بعثت نبوی کا ساتواں سال

مضامین سورۂ الانبیاء(حصہ دوم)

وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ ۖ وَآتَیْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِینَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِدْرِیسَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِینَ ‎﴿٨٥﴾‏ وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِی رَحْمَتِنَا ۖ إِنَّهُمْ مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٨٦﴾‏(الانبیاء
’’ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے،تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انھیں تھا اسے دور کردیا اور اس کو اہل و عیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے سبب نصیحت ہو،اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل (علیہم السلام) یہ سب صابر لوگ تھے، ہم نے انھیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا یہ سب لوگ نیک تھے۔‘‘

آزمائش ایوب علیہ السلام :

اوریہی ہوشمندی اورحکم وعلم کی نعمت ہم نے ایوب کودی تھی ،ہم نے انہیں   آزمائش میں   مبتلاکیاجس سے ان کے جانور،کھیتیاں  ،باغات ،بیویاں   ،لونڈیاں   ، غلام اورمال ومتاع وغیرہ سب کچھ ختم ہوگیاان مصائب میں   ان کی زبان سے ہمیشہ کلمہ شکرورضاکے سواکچھ نہ نکلا،اﷲتعالیٰ نے آزمائش کے طورپر شیطان رجیم کوآپ پرمسلط کر دیا،شیطان نے آپ کے جسم پرپھونک ماری جس سے جسم میں   جذام پھوٹ پڑاجس پرانہوں   نے شہرکے ایک ویران کونے میں   اپنی ایک بیوی کے ساتھ سکونت اختیار کر لی جوان کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ رزق کے لئے محنت مزدوری بھی کرتی تھیں  مگران بدترین حالات میں   ایوب علیہ السلام  نے صبروشکرکادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا،

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاءً؟( فَقَالَ: أَشَدُّ النَّاسِ بَلَاءً الْأَنْبِیَاءُ)ثُمَّ الصَّالِحُونَ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ مِنَ النَّاسِ، یُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى(  قَدْرِ) دِینِهِ، فَإِنْ كَانَ فِی دِینِهِ صَلابَةٌ زِیدَ فِی بَلائِهِ

مصعب رضی اللہ عنہ  بن سعدسے مروی ہےمیں   نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !سب سےزیادہ آزمائش کن لوگوں   کی ہوتی ہیں  ؟فرمایالوگوں   میں   سب سے زیادہ آزمائش انبیائے کرام پرآتی ہیں   ، پھرنیک لوگوں   پر اورپھران لوگوں   پرجودرجہ بدرجہ ان کے زیادہ قریب ہوں  ، آدمی کی آزمائش اس کے دین کے بقدرکی جاتی ہے، اگراس کے دین میں   پختگی ہوتوآزمائش میں   اوراضافہ کردیاجاتاہے۔[1]

خط کشیدہ الفاظ المعجم الکبیرللطبرانی میں   ہیں  ۔

چنانچہ ایک لمبے عرصہ کے بعدجب ایوب علیہ السلام نے اپنے رب کوپکاراتوکوئی شکوہ یاشکایت نہیں   کی بلکہ عرض کیاکہ اے میرے رب !مجھے بیماری لگ گئی ہے اورتو ارحم الرحمین  ہے، ایک مقام پر فرمایا

وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ۝۰ۘ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ۝۴۱ۭ [2]

ترجمہ: اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے تکلیف اور عذاب میں   ڈال دیا ہے۔

آغازمیں   انبیاء کوکیسی ہی آزمائشوں   سے سابقہ پڑاہومگرآخرکارانبیاء کی دعائیں   معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوتی رہی ہیں  ، اﷲتعالیٰ ہمیشہ غیرمعمولی طورپرنبیوں   کی مدد کرتا رہا ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام  کی دعاکوشرف قبولیت بخشا اورحکم دیااے ایوب علیہ السلام ! اپناپاؤں   زمین پرمار،تعمیل حکم میں  جیسے ہی انہوں   نے اپناپاؤں   زمین پرمارازمین سے ٹھنڈے اورمیٹھے پانی کاایک چشمہ ابلنے لگا، اﷲتعالیٰ نے فرمایااے ایوب علیہ السلام ! اس پانی کوپیواوراس سے نہاؤ ، جیسے فرمایا:

اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ۝۰ۚ ھٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ۝۴۲ [3]

ترجمہ: (ہم نے اسے حکم دیا)اپناپاؤں   زمین پرمار،یہ ہے ٹھنڈاپانی نہانے کے لئے اورپینے کے لئے ۔

چنانچہ تعمیل حکم میں   انہوں   نے پانی پیااورنہائے جس سے فوراًہی تمام اندرونی بیماریاں   اورغسل کرنے سے تمام ظاہری بیماریاں   دورہوگئیں  اس طرح اﷲتعالیٰ نے انہیں   شفا کاملہ عطاء فرمائی ان کے اہل وعیال ان کوواپس لوٹادیئے اور اپنی رحمت وکرم وفضل سے اتنے ہی اورعطاء فرمائے تاکہ اہل دانش کے لئے ایک سبق ہوکہ رب کے خزانوں   میں   کچھ کمی نہیں   مگروہ اپنے بندوں   کوآزمانے کے لئے ضرورت سے زائد دے دیتاہے کہ اس کابندہ اس کاشکرگزاربنتاہے یایہ کہتاہے کہ یہ سب مال ودولت اس کی تدبیراورمحنت کی وجہ سے ہے، اورکبھی مال واولاد دے کر واپس لے لیتاہے کہ اب میرابندہ صبروشکرکرتاہے یاآہ فغاں   میں   مبتلاہوجاتاہے،اس لئے ہرحال میں   صبرشکرکرنا چاہیے۔ اورپھرانہیں  صرف اس کے اہل وعیال ہی نہیں   دیے بلکہ اپنی خاص رحمت کے طورپر دوگنا عطا فرمائےاوراس لئے کہ یہ عبادت گزاروں   کے لئے ایک سبق ہو،جیسے فرمایا:

وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ۝۴۳  [4]

ترجمہ:ہم نے اسے اس کے اہل وعیال واپس دیے اوران کے ساتھ اتنے ہی اوراپنی طرف سے رحمت کے طورپراورعقل وفکر رکھنے والوں   کے لئے درس کے طور پر۔

اوران کی ان الفاظ میں   مدح فرمائی.

  اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا۝۰ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ۝۰ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ۝۴۴ [5]

ترجمہ:ہم نے اسے صابرپایا،بہترین بندہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا۔

رب کریم ہی تمام کائنات کاخالق ومالک ہے ، ہرطرح کی بادشاہی اسی کو زیب دیتی ہے اس کے خزانوں   میں   کچھ کمی نہیں   وہ چاہے توزمین اور پہاڑ سونے چاندی کے بنادے اوردرختوں   پر پھلوں   کے بجائے ہیرے وجواہرات اگا دے وہ اپنی مخلوق میں   سے جس کوچاہے بے اندازہ بخش دے اورجس کوچاہے محتاج بنا دے سب اسی کی ہی مصلحتیں   ہیں   وہ بہترجانتاہے کہ کس کوکیا اورکس قدردیناہے اور کس سے روک لیناہے،کوئی اس کوروک وٹوک نہیں   سکتا،کوئی مخلوق اس کی رحمت سے مستغنی نہیں   ،وہ  ایسے ایسے راستوں   سے اپنے بندوں   کونوازتاہے جس کاوہم وگمان بھی نہیں   کیاجاسکتا،جیسے فرمایا

وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَحَسْبُہٗ۔۔۔۝۳ [6]

ترجمہ:اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو ، جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے ۔

وَعَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:بَیْنَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًافَخَرَّ عَلَیْهِ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ  فَجَعَلَ أَیُّوبُ یَحْتَثِی فِی ثَوْبِهِ، فَنَادَاهُ رَبُّهُ: یَا أَیُّوبُ، أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَیْتُكَ عَمَّا تَرَى؟قَالَ: بَلَى وَعِزَّتِكَ، وَلَكِنْ لاَ غِنَى بِی عَنْ بَرَكَتِكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہےرسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایک مرتبہ ایوب علیہ السلام  برہنہ جسم غسل کررہے تھے، ان پراوپرسے سونے کی مکڑیاں   گرنے لگیں   توایوب علیہ السلام  مکڑیوں   کوسمیت سمیٹ کراپنے کپڑے میں   ڈالنے لگے،ایوب علیہ السلام  کوان کے پروردگارنے آوازدی اورفرمایااے ایوب !جوچیز آپ دیکھ رہے ہیں  کیااس سے ہم نے آپ کو مستغنی نہیں   کردیا؟انہوں   نے کہاکیوں   نہیں   تیری عزت کی قسم !لیکن تیری نعمت کی برکات سے مستغنی نہیں   ہوں  ۔[7]

اورہم نے اسماعیل علیہ السلام  ،ادریس علیہ السلام  اورذوالکفل علیہ السلام کوبھی منصب رسالت پرفائز کیا تھا، یہ سب نبی ،اللہ کی اطاعت ،اللہ کی نافرمانی ،اللہ کی نعمتوں   اورکفارکی اذیتوں   پر صبروشکر کرنے والے تھے اور ان کوہم نے اپنی رحمت میں   داخل کیاکہ وہ صالحین میں   سے تھے۔

وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادَىٰ فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّیْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٨٨﴾‏ وَزَكَرِیَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِی فَرْدًا وَأَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِینَ ‎﴿٨٩﴾‏ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ یَحْیَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ ‎﴿٩٠﴾‏(الانبیاء)
’’مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے،بالا آخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں میں ہوگیا، تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں، اور زکریا (علیہ السلام) کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ تو سب سے بہتر وارث ہے،  ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے یحییٰ (علیہ السلام) عطا فرمایا، اور ان کی بیوی کو ان کے لیے درست کردیا، یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھےاور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھےاور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔‘‘

اور یونس علیہ السلام بن متی کوبھی ہم نے منصب رسالت سے نوازکرموصل کے علاقے کی بستی نینواکی طرف بھیجاتھا،آپ نے اپنی قوم کوپوری خیرخواہی کے ساتھ دعوت توحیدپیش کی اور صراط مستقیم کی طرف بلایاکہ یہی نجات اورکامیابی کی راہ ہے اوراس راہ سے اعراض و انحراف تباہی وبربادی کا باعث ہے،جیسے فرمایا

 اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ۝۱۲۵ۙ [8]

ترجمہ:کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو۔

رب العالمین کی قدرتوں   وطاقتوں  کابیان کیا رب کی ہر سوبکھری ہوئی نشانیاں   دکھائیں   ،انہیں   پتھرکے بے جان،عقل وشعورسے بیگانہ باطل معبودوں   کی عبادت ،ان پر اعتکاف کرنے ، نذرانے چڑھانے اورمنتیں  ماننے سے روکا ،ان مورتیوں   کا آندھا،بہرہ اور گونگا ہوناثابت کیا، اوراس کاردفرمایاکہ پتھر کے یہ بے جان ٹکڑے رب کی خدائی میں  تصرف کاکوئی اختیار رکھتے ہیں   اس لئے ان کومدد کے لئے پکارنےاور ان سے امیدیں   وابستہ کرنے سے روکا ، گزشتہ اقوام جواپنے اعمال باطلہ کے سبب حرف غلط کی طرح مٹ گئیں   اوراوراق تاریخ پرعبرت کانمونہ بن گئیں   ان کی مثالوں   ،ان کے کرداروں   اوران کے باطل معبودوں   جن کو انہوں   نے اپنے حسن ظن سے خدائی صفات دے رکھی تھیں   کی بے بسی ولاچاری بیان فرمائی رحیم و کریم رب کے عفوودرگزر کرنے کی صفت عام بیان کر کے انہیں   توبہ واستغفار کرنے پرابھارا،توحیدکی راہ اختیارکرکے اوراعمال صالحہ پرانہیں  جنت اور اس کی نعمتوں  کی خوشخبریاں   دیں   اوراس راہ سے انحراف پررب کی گرفت اوراس کے عذاب سے ڈرایا جہنم اوراس کی ہولناکیوں   کوبیان کیا،  لیکن قوم  کے آسودہ حال لوگوں   نے ( کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں   میں   ہوتی ہے) اپنے معبودوں   کی قوت وطاقت پربھروسہ کرکے مطالبہ عذاب کردیا اس طرح وہ لوگ عذاب الہٰی کے مستحق قرارپائے،

وَوَعَدَهُمْ بِالْعَذَابِ بَعْدَ ثَلَاثٍ

یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کودھمکی دی کہ تین دن کے بعد تم عذاب الہٰی کی گرفت میں   آ جاؤ گے۔

رب کی حکمتیں   رب ہی جانے اﷲتعالیٰ کی طرف سے عذاب میں   تاخیرہوئی اور قبل اس کے کہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے یونس علیہ السلام  کوقوم کوچھوڑنے اور ہجرت کاحکم آتا جس سے ان کے لئے اپنی ڈیوٹی کی جگہ سے ہٹنا جائزہوتا،بے صبری سے آنے والے عذاب سے پہلے دل میں   یہ گمان کرکے کہ اب جبکہ رب کا عذاب آنے ہی والاہے اگروہ اپنامستقراور اپنی قوم کوچھوڑکرچلے بھی جائیں   تورب کی ان پر گرفت نہیں   ہوگی ، اس حسن ظن کی بنیادپروہ اپنی قوم سے ناراض ہوکرترشیش (جہاں   آجکل تیونس آبادہے) جانے کے لیے سمندرپرجاکرایک کشتی میں   سوارہوگئے جس کشتی میں   آپ سوارہوئے وہ پہلے ہی اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی ،کشتی ابھی کچھ دورہی پہنچی تھی کہ سمندرمیں   چاروں  طرف سے موجیں   اٹھیں   اور سخت طوفان آگیا جس سے کشتی سمندرکی موجوں   میں   گھرگئی اورکھڑی ہو گئی ،سب مسافروں   کوکشتی ڈوبنے کایقین اوراپنی موت نظرآنے لگی چنانچہ کشتی کاوزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کوکشتی سے سمندرمیں   پھینکنے کی تجویزسامنے آئی تاکہ کشتی میں   سوارباقی انسانوں   کی جانیں   بچ جائیں   ،لیکن یہ قربانی دینے کے لئے کوئی تیارنہیں   تھااس لئے کشتی میں   تین مرتبہ قرعہ اندازی کرنی پڑی ،جس میں   ہرمرتبہ یونس علیہ السلام  کانام آیا اور وہ مغلوبین میں   سے ہو گئے ،چنانچہ یونس علیہ السلام  نے طوعاًوکرااپنے آپ کوبھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندرکی موجوں   کے سپرد کردیا، ادھر اﷲتعالیٰ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی (غالبا وہیل مچھلی)نے آپ علیہ السلام  کوثابت ہی نگل لیااورسمندرمیں   پھرنے لگی،جیسے فرمایا:

اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۱۴۰ۙفَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ۝۱۴۱ۚفَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَمُلِـیْمٌ۝۱۴۲ [9]

ترجمہ:یادکروجب وہ ایک بھری کشتی کی طرف بھاگ نکلا،پھرقرعہ اندازی میں   شریک ہوااوراس میں   مات کھائی ،آخرکارمچھلی نے اسے نگل لیااوروہ ملامت زدہ تھا۔

اب یونس علیہ السلام  کو خیال آیا کہ ان سے نافرمانی سرزد ہو گئی ہے اور انہوں   نے رب کے حکم کے بغیرشہر کو چھوڑ کر چلا آنے میں   بے صبری اور جلد بازی کا ثبوت دیاہے تو وہ اپنے آپ کواس فعل پر ملامت کرنے لگے، یونس علیہ السلام  جوفراغی ، کشادگی اورامن وامان کی حالت میں   رب کی بڑی پاکیزگی بیان کرنے والے تھے انہوں   نے مچھلی کے پیٹ میں   بھی رب کی عظمت وپاکیزگی ،اپنے قصوروارہونے کا اعتراف کرکے رب کے حضورتوبہ کی تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔

فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۸۷ۚ [10]

ترجمہ: آخر کو اس نے تاریکیوں   میں   سے پکارا نہیں   ہے کوئی الٰہ مگر تو ، پاک ہے تیری ذات ، بیشک میں   قصوروار ہوں  ۔

اﷲتعالیٰ جودکھی دلوں   اوراپنے محبوب بندوں   کی پکارکو سنتا ہے نے یونس علیہ السلام  کی فریاد کو سنا اوراپنی رحمت خاص فرماکر انہیں   زندہ سلامت مچھلی کے پیٹ سے باہرنکال لائے اور فرمایا جب ہمارے مومن بندے اپنی مشکلات اورپریشانیوں   میں   ہمیں   پکارتے ہیں   تواسی طرح ہم مومنوں   کو بچالیا کرتے ہیں   ،

عَنِ أبِیهِ سَعْدٍ، قَالَ: مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِی الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ، فَمَلأ عَیْنَیْهِ مِنِّی ثُمَّ لَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ السَّلامَ، فَأَتَیْتُ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، هَلْ حَدَثَ فِی الْإِسْلامِ شَیْءٌ؟ مَرَّتَیْنِ قَالَ: لَا. وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا. إِلا أَنِّی مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ آنِفًا فِی الْمَسْجِدِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ فَمَلأ عَیْنَیْهِ مِنِّی، ثُمَّ لَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ السَّلامَ. قَالَ: فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى عُثْمَانَ فَدَعَاهُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَكُونَ رَدَدْتَ عَلَى أَخِیكَ السَّلامَ؟ قَالَ عُثْمَانُ: مَا فَعَلْتُ

سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےمیں   مسجدمیں   سیدناعثمان  رضی اللہ عنہ بن عفان کے پاس سے گزراتومیں   نے آپ کو سلام کیاانہوں   نے آنکھیں   بھرکرمجھے دیکھامگرمیرے سلام کاجواب نہ دیا،میں   امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی خدمت میں   حاضرہوااورمیں   نے عرض کی اے امیرالمومنین !کیااسلام میں   کوئی نئی چیزپیداہوگئی ہے؟ میں   نے دوبارہ یہ عرض کی، آپ نے فرمایانہیں  ،کیابات ہے؟میں   نے عرض کی کوئی بات نہیں  ،البتہ میں   ابھی ابھی مسجدمیں   سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا میں   نے انہیں   سلام کیا انہوں   نے مجھے آنکھیں   بھرکردیکھامگرمیرے سلام کاجواب نہ دیا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیج کرسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کوبلایااورفرمایاکہ آپ نے اپنے بھائی کے سلام کاجواب کیوں   نہ دیا،

قَالَ سَعْدٌ: قُلْتُ: بَلَى. قَالَ: حَتَّى حَلَفَ وَحَلَفْتُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ ذَكَرَ، فَقَالَ: بَلَى، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَیْهِ إِنَّكَ مَرَرْتَ بِی آنِفًا، وَأَنَا أُحَدِّثُ نَفْسِی بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَا وَاللَّهِ مَا ذَكَرْتُهَا قَطُّ إِلا تَغَشَّى بَصَرِی وَقَلْبِی غِشَاوَةٌ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ: فَأَنَا أُنْبِئُكَ بِهَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ لَنَا أَوَّلَ دَعْوَةٍ، ثُمَّ جَاءَ أَعْرَابِیٌّ فَشَغَلَهُ حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاتَّبَعْتُهُ فَلَمَّا أَشْفَقْتُ أَنْ یَسْبِقَنِی إِلَى مَنْزِلِهِ، ضَرَبْتُ بِقَدَمِی الْأَرْضَ،

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ  نے جواب دیانہیں   ایسی کوئی بات نہیں  ، سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں   میں   نے کہا کیوں   نہیں  !حتی کہ انہوں   نے بھی قسم کھائی اورمیں   نے بھی قسم کھائی،راوی کہتے ہیں   کہ پھرسیدناعثمان  رضی اللہ عنہ کوبات یادآئی توانہوں   نے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفارکی اورکہاہاں  ،آپ کاابھی ابھی میرے پاس سے گزرہواتھااورمیں   اس وقت اپنے دل میں   ایک بات سوچ رہاتھاجسے میں   نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناتھااللہ کی قسم !میں   جب بھی اس بات کویادکرتاہوں   تومیری آنکھوں   اوردل پرپردہ چھاجاتاہے،سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں   میں   نے عرض کی کہ میں   وہ بات بتاتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمارے سامنے اول دعاکاذکرفرمایاپھرایک اعرابی آیااوراس نے آپ کومشغول کردیاحتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوگئےمیں   بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا،جب مجھے یہ خدشہ لاحق ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حجرے کے اندرتشریف لےجائیں   گے تومیں   نے زمین پراپناپاؤں   مارا

فَالْتَفَتَ إِلَیَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : فَقَالَ:مَنْ هَذَا أَبُو إِسْحَاقَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: فَمَهْ . قَالَ: قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ، إِلا أَنَّكَ ذَكَرْتَ لَنَا أَوَّلَ دَعْوَةٍ ثُمَّ جَاءَ هَذَا الْأَعْرَابِیُّ فَشَغَلَكَ، قَالَ: نَعَمْ دَعْوَةُ ذِی النُّونِ إِذْ هُوَ فِی بَطْنِ الْحُوتِ: {لَا إِلَهَ إِلا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ} [11]فَإِنَّهُ لَمْ یَدْعُ بِهَا مُسْلِمٌ رَبَّهُ فِی شَیْءٍ قَطُّ إِلا اسْتَجَابَ لَهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میری طرف التفات کرتے ہوئے فرمایاکون ہیں  ،ابواسحاق ہیں  ،میں   نے عرض کی ہاں   اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکیابات ہے؟میں   نے عرض کی نہیں   اللہ کی قسم !کوئی بات نہیں  البتہ آپ نے دعاکاذکرفرمایاتھاپھروہ اعرابی آگیااوراس نے آپ کومشغول کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  ،مچھلی والے پیغمبرکی دعاجوانہوں   نے مچھلی کے پیٹ میں   کی تھی’’  نہیں   ہےکوئی الٰہ مگرتو،پاک ہے تیری ذات بے شک میں   نے قصورکیا۔‘‘ جومسلمان اپنے رب سے کسی بھی چیزکے بارے میں   یہ دعاکرے تواللہ تعالیٰ اس کی دعاکوضرورشرف قبولیت سے نوازتاہے۔[12]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَلَوْلَآ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ۝۱۴۳ۙلَـلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖٓ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۱۴۴ۚ [13]

ترجمہ: اب اگروہ تسبیح کرنے والوں   میں   سے نہ ہوتا تو روزقیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں   رہتا ۔

عَنْ سَعْدٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: دَعْوَةُ ذِی النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِی بَطْنِ الحُوتِ: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ، فَإِنَّهُ لَمْ یَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِی شَیْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ

سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایایونس علیہ السلام  نے مچھلی کے پیٹ میں   جودعاپڑھی،’’  نہیں   ہےکوئی الٰہ مگرتو،پاک ہے تیری ذات بے شک میں   نے قصورکیا۔‘‘جو مسلمان بھی اس دعاکے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعامانگے تواللہ اسے قبول فرماتا ہے۔[14]

عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: من دَعَا بِدُعَاءِ یُونُسَ، استُجِیب لَهُ ،قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: یُرِیدُ بِهِ {وَكَذَلِكَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ}

سعد رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجس نے یونس علیہ السلام کی دعامانگی اس کے لیے قبول کی جائے گی ابوسعیدکہتے ہیں   کہ آپ کااشارہ اس ارشادباری کی طرف ہے ’’اوراسی طرح ہم مومنوں   کو بچالیاکرتے ہیں  ۔‘‘ [15]

اورزکریا علیہ السلام  کوجبکہ محراب میں   کھڑے ہوکر اپنے رب کوپکاراکہ اے پروردگار !مجھے اکیلانہ چھوڑاوربہترین وارث توتوہی ہے ،یعنی تواولاد نہ بھی دے توکوئی غم نہیں   ، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لئے کافی ہے ،ایک مقام پر فرمایا

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِیًّا۝۴وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَاۗءِیْ وَكَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا۝۵ۙ [16]

ترجمہ: اس نے عرض کیا اے پروردگار !میری ہڈیاں   تک گُھل گئی ہیں   اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے، اے پرور دگار ! میں   کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں   رہا،مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں   کی برائیوں   کاخوف ہے اورمیری بیوی بانجھ ہے تومجھے اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو۔

ایک مقام پر فرمایا:

ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ۝۰ۚ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً۝۰ۚ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَاۗءِ۝۳۸  [17]

ترجمہ:یہ حال دیکھ کرزکریا علیہ السلام  نے اپنے رب کوپکاراپروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولادعطاکرتوہی دعاسننے والاہے۔

پس ہم نے اس کی دعاکوشرف قبولیت بخشا اوراسے یحییٰ علیہ السلام  عطاکیا اور اس کی بوڑھی بیوی کے بانجھ پن کاازالہ فرما کر اسے نیک بچہ عطافرمایا ،جیسے فرمایا

فَنَادَتْهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَھُوَقَاۗىِٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ۝۰ۙ اَنَّ اللهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللهِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۳۹ [18]

ترجمہ:جواب میں   فرشتوں   نے آواز دی جبکہ وہ محراب میں   کھڑا نمازپڑھ رہاتھاکہ اﷲ تجھے یحییٰؑ کی خوش خبری دیتاہے،وہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والابن کرآے گااس میں   سرداری وبزرگی کی شان ہوگی،کمال درجہ کا ضابط ہوگا،نبوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں   شمارکیا جائے گا۔

یٰزَكَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِۨ اسْمُهٗ یَحْــیٰى۝۰ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا۝۷ [19]

ترجمہ:(جواب دیا گیا ) اے زکریا !ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں   جس کا نام یحییٰ ہوگا ہم نے اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں   کیا۔

یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں   ،الحاح وزاری کے ساتھ دعاو مناجات ، نیکی کے کاموں   میں  سبقت ، خوف وطمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہمیں   پکارتے اورہمارے سامنے عاجزی اورخشوع و خضوع،تذلیل اورانکساری کا اظہار کرتے تھے۔

وَالَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آیَةً لِلْعَالَمِینَ ‎﴿٩١﴾‏ إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ‎﴿٩٢﴾‏ وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ ۖ كُلٌّ إِلَیْنَا رَاجِعُونَ ‎﴿٩٣﴾‏ فَمَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ ‎﴿٩٤﴾(الانبیاء)
’’اور وہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور خود انہیں اور ان کے لڑکے کو تمام جہان کے لیے نشانی بنادیا،یہ تمہاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو، مگر لوگوں نے آپس میں اپنے دین میں فرقہ بندیاں کرلیں، سب کے سب ہمارے ہی طرف لوٹنے والے ہیں، پھر جو بھی نیک عمل کرے اور وہ مومن (بھی) ہو تو اسکی کوشش کی بےقدری نہیں کی جائیگی ،ہم تو اس کے لکھنے والے ہیں۔‘‘

اورمریم علیہ السلام جس نے حرام کے قریب جانے سے بلکہ حلال سے بھی اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی،وہ ہمہ وقت عبادت میں   مشغول رہتی تھیں  ،ایک دن جبرائیل علیہ السلام ایک خوبصورت مردکی شکل میں   مریم علیہ السلام کے پاس آئے تومریم علیہ السلام  ڈرگئیں   اور کہا

قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا۝۱۸ [20]

ترجمہ:مریم یکایک بول اٹھی کہ اگرتوکوئی خدا ترس آدمی ہے تومیں   تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں  ۔

جبرائیل علیہ السلام نے کہا

قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ۝۰ۤۖ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا۝۱۹ [21]

ترجمہ:اس نے کہا میں   توتیرے رب کافرستادہ ہوں   اوراس لئے بھیجاگیاہوں   کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکادوں  ۔

مریم علیہ السلام نے کہا

قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَكُ بَغِیًّا۝۲۰ [22]

ترجمہ : مریم نے کہامیرے ہاں   کیسے لڑکاہوگاجبکہ مجھے کسی بشرنے چھواتک نہیں   ہے اورمیں   کوئی بدکارعورت نہیں   ہوں  ۔

جبرائیل علیہ السلام نے کہا

قَالَ كَذٰلِكِ۝۰ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَعَلَیَّ هَیِّنٌ۝۰ۚ وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا۝۰ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۝۲۱ [23]

ترجمہ:فرشتے نے کہاایساہی ہوگا،تیرارب فرماتاہے کہ ایسا کرنامیرے لئے بہت آسان ہے اورہم یہ اس لئے کریں   گے کہ اس لڑکے کولوگوں   کے لئے ایک نشانی بنائیں   اوراپنی طرف سے ایک رحمت،اوریہ کام ہوکر رہنا ہے۔

فرمایا ہم نے اس کے اندر اپنی روح سے پھونکا،جیسے فرمایا

وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا۔۔۔۝۱۲ۧ [24]

ترجمہ: اورعمران کی بیٹی مریم کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی پھرہم نے اس کے اندراپنی طرف سے روح پھونک دی۔

اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللهِ وَكَلِمَتُهٗ۝۰ۚ اَلْقٰىهَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ۝۰۝۱۷۱ۧ  [25]

ترجمہ:مسیح ابن مریم علیہ السلام اس کے سواکچھ نہ تھاکہ اللہ کاایک رسول تھا اور ایک فرمان تھاجواللہ نے مریم کی طرف بھیجااورایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں   بچہ کی شکل اختیارکی)۔

اوریہی بات آدم علیہ السلام کے متعلق فرمائی

 اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ۝۷۱فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ۝۷۲ [26]

ترجمہ:جب تیرے رب نے فرشتوں   سے کہا میں   مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں  ،پس (اے فرشتو)جب میں   اسے پورابنالوں   اوراس میں   اپنی روح سے پھونک دوں   توتم اس کے آگے سجدے میں   گر جانا۔

اس لئے اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام  اورعیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو مشابہ قراردیتاہے۔

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ۝۰ۭ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۵۹  [27]

ترجمہ: عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کواللہ نے مٹی سے بنایاپھرفرمایاہوجااوروہ ہوجاتاہے۔

اورہم نے مریم اوراس کے بیٹے مسیح کودنیا بھرکے لئے نشانی بنادیا ، جیسے فرمایا:

۔۔۔وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا۔۔۔۝۲۱ [28]

ترجمہ:تاکہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنا دیں   اپنی قدرت و عنایت کی سب لوگوں   کے لیے۔

یعنی مریم اورعیسیٰ علیہ السلام دونوں  نہ تو الٰہ تھے اورنہ ہی اللہ کی سلطنت میں   شریک تھے بلکہ اللہ کی بے شمارنشانیوں   میں   سے ایک نشانی تھے، حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء کاایک ہی دین رہا ہے اوروہ ہے دین اسلام، اورتمام انبیاء کی دعوت ،دعوت توحید ہی تھی،

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْأَنْبِیَاءُ إِخْوَةٌ مِنْ عَلَّاتٍ، وَأُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى، وَدِینُهُمْ وَاحِدٌ فَلَیْسَ بَیْنَنَا نَبِیٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہم انبیاء کی جماعت اولادعلات ہیں  (جن کاباپ ایک اورمائیں   مختلف ہوں   ) ہمارادین ایک ہی ہے،اورمیرے اوران کےبیچ میں   کوئی اورنبی نہیں   ہے۔[29]

اگرچہ احکامات شرع مختلف ہیں  ، جیسے فرمایا

۔۔۔ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا۔۔۔۝۰۝۴۸ۙ [30]

ترجمہ:ہم نے تم (انسانوں  )میں   سے ہرایک کے لئے ایک شریعت اورایک راہ عمل مقررکی۔

اورمیں   تمہارا معبودحقیقی ہوں  پس تم ہرطرف سے منہ موڑکریکسوہوکرصرف میری عبادت کرو، مگر یہ لوگوں   کی کارستانی ہے کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر ، عبادت رب سے منہ موڑکر مختلف فرقوں   اور گروہوں   میں   بٹ گئے ،ایک گروہ توکفارومشرکین کاہوگیا،انبیاء ورسل کے ماننے والے بھی فرقوں   میں   بٹ گئے کوئی یہودی ہوگیااورکوئی عیسائی اورپھران کے بھی مختلف گروہ بن گئے،اوربدقسمتی سے مسلمانوں   میں   بھی فرقہ بندیاں   پیداہو گئیں   اوریہ بیسیوں   فرقوں   میں   تقسیم ہوگئے اورہرفرقہ دعویٰ کرتاہے کہ حق اس کے ساتھ ہے اوردوسرافرقہ باطل ہے۔

۔۔۔كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲ [31]

ترجمہ:ہرایک گروہ کے پاس جوکچھ ہے اسی میں   وہ مگن ہے ۔

مگرایک دن سب کوہماری بارگاہ میں   حاضرہوناہے اورہم ٹھیک ٹھیک فیصلہ کریں   گے، جوشخص اللہ وحدہ لاشریک پر،اس کے رسولوں   پر،اس کی نازل کردہ کتابوں   پر،فرشتوں   پر،اچھی بری تقدیرپرکامل ایمان لایااور اعمال صالحہ اختیارکیے تواس کے اعمال اکارت نہ جائیں   گے، جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا۝۳۰ۚ [32]

ترجمہ: رہے وہ لوگ جومان لیں   اورنیک عمل کریں   تویقیناًہم نیکوکار لوگوں   کااجرضائع نہیں   کیاکرتے۔

اورہم سب کے نامہ اعمال تحریرکر رہے ہیں  ۔

وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْیَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِینَ كَفَرُوا یَا وَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِی غَفْلَةٍ مِنْ هَٰذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِینَ ‎﴿٩٧﴾(الانبیاء)
’’اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے، اور سچا وعدہ قریب آلگے گا اس وقت کافروں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، کہ ہائے افسوس ! ہم اس حال سے غافل تھے بلکہ فی الواقع ہم قصوروار تھے۔‘‘

جلیل القدرپیغمبروں   کے مختصرواقعات بیان کرنے کے بعدقیامت کاذکرفرمایاکہ جس بستی کوہم نے ہلاک کردیاہواس کے لئے نا ممکن ہے کہ وہ پھراپنی کوتاہیوں   کی تلافی کی خاطردنیامیں  پلٹ سکے،جیسے فرمایا

اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّہُمْ اِلَیْہِمْ لَا یَرْجِعُوْنَ۝۳۱ۭ [33]

ترجمہ:کیا انہوں   نے دیکھا نہیں   کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں   کو ہم نے ہلاک کر چکے ہیں   اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے ؟ ۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَجَبَ، یَعْنِی: قَدَرًا مُقَدرًا أَنَّ أَهْلَ كُلِّ  قَرْیَةٍ  أُهْلِكُوا أَنَّهُمْ لَا یُرْجَعُونَ إِلَى الدُّنْیَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں   یہ بات مقدرکردی گئی ہے کہ جس بستی کے لوگوں   کوبھی ہلاک کر دیا جائے وہ قیامت تک دوبارہ کبھی دنیامیں   نہیں   آئیں   گے۔ [34]

ایک وقت مقررہ پراللہ تعالیٰ یاجوج وماجوج کوکھول دے گا اوروہ نہایت تیزی کے ساتھ ہربلندی سے نکل کرزمین پر چھاجائیں   گے اورقیامت قائم ہونے کاوقت قریب آلگے گا،جیسے فرمایا

قَالَ ھٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّیْ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَہٗ دَكَّاۗءَ۝۰ۚ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا۝۹۸ۭوَتَرَكْنَا بَعْضَہُمْ یَوْمَىِٕذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰہُمْ جَمْعًا۝۹۹ۙ [35]

ترجمہ:ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے،اور اس روز ہم لوگوں   کو چھوڑ دیں   گے کہ (سمندر کی موجوں   کی طرح )ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں   اورصورپھونکاجائے گااورہم سب انسانوں   کوایک ساتھ جمع کریں   گے۔

عُبَیْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ، قَالَ: رَأَى ابُن عَبَّاسٍ صِبْیَانًا یَنْزُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، یَلْعَبُونَ، فَقَالَ ابن عباس: هكذایَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ

عبیداللہ بن ابویزیدسے روایت ہےابن عباس رضی اللہ عنہ  نے کچھ بچوں   کودیکھاجوکھیلتے ہوئے ایک دوسرے کے اوپرکودرہے تھے توآپ نے فرمایایاجوج وماجوج بھی اسی طرح کودتے پھلانگتے ہوئے نکلیں   گے۔[36]

عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَةٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم، فَذَكَرْنَا السَّاعَةَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَنْ تَكُونَ – أَوْ لَنْ تَقُومَ – السَّاعَةُ حَتَّى یَكُونَ قَبْلَهَا عَشْرُ آیَاتٍ: طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ، وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَالدَّجَّالُ، وَعِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ، وَالدُّخَانُ، وَثَلَاثَةُ خُسُوفٍ، خَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِجَزِیرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ، مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ، تَسُوقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ

حذیفہ بن اسیدغفاری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے کے سائے میں   بیٹھے باتیں   کررہے تھے کہ ہم نے قیامت کاذکرکیااورہماری آوازیں   بلندہوئیں   تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایاقیامت اس وقت تک ہرگزنہیں   آئے گی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں   ظاہرنہ ہوں  ،سورج کامغرب کی جانب سے طلوع ہونااوردابتہ الارض کا ظاہر ہونا اوریاجوج ماجوج کاظہورہونااور دجال کاخروج کرنااورعیسیٰ ابن مریم کانزول اور دخان یعنی دھواں   اورتین بڑے خسوف (زمین کادھنسنا)ایک مشرق میں  ،دوسرا مغرب میں   اورتیسراجزیرة العرب میں  اورپھرسب سے آخرمیں   یمن سے ایک سخت آگ اٹھے گی جولوگوں   کومحشرکی طرف ہانکے گی (علاقہ شام میں   جمع کردے گی) ۔[37]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی یاجوج ماجوج کی یورش کاذکرکرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

فَإِنَّ السَّاعَةَ كَالْحَامِلِ الْمُتِمِّ، الَّتِی لَا یَدْرِی أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلَادَتِهَا لَیْلًا أَوْ نَهَارًا

اس وقت قیامت اس قدر قریب ہوگی ، جیسے پورے پیٹوں   کی حاملہ کہ نہیں   کہہ سکتے کب وہ بچہ جن دے ،رات کویادن کو۔[38]

قیامت کی ہولناکیوں   کودیکھ کرمکذبین کی آنکھیں   پھٹی کی پھٹی رہ جائیں   گے اوراپنی خطاؤں   پرندامت اورحسرت کاصاف صاف اظہار کرتے ہوئے کہیں   گے ہائے ہماری کم بختی!انبیاء کرام نے ہمیں   اس دن سے خبردار کیا تھا مگرہم دنیاکی دلفریبیوں میں   لگ کر اس عظیم دن کی طرف سے غفلت میں   پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطاکار تھے۔

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ‎﴿٩٨﴾‏ لَوْ كَانَ هَٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٩٩﴾‏ لَهُمْ فِیهَا زَفِیرٌ وَهُمْ فِیهَا لَا یَسْمَعُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ‎﴿١٠١﴾‏لَا یَسْمَعُونَ حَسِیسَهَا ۖ وَهُمْ فِی مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ ‎﴿١٠٢﴾‏ لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِی كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ‎﴿١٠٣﴾(الانبیاء)
’’تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہوسب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو ،اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہ وہاں چلا رہے ہوں گے اور وہاں کچھ بھی نہ سن سکیں گے ، البتہ بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہےوہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے، وہ تو دوزخ کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور اپنی من بھاتی چیزوں میں ہمیشہ رہنے والے ہونگے،وہ بڑی گھبراہٹ (بھی) انھیں غم گین نہ کرسکے گی اور فرشتے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم وعدہ دیئے جاتے رہے۔‘‘

اوراے وہ لوگوجو اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرے معبودوں   کی عبادت کرتے ہو،بیشک تمہیں   اورتمہارے معبودوں   کوجہنم میں   جھونکاجائے گا،جیسے فرمایا:

 فَاتَّقُوا  النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ۝۰ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ۝۲۴ [39]

ترجمہ:ڈرواس آگ سے جس کاایندھن بنیں   گے انسان اورپتھرجومہیاکی گئی ہے منکرین حق کے لئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزِّبَعْرَى إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَنَزَلَ عَلَیْكَ هَذِهِ الْآیَةَ: {إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ} ، فَقَالَ ابْنُ الزِّبَعْرَى: قَدْ عُبدت الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالْمَلَائِكَةُ، وعُزَیر وَعِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ، كُلُّ هَؤُلَاءِ فِی النَّارِ مَعَ آلِهَتِنَا؟فَقَالَ:كُلُّ مَنْ أحَبَّ أَنْ یُعْبَدَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَهُوَ مَعَ مَنْ عَبَدَهُ،  إِنَّهُمْ إِنَّمَا یَعْبُدُونَ الشَّیَاطِینَ  وَمَنْ أمَرَتْهُم  بِعِبَادَتِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعبداللہ بن الزبعری نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں   حاضرہوا اورکہا تیراخیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے’’ بیشک تم اور تمہارے وہ معبودجنہیں   تم اللہ کوچھوڑکرپوجتے ہوجہنم کاایندھن ہیں  وہیں   تم کوجاناہے۔‘‘عبداللہ بن الزبغری نے اعتراض کیااگریہ سچ ہے تو اس طرح توصرف ہمارے ہی معبودنہیں  ،مسیح اورعزیراورملائکہ بھی جہنم میں   جائیں   گے کیونکہ دنیامیں   ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہاں  ہروہ شخص جس نے پسندکیاکہ اللہ کے بجائے اس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں   کے ساتھ ہوگاجنہوں   نے اس کی بندگی کی،یہ بزرگ اپنی عبادتیں   نہیں   کراتے تھے بلکہ یہ لوگ توانہیں   نہیں   بلکہ شیطان کی پرستش کر رہے ہیں  اسی نے انہیں   ان کی عبادت کی راہ بتلائی ہے۔[40]

اگرتم اپنے شرک سے بازنہ آئے تووہیں   تم کوجاناہے،اگریہ واقعی الٰہ ہوتے تو بااختیار ہوتے پھر نہ خودجہنم کے عذاب میں   مبتلا ہوتے اور تمہیں   بھی داخل ہونے سے روک دیتے ،اب تم دونوں   عابدومعبود ہمیشہ اسی عذاب میں   مبتلا رہوگے ، جیسے فرمایا:

لِیُـبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ۝۳۹ [41]

ترجمہ: اور ایساہونااس لئے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں   یہ اختلاف کررہے ہیں  اورمنکرین حق کومعلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے ۔

شدت غم والم سے وہ پھنکارے ماریں   گے اورحال یہ ہو گا کہ جہنم میں   کان پڑی آوازنہ سنائی دے گی،جیسے فرمایا:

فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّشَهِیْقٌ۝۱۰۶ۙ [42]

ترجمہ: جو بدبخت ہوں   گے وہ دوزخ میں   جائیں   گے (جہاں   گرمی اورپیاس کی شدت سے)وہ ہانپیں   گے اورپھنکارے ماریں   گے ۔

رہے وہ لوگ جودنیامیں   دعوت حق پرایمان لائے اوراعمال صالحہ اختیارکیے ، ایسے لوگوں   کے بارے میں   اللہ وعدہ فرماچکاہے کہ وہ اس کے عذاب سے محفوظ ہوں   گے اوروہ یقیناًجہنم کے عذاب سے اس قدر دوررکھے جائیں   گے کہ اس کی سرسراہٹ تک نہ سنیں   گے اوروہ ہمیشہ ہمیشہ جنت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتوں   میں   ہوں   گےجسے کسی آنکھ نے نہیں   دیکھانہ کسی کان نے سناہے اورنہ کسی کے دل میں   ان کے طائرخیال کا گزرہواہے ،جیسے فرمایا:

لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ  ۔۔۔۝۲۶ [43]

ترجمہ:جن لوگوں   نے بھلائی کاطریقہ اختیارکیاان کے لئے بھلائی ہے اور مزید فضل۔

ایک مقام پر فرمایا

هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۝۶۰ۚ [44]

ترجمہ:نیکی کابدلہ نیکی کے سوااورکیاہوسکتاہے ۔

اورروز محشر اللہ کی بارگاہ میں   پیشی کے وقت جبکہ میدان میں   جہنم غیض وغضب سے پھٹی جارہی ہوگی،جیسے فرمایا

تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۔۔۔۝۸ [45]

ترجمہ:شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔

اوراس میں   سے ہولناک آوازیں   بلندہورہی ہوں   گی وہ خوف وحزن کے بجائے اطمینان سے ہوں   گے،جیسے فرمایا

یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ۝۶۸ۚ [46]

ترجمہ:اے میرے بندو!اآج تمہارے لئے کوئی خوف نہیں   اورنہ تمہیں  کوئی غم لاحق ہوگا۔

بلکہ ان کااستقبال خندہ پیشانی سے ہوگا، جنت کے آٹھوں   دروازوں   پراوراس کے اندرملائکہ بڑھ کران کوہاتھوں   ہاتھ لیں   گے،ہرطرف سلامتی سلامتی کی آوازیں   ہوں   گی اورملائکہ اہل جنت کوکہیں   گے کہ یہ تمہاراوہی دن ہے جس کاتم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

یَوْمَ نَطْوِی السَّمَاءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَیْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِینَ ‎﴿١٠٤﴾‏ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ ‎﴿١٠٥﴾‏ إِنَّ فِی هَٰذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِینَ ‎﴿١٠٦﴾(الانبیاء)
’’ جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں، جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے (ہی) رہیں گے، ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے  (ہی) ہوں گے، عبادت گزار بندوں کے لیے تو اس میں ایک بڑا پیغام ہے۔‘‘

روزقیامت ہم تہ بہ تہہ ساتوں   آسمانوں  کوان کی عظمت ووسعت کے باوجود یوں   لپیٹ کررکھ دیں   گے جیسے کاتب طوماراوررجسٹرلپیٹ دیتاہے،جیسے فرمایا

وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهٖ۝۰ۤۖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ۔۔۔ [47]

ترجمہ:ان لوگوں   نے اللہ کی قدرہی نہ کی جیساکہ اس کی قدرکرنے کاحق ہے (اس کی قدرت کاحال تویہ ہے کہ)قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں   ہوگی اورآسمان اس کے دست راست میں   لپٹے ہوئے ہوں   گے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ یَقْبِضُ یَوْمَ القِیَامَةِ الأَرْضَ، وَتَكُونُ السَّمَوَاتُ بِیَمِینِهِ، ثُمَّ یَقُولُ:  أَنَا المَلِكُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاقیامت کے روززمین اس کی مٹھی میں   ہوگی اورآسمان اس کے داہنے ہاتھ میں   ہوگاپھرکہے گاکہ میں   بادشاہ ہوں  ۔[48]

اورجس طرح ہم نے مخلوق کوابتدامیں   پیداکیاتھا اسی طرح پھران کوپیدا کریں   گے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا،كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُهُ، وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِینَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دن خطبہ ارشادفرمایاتم قیامت کے دن اللہ کے سامنے ننگے پاؤں  ،ننگے بدن اوربے ختنہ حشرکیے جاؤگے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ’’جس طرح ہم نے شروع میں   اسے پیداکیاتھااسی طرح ہم اسے پھرلوٹائیں   گے،یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے،یقیناًہم ایساضرورکرنے والے ہیں   ۔‘‘[49]

اورجوابتداپرقادرتھاوہ اعادہ پراس سے زیادہ قادرہے ، تمام کائنات نیست ونابودہوجائے گی اورپھرنئے سرے سے نئے قوانین کے ساتھ بنائی جائے گی۔ ہم زبورمیں   نصیحت کے بعدیہ لکھ چکے ہیں   کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں   گے،بعض اس کی تفسیر دنیاکی زمین پراہل ایمان کاتسلط کرتے ہیں  اوراس کی تائیدمیں   یہ آیت پیش کرتے ہیں  ۔

۔۔۔اِنَّ الْاَرْضَ لِلهِ۝۰ۣۙ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ۔۔۔  ۝۱۲ [50]

ترجمہ:زمین اللہ کی ہے ،اپنے بندوں   میں   سے جس کوچاہتاہے اس کاوارث بناتاہے۔

لیکن یہ تفسیرقرآن کی مجموعی تعلیمات کے خلاف ہے، اگردنیاکی زمین مرادلی جائے تو بڑی بڑی مضبوط ومستحکم حکومتیں   غیرمسلموں   کی ہیں  کیاان کے حکمران اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں  ؟کیااللہ تعالیٰ نے انہیں   جزائے اعمال کے طورپرحکومت عطاکی ہے ؟کیافرعون ونمرودکوبھی اللہ تعالیٰ نے جزائے اعمال کے طور پر مضبوط سلطنتیں   عطاکی تھیں   ، دوسری بات یہ کہ یہ تفسیر سیاق وسباق سے بھی مناسبت نہیں   رکھتی،اوپرجومضمون مسلسل چلاآرہاہے وہ عالم آخرت میں   مومنین اور کفارو مشرکین کے انجام سے بحث کرتاہے پھر یکایک دنیاکی زمین کا قصہ کہاں   سے آگیا،اوراگردنیاکی ہی زمین مرادلی جائے اور اللہ مومنین صالحین ہی کودنیاکی زمین کاوارث بنا دے تویہ عارضی تسلط ہوگا جبکہ اللہ کاوعدہ ہمیشہ کی زمین(جنت الفردوس) سے ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:أَنَّ الأرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ،قَالَ: أَرْضُ الْجَنَّةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے اس آیت کریمہ ’’زمین کے وارث میرے نیک بندے(ہی)ہوں   گے۔‘‘میں   زمین سے مرادارض جنت ہے۔ [51]

جیسے فرمایا:

 الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ۝۰ۭ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ [52]

ترجمہ: یہی لوگ وہ وارث ہیں   جومیراث میں   فردوس پائیں   گے اور اس میں   ہمیشہ رہیں   گے ۔

ایک مقام پر زیادہ وضاحت سے فرمایا

 وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ۝۷۳ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَیْثُ نَشَاۗءُ۝۰ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ۝۷۴ [53]

ترجمہ:اورجن لوگوں   نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیارکیاتھاوہ جنت کی طرف گروہ درگروہ لے جائے جائیں   گے یہاں   تک کہ جب وہ وہاں   پہنچ جائیں   گے توان کے لئے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں   گے اوراس کے منتظم ان سے کہیں   گے کہ سلام ہوتم کو،تم بہت اچھے رہے ، آؤاب اس میں   ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لئے داخل ہوجاؤ،اوروہ کہیں   گے کہ حمدہے اس رب کی جس نے ہم سے اپناوعدہ پوراکیااورہم کوزمین کا وارث کردیا،اب ہم جنت میں   جہاں   چاہیں   اپنی جگہ بناسکتے ہیں  ،پس بہترین اجرہے عمل کرنے والوں   کے لئے ۔

ان دونوں   آیات میں   زمین سے مرادجنت کی زمین ہی ہے ، اسی مضمون کی ایک اورآیت ہے

وَعَدَ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۝۰۠ وَلَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا۝۰ۭ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَـیْــــًٔـا۝۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۵۵ [54]

ترجمہ:اللہ نے وعدہ فرمایاہے تم میں   ان لوگوں   کے ساتھ جوایمان لائیں   اورنیک عمل کریں   کہ وہ ان کواسی طرح زمین پرخلیفہ بنائے گاجس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں   کوبنا چکا ہے،ان کے لئے ان کے دین کو مضبوط بنیادوں   پرقائم کردے گاجسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں   پسندکیاہے ۔

یہاں   خلافت کالفظ حکومت کے معنی میں   استعمال ہواہے جواللہ کے امرشرعی کے مطابق اس کی نیابت کاٹھیک ٹھیک حق اداکرنے والی ہو،اس لئے قیام خلافت کاثمرہ بتایا گیا کہ اللہ کاپسندیدہ دین یعنی اسلام مضبوط بنیادوں   پرقائم ہو جائے گااوراسی لئے اس انعام کو عطاکرنے کی شرط بتائی گئی کہ خالص اللہ کی بندگی پرقائم رہو جس میں   شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے ، اوراللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ ،سیدناعمرفاروق  رضی اللہ عنہ  اور سیدنا عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  کے عہدخلافت میں   پوراکردیا،خشوع وخضوع سے اللہ کی عبادت کرنے والوں   کے لئے اس میں   ایک بڑی خبرہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ‎﴿١٠٧﴾‏ قُلْ إِنَّمَا یُوحَىٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ‎﴿١٠٨﴾‏ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنْتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ أَمْ بَعِیدٌ مَا تُوعَدُونَ ‎﴿١٠٩﴾‏ إِنَّهُ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَیَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ ‎﴿١١٠﴾‏ وَإِنْ أَدْرِی لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِینٍ ‎﴿١١١﴾‏ قَالَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ ۗ وَرَبُّنَا الرَّحْمَٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ‎﴿١١٢﴾‏(الانبیاء)
’’ اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے،کہہ دیجئے! میرے پاس تو پس وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے، تو کیا تم بھی اس کی فرماں برداری کرنے والے ہو؟ پھر اگر یہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیجئے کہ میں نے تمہیں یکساں طور پر خبردار کردیا ہے، مجھے علم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا دور،البتہ اللہ تعالیٰ تو کھلی اور ظاہر بات کو بھی جانتا ہےاور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے،مجھے اس کا بھی علم نہیں، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش ہو اور ایک مقرر وقت تک کا فائدہ (پہنچانا) ہے، خود نبی نے کہا اے رب ! انصاف کے ساتھ فیصلہ فرما، اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے ان باتوں پر جو تم بیان کرتے ہو۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے جتنے انبیاء ورسل آئے وہ خاص قوم اورخاص وقت کے لئے تھے لیکن آپ کوتمام دنیاوالوں   کے لئے رحمت بناکربھیجاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ عَلَى الْمُشْرِكِینَ قَالَ: إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےعرض کی گئی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مشرکوں   کے لیے بددعافرمائیں   آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامجھے لعنت کرنے والابناکرنہیں   بھیجاگیامجھے تورحمت بناکربھیجاگیاہے۔[55]

ان سے کہومیرے پاس جووحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں   ہے،اس کے سواکوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں   ، پھرکیاتم طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکراپنے معبودحقیقی کی بارگاہ میں   سراطاعت جھکاتے ہو؟اس کی عبودیت کواختیاراوراس کی الوہیت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہو؟ اگر وہ اس دعوت توحیدکوقبول نہ کریں   توانہیں   تباہ شدہ قوموں   پر نازل ہونے والے عذاب سے ڈراؤاور علی الاعلان کہہ دوکہ میں   نے تم کواللہ کے عذاب اورروزمحشراللہ کی بارگاہ میں   جوابدہی سے متنبہ کردیاہے،جب اللہ کے عذاب کا کوڑا برسے تویہ نہ کہنا

۔۔۔مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ۔۔۔۝۰۝۱۹ۧ [56]

ترجمہ: ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والااورڈرانے والانہیں   آیا۔

اب اگرتم دعوت توحید سے منہ موڑتے ہوتوہمارے راستے جداجداہیں  ،تم ہمارے دشمن ہواور ہم تمہارے ،جیسے فرمایا:

فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ۝۰ۚ اَنْتُمْ بَرِیْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۴۱ [57]

ترجمہ:توکہہ دے کہ میرے لئے میر ا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے ،تم میرے اعمال سے بری ہواورمیں   تمہارے کرتوتوں   سے بے زارہوں  ۔

ایک مقام پر فرمایا:

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰی سَوَاۗءٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِیْنَ۝۵۸ۧ [58]

ترجمہ:اوراگرکبھی تمہیں   کسی قوم سے خیانت کااندیشہ ہوتواس کے معاہدے کوعلانیہ اس کے آگے پھینک دویقیناًاللہ خائنوں   کوپسندنہیں   کرتا ۔

اورہماری تمہاری کھلی جنگ ہے ، یقین جانوکہ قیامت کا جووعدہ تم سے کیاجارہاہے وہ ضرورپوراہونے والاہے ،مگر میں   نہیں   جانتاکہ جس عذاب کاتمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یادور،اس کاعلم اللہ کے پاس ہے ، اوراسی کے قبضہ قدرت میں   ہے میرے اختیارمیں   کچھ نہیں   ہے ،اللہ وہ باتیں   بھی جانتا ہے جوباآوازبلندکہی جاتی ہیں   اور وہ بھی جوتم چھپاکرکرتے ہو اور میں   تویہ سمجھتاہوں   کہ وعدہ الٰہی میں   تاخیر شاید تمہارے لئے ایک آزمائش ہواور تمہیں   ایک مقررہ وقت تک کے لئے ڈھیل دی جارہی ہے،تویہ تمہارے لئے دردناک عذاب کاباعث ہوگا ، آخرکاررسول نے کہاکہ اے میرے رب!ہم میں   اورہماری قوم میں  حق کے ساتھ فیصلہ کردے اورتوہی بہتر فیصلہ کرنے والاہے ، جیسے فرمایا:

۔۔۔رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ۝۸۹ [59]

ترجمہ:اے رب ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا شَهِدَ قِتَالًا قَالَ:رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ

زیدبن اسلم سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میدان جنگ میں   تشریف لاتے تویہ دعاپڑھتے اے میرے پروردگار!حق کے ساتھ فیصلہ کردے۔ [60]

لوگوتم میری بابت جومختلف باتیں   بناتے ہوان کے مقابلے میں   ہمارارب رحمان ہی مہربانی کرنے والااوروہی مددکرنے والا ہے۔

[1]المعجم الکبیرللطبرانی۶۲۹،مسند احمد۱۴۸۱

[2] ص۴۱

[3] ص۴۲

[4] ص۴۳

[5] ص۴۴

[6]الطلاق۳

[7] صحیح بخاری کتاب الغسل بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْیَانًا وَحْدَهُ فِی الخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ۲۷۹،وکتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ۳۳۹۱،وکتاب التوحیدالجھمیة بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى یُرِیدُونَ أَنْ یُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ۷۴۹۳

[8] الصافات۱۲۵

[9] الصافات۱۴۰تا۱۴۲

[10] الانبیاء۸۷

[11] الأنبیاء: ۸۷

[12]مسنداحمد۱۴۶۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ باب ۳۵۰۵،عمل الیوم واللیلة للنسائی۶۵۶

[13] الصافات ۱۴۳، ۱۴۴

[14] مسند احمد ۱۴۶۲،جامع ترمذی کتاب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیحِ بِالیَدِ۳۵۰۵، مستدرک حاکم ۱۸۶۲،شعب الایمان ۶۱۱،السنن الکبری للنسائی ۱۰۴۱۷، مسند ابی یعلی ۷۷۲

[15] تفسیرابن ابی حاتم ۲۴۶۵؍۸

[16] مریم ۴،۵

[17] آل عمران ۳۸

[18] آل عمران۳۹

[19] مریم ۷

[20] مریم۱۸

[21] مریم۱۹

[22] مریم۲۰

[23] مریم۲۱

[24] التحریم۱۲

[25]النسائ۱۷۱

[26] ص۷۱،۷۲

[27]آل عمران ۵۹

[28] مریم۲۱

[29] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ۶۱۳۲، مسند احمد ۸۲۴۸، صحیح ابن حبان۶۱۹۴، شرح السنة للبغوی ۳۶۱۹

[30] المائدة ۴۸

[31] الروم۳۲

[32] الکہف۳۰

[33] یٰسین۳۱

[34] تفسیرابن کثیر ۳۷۲؍۵، تفسیرابن ابی حاتم۲۴۶۷؍۸

[35] الکہف۹۸،۹۹

[36] تفسیر طبری ۵۲۸؍۱۸

[37]  سنن ابوداود کتاب الملاحم بَابُ أَمَارَاتِ السَّاعَةِ  ۴۳۱۱  ،مسنداحمد۱۶۱۴۱، صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابٌ فِی الْآیَاتِ الَّتِی تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ۷۲۸۵، سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْآیَاتِ ۴۰۵۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۰۳۰،مصنف ابن ابی شیبة۳۷۵۴۲

[38] مسنداحمد۳۵۵۶،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، وَخُرُوجِ یَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ ۴۰۸۱،مستدرک حاکم۳۴۴۸

[39] البقرة۲۴

[40] تفسیرابن کثیر۳۸۰؍۵،تفسیرطبری۵۹۹؍۱۸

[41] النحل۳۹

[42] ھود۱۰۶

[43] یونس۲۶

[44] الرحمٰن۶۰

[45] الملک۸

[46] الزخرف۶۸

[47] الزمر۶۷

[48] صحیح بخاری کتاب التوحیدالجھمیةبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۷۴۱۲

[49] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ الانبیاء بَابُ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُهُ وَعْدًا عَلَیْنَا  ۴۷۴۰ ،صحیح مسلم کتاب الجنة  بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۷۲۰۱

[50] الاعراف۱۲۸

[51] تفسیرطبری۵۴۹؍۱۸،تفسیرابن ابی حاتم۲۴۷۰ ؍۸

[52] المومنون۱۱

[53] الزمر۷۳،۷۴

[54] النور۵۵

[55] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ النَّهْیِ عَنْ لَعْنِ الدَّوَابِّ وَغَیْرِهَا۶۶۱۳

[56] المائدہ۱۹

[57]یونس۴۱

[58] الانفال ۵۸

[59] الاعراف۸۹

[60] مجموع الفتاوى لابن تیمیہ۲۶۵ ؍۱۵

Related Articles