بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ التکویر

اس سورت میں کئی مضامین بیان فرمائے گئے ۔

xاہل عرب روزقیامت اوردوبارہ جی اٹھنے کے قائل نہ تھے ،چنانچہ پہلی نازل کردہ سورت العلق میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کہہ دیا کہ تمہارے قیامت کے قائل ہونے یانہ ہونے سے اللہ کے قانون پرکچھ اثرنہیں پڑتا،یہ کائنات نہ ہمیشہ سے تھی اورنہ ہمیشہ رہے گی ایک روزیقیناًہرشخص کواپنے رب کی طرف ہی پلٹناہے۔

اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى۝۸

ترجمہ:(حالانکہ) پلٹنا یقیناً تیرے رب ہی کی طرف ہے۔

سورۂ الحمدمیں اللہ رب العزت اپنے اقتدارواختیارکااظہار

مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ۝۳ [1]

ترجمہ: وہ روز جزا کا مالک ہے ۔

کہہ کرفرماچکاتھا، اس سورت کی پہلی چودہ آیات میں بطور خاص اسرافیل علیہ السلام کے صورپھونکنے کے نتیجہ میں جوہولناک کائناتی انقلاب برپا ہوگااس کی بہترین نقشہ کشی فرمائی گئی ہے اورواضح کیاگیاہے کہ اس عارضی زندگی میں تمہارےچھوٹے بڑے تمام اعمال کاپوراپوراحساب رکھاجارہاہے ، نفسانفسی کے اس روز ہر انسان پر اچھی طرح عیاں ہوجائے گاکہ وہ اپنے دامن میں رب کی بارگاہ میں کیااچھے یابرےاعمال لے کرحاضرہواہے،اگراس کے عقائدواعمال ٹھیک تھے تواس کے صلہ میں اس کاٹھکانہ جنت کی انواع و اقسام کی لازوال نعمتوں میں ہوگا اور اگربات اس کے برعکس تھی تووہ ہمیشہ کے لیے غیض وغضب سے دہکتی دوزخ کے ہولناک گڑہوں میں پھینک دیاجائے گا۔

xقیامت کے ہولناک منظرکے ساتھ ہی ستارہ پرستوں کوبھی بڑے خوبصورت اندازمیں تنبیہ فرمائی کہ خالق کائنات کوچھوڑکرتم سورج، چاند اور ستاروں کوقابل پرستش سمجھتے ہووہ توخوداللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک ادنیٰ مخلوق ہے،جن کے روزازل سے اپنے اپنے مدارمقررکردیئے گئے ہیں جن سے وہ ہٹ نہیں سکتے ،صورکی آوازکے ساتھ ہی آپس میں ٹکراکرپاش پاش ہوجائیں گے ،ان کی روشنیاں ختم ہوجائیں گے اوروہ آسمان سے جھڑنے لگیں گے ، [2]ذرا غوروفکرکرو کیاوہ ہستی یاچیز معبودہوسکتی ہے جسے خودموت آنی ہو۔

x جاہلیت کے معاشرے (خاص طورپربنی تمیم )میں لڑکیوں کوزندہ گاڑدینے کوجائزرکھاگیاتھا،جس کی بناپران والدین پرنہ کوئی ملامت کرنے والا تھااورنہ ہی کوئی قانونی گرفت تھی اس لئے ایسا ظالمانہ فعل کرنے والے آزاداورعزت دارتھے ،ایسے والدین کوغضبناک انداز میں تنبیہ فرمائی کہ اس زندگی میں تمہیں پوچھنے والاکوئی نہیں مگر روز قیامت تمہیں اس شقاوت قلبی کا حساب دیناہوگا۔

x مشرکین مکہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت وصداقت کی تصدیق فرمائی کہ تم ان پردیوانگی کاالزام لگاتے ہو،اگرتم غوروفکرکرو تو تمہاراضمیرخودگواہی دے گاکہ الصادق و الامین کا لقب پانے والایہ عظیم انسان تواللہ کاپاکیزہ کلام بندوں تک پہنچانے والا سچا نبی ہے،جیسے ارشادفرمایا:

اَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوْا  ۫مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭاِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۝۱۸۴ [3]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ اِن کے رفیق پر جنوں کا کوئی اثر نہیں ہے، وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے جو (بُرا انجام سامنے آنے سے پہلے) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے۔

قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا  ۣ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّكُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ ۝۴۶ [4]

ترجمہ:اے نبی ! اِن سے کہو کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں اللہ کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مِل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو تمہارے صاحب میں آخر کون سی جنون کی بات ہے ؟ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنّبہ کرنے والا ہے۔

x اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین قسمیں کھاکرقرآن مجیدکی حقانیت بیان فرمائی کہ یہ ابلیس مردودکے اوہام وتصورات نہیں ،یہ تورب العالمین کاپاکیزہ کلام ہے جوجبریل علیہ السلام کی معرفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاہے ،جولوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑاہونے سے ڈریں اور سیدھی راہ پرچلناچاہیں ان کے لئے یہ کلام سراسر ہدایت ونصیحت ہے ۔

ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَرَّهُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ كَأَنَّهُ رَأْیُ عَیْنٍ فَلْیَقْرَأْ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، وَإِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ، وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص قیامت کواپنی آنکھوں سے دیکھناچاہے تو وہ سورہ التکویراورسورہ انفطاراورسورہ انشقاق پڑھے۔[5]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ‎﴿١﴾‏ وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ ‎﴿٢﴾‏ وَإِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ ‎﴿٣﴾‏ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ‎﴿٤﴾‏ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ ‎﴿٥﴾‏ وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ‎﴿٦﴾‏ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ ‎﴿٧﴾‏ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ‎﴿٨﴾‏ بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ‎﴿٩﴾‏ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ‎﴿١٠﴾‏ وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ ‎﴿١١﴾‏ وَإِذَا الْجَحِیمُ سُعِّرَتْ ‎﴿١٢﴾‏ وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ ‎﴿١٣﴾‏ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَتْ ‎﴿١٤﴾‏ (التکویر)

جب سورج لپیٹ لیاجائے گااور جب ستارے بےنور ہوجائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور جب وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے اور جب جانیں (جسموں سے) ملا دی جائیں گی جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی،  جب نامہ اعمال کھول دئیے جائیں گے اور جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی اور جب جنت نزدیک کردی جائے گی تو اس دن ہر شخص جان لے گا جو کچھ لے کر آیا ہوگا ۔


یہ آیات کریمہ کائنات کی قیامت کے مختلف ادوار،حشرنشراوریوم جزواسزاکی پوری تاریخ کاتصورپیش کررہی ہے،اربوں سالوں پرمحیط مناظرکوچندالفاظ میں سمیٹ کرتمام واقعات کانقشہ کھینچ دیناصرف رب العالمین ہی کاکام ہے، فرمایاانسان کے لئے تخلیق کی گئی رنگ وبوسے بھری یہ کائنات نہ ہمیشہ سے ہے اورنہ ہمیشہ رہے گی ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے جوبھی چیزتخلیق کی ساتھ ہی اس کی فنا کاوقت بھی مقرر فرما دیاہے ،جیسے فرمایا:

 ۔۔۔وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ۔۔۔ ۝۲ [6]

ترجمہ: اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے ۔

اَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ۝۰ۣ مَا خَلَقَ اللهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۸ [7]

ترجمہ:کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا ؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے ۔

۔۔۔ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۡكُلٌّ یَّجْرِیْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۔۔۔۝۲۹ [8]

ترجمہ: اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے ، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں ۔

مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۳ [9]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں کو ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

اس کائنات کوفناکرنے کے لئے اسرافیل علیہ السلام اپناسر جھکائے صورکومنہ سے لگائے اللہ کے حکم کے منتظرکھڑے ہیں ،کائنات کو فناکرنے سے قبل اللہ تعالیٰ ایک نرم ہوا چلائے گاجس سے ہروہ شخص جس کے دل میں زرابرابربھی ایمان ہوگافوت ہوجائے گا،زمین پراللہ تعالیٰ کاکوئی نام لیواباقی نہ رہے گا،ہرطرف ابلیس ننگا ہو کر ناچے گا پھر کائنات کوفناکرنے کے لئے اسرافیل علیہ السلام کو صورپھونکنے کاحکم فرمایاجائے گاجس کی وہ تعمیل کریں گےجس کی ہیبت ناک آوازہرجگہ سنی جائے گی جیسے فرمایا:

وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللهُ۔۔۔ ۝۸۷ [10]

ترجمہ:اورکیاگزرے گی اس روزجب کہ صورپھونکاجائے گااورہول کھاجائیں گے وہ سب جوآسمانوں اورزمین میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ اس ہول سے بچاناچاہے گا۔

صورکی ہیبت ناک آواز سے پوری کائنات میں ایک ہولناک انقلاب برپاہو جائے گا ، تمام نظام فلکی وارضی درہم برہم ہوجائے گا،زمین سے کروڑوں میل دورگردش کرتا سورج (جسے تقریباًپندرہ ارب سال قبل تخلیق کیا گیا تھا اورجس کا درجہ حرارت ساٹھ لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے)یک دم بے نورہوجائے گا اوراسے عمامہ کی طرح لپیٹ کر زمین پرپھینک دیا جائے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الشَّمْسُ وَالقَمَرُ مُكَوَّرَانِ یَوْمَ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت والے دن چانداورسورج لپیٹ دیے جائیں گے۔[11]

عن ابن عباس رضی الله عنهما فی قَوْلِهِ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ قَالَ: یُكَوِّرُ اللَّهُ الشمس والقمر والنجوم یوم الْقِیَامَةِ فِی الْبَحْرِ وَیَبْعَثُ اللَّهُ رِیحًا دَبُورًا فَتَنْفُخُهُ حَتَّى یَرْجِعَ نارا .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت کریمہ ’’ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا ‘‘ْکے بارے میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ سورج،چانداورستاروں کو لپیٹ کرسمندروں میں ڈال دے گا ، پھراللہ تعالیٰ پچھوا ہوائیں چلائے گا جس سےآگ لگ جائے گی۔[12]

عَنْ أَبِی مَرْیَمَ أَنّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی قَوْلِهِ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ قَالَ: كُوِّرَتْ فِی جَهَنَّمَ

ابی مریم آیت کریمہ ’’ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا ‘‘ کے بارے کہتے ہیں سورج کوتہہ کر کے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔[13]

صورکی آوازکے ساتھ ہی آسمان دھماکے سے پھٹ جائے گا،جیسے فرمایا:

وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ۔۔۔ ۝۲۵ [14]

ترجمہ:آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہوگا ۔

کروڑوں اربوں ستاروں ،سیاروں کی باہمی کشش نابودہوجائے گی اوروہ آپس میں ٹکراکرپاش پاش ہوجائیں گے ،جیسے فرمایا:

 اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ۝۱ۙوَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ۝۲ۙۙ [15]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گااور جب ستارے جھڑ جائیں گے ۔

فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ۝۸ۙوَاِذَا السَّمَاۗءُ فُرِجَتْ۝۹ۙ [16]

ترجمہ:پھر جب ستارے ماند پڑ جائیں گے اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا ۔

وَخَسَفَ الْقَمَرُ۝۸ۙوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۝۹ۙ [17]

ترجمہ:اور چاند بےنور ہو جائے گااور چاند سورج ملا کر ایک کر دیے جائیں گے۔

الغرض ستاروں اورسیاروں کے ٹکرانے سے مہیب آوازیں پیداہوں گی اوراس قدرتوانائی خارج ہو گی کہ آسمان کا درجہ حرارت لاکھوں ڈگری سنٹی گریڈ تک اونچاہوجائے گااوروہ تانبے کی طرح سرخ ہوجائے گا ۔

 یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ۝۰ۥۙ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِ۝۳۵ۚ [18]

ترجمہ: (بھاگنے کی کوشش کرو گے تو) تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا جس کا تم مقابلہ نہ کرسکو گے۔

خلامیں بے حدوحساب کثیف گیسوں کے دھویں اورگردوغبارکے سوا کچھ نظرنہ آئے گا،رفتہ رفتہ درجہ حرارت کم ہو جائے گا،آسمان سے سورج، چاند،ستاروں کے صاف ہونے سے ہر طرف گھپ اندھیراچھاجائے گا،سورج کے بجھ جانے سے زمین پرمنجمند کرنے والی سردی چھاجائے گی، صورکی ہیبت ناک آواز کے ساتھ ہی زمین کااپنے محورکے گرد گھومنے کاتوازن بگڑجائے گااوروہ زور زورسے باربارجھٹکے لینے لگے گی ، جیسے فرمایا :

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ۙ [19]

ترجمہ:جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی۔

توازن کے لئے اس میں میخوں کی طرح گاڑے ہوئے چھوٹے بڑے تمام پہاڑٹکڑے ٹکڑے ہوکر باہرنکل جائیں گے اور بے وزن ہوکردھنی ہوئی روئی کی ماندہوجائیں گے،جیسے فرمایا:

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ۝۵ۭ [20]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوں گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ۝۹ۙ [21]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں گے۔

تنکوں کی طرح ہواؤ ں میں بے ہنگم طورپر اڑنے لگیں گے،جیسے فرمایا:

یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا۝۹ۙوَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا۝۱۰ۭ [22]

ترجمہ:وہ اس روز واقع ہوگا جب آسمان بری طرح ڈگمگائے گااور پہاڑ اڑے اڑے پھریں گے۔

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۝۸۸ [23]

ترجمہ:آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں مگر اس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔

اور آپس میں زوردارآوازوں سے ٹکرانے لگیں گےاورریزہ ریزہ ہوکرباریک ریت کی طرح ہو جائیں گے،جیسے فرمایا

وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا۝۲۰ۭ [24]

ترجمہ:اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّهِیْلًا۝۱۴ [25]

ترجمہ:یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں ۔

وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ [26]

ترجمہ:اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔

اس طرح زمین میں کوئی اونچ نیچ نہیں رہے بلکہ ایک ہموارچٹیل میدان بن جائے گی ،جیسے فرمایا:

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙفَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ [27]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں آخراس دن یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے؟کہوکہ میرارب ان کو دھواں بناکراڑادے گااورزمین کو ایساہموارچٹیل میدان بنادے گاکہ اس میں کوئی بل اورسلوٹ نہ دیکھوگے۔

اسی عالم میں اندرونی دباؤ سے بھی زمین کی تہہ پھٹنے لگے گی جس سے آتش فشاں پھٹ پڑیں گے اور ان کاسرخ لاوہ سمندروں کے پانی پرچھاجائے گااورسمندرجلتے ہوئے نظرآئیں گے، جس سے ہرطرف شدید افراتفری،خوفزدگی اور گھبراہٹ کاسماں ہوگا، آنکھیں پتھرادینے والے ان بھیانک اورہولناک مناظر کودیکھ کر ہرشخص اپنے ہواس کھو دےگااوراپنی حرکات وسکنات سے نشے میں مدہوش معلوم ہوگا ،جیسے فرمایا:

۔۔۔ وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰی وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰی وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِیْدٌ۝۲ [28]

ترجمہ: اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گےبلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔

اورجب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں جنہیں بہترین سمجھاجاتاہے چھوڑدی جائیں ،یعنی ہولناک منظرکی وجہ سےکسی کواپنی قیمتی سے قیمتی چیزکاہوش نہ رہے گا ہرانسان صرف اپنے بچاؤ کاسوچے گا ،وحشی جانوربھی اپنی درندگی بھول کرانسانوں کے قریب ایک جگہ جمع ہو جائیں گے، جیسے فرمایا

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ ۝۳۸ [29]

ترجمہ:زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں ، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں ۔

عَنِ ابن عباس رضی الله عنهما: وإذا الوحوش حشرت قَالَ:یُحْشَرُ كُلُّ شَیْءٍ حَتَّى إِنَّ الذُّبَابَ لیحشر .

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آیت ’’ اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کردیے جائیں گے ۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں ہرچیزحتی کہ مکھیوں تک کوبھی اکٹھاکیاجائے گا۔[30]

اور جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے سمندرمیں آگ بھڑک اٹھے گی،اس وقت انسان کہے گاکہ آج میں کہاں بھاگ کرجاؤ ں مگرکوئی جائے پناہ نہ ہوگی اورسب انسان وحیوان وغیرہ پیوند خاک ہوجائیں گے ، جیسے فرمایا:

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [31]

ترجمہ: ہر چیز جو اس زمین پرہے فناہوجانے والی ہے اورصرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

پھر صورکی دوسری آوازکے ساتھ ہی نئی تخلیق کااعلان ہوگااورسب انسان اپنی قبروں سے جسم وجان کے ساتھ زندہ ہوکرآوازکی طرف دوڑتے ہوئےمیدان محشرمیں جمع ہو جائیں گے،جیسے فرمایا:

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱ [32]

ترجمہ:پھرایک صور پُھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے ۔

میدان محشرمیں ہرصاحب عمل کواسی جیسے صاحب عمل کاساتھی بنا دیا جائے گا ، ابرارکوابرارکے ساتھ ،فجار کو فجار کے ساتھ جمع کردیاجائے گا،اہل ایمان کوحوروں کے ساتھ جوڑے جوڑے بنادیاجائے گا اور کفارکوشیاطین کے ساتھ، جیسےفرمایا

اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۝۲۲ۙ [33]

ترجمہ: (حکم ہوگا) گھیرلاؤ سب ظالموں اوران کے ساتھیوں اور ان معبودوں کوجن کی وہ اللہ کو چھوڑکربندگی کیاکرتے تھے ۔

وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً۝۷ۭفَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ۝۸ۭوَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَةِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَةِ۝۹ ۭ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۝۱۰ۚۙ [34]

ترجمہ: تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجاؤ گے ،دائیں بازووالے ، دائیں بازووالوں کی( خوش نصیبی ) کاکیا کہنااوربائیں بازووالے توبائیں بازووالوں (کی بدنصیبی )کاکیاٹھکانااورآگے والے توپھرآگے والے ہی ہیں ۔

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا۔۔۔ ۝۷۱ [35]

ترجمہ:(اس فیصلہ کے بعد)وہ لوگ جنہوں نے کفرکیاتھاجہنم کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے۔

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۝۷۳ [36]

ترجمہ:اورجولوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیزکرتے تھے انہیں گروہ درگروہ جنت کی طرف لے جایاجائے گا ۔

اس روزجہنم کواللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کے لئے خوب بھڑکایا جائے گا ،میدان حشر میں جہاں مقدموں کی سماعت ہورہی ہوگی فرشتے اسے لگاموں سے گھسیٹ کر سامنے لائیں گےجہاں وہ غیض وغضب سے پھٹنے کوہوگی،جیسے فرمایا:

تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۔۔۔۝۸ [37]

ترجمہ:شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔

اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان لوگوں کے لئے جنت کوبھی ساری نعمتوں سمیت میدان حشر سے قریب کردیاجائے گا،جیسے فرمایا

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ۝۳۱ [38]

ترجمہ:اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی کچھ بھی دور نہ ہوگی۔

جاہلیت کے معاشرے (خاص طورپربنی تمیم )میں لڑکیوں کوزندہ گاڑدینے کوجائزقراردیاگیاتھا،جس کی بناپران والدین پرنہ کوئی ملامت کرنے والا تھااورنہ ہی کوئی قانونی گرفت تھی اس لئے ایسا ظالمانہ فعل کرنے والے آزاداورعزت دارتھے ، کچھ دردمند لوگوں کواس فعل کی قباحت کااحساس تھا اوران لوگوں نے کوشش کر کے کچھ لڑکیوں کو بچا بھی لیاتھاجیسے فرزدق شاعر کا دادا صعصعہ بن ناجیہ الماشعی نے کئی لڑکیوں کوزندہ دفن ہونے سے بچالیا تھا اسلام قبول کرنے کے بعدانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا

یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی عَمِلْتُ أَعْمَالًا فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَقَدْ أَحْیَیْتُ ثَلَاثَمِائَةٍ وَسِتِّینَ مِنَ الْمَوْؤُدَةِ أَشْتَرِی كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ بِنَاقَتَیْنِ عَشْرَاوَیْنِ وَجَمَلٍ فَهَلْ لِی فِی ذَلِكَ مِنْ أَجْرٍ؟فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمْ لَكَ أَجْرُهُ إِذْ مَنَّ اللهُ عَلَیْكَ بِالْإِسْلَامِ

اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے جاہلیت کے زمانے میں کچھ اچھے اعمال بھی کیے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے ۳۶۰لڑکیوں کوزندہ دفن ہونے سے بچایا اورہرایک کی جان بچانے کے لئے دودواونٹ فدیے میں دیےکیامجھے اس پراجرملے گا؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں تیرے لئے اجرہے اوروہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطافرمائی۔[39]

النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، یَقُولُ وَسُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ {وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ} قَالَ: جَاءَ قَیْسُ بْنُ عَاصِمٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنِّی وَأَدَتُ ثَمَانِیَ بَنَاتٍ لِی فِی الْجَاهِلِیَّةِ، قَالَ: أَعْتِقْ عَنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهَا رَقَبَةً، قُلْتُ: إِنِّی صَاحِبُ إِبِلٍ، قَالَ: «اهْدِ إِنْ شِئْتَ عَنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ بَدَنَةً

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کوآیت کریمہ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ،فرماتے ہیں قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دورجاہلیت میں اپنی(آٹھ یابارہ یاتیرہ) بیٹیوں کوزندہ گاڑ دیا تھااب میں کیاکروں ؟سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرایک کے بدلے ایک غلام آزادکردو، انہوں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں غلام تونہیں رکھتاالبتہ میرے پاس اونٹ ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرایک کے بدلے ایک اونٹ اللہ کے نام پرقربان کردو۔[40]

تلاش حق کے مسافرزیدبن عمروبن نفیل بھی ایساہی کرتے تھے ،جب اسلام کی برکتیں نازل ہوئیں تواس نے اس سنگدلانہ رسم کومٹادیا اورتعلیم دی کی لڑکیوں کی پرورش کرنانیکی کاکام بلکہ جہنم سے نجات کی ایک صورت ہے ، اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرمان ہیں ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِی شَیْئًا غَیْرَ تَمْرَةٍ، فَأَعْطَیْتُهَا إِیَّاهَا، فَقَسَمَتْهَا بَیْنَ ابْنَتَیْهَا، وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَتْ، فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ هَذِهِ البَنَاتِ بِشَیْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ مانگتے ہوئی آئی، اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ نہیں پایا تو میں نے وہ کھجور اسے دیدی، اس عورت نے اس کھجور کو دونوں لڑکیوں میں بانٹ دیا اور خود کچھ نہیں کھایا پھر کھڑی ہوئی اور چل دی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا کہ جو کوئی ان لڑکیوں کے سبب سے آزمائش میں ڈالا جائے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے حجاب ہوں گی۔[41]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے دولڑکیوں کوپرورش کیایہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں توقیامت کے روزمیرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا یہ فرما کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کوجوڑکربتایا۔[42]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ آوَى یَتِیمًا إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ، أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ الْجَنَّةَ الْبَتَّةَ، وَمَنْ عَالَ ثَلاثَ بَنَاتٍ أَوْ مِثْلَهُنَّ مِنَ الأَخَوَاتِ، فَأَدَّبَهُنَّ وَرَحِمَهُنَّ حَتَّى یُغْنِیَهُنَّ اللَّهُ، أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ الْجَنَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوِ اثْنَتَیْنِ؟ قَالَ: أَوِ اثْنَتَیْنِ، حَتَّى لَوْ قَالُوا:وَوَاحِدَةً، لَقَالَ: وَاحِدَةً،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے تین بیٹیوں یابہنوں کوپرورش کیاان کواچھاادب سکھایااوران سے شفقت کا برتاؤ کیایہاں تک کہ وہ اس کی مددکی محتاج نہ رہیں تواللہ اس کے لئے جنت واجب کردیگا،ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اوردولڑکیاں ہوں تو؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور دو بھی لڑکیاں بھی تب بھی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگرلوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے ۔[43]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ یَئِدْهَا، وَلَمْ یُهِنْهَا، وَلَمْ یُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَیْهَا، قَالَ: یَعْنِی الذُّكُورَ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ہاں لڑکی ہواوروہ اسے زندہ دفن نہ کرے(جیساکہ کفارکرتے تھے)نہ اس کی اہانت کرے اورنہ لڑکے کو اس پرفضیلت دے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرمائےگا۔

[44]عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَیْهِنَّ، وَأَطْعَمَهُنَّ، وَسَقَاهُنَّ، وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اوروہ ان کے ہونے پرصبرکرے، اوراپنی وسعت کے مطابق ان کوکھلائے اورپلائے اوراچھے کپڑے پہنائے تو یہ تین بیٹیاں (بھی) روز قیامت اس کے لئے دوزخ سے آڑ اور رکاوٹ کا سبب بن جائیں گی۔[45]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِن مُسلم تُدركه ابْنَتَانِ فَیُحْسِنُ صحبتَهُما إلا أدخلتاه الجنة

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اوروہ ان کواچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی ۔[46]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِسُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُم:أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ أَوْ مِنْ أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ؟قَالَ: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ،قَالَ:ابْنَتُك مَرْدُودَةٌ إِلَیْكَ لیس لها كاسِبٌ غیرُكَ

علی بن رباح سے مروی ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ سے فرمایامیں تمہیں بتاؤ ں کہ سب سے بڑا صدقہ یابڑے صدقوں میں سے ایک کیاہے؟انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ضروربتائیے، فرمایاتیری وہ بیٹی جو (طلاق پاکریابیوہ ہوکر)تیری طرف پلٹ آئے اورتیرے سواکوئی اس کے لئے کمانے والانہ ہو۔[47]

ا للہ تبارک وتعالیٰ نے ہرپیغمبرکی امت کو باربارروزآخرت کی تلقین فرمائی جس میں ہرشخص کواس کے اچھے یابرے اعمال کی جزاء کے لئے ایک عدالت قائم ہوگی ،چنانچہ یوم الدین کواللہ سبحانہ وتعالیٰ شدیدغضبناکی میں اس لڑکی پرظلم عظیم کی داررسی کے لئے ان قابل نفرت والدین سے منہ پھیرکراس معصوم لڑکی سے پوچھے گاکہ وہ کس جرم میں زندہ گاڑی گئی تھی اوروہ لڑکی تمام احوال بیان کرے گی۔

پھر نامہ اعمال کے صحیفوں کو کھول کر خوش بختوں کو دائیں ہاتھ اوربدبختوں کو بائیں ہاتھ میں تھما دیئے جائیں گے اورکہا جائے گا پڑھو اپنا نامہ اعمال تاکہ اعمال کاوزن کرنے سے بیشتر وہ خوداپنے ہرچھوٹے بڑے ،اچھے یابرے اعمال کاجائزہ لے لیں ،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهٗٓ اَمَدًۢا بَعِیْدًا۔۔ ۝۳۰ۧ [48]

ترجمہ:وہ دن آنے والاہے جب ہر نفس اپنے کیے کاپھل حاضرپائے گاخواہ اس نے بھلائی کی ہویابرائی ، اس روزآدمی یہ تمناکرے گاکہ کاش ابھی یہ دن اس سے بہت دور ہوتا۔

یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍؚبِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝۱۳ۭ [49]

ترجمہ: اس روز انسان کواس کاسب اگلاپچھلاکیاکرایا بتادیاجائے گا۔

۔۔۔وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۔۔۔ ۝۴۹ۧ [50]

ترجمہ:جوجوکچھ انہوں نے کیاتھاوہ سب اپنے سامنے حاضرپائیں گے۔

یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ ۔۔۔ ۝۳۰ۧ [51]

ترجمہ:وہ دن آنے والاہے جب ہرنفس اپنے کیے کاپھل حاضرپائے گا خواہ اس نے بھلائی کی ہویابرائی۔

وَقَالَ قَتَادَةُ: [صَحِیفَتُكَ] یَا ابْنَ آدَمَ، تُملى فِیهَا، ثُمَّ تُطْوَى، ثُمَّ تُنْشَرُ عَلَیْكَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَلْیَنْظُرْ رَجُلٌ مَاذَا یُمْلِی فِی صَحِیفَتِهِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اے ابن آدم!اپنے نامہ اعمال میں توخودہی لکھواتاہے پھرتیرانانہ اعمال کولپیٹ دیاجائے گا اورپھرقیامت کے دن تیرے سامنے اسے کھولاجائے گا لہذا ہر آدمی کوخود اپنا جائزہ لیناچاہیے کہ وہ اپنے نامہ اعمال میں کیالکھوارہاہے۔[52]

کسی شخص کوکسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ ہرشخص اپنانامہ اعمال خودپڑھ لے گا،جیسے فرمایا:

اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا۝۱۴ۭ [53]

ترجمہ:پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

اوراسے اپنی کامیابی (جنت کی نعمتیں سے سرفرازی)یاناکامی (جہنم کے ہولناک عذاب) کی منزل صاف نظر آنے لگے گی،آسمان کاپردہ ہٹا دیا جائے گااوراللہ کی خدائی اپنی اصل حقیقت کے ساتھ سب کے سامنے بے پردہ ہوجائے گی ،جیسے فرمایا

 وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ۔۔۔ ۝۲۵ [54]

ترجمہ:آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روزنمودارہوگا۔

یَوْمَ نَطْوِی السَّمَاۗءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۔۔۔ ۝۱۰۴ [55]

ترجمہ:وہ دن جب کہ آسمان کوہم یوں لپیٹ کررکھ دیں گے جیسے طومارمیں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں ۔

۔۔۔وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖ۔۔۔ ۝۶۷ [56]

ترجمہ:قیامت کے روزپوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔

اللہ کے حکم سے جہنم کوخوب بھڑکایااورجنت کوبہترین طریق پر سنواراجائے گا،اورپھر غیض و غضب سے دہکتی جہنم اورنعمتوں سے بھری اورسجی سنوری ہوئی جنت کومیدان محشرمیں لوگوں کے سامنے لایاجائے گا تاکہ مجرم جان لیں کہ وہ کس دردناک عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اورکامیاب لوگ جان جائیں کہ کس دردناک عذاب سے بچ کرکن کن نعمتوں سے سرفرازہونے والے ہیں ،جیسے فرمایا

یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهٗٓ اَمَدًۢا بَعِیْدًا۔۔۔۝۳۰ۧ [57]

ترجمہ: وہ دن آنے والا ہے جب ہر نفس اپنے کیے کا پھل حاضر پائے گا خواہ اس نے بھلائی کی ہو یا برائی ، اس روز آدمی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ابھی یہ دن اس سے بہت دور ہوتا! ۔

یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍؚبِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۝۱۳ۭ [58]

ترجمہ:اس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گا۔

میدان محشرمیں عدل کاترازونصب کردیاجائے گااور لوگوں سے ان کے عقائدو اعمال کی باز پرس شروع ہوجائے گی ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِــــِٕــیْنَ وَالنَّصٰرٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَكُـوْٓا۝۰ۤۖ اِنَّ اللهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۷ [59]

ترجمہ:جولوگ ایمان لائے اور جویہودی ہوئے اورصابئی اورنصاریٰ اورمجوس اورجن لوگوں نے شرک کیاان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روزفیصلہ کردے گا ہر چیز اللہ کی نظرمیں ہے۔

فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ ‎﴿١٥﴾‏ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ ‎﴿١٦﴾‏ وَاللَّیْلِ إِذَا عَسْعَسَ ‎﴿١٧﴾‏ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ ‎﴿١٨﴾‏ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِیمٍ ‎﴿١٩﴾‏ ذِی قُوَّةٍ عِندَ ذِی الْعَرْشِ مَكِینٍ ‎﴿٢٠﴾‏ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِینٍ ‎﴿٢١﴾‏ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ‎﴿٢٢﴾‏ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِینِ ‎﴿٢٣﴾‏ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِینٍ ‎﴿٢٤﴾‏ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَیْطَانٍ رَّجِیمٍ ‎﴿٢٥﴾‏ فَأَیْنَ تَذْهَبُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ لِمَن شَاءَ مِنكُمْ أَن یَسْتَقِیمَ ‎﴿٢٨﴾‏ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ (التکویر)

میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والےچلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی اور رات کی جب جانے لگے اور صبح کی جب چمکنے لگے، یقیناً یہ ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے جو قوت والا ہے  عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے، جس کی (آسمانوں میں ) اطاعت کی جاتی ہےامین ہے اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ،  اس نے اس (فرشتے) کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھابھی ہے، اور یہ غیب کی باتوں کو بتلانے کے لیے بخیل بھی نہیں ،اور یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں پھر تم کہاں جا رہے ہو، یہ تمام جہان والوں کے لیے نصیحت نامہ ہے  (بالخصوص) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے، اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ۔


اللہ تبارک وتعالیٰ نے مشرق کی جہت میں کواکب کی عادی رفتارسے پیچھے ہٹ جانے والے ہفت سیارگان ستارے سورج،چاند، زحل ، مشتری،مریخ،زہرہ،عطاردوغیرہ کی قسم۔ رات کی قسم جب وہ آئے اورچھاجائے ،دن کی قسم جب وہ طلوع ہوجائے اورروشنی پھیلائے،جیسے فرمایا

وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى۝۱ۙوَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى۝۲ۙ [60]

ترجمہ:قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھاجائے اوردن کی جبکہ وہ روشن ہو۔

وَالضُّحٰى۝۱ۙوَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰى۝۲ۙ [61]

ترجمہ:قسم ہے روزروشن کی اوررات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے ۔

تین قسمیں کھاکر قرآن مجیدکی حقانیت بیان فرمائی کہ جبرائیل علیہ السلام جو اللہ کے ہاں بلندپایہ اور ذی مرتبہ ہیں ،یعنی تمام ملائکہ سے بڑھ کران کی قدرومنزلت ہے، جن کی آسمانوں میں سرداری ہے اوران گنت مقرب فرشتے جن کے تابع فرمان ہیں ،اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ ذی قوت، طاقتوار،امین اورمقرب فرشتہ دوسرے فرشتوں کی سخت ترین حفاظت میں یہ کلام لیکرتمہارے رفیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کررہے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۹۲ۭنَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ۝۱۹۳ۙعَلٰی قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۝۱۹۴ۙ [62]

ترجمہ:یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیزہے ،اسے لے کرتیرے دل پرامانت دارروح اتری ہے تاکہ توان لوگوں میں شامل ہوجو(اللہ کی طرف سے خلق خداکو)متنبہ کرنے والے ہیں ۔

قَالَ قَتَادَةُ: {مُطَاعٍ ثَمَّ} أَیْ: فِی السَّمَوَاتِ، یَعْنِی: لَیْسَ هُوَ مِنْ أَفْنَادِ الْمَلَائِكَةِ بَلْ هُوَ مِنَ السَّادَةِ وَالْأَشْرَافِ، مُعتَنى بِهِ، انْتُخِبَ لِهَذِهِ الرِّسَالَةِ الْعَظِیمَةِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے ۔‘‘َ اس کے معنی یہ ہیں آسمانوں میں اس کی بات سنی جاتی ہے کیونکہ وہ عام فرشتوں میں سے نہیں ہے، بلکہ سادات واشراف میں سے ہے، لہذااس کی اسی اہمیت وعظمت کے پیش نظراسے اس عظیم الشان پیغام رسانی کے لیے منتخب کیاگیاہے۔[63]

تم اس پاکیزہ کلام کی ہدایات کو سن کر جس کی صداقت کی تمہارے دل گواہی دیتے ہیں ،جان بوجھ کر اپنی ہٹ دھرمی اورغروروتکبر کی وجہ سے اپنے الصادق والامین،دانا و ہوشمند ساتھی محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دیوانگی کا الزام لگاتے ہو ، وہ دیوانہ نہیں تمہاری عقل کا فریب ہے،ذراقرآن پڑھ کرتودیکھوکہ کیا کوئی دیوانہ ایسے معارف وحقائق بیان کرسکتاہےاورگزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتلاسکتاہے جوقرآن میں بیان کیے گئے ہیں ،جیسے فرمایا

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى۝۲ۚوَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۝۳ۭ [64]

ترجمہ:تمہارارفیق نہ بھٹکاہے نہ بہکا ہے ، وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا۔

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کھلے آسمان پر پورے ہوش وحواس میں اس طاقتور اور امین پیغمبر فرشتے کوابتدائے نبوت اورمعراج کے موقع پر اس کی اصلی صورت میں دیکھ چکے ہیں ، جیسے فرمایا:

 عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى۝۵ۙذُوْ مِرَّةٍ۝۰ۭ فَاسْتَوٰى۝۶ۙوَهُوَبِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى۝۷ۭثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى۝۸ۙفَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى۝۹ۚفَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى۝۱۰ۭ [65]

ترجمہ:اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے ،جوبڑاصاحب حکمت ہے ،وہ سامنے آکھڑاہواجبکہ وہ بالائی افق پرتھا،پھرقریب آیااور اوپر معلق ہوگیایہاں تک کہ دو کمانوں کے برابریااس سے کچھ کم فاصلہ پررہ گیاتب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جووحی بھی اسے پہنچائی ۔

دوسری مرتبہ دیکھنے کے بارے میں فرمایا:

وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى۝۱۳ۙعِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى۝۱۴عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى۝۱۵ۭ [66]

ترجمہ:اورایک مرتبہ پھراس نے سدرة المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھاجہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے ۔

عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ:لَقِیَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَعْبًا بِعَرَفَةَ فَسَأَلَهُ عَنْ شَیْءٍ فَكَبَّرَ حَتَّى جَاوَبَتْهُ الجِبَالُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا بَنُو هَاشِمٍ ، فَقَالَ كَعْبٌ: إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ رُؤْیَتَهُ وَكَلاَمَهُ بَیْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسَى، فَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَیْنِ، وَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَیْنِ،قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ تَكَلَّمْتَ بِشَیْءٍ قَفَّ لَهُ شَعْرِی، قُلْتُ: رُوَیْدًا ثُمَّ قَرَأْتُ لَقَدْ رَأَى مِنْ آیَاتِ رَبِّهِ الكُبْرَى، قَالَتْ: أَیْنَ یُذْهَبُ بِكَ؟إِنَّمَا هُوَ جِبْرِیلُ مَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ أَوْ كَتَمَ شَیْئًا مِمَّا أُمِرَ بِهِ أَوْ یَعْلَمُ الخَمْسَ الَّتِی قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنَزِّلُ الغَیْثَ فَقَدْ أَعْظَمَ الفِرْیَةَ،اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ،وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِیلَ، لَمْ یَرَهُ فِی صُورَتِهِ إِلاَّ مَرَّتَیْنِ: مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَمَرَّةً فِی جِیَادٍ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الأُفُقَ

شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہےعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی عرفات میں کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی تو انہوں نے (یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے) کعب رضی اللہ عنہ سے کوئی بات پوچھی تو وہ تکبیر کہنے لگے یہاں تک کہ انکی آواز پہاڑوں میں گونجنے لگی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم بنو ہاشم ہیں ، کعب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور دیدار کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام پر تقسیم کیاچنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے دو مرتبہ کلام کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دو مرتبہ دیدا رکیا،مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے؟عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کی ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئےبے شک انہوں نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تمہاری عقل کہاں چلی گئی ہے وہ تو جبرائیل علیہ السلام ہیں تمہیں کس نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہےیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی چیز (امت سے) چھپائی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہےیا یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان پانچ چیزوں کا علم ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے (بے شک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی بارش برساتا اور وہی جانتا ہے کہ رحم (ماں کے پیٹ) میں کیا ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین پر مرے گا)۔ جس نے یہ کہا تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا،ہاں البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا ہے اور انہیں بھی انکی اصلی صورت میں صرف دوبار دیکھا ہے۔ ایک بار سدرة المنتہی کے پاس اور ایک بار جیاد کے مقام پر کہ ان کے چھ سوپر تھے جنہوں نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا ہے۔ [67]

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ: أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِیلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریلؑ کواس شان میں دیکھا کہ ان کے چھ سوپر تھے۔ [68]

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کےآخری پیغمبرہیں جنہیں ساری دنیاکی ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کارسول ہونے کی بنا پر وہ اس پر حکمت پیغام کوجس میں رب العالمین کی ذات وصفات،احکام وفرائض ، اللہ کی طاقتور مخلوق فرشتوں ، مرنے کے بعد ابدی زندگی، حشر ونشر،اللہ تعالیٰ کاعدل وانصاف اورجنت وجہنم وغیرہ کے بارے میں پوری امانت ودیانتداری سے لوگوں تک پہنچادیتے ہیں ، یہ پرحکمت وپاکیزہ کلام شیطان مردودکے اوہام و تصورات یاکسی کاہن کاکلام یاکسی دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ رب العالمین کانازل کردہ دائمی پیغام ہے ،ان لوگوں کے لئے جو دنیا میں سیدھی راہ پر چلنا چاہیں ہدایت ونصیحت ہے جیسے فرمایا:

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ۝۲۱۰وَمَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۝۲۱۱ۭاِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۝۲۱۲ۭ [69]

ترجمہ: اس (کتاب مبین)کوشیاطین لے کرنہیں اترے ہیں نہ یہ کلام ان کوسجتاہے اورنہ وہ ایساکرہی سکتے ہیں وہ تواس کی سماعت تک سے دوررکھے گئے ہیں ۔

اس کلام کے ذریعہ سے وہ تمہارا تزکیہ نفس اور ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ، پھراس کلام کی حقانیت وصداقت ظاہر ہونے کے باوجود تم کیوں اس سے اعراض کرتے ہو،کیاتم اپنے غرور و تکبر کی بناپر اس کلام کی ابدی ہدایت کوتسلیم نہیں کرو گے ،اس دعوت کے خلاف محاذ آرائی سے باز نہیں آؤ گے ،مگر یاد رکھو تمہارے کچھ چاہنے یانہ چاہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگاہوگاوہی جو پردوردگارعالم چاہے گا،ہرتدبیراس کی مشیت کی تابع ہے ، اور دنیا و آخرت میں تم ذلیل ور سوا ہوکر رہے جاؤ گے،جیسے فرمایا:

وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللهُ۔۔۔۝۳۰ۤۖ [70]

ترجمہ: اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتاجب تک کہ اللہ نہ چاہے۔

وَمَا یَذْكُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللهُ۔۔۔۝۰۝۵۶ۧ [71]

ترجمہ: اوریہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے الایہ کہ اللہ ہی ایساچاہے۔

 طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ کااسلام قبول کرنا:

طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ كَعْبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ تَیْمِ بْنِ مُرَّةَ

ان کانسب یوں ہے طلحہ بن عبیداللہ بن عثمان بن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ۔[72]

قَالَ:أُمُّ طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللهِ الصَّعْبَةُ بِنْتُ الْحَضْرَمِیِّ

طلحہ بن عبیداللہ کی والدہ صعبہ بنت حضرمی تھیں ۔[73]

كُنْیَتُهُ، أَبُو مُحَمَّدٍ

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابومحمدتھی۔[74]

طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ نے اپنے اسلام قبول کرنے کاواقعہ کچھ یوں بیان کیاہے،

حَضَرْتُ سُوقَ بُصْرَى فَإِذَا رَاهِبٌ فی صومعته یقول: سلوا أهل [هذا] الْمَوْسِمِ أَفِیهِمْ رَجُلٌ مَنْ أَهْلِ الْحَرَمِ؟ قَالَ طَلْحَةُ: قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا فَقَالَ هَلْ ظَهَرَ أَحْمَدُ بَعْدُ؟ قُلْتُ وَمَنْ أَحْمَدُ؟قَالَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، هَذَا شَهْرُهُ الَّذِی یَخْرُجُ فِیهِ، وَهُوَ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ مَخْرَجُهُ مِنَ الْحَرَمِ، وَمُهَاجَرُهُ إِلَى نَخْلٍ وَحَرَّةٍ وَسِبَاخٍ، فَإِیَّاكَ أَنْ تُسْبَق إِلَیْهِ، قَالَ طَلْحَةُ: فَوَقَعَ فِی قَلْبِی مَا قَالَ، فَخَرَجْتُ سَرِیعًا حَتَّى قَدِمْتُ مَكَّةَ فَقُلْتُ هَلْ كَانَ مِنْ حَدَثٍ ؟قَالُوا: نَعَمْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَمِینُ قد تَنَبَّأَ، وَقَدِ اتَّبَعَهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِی قحافة،قال فخرجت حتى قدمت عَلَى أَبِی بَكْرٍ، فخرج بی إلیه، فأسلمت،فَأَخْبَرَهُ طَلْحَةُ بِمَا قَالَ الرَّاهِبُ

میں تجارت کی غرض سے بصری گیاہواتھا،ایک روزمیں بازارمیں تھاکہ ایک راہب اپنے صومعہ سے پکارکرکہہ رہاتھاکہ معلوم کروکہ ان لوگوں میں کوئی حرم مکہ کارہنے والا بھی ہے؟اس کی بات سن کرطلحہ نے کہاکیابات ہے میں حرم مکہ کارہنے والاہوں ،راہب نے کہاکیااحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کاظہورہوگیاہے؟میں نے حیرانی سے پوچھاکون احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )؟ راہب نے کہاعبداللہ بن عبدالمطلب کے بیٹے ،یہ ماہ ان کے ظہورکاہےوہ حرم مکہ میں ظاہرہوں گے وہی آخری نبی ہیں پھرایک پتھریلی اورنخلستانی زمین کی طرف ہجرت فرمائیں گے، پھرمجھے نصیحت کی دیکھوتم پیچھے نہ رہنا، راہب نے جس جوش وعقیدت سے گفتگوکی اس سے میرے دل پرخاص اثرہوا میں فورا ًمکہ واپس آگیا اور لوگوں سے دریافت کیاکہ کیایہاں کوئی نئی بات رونماہوئی ہے؟ لوگوں نے کہاہاں ،محمدبن عبداللہ نے نبوت کادعوی کیاہے اورابن ابی قحافہ(سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ )نے انہیں نبی تسلیم کر لیاہے،میں فورا ًسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اورمحمدبن عبداللہ کی دعوت کے بارے میں دریافت کیا،وہ مجھے ساتھ لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،اورمیں نےاسلام قبول کرلیااورمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوراہب کاواقعہ بیان کیا۔[75]

کتب سیرمیں متعددروایات سے معلوم ہوتاہے کہ قبول اسلام کے بعددوسرے فرزندان توحیدکی طرح طلحہ رضی اللہ عنہ کو بھی کفارمکہ کے ظلم وستم کانشانہ بنناپڑااس وقت تک ان کی والدہ اسلام نہیں لائی تھیں وہ بھی بیٹے کے قبول اسلام پربرافروختہ ہوئیں ،

أخرج البخاری فی التاریخ عن مسعود بن خِراش رضی الله عنه قال: بینا نحن نطوف بین الصَّفا والمروة إذا أُناس كثیر یتبعون فتى شاباً مُوثقاً بیده فی عنقه، قلت: ما شأنه؟قالوا: هذا طلحة بن عبید الله صبأ؛ وامرأةٌ وراءه تدمدم وتسبّه، قلت من هذه، قالوا: الصعبة بنت الحضرمی أمه

امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ الصغیرمیں مسعود رضی اللہ عنہ بن خراش سے یہ بیان نقل کیاہے کہ ہم صفاومروہ کے درمیان چکرلگارہے تھے ہم نے دیکھاکہ بہت سے لوگ ایک نوجوان کوکھینچتے ہوئے لے جارہے ہیں ،میں نے پوچھاکہ یہ معاملہ کیاہے؟ لوگوں نے کہاکہ طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ نے دین ہوگیاہے ،ایک عورت اس نوجوان کے پیچھے پیچھے غراتی ہوئی اورگالیاں دیتی ہوئی جارہی تھی،میں نے پوچھایہ عورت کون ہے؟لوگوں نے کہایہ اس کی ماں صعبہ بنت حضرمی ہے۔[76]

بعدمیں انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیاتھا ۔

أَسْلَمَتِ الصَّعْبَةُ أُمُّ طَلْحَةَ فَتُوُفِّیَتْ مُسْلِمَةً

طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ کی والدہ نے اسلام قبول کرلیااورمسلمان فوت ہوئیں ۔[77]

غزوہ احدمیں طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورکفارکے درمیان دیواربن گئے اورکسی دشمن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے نہ دیا،

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أوجب طلحة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلحہ رضی اللہ عنہ نے (اپنے لیے)جنت کوواجب کرلیا۔[78]

قال: فَرَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ظاهر بین درعین یومئذ، فلم یستطع أن ینهض إلیها، یعنی إلى صخرة فی الجبل، فجلس تحته طلحة بن عبید الله فنهض رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى استوى علیها . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أوجب طلحة

زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام سے مروی ہےمیں نے غزوہ احدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزرعیں پہنی ہوئی تھیں جن کے بوجھ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوپرپہاڑی پرچڑھ نہیں پارہے تھے، یہ دیکھ کرطلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پشت کے بل جھک گئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پشت پرکھڑے ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے جنت واجب کرلی۔[79]

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: إِنِّی لَجَالِسَةٌ فِی بَیْتِی وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ فِی الْفِنَاءِ إِذْ أَقْبَلَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَرَّهُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ یَمْشِی عَلَى الْأَرْضِ قَدْ قَضَى نَحْبَهُ فَلْیَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےہم گھرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں کہ طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجوشخص کسی جنتی کوزمین پرچلتے پھرتے دیکھناچاہتاہے وہ طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ کودیکھ لے۔[80]

عن عَائِشَةَ، قَالَتْ:كَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ إِذَا ذَكَرَ یَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: ذَاكَ كُلُّهُ یَوْمُ طَلْحَةَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ غزوہ احد کا ذکر فرماتے توفرماتے یہ جنگ کل کی کل طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے تھی(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کااصل کارنامہ انہوں نے سرانجام دیاتھا۔[81]

[1] الفاتحة۳

[2] العلق۸

[3] الاعراف۱۸۴

[4] سبا۴۶

[5] مسنداحمد۴۹۳۴،مستدرک حاکم ۸۷۱۹،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ۳۳۳۳

[6] الرعد۲

[7] الروم۸

[8] لقمان۲۹

[9] الاحقاف۳

[10] النمل ۸۷

[11] صحیح بخاری بدء الخلق بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ بِحُسْبَانٍ ۳۲۰۰

[12] تفسیرابن ابی حاتم۱۹۱۴۲،۱۹۱۵۷

[13] تفسیرابن ابی حاتم۱۹۱۴۱

[14]الفرقان ۲۵

[15] انفطار۱،۲

[16] المرسلات۸،۹

[17] القیامة۸،۹

[18] الرحمٰن۳۵

[19] الزلزال۱

[20] القارعة۵

[21] المعارج۹

[22] الطور۹،۱۰

[23] النمل۸۸

[24] النبا۲۰

[25] المزمل۱۴

[26] الواقعة۵،۶

[27] طہ ۱۰۵تا۱۰۷

[28] الحج۲

[29] الانعام۳۸

[30] تفسیرابن ابی حاتم۳۴۰۴؍۱۰

[31] الرحمٰن ۲۶،۲۷

[32] یٰسین ۵۱

[33] الصافات۲۲

[34] الواقعة۷تا۱۰

[35]الزمر ۷۱

[36] الزمر۷۳

[37] الملک۸

[38] ق۳۱

[39] المعجم الکبیرللطبرانی۷۴۱۲

[40] المعجم الکبیرللطبرانی۸۶۳

[41] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابٌ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِیلِ مِنَ الصَّدَقَةِ۱۴۱۸، صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ۶۶۹۳،جامع ترمذی ابواب البروالصلة بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّفَقَةِ عَلَى البَنَاتِ وَالأَخَوَاتِ ۱۹۱۴،مسنداحمد۲۶۰۶۰

[42] ۔صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ ۶۶۹۵

[43] شرح السنة للبغوی ۳۴۵۷

[44]سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتِیمًا۵۱۴۶

[45] سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ، وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ ۳۶۶۹

[46] ادب المفرد بالتعلیقات ۷۷

[47] ادب المفرد بالتعلیقات۸۰،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ، وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ ۳۶۶۷

[48] آل عمران۳۰

[49] القیامة۱۳

[50] الکہف۴۹

[51] آل عمران ۳۰

[52] تفسیرابن ابی حاتم۳۴۰۳؍۱۰

[53] بنی اسرائیل۱۴

[54] الفرقان ۲۵

[55] الانبیائ۱۰۴

[56] الزمر۶۷

[57] آل عمران۳۰

[58] القیامة۱۳

[59] الحج ۱۷

[60] الیل۱،۲

[61] الضحٰی۱،۲

[62] الشعرائ۱۹۲تا۱۹۴

[63] تفسیرابن کثیر۳۳۹؍۸

[64] النجم۲،۳

[65] النجم۵تا۱۰

[66]النجم ۱۳ تا ۱۵

[67]صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ والنجم باب ۱،ح۴۸۵۵،صحیح مسلم کتاب بَابٌ فِی ذِكْرِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى۴۳۹ ،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ ۳۲۷۸

[68] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورۂ نجم بَابُ قَوْلِهِ: فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ۴۸۵۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى، وَهَلْ رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ۴۳۲، جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ۳۲۷۷، مسنداحمد۳۷۸۰

[69] الشعرائ۲۱۰تا۲۱۲

[70] الدھر۳۰

[71] المدثر۵۶

[72] معرفة الصحابة لابی نعیم۹۴؍۱

[73] معرفةالصحابة لابی نعیم۹۵؍۱

[74] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۲۰۹؍۱،تاریخ دمشق لابن عساکر۵۹؍۲۵

[75] الاصابة فی تمیز الصحابة۴۳۰؍۳،البدایة والنہایة۴۰؍۳،المنتظم فی تاریخ الأمم والملوك ۱۱۲؍۵،تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام۱۳۹؍۱،حیاة الصحابة۳۴۳؍۱، سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۲۱۸؍۱،تاریخ دمشق لابن عساکر۶۴؍۲۵

[76] حیاة الصحابة۳۴۳؍۱

[77] معرفة الصحابة لابی نعیم۹۵؍۱

[78] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۷۶۵؍۲

[79] سیر أعلام النبلاء۴۰۷؍۱

[80] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۲۱۶؍۱

[81] فتح الباری ۳۶۱؍۷، شرح الزرقانی علی المواھب۴۲۵؍۲، سیر أعلام النبلاء۴۱۰؍۱

Related Articles