ہجرت نبوی کا پہلا سال

 مسجدنبوی کے خدمت گار

مسجدنبوی کی مختلف نوعیت کی خدمات سرانجام دے کرکتنے ہی خوش نصیب حضرات ہمیشہ سے دارین کی سرفرازی حاصل کرتے چلے آرہے ہیں ، اورہرفردمفوضہ خدمت کی انجام دہی کودنیاکے تخت وتاج سے بھی عزیزرکھتاہے اوراس اعزازکواپنے لئے مایہ افتخارسمجھتاہے،کیونکہ ایک مسلمان کے سامنے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذی شان ہے جب تم کسی آدمی کومسجدکی خدمت کرتے دیکھوتواس کے ایماندارہونے کی گواہی دو،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَیْتُمُ الرَّجُلَ یَتَعَاهَدُ الْمَسْجِد فَاشْهَدُوا لَهُ بِالْإِیمَان

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی آدمی کومسجدکی خدمت کرتے دیکھوتواس کے ایماندارہونے کی گواہی دو۔[1]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَخْرَجَ أَذًى مِنَ الْمَسْجِدِ، بَنَى اللهُ لَهُ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص مسجدکی صفائی کرکے خس وخاشاک نکال دے گا اللہ کریم اس کے لئے جنت میں گھربنائے گا۔[2]

امامت اور خطابت کامنصب علم وتقویٰ کے اعتبارسے یقیناً بلنداورعظیم المرتبت ہے لیکن مسجد نبوی کے جاروب کش کی قدرومنزلت بھی انتہائی قابل رشک ہے کیونکہ مسجدکی صفائی پرقیامت کے دن گراں قدرمعاوضہ عطاہوگااس لئے یہ خدمت باعث ذلت نہیں بلکہ باعث عزت ورضائے الہٰی ہے اوریہ ایسی عظیم الشان خدمت ہے جسے خود سیدعرب وعجم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے انجام دیااورآپ کے جلیل القدرصحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی انجام دیتے رہے ،اور ایک سیاہ فام بڑھیاصحابیہ ہمیشہ مسجدنبوی میں جھاڑو دینے کی خدمت سرانجام دیاکرتی تھی۔بعض روایات میں مذکورہ خادم کے مردیاعورت ہونے کاشبہ ظاہرکیاگیاہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ

 أَنَّهَا امْرَأَةٌ وَأَنَّهَا أُمُّ مِحْجَنٍ

 وہ عورت تھی اوراس کی کنیت ام محجن تھی۔[3]

یہ ایک ایسانیک کام تھاکہ اس کی وجہ سے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم اس بڑھیا کی بے حدقدرفرماتے تھے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَفَقَدَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلَ عَنْهَا بَعْدَ أَیَّامٍ،فَقِیلَ لَهُ: إِنَّهَا مَاتَتْ،قَالَ:فَهَلَّا آذَنْتُمُونِی، فَأَتَى قَبْرَهَا، فَصَلَّى عَلَیْهَا

چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک کالی عورت مسجدمیں جھاڑودیاکرتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوکئی دن تک نہیں دیکھاتواس کاحال پوچھا،لوگوں نے کہاوہ مرگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرمجھے خبرکیوں نہ دی ،اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبرپرآئے اوراس پرنمازپڑھی۔[4]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا أَوِ امْرَأَةً كَانَ یَكُونُ فِی المَسْجِدِ یَقُمُّ المَسْجِدَ فَمَاتَ وَلَمْ یَعْلَمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ،فَذَكَرَهُ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ:مَا فَعَلَ ذَلِكَ الإِنْسَانُ؟قَالُوا: مَاتَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:أَفَلاَ آذَنْتُمُونِی؟فَقَالُوا: إِنَّهُ كَانَ كَذَا وَكَذَا قِصَّتُهُ،قَالَ: فَحَقَرُوا شَأْنَهُ،قَالَ:فَدُلُّونِی عَلَى قَبْرِهِ،فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکالے رنگ کاایک مردیاایک کالی عورت مسجدکی خدمت کیاکرتی تھی،ان کی وفات ہوگئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی وفات کی خبرکسی نے نہیں دی،ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودیادفرمایاکہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان کاتوانتقال ہوگیاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتم نے مجھے خبرکیوں نہیں دی ؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیاکہ یہ وجوہ تھیں (اس لئے آپ کوتکلیف نہیں دی گئی)گویالوگوں نے ان کو( ایک معمولی عورت اور)حقیرجان کرقابل توجہ نہیں سمجھا (مگرآپ کی نگاہ میں اس کی حیثیت سے بڑی وقعت اورقدرتھی کہ اسے خادم مسجدنبوی ہونے کاشرف حاصل تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ چلومجھے ان کی قبربتادوچنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبرپرتشریف لائے اوراس پرنمازجنازہ پڑھی۔[5]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:فَقَدَ النَّبِیُّ صَلَّى الله عَلَیهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَلْتَقِطُ الْخِرَقَ وَالْعِیدَانَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: أَیْنَ فُلَانَةُ، قَالُوا: مَاتَتْ، قَالَ: أَفَلَا آذَنْتُمُونِی، قَالُوا مَاتَتْ مِنَ اللیْلِ وَدُفِنَتْ فَكَرِهْنَا أَنْ نُوقِظَكَ، فَذَهَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَیهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَبْرِهَا، فَصَلَّى عَلَیْهَا وَقَالَ: إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَلَا تَدَعُوا أَنْ تُؤْذِنُونِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کالی عورت کی عدم موجودگی کو محسوس کیا جو پونجا اور مسجد کی صفائی کرتی تھی توفرمایا کہ فلانہ کہاں ہے؟لوگوں نے کہاوہ توفوت ہوگئی ہے، فرمایاتوتم لوگوں نے مجھے خبرکیوں نہیں دی؟لوگوں نے عرض کیاوہ رات کوفوت ہوئی تھی اوررات کوہی اسے دفن کردیاگیاہم نے آپ کوتکلیف دیناپسندنہیں کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبرپرتشریف لے گئے اوراس کی نماز جنازہ پڑھی،اورفرمایاتم میں سے جب کوئی مسلمان فوت ہوجائےتومجھے خبردوتاکہ اس کی نمازجنازہ پڑھی جائے۔[6]

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٩٧﴾‏ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِیلَ وَمِیكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِینَ ‎﴿٩٨﴾‏ وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَیْكَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ ۖ وَمَا یَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ ‎﴿٩٩﴾‏ أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏ وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیقٌ مِّنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٠١﴾‏(البقرة)
’’ (اے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ جو جبرائیل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے (تو اللہ بھی اس کا دشمن ہے) جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے، اور یقیناً ہم نے آپ کی طرف روشن دلیلیں بھیجی ہیں جن کا انکار سوائے بدکاروں کے کوئی نہیں کرتا،یہ لوگ جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں تو ان کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں، جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا، ان اہل کتاب کے ایک فرقہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گویا جانتے ہی نہ تھے۔ ‘‘

چندیہودی علمارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورکہااے اباالقاسم !اگرآپ ہمارے ان چندسوالوں کوجواب دے دیں توہم آپ پرایمان لے آئیں گے اورآپ کی پیروی کریں گےکیوں کہ نبی کے سواکوئی ان سوالوں کوجواب نہیں دے سکتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپوچھوجوکچھ پوچھناچاہتے ہو،جب انہوں نے اپنے سوالات پوچھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوالات کےصحیح جوابات دےدیئےتوانہوں نےلاجواب ہوکرپوچھاآپ پروحی کون لاتاہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجبریل علیہ السلام وحی لاتے ہیں ،اس پریہودکہنے لگے جبریل علیہ السلام توہمارادشمن ہے ،وہی توحرب وقتال اورعذاب لے کراترتارہاہے چنانچہ اس بہانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پرایمان لانے سے انکارکردیا۔[7]

قَالُوا: فَأَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُكَ الَّذِی یَأْتِیكَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، فَإِنَّهُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا یَأْتِیهِ مَلَكٌ بِالْخَبَرِ فَهِیَ الَّتِی نُتَابِعُكَ إِنْ أَخْبَرْتَنَا قَالَ:جِبْرِیلُ ، قَالُوا: ذَاكَ الَّذِی یَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ، ذَاكَ عَدُوُّنَا لَوْ قُلْتَ: مِیكَائِیلُ الَّذِی یَنْزِلُ بِالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ وَالرَّحْمَةِ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ۔[8] إِلَى آخِرِ الْآیَةِ

یہودی کہنے لگے اچھایہ بتایئے کہ فرشتوں میں سے آپ کے پاس آنے والاکون ہے؟کیونکہ ہرنبی کے پاس کوئی نہ کوئی فرشتہ خبرلے کرآتاہے ،یہی آخری بات ہے اگرآپ بتادیں توہم آپ کے پیروکاربن جائیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ جبریل علیہ السلام ہے،انہوں نے کہاوہ تولڑائی اورجنگ لے کراترتاہے وہ ہمارادشمن ہےاگرتم میکائیل بتاتے توہم ایمان لے آتے کیونکہ وہ نباتات ،بارش اوررحمت لے کرآتاہےتواللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیجئے کہ جو جبرائیل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے۔‘‘[9]

اوراس سے پہلے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ آئے اورایک یہودی عالم عبداللہ بن سلام نے اسلام قبول کیاتھاتواس موقع پربھی یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں جبریل علیہ السلام سے اپنی دشمنی کااظہارکیاتھا۔

قَالَ: ذَاكَ عَدُوُّ الیَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ

وہ کہنے لگے وہ توفرشتوں میں سے یہودکادشمن ہے۔[10]

اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کہہ دیجئے کہ جو جبرائیل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے جو پیغام پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے تو اللہ بھی ایسے ظالموں کا دشمن ہے،یہودی کہتے تھے کہ میکائیل ہمارادوست ہے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاجبریل علیہ السلام ہوں یامیکائیل علیہ السلام ہوں یادوسرے فرشتےسب میرے مقبول بندے ہیں ،جو شخص اللہ وحدہ لاشریک کا اور اس کے بیشمار فرشتوں اور رسولوں کا اورمقرب فرشتے جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِی وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کرتاہوں ۔[11]

گویااللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے،جیسے کسی ایک پیغمبرکاانکارتمام پیغمبروں کاانکارہے،اوراللہ کے دوست وہ ہوتے ہیں جواپنے اعتقادویقین کوقرآن وسنت کے مطابق درست کرلیں ،یعنی جن کے دلوں میں ایمان ویقین ہوتاہے جوان کے چہروں سے ظاہرہورہاہوتاہے۔

وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَغَیْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ أَوْلِیَاءُ اللَّهِ الذین إذا رأوا ذُكِرَ اللَّهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اوردیگرسلف صالحین فرماتے ہیں اولیاء اللہ وہ ہیں جن کاچہرہ دیکھنے سے اللہ یادآجائے۔[12]

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاۗءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۲ۚۖالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ۝۶۳ۭ [13]

ترجمہ:سنو ! جو اللہ کے دوست ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوٰی کا رویّہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ۔

اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔[14]

ترجمہ:اللہ ان لوگوں کاولی(دوست)ہے جوایمان لائے۔

اولیاء اللہ کی محبت اوران کی تعظیم نہایت ضروری ہے اوران سے بغض وعناداتنابڑاجرم ہے کہ اللہ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتاہے،لیکن اولیاء اللہ سے محبت اورتعظیم کایہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ ان کے مرنے کے بعدان کی قبروں پرگنبداورقبے بنائے جائیں ،ان کی قبروں پرسالانہ عرس کے نام پرمیلوں ٹھیلوں کااہتمام کیاجائے ،ان کے نام کی نذرونیازاورقبروں کو غسل دیاجائے اوران پرچادریں چڑھائی جائیں اورانہیں حاجت روا،مشکل کشااورنفع اورنقصان پہنچانے والاسمجھاجائے ،ان کی قبروں پردست بستہ قیام اوران کی چوکھٹوں پرسجدہ کیاجائے،یہ اللہ کے دوستوں سے محبت نہیں بلکہ ان کی عبادت ہے جوشرک اورظلم عظیم ہے ۔

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَیَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳ [15]

ترجمہ:یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔

ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جوصاف صاف حق کااظہارکرنے والی ہیں اوران کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکارکرتے ہیں جوتکبروغروراورتعصب کی بنا پراللہ کی اطاعت سے نکل گئے ہوں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَیْكَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ} یَقُولُ: فَأَنْتَ تَتْلُوهُ عَلَیْهِمْ وَتُخْبِرُهُمْ بِهِ غُدْوَةً وَعَشِیَّةً وَبَیْنَ ذَلِكَ، وَأَنْتَ عِنْدَهُمْ أُمِّیٌّ لَمْ تَقْرَأْ كِتَابًا، وَأَنْتَ تُخْبِرُهُمْ بِمَا فِی أَیْدِیهِمْ عَلَى وَجْهِهِ، یَقُولُ اللهُ: فَفِی ذَلِكَ لَهُمْ عِبْرَةٌ وَبَیَانٌ وَعَلَیْهِمْ حُجَّةٌ لَوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت’’ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں ۔‘‘ کی تفسیرمیں فرمایاہے کہ ہم نے آپ کی طرف ان آیات بینات کونازل فرمایاہے،آپ انہیں یہ پڑھ کرسناتے اورصبح وشام بتاتے ہیں حالانکہ آپ ان کےنزدیک امی ہیں کہ آپ نے آج تک قرآن مجیدکے سواکسی اورکتاب کونہیں پڑھالیکن ان کی کتابوں میں جوکچھ موجود ہے آپ انہیں ان کے بارے میں صحیح صحیح بتادیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس میں عبرت ونصیحت اوربیان وحجت ہے ،اے کاش!کہ یہ لوگ اس حقیقت کوجان لیں ۔[16]

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی فرمائی کہ کیا بنی اسرائیل کی تاریخ میں ہمیشہ ایساہی نہیں ہوتارہاہے کہ جب بھی انہوں نے اللہ کے ساتھ کوئی پختہ عہدکیاتوان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرورہی بالائے طاق رکھ دیا؟عہدشکنی توان لوگوں کاپراناشیوہ ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ مَالِكُ بْنُ الصَّیْفِ حِینَ بُعِثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ لَهُمْ مَا أَخَذَ عَلَیْهِمْ مِنَ الْمِیثَاقِ وَمَا عَهِدَ اللهِ إِلَیْهِمْ فِیهِ: وَاللهِ مَا عَهِدَ إِلَیْنَا فِی مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا أَخَذَ لَهُ عَلَیْنَا مِیثَاقًا، فَأَنْزَلَ اللهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: {أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِیقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ}  [17]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کوخصوصاً وہ عہدومیثاق یاددلایاجوان سے آپ کے بارے میں لیا گیا تھا تو مالک بن صیف(قنیقاعی)کہنے لگااللہ کی قسم !ہم سے تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی عہدومیثاق نہیں لیاگیاتھا،اس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’ کیاہمیشہ ایساہی نہیں ہوتارہاہے کہ جب انہوں نے کوئی عہدکیاتوان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرورہی بالائے طاق رکھ دیا؟۔‘‘نازل فرمائی۔[18]

عَنِ الْحَسَنِ قَوْلُهُ: {أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِیقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُونَ} قَالَ: نَعَمْ، لَیْسَ فِی الْأَرْضِ عَهْدٌ یُعَاهِدُونَ عَلَیْهِ إِلَّا نَقَضُوهُ وَنَبَذُوهُ یُعَاهِدُونَ الْیَوْمَ وَیَنْقُضُونَ غَدًا

امام حسن بصری رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان’’کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا ؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے۔ ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دنیاکی تاریخ میں کوئی ایسا عہدوپیمان نہیں جویہودسے لیاگیاہواوراسے انہوں نے نہ توڑاہوان کی عادت ہی یہی ہے کہ آج جوعہدکرتے ہیں کل اسے توڑدیتے ہیں ۔[19]

بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ ان میں سے اکثرلوگ سچے دل سے ایمان نہیں لاتے، اگر ان کے ایمان میں کوئی صداقت ہوتی تو ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہوتی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ ۔۔۔[20]

ترجمہ:ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔

اورجب ان کے پاس رسول کریم حق کے ساتھ یہ جلیل القد کتاب لے کرآئے جو پہلے سے منزل تورات وانجیل کی تصدیق وتائیدکرتاہے توان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ(قرآن مجید) کواس طرح بے رغبتی سے پس پشت ڈالاگویاکہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ،

عَنْ قَتَادَةَ قَوْلُهُ: كَأَنَّهُمْ لا یَعْلَمُونَ قَالَ: إِنَّ الْقَوْمَ كَانُوا یَعْلَمُونَ، وَلَكِنَّهُمْ نَبَذُوا عِلْمَهُمْ وَكَتَمُوهُ وَجَحَدُوا بِهِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جانتے توتھے لیکن جاننے کے باوجودانہوں نے اسے پھینک دیا، چھپایا اور اسے ماننے سے انکارکردیا۔[21]

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَیْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّیَاطِینَ كَفَرُوا یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ یَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِهِ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّینَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّهُمْ وَلَا یَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٠٢﴾‏ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ خَیْرٌ ۖ لَّوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٠٣﴾۳(البقرة)
 ’’ اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین(حضرت) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے،سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے، اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا ، وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نہ نفع پہنچا سکے، اور وہ بالیقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے،اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین ثواب انہیں ملتااگر یہ جانتے ہوتے ۔‘‘

جب یہودیوں نے اللہ کی کتاب اوراس کے عہدکوپیٹھ پیچھے پھینک دیاتو شیطان کے پیچھے لگ کرنہ صرف جادوٹونے پرعمل کرتے رہے بلکہ لوگوں کویہ باورکرایا کہ سلیمان علیہ السلام بھی (نعوذباللہ)اللہ کے پیغمبرنہیں بلکہ جادوکے عامل تھے اورانہوں نےجادوکے زورپرہی اتنی بڑی سلطنت حاصل کی تھی ،اللہ تعالیٰ نے اس کی تردیدمیں فرمایایہ جھوٹ بول رہے ہیں سلیمان علیہ السلام نے کبھی جادوکاعمل سیکھ کرکفرکاارتکاب نہیں کیا ،جادوکاعلم توبنی اسرائیل نے اس وقت شروع کیاجب شاہ بابل بخت نصرنے اورپھراشوریوں نے بنی اسرائیل کی دونوں حکومتوں کاخاتمہ کرکے انہیں منتشرکردیااوریہ غلامی ،جہالت اورذلت وپستی میں مبتلاہوکر جادوٹونے،طلسمات وعملیات اورتعویزگنڈوں کی طرف مائل ہوئے،اس طرح کفرکے مرتکب تو وہ شیاطین جن وانس تھے جوسلیمان علیہ السلام کے بعدلوگوں کوجادوگری کی تعلیم دیتے تھے،اسی دورمیں اللہ تعالیٰ نے بطورامتحان دوفرشتوں ہاروت وماروت کوانسانی شکل میں بابل میں بھیجااوروہ بھی جادوکی دوکان کھول کربیٹھ گئے،دوسری دوکانوں کی طرح لوگ اس دوکان کی طرف بھی مائل ہوئے، چنانچہ جب لوگ ان سے علم سحرسیکھنے کے لئے آتے تووہ اتمام حجت کے لئے صاف طورپرمتنبہ کردیاکرتے تھے کہ دیکھوہم اللہ کی طرف سے بندوں کے آزمائش وامتحان کے لئے بھیجے گئے ہیں اس لئے تم جادوکاعمل سیکھ کرکفرمیں مبتلانہ ہواوراپنی عاقبت خراب نہ کرو،

عَنِ الْحَسَنِ قَوْلُهُ: وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى یَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ، فَقَالَ: نَعَمْ أَنْزَلَ الْمَلَكَیْنِ بِالسِّحْرِ لِیُعَلِّمُوا النَّاسَ الْبَلَاءَ الَّذِی أَرَادَ اللهُ أَنْ یَبْتَلِیَ بِهِ النَّاسَ ، فَأَخَذَ عَلَیْهِمَا الْمِیثَاقَ أَنْ لَا یُعَلِّمَانِ أَحَدًا حَتَّى یَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ

امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت’’ حالانکہ وہ (فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے، تو پہلے صاف طور پر متنبہ کردیا کرتے تھے کہ دیکھ، ہم محض ایک آزمائش ہیں تو کفر میں مبتلا نہ ہو ۔‘‘ کی تفسیرمیں فرمایاہےدوفرشتوں کوجادودے کراتاراگیاتھاتاکہ وہ لوگوں کویہ آزمائش سکھادیں جس سے اللہ تعالیٰ اپنےبندوں کی آزمائش کرناچاہی تھی،اوراللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ عہدلے لیاتھاکہ وہ اس وقت تک کسی کویہ جادونہ سکھائیں جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم توذریعہ آزمائش ہیں چنانچہ تم کفرمیں نہ پڑو۔[22]

مگربنواسرائیل کی اخلاقی گراوٹ کایہ حال تھا کہ اس تنبیہ کے باوجودبھی وہ شوہراوربیوی میں جدائی ڈال ڈالنے اوراپنی طرف مائل کرنےکے لئے علم سحرسیکھنے کے لئے ٹوٹے پڑ رہے تھے ،اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی بابت فرمایا

۔۔۔یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ۔۔۔ ۝۵۱ [23]

ترجمہ:ان کاحال یہ ہے کہ وہ جادواورشیطان پرایمان رکھتے ہیں ۔

قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: الْجِبْتُ: السِّحْرُ , وَالطَّاغُوتُ: الشَّیْطَانُ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں الجبت کامعنی جادواورالطاغوت سے مرادشیطان ہے۔[24]

قَالَ مُجَاهِدٌ:الطَّاغُوتُ:الشَّیْطَانُ فِی صُورَةِ إِنْسَانٍ، یَتَحَاكَمُونَ إِلَیْهِ، وَهُوَ صَاحِبُ أَمْرِهِمْ

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’الطَّاغُوتُ ‘‘سے مرادانسانی صورت میں شیطان ہے جوان پرحکمرانی کرتاہے اوروہ حکم چلانے والاہوتاہے۔[25]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الطَّوَاغِیتِ قَالَ: كُهَّانٌ کان ینزل عَلَیْهِمُ شَیَاطِینُ،فی كُلِّ حَیٍّ وَاحِدٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے طاغویت کے بارے میں پوچھاگیاتوفرمایاطاغوت وہ شیطان ہے جن پرشیطان اترتاتھااورہرقبیلے کاالگ الگ کاہن ہوتاتھا۔[26]

وَقَالَ الْإِمَامُ مَالِكٌ: الطَّاغُوتُ هُوَ كُلُّ مَا یُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ عزوجل کوچھوڑکرجس کی عبادت کی جائے وہ طاغوت ہے۔[27]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ إِبْلِیسَ یَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ یَبْعَثُ سَرَایَاهُ، فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً، یَجِیءُ أَحَدُهُمْ فَیَقُولُ: فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا، فَیَقُولُ: مَا صَنَعْتَ شَیْئًا، قَالَ ثُمَّ یَجِیءُ أَحَدُهُمْ فَیَقُولُ: مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ امْرَأَتِهِ، قَالَ: فَیُدْنِیهِ مِنْهُ وَیَقُولُ: نِعْمَ أَنْتَ قَالَ الْأَعْمَشُ: أُرَاهُ قَالَ:فَیَلْتَزِمُهُ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابلیس اپناتخت پانی پررکھتاہے وہ اپنے مرکزسے زمین کے ہر گوشے میں اپنے کارندوں کوفسادبرپاکرنے کے لئے روانہ کرتاہے،سواس سے مرتبہ میں زیادہ قریب وہ ہوتاہے جوبڑا فساد برپا کرے(پھروہ کارندے واپس آکراپنی اپنی کاروائیاں سناتے ہیں )کوئی شیطان کہتا ہے میں نے فلاں فتنہ برپاکیا(یعنی فلاں سے چوری کرائی،فلاں کوشراب پلوائی) تو شیطان کہتاہے تونے کچھ بھی کام نہیں کیا(کوئی شیطان کہتاہے میں نے فلاں شر کھڑا کیا مگرابلیس ہرایک سے کہتا ہے تونے کچھ نہیں کیا)پھرایک شیطان آتاہے اور اطلاع دیتاہے کہ میں ایک عورت اوراس کے شوہرمیں جدائی ڈال آیاہوں ، راوی کہتاہے کہ ابلیس اس کے قریب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے کام کیا ہے، اعمش نے بیان کیا ہے کہ میرا خیال ہے کہ ابلیس یہ سن کر اسے گلے لگا لیتا ہے۔[28]

اس لئے اسلام نے جادوکے سیکھنے اوراس پرعمل کرنے کو کفر قرار دیا ہے

عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّیْفِ

جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجادوگرکی حد(سزا)یہ ہے کہ اسے تلوارسے قتل کردیاجائے۔[29]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّشْرَةِ، فَقَالَ:مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےجادوکے ذریعے سے جادوکے علاج کی بابت دریافت کیاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ شیطانی عمل ہے۔[30]

بَجَالَةَ، یَقُولُ:كَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: أَنِ اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ وَسَاحِرَةٍ. قَالَ: فَقَتَلْنَا ثَلَاثَ سَوَاحِرَ

بجالہ بن عبدة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھا ہر جادوگر مرد اور عورت کوقتل کردو،بجالہ مزیدکہتے ہیں سوہم نے تین جادوگرنیوں کوقتل کیا۔[31]

عَنْ أَبِی مُوسَى أَنّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:ثَلاثَةٌ لَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ مُدْمِنُ الْخَمْرِ وَقَاطِعُ الرَّحِمِ وَمُصَدِّقٌ بِالسحرِ

ابوموسی اشعریٰ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے عادی شراب خور،قطع رحمی کرنے والااورجادوکوبرحق ماننے والا۔[32]

وَأَطْلَقَ مَالِكٌ وَجَمَاعَةٌ أَنَّ السَّاحِرَ كَافِرٌ، وَأَنَّ السِّحْرَ كُفْرٌ، وَأَنَّ تَعَلُّمَهُ وَتَعْلِیمَهُ كَفْرٌ، وَأَنَّ السَّاحِرَ یُقْتَلُ وَلَا یُسْتَتَابُ

امام مالک رضی اللہ عنہ اوردوسرے ائمہ کرام فرماتے ہیں جادوگرکافرہےاورجادوکفرہےوہ کفرکی تعلیم دیتاہے اس لیےجادوگرکو قتل کردیناچاہیے اورتوبہ کی مہلت نہیں دینی چاہیے۔ [33]

وقال أحمد ومَالِك رَحِمَهُمَا اللهُ تَعَالَى السَّاحِرَ كَافِر وَلَا یُسْتَتَابُ وَلَا تُقْبَلْ تَوْبَتُهُ بَلْ یَتَحَتَّمُ قَتْلُهُ بالخنجر

امام احمد رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں جادوگر کافرہے اس لئے اسے توبہ کی مہلت نہیں دینی چاہیےاورنہ اس کی توبہ قبول کرنی چاہیے بلکہ اسے خنجرسے قتل کردینا چاہیے۔[34]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الیَتِیمِ، وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو، لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کونسی باتیں ہیں ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنااور جادو کرنااور اس جان کا ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہےاور سود کھانااور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار یعنی بھاگنا اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا[35]

ظاہرتھاکہ اللہ کے مشیت کے بغیروہ علم سحر سے کسی کوبھی ضررنہ پہنچاسکتے تھے،

عَنْ سُفْیَانَ: فِی قَوْلِهِ: {وَمَا هُمْ بِضَارِّینَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ} [36]قَالَ: بِقَضَاءِ اللَّهِ

سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے فرمان’’ظاہر تھا کہ اذن الٰہی کہ بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے۔‘‘سے مراد اللہ تعالیٰ کی قضااورفیصلہ ہے۔[37]

مگراس کے باوجود وہ ایسی چیزسیکھتے تھے جوخودان کے لیے نفع کے بجائے نقصان دہ تھی اوران یہودیوں کو خوب معلوم تھاکہ علم سحرسیکھنے اوراس پرعمل کرنے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ،کاش انہیں معلوم ہوتاکہ کتنی بری چیز (کفر)کے بدلے وہ اپنی اخروی زندگی کوبربادکررہے ہیں ،کاش انہیں خبرہوتی کہ اگروہ ایمان اورتقویٰ کی روش اختیار کرتے تواللہ کے ہاں اس کاجوبے بہا اجر ملتاوہ ان کے لیے زیادہ بہترتھا،جیسے فرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۚ وَلَا یُلَقّٰىهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۝۸۰ [38]

ترجمہ:مگرجولوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے افسوس! تمہارے حال پر،اللہ کاثواب بہترہے اس شخص کے لیے جوایمان لائے اورنیک عمل کرے اوریہ دولت نہیں ملتی مگرصبرکرنے والوں کو۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١٠٤﴾‏ مَّا یَوَدُّ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِینَ أَن یُنَزَّلَ عَلَیْكُم مِّنْ خَیْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ‎﴿١٠٥﴾‏مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٠٦﴾‏ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‎﴿١٠٧﴾‏(البقرة)
 ’’اے ایمان والو تم (نبی ﷺ کو)رَاعِنَا نہ کہا کرو بلکہانْظُرْنَا کہو یعنی ہماری طرف دیکھیے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے، نہ تو اہل کتاب کے کافر اور نہ مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی کوئی بھلائی نازل ہو (ان کے اس حسد سے کیا ہوا) اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت خصوصیت سے عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے،جس آیت کو ہم منسوخ کردیںیا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے،کیا تجھے علم نہیں کہ زمین اور آسمان کا ملک اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔‘‘

یہودی اپنے بغض وعنادکوتسکین دینے کے لئے جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے توالسلام علیکم کے بجائے شرارت سے زبان دباکرالسام علیکم (تجھ پرموت آئے ) کہتے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا سَلَّمَ عَلَیْكُمُ الیَهُودُ، فَإِنَّمَا یَقُولُ أَحَدُهُمْ: السَّامُ عَلَیْكَ، فَقُلْ: وَعَلَیْكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب یہودتمہیں سلام کریں اورالسام علیکم کہیں ،تم ان کے جواب میں وعلیک کہاکرو۔[39]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرنے کے لئے راعنا’’ہماری بات سنئے‘‘کے بجائے لفظ بگاڑکرراعینا’’ہمارے چرواہے‘‘ یاراعنا’’احمق‘‘کہتے تھے،انصار بھی جب دینی امورسیکھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے توانہوں نے بھی یہی لفظ کہناشروع کردیا،اللہ تعالیٰ نے یہود کی شرارتوں سے خبردارکرنے کے لئے فرمایااے لوگو جو ایمان لائے ہوتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرنے کے لئے لفظ راعناکہنے سے پرہیز کرو بلکہ انظرنا’’ہماری طرف توجہ فرمائیں ‘‘ کہاکرواورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کریں تویہودیوں کی طرح اپنے خیالات میں الجھنے کے بجائےبات کوتوجہ سے سنو،یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکارکردیاہےیہ توجہنم کےدردناک عذاب کے مستحق ہیں ،اوریہودومشرکین کی مسلمانوں کے ساتھ عداوت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایااے مومنو!خواہ اہل کتاب ہوں یامشرکین ہوں یہ دونوں ہرگزیہ پسندنہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پرکوئی بھلائی نازل ہومگراللہ جس کوچاہتاہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتاہے اوروہ بڑافضل فرمانے والاہے،یہودمسلمانوں کے دلوں میں قرآن مجیدکے بارے میں شبہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے تھےاس سلسلہ میں وہ کہتے تھے کہ پہلی کتابیں بھی اللہ نے نازل کی تھیں اوریہ قرآن بھی اللہ نے نازل کیاہے تواس کے بعض احکام ان کتابوں سے مختلف کیوں ہیں ؟اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکتاب نازل کرنے والامیں ہوں ،میں اپنی حکمت بالغہ ومصلحت سےاپنے جس حکم کوچاہوں منسوخ کردوں اورجس چیزکوچاہوں اپنے بندوں کے حافظوں سے محو کر دوں ،

عَنْ قَتَادَةَ:فِی قَوْلِهِ: مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَةٍ أَوْ نُنْسِهَا، قَالَ: كَانَ اللهُ تَعَالَى ذِكْرُهُ یُنْسِی نَبِیَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ وَیَنْسَخُ مَا شَاءَ

قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان’’ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں ۔‘‘ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ جوچاہتاہے اپنے نبی کوبھلادیتاہے اورجسے چاہتاہے منسوخ کردیتاہے ۔[40]

مگرہم اپنی جس آیت کومنسوخ کردیتے ہیں یابھلادیتے ہیں اس کی جگہ اس سے بہترلاتے ہیں ،جوتمہارے لئے زیادہ نفع مندہوتی ہے، یاکم ازکم وہ اپنے محل میں اتنی ہی مفیداورمناسب ہوتی ہے جتنی پہلی چیزاپنے محل پرتھی ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:نَأْتِ بِخَیْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا، یَقُولُ: خَیْرٌ لَكُمْ فِی الْمَنْفَعَةِ وَأَرْفَقُ بِكُمْ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ’’اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی ۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے ہم اس کے بجائے ایسی آیت لے آتے ہیں جومنفعت کے اعتبارسے تمہارے لیے بہترہوتی ہے اورجس میں نرمی کاپہلوبھی زیادہ ہوتاہے۔[41]

اوراسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جوچاہے حکم فرمائے ،جس چیزسے چاہے منع فرمادے ،جس چیزکوچاہے منسوخ فرمادے اورجسے چاہے برقراررکھے،

كَمَا أَحَلَّ لِآدَمَ تَزْوِیجَ بَنَاتِهِ مِنْ بَنِیهِ، ثُمَّ حَرَّمَ ذَلِكَ، وَكَمَا أَبَاحَ لِنُوحٍ بَعْدَ خُرُوجِهِ مِنَ السَّفِینَةِ أَكْلَ جَمِیعِ الْحَیَوَانَاتِ ، ثُمَّ نَسَخَ حِلُّ بعضها،وكان نكاح الأختین مباح لِإِسْرَائِیلَ وَبَنِیهِ وَقَدْ حُرِّمَ ذَلِكَ فِی شَرِیعَةِ التَّوْرَاةِ وَمَا بَعْدَهَا،وَأَمَرَ إِبْرَاهِیمَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، بِذَبْحِ وَلَدِهِ ثُمَّ نَسَخَهُ قَبْلَ الْفِعْلِ، وَأَمَرَ جُمْهُورَ بَنَى إِسْرَائِیلَ بِقَتْلِ مَنْ عَبَدَ الْعِجْلَ مِنْهُمْ،ثُمَّ رَفَعَ عَنْهُمُ الْقَتْلَ كَیْلَا یَسْتَأْصِلَهُمُ الْقَتْلُ

جیسےاس نے آدم علیہ السلام کے لیے انہی کے بیٹوں اوربیٹیوں کی آپس میں شادی کوحلال قراردیاتھالیکن بعدمیں اسے حرام قراردے دیاگیا،کشتی سے باہرآنے کے بعدنوح علیہ السلام کے لیے تمام حیوانات کوکھاناحالال قراردے دیاگیاتھالیکن بعدمیں ان میں سے بعض کوحرام قراردے دیاگیا،یعقوب علیہ السلام اوران کی قوم کے لیے دوبہنوں سے نکاح کوحلال قراردے دیا گیا تھالیکن احکام تورات اوراس کے بعدکی شریعتوں میں اسے حرام کردیاگیا،اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کوحکم فرمایاتھاکہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کریں مگرپھرذبح کرنے سے قبل ہی اس حکم کومنسوخ کردیاگیا،جمہوربنی اسرائیل کوحکم دیاگیاتھاکہ وہ ان تمام لوگوں کوقتل کردیں جنہوں نے بچھڑے کومعبودبنالیاتھا لیکن پھراس حکم کوختم کردیاگیاکہیں تمام بنی اسرائیل قتل ہوکرصفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح نہ مٹ جائیں ۔[42]

جوکوئی نسخ میں جرح وقدح کرتاہے اوراللہ تعالیٰ کی حاکمیت اورقدرت میں عیب نکالتاہےکیاانہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتاہے؟کیاانہیں خبرنہیں ہے کہ زمین اورآسمانوں کی فرمانروائی اللہ وحدہ لاشریک ہی کے لیے ہے،اسی لیے یہ بھی صرف اسی کواختیارہے کہ جوچاہے وہ حکم فرمائے ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔۔۔۝۰ ۝۵۴ [43]

ترجمہ:خبردار!اسی کی خلق ہے اوراسی کاامرہے۔

اوراس کے سواکوئی تمہاری خبرگیری کرنے اورتمہاری مددکرنے والانہیں ہے۔

أَمْ تُرِیدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن یَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِیمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ ‎﴿١٠٨﴾‏ وَدَّ كَثِیرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِیمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ یَأْتِیَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٠٩﴾‏ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿١١٠﴾‏ (البقرة)
 ’’کیا تم اپنے رسول سے یہی پوچھنا چاہتے ہو جو اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا گیا تھا ؟(سنو) ایمان کو کفر سے بدلنے والا سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے،ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے، یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، تم نمازیں قائم رکھو اور زکوة دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے سب کچھ اللہ کے پاس پالو گے، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔‘‘

وَكَانَ حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ وَأَخُوهُ أَبُو یَاسِرِ بْنِ أَخْطَبَ، مِنْ أَشَدِّ یَهُودَ لِلْعَرَبِ حَسَدًا إذْ خَصَّهُمْ اللهُ تَعَالَى بِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَا جَاهِدَیْنِ فِی رَدِّ النَّاسِ عَنْ الْإِسْلَامِ بِمَا اسْتَطَاعَا

روایت ہےحیی بن اخطب اوراس کابھائی ابویاسر تمام یہود سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص کر عداوت رکھتے تھے اوراسلام سے لوگوں کو روکنے اوربہکانے میں ہروقت سرگرم رہتے تھے۔[44]

وہ اوران کے ساتھی موشگافیاں کرکے مسلمانوں کے سامنے طرح طرح کے سوالات پیش کرتے رہتے تھے اورمسلمانوں کواکساتے کہ اپنے نبی سے یہ پوچھواوریہ پوچھو،اس پراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کومتنبہ فرمایاکہ یہودی بھی بال کی کھال نکالنے اوراعتراض کے خاطر موسیٰ علیہ السلام سے مذموم سوالات کیاکرتے تھےمگرتم یہودیوں کی روش اختیارکرنے سے بچواوربس جوحکم تمہیں دیاجائے اس کی پیروی کرو اور جن امورسے تمہیں منع کیاجائے اس سے بازآجاؤجیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـیَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۰۱ [45]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔

سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَعْظَمَ المُسْلِمِینَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَیْءٍ لَمْ یُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ

سعد رضی اللہ عنہ بن ابووقاص سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑامجرم وہ ہے جواس چیزکے بارے میں سوال کرے جوحرام نہ تھی پھراس کے سوال سے حرام ہوگئی ۔[46]

چنانچہ صحابہ کرام سوال کرنے سے رک گئے،

عَنِ المُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَیْكُمْ: عُقُوقَ الأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ البَنَاتِ، وَمَنَعَ وَهَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ قِیلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ المَالِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے تم پرماں (اورباپ)کی نافرمانی اورلڑکیوں کوزندہ دفن کرنااور(واجب حقوق کی)ادائیگی نہ کرنا اور(دوسروں کامال ناجائزطریقہ پر) دبالیناحرام قراردیاہے،اور فضول بکواس کرنےاورکثرت سے سوالات کرنےاورمال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔[47]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:كُنَّا قَدْ نُهِینَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْءٍ، فَكَانَ یُعْجِبُنَا أَنْ یَأْتِیَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِیَةِ الْعَاقِلُ، فَیَسْأَلُهُ وَنَحْنُ نَسْمَعُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب ہمیں قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا تو ہم چاہتے تھے کہ کوئی ہوشیار بادیہ نشین شخص آجائے ،وہ آپ سے دینی امورپوچھے توہم بھی سن لیں ۔[48]

چونکہ مذموم سوالات بعض دفعہ سوال پوچھنے والے کوکفرکی حدودمیں داخل کردیتے ہیں اس لئے ارشادفرمایا جس شخص نے ایمان کی روش کوکفرکی روش سے بدل لیاوہ راہ راست سے بھٹک گیا،اہل کتاب میں سے اکثرلوگ فریب کاری کے جال بچھاکر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیرکرپھرکفرکی طرف پلٹالے جائیں ،جیسے فرمایا

وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَهٗ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۷۲ۚۖ [49]

ترجمہ:اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کو ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کر دو شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں ۔

اگرچہ حق ان پر ظاہرہوچکاہے مگراپنے حسداورتعصب کی بناپر ان کی شدید خواہش ہے کہ تمہیں دین سے بےبہرہ کردیں ،ان کے حسداورتعصب کودیکھ کر تم مشتعل نہ ہوبلکہ عفوودرگزرسے کام لواوران احکام وفرائض اسلام کوبجالاتے رہوجس کاتمہیں حکم دیاجارہاہے یہاں تک کہ اللہ خودہی اپنافیصلہ نافذ کر دے،مطمئن رہوکہ اللہ (تعالیٰ) ہرچیزپرقدرت رکھتاہے،نمازقائم کرواورزکوٰة دو،تم اپنی عافیت کے لیے جوبھلائی کما کر آگے بھیجوگے اللہ کے ہاں اسے موجودپاؤگے،جواعمال تم بجالاتے ہووہ سب اللہ کی نظرمیں ہیں ۔

میمون رضی اللہ عنہ بن یامین کااسلام قبول کرنا

یہودمیں ایک معززشخص میمون بن یامین تھے،وہ خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوردعوت اسلام کوقبول کرلیا،اور ان کاحال بھی عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مختلف نہیں ہوا،جب وہ اسلام لاچکے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا

یَا رَسُولَ اللهِ ابْعَثْ إِلَیْهِمْ فَاجْعَلْنِی حَكَمًا فَإِنَّهُمْ یَرْجِعُونَ إِلَیَّ فَأَدْخَلَهُ دَاخِلًا ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیْهِمْ فَأَتَوْهُ فَخَاطَبُوهُ فَقَالَ اخْتَارُوا رَجُلًا یَكُونُ حَكَمًا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ،قَالُوا قَدْ رَضِینَا مَیْمُونٍ بْنَ یَامِینَ، فَقَالَ اخْرُجْ إِلَیْهِمْ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ الله فَأَبَوا أَن یصدقوه

اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ یہودکوبلابھیجیں اورمجھے حکم بنادیں وہ میری طرف رجوع کریں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی طرح میمون بن یامین کوعلیحدہ بٹھادیااوریہودکوبلابھیجا،جب یہودی آگئے آپ نے انہیں دعوت اسلام پیش کی ،مگرانہوں نے انکارکردیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے اورمیرے درمیان کوئی حکم مقررکرلو،یہودیوں نے میمون بن یامین کواپناحکم مقررکیاکہ وہ جوبھی فیصلہ کریں گے ہم اس پرراضی ہوں گے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمون بن یامین کو باہرآنے کوکہا،وہ باہرآئے اور یہودیوں کے سامنے کلمہ شہادت اشھدان الاالٰہ الااللہ واشھدان محمدرسول اللہ پڑھامگریہودنے اپنے مقررکیے ہوئے حکم کے فیصلہ کوتسلیم نہ کیا۔ [50]

وَقَالُوا لَن یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِیُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١١١﴾‏ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿١١٢﴾‏(البقرة)
 ’’یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو،سنو جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔‘‘

یہودونصاریٰ کادعویٰ ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گاجب تک کہ وہ یہودی نہ ہویاعیسائیوں کے خیال کے مطابق عیسائی نہ ہو،فرمایایہ ان کے دل کی باطل خواہشیں اور تمنائیں ہیں مگراس طرح بیان کررہے ہیں کہ گویافی الواقع یہی کچھ ہونے والاہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہواگرتم اپنے دعوے میں سچے ہوکہ جنت صرف یہودونصاریٰ کے لئے ہی مخصوص ہےتواپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل پیش کرو،حالانکہ نہ تو یہودونصاریٰ میں کچھ خصوصیت ہے نہ کسی اورمیں کہ انہیں بغیرحساب جنت میں داخل کردیاجائےبلکہ حق یہ ہے کہ جوبھی اپنی ہستی کواللہ وحدہ لاشریک کی اطاعت میں سونپ دے،جواپنے دین کواللہ کے لیے خالص کردے اورعملاًپیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اخلاص کے ساتھ اعمال صالحہ اختیارکرے ،

عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص ایساعمل کرے جس پرہماراحکم نہ ہووہ مردودہے۔[51]

اورلوگوں کے اعمال صرف اسی وقت قبولیت کادرجہ حاصل کریں گے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں گے ، جیسےقرآن مجیدمیں فرمایا

وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳ [52]

ترجمہ:اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اُڑا دیں گے ۔

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍؚبِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَـیْــــًٔـا۔۔۔ ۝۳۹ۙ [53]

ترجمہ:جنہوں نے کفرکیاان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جسے دشت بے آب میں پیاسااس کوپانی سمجھے ہوئے تھا مگرجب وہاں پہنچاتوکچھ نہ پایا۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ۝۲ۙعَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ۝۳ۙتَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً۝۴ۙتُسْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍ۝۵ۭلَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ۝۶ۙلَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ۝۷ۭ [54]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روزخوفزدہ ہوں گے،سخت مشقت کررہے ہوں گے ،تھکے جاتے ہوں گے ، شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے،کھولتے ہوئے چشمے کاپانی انہیں پینے کودیاجائے گا،خاردارسوکھی گھاس کے سواکوئی کھاناان کے لیے نہ ہوگاجونہ موٹاکرے نہ بھوک مٹائے۔ النور۳۹

اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کااجرعظیم ہے اورایسے لوگوں کے لیے نہ مستقبل کاخوف ہوگااورنہ ماضی کی کسی چیز کے چھوٹنے پرکوئی رنج وملال ہوگا۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی قَوْلِ اللهِ: لا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ یَعْنِی فِی الآخِرَةِ وَلا هُمْ یَحْزَنُونَ یَعْنِی لَا یَحْزَنُونَ لِلْمَوْتِ

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ آیت ’’اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ نہ ان پرآخرت میں کوئی خوف ہوگااورنہ وہ موت کے وقت غم کریں گے۔[55]

وَقَالَتِ الْیَهُودُ لَیْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَیْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَیْسَتِ الْیَهُودُ عَلَىٰ شَیْءٍ وَهُمْ یَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ‎﴿١١٣﴾‏ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن یُذْكَرَ فِیهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِی خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن یَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِینَ ۚ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿١١٤﴾(البقرة)
 ’’یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں حالانکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں، اسی طرح ان ہی جیسی بات بےعلم بھی کہتے ہیں ،قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کر دے گا، اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکےان کی بربادی کی کوشش کرے، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے ،ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہودونصاری کے باہمی تضاد،بغض ،عداوت اورعنادکوبیان فرمایا،اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ أَهْلُ نَجْرَانَ مِنَ النَّصَارَى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَتْهُمْ أَحْبَارُ یَهُودَ فَتَنَازَعُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَافِعُ بْنُ حُرَیْمِلَةَ: مَا أَنْتُمْ عَلَى شَیْءٍ، وَكَفَرَ بِعِیسَى وَبِالْإِنْجِیلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ نَجْرَانَ مِنَ النَّصَارَى لِلْیَهُودِ: مَا أَنْتُمْ عَلَى شَیْءٍ، وَجَحَدَ بِنُبُوَّةِ مُوسَى وَكَفَرَ بِالتَّوْرَاةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِی ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمَا: {وَقَالَتِ الْیَهُودُ لَیْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَیْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَیْسَتِ الْیَهُودُ عَلَى شَیْءٍ} [56]

جب نجران کے نصاری کاایک وفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہواتوان کے پاس یہودیوں کے علماء آئے اورانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپس میں لڑائی جھگڑاشروع کردیا، رافع بن حریملہ کہنے لگاتم راہ راست پرنہیں ہو نیزاس نے عیسیٰ علیہ السلام اورانجیل کے ساتھ کفرکااظہاربھی کیا، یہ سن کرنجران کے عیسائیوں میں سے ایک شخص یہودیوں سے مخاطب ہوکرکہنے لگانہیں تم راہ راست پرنہیں ہواوراس نے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اورتورات کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا اس موقع پراللہ تعالیٰ نے اس آیت ’’یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں حالانکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں ۔‘‘ کونازل فرمایا۔[57]

یہودی کہتے ہیں نصاریٰ حق پر نہیں اورنصاریٰ کہتے ہیں یہودی حق پر نہیں ہیں حالانکہ دونوں ہی تورات کو پڑھتے ہیں ،اورمشرکین بھی اسی زعم باطل میں مبتلاہیں کہ وہ حق پرہیں ،جس اختلاف میں یہ لوگ مبتلاہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روزعدل وانصاف کے ساتھ ان اختلاف کرنے والوں کے مابین فیصلہ کردے گااورکسی پرکوئی ظلم نہیں کیاجائے گا ، جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِــــِٕــیْنَ وَالنَّصٰرٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُـوْٓا۝۰ۤۖ اِنَّ اللهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۷ [58]

ترجمہ:جولوگ ایمان لائے اوریہودی ہوئے اورصابی اورنصاری اورمجوس اورجن لوگوں نے شرک کیاان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روزفیصلہ کردے گا،ہرچیزاللہ کی نظرمیں ہے۔

اَللهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۶۹ [59]

ترجمہ:اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۰۝۲۶ [60]

ترجمہ:کہوہمارا رب ہم کو جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا۔

اورمشرکین مکہ سے بڑھ کرظالم اورمجرم اورکوئی نہیں جنہوں نے پوری جدوجہداوربھرپورکوشش سے لوگوں کواللہ کے گھرمیں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اورذکرسے روکا،

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ: فِی قَوْلِهِ: {وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللهِ أَنْ یُذْكَرَ فِیهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِی خَرَابِهَا} قَالَ: هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكُونِ، حِینَ حَالُوا بَیْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَةِ وَبَیْنَ أَنْ یَدْخُلَ مَكَّةَ حَتَّى نَحَرَ هَدْیَهُ بِذِی طُوًى وَهَادَنَهُمْ، وَقَالَ لَهُمْ:مَا كَانَ أَحَدٌ یَرُدُّ عَنْ هَذَا الْبَیْتِ . وَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ یَلْقَى قَاتِلَ أَبِیهِ أَوْ أَخِیهِ فِیهِ فَمَا یَصُدُّهُ، وَقَالُوا: لَا یَدْخُلُ عَلَیْنَا مَنْ قَتَلَ آبَاءَنَا یَوْمَ بَدْرٍ وَفِینَا بَاقٍ

ابن جریرنےابن زید رحمہ اللہ سے آیت’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے در پے ہو ؟ ۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے کہ ان سے مرادوہ مشرکین ہیں جنہوں نے حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیاتھاحتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ذی طوی ہی میں اپنے ہدی کے جانورکوقربان کر دیاان سے صلح کرلی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایااس گھرسے توکوئی نہیں روکتاتھاحتی کہ آدمی اپنے باپ یابھائی کے قاتل کوپاتاتواسے بھی اس گھرسے منع نہیں کرتاتھا،یہ سن کرکفارقریش کہنے لگے کہ ہمارے ہاں وہ شخص نہیں آسکتاجس نے بدرکے دن ہمارے بزرگوں کوقتل کیاتھااوروہ خودابھی تک زندہ ہے۔[61]

اوران کی ویرانی کے درپے ہوئے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ قُرَیْشًا مَنَعُوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَأَنْزَلَ اللهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللهِ أَنْ یُذْكَرَ فِیهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِی خَرَابِهَا

ابن ابوحاتم رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومسجدحرام میں کعبہ کے پاس نمازپڑھنے سے روک دیاتھاتواللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکےان کی بربادی کی کوشش کرے۔‘‘ نازل فرمائی۔[62]

اللہ تعالیٰ نےیہودونصاری کی مذمت کے بعدمشرکین کی بھی مذمت کی اورفرمایا

وَمَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللهُ وَهُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِیَاۗءَهٗ۝۰ۭ اِنْ اَوْلِیَاۗؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۳۴ [63]

ترجمہ:لیکن اب کیوں نہ وہ ان پرعذاب نازل کرےجبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں ،اس کے جائزمتولی توصرف اہل تقویٰ ہی ہوسکتے ہیں ،مگراکثرلوگ اس بات کونہیں جانتے۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ۝۰ۚۖ وَفِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ۝۱۷ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ۝۱۸ [64]

ترجمہ:مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآنحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں ، ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئےاور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے،اللہ کی مسجدوں کے آبادکار(مجاوروخادم)تووہی لوگ ہوسکتے ہیں جواللہ اورروزآخرت کومانیں اورنمازقائم کریں ،زکوٰة دیں اوراللہ کے سواکسی سے نہ ڈریں ،انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے۔

هُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَــرَامِ وَالْهَدْیَ مَعْكُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ۝۰ۭ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَـطَــــُٔـــوْهُمْ فَتُصِیْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۚ لِیُدْخِلَ اللهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۲۵ [65]

ترجمہ: وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو ان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا اگر (مکہ میں ) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی، روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے، وہ مومن الگ ہوگئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے ۔

اس لئے جب اللہ تعالیٰ تمہیں تمکن اورغلبہ عطافرمائے تومشرکین کو ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھنے دینا اوراگروہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں کہ اگرکوئی شرارت کریں گے تواس کی سزاپائیں گے،چنانچہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیاتواللہ تعالیٰ نے حکم دیا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ۔۔۔ ۝۲۸ [66]

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں ۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوہجری کویہ اعلان کردیا

أَنْ لاَ یَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ وَلاَ یَطُوفَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ

اس سال کے بعدحج میں کوئی مشرک نہ آنے پائے اوربیت اللہ کاطواف کوئی ننگاہوکرنہ کرسکے گا۔[67]

وَمَنْ كَانَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ

اورجس کسی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی کوئی مدت مقررہے تواس مدت تک عہدکی پابندی کی جائے گی۔[68]

کیونکہ انہوں نے بیت اللہ میں بت رکھ کراس کی بے حرمتی کی تھی اورغیراللہ کی پوجاپاٹ کی،عریاں ہوکربیت اللہ کاطواف کیااوراس طرح کی کئی مذموم حرکتیں کیں اس لیے ان کے لیے تودنیامیں ذلت و رسوائی ہے اورآخرت میں عذاب عظیم۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوآخرت کی ذلت ورسوائی سے پناہ مانگتے تھے،

عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ الْقُرَشِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُو:اللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْأُمُورِ كُلِّهَا، وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا، وَعَذَابِ الْآخِرَةِ

بسربن ارطاة القریشی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ دعاکرتے ہوئے سنااے اللہ!توہمارے ہرکام کاانجام ہمارے حق میں اچھاکردے اورہمیں دنیاکی رسوائی اورآخرت کے عذاب سے پناہ دے۔[69]

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ‎﴿١١٥﴾‏ وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ ‎﴿١١٦﴾‏ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ كُن فَیَكُونُ ‎﴿١١٧﴾‏ وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ لَوْلَا یُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِینَا آیَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَیَّنَّا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ ‎﴿١١٨﴾‏ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِیمِ ‎﴿١١٩﴾‏(البقرة)
 ’’اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے، اللہ تعالیٰ کشادگی اور وسعت والا اور بڑے علم والا ہے،یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے، (نہیں بلکہ) وہ پاک ہے زمین اور آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کا فرماں بردار ہے ، وہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، بس وہی ہوجاتا ہے ،اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالیٰ ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی، اسی طرح ایسی ہی بات ان کے اگلوں نے بھی کہی تھی، ان کے اور ان کے دل یکساں ہوگئے، ہم نے تو یقین والوں کے لیے نشانیاں بیان کردیں،ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی۔ ‘‘

 اللہ ہی مقتدراعلی ہے:

ہجرت مدینہ کے بعدجب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے تھے تومسلمانوں کواس کارنج تھااس موقع پریہ آیت نازل ہوئی ۔بعض کہتے ہیں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے پھرخانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کاحکم ہواتویہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں ۔بعض کے نزدیک اس کے نزول کاسبب سفرمیں سواری پرنفل نمازپڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کامنہ کدھربھی ہونمازپڑھ سکتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرق ومغرب کاخاص طورپرذکرکیاکیونکہ یہ روشنی کے طلوع اورغروب ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی آیات عظیمہ کامحل ومقام ہیں اورجب وہ مشارق ومغارب کامالک ہے توتمام جہات اسی کی ملکیت ہیں ،اس آیت کایہ مطلب نہیں کہ نمازمیں قبلہ کی طرف رخ کرناضروری نہیں بلکہ مرادخاص صورتوں میں قبلہ کی پابندی ختم کرناہے،یعنی انسان کوقبلہ کی طرف رخ کرنے میں اگرکوئی دشواری ہویادشمن کاخوف ہویاقبلہ معلوم نہ ہوسکےتوجس طرف منہ کرکے نمازپڑھ لے درست ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی وَهُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ عَلَى رَاحِلَتِهِ حَیْثُ كَانَ وَجْهُهُ، قَالَ: وَفِیهِ نَزَلَتْ {فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ} [70]

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر(نفل)نمازپڑھتے رہتے تھے اس کارخ جدھربھی ہوتافرماتے ہیں اسی کے بارے میں یہ آیت’’ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔[71]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ مُوَجِّهٌ إِلَى خَیْبَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگدھے پرنمازپڑھتے ہوئے دیکھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کامنہ خیبرکی طرف تھا۔[72]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ وَصَفَهَا. ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ كان خوف أشد من ذلك صلوا رجالا قِیَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ، وَرُكْبَانًا مُسْتَقْبَلِی الْقِبْلَةَ وَغَیْرَ مُسْتَقْبِلِیهَا.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب نمازخوف کے بارے میں پوچھاجاتاتونمازخوف کوبیان فرماتے اورکہتے کہ جب اس سے بھی زیادہ خوف ہوتوپیدل اورسوارکھڑے پڑھ لیاکرومنہ خواہ قبلہ کی جانب ہوخواہ نہ ہو۔[73]

تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے، اللہ تعالیٰ کشادگی اور وسعت والا اور بڑے علم والا ہے ، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کااثبات ہوتاہے مگرجیسے اس کی ذات اقدس کے لائق ہے اللہ تعالیٰ کاچہرہ ہے مگرمخلوق کے چہروں کے مشابہ نہیں (اللہ تعالیٰ اس مشابہت سے بلندوبرترہے)

اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں ،یہودیوں ،مشرکین عرب اوران لوگوں کی تردیدفرمائی ہے جنہوں نے فرشتوں کواللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قراردیاتھا،فرمایایہودکہتے ہیں عزیر علیہ السلام اللہ کابیٹاہے اورعیسائی کہتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام اللہ کابیٹاہے،مشرکین کہتے ہیں فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ،ہرگزنہیں اللہ تعالیٰ ان تمام صفات سے پاک اورمنزہ ہے جن سے یہ اہل شرک اوراہل ظلم اسے متصف کرتے ہیں ،اس کانہ کوئی نظیرہے،نہ اس کی عظمت وکبریائی میں اس کاکوئی شریک ہے اورنہ اس کی جنس کا کوئی اورہے۔

قُلْ هُوَاللهُ اَحَدٌ۝۱ۚاَللهُ الصَّمَدُ۝۲ۚلَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙوَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ [74]

ترجمہ:کہو، ! وہ اللہ ہے ، یکتا ،اللہ سب سے بے نیاز اور سب اس کے محتاج ہیں ، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاداور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

جب اللہ تعالیٰ کاکوئی نظیرنہیں ،نہ اس کی عظمت وکبریائی میں کوئی شریک ہے اورنہ اس کی کوئی بیوی ہی ہے توبیٹاکس طرح ہوسکتاہےجیسے فرمایا

 بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ۝۰ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۚ وَهُوَبِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۝۱۰۱ [75]

ترجمہ:وہ توآسمانوں اورزمین کاموجدہے اس کاکوئی بیٹا کیسے ہوسکتاہے جب کہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے،اس نے ہرچیزکوپیداکیاہے اوروہ ہرچیزکاعلم رکھتاہے۔

اورمخلوق کواللہ واحدلاشریک کابیٹاکہنا اتنابدبودارکلمہ ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اورزمین شق ہوجائے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝۸۸ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـیْــــــًٔـا اِدًّا۝۸۹ۙتَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۝۹۰ۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚوَمَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝۹۲ۭاِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۝۹۳ۭ [76]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے،سخت بیہودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو،قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں اس بات پر کہ لوگوں نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا !رحمان کی یہ شان نہیں ہےکہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ، زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔

مَا كَانَ لِلهِ اَنْ یَّــتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ۝۰ۙ سُبْحٰــنَهٗ۔۔۔۝۰۝۳۵ۭ [77]

ترجمہ:اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، وہ پاک ذات ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ:كَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِی، وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِیبُهُ إِیَّایَ فَزَعَمَ أَنِّی لاَ أَقْدِرُ أَنْ أُعِیدَهُ كَمَا كَانَ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِیَّایَ، فَقَوْلُهُ لِی وَلَدٌ، فَسُبْحَانِی أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہےابن آدم مجھے جھٹلاتاہےاسے یہ لائق نہ تھا،وہ مجھے گالیاں دیتاہےاسے یہ لائق نہیں تھااس کاجھٹلاناتویہ ہے کہ وہ یہ خیال کربیٹھاہے کہ میں اسے مارڈالنے کے بعدپھرزندہ کرنے پرقادرنہیں ہوں اوراس کا گالیاں دینایہ ہے کہ وہ میری اولادبتاتاہے حالانکہ میں پاک ہوں اور بلندوبالاہوں اس سے کہ میری اولادوبیوی ہو۔[78]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ شَیْءٌ أَصْبَرَ عَلَى أَذًى سَمِعَهُ مِنَ اللهِ، إِنَّهُمْ لَیَدْعُونَ لَهُ وَلَدًا وَإِنَّهُ لَیُعَافِیهِمْ وَیَرْزُقُهُمْ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابری باتیں سن کرصبرکرنے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی کامل نہیں ،لوگ اس کی اولادیں بتائیں اوروہ انہیں رزق وعافیت دیتا رہے۔ [79]

اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک زمین اور ساتوں آسمانوں کی تمام موجودات کامالک ہے ، وہ ان میں تصرف کرتاہےجس طرح مالک اپنے مملوک میں تصرف کرتا ہے،اورتمام مخلوقات اس کے سامنے پست و مطیع ہیں ۔

 وَلِلهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝۱۵۞ [80]

ترجمہ:وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں ۔

اسی وحدہ لاشریک نے بغیرنمونے کےآسمانوں اورزمین کوبہترین طریقے سےتخلیق کیا ہے،

عَنِ العِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ، قَالَ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا بَعْدَ صَلاَةِ الغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِیغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا العُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا القُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَیْنَا یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: أُوصِیكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ یَعِشْ مِنْكُمْ یَرَى اخْتِلاَفًا كَثِیرًا، وَإِیَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلاَلَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَیْهِ بِسُنَّتِی وَسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَهْدِیِّینَ، عَضُّوا عَلَیْهَا بِالنَّوَاجِذِ.

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت بلیغ وعظ فرمایا جس سے آنکھوں سے آنسو جاری اور دل کانپنے لگے، ایک شخص نے کہا یہ تو رخصت ہونے والے شخص کے وعظ جیسا ہے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں کیا وصیت کرتے ہیں ؟فرمایا میں تم لوگوں کو تقوی اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا، خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے،لہذا تم میں سے جو شخص یہ زمانہ پائے اسے چاہیے کہ میرے اور خلفاء راشدین مہدیین (ہدایت یافتہ) کی سنت کو لازم پکڑے، تم لوگ اسے (سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔[81]

کوئی چیزاس کی نافرمانی نہیں کرسکتی اورکسی چیز کو اس کے سامنے انکارکی مجال نہیں ،وہ قدرتوں والارب جس کام کوکرنے کا فیصلہ کرتاہے اس کے لئے اسے کسی اسباب و وسائل کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ وہ اپنی قدرت کے کلمہ کن سے اس چیزکو بس یہ حکم دیتاہے کہ ہوجااوروہ ہوجاتی ہے۔

۔۔۔اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۳۵ۭ [82]

ترجمہ: وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [83]

ترجمہ:وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۰ۧ [84]

ترجمہ:(رہا اس کا امکان تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں ہو جاؤ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْح ٍؚبِالْبَصَرِ۝۵۰ [85]

ترجمہ: اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں آ جاتا ہے۔

ایسی قدرتوں والی ذات کواولادکی بھلاکیاضرورت ہوسکتی ہے؟

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ حُرَیْمِلَةَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا مُحَمَّدُ، إِنْ كُنْتَ رَسُولًا مِنَ اللهِ كَمَا تَقُولُ، فَقُلْ لِلَّهِ فَلیُكَلِّمْنَا حَتَّى نَسْمَعَ كَلَامَهُ، فَأَنْزَلَ اللهُ فِی ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِ : {وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ لَوْلَا یُكَلِّمُنَا اللهُ أَوْ تَأْتِینَا آیَةٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رافع بن حریملہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرآپ واقعی اللہ کے رسول ہیں جیساکہ آپ دعویٰ کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ سے کہیں کہ وہ ہم سے کلام کرے حتی کہ ہم اس کے کلام کوسن لیں تواس کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ آیت ’’اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالیٰ ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔‘‘ نازل فرمائی۔[86]

مشرکین کہتے ہیں کہ اللہ خودہمارے سامنے آکریہ کیوں نہیں کہتاکہ یہ کتاب میں نے نازل کی ہےاورتم میرے احکامات کی پیروی کرو،یاپھرکوئی ایسی نشانی دکھادے جس سے ہمیں یقین ہوجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہے؟مشرکین اپنے تکبروعنادمیں اس طرح کے مطالبات کرتے رہتے تھے ،

عَنْ مُجَاهِدٍ:هُمُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد یہودونصاری ہیں ۔[87]

اس مضمون کومختلف مقامات پریوں بیان فرمایا

وَاِذَا جَاۗءَتْهُمْ اٰیَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللهِ۔۔۔۝۰۝۱۲۴ [88]

ترجمہ:جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا۔۔۔۝۰۝۲۱ [89]

ترجمہ:جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں ؟ یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں ۔

۔۔۔ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا۝۷ۙاَوْ یُلْقٰٓى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَا۔۔۔۝۰۝۸ [90]

ترجمہ:کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور وہ (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا ؟یا اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کوئی خزانہ ہی اُتار دیا جاتا ، یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی ) روزی حاصل کرتا ۔

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙاَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًا۝۹۱ۙاَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙاَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ۔۔۔۝۰۝۹۳ۧ [91]

ترجمہ:اور انہوں نے کہا ہم تیری بات ہرگزنہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دےیا تیرے لیے کھجوروں اورانگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دےیا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپرگرادے جیساکہ تیرادعویٰ ہےیا اللہ اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئےیا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ۔

بَلْ یُرِیْدُ كُلُّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ اَنْ یُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً۝۵۲ۙ [92]

ترجمہ:بلکہ ان میں سے توہرایک یہ چاہتاہے کہ اس کے نام کھلے خط بھیجے جائیں ۔

ایسے ہی لایعنی مطالبات پہلے لوگ بھی کیاکرتے تھے ،ان سب اگلے پچھلے گمراہوں کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں اوروہ باربارایک ہی قسم کے شبہات اوراعتراضات اورسوالات دہراتے رہتے ہیں ، جیسے فرمایا

كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝۵۲ۚاَتَوَاصَوْا بِهٖ۝۰ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ۝۵۳ۚ [93]

ترجمہ:یونہی ہوتا رہا ہے، اِن سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون،کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟ نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں ۔

یقین لانے والوں کے لیے توہم صاف صاف بے شمار نشانیاں نمایاں کرچکے ہیں اوراس سے بڑھ کرنمایاں نشانی کیا ہو گی کہ ہم نے تم کوعلم حق کے ساتھ خوشخبری دینے والااورڈرانے والا بناکر بھیجا ، کیااس کے بعدبھی کسی نشانی کی حاجت رہتی ہے؟اب جولوگ جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑکرجہنم سے رشتہ جوڑچکے ہیں ان کی طرف سے تم ذمہ دارو جواب دہ نہیں ہو،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰ [94]

ترجمہ:بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔

ابوقیس رضی اللہ عنہ صرمتہ بن ابی انس کااسلام قبول کرنا

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَكَانَ رَجُلًا قَدْ تَرَهَّبَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَلَبِسَ الْمُسُوحَ، وَفَارَقَ الْأَوْثَانَ، وَاغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ وَتَطَهَّرَ مِنْ الْحَائِضِ مِنْ النِّسَاءِ، وَهَمَّ بِالنَّصْرَانِیَّةِ، ثُمَّ أَمْسَكَ عَنْهَا، وَدَخَلَ بَیْتًا لَهُ، فَاِتَّخَذَهُ مَسْجِدًا لَا تَدْخُلُهُ عَلَیْهِ فِیهِ طَامِثٌ وَلَا جُنُبٌ، وَقَالَ: أَعْبُدُ رَبَّ إبْرَاهِیمَ، حَیْنَ فَارَقَ الْأَوْثَانَ وَكَرِهَهَا، حَتَّى قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، فَأَسْلَمَ وَحَسُنَ إسْلَامُهُ، وَهُوَ شَیْخٌ كَبِیرٌ،

ابن اسحاق کہتے ہیں صرمتہ بن ابی انس زمانہ جاہلیت میں راہب ہوگئے تھے اوربت پرستی بالکل ترک کردی تھی،جنابت کے موقع پرغسل کرتے تھےاورحیض والی عورت کے پاس نہ جاتے تھے،پہلے ان کاقصدنصرانی بننے کاتھامگر پھر نہ معلوم کیاسو چ کراپناارادہ بدل دیا،اورایک مختصرسی مسجدبناکراس میں بیٹھ گئے تھے جس میں کوئی ناپاک حالت کاشخص ان کے پاس نہ جاسکتاتھا،اوریہ کہتے تھے کہ میں اس مسجدمیں ابراہیم علیہ السلام کے پروردگار کی عبادت کرتاہوں ،جب بتوں کو چھوڑا اورناپسندکیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ میں تشریف لائے تویہ بھی حاضرخدمت ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے،ان کااسلام لانابہت اچھاہوا،بہت معمراورضعیف ہوچکے تھے۔[95]

یہ شاعرتھےانہوں نےاپنے اشعارمیں انہوں نے لوگوں کوتوحیداورنیک اعمال کی طرف خوب رغبت دلائی ۔

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْیَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِی جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‎﴿١٢٠﴾‏ الَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْكِتَابَ یَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ یُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن یَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿١٢١﴾‏(البقرة)
 ’’آپ سے یہودی اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں ، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار ،جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں، وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے ۔‘‘

 یہودونصاریٰ کی پیروی میں گمراہی ہے :

اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے بارے میں فرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم یہودونصاریٰ کو کبھی بھی راضی نہ کرسکوگے جب تک کہ تم ان کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیارکرلو،جس طرح یہ دین کے کچھ حصے کومانتے ہیں اورکچھ کونہیں مانتے،اورکتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں تم بھی وہی نہ کرنےلگو،جس طرح یہ عقائدواعمال کی گمراہیوں میں مبتلاہیں تم بھی انہی کی طرح گمراہیوں میں مبتلانہ ہوجاؤ ،پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب ہوکردھمکایاکہ اور اگرتم ان سے صلح جوئی کے لئے ان کے مذہب کے تابع بن جاؤگے توتمہیں سوائے گمراہی کے کچھ حاصل نہیں ہوگااورپھرتم اللہ کی زبردست پکڑمیں گرفتارہوجاؤگےجہاں تمہاراکوئی حامی ومددگارنہ ہوگا،صاف کہہ دوکہ ہدایت درحقیقت وہی ہے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیاگیاہے ،ورنہ اگراس علم(قرآن وسنت) کے بعدجوتمہارے پاس آچکاہےتم نے ان برخودغلط لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تواللہ کی پکڑسے بچانے والاتمہاراکوئی دوست اورمددگار نہیں ہوگا،یعنی قرآن وسنت کے علم کے بعدیہودونصاری کے طریقوں کی ہرگزہرگزپیروی نہیں کرنی ہے،جن لوگوں کوہم نے پہلے کتاب دی ہے وہ اس جلیل القدرکلام کو خوب توجہ اورغورسے پڑھتے ہیں اور اس پرسچے دل سے ایمان لاتے ہیں ،جیسے فرمایا

 اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙوَّیَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸ [96]

ترجمہ:جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں پاک ہے ہمارا رب ! اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔

اورجواس کے ساتھ کفرکارویہ اختیار کریں وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں ،

۔۔۔وَمَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ۔۔۔ ۝۱۷ [97]

ترجمہ: اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ یَهُودِیٌّ، وَلَا نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی قسم جس کے ہاتھ مجھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اس امت میں سے جوبھی مجھے سنے خواہ یہودی ہوخواہ نصرانی ہوپھرمجھ پرایمان نہ لائے وہ جہنم میں جائے گا۔[98]

[1] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِیمَانِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حُرْمَةِ الصَّلاَةِ۲۶۱۷،سنن الدارمی۱۲۵۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ لُزُومِ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ ۸۰۲، مشکوٰة المصابیح كتاب الصَّلَاة بَاب الْمَسَاجِد ومواضع الصَّلَاة

[2]سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ تَطْهِیرِ الْمَسَاجِدِ وَتَطْیِیبِهَا۷۵۷

[3] فتح الباری ۱۱۸؍۳

[4] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۱۵۲۷

[5] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصَّلاَةِ عَلَى القَبْرِ بَعْدَ مَا یُدْفَنُ ۱۳۳۷,السنن الکبریٰ للبیہقی۷۰۱۲، سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۱۵۲۸

[6] السنن الکبریٰ للبیہقی۶۹۱۸

[7] تفسیرابن کثیر۳۳۵؍۱، فتح القدیر۱۳۷؍۱

[8]البقرة: 97

[9] تفسیرابن ابی حاتم۱۸۰؍۱

[10] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ۴۴۸۰

[11] صحیح بخاری كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ التَّوَاضُعِ۶۵۰۲

[12] تفسیرابن کثیر۲۴۲؍۴

[13] یونس۶۲،۶۳

[14] البقرة۲۵۷

[15] لقمان۱۳

[16] تفسیر طبری ۲۹۸؍۲

[17] البقرة: 100

[18] تفسیر طبری۴۰۰؍۲

[19] تفسیرابن ابی حاتم۱۸۴؍۱

[20] الاحزاب۲۳

[21] تفسیرابن ابی حاتم۱۸۴؍۱

[22] تفسیرابن ابی حاتم۱۹۲؍۱

[23] النساء ۵۱

[24] تفسیرطبری۹۷۶۶،۴۶۲؍۸،صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الغَائِطِ

[25] الدرالمنثورفی التفسیر بالماثور۲۲؍۲، تفسیر ابن کثیر۳۳۴؍۲

[26] تفسیرابن کثیر۲۹۴؍۲

[27] تفسیرابن کثیر۲۹۴؍۲

[28] صحیح مسلم كتاب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ بَابُ تَحْرِیشِ الشَّیْطَانِ وَبَعْثِهِ سَرَایَاهُ لِفِتْنَةِ النَّاسِ وَأَنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ قَرِینًا ۷۱۰۶، مسنداحمد۱۴۳۷۷، شعب الایمان ۸۳۴۷،شرح السنة للبغوی ۴۲۱۲

[29] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حَدِّ السَّاحِرِ ۱۴۶۰

[30] مسند احمد ۱۴۱۳۵،سنن ابوداودكِتَاب الطِّبِّ بَابٌ فِی النُّشْرَةِ۳۸۶۸

[31] مسند الشافعی۳۸۳؍۱، مصنف ابن ابی شیبة۲۸۹۸۲،السنن الکبری للبیہقی۱۶۴۹۸

[32] موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان۱۳۸۰،۳۳۵؍۱

[33] مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح ۱۲۴؍۱

[34] حاشیة صحیح بخاری ۱۳۶؍۷

[35] ۔صحیح بخاری كِتَابُ الوَصَایَا بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِینَ یَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الیَتَامَى ظُلْمًا، إِنَّمَا یَأْكُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا۲۷۶۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا۲۶۲،ابوداودكِتَاب الْوَصَایَا بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّشْدِیدِ فِی أَكْلِ مَالِ الْیَتِیمِ۲۸۷۴

[36] البقرة: 102

[37] تفسیر طبری ۴۵۰؍۲،تفسیرابن ابی حاتم۱۹۴؍۱

[38] القصص۸۰

[39] صحیح بخاری کتاب الاستئذان بَابٌ كَیْفَ یُرَدُّ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ السَّلاَمُ ۶۲۵۷ ، صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ النَّهْیِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَیْفَ یُرَدُّ عَلَیْهِمْ۵۶۵۴،جامع ترمذی ابواب السیربَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْلِیمِ عَلَى أَهْلِ الكِتَابِ ۱۶۰۳

[40] تفسیر طبری ۴۷۴؍۲

[41] تفسیرطبری۴۸۱؍۲

[42] تفسیرابن کثیر ۳۷۹؍۱

[43] الاعراف۵۴

[44] ابن ہشام ۵۴۸؍۱،الروض الانف ۲۴۱،۲۴۲؍۴،عیون الآثر۲۴۵؍۱

[45] المائدة۱۰۱

[46] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ یَعْنِیهِ۷۲۸۹، صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ تَوْقِیرِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لَا ضَرُورَةَ إِلَیْهِ، أَوْ لَا یَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِیفٌ وَمَا لَا یَقَعُ، وَنَحْوِ ذَلِكَ۶۱۱۶،مسندابی یعلی ۷۶۴،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۰۵،معرفة السنن ولآثار۱۵۰۸۲،شرح السنة للبغوی ۱۴۴

[47] صحیح بخاری کتاب الاستقراض باب ماینھی عن اضاعة المال۲۴۰۸،صحیح مسلم کتاب الاقضیة باب النھی عن کثرة المسائل ۴۴۸۳، مسند احمد ۱۸۱۴۷،سنن الدارمی ۲۷۹۳،السنن الکبری للنسائی ۱۱۷۸۴،صحیح ابن حبان ۵۵۵۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۹۰۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۳۴۰،شعب الایمان ۷۴۸۸،شرح السنة للبغوی ۳۴۲۶

[48] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی بَیَانِ الْإِیمَانِ بِاللهِ وَشَرَائِعِ الدِّینِ ۱۰۲، جامع ترمذی ابواب الزکوٰة بَابُ مَا جَاءَ إِذَا أَدَّیْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَیْتَ مَا عَلَیْكَ ۶۱۹، مسند احمد ۱۲۴۵۷، مسندالبزار۶۹۲۸،مصنف ابن ابی شیبة۳۰۳۱۸، مسندابی یعلی ۳۳۳۳

[49] آل عمران۷۲

[50] فتح الباری ۲۷۵؍۷

[51] صحیح مسلم كِتَابُ الْأَقْضِیَةِ بَابُ نَقْضِ الْأَحْكَامِ الْبَاطِلَةِ، وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ۴۴۹۳،صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ إِذَا اجْتَهَدَ العَامِلُ أَوِ الحَاكِمُ، فَأَخْطَأَ خِلاَفَ الرَّسُولِ مِنْ غَیْرِ عِلْمٍ، فَحُكْمُهُ مَرْدُودٌ ، مسند احمد۲۵۱۲۸،سنن الدارقطنی ۴۵۳۷،شرح السنة للبغوی ۲۵۰۸

[52] الفرقان ۲۳

[53] النور 39

[54] الغاشیة۲تا۷

[55] تفسیرابن ابی حاتم۲۰۸؍۱

[56] البقرة: 113

[57] تفسیرابن ابی حاتم۲۰۸؍۱

[58] الحج ۱۷

[59] الحج۶۹

[60] سبا۲۶

[61] تفسیرطبری ۵۲۱؍۲

[62] تفسیرابن ابی حاتم۲۱۰؍۱

[63] الانفال۳۴

[64] التوبة۱۷،۱۸

[65] الفتح۲۵

[66] التوبة۲۸

[67] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ مَا یَسْتُرُ مِنَ العَوْرَةِ ۳۶۹،۱۶۲۲، ۳۱۷۷،۴۳۶۳،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ لَا یَحُجُّ الْبَیْتَ مُشْرِكٌ، وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، وَبَیَانُ یَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ۳۲۸۷

[68] جامع ترمذی أَبْوَابُ الحَجِّ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الطَّوَافِ عُرْیَانًا۸۷۱

[69] مسنداحمد۱۷۶۲۸

[70] البقرة: 115

[71] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ جَوَازِ صَلَاةِ النَّافِلَةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِی السَّفَرِ حَیْثُ تَوَجَّهَتْ۱۶۱۲

[72] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ جَوَازِ صَلَاةِ النَّافِلَةِ عَلَى الدَّابَّةِ فِی السَّفَرِ حَیْثُ تَوَجَّهَتْ۱۶۱۴

[73] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا۴۵۳۵

[74]الاخلاص۱تا۴

[75] الانعام۱۰۱

[76]مریم ۸۸تا۹۳

[77] مریم۳۵

[78] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ وَقَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ ۴۴۸۲

[79] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الأَذَى۶۰۹۹، مسند احمد ۱۹۵۸۹، السنن الکبری للنسائی ۷۶۶۱

[80] الرعد۱۵

[81] جامع ترمذی کتاب العلم بَابُ مَا جَاءَ فِی الأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ البِدَعِ ۲۶۷۶،سنن ابن ماجہ المقدمة باب اتباع سنة الخلفاء الراشدین المھدین۴۲، مسنداحمد۱۷۱۴۴،سنن الدارمی ۹۶،مستدرک حاکم ۳۲۹،شعب الایمان ۷۱۱۰

[82] مریم۳۵

[83] یٰسین۸۲

[84] النحل۴۰

[85] القمر۵۰

[86] تفسیرابن ابی حاتم۲۱۵؍۱

[87] تفسیر طبری۴۷۷؍۲

[88] الانعام۱۲۴

[89] الفرقان۲۱

[90] الفرقان۷،۸

[91] بنی اسرائیل۹۰تا۹۳

[92] المدثر۵۲

[93] الذاریات۵۲،۵۳

[94] الرعد۴۰

[95] ابن ہشام۵۱۰؍۱

[96] بنی اسرائیل۱۰۷،۱۰۸

[97] ھود۱۷

[98] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ الْإِیمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمِیعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ۳۸۶

Related Articles