بعثت نبوی کا ساتواں سال

مضامین سورۂ الانبیاء(حصہ اول)

اس سورۂ کی ابتدامیں  دنیاکی زندگی کے زوال کی تصویرکشی کی گئی ہے،فرمایاکہ قیامت کاوقوع اورحساب کاوقت بہت قریب آگیاہے لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں   پڑاہواہے ،وہ اس کے لیے تیاری کرتے ہیں   اورنہ ہی ایسے اعمال کرتے ہیں   جووہاں   کام آئیں   گے ،ان کے سامنے جب بھی کوئی نئی آیت آتی ہے تواس کامذاق اڑاتے اوراسے جھٹلادیتے ہیں  ،سابقہ امتوں   کی طرح سرداران قریش بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے توحیدباری تعالیٰ،بعثت بعد الموت اوررسالت پرمختلف ومتضادشکوک واعتراضات کرتے رہتے تھے ، ان کے شبہات و اعتراضات کودلائل کی روشنی میں   ازالہ کیاگیا،اللہ کوخالق اوررازق کی حدتک تووہ مانتے تھے مگر موت کے بعد کی زندگی کے منکرتھے اورکہتے تھے کہ یہ توپچھلے لوگوں   کی گھڑی ہوئی کہانیاں   ہیں   اس کی کوئی حقیقت نہیں  ،زندگی بس یہی زندگی ہے مرنے کے بعدکوئی جزاء یا سزا نہیں   ، اس کابڑے ہی موثراندازمیں   توڑکیاگیا،پچھلی اقوام کی طرح اہل مکہ بھی رسالت کے منکرتھے ان کابھی یہی تصور تھاکہ انسان کبھی منصب رسالت پرفائزنہیں   ہوسکتا اورکیونکہ ان کے مطالبے کے مطابق عذاب نازل نہیں   ہورہاتھا توکہتے کہ ضروریہ نبی جھوٹاہے اور یہ دھمکیاں   محض ہمیں   مرعوب کرنے کے لئے ہی دی جارہی ہیں  ، انہیں   بڑی تفصیل سے سمجھایاگیاکہ نبی یارسول انسان ہی ہوتے ہیں   ،ان میں   الوہیت اور کسی الہٰی صفات کاشائبہ تک نہیں   ہوتابلکہ وہ ہر دم اپنی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے لئے رب کے محتاج ہوتے ہیں   ،ان کے مخالفین ہمیشہ ان کے درپے آزار رہتے ہیں   مگررب کی نصرت ہمیشہ ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے ، اورقرآن کے بارے میں   کہتے تھے کہ یہ قرآن کھلاجادوہے،کبھی کہتے یہ شعرہے ،کبھی کہتے یہ خواب پریشاں   ہے،کبھی کہتے کہ یہ کسی سے سیکھاہوا کلام ہے اور کبھی کہتے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناتصنیف کیاہواکلام ہے انہیں   تنبیہ کی گئی کہ جس طرح تم ہمارے نبی برحق کے ساتھ سلوک کررہے ہو اس کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہی ہواہے لہذااپنی اس روش سے بازآجاؤ ، یاد رکھورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جو دین پیش کررہے ہیں   وہی دین ہی سچااوربرحق ہے اوران سے بیشتر انبیاء یہی دین پیش کرتے رہے ہیں  اب اگرکچھ ہے توصرف گمراہ لوگوں   کابنایاہوامجموعہ ہے ، اس کے علاوہ یہ بھی یادرکھو ہم تمہیں   پہلے سے ہی بتا دیتے ہیں  کہ اگرتم نے ہمارے دین برحق کو اپنا رہنما بنالیاتودنیاوآخرت میں  کامیابی وکامرانی تمہاری مقدر ہوگی ،اور ہمارے نازل کردہ ہدایات سے روگردانی کروگے تو تمہارا انجام بدتر اورسابقہ قوموں   کی طرح عبرت ناک ہوگا، اس کے علاوہ اللہ کی راہ میں   صدقہ وخیرات،مشکلات میں   صبر ،علم،نیکی اوراعمال صالح کا خصوصی ذکر کیا گیااورظلم وستم ، کفرو شرک ، اوررب کے نازل کردہ دین اسلام کا تمسخرومذاق اڑانے کی شدیدمذمت کی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِی غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ ‎﴿١﴾‏ مَا یَأْتِیهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ یَلْعَبُونَ ‎﴿٢﴾‏ لَاهِیَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِینَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ ‎﴿٣﴾‏ قَالَ رَبِّی یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٤﴾‏(الانبیاء)
’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیاپھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں، ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نئی نصیحت آتی ہے اسے وہ کھیل کود میں ہی سنتے ہیں، ان کے دل بالکل غافل ہیں اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وہ تم ہی جیسا انسان ہے پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو ،پیغمبر نے کہا میرا پروردگار ہر اس بات کو جو زمین و آسمان میں ہے بخوبی جانتا ہے، وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

قیامت سے غافل انسان :

اللہ تعالیٰ نے فرمایااعمال کی جزا کاوقت قریب آگیاہے،مگر لوگ اللہ کی بارگاہ میں  جوابدہی کی تیاری کرنے کے بجائے دنیاکی رنگینیوں  ،دلفریبیوں   میں   گم ہیں   ،جیسے فرمایا:

اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ۝۱ [1]

ترجمہ:آگیااللہ کافیصلہ اب اس کے لئے جلدی نہ مچاؤ۔

 اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۝۱وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۝۲ [2]

ترجمہ:قیامت کی گھڑی قریب آگئی اورچاندپھٹ گیامگران لوگوں   کاحال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں   منہ موڑجاتے ہیں   اورکہتے ہیں   یہ توچلتا ہوا جادوہے۔

عَنْ سَهْلٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا، وَیُشِیرُ بِإِصْبَعَیْهِ فَیَمُدُّ بِهِمَا

سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایامیں   اورقیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گئے ہیں  اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی دوانگلیوں   کے اشارہ سے(اس نزدیکی کو) بتایا پھر ان دونوں   کوپھیلایا(یعنی مجھ میں   اورقیامت میں   اب کسی نئے پیغمبرورسول کافاصلہ نہیں   ہے اورمیری امت آخری امت ہے اسی پرقیامت آئے گی)۔[3]

یعنی محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی اپنے آخری دورمیں   داخل ہورہی ہے ،اوروہ اپنے آغازکی بنسبت اپنے انجام سے قریب ترہے، ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے حسب حالات وضروریات جتناقرآن محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتاہےاس کوسنجیدگی اورتوجہ سے سننے اوراس پرغوروتدبر کرنے کے بجائے اس طرح سنتے ہیں   جیسے وہ اس سے استہزاومذاق کر رہے ہوں  ،ان کے دل اپنی نجات جہنم کی فکرکے بجائے دنیاوی اغراض ومقاصدمیں   مستغرق ہیں   ، اور مکذبین خودتوگمراہ ہیں   ہی دوسروں   کو بھی گمراہ کرنے کے لئے سرگوشیوں   میں   کہتے ہیں   کہ یہ شخص آخرتم جیساایک بشرہی توہے ، پہلی قوموں   نے بھی اپنے رسولوں   کوبشرماننے سے انکارکیاتھا۔

۔۔۔قَالُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۭ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۔۔۔۝۱۰ [4]

ترجمہ: انہوں   نے جواب دیا تم کچھ نہیں   ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں  تم ہمیں   ان ہستیوں   کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے ۔

اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ۝۰ۭ ۔۔۔۝۶۹ [5]

ترجمہ:کیا تمہیں   اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ وہ تمہیں   خبردار کرے؟ ۔

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ۔۔۔۝۲۴ۚ [6]

ترجمہ:اس کی قوم کے جن سرداروں   نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگو کہ یہ شخص کچھ نہیں   ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسااس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۝۱۵۳ۚمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۔۔۔۝۱۵۴ [7]

ترجمہ:انہوں   نے جواب دیا تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے،تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے ۔

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۝۱۸۵وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۱۸۶ۚۙ   [8]

ترجمہ:انہوں   نے کہا تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے،اور تو کچھ نہیں   ہے مگر ایک انسان ہم ہی جیسا اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں  ۔

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۙ وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۙ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ۝۱۵ [9]

ترجمہ:بستی والوں   نے کہا تم کچھ نہیں   ہو مگر ہم جیسے چندانسان، خدائے رحمان نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں   کی ہے تم محض جھوٹ بولتے ہو۔

جس کا حسب نسب ہے ،جوتمہاری طرح کھاتا،پیتاہے ،جیسے فرمایا:

 وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ وَاَتْرَفْنٰہُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۙ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۝۳۳۠ۙ [10]

ترجمہ:اس کی قوم کے جن سرداروں   نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایاجن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں   آسودہ کر رکھا تھاوہ کہنے لگےیہ شخص کچھ نہیں   ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا ، جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے۔

اورکسب معاش کے لئے بازاروں   میں   جوتیاں   چٹخاتاپھرتاہے،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔۝۲۰ۧ [11]

ترجمہ:اے نبی!تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اوربازاروں   میں   چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے ۔

شادی شدہ اور صاحب اولادہے ،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّةً۔۔۔۝۳۸ [12]

ترجمہ:تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں   اور ان کو ہم نے بیوی بچوں   والا ہی بنایا تھا ۔

ذراسوچواس حیثیت کا بشر رسول کس طرح ہو سکتا ہے،اگراللہ نے بشر رسول بھیجناہی تھاتومکہ معظمہ اور طائف کاکوئی صاحب حیثیت شخص ہونا چاہئے تھا،جیسے فرمایا:

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَـتَیْنِ عَظِیْمٍ۝۳۱ [13]

ترجمہ:کہتے ہیں   یہ قرآن دونوں   شہروں   کے بڑے آدمیوں   میں   سے کسی پر کیوں   نہ نازل کیا گیا ؟۔

یا کوئی فرشتہ ہوناچاہیے تھا،جیسے فرمایا:

وَقَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ۝۶ۭلَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۷ [14]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں   اے وہ شخص جس پر ذکر نازل ہوا ہےتو یقینا دیوانہ ہے اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں   کو لے کیوں   نہیں   آتا۔

پھراس حقیقت کو جانتے بوجھتے تم اس سے میل جول اورقربت رکھو گے تاکہ اس کی شخصیت اور دعوت سن کر جادوکے پھندے میں   پھنس جاؤ ، رسول نے کہاآسمان اورزمین میں  جو جلی یامخفی بات کی جائے میر ا رب اس بات کو جانتا ہے ،جیسے فرمایا

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰىہُمْ وَاَنَّ اللہَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۷۸ۚ [15]

ترجمہ:کیا یہ لوگ جانتے نہیں   ہیں   کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں   تک معلوم ہیں   اور وہ تمام غیب کی باتوں   سے پوری طرح باخبر ہے؟۔

جو جھوٹ تم تراشتے ہووہ اس کوسن رہاہے اورمیری دعوت اورسچائی کی حقیقت کوبھی خوب جانتاہے ،وہ سننے والا اوردلوں   کے بھیدجانتاہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۱۱۹ [16]

ترجمہ: ان سے کہہ دو کہ اپنے غصّہ میں   آپ جل مرو اللہ دلوں   کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے ۔

۔۔۔ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۰ۚ اِنَّہٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۵ [17]

ترجمہ: اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو ان بھیدوں   سے بھی واقف ہے جو سینوں   میں   ہیں   ۔

اِنَّ اللہَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِـیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۳۸ [18]

ترجمہ:بے شک اللہ آسمانوں   اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، وہ تو سینوں   کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْیَأْتِنَا بِآیَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ ‎﴿٥﴾‏ مَا آمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْیَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ۖ أَفَهُمْ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٦﴾‏ وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٧﴾‏ وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا یَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِینَ ‎﴿٨﴾‏ ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَیْنَاهُمْ وَمَنْ نَشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِینَ ‎﴿٩﴾‏(الانبیاء)
’’اتنا ہی نہیں بلکہ یہ توکہتے ہیں کہ یہ قرآن پراگندہ خوابوں کا مجموعہ ہےبلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا بلکہ یہ شاعر ہے، ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے،ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے اجاڑیں سب ایمان سے خالی تھیں، تو کیا اب یہ ایمان لائیں گے ،تجھ سے پہلے بھی جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو، ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے ، پھر ہم نے ان سے کئے ہوئے وعدے سچے کئے انھیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی، اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کردیا ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کااثرجب پھیلنے لگاتوسرداران مکہ نے آپس میں   مشورہ کیاکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کوروکنے کے لئے پروپیگنڈامہم شروع کی جائے ،ہم ایساکریں   کہ جو شخص مکہ معظمہ میں   زیارت کے لئے آئے اسے آپ کے خلاف اتنابدگمان کردیاجائے کہ وہ اس دعوت کوسننے کے لئے آمادہ ہی نہ ہو،ویسے تویہ مہم پورے سال ہی جاری رہتی تھی مگراس تجویزکے بعدخاص طورپرحج وعمرہ کے زمانے میں   کثرت سے آدمی پھیلادیے جاتے تھے جوزائرین کے خیموں   میں   پہنچ کران کوخبردارکردیتے کہ ہمارے ہاں   ایک ایساایساآدمی ہے اس سے ہوشیاررہنا،اورانہیں   بہکانے کے لئے کہتے کہ وہ شخص ایک بڑاجادوگرہے جس نے ایک کلام تصنیف کررکھاہے ،جس کے بارے میں   وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کاکلام ہے ،اورساتھ ہی کہتے بس وہ کلام کیاہے دیوانوں   کی بڑ،پراگندہ خیالات کاپلندااورشاعرانہ تخیلات کی تک بندیاں   ہیں   جس کانام اس نے کلام الٰہی رکھا ہے،مگراس مخالفانہ مہم کاحاصل کچھ نہ ہوابلکہ تھوڑی ہی مدت میں   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کانام اورآپ کی دعوت عرب کے گوشے گوشے میں   پہنچ گئی، چنانچہ فرمایایہ لوگ کلام الٰہی کے بارے میں  کوئی قطعی اور جچی تلی رائے نہیں   رکھتے ہرروزایک نیاپینترابدلتے اورنئی سے نئی الزام تراشیاں   کرتے ہوئے کہتے ہیں   یہ قرآن توپریشان خواب کی طرح پراگندہ افکار کامجموعہ ہے ،بلکہ اس نے خودتصنیف کرلیا ہے،بلکہ یہ شخص شاعرہے،جیسے فرمایا

اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝۳۰ [19]

ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں   کہ یہ شخص شاعر ہے جس کے حق میں   ہم گردش ایام کا انتظار کر رہے ہیں   ۔

اوریہ قرآن کتاب ہدایت نہیں  شاعری ہے،جیسے فرمایا

وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۝۴۱ۙ [20]

ترجمہ:کسی شاعر کا قول نہیں   ہے تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو ۔

اگریہ اپنے دعویٰ رسالت میں   سچاہے توصالح علیہ السلام کی اونٹنی ،یا موسیٰ علیہ السلام کا عصایاعیسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ لاکردکھادے،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۔۔۔۝۳۷ [21]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں   کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں   نہیں   اتری؟۔

وَیَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّہٖۚ۔۔۔ ۝۲۰ۧ [22]

ترجمہ:اور یہ جو وہ کہتے ہیں   کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں   نہ اتاری گئی۔

وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۔۔۔۝۷ۧ [23]

ترجمہ:یہ لوگ جنہوں   نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا ہےکہتے ہیں   کہ اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں   نہ اتری؟ ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم نے پچھلی قوموں   کوان کی حسب خواہش معجزات دکھائے تھےمگروہ صریح معجزات دیکھ لینے کے باوجودایمان نہیں   لائیں   اور بالآخرہلاک کردی گئیں   ، جیسے فرمایا

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ۝۰ۭ وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِہَا۝۰ۭ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا۝۵۹ [24]

ترجمہ:اور ہم کو نشانیاں  بھیجنے سے نہیں   روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں  ، (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم علانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں   نے اس پر ظلم کیا،ہم نشانیاں   اسی لیے تو بھیجتے ہیں   کہ لوگ انہیں   دیکھ کر ڈریں   ۔

اگرہم اہل مکہ کو کوئی معجزہ دکھلادیں   تویہ بھی دعوت حق قبول کر نے کے بجائے پچھلی قوموں   کی طرح تکذیب وعنادکے راستے پر بدستور گامزن رہیں   گے اورسنت الٰہی کے تحت عذاب الٰہی میں   پیس دیئے جائیں   گے ،جیسے فرمایا:

۔۔۔ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللہِ وَمَا یُشْعِرُكُمْ۝۰ۙ اَنَّہَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۹ [25]

ترجمہ: اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو کہ نشانیاں   تو اللہ کے اختیارمیں   ہیں  اور تمہیں   کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں   آبھی جائیں   تو یہ ایمان لانے والے نہیں   ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙوَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷ [26]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں   پرتیرے رب کاقول راست آگیاہے،ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لاکرنہیں   دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتانہ دیکھ لیں   ۔

اور اے نبی!تم سے پہلے بھی ہم انسانوں   کی طرف انسان ہی کورسول بناکربھیجتے رہے ہیں  ،اورانہی پر وحی کیا کرتے تھے کبھی کوئی فرشتہ انسانوں   کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا اورنہ کوئی عورت ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى۔۔۔۝۰۝۱۰۹ [27]

ترجمہ: اے نبی!تم سے پہلے ہم نے جوپیغمبربھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اورانہی بستیوں   کے رہنے والوں   میں   سے تھے اورانہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں  ۔

قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۝۹۵ [28]

ترجمہ:ان سے کہو اگر زمین میں   فرشتے اطمینان سے چل پھررہے ہوتے توہم ضرورآسمان سے فرشتے ہی کوان کے لئے پیغمبربناکربھیجتے ۔

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ۝۰ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ۝۸وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسْـنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ۝۹  [29]

ترجمہ:کہتے ہیں   کہ اس نبی پرکوئی فرشتہ کیوں   نہیں   اتارا گیا اگر کہیں   ہم نے فرشتہ اتاردیاہوتا تو اب تک کبھی کافیصلہ ہوچکاہوتاپھرانہیں   کوئی مہلت نہ دی جاتی اوراگرہم فرشتے کواتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں   اتارتے اوراس طرح انہیں   اسی شبہ میں   مبتلا کر دیتے جس میں   اب یہ مبتلاہیں  ۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِكُمْ۝۰ۭ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۝۹ [30]

ترجمہ:ان سے کہومیں   کوئی نرالا رسول تو نہیں   ہوں  ، میں   نہیں   جانتا کہ کل تمہارے ساتھ کیا ہونا ہے اور میرے ساتھ کیا، میں   تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں   جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے اور میں   ایک صاف صاف خبردار کر دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں   ہوں   ۔

مجھ سے پہلے ابراہیم علیہ السلام  اور اسماعیل علیہ السلام  تم میں   مبعوث ہوچکے ہیں  جن کی پیشوائی کو یہودونصاریٰ تسلیم کرتے ہیں   اورجن کی ذریت ہونے پرتمہیں   فخروناز ہے کیاوہ تمہاری طرح انسان نہ تھے ،کیاوہ کھانے پینے کی حاجت نہیں   رکھتے تھے ،کیاوہ رزق حلال کے لئے کوششیں   نہیں   کرتے تھے ،کیاانہوں   نے نکاح نہیں   کیے تھے ،ایک مقام پر فرمایا:

 ۔۔۔فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا۔۔۔  ۝۶   [31]

ترجمہ: مگرانہوں   نے کہاکیاانسان ہمیں   ہدایت دیں   گے ؟۔

یعنی ہمیشہ انسان ہی رسول بناکربھیجے گئے ہیں  مگرہرقوم نے بشررسول کی تکذیب کی ،اب رسول مان لیاہے تو بشر نہیں   مانتے ،اگریہ اس حقیقت سے لاعلم ہیں   تویہودونصاریٰ جوتمہارے ہم نواہیں   اورتمہیں   مخالفت کے داؤپیچ سکھلاتے ہیں  ان سے پوچھ لیں  کہ جورسول بھیجے گئے تھے وہ انسان تھے یافرشتہ یاکوئی اورمخلوق ؟وہ رسول بھی کھانا کھانے کے محتاج تھے ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔۝۲۰ۧ [32]

ترجمہ:اے نبی!تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اوربازاروں   میں   چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے ۔

اورموت سے ہم کنارہوکر راہ گیران عالم بقابھی ہوئے،جیسے فرمایا:

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ۔۔۔۝۰۝۳۴ [33]

ترجمہ: اور اے نبی!ہمیشگی توہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لئے نہیں   رکھی ہے۔

اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ۝۳۰ۡ [34]

ترجمہ: (اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) !تمہیں   بھی مرنا ہے اور ان لوگوں   کو بھی مرنا ہے۔

پھر تاریخ سے سبق حاصل کر لوکہ اللہ نے رسولوں   کے ساتھ نصرت وتائید کے جتنے وعدے کیے تھےوہ سب پورے ہوئے ، اللہ نے رسولوں   اوراہل ایمان کوعذاب سے بچالیا اوردعوت حق کی تکذیب اوراس کاراستہ روکنے والوں   کو نیست ونابود کردیاگیا اب اپناانجام تم سوچ لو۔

‏ لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَیْكُمْ كِتَابًا فِیهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿١٠﴾‏وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِینَ ‎﴿١١﴾‏ فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا یَرْكُضُونَ ‎﴿١٢﴾‏ لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَىٰ مَا أُتْرِفْتُمْ فِیهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ ‎﴿١٣﴾‏ قَالُوا یَا وَیْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِینَ ‎﴿١٤﴾‏ فَمَا زَالَتْ تِلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّىٰ جَعَلْنَاهُمْ حَصِیدًا خَامِدِینَ ‎﴿١٥﴾(الانبیاء)
’’یقیناً ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لیے ذکر کیا، پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے؟ اور بہت سی بستیاں ہم نے تباہ کردیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کردیا، جب انہوں نے ہمارے عذاب کا احساس کرلیا تو لگے اس سے بھاگنے، بھاگ دوڑ نہ کرو اور جہاں تمہیں آسودگی دی گئی تھی وہی واپس لوٹو اور اپنے مکانات کی طرف جاؤ تاکہ تم سے سوال تو کرلیا جائے، کہنے لگے ہائے ہماری خرابی ! بیشک ہم ظالم تھے، پھر تو ان کا یہی قول رہا یہاں تک کہ ہم نے انھیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی پڑی آگ (کی طرح) کردیا۔‘‘

قدرناشناس لوگ :

لوگو!ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی جلیل القدر کتاب بھیجی ہے جس میں   تمہارادین ،تمہاری شریعت اورتمہاری ہدایت ورہنمائی کی باتیں   ہیں  مگرتعجب ہے کہ تم اس اہم نعمت کی قدرنہیں   کرتے ،جیسے فرمایا:

وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ۝۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝۴۴ [35]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے ایک بہت بڑاشرف ہے اورعنقریب تم لوگوں   کواس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔

نوح علیہ السلام کے بعدکتنی ہی ظالم بستیاں   ہیں   جن کوہم نے کفروشرک اورتکذیب حق کی پاداش میں   پیس کررکھ دیا ،جیسے فرمایا

وَكَمْ اَہْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ۔۔۔۝۱۷ [36]

ترجمہ:دیکھ لو، کتنی ہی نسلیں   ہیں   جو نوح علیہ السلام  کے بعد ہمارے حکم سے ہلاک ہوئیں  ۔

فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَہْلَكْنٰہَا وَہِىَ ظَالِمَةٌ فَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ۝۴۵ [37]

ترجمہ:کتنی ہی خطا کار بستیاں   ہیں   جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں   پر الٹی پڑی ہیں  ، کتنے ہی کنوئیں  بےکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں  ۔

اوران کے بعداورقوم کوان کاجانشین بنایا،اس کے بعددوسری اورپھرتیسری قوم یونہی آتی رہیں  ،پھرجب مکذبین نے اللہ کے رسولوں   کے فرمان کے مطابق عذاب کے آثارکوآتے دیکھااورسمجھ گئے کہ اب ہماری شامت آگئی توپھرجان بچانے کے لئے راہ فرار ڈھونڈھنے لگے ،فرشتوں   نے بطوراستہزا کہااللہ کے عذاب سے بچ کر اب کہاں   جاؤ گے؟ اپنے انہی خوبصورت ،آراستہ اور پائیدار گھروں  ،دست بدست خدم وحشم اورعیش وعشرت کے سامانوں   میں   جاؤ جن کے اندرتم بدمست تھے، اور بطور طنز کے کہااس عذاب کااچھی طرح معائنہ کروتاکہ کوئی اس کی کیفیت دریافت کرے توٹھیک ٹھیک بیان کرسکو اورجب مکذبین عذاب میں   گھرگئے تو مذمت اورافسوس سے کہنے لگے ہائے ہماری بدنصیبی !ہم اس پاکیزہ دعوت کی طرف سے غافل ہی رہے ، بے شک ہم خطاوار تھے ،اس طرح وہ اعتراف جرم کرتے رہے مگراب کیاحاصل ،جیسے فرمایا

قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَاۗءَنَا نَذِیْرٌ۝۰ۥۙ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۚۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ۝۹ [38]

ترجمہ:وہ جواب دیں   گے ہاں  ، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں   کیا ہے تم بڑی گمراہی میں   پڑے ہوئے ہو ۔

یہاں   تک کہ ہم نے ان کوبجھی ہوئی آگ کے ڈھیرکی طرح کردیا،کوئی تاب وتوانائی اورحس وحرکت ان کے اندرنہ رہی ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لَاعِبِینَ ‎﴿١٦﴾‏ لَوْ أَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْوًا لَاتَّخَذْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا إِنْ كُنَّا فَاعِلِینَ ‎﴿١٧﴾‏ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ‎﴿١٨﴾(الانبیاء)
’’ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا، اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے، بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے، اور وہ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے، تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لیے باعث خرابی ہیں ۔‘‘

آسمان وزمین کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے :

ہم نے آسمان وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے کھیل تماشے کے طورپرنہیں   بنایاہے،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا۝۰ۭ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۚ فَوَیْلٌ لِّــلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ۝۲۷ۭ [39]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں   کر دیا ہے، یہ تو ان لوگوں   کا گمان ہے جنہوں   نے کفر کیا ہے  اور ایسے کافروں   کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے ۔

بلکہ ان کوحق کے ساتھ اورحق کے لئے پیدا کیاہے،جیسے فرمایا

وَلِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ [40]

ترجمہ:اور زمین اور آسمان کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے تاکہ اللہ برائی کرنے والوں   کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں   کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں   نے نیک رویہ اختیار کیا ہے۔

اور اس کے کئی مقاصداورحکمتیں   ہیں   ،اگر ہم کوئی کھلونابنانے کاارادہ کرتے تواپنے پاس سے کچھ چیزیں   بنالیتے اوراپناشوق پوراکرلیتے ،اپنی عظیم الشان کائنات بنانے کی اور پھراس میں   ذی روح اورذی شعور مخلوق بنانے کی کیاضرورت تھی؟

عَنْ مُجَاهِدٍ:لَوْ أَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْوًا لاتَّخَذْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا یَعْنِی: مِنْ عِنْدِنَا یَقُولُ: وَمَا خَلَقْنَا جَنَّةً وَلَا نَارًا وَلَا مَوْتًا، وَلَا بَعْثًاوَلَا حِسَابًا

مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہےاس آیت کریمہ’’اگرہم یوں   ہی کھیل تماشے کاارادہ کرتے تواسے اپنے پاس سے ہی بنالیتے۔‘‘ کامفہوم یہ ہے اگرہم چاہتے تواپنے پاس سے ان چیزوں   کوبنالیتےاورجنت اوردوزخ کوموت وبعثت کو اورحساب کتاب کونہ بناتے۔[41]

مگرتخلیق کائنات کاایک اہم مقصدیہ ہے کہ یہاں   حق وباطل کی معرکہ آرائی ہو،خیروشرکے درمیان تصادم رہے اورہم حق اورخیرکوغالب اور باطل اور شرکو مغلوب کریں  ،اس لئے ہم باطل پرسچ کواورجھوٹ پرخیرکومارتے ہیں  ،جس سے باطل،جھوٹ اورشرخواہ کتناہی بڑاکیوں   نہ ہواس کاشیرازہ بکھرجاتاہےاورچشم زدن میں   نیست ونابود ہو جاتا ہے ، جیسے فرمایا

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱ [42]

ترجمہ:اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔

قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا یُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ۝۴۹ [43]

ترجمہ:کہو حق آگیا ہے اور اب باطل کے کیے کچھ نہیں   ہو سکتا۔

۔۔۔ وَیَمْحُ اللہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہ۔۔۔ٖ۝۲۴ [44]

ترجمہ: وہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے فرمانوں   سے حق کر دکھاتا ہے۔

اور رب کی طرف تم جوبے سروپاباتیں   منسوب کرتے ہویااس کی بابت باورکراتے ہوکہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں   ہیں  ،جیسے فرمایا

وَیَجْعَلُوْنَ لِلهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ۝۰ۙ وَلَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ۝۵۷ [45]

ترجمہ:اور یہ اللہ کے لیے بیٹیاں   تجویز کرتے ہیں  ،سبحان اللہ! اور ان کے لیےوہ جویہ خودچاہیں  ؟۔

اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى۝۲۷ [46]

ترجمہ:جولوگ آخرت کونہیں   مانتے وہ فرشتوں   کودیویوں   کے ناموں   سے موسوم کرتے ہیں   ۔

اس کے برگزیدہ اورمقرب بندے عزیر علیہ السلام  اورعیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ۝۰ۚ یُضَاہِـــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۔۔۔۝۳۰ [47]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں   کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں   کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ بےحقیقت باتیں   ہوتی ہیں   جو وہ اپنی زبانوں   سے نکالتے ہیں   ان لوگوں   کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں   مبتلا ہوئے تھے۔

یہ عقائد تمہاری تباہی وبربادی کا باعث ہیں   ۔

وَلَهُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِنْدَهُ لَا یَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا یَسْتَحْسِرُونَ ‎﴿١٩﴾‏ یُسَبِّحُونَ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ لَا یَفْتُرُونَ ‎﴿٢٠﴾‏ أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِنَ الْأَرْضِ هُمْ یُنْشِرُونَ ‎﴿٢١﴾(الانبیاء)
’’آسمانوں اور زمین میں جو ہے اسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں، وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے،کیا ان لوگوں نے زمین (کی مخلوقات میں) سے جنہیں معبود بنا رکھا ہے وہ زندہ کردیتے ہیں۔‘‘

زمین اورآسمانوں   میں   جوکچھ بھی ہے ،سب اللہ کی مخلوق ہے،تواللہ اپنی مخلوق میں   بعض کوبیٹی بیٹااوربعض کوبیوی کس طرح بناسکتاہے، جوانگنت فرشتے اس کی بارگاہ میں   ہیں   وہ بھی اس کی بیٹیاں   نہیں  بلکہ بندے اورغلام ہیں  ،جیسے فرمایا

لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلہِ وَلَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا۝۱۷۲ [48]

ترجمہ:مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں   سمجھا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں  ، اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا ۔

ان کاحال تویہ ہے کہ اپنے آپ کومقرب سمجھ کراللہ کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں   اورنہ تھکتے ہیں  ،بلکہ شب وروزکچھ سستی کیے بغیراس کی تسبیح وتہلیل بیان کرتے رہتے ہیں   ، جیسے فرمایا

 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِیْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیْہَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۶ [49]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہوبچاؤاپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں   گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں   گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں   کرتے اور جو حکم انہیں   دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں   ۔

معبودان باطلہ کی تردیدمیں   فرمایاکیاان لوگوں   کے بنائے ہوئے ارضی الٰہ ایسے ہیں   کہ جوبے جان مادے میں  زندگی پھونک سکیں   ،یہ خودتسلیم کرتے ہیں   کہ اللہ کے سواکسی کویہ قدرت حاصل نہیں  ،جب زمین وآسمان کااقتداراللہ کے سواکسی کی ملکیت ہے نہ اس میں   کسی کاحصہ ہے،نہ اس اقتدارمیں   اس کاکوئی مددگار ہے ،نہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کی بارگاہ میں   سفارش کرسکتاہے توپھر انہیں   اللہ کاشریک کیوں   ٹھہراتے ہواورکیوں   ان کی بارگاہ میں   رسوم عبادات بجالاتے ہو،کیوں   اللہ کے عذاب کودعوت دیتے ہو،جیسے فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ شُرَكَاۗءَكُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِ۝۰ۚ اَمْ اٰتَیْنٰہُمْ كِتٰبًا فَہُمْ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْہُ۝۰ۚ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا۝۴۰ [50]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم  )! ان سے کہو کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے ان شریکوں  کو جنہیں   تم اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے بتاؤانہوں   نے زمین میں   کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں   میں   ان کی کیا شرکت ہے ؟ (اگر یہ نہیں   بتا سکتے تو ان سے پوچھو) کیا ہم نے انہیں   تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لیے ) کوئی صاف سند رکھتے ہوں  ؟ نہیں  بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جا رہےہیں   ۔

لَوْ كَانَ فِیهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ لَا یُسْأَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْأَلُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَعِیَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِی ۗ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ الْحَقَّ ۖ فَهُمْ مُعْرِضُونَ ‎﴿٢٤﴾‏وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ‎﴿٢٥﴾(الانبیاء)
’’اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے، پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں، وہ اپنے کاموں کے لیے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں اور سب (اس کے آگے) جواب دہ ہیں، کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں، ان سے کہہ دو لاؤ اپنی دلیل پیش کرو، یہ ہے میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے اگلوں کی دلیل، بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے اسی وجہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں، تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔‘‘

حق سے غافل مشرک :

اگرآسمان وزمین میں   اللہ وحدہ لاشریک کے سوادوسرے الٰہ بھی ہوتے اورسب کافیصلہ کائنات میں   چلتاتوسب کے فیصلے آپس میں   ٹکراتے جس سے کائنات کایہ ہمہ گیر اورحکیمانہ نظام لمحوں   میں  درہم برہم ہو جاتا ، لیکن تم دیکھتے ہوکہ کائنات کانظام صدیوں   سے ایک لگے بندھے اصول پرچل رہاہے ،جس سے صاف ظاہرہے کہ کائنات میں   صرف ایک ہی ہستی کاارادہ اور مشیت کارفرماہے ،جو کچھ بھی ہوتاہے صرف اسی کے حکم پرہوتاہے اورکوئی اس کے کام میں   مداخلت نہیں   کرسکتا،جیسے فرمایا:

مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍؚبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۹۱ۙ [51]

ترجمہ:اللہ نے کسی کواپنی اولادنہیں   بنایاہے اورکوئی دوسراالٰہ اس کے ساتھ نہیں   ہےاگرایساہوتاتوہرالٰہ اپنی خلق کولے کرالگ ہوجاتااورپھروہ ایک دوسرے پرچڑھ دوڑتے ، پاک ہے اللہ ان باتوں   سے جویہ لوگ بناتے ہیں   ۔

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗٓ اٰلِـهَةٌ كَـمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا۝۴۲ [52]

ترجمہ: اے نبی!ان سے کہوکہ اگراللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں  تووہ مالک عرش کے مقام کوپہنچنے کی ضرورکوشش کرتے ۔

اللہ جوکائنات کے تخت سلطنت کامالک ہے ان باتوں   سے منزہ اوربالاوبرترہے جویہ لوگ گھڑ رہے ہیں  ،وہ مالک الملک ہے،اپنی سلطنت کا نظام چلانے کے لئے کسی کے آگے جواب دہ نہیں   ہے اورمخلوقات اس کی بارگاہ میں  جواب دہ ہیں  ،جیسے فرمایا

فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۹۲ۙعَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۹۳ [53]

ترجمہ:تو قسم ہے تیرے رب کی ! ہم ضرور ان سے بازپرس کریں   گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

کیااسی قدرت واختیاروالے رب کو چھوڑکرانہوں   نے خودساختہ الٰہ بنالئے ہیں   جن کے پاس کوئی قدرت یااختیار نہیں   ہے؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہومجھ پرنازل یہ قرآن کریم بھی موجودہے جس میں   تمام دنیا کے لوگوں   کے لئے ہدایت ورہنمائی ہے اورپہلی الہامی کتابیں   بھی موجودہیں   جو مجھ سے پہلی امتوں   کی ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل ہوئی تھیں   ،ان سب میں   توصرف ایک ہی معبودکی الوہیت وربوبیت کاذکرہے ، اورسب رسول اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف لوگوں   کودعوت دیتے تھے ،

جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۔۔۔۝۵۹  [54]

ترجمہ:ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجااس نے کہا اے برادران قوم!اللہ کی بندگی کرواسکے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں   ہے۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۝۰ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۲۳ [55]

ترجمہ:ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجااس نے کہا اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرواس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں   ہے، کیا تم ڈرتے نہیں   ہو؟ ۔

ہودؑنے بھی اپنی قوم کویہی دعوت پیش کی،

وَاِلٰی عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا۝۰ۭ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ۝۵۰ [56]

ترجمہ:اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجااس نے کہا اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرو ، تمہارا کوئی الٰہ اس کے سوا نہیں   ہے، تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں  ۔

صالح علیہ السلام  نے بھی اپنی قوم کویہی دعوت دی تھی۔

 وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا۝۰ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۔۔۔۝۶۱ [57]

ترجمہ:اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں   ہے۔

ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کوتوحیدکی یہی دعوت دی تھی۔

وَاِبْرٰہِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّــقُوْہُ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۶اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ وَاشْكُرُوْا لَہٗ۝۰ۭ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۱۷ [58]

ترجمہ:اور ابراہیمؑ کو بھیجا جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو،تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں   پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں   اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو درحقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں   کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں   رکھتے،اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرواسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو ۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں   جورسول بھی مبعوث کیااس کی دعوت یہی تھی کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود برحق نہیں   پس تم لوگ ہر طرف سے منہ موڑکر اسی کی ہی بندگی کرو،جیسے فرمایا

وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۝۴۵ۧ [59]

ترجمہ:تم سے پہلے ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے تھے ان سب سے پوچھ دیکھوکیاہم نے خدائے رحمٰن کے سواکچھ دوسرے معبودبھی مقررکیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے ۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔۔۔۝۰ۚ۝۳۶ [60]

ترجمہ: ہم نے ہرامت میں   ایک رسول بھیج دیااوراس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرواورطاغوت کی بندگی سے بچو۔

اگر اس مسلمہ حقانیت کے باوجودبھی تم اللہ کوچھوڑکر دوسرے معبودوں   کی پرستش واطاعت کرتے ہو توکوئی معقول دلیل پیش کرومگرنہ تم عقلی دلیل پیش کرسکتے ہو نہ نقلی ، پھرکیسا مذہب تم لوگوں   نے اختیارکیاہواہے ،حقیقت یہ ہے کہ ان میں   سے اکثر لوگ حق سے بے خبرہیں  اس لئے سمجھانے والے کی دعوت کوناقابل التفات سمجھتے ہیں  ۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ لَا یَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ یَعْمَلُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا یَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ وَهُمْ مِنْ خَشْیَتِهِ مُشْفِقُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ ۞ وَمَنْ یَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّی إِلَٰهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَٰلِكَ نَجْزِیهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ ‎﴿٢٩﴾‏(الانبیاء)
’’ (مشرک لوگ) کہتے ہیں کہ رحمٰن اولاد والا ہے، (غلط ہے) اس کی ذات پاک ہے بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں،کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں، وہ ان کے آگے پیچھے کے تمام امور سے واقف ہے وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو، وہ تو خود ہیبت الٰہی سے لرزاں و ترساں ہیں،ان میں سے اگر کوئی بھی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں لائق عبادت ہوں تو ہم اسے دوزخ کی سزا دیں، ہم ظالموں کو اس طرح سزا دیتے ہیں۔‘‘

مشرک کہتے ہیں   فرشتے اللہ کی بیٹیاں   ہیں  ،جیسے فرمایا

وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۝۰ۭ اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۹ [61]

ترجمہ:انہوں   نے فرشتوں   کوجو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں   عورتیں   قرار دے لیا کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں   نے دیکھی ہے ؟۔

اس طرح وہ اللہ وحدہ لاشریک پربہتان عظیم باندھتے ہیں   ،اللہ اپنی ذات،صفات اورافعال میں   ہرطرح کے شرک سے بالاتر ہے ، فرشتوں   کے اوصاف کے بارے میں   فرمایاکہ وہ تواللہ کے ذی عزت بندے ہیں   ، اور قولاًو فعلاً ہروقت اطاعت الٰہی میں   مشغول رہتے ہیں  ،اللہ تعالیٰ تدبیرمملکت کے متعلق انہیں   جو حکم فرماتا ہے اس سے آگے بڑھتے ہیں   نہ فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں  اورنہ حکم کونظراندازکر کے اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگتے ہیں   بس تعمیل حکم میں   تیزی سے حرکت کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا۝۳ۙفَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا۝۴ۙ فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۝۵ۘ [62]

ترجمہ:اور( ان فرشتوں   کی جو کائنات میں  ) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں  ،پھر(حکم بجا لانے میں  ) سبقت کرتے ہیں  ، پھر (احکام الہی کے مطابق) معاملات کا انتظام چلاتے ہیں  ۔

اللہ ان کے آگے پیچھے کے تمام امورسے واقف ہے ،اورتم انہیں   اللہ کی بیٹیاں   سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہوتاکہ روز قیامت وہ تمہارے سفارشی ہوں   ، جیسے فرمایا

  ۔۔۔وَیَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللهِ۔۔۔  ۝۱۸ [63]

ترجمہ: اورکہتے یہ ہیں   کہ یہ اللہ کے ہاں   ہمارے سفارشی ہیں  ۔

۔۔۔مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللهِ زُلْفٰى۔۔۔۝۰۝۳ [64]

ترجمہ:ہم توان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں   کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں  ۔

توتمہیں   معلوم ہوناچاہیے کہ فرشتوں   کو اللہ کی بارگاہ میں  کسی قسم کاکوئی اختیارحاصل نہیں   اورنہ یہ مجال ہے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف سفارش کے لئے لب تک ہلاسکیں   ، اور پھر شفاعت کا سننا یا نہ سننا،شفاعت قبول کرنایانہ کرنا اللہ کی مرضی پرموقوف ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔  ۝۲۵۵ [65]

ترجمہ:کون ہے جواس کی جناب میں   اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ۔

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ۔۔۔ ۝۲۳ [66]

ترجمہ:اوراللہ کے حضورکوئی شفاعت بھی کسی کے لئے نافع نہیں   ہوسکتی بجز اس شخص کے جس کے لئے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو۔

اوروہ خشیت الٰہی سے لرزاں   وترساں   رہتے ہیں   اوراگرفرض محال ان فرشتوں   میں   سے کوئی الٰہ ہونے کادعویٰ کرے تو ہم اسے بھی جہنم رسیدکردیں   گے۔

وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَاِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۶۵ [67]

ترجمہ: تمہاری طرف اورتم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگرتم نے شرک کیاتو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گااورتم خسارے میں   رہوگے ۔ ہمارے ہاں   ظالموں   کا یہی بدلہ ہے۔

‏ أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ۖ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَجَعَلْنَا فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَنْ تَمِیدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِیهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُونَ ‎﴿٣١﴾‏ وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ آیَاتِهَا مُعْرِضُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِی فَلَكٍ یَسْبَحُونَ ‎﴿٣٣﴾(الانبیاء)
’’کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انھیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے، اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیئے تاکہ مخلوق کو ہلا نہ سکے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں، آسمان کو مضبوط چھت بھی ہم نے ہی بنایا، لیکن لوگ اسکی قدرت کے نمونوں پر دھیان نہیں دھرتے، وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔‘‘

ایک حیرت انگیزانکشاف :

کیاان لوگوں   نے جنہوں   نے اپنے رب سے کفرکیااورعبودیت کواس کے لئے خالص کرنے سے انکارکردیاہے غوروتدبرنہیں   کرتے کہ ابتدا ساتوں   آسمان وزمینیں   باہم پیوست تھےپھرہم نے انہیں   ایک دوسرے سے جداکیا ،سائنسدان کہتے ہیں   بیس ارب سال پہلے جب نہ زماں   تھانہ مکاں   کہ اچانک ایک دھماکاہوااورکائنات وجودمیں   آگئی جس میں   ایک سوکروڑسے زیادہ کہکشاہیں   ہیں   اورہرکہکشاں   میں   ایک ارب سے زیادہ ستارے ہیں  ۔وسیع وعریض سات آسمانوں   کو تہ بر تہ بغیرستونوں   کے قائم کردیا،جیسے فرمایا

اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۲ [68]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں   کو ایسے سہاروں   کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں  ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۱۰ [69]

ترجمہ:اس نے آسمانوں   کو پیدا کیا بغیر ستونوں   کے جو تم کو نظر آئیں  ۔

جس میں   تم کوئی کجی نہ پاؤگے، جیسے فرمایا

۔۔۔ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ [70]

ترجمہ: تم رحمن کی تخلیق میں   کسی قسم کی بےربطی نہ پاؤگے پھر پلٹ کر دیکھو کہیں   تمہیں   کوئی خلل نظر آتا ہے؟۔

اورزمین کواپنی جگہ پررہنے دیا،آسمان سے پانی برسایا،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۔۔۔۝۹۹ [71]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۔۔۔۝۶۳ۚ [72]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں   ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے ۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۚ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً طَہُوْرًا۝۴۸ۙ [73]

ترجمہ:اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں   کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے۔

اور ہرزندہ چیز کو پانی سے پیداکیا،جیسے فرمایا

وَاللهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ  ۝۴۵ [74]

ترجمہ: اوراللہ نے ہر جاندارکوپانی سے پیداکیا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی إِذَا رَأَیْتُكَ طَابَتْ نَفْسِی وَقَرَّتْ عَیْنِی، فَأَنْبِئْنِی عَنْ كُلِّ شَیْءٍ. فَقَالَ:كُلُّ شَیْءٍ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ قَالَ: قُلْتُ: أَنْبِئْنِی عَنْ أَمْرٍ إِذَا أَخَذْتُ بِهِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ:أَفْشِ السَّلَامَ، وَأَطْعِمِ الطَّعَامَ، وَصِلِ الْأَرْحَامَ، وَقُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، ثُمَّ ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے میں   نے عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !میں   جب آپ کے دیدارسے فیض یاب ہوتاہوں   تومیراجی خوش ہوجاتاہے اورآنکھیں   ٹھنڈی ہوجاتی ہیں   ٍآپ مجھے ہرچیزکے بارے میں   بتادیں  ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہرچیزکوپانی سے پیداکیاگیاہے، میں   نے عرض کی مجھے ایک ایساکام بتادیں   کہ میں   اس کے کرنے سے جنت میں   داخل ہوجاؤں  ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاسلام پھیلاؤاورکھاناکھلاؤاورصلہ رحمی کرواوررات کوقیام کروجب لوگ سورہے ہوں  ،پھرسلامتی کے ساتھ جنت میں   داخل ہوجاؤ۔[75]

اورہرچیزکاجوڑابنایا،جیسے فرمایا

وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹ [76]

ترجمہ:اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں   شاید کہ تم اس سے سبق لو ۔

وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا۝۸ۙ [77]

ترجمہ:اور تمہیں  ( مردوں   اور عورتوں   کے) جوڑوں   کی شکل میں   پیدا کیا۔

 وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ۝۳ [78]

ترجمہ: اسی نے ہر طرح کے پھلوں   کے جوڑے پیدا کیے ہیں   ۔

سائنسدانوں   نے یہ انکشاف کیاہے کہ نباتات میں   بھی ہرچیزجوڑاجوڑاہے(یعنی نراورمادہ)

اگرکوئی غوروتدبر کرے تو ہر چیزمیں   اللہ کی الوہیت اور اس کی وحدانیت کانشان موجودہےمگر وہ ہماری اس خلاقی کونہیں   مانتے ۔کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے۔

وَفی كُلِ شَیءٍ لَهُ آَیَةٌ،  تَدُلُّ عَلى أنَّه وَاحِدٌ

ہرچیزمیں   اس کی نشانی ہے    جواس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ذات پاک وحدہ لاشریک ہے۔[79]

اورہم نے زمین میں   بلندوبالا چوٹیوں   والے رنگ برنگ کے ٹھوس پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں   لے کرڈھلک نہ جائے۔جیسے متعددمقامات پرفرمایا

وَہُوَالَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ ۔۔۔۝۳ [80]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہےاوراس میں   پہاڑوں   کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں  ۔

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ۔۔۔۝۱۹ [81]

ترجمہ:ہم نے زمین کو پھیلایااور اس میں   پہاڑ جمائے۔

وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ۔۔۔۝۱۵ۙ [82]

ترجمہ:اس نے زمین میں   پہاڑوں   کی میخیں   گاڑ دیں   تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے ۔

 خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ۔۔۔۝۱۰ [83]

ترجمہ: اس نے آسمانوں   کوپیداکیابغیرستونوں   کے جوتم کونظرآئیں  ، زمین میں   پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں   لے کر ڈھلک نہ جائے ۔

 وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۝۷۠ۙ [84]

ترجمہ:اور پہاڑوں   کو میخوں   کی طرح گاڑدیا۔

موجودہ ارضی سائنس نے ثابت کیاہے کہ پہاڑسطح زمین کے نیچے گہری جڑیں   رکھتے ہیں   اوریہ جڑیں  سطح زمین پران کی بلندی سے کئی گنازیادہ گہرائی میں   اتری ہوئی ہیں   ،لہذاپہاڑوں   کی اس کیفیت کوبیان کرنے کے لیے مناسب ترین لفظ میخیں   (pegs)ہی ہے کیونکہ ٹھیک طورپرگاڑی ہوئی میخوں   کااکثرحصہ زمین کی سطح کے نیچے ہی ہوتاہے،سائنس کی تاریخ سے ہمیں   پتہ چلتاہے کہ یہ سائنسی تحقیق صرف ڈیڑھ صدی پہلے ۱۸۶۵ عیسوی میں   اسٹرانومررائل (برطانوی شاہی فلکیات دان)سرجارج ایئری نے پیش کی تھی جبکہ قرآن کریم نے یہ بات ساتویں   صدی عیسوی میں   ہی بتادی تھی۔

اور زمین میں   کشادہ راستے اورپہاڑوں   میں   درے رکھ دیئےتاکہ وہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح ومفادات حاصل کر سکیں   ،اوراس حکمت وکاریگری اوراس انتظام کودیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کاراستہ پالیں  ،جیسے فرمایا

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا وَّجَعَلَ لَكُمْ فِیْہَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۰ۚ [85]

ترجمہ:وہی ناجس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنایااور اس میں   تمہاری خاطر راستے بنا دیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو ۔

وَاللہُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا۝۱۹ۙ لِّتَسْلُكُوْا مِنْہَا سُـبُلًا فِجَاجًا۝۲۰ۧ [86]

ترجمہ:اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیاتاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں   میں   چلو ۔

اورہم نے آسمان کو زمین کے لئے ایک محفوظ چھت بنادیا ، جیسے فرمایا

اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓااِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَہُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰہَا وَزَیَّنّٰہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ۝۶ [87]

ترجمہ:اچھا تو کیا انہوں   نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں   دیکھا ؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں   کہیں   کوئی رخنہ نہیں   ہے ۔

اِنَّ اللهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ۔۔۔ ۝۴۱ [88]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جوآسمانوں   اور زمین کوٹل جانے سے روکے ہوئے ہے ۔

ورنہ آسمان زمین پر گر پڑیں   توزمین کاسارانظام تہ وبالاہو جائے ،اس کے علاوہ شیاطین کے سن گن لینے سے بھی محفوظ فرمایا،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیْنَ۝۱۶ۙوَحَفِظْنٰہَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۝۱۷ۙاِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ۝۱۸ [89]

ترجمہ: یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں   ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے ان کو دیکھنے والوں   کے لیے مزین کیااور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا ،کوئی شیطان ان میں   راہ نہیں   پا سکتاالا یہ کہ کچھ سن گن لے لے،اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتا ہے۔

مگرلوگ ہیں   کہ کائنات کی ان زبردست نشانیوں   پر غوروتدبرکرنے کے بجائے لہوولعب میں   مبتلاہیں  ،جیسے فرمایا

 وَكَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ۝۱۰۵ [90]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں   میں   کتنی ہی نشانیاں   ہیں   جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں   اور ذرا توجّہ نہیں   کرتے۔

اوروہ اللہ ہی ہے جس نے رات کوسکون کے لئے اوردن کومعاش کے لئے بنایا، اور سورج کودن کی نشانی اور چاند کو رات کی نشانی بنایاتاکہ مہینوں   اورسالوں   کاحساب کیاجاسکے ،جیسے فرمایا

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّةِ۝۰ۭ قُلْ ہِىَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۔۔۔۝۱۸۹ [91]

ترجمہ:اے نبی! لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں   کے متعلق پوچھتے ہیں   ، کہو یہ لوگوں   کے لیے تاریخوں   کی تعیین کی اور حج کی علامتیں   ہیں  ۔

ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ۝۵ [92]

ترجمہ:وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی کہ گھٹنے بھڑھنے کی منزلیں   ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں   تاکہ تم اس سے برسوں   اور تاریخوں   کے حساب معلوم کرو ۔

وَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّہَارَ اٰیَـتَیْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰیَةَ الَّیْلِ وَجَعَلْنَآ اٰیَةَ النَّہَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ۝۱۲ [93]

ترجمہ:دیکھو ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں   بنایا ہے، رات کی نشانی کو ہم نے بےنور بنایا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو ۔

چاندوسورج اوردوسرے اجرام فلکی اپنے اپنے مدار میں   اللہ کے مقررہ کردہ ایک خاص رفتارسے تیررہے ہیں  ،جیسے فرمایا:

 وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ ۭ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝۳۹لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [94]

ترجمہ:اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے ،اور چاند، اس کے لیے ہم نے منزلیں   مقرر کر دی ہیں   یہاں   تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے ،نہ سورج کے بس میں   یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں   تیر رہے ہیں   ۔

یعنی سورج مسلسل گردش میں   ہے،سولہویں   صدی عیسوی میں   پولینڈکے ماہرنجوم نکولاس کوپرنیکس نے یہ اعلان کیاکہ سورج ساکن ہے اورزمین اس کے گردچکرلگارہی ہے ،دنیاجب اس نظریئے کوتسلیم کرچکی توعالم اسلام میں   ایک اضطراب کی کیفیت پیداہوئی کیونکہ قرآن میں   توسورج کومتحرک قراردیاگیاہے ،بعدازاں   اٹھارویں   صدی میں   سرفریڈرک ولیم ہرشل نے اعلان کیاکہ سورج متحرک ہے۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: یَدُورُونَ كَمَا یَدُورُ الْمِغْزَلُ فِی الْفَلْكَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں   یہ سب اس طرح گھوم رہے ہیں   جس طرح چرغے میں   تکلاگھومتاہے۔[95]

 وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَیْنَا تُرْجَعُونَ ‎﴿٣٥﴾‏وَإِذَا رَآكَ الَّذِینَ كَفَرُوا إِنْ یَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِی یَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ هُمْ كَافِرُونَ ‎﴿٣٦﴾(الانبیاء)
’’آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مرگئے تو وہ ہمیشہ کے لیے رہ جائیں گے، ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے،ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیںاور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے، یہ منکرین تجھے جب دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں، کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا، اور وہ خود ہی رحمٰن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں۔‘‘

حق وباطل کی کشمکش جاری تھی ،مشرکین دعوت حق کودبانے میں   ناکام ہوچکے تھے اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موت کی تمناکرتے ہوئے آپس میں   کہتے تھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جس نے ہماری جماعت میں   تفرقہ ڈال دیاہے ،ہمارے آباؤاجدادکے وقتوں   سے پوجے جانے والے معبودوں   کی شان میں   گستاخیاں   اوربے ادبی کرتا ہے کے بارے میں  گردش زمانہ کا انتظار کرو اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے ساتھی منتشرہوجائیں   گے جس سے اس کی دعوت اپنی موت آپ مرجائے گی اورہماری جان چھوٹے گی ،فرمایا اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !رب ذوالجلال والاکرام کی ذات کے سواہرنفس کوایک وقت مقررہ پرموت کاذائقہ چکھناہے ،جیسے فرمایا

كُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [96]

ترجمہ:ہر چیزجو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہےاور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے ۔

اس اصول سے یقیناًتم بھی متثنٰی نہیں   ہو،اگرآپ موت سے ہم آغوش ہوں   گے توکیا آپ کے بعد یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں   گے ؟جیسے فرمایا

اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ۝۳۰ۡ [97]

ترجمہ:(اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم  )! تمہیں   بھی مرنا ہے اور ان لوگوں   کو بھی مرنا ہے ۔

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ مَنْدَهْ: حُدِّثْتُ عن الربیع قال: رأیت أشهب ابن عَبْدِ العَزِیْزِ سَاجداً یَقُوْلُ فِی سُجُوْدِهِ: اللَّهُمَّ أَمِتِ الشَّافِعِیَّ لاَ یَذْهَبُ عِلْمُ مَالِكٍ

ابوعبداللہ بن مندہ کہتے ہیں   انہوں   نے ربیع سے روایت کیاکہتے ہیں   میں   نے اشہب ابن عبدالعزیزکوسجدے میں   دیکھاوہ سجدے میں  کہہ رہے تھے اے اللہ!شافعی کوموت دے دے ۔

فَبَلَغَ الشافعی فأنشأ یقول:

جب امام شافعی رحمہ اللہ  کواس بات علم ہواتوانہوں   نے کہا

تَمَنَّى رِجَالٌ أَنْ أَمُوتَ وَإِنْ أَمُتْ، فَتلْكَ سَبیل لَسْت فیهَا بأوْحد

کچھ لوگوں   کی تمناہے کہ میں   مرجاؤں   اوراگرمیں   مرجاؤں  ،تویہ کوئی ایساراستہ نہیں   جس پرمیں   اکیلاہی چلنے والاہوں

فقُلْ للَّذی یَبْغی خِلَافَ الَّذِی مَضَى، تَهَیَّأ لأخْرى مثْلها فكَأن قَدِ

جوشخص مروجہ قانون کے خلاف چاہتاہے اس سےکہہ دو،کہ تم اس جیسی دوسری صورت حال کے لیے تیارہوجاؤکیونکہ وہ حالت آنے والی ہے۔[98]

اورہم مصائب والآم سے دو چار کرکے کبھی دنیاکے وسائل فراواں   سے بہرہ ورکرکے، کبھی صحت وفراخی کے ذریعہ سے، کبھی تنگی وبیماری کے ذریعہ سے، کبھی تونگری دے کر اور کبھی فقروفاقہ میں   مبتلاکرکے تم سب کی آزمائش کررہے ہیں   تاکہ شکرگزار اور ناشکرے کھل جائیں   ، اور آخرکارروزمحشر اعمال کی جوابدہی کے لئے تمہیں   ہماری بارگاہ میں   پیش ہوناہے جہاں  ہرشخص اپنے اعمال کی اچھی یابری جزاپائے گا اورآپ کارب بندوں   پرظلم نہیں   کرتا،جیسے فرمایا

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْہَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [99]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں   کے حق میں   ظالم نہیں   ہے ۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۝۱۸۲ۚ [100]

ترجمہ:یہ تمہارے اپنے ہاتھوں   کی کمائی ہے ، اللہ اپنے بندوں   کے لیے ظالم نہیں   ہے۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَاَنَّ اللہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۱۰ۧ [101]

ترجمہ:یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں   نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں   پر ظلم کرنے والا نہیں   ہے۔

۔۔۔وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶ [102]

ترجمہ: اورتیرارب اپنے بندوں   کے حق میں   ظالم نہیں   ہے ۔

یہ منکرین حق جب تمہیں   دیکھتے ہیں   تو تمہارا استہزاومذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں   کیایہ ہے وہ شخص جو تمہارے معبودوں   کی شان میں   گستاخی کرتا ہے،اوران کی خدائی کا ردکرتاہے؟جیسے فرمایا

وَاِذَا رَاَوْكَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا۝۰ۭ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللهُ رَسُوْلًا۝۴۱ [103]

ترجمہ:یہ لوگ جب تمہیں   دیکھتے ہیں   توتمہارامذاق بنالیتے ہیں  (کہتے ہیں  ) کیا یہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بناکر بھیجا ہے۔

اوران کااپناحال یہ ہے کہ خودساختہ معبودوں   کی مخالفت توانہیں   سخت ناگوارہے مگراپنے خالق ومالک اوررازق رب کا ذکرسن کرآگ بگولہ ہوجاتے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللہِ یَدْعُوْہُ كَادُوْا یَكُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا۝۱۹ۭۧ [104]

ترجمہ:اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔

خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ سَأُرِیكُمْ آیَاتِی فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ ‎﴿٣٧﴾‏ وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٣٨﴾‏ لَوْ یَعْلَمُ الَّذِینَ كَفَرُوا حِینَ لَا یَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ یُنْصَرُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ بَلْ تَأْتِیهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ یُنْظَرُونَ ‎﴿٤٠﴾‏ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٤١﴾‏(الانبیاء)
’’انسان جلد باز مخلوق ہے، میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو، کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو بتادو کہ یہ وعدہ کب ہے، کاش ! یہ کافر جانتے کہ اس وقت نہ تو یہ کافر آگ کو اپنے چہروں سے ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی ،(ہاں ہاں ! ) وعدے کی گھڑی ان کے پاس اچانک آجائے گی اور انھیں ہکا بکا کر دے گی، پھر نہ تو یہ لوگ اسے ٹال سکیں گے اور نہ ذرا سی بھی مہلت دیئے جائیں گے، اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے ۔‘‘

جلدبازانسان :

کفارکے مطالبہ عذاب میں   فرمایا،انسان فطری طورپر عجلت پسند اور جلدباز واقع ہواہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا۝۱۱ [105]

ترجمہ: انسان جلدبازواقع ہواہے۔

اس لئے وہ جلدی مطالبہ عذاب کرنے لگ جاتاہے ،مگراللہ تعالیٰ نہایت حلم کے ساتھ ان کومہلت دیتاہے ان کومہمل نہیں   چھوڑتااوران کے لئے ایک وقت مقررفرما دیتا ہے ، جیسے فرمایا

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۳۴ [106]

ترجمہ:ہرقوم کے لئے مہلت کی ایک مدت مقررہے ،پھرجب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے توایک گھڑی بھرکی تاخیروتقدیم بھی نہیں   ہوتی۔

لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ۝۰ۭ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۴۹ [107]

ترجمہ:ہر امت کے لیے مہلت کی ایک مدّت ہے، جب یہ مدّت پوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں   ہوتی۔

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْہَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۶۱ۧ [108]

ترجمہ:اگر کہیں   اللہ لوگوں   کو ان کی زیادتی پر فورا ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں   ہو سکتا۔

فرمایااگرتم اس دن کی ہولناکیوں   سے آگاہ ہوتے تو جلدی نہ مچاتے،میں   بہت جلد تمہیں   اپنی نشانیاں   دکھاؤں   گا،یہ لوگ قیامت کوبعیدازقیاس سمجھتے ہوئے بڑی جرات سے کہتے ہیں   اگرتم اپنے دعویٰ میں   سچے ہوکہ ہماری تکذیب اور نافرمانیوں   پراللہ کا عذاب نازل ہو جائے گا،قیامت ٹوٹ پڑے گی اورہم جہنم کے ایندھن بن جائیں   گےمگرہم تو تمہاری دعوت کی تکذیب کرنے کے باوجودایک عرصہ سے دندناتے پھررہے ہیں   مگرنہ کوئی عذاب نازل ہوتاہے اورنہ قیامت آتی ہے توبتلاؤوہ عذاب کب نازل ہوگا ؟جیسے فرمایا

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۵ [109]

ترجمہ: یہ کہتے ہیں  اگرتم سچے ہوتوبتاؤیہ وعدہ کب پوراہوگا۔

کاش! ان کافروں   کواس وقت کاکچھ علم ہوتاجبکہ نہ یہ اپنے منہ آگ سے بچاسکیں   گے نہ اپنی پیٹھیں  ،یعنی پوراجسم ہی آگ کی لپیٹ میں   ہوگا،جیسے فرمایا

لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۔۔۔۝۱۶ [110]

ترجمہ:ان پر آگ کی چھتریاں   اوپر سے بھی چھائی ہوں   گی اور نیچے سے بھی ۔

 لَہُمْ مِّنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ۔۔۔۝۴۱ [111]

ترجمہ:ان کے لیے جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا ۔

سَرَابِیْلُہُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰى وُجُوْہَہُمُ النَّارُ۝۵۰ۙ [112]

ترجمہ:تارکول کے لباس پہنے ہوئے ہوں   گے اور آگ کے شعلے ان کے چہروں   پر چھائے جا رہے ہوں   گے ۔

اورنہ ان کو کہیں   سے مدد پہنچے گی،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَا لَہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ وَّاقٍ۝۳۴ [113]

ترجمہ:کوئی ایسا نہیں   جو انہیں   اللہ سے بچانے والا ہو ۔

قیامت توان پراچانک بلا ئے ناگہانی کی طرح ٹوٹ پڑے گی،اس مضمون کو متعددمقامات پر فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىہَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ۝۰ۚ لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭۘؔثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً۝۱۸۷ [114]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں   کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا آسمانوں   اور زمین میں   وہ بڑا سخت وقت ہوگا وہ تم پر اچانک آجائے گا۔

وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْہُ حَتّٰى تَاْتِیَہُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَہُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ۝۵۵ [115]

ترجمہ:انکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں   پڑے رہیں   گے یہاں   تک کہ یا تو ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائےیا ایک منحوس دن کا عذاب نازل ہو جائے۔

ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَہُمْ بَغْتَةً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۶۶ [116]

ترجمہ:کیا یہ لوگ اب بس اسی چیز کے منتظر ہیں   کہ اچانک ان پر قیامت آ جائے اور انہیں   خبر بھی نہ ہو ؟۔

فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً۔۔۔۝۱۸ [117]

ترجمہ: اب کیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں   کہ وہ اچانک ان پر آجائے ۔

ایک مقام پرفرمایاقیامت توآنکھ جھپکنے میں   آجائے گی،

 وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَاَقْرَبُ۝۷۷ [118]

ترجمہ: اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں   آدمی کی پلک جھپک جائے بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔

اور انہیں   اس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اس کودفع کرسکیں   گے اورنہ ان کوایک ساعت کی ڈھیل ہی مل سکے گی کہ توبہ ہی کرلیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوتسلی دیتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے پہلے رسولوں   کابھی مذاق اڑایا جا چکاہے مگر پیغمبروں   کامذاق اڑانے والے خودہی اسی چیزکے پھیرمیں   آکررہے جس کاوہ مذاق اڑاتے تھے،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰٓی  اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا۔۔۔۝۰۝۳۴ [119]

ترجمہ: تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاچکے ہیں  مگررسولوں   نے تکذیب،تضحیک وتذلیل پر اوران اذیتوں   پرجوانہیں   پہنچائی گئیں   صبرکیایہاں   تک کہ انہیں   ہماری مددپہنچ گئی۔

قُلْ مَنْ یَكْلَؤُكُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَٰنِ ۗ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُعْرِضُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ۚ لَا یَسْتَطِیعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ وَلَا هُمْ مِنَّا یُصْحَبُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا یَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِی الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ ‎﴿٤٤﴾‏قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ ۚ وَلَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا یُنْذَرُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ وَلَئِنْ مَسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُولُنَّ یَا وَیْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا ۖ وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِینَ ‎﴿٤٧﴾(الانبیاء)
’’ان سے پوچھئے کہ رحمٰن سے دن اور رات تمہاری حفاظت کون کرسکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے ذکر سے پھرے ہوئے ہیں،کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں جو انہیں مصیبتوں سے بچالیں،کوئی بھی خود اپنی مدد کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ کوئی ہماری طرف سے رفاقت دیا جاتا ہے ،بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو زندگی کے سرو سامان دیئے یہاں تک کہ ان کی مدت عمر گزر گئی، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں، اب کیا وہی غالب ہیں ؟ کہہ دیجئے ! میں تمہیں اللہ کی وحی کے ذریعہ آگاہ کر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انھیں آگاہ کیا جائے، اگر انھیں تیرے رب کے کسی عذاب کا جھونکا بھی لگ جائے تو پکار اٹھیں کہ ہائے ہماری بدبختی یقیناً ہم گناہ گار تھے، قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو، پھر کسی پر کچھ ظلم بھی نہ کیا جائے گا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لا حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے ۔‘‘

ذلت ورسوائی کے مارے لوگ :

اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کاذکرفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہورات کوجب تم اپنے بستروں   پرآرام کررہے ہوتے ہواوردن میں   جب تم معاش میں   مصروف ہوتے ہوتوکون تمہاری حفاظت کررہاہوتاہے ،یعنی اللہ ہی تمہاری حفاظت کررہاہوتاہے، لیکن اگر اللہ مالک الملک رات میں   یادن میں   کسی گھڑی عذاب نازل یاقیامت برپاکرناچاہے تواس کے سوا تمہاراکون سامعبود تمہیں   اللہ قادرمطلق سے بچاسکتاہے؟مگریہ خودساختہ معبودوں   کے دھوکے میں   اپنے رب حقیقی کی نصیحت سے اعراض کررہے ہیں  ،اگریہ اپنے دعوی میں   سچے ہیں  توذراان معبودوں   کے نام توبتلائیں   جواللہ کے مقابلے میں   ان کی مددیاعذاب سے بچانے کی قدرت رکھتے ہوں   ؟حقیقت تویہ ہے کہ جن کویہ اپنے معبود سمجھتے ہیں  اوران کی خوشنودی کے لئے مراسم عبودیت بجالاتے ہیں  انہوں   نے اللہ کے مقابلے میں   ان کی مددتوکیاکرنی ہے وہ تو خوداپنی مددکرنے اوراللہ کے عذاب سے بچنے پربھی قادرنہیں   ہیں   اورنہ ہماری ہی تائیدان کوحاصل ہے،اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں   کواوران کے آباؤاجدادکوہم زندگی کاسروسامان دیے چلے گئے، لمبی عمریں   دیں  ،جس سے ان کی زندگیاں   لہوولعب اور عیش وعشرت میں   گزرگئیں  ،جس سے ان کی سرکشی وکفربڑھ گیااور شیطان نے انہیں   دھوکےمیں   مبتلاکردیا کہ وہ صحیح راستے پرگامزن ہیں  ،مگرکیاانہیں   نظرنہیں   آتاکہ ارض کفربتدریج گھٹ رہی ہے اوردولت اسلام وسعت پذیرہے ،اسلام کاغلبہ عرب کے گوشے گوشے میں   پھیلتاجا رہاہے،اورچاروں   طرف سے ان پرحلقہ تنگ ہوتاچلاجارہاہے ؟

قَالَ الْحَسَنُ:ظُهُورُ الْمُسْلِمِینَ عَلَى الْمُشْرِكِینَ

حسن بصری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں   اس سے کفرپراسلام کاغلبہ مراد ہے۔[120]

کفر کو سمٹتا اوراسلام کوبڑھتاہوادیکھ کربھی یہ سمجھتے ہیں   کہ یہ غالب آجائیں   گے؟جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا۔۔۔۝۰۝۴۱ [121]

ترجمہ:کیایہ لوگ دیکھتے نہیں   ہیں   کہ ہم اس سرزمین پرچلے آرہے ہیں   اوراس کادائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں  ۔

ان سے کہہ دوکہ میں   تواللہ کارسول ہوں  ،جوکچھ تمہارے پاس لایاہوں   اپنی طرف سے نہیں   لایا،نہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں   نہ میں   غیب کاجاننے والاہوں   اورنہ میں   یہ دعویٰ کرتاہوں   کہ میں   فرشتہ ہوں   بلکہ رب نے تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے جوکلام مجھ پرنازل فرمایاہے وہ تمہیں   سناکر وعظ ونصیحت کررہاہوں   ،جیسے فرمایا

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاۗىِٕنُ اللہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۔۔۔۝۵۰ۧ [122]

ترجمہ:اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہومیں   تم سے یہ نہیں   کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں   نہ میں   غیب کا علم رکھتا ہوں   اور نہ یہ کہتا ہوں   کہ میں   فرشتہ ہوں  ، میں   تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔

قیامت کی ہولناکیوں   سے آگاہ کررہا ہوں   ، ایک سچے خیرخواہ کی طرح روزمحشرکی ذلت ورسوائی اورجہنم کے دردناک عذاب پرمتنبہ کر رہاہوں  مگراللہ جن کانوں   کوحق سننے سے بہراکردے ،ہرسوبکھری نشانیاں   دیکھنے کے باوجود آنکھوں   پر پردے ڈال دے ،حق بات قبول کرنے کے بجائے دلوں   پرمہرلگادے توان پروعظ ونصیحت کاکچھ اثرنہیں   ہوتا ،ابھی تویہ بڑی جرات کے ساتھ مطالبہ عذاب کررہے ہیں   لیکن اگرتیرے رب کاعذاب انہیں  ذراسابھی چھو جائے تو اپنے ظلم وکفرکااعتراف کرتے ہوئے کہنے لگیں   گے ہائے ہماری کم بختی!بے شک ہم خطا وار تھے،جیسے فرمایا

فَمَا كَانَ دَعْوٰىہُمْ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَآ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا ظٰلِـمِیْنَ۝۵ [123]

ترجمہ: اور جب ہمارا عذاب ان پر آگیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے۔

قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ۝۲۹ [124]

ترجمہ:وہ پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب ! واقعی ہم گنہگار تھے۔

میدان محشرمیں   انسانوں   کے ذرہ ذرہ اچھے برے اعمال کاوزن کرنے کے لئے ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والا ترازونصب کر دیں   گے ،پھرکسی شخص پرذرہ برابرظلم نہ ہوگا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [125]

ترجمہ:جو جو کچھ انہوں   نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں   گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَـنَةً یُّضٰعِفْھَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۴۰ [126]

ترجمہ:اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں   کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے ۔

یعنی کسی شخص کی نیکیوں   میں   کمی کی جائے گی نہ کسی شخص کی برائیوں   میں   اضافہ کیاجائے گا،جس کی رائی کے دانے برابربھی نیکی یا بدی ہوگی وہ ہم سامنے لے آئیں   گے ،جیسے فرمایا

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [127]

ترجمہ: پھرجس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گااورجس نے ذرہ برابربدی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گا۔

اورلقمان  رحمہ اللہ  نے اپنے بیٹے کونصیحت فرمائی تھی

 یٰبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [128]

ترجمہ:بیٹا!کوئی چیزرائی کے دانہ برابربھی ہواورکسی چٹان میں   یا آسمانوں   یازمین میں   کہیں   چھپی ہوئی ہواللہ اسے نکال لائے گا،وہ باریک بین اورباخبرہے۔

اورلوگوں   کے اچھے برےاعمال کا حساب لگانے کے لئے ہم کافی ہیں  ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَكَفٰى بِاللہِ حَسِـیْبًا۝۶ [129]

ترجمہ: اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے ۔

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ بَعْضِ شُیُوخِهِمْ، أَنَّ زِیَادًا، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَةَ حَدَّثَهُمْ عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ بَیْنَ یَدَیْهِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِی مَمْلُوكِینَ یَكْذِبُونَنِی وَیَخُونُونَنِی وَیَعْصُونَنِی، وَأَضْرِبُهُمْ وَأَسُبُّهُمْ، فَكَیْفَ أَنَا مِنْهُمْ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُحْسَبُ مَا خَانُوكَ وَعَصَوْكَ وَیُكَذِّبُونَكَ وَعِقَابُكَ إِیَّاهُمْ. فَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِیَّاهُمْ دُونَ ذُنُوبِهِمْ كَانَ فَضْلًا لَكَ عَلَیْهِمْ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِیَّاهُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِهِمْ كَانَ كَفَافًا، لَا لَكَ وَلَا عَلَیْكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِیَّاهُمْ فَوْقَ ذُنُوبِهِمْ، اقْتُصَّ لَهُمْ  مِنْكَ الْفَضْلُ الَّذِی بَقِیَ قِبَلَكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک صحابی بارگاہ نبوت میں   حاضر ہو کر سامنے بیٹھےاور کہنے لگے اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے کچھ غلام ہیں  ، وہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں  ، خیانت بھی کرتے ہیں   اور میرا کہا بھی نہیں   مانتے پھر میں   انہیں   مارتا ہوں   اور برا بھلا کہتا ہوں   میرا ان کے ساتھ کیا معاملہ رہے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ان کی خیانت ، جھوٹ اور نافرمانی اور تمہاری سزا کا حساب لگایا جائے گااگر تمہاری سزا ان کے جرائم سے کم ہوئی تو وہ تمہارے حق میں   بہتر ہوگی اور اگر تمہاری سزا ان کے گناہوں   کے برابر نکلی تو معاملہ برابر برابر ہوجائیگاتمہارے حق میں   ہوگا اور نہ تمہارے خلاف،اور اگر سزا ان کے گناہوں   سے زیادہ ہوئی تو اس اضافے کا تم سے بدلہ لیا جائے گا،

فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَبْكِی بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَهْتِفُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا لَهُ؟ مَا یَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ: {وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِینَ} [130]فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَجِدُ شَیْئًا خَیْرًا مِنْ فِرَاقِ هَؤُلَاءِ – یَعْنِی عَبِیدَهُ – إِنِّی أُشْهِدُكَ أَنَّهُمْ أَحْرَارٌ كُلُّهُمْ

اس پر وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے ہی زاروقطار رونے لگا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اسے کیا ہوا؟   کیایہ اللہ کی کتاب کی یہ آیت نہیں   پڑھتا’’ قیامت کے روزہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں   گے ،پھرکسی شخص پرذرہ برابرظلم نہ ہوگا،جس کارائی کے دانے برابربھی کچھ کیادھراہوگاوہ ہم سامنے لے آئیں   گے اورحساب لگانے کے لئے ہم کافی ہیں  ۔‘‘ اس آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ! میں   اس سے بہتر کوئی حل نہیں   پاتا کہ ان سب غلاموں   کو اپنے سے جدا کر دوں  ، اس لئے میں   آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں   کہ وہ سب آزاد ہیں  ۔ [131]

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَلِمَتَانِ حَبِیبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِیفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِیلَتَانِ فِی المِیزَانِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِیمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوکلمے ہیں   جوزبان پرہلکے مگرمیزان میں   وزن دارہیں   اوراللہ کوبہت پیارے ہیں   سبحان اللہ وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم۔[132]

 وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِیَاءً وَذِكْرًا لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿٤٨﴾‏ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ ‎﴿٤٩﴾‏ وَهَٰذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ ۚ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ (الانبیاء)
’’یہ بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسیٰ و ہارون کو فیصلے کرنے والی نورانی اور پرہیزگاروں کے لیے وعظ و نصیحت والی کتاب عطا فرمائی ہے، وہ لوگ جو اپنے رب سے بن دیکھے خوف کھاتے ہیں، اور قیامت (کے تصور) سے کانپتے رہتے ہیں اور یہ نصیحت اور برکت والا قرآن بھی ہم نے نازل فرمایا ہے کیا پھر بھی تم اس کے منکر ہو ۔‘‘

کتاب النور:

انبیاء کاذکرکرتے ہوئے جلیل القدرکتاب تورات کی صفات بیان فرمائی کہ تم پرنازل قرآن کریم سے پہلے ہم موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام  کوحق وباطل اورحلال وحرام میں   فرق کرنے والی اور انسان کوسیدھاراستہ دکھانے والی روشنی اورانسانوں   کواس کابھولاہواسبق یاددلانے والا ذکرنازل کرچکے ہیں   ان متقی لوگوں   کی ہدایت ورہنمائی  کے لئے جوغائبانہ اپنے معبود حقیقی سے ڈرتے رہتے ہیں  ،جیسے جنتیوں   کے اوصاف میں   فرمایا

مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۨ۝۳۳ۙ [133]

ترجمہ:جوبے دیکھے رحمٰن سے ڈرتاتھا اورجودل گرویدہ لئے ہوئے آیاہے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِیْرٌ۝۱۲ [134]

ترجمہ:جو لوگ بےدیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں  یقینا ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر ۔

اورجودنیاکی رنگینیوں   میں   مست ہوکر،جوابدہی کے احساس سے عاری ہوکر زندگی نہیں   گزاردیتے بلکہ جن کو ہردم یہ دھڑکالگاہوکہ ایک دن ہم نے رب کی بارگاہ میں   حاضرہوکراپنے اعمال کاحساب دیناہے ،جیسے فرمایا

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ۝۰ۙ فَیَقُوْلُ ہَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَہْ۝۱۹ۚاِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ۝۲۰ۚ [135]

ترجمہ:اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں   دیا جائے گاوہ کہے گا لو دیکھو، پڑھو میرا نامہ اعمال،میں   سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والاہے۔

اگرہم اعمال صالحہ کریں   گے تو رب کی رحمت کے مستحق ہوں   گے اوراگراس کے برعکس کیے توجہنم ہر کٹے کافرکی گھات میں   لگی ہوئی ہے ،جیسے فرمایا

اِنَّ جَہَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا۝۲۱۠ۙ [136]

ترجمہ:درحقیقت جہنم ایک گھات ہے۔

یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۝۰ۭ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ۝۵۴ۙ [137]

ترجمہ:یہ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں  حالانکہ جہنم ان کافروں   کو گھیرے میں   لے چکی ہے۔

قرآن حکیم کودوجلیل القدراوصاف کاذکرکرتے ہوئے فرمایا اوراب یہ بابرکت ذکرہم نے قیامت تک تمام انسانوں  کی ہدایت ور ہنمائی کے لئے تم پر نازل کیا ہے،جب ان لوگوں   کو اعتراف ہے کہ تورات اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے توحقانیت ،صداقت اورنورانیت والے قرآن مجید کے  منزل من اللہ ہونے سے یہ کیوں   انکارکرتے ہیں   ۔یعنی نہ تویہ رسول نرالاہے اورنہ ہی قرآن کریم پہلی مرتبہ نازل کیاگیاہے توپھراس پرایمان لاکراپنی اخروی زندگی کی فکرکیوں   نہیں   کرتے۔

وَلَقَدْ آتَیْنَا إِبْرَاهِیمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِینَ ‎﴿٥١﴾‏ إِذْ قَالَ لِأَبِیهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِینَ ‎﴿٥٣﴾‏ قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ‎﴿٥٤﴾‏ قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللَّاعِبِینَ ‎﴿٥٥﴾‏ قَالَ بَلْ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِی فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ مِنَ الشَّاهِدِینَ ‎﴿٥٦﴾‏(الانبیاء)
’’یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اسکی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اسکے احوال سے بخوبی واقف تھے ،جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں ؟ سب نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا، آپ نے فرمایا پھر تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا رہے، کہنے لگے کیا آپ ہمارے پاس سچ مچ حق لائے ہیں یا یوں ہی مذاق کر رہے ہیں،آپ نے فرمایا نہیں درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے، میں تو اپنی بات کا گواہ اور قائل ہوں ۔‘‘

اورموسیٰ علیہ السلام وہارون علیہ السلام سے پہلے ہم نے ابراہیم کونبوت عطاکرنے سے قبل زمین وآسمان کی بادشاہی کامشاہدہ کروایااور اپنی دلیلیں   الہام کی تھیں  ،جیسے فرمایا:

وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰهَآ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰی قَوْمِهٖ ۔۔۔ ۝۸۳ [138]

ترجمہ:یہ تھی ہماری وہ حجت جوہم نے ابراہیم علیہ السلام کواس کی قوم کے مقابلہ میں   عطاکی تھی ۔

اورہم خوب جانتے تھے کہ وہ اس رشدکے اہل اوراپنی پاکیزگی اورذہانت کی بناپراس کے مستحق ہیں   ،جیسے فرمایا

۔۔۔اَللهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ۔۔۔  ۝۱۲۴ [139]

ترجمہ:اللہ خوب جانتاہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے ۔

یادکرووہ موقع جبکہ اس نے بچپنے میں   اپنے باپ اوراپنی قوم سے کہاتھا کہ تمہارے اپنے ہاتھوں   لکڑی ،پتھراورسونے چاندی کی مختلف شکل وصورت میں   تراشی ہوئی ان مورتیوں   میں   کیافضیلت ہے جن کی تم یکسوئی اورانہماک سے جم کرعبادت کرتے ہو؟قوم کے پاس ان کی پرستش کی کوئی دلیل توتھی نہیں   اس لئے جواب دیاہم نے اپنے آباؤاجدادکوان کی عبادت کرتے پایاہے اس لئے ہم بھی ان کی تقلیدمیں   پرستش کرتے ہیں  ،ابراہیم علیہ السلام  نے کہا تم نے آباؤاجدادکی اندھی تقلیدکی جودلیل دی ہے وہ درست نہیں  ،حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے معبود حقیقی کوچھوڑکرجوتمہاراخالق ،مالک اور رازق ہے ان بے جان چیزوں   کی پرستش کرکے گمراہی میں   پڑے ہوئے ہواورتمہارے آباؤاجداد بھی صریح گمراہی میں   پڑے ہوئے تھے،قوم نے دعوت توحیدسنی ہوئی نہ تھی اس لئے ہکابکاہوکرکہنے لگےاے ابراہیم! کیاتو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کررہاہے یا مذاق کرتاہے؟ابراہیم علیہ السلام  نے جواب دیا نہیں   میں   تم سے کوئی مذاق نہیں   کررہابلکہ ایک ایسی چیزپیش کررہاہوں   جس کاعلم ویقین مجھے حاصل ہے اوروہ یہ کہ تمہارا معبود حقیقی یہ مورتیاں   نہیں   بلکہ وہ رب ہے جوزمین اور آسمانوں   کامالک اوران کاپیداکرنے والاہے،میں   اس بات کوتسلیم کرتاہوں   اور تمہارے سامنے گواہی دیتاہوں   کہ عبادت کے لائق اللہ وحدہ لاشریک ہے ،اس کے سواکوئی نہ رب ہے اورنہ معبود۔

وَتَاللَّهِ لَأَكِیدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِینَ ‎﴿٥٧﴾‏فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِیرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَیْهِ یَرْجِعُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٥٩﴾‏ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى یَذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِیمُ ‎﴿٦٠﴾‏ قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُونَ ‎﴿٦١﴾‏(الانبیاء)
’’اور اللہ کی قسم میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا ،پس اس نے سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے، ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لیے کہ وہ سب اس کی طرف ہی لوٹیں ،کہنے لگے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟ ایسا شخص تو یقیناً ظالموں میں سے ہے، بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے، سب نے کہا اچھا اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاؤ تاکہ سب دیکھیں۔‘‘

اورابراہیم علیہ السلام  نے ایک عزم کے ساتھ اللہ کی قسم کھاکرکہا جب تم لوگ عیدیاتہوارپرباہرچلے جاؤگے تومیں   تمہاری غیرموجودگی میں   ضرورتمہارے معبودوں   کی خبرلوں   گااورعملاً تمہیں   مشاہدہ کرادوں   گاکہ تمہارے یہ معبود محض پتھرکے بے بس ولاچار بت ہیں   اورانہیں   کسی قسم کی کوئی قدرت اور اختیارحاصل نہیں   ہے،چنانچہ جب قوم اپنے پجاریوں   اور مجاوروں   سمیت اپنی عیدیاتہوار منانے کے لئے شہرسے باہرچلے گئے توابراہیم علیہ السلام موقعہ غنیمت جان کران کے مرکزی مندرمیں   گھس گئے اورہتھوڑے کی ضربوں   سے چھوٹے چھوٹے بتوں   کوٹکڑے ٹکڑے کردیا،جیسے فرمایا

فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًۢـا بِالْیَمِیْنِ۝۹۳ [140]

ترجمہ:اس کے بعد وہ ان پر پل پڑا اور سیدھے ہاتھ سے خوب ضربیں   لگائیں  ۔

اورپھرا پنا ہتھوڑا ان کے بڑے بت کے ہاتھ میں   پکڑاکریا کندھے پررکھ کراس کوچھوڑدیا تاکہ وہ اس سے پوچھیں  اورمیں   انہیں   بتوں   کی بے بسی اورلاچاری ظاہر کرکے انہیں  دعوت توحید دوں   ،طاغوت کی بندگی سے ہٹاکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی اوراطاعت کی طرف ان کارخ موڑدوں  ، شام کے وقت جب قوم تھکی ہاری واپس آئی اور انہوں   نے اپنے معبودوں   کی اہانت اوررسوائی دیکھی توکہنے لگے ہمارے معبودوں   کایہ حال کس نے کردیا؟یقیناًکوئی بڑاہی ظالم شخص تھا، بعض لوگ جنہوں   نے ابراہیم علیہ السلام  کی بات سنی ہوئی تھی بولےہم نے ابراہیم علیہ السلام کو ان کامذمت وحقارت کے ساتھ ذکرکرتے سناتھامعلوم ہوتاہے یہ اسی کی کارستانی ہے،مندرکے بڑے پنڈتوں   نے کہاتو ابراہیم علیہ السلام کو پکڑکر لوگوں  کے سامنے لے آؤتاکہ گواہ اس کے خلاف گواہیاں   دیں   اور اس کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جاسکےتاکہ آئندہ کسی کوایساکرنے کی جرات نہ ہوسکے،اوریہی ابراہیم علیہ السلام چاہتے تھے۔

قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا یَا إِبْرَاهِیمُ ‎﴿٦٢﴾‏ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِیرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا یَنْطِقُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٦٤﴾‏ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰؤُلَاءِ یَنْطِقُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْئًا وَلَا یَضُرُّكُمْ ‎﴿٦٦﴾‏ أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿٦٧﴾‏ قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِینَ ‎﴿٦٨﴾‏ قُلْنَا یَا نَارُ كُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِیمَ ‎﴿٦٩﴾‏ وَأَرَادُوا بِهِ كَیْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِینَ ‎﴿٧٠﴾‏ وَنَجَّیْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِی بَارَكْنَا فِیهَا لِلْعَالَمِینَ ‎﴿٧١﴾‏(الانبیاء)
’’کہنے لگے اے ابراہیم (علیہ السلام) !کیا تو نے ہی ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے،آپ نے جواب دیا بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے خداؤں سے پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں، پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقع ظالم تو تم ہی ہو، پھر اپنے سروں کے بل اوندھے ہوگئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تجھے بھی معلوم ہے یہ بولنے چالنے والے نہیں ،اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا افسوس ! کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان، تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کیا تمہیں اتنی سی عقل نہیں؟ کہنے لگے کہ اسے جلا دو، اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے، ہم نے فرما دیا اے آگ ! تو ٹھندی پڑجا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا!گو انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کا برا چاہا لیکن ہم نے انھیں ناکام بنادیا، اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی ۔ـ‘‘

چنانچہ بعض لوگ غم و غصہ میں   ابراہیم علیہ السلام کوپکڑنے کے لئے دوڑے ،جب وہ ابراہیم علیہ السلام  کوپکڑکرمجمع کے سامنے لائے توبڑے پروہت نے پوچھااے ابراہیم!ہماری عدم موجودگی میں   کیاتو نے ہمارے معبودوں   کوتوڑاپھوڑا اوران کی اہانت کی ہے؟ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مخالفین پرحجت قائم کرنے کے لئے کہامیراخیال یہ ہے کہ یہ سب توڑپھوڑ کسی بات پر ناراض ہو کر ان کے بڑے بت نے کی ہے ،اگریہ ٹوٹے پھوٹے بت بولتے ہوں   توتمام حقیقت خودانہی کی زبانی سن لویاپھرخودبڑے بت سے دریافت کرلوکہ اس نے یہ حرکت کیوں   کی ہے ؟ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات سن کروہ اپنے ضمیرکی طرف پلٹے اوراپنے دلوں   میں  کہنے لگے واقعی تم خودہی ظالم ہوکہ ایسے معبودوں   کی پرستش کرتے ہو جو اپنی زبان سے حقیقت حال بیان کرسکتے ہیں   اورنہ خوداپنی مددآپ کرسکتے ہیں   توہمیں   کیانفع یانقصان پہنچائیں   گے، مگر پھر ان کی مت پلٹ گئی اورغصہ سے بولےاےابراہیم !تم ہمارے ساتھ ٹھٹھا اورتمسخرکررہے ہوجبکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ بولنے کی قدرت نہیں   رکھتے ،

قَالَ قَتَادَةُ: أَدْرَكَتِ الْقَوْمَ حَیْرَةُ سُوءٍ فَقَالُوا:لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلاءِ یَنْطِقُونَ

قتادہ کہتے ہیں   اس وقت یہ لوگ درحقیقت بدترین قسم کی حیرت میں   مبتلاتھے اسی وجہ سے انہوں   نے ابراہیم علیہ السلام سے کہاتم جانتے ہوکہ یہ توبولتے ہی نہیں  ۔[141]

جب مشرکین نے اپنے معبودوں   کی بے بسی کا اعتراف کرلیا توان کی بے عقلی پرافسوس کرتے ہوئےابراہیم علیہ السلام  علیہ السلام نے کہاپھرکیاتم اللہ کو چھوڑ کران چیزوں   کی پرستش کر رہے ہوجو تمہیں   نفع پہنچانے پرقادر ہیں   نہ نقصان ،تف ہے تمہاری عقلوں   پراورتمہارے ان بے بس ولاچار معبودوں   پرجن کی تم اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکر پرستش کر رہے ہوکیاتم کچھ بھی عقل وفہم نہیں   رکھتے کہ حق وسچ کوپہچان سکو؟جب ابراہیم علیہ السلام نے ان کی ضلالت وسفاہت کو واضح کردیاتووہ لاجواب ہوگئے مگرشرک سے تائب ہونے کے بجائے ابراہیم علیہ السلام  کے خلاف انتہائی سخت اقدام اٹھانے پرآمادہ ہوگئے ،چنانچہ انہوں   نے کہااپنے معبودوں   کی حمایت اورتائیدمیں   آگ کاایک بڑاالاؤ دہکاؤ اورابراہیم علیہ السلام کواس میں   جھونک ڈالو،یہ فیصلہ کرکے انہوں   نے زمین میں   ایک بڑاگڑھاکھودااوراس میں   لکڑیاں   ڈال کرآگ لگادی ،جب آگ خوب بھڑک اٹھی تو انہوں   نے ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں   ڈال دیا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:لَمَّا أُلْقِیَ إِبْرَاهِیمُ عَلَیْهِ السَّلَامُ فِی النَّارِ قَالَ: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِیلُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب ابراہیم علیہ السلام کوآپ میں   پھینکاگیااس وقت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایاہمارے لیے اللہ کافی ہے اوروہی بہترین کارسازہے۔[142]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ،قَالَهَا إِبْرَاهِیمُ عَلَیْهِ السَّلاَمُ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَقَالَهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ قَالُوا:{إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِیمَانًا، وَقَالُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ} [143]

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں   ڈالاگیاتھاتوانہوں   نے کلمہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اوروہی بہترین کارسازہے ۔‘‘ کہاتھا، اوریہی کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اورآپ کے صحابہ  رضی اللہ عنہما  نے اس وقت کہاتھاجب لوگوں   نے مسلمانوں   کو ڈرانے کے لئے کہاتھاکہ لوگوں  (یعنی قریش)نے تمہارے خلاف بڑاسامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے ان سے ڈرولیکن اس بات نے ان مسلمانوں   کا(جوش)ایمان اور بڑھا دیااوریہ مسلمان بولے کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اوروہی بہترین کام بنانے والاہے۔[144]

فَإِنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَنَا:أَنَّ إِبْرَاهِیمَ لَمَّا أُلْقِیَ فِی النَّارِ، لَمْ تَكُنْ فِی الْأَرْضِ دَابَّةٌ، إِلَّا أَطْفَأَتِ النَّارَ، غَیْرَ الْوَزَغِ، فَإِنَّهَا كَانَتْ تَنْفُخُ عَلَیْهِ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاجب ابراہیم علیہ السلام  کو(نمرودمردودنے)آگ میں   ڈالاتو اس آگ کوتمام  جانوربجھانے کی کوشش کررہے تھے مگر گرگٹ کے اوروہ اس میں   پھونک ماررہاتھااس لئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو مارڈالنے کاحکم فرمایاہے۔[145]

چنانچہ اپنی سنت کے مطابق کہ ہم رسولوں   اوراہل ایمان کوبچالیتے ہیں   ہم نے آگ کوحکم دیا کہ اے آگ!ابراہیم علیہ السلام پرسلامتی والی ٹھنڈی ہوجا،چنانچہ تعمیل حکم میں   آگ گلزاربن گئی ،مشرکین نے ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کاارادہ کیا مگرہم نے انہی کونقصان اٹھانے والوں   میں   سے کردیا ، اور ابراہیم علیہ السلام  اورلوط علیہ السلام کوجوابراہیم علیہ السلام پرایمان لے آئے تھے بچاکرعراق سے سرزمین شام وفلسطین کی طرف نکال لے گئے جودوہزاربرس تک انبیاء کامہبط رہی ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ إِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ، لَمْ یَكْذِبْ غَیْرَ ثَلَاثٍ  ثِنْتَیْنِ فِی ذَاتِ اللَّهِ  ، قَوْلُهُ:بَلْ فَعَلَهُ كَبِیرُهُمْ هَذَا  وَقَوْلُهُ :إِنِّی سَقِیمٌ، قَالَ:وَبَیْنَا هُوَ یَسِیرُ فِی أرض جبار من الجبابرة ومعه سَارَةُ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَأَتَى الْجَبَّارَ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ نَزَلَ بِأَرْضِكَ رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ أَحْسَنُ النَّاسِ،فَأَرْسَلَ إِلَیْهِ فَجَاءَ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الْمَرْأَةُ مِنْكَ؟ قَالَ: هِیَ أُخْتِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاابراہیم علیہ السلام  نے تین بارکے سواکبھی خلاف واقعہ بات نہیں   کہی ان میں   دوبارکاتعلق تواللہ تعالیٰ کی ذات سے تھابلکہ یہ ان کے ان بڑے (بت)نے کیا(ہوگا) اوربلاشبہ میں   بیمارہوں  ،ابراہیم علیہ السلام ایک جابربادشاہ کی زمین میں   چل رہے تھے اورسارہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں  ، آپ نے ایک جگہ پڑاؤڈالاتواس جابربادشاہ سے ایک شخص نے کہاکہ آپ کی زمین میں   ایک شخص نے پڑاؤڈالاہے اوراس کے پاس ایک ایسی عورت ہے جوسب لوگوں   سے خوبصورت ہے اس نے آپ کی طرف پیغام بھیجاآپ اس کے پاس تشریف لے گئے، اس نے پوچھاکہ یہ عورت تمہاری کیالگتی ہے؟ آپ نے فرمایایہ میری بہن ہے،

قَالَ: فَاذْهَبْ فَأَرْسِلْ بِهَا إِلَیَّ ، فَانْطَلَقَ إِلَى سَارَةَفَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْجَبَّارَ سَأَلَنِی عَنْكِ فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِی  فَلَا تُكَذِّبِینِی عِنْدَهُ فَإِنَّكِ أُخْتِی فِی كِتَابِ اللَّهِ وَأَنَّهُ لَیْسَ فِی الْأَرْضِ مُسْلِمٌ غَیْرِی وَغَیْرُكِ ، فَانْطَلَقَ بِهَا إِبْرَاهِیمُ ثُمَّ قَامَ یُصَلِّی،  فَلَمَّا أَنْ دَخَلَتْ عَلَیْهِ فَرَآهَا أَهْوَى إِلَیْهَا فَتَنَاوَلَهَا فَأُخِذَ أَخْذًا شَدِیدًا

اس نے کہاجاؤاوراسے میرے پاس بھیج دو، آپ سارہ کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایااس جابربادشاہ نے مجھ سے آپ کے بارے میں   پوچھاتومیں   نے اسے بتایاکہ تم میری بہن ہو لہذااس کے پاس میری تکذیب نہ کرنا کیونکہ اللہ کی کتاب میں   تومیری بہن ہے(دینی بہن)اوراس سرزمین میں   میرے اورتمہارے علاوہ دوسراکوئی مسلمان نہیں   ہے،اس کے بعدابراہیم علیہ السلام انہیں   لے گئے، پھرکھڑے ہوکرنمازپڑھناشروع کردی،جب سارہ اس (ظالم بادشاہ)کے پاس گئیں   اوراس نے آپ کودیکھاتوآپ کی طرف مائل ہوااوراس نے آپ کوپکڑناچایاتووہ بہت شدت کے ساتھ جکڑاگیا،

فَقَالَ: ادْعِی اللَّهَ لِی وَلَا أَضُرُّكِ ،  فَدَعَتْ لَهُ فَأُرْسِلَ، فَأَهْوَى إِلَیْهَا، فَتَنَاوَلَهَا فَأُخِذَ بِمِثْلِهَا أَوْ أَشَدَّ فَفَعَلَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ فَأُخِذَ [فَذَكَرَ] مِثْلَ الْمَرَّتَیْنِ الْأُولَیَیْنِ ،فَقَالَ ادْعِی اللَّهَ فَلَا أَضُرُّكِ، فَدَعَتْ، لَهُ فَأُرْسِلَ، ثُمَّ دَعَا أَدْنَى حُجَّابِهِ فَقَالَ: إِنَّكَ لَمْ تَأْتِنِی بِإِنْسَانٍ، وَإِنَّمَا أَتَیْتَنِی بِشَیْطَانٍ

اس نے آپ سے کہااللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعاکرومیں   تمہیں   کوئی نقصان نہیں   پہنچاؤں   گاآپ نے اس کے لیے دعاکی تووہ چھوٹ گیامگروہ پھرپکڑنے کے لیے آپ کی طرف لپکاتوپہلے ہی کی طرح یااس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ جکڑاگیااورپھرتیسری مرتبہ بھی ایساہی ہوااوروہ پکڑاگیااوراس کی تفصیل بھی پہلی دوبارکی طرح بیان فرمائی بہرحال اس نے کہااللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعاکرمیں   تمہیں   کوئی نقصان نہیں   پہنچاؤں   گا، سارہ نے دعاکی تووہ چھوٹ گیاپھراس نے اپنے قریب ترین دربان کوبلایا  اورکہاتم میرے پاس کسی انسان کونہیں   بلکہ شیطان کولے آئے ہو،

وَالْمُرَادُ بِالشَّیْطَانِ الْمُتَمَرِّدُ مِنَ الْجِنِّی وَكَانُوا قَبْلَ الْإِسْلَامِ یُعَظِّمُونَ أَمْرَ الْجِنِّ جِدًّا وَیَرَوْنَ كُلَّ مَا وَقَعَ مِنَ الْخَوَارِقِ مِنْ فِعْلِهِمْ وَتَصَرُّفِهِمْ، قَوْلُهُ فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ أَیْ وَهَبَهَا لَهَا لِتَخْدُمَهَا لِأَنَّهُ أَعْظَمَهَا أَنْ تَخْدِمَ نَفْسَهَا

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں   یہاں   شیطان سے مرادبڑاسرکش جن ہےاسلام سے پہلے لوگ جنات کوبہت عظیم سمجھتے تھے،اورتمام خوارق واقعات کوجنات کاتصرف قراردیتے تھے، اس فاجروکافربادشاہ کے ساتھ جوجکڑے جانے اورمرگی کا دورہ پڑنے کاواقعہ پیش آیااس کی وجہ سے اس نے یہ خلاف عادت واقعہ سارہ کی جانب منسوب کیااوراسی تناظرمیں   انہیں   بڑاجن قراردیااورتعظماًخدمت کے لیے ہاجرہ دے دی۔[146]

أَخْرِجْهَا وَأَعْطِهَا هَاجَرَ فَأُخْرِجَتْ وَأُعْطِیَتْ هَاجَرَ فَأَقْبَلَتْ،فَلَمَّا أَحَسَّ إِبْرَاهِیمُ بِمَجِیئِهَا انْفَتَلَ مِنْ صِلَاتِهِ  قَالَ : مَهْیَم؟ قَالَتْ: كَفَى اللَّهُ كَیْدَ الْكَافِرِ الْفَاجِرِ وَأَخْدَمَنِی هَاجَرَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ  وَكَانَ : أَبُو هُرَیْرَةَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِیثِ قَالَ: فَتِلْكَ أُمُّكُمْ یَا بَنِی مَاءِ السَّمَاءِ

اسے یہاں   سے نکال دواوراسے ہاجرہ دے دو،سارہ کووہاں   سے نکال دیاگیااورآپ کو(خدمت کے لیے)ہاجرہ دے دی گئی،اس کے بعدآپ واپس تشریف لے آئیں   ابراہیم علیہ السلام نے جب آپ کی آمدکومحسوس کیاتوانہوں   نے نمازکوموقوف کیااورفرمایاکیاخبرہے؟ سارہ نے جواب دیااس کافروفاجرکے مکرکواللہ تعالیٰ نے روک دیااور خدمت کے لیے اس نے مجھے ہاجرہ دی ہے،محمدبن سرین کہتے ہیں   ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب حدیث کوبیان کرتے تووہ فرماتے اے آسمان کے پانی کے بیٹو!(اے اہل عرب!)یہ ہیں   وہ ہاجرجوتمہاری ماں   ہیں  ۔[147]

ابراہیم علیہ السلام ورکذبات ثلاثہ:

حدیث کی ایک روایت میں   یہ بات آئی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں   تین جھوٹ بولے،ان تینوں   جھوٹوں   کے بارے میں   مشہورمفسرقرآن علامہ مودودی رحمہ اللہ کی دوجگہ پرلکھی گئی بحث ایک رسائل ومسائل ۳۵تا۳۹؍۲ دوسرے تفہیم قرآن بسلسلہ تفسیرانبیاء حاشیہ نمبر۶۰ سے خوبصورت اورسادہ سے اندازمیں   کی گئی بحث پیش کرتے ہیں  ۔

قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ۝۰ۤۖ كَبِیْرُہُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْہُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ۝۶۳ [148]

ترجمہ:اس نے جواب دیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں  ؟ ۔

ابراہیم علیہ السلام  نے بت شکنی کے اس فعل کوبڑے بت کی طرف منسوب کیاہے اس سے اس کامقصدجھوٹ بولنانہ تھابلکہ اپنے مخالفین پرحجت قائم کرناچاہتے تھے ،یہ بات انہوں   نے اس لئے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں   خوداقرارکریں   کہ ان کے یہ معبودبالکل بے بس ولاچارہیں   اوران سے کسی فعل کی توقع تک نہیں   کی جاسکتی،ایسے مواقع پرایک شخص استدلال کی خاطرجوخلاف واقعہ بات کہتاہے اس کوجھوٹ قرارنہیں   دیاجاسکتاکیونکہ نہ وہ خودجھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتاہے اورنہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں   ،کہنے والااسے حجت قائم کرنے کے لیے کہتاہے اورسننے والابھی اسے اسی معنی میں   لیتاہے۔

۔۔۔إِنِّی سَقِیمٌ [149]

ترجمہ:اورمیں   بیمارہوں  ۔

والاواقعہ تواس کاجھوٹ ہوناثابت نہیں   ہوسکتاجب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ ابراہیم علیہ السلام فی الواقع اس وقت بالکل صحیح وتندرست تھے اوران کوادنیٰ سی بھی شکایت بھی نہ تھی ،یہ بات نہ قرآن میں   کہیں   بیان ہوئی ہے اورنہ اس زیربحث روایت کے سواکسی دوسری معتبرروایت میں   اس کا ذکر آیاہے۔

مولانامودوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں   ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ کے مسئلے پرمیں   نے دوجگہوں   پربحث کی ہے ایک رسائل ومسائل ۳۵تا۳۹؍۲اوردوسرے تفہیم القرآن بسلسلہ تفسیرانبیاء حاشیہ نمبر۶۰،فرماتے ہیں   میں   اس روایت کے مضمون کی صحت تسلیم کرنے میں   متامل ہوں   اگرمیرے ان دلائل کودیکھ کرآپ کااطمینان ہوجائے تواچھاہے اورنہ ہوتوجوکچھ آپ صحیح سمجھتے ہیں   اسی کوصحیح سمجھتے رہیں   ،اس طرح کے معاملات میں   اگراختلاف رہ جائے توآخرمضائقہ کیاہے ،آپ کے نزدیک حدیث کامضمون اس لیے قابل قبول ہے کہ وہ قابل اعتمادسندوں   سے نقل ہوئی ہے اورصحیح بخاری،صحیح مسلم،سنن نسائی اورمتعدددوسرے اکابرمحدثین نے اسے نقل کیاہے ،میرے نزدیک وہ اس لئے قابل قبول نہیں   ہے کہ اس میں   ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اوریہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں   ہے کہ چندراویوں   کی روایت پراسے قبول کرلیاجائےاس معاملے میں   میں   اس حدتک نہیں   جاتا،

وَلَا شَكَّ أَنَّ صَوْنَ إِبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ عَنِ الْكَذِبِ أَوْلَى مِنْ صَوْنِ طَائِفَةٍ مِنَ الْمَجَاهِیلِ عَنِ الْكَذِبِ

جہاں   تک امام رازی رحمہ اللہ گئے ہیں   وہ توکہتے ہیں   کہانبیاء کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے بدرجہابہترہے کہ اس روایت کے راویوں   کی طرف اسے منسوب کیاجائے۔[150]

لَمَّا وَقَعَ التَّعَارُضُ بَیْنَ نِسْبَةِ الْكَذِبِ إِلَى الرَّاوِی وَبَیْنَ نِسْبَتِهِ إِلَى الْخَلِیلِ عَلَیْهِ السَّلَامُ كَانَ مِنَ الْمَعْلُومِ بِالضَّرُورَةِ أَنَّ نِسْبَتَهُ إِلَى الرَّاوِی أَوْلَى،

اوریہ کہ جب نبی اورراویوں   میں   سے کسی ایک کی طرف جھوٹ کومنسوب کرناپڑجائے توضروری ہے کہ وہ نبی کے بجائے راوی کی طرف منسوب کیاجائے۔[151]

میں   اس روایت کے ثقہ راویوں   میں   سے کسی کے متعلق یہ نہیں   کہتا کہ انہوں   نے جھوٹی روایت نقل کی ہے بلکہ صرف یہ کہتاہوں   کہ کسی نہ کسی مرحلے پراس کونقل کرنے میں   کسی راوی سے بے احتیاطی ضرورہوئی ہے اس لئے اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کاقول قراردینامناسب نہیں   ہے ،محض سندکے اعتمادپر ایک ایسے مضمون کوآنکھیں   بندکرکے کیسے مان لیں   جس کی زدانبیاء علیہم السلام کے اعتمادپرپڑتی ہے؟ میں   ان دلائل سے بے خبرنہیں   ہوں   جواس روایت کی حمایت میں   اکابر محدثین نے پیش کیے ہیں   مگرمیں   ان کوتشفی بخش نہیں   پایاہے،جہاں   تک یہ کام بڑے بت نے کیاہے اورمیں   بیمارہوں   کاتعلق ہے ان دونوں   کے متعلق توتمام مفسرین ومحدثین اس پرمتفق ہیں   کہ یہ حقیقتاًجھوٹ کی تعریف میں   نہیں   آتے ،آپ تفسیرکی جس کتاب میں   چاہیں   ان آیات کی تفسیرنکال کردیکھ لیں   ،اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ ،عینی رحمہ اللہ ،قسطلانی رحمہ اللہ وغیرہ شارحین حدیث کی شرحیں   بھی ملاحظہ فرمالیں   کسی نے بھی یہ نہیں   ماناہے کہ یہ دونوں   قول فی الواقع جھوٹ تھے،رہابیوی کوبہن قراردینے کامعاملہ تویہ ایک ایسی بے ڈھب بات ہے کہ اسے بنانے کے لیے محدثین نے جتنی کوششیں   بھی کی ہیں   وہ ناکام ہوئی ہیں  ،تھوڑی دیرکے لئے اس بحث کوجانے دیجئے کہ جس وقت کایہ واقعہ بیان کیاجاتاہے اس وقت سارہ رحمہ اللہ کی عمرکم ازکم ۶۵سال تھی اوراس عمرکی خاتون پر کوئی شخص بھی فریفتہ نہیں   ہوسکتا(اگرچہ یہ بائیبل کی کتاب پیدائش کابیان ہے کہ مصرکے سفرکے وقت سارہ کی یہ عمرتھی)لیکن قرآن وحدیث سے بھی اس کی تائیدنکلتی ہے ، ایک طرف حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اسی سفرکے موقع پرمصرکے بادشاہ نے ہاجرہ کوابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں   نذرکیااوران سے اسماعیل علیہ السلام  پیداہوئے ،دوسری طرف قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ اسماعیل علیہ السلام  جب والدماجدکے ساتھ دوڑنے پھرنے کے قابل ہوگئے توقربانی کایادگارواقعہ پیش آیااوراس سے متصل زمانے ہی میں   ابراہیم علیہ السلام کواسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی اوراس بشارت پرسارہ کوسخت اچنبھاہواکیونکہ وہ بہت بوڑھی(عجوزہ)تھیں  ،ان دونوں   واقعات کے درمیان زیادہ سے زیادہ بارہ تیرہ سال کافصل ہوسکتاہے ،اب کیایہ باورکیاجاسکتاہے کہ ایک عجوزہ خاتون صرف دس بارہ سال پہلے ایسی حسین نوجوان تھیں   کہ مصر کابادشاہ انہیں   چھننے کے لئے بے چین ہوگیاہو،سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب بادشاہ سارہ کاحاصل کرنے کے درپے ہواتوابراہیم علیہ السلام نے آخرکس مصلحت سے کہاکہ یہ میری بہن ہیں  ؟اس صورت حال میں   بیوی کوبہن کہہ کرآخرکیافائدہ حاصل ہوسکتاتھا؟شارحین حدیث نے اس سوال کے جوجوابات دیے ہیں   وہ ملاحظہ ہوں  ۔

اس بادشاہ کے دین میں   یہ بات تھی کہ صرف شوہروالی عورتوں   ہی سے تعرض کیاجائے ،اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے بیوی کوبہن اس امیدپرکہاکہ وہ سارہ کوبے شوہرعورت سمجھ کرچھوڑ دے گا۔

ابراہیم علیہ السلام نے بیوی کوبہن اس لئے کہاکہ بادشاہ عورت کوچھوڑنے والاتوہے نہیں  ،اب اگرمیں   یہ کہوں   کہ میں   اس کاشوہرہوں   توجان بھی جائے گی اوربیوی بھی،اوراگربہن کہوں   توصرف بیوی ہی جائے گی جان بچ جائے گی۔

ابراہیم علیہ السلام کواندیشہ ہواکہ سارہ کوبیوی بتاؤں   گاتویہ بادشاہ مجھ سے زبردستی طلاق دلوائے گا،اس لئے انہوں   نے کہایہ میری بہن ہے۔

اس بادشاہ کے دین میں   یہ بات تھی کہ بھائی اپنی بہن کاشوہرہونے کے لئے دوسروں   کی بہ نسبت زیادہ حق دارہے ،اس لئے ان کوبیوی کوبہن اس امیدپربتایاکہ یہ سارہ کومیرے ہی لئے جھوڑدے گا۔[152]

ذراغورکیجئے کہ ان توجیہات نے بات بنائی ہے یاکچھ اوربگاڑدی ہے؟آخرکس تاریخ سے یہ نادرمعلومات حاصل ہوئی ہیں   کہ دنیامیں   کوئی دین ایسابھی گزراہے جس میں   بے شوہرعورت کوچھوڑکرصرف شوہردارعورت ہی سے تعرض کرنے کاقاعدہ مقررہوا؟اوریہ ایک نبی کی سیرت وشخصیت کاکیسابلندتصورہے کہ وہ جان بچانے کے لئے بیوی کی عصمت قربان کرنے پرراضی ہوجائے؟اوریہ کس قدرمعقول بات ہے کہ زبردستی طلاق دلوائے جانے کے اندیشے سے بیوی کوبہن کہہ کردوسرے کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ بے طلاق ہی اس سے استفادہ کرلے؟اوریہ کتنی دل لگتی بات ہے کہ بادشاہ بھائی کوبہن کاشوہرہونے کے لئے زیادہ حقدارمان لے گامگرخودشوہرہونے کے لئے حقدار نہ مانے گا؟

اس طرح کے دلائل سخن سازیوں   سے ایک مہل بات کوٹھیک بٹھانے کی کوشش کرنے سے کیایہ مان لینازیادہ بہترنہیں   ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہرگزیہ  بات نہ فرمائی ہوگی اورکسی غلط فہمی کی بناپریہ قصہ غلط طریقے سے نقل ہوگیاہے۔اوربیوی کوبہن قراردینے کاواقعہ توبجائے خودایسامہمل ہے کہ ایک شخص اس کوسنتے ہی یہ کہہ دے گاکہ یہ ہرگزواقعہ نہیں   ہو سکتا،یہ قصہ اس وقت کابتایاجاتاہے جب ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کے ساتھ مصرگئے تھے ،بائیبل کی روسے اس وقت ابراہیم علیہ السلام کی عمر۷۵برس اورسارہ کی عمر۶۵برس سے کچھ زیادہ ہی تھی اوراس عمرمیں   ابراہیم علیہ السلام کویہ خوف لاحق ہوتاہے کہ شاہ مصراس خوبصورت خاتون کوحاصل کرنے کی خاطرمجھے قتل کردے گا،چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں   کہ جب مصری تمہیں   پکڑکربادشاہ کے پاس لے جانے لگیں   توتم بھی مجھے اپنابھائی بتانااورمیں   بھی تمہیں   اپنی بہن بتاؤں   گاتاکہ میری جان بچ جائے (پیدائش باب۱۲) تیسرے جھوٹ کی بنیاداس صریح لغواورمہمل اسرائیلی روایت پرہے۔

معززقارین قرآن مجیدمیں   فرمایاگیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۱۹ [153]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں   کا ساتھ دو۔

لِّیَسْـَٔـلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِہِمْ۝۰ۚ وَاَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۸ۧ [154]

ترجمہ:تاکہ سچے لوگوں   سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں   سوال کرے اور کافروں   کے لیے تو اس نے دردناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے۔

لِّیَجْزِیَ اللہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِہِمْ۔۔۔۝۲۴ۚ [155]

ترجمہ: (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں   کو ان کی سچائی کی جزا دے۔

یعنی ایمان کادارومدار سچائی پرمنحصرہے اوراللہ تعالیٰ اسی کی ہی جزاعطافرمائے گا،جب سچائی کی اس قدراہمیت ہےتوایک جلیل القدر پیغمبر جنہیں  خلیل اللہ کالقب دیا گیا ، جو رب کے حکم سے بولتاہے بھلاکیسے جھوٹ میں   ملوث ہوسکتاہے ،وگرنہ قرآن پاک میں   توابراہیم علیہ السلام کوصدیق کے لقب سے نوازا گیاہے۔

وَاذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَ۝۰ۥۭ اِنَّہٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۝۴۱ [156]

ترجمہ: اور اس کتاب میں   ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو بےشک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِینَ ‎﴿٧٢﴾‏وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِینَ ‎﴿٧٣﴾‏ وَلُوطًا آتَیْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّیْنَاهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِی كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِثَ ۗ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِینَ ‎﴿٧٤﴾‏ وَأَدْخَلْنَاهُ فِی رَحْمَتِنَا ۖ إِنَّهُ مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٧٥﴾‏(الانبیاء)
’’ اور ہم نے اسے اسحاق عطا فرمایا اور یعقوب اس پر مزید اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا،اور ہم نے انھیں پیشوا بنادیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے اور نمازوں کے قائم رکھنے اور زکوة دینے کی وحی (تلقین) کی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے، ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھی حکم اور علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات دی جہاں لوگ گندے کاموں میں مبتلا تھے، اور تھے بھی وہ بدترین گنہگار، اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا بیشک وہ نیکوکار لوگوں میں سے تھا ۔‘‘

ابراہیم علیہ السلام نے دوران ہجرت دعاکی تھی ۔

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۰۰ [157]

ترجمہ:اے پروردگار ! مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں   میں   سے ہو۔

فرمایاہم نے دعاکوشرف قبولیت بخشااور اسے اسماعیل عطاکردیا،اس کے بعدبغیردعاکے ہم نے اسے بڑھاپے میں   بانجھ بیوی سے ایک اوربیٹااسحاق علیہ السلام اورپوتایعقوب علیہ السلام عطاکیا،جیسےفرمایا:

 فَبَشَّرْنٰهَا بِـاِسْحٰقَ۝۰ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۝۷۱ [158]

ترجمہ:پھرہم نے اس کو اسحاق علیہ السلام  کی اوراسحاق علیہ السلام کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔

اور سب کونیکوکار بنایا اور نبوت سے سرفرازکرکے دنیاکامقتدااورپیشوا بنادیاجواللہ کے حکم سے خلق خداکودعوت اسلام پیش کرتے تھے اورہم نے انہیں   بذریعہ وحی نیک کاموں   کی اورحقوق اللہ میں   نماز قائم کرنے اورحقوق العبادمیں  زکوٰة دینے کی ہدایت کی تھی،چنانچہ یہ دونوں   افضل کام وہ خودبھی سرانجام دیتے تھے اورلوگوں   کوبھی اس کی تلقین کرتے تھے ، اوروہ ہمارے عبادت گزاربندے تھے،اورلوط علیہ السلام کوہم نے نبوت سے سرفرازکیااوراسے عمورہ ، سدوم اورآس پاس کی بستیوں   کی طرف بھیجا جوفلسطین کے بحیرہ مردارسے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا،یہ قوم عمل لواطت جیسے قبیح فعل میں   مبتلاتھی،لوطؑنے انہیں   دعوت توحید کے ساتھ اس بدکاری اورفواحش سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی مگرقوم کسی طرح بھی راہ راست پرآنے کوتیارنہ ہوئی ،چنانچہ ایک دن صبح کے وقت اللہ نے ان پراپنا دردناک عذاب نازل کردیا،ان کی بستیوں   کو تلپٹ کر دیاگیااوران پرپکی ہوئی مٹی کے نشان ذدہ پتھروں   کی بارش برسائی گئی ،جیسے فرمایا:

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙ [159]

ترجمہ:پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مَٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے۔

فَجَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۷۴ۭ [160]

ترجمہ:اور ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں   کی بارش برسا دی۔

اورعذاب سے قبل لوط علیہ السلام اوران کے متبعین کوراتوں   رات اس بستی سے بچاکر نکال دیا اور پوری قوم کونشانہ عبرت بنادیا،درحقیقت وہ بڑی ہی بری فاسق قوم تھی،اورلوط علیہ السلام کوہم نے اپنی رحمت میں   داخل کیا،صالحیت کے اعتبارسے انبیاء کرام سب سے بڑے لوگ ہیں  ،اس لئے صالحیت کے ساتھ ان کاوصف بیان فرمایاکہ وہ صالح لوگوں   میں   سے تھا ، سلیمان علیہ السلام  نے بھی دعامانگی تھی۔

  ۔۔۔وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۹ [161]

ترجمہ:اوراپنی رحمت سے مجھ کواپنے صالح بندوں   میں   داخل کر۔

وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّیْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیمِ ‎﴿٧٦﴾‏ وَنَصَرْنَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٧٧﴾(الانبیاء)
’’نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ اس نے اس سے پہلے دعا کی، ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑے کرب سے نجات دی، اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے تھے ان کے مقابلے میں ہم نے اس کی مدد کی، یقیناً وہ برے لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو ڈبو دیا۔‘‘

نوح علیہ السلام کی دعا:

اور نوح علیہ السلام کوہم نے نبوت سے سرفرازکیاتھا،یادکروجبکہ ابراہیم علیہ السلام اورلوط علیہ السلام  سے پہلے نوح علیہ السلام نے ساڑھے نوسوسال تک قوم کوشب وروزکھلے اورچھپے دعوت اسلام پیش کی مگر قوم نے ان کااوراہل ایمان کامذاق اڑایااوردعوت حق قبول کرنے سے انکارکردیا ،آخرکارقوم سے مایوس ہوکراس نے ہمیں   پکاراتھا۔

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝۱۰ [162]

ترجمہ:آخرکار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں   مغلوب ہو چکا اب تو ان سے انتقام لے۔

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِ۝۱۱۷ۚۖفَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۱۸ [163]

ترجمہ:نوح علیہ السلام  نے دعا کی اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا اب میرے اور ان کے درمیان دوٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں   ان کو نجات دے۔

ایک مقام پر تفصیل سے دعابیان فرمائی۔

 وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۝۲۷رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝۰ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِـمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا۝۲۸ۧ [164]

ترجمہ:اور نوح علیہ السلام  نے کہا میرے رب! ان کافروں   میں   سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں   کو گمراہ کریں   گے اور انکی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا، میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں   مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے،اور سب مومن مردوں   اور عورتوں   کو معاف فرما دے اور ظالموں   کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں   اضافہ نہ کر۔

ہم نے اس کی دعاکوقبولیت کاشرف بخشا اوراسے، اس کے گھروالوں   اوراہل ایمان کوکشتی کے ذریعہ طوفان عظیم سے نجات دی اوراس قوم کی مشرک قوم کے مقابلے میں   اس کی مددکی جس نے ہماری آیات کوجھٹلادیاتھا،وہ بڑے برے لوگ تھے پس ہم نے ان سب کوغرق کرکے ان کے انجام تک پہنچادیا۔

وَدَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ إِذْ یَحْكُمَانِ فِی الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِیهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِینَ ‎﴿٧٨﴾‏ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَیْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَیْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِینَ ‎﴿٧٩﴾‏ وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ عَاصِفَةً تَجْرِی بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِی بَارَكْنَا فِیهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عَالِمِینَ ‎﴿٨١﴾‏وَمِنَ الشَّیَاطِینِ مَنْ یَغُوصُونَ لَهُ وَیَعْمَلُونَ عَمَلًا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِینَ ‎﴿٨٢﴾‏(الانبیاء)
’’اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چرچگ گئی تھیں اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے،ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم و علم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کردیئے تھے جو تسبیح کرتے تھےاور پرند بھی، ہم کرنے والے ہی تھے ، ہم نے اسے تمہارے لیے لباس بنانے کی کاریگری سکھائی تاکہ لڑائی کی ضرر سے تمہارا بچاؤ ہو، کیا تم شکر گزار بنو گے؟ ہم نے تند و تیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا جو اس کے فرمان سے اس زمین کی طرف چلتی ہے جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں، اسی طرح سے بہت سے شیاطین بھی ہم نے اس کے تابع کئے تھے جو اس کے فرمان سے غوتے لگاتے تھے اور اس کے سوا بھی بہت سے کام کرتے تھے، ان کے نگہبان ہم ہی تھے۔‘‘

اے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ سے پہلے ہم نے داود علیہ السلام اورسلیمان علیہ السلام کوبھی نبوت سے سرفرازکیاتھا،فرمایایادکرووہ موقع جبکہ وہ دونوں   ایک کھیت کے مقدمے میں   فیصلہ کررہے تھے جس میں   رات کے وقت دوسرے لوگوں   کی بکریاں   داخل ہوکر کھیتی چگ گئیں  ،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كَانَ ذَلِكَ الْحَرْثُ كَرْمًا قَدْ نَبَتَتْ عَنَاقِیدُهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہاں   جس کھتی کاذکرہے اس سے مرادانگوروں   کی کھیتی ہے جس کے خوشے بہت ہی جھکے ہوئے تھے۔[165]

داود علیہ السلام جوپیغمبرہونے کے ساتھ حکمران بھی تھے نےفیصلہ دیاکہ بکریاں   کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے اورہم ان کی عدالت خوددیکھ رہے تھے ، اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان علیہ السلام کوسمجھادیاحالاں   کہ علم وحکمت ہم نے دونوں   ہی کوعطا کیا تھا،

فَقَالَ: لَوْ وَلَیْتُ أَمْرَكُمْ لقضیتُ بِغَیْرِ هَذَا! قَالَ:أَدْفَعُ الْغَنَمَ إِلَى صَاحِبِ الْحَرْثِ، فَیَكُونُ لَهُ أَوْلَادُهَا وَأَلْبَانُهَا وَسِلَاؤُهَا وَمَنَافِعُهَا، وَیَبْذُرُ أَصْحَابُ الْغَنَمِ لِأَهْلِ الْحَرْثِ مِثْلَ حَرْثِهِمْ،  فَإِذَا بَلَغَ الْحَرْثُ الَّذِی كَانَ عَلَیْهِ، أخذه أصحاب الْحَرْثَ وَرَدُّوا الْغَنَمَ إِلَى أَصْحَابِهَا

سلیمان علیہ السلام نے داؤد علیہ السلام کے فیصلہ پر عرض کیااس فیصلہ کے سوابھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ،داود علیہ السلام نے فرمایاوہ کیاہے ؟سلیمان علیہ السلام نے عرض کیابکریاں   کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کودے دی جائیں   اوروہ ان سے انتفاع کرے اورکھیتی بکری والے کے سپردکردی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اوردیکھ بھال کرکے اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں   آجائے جوبکریوں   کے چرنے سے پہلے تھی توکھیتی ،کھیتی والے کواوربکریاں  ،بکری والے کوواپس کردی جائیں  ۔[166]

کیونکہ داود علیہ السلام کے فیصلے کے مقابلے میں   سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ اس لحاظ سے زیادہ بہترتھاکہ اس میں   کسی کوبھی اپنی چیزسے محروم نہیں   ہوناپڑا،جبکہ پہلے فیصلے میں   بکری والے اپنی بکریوں   سے محروم کردیئے گئے تھے اس لئے تسلیم کرلیا گیا ، اسی طرح ایک اورفیصلہ بھی ہوا

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “ كَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا، جَاءَ الذِّئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لِصَاحِبَتِهَا: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، وَقَالَتِ الأُخْرَى: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى، فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَیْهِمَا السَّلاَمُ فَأَخْبَرَتَاهُ، فَقَالَ: ائْتُونِی بِالسِّكِّینِ أَشُقُّهُ بَیْنَهُمَا، فَقَالَتِ الصُّغْرَى: لاَ تَفْعَلْ یَرْحَمُكَ اللَّهُ هُوَ ابْنُهَا فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاایک دفعہ ایساہواکہ دوعورتی ں   جنگل کی طرف اپنے چھوٹے لڑکوں   کے ہمراہ جارہی تھیں   اتنے میں   جنگل سے ایک خونخواربھیڑیانکل آیااورایک لڑکے کو اٹھاکرلے گیادونوں  عورتوں   نے آپس میں   جھگڑا کھڑا کر دیا اور ہرعورت دوسری سے کہنے لگی کہ بھیڑیاتمہارے لڑکے کواٹھاکرلے گیاہے اوریہ لڑکامیراہے ،جب جھگڑاطول پکڑگیاتویہ عجیب وغریب مقدمہ بادشاہ وقت اورنبی اللہ  داؤد علیہ السلام  کی عدالت میں   پیش ہوا،داؤد علیہ السلام  نے مقدمہ کی ساری روداد کوتوجہ سے سن کراپنا فیصلہ سنایاکہ لڑکا کم عمروالی عورت کے بجائے بڑی عمروالی عورت کے حوالے کر دیاجائے،فیصلہ سن کردونوں   عورتیں   عدالت سے باہرآگئیں  توان کی ملاقات سلیمان علیہ السلام  سے ہوگئی ، سلیمان علیہ السلام کے استفسارپردونوں   عورتوں   نے جھگڑے کی تمام روداد اورداؤد علیہ السلام  کی عدالت کا فیصلہ آپ علیہ السلام  کے گوش گزار کر دیا ، سلیمان علیہ السلام  معاملہ کی تہہ میں   پہنچ گئے کہ لڑکااس بڑی عورت کا نہیں   ہے،انہوں   صحیح فیصلے کے لئے ممتاکی آزمائش کا طریقہ اختیارفرمایا کہ جس عورت کایہ بچہ ہوگاوہ اپنی ممتاکے ہاتھوں   مجبورہوکر اسے ہلاک نہیں   ہونے دے گی، اس لئے سلیمان علیہ السلام  نے غلاموں   کو حکم فرمایاکہ جلدی سے تیز چھری لاؤتاکہ میں   اس لڑکے کے دوٹکڑے کرکے ان دونوں   میں   ایک ایک ٹکڑاتقسیم کردوں  تاکہ یہ دونوں   عورتیں   اس لڑکے کا ایک ایک ٹکڑالے کرگھروں   کوواپس جائیں  ،سلیمان علیہ السلام  کی اس کاروائی کا سن کر چھوٹی عمرکی عورت کی ممتاچیخ اٹھی اوروہ جلدی سے بول اٹھی اے سلیمان علیہ السلام ! اللہ تعالیٰ آپ پررحم کرے ، ایسانہ کیجئے ،بیشک یہ لڑکامیرانہیں   بلکہ اس عورت کاہی ہے،یہ سن کر سلیمان علیہ السلام  نے اپنافیصلہ چھوٹی عمروالی عورت کے حق میں   کر دیا۔[167]

تورات کی تکمیل کے لئے وداود علیہ السلام پر زبور نازل ہوچکی تھی جورب کی حمد وستائش سے معمورتھی،داود علیہ السلام سب سے زیادہ عبادت گزاراورسب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اورتسبیح وتمجیدکرنے والے تھے اوراللہ تعالیٰ نے داود علیہ السلام  پر زبورکاپڑھنا آسان کردیاتھا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ القُرْآنُ، فَكَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّهِ فَتُسْرَجُ، فَیَقْرَأُ القُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّهُ، وَلاَ یَأْكُلُ إِلَّا مِنْ عَمَلِ یَدِهِ

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا داود علیہ السلام  پرزبور کی تلاوت آسان کردی گئی تھی وہ اپنے چوپائیوں   کے بارے میں   حکم دیتے کہ ان پر زین کسی جائے، چوپائیوں   پر زین کسنے سے پہلے ہی وہ تمام زبور کی تلاوت سے فارغ ہوجاتےاورآپ صرف اپنے ہاتھوں   کی کمائی کھاتے تھے۔[168]

اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق اپنے خالق ومالک ہی کی تسبیح کرتی ہےچاہے وہ پہاڑ، پرندے ، درندے ،اور زمین وآسمان ہوں  اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں   اورپرندوں   کوداؤد علیہ السلام  کے لئے مسخر کردیاتھا،جب آپ صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح اورحمدوثنابیان کرتے توٹھوس پتھر،گونگے پرندے اوربے شعورجانوربھی اللہ قادرمطلق کے حکم سے مجازاً نہیں   حقیقتاًداود علیہ السلام  کی تسبیح کے ساتھ تسبیح پڑھتے،جیسے فرمایا

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ۝۱۸ۙوَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَةً۝۰ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ۝۱۹ [169]

ترجمہ:ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں  کومسخرکردیاتھاکہ صبح وشام وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے پرندے سمٹ آتےسب کے سب اس کی تسبیح کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَالطَّیْرَ ۔۔۔ ۝۱۰ۙ [170]

ترجمہ:(ہم نے حکم دیاکہ)اے پہاڑو!اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو(اوریہی حکم ہم نے)پرندوں   کودیا۔

ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  غیرمعمولی طورپرخوش الحان بزرگ تھے،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ صَوْتَ أَبِی مُوسَى الْأَشْعَرِیِّ وَهُوَ  یَقْرَأُ، فَقَالَ:لَقَدْ أُوتِیَ أَبُو مُوسَى مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُدَ  فَقَالَ: لَوْ عَلِمْتُ لَحَبَّرْتُهُ لَكَ تَحْبِیرًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک رات ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  تلاوت قرآن کررہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ادھرسے گزرے توان کی میٹھی ،رسیلی آوازسن کرٹھہرگئے اوردیرتک سنتے رہے جب وہ ختم کرچکے تو فرمایاابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  کوداؤد علیہ السلام کی خوش الحانی کاایک حصہ ملاہے، عرض کی اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمجھے یہ معلوم ہوتاکہ آپ میری تلاوت کی سماعت فرمارہے ہیں   تومیں   خوب بناسنوارکرتلاوت کرتا ۔[171]

خط کشیدہ الفاظ السنن الکبری للبیہقی  میں   ہیں  ۔

اللہ قادرمطلق ہے ، اپنی سلطنت میں   وہ جو چاہے تدبیرکرے کوئی اس کی تدبیر کو روک نہیں   سکتا ،جیسے فرمایا

۔۔۔اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔۔۔۝۵۴ [172]

ترجمہ:خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔

اورداؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں   اورپرندوں   کی تسخیر بھی اللہ کی مشیت اورحکم سے ہی تھی ، اوراللہ نے داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کونرم کر دیا تھا اورانہیں  تمہارے فائدے کے لئے جنگی لباس اور کنڈے داراورٹھیک اندازسے حلقے والی زرہ بنانے کی صنعت سکھادی تھی جومیدان جنگ میں   تمہاری حفاظت کاذریعہ ہیں   ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ۝۱۰ۙاَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِی السَّرْدِ۔۔۔ ۝۱۱ [173]

ترجمہ:ہم نے لوہے کواس کے لئے نرم کردیااس ہدایت کے ساتھ کہ زرہیں   بنااوران کے حلقے ٹھیک اندازے پررکھ۔

پھرکیاتم اللہ کی نعمتوں   پر شکرگزار ہوجواس نے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کے توسط سے تمہیں   عطاکی؟جیسے فرمایا:

۔۔۔وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَـقِیْكُمُ الْحَـرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَاْسَكُمْ۔۔۔  ۝۸۱ [174]

ترجمہ:اورتمہیں   ایسی پوشاکیں   بخشیں   جوتمہیں   گرمی سے بچاتی ہیں   اورکچھ دوسری پوشاکیں   جوآپس کی جنگ میں   تمہاری حفاظت کرتی ہیں  ۔

اورسلیمان علیہ السلام کے لئے ہم نے تیزہوا کومسخرکر دیا تھا جواس کے حکم سے سر زمین شام وفلسطین کی طرف چلتی تھی جس میں   ہم نے برکتیں   رکھی ہیں  ،چنانچہ سلیمان علیہ السلام اپنے تخت پربیٹھ جاتے پھرجہاں   جاناچاہتے ہواآپ کوگھڑی بھرمیں   پہنچادیتی ،جیسے فرمایا:

فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَیْثُ اَصَابَ۝۳۶ۙ [175]

ترجمہ:ہم نے اس کے لئے ہواکومسخرکردیاجواس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدہروہ چاہتا تھا۔

وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّرَوَاحُهَا شَهْرٌ  ۔۔۔۝۱۲ [176]

ترجمہ: اور سلیمان کے لئے ہم نے ہواکومسخرکردیا،صبح کے وقت اس کا چلناایک مہینے کی راہ تک اورشام کے وقت اس کاچلناایک مہینے کی راہ تک۔

ہم ہرچیزکاعلم رکھنے والے تھے ،اور شیاطین میں   سے ہم نے ایسے بہت سوں   کواس کاتابع بنا دیاتھاوہ سلیمان علیہ السلام کے حکم سے موتی وجواہرنکالنے کے لئے سمندروں   میں   غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام کرتے تھے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِـاِذْنِ رَبِّهٖ۝۰ۭ وَمَنْ یَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ۝۱۲یَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا یَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ۝۰ۭ اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا۝۰ۭ وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ۝۱۳ [177]

ترجمہ:اورایسے جن اس کے تابع کر دیے جواپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے ،ان میں   سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتااس کوہم بھڑکتی ہوئی آگ کامزہ چکھاتے،وہ اس کے لئے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا،اونچی عمارتیں  ،تصویریں  ،بڑے بڑے حوض جیسے لگن اوراپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی دیگیں  ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَالشَّیٰطِیْنَ كُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ۝۳۷ۙ وَّاٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ۝۳۸ [178]

ترجمہ: اور شیاطین کو مسخر کردیا اور دوسرے جو پابند سلاسل تھے ۔

جواپنی فطری سرکشی وفسادکے باوجودسلیمان علیہ السلام کے آگے سرتابی کی مجال نہیں   رکھتے تھے ۔

[1] النحل۱

[2] القمر۱،۲

[3] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَیْنِ ۶۵۰۳ ،صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ عن جابربن عبداللہ ۲۰۰۵

[4] ابراہیم۱۰

[5] الاعراف۶۹

[6] المومنون۲۴

[7] الشعرائ۱۵۴

[8] الشعرائ۱۸۵،۱۸۶

[9] یٰسین۱۵

[10] المومنون۳۳

[11] الفرقان۲۰

[12] الرعد۳۸

[13] الزخرف۳۱

[14] الحجر۶،۷

[15] التوبة۷۸

[16] آل عمران۱۱۹

[17] ھود۵

[18] فاطر۳۸

[19] الطور۳۰

[20] الحاقة۴۱

[21] الانعام۳۷

[22] یونس۲۰

[23]الرعد۷

[24]بنی اسرائیل۵۹

[25] الانعام۱۰۹

[26] یونس۹۶،۹۷

[27] یوسف۱۰۹

[28] بنی اسرائیل۹۵

[29] الانعام۸،۹

[30] الاحقاف۹

[31] التغابن۶

[32] الفرقان۲۰

[33] الانبیائ۳۴

[34] الزمر۳۰

[35] الزخرف۴۴

[36] بنی اسرائیل۱۷

[37] الحج۴۵

[38] الملک۹

[39] ص۲۷

[40] النجم۳۱

[41] تفسیر طبری۴۲۱؍۱۸

[42] بنی اسرائیل۸۱

[43] سبا۴۹

[44] الشوری۲۴

[45] النحل ۵۷

[46]النجم ۲۷

[47] التوبة۳۰

[48] النسائ۱۷۲

[49] التحریم۶

[50] فاطر۴۰

[51] المومنون۹۱

[52] بنی اسرائیل۴۲

[53] الحجر۹۲،۹۳

[54] الاعراف۵۹

[55] المومنون۲۳

[56] ھود۵۰

[57] ھود۶۱

[58] العنکبوت۱۶،۱۷

[59] الزخرف۴۵

[60] النحل۳۶

[61] الزخرف ۱۹

[62] النازعات۳تا۵

[63] یونس۱۸

[64] الزمر۳

[65] البقرة۲۵۵

[66] سبا ۲۳

[67] الزمر۶۵

[68] الرعد۲

[69] لقمان۱۰

[70] الملک۳

[71] الانعام۹۹

[72] الحج۶۳

[73] الفرقان۴۸

[74] النور۴۵

[75] مسنداحمد۷۹۳۲

[76] الذاریات۴۹

[77] النبا۸

[78] الرعد۳

[79] اللطائف۲۷؍۱

[80] الرعد۳

[81] الحجر۱۹

[82] النحل۱۵

[83] لقمان۱۰

[84] النبا۷

[85] الزخرف۱۰

[86] نوح ۱۹،۲۰

[87] ق۶

[88] فاطر۴۱

[89] الحجر۱۶تا۱۸

[90] یوسف۱۰۵

[91] البقرة۱۸۹

[92] یونس۵

[93] بنی اسرائیل۱۲

[94] یٰسین۳۸تا۴۰

[95] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۵۲؍۸

[96] الرحمٰن۲۶،۲۷

[97] الزمر۳۰

[98] سیر أعلام النبلاء ۲۶۷؍۸

[99] حم السجدة۴۶

[100] آل عمران ۱۸۲

[101] الحج۱۰

[102] حم السجدة۴۶

[103] الفرقان۴۱

[104] الجن۱۹

[105] بنی اسرائیل۱۱

[106] الاعراف۳۴

[107] یونس۴۹

[108] النحل ۶۱

[109] الملک۲۵

[110] الزمر۱۶

[111] الاعراف۴۱

[112] ابراہیم۵۰

[113] الرعد۳۴

[114] الاعراف ۱۸۷

[115] الحج۵۵

[116] الزخرف۶۶

[117] محمد۱۸

[118] النحل۷۷

[119] الانعام ۳۴

[120] تفسیرطبری۴۹۴؍۱۶، تفسیرعبدالرزاق۳۸۶؍۲

[121] الرعد۴۱

[122] الانعام۵۰

[123] الاعراف۵

[124] القلم۲۹

[125] الکہف۴۹

[126] النسائ۴۰

[127] الزلزال۷،۸

[128] لقمان;۶

[129] النسائ۶

[130] الأنبیاء: 47

[131] مسنداحمد۲۶۴۰۱

[132] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَنَضَعُ المَوَازِینَ القِسْطَ لِیَوْمِ القِیَامَةِ، وَأَنَّ أَعْمَالَ بَنِی آدَمَ وَقَوْلَهُمْ یُوزَنُ۷۵۶۳،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء بَابُ فَضْلِ التَّهْلِیلِ وَالتَّسْبِیحِ وَالدُّعَاءِ۶۸۴۶،مسنداحمد۷۱۶۷،صحیح ابن حبان۸۳۱،شعب الایمان۵۸۵،السنن الکبری للنسائی۱۰۵۹۷، مصنف ابن ابی شیبة۲۹۴۱۳، مسندابی یعلی۶۰۹۶،شرح السنة للبغوی۱۲۶۴

[133] ق۳۳

[134] الملک۱۲

[135] الحاقة۱۹،۲۰

[136] النبا۲۱

[137] العنکبوت۵۴

[138] الانعام۸۳

[139] الانعام۱۲۴

[140] الصافات۹۳

[141] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۵۵؍۸

[142] مصنف ابن ابی شیبة ۲۹۵۸۸

[143] آل عمران: 173

[144] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۂ آل عمران بَابُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ۴۵۶۳،مستدرک حاکم ۳۱۶۷، السنن الکبریٰ للنسائی ۱۱۰۱۵

[145] سنن ابن ماجہ کتاب الصیدبَابُ قَتْلِ الْوَزَغِ۳۲۳۱،صحیح ابن حبان۵۶۳۱،مسنداحمد۲۵۸۲۷

[146] فتح الباری۳۹۳؍۶،۳۳۵۸

[147] صحیح بخاری كِتَابُ الإِكْرَاهِ بَابُ إِذَا اسْتُكْرِهَتِ المَرْأَةُ عَلَى الزِّنَا فَلاَ حَدَّ عَلَیْهَا۶۹۵۰،وكِتَابُ البُیُوعِ بَابُ شِرَاءِ المَمْلُوكِ مِنَ الحَرْبِیِّ وَهِبَتِهِ وَعِتْقِهِ۲۲۱۷،و كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا۳۳۵۸،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ إِبْرَاهِیمِ الْخَلِیلِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۶۱۴۵،سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَقُولُ لِامْرَأَتِهِ: یَا أُخْتِی ۲۲۱۲،السنن الکبری للنسائی۸۳۱۶

[148] الانبیائ۶۳

[149] الصافات۸۹

[150] تفسیر الرازی۴۴۳؍۱۸

[151] تفسیر الرازی  ۳۴۲؍۲۶

[152] فتح الباری ۳۹۳؍۶، عینی۲۴۹؍۱۵،قسطلانی۲۸۰؍۵

[153] التوبة۱۱۹

[154] الاحزاب۸

[155] الاحزاب۲۴

[156] مریم۴۱

[157] الصافات۱۰۰

[158] ھود۷۱

[159] ھود۸۲

[160] الحجر۷۴

[161] النمل۱۹

[162] القمر۱۰

[163]الشعرآء  ۱۱۷، ۱۱۸

[164] نوح ۲۶تا۲۸

[165] تفسیرالبغوی۲۹۸؍۳، تفسیر طبری۴۷۴؍۱۸

[166] تفسیرطبری۴۷۶؍۱۸

[167] مسند احمد۸۲۸۰، صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاءبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَیْمَانَ نِعْمَ العَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۳۴۲۷، وكِتَابُ الفَرَائِضِ بَابُ إِذَا ادَّعَتِ المَرْأَةُ ابْنًا ۶۷۶۹،صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ بَیَانِ اخْتِلَافِ الْمُجْتَهِدِینَ عن ابی ہریرہ ۴۴۹۵

[168] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَآتَیْنَا دَاوُدَ زَبُورًا۳۴۱۷

[169] ص۱۸،۱۹

[170] سبا۱۰

[171] صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْسِینِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ۵۰۴۸،صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْسِینِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ۱۸۵۲، مسند احمد ۹۸۰۶،السنن الكبرى للبیہقی۴۷۰۸

[172] الاعراف۵۴

[173] سبا۱۰،۱۱

[174] النحل۸۱

[175] ص۳۶

[176] سبا۱۲

[177] سبا۱۲،۱۳

[178] ص۳۷،۳۸

Related Articles