَمْ یَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَیْهِمْ یَكْتُبُونَ ‎﴿٨٠﴾ (الزخرف)
’’کیا انہوں نے کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو یقین مانو کہ ہم بھی پختہ کام کرنے والے ہیں، کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سن سکتے (یقیناً ہم برابر سن رہے ہیں)، بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۔‘‘

سرداران قریش اپنی خفیہ مجلسوں   میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لیے مشورے کررہے تھے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیادعوت حق کی تکذیب کرنے والوں   اوراس سے بغض وعنادرکھنے والے حق کوسرنگوں   کرنے کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لئے منظم تدبیریں   اورسازشیں   کررہے ہیں  ،مگروہ یہ نہ بھولیں   کہ ان کی سازشوں   کے مقابلے میں   اللہ بھی ایسی تدبیرکررہاہے جوان کی ہر تدبیرپرغالب ہے اوران کی تدبیرکوتوڑکرباطل کرکے رکھ دے گی ،جیسے فرمایا:

اَمْ یُرِیْدُوْنَ كَیْدًا۝۰ۭ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِیْدُوْنَ۝۴۲ۭ [84]

ترجمہ:کیایہ کوئی چال چلناچاہتے ہیں  ؟اگریہ بات ہے توکفرکرنے والوں   پران کی چال الٹی ہی پڑے گی۔

وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۵۰فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ۝۰ۙ اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَقَوْمَهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۵۱ [85]

ترجمہ:یہ چال تووہ چلے اورپھرایک چال ہم نے چلی جس کی انہیں   خبرنہ تھی،اب دیکھ لوکہ ان کی چال کاکیاانجام ہوا ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا ان کو اور ان کی پوری قوم کو ۔

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَزَاهِقٌ۔۔۔۝۰۝۱۸ [86]

ترجمہ:مگرہم توباطل پرحق کی چوٹ لگاتے ہیں   جواس کاسرتوڑدیتی ہے اوروہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے ۔

اور اس طرح اللہ تعالیٰ حق کوثابت کرنے اورباطل کے ابطال کے لئے اسباب اوردلائل مقررکردیتاہے ،کیاوہ اپنی جہالت اورظلم کی بناپرگمان کرتے ہیں   کہ ہم ان کی خلوت میں   سرگوشیوں   اوران کے دلوں   میں   چھپے بھیدنہیں   جانتے؟ہاں   ہاں   یقینا ًاللہ ان کے دلوں   کے چھپے بھیداوران کی سرگوشیوں   کوخوب جانتاہے اورکراماًکاتبین ان کے تمام چھوٹے بڑے اعمال کولکھ اورمحفوظ رکھ رہے ہیں   اورروزمحشرجب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں   پیش ہوں   گے تویہ نامہ اعمال ان کے ہاتھوں   میں   تھمادیے جائیں   گے اورآپ کارب کسی پرظلم نہیں   کرے گا۔

قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِینَ ‎﴿٨١﴾‏ سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ فَذَرْهُمْ یَخُوضُوا وَیَلْعَبُوا حَتَّىٰ یُلَاقُوا یَوْمَهُمُ الَّذِی یُوعَدُونَ ‎﴿٨٣﴾‏
’’آپ کہہ دیجئے! اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا، آسمان زمین اور عرش کا رب جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں اس (سے) بہت پاک ہے، اب آپ انہیں اس بحث مباحثہ اور کھیل کود میں چھوڑ دیجئے، یہاں تک کہ انہیں اس دن سابقہ پڑجائے جن کا یہ وعدہ دیئے جاتے ہیں۔‘‘

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !مشرکین سے کہوجنہوں   نے مخلوق کو اللہ تعالیٰ کابیٹایابیٹی قراردے رکھاہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں   جس کاکوئی ہمسراورجس کاکوئی کفو ہو ، تمہارے یہ عقائدحقیقت کے سراسرخلاف ہیں   ،اگربالفرض محال اللہ کی کوئی اولادہوتی تومیں   محمدبن عبداللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جواس کارسول اور مطیع و فرماں   برداربندہ ہوں   سب سے پہلے اس کے اقراراوران کی بندگی میں   سر جھکادیتا،مگرتم دیکھ رہے ہومیں   اس کاانکارکرنے والاپہلاشخص ہوں   اوراس کی نفی کرنے میں   سب سے زیادہ سخت ہوں  ،جیسے فرمایا

  لَوْ اَرَادَ اللهُ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۙ سُبْحٰنَهٗ۝۰ۭ هُوَاللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۝۴ [87]

ترجمہ:اگراللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں   سے جس کو چاہتا برگزیدہ کر لیتا ، پاک ہے وہ اس سے (کہ کوئی اس کابیٹاہو)وہ اللہ ہے اکیلااورسب پرغالب۔

اللہ تعالیٰ جوآسمانوں   اورزمین اورعرش کارب ہے شریک ،معاون ومددگار اور اولاد وغیرہ سے منزہ ہے جومشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں   ، اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !اگراللہ کی وحدانیت،ربوبیت ،رزاقیت اورقدرتوں   کے طرح طرح کے دلائل کے باوجودیہ راہ راست اختیار نہیں  کرتے تو انہیں   اپنے باطل عقائدواعمال اوردنیاکی رنگینیوں   میں   مگن رہنے دو،ان کی آنکھیں   اس دن کھلیں   گی جب ان کے اپنے اعمال کے نتائج ان کے سامنے آجائیں   گے اوریہ جہنم کے دائمی عذاب میں   داخل کردیے جائیں   گے جس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہوگی ۔

وَهُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِی الْأَرْضِ إِلَٰهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِیمُ الْعَلِیمُ ‎﴿٨٤﴾‏ وَتَبَارَكَ الَّذِی لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ وَلَا یَمْلِكُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ‎﴿٨٦﴾(الزخرف)
’’وہی آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی وہی قابل عبادت ہے، اور وہ بڑی حکمت والا اور پورے علم والا ہے، اور وہ بہت برکتوں والا ہے جس کے پاس آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی بادشاہت ہے، اور قیامت کا علم بھی اس کے پاس ہے اور اسی کی جانب تم سب لوٹائے جاؤ گے، جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، ہاں (مستحق شفاعت وہ ہیں) جو حق بات کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو ۔‘‘

ایسانہیں   ہے کہ آسمانوں   اورزمین کے الٰہ الگ الگ ہیں   بلکہ جس طرح زمین وآسمان اورساری کائنات کاالٰہ ایک ہی ہے،معبودبھی ایک ہی ہے،اگرایک الٰہ نہ ہوتااورہرکام کے مختلف الٰہ ہوتے کوئی ہواکاکوئی بارش کاکوئی نباتات کاکوئی زندگی اورموت کاکوئی اولاددینے والا کوئی رزق دینے والاوغیرہ الٰہ ہوتا توہرالٰہ اپنی مخلوق کولے کرالگ ہوچکاہوتااوراس وسیع وعریض کائنات کانظام درہم برہم ہوچکاہوتا،جیسے فرمایا

لَوْ كَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَةٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۝۰ۚ فَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۲۲ [88]

ترجمہ:اگر آسمان و زمین میں   ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو( زمین اور آسمان) دونوں   کا نظام بگڑ جاتا پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں   سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں  ۔

اوروہ ہرچیزکاعلم رکھتاہے، ہربھیداورمخفی معاملے کوجانتاہے،کوئی بڑی یاچھوٹی چیزاس کی نظر سے اوجھل نہیں   ہے ، وہ ہرطرح کے شرک سے پاک اوربلندوبالاہے۔

 وَهُوَاللهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَفِی الْاَرْضِ۝۰ۭ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ۝۳ [89]

ترجمہ: وہی ایک اللہ آسمانوں   میں   بھی ہے اور زمین میں   بھی، تمہارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے۔

وہ اس عظیم الشان کائنات کاشہنشاہ ہے،اس کی ملکیت، الوہیت ،ربوبیت اورصفات میں  کوئی شریک یامعاون نہیں  ،زمین وآسمان کی تمام مخلوقات اسی ایک الٰہ کی حمد و ستائش کرتی ہیں   ،اس کے جلال کے سامنے پست وعاجزہیں  ،جیسے فرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ  ۔۔۔۝۴۴ [90]

ترجمہ:اس کی پاکی توساتوں   آسمان اورزمین اوروہ ساری چیزیں   بیان کررہی ہیں   جوآسمان وزمین میں   ہیں  ،کوئی چیزایسی نہیں   جواس کی حمدکے ساتھ تسبیح نہ کررہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں   ہو ۔

وَلِلهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝۱۵۞ [91]

ترجمہ:وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں   کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں  ۔

وہ علام الغیوب ہے اور وہی جانتاہے کہ قیامت کب قائم ہوگی،جیسے فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىہَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ۝۰ۚ لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ۔۔۔۝۱۸۷ [92]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں   کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا ۔

دنیامیں   چاہے تم حیات بعدالموت اوراعمال کی جزا کے عقیدے کاانکارکرومگرحقیقت یہی ہے کہ روزمحشر  اللہ مالک یوم الدین   کی بارگاہ میں   اعمال کی جوابدہی کے لیے تم پیش کیے جاؤگے اوروہ ہرایک کواس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا ،اللہ قادرمطلق کوچھوڑکریہ مشرکین جنہیں   پکارتے ہیں  ان کے بارے میں   ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ روزمحشراللہ کی بارگاہ میں   ان کے حق میں   سفارشی ہوں   گے مگراس کے دربارمیں   اس کی اجازت کے بغیرکسی کولب تک کھولنے کی اجازت نہ ہو گی ،البتہ انبیاء صالحین،متقین اورفرشتے اللہ کی اجازت سے جس کے حق میں   وہ چاہے گاحق کے ساتھ سفارش کریں   گے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ یُؤْفَكُونَ ‎﴿٨٧﴾‏ وَقِیلِهِ یَا رَبِّ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٨٨﴾‏ فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ‎﴿٨٩﴾‏(الزخرف)
’’اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یقیناً جواب دیں گے اللہ نے، پھر یہ کہاں الٹے جاتے ہیں؟ اور ان کا (پیغمبر کا اکثر) یہ کہنا  کہ اے میرے رب ! یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے، پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں(اچھا بھائی) سلام ! انہیں عنقریب (خود ہی) معلوم ہوجائے گا۔‘‘

اوراگرتم ان سے پوچھوکہ تمہارااورتمہارے معبودوں   کاخالق کون ہے ؟ تویہ خوداقرارواعتراف کریں  گے کہ سب کو اللہ نے پیداکیاہے ،افسوس !اس اقرارکے بعدپھریہ غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں  جواس کی مخلوق ہیں   اورکسی طرح کی کوئی قدرت واختیارنہیں   رکھتے ،رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صحیح کہا کہ اے میرے پروردگار !یہ وہ ہٹ دھرم لوگ ہیں   جوہرطرح کے دلائل کے باوجوددعوت حق پرایمان نہیں   لاتے ، اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !ان جاہلوں   کی سخت باتوں   اورتضحیک واستہزاپرآپ کوجواذیت پہنچتی ہے اس پر انہیں   معاف کردیں  ،آپ کی طرف سے ان کے لئے سلام ہی ہوناچاہیے جس کے ذریعے سے عقل منداوراہل بصیرت جاہلوں   کامقابلہ کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا

 وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۰ۡسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۡلَا نَبْتَغِی الْجٰهِلِیْنَ۝۵۵ [93]

ترجمہ:اور جب انہوں   نے بےہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں   کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں   چاہتے ۔

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۝۶۳ [94]

ترجمہ:رحمان کے(اصلی)بندے وہ ہیں   جوزمین پرنرم چال چلتے ہیں   اورجاہل ان کے منہ آئیں   تو کہہ دیتے ہیں   کہ تم کو سلام ۔

عنقریب انہیں   اپنے گناہوں   اورجرائم کادردناک انجام معلوم ہو جائے گا۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قحط کے لئے دعا:

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا، لِأَنَّ قُرَیْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَیْهِمْ بِسِنِینَ كَسِنِی یُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب کفارمکہ کی مخالفانہ روش شدید سے شدیدتر ہوتی چلی گئی تونبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی اے اللہ! یوسف کے قحط جیسے ایک قحط سے میری مددفرما ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاخیال یہ تھا کہ جب ان لوگوں   پرمصیبت پڑے گی توانہیں   اللہ یادآئے گااوران کے دل نصیحت قبول کرنے کے لئے نرم پڑجائیں   گے،اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اورسارے علاقے میں   ایسے زورکاقحط پڑا کہ لوگ بلبلااٹھے۔[95]

اہل مکہ ہڈیاں  ،مردار، درختوں   کے پتے ،گھاس اور چمڑے کے ٹکڑے ابال کرکھانے پرمجبورہوگئے،جس سے کفارکے خنے بہت کچھ ڈھیلے پڑگئے بالا ٓخرکاراس سختی اورشدت سے تنگ آکربعض سرداران قریش جن میں   عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  نے خاص طورپر ابوسفیان کانام لیاہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اورآپ سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ آپ توصلہ رحمی کی دعوت دیتے ہیں  ،آپ کی قوم بھوکوں   مررہی ہے ، آپ اپنی قوم کواس بلاسے نجات دلانے کے لئے اللہ سے دعاکریں   اگرآپ کی دعاسے یہ عذاب ٹک گیاتوہم آپ کی نبوت کوتسلیم کرلیں   گے، سیدالمرسلین ،رحمة للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم کورحم آ گیا اور آپ نے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں   التجاکی ،چنانچہ بارش برسی لیکن یہ کیفیت دورہوتے ہی ان کاکفروعنادپھراسی طرح عود کر آیایہی موقع تھاجب اللہ تعالیٰ نے یہ سورۂ نازل فرمائی۔

[1] المائدہ ۱۱۶تا۱۱۸

[2] القمر۱۷

[3] الشعرائ۱۹۵

[4] الواقعة۷۵تا۸۰

[5] عبس۱۱تا۱۶

[6] البروج۲۱،۲۲

[7] الشعرائ۱۹۲تا۱۹۶

[8] آل عمران۵۱

[9] مریم۳۶

[10] تفسیرطبری۵۶۸؍۲۱

[11] المومن۸۲

[12] المومن۸۵

[13] الفتح۲۳

[14] الفرقان۳

[15] الرعد۱۶

[16] المائدة۷۶

[17] طہ۵۳

[18] الانبیائ۳۱

[19] نوح۱۹،۲۰

[20] الحجر۲۱

[21] الاعراف۵۷

[22] الرعد۳

[23] الذاریات۴۹

[24] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا رَكِبَ إِلَى سَفَرِ الْحَجِّ وَغَیْرِهِ ۳۲۷۵،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا یَقُولُ إِذَا رَكِبَ دَابَّةً ۳۴۴۷،مسنداحمد۲۳۱۱

[25] التوبة۳۰

[26] النجم۲۷

[27] الانبیائ۲۶

[28] النجم۲۱،۲۲

[29] النحل۳۶

[30] الروم۳۵

[31] لقمان۲۱

[32] الممتحنة۴

[33] البقرة۱۳۲

[34] النمل۱۳

[35] سبا۴۳

[36] الاحقاف۷

[37] النحل۴۳

[38] بنی اسرائیل۹۵

[39] یوسف۱۰۹

[40] الفرقان۲۰

[41] الانبیائ۷،۸

[42] الرعد۳۸

[43] البقرة۲۴۷

[44] المائدة۵۴

[45] یونس۵۸

[46] جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی هَوَانِ الدُّنْیَا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۲۳۲۰،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَثَلُ الدُّنْیَا ۴۱۱۰

[47] آل عمران۱۴

[48] جامع ترمذی کتاب الزھد  بَابُ مَا جَاءَ فِی هَوَانِ الدُّنْیَا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ۲۳۲۰،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ مَثَلُ الدُّنْیَا۴۱۱۰

[49] صحیح بخاری کتاب الاطعمة بَابُ الأَكْلِ فِی إِنَاءٍ مُفَضَّضٍ ۵۴۲۶،۵۶۳۲،۵۶۳۳،۵۸۳۱،۵۸۳۷ ،صحیح مسلم کتاب اللباس والزینة بَابُ تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِیرِ عَلَى الرَّجُلِ، وَإِبَاحَتِهِ لِلنِّسَاءِ، وَإِبَاحَةِ الْعَلَمِ وَنَحْوِهِ لِلرَّجُلِ مَا لَمْ یَزِدْ عَلَى أَرْبَعِ أَصَابِعَ ۵۳۹۴ ،جامع ترمذی ابواب الاشربة بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الشُّرْبِ فِی آنِیَةِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ۱۸۷۸، سنن ابن ماجہ کتاب الاشربة بَابُ الشُّرْبِ فِی آنِیَةِ الْفِضَّةِ ۳۴۱۴ ،سنن ابوداودکتاب الاشربة بَابٌ فِی الشُّرْبِ فِی آنِیَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ ۳۷۲۳

[50] النسائ۱۱۵

[51] الصف۵

[52]  تفسیر القرطبی ۲۶۲؍۲۰،الترغیب فی فضائل الاعمال وثواب ذلک لابن شاھین ۱۵۵

[53] صحیح بخاری کتاب  الاعتکاف بَابُ زِیَارَةِ المَرْأَةِ زَوْجَهَا فِی اعْتِكَافِهِ ۲۰۳۸، جامع ترمذی ابواب الرضاع بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الدُّخُولِ عَلَى الْمُغِیبَاتِ۱۱۷۲،سنن ابوداودکتاب الصیام بَابُ الْمُعْتَكِفِ یَدْخُلُ الْبَیْتَ لِحَاجَتِهِ ۲۴۷۰،مسنداحمد۱۲۵۹۲،صحیح ابن خزیمة۲۲۳۳، صحیح ابن حبان ۳۶۷۱،شعب الایمان ۶۳۸۱،مصنف ابن ابی شیبة۸۰۰۲، مسندابی یعلی ۳۴۷۰،مصنف عبدالرزاق ۸۰۶۵،شرح السنة للبغوی ۲۲۵۳

[54] حم السجدة۲۵

[55] الفرقان۲۷تا۲۹

[56]صحیح بخاری کتاب الاحکام بَابٌ الأُمَرَاءُ مِنْ قُرَیْشٍ۷۱۳۹

[57]النسائ۵۹

[58] مصنف ابن ابی شیبة۳۴۳۳۲

[59]النحل ۳۶

[60]النمل ۱۴

[61] الاعراف۱۳۰

[62]الاعراف۱۳۳

[63] الاعراف۱۳۴،۱۳۵

[64] النازعات۲۳تا۲۵

[65] طہ۲۷

[66] طہ۳۶

[67] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۸۴؍۱۰،المعجم الکبیرللطبرانی ۹۱۳

[68] الزخرف۴۵

[69] الانبیائ۹۸

[70] المائدہ۱۱۶،۱۱۷

[71] الانبیاء ۱۰۱ تا۱۰۳

[72] جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الزُّخْرُفِ ۳۲۵۳، سنن ابن ماجہ المقدمة بَابُ اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ ۴۸،مسند احمد ۲۲۱۶۴، المعجم الکبیرللطبرانی ۸۰۶۷،مستدرک حاکم ۳۶۷۴،شعب الایمان ۸۰۸۰

[73] آل عمران۴۹

[74] الحشر۷

[75] الحشر۲۳

[76] الانبیائ۴۰

[77] یٰسین۴۹،۵۰

[78]

[79] العنکبوت۲۵

[80] الرحمٰن۵۲

[81] فاطر۳۶

[82] البقرة۱۶۲

[83] المومنون۱۰۷،۱۰۸

[84] الطور۴۲

[85] النمل۵۰،۵۱

[86] الانبیائ۱۸

[87] الزمر۴

[88] الانبیائ۲۲

[89] الانعام۳

[90]بنی اسرائیل ۴۴

[91] الرعد۱۵

[92] الاعراف۱۸۷

[93] القصص۵۵

[94] الفرقان۶۳

[95] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ الدخان بَابُ یَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِیمٌ ۴۸۲۱،وکتاب الادب بَابُ تَسْمِیَةِ الوَلِیدِ ۶۲۰۰،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ الدُّخَانِ  ۷۰۶۶

Related Articles