بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورةالانفطار

اس سورۂ میں یہ باتیں خصوصاًقابل غورہیں ۔

xسورت التکویرکی طرح اس سورت میں بھی قیامت کے ہولناک منظرکی انتہائی خوبصورت تصویرکشی کی گئی ہے۔

xانسان کی نفسیات کہ وہ اپنے رب کے بارے میں دھوکے میں پڑاہواہے۔

xانسان کاخالق،مالک اوررازق توصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے مگرانسان نے نہ معلوم کن کن ہستیوں کویہ مقام دیاہواہے۔

xانسان کادھوکے میں پڑجانے اورگروہوں میں بٹ جانے کاسب سے بڑاسبب یہ ہے کہ وہ جوابدہی کے تصورسے گھبراتاہے حالانکہ اس کی ہرہرحرکات وسکنات کونگران فرشتے کراماًکاتبین نوٹ کر رہے ہیں ۔

xاعمال کے بارے میں اصل فیصلہ روزقیامت ہوگاجس دن نیک لوگ جنت میں ہوں گے اورگناہ گارجہنم میں ،یہ وہ دن ہوگاجب کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا،اصل اقتدار واختیارکی مالک اللہ کی ذات ہے،وہی فیصلہ کرنے کامجازہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ ‎﴿١﴾‏ وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ ‎﴿٢﴾‏ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ ‎﴿٣﴾‏ وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ ‎﴿٤﴾‏ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ ‎﴿٥﴾‏  (الانفطار)

جب آسمان پھٹ جائے گااورجب ستارے جھڑ جائیں گےاورجب سمندر بہہ نکلیں گے اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی (اس وقت) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے (یعنی اگلے پچھلے اعمال) کو معلوم کرلے گا۔


قرآن کریم کے یہ بیانات حسن تعبیر واسلوب کی اعلیٰ ترین مثال ہے جن میں قیامت ،زماں ومکان اورآخرت کے مختلف ادوارکی نہایت جامع طورپرانتہائی بلاغت کے ساتھ چندالفاظ میں منظرکشی کردی ہے لیکن زورواقعات پرنہیں بلکہ مقصدپرہے کہ لوگ تنبیہ حاصل کریں اور حرص وہوس میں کھوکراپنادائمی نقصان نہ کربیٹھیں ،عالم برزخ میں ہمارے مقام کاانحصاراس بات پرہے کہ دنیاکی چندروزہ زندگی ہم نے کیسے گزاری تھی ،ستاروں کے جھڑجانے کے مناظر،فلکیات کے بکھرجانے کے واقعات ،قبروں کے پھٹ جانے ،آسمانوں میں شگاف اوربکھرجانے کے عمل اورسورج کولپیٹ لئے جائے کے مناظرہمارے زمان ومکان کے سفرمیں پیش آنے والے چندواقعات ہیں اصل اوراہم سوال تویہ ہے کہ ہمارے نفوس نے آگے کیابھیجاہے اوراپنے پیچھے کیاچھوڑاہے؟آخرت میں ہماری اگلی زندگی کے سفرکادارومداراعمال پرہوگاجوہم آگے بھیج چکے ہونگے یا پیچھے چھوڑچکے ہوں گے،جیسے فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللهَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ[1]۝۱۸

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے ، اللہ سے ڈرتے رہو اللہ یقیناً تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو ۔

فرمایا صورکی آوازکے ساتھ بے ستونوں کابلند وبالا آسمان جوانسانوں کے لئے رحمت کی چھتری بناہوا تھا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم اورہیبت سے پھٹ جائے گا اورفرشتے نیچے میدان محشرمیں اترآئیں گے،اس طرح کے منظرکواس آیت میں بڑے ڈرامائی اندازمیں پیش کیاگیاہے۔

وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِیْلًا۝۲۵ [2]

ترجمہ:آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہوگا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیے جائیں گے۔

 السَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ۔۔۔ ۝۱۸ [3]

ترجمہ: جس کی سختی سے آسمان پھٹاجارہاہوگا۔

آسمان کے نیچے لاتعدادکواکب جن کی مالک حقیقی کوچھوڑکر پرستش کی جاتی تھی ، جن کی خوشنودی کے لئے رسوم اداکی جاتی تھیں ، جن سے انسان اپنی تقدیروابستہ سمجھتا تھا ، مشرکین کے یہ سب باطل معبود آپس میں ٹکراکر نابو د ہو جائیں گے،اس وقت ان کی پوجاکرنے والوں کوحقیقت حال کاعلم ہو جائے گاکہ جس کوفناہووہ معبودنہیں ہوسکتامگراس وقت بہت دیرہوچکی ہوگی،صورکی ہیبتناک آوازکے ساتھ سب نظام فلکی وارضی تباہ وبربادہوجائے گا،جیسے فرمایا

یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا۝۹ۙوَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا۝۱۰ۭ [4]

ترجمہ:جب آسمان بری طرح ڈگمگائے گااورپہاڑاڑے اڑے پھریں گے ۔

ستاروں ،سیاروں کے ٹکرانے سے درجہ حرارت لاکھوں ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا،شدیدتھرتھراہٹ سے زمین کی اوپری تہہ چاک چاک ہو جائے گی اورپہاڑ اس سے باہر نکل کرایک تنکے کی طرح اڑنے لگیں گے ،جیسے فرمایا:

 اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙوَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙ فَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ [5]

ترجمہ:زمین اس وقت یکبارگی ہلاڈالی جائے گی اورپہاڑاس طرح ریزہ ریزہ کردئیے جائیں گے کہ پراگندہ غباربن کررہ جائیں گے۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙوَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً۝۱۴ۙ [6]

ترجمہ:پھر جب ایک دفعہ صورمیں پھونک ماردی جائے گی اورزمین اورپہاڑوں کواٹھاکرایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔

اس باربارکے شدید بھونچال سے سمندروں کی تہ بھی پھٹ جائے گی اور ان کاپانی زمین کے اس اندرونی حصے میں اترنے لگے گاجہاں ہروقت ایک بے انتہاگرم لاوا کھولتا رہتاہے ،پھراس لاوے تک پہنچ کرپانی اپنے ان دوابتدائی اجزاء کی شکل میں تحلیل ہوجائے گاجس سے ایک آکسیجن جلانے والی اوردوسری ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے اوریوں تحلیل اورآتش افروزی کاایک ایسامسلسل ردعمل شروع ہو جائے گا جس سے دنیاکے تمام سمندروں میں آگ لگ جائے گی ، بعض کہتے ہیں کہ اللہ سب سمندروں کاپانی ایک ہی سمندرمیں جمع کردے گاپھراللہ پچھمی ہوابھیجے گا جواس میں آگ بھڑکادے گی اور اس سے فلک شگاف شعلے بلندہوں گے ،پھرقیامت کادوسرا مرحلہ بیان فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گاصورکی آوازپردنیاکے ہرگوشے میں قبریں شق ہو جائیں گی اوراللہ ان میں مدفون تمام انسانوں کوان کے اعمال کی جزاکے لئے ازسرنوجسم وجان کے ساتھ زندہ کرکے کھڑا کرے گا اورمردے قبروں سے نکل کرمیدان محشرکی طرف تیزتیز بھاگیں گے ،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۝۴۳ۙ [7]

ترجمہ:جب یہ اپنی قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑے جارہے ہوں گے جیسے اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑے جارہے ہوں ۔

فَتَوَلَّ عَنْهُمْ۝۰ۘ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ۝۶ۙخُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ۝۷ۙمُّهْطِعِیْنَ اِلَى الدَّاعِ۝۰ۭ یَقُوْلُ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ۝۸ [8]

ترجمہ:پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے رخ پھیر لو جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا،لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں ،پکارنے والے کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے اور وہی منکرین (جو دنیا میں اس کا انکار کرتے تھے ) اس وقت کہیں گے کہ یہ دن تو بڑا کٹھن ہے۔

 یَا أَیُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیمِ ‎﴿٦﴾‏ الَّذِی خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ ‎﴿٧﴾‏ فِی أَیِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ ‎﴿٨﴾‏ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّینِ ‎﴿٩﴾‏ وَإِنَّ عَلَیْكُمْ لَحَافِظِینَ ‎﴿١٠﴾‏ كِرَامًا كَاتِبِینَ ‎﴿١١﴾‏ یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ‎﴿١٢﴾‏(الانفطار)

اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا ؟ جس (رب نے) تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا اور پھر (درست اور) برابر بنایا، جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا، ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے ہو، یقیناً تم پر نگہبان عزت والے لکھنے والے مقرر ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں ۔


اے انسان! اللہ وحدہ لاشریک نے تجھے بدبودارپانی کے ایک حقیرقطرے سے وجودبخشا،تیرے اعضاکودرست کیااورانہیں متناسب بنایا،اپنے لطف وکرم سے اچھا قدوقامت اوربہترین شکل وصورت بنائی ، عقل وفہم عطاکی ،یعنی تجھے ایک کامل انسان بنادیا،جیسے فرمایا

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ۡ [9]

ترجمہ:بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔

عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِیِّ، بَزَقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی كَفِّهِ ثُمَّ وَضَعَ أُصْبُعَهُ السَّبَّابَةَ وَقَالَ: یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَّى تُعْجِزُنِی ابْنَ آدَمَ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هَذِهِ، فَإِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ،قُلْتَ: أَتَصَدَّقُ، وَأَنَّى أَوَانُ الصَّدَقَةِ؟

بسربن حجاش رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی میں تھوکاپھراپنے کلمہ کی انگلی اس پررکھی اورفرمایاکہ اللہ جل جلالہ فرماتاہے آدم کابیٹامجھے کیسے عاجزکرسکتاہے اورمیں نے تجھ کوایسی ہی چیزسے بنایا پھرجب تیری سانس یہاں تک آتی ہے اوراپنے حلق کی طرف اشارہ کیا توتوکہتاہے اس کاصدقہ کرتاہوں ، اس وقت صدقہ کاوقت کہاں رہا ۔[10]

عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَزَقَ یَوْمًا فِی كَفِّهِ، فَوَضَعَ عَلَیْهَا أُصْبُعَهُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ اللَّهُ: ابْنَ آدَمَ أَنَّى تُعْجِزُنِی وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هَذِهِ، حَتَّى إِذَا سَوَّیْتُكَ وَعَدَلْتُكَ، مَشَیْتَ بَیْنَ بُرْدَیْنِ وَلِلْأَرْضِ مِنْكَ وَئِیدٌ، فَجَمَعْتَ وَمَنَعْتَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ، قُلْتَ: أَتَصَدَّقُ، وَأَنَّى أَوَانُ الصَّدَقَةِ

بسربن حجاش رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ایک روزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کف دست پرلعاب مبارک ڈالاپھراس پرانگشت مبارک(اشارے کے طورپر)رکھتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے اے ابن آدم!تومجھے کیسے عاجزکرسکتاہے حالانکہ میں نے تجھے اس طرح کی چیز سے پیدافرمایاہےحتی کہ جب میں نے تجھے ٹھیک ٹھیک اورنہایت توازن واعتدال کے ساتھ پیداکردیاتوتواپنی دوچادروں کے درمیان چلنے لگااورتیری آہٹ سے زمین لرزرہی تھی،پھرتونے مال جمع کیااورخرچ نہ کیا حتی کہ جب وہ(روح) ہنسلیوں تک پہنچ گئی توتونے کہاکہ میں صدقہ کرتاہوں لیکن اب یہ صدقے کاکون سا وقت ہے؟۔[11]

پھردنیامیں تجھے بے شمار اسباب حیات مہیاکیے ،ان تمام احسانات پرتجھے تواس قادرمطلق کاشکرگزارہوناچاہیے تھااوراحسان مند ہو کراس کی اطاعت وفرمانبرداری کرتا،مگرتواس دھوکے میں پڑگیاکہ یہ عظیم الشان کائنات اورتوخودحادثاتی طورپرہی وجودمیں آگیا ہے لہذاحیات بعدالموت کی کوئی حقیقت نہیں ، تو دنیامیں بڑے بڑے گناہ اورلغزشیں کرتاہے مگر رحیم وکریم رب تجھے سوچنے سمجھنے اورسنبھلنے کی مہلت عطافرماتاہے مگرتواس دھوکے میں مبتلاہوگیاکہ اللہ کے ہاں عدل و انصاف نام کی کوئی چیزنہیں ،ایسانہیں ہے نہ تو کائنات اورنہ تم خود عناصرکے حادثاتی طورجڑجانے پروجودمیں آگئے ہو،اورنہ ہی تیرے والدین نے تجھے بنایاہے ، بلکہ خالق کائنات نے تجھے مکمل انسانی شکل میں تخلیق کیا ہے ، دوسری مخلوقات کے مقابلے میں تجھے بہترین ساخت اورافضل واشرف قوتیں وصلاحیتیں عطافرمائی ہیں ،عقل کا تقاضا تویہ ہونا چاہیے تھا کہ تم احسان مندہوکراس کی بارگاہ میں جھک جاتے اورنافرمانیوں سے بچنے کی کوششیں کرتےمگرتم لوگ تھوڑے پر اترا گئے اور یوم جزاکوجھٹلانے اورمذاق اڑانے لگے ، اور دنیا میں غافل ہوکر ،اللہ کے انصاف سے بے خوف ہوکر من مانی زندگی گزار رہے ہو،مگراللہ نے زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے ایک مقصد اور ایک وقت مقررہ کے لئے پیداکیاہے،اللہ نے تمہیں شتربے مہاربناکر یونہی نہیں چھوڑدیا ایک وقت تم اپنے اعمال کی جزاکے لئے اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاؤ گے ،اس لئے ریکارڈ تیارکرنے کے لئے اس نے دونگران فرشتوں کراماًکاتبین (بزرگ اورمعززکاتب) کو مستقل طور پر تمہارے ساتھ لگادیاہے،جیسے فرمایا:

اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۝۱۷مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۝۱۸ [12]

ترجمہ: (اور ہمارے اس براہِ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں ،کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتاجسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگراں موجودنہ ہو۔

جو تمہاری نیتوں ،اقوال اور ہرفعل کوچاہے چھپ کرویاظاہرا،دن میں کرویارات میں جانتے ہیں ، اوروہ بے لاگ طریقے سے تمہاراہرفعل اپنے رجسٹر میں ترتیب وتاریخ وار درج کر رہے ہیں اوریہی تمہارااعمال نامہ میدان محشرمیں تمہارے ہاتھوں میں تھمادیاجائے گا جسے پڑھ کر تم ہک دک رہ جاؤ گے ،جیسےفرمایا:

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۝۰۝۴۹ۧ [13]

ترجمہ: اور کہتے جاتے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسا نوشتہ ہے کہ اس نے ہمارے نہ کسی چھوٹے ہی گناہ کو چھوڑا اور نہ بڑے ہی کو جو اس میں درج نہ ہو گیا ہو، غرضیکہ جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا وہ سب لکھا ہوا موجود پائیں گے۔

تم لوگ حسرت وپشیمانی سے خود کو اوراپنے سرداروں اوراپنے پیشواؤ ں کو کوسو گےمگر سب لاحاصل ہو گا۔

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ ‎﴿١٣﴾‏ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ ‎﴿١٤﴾‏ یَصْلَوْنَهَا یَوْمَ الدِّینِ ‎﴿١٥﴾‏ وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِینَ ‎﴿١٦﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا یَوْمُ الدِّینِ ‎﴿١٧﴾‏ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا یَوْمُ الدِّینِ ‎﴿١٨﴾‏ یَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا ۖ وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ ‎﴿١٩﴾ (الانفطار)‏

یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش آرام اور) نعمتوں میں ہوں گے اور یقیناً بدکار لوگ دوزخ میں ہونگے بدلے والے دن اس میں جائیں گے وہ اس سے کبھی غائب نہ ہونے پائیں گے،  تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ بدلے کا دن کیا ہے، پھر میں (کہتا ہوں ) تجھے کیا معلوم کہ جزا(ا ور سزا) کا دن کیا ہے،(وہ ہے)  جس دن کوئی شخص کسی شخص کے لیے کسی چیز کا مختار نہ ہوگا اور (تمام تر) احکام اس روز اللہ کے ہی ہوں گے ۔


یقینا ًوہ لوگ جنہوں نے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں زندگی گزاری،اللہ کے ا حکامات وفرائض کوپوراکرنے کی کوشش کی، رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے پاکیزہ مال مستحقین میں خرچ کیا،جواللہ سے محبت اوراپنے گناہوں پرشرمندہ ہوکرخوف سے زندگی گزارتے رہے وہ امتحان میں کامیاب ہوں گے،اللہ تعالیٰ انہیں طرح طرح کی نعمتوں سے بھرپورجنتوں میں داخل فرمائے گاجہاں انہیں موتیوں سے زیادہ حسین نوجوان حوریں ملیں گی،جیسے فرمایا:

وَحُوْرٌ عِیْنٌ۝۲۲ۙكَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ [14]

ترجمہ:اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

خدمت کے لئے نوجوان خوبصورت لڑکے ہوں گے ، جیسے فرمایا

وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ۝۲۴ [15]

ترجمہ:اور ان کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی (کی خدمت )کے لیے مخصوص ہوں گے ، ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی ۔

جوانہیں پرندوں کے بھنے ہوئے گوشت،انواع و اقسام کے پھل ،میوہ جات اورختم نہ ہونے والی شراب کے چشموں سے بہترین ذائقوں والی شراب، پیش کریں گے، جیسے فرمایا:

یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙبِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۝۱۸ۙلَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙوَفَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۝۲۰ۙ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ۝۲۱ۭ [16]

ترجمہ:ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمہ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑ تے پھرتے ہونگے جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان میں فتور آئے گااور وہ ان کے سامنے طرح طرح لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چن لیں ،اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں ۔

رب کریم اپنی زیارت کرائے گا اورجنتی دنیاکے ہردکھ درد،ہررنج وغم اورہرمحرومی وملال کو بھول جائیں گے ،اورجولوگ اپنے قول یااپنے عمل سے روزجزاکو بھولیں گے،اللہ نے زندگی گزارنے کے جواحکامات اور فرائض نازل فرمائے تھے ان کی پرواہ نہیں کریں ،اللہ کی مقررکی ہوئی حدودں کوپامال کریں گے ،اللہ کے قوانین کوچھوڑکر اپنے خودساختہ قوانین اورطریقے اختیارکریں گے، اللہ کے نازل کردہ دین اسلام اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کونامکمل سمجھ کردین میں نئی نئی بدعات شامل کریں گےاس طرح کے لوگ امتحان میں فیل ہوجائیں گے،اللہ کے حکم سے دروغہ جہنم انہیں کول تارکالباس پہناکر،گلے میں طوق اورپیروں میں بیڑیاں ڈال کر،سترگزلمبی زنجیروں سے جکڑکر ، سر کے بالوں سے پکڑکراورپیروں سے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے سرکے بل جہنم میں گرادیں گے،جیسے فرمایا:

اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَا۟ وَاَغْلٰلًا وَّسَعِیْرًا۝۴ [17]

ترجمہ:کفر کرنے والوں کے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔

وَذَرْنِیْ وَالْمُكَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَةِ وَمَهِلْهُمْ قَلِیْلًا۝۱۱اِنَّ لَدَیْنَآ اَنْكَالًا وَّجَحِــیْمًا۝۱۲ۙوَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّعَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۱۳ۤ [18]

ترجمہ:ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور انہیں ذرا کچھ دیر اسی حالت میں رہنے دو،ہمارے پاس (ان کے لیے ) بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔

اس دردناک عذاب میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ،دنیاسے انہترگناہ تیز حرارت والی سیاہ آگ انہیں اوپراورنیچے سے گھیرلے گی ،جیسے فرمایا

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِــمِیْنَ۝۴۱ [19]

ترجمہ:ان کے لیے جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا، یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ۔

وہاں انہیں پینے کوکھولتاہواپانی اورکچ لہو اورکھانے کوتھوہردیاجائے گا،جیسے فرمایا:

ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝۵۱ۙلَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۝۵۲ۙفَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ۝۵۳ۚفَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیْمِ۝۵۴ۚ فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِ۝۵۵ۭ [20]

ترجمہ:پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو ،تم شجر زقوم کی غذا کھانے والے ہواسی سے تم پیٹ بھرو گے اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گے۔

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝۴۳ۙطَعَامُ الْاَثِیْمِ۝۴۴ۚۖۛكَالْمُهْلِ۝۰ۚۛ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ۝۴۵ۙكَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۝۴۶ [21]

ترجمہ: زقوم کا درخت گناہگاروں کا کھانا ہوگا،پیٹ میں وہ اس  طرح جوش کھائے گاجیسے تیل کی تچھلٹ جیسا کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔

ھٰذَا۝۰ۙ فَلْیَذُوْقُوْهُ حَمِیْمٌ وَّغَسَّاقٌ۝۵۷ۙوَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖٓ اَزْوَاجٌ۝۵۸ۭ [22]

ترجمہ: یہ ہے ان کے لیے،پس وہ مزا چکھیں کھولتے ہوئے پانی اور پیپ ،لہواور اس قسم کی دوسری تلخیوں کا ۔

وہاں وہ چیخ وپکارکریں گے مگرکوئی شنوائی نہیں ہوگی،جیسے فرمایا:

رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۝۱۰۹ۚۖفَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰٓی اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِیْ وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ۝۱۱۰ [23]

ترجمہ: اے پروردگار! اب ہمیں یہاں سے نکال دے پھر ہم ایسا قصور کریں تو ظالم ہوں گے،اللہ تعالیٰ جواب دے گا دور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں اور مجھ سے بات نہ کروتم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار!ہم ایمان لائے ہمیں معاف کر دے، ہم پر رحم کر تو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہےتو تم نے ان کا مذاق بنا لیایہاں تک کہ ان کی ضد نے تمہیں یہ بھی بھلا دیا کہ میں بھی کوئی ہوں اور تم ان پر ہنستے رہے ۔

جہنمی اس گڑھے سے نکلنے کی کوشش کریں گے مگردروغہ جہنم انہیں لوہے کی گرزمارکرنیچے گرادیں گے، جیسے فرمایا:

وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ۝۲۱كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَا۝۰ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۲۲ۧ [24]

ترجمہ:اور ان کو خبر لینے کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزہ۔

روزجزاکی عظمت وضخامت اور اس دن کی ہولناکیوں کی وضاحت کے لئے فرمایااورتم کیاجانتے ہوکہ جزاکادن کیا ہے ؟ ہاں ،تمہیں کیاخبرکہ وہ جزاکادن کیاہے؟یہ وہ دن ہوگاجس میں تمام اقتدارو اختیارات کلیتاًصرف اورصرف اللہ رب العالمین کے پاس ہوں گے ، جیسےفرمایا

 ۔۔۔لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ۝۰ۭ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۱۶ [25]

ترجمہ:(اس روزپکار کر پوچھاجائے گا)آج بادشاہی کس کی ہے ؟(ساراعالم پکاراٹھے گا)اللہ واحدقہار کی۔

اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ۔۔۔۝۲۶ [26]

ترجمہ:اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی۔

مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ۝۳ [27]

ترجمہ: اللہ ہی روزجزاکامالک ہے ۔

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ {یَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَیْئًا وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّهِ} وَالْأَمْرُ وَاللَّهِ الْیَوْمَ لِلَّهِ، وَلَكِنَّهُ یَوْمَئِذٍ لَا یُنَازِعُهُ أَحَدٌ

قتادہ رحمہ اللہ ِ ’’یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا 8، فیصلہ اس دن بالکل اللہ کے اختیار میں ہوگا ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اللہ کی قسم !حکم توآج بھی صرف اورصرف اللہ ہی کاہے لیکن اس دن کوئی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے جھگڑانہیں کرسکے گا۔[28]

وہی بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گااورمظلوم کاحق ظالموں سے لے کردے گا، اللہ کی عدالت میں کسی کوکوئی طاقت یااختیارحاصل نہ ہوگاکہ کسی قریبی رشتہ داریامخلص دوست کواس کے اعمال کے نتائج بھگتنے سے بچاسکے،وہاں تو ہرشخص کواپنی نجات کی فکر کھائے جارہی ہوگی ، ہاں اللہ جسے چاہے سفارش کی اجازت فرما دے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا اوراپنی لخت جگرفاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو فرمایاتھا۔

یَا صَفِیَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لاَ أُغْنِی عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا، وَیَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِئْتِ مِنْ مَالِی لاَ أُغْنِی عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا

اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی!میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچاسکوں گا،اے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میرے مال میں سے جوچاہومجھ سے لے لولیکن اللہ کی بارگاہ میں میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچاسکوں گا۔[29]

اوربنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب کوبھی متنبہ فرمایا تھا۔

یَا بَنِی هَاشِمٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ

اے بنوہاشم! اپنی جانوں کوجہنم سے بچالو،اے بنی عبدالمطلب اپنی جانوں کوجہنم سے بچالومیں اللہ کے سامنے کچھ اختیارنہیں رکھتا۔[30]

ابوفکیہہ جہنی رضی اللہ عنہ (یسار)کااسلام:

ان کانام یسارتھااوران کی کنیت ابوفکیہہ تھی۔

هُوَ مشهور بكنیته

اوریہ اپنی کنیت ہی سے زیادہ مشہورہیں ،

أبو فكیهة یسار مولى صفوان بْن أمیة بْن حرب

ابوفکیہہ یسار رضی اللہ عنہ صفوان بن امیہ بن حرب کے غلام تھے۔[31]

أفلح أَبُو فكیهة مولى بنی عبد الدار، وقیل: مولى صفوان بْن أمیة ،وقیل مولى ابن عبد الدار،أسلم قدیمًا بمكة

ابوفکیہہ رضی اللہ عنہ صفوان بن امیہ بن حرب کے غلام تھے، یہ بھی کہاجاتاہے آپ رضی اللہ عنہ ابن عبدالدارکے غلام تھے، آپ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں ۔[32]

فكانوا یشدون برجله الحبل، ثم یجرونه على الأرض ،فأخرجه نصف النهار فی شدة الحر مقیدا إلى الرمضاء ووضع على بطنه صخرة فدلع لسانه فلم یزل على تلك الحال حتى ظنوا أنه قد مات،وَكَانَ أَبُو فُكَیْهَةَ یُعَذَّبُ حَتَّى لا یَدْرِی مَا یَقُولُ

مشرکین نے مسلمانوں کواپنے دین حق سے لوٹانے کے لئے ظلم وستم شروع کیاتوامیہ بن خلف کبھی آپ کے پیروں میں رسی باندھواکرصحراکی گرم تپتی ہوئی ریت پر،کبھی گرم پتھروں پرگھسواتااورعین دوپہرکے وقت صحرا کے جلتے ہوئے پتھروں پرپشت کے بل لٹادیتااورپیٹ پرایک بھاری پتھررکھوادیتاتھا،گرمی کی شدت اورپتھرکے وزن کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ بے سدھ ہو جاتے اورگمان ہونے لگتاکہ مرہی گئے ہیں ، اورانہیں اس قدرعذاب کیاجاتاکہ وہ حواس باختہ ہوجاتے اوریہ بھی نہ جانتے کہ کہ کیابول رہے ہیں ۔[33]

كان أبو فكیهة یعذب حتى لا یدری ما یقول

ابوفکیہہ رضی اللہ عنہ کو اس قدرعذاب کیاجاتاکہ وہ حواس باختہ ہوجاتے اوریہ بھی نہ جانتے کہ کہ کیابول رہے ہیں ۔[34]

فكان یعذب لیرجع عن دینه فیأبى، وكان قوم من بنی عبد الدار یخرجونه نصف النهار فی حر شدید فی قید من حدید، ویلبس ثیابًا ویبطح فی الرمضاء، ثم یؤتى بالصخرة فتوضع على ظهره، حتى لا یعقل

انہیں اپنے آباؤ اجدادکے دین پرواپس لانے کے لیے ان پرظلم وتشددکیاجاتاتھامگروہ انکارکرتے تھے، قبیلہ بنی عبدالدارکے لوگ ٹھیک دوپہرکے وقت جب شدیدگرمی ہوتی انہیں لوہے کی زرہ پہنا کر کھڑا کردیتے،پھر صحرا کے جلتے ہوئے پتھروں پر پشت کے بل لٹادیتے یہاں تک کہ گرمی کی شدت سے وہ حواس باختہ ہوجاتے۔[35]

فربط أمیة بن خلف فی رجله حبلا فجره حتى ألقاه فی الرمضاء وجعل یخنقه، فجاء أخوه أبىّ بن خلف فقال: زده، فلم یزل على ذلك حتى ظن أنه مات ثم أفاق،فمرّ به أبو بكر رضی اللَّه عنه فاشتراه وأعتقه

اورکبھی اسی حالت میں آپ کاگلا پکڑکر اس زورسے دباتاکہ آنکھیں باہرنکل آتیں ،ایک روزامیہ آپ کولٹاکرآپ کاگلاگھونٹ رہاتھاکہ سامنے سے امیہ کابھائی آگیابجائے اس کے کہ وہ کچھ رحم کھاتااپنے بھائی سے کہنے لگااس کاگلااورزورسے گھونٹو،بھائی کی بات پرامیہ نے اس زورسے گلادبایاکہ تماشادیکھنے والے لوگ سمجھے کہ یسار رضی اللہ عنہ کادم نکل گیا اتفاقاً سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف آنکلے اورابوفکیہہ رضی اللہ عنہ کوامیہ سے خریدکر آزاد فرمادیا۔[36]

حتى هاجر أصحاب رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى أرض الحبشة فخرج معهم فی الهجرة الثانیة

یہاں تک کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے یہ دوسری ہجرت حبشہ میں اس قافلہ حق میں شامل تھے۔[37]

ذكره ابن إسحاق فیمن نزل فیه قوله تعالى:وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ ۭ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ

اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار ان پر نہیں اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں یہ آیت کریمہ انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔[38]

ومات قبل بدر

اورغزوہ بدرسے پہلے فوت ہوگئے۔[39]

اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بہت سے غلاموں اورکنیزوں کوخریدکر آزادفرمایا جن میں بلال رضی اللہ عنہ ، عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ ،زنیرہ رضی اللہ عنہا ،نہدیہ اوراس کی بیٹی لبینہ ، موملیتہ اورام عبیس وغیرہ شامل ہیں ۔

[1] الحشر۱۸

[2] الفرقان۲۵

[3] المزمل۱۸

[4] الطور۹،۱۰

[5] الواقعة ۴تا۶

[6] الحاقة ۱۳،۱۴

[7] المعارج۴۳

[8] القمر۶تا۸

[9] التین۴

[10] مسنداحمد۱۷۸۴۳،۱۷۸۴۴،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْإِمْسَاكِ فِی الْحَیَاةِ وَالتَّبْذِیرِ عِنْدَ الْمَوْتِ۲۷۰۸

[11] مسنداحمد۱۷۸۴۲

[12] ق۱۷،۱۸

[13] الکہف۴۹

[14] الواقعة۲۲،۲۳

[15] الطور۲۴

[16] الواقعة۱۷تا۲۱

[17] الدھر۴

[18] المزمل۱۱تا۱۳

[19] الاعراف۴۱

[20] الواقعة۵۱تا۵۵

[21] الدخان۴۳تا۴۶

[22] ص۵۷،۵۸)

[23] المومنون۱۰۷تا۱۱۰

[24] الحج۲۱،۲۲

[25] المومن۱۶

[26] الفرقان۲۶

[27] الفاتحہ۳

[28] تفسیر طبری۲۷۳؍۲۴

[29] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ الشعراء بَابُ وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الأَقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ ۴۷۷۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ۵۰۱

[30] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ۵۰۱،صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ الشعراء بَابُ وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الأَقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ ۴۷۷۰

[31] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۵۸۲؍۴

[32] أسدالغابة فی معرفة الصحابة۲۶۴؍۱

[33] ابن سعد۱۸۸؍۳،امتاع الاسماع۱۰۷؍۹، سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۶۰؍۲

[34] تاریخ دمشق لابن عساکر۲۲۱؍۲۴

[35] الموسوعة فی صحیح السیرة النبویة العھد المکی۲۹۱؍۱، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۷۳۰؍۴،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۳۴۱؍۶

[36] امتاع الاسماع۱۱۲؍۹،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد ۳۶۰؍۲، السیرة الحلبیة ۴۲۴؍۱،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۴۱؍۶

[37] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۷۳۰؍۴، أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۴۱؍۶،الموسوعة فی صحیح السیرة النبویة العھد المکی ۲۹۱؍۱

[38] الإصابة فی تمییز الصحابة۵۳۶؍۶

[39] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۴۱؍۶

Related Articles