ہجرت نبوی کا پہلا سال

مسئلہ ولایت نکاح

عورت کے وہ قریبی نسبتی تعلق دارجن کے واسطے سے اہم امورطے پاتے ہیں عورت کے ولی کہلاتے ہیں اوربالخصوص اگرکہیں غیروں میں اس کی شادی ہوجائے توانہیں اس نسبت سے عارکاسامناکرناپڑتاہے،ان میں عصبہ(باپ کی طرف سے تعلق دار)اولیت رکھتے ہیں ،جمہورعلماءاسی کے قائل ہیں ،امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول ان کی ترتیب اس طرح سے ہے،باپ،دادا،حقیقی بھائی،پدری بھائی،حقیقی بھتیجا،پھرپدری بھائی کابیٹا،چچا،پھرچچازاد،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ذوی الارحام کوبھی ان میں شامل کرتے ہیں ،ان میں سے کوئی نہ ہوتوحاکم وقت ولی قرارپاتاہے۔

ولایت نکاح کایہ مسئلہ یعنی جوان لڑکی کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اوررضامندی ضروری ہےقرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے، لیکن موجودہ مسلمانوں کے اسلام سے عملی انحراف نے جہاں شریعت کے بہت سے مسائل کوغیراہم بنادیاہےاس مسئلے سے بھی اغماض واعراض اختیارکیاجارہاہے،بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے میں قرآن کریم میں واضح طورپررہنمائی نہیں ملتی لیکن ایساسمجھناصحیح نہیں ہے،قرآن سے استدلال کاجوطریقہ اوراسلوب ہے اس کی روسے یقیناًہمیں قرآن سے پوری رہنمائی ملتی ہے،قرآن میں فرمایاگیا

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ۝۰ۭ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝۰ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا۔۔۔۝۲۲۱ۧ [1]

ترجمہ:تم مشرک عورتوں سے ہر گز نکاح نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو، اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بجائے ان کے اولیاءکوخطاب فرمایااورانہیں یہ حکم دیاکہ وہ مسلمان عورتوں کانکاح مشرک مردوں سے نہ کریں ،قرآن کریم کے اس اندازبیان سے واضح ہے کہ مسلمان عورت اپنے نکاح کامعاملہ ازخودطے نہیں کرسکتی،اس کے نکاح کامعاملہ اس کے ولی کی وساطت ہی سے انجام پائے گا،مفسرین امت نے اس آیت کواس مسئلے میں نص قراردیاہے،

چنانچہ امام ابن حبان اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت وَلَا تَنْكِحُوابالاتفاق تاءکے ضمے(پیش)کے ساتھ ہےوَهَذَا خِطَابٌ لِلْأَوْلِیَاءِ لَا لِلنِّسَاءِ اوریہ عورتوں کے اولیا سے خطاب ہے۔[2]

فِی هَذِهِ الْآیَةِ دَلِیلٌ بِالنَّصِّ عَلَى أَنْ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت بطورنص اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح ولی کی اجازت کے بغیرصحیح نہیں ۔     [3]

وَهَذَا خِطَابٌ لِلْأَوْلِیَاءِ لَا لِلنِّسَاءِ

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت میں یہ خطاب عورت کے اولیاءکوہے نہ کہ عورتوں کو۔[4]

یُشْعِرُ بِأَنَّ الرِّجَالَ هُمُ الَّذِینَ یُزَوِّجُونَ أَنْفُسَهُمْ وَیُزَوِّجُونَ النِّسَاءَ اللوَاتِی یَتَوَلَّوْنَ أَمْرَهُنَّ، وَأَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تُزَوِّجُ نَفْسَهَا بِالِاسْتِقْلَالِ بَلْ لَا بُدَّ مِنَ الْوَلِیِّ

علامہ رشیدرضامصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے تَنْكِحُوا (تاءکے زبرکے ساتھ)اورپھر تُنْكِحُوا(تاءکے پیش کے ساتھ)تعبیرکرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مردہی اپنااوران عورتوں کانکاح کرنے کااختیاررکھتے ہیں جن کے معاملات کے وہ ذمے دارہیں اورعورت مردکی اجازت کے بغیرازخودنکاح نہیں کرسکتی اس کے لئے ولی ضروری ہے۔[5]

وَقَالَ تَعَالَى: {وَلا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى یُؤْمِنَّ} [6] . فَخِطَابُ الرِّجَالِ بِتَزْوِیجِ النِّسَاءِ، وَلِهَذَا قَالَ مَنْ قَالَ مِنْ السَّلَفِ: إنَّ الْمَرْأَةَ لَا تَنْكِحُ نَفْسَهَا، إنَّ الْبَغِیَّ هِیَ الَّتِی تُنْكِحُ نَفْسَهَا، لَكِنْ إنْ اعْتَقَدَ هَذَا نِكَاحًا جَائِزًا كَانَ الْوَطْءُ فِیهِ وَطْءَ شُبْهَةٍ یُلْحَقُ الْوَلَدُ فِیهِ

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔‘‘اوراللہ تعالیٰ کایہ قول ’’اورشرک کرنے والی عورتوں سے نکاح نہ کرو۔‘‘ جو(فعل لازم اورمتعدی کا)فرق ہے،اس سے بھی بعض سلف نے یہ حجت پکڑی ہے کہ عورت ازخودنکاح نہیں کرسکتی کیونکہ یہ زانی عورت ہی اپنا نکاح خود کراتی ہے لیکن اگر اس نکاح کو بالفرض جائزقرار دے دیا جائے تو اس میں کی ہوئی مباشرت وطء شبہ کہلائے گی اور بچے کو اسی میں داخل کیاجائے گا(ان کے نکاح کابندوبست کرنااولیاءکی

ذمہ داری ہے)۔[7]

قرآن کریم کی دوسری آیت ہے

 وَاَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ۔۔۔۝۳۲ [8]

ترجمہ:تمہارے اندرجوبے شوہرہیں ان کانکاح کردو۔

هَذِهِ الْمُخَاطَبَةُ تَدْخُلُ فِی بَابِ السَّتْرِ وَالصَّلَاحِ، أَیْ زَوِّجُوا مَنْ لَا زَوْجَ لَهُ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ طَرِیقُ التَّعَفُّفِ، وَالْخِطَابُ لِلْأَوْلِیَاءِ.

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اندازگفتگوحفاظت اورصلاح کے باب سے ہے ’’تم میں سے جوبے شوہرہے اس کی شادی کردو۔‘‘اس میں بھی باکرہ اوربیوہ عورتوں کے اولیاءسے خطاب کرکے انہیں ان کے نکاح کابندوبست کرنے کاحکم دیاگیاہے۔[9]

فی الْآیَةِ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّ تَزْوِیجَ النِّسَاءِ الْأَیَامَى إِلَى الْأَوْلِیَاءِ لِأَنَّ اللهَ تَعَالَى خَاطَبَهُمْ بِهِ

چنانچہ امام بغوی رحمہ اللہ اس آیت کے ماتحت فرماتے ہیں آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ بے شوہرعورتوں کی شادی کا بندوبست کرنااولیاءکی ذمے داری ہے،اس لئے کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انہی سے خطاب فرمایاہے۔[10]

هَذِهِ الْمُخَاطَبَةُ تَدْخُلُ فِی بَابِ السَّتْرِ وَالصَّلَاحِ، أَیْ زَوِّجُوا مَنْ لَا زَوْجَ لَهُ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ طَرِیقُ التَّعَفُّفِ، وَالْخِطَابُ لِلْأَوْلِیَاءِ. وَقِیلَ: لِلْأَزْوَاجِ. وَالصَّحِیحُ الْأَوَّلُ، إِذْ لَوْ أَرَادَ الْأَزْوَاجَ لَقَالَ وَانْكِحُوا بِغَیْرِ هَمْزِ،

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اندازگفتگوحفاظت اورصلاح کے باب سے ہے یعنی’’ تم میں سے جوبے شوہرہے اس کی شادی کردو۔‘‘اس لئے کہ یہی عفت وپاک دامنی کاراستہ ہے اوریہ خطاب اولیاءسے ہے،بعض کے نزدیک یہ خاوندوں سے خطاب ہے لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اگرخاوندوں سے خطاب کرنا چاہتا تو بغیر ہمزہ(قطعی)کے انْكِحُوا فرماتا۔[11]

قرآن کریم کی تیسری آیت ہے۔

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ ۔۔۔۝۰۝۲۳۲ [12]

ترجمہ:جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں ۔

نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ طَلْقَةً أَوْ طَلْقَتَیْنِ، فَتَنْقَضِی عِدَّتُهَا، ثُمَّ یَبْدُو لَهُ أَنْ یَتَزَوَّجَهَا وَأَنْ یُرَاجِعَهَا، وَتُرِیدَ الْمَرْأَةُ ذَلِكَ، فَیَمْنَعُهَا أَوْلِیَاؤُهَا مِنْ ذَلِكَ، فَنَهَى اللهُ أَنْ یَمْنَعُوهَا

امام ابن کثیر رحمہ اللہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنی بیوی کوایک طلاق یادوطلاقیں دے دے پھراس کی عدت پوری ہوجائے توخاونداس سے(دوبارہ)شادی یارجوع کرناچاہے اورعورت بھی اس پررضامندہولیکن اس کے اولیاءاس کوایساکرنے سے روک دیں تواللہ تعالیٰ نے اولیائے عورت کواس طرح عورت کو(شادی کرنے سے)روکنے سے منع فرمادیا۔۔۔

وَكَذَا قَالَ مَسْرُوقٌ، وَإِبْرَاهِیمُ النَّخَعِیُّ، وَالزُّهْرِیُّ وَالضَّحَّاكُ إِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِی ذَلِكَ. وَهَذَا الَّذِی قَالُوهُ ظَاهِرٌ مِنَ الْآیَةِ، وَفِیهَا دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تَمْلِكُ أَنْ تُزَوِّجَ نَفْسَهَا، وَأَنَّهُ لَا بُدَّ فِی تَزْوِیجِهَا مِنْ وَلِیٍّ، كَمَا قَالَهُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ جَرِیرٍ عِنْدَ هَذِهِ الْآیَة

امام مسروق رحمہ اللہ ،ضحاک رحمہ اللہ ،ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ،امام زہری رحمہ اللہ نے بھی کہاہے کہ یہ آیت اس مسئلے میں نازل ہوئی، اوران لوگوں نے جویہ بات کہی ہے آیت کے ظاہری مفہوم کے عین مطابق ہے اوراس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت یہ اختیارنہیں رکھتی کہ وہ اپنانکاح خودکرلے بلکہ نکاح کے لئے ولی کاہوناضروری ہے جیسے امام ترمذی رحمہ اللہ اورامام ابن جریرطبری نے اس آیت کی تفسیرمیں کہاہے۔[13]

وَفِی هَذِهِ الْآیَةِ الدَّلَالَةُ الْوَاضِحَةُ عَلَى صِحَّةِ قَوْلِ مَنْ قَالَ: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ مِنَ الْعَصَبَةِ

امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت سے صاف واضح ہے کہ ان لوگوں کی رائے صحیح ہے جوکہتے ہیں کہ ولی کے بغیرنکاح کرناجائزنہیں ۔[14]

اس آیت کے نزول کاجوسبب ہے وہ صحیح روایات میں بیان ہواہے جس سے آیت کاوہ مفہوم متعین ہوجاتاہے جومذکورہ سطورمیں مفسرین نے بیان فرمایاہےاس لئے روایت کی شان نزول کوبھی سامنے رکھناضروری ہے۔چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ واقعہ بیان فرمایاہے

 حَدَّثَنِی مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ، أَنَّهَا نَزَلَتْ فِیهِ،قَالَ: زَوَّجْتُ أُخْتًا لِی مِنْ رَجُلٍ فَطَلَّقَهَا، حَتَّى إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا جَاءَ یَخْطُبُهَافَقُلْتُ لَهُ: زَوَّجْتُكَ وَفَرَشْتُكَ وَأَكْرَمْتُكَ، فَطَلَّقْتَهَا، ثُمَّ جِئْتَ تَخْطُبُهَالاَ وَاللهِ لاَ تَعُودُ إِلَیْكَ أَبَدًا وَكَانَ رَجُلًا لاَ بَأْسَ بِهِ، وَكَانَتِ المَرْأَةُ تُرِیدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَیْهِ، فَأَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الآیَةَ: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} فَقُلْتُ: الآنَ أَفْعَلُ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: فَزَوَّجَهَا إِیَّاهُ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، میں نے اپنی ہمشیرہ (جمیل بنت یسار رضی اللہ عنہا یافاطمہ بنت یسار رضی اللہ عنہا ) کانکاح ایک آدمی(ابوالبداح بن عاصم انصاری) سے کیا،کچھ عرصے کے بعداس نے طلاق دے دی حتی کہ جب عدت گزرگئی تو اس نے پھرنکاح کاپیغام بھیجا، جس پرمیں نے اس سے کہاکہ میں نے اس کے ساتھ تیرانکاح کیا،اس کوتیرابستربنایا،تیری عزت کی لیکن تونے اسے طلاق دے دی اوراب پھرنکاح کاپیغام لے کرآگیاہے اللہ کی قسم! اب وہ کبھی تیری طرف نہیں لوٹے گی، اوروہ آدمی برانہیں تھااورعورت(میری بہن)بھی اس کے ساتھ رجوع کرناچاہتی تھی تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’ توپھراس میں مانع نہ ہو۔‘‘ نازل فرمادی جسے سن کرمیں نے کہااے اللہ کے رسول ﷺ!اب میں ان کاآپس میں نکاح کردوں گا چنانچہ میں نے اس کے ساتھ اس کا(دوبارہ)نکاح کردیا۔[15]

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب انہوں نے اپنی بہن کواپنے پہلے خاوندسے دوبارہ نکاح کرنے سے روک دیاتھا،یہ واقعہ امام بخاری نے نقل کیاہے

هَذَا فَفِی الْآیَةِ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّهُ لَا یَجُوزُ النِّكَاحُ بِغَیْرٍ وَلِیٍّ لِأَنَّ أُخْتَ مَعْقِلٍ كَانَتْ ثَیِّبًا، وَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ إِلَیْهَا دُونَ وَلِیِّهَا لَزَوَّجَتْ نَفْسَهَا، وَلَمْ تَحْتَجْ إِلَى وَلِیِّهَامعقل

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ عورت بغیرولی کے نکاح نہیں کرسکتی کیونکہ معقل کی بہن بیوہ تھی اور اگر بغیر ولی کے نکاح جائز ہوتا تو وہ اپنی شادی کروالیتی تو وہ اپنے بھائی معقل کی محتاج وضرورت مند نہ ہوتی۔[16]

وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِی اشْتِرَاطِ الْوَلِیِّ فِی النِّكَاحِ فَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إِلَى ذَلِكَ وَقَالُوا لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا أَصْلًا وَاحْتَجُّوا بِالْأَحَادِیثِ الْمَذْكُورَةِ وَمِنْ أَقْوَاهَا هَذَا السَّبَبُ الْمَذْكُورُ فِی نُزُولِ الْآیَةِ الْمَذْكُورَةِ وَهِیَ أَصَرْحُ دَلِیلٍ عَلَى اعْتِبَارِ الْوَلِیِّ وَإِلَّا لَمَا كَانَ لِعَضْلِهِ مَعْنًى وَلِأَنَّهَا لَوْ كَانَ لَهَا أَنْ تُزَوِّجَ نَفْسَهَا لَمْ تَحْتَجْ إِلَى أَخِیهَا

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں نکاح میں ولی کے شرط ہونے کی بابت علماءکے درمیان اختلاف ہے،جمہوراس کے قائل ہیں اورانہوں نے کہاہے کہ عورت اپنانکاح ازخودنہیں کرسکتی،انہوں نے اس کااثبات مذکورہ احادیث سے کیاہے اوران میں سب سے قوی دلیل یہی واقعہ ہے جوقرآن کریم کی آیت مذکورہ کے نزول کاسبب ہے،اوریہ آیت اس بات پرکہ نکاح میں ولی کی رضامندی ضروری ہے سب سے واضح دلیل ہے کیونکہ اگرایسانہ ہوتو یہ کہنے کاکہ’’ انہیں مت روکو۔‘‘کوئی معنی نہیں رہتے،علاوہ ازیں اگروہ عورت ازخودنکاح کرنے کی مجازہوتی تووہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی۔[17]

وَیُقَالُ عَلَیْهِ قَدْ فَهِمَ السَّلَفُ شَرْطَ إذْنِهِمْ فِی عَصْرِهِ – صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ -، وَبَادَرَ مَنْ نَزَلَتْ فِیهِ إلَى التَّكْفِیرِ عَنْ یَمِینِهِ وَالْعَقْدِ،وَلَوْ كَانَ لَا سَبِیلَ لِلْأَوْلِیَاءِ لَأَبَانَ اللهُ تَعَالَى غَایَةَ الْبَیَانِ بَلْ كَرَّرَ تَعَالَى كَوْنَ الْأَمْرِ إلَى الْأَوْلِیَاءِ فِی عِدَّةِ آیَاتٍ، وَلَمْ یَأْتِ حَرْفٌ وَاحِدٌ أَنَّ لِلْمَرْأَةِ إنْكَاحَ نَفْسِهَاوَدَلَّتْ أَیْضًا عَلَى أَنَّ نِسْبَةَ النِّكَاحِ إلَیْهِنَّ فِی الْآیَاتِ مِثْلُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهُ مُرَادٌ بِهِ الْإِنْكَاحُ بِعَقْدِ الْوَلِیِّ إذْ لَوْ فُهِمَ – صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهَا تُنْكِحُ نَفْسَهَا لَأَمَرَهَا بَعْدَ نُزُولِ الْآیَةِ بِذَلِكَ، وَلَأَبَانَ لِأَخِیهَا أَنَّهُ لَا وِلَایَةَ لَهُ، وَلَمْ یُبِحْ لَهُ الْحِنْثَ فِی یَمِینِهِ وَالتَّكْفِیرَ

اور امیرصنعائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ(سلف)نے اس واقعے سے یہی بات سمجھی ہے کہ اولیاءکی اجازت ضروری ہے اورانہوں نے قسم کاکفارہ اداکرنے اورنکاح کرنے میں جلدی کی (یہ اشارہ ہے بعض روایات کی روسے معقل کے قسم کھالینے اورپھراسے توڑکراپنی بہن کانکاح کردینے کی طرف)اگراولیاءکاعورتوں پراختیارہی نہ ہوتاتواللہ تعالیٰ اسے کھول کربیان فرمادیتابلکہ اس کے برعکس اللہ نے متعددآیات میں اولیاءکے حق کوتکرارکے ساتھ بیان فرمایاہے اورایک حرف بھی اس امرکی بابت نہیں بولاکہ عورت کوازخوداپنانکاح کرنے کاحق حاصل ہے،اس سے اس طرف بھی رہنمائی ملتی ہے کہ جن آیات میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے جیسے’’الایہ کہ اس کانکاح کسی دوسرے شخص سے ہو۔‘‘اس سے بھی ولی کی اجازت سے ان کے نکاح کاانعقادہے نہ کہ ازخودنکاح کرلینا،اس لیے کہ اگراس آیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے کہ عورت ازخوداپنانکاح کرسکتی ہے توآپ اس آیت کے نزول کے بعداس عورت کوخوداپنانکاح کرلینے کاحکم فرمادیتے اوراس کے بھائی پریہ واضح کردیتے کہ تجھے اس پرولایت کاحق نہیں ہے اوراس کے لئے اپنی قسم کاتوڑنااوراس کاکفارہ اداکرناجائزنہ ہوتا۔[18]

اب ہم ذیل میں چنداحادیث ذکرکرتے ہیں جن میں پوری صراحت سے ولایت نکاح کامسئلہ بیان ہواہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی کے بغیرنکاح صحیح نہیں ۔[19]

یہ روایت جسے متواترتک کہاگیاہے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ،جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ چارصحابہ سے مروی ہے۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لَا وَلِیَّ لَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس عورت نے بھی اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیرنکاح کیاتووہ نکاح باطل ہے،وہ نکاح باطل ہے،وہ نکاح باطل ہے، اگران کاآپس میں ملاپ ہوگیاہے تواس کی وجہ سے حق مہراس عورت کودیاجائے گا ، اگر (اولیاءکا)اختلاف اورجھگڑاہوتوسلطان وقت ہراس عورت کاولی ہو گا جس کاکوئی ولی نہ ہو۔[20]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِیَةَ هِیَ الَّتِی تُزَوِّجُ نَفْسَهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی عورت ،عورت کانکاح نہ کرے اورنہ کوئی عورت خوداپنانکاح کرےبیشک زانیہ عورت ہی اپنا نکاح ازخود کرواتی ہے۔[21]

اس حدیث میں ولایت کے لئے مردکوضروری قراردیاگیاہے یعنی باپ کی بجائے ماں ولی نہیں بن سکتی،نہ لڑکی ازخوداپنانکاح کرسکتی ہے،باپ نہ ہوتواس کاچچا،بھائی وغیرہ ولی بنے گااوراگرکوئی بھی نہیں ہوگاتوحاکم وقت یاقاضی اس کاولی ہوگاجیساکہ اس سے ماقبل کی حدیث میں ہے۔

أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ:أَنَّ النِّكَاحَ فِی الجَاهِلِیَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ: فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الیَوْمَ: یَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِیَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ، فَیُصْدِقُهَا ثُمَّ یَنْكِحُهَا، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ، هَدَمَ نِكَاحَ الجَاهِلِیَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الیَوْمَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےزمانہ جاہلیت میں نکاح کی چارقسمیں تھیں ،ایک قسم وہ جولوگوں میں آج کل رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے کواس کی کسی عزیزہ یابیٹی کے لئے نکاح کاپیغام بھیجتاہے وہ اسے قبول کرکے اس کے لئے حق مہرکاتعین کردیتااورنکاح کردیتا(اس کے بعدنکاح کی تین قسمیں اوربیان کیں اورآخرمیں فرمایا)جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ مبعوث ہوئے توآپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کوختم کردیااورصرف آج کل کے رائج نکاح کوباقی رکھا۔[22]

اس سے معلوم ہواکہ اسلام نے صرف اس نکاح کوجائزرکھاہے جوولی کی وساطت سے کیاگیاہوباقی تمام نکاح باطل کردیے۔

اسلام کی مذکورہ تعلیم میں بڑااعتدال وتوازن ہے،لڑکی کوتاکیدہے کہ والدین نے اسے پالاپوساہے،اس کی تعلیم وتربیت کااہتمام کیاہے ،وہ مستقبل میں بھی جب کہ وہ اپنی نوجوان بچی کودوسرے خاندان میں بھیج رہے ہیں اس کے لئے روشن امکانات دیکھ رہے ہیں اوراس کی روشنی ہی میں انہوں نے اس کے مستقبل کافیصلہ کیاہے اس لئے وہ اپنے محسن،خیرخواہ اورمشفق وہمدردوالدین کے فیصلے کورضامندی سے قبول کرلے،دوسری طرف والدین کولڑکی پرجبرکرنے اوراس کی رضامندی حاصل کیے بغیراس کی شادی کرنے سے منع کردیاہے ،اگرکوئی ولی بالجبرایساکرنے کی کوشش کرتاہے توفقہاءنے ایسے ولی کوولی عاضل(غیرمشفق)قراردے کرولی البعدکوآگے بڑھ کراس کی شادی کرنے کی تلقین کی ہے،ولی البعدبھی کسی وجہ سے اس کااہتمام کرنے سے قاصرہوتوعدالت یاپنچایت یہ فریضہ سرانجام دے گی۔

آج کل عدالتوں میں نوجوان لڑکیوں کے ازخودنکاح کرنے کے جومقدمات پیش ہورہے ہیں ان میں مذکورہ دوصورتوں میں سے کسی ایک صورت کاتعین اورتحقق کیے بغیرصرف اس بنیادپرفیصلہ کرنایابعض علماءکافتوی دیناکہ نوجوان لڑکی ولایت کی محتاج نہیں ہےاس لئے یہ نکاح جائزہے قرآن وحدیث کی روسے اورصحابہ رضی اللہ عنہم اور جمہور علما وفقہاءکے مسلک کی روشنی میں بالکل غلط ہے ،عدالتیں اگرقرآن وحدیث کواپناحکم مانتی ہیں تووہ ایسافیصلہ دینے کی مجازنہیں اورعلماءبھی اگر

۔۔۔فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ۔۔۔ ۝۵۹ [23]

ترجمہ:اگرتمہارے درمیان کسی چیزکی بابت جھگڑاہوجائے تواسے اللہ اوررسول کی طرف لوٹادو۔

پرصدق دل سے عمل کرنا چاہتے ہیں توانہیں بھی مذکورہ نکاحوں کے جوازکامطلقاًفتویٰ دینے سے گریزکرناچاہیے کیونکہ ولی کی اجازت کے بغیرکوئی نکاح صحیح نہیں ہے،ولی جابریاعاضل ہوگاتوولی البعدیاعدالت نکاح کرائے گی لیکن کسی بالغ لڑکی کویہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بھاگ کریاچھپ کراپنانکاح خودکرلے۔

وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِیضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ یَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِینَ ‎﴿٢٢٢﴾(البقرة)
’’ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘

حیض کے بارے میں سوال:اللہ نے اس دنیاکوچلانے کے لئے ہرچیزکے جوڑے جوڑے بنائے اور اسی مناسبت سے ہرایک کے حقوق وفرائض مقررفرماکرنراورمادہ کوحقوق وفرائض کی مناسبت سے جوار و اعضا عطافرمائے ،اللہ نے عورتوں کی حالت کے مطابق ان کے چند مخصوص دن مقررفرمائے ،

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ الْیَهُودَ كَانُوا إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَةُ فِیهِمْ لَمْ یُؤَاكِلُوهَا، وَلَمْ یُجَامِعُوهُنَّ فِی الْبُیُوتِ فَسَأَلَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى {وَیَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیضِ} [24]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اصْنَعُوا كُلَّ شَیْءٍ إِلَّا النِّكَاحَ فَبَلَغَ ذَلِكَ الْیَهُودَ، فَقَالُوا: مَا یُرِیدُ هَذَا الرَّجُلُ أَنْ یَدَعَ مِنْ أَمْرِنَا شَیْئًا إِلَّا خَالَفَنَا فِیهِ،

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہودمیں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی توان دنوں میں عورتوں کو(کم درجے کی مخلوق سمجھ کر) پلید سمجھتے اور عورتوں کو(بطورتذلیل )اپنے گھروں سے باہرنکال دیتے ان سے پانی یاکھاناوغیرہ لینا،اس کے ساتھ فرش پربیٹھنااوراس سے ہاتھ تک چھونامکروہ سمجھتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیاکہ کیاان دنوں میں عورتوں سے تعلقات رکھنے چاہئیں ،تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ نازل فرمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاکہ ان دنوں میں مقاربت کے سواکوئی چیزمنع نہیں ( ان دنوں میں عورت سے نماز معاف ہے ،روزہ رکھنا ممنوع ہے تاہم روزے کی قضابعدمیں ضروری ہے،اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اوردیگرگھرکے تمام کام کرسکتی ہے وغیرہ)یہ بات یہودیوں کے دستورکے خلاف تھی جب آپ کاحکم سناتوکہنے لگے یہ شخص توہماری ہربات کی مخالفت کرتاہے،

فَجَاءَ أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ فَقَالَا یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الْیَهُودَ تَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، فَلَا نُجَامِعُهُنَّ؟ فَتَغَیَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ قَدْ وَجَدَ عَلَیْهِمَا، فَخَرَجَا فَاسْتَقْبَلَهُمَا هَدِیَّةٌ مِنْ لَبَنٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ فِی آثَارِهِمَا فَسَقَاهُمَا، فَعَرَفَا أَنْ لَمْ یَجِدْ عَلَیْهِمَا

یہ سن کر اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ اورعبادبن بشر رضی اللہ عنہ آئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہودایساایسا کہتے ہیں جب عورتوں نے گھروں میں رہناہے اورہم نے ان کے ساتھ کھاناپینابھی ہے توپھرہم ان دنوں میں مقاربت بھی کیوں نہ کریں ، یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ غصہ سے سرخ ہوگیاآپ کو غصہ میں دیکھ کردونوں صحابی رضی اللہ عنہم گھروں کوچلے گئے ، (ان کے نکلتے ہی) رسول اللہ ﷺکے پاس کہیں سے دودھ کاہدیہ آیا، آپ ﷺنے ان کوبلوابھیجااورانہیں دودھ پلایاتب انہیں تسلی ہوئی کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہیں ۔[25]

وَلِهَذَا ذَهَبَ كَثِیرٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ إِلَى أَنَّهُ تَجُوزُ مُبَاشَرَةُ الْحَائِضِ فِیمَا عَدَا الْفَرْجِ

اسی لیے بہت سے بلکہ اکثرعلماءکامذہب یہ ہے کہ شرم گاہ کے علاوہ حائضہ عورت سے دیگرامورجائزہیں ،

عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ مِنَ الْحَائِضِ شَیْئًا، أَلْقَى عَلَى فَرْجِهَا ثَوْبًا

عکرمہ رحمہ اللہ نے بعض ازواج مطہرات سے روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حائضہ سے کچھ ارادہ فرماتے تواس کے مقام خاص پرکپڑاڈال دیتے تھے۔[26]

اورفرمایاپوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے؟اے نبی ﷺ! کہو حیض کے دنوں میں عورت گندگی کی حالت میں ہوتی ہےاس لئے جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں عورتوں سے الگ رہو اور ان سے جماع نہ کرومگرباقی تمام تعلقات بددستوربرقراررکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر جب خون بند ہو جائے اور وہ غسل کر کے پاک صاف ہو جائیں توپھر ان کے پاس جاؤ جس طرح فطری طورپر اللہ نے تم کو حکم دیا ہے،یعنی سامنےسے جماع کرواوردبرسے اجتناب کرو،اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کرتے رہیں اور گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کریں ۔یہ سن کریہودی کہنے لگے انہیں توصرف ہماری مخالفت سے غرض ہے ، مگر رسول اللہ ﷺکایہی طریقہ تھا

أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهَاأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ یَتَّكِئُ فِی حَجْرِی وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ یَقْرَأُ القُرْآنَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری گودمیں سررکھ کرقرآن کی تلاوت فرماتے حالانکہ میں حیض میں ہوتی تھی۔[27]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:كُنْتُ أَشْرَبُ وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ أُنَاوِلُهُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَضَعُ فَاهُ عَلَى مَوْضِعِ فِیَّ، فَیَشْرَبُ، وَأَتَعَرَّقُ الْعَرْقَ وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ أُنَاوِلُهُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَضَعُ فَاهُ عَلَى مَوْضِعِ فِیَّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں پانی پیتی تھی پھرپی کربرتن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیتی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ منہ رکھتے جہاں میں نےرکھ کرپیاتھااورپانی پیتےحالانکہ میں حائضہ ہوتی، پھرمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی تو وہی سے پیتے جہاں میں نے منہ لگایاتھا۔[28]

عَائِشَةَ تَقُولُ:كُنْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَبِیتُ فِی الشِّعَارِ الْوَاحِدِ، وَأَنَا حَائِضٌ طَامِثٌ، فَإِنْ أَصَابَهُ مِنِّی شَیْءٌ غَسَلَ مَكَانَهُ وَلَمْ یَعْدُهُ، ثُمَّ صَلَّى فِیهِ، وَإِنْ أَصَابَ تَعْنِی: ثَوْبَهُ مِنْهُ شَیْءٌ غَسَلَ مَكَانَهُ وَلَمْ یَعْدُهُ، ثُمَّ صَلَّى فِیهِ

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی لحاف میں رات گزارتے اورمیں حیض سے ہوتی تھی،اگرآپ کومجھ سے کچھ لگ جاتاتوآپ اتنی ہی جگہ کودھوڈالتے اس سے آگے نہ بڑھتے اور نمازپڑھ لیتےاور اگر کپڑے کوکچھ لگ جاتاتوبھی اسی قدرجگہ دھوتے اس سے آگے نہ بڑھتے اوراسی کپڑوں میں نمازپڑھ لیتے۔[29]

مَیْمُونَةَ،كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ یُبَاشِرَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ أَمَرَهَا، فَاتَّزَرَتْ وَهِیَ حَائِضٌ

میمونہ بنت حارث ہلالیہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ازواج مطہرات میں سے کسی خاص ایام میں جسم سے جسم لگاناچاہتے توآپ حکم دیتے اوروہ تہ بندباندھ لیتی تھیں ۔[30]

عَنْ حَرَامِ بْنِ حَكِیمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا یَحِلُّ لِی مِنَ امْرَأَتِی وَهِیَ حَائِضٌ؟ قَالَ:لَكَ مَا فَوْقَ الْإِزَارِ

حرام بن حکیم رضی اللہ عنہ اپنے چچا(عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ )سے راوی ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیاکہ میری بیوی سے مجھے اس کے حیض کے حالت میں کیاکچھ حلال ہے ، آپ ﷺنے فرمایا تہبند کے اوپرکاسارا حصہ حلال ہے۔[31]

الغرض جماع کے لئے ساتھ رہنے ، کھانے پینے اورسونے میں کوئی حرج نہیں ۔

‏ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٢٢٣﴾‏(البقرہ)
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لیے (نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دیجئے۔

یہودیوں کاایک عقیدہ:

عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا، یَقُولُ:كَانَتِ الیَهُودُ تَقُولُ: مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِی قُبُلِهَا مِنْ دُبُرِهَا كَانَ الوَلَدُ أَحْوَلَ

ابن منکدرسے مروی ہے کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا یہودیوں کا عقیدہ تھاکہ اگرشوہراپنی بیوی کے پاس پیچھے کھڑے ہوکر یاپیٹ کے بل لٹاکرعورت سے جماع کریں تواس کابچہ بھینگا پیداہوگا۔[32]

کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کواختیارہے کہ اپنی بیویوں سے مباشرت چت لٹاکرکریں یاپیٹ کے بل لٹاکرکریں یاکسی کروٹ پرکریں مگرغیرفطری طور پر دبر استعمال کرنے کے بجائےہرصورت میں عورت کی فرج ہی استعمال کریں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ، {نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ} [33]] فِی أُنَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، أَتَوْا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِهَا عَلَى كُلِّ حَالٍ إِذَا كَانَ فِی الْفَرْجِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے’’تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔‘‘انصارلوگوں کے بارے میں نازل ہوئی،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورانہوں نے سوال کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرطریقہ اختیارکیاجاسکتاہے جب فرج میں (مقاربت)ہو ۔ [34]

اوراپنی نسل برقراررکھنے کی کوشش کریں مگرعورت کی پشت میں جماع کرناکسی صورت جائزنہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِی دُبُرِهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاجوشخص عورت سے اس کی پشت میں جماع کرے وہ لعنتی ہے۔[35]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،مَنْ أَتَى حَائِضًا، أَوِ امْرَأَةً فِی دُبُرِهَا، أَوْ كَاهِنًا، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایاجس شخص حائضہ سے صحبت کرے یاکسی عورت سے اس کی پشت میں جماع کرے یاکاہن سے غیب کی خبرپوچھے تو بلاشبہ وہ منکرہوگیااس سے جواللہ تعالیٰ نے محمد ﷺپرنازل کی ہے۔[36]

عَنْ خُزَیْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِی أَدْبَارِهِنَّ

خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایااللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا عورتوں کی پشتوں میں (جماع کے لئے)نہ آؤ[37]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا یَنْظُرُ اللهُ إِلَى رَجُلٍ جَامَعَ امْرَأَتَهُ فِی دُبُرِهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم ﷺنے فرمایااللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف نظررحمت نہیں فرمائیں گے جس نے اپنی بیوی سے اس کی پشت میں جماع کیا۔[38]

إنَّهُ یَحْرُمُ إتْیَانُ النِّسَاءِ فِی أَدْبَارِهِنَّ، وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ جُمْهُورُ أَهْلِ الْعِلْمِ

جمہورعلماء کہتے ہیں کہ عورتوں سے ان کی پشتوں میں جماع حرام ہے۔[39]

تاہم علماء کااس بات پراتفاق ہے کہ آدمی اپنی بیوی کی پشت کی جانب سے یا کسی بھی طریقے سے صرف اس کی قبل (فرج)میں جماع کرسکتاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ قَالَ بِاسْمِ اللهِ، اللهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا فَقُضِیَ بَیْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ یَضُرُّهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاکوشخص جماع کاارادہ کرے تویہ دعاپڑھےاللہ کے نام سے شروع کرتاہوں اے اللہ!ہمیں شیطان سے بچااورشیطان کواس چیزسے دوررکھ جوتو(اس جماع کے نتیجے میں )ہمیں عطا فرمائے ،تویہ دعاپڑھنے کے بعد(جماع کرنے سے)میاں بیوی کوجواولادملے گی اسے شیطان نقصان کبھی نہیں پہنچاسکتا۔[40]

وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِّأَیْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَیْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٢٤﴾‏لَّا یُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِی أَیْمَانِكُمْ وَلَٰكِن یُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِیمٌ ‎﴿٢٢٥﴾(البقرة )
’’اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیزگاری اور لوگوں کے درمیان کی اصلاح کو چھوڑ بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ہاں اس کی پکڑ اس چیز پر ہے جو تمہارے دلوں کا فعل ہو، اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بردبار ہے۔‘‘

لغو قسمیں :

هُوَ أَنْ یَحْلِفَ الرَّجُلَ عَلَى الشَّیْءِ لَا یَظُنُّ إِلَّا أَنَّهُ إِیَّاهُ فَإِذَا لَیْسَ هُوَ مَا ظَنَّهُ

قسم ایسے مضبوط عقدکانام ہے جس کے ذریعے حالف کسی فعل کے کرنے یااسے چھوڑنے کاعزم کرتاہے۔ [41]

دوصحابہ کوآپس میں کچھ رنج ہوااس پر ایک نے قسم کھائی کہ نہ تومیں تیرے مکان پرآؤں گااورنہ کبھی تیرے معاملے میں دخل دوں گا،چونکہ آپس کارشتہ تھاجب کوئی اس کی بابت اس کوکہے تووہ کہہ دے کہ میں اس کے معاملہ میں دخیل نہ ہوں گا،اس پریہ آیت نازل ہوئی کہ نیکی اورصلہ رحمی کے چھوڑنے کاذریعہ اللہ کی قسموں کونہ بناؤ، جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَالْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ۝۰۠ۖ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا۝۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللهُ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۲۲         [42]

ترجمہ:تم میں جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار ، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے،انہیں معاف کر دینا چاہیے اور در گزر کرنا چاہیےکیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے ؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور ر حیم ہے۔

توانہیں چاہیے کہ اس قسم کوتوڑدے اورکفارہ اداکرے،جو غیر ارادی اورعادت کے طورپرتم قسمیں کھاؤگے(جوانسان اپنے گھربارمیں بال بچوں سے کہہ دیاکرتاہے کہ ہاں اللہ کی قسم اورنہیں اللہ کی قسم یعنی جوہنسی ہنسی میں انسان کے منہ سے نکل جاتی ہیں )

قَالَتْ عَائِشَةُ:إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:هُوَ كَلَامُ الرَّجُلِ فِی بَیْتِهِ، كَلَّا وَاللهِ، وَبَلَى وَاللهِ ِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالغوقسم یہ ہے کہ آدمی اپنے گھرمیں اس طرح کہتارہتاہے ہرگزنہیں اللہ کی قسم !کیوں نہیں اللہ کی قسم ۔ [43]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَغْوُ الْیَمِینِ: أَنْ تَحْلِفَ وَأَنْتَ غَضْبَانٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے لغوقسم وہ ہے جوآپ غصے کی حالت میں کھالیتے ہیں ۔[44]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَغْوُ الْیَمِینِ: أَنْ تُحَرِّمَ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكَ، فَذَلِكَ مَا لَیْسَ عَلَیْكَ فِیهِ كَفَّارَةٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لغوقسم یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی چیزکوحرام قراردے لیں تواس کاکوئی کفارہ آپ پرنہیں ہے۔[45]

اس پرمیں گرفت نہیں کروں گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَلَفَ، فَقَالَ فِی حَلِفِهِ: بِاللَّاتِ وَالعُزَّى، فَلْیَقُلْ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ: تَعَالَ أُقَامِرْكَ، فَلْیَتَصَدَّقْ

جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے قسم کھائی اورکہالات عزیٰ کی قسم تواسے پھرکلمہ لاالٰہ الااللہ کہہ لیناچاہیے، اورجوشخص اپنے ساتھی سے کہے آؤ جواکھلیں تواسے چاہیے کہ(اس کے کفارہ میں )صدقہ کرے[46]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، أَنَّ أَخَوَیْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ بَیْنَهُمَا مِیرَاثٌ، فَسَأَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ الْقِسْمَةَ، فَقَالَ: إِنْ عُدْتَ تَسْأَلُنِی عَنِ الْقِسْمَةِ فَكُلُّ مَالٍ لِی فِی رِتَاجِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ إِنَّ الْكَعْبَةَ غَنِیَّةٌ عَنْ مَالِكَ، كَفِّرْ عَنْ یَمِینِكَ وَكَلِّمْ أَخَاكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا یَمِینَ عَلَیْكَ، وَلَا نَذْرَ فِی مَعْصِیَةِ الرَّبِّ، وَفِی قَطِیعَةِ الرَّحِمِ، وَفِیمَا لَا تَمْلِكُ

سعیدبن مسیب سے مروی ہےدوانصاری بھائیوں کی مشترکہ میراث تھی توان میں سے ایک نے دوسرے سے میراث کی تقسیم کے بارے میں کہا،اس نے جواب دیاکہ اگرتم نے آئندہ میراث کی تقسیم کے بارے میں کہاتومیراسارامال کعبے کے دروازے کے لیے وقف ہوگا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایابے شک کعبہ تمہارے مال سے بے نیازہے تم اپنی قسم کاکفارہ دواوراپنے بھائی سے گفتگوکرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے رب کی نافرمانی لازم آتی ہوتونہ قسم کااعتبارہے اورنہ نذرکااسی طرح قطع رحمی میں یاجس چیزکے تم مالک ہی نہیں ہواس میں بھی قسم اورنذرکاکوئی اعتبارنہیں ۔[47]

البتہ اگرتم نے پختگی کے ساتھ دل کی ارادت کے ساتھ عمداًجھوٹی قسم کھائی تویہ کبیرہ گناہے اورمیں اس کااحتساب کروں گا،

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ۔۔۔۝۰۝۸۹ [48]

ترجمہ:تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَحْلِفُ بِأَبِیهِ، فَقَالَ:لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ حَلَفَ بِاللهِ فَلْیَصْدُقْ، وَمَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللهِ فَلْیَرْضَ، وَمَنْ لَمْ یَرْضَ بِاللهِ، فَلَیْسَ مِنَ اللهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوارشاد فرماتے ہوئے سناہے اپنے آباؤاجداد کی قسمیں نہ اٹھاؤجوشخص اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے اسے چاہیے کہ وہ سچی قسم اٹھائے اورجس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہیے کہ وہ اسے تسلیم کرے اورجواسے تسلیم نہ کرے اس کااللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ۔[49]

اگر کوئی ایسی قسم کھابیٹھے تواسے چاہیے کہ اسے توڑدے اورکفارہ اداکرے ،اوراس کاکفارہ یہ ہے

۔۔۔فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ۝۰ۭ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰــثَةِ اَیَّامٍ۔۔۔۝۰۝۸۹ [50]

ترجمہ: (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرواور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَاللهِ، لَأَنْ یَلِجَّ أَحَدُكُمْ بِیَمِینِهِ فِی أَهْلِهِ، آثَمُ لَهُ عِنْدَ اللهِ مِنْ أَنْ یُعْطِیَ كَفَّارَتَهُ الَّتِی افْتَرَضَ اللهُ عَلَیْهِ

رسول اللہ ﷺنے فرمایاواللہ! (بسااوقات)اپنے گھروالوں کے معاملہ میں تمہارااپنی قسموں پراصرارکرتے رہنااللہ کے نزدیک اس سے زیادہ گناہ کی بات ہوتی ہے کہ (قسم توڑکر)اس کاوہ کفارہ اداکردیاجائے جواللہ تعالیٰ نے اس پرفرض کیاہے۔[51]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلَهُ: {وَلَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرْضَةً لِأَیْمَانِكُمْ} یَقُولُ: لَا تَجْعَلْنِی عُرْضَةً لِیَمِینِكَ أَنْ لَا تَصْنَعَ الْخَیْرَوَلَكِنْ كَفِّرْ عَنْ یَمِینِكَ وَاصْنَعِ الْخَیْرَ

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان’’ اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لیے استعمال نہ کرو۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہے فرماتے ہیں میری قسم کونیکی نہ کرنے کاعذرنہ بناؤ بلکہ قسم کاکفارہ دے دواورنیکی کاکام کرو۔[52]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تَسْأَلِ الإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِیتَهَا مِنْ غَیْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَیْهَا، وَإِنْ أُعْطِیتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَیْهَا وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى یَمِینٍ، فَرَأَیْتَ غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، فَأْتِ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَكَفِّرْ عَنْ یَمِینِكَ

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایااے عبدالرحمٰن! سرداری ،امارت اور امامت کوطلب نہ کراگربغیرمانگے تودیا جائے گاتواللہ کی جانب سے تیری مددکی جائے گی اوراگرتونے آپ مانگ کرلی توتجھے اس کی طرف سونپ دیاجائے گاتواگرکوئی قسم کھالے اوراس کے خلاف بھی بھلائی دیکھ تو اپنی قسم کاکفارہ دے دے اوراس نیک کام کوکرلے۔[53]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ، فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، فَلْیُكَفِّرْ عَنْ یَمِینِهِ، وَلْیَفْعَلِ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص کسی کام کے بارے میں قسم کھالے اورپھردیکھے کہ دوسراکام اس سے بہترہے تووہ اپنی قسم کاکفارہ دے دے اورزیادہ بہترکام کوسرانجام دے۔[54]

اللہ تعالیٰ اس شخص کوبخش دیتاہے جوخلوص نیت سے توبہ کرکے اس کی طرف لوٹتاہے اورجوشخص اپنے رب کی نافرمانی کرتاہے وہ اس کے بارے میں بہت حلم سے کام لیتاہے اوراس کوسزادینے میں عجلت سے کام نہیں لیتابلکہ اپنے حلم کی بناپراس کی پردہ پوشی کرتاہے اوراس پرقدرت رکھنے اوراپنے سامنے ہونے کے باوجوداس سے درگزرکرتاہے۔

لِّلَّذِینَ یُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٢٢٦﴾‏ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٢٧﴾‏(البقرة )
’’جو لوگ اپنی بیویوں سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں، ان کی چار مہینے کی مدت ہے پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہےاور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں تو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے ۔‘‘

عورتوں پرظلم کاطریقہ(ظہار):

دورجاہلیت میں عورت کی حیثیت ایک لونڈی کی طرح تھی جومردوں کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی تھی اس کے فرائض تو تھے مگرحقوق کچھ نہیں تھےاس طرح عورتوں کی زندگی جہنم سے کم ہرگزنہ تھی ،ہاں اشراف طبقہ میں عورتوں کوکچھ آزادی حاصل تھی ،اس کاتحفظ اور احترام کیاجاتااوراس کی بات مانی جاتی تھی ، وہ تجارت کرتی اوراپنے رشتہ کا پسند یا ناپسند کرسکتی تھی مگر اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح نہیں کرسکتی تھی اس لئے اس کانکاح اس کے ولی کے زیرنگرانی مہراداکرکے سرانجام پاتا ، جیسے اسلام میں رائج ہے مگریہ مہرعورت کو ملنے کے بجائے عورت کاباپ وصول کرتا،بعض شوہروں کی اپنی بیویوں سے لڑائی ہوجاتی توشوہرغصہ میں عورت کوتکلیف پہنچانے کی غرض سے قسم اٹھالیتے اوربیوی کو ماں بہن بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے اورشوہراپنی بیوی سے کہتا

أَنْت علیَّ َظهر أُمِّی

تومیرے اوپرایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ یا اس معنی کے کوئی اورالفاظ استعمال کرتا

 یُدك أَو بطنُك، علیَّ كَظهر أُمِّی، أَو كبطن أُمِّی أَو أَنْت علیَّ كعین أُمِّی، أَو كروح أُمِّی

یعنی اب تجھ سے مباشرت کرنامیرے لئے ایساہے جیسے میں اپنی ماں سےمباشرت کروں ۔[55]

(اسے ظہارکہاجاتاہے) اس طرح نہ تووہ عورت اس خاوندسے مطلقہ ہوتی اورنہ آبادہی رہتی، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مردوں کواس ظلم پرسرزنش فرمائی اور اسے ظالموں سے عورت کوچھٹکاراعنایت فرمایااورایک مدت مقررکردی کہ اب شوہراپنی قسم کی بنیادپراپنی بیوی کوچارماہ سے زیادہ نہ چھوڑے ورنہ یاتواسے کفارہ اداکرکے رجوع کرناپڑے گا یا پھر طلاق دینی ہوگی یعنی یہ نہیں کہ ظہارکے بعد شوہرچپکے سے گھرچلاآئے اورکفارہ ادا کیے بغیرحسب سابق زوجیت کے تعلقات استوار کر لے ، اوراگرانہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہوتوپھرطلاق دے دیں یعنی چارہ ماہ کی مدت گزرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ اسے یاتورجوع کرناہوگایا پھر طلاق دینی ہوگی،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ؛ أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ: إِذَا آلَى الرَّجُلُ مِنِ امْرَأَتِهِ، لَمْ یَقَعْ عَلَیْهِ طَلاَقٌ . وَإِنْ مَضَتِ الْأَرْبَعَةُ الْأَشْهُرِ حَتَّى یُوقَفَ . فَإِمَّا أَنْ یُطَلِّقَ، وَإِمَّا أَنْ یَفِیءَ.

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہے جب کوئی آدمی اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے توطلاق واقع نہیں ہوگی خواہ چارماہ کی مدت گزرجائے حتی کہ اس سے مطالبہ کیاجائے گاکہ وہ طلاق دے یاپھررجوع کرے۔[56]

عَنْ سُهَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ:سَأَلْتُ اثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا مِنَ الصَّحَابَةِ عَنِ الرَّجُلِ یُولِی مِنَ امْرَأَتِهِ، فَكُلُّهُمْ یَقُولُ: لَیْسَ عَلَیْهِ شَیْءٌ حَتَّى تَمْضِیَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ فَیُوقَفُ، فَإِنْ فَاءَ وَإِلَّا طَلَّقَ

سہیل بن ابوصالح نے اپنے باپ سے روایت کیاہےمیں نے بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھاجواپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے توانہوں نے فرمایاکہ اس پرکچھ نہیں ہے حتی کہ جب چارہ ماہ کی مدت گزرجائے تواس سے مطالبہ کیاجائے گاکہ وہ رجوع کرے یاپھرطلاق دے دے۔[57]

اورجانتے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتااور جانتاہے چاہئے دنیا میں کسی کوبھی اس کی خبرنہ ہواللہ کوتوبہرحال اس کی خبرہےاوراللہ کے مواخذہ سے بچ نکلناان کے لئے کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔

[1] البقرة۲۲۱

[2] تفسیرالبحرالمحیط۱۶۵؍۲

[3] تفسیرالقرطبی۷۲؍۳

[4] المحلی ۲۶؍۹

[5] تفسیرالمنار۲۷۹؍۲

[6] البقرة: 221

[7] الفتاویٰ الکبری لابن تیمیة۱۲۰؍۳

[8] النور۳۲

[9] تفسیرالقرطبی۳۲۹؍۱۲

[10] معالم التنزیل، المعروف تفسیرالبغوی۴۰۷؍۳

[11] تفسیرالقرطبی۲۳۹؍۱۲

[12] البقرة۲۳۲

[13] تفسیرابن کثیر۶۲۹؍۱

[14] تفسیرطبری۱۹۴؍۴

[15] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ۵۱۳۰

[16] تفسیرالقرطبی۱۵۸؍۳

[17] فتح الباری ۱۸۴؍۹

[18] سبل السلام ۱۷۵؍۲

[19] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الْوَلِیِّ ۲۰۸۵

[20]سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الْوَلِیِّ۲۰۸۳

[21]سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ۱۸۸۲

[22] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ۵۱۲۷

[23] النسائ۵۹

[24] البقرة: 222

[25] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِیلِهِ وَطَهَارَةِ سُؤْرِهَا وَالَاتِّكَاءِ فِی حِجْرِهَا وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِیهِ۶۹۴،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ ۲۹۷۷،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ وَمُجَامَعَتِهَا۲۵۸،سنن الدارمی ۱۰۹۳

[26] سنن ابوداود كِتَاب الطَّهَارَةِ بَابٌ فِی الرَّجُلِ یُصِیبُ مِنْهَا مَا دُونَ الْجِمَاعِ۲۷۲

[27] صحیح بخاری کتاب الحیض بَابُ قِرَاءَةِ الرَّجُلِ فِی حَجْرِ امْرَأَتِهِ وَهِیَ حَائِضٌ۲۹۷، صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِیلِهِ وَطَهَارَةِ سُؤْرِهَا وَالَاتِّكَاءِ فِی حِجْرِهَا وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِیهِ۶۹۳،مسند احمد ۲۴۸۶۲، شرح السنة للبغوی۳۱۹

[28] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِیلِهِ وَطَهَارَةِ سُؤْرِهَا وَالَاتِّكَاءِ فِی حِجْرِهَا وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِیهِ ۶۹۲ ،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ وَسُؤْرِهَا ۶۴۳، سنن نسائی کتاب الطہارةبَابُ مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ وَالشُّرْبِ مِنْ سُؤْرِهَا ۲۸۱،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ وَمُجَامَعَتِهَا ۲۵۹

[29]سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الرَّجُلِ یُصِیبُ مِنْهَا مَا دُونَ الْجِمَاعِ۲۶۹،سنن نسائی کتاب الطھارة بَابُ مُضَاجَعَةِ الْحَائِضِ۲۸۵

[30] صحیح بخاری كِتَابُ الحَیْض بَابُ مُبَاشَرَةِ الحَائِضِ ۳۰۳

[31] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْمَذْیِ۲۱۲،السنن الصغیرللبیہقی ۱۵۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۹۹

[32]جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۹۷۸ ،مسندابی یعلی۲۰۲۴،السنن الکبریٰ للبیہقی۱۴۱۰۲

[33] البقرة: 223

[34] مسنداحمد۲۴۱۴

[35]سنن ابوداود کتاب النکاح بَابٌ فِی جَامِعِ النِّكَاحِ۲۱۶۲ ،مسنداحمد۹۷۳۳

[36] مسند احمد ۹۲۹۰،سنن ابوداودكِتَاب الطِّبِّ بَابٌ فِی الْكَاهِنِ۳۹۰۴،جامع ترمذی کتاب الطھارةبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ إِتْیَانِ الحَائِضِ ۱۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ النَّهْیِ عَنْ إِتْیَانِ الْحَائِضِ ۶۳۹

[37]سنن ابن ماجہ کتاب النکاح قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللهَ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِی أَدْبَارِهِنَّ۱۹۲۵،مسند ا حمد۲۱۸۵۸

[38] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ النَّهْیِ عَنْ إِتْیَانِ النِّسَاءِ فِی أَدْبَارِهِنَّ ۱۹۲۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ إِتْیَانِ النِّسَاءِ فِی أَدْبَارِهِنَّ۱۱۶۵

[39] نیل الاوطار۲۳۹؍۶

[40]صحیح بخاری کتاب الوضوبَابُ التَّسْمِیَةِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعِنْدَ الوِقَاعِ۱۴۱،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ أَنْ یَقُولَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ۳۵۳۳،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی جَامِعِ النِّكَاحِ ۲۱۶۱ ،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا دَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ ۱۰۹۲،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا دَخَلَتْ عَلَیْهِ أَهْلُهُ۱۹۲۰،سنن الدارمی ۲۲۵۸،صحیح ابن حبان۹۸۳

[41] فتح القدیر۲۶۵؍۱

[42] النور۲۲

[43]سنن ابوداود كِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ لَغْوِ الْیَمِینِ۳۲۵۴

[44] تفسیرابن ابی حاتم۴۱۰؍۲

[45] تفسیرابن ابی حاتم۴۰۹؍۲

[46]۔ صحیح بخاری كِتَابُ الأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ لاَ یُحْلَفُ بِاللاتِ وَالعُزَّى وَلاَ بِالطَّوَاغِیتِ ۶۶۵۰،صحیح مسلم كِتَابُ الْأَیْمَانِ بَابُ مَنْ حَلَفَ بِاللاتِ وَالْعُزَّى، فَلْیَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ۴۲۶۰

[47] سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ الْیَمِینِ فِی قَطِیعَةِ الرَّحِمِ۳۲۷۲

[48] المائدة۸۹

[49] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْكَفَّارَاتِ بَابُ مَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللهِ فَلْیَرْضَ۲۱۰۱

[50] المائدة۸۹

[51] صحیح بخاری كِتَابُ الأَیْمَانِ وَالنُّذُورِباب قول اللہ تعالیٰ لایوخذکم اللہ باللغو۶۶۲۵، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْإِصْرَارِ عَلَى الْیَمِینِ، فِیمَا یَتَأَذَّى بِهِ أَهْلُ الْحَالِفِ، مِمَّا لَیْسَ بِحَرَامٍ۴۲۹۱، مسنداحمد۸۲۰۸

[52] تفسیرطبری۴۲۲؍۴

[53] صحیح بخاری کتاب کفارات الایمان بَابُ الكَفَّارَةِ قَبْلَ الحِنْثِ وَبَعْدَهُ۶۷۲۲،صحیح مسلم كِتَابُ الْأَیْمَانِ بَابُ نَدْبِ مَنْ حَلَفَ یَمِینًا فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، أَنْ یَأْتِیَ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَیُكَفِّرُ عَنْ یَمِینِهِ۴۲۸۱، مسنداحمد۲۰۶۱۸،صحیح ابن حبان۴۴۸۰

[54]صحیح مسلم كِتَابُ الْأَیْمَانِ بَابُ نَدْبِ مَنْ حَلَفَ یَمِینًا فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، أَنْ یَأْتِیَ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَیُكَفِّرُ عَنْ یَمِینِهِ۴۲۷۲

[55] شرح السنة للبغوی۲۴۴؍۹

[56] موطاامام مالک ۲۰۴۵

[57] تفسیرطبری۴۹۳؍۴

Related Articles