بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ التین

انسان کی تکریم کے مختلف پہلوہیں اس سورت میں جلیل القدرانبیاء کے مقامات کی قسم کھاکر ایک پہلوبیان فرمایاکہ ہم نے انسان کوبہترین اورمعتدل طریق پرتخلیق کیاہے ، جس طرح انسان کی یہ خوبصورتی جسمانی اور ظاہری شکل کے اعتبارسے ہے اسی طرح عقلی وروحانی کمالات کے اعتبارسے بھی ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی فطرت کونیکی وبدی کاشعورالہام کیااور خیروشر کے امتیازکی صلاحیت بخشی ،اب صلاحیت اورعمل کے اختیار کے بعداگرکوئی انسان ناشکراپن کاراستہ اختیارکرتاہے تو پھراسے نیچوں سے بھی نیچے گرادیاجاتاہے،حیوانی اورشہوانی زندگی کو اپنا مقصد حیات بنا کروہ حیوانوں سے بھی زیادہ پستیوں میں جاگرتاہے اورنقصان کاسوداکرتاہے اور اگر انسان ایمان وعمل صالح کی راہ کواپنامقصدحیات بنالے تویہ اس کی بڑی کامیابی ہے ، وہ اللہ جوپانی کے ایک حقیرقطرے سے ایساخوبصورت انسان پیداکرسکتاہے وہ اس کے مرنے کے بعدبھی اس کودوبارہ پیداکرسکتاہے،ویسے بھی دوبارہ پیداکرنا اور حساب وجزااس کے حاکم اورعادل ہونے کاتقاضاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے۔

وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ ‎﴿١﴾‏ وَطُورِ سِینِینَ ‎﴿٢﴾‏ وَهَٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِینِ ‎﴿٣﴾‏ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ ‎﴿٤﴾ (التین )

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی، یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔


اللہ تعالیٰ نے کئی سورتوں میں مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں ،ان قسموں کی ایک خاص نوعیت ہے ،ان کامقصودیہ ہوتاہے کہ جس بات پرقسم کھائی گئی ہے اس پر،ان چیزوں کو جن کی قسم کھائی گئی ہے بطورشہادت پیش کیاجائے ،عام قسموں کی طرح ان میں جس چیزکی قسم کھائی گئی ہے ان کی تعظیم مقصودنہیں ہواکرتی ،اس سورۂ میں چارشہادتیں پیش کی گئی ہیں اوریہ چاروں شہادتیں ہی جزاکے ایسے واقعات کی طرف اشارہ کررہی ہیں جواس دنیامیں پیش آئے ہیں تاکہ لوگ اس پرغوروفکرکریں کہ اللہ رب کائنات بندوں کے اعمال سے بے خبرنہیں ہے بلکہ عدل وانصاف کے ساتھ لوگوں کوبدلہ دیتا ہے ،جیسے فرمایا:

اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَ۝۳۵ۭمَا لَكُمْ۝۰۪ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ۝۳۶ۚ [1]

ترجمہ: کیاہم فرمانبرداروں کاحال مجرموں کا سا کر دیں ؟تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو؟ ۔

كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ ۔۔۔۝۲۸ [2]

ترجمہ:تم اللہ کے ساتھ کفرکارویہ کیسے اختیارکرتے ہوحالانکہ تم بے جان تھے اس نے تم کوزندگی عطاکی ۔

قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِی اللهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔۔۝۱۰ [3]

ترجمہ:ان کے رسولوں نے کہاکیااللہ کے بارے میں شک ہے جوآسمانوں اورزمین کا خالق ہے؟ ۔

یہاں جوشہادتیں پیش کی گئی ہیں وہ جزاکے ایک ایسے پہلوکی طرف اشارہ کررہی ہیں جس سے ضمناًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت بھی ثابت ہو رہی ہے،کیونکہ یہ بات اپنی جگہ پرطے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جزاکے اہم ترین واقعات میں سے ہے ،یہی وجہ سے کہ قرآن مجیدمیں اکثرجگہ نبوت کے اثبات پریوں دلیل قائم کی گئی ہے کہ ایساہونااللہ تعالیٰ کی رحمت اورعدل کے ظہورکے لئے ضروری ہے ،چنانچہ اس نے کسی قوم پرنبی کی بعثت سے پہلے عذاب نازل نہیں کیا،جیسے فرمایا:

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا۝۰ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِی الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ۝۵۹ [4]

ترجمہ:اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سناتا اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے۔

ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ۝۱۳۱ [5]

ترجمہ:تمہارا رب بستیوں کو ظلم کے ساتھ تباہ کرنے والا نہ تھا جبکہ ان کے باشندے حقیقت سے ناواقف ہوں ۔

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۴۷ [6]

ترجمہ:ہر امت کے لیے ایک رسول ہے ، پھر جب کسی امت کے پاس اس کا رسول آجاتا ہے تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا ۔

اورقیامت کے دن جب تک انبیاء شہادت نہ دیں گے کسی شخص کے معاملہ کا فیصلہ نہیں ہوگا،اس سے معلوم ہواکہ نبی کی بعثت درحقیقت ایک روزجزایادوسرے معنوں میں قیامت صغریٰ کا ظہور ہے ،کیونکہ اس وقت ایک قوم فائزالمرام ہوتی ہے اوردوسری فناکردی جاتی ہے ،اللہ کی طرف پوری طرح اتمام حجت قائم ہوجاتی ہے اورلوگوں کے پاس کوئی عذرباقی نہیں رہتا ، جیسے فرمایا:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۔۔۔۝۱۶۵ [7]

ترجمہ: یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بناکربھیجے گئے تھے تاکہ ان کومبعوث کردینے کے بعدلوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے ۔

اسی اصول پریہاں بھی پچھلے واقعات جزاسے دوباتوں پر دلیل قائم کی گئی ،ایک یہ کہ جزاضرورواقع ہوگی دوسرایہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس عام اللہ کی سنت کے مطابق ہوئی ہے جواس کائنات میں ہمیشہ سے جاری ہے ، عربوں میں جس چیزکی پیداوارجہاں ہوتی اسی نام سے اس مقام کوموسوم کر دیتے تھے مثلاًغضی ،شَجَرَ،نَخْلَة وغیرہ ، مختلف مقامات کے نام رکھنے کایہ طریقہ بہت رائج تھا۔

تِّیْنِ ایک خاص مقام کانام ہے،تِّیْنِ انجیرکوکہتے ہیں عرب اس کواسی نام سے جانتے تھے چونکہ یہاں انجیرکی پیداواربکثرت تھی اس وجہ سے یہ تِّیْنِ ہی کے نام سے مشہور ہو گیا ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ} یَعْنِی: مَسْجِدَ نُوحٍ الَّذِی بُنِیَ عَلَى الْجُودِیِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے قول مروی ہے ’’ قسم ہے انجیر اور زیتون کی ‘‘سے مراد نوح علیہ السلام کی وہ مسجدہے جوکوہ جودی پربنی تھی۔[8]

اس سے معلوم ہواکہ تِّیْنِ سے مرادیاتوکوہ جودی ہے یااسی کے قریب کوئی دوسرا پہاڑہے ، تورات میں ہے کہ نبی آدم نوح علیہ السلام کے بعدادھرادھرمتفرق ہوئے اورقرآن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ کوہ جودی کے پاس پیش آیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جبل تین آدم علیہ السلام اوران کی ذریت کا مسکن تھا،اس قیاس کی مزیدتائیداس بات سے بھی ہوتی ہے کہ تورات میں ہے کہ آدم علیہ السلام اپنے آپ کو ڈھانکنے کے لئے اپنے اوپر انجیر کی پتیاں سی لیتے تھے ۔

اسی طرح زَّیْتُوْنِ بھی ایک مقام کا نام ہے جہاں زیتون کی پیداوارزیادہ تھی اسی وجہ سے یہ زَّیْتُوْن ِکے نام سے موسوم ہوگیا اور زَّیْتُوْنِ یقینا ًوہی پہاڑہے جس کاانجیل میں اکثرذکرآتا ہے اور جس پرمسیح علیہ السلام نے بارہادعائیں کی ہیں ،لوقا۲۱:۳۷میں ہے اوردن میں وہ ہیکل میں تعلیم دیتاتھااوررات میں نکل جاتا تھا اوراس پہاڑپرشب بسرکرتا تھا جس کانام کوہ زَّیْتُوْنِ ہے ،

{وَالزَّیْتُونِ} قَالَ كَعْبُ الْأَحْبَارِ، وَقَتَادَةُ، وَابْنُ زَیْدٍ، وَغَیْرُهُمْ: هُوَ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ.

کعب ،قتادہ ،ابن زید وغیرہ کہتے ہیں زَّیْتُوْنِ سے مراد وہ پہاڑہے جہاں بیت المقدس واقع ہے۔

اورطُوْرِ سِیْنِیْنَ معلوم ومشہور ہے ، قرآن نے اس کوایک جگہ طُورِ سَیْنَاءَ بھی کہاہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ{وَطُورِ سِینِینَ}قَالَ:هُوَ الطُّورُ

عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’ اور طور سینا ‘‘َسے مرادطورپہاڑہے۔[9]

 اوربَلَدِ الْاَمِیْنِ یعنی مکہ مکرمہ۔

یہ چاروں مقامات جن کی اس سورۂ میں قسم کھائی گئی ہے ان مقامات میں سے ہیں جن میں جزاء کے نہایت اہم واقعات پیش آئے ہیں ،ان واقعات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کوان کے اعمال کے مطابق انصاف اوررحم کے ساتھ جزااورسزادیتاہے ۔

وَالتِّیْنِ:تِّیْنِ وہ پہلامقام ہے جہاں انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزاء وسزاکامعاملہ پیش آیایعنی جب آدم علیہ السلام نے اللہ کاعہدبھلادیااوراپنے حاسد(شیطان)کی بات مان لی توان کواوران کی بیوی کوجزاء کے قانون سے دوچارہوناپڑایعنی اللہ تعالیٰ نے ان کواپنی سرفرازی سے محروم کردیااورجنت کاخلعت جوان کوبخشاگیاتھاان سے چھین لیاگیاجس کی وجہ سے وہ اپنے جسم کوچھپانے کے لئے درخت کے پتے لپیٹنے لگے ،جیسے فرمایا:

فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۔۔۔ ۝۲۲ [10]

ترجمہ: آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے لگے ۔

اوریہ واقعہ ان کی پوری نسل کے لئے ایک یادگارواقعہ قرارپایا،چنانچہ قرآن مجیدمیں مختلف مقامات پر اس کو اسی حیثیت سے یاد دلایا گیاہے۔

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا۔۔۔۝۰۝۲۷ [11]

ترجمہ: اے بنی آدم ! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اُسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکولایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اُتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے ۔

اورتورات میں تصریح ہے کہ وہ انجیرکادرخت تھا،پھرقرآن میں تصریح ہے کہ آدم علیہ السلام اورحوا نے اس وقت توبہ کی،جیسے فرمایا:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا۝۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳ [12]

ترجمہ:دونوں بول اٹھےاے ربّ ! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔

اوراللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اوران پرہدایت نازل کرنے اوراس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کواجزادینے کا وعدہ فرمایاجیسے فرمایا

 فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ۝۰ۭ اِنَّهٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۳۷قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا۝۰ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸ [13]

ترجمہ:اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کرلیا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ،ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤپھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔

پہلے عہدکے بعدیہ اللہ تعالیٰ کا دوسراعہدتھاجواس نے آدم علیہ السلام سے باندھا،اس سے معلوم ہواکہ جَبَلٍ تِّیْنِ کاواقعہ اپنے اندر دو بالکل متضادخصوصیات رکھتاہے،اس دن اللہ تعالیٰ نے ایک طرف آدم علیہ السلام سے اپنی ایک نعمت چھینی اوردوسری طرف ایک عظیم الشان نعمت ان کوبخشی،چھینی اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے پہلے عہدکوفراموش کر دیا تھا اور بخشی اس لئے کہ غفلت کے بعدوہ متنبہ ہوگئے اورانہوں نے توبہ کی، جَبَلٍ تِّیْنِ کے پاس جزا کا دوسراواقعہ نوح علیہ السلام کے عہدمیں پیش آیاان کے زمانہ میں اسی مقام پراللہ تعالیٰ نے ظالموں کوتباہ کیا اور نیکوکاروں کوطوفان سے نجات دی اوران کوبرکت بخشی،قرآن مجیدمیں ہے۔

وَقِیْلَ یٰٓاَرْضُ ابْلَعِیْ مَاۗءَكِ وَیٰسَمَاۗءُ اَقْلِـعِیْ وَغِیْضَ الْمَاۗءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْـتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِیْنَ۝۴۴ [14]

ترجمہ:حکم ہوااے زمین اپناساراپانی نگل جا اور اے آسمان رک جا،چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکادیاگیا،کشتی جودی پرٹک گئی اورکہہ دیاگیاکہ دورہوئی ظالموں کی قوم ۔

پھرنوح علیہ السلام کی دعا کے ذکرکے بعد فرمایا:

قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ۝۰ۭ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۴۸ [15]

ترجمہ: حکم ہوااے نوح! اترجاہماری طرف سے سلامتی اوربرکتیں ہیں تجھ پراوران گروہوں پرجو تیرے ساتھ ہیں ،اورکچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کوہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے پھرانہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔

اس سے معلوم ہواکہ جَبَلٍ تِّیْنِ اللہ تعالیٰ کے قانون جزاکے ظہورکاایک یادگارمقام ہے اور اس کوتِّیْنِ کے نام سے ذکرفرمایاگیاہے ۔

کوہ زَّیْتُوْنِ پرجزاکاایک نہایت عظیم الشان واقعہ پیش آیا،اسی پہاڑپراللہ نے یہودسے اپنی شریعت کی امانت چھینی اوروہ امانت سلسلہ ابراہیمی کی ایک دوسری شاخ کے حوالہ کردی۔ [16]

یہ واقعہ مسیح علیہ السلام کی آخری زندگی سے تعلق رکھتاہے ایک روزوہ شب بھر جاگ کراللہ سے دعا و مناجات کرتے رہے کہ ان کی قوم کی کشتی غرق ہونے سے بچ جائے لیکن تقدیر کا فیصلہ اٹل تھا،بالآخروہ قوم کے مستقبل سے مایوس ہوگئے اورجب آپ کویہ معلوم ہواکہ یہودآپ کے قتل کے درپے ہیں توآپ کونہایت غم ہواکیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس اقدام کے بعدیہودپراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جائے گی اوراللہ اپنی امانت ان سے چھین کردوسروں کے حوالہ کردے گا،قرآن مجیدکی یہ آیت اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ۔۔۔۝۰۝۷ [17]

ترجمہ:اور اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ کوئی فتنہ رونما نہ ہوگا اس لیے اندھے اور بہرے بن گئے پھر اللہ نے انہیں معاف کیا تو ان میں سے اکثر لوگ اور زیادہ اندھے اور بہرے بنتے چلے گئے۔

طُوْرِ سِیْنِیْنَ میں جزاکی شہادت کاپہلوبالکل واضح ہے ،یہی مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ایک مظلوم ومقہورقوم پراپنی عنایت مبذول فرمائی اوراس کے صبروبرداشت کے صلہ میں اس کے دشمنوں کے پنجوں سے اس کونجات دے کراس کاسراونچاکیااورپھراس کوایک ایسی شریعت عطافرمائی جومنکروں اوردشمنوں کے لئے یکسرتازیانہ عذاب تھی ، یہ واقعہ مظلوموں پرلطف ونوازش اورظالموں پرقہروغضب کی ایک نہایت واضح مثال ہے ،قرآن مجیدمیں فرعون اوراس کی قوم کے واقعات جہاں بیان ہوئے ہیں وہاں جابجا اس بات کی طرف اشارات ملتے ہیں ۔

فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ۝۰ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ۝۵۴فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۵۵ۙفَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا وَّمَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ۝۵۶ۧ [18]

ترجمہ :اس نے اپنی قوم کوہلکاسمجھااورانہوں نےاس کی اطاعت کی درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ ، آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کردیاتوہم نے اس سے انتقام لیااوران کواکٹھاغرق کردیااوربعدوالوں کے لئے پیش رواورنمونہ عبرت بناکررکھ دیا۔

ایک مقام پر ہے۔

۔۔۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۥۙ بِمَا صَبَرُوْا۝۰ۭ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ۝۱۳۷ [19]

ترجمہ:اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیرپوراہواکیونکہ انہوں نے صبرسے کام لیاتھااورہم نے فرعون اوراس کی قوم کاوہ سب کچھ بربادکردیاجووہ بناتے اورچڑھاتے تھے۔

ایک اورمقام پرہے۔

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَیَسْتَحْیٖ نِسَاۗءَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۴ وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَ۝۵ۙ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ۝۶ [20]

ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اوراس کے باشندوں کوگروہوں میں تقسیم کردیاان میں سے ایک گروہ کووہ ذلیل کرتاتھااس کے لڑکوں کو قتل کرتااوراس کی لڑکیوں کوزندہ رہنے دیتاتھافی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا،اورہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پرجوزمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اورانہیں پیشوابنادیں اورانہی کووارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اوران سے فرعون وہامان اوران کے لشکروں کووہی کچھ دکھلادیں جس کاانہیں ڈرتھا۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوطورپراس لئے بلایاتھاکہ نیکو کاروں کی اولادپراپنی نعمت پوری کرے اوران کوزمین میں سطوت واقتدار بخشے تاکہ وہ دین حق کے گواہ ہوں اوران کی قوت شریروں اورمنکروں کے لئے تازیانہ بنے،پس یہ ایک ہی واقعہ رحمت وغضب اورثواب وعذاب دونوں کامجموعہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں جزاء وسزاسے تعبیرکرسکتے ہیں تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عزیزورحیم اوردیان وحلیم ہونے کابھیدسمجھ سکیں ۔

بَلَدِ الْاَمِیْنِ،جزاکایہ واقعہ مکہ معظمہ میں پیش آیااس کی تفصیل یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کوچندباتوں میں آزمایااوروہ ان میں کامیاب وکامران ٹھہرےیہاں تک کہ اپنے اکلوتے بیٹے کوبھی اپنے بڑھاپے میں اللہ کی راہ میں قربان کردینے کوتیارہوگئےجیسے فرمایا

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔۔۔۝۱۲۴ [21]

ترجمہ:یاد کرو کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔

تواللہ تعالیٰ نے ان کوبرکت اوراسحاق علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری دی،جیسے فرمایا:

وَبَشَّرْنٰهُ بِـاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۱۲ [22]

ترجمہ:اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی ایک نبی صالحین میں سے۔

اوران سے دو وعدے کیے ، ایک اسماعیل علیہ السلام کی اولادکے متعلق تھادوسرااسحاق علیہ السلام کی اولادسے ، جووعدہ سحاق علیہ السلام کی اولادسے متعلق تھاوہ اس وقت پورافرمایاجب موسیٰ علیہ السلام کوطورپربلاکرکتاب دی ، پھریہودکی مسلسل شرارتوں کے باوجودآل اسحاق پراپنی اس نعمت کوباقی رکھا یہاں تک کہ انہوں نے اس نبی (مسیح علیہ السلام )کوقتل کردینے کاارادہ کر لیا جوان کے پاس تذکیر و موعظت کا آخری پیام لے کرآیاتھااس طرح انہوں نے اپناپیمانہ بھرلیا،اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت ان سے چھین لی اورجزاکاوہ وعدہ پیش آیاجوبنی آدم کی ایک جماعت کے ساتھ مخصوص اورایک زمانہ تک کے لئے محدودتھا،رہاوہ وعدہ جواسماعیل علیہ السلام کی ذریت کے بارہ میں فرمایاتھاتواس کواس وقت اٹھارکھا تاکہ وہ تمام بنی آدم کے نیکو کاروں کے لئے رحمت اوربدکاروں کے لئے عذاب کاایک یوم موعودبنے،یہ گویاجزاء وسزاکی آخری عدالت کاظہورتھاجس کے بعدصرف محشر کی عدالت قائم ہونے والی تھی ، چونکہ اس معاملہ کواتمام وتکمیل کے تمام مراحل سے گزرناتھااس وجہ سے ضروری ہواکہ اس کاانتظارتوروزاول سے رہے لیکن اس کاظہوربالکل آخر میں ہو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کے ظہور کا مرکز بَلَدِ الْاَمِیْنِ کوقراردیاجوہمیشہ دشمنوں کے نرغہ سے محفوظ رہااوراس کے لئے ایک بہترین امت منتخب فرمائی تاکہ وہ تمام زمین میں اللہ کے حق و عدل کی گواہی دے اوران میں ایک نبی مبعوث فرمایاجوتمام عالم کے لئے نویدرحمت لے کرآیا،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۝۱۰۷ [23]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ہم نے تو تم کودنیا والوں کے لئے رحمت بناکربھیجا ہے۔

اورجس کے ذریعہ سے شریعت وحکمت کادرس بالکل پوراکردیاگیاکہ جب قیامت کے دن جزاء کی میزان قائم ہوتو کسی کے پاس کوئی عذرباقی نہ رہے،قرآن مجیدنے ان باتوں کو نہایت وضاحت کے ساتھ یوں بیان فرمایاہے۔

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۰ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِىْ۝۰ۭ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِــمِیْنَ۝۱۲۴وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۝۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى۝۰ۭ وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِیْنَ وَالْعٰكِفِیْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۱۲۵وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗٓ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۝۱۲۶وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ۝۰ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۱۲۷رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ۝۰۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۱۲۸رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِكَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَیُزَكِّیْهِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۱۲۹ۧ [24]

ترجمہ:یادکروجب ابراہیم علیہ السلام کواس کے رب نے چندباتوں میں آزمایااوروہ ان سب میں پورااترگیاتواس نے کہامیں تجھے سب لوگوں کاپیشوابنانے والا ہوں ، ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیااورکیامیری اولادسے بھی یہی وعدہ ہے ؟اس نے جواب دیامیراوعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے،اوریہ کہ ہم نے اس گھر(کعبے)کولوگوں کے لئے مرکز اورامن کی جگہ قراردیاتھااورلوگوں کوحکم دیاتھاکہ ابراہیم علیہ السلام جہاں عبادت کے لئے کھڑاہوتاہے اس مقام کومستقل جائے نمازبنالو،اورابراہیم علیہ السلام اوراسمٰعیل کوتاکیدکی تھی کہ میرے اس گھرکو طواف اوراعتکاف اوررکوع اورسجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھواوریہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعاکی اے میرے رب! اس شہرکوامن کاشہربنادے اوراس کے باشندوں میں سے جو اللہ اورآخرت کومانیں انہیں ہرقسم کے پھلوں کارزق دے ،جواب میں اس کے رب نے فرمایااورجونہ مانے گادنیاکی چندروزہ زندگی کاسامان تومیں اسے بھی دوں گامگر آخر کاراسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گااوروہ بدترین ٹھکانہ ہے،اوریادکروابراہیم علیہ السلام اوراسمٰعیل علیہ السلام جب اس گھرکی دیواریں اٹھارہے تھے تودعاکرتے جاتے تھے اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے توسب کی سننے اورسب کچھ جاننے والاہے،اے رب! ہم دونوں کواپنامسلم(مطیع فرمان )بنا،ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو،ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتااورہماری کوتاہیوں سے درگزرفرماتوبڑامعاف کرنے والااوررحم فرمانے والاہے،اوراے رب! ان لوگوں میں خودانہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیوجوانہیں تیری آیات سنائے ،ان کوکتاب اورحکمت کی تعلیم دے اوران کی زندگیاں سنوارے ، تو بڑامقتدراورحکیم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے جووعدہ فرمایاتھا وہ پورافرمایااوران کولوگوں کی قیادت وامامت کامنصب عطافرمایا،چنانچہ اپنے گھرکی کلیدبرداری اوران کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کوسونپی اوراس گھرکولوگوں کے جمع ہونے کامرکزاورامن کاگہوارہ قراردیا،پھرابراہیم علیہ السلام کی دعاقبول فرمائی اوراسی بَلَدِ الْاَمِیْنِ میں ایک رسول مبعوث فرمایا،ابراہیم علیہ السلام نے اس شہرکوبَلَدِ الْاَمِیْنِ بنانے کی دعافرمائی تھی چنانچہ اسی دعاکی یہ برکت تھی کہ عرب میں ہرطرف پھیلی ہوئی بدامنی کے درمیان صرف یہی شہرڈھائی ہزارسال سے امن کاگہوارہ بناہواتھا ،قرآن مجیدکے مخاطب اس امرسے اچھی طرح واقف تھے ،انہوں نے اصحاب الفیل کی تباہی وبربادی کاحیرت انگیزتماشاخوداپنی آنکھوں سے دیکھاتھاکہ اس گھرکے خلاف سازش کرنے کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کوکیسی دردناک سزادی تھی،اس کے برعکس ذریت اسحاق علیہ السلام کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کاجووعدہ تھاوہ توپوراہوالیکن ساتھ ہی ان کی شرارتوں کے سبب سے ان کے مرکزیعنی بیت المقدس پرباربارنہایت ہولناک آفتیں آئیں ۔قدیم صحیفوں میں اس کی تباہیوں کی داستانیں مذکورہیں ،اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جزاوسزاکاجوعظیم الشان واقعہ بَلَدِ الْاَمِیْنِ میں پیش آیاوہ ایک ہمہ گیرنوعیت رکھتاہے،اس مباحث کاخلاصہ یہ ہے کہ ان مقامات کاذکراللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایاکہ ان میں جزاکے واقعات پیش آچکے ہیں اوراس پہلوسے ان کے اندر جزاکے واقع ہونے پرنہایت اہم شہادتیں مضمرہیں تاکہ لوگوں میں یہ یقین پیداہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوبے مقصدنہیں بنایاہے اورنہ وہ ان کے حالات سے بے خبرہے،چنانچہ اس نے محض ہدایت ورہنمائی ہی کے لئے کتابیں نازل کی ہیں اور انذاروتبشیرکاسلسلہ برابرجاری رکھاہے تاکہ انسانی فطرت کے اندرجن مدارج کمال تک پہنچنے کی استعداد موجودہے ان مدارج تک وہ پہنچ جائے اوراس بات کواس نے اس امرکی دلیل قراردیاہے کہ آخرت میں بھی جزاء کامعاملہ ضرورپیش آئے گا۔

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تین مقامات کی قسم کھاکربیان فرمایاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کوبہترین ساخت اورنہایت مستقیم فطرت پرپیداکیا،یعنی ظاہری طورپراسے متناسب اعضااور بلندقامت کے ساتھ پیداکیا،جیسے فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ۝۶ۙالَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙفِیْٓ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ [25]

ترجمہ:اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیاجس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا،اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا ؟۔

اس کوآزاداورکامل بنایا،اسے فکروفہم اورعلم وعقل کی وہ بلندپایہ قابلیتیں بخشی جوکسی دوسری مخلوق کونہیں بخشی ،اورباطنی طورپر خیروشر کی تمیزکے لئے اس کوالہام کی روشنی بخشی،جیسے فرمایا

 وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا۝۷۠ۙفَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا۝۸۠ۙ [26]

ترجمہ:اورنفس انسانی کی اوراس ذات کی قسم جس نے اسے ہموارکیاپھراس کی بدی اوراس کی پرہیزگاری اس پرالہام کردی۔

ارادہ اورفعل دونوں میں اس کوبالکل خود مختیار بنایا تاکہ وہ خوداپنے اختیار سے نفس کی برائی کے پہلوکودبائے اورتقویٰ کے پہلوکو اختیارکرے ، یعنی اس کی اطاعت وبندگی آزادانہ وخودمختارانہ ہو،محکومانہ ومجبوراًنہ نہ ہواوریقیناًیہ اطاعت وبندگی اس اطاعت وبندگی سے بدرجہاافضل ہے جس کے لئے کوئی مخلوق مجبورکردی گئی ہو ، پھر اس میں خیروشر کے دومتضادمیلانات رکھے اوردوسری طرف اس کوخیروشرکاعلم عطا فرمایا اورپھراس کی اصل فطرت محبت و خیرکے سانچہ میں ڈھال لی،یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ انسانی قویٰ کی تربیت واصلاح اوران کاعروج وکمال جدوجہدپرمنحصرہے،اس مقصدکے لئے ضروری ہواکہ انسان کواختیاروارادہ رکھنے والی مخلوق بنایاجائے تاکہ کھرے اورکھوٹے میں امتیازکی ایک بنیادقائم ہوسکے،یہی تزکیہ اورابتلاء کی حقیقت ہے، اگر یہ سعی اور جدوجہد کا قانون نہ ہوتاتوانسان اس رتبہ کمال کونہ پہنچ سکتاجواللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں ودیعت کیاہے اورجس کی وجہ سے وہ علم وعمل اورحکمت وپاکیزگی کی ایک بہترین مخلوق قرارپایاہے۔

پھرچونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیارکی حکمت سے سرفرازفرمایااس وجہ سے اس کے ساتھ وہ معاملہ کیاجوایک آزادوبااختیارمخلوق کے شایان شان ہےیعنی اس سے اطاعت وبندگی کاعہدلیااس کو مجبورو محکوم نہیں بنایااوراس طرح وہ جزاوسزاکامستحق ٹھہرا۔

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ ‎﴿٥﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُونٍ ‎﴿٦﴾(التین )

پھر اسے نیچوں سے نیچا کردیا، لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کئےتو ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔


انسان کی تکریم کے مختلف پہلوہیں اس سورت میں ایک پہلوبیان فرمایاکہ ہم نے انسان کوبہترین طورپرتخلیق کیاہے ،جس طرح انسان کی یہ خوبصورتی جسمانی اور ظاہری شکل کے اعتبارسے ہے اسی طرح عقلی وروحانی کمالات کے اعتبارسے بھی ہے ،انسان کوعطاکردہ ان عظیم نعمتوں پر شکرکرناچاہیے تھا،مگراکثرانسان منعم کے شکرسے منحرف اور لہو و لعب میں مشغول ہیں ،لوگ اپنے لئے پست ترین معاملے اور بد ترین اخلاق پرراضی ہیں ،چنانچہ صلاحیت اورعمل کے اختیارکے بعداگرکوئی انسان ناشکرا پن کاراستہ اختیار کرتا ہے،جسم اورذہن کی طاقتوں کوبرائی کے راستے میں استعمال کرتاہے ،حرص ،طمع، خودغرضی ،شہوت پرستی،نشہ بازی ،کمینہ پن،غیظ وغضب اورایسی ہی دوسری خصلتوں میں غرق ہوجاتاہے تواللہ تعالیٰ اسے انہی جیسے اعمال ہی کی توفیق دیتاہے اور پھراخلاقی حیثیت سے گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہاتک پہنچادیتاہے کہ کوئی ادنیٰ ترین مخلوق گراوٹ میں اس حدکوپہنچی ہوئی نہیں ہوتی یعنی حیوانی اورشہوانی زندگی کو اپنا مقصد حیات بناکر وہ حیوانوں سے بھی زیادہ پستیوں میں جاگرتاہے ،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹ [27]

ترجمہ:اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ۝۰ۭ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۝۴۴ۧ [28]

ترجمہ:کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔

تواللہ تعالیٰ انہیں جہنم کاسب سے نچلاحصہ جواپنے رب کی نافرمانی کرنے والے سرکشوں کامقام ہے میں گرادیتاہے ،اگرانسان ایمان وعمل صالح کی راہ کو اپنا مقصدحیات بنالے، اللہ تعالیٰ کواپنارب،اس کے رسولوں کواللہ کانائب،ان پرنازل کتابوں کو برحق،اچھی بری تقدیر، اللہ کی دوسری نظرنہ آنے والی مخلوقات جن وفرشتے وغیرہ اورروزآخرت پرایمان لائے اوررسول کے فرمان کے مطابق عمل صالح واخلاق فاضلہ پرقائم رہے،پس ان کے لئے ان اعمال کی وجہ سے بلنددرجات ہیں ،کبھی ختم نہ ہونے والااجرہے،بلکہ ان کے لئے وافرلذتیں ، متواترفرحتیں اوربکثرت نعمتیں اتنے عرصے تک حاصل ہوں گی جوکبھی ختم نہ ہوگا،وہ ایسی نعمتوں بھری جنت میں رہیں گے جوکبھی نہیں بدلے گی جس کے پھل اورسائے دائمی ہوں گے۔

فَمَا یُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّینِ ‎﴿٧﴾‏ أَلَیْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِینَ ‎﴿٨﴾‏ (التین )

پس تجھےابروزجزاکےجھٹلانےپرکونسی چیزآمادہ کرتی ہے،کیااللہ تعالیٰ سب حاکموں کاحاکم نہیں ہے؟۔


پس اے انسان !جب تواپنی پہلی اوراول مرتبہ پیدائش کوجانتاہے، تواللہ کی بے شمارنشانیوں کودیکھتاہے جن سے تجھے یقین حاصل ہو سکتا ہے تواللہ تعالیٰ کی انگنت نعمتوں کو بھی دیکھ چکاہےیہ سب چیزیں تجھ پرواجب ٹھہراتی ہیں کہ توحیات بعدالموت ،جزااوسزااورجنت ودوزخ میں سے کسی چیز کا انکارنہ کرے ،مگراتنی نشانیوں کے باوجود کون سی چیز تجھے اعمال کی جزاوسزاکے جھٹلانے پرآمادہ کرتی ہے ،تم سوچتے نہیں کہ کیااللہ تعالیٰ کی حکمت تقاضاکرتی ہے کہ مخلوق کوبے کار اورمہمل چھوڑدیاجائے ،ان کونہ حکم دیاجائے اور نہ کسی چیزسے روکاجائے،ان کواچھے اعمال کاثواب اوربرے اعمال کی سزانہ دی جائے؟جیسے فرمایا:

اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَ۝۳۵ۭمَا لَكُمْ۝۰۪ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ۝۳۶ۚ [29]

ترجمہ:کیاہم فرمانبرداروں کومجرموں کی طرح کردیں ؟تم لوگوں کو کیاہوگیاہے تم کیسے حکم لگاتے ہو؟ ۔

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۲۱ۧ [30]

ترجمہ:کیاوہ لوگ جنہوں نےبرائیوں کاارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اورایمان لانے والوں اورنیک عمل کرنے والوں کوایک جیساکردیں گے کہ ان کاجینااورمرنایکساں ہوجائے؟بہت برے حکم ہیں جویہ لوگ لگاتے ہیں ۔

وہ اللہ جس نے بنی نوع انسان کوکئی مراحل میں پیداکیا،ان کواتنی نعمتوں ،بھلائیوں اوراحسانات سے نوازاجن کاشمارہی نہیں کیاجاسکتا،اس کی بہترین طورپرپرورش کی،کیاوہ اطاعت گزاروں اورنافرمانوں کے درمیان انصاف نہیں کرے گا،کیاوہ نیکوکاروں کوحسن عمل کی بہترین جزااوربدترین افعال کرنے والوں کودردناک عذاب نہیں دے گا، یقیناً وہ قادر مطلق جوکسی پرظلم نہیں کرتااوراس کے عدل ہی کایہ تقاضاہے کہ قیامت برپاکریگا اوران سب کواس گھرکی طرف لوٹائے گاجوان کاٹھکانااوران کی غایت وانتہاہے،جس کاوہ قصد کرتے ہیں اورجس کی طرف وہ ارادہ رکھتے ہیں ۔

البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ: وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ فِی العِشَاءِ، وَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَوْتًا مِنْهُ أَوْ قِرَاءَةً

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء کی نماز میں سورہ التین پڑھتے ہوئے سنا اور میں نے آپ سے زیادہ خوش آواز یا اچھا پڑھنے والا نہیں سنا ۔[31]

 أَبَا هُرَیْرَةَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ مِنْكُمْ وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ، فَانْتَهَى إِلَى آخِرِهَا: {أَلَیْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِینَ} [32]، فَلْیَقُلْ: بَلَى، وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِینَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کوئی سورۂ التین پڑھے اور جب آخر میں پہنچے توکہے ہاں اورمیں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں ۔[33]

 عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون کااسلام:

عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونِ بْنِ حَبِیبِ بْنِ وَهْبِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ جُمَحَ یكنى أبا السائب وأمه سخیلة بِنْت العنبس

ان کانام عثمان والدکانام مظعون اورکنیت ابوالسائب تھی اوروالدہ کانام سخیلة بِنْت العنبس تھا ۔[34]

آپ قریش کے خاندان بنوجمح سے تعلق رکھتے تھے،

عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ قُدَامَةَ قَالَتْ:كَانَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ وَإِخْوَتُهُ مُتَقَارِبَیْنِ فِی الشَّبَهِ، كَانَ عُثْمَانُ شَدِیدَ الأُدْمَةِ لَیْسَ بِالْقَصِیرِ وَلا بِالطَّوِیلِ. كَبِیرَ اللِّحْیَةِ عَرِیضَهَا

عائشہ بنت قدامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اوران کے بھائی حلیے میں باہم ملتے جلتے تھے، عثمان رضی اللہ عنہ بہت سیاہ رنگ کے تھے،نہ بہت لانبے نہ بہت پستہ قد،داڑھی لمبی چوڑی تھی۔[35]

عثمان بن مظعون اپنے وعدے کےپکے،نیزہ وتلوارکے دھنی اور گھڑسواری کے ماہرتھے،آپ زمانہ جاہلیت میں بھی اس وقت کی تمام گندگیوں سے دورممتازاخلاق وکردارکے مالک تھے،اس دورمیں جب عرب کے ہرگھرکابچہ بچہ شراب کا رسیاتھاعثمان رضی اللہ عنہ کوام الخبائث سے شدیدنفرت تھی،

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ قَالَ:زَعَمُوا أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ حَرَّمَ الْخَمْرَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَقَالَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ: إِنِّی لا أَشْرَبُ شَیْئًا یُذْهِبُ عَقْلِی وَیُضْحِكُ بِی مَنْ هُوَ أَدْنَى مِنِّی وَیَحْمِلُنِی عَلَى أَنْ أُنْكِحَ كَرِیمَتَیَّ مَنْ لا أُرِیدُ

عبدالرحمٰن بن سابط کہتے ہیں عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے جاہلیت میں شراب کوحرام کرلیاتھا اورکہتے تھے میں کوئی ایسی چیزنہ پیوں گاجس سے میری عقل وفہم پرپردے پڑجائیں ، نشے میں دھت ہوکرشرابی اپنی زبان سے بیہودہ باتیں کہتاہے اورلوگوں کے مذاق کانشانہ بنتاہے اورمجھے اس کام پراکسائے کہ میں اپنی بیٹی کانکاح اس شخص سے کردوں جس سے میں نہیں چاہتا۔ [36]

ایسانیک فطرت انسان دین حق سے زیادہ دورنہیں رہ سکتاتھا

قَالَ ابْنُ إِسْحَاق: أَسْلَمَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ بْعد ثلاثة عشر رجلًا

چنانچہ ابن اسحاق کہتے ہیں ابھی صرف تیرہ نفوس ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحریک پرارقم بن الارقم،ابوسلمہ عبداللہ بن الاسد، ابوعبیدہ بن الجراح ، عبدالرحمٰن بن عوف اورعبیدہ بن الحارث کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوکرالسابقون الاولون کی صف میں شامل ہوگئے۔[37]

عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ: انْطَلَقَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ وَعُبَیْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُطَّلِبِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الأَسَدِ وَأَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَتَّى أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – فعرض عَلَیْهِمُ الإِسْلامَ وَأَنْبَأَهُمْ بِشَرَائِعِهِ فَأَسْلَمُوا جَمِیعًا فِی سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ وَذَلِكَ قَبْلَ دُخُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَارَ الأَرْقَمِ. وَقَبْلَ أَنْ یَدْعُوَ فِیهَا.

یزیدبن رومان کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے عثمان بن مظعون اورعبیدہ بن حارث بن مطلب اورعبدالرحمٰن بن عوف اورابوسلمہ بن عبدالاسد اورابوعبیدہ بن الجراح ایک جگہ جمع ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اورشریعت کی کچھ باتیں بتلائیں چنانچہ ان سب نے اسی وقت اس دعوت حقہ کوقبول کرلیا۔[38]

جب اہل مکہ کاظلم وستم شروع ہواتودوسرے کی طرح یہ بھی اس کانشانہ بنے،جب حالات ناقابل برداشت ہوگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کومشورہ دیاکہ وہ حبشہ کے منصف مزاج بادشاہ کے ملک میں جاکرپناہ حاصل کریں اورجب تک اللہ تعالیٰ معاملہ آسان نہ فرمادے وہیں قیام کریں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان سن کرایک بڑی تعداد ہجرت کے لئے تیارہوگئی مگرکیونکہ بیک وقت ایک کثیرتعدادکاہجرت کرناممکن نہیں تھااس لئے رجب میں گیارہ مرد اورچارخواتین پرمشتمل ایک قافلہ حبشہ روانہ ہوگیاجن میں عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون بھی شامل تھے،اس قافلہ کے امیربھی عثمان بن مظعون ہی تھے۔[39]

یہ لوگ کفارسے بچ کرنکل جانے میں کامیاب ہوگئے اورحبشہ میں امن وسکون سے رہنے لگے۔

عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، قَالَ: فلما بلغ من بالحبشة سجود أهل مكَّة مَعَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أقبلوا، ومن شاء اللَّه منهم، وهم یرون أنهم قَدْ تابعوا النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فلما ادنوا من مكَّة بلغهم الأمر، فثقل علیهم أن یرجعوا، وتخوفوا أن یدخلوا مكَّة بغیر جوار، فمكثوا حتَّى دخل كل رَجُل منهم بجوار من بعض أهل مكَّة، وقدم عثمان بْن مظعون بجوار الْوَلِید بْن المغیرة

ابن اسحاق کہتے ہیں حبشہ ہی میں مسلمانوں کوکسی طرح یہ خبرملی کہ مشرکین مکہ نے اسلام قبول کرلیاہےیایہ کہ مشرکین اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیام مفاہت ہوگئی ہے،یہ خبر سن کر اہل ایمان بہت خوش ہوئے اور واپسی کاقصدکیامگر جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تومعلوم ہواکہ یہ تومحض ایک افواہ تھی صحابہ کرام سوچ میں پڑگئے کہ آیاواپس حبشہ چلے جائیں یااپنے وطن میں داخل ہوکر مشرکین کے ظلم وستم کانشانہ بنیں ،آخریہ فیصلہ ہواکہ واپس حبشہ جانے کے بجائے اپنے رشتہ داروں ،دوست احباب یابعض قریشی سرداروں کی حمایت حاصل کرکے شہرمیں داخل ہو جائیں ، چنانچہ سب نے کسی نہ کسی طرح پناہ حاصل کرلی اورمکہ میں داخل ہوگئے، عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ولیدبن مغیرہ کی پناہ حاصل کرکے مکہ میں داخل ہوئے۔

جب مشرکین کاانسانیت سوزظلم وستم برداشت سے باہرہوگیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کودوبارہ حبشہ جانے کی اجازت فرمادی لیکن اب مشرکین مکہ بڑے چوکنا تھے ، اب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنااتنااسان نہ تھاپھربھی کسی نہ کسی طرح تریاسی مرداوربیس خواتین ہجرت کرکے حبشہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے،ان میں عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ،ان کے کمسن بیٹے سائب اوردوبھائی قدامہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مظعون بھی شامل تھے،مشرکین نے ان لوگوں کی واپسی کے جتن کیے اور ابوجہل کے ماں جائے بھائی عبداللہ بن ربیعہ اورعمروبن العاص کوقیمتی تحایف کے ساتھ نجاشی کے پاس بھیجامگران کی یہ سفارتی کوشش بری طرح ناکام ہوگئی اورالٹانجاشی مسلمان ہوگیا،جب مہاجرین کوعلم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ چلے گئے ہیں تویہ لوگ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرسایہ رہنے کے لئے بے قرارہوگئے ،ان میں ۳۳مرداورآٹھ خواتین مکہ مکرمہ کے راستے مدینہ منورہ جانے کے لئے تیارہوگئے ان میں عثمان رضی اللہ عنہ ،ان کے بیٹے سائب اوردونوں بھائی قدامہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مظعون بھی شامل تھے،مکہ مکرمہ میں چنددن قیام کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ اپنے تمام اہل وعیال کے ہمراہ مدینہ منورہ ہجرت کرگئے،

وَغُلِّقَتْ بُیُوْتُهُمْ بِمَكَّةَ

اورمکہ میں ان کے گھروں کوتالے لگ گئے،

مدینہ میں انہوں نے عبداللہ بن سلمہ عجلانی کے گھرپرقیام کیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان لوگوں کے آنے کی خبرہوئی توبہت خوش ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ اوران کے خاندان کومکانات کی تعمیرکے لئے ایک وسیع قطعہ اراضی مرحمت فرمایا،

آخَى رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبُو الهَیْثَمِ ابْنُ التَّیِّهَانِ وَبَیْنَ عُثْمَانَ بنِ مَظْعُوْنٍ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصارمیں مواخاة قائم فرمائی تو عثمان رضی اللہ عنہ کوجلیل القدرصحابی ابوالہیشم بن اتیہان انصاری کا بھائی بنایا۔[40]

عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں شامل ہوئے اوربڑی بہادری اورسرفروشی سے قریش کے ایک بہت بڑے بہادرجنگجواوس بن المعبربن نوران جومسلمانوں پربڑھ چڑھ کرحملے کررہاتھاکی طرف بڑھے،اسی اثنامیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بھی اس کی طرف بڑھے اوردونوں جانبازوں نے اس کاکام تمام کردیا،ایک اورمشرک حنظلہ بن قبیصہ کو مغلوب کرکےسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے گرفتارکرلیا،جنگ بدرسے واپس آئے تو علیل ہوگئے،انصاری بھائی اوران کے اہلیہ ام العلاء انصاریہ نے دلجمی اوردلسوزی کے ساتھ تیمارداری کی اورمعقول علاج کروایا مگر علالت کاسلسلہ طویل ہوتاگیا یہاں تک کہ ۲ہجری کے آخرمیں خالق حقیقی کی طرف سے بلاواآگیا،ان کی وفات پرمدینہ منورہ میں کہرام مچ گیااورجس جس نے ان کی رحلت کی خبرسنی ششدررہ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودچشم پرنم ام العلاء کے گھرتشریف لے گئے،

وروى ابْنُ عَبَّاس أن النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دخل عَلَى عثمان بْن مظعون حین مات، فانكب عَلَیْهِ ورفع رأسه، ثُمَّ حنى الثانیة، ثُمَّ قَالَ: اسْتَغْفِرُ اللَّهَ،أَذْهِبْ علیك أَبَا السَّائِبِ، فقد خرجت مِنْهَا وَلَمْ تَلَبَّسْ مِنْهَا بِشَیْءٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب عثمان بن مظعون فوت ہوگئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے اور میت کی پیشانی پرتین بار بوسہ دیااور گلوگیرہوکرفرمایا میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری مغفرت کی دعا کرتاہوں ،ابوالسائب میں تم سے جداہوتاہوں تم دنیاسے اس طرح رخصت ہوئے کہ تمہارادامن ذرہ برابراس سے آلودہ نہ ہونے پایا ۔[41]

فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِی عَلَیْكَ: لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَمَا یُدْرِیكِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ؟فَقُلْتُ: بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ یُكْرِمُهُ اللَّهُ؟فَقَالَ:أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الیَقِینُ، وَاللَّهِ إِنِّی لَأَرْجُو لَهُ الخَیْرَ، وَاللَّهِ مَا أَدْرِی، وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ، مَا یُفْعَلُ بِی،قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لاَ أُزَكِّی أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا حَدَّثَنَا

ام العلا رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میت کومخاطب ہوکر کہا ابوالسائب! تم پراللہ کی رحمت ہومیں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ نے تمہیں معزز کیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ سے غایت درجہ محبت فرماتے تھے مگران کی بات سن کرفرمایاام العلاء رضی اللہ عنہا تمہیں یہ کیسے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معززفرمایاہے؟انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ انہیں معززنہیں فرمائے گاتوکسے فرمائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پر موت آئی ہے بخدا میں اس کے لئے خیر کا امیدوار ہوں بخدا میں یقین کے ساتھ نہیں جانتا ہوں حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا، ام علاء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بخدا میں نے اس کے بعد کسی کے متعلق کبھی بھی پاک ہونے کی شہادت نہیں دی۔[42]

جَاءَتْ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِیمٍ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ

عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی کانام خولہ بنت حکیم تھاجن کاتعلق قبیلہ سلیم سے تھا۔[43]

اور مسنداحمدکے مطابق رشتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں ،یہ بہت ہی عبادت گزاراورنیک سیرت خاتون تھیں اپنے شوہرکی وفات کے بعددوسرانکاح نہیں کیا،عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ عبادت میں اس قدرمحوہوگئے کہ بیوی بچوں سے غافل ہو گئےجس کے نتیجہ میں ان کی زوجہ نے بناؤ سنگار چھوڑدیا اوربہت ہی سادہ حالت میں رہنے لگیں ۔

دَخَلَتِ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بنِ مَظْعُوْنٍ عَلَى نِسَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَیْنَهَا سَیِّئَةَ الهَیْئَةِ فَقُلْنَ لَهَا: مالك? فَمَا فِی قُرَیْشٍ أَغْنَى مِنْ بَعْلِكِ! قَالَتْ أَمَّا لَیْلُهُ فَقَائِمٌ وَأَمَّا نَهَارُهُ فَصَائِمٌ،فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَ ذَلِكَ لَهُ فَلَقِیَهُ فَقَالَ:یَا عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ، أَمَا لَكَ بِیَّ أُسْوَةٌ؟فَقَالَ: یَا بِأَبِی وَأُمِّی وَمَا ذَاكَ؟قَالَ:تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّیْلَ، قَالَ: إِنِّی لَأَفْعَلُ،قَالَ:لَا تَفْعَلْ إِنَّ لِعَیْنَیْكَ عَلَیْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِجَسَدِكَ حَقًّا وَإِنَّ لِأَهْلِكَ حَقًّا فَصَلِّ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ فَأَتَتْهُنَّ بَعْد ذَلِكَ عَطِرَةً كَأَنَّهَا عَرُوْسٌ

ایک دن اتفاق سے حرم نبوی میں آئیں توامہات المومنین نے انہیں اس قدر سادہ حالت میں دیکھا تو بڑی حیران ہوئیں اورپوچھاخولہ یہ آپ نے اپنی کیاحالت بنارکھی ہے تمہارے شوہرتوقریش کے آسودہ حال لوگوں میں شمارہوتے ہیں ،وہ بولیں میراان سے کیاواسطہ ہےوہ تودن بھرروزے سے ہوتے ہیں اوررات بھرنمازیں پڑھتے ہیں ،امہات المومنین بات کی تہہ تک پہنچ گئیں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عثمان رضی اللہ عنہ کی عبادت کاتذکرہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھرتشریف لے گئے اور فرمایا اےعثمان!کیامیری ذات تمہارے لئے نمونہ نہیں ہے؟انہوں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پرقربان یہ کیابات ہوئی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم مسلسل روزے رکھتے ہواوررات بھرعبادت میں مصروف رہتے ہو،انہوں نے عرض کیاجی ہاں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسانہ کروتم پرتمہاری آنکھوں کاحق ہے،تمہارے جسم کاتم پرحق ہے، اور تمہارے بیوی بچوں کاحق بھی تم پرہے،نمازیں بھی پڑھواورآرام بھی کرو روزے بھی رکھواورافطاربھی کرو، عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آئندہ اسی طرح عمل کروں گا،اس واقعہ کے چنددن بعد ان کی زوجہ پھراتفاق سے حرم نبوی میں حاضر ہوئیں توانہوں نے اچھالباس اوربناؤ سنگار کر رکھا تھاگویاوہ دلہن ہیں ۔[44]

عثمان رضی اللہ عنہ نہایت عبادت گزار، مجسمہ خشیت الہی،وعدے کے پکے اورفیاض تھے۔

عُمَارَةَ بْنِ غُرَابٍ الْیَحْصِبِیِّ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّی لا أُحِبُّ أَنْ تَرَى امْرَأَتِی،قال رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَلِمَ؟قَالَ:أَسْتَحْیِی مِنْ ذَلِكَ وَأَكْرَهُهُ،قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَعَلَهَا لَكَ لِبَاسًا وَجَعَلَكَ لَهَا لِبَاسًافلما أدبر قال رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ابْنَ مَظْعُونٍ لَحَیِیٌّ سِتِّیرٌ

عمارہ بن غراب سے مروی ہےایک روزعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے(اور اپنی طبیعت کے رجحان کاذکرکیا) اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نہیں چاہتاکہ مجھے میری عورت دیکھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکیوں ؟ انہوں نے کہامیں اس سے شرماتاہوں اوراسے ناپسندکرتاہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عثمان!اللہ نے تمہاری بیوی کوتمہارے لئے اور تمہیں اس کے لئے پردہ بنایاہےجب وہ مجلس نبوی سے رخصت ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریفی لہجے میں فرمایا عثمان بن مظعون بڑے حیاداراورسترچھپانے والے ہیں ۔[45]

عَنْ أَبِی قِلابَةَ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ اتَّخَذَ بَیْتًا فَقَعَدَ یَتَعَبَّدُ فِیهِ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ فَأَخَذَ بِعِضَادَتَیْ بَابِ الْبَیْتِ الَّذِی هُوَ فِیهِ فَقَالَ: یَا عُثْمَانُ إِنَّ اللَّهَ لَمْ یَبْعَثْنِی بِالرَّهْبَانِیَّةِ. مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاثًا وَإِنَّ خَیْرَ الدِّینِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِیفِیَّةُ السَّمْحَةُ

ابی قلابہ سے مروی ہےعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے ایک کوٹھڑی بنائی ہوئی تھی جس میں بیٹھ کروہ عبادت کیاکرتے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہواتوان کے پاس آئے اوراس کوٹھڑی کادروازے کاایک پٹ پکڑکردویاتین بارفرمایااے عثمان رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ نے مجھے رہبانیت کے ساتھ مبعوث نہیں فرمایااللہ کے نزدیک سب سے بہترین دین حنفیہ (یعنی خالص توحیدودین ابراہیمی)ہے۔[46]

وَشَهِدَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ بَدْرًا وَمَاتَ فِی شَعْبَانَ عَلَى رَأْسِ ثَلاثِینَ شَهْرًا مِنَ الْهِجْرَةِ

عثمان بن مظعون غزوہ بدرمیں شریک ہوئے اورہجرت کے تیسویں مہینے شعبان میں وفات پائی ۔[47]

وهو أول رَجُل مات بالمدینة من المهاجرین

آپ مہاجرین مکہ میں پہلے شخص تھے جو مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔[48]

كَانَ عُثْمَان بْن مظعون أول رجل مات بالمدینة من المهاجرین بعد ما رجع من بدر

عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ مہاجرین مکہ میں پہلے شخص تھے جومدینہ منورہ میں غزوہ بدر کے بعد فوت ہوئے۔[49]

أول من دفن بالبقیع عُثْمَان بْن مظعون أَبُو السائب

آپ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ابوسائب پہلے صحابی رسول ہیں جنہیں جنت البقع میں دفن کیاگیا۔[50]

 فلما غسل وكفن قبل رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بین عینیه

جب انہیں غسل اورکفن پہنادیاگیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔[51]

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ , فَكَبَّرَ أَرْبَعًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی اورچارتکبیرات کہیں ۔[52]

نَزَلَ فِی قَبْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – قَائِمٌ عَلَى شَفِیرِ الْقَبْرِ. عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَظْعُونٍ وَقُدَامَةُ بْنُ مَظْعُونٍ وَالسَّائِبُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَمَعْمَرُ بْنُ الْحَارِثِ

عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبرمیں عبداللہ بن مظعون اور قدامہ رضی اللہ عنہ بن مظعون اورسائب بن عثمان ابن مظعون اورمعمربن حارث اترے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبرکے کنارے کھڑے تھے۔[53]

فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَجَرًا عِنْدَ رَأْسِهِ

دفن کرنے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبر پر علامت کے طورپرسرکی طرف ایک پتھررکھا۔[54]

[1] القلم ۳۵،۳۶

[2] البقرة۲۸

[3] ابراہیم۱۰

[4] القصص۵۹

[5] الانعام۱۳۱

[6] یونس۴۷

[7] النسائ۱۶۵

[8] تفسیرطبری۶۰۳؍۲۴

[9] تفسیرطبری۵۰۳؍۲۴

[10] الاعراف۲۲

[11] الاعراف۲۷

[12] الاعراف۲۳

[13] البقرة۳۷تا۳۸

[14] ھود۴۴

[15] ھود۴۸

[16] لوقا۲۲:۳۹۔۵۲

[17]المائدة۷۱

[18] الزخرف۵۴تا۵۶

[19] الاعراف۱۳۷

[20]القصص۴تا۶

[21] البقرة۱۲۴

[22] الصافات۱۱۲

[23] الانبیائ۱۰۷

[24] البقرة ۱۲۴تا۱۲۹

[25] الانفطار۶تا۸

[26]الشمس۷،۸

[27] الاعراف۱۷۹

[28] الفرقان۴۴

[29] القلم ۳۵،۳۶

[30] الجاثیة۲۱

[31] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ القِرَاءَةِ فِی العِشَاءِ ۷۶۹،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ القِرَاءَةِ فِی العِشَاءِ۱۰۳۹

[32] [التین: 8

[33] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ التِّینِ۳۳۴۷،سنن ابوداودکتاب الصلاةبَابُ مِقْدَارِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ۸۸۷،مسند احمد۷۳۹۱

[34]أسدالغابة فی معرفة الصحابة۵۸۹؍۳

[35] ابن سعد۳۰۵؍۳

[36] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۵۴؍۳،سیر أعلام النبلاء۱۰۱؍۳،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۵۸۹؍۳

[37] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۵۳؍۳، سیر أعلام النبلاء۱۰۱؍۳،الإصابة فی تمییز الصحابة۳۸۱؍۴

[38] ابن سعد۳۰۰؍۳

[39] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۵۴۷؍۱

[40] سیر أعلام النبلاء۱۲۱؍۳

[41] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۵۵؍۳،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۵۸۹؍۳، سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۵۴۸؍۱

[42] صحیح بخاری كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَیِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِی أَكْفَانِهِ

[43] مسنداحمد۲۵۷۶۹

[44] ابن سعد۳۰۲؍۳،سیر أعلام النبلاء۱۰۱؍۳

[45] ابن سعد۳۰۱؍۳

[46] ابن سعد۳۰۲؍۳

[47] ابن سعد۳۰۳؍۳

[48] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۵۸۹؍۳

[49]( الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۵۳؍۳)

[50] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۰۵۵؍۳،أسد الغابة فی معرفة الصحابة ۵۸۹؍۳، سیر أعلام النبلاء۱۸۷؍۳

[51] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۵۳؍۳

[52] معجم الصحابة لابن قانع۳۵۹؍۲،تاریخ دمشق لابن عساکر۳۰؍۹

[53] ابن سعد۳۰۳؍۳

[54] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۵۴؍۳،سیر أعلام النبلاء۱۰۱؍۳،ابن سعد۳۰۳؍۳

Related Articles