بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ الزلزال

اس میں زلزلے کی خبردی گئی ہے ،بعض مفسرین نے اس زلزلہ سے مرادوہ پہلازلزلہ لیاہے جس سے قیامت کے پہلے مرحلے کاآغازہوگا، کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اورجب ساری مخلوق ہلاک ہو جائے گی،لیکن مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک اس سے مرادوہ زلزلہ ہے جس سے قیامت کادوسرامرحلہ شروع ہوگایعنی جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے کیونکہ بعدکاسارامضمون اسی بات پردلالت کرتا ہے اس لئے دوسری تفسیرصحیح ہے، اس سورہ میں موت اور موت کے بعدکی زندگی کے ذکر میں ایک انوکھااور نرالا انداز اختیارکیاگیا کہ حشرکے میدان میں انسان کی زندگی کے اعمال کاپوراکچاچٹھا مکمل طورپراس کے سامنے ا ٓجائے گا ، انسان اس دنیاکی رنگینیوں اورچکاچوندروشنی میں اس قدر غرق ہوچکا ہے کہ اس کو موت کا احساس تک نہیں مگرجوں ہی موت کافرشتہ آئے گا تو یہ غافل انسان حسرت سے کہے گا کہ یہ کیاہوگیا؟موت کے بعدانسان زمین کے گوشے گوشے سے گروہ درگروہ دوبارہ زندہ ہوکراپنے مرقدوں سے نکل آئیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کودکھائے جائیں اور اعمال کی یہ پیشی ایسی مکمل اورمفصل ہوگی کہ کوئی ذرہ برابرنیکی یابدی بھی ایسی نہ رہ جائے گی جوسامنے نہ آجائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بدوکے سامنے آیت

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ

پڑھی،اس نے کہااے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !بس مجھے زندگی بھرکے لیے یہی ایک آیت کافی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ بات اس کی سمجھ میں آگئی ہے، یہ دوسری زندگی بڑی حیران کن ہوگی ،اللہ تعالیٰ کے حکم سے بے جان زمین کلام کرے گی اور انسان کے افعال واقوال اورحرکات وسکنات کی گواہی دے گی کہ کون ساعمل کہاں اور کن اوقات میں کیاگیا تھا ، زمین کاذرہ ذرہ اپنے راز اور بوجھ اگل دے گا، ہرانسان کواس کی اچھائی اوربرائی کا ذرا ذرا بدلہ دیاجائے گا انسان اپنے اعمال کی بدولت دو گروہوں میں بٹ جائیں گے ایک گروہ شقی لوگوں کااورایک گروہ سعید لوگوں کاہوگا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا ‎﴿١﴾‏ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا ‎﴿٢﴾‏ وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا ‎﴿٣﴾‏ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ‎﴿٤﴾‏ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا ‎﴿٥﴾‏ (الزلزال)

جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، انسان کہنے لگے گا اسے کیا  ہوگیا ؟اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی اس لیے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔


جب قیامت کے پہلے مرحلہ میں صورپھونکتے ہی زمین کوجھٹکے پرجھٹکے دے کرشدت کے ساتھ ہلادیاجائے گا،پھردوسرے صورمیں زمین اپنے اندرانسانوں ،ان کے افعال واقوال اورحرکات وسکنات کی شہادتوں کاانبار، سونا چاندی ، جواہر اورہرقسم کی دولت کے ڈھیرکے ڈھیر سب باہرنکال پھینکے گی،جیسے فرمایا:

وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ۝۳ۙوَاَلْقَتْ مَا فِیْهَا وَتَخَلَّتْ۝۴ۙۙ [1]

ترجمہ:اور جب زمین پھیلا دی جائے گی اورجوکچھ اس کے اندرہے اسے باہرپھینک کرخالی ہوجائے گی۔

اورانسان قبروں سے جسم وجان کے ساتھ باہرنکل کرآئیں گے،جیسے فرمایا:

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا۔۔۔[2]۝۵۲

ترجمہ:پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے گھبرا کر کہیں گے ارےیہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھاکھڑاکیا؟ ۔

پھر جیسے ہی ہوش میں آئیں گے زمین کو اپنا سوناچاندی جواہروغیرہ باہرنکال کرپھینکتے دیکھ کر دہشت زدہ ہوکر کہیں گے کہ زمین کیوں اس طرح ہل رہی ہے اور اپنے خزانے اگل رہی ہے، بعد میں انسانوں پریہ بات کھلے گی کہ یہ توروز حشرہے جس کوہم بعید ازقیاس سمجھتے تھے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَقِیءُ الْأَرْضُ أَفْلَاذَ كَبِدِهَا، أَمْثَالَ الْأُسْطُوَانِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، فَیَجِیءُ الْقَاتِلُ فَیَقُولُ: فِی هَذَا قَتَلْتُ، وَیَجِیءُ الْقَاطِعُ فَیَقُولُ: فِی هَذَا قَطَعْتُ رَحِمِی، وَیَجِیءُ السَّارِقُ فَیَقُولُ: فِی هَذَا قُطِعَتْ یَدِی، ثُمَّ یَدَعُونَهُ فَلَا یَأْخُذُونَ مِنْهُ شَیْئًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کوقے کردے گی جیسے سونے اورچاندی کے بڑے کھمبے ہوتے ہیں ،چوربھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں میں نے ہاتھ کٹوادیے تھے،قاتل اسے دیکھ کرافسوس کرتاہوئے کہے گاکہ ہائے اسی مال کے لئے میں نے فلاں کوقتل کیاتھا،اسی طرح صلہ رحمی توڑنے والا بھی کہے گاکہ اسی کی محبت میں آکررشتے داروں سے میں سلوک نہیں کرتاتھا الغرض وہ مال یونہی رلتاپھرے گا اوراسے کوئی نہیں اٹھائے گا۔[3]

عذاب جہنم سے بچنے کے لئے مجرم اپنے جرم سے ہی انکارکردیں گے تواللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو مجسم شکل عطافرمائے گااوروہ گواہوں میں شامل ہوکران کے خلاف گواہی دیں گے ،یعنی ہرچیزکے کان ،آنکھیں اورشعورہےجس سے انہیں اپنے ماحول کاادراک ہوتاہے اوران کی اپنی ایک یاداشت بھی ہے جس کی بناپرجوکچھ ان پروارد ہوتاہے ہمیشہ یادرکھتی ہیں اوروقت آنے پرظاہرکردیں گی ،اللہ تعالیٰ انسانوں کے اعضاکوزبان عطا فرمائےگااورانسان کے ہاتھ ،پاؤ ں ،آنکھیں ،کان ،کھال اورزبان اس کے خلاف گواہی دیں گے،جیسے فرمایا:

 اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَیْدِیْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۶۵ [4]

ترجمہ:آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، اِن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤ ں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۴ [5]

ترجمہ:وہ اس دن کوبھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اوران کے اپنے ہاتھ پاؤ ں اس کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے ۔

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ ۔۔۔۝۲۱ [6]

ترجمہ: پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے توان کے کان اوران کی آنکھیں اوران کے جسم کی کھالیں ان پرگواہی دیں گی کہ وہ دنیامیں کیاکچھ کرتے رہے ہیں ،وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟وہ جواب دیں گی ہمیں اسی اللہ نے گویائی دی ہے جس نے ہرچیز کو گویا کردیاہے۔

یعنی انسان کااپناجسم بھی اس کادوست نہیں بلکہ ہمارے اوپراللہ تعالیٰ کاجاسوس ہے،ہاتھ پاؤ ں عقل دماغ سب اسی وقت تک ہمارے ہیں جب تک ہم ان سے اچھے کام لیتے ہیں اگرانہیں غلط کاموں کے لیے استعمال کیاتوعالم آخرت میں یہی ہمارے دشمن ہوں گے ،پھراللہ تعالیٰ زمین کوشہادت دینے کے لئے کہے گاتاکہ انسان خوداپنے کرتوتوں کی داستان سن لے اورکوئی بہانہ نہ بناسکے،پس زمین نافرمانی نہیں کرے گی اورکھلے طورپرعمل کرنے والوں کے اچھے برے اعمال کی صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے اس کی پشت پرفلاں فلاں نافرمانی کی ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا أَنْ تَقُولَ: عَمِلَ كَذَا وَكَذَا یَوْمَ كَذَا وَكَذَا قَالَ: فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ’’اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی ۔‘‘پڑھ کرپوچھاجانتے ہواس کے وہ حالات کیاہیں ؟لوگوں نے عرض کیا اللہ اوراس کے رسول کوزیادہ علم ہے،فرمایا وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہربندے اوربندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جواس کی پیٹھ پراس نے کیاہوگا،وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیاتھا،یہ ہیں وہ حالات جوزمین بیان کرے گی۔[7]

رَبِیعَةَ الْجُرَشِیَّ یَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تَحَفَّظُوا مِنَ الْأَرْضِ، فَإِنَّهَا أُمُّكُمْ، وَإِنَّهُ لَیْسَ مِنْ أَحَدٍ عَامِلٌ عَلَیْهَا خَیْرًا أَوْ شَرًّا، إِلَّا وَهِیَ مُخبرة

ربیعة الخرشی سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاذرازمین سے بچ کر رہناکیونکہ یہ تمہاری جڑبنیادہے، اوراس پرعمل کرنے والاکوئی شخص ایسانہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا برا ۔[8]

عنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْأَرْضَ لَتُخْبِرُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِكَلِّ عَمَلٍ عُمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا وَقَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے روززمین ہراس عمل کولے آئے گی جواس کی پیٹھ پرکیاگیاہوپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیات ’’ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی ‘‘تلاوت فرمائیں ۔[9]

 یَوْمَئِذٍ یَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّیُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ‎﴿٦﴾‏ فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَهُ ‎﴿٧﴾‏ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ ‎﴿٨﴾‏(الزلزال )

اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں ، پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔


زمین وآسمان اوراس کانظام بدل دیا جائے گی،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۴۸ [10]

ترجمہ: ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بےنقاب حاضر ہو جائیں گے۔ اورانسان اپنے مرقدوں سے انہی جسموں کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوکرمیدان محشرکارخ کریں گے،جیسے فرمایا

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا۝۱۸ۙ [11]

ترجمہ:جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔

یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۝۴۳ۙ [12]

ترجمہ:جب یہ اپنی قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑے جارہے ہوں گے جیسے اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑے جارہے ہوں ۔

وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِیْبٍ۝۴۱ۙیَّوْمَ یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَةَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُرُوْجِ۝۴۲ [13]

ترجمہ:اور سنو، جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے ) قریب ہی سے پکارے گا،جس دن سب لوگ آوازۂ حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے ، وہ زمین سے مردوں کے نکلنے کا دن ہوگا۔

جہاں ہرشخص کوكِرَامًا كَاتِبِینَ کالکھاہوااعمال نامہ جس میں ایک ایک قول اورفعل درج ہوگا اس کے ہاتھ میں تھمادیاجائے گا،جیسے فرمایا

اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۝۱۷مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ۝۱۸ [14]

ترجمہ: (اورہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ)دوکاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہرچیزثبت کررہے ہیں کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتاجسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضرباش نگراں موجودنہ ہو۔

وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ۝۱۰ۙكِرَامًا كَاتِبِیْنَ۝۱۱ۙیَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۱۲ [15]

ترجمہ:حالانکہ تم پرنگران مقرر ہیں ،ایسے معززکاتب جوتمہارے ہرفعل کوجانتے ہیں ۔

انسان کوکہا جائے گاآج تو اپنانامہ اعمال پڑھ کرخودہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ تیرے ساتھ کیاسلوک ہوناچاہیے،جیسے فرمایا:

 اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا۝۱۴ۭ [16]

ترجمہ:پڑھ اپنانامہ اعمال آج اپنا حساب لگانے کے لئے توخودہی کافی ہے۔

جب انسان چاہے وہ پڑھا لکھاتھایاجاہل اپنااعمال نامہ پڑھے گاتوچھوٹی بڑی ہرچیزکودرج دیکھ کرحیران رہ جائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۔۔۔۝۴۹ۧ [17]

ترجمہ:اورکہے رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی !یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہوگئی ہو،جوکچھ انہوں نے کیاتھاوہ سب اپنے سامنے حاضرپائیں گے۔

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ۝۰ۙ فَیَقُوْلُ هَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ۝۱۹ۚاِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ۝۲۰ۚ [18]

ترجمہ: اس وقت جس کانامہ عمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیاجائے گاوہ کہے گالو دیکھو پڑھو میرا نامۂ اعمال، میں سمجھتا تھاکہ مجھے ضروراپناحساب ملنے والاہے۔

جبکہ بائیں ہاتھ کے نامہ اعمال والے بجھ کررہ جائیں گے ،جیسے فرمایا:

وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَةٌ۝۲۴ۙتَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ۝۲۵ۭ [19]

ترجمہ:اور کچھ چہرے اداس ہوں گے،اور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔

وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ۝۴۰ۙتَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ۝۴۱ۭاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ۝۴۲ۧ [20]

ترجمہ:اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی یہی کافر و فاجر لوگ ہیں ۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ۝۲ۙ [21]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روز خوف زدہ ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ میدان محشرمیں ٹھیک ٹھیک تولنے والاانصاف کاترازو نصب فرمائے گا ،جیسے فرمایا:

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِهَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [22]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

انبیاء اورتمام گواہ موجودہوں گے ،جیسے فرمایا:

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِایْۗءَ بِالنَّـبِیّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۝۶۹ [23]

ترجمہ:زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام گواہ حاضر کر دیے جائیں گے ، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نیکی وبدی کے ہرچھوٹے بڑے عمل کووزن عطا کرے گا،جیسے فرمایا:

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۔۔۔۝۸ [24]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا۔

اورہرشخص اپنے اعمال کوترازو کے پلڑے میں تلتادیکھ لے گاجس کے مطابق یاتووہ شخص سعیدلوگوں میں ہوجائے گایاشقی لوگوں میں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّسَعِیْدٌ۝۱۰۵ [25]

ترجمہ:پھر کچھ لوگ اس روز بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ۔

شقی لوگ عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنے جرم سے ہی انکارکردیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو مجسم شکل عطافرمائے گااوروہ گواہوں میں شامل ہوکران کے خلاف گواہی دیں گے ،اللہ تعالیٰ ان کے اعضاکوزبان عطافرمائیں گے اورانسان کے ہاتھ ،پاؤ ں ،آنکھیں ، کان ،کھال اورزبان اس کے خلاف گواہی دیں گے،جیسے فرمایا:

یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۴ [26]

ترجمہ:وہ اس دن کوبھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اوران کے اپنے ہاتھ پاؤ ں اس کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے ۔

حَتّٰٓی اِذَا مَاجَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ ۔۔۔۝۲۱ [27]

ترجمہ: پھرجب سب وہاں پہنچ جائیں گے توان کے کان اوران کی آنکھیں اوران کے جسم کی کھالیں ان پرگواہی دیں گی کہ وہ دنیامیں کیاکچھ کرتے رہے ہیں ،وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟وہ جواب دیں گی ہمیں اسی خدانے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویاکردیا ہے۔

فیصلے کے بعدسعیدلوگوں کی ٹولیوں کے چہرے شاداب، روشن اوربے خوف ہوں گے اوروہ دائیں جانب جنتوں کی طرف گامزن ہوں گے جبکہ شقی لوگوں کی ٹولیوں کے جھکے ہوئے چہرے پشیمان ،مضطرب اورسیاہ ہوں گے اوروہ بائیں جانب جہنم کی طرف سرکے بالوں اورپاؤ ں سے پکڑکر گھسیٹے جارہے ہوں گے، اوروہ تمناکریں گے کہ کاش !ابھی یہ دن اس سے بہت دورہوتا،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا۝۰ۚۖۛ وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۚۛ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهٗٓ اَمَدًۢا بَعِیْدًا۝۰ۭ وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهٗ۝۰ۭ وَاللهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۝۳۰ۧ [28]

ترجمہ:وہ دن آنے والاہے جب ہر نفس اپنے کیے کاپھل حاضر پائے گاخواہ اس نے بھلائی کی ہو یابرائی ،اس روز آدمی یہ تمناکرے گاکہ کاش! ابھی یہ دن اس سے بہت دورہوتا۔

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَأْكُلُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ} [29]خَیْرًا یَرَهُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ یَدَهُ مِنَ الطَّعَامِ، وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّی أُجْزَى بِمَا عَمِلْتُ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ مِنْ شَرٍّ؟ فَقَالَ:یَا أَبَا بَكْرٍ، مَا رَأَیْتَ فِیَ الدُّنْیَا مِمَّا تَكْرَهُ فَمَثَاقِیلُ ذَرِّ الشَّرِّ، وَیَدَّخِرُ لَكَ اللَّهُ مَثَاقِیلَ الْخَیْرِ حَتَّى تَوَفَّاهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےجب آیت’’ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ‘‘ نازل ہوئی اس وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھاناکھارہے تھےجسے سن کروہ بہت روئے اورپوچھنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں ایک ایک ذرے کابدلہ دیاجاؤ ں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ !ذرہ برابر برائی بھی تجھے دنیا میں ناپسندیدہ محسوس ہوتی ہے اور اگر ا سکے برعکس ذرہ برابر نیکی ہوتو اسے جمع کر لینے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرنا کیونکہ اچھائی اور برائی کا بدلہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت عطا فرمائے گا۔[30]

أَنَّهُ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ عَلَیْهِ:فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَرَهُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ، قَالَ: حَسْبِی، لَا أُبَالِی أَنْ لَا أَسْمَعَ غَیْرَهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صعصعہ بن مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ آیت پڑھی انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بس مجھے زندگی بھرکے لئے یہی ایک آیت کافی ہے ،اورزیادہ اگرنہ بھی سنوں توکوئی ضرورت نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ بات اس کی سمجھ میں آگئی ہے۔[31]

اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی ترغیب دلائی ،

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا سَیُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَیْسَ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَیَنْظُرُ أَیْمَنَ مِنْهُ فَلاَ یَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلِهِ، وَیَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلاَ یَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ، وَیَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْهِ فَلاَ یَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر آدمی سے اللہ قیامت کے دن گفتگو فرمائے گا اس طرح کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا پھر وہ اپنے دائیں جانب دیکھے گاتواسے اپنے اعمال کے سوااورکچھ نظرنہیں آئے گا پھر وہ اپنے بائیں جانب دیکھے گاتواسے اپنے اعمال کے سوااورکچھ نظرنہیں آئے گا پھر اپنے سامنے نظر کرے گاتواپنے سامنے جہنم کے سوااورکوئی چیزنظرنہیں آئے گی، اس لئے تم میں سے جو شخص آگ سے بچنا چاہے (تو وہ بچے) اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔[32]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ

اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااحسان اور نیکی کوہلکانہ سمجھواوریہ بھی ایک احسان ہے کہ اپنے کسی مسلمان بھائی سے کشادہ روئی اورخندہ پیشانی سے ملاقات کرلو ۔[33]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یَا نِسَاءَ المُسْلِمَاتِ، لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ایمان والی عورتو!تم اپنی پڑوسن کے بھیجے ہوئے تحفے ،ہدیئے کوحقیرنہ سمجھوگوایک کھر ہی آیاہو۔[34]

عَنْ ابْنِ بُجَیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ، عَنْ جَدِّتِهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:رُدُّوا السَّائِلَ وَلَوْ بِظِلْفٍ مُحْرَقٍ

ابن بجیدانصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی دادی سے سنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسائل کوکچھ نہ کچھ دے دوگوجلاہواکھرہی ہو۔[35]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:قَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَائِشَةُ إِیَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ، فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا !گناہوں کو حقیر نہ سمجھویاد رکھو کہ اللہ ان کابھی حساب لینے والاہے۔[36]

 صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان

صُهَیْبُ بْنُ سِنَانِ بْن مالك وأمه سلمى بِنْت قعید،وكان أَبُوهُ سِنَان بْن مالك. أو عمه. عاملًا لكسرى على الأبلة

ان کانام صہیب بن سنان اور والدکانام سنان بن مالک اوروالدہ کانام سلمیٰ بنت قعیدتھا یہ خاندان اپنے علاقے میں بہت معززتھاسنان بن مالک یاان کے بھائی لبیدشاہ ایران کی طرف سے ابلہ کے حاکم تھے۔[37]

وَیُقَالُ: إنَّهُ رُومِیٌّ ،فَقَالَ بَعْضُ مَنْ ذَكَرَ أَنَّهُ مِنْ النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ

کہاجاتاہے کہ صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان روم سے تعلق رکھتے تھےبعض کہتے ہیں بنی نمربن قاسط سے تعلق رکھتے تھےجن کاعلاقہ موصل کے قریب تھا۔

وَیُقَالُ: كَانَوا فِی قَرْیَةٍ عَلَى شَطِّ الْفُرَاتِ مِمَّا یَلِی الْجَزِیرَةَ وَالْمَوْصِلِ فَأَغَارَتِ الرُّومُ عَلَى تِلْكَ النَّاحِیَةِ فَسَبَتْ صُهَیْبًا وَهُوَ غُلَامٌ صَغِیرٌ فَقَالَ عَمُّهُ: أَنْشُدُ اللَّهَ، الْغُلَامُ النَّمَرِیُّ، دَجٌّ وَأَهْلِی بِالثَّنِیِّ، قَالَ: وَالثَّنِیِّ اسْمُ الْقَرْیَةِ الَّتِی كَانَ أَهْلُهُ بِهَا، فَنَشَأَ صُهَیْبٌ بِالرُّومِ فَصَارَ أَلْكَنَ، فَابْتَاعَتْهُ كَلْبٌ مِنْهُمْ، ثُمَّ قَدِمَتْ بِهِ مَكَّةَ فَاشْتَرَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُدْعَانَ التَّیْمِیُّ مِنْهُمْ فَأَعْتَقَهُ

صہیب ابھی کم سن ہی تھے کہ اہل روم نے ابلہ پردھاوابول دیااوردوسرے مال واسباب کے علاوہ صہیب کوبھی پکڑکراپنے ساتھ لے گئے،چنانچہ انہوں نے لڑکپن سے جوانی تک کازمانہ رومیوں کی غلامی ہی میں گزارااسی لیے رومی مشہورہوگئے،ایک دفعہ بنوکلب کے کچھ تاجراس علاقے میں گئے جہاں صہیب غلامی کی زندگی گزاررہے تھے، کلبی تاجروں نے صہیب رضی اللہ عنہ کورومیوں سے خریدلیااوراپنے ساتھ مکہ مکرمہ لے آئے یہاں انہیں عبداللہ بن جدعان تمیمی نے( جوسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاقریبی عزیز تھا) کلبیوں سے خریدلیااورآزادکردیا۔[38]

فَاشْتَرَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُدْعَانَ التَّیْمِیُّ فَأَعْتَقَهُ

مستدرک حاکم میں ہےانہیں عبداللہ بن جدعان تمیمی نے انہیں کلبیوں سے خریدکرآزادکردیا۔ [39]

وَأَمَّا أَهْلُ صُهَیْبٍ وَوَلَدُهُ فَیَقُولُونَ: بَلْ هَرَبَ مِنَ الرُّومِ حِینَ بَلَغَ وَعَقَلَ فَقَدِمَ مَكَّةَ فَحَالَفَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُدْعَانَ وَأَقَامَ مَعَهُ إِلَى أَنْ هَلَكَ

لیکن ابن سعدکابیان ہےجب صہیب رضی اللہ عنہ بالغ ہوئے اورکچھ سمجھ داری پیداہوگئی توفرارہوکرمکہ مکرمہ پہنچے اورعبداللہ بن جدعان سے حلیفانہ تعلق قائم کرلیااورجب تک عبداللہ بن جدعان فوت نہیں ہوگیااس کے ساتھ رہے۔[40]

اس طرح یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف ہوئے اوران کی مجلس میں آنے جانے لگے اسی زمانے میں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز فرمایا

عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ: لَقِیتُ صُهَیْبَ بْنَ سِنَانٍ عَلَى بَابِ دَارِ الأَرْقَمِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهَا فَقُلْتُ: مَا تُرِیدُ؟ فَقَالَ لِی: ما ترید أنت؟ فقلت: أردت أن أدخل عَلَى مُحَمَّدٍ فَأَسْمَعَ كَلامَهُ قَالَ: وَأَنَا أُرِیدُ ذَلِكَ. قَالَ فَدَخَلْنَا عَلَیْهِ فَعَرَضَ عَلَیْنَا الإِسْلامَ فَأَسْلَمْنَا أسلم صهیب وعمار فی یَوْم واحد وكان إسلامهما بعد بضعة وثلاثین رجلًا

عبداللہ بن ابوعبیدہ کہتے ہیں عمار رضی اللہ عنہ بن یاسرکی ملاقات صہیب بن سنان سے دارارقم کے دروازے پرہوئی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چندجاں نثاروں کے ہمراہ پناہ گزین تھے،عمار رضی اللہ عنہ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے پوچھاتمہاراکیاارادہ ہے؟ صہیب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہاتمہاراکیاارادہ ہے، میں نے کہا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہونااوراللہ کاکلام سنناچاہتاہوں ، صہیب رضی اللہ عنہ نے کہامیرابھی یہی ارادہ ہے، چنانچہ دونوں اندر داخل ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی جوانہوں نے قبول کرلی، صہیب رضی اللہ عنہ اورعمار رضی اللہ عنہ نے ایک ہی دن میں ایک ساتھ اسلام قبول کیااس وقت تک صرف تیس اصحاب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔[41]

فَكَانَ إِسْلامُ عَمَّارٍ وَصُهَیْبٍ بَعْدَ بِضْعَةٍ وَثَلاثِینَ رَجُلا

عماربن یاسر رضی اللہ عنہ اورصہیب بن سنان نے تیس اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداسلام قبول کیا۔[42]

أن صهیبا كان یكنى أبا یَحْیَى ان صہیب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابویحییٰ تھی۔[43]

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: صُهَیْبٌ سَابِقُ الرُّومِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صہیب رضی اللہ عنہ روم کاپہلاپھل ہے۔[44]

عن أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ السُّبَّاقُ أَرْبَعَةٌ، أَنَا سَابِقُ الْعَرَبِ، وَصُهَیْبٌ سَابِقُ الرُّومِ، وَسَلْمَانُ سَابِقُ فَارِسَ، وَبِلالٌ سَابِقُ الْحَبَشِ

اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچاربہترین پھل یعنی اشخاص ہیں ،میں عرب کابہترین شخص ہوں اور صہیب رضی اللہ عنہ روم کااورسلمان رضی اللہ عنہ فارس کااوربلال رضی اللہ عنہ حبش کابہترین شخص ہیں ۔[45]

عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کی طرح مشرکین مکہ نے انہیں بھی طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں ،

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: كَانَ صُهَیْبُ بْنُ سِنَانٍ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ الَّذِینَ كَانُوا یُعَذَّبُونَ فِی اللَّهِ بِمَكَّةَ

عروہ بن زبیرکہتے ہیں صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے مستضعفین لوگوں میں سے تھے جن کومکہ مکرمہ میں عذاب دیاجاتاتھا۔

(وَالْمُسْتَضْعَفُونَ قَوْمٌ لا عَشَائِرَ لَهُمْ بِمَكَّةَ وَلَیْسَتْ لَهُمْ مَنَعَةٌ وَلا قُوَّةٌ)

وہ جماعت جن کے مکہ میں قبائل نہ تھے اورنہ ان کاکوئی محافظ تھااورنہ انہیں کوئی قوت حاصل تھی۔

فَكَانَتْ قُرَیْشٌ تُعَذِّبْهُمْ فِی الرَّمْضَاءِ بأنصاف النهار لَیَرْجِعُوا عَنْ دِینِهِمْ

قریش ان لوگوں پردوپہرکی تیزگرمی میں عذاب کرتے تھے تاکہ وہ اپنے دین سے پھرجائیں ۔[46]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ: كان عَمّارُ بْنُ یَاسِرٍ یعذب حتى لا یدرى ما یقول، وكذا صُهَیْب وأبو فائد، وعَامِرُ بْنُ فُهَیْرَةَ وقوم،وفیهم نزلت هذه الآیة:ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْٓا۝۰ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

عمربن حکم سے مروی ہےمشرکین مکہ جب صہیب رضی اللہ عنہ ،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ ،ابوفائداور عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کواس قدرتکالیف پہنچاتے کہ بیخود اوربے ہوش ہوجاتے تھے اورانہیں یہ بھی خبرنہیں رہتی تھی کہ ہماری زبانوں سے کیانکل رہاہے، انہی کے بارے میں سورہ النحل کی آیت ۱۱۰ نازل ہوئی۔ ’’بخلاف اس کے جن لوگوں کاحال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے)وہ ستائے گئے توانہوں نے گھربارچھوڑدیئے ،ہجرت کی ،اللہ کی راہ میں سختیاں جھیلیں اورصبرسے کام لیاان کے لئے یقیناً تیرارب غفورورحیم ہے۔‘‘[47]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ: أَقْبَلَ صُهَیْبٌ مُهَاجِرًا نَحْوَ الْمَدِینَةِ وَاتَّبَعَهُ نَفَرٌ مِنْ قُرَیْشٍ فَنَزَلَ عَنْ رَاحِلَتِهِ وَانْتَشَلَ مَا فِی كِنَانَتِهِ ثُمَّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی مِنْ أَرْمَاكُمْ رَجُلا. وَایْمُ اللَّهِ لا تَصِلُونَ إِلَیَّ حَتَّى أَرْمِیَ بِكُلِّ سَهْمٍ مَعِیَ فِی كِنَانَتِی ثُمَّ أَضْرِبَكُمْ بِسَیْفِی مَا بَقِیَ فِی یَدِی مِنْهُ شَیْءٌ.

سعیدبن مسیب سے مروی ہے صہیب رضی اللہ عنہ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ جانے لگے تومشرکین کوان کے ارادے کاعلم ہواتوانہوں نے صہیب رضی اللہ عنہ کوچاروں طرف سے گھیرلیااورکہاہم تمہیں یہاں سے نہیں جانے دیں گے، صہیب رضی اللہ عنہ اپنی سواری سے اُترے تیرکمان پررکھ کرللکارے اے گروہ قریش!تم خوب جانتے ہوکہ میرے تیرکانشانہ کبھی خطانہیں کرتااللہ کی قسم!تم میرے قریب نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں اپنے ترکش کے تمام ترتیرتم پرختم نہ کردوں ،اگرپھربھی تم میں سے کوئی بچ کیاتوپھرمیں تلوارنکالوں گااورجب تک میری جان میں جان ہے تم سے لڑوں گااگرسلامتی چاہتے ہوتومیراپیچھاچھوڑدواوراپنے گھروں کولوٹ جاؤ ۔[48]

أَنَّ صُهَیْبًا حَیْنَ أَرَادَ الْهِجْرَةَ قَالَ لَهُ كُفَّارُ قُرَیْشٍ: أَتَیْتنَا صُعْلُوكًا حَقِیرًا، فَكَثُرَ مَالُكَ عِنْدَنَا، وَبَلَغْتَ الَّذِی بَلَغْتَ، ثُمَّ تُرِیدُ أَنْ تَخْرُجَ بِمَالِكَ وَنَفْسِكَ، وَاَللَّهِ لَا یَكُونُ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُمْ صُهَیْبٌ: أَرَأَیْتُمْ إنْ جَعَلْتُ لَكُمْ مَالِی أَتُخْلُونَ سَبِیلِی؟ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: فَإِنِّی جَعَلْتُ لَكُمْ مَالِی. قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

جب صہیب رضی اللہ عنہ نے ہجرت کااردہ کیاتوقریش نے ان سے کہااے صہیب رضی اللہ عنہ ! جب تویہاں آیاتھاتونہایت مفلس اورفقیرتھایہاں تیرے پاس اس قدرمال جمع ہوگیاہے اب توچاہتاہے کہ مال لے کریہاں سے چلاجائے تواللہ کی قسم !ہم تجھے ہرگزنہ جانے دیں گے،صہیب رضی اللہ عنہ نے کہااگرمیں یہ سارامال تمہارے حوالے کردوں توکیاتم میراراستہ چھوڑدوگے؟انہوں نے کہاہاں پھرجانے دیں گے، صہیب رضی اللہ عنہ کی نظرمیں دنیاکیاحقیقت رکھتی تھی فوراًبولے یہ سب مال تمہاراہے اورجوکچھ ان کے پاس تھاٹھوکرمارکرمدینہ منورہ ہجرت فرماگئے،جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت اقدس میں حاضرہوئے تواورساراواقعہ بیان کیا۔[49]

 فقال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : رَبِحَ الْبَیْعُ

تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صہیب رضی اللہ عنہ نے اس بیع سے خوب نفع کمایا۔[50]

فَقَالَ:رَبِحَ صُهَیْبٌ، رَبِحَ صُهَیْبٌ

ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صہیب رضی اللہ عنہ نے اس بیع سے خوب نفع کمایا،صہیب نے اس بیع سے خوب نفع کمایا۔[51]

فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَبِحَ الْبَیْعُ أَبَا یحیى. ربح الْبَیْعُ

ایک روایت میں ہےجب صہیب رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورساراوقعہ بیان کیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابویحییٰ نے اس بیع سے خوب نفع کمایا، اس بیع سے خوب نفع کمایا۔[52]

اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللهِ۝۰ۭ وَاللهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰۷ [53]

ترجمہ: دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہےجو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہےاو ر ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے ۔

عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ: لَمَّا هَاجَرَ صُهَیْبٌ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ خَیْثَمَةَ

عمربن قتادہ کہتے ہیں جب صہیب رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سےہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے توقبامیں سعد رضی اللہ عنہ بن خثیمہ اوسی کے گھرقیام کیا۔[54]

وآخى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بینه وبین الحارث بْن الصمة، ولما هاجر صهیب إِلَى المدینة

جب صہیب رضی اللہ عنہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مواخاة جلیل القدرصحابی ابوسعیدحارث رضی اللہ عنہ بن صمہ نجاری خزرجی کے ساتھ قائم فرمائی۔[55]

وشهِدَ صُهَیْب بدرًا وأحدًا والخندق والمشاهد مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

صہیب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اوردوسرے تمام غزوات میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔[56]

قول عمر رضی الله عنه فی صُهَیْبٌ بن سنان الرومی نعم العبد صهیب لو لم یخف الله لم یعصه

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ صہیب بن سنان رومی اچھے بندے ہیں اگروہ اللہ کاخوف نہ کرتے تب بھی اس کی معصیت نہ کرتے۔[57]

أَنَّ عُمَرَ حِینَ طُعِنَ قَالَ: لِیُصَلِّ لَكُمْ صُهَیْبٌ

سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ مردم شناس میں صہیب بڑے مرتبے اورعظمت کے حامل تھے زخمی ہونے کے بعدجب خلیفہ سوئم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے تیسرے خلیفہ کے لئے کمیٹی بنائی توان کے لئے وصیت فرمائی کہ وہ ہی ان کی نمازجنازہ پڑھائیں اور جب تک شوریٰ کسی خلیفہ پرمتفق نہ ہو جائے یہ مسجدنبوی میں نماز پڑھاتے رہیں گے۔

وَصَلَّى عَلَى عُمَرَ صُهَیْبُ بْنُ سِنَانٍ بین القبر والمنبر فی مسجدرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

صہیب رضی اللہ عنہ نے ہی سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ مسجدنبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک اورمنبرکے درمیان پڑھائی تھی۔[58]

مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِیهِ أَنَّ صُهَیْبًا كَبَّرَ عَلَى عُمَرَ أَرْبَعًا.

محمدبن عمارکہتے ہیں صہیب رضی اللہ عنہ نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جنازے میں چارتکبیرات کہیں ۔[59]

اورپھرتین دن تک نہایت خوش اسلوبی سے مسلمانوں کی امامت کرتے رہے۔

وقال صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أول من یسقى من حوضی صُهَیْب الرومی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحوض کوثرسے سب سے پہلے صہیب رومی پانی پئیں گے۔[60]

تُوُفِّیَ صُهَیْبٌ فِی شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ وَثَلاثِینَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِینَ سَنَةً بِالْمَدِینَةِ. وَدُفِنَ بِالْبَقِیعِ

صہیب رضی اللہ عنہ ماہ شوال ۳۸ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی،اس وقت ان کی عمرستریابہتربرس کی تھی اورگورستان بقیع میں مدفون ہوئے۔[61]

 عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر

عمار رضی اللہ عنہ بن یاسررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں میں شامل تھے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت موجودتھے۔

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَهُٔ أَنَّ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ كَانَ إِذَا سَمِعَ مَا یَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ عَنْ تَزْوِیجِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ، وَمَا یُكْثِرُونَ فِیهِ یَقُولُ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِتَزْوِیجِهِ إِیَّاهَا

عبداللہ بن حارث کہتے ہیں عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے تھےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے شادی کا حال مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے میں اس میں شریک تھا۔[62]

چنانچہ ابتدائے اسلام میں جیسے ہی انہیں دین اسلام کاعلم ہوایہ صہیب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایمان لائے،

قَالَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ: لَقِیتُ صُهَیْبَ بْنَ سِنَانٍ عَلَى بَابِ دَارِ الأَرْقَمِ وَرَسُولُ اللَّهِ فِیهَا فَقُلْتُ لَهُ: مَا تُرِیدُ؟ قَالَ لِی: مَا تُرِیدُ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ على محمد فأسمع كلامه قَالَ: وَأَنَا أُرِیدُ ذَلِكَ، فَدَخَلْنَا عَلَیْهِ فَعَرَضَ عَلَیْنَا الإِسْلامَ فَأَسْلَمْنَا ثُمَّ مَكَثْنَا یَوْمَنَا عَلَى ذَلِكَ حَتَّى أَمْسَیْنَا. ثُمَّ خَرَجْنَا وَنَحْنُ مُسْتَخْفُونَ فَكَانَ إِسْلامُ عَمَّارٍ وَصُهَیْبٍ بَعْدَ بِضْعَةٍ وَثَلاثِینَ رَجُلا

عماربن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان سے دارارقم کے دروازے پرملا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندرتھے،میں نے ان سے کہاتم کیاچاہتے ہو؟انہوں نے مجھ سے کہاتم کیاچاہتے ہو؟میں نے کہامیں یہ چاہتاہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ں اوران کاکلام سنوں ،انہوں نے کہامیں بھی یہی چاہتاہوں ، ہم دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پراسلام پیش کیااورہم نے قبول کرلیا پھرہم دونوں اس روزاس حالت میں رہے یعنی دارارقم میں رہے شام ہوئی توباہرنکلے اور ہم قریش سے چھپتے تھے عمار رضی اللہ عنہ وصہیب رضی اللہ عنہ کااسلام بیس سے زائدآدمیوں کے بعدہوا۔[63]

عمار بن یاسر نے قریش کے ہاتھوں بڑی تکلیفیں اٹھائیں ۔

فَغَطَّوْكَ فِی الْمَاءِ وفی روایة فَغَطُّوْكَ فِی النَّارِ

دین اسلام قبول کرنے کے جرم میں عمار رضی اللہ عنہ کوکبھی پانی میں غوطے دیئے جاتے توکبھی جلتی آگ پرلٹایاجاتا۔[64]

جس سے دم کھینچ کرآنکھوں میں آجاتامگرواہ رے دین حق سے محبت!اللہ کانام مبارک پھربھی زبان سے نہ جاتا،ایک بارنبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام رمضہ کے اس طرف سے گزرے جہاں عمار رضی اللہ عنہ رہاکرتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں دیکھاکہ آگ کی شدت سے پیٹھ جل کرسیاہ ہوگئی تھی اور جسم کی بوٹیاں نچی ہوئی تھیں ،دردکی شدت سے عمار رضی اللہ عنہ مچھلی کی طرح تڑپ رہے تھے مگرہائے رے بے بسی!اس وقت کچھ بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔

فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمُرُّ بِهِ وَیُمِرُّ یَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ فَیَقُولُ: یَا نارُ كُونِی بَرْداً وَسَلاماً عَلى عَمَّارٍ كَمَا كُنْتِ عَلَى إِبْرَاهِیمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی اے آگ تو عمار رضی اللہ عنہ پراس طرح ٹھنڈی ہوجا جیساکہ تو ابراہیم علیہ السلام پرہوگئی تھی۔[65]

جوان بیٹے کایہ حال بوڑھی ماں اور بوڑھے باپ پربھی یہی کچھ گزرتی تھی ۔ آخریاسرتکالیف برداشت کرتے کرتے شہید ہوگئے،پھران کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہ بھی اسلام کی پہلی شہیدہوگئیں توان کی تکریم کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمار رضی اللہ عنہ کوشفقت بھرے اندازمیں ابن سمیہ رضی اللہ عنہما کہہ کر پکارتے تھے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ابْنُ سُمَیَّةَ مَا عُرِضَ عَلَیْهِ أَمْرَانِ قَطُّ إِلَّا اخْتَارَ الْأَرْشَدَ مِنْهُمَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن سمیہ رضی اللہ عنہما کوکسی دوباتوں کا اختیار دیاجائے تووہ ان میں سے آسان بات کو اختیار کرے گا۔ [66]

لَمَّا عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ:أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بِنَاءِ الْمَسْجِدِ جَعَلْنَا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَجَعَلَ عَمَّارٌ یَحْمِلُ لَبِنَتَیْنِ لَبِنَتَیْنِ. فَجِئْتُ فَحَدَّثَنِی أَصْحَابِی أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جُعِلَ یَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْ رَأْسِهِ وَیَقُولُ: وَیْحَكَ ابْنَ سُمَیَّةَ تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدکی تعمیرشروع کی توہم لوگ ایک اینٹ اٹھانے لگے اور عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھانے لگے تومیرے ساتھیوں نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمار رضی اللہ عنہ کے سر سے مٹی جھاڑرہے تھے اور فرمارہے تھے اے ابن سمیہ رضی اللہ عنہما !تجھ پرافسوس ہے تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔[67]

أَوَّلُ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا یُصَلِّی فِیهِ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ

امام ذھبی رحمہ اللہ نے لکھاہے عمار رضی اللہ عنہ نے پہلی مسجدبنائی تھی جس میں نمازپڑھی جاتی تھی۔[68]

[1] الانشقاق۳،۴

[2] یٰسین۵۱،۵۲

[3] صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ التَّرْغِیبِ فِی الصَّدَقَةِ قَبْلَ أَنْ لَا یُوجَدَ مَنْ یَقْبَلُهَا۲۳۴۱،جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِی أَشْرَاطِ السَّاعَةِ۲۲۰۹،صحیح ابن حبان ۶۶۹۷،شرح السنة للبغوی۴۲۴۱،۳۵؍۱۵

[4] یٰسین۶۵

[5] النور۲۴

[6] حم السجدة۲۰،۲۱

[7] جامع ترمذی کتاب صفة القیامة بَابُ مَا جَاءَ فِی العَرْضِ ۲۴۲۹،وکتاب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ۳۳۵۳ ،مسند احمد۸۸۶۷، مستدرک حاکم ۳۰۱۲،السنن الکبری للنسائی ۱۱۶۲۹،شرح السنة للبغوی ۴۳۰۸،تفسیرالقرطبی ۱۴۸؍۲۰

[8] معجم الکبیرللطبرانی ۴۵۹۶

[9] شعب الایمان ۶۹۱۳

[10] ابراہیم۴۸

[11] النبا۱۸

[12] المعارج۴۳

[13] ق۴۱،۴۲

[14] ق۱۷،۱۸

[15] الانفطار ۱۰تا۱۲

[16] بنی اسرائیل ۱۴

[17] الکہف۴۹

[18] الحاقة۱۹،۲۰

[19] القیامة۲۴،۲۵

[20] عبس۴۰تا۴۲

[21] الغاشیة۲

[22] الانبیائ۴۷

[23] الزمر۶۹

[24] الاعراف۸

[25] ھود۱۰۵

[26] النور۲۴

[27] حم السجدہ۲۰،۲۱

[28] آل عمران ۳۰

[29] [الزلزلة: 8

[30] تفسیرطبری۵۵۱؍۲۴

[31] السنن الکبری للنسائی۱۱۶۳۰، مسنداحمد۲۰۵۹۳،المعجم الکبیرللطبرانی ۷۴۱۱، تفسیرقرطبی ۱۵۳؍۲۰

[32] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ القِیَامَةِ مَعَ الأَنْبِیَاءِ وَغَیْرِهِمْ ۷۵۱۲، صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، أَوْ كَلِمَةٍ طَیِّبَةٍ وَأَنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ ۲۳۴۷،سنن نسائی کتاب الزکوٰة باب الْقَلِیلُ فِی الصَّدَقَةِ۲۵۵۳

[33] صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ اسْتِحْبَابِ طَلَاقَةِ الْوَجْهِ عِنْدَ اللِّقَاءِ ۶۶۹۰ ،جامع ترمذی ابواب الاطعمة بَابُ مَا جَاءَ فِی إِكْثَارِ مَاءِ الْمَرَقَةِ ۱۸۳۳، مسند احمد ۲۱۵۱۹

[34] صحیح بخاری کتاب الادب بَابٌ لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا ۶۰۱۷ ، صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، أَوْ كَلِمَةٍ طَیِّبَةٍ وَأَنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ ۲۳۷۹

[35]سنن نسائی کتاب الزکوٰة بَابُ رَدِّ السَّائِلِ۲۵۶۶ ،مسند احمد ۲۷۴۵۰،صحیح ابن حبان ۳۳۷۴،السنن الصغیرللبیہقی ۱۲۵۷،شرح السنة للبغوی ۱۶۷۳

[36] سنن ابن ماجہ کتاب الذھدبَابُ ذِكْرِ الذُّنُوبِ ۴۲۴۳،مسنداحمد۲۴۴۱۵

[37] ابن سعد ۱۶۹؍۳

[38] ابن سعد۱۷۰؍۳

[39] مستدرک حاکم۵۶۹۸

[40] ابن سعد۱۶۹؍۳، اسدالغابة۴۱۹؍۲

[41] اسدالغابة۴۱۹؍۲

[42] ابن سعد۱۷۱؍۳،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۷۲۸؍۲،سیر أعلام النبلاء۲۴۶؍۳

[43] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۷۳۰؍۲،ابن سعد۱۷۰؍۳

[44] ابن سعد۱۷۰؍۳

[45] اسدالغابة۴۱۹؍۲

[46] ابن سعد ۱۷۱؍۳

[47] امتاع الاسماع۱۶۵؍۹،ابن سعد۱۸۷؍۳

[48] ابن سعد۱۷۱؍۳،أسد الغابة فی معرفة الصحابة ۳۸؍۳

[49] ابن ہشام۴۷۷؍۱

[50] ابن سعد ۱۷۲؍۳

[51] ابن ہشام ۴۷۷؍۱، الروض الانف ۱۱۶؍۴،عیون الآثر ۲۰۳؍۱، البدایة والنہایة ۲۱۲؍۳، ابن سعد۱۷۱؍۳

[52] ابن سعد۱۷۱؍۳

[53] البقرة۲۰۷

[54] ابن سعد۱۷۱؍۳

[55] ابن سعد۳۸۶؍۳، سیر أعلام النبلاء۴۴۱؍۱

[56] اسدالغابة۴۱۹؍۲

[57] مسندالفاروق لابن کثیر۶۸۱؍۲

[58] تاریخ دمشق لابن عساکر ۴۵۰؍۴۴،ابن سعد ۱۵۵؍۳، شرف المصطفی۱۶۵؍۳

[59] ابن سعد ۲۸۱؍۳

[60] شرف مصطفی۸۹؍۶

[61] ابن سعد۱۷۳؍۳

[62] دلائل النبوةللبیہقی۷۱؍۲،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۸۸؍۳

[63] ابن سعد ۱۸۷؍۳، سیر أعلام النبلاء۳۵۰؍۳، اسدالغابة۱۲۲؍۴

[64] الدّرّ المنثور فِی التَّفْسِیر بالمأثور۱۷۰؍۵، سیرة ابن اسحاق ۱۹۲؍۱

[65] ابن سعد ۱۸۸؍۳، سیر أعلام النبلاء۲۴۷؍۳

[66] مسند احمد ۴۲۴۹

[67] مسنداحمد۱۱۰۱۱،صحیح بخاری كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ التَّعَاوُنِ فِی بِنَاءِ المَسْجِدِ ۴۴۷،ابن سعد ۱۹۱؍۳، شرف المصطفی۶۱؍۶

[68] سیراعلام النبلاء ۲۴۸؍۳،ابن سعد۱۸۹؍۳

Related Articles