ہجرت نبوی کا پہلا سال

مسئلہ طلاق

وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا یَحِلُّ لَهُنَّ أَن یَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِی أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِی ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٢٢٨﴾(البقرة)
’’طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو چھپائیں اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حق دارہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو، اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ، ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔‘‘

اس حکم سے وہ مطلقہ عورت مرادہے جوحاملہ بھی نہ ہو(کیوں کہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل ہے )جس عورت کودخول سے قبل طلاق مل گئی ہووہ بھی نہ ہو (کیوں کہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں )آئسہ بھی نہ ہویعنی جس کوحیض آنابندہوگیاہو(کیونکہ اس کی عدت تین مہینے ہے )یہاں مدخولہ عورت (یعنی جن کے ساتھ دخول ہوچکاہو)کی عدت بیان کی جارہی ہے اوروہ ہے تین قرو۔یعنی تین طہریاتین حیض عدت گزارنےکے بعد وہ دوسری جگہ شادی کرنے کی مجازہے ۔

قْرَاءِکے معنی :

عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ،فَقَالَتْ: إِنْ زَوْجِی فَارَقَنِی بِوَاحِدَةٍ أَوِ اثْنَتَیْنِ،فَجَاءَنِی وَقَدْ وَضَعَتُ مَائِی وَقَدْ نَزَعْتُ ثِیَابِی وَأَغْلَقْتُ بَابِی ، فَقَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ اللهِ یَعْنِی ابْنَ مَسْعُودٍ مَا تَرَى؟ قَالَ] : أَرَاهَا امْرَأَتَهُ، مَا دُونُ أَنْ تَحِلَّ لَهَا الصَّلَاةُ، قَالَ [عُمَرُ:] وَأَنَا أَرَى ذَلِكَ

علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے ہم سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک عورت آئی،اوراس نے کہامیرے شوہرنے مجھے ایک یادوطاقوں کے ساتھ الگ کردیاتھا پھروہ میرے پاس آیاجبکہ میں نے(غسل کے لیے)پانی رکھ دیاتھااپنے کپڑے اتاردیے تھے اوردروازہ بندکرلیاتھا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھاآپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایاکہ جب تک عورت کے لیے نمازحلال نہیں ہوتی میرے نزدیک یہ اس کی بیوی ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیری بھی یہی رائے ہے[1]

اگرشوہرنے بیوی کو ایک یادوطلاقیں دی ہوں اورپھررغبت ،الفت اورمودت کاجذبہ رکھتاہو تووہ اس عدت کے دوران میں انہیں پھراپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دارہے،اورعورتوں کوتلقین فرمائی گئی کہ اگر وہ اللہ اورروزآخرپرایمان رکھتی ہیں تواپنے رحم میں جوکچھ ہے اسے نہ چھپائیں بلکہ صاف اورسچ بیان کریں کہ طلاق کے بعد مجھے دوحیض آئے ہیں یاتین حیض آئے ہیں اور ان کی بات کااعتبارکیاجائے گاکیونکہ اس پرکوئی بیرونی شہادت قائم نہیں کی جاسکتی،عورتوں کے مردوں پرمعروف طریقے سے اور مردوں کے عورت پر حقوق برابرہیں اس لئے ایک کوعمدگی کے ساتھ ایک دوسرے کاپاس ولحاظ رکھناچاہیے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنِّی أُحِبُّ أَنْ أَتَزَیَّنَ لِلْمَرْأَةِ كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَزَیَّنَ لِیَ الْمَرْأَةُ، لَأَنَّ اللَّهَ یَقُولُ: {وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ}[2]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں اس بات کوپسندکرتاہوں کہ اپنی بیوی کے لیے اس طرح زینت اختیارکروں جس طرح میں اس بات کوپسندکرتاہوں کہ میری بیوی میرے لیے زیب وزینت کواختیارکرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے’’ عورتوں کے لئے بھی معروف طریقے پرویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پرہیں ۔‘‘ [3]

البتہ مردکوعورت پرجسمانی حیثیت ، اخلاقی حیثیت ،مرتبہ کی حیثیت ،حکمرانی کی حیثیت ،خرچ اخراجات کی حیثیت ،دیکھ بھال اورنگرانی اور اختیارطلاق ورجوع کی حیثیت سے فضیلت ہے،جیسے فرمایا

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ۔۔۔ ۝۳۴    [4]

ترجمہ:مرد عورتوں پر قوام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔

فَاتَّقُوا اللهَ فِی النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ وَلَكُمْ عَلَیْهِنَّ أَنْ لَا یُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَیْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے حجة الوداع کے خطبہ میں فرمایا لوگو!عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو تم نے اللہ کی امانت کہہ کرانہیں لیاہے اوراللہ کے کلمہ سے ان کی شرمگاہوں کواپنے لئے حلال کیاہے ،عورتوں پرتمہارایہ حق ہے کہ وہ تمہارے فرش پرکسی ایسے کو نہ آنے دیں جس سے تم ناراض ہو،اگروہ ایساکریں توانہیں مارولیکن ایسی مارنہ ہوکہ ظاہر ہو،ان کاتم پریہ حق ہے کہ انہیں اپنی بساط کے مطابق کھلاؤپلاؤاڑھاؤکا سامان مہیا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔[5]

عَنْ حَكِیمِ بْنِ مُعَاوِیَةَ الْقُشَیْرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَیْهِ؟قَالَ: أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَیْتَ، أَوِ اكْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ

حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والدسے بیان کرتے ہیں میں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہماری عورتوں کے ہم پر کیاحقوق ہیں ،آپ ﷺنے فرمایاجب تم کھاؤتواسے بھی کھلاؤ،جب تم پہنوتو اسے بھی پہناؤ،اس کے منہ پرنہ مارو، اسے گالیاں نہ دو ، اس سے روٹھ کراورکہیں نہ بھیج دوہاں گھرمیں رکھو[6]

اوراللہ اپنے غلبہ اوراختیارات کے باوجوداپنے تصرفات میں نہایت حکمت سے کام لیتاہے ۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا یَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوهُنَّ شَیْئًا إِلَّا أَن یَخَافَا أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٢٢٩﴾‏ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَیْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿٢٣٠﴾‏(البقرة )
’’ یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لیے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لیے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں، یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں، پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لیے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کرلینے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لیے بیان فرما رہا ہے۔ ‘‘

رسم طلاق میں آئینی اصلاحات :مردوں کی حکومت تھی ،عورت کوعلیحدگی کاکوئی حق حاصل نہ تھا،طلاق کاحق صرف مردکو حاصل تھاجس کی کوئی حد مقرر نہیں تھی جس سے بڑی معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتیں ،ایک شخص اپنی بیوی کوباربارجس کی کوئی حدمقررنہیں تھی طلاق دیتا مگر اسے خودسے الگ کرنے کے بجائے باربار رجوع بھی کرتارہتاتاکہ نہ تووہ اس کے ساتھ رہ سکے اورنہ آزادہوکرکسی دوسرے سے شادی کرسکے،عورت کوخلع کاکوئی حق حاصل نہ تھا،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس ظلم و ناانصافی کوختم فرمایااورایک مردوعورت کے لئے ایک مستقل قانون بناکر نازل فرمایااورعورتوں نے آزادی کی سانس لی ،فرمایاکہ وہ طلاق جس میں خاوندکو(عدت کے اندر)رجوع کاحق حاصل ہے وہ دومرتبہ ہے (یعنی ایک وقت میں چاہئے ایک طلاق دے یاکئی طلاقیں دے وہ ایک ہی شمارہوگی،اورمردرجوع کرسکتاہے پھردوسری مرتبہ بھی چاہئے ایک طلاق دے یاکئی طلاقیں دے وہ بھی ایک طلاق شمارہوگئی ،اورمردرجوع کرسکتاہے ،اب اگر اس شخص نے تیسری مرتبہ بھی طلاق دے دی توپھراسے رجوع کی اجازت نہیں ہوگی اوردونوں میں علیحدگی ہوجائے گی،امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک باب کاعنوان اس طرح قائم فرمایاہے۔

بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِیقَاتِ الثَّلَاثِ

تین طلاقوں کے بعدمراجعت کے منسوخ ہونے کابیان ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ، وَلَا یَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ یَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِی أَرْحَامِهِنَّ}[7] الْآیَةَ، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا، وَإِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَنُسِخَ ذَلِكَ، وَقَالَ: {الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ} [8]

پھرانہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے’’ جن عورتوں کوطلاق دی گئی ہووہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کوروکے رکھیں ،اوران کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جوکچھ خلق فرمایاہو اسے چھپائیں ۔‘‘کی تفسیرمیں روایت کیاہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کوطلاق دے دیتاتووہ رجوع کازیادہ حق دارتھاخواہ اسےتین طلاقیں ہی کیوں نہ دے دیتاتھاتواس آیت نے اسے منسوخ کردیا’’اورفرمایا طلاق (صرف)دوبارہے۔‘‘[9]

عُرْوَةَ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِامْرَأَتِهِ: لَا أُطَلِّقُكِ أَبَدًا، وَلَا أُؤَیِّدُكِ أَبَدًا وَكَیْفَ ذَلِكَ؟ قَالَ: أُطَلِّقُكِ، حَتَّى إِذَا دَنَا أَجَلُكِ رَاجَعْتُكِ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ لَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ[10]

اس آیت کریمہ کے شان نزول کے سلسلہ میں عروہ (بن زبیر)سے روایت ہےایک شخص نے اپنی بیوی سے کہاکہ میں نہ توکبھی تجھے طلاق دوں گااورنہ کبھی اپنے گھربساؤں گااس نے کہاوہ کیسے؟کہنے لگاکہ تجھے طلاق دے دوں گااورجب عدت ختم ہونے کے قریب آجائے گی تورجوع کرلوں گا،چنانچہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوکراس کاتذکرہ کیاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’طلاق (صرف)دوبارہے۔‘‘نازل فرمائی۔[11]

اورفرمایاجب عورت کوگھررخصت کرنے لگوتو بھلے طریقے سے رخصت کرواورتمہارے لئے یہ جائزنہیں کہ حق مہریاکپڑے اورزیور وغیرہ جو تم انہیں مہریا تحفہ میں دے چکے ہواس میں سے کچھ واپس لےلو،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ۔۔۔ ۝۱۹      [12]

ترجمہ: اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو ۔

۔۔۔وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـیْـــًٔـا۔۔۔۝۰۝۲۰ [13]

ترجمہ:خواہ تم نے اُسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہواس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔

البتہ عورت خودکچھ معاف کردینے کوراضی ہوتویہ اس کی مرضی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْۗـــــًٔـا مَّرِیْۗــــــًٔـا۝۴ [14]

ترجمہ:البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مَہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔

البتہ عورت خاوندسے اس کی عادت یاجسمانی بدصورتی کی وجہ سے علیحدگی حاصل کرناچاہے تواس صورت میں خاوند عورت سے اپناحق مہرواپس لے سکتاہے ،عورت کویہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکیدکی گئی ہے کہ عورت بغیرکسی معقول عذرکے خاوندسے علیحدگی یعنی طلاق کامطالبہ نہ کرے،

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِی غَیْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَیْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاجوعورت بغیرکسی وجہ کے اپنے شوہرسے طلاق مانگتی ہے اس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔[15]

 أَنَّ هَذِهِ الْآیَةَ نَزَلَتْ فِی شَأْنِ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاس وَامْرَأَتِهِ حَبِیبَةُ بِنْتُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیِّ ابْنِ سَلُولَ

ابن جریرفرماتے ہیں یہ آیت کریمہ ثابت بن قیس بن شماس اوران کی بیوی جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی ابن سلول کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[16]

 عَنْ حَبِیبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ الْأَنْصَارِیِّ،أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ فَوَجَدَ حَبِیبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِی الْغَلَسِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ:مَنْ هذِهِ؟فَقَالَتْ: أَنَا حَبِیبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: مَا شَأْنُكِ؟قَالَتْ: لاَ أَنَا، وَلاَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، لِزَوْجِهَا،فَلَمَّا جَاءَ زَوْجُهَا ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ حَبِیبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ قَدْ ذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَذْكُرَ، فَقَالَتْ حَبِیبَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ كُلُّ مَا أَعْطَانِی عِنْدِی، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ خُذْ مِنْهَا، فَأَخَذَ مِنْهَاوَجَلَسَتْ فِی بَیْتِ أَهْلِهَا

حبیبہ بنت سہل انصاریہ سے مروی ہے وہ ثابت بن قیس بن شماس کے عقدمیں تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت حجرے سے باہرتشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے میں حبیبہ بنت سہل کو دروازے کے پاس پایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کون ہے؟انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ!میں حبیبہ بنت سہل ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیابات ہے؟انہوں نے اپنے شوہرکانام لیتے ہوئے عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ!میں اورثابت بن قیس اکٹھے نہیں رہ سکتے، جب ان کے شوہرثابت بن قیس آئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایاکہ یہ حبیبہ بنت سہل ہیں انہوں نے یہ بات کی ہے، حبیبہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ!انہوں نے جو مجھے(مہر)دیاتھاوہ سب کچھ میرے پاس موجودہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایاکہ(اپنامال)ان سے لے لوچنانچہ ثابت نے اپنامال لے لیااوریہ اپنے والدین کے گھرمیں بیٹھ گئیں ۔[17]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِی دِینٍ وَلاَ خُلُقٍ، إِلَّا أَنِّی أَخَافُ الكُفْرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ؟فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَیْهِ، وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ثابت بن قیس بن شماس کی بنوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوکرعرض کرنے لگی اے اللہ کے رسول ﷺ!مجھے ان کے اخلاق اوردین کے بارے میں کوئی اعتراض نہیں لیکن میں اسلام میں کفرکوناپسندکرتی ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم ان کاباغ واپس کردوگی؟ اس نے عرض کی جی ہاں !تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت سے فرمایااپنے باغ کولے لواوراسے طلاق دے دو۔[18]

توفرمایا لوگو!یہ اللہ کی مقررکردہ حدودہیں ان سے تجاوزنہ کرواورجولوگ حدودالہٰی سے تجاوز کریں گے وہی ظالم (گناہ گار)ہوں گے،

عَنْ أَبِی ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِیِّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ حَدَّ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا وَفَرَضَ لَكُمْ فَرَائِضَ فَلَا تُضَیِّعُوهَا وَحَرَّمَ أَشْیَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا وَتَرَكَ أَشْیَاءَ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَكِنْ رَحْمَةٌ مِنْهُ لَكُمْ فَاقْبَلُوهَا وَلَا تَبْحَثُوا فِیهَا

ابوثعلبہ الخشنی سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ حدودکومقررفرماہےتم ان سے تجاوزنہ کرو،کچھ فرائض مقرر کیے ہیں تم انہیں ضائع نہ کرواور کچھ باتوں کوحرام قراردیاہے تم ان کی بے حرمتی نہ کرواورکچھ باتوں سے تم پررحمت کے پیش نظرنہ کہ نسیان کی وجہ سے سکوت فرمایاہے تم ان کوقبول کرواوران میں بحث مت کرو۔ [19]

اس آیت کریمہ سے استدلال کیاگیاہے کہ ایک ہی کلمے کے ساتھ اکٹھی تین طلاقیں دیناحرام ہے ،

مَحْمُودَ بْنَ لَبِیدٍ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِكِتَابِ اللهِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ؟ حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟

محمودبن لبیدسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ایک ایسے شخص کے بارے میں بتایاگیاجس نے اپنی بیوی کواکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اورفرمایاکیااللہ تعالیٰ کی کتاب کوکھیل بنالیاگیاہے حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجودہوں ؟حتی کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکرعرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ!کیامیں اسے قتل نہ کردوں ؟۔[20]

پھر اگر دوبارطلاق دینے کے بعدشوہرنے عورت کوتیسری بارطلاق دے دی تووہ عورت پھراس کے لیے حلال نہ ہوگی الایہ کہ اس کانکاح کسی دوسرے شخص سے ہو،وہ اس سے لطف اندوزہو،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ یَتَزَوَّجُهَا الرَّجُلُ، فَیُطَلِّقُهَا فَتَتَزَوَّجُ رَجُلًا، فَیُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِهَا أَتَحِلُّ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى یَذُوقَ عُسَیْلَتَهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے بارے میں سوال کیاگیاجس سے کسی نے شادی کی ہوپھراسے طلاق دے دی ہو،پھراس سے کوئی دوسراشخص شادی کرلے اورمقاربت سے پہلے ہی طلاق دے دے توکیاوہ پہلے شوہرکے لیے حلال ہوجائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں !حتی کہ وہ اس سے لطف اندوزہو۔[21]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَتْ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِیِّ وَأَنَا وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِی الْبَتَّةَ، وَإِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِیرِ تَزَوَّجَنِی، وَإِنَّمَا عِنْدَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ، وَأَخَذَتْ هُدْبَةً مِنْ جِلْبَابِهَا، وَخَالِدُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ، لَمْ یُؤْذَنْ لَهُ فَقَالَ: یَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَنْهَى هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى التَّبَسُّمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَأَنَّكِ تُرِیدِینَ أَنْ تَرْجِعِی إِلَى رِفَاعَةَ، لَا حَتَّى تَذُوقِی عُسَیْلَتَهُ، وَیَذُوقَ عُسَیْلَتَكِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رفاعہ قرظی کی بیوی آئی، میں اورمیرے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھےاس نے کہا کہ مجھے رفاعہ نے طلاق بتہ دے دی ہے جس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر نے مجھ سے نکاح کرلیااوراس کا(عضوتناسل)توکپڑے کے ڈورے جیساہےاس نے اپنی اوڑھنی کے ایک ڈورے کو پکڑ کر کہا،اس وقت گھر کے دروازے پر خالد بن سعید بن عاص موجود تھے انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں ملی تھی،اس لئے انہوں نے باہر سے ہی کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ! آپ اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کی باتیں بڑھ چڑھ کر (کھلم کھلے اندازمیں )بیان کرنے سے کیوں نہیں روکتے؟تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفاء کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا شاید تم رفاعہ کے پاس واپس جانے کی خواہش رکھتی ہو؟ لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اس کا شہد نہ چکھ لو اور وہ تمہارا شہد نہ چکھ لے۔[22]

اوروہ اسے جب چاہے اپنی مرضی سے طلاق دے دےیافوت ہوجائےتب پہلا شوہر اوریہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودالٰہی پرقائم رہیں گے،یعنی دستورکے مطابق زندگی بسرکرسکیں گے،

وَقَالَ مُجَاهِدٌ: إِنَّ ظَنًّا أَنَّ نِكَاحَهُمَا عَلَى غَیْرِ دُلْسَةٍ

امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ ان کایہ نکاح دھوکاوفریب پرمبنی نہیں ہے۔[23]

توان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگراس سے مرادحلالہ نہیں ،رسول اللہ نے حلالہ کرنے والے پراورجس کے لئے حلالہ کیاجائے اس پرلعنت فرمائی ہے،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ،لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایارسول اللہ ﷺنےحلالہ کرنے والے پر اورجس کے لئے حلالہ کیاجاتاہے ان پر اللہ کی لعنت کی ہے۔[24]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، الْوَاشِمَةَ، وَالْمَتَوَشِّمَةَ، وَالْوَاصِلَةَ، وَالْمَوْصُولَةَ، وَالْمُحِلَّ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، وَآكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اورگدوانے والی،اوربال ملانے والی اوربال ملوانے والی،اورحلالہ کرنے والے اورحلالہ کروانے والے،ورسودکھانے والے اورسودکھلانے والے(ان سب )پرلعنت فرمائی ہے۔[25]

قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّیْسِ الْمُسْتَعَارِ ؟قَالُوا: بَلَى، یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:هُوَ الْمُحَلِّلُ، لَعَنَ اللهُ الْمُحَلِّلَ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ

عقبہ عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایامیں تمہیں بتاؤں کہ مانگاہواسانڈکون ہے؟لوگوں نے کہاہاں اے اللہ کے رسول ﷺ! فرمایاجوحلالہ کرے (یعنی طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ وہ اگلے خاوندکے لئے حلال ہوجائے)اللہ تعالیٰ لعنت کرے حلالہ کرنے والے پراورجس کے لئے حلالہ کیاجائے۔[26]

عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَتَزَوَّجَهَا أَخٌ لَهُ، مِنْ غَیْرِ مُؤَامَرَةٍ مِنْهُ، لِیُحِلَّهَا لِأَخِیهِ، هَلْ تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ:لَا، الْإِنْكَاحُ رَغْبَةٌ، كُنَّا نَعُدُّ هَذَا سِفَاحًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورنافع رحمہ اللہ سے مروی ہےایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکراس شخص کے بارے میں پوچھاجس نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے دی تھیں اوراس کے بھائی نے اس سے مشورہ کیے بغیراس سے نکاح کرلیا تاکہ اپنے بھائی کے لیے اسے حلال کردےتوکیااس طرح وہ عورت اپنے پہلے شوہرکے لیے حلال ہوجائے گی؟انہوں نے فرمایانہیں !وہ حلال نہیں ہوگی کیونکہ اس صورت میں عورت سے نکاح رغبت ہی سے حلال ہوتی ہے، یہ صورت جوتم نے بیان کی ہے اسے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زناشمارکیاکرتے تھے۔[27]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:قَالَ عُمَرُ:لَا أُوتِیَ بِمُحَلِّلٍ وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا

قبیصہ بن جابرسے روایت ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے اگرمیرے پاس کوئی حلالہ کرنے والااورکروانے والالایاگیاتومیں ان دونوں کورجم کرادوں گا۔[28]

یہ اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ حدیں ہیں جنہیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کررہاہے جواس کی حدوں کوتوڑنے کاانجام جانتے ہیں ۔

[1] تفسیر طبری ۵۰۳؍۴

[2] البقرة: 228

[3] تفسیرابن ابی حاتم۴۱۷؍۲

[4] النسائ۳۴

[5] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ حَجَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۰۷۵،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ صِفَةِ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۱۹۰۵،السنن الکبری للنسائی ۹۱۳۵،مصنف ابن ابی شیبة ۱۴۷۰۵،سنن الدارمی ۱۸۹۲،صحیح ابن خزیمة ۲۸۰۹،صحیح ابن حبان ۱۴۵۷،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۷۲۴

[6] ۔سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا۲۱۴۲،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ۱۸۵۰

[7] البقرة: 228

[8] البقرة: 229

[9] سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِیقَاتِ الثَّلَاثِ ۲۱۹۵

[10] البقرة: 229

[11] تفسیرابن ابی حاتم۴۱۸؍۲

[12] النسائ۱۹

[13] النسائ۲۰

[14] النسائ۴

[15] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْخُلْعِ۲۲۲۶،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ كَرَاهِیَةِ الْخُلْعِ لِلْمَرْأَةِ۲۰۵۵، مسند احمد ۲۲۳۷۹،سنن الدارمی۲۳۱۶،صحیح ابن حبان ۴۱۸۴

[16] تفسیر طبری ۵۵۶؍۴

[17] موطاامام مالک كِتَابُ الطَّلاَقِ مَا جَاءَ فِی الْخُلْعِ ،سنن النسائی كِتَاب الطَّلَاقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الْخَلْعِ ۳۴۶۲

[18] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ الخُلْعِ وَكَیْفَ الطَّلاَقُ فِیهِ ۵۲۷۶

[19] مستدرک حاکم۷۱۱۴

[20] سنن النسائی كِتَاب الطَّلَاقِ الثَّلَاثُ الْمَجْمُوعَةُ وَمَا فِیهِ مِنَ التَّغْلِیظِ ۳۴۰۱

[21] صحیح مسلم كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ لَا تَحِلُّ الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لِمُطَلِّقِهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهُ، وَیَطَأَهَا، ثُمَّ یُفَارِقَهَا وَتَنْقَضِیَ عِدَّتُهَا۳۵۲۹

[22] مسنداحمد۲۴۰۵۸

[23] تفسیرطبری ۵۹۸؍۴

[24] مسنداحمد۴۳۰۸،جامع ترمذی کتاب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُحِلِّ وَالمُحَلَّلِ لَهُ۱۱۱۹،سنن الدارمی ۲۳۰۴

[25] مسنداحمد۴۲۸۳

[26] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الْمُحَلِّلِ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ ۱۹۳۷

[27] مستدرک حاکم۲۸۰۶

[28] مصنف ابن ابی شیبہ۳۶۱۹۱

Related Articles