بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ الغاشیہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کے آغازمیں دوباتوں کی طرف خصوصی طورپرتوجہ دلائی، کیونکہ قرآن مجیدنے انہی دوعقائدکوسارے اعمال کی بنیاد قرار دیاہے، توحید اور آخرت،اوراہل مکہ ان دونوں باتوں کوتسلیم سے انکارکررہے تھے، غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کوچونکانے کے لیے اچانک ان کے سامنے یہ سوال پیش کیاگیاکہ کیاتمہیں اس وقت کی بھی خبرہے جب پوری کائنات پرایک آفت چھاجائے گی اورپھرانسان اپنے اعمال کی مناسبت سے دوگروہوں میں بٹ جائیں گے،ایک گروہ وہ ہوگا جن کے چہرے تھکے تھکے ہوئے،خستہ اورمرجھائے ہوئے ہوں گے،علماکہتے ہیں اس سے مرادوہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیامیں بڑی عبادت وریاضت کی ہوگی لیکن ان کے عقائدصحیح نہیں تھے اس لیے یہ عبادت ان کے کسی کام نہ آئے گی وہ جہنم کاایندھن بنیں گے جہاں انہیں ایسے ایسے سخت عذاب جھیلنے پڑیں گے اورجن کے چہرے تروتازہ اورپررونق ہوں گے جنہوں نے دنیامیں صحیح رخ پرمحنت کی ہوگی اوران کے عقائدمیں بھی باطل کی آمیزش نہیں ہوگی وہ عالی مقام جنت کے حقدارہوں گےجہاں انہیں ایسی اورایسی نعمتیں میسرہوں گی،اس طرح لوگوں کوچونکانے کے بعدیکلخت مضمون تبدیل کرکے سوال کیاگیاکہ یہ لوگ قرآن کی تعلیم توحیداورخبرآخرت کوسن کرناک بھوں چڑھارہے ہیں ، اپنے سامنے ان چیزوں کونہیں دیکھتے جب سے ہروقت انہیں سابقہ پیش آتاہے مثلاًاونٹ جس پرصحرائی زندگی کا انحصار ہےیہ صابرجانورکیسے ٹھیک انہی خصوصیات کاحامل بن گیاجیسی خصوصیات کے جانورکی ضرورت ان کی صحرائی زندگی کے لیے تھی؟ ہرطرف پھیلاہوا بغیرستونوں کے بلندوبالاآسمان کیسے چھا گیا ؟ میخوں کی طرح زمین میں گڑی ہوئی پہاڑوں کی سربفلک چوٹیاں کیسے کھڑی ہوگئیں ؟ اورزمین کی نرمی وملائمت جوانسان کے لئے فرش ہے کیسے بچھ گئی؟کیایہ سب کچھ کسی قادرمطلق صانع حکیم کی کاریگری کے بغیرخودبخودہوگیا اگریہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ وحدہ لاشریک نے بنایاہے تواسی کواکیلارب تسلیم کیوں نہیں کرتے؟اس کے ساتھ اس کی مخلوق کوکیوں شریک گردانتے ہیں ؟اگریہ تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ پیداکردینے کی قدرت رکھتاہے توپھروہ قیامت لانے، انسانوں کودوبارہ زندہ کردینے اور اعمال کی جزاوسزاکے لیے جنت وجہنم پیداکرنے کی قدرت بھی رکھتاہے ،اگران کے پاس اللہ کی قدرت سے انکارکی اگرکوئی معقول وجہ اوردلیل ہے توپیش کریں ورنہ اپنے بدترین انجام کودیکھنے کے لئے تیاررہیں ،مختصراورنہایت معقول استدلال سے توحیدالہی سمجھانے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دی گئی کہ اگریہ لوگ سرکشی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ فکرمندنہ ہوں آپ کاکام نصیحت کرناہے سوآپ کیے جائیں ،آخرایک وقت مقررہ پرانہیں ہمارے پاس ہی آناہے اس وقت ہم ہرشخص کے اعمال کا حساب کریں گےاوراسی کے مطابق جزادیں گے ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

هَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ الْغَاشِیَةِ ‎﴿١﴾‏ وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ ‎﴿٢﴾‏ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ ‎﴿٣﴾‏ تَصْلَىٰ نَارًا حَامِیَةً ‎﴿٤﴾‏ تُسْقَىٰ مِنْ عَیْنٍ آنِیَةٍ ‎﴿٥﴾‏ لَّیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِیعٍ ‎﴿٦﴾‏ لَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِی مِن جُوعٍ ‎﴿٧﴾‏  (الغاشیہ)

کیا تجھے بھی چھپا لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے، اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہونگے  (اور)محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہوں گےاور دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے، اورنہایت گرم چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا، ان کے لیے کانٹے دار درختوں کے سوا اور کچھ کھانا نہ ہوگا جو نہ موٹا کرے گا نہ بھوک مٹائے گا۔


عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الْعِیدَیْنِ، وَفِی الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَهَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ الْغَاشِیَةِ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ اورعیدین میں سورۂ الاعلیٰ اورسورۂ الغاشیہ کو پڑھتے تھے۔[1]

عَنْ عُبَیْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ الضَّحَّاكَ بْنَ قَیْسٍ، سَأَلَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ: بِمَ كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقْرَأُ فِی الْجُمُعَةِ مَعَ سُورَةِ الْجُمُعَةِ؟ قَالَ:هَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ الْغَاشِیَةِ

عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ضحاک بن قیس نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کولکھ کربھیجاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کی نمازمیں )سورہ جمعہ کی تلاوت کے بعد کون سی سورت پڑھتے تھے ،انہوں نے کہا سورہ الغاشیہ پڑھتے تھے۔ [2]

اللہ تعالیٰ نےفرمایاکیاتمہیں اس وقت کی بھی خبرہے جب سارے عالم پر چھاجانے والی ایک آفت یعنی قیامت نازل ہوگی ؟جس سے تمام نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا، پھرایک وقت مقررہ پراللہ تعالیٰ انسانوں کوان کی قبروں سے زندہ کر کے میدان محشر میں جمع کرے گا،اعمال کی جزاکے لئے رب کی بارگاہ میں ہرانسان کانامہ اعمال پیش کیاجائے گا،اللہ تعالیٰ اعمال کووزن عطافرمائے گااورہرچھوٹا بڑا عمل چاہے وہ اچھاتھا یا برا کاوزن کیا جائے گا،جیسے فرمایا:

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [3]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

گواہ پیش ہوں گے ،جیسے فرمایا:

فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍؚبِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِیْدًا۝۴۱ۭ۬یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ۝۰ۭ وَلَا یَكْتُمُوْنَ اللهَ حَدِیْثًا۝۴۲ [4]

ترجمہ: پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے،اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ، وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے ۔

انسان کے اپنے اعضابھی اس کے خلاف یاحق میں گواہی دیں گے ،جیسے فرمایا:

حَتّىٰٓ اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۝۲۰ [5]

ترجمہ:پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۔

۔۔۔ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [6]

ترجمہ: جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

کئی لوگ ایسے بھی ہوں گے جو دنیا میں عمل کر کے تھکے ہوئے ہوں گے ،یعنی بہت عمل کرتے رہے ہوں گے لیکن وہ عمل باطل مذہب کے مطابق یابدعات پرمبنی ہوں گے ،اس لئے عبادات اوراعمال شاقہ کے باوجودان کے اعمال کووزن ہی نہیں دیاجائے گایاقبول نہیں کیاجائے گا،

أَبَا عِمْرَانَ الْجَوْنِیَّ، یَقُولُ: مَرَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِدَیْرِ رَاهِبٍ فَنَادَاهُ: یَا رَاهِبُ یَا رَاهِبُ. قَالَ: فَأَشْرَفَ عَلَیْهِ فَجَعَلَ عُمَرُ یَنْظُرُ إِلَیْهِ وَیَبْكِی، قَالَ: فَقِیلَ لَهُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ مَا یُبْكِیكَ مِنْ هَذَا؟ قَالَ:ذَكَرْتُ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِی كِتَابِهِ: {عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ تَصْلَى نَارًا حَامِیَةً تُسْقَى مِنْ عَیْنٍ آنِیَةٍ} [7]فَذَلِكَ الَّذِی أَبْكَانِی

ابوعمران جونی سے مروی ہےامیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاایک را ہب کے دیر(راہبوں کے رہنے کی جگہ)کے پاس سے گزرہوا توانہوں نے راہب کوآوازدی اے راہب،اے راہب، راہب آپ کی طرف متوجہ ہواتو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسے دیکھ کررونے لگے،آپ کی خدمت میں عرض کی گئی امیرالمومنین!آپ کیوں رورہے ہیں ؟ آپ نے فرمایامجھے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس کایہ فرمان یادآگیاسخت مشقت کررہے ہوں گے،تھکے جاتے ہوں گے،شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے،کھولتے ہوئے چشمے کاپانی انہیں پینے کودیاجائے گا تواس فرمان الٰہی نے مجھے رلادیاہے۔ [8]

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ}[9]: النَّصَارَى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ’’سخت مشقت کر رہے ہونگے، تھکے جاتے ہوں گے۔‘‘سے مراد نصاری لئے ہیں ۔[10]

حقوق العبادکے بدلے نیکیوں اور برائیوں کاتبادلہ ہوگا،کئی لوگ ایسے بھی ہوں گے جوبہت سی نیکیاں کرکے لائے ہوں گے، جنہوں نے سخت تکالیف اٹھائی ہوں گی مگرحقوق العبادمیں پکڑے جائیں گے اوران کی نیکیاں دوسرے لوگوں کودے دی جائیں گے اوران کے برے عمل اس کے کھاتے میں شامل ہوجائیں گے اس طرح وہ شخص مفلس ہوجائے گا، کئی انسان اپنے نیک اعمال کی کمی اور برے اعمال کی زیادتی کی وجہ سے خوف زدہ ہوں گے ، الغرض عذاب جہنم کے خوف سے مجرموں کے چہروں پرذلت، فضیحت اوررسوائی برس رہی ہوگی ،جیسے فرمایا

وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ۝۴۰ۙتَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ۝۴۱ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ۝۴۲ۧ [11]

ترجمہ:اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی، یہی کافر و فاجر لوگ ہوں گے۔

وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَةٌ۝۲۴ۙتَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ۝۲۵ۭ [12]

ترجمہ:اور کچھ چہرے اداس ہوں گےاور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔

بالآخرانصاف کے تمام تقاضے پورے کرکے فیصلہ چکادیاجائے گا ، اس وقت سارے انسان دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے ،ایک گروہ شقی لوگوں کاہوگاجنہیں اللہ کے حکم سے زنجیروں میں جکڑکر ، گلے میں طوق ڈال کرمنہ کے بل پیروں سے گھسیٹتے ہوئے سرکے بل غیض و غضب سے پھٹتی جہنم کی کسی وادی میں گرادیا جائے گا،جیسے فرمایا:

اَلْقِیَا فِیْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِیْدٍ۝۲۴ۙمَّنَّاعٍ لِّــلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِۨ۝۲۵ۙالَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللهِ اِلٰـــهًا اٰخَرَ فَاَلْقِیٰهُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ۝۲۶ [13]

ترجمہ:حکم دیا گیا پھینک دو جہنم میں ہر کٹے کافر کو جو حق سے عناد رکھتا تھاخیر کو روکنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا شک میں پڑا ہوا تھااور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا بنائے بیٹھا تھا، ڈال دو اسے سخت عذاب میں ۔

اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَا۟ وَاَغْلٰلًا وَّسَعِیْرًا ۝۴ [14]

ترجمہ:کفر کرنے والوں کےلیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔

خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ۝۳۰ۙثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْهُ۝۳۱ۙثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ۝۳۲ۭاِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللهِ الْعَظِیْمِ۝۳۳ۙوَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۳۴ۭفَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا حَمِیْمٌ۝۳۵ۙوَّلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ۝۳۶ۙلَّا یَاْكُلُهٗٓ اِلَّا الْخَاطِـــُٔوْنَ۝۳۷ۧ [15]

ترجمہ:(حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دوپھر اسے جہنم میں جھونک دوپھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو ،یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھااور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا لہذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یار غم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھاناجسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔

جہاں جہنم کی سیاہ آگ انہیں اوپراورنیچے سے ڈھانپ لے گی،جیسے فرمایا:

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِــمِیْنَ۝۴۱ [16]

ترجمہ: ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا، یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ۔

یَوْمَ یَغْشٰـىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَیَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۵۵ [17]

ترجمہ: (اور انہیں پتہ چلے گا) اس روز جبکہ عذاب انہیں اوپر سے بھی ڈھانک لے گا اور پاؤں کے نیچے سے بھی اور کہے گا کہ اب چکھو مزا ان کرتوتوں کا جو تم کرتے تھے۔

لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَــلٌ۔۔۔۝۱۶ [18]

ترجمہ:ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی۔

پینے کے لئے انہیں انتہائی درجے کے کھولتے ہوئے چشمہ کاپانی دیاجائے گا جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ۝۰ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا۝۲۹ (الکہف29)

ترجمہ: وہاں اگروہ پانی مانگیں گے توایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیساہوگااوران کامنہ بھون ڈالے گا،بدترین پینے کی چیزاوربہت بری آرام گاہ ۔

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِهِ: {وَیُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُهُ} قَالَ: یُقَرَّبُ إِلَى فِیهِ فَیَكْرَهُهُ، فَإِذَا أُدْنِیَ مِنْهُ شَوَى وَجْهَهُ وَوَقَعَتْ فَرْوَةُ رَأْسِهِ، فَإِذَا شَرِبَهُ قَطَّعَ أَمْعَاءَهُ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ دُبُرِهِ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَیُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُهُ اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا جسے وہ (یعنی جہنمی) گھونٹ گھونٹ پیئے گاکے بارے میں فرمایا جب اسے اس کے منہ کے نزدیک کیا جائے گا تو وہ اسے ناپسند کرے گا، جب اور قریب کیا جائے گا تو اس کا منہ اس سے بھن جائے گااور اس کے سر کی کھال اس میں گر پڑے گی اور جب وہ اسے پئے گا تو اس کی آنتیں کٹ کر دبر سے نکل جائیں گی۔[19]

ایک مقام پر مشروب کاذکریوں فرمایا

ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝۵۱ۙلَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۝۵۲ۙفَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ۝۵۳ۚفَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیْمِ۝۵۴ۚ فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِ۝۵۵ۭھٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ۝۵۶ۭ [20]

ترجمہ: پھراے گمراہواورجھٹلانے والو!تم زقوم کے درخت کی غذاکھانے والے ہو،اسی سے تم پیٹ بھروگے اوراوپرسے کھولتاہواپانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گے ،یہ ہے (ان بائیں بازووالوں )کی ضیافت کاسامان روزجزامیں ۔

۔۔۔وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَهُمْ۝۱۵ [21]

ترجمہ:اورجنہیں ایساگرم پانی پلایاجائے گا جوان کی آنتیں تک کاٹ دے گا۔

ایک مقام پر فرمایاکہ انہیں کچ لہوجیساپانی دیاجائے گا

مِّنْ وَّرَاۗىِٕهٖ جَهَنَّمُ وَیُسْقٰى مِنْ مَّاۗءٍ صَدِیْدٍ۝۱۶ تَجَرَّعُهٗ وَلَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ۔۔۔ ۝۱۷ [22]

ترجمہ:پھراس کے بعدآگے اس کے لئے جہنم ہے ،وہاں اسے کچ لہوکاساپانی پینے کودیاجائے گاجسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گااورمشکل ہی سے اتارسکے گا۔

ایک مقام پر مشروب کا ذکریوں فرمایا

۔۔۔وَاِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَـشَرَّ مَاٰبٍ۝۵۵ۙجَهَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلَوْنَهَا۝۰ۚ فَبِئْسَ الْمِهَادُ۝۵۶ھٰذَا۝۰ۙ فَلْیَذُوْقُوْهُ حَمِیْمٌ وَّغَسَّاقٌ۝۵۷ۙوَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖٓ اَزْوَاجٌ۝۵۸ۭ [23]

ترجمہ: اورسرکشوں کے لئے بدترین ٹھکاناہے جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے بہت ہی بری قیام گاہ،یہ ہے اس کے لئے، پس وہ مزاچکھیں کھولتے ہوئے پانی اورپیپ لہواوراسی قسم کی دوسری تلخیوں کا(وہ جہنم کی طرف اپنے پیرووں کوآتے دیکھ کرآپس میں کہیں گے)یہ ایک لشکرتمہارے پاس گھساچلاآرہاہے کوئی خوش آمدیدان کے لئے نہیں ہے یہ آگ میں جھلسنے والے ہیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَوْ أَنَّ دَلْوَ غَسَّاقٍ یُهَرَاقُ فِی الدُّنْیَا لَأَنْتَنَ أَهْلَ الدُّنْیَا

ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرغساق کاایک ڈول دنیامیں انڈیل دیاجائے تووہ سارے دنیاوالوں کوبدبودار کردے۔[24]

اورکھانے کے لئے نہایت تلخ،بدمزہ اورخاردارسوکھی گھاس ضریع دی جائے گی ،اور جہنم کے مختلف طبقات کے لحاظ سے کھانے کے لئے کسی کوزقوم دیاجائے گا ،جیسے فرمایا :

اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۝۶۲اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِیْنَ۝۶۳اِنَّهَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِیْٓ اَصْلِ الْجَحِیْمِ۝۶۴ۙ طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ۝۶۵فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـــــُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ۝۶۶ۭثُمَّ اِنَّ لَهُمْ عَلَیْهَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِیْمٍ۝۶۷ۚثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِیْمِ۝۶۸ [25]

ترجمہ: بولویہ ضیافت اچھی ہے یازقوم کا درخت ؟ ہم نے اس درخت کوظالموں کے لئے فتنہ بنادیاہے ،وہ ایک درخت ہے جوجہنم کی تہ سے نکلتاہے اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر،جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اوراسی سے پیٹ بھریں گے پھراس پرپینے کے لئے ان کوکھولتاہواپانی ملے گااوراس کے بعدان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہوگی۔

ایک مقام پر دوزخیوں کی خوراک یوں بیان فرمائی ۔

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝۴۳ۙطَعَامُ الْاَثِیْمِ۝۴۴ۚۖۛكَالْمُهْلِ۝۰ۚۛ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ۝۴۵ۙكَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۝۴۶خُذُوْهُ فَاعْتِلُوْهُ اِلٰى سَوَاۗءِ الْجَحِیْمِ۝۴۷ۖۤثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ۝۴۸ۭذُقْ ۝۰ۚۙ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ۝۴۹اِنَّ ھٰذَا مَا كُنْتُمْ بِهٖ تَمْتَرُوْنَ۝۵۰ [26]

ترجمہ:زقوم کا درخت گناہ گارکاکھاجا ہوگا تیل کی تلچھٹ جیسا،پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گاجیسے کھولتاہواپانی جوش کھاتاہے ،پکڑواسے اوررگیدتے ہوئے لے جاؤ اس کوجہنم کے بیچوں بیچ اورانڈیل دواس کے سر پر کھولتے پانی کاعذاب ،چکھ اس کامزابڑازبردست عزت دارآدمی ہے تو،یہ وہی چیزہے جس کے آنے میں تم لوگ شک رکھتے تھے ۔

کسی کو غسلین (زخموں کی دھوون) دیا جائے گا،جیسے ارشاد فرمایا:

فَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا حَمِیْمٌ۝۳۵ۙوَّلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ۝۳۶ۙلَّا یَاْكُلُهٗٓ اِلَّا الْخَاطِـــُٔوْنَ۝۳۷ۧ [27]

ترجمہ: لہذا آج نہ یہاں اس کاکوئی یارغم خوارہے اورنہ زخموں کی دھوون کے سوااس کے لئے کوئی کھانا،جسے خطاکاروں کے سواکوئی نہیں کھاتا۔

ایک مقام پر فرمایا:

اِنَّ لَدَیْنَآ اَنْكَالًا وَّجَحِــیْمًا ۝۱۲ۙوَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّعَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۱۳ۤ [28]

ترجمہ: ہمارے پاس (ان کے لئے)بھاری بیڑیاں ہیں اوربھڑکتی ہوئی آگ اورحلق میں پھنسنے والا کھانا اور درد ناک عذاب ۔

یعنی مجرموں کوایساتلخ اوربدمزہ کھانا ملے گاجسے وہ نگل نہ سکیں گے بلکہ وہ جوان کے حلق میں پھنس کررہ جائے گا،یہ ایساکھاناہوگاجونہ تندرستی بخشے گا اورنہ ہی اس سے بھوک ہی ختم ہوگی ، دوسرے لفظوں میں مجرموں کو کوئی ٹھنڈا فرحت بخش مشروب یاصحت بخش مرغوب غذا بہرحال انہیں نصیب نہ ہوگی ۔جیسے فرمایا:

لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا۝۲۴ۙاِلَّا حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًا۝۲۵ۙجَزَاۗءً وِّفَاقًا۝۲۶ۭاِنَّهُمْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابًا۝۲۷ۙوَّكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كِذَّابًا۝۲۸ۭ وَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا۝۲۹ۙفَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا۝۳۰ۧ [29]

ترجمہ:اس کے اندرکسی ٹھنڈک اورپینے کے قابل کسی چیزکامزہ وہ نہ چکھیں گے ،کچھ ملے گاتوبس گرم پانی اورزخموں کادھوون(ان کے کرتوتوں ) کا بھرپوربدلہ،وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اورہماری آیات کوانہوں نے بالکل جھٹلادیاتھااورحال یہ تھاکہ ہم نے ہرچیزگن گن کرلکھ رکھی تھی ،اب چکھومزہ،ہم تمہارے لئے عذاب کے سواکسی چیزمیں ہرگزاضافہ نہ کریں گے۔

 وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ ‎﴿٨﴾‏ لِّسَعْیِهَا رَاضِیَةٌ ‎﴿٩﴾‏ فِی جَنَّةٍ عَالِیَةٍ ‎﴿١٠﴾‏ لَّا تَسْمَعُ فِیهَا لَاغِیَةً ‎﴿١١﴾‏ فِیهَا عَیْنٌ جَارِیَةٌ ‎﴿١٢﴾‏ فِیهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ ‎﴿١٣﴾‏ وَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ ‎﴿١٤﴾‏ وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ ‎﴿١٥﴾‏ وَزَرَابِیُّ مَبْثُوثَةٌ ‎  ‎﴿١٦﴾(الغاشیہ)

بہت سے چہرے اس دن تروتازہ اور (آسودہ حال) ہونگے، اپنی کوشش پر خوش ہونگے،بلند وبالا جنتوں میں ہونگے جہاں کوئی بیہودہ بات نہیں سنیں گے ، جہاں بہتا ہوا چشمہ ہوگا(اور) اس میں اونچے اونچے تخت ہونگے اورآبخورے رکھے ہوئے (ہوں گے) اور قطار میں لگے ہوئے تکیے ہوں گے اور مخملی مسندیں پھیلی پڑی ہوں گی۔


دوسراگروہ ان لوگوں کاہوگاجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں زندگی گزارتے رہے ہوں گے ،جواللہ کے مقررکردہ حقوق وفرائض اداکرنے اورمعصیت سے بچنے کی سعی کرتے رہے ہوں گے ،جوناجائزدنیاوی فائدوں اورلذتوں سے کنارہ کش رہے ہوں گے،جب وہ اپنے حق میں فیصلہ سنیں گے تواپنی کامیابی پر ان کے چہروں پراطمینان اور آسودگی کے آثارظاہرہوں گے ،جیسے فرمایا:

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ۝۳۸ۙضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ۝۳۹ۚ [30]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے،ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں جنت میں داخل کردیاجائے گا،جیسے فرمایا

وَیُدْخِلُهُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ۝۶ [31]

ترجمہ:اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے۔

وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام ،جھوٹ ،غیبت ،چغلی ،بہتان طنزوتمسخراورطعن وتشنیع وغیرہ نہیں سنیں گے،جیسے فرمایا

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا ۔۔۔۝۶۲ [32]

ترجمہ:وہاں وہ کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے جوکچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے ۔

یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَلَا تَاْثِیْمٌ۝۲۳ [33]

ترجمہ:وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کرلے رہے ہوں گے جس میں نہ یاوہ گوئی ہوگی نہ بدکرداری۔

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۝۲۵ۙاِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶ۙ [34]

ترجمہ: وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یاگناہ کی بات نہ سنیں گے جوبات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔

جنت میں مختلف ذائقہ کی شرابوں ،صاف وشفاف پانی،دودھ اورشہدوغیرہ کے چشمے رواں ہوں گے،جیسے فرمایا

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ۝۱۵ [35]

ترجمہ:پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ، اس میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش ۔

ان کے کناروں پرگھنے پھل دار درختوں کے سائے میں جن کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے،جیسے فرمایا

قُـطُوْفُهَا دَانِیَةٌ۝۲۳ [36]

ترجمہ:جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑرہے ہوں گے۔

یاموتیوں کے محلات میں بالاخانوں پرجگہ جگہ دبیزمخملی کپڑوں سے مزین اونچی مسندوں بچھی ہوں گی تاکہ وہ جہاں چاہیں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ اکرام وتکریم کی نعمتوں کانظارہ کرسکیں ،سامنے قرینے سے چنے ہوئے مختلف شرابوں کے بھرے ہوئے جام رکھے ہوں گےجنہیں پی کروہ لذت محسوس کریں گے مگر بدمست نہیں ہوں گے ، مسندوں پرسہارالینے کے لئے حریراوردبیزریشم وغیرہ کے گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی اورجن کے نیچے نفیس غالیچے بچھے ہوں گے ۔

حَدَّثَنِی أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ لِأَصْحَابِهِ:أَلَا مُشَمِّرٌ لِلْجَنَّةِ؟ فَإِنَّ الْجَنَّةَ لَا خَطَرَ لَهَا، هِیَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ نُورٌ یَتَلَأْلَأُ، وَرَیْحَانَةٌ تَهْتَزُّ، وَقَصْرٌ مَشِیدٌ، وَنَهَرٌ مُطَّرِدٌ، وَفَاكِهَةٌ كَثِیرَةٌ نَضِیجَةٌ، وَزَوْجَةٌ حَسْنَاءُ جَمِیلَةٌ، وَحُلَلٌ كَثِیرَةٌ فِی مَقَامٍ أَبَدًا، فِی حَبْرَةٍ وَنَضْرَةٍ، فِی دَارٍ عَالِیَةٍ سَلِیمَةٍ بَهِیَّةٍ قَالُوا: نَحْنُ الْمُشَمِّرُونَ لَهَا، یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: قُولُوا إِنْ شَاءَ اللَّهُ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے اصحاب سے فرمایا کیا کوئی شخص جنت کیلئے کمر نہیں باندھتا ؟ اس لئے کہ جنت کی مثل دوسری کوئی چیز نہیں ہے ،رب کعبہ کی قسم!وہ ایک چمکتا ہوا نور ہے اورجس میں خوشبو دار پھول ہیں جو جھوم رہے ہیں اورجس میں بلندوبالامحلات ہیں اورجس میں بہتی ہوئی نہریں ہیں ،جس میں میوہ جات اور پکے پکائے تیارعمدہ پھل ہیں اورجس میں خوبصورت خوش اخلاق زوجہ ہے، اورجس میں بہت سےجوڑے ہیں اور ایسا مقام ہے جہاں ہمیشہ تازگی بہار ہے،جس میں تروتازہ بلندووبالاجگہ ہے اور جس میں بڑا اونچا اور محفوظ اور روشن محل ہے، سب لوگ بول اٹھے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سب اس کے خواہشمندہیں اوراس کے لئے تیاری کریں گے، فرمایاان شاء اللہ کہو۔[37]

 أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْ ‎﴿١٧﴾‏ وَإِلَى السَّمَاءِ كَیْفَ رُفِعَتْ ‎﴿١٨﴾‏ وَإِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْ ‎﴿١٩﴾‏ وَإِلَى الْأَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ ‎﴿٢٠﴾‏ (الغاشیہ)

کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیے گئے ہیں ، اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیاہے،  اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑھ دیئے گئے ہیں اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے۔


 کائنات پرغوروتدبرکی دعوت :

یہ لوگ قیامت اورحیات بعدالموت کوتسلیم نہیں کرتے،مگرکیایہ اللہ کی مخلوق اونٹ کی خلقت، خصوصیات اور افادیت کونہیں سمجھتے جس پر صحرائی زندگی کا انحصارہے ،کیایہ خودبخودپیداہو گیاہے یاایک خالق نے اسے صحراکی ان خصوصیات کے ساتھ تمہارے تابع فرمان بنایاہے ؟کیایہ لوگ ہرسو پھیلے ہوئے بغیرستونوں والے بلندوبالا آسمان پرغور نہیں کرتےجس کے نیچے دن کو سورج اوررات کوچانداور ستارے چمکتے ہیں ،کیایہ آسمان خودبخود بلند ہو گیاہے؟کیااس کے نیچے کی یہ سب چیزیں خودبخود ایک نظام قائم کرکے چل رہی ہیں ؟ جیسے فرمایا:

اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓااِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا وَزَیَّنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ۝۶ [38]

ترجمہ: اچھا تو کیا انہوں نے کبھی اپنے اوپرآسمان کی طرف نہیں دیکھا؟کس طرح ہم نے اسے بنایااورآراستہ کیااوراس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔

آنکھیں کھول کردیکھو یہ رنگ برنگ کے سربفلک چوٹیوں والے معدنیات سے بھرے پہاڑ زمین میں کیسے قائم ہوگئے؟ اورکیایہ ہموار زمین جوانسان کے لئے فرش ہےجس میں میٹھے پانی کے چشمے اورکنوئیں ہیں جس سے انسان کے لئے مختلف اجناس ونباتات ،پھل داردرخت ،میوہ جات اورجانوروں کے لئے چارہ پیداہوتا ہے،کیازمین خود بخود ہموار ہو گئی ہے اورانواع و اقسام کی چیزیں پیدا کر رہی ہے؟ اگرغوروفکرکروتویہ سب چیزیں قادرمطلق کی حکمت پرشاہدہیں ،ضدوہٹ دھرمی کوبالائے طاق رکھ کرسوچوجو قدرتوں اورحکمتوں والارب آسمان وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے کوبہترین انداز سے تخلیق کرکے ایک مقررہ نظام کے تحت چلاسکتا ہے تواس کے حکم سے قیامت کیوں نہیں آسکتی ؟جس نے یہ عظیم الشان کائنات اوراس کا نظام بنایاہے وہ اسے فناکردینے کے بعددوسری دنیا نئے قوانین کے تحت وجودمیں کیوں نہیں لاسکتا؟جس نے انسان کوپہلی باربغیر کسی نمونے کے تخلیق کیاوہ اسے دوبارہ پیدا کیوں نہیں کرسکتا؟ اورزندہ کرکے اعمال کی جزاوسزا کے لئے جہنم وجنت کیوں نہیں تخلیق کرسکتا۔

فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ ‎﴿٢١﴾‏ لَّسْتَ عَلَیْهِم بِمُصَیْطِرٍ ‎﴿٢٢﴾‏ إِلَّا مَن تَوَلَّىٰ وَكَفَرَ ‎﴿٢٣﴾‏ فَیُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ ‎﴿٢٤﴾‏ إِنَّ إِلَیْنَا إِیَابَهُمْ ‎﴿٢٥﴾‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُم ‎﴿٢٦﴾‏ (الغاشیہ)

پس آپ نصیحت کردیا کریں (کیونکہ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں ، آپ کچھ ان پر دروغہ نہیں ہیں ،ہاں ! جو شخص روگردانی کرے اور کفر کرے اسے اللہ بہت بڑا عذاب دے گا، بیشک ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے اور بیشک ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا۔


اچھاتواے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگریہ لوگ چاروں طرف اللہ کی بکھری ہوئی نشانیوں کونہیں دیکھتے اورہٹ دھرمی سے اس کی قدرتوں کوتسلیم نہیں کرتے توآپ فکرمندنہ ہوں ، آپ کا کام وعظ ونصیحت اورواضح طورپر متنبہ کردیناہے، آپ کوان پرداروغہ بناکرمسلط نہیں کیاگیاکہ کسی کوزبردستی اسلام میں داخل کریں ، جیسے فرمایا:

۔۔۔ وَمَآ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِجَبَّارٍ۝۰ۣ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ۝۴۵ۧ [39]

ترجمہ:اورتمہاراکام ان سے جبراًبات منوانانہیں ہے ،بس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہراس شخص کونصیحت کردوجومیری تنبیہ سے ڈرے۔

جوشخص اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑکرکفرکارویہ اختیارکرے گاتواللہ اسے سخت اوردائمی عذاب دے گا،جیسے فرمایا

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى۝۳۱ۙوَلٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۳۲ۙ [40]

ترجمہ:مگراس نے نہ سچ مانااورنہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایااورپلٹ گیا۔

عَنْ أَبِی خَالِدٍ، قَالَ: مَرَّ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِیُّ عَلَى خَالِدِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَةَ فَسَأَلَهُ عَنْ أَلْیَنِ كَلِمَةٍ سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: كُلُّكُمْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ شَرَدَ عَلَى اللَّهِ شِرَادَ الْبَعِیرِ عَلَى أَهْلِهِ

علی بن خالدکہتے ہیں ایک مرتبہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کا گذرخالد بن یزید پر ہوا تو اس نے ان سے پوچھا کہ کوئی نرم بات جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناہے یاد رکھو! تم میں سے ہر شخص جنت میں داخل ہوگاسوائے

اس آدمی کے جو اللہ کی اطاعت سے اس طرح بدک کر نکل جائے جیسے اونٹ اپنے مالک کے سامنے بدک جاتا ہے۔[41]

جوشخص ایمان لانے سے روگردانی کرے اور کفرکی راہ اختیارکرے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کادائمی عذاب دے گا،بالآخر تمام خلائق کوروزمحشر ہمارے دربارمیں پیش ہوناہی ہے ،اور یقیناً ہم ان سے ذرہ ذرہ کاحساب لیں گے۔

بعض نمازوں میں یہ دعا

اللَّهُمَّ حَاسِبْنِی حِسَابًا یَسِیرًا

پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔

 عثمان رضی اللہ عنہ بن عثمان کاایمان لانا:

شَمَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ الشَّرِیدِ بْنِ هَرَمِیِّ بْنِ عَامِرِ بْنِ مَخْزُومٍ. وكان اسم شماس عُثْمَان وإنما سمی شماسا لوضاءته فغلب على اسمه

شماس بن عثمان بن الشریدبن ہرمی بن عامربن مخزوم ،شماس رضی اللہ عنہ کانام عثمان تھاصرف ان کی صفائی اورخوبصورتی کی وجہ سے اس کانام شماس رکھ دیاگیااس لقب نے اتنی شہرت پائی کہ لوگ اصل نام بھول گئے۔

یہ بچپن میں ہی یتیم ہوئے توان کی والدہ صفیہ بنت ربیعہ نے ان کی پرورش کی ،شماس ابھی انیس بیس برس کے تھے جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کاآغازفرمایا،اللہ تعالیٰ نے شماس رضی اللہ عنہ کوحسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازاتھاان کے کان جونہی دعوت توحیدسے آشناہوئے انہوں نے بغیرکسی تامل کے اس دعوت پرلبیک کہا،ماں بھی نہایت نیک بخت خاتون تھیں وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ نعمت اسلام سے بہرہ یاب ہوگئیں ،یہ بڑاپرآشوب زمانہ تھااوردعوت حق قبول کرناگرداب بلامیں پھنسنے کے مترادف تھا،مشرکین قریش کوکسی مسلمان کاچین سے بیٹھاگوارانہیں تھاجوں جوں دعوت اسلام پھیلتی جارہی تھی ان کی آتش غضب اورتیزہوتی جاتی تھی ،ان کے دست ظلم سے صفیہ رضی اللہ عنہا بنت ربیعہ اورشماس رضی اللہ عنہ بھی محفوظ نہ رہے،

وكان شماس مِمَّنْ هاجر إِلَى أرض الحبشة فِی الهجرة الثانیة

چنانچہ کفارمکہ کے ظلم وستم سے مجبورہوکر شماس رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے ہمراہ دوسری ہجرت حبشہ میں حبشہ چلے گئے۔

اورکئی سال وہاں مقیم رہ کرغریب الوطنی کی مصیبتیں جھیلتے رہے اورہجرت مدینہ منورہ سے کچھ پہلے مکہ مکرمہ واپس آگئے،لیکن مکہ مکرمہ میں ان کوواپس آئے کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ہجرت مدینہ منورہ کااعلان ہوگیاچنانچہ وہ والدہ کے ہمراہ مدینہ منورہ ہجرت کرگئے ،اس طرح انہیں ذوالہجرتین (دوہجرتیں کرنے والے)کاشرف حاصل ہوگیا۔

لَمَّا هَاجَرَ شَمَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى مُبَشِّرِ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ: لَمْ یَزَلْ شَمَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ الشَّرِیدِ نَازِلا بِبَنِی عمرو بن عَوْفٍ عِنْدَ مُبَشِّرِ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ حَتَّى قُتِلَ بِأُحُدٍ، قَالَ: آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ شَمَّاسِ بْنِ عُثْمَانَ وَحَنْظَلَةَ بْنِ أَبِی عَامِرٍ

شماس رضی اللہ عنہ کومدینہ منورہ میں مبشر رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذرانصاری نے اپنامہمان بنایااورسعیدبن مسیب کہتے ہیں شماس بن عثمان بن شریدغزوہ احدمیں شہیدہونے تک بنی عمروبن عوف میں مبشربن عبدالمنذرکے پاس مقیم رہے،ہجرت کے چندماہ بعدسرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصارکے مابین مواخاة قائم فرمائی توشماس رضی اللہ عنہ کوغسیل الملائکہ حنظلہ رضی اللہ عنہ بن ابی عامرانصاری کااسلامی بھائی بنایا۔[42]

شَهِدَ شَمَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ بَدْرًا وَأُحُدًا وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لا یَرْمِی بِبَصَرِهِ یَمِینًا وَلا شِمَالا إِلا رَأَى شَمَّاسًا فِی ذَلِكَ الْوَجْهِ یَذُبُّ بِسَیْفِهِ حَتَّى غَشْیَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَرَّسَ بِنَفْسِهِ دُونَهُ حَتَّى قُتِلَ،فَحُمِلَ إِلَى الْمَدِینَةِ وَبِهِ رَمَقٌ، فَحُمِلَ إِلَى الْمَدِینَةِ وَبِهِ رَمَقٌ فَأُدْخِلَ عَلَى عَائِشَةَ ،فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: ابْنُ عَمِّی یَدْخُلُ عَلَى غَیْرِی؟فَقَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:احملوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ . فَحُمِلَ إِلَیْهَا فَمَاتَ عِنْدَهَاوَقَدْ مَكَثَ یَوْمًا وَلَیْلَةً وَلَكِنَّهُ لَمْ یَذُقْ شَیْئًا،كَانَ یَوْمَ قُتِلَ. رَحِمَهُ اللَّهُ. ابْنُ أَرْبَعٍ وَثَلاثِینَ سَنَةً. وَلَیْسَ لَهُ عَقِبٌ ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُرَدَّ إِلَى أُحُدٍ فَیُدْفَنُ هُنَاكَ كَمَا هُوَ فِی ثِیَابِهِ الَّتِی مَاتَ فِیهَا وَلَیْسَ لَهُ عَقِبٌ ،وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا وَجَدْتُ لِشَمَّاسِ بْنِ عُثْمَانَ شَبِیهًا إِلا الْجَنَّةَ

شماس رضی اللہ عنہ غزوہ بدراورغزوہ احدمیں شریک ہوئے،غزوہ بدرمیں ان کے دوحقیقی ماموں عتبہ بن ربیعہ اورشیبہ بن ربیعہ مخالف صفوں میں تھے لیکن شماس رضی اللہ عنہ کے نزدیک راہ حق میں دینوی رشتے ناتے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے،غزوہ احدمیں جب ایک اتفاقی غلطی سے مسلمانوں میں انتشارپھیل گیااورسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب صرف چندجان نثاررہ گئے تھےان جان نثاروں میں شماس رضی اللہ عنہ بھی تھے اوروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں آگے پیچھے اوران کی تلواربرق بے اماں بن کرکفارپرگررہی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف نظراٹھاکردیکھتے شماس رضی اللہ عنہ کواپنی تلوارکے ساتھ کفارسے نبرآزماپاتے ،انہوں نے اپنے آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال بنالیاتھااورکفارکے ہروارکوبڑھ کراپنے جسم پرلے رہے تھےیہاں تک کہ زخموں سے چورچورہوکرگرپڑے، لڑائی ختم ہوئی اورشہیدوں اوزخمیوں کی تلاس شروع ہوئی توشماس رضی اللہ عنہ اس حالت میں ملے کہ جس کاکوئی حصہ رخموں سے خالی نہ تھالیکن ابھی سانس چل رہی تھی،انہیں مدینہ منورہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچادیاگیا،ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ میرے چچازادبھائی میرے سواکسی اورکے پاس پہنچائے جائیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہیں ام سلمہ مخزومیہ رضی اللہ عنہا کے گھرلے جاؤ ،انہیں وہاں لے جایاگیا،ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کی تیمارداری کی لیکن شماس رضی اللہ عنہ حالت علاج معالجہ اورتیمارداری کی حدسے گزرچکے تھے،صرف ایک رات اورایک دن زندہ رہے اس دوران میں نہ کچھ کھایانہ پیااس کے بعداپنی جان جان آفریں کے سپردکردی،اس وقت ان کی عمرچونتیس برس تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ ان کی میت میدان احدمیں لائی جائے چنانچہ ان کی میت احدمیں لائی گئی اورجن خون آلودکپڑوں میں انہوں نے شہادت پائی تھی انہی میں اس شہیدراہ حق کوبغیرغسل احدکے گنج شہداں میں سپرخاک کردیاگیا،ان کی نسل نہیں چلی، سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احدکاذکرکرتے وقت فرمایا کرتے تھےمیں شماس رضی اللہ عنہ کے لیے جنت کے سواکوئی تشبہ نہیں پاتا۔[43]

[1] صحیح مسلم کتاب الجمعة باب مایقرافی صلاة الجمعة۲۰۲۸ ، سنن نسائی کتاب الجمعة باب القراة فی صلوٰة الجمعة سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى و هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِـیَةِ۱۴۲۵

[2] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ مَا یُقْرَأُ فِی صَلَاةِ الْجُمُعَةِ ۲۰۳۰،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِرَاءَةِ فِی الصَّلَاةِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۱۱۱۹،سنن نسائی کتاب الجمعة ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ فِی الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْجُمُعَةِ۱۴۲۵،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا یُقْرَأُ بِهِ فِی الْجُمُعَةِ۱۱۲۳،موطا امام مالک کتاب باب جامع ماجاء فی الجمعة۱۹،مسنداحمد۱۸۳۸۳

[3]الاعراف۸،۹

[4] النساء۴۱تا۴۲

[5] حم السجدة۲۰

[6] الکہف۴

[7] الغاشیة: 4

[8] مستدرک حاکم۳۹۲۵

[9] الغاشیة: 3

[10] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورۂ سُورَةُ هَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ الغَاشِیَةِ

[11] عبس۴۰تا۴۲

[12] القیامة۲۴،۲۵

[13] ق۲۴تا۲۶

[14] الدھر۴

[15] الحاقة۳۰تا۳۷

[16] الاعراف۴۱

[17] العنکبوت۵۵

[18] الزمر۱۶

[19] جامع ترمذی ابواب صفة جہنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ ۲۵۸۳ ، مستدرک الحاکم ۳۳۹۳

[20]الواقعة ۵۱تا ۵۶

[21] محمد۱۵

[22]ابراہیم۱۶،۱۷

[23] ص۵۵تا۵۸

[24] جامع ترمذی ابواب صفة جہنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ ۲۵۸۴، مستدرک حاکم ۸۷۷۹

[25] الصافات۶۲تا۶۸

[26] الدخان۴۳تا۵۰

[27] الحاقة۳۵تا۳۷

[28]المزمل۱۲،۱۳

[29] النبا۲۴تا۳۰

[30] عبس۳۸،۳۹

[31] محمد۶

[32] مریم۶۲

[33] الطور۲۳

[34] الواقعة۲۵،۲۶

[35] محمد۱۵

[36] الحاقة۲۳

[37] سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ ۴۳۳۲

[38] ق۶

[39] ق۴۵

[40] القیامة ۳۱،۳۲

[41] مستدرک حاکم ۱۸۴،مسنداحمد۲۲۲۲۶

[42] ابن سعد۱۸۵؍۳

[43] ابن سعد۱۸۵؍۳

Related Articles