بعثت نبوی کا دوسرا سال

مضامین سورۂ النازعات

اس سورۂ میں بھی قیامت کے مختلف احوال اورہولناکیوں کاذکرکیاگیا،اللہ تعالیٰ نے موت کے وقت جان نکالنے والے اوراللہ کے احکام کو بلا تاخیر بجالانے والے اورحکم الٰہی کے مطابق ساری کائنات کاانتظام کرنے والے فرشتوں کی قسم کھاکرفرمایاکہ تمہیں قیامت کے دن ضرورزندہ کیاجائے گا،مکذبین قیامت کی کیفیت کوبیان کیاگیاکہ اس دن خوف سے ان کے دل کانپ رہے ہوں گے،دہشت سے ان کی آنکھیں سہمی ہوئی ہوں گی ،خلقت کے سامنے ذلت اور ندامت سے ان کی نظریں جھکی ہوں گی ،لیکن آج دنیامیں یہ فرعون بنے بیٹھے ہیں اوراللہ اوراس کے رسول کی دعوت کوتسلیم کرنے کوتیارنہیں لیکن شایدانہیں فرعون کاعبرتناک انجام معلوم نہیں ،قیامت کے بارے میں شک وشبہ کے اظہارکرنے والوں سے سوال کیاگیاکہ بتاؤ تمہاری تخلیق زیادہ مشکل ہے یابغیرستونوں کے بلندوبالاآسمان کوبنانا؟ جو لوگ بعثت بعدالموت کے بارے میں شک وشبہ کااظہارکرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ جواللہ اپنی قدرت کاملہ سے بے حدوحساب ستاروں اورسیاروں کے ساتھ پھیلی ہوئی یہ عظیم الشان کائنات تخلیق کر سکتا ہے ،انسانوں کی ضرورت کے لیے شب وروزکانظام مقررکرسکتاہے ،انسانوں کے آبادہونے کے لیے فرش کی طرح ہموارزمین بچھاسکتاہے ،زمین کوایک طرف ڈھلک جانے سے بچانے کے لیے اس میں رنگ برنگ کے بلندوبالاٹھوس پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ سکتا ہے،انسانوں اورجانوروں کی ضرورت کے لیے زمین سے چشموں کی صورت میں پانی نکال سکتاہے،انسانوں اور جانوروں کی خوراک کے لیے مختلف اجناس،انواع اقسام کے پھل فروٹ اور چارہ پیداکرسکتاہے،کیااس خالق کی قدرت کاملہ نہیں ہے کہ تمہیں مرنے کے بعداعمال کی جزاکے لیے دوبارہ زندہ کردے؟یقینا ً اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کام چنداں مشکل نہیں ہے،اختتام پرمشرکین کا سوال مذکورہے جووقوع قیامت کومحال سمجھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے وقت کے بارے میں سوال کرتے تھے، فرمایااس کاوقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کومعلوم ہے ، رسول کاکام صرف متنبہ کردیناہے کہ وہ وقت یقیناآئے گاپھرجس کاجی چاہے اللہ کی بارگاہ میں کھڑاہونے کاخوف کرے اوراپنارویہ درست کرلے اورجس کاجی چاہے اللہ سے بے خوف ہوکر شتر بے مہارکی طرح زندگی گزاردے لیکن جس روزیہ قیامت کودیکھ لیں گے توانہیں ایسامعلوم ہوگاکہ وہ صرف دن کاآخری حصہ یااول حصہ ہی دنیامیں رہے،اوراس قلیل وقت کے لیے انہوں نے دائمی زندگی کوبربادکردیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ‎﴿١﴾‏ وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا ‎﴿٢﴾‏ وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا ‎﴿٣﴾‏ فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا ‎﴿٤﴾‏ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا ‎﴿٥﴾‏ یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ‎﴿٦﴾‏ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ ‎﴿٧﴾‏ قُلُوبٌ یَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ ‎﴿٨﴾‏ أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ ‎﴿٩﴾‏ (النازعات)

’’ڈوب کر سختی سے کھنچنے والوں کی قسم، بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم، اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم ، پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم، پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم ، جس دن کاپنے والی کانپے گی،  اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی (پیچھے پیچھے)آئے گی ،(بہت سے) دل اس دن دھڑ کتے ہوں گے جس کی نگاہیں نیچی ہونگی ۔


اہل عرب فرشتوں کی ہستی کے منکرنہ تھے،وہ اس بات کوتسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی روح فرشتے ہی نکالتے ہیں ،ان کایہ بھی عقیدہ تھاکہ فرشتے انتہائی تیزی سے حرکت کرتے ہیں ،وہ زمین سے آسمان کی بلندیوں اورایک جگہ سے دوسری جگہ تک آناًفاناًپہنچ جاتے ہیں اوراللہ انہیں جوحکم دیتاہے اسے فورا ًسرانجام دیتے ہیں ،ان کایہ بھی عقیدہ تھاکہ فرشتے خودمختیاراوراپنی مرضی کے مالک نہیں بلکہ اللہ کے تابع فرمان ہیں اوراللہ کے حکم سے کائنات کاانتظام چلاتے ہیں ،جہالت کی بناپروہ انہیں اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھے اس لئے انہیں معبودبناکران کی پرستش کرتے تھے مگروہ یہ بھی کہتے تھے کہ اصل اختیارات ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں ،اس لئے یہاں وقوع قیامت اورحیات بعدالموت پرفرشتوں (جن پرایمان لاناضروری ہے)کے پانچ افعال و اوصاف کی قسم کھاکرفرمایا کہ جس اللہ کے حکم سے فرشتے موت کے وقت کافروں کی جان کوسختی سے اس کے جسم کی گہرائیوں تک اترکراوراس کی رگ رگ سے کھینچ کرنکالتے ہیں ،جومومن کی جان بہ سہولت نکالتے ہیں جیسے کسی چیزکی گرہ کھول دی جائے ،جو انتہائی تیزی سے اللہ کاحکم لے کراترتے اورچڑھتے ہیں اورایسے معلوم ہوتاہے جیسے وہ فضامیں تیررہے ہوں ،جوحکم الٰہی کااشارہ پاتے ہی نہایت سرعت سے اس کی تعمیل میں دوڑپڑتے ہیں ،اورجواللہ عزوجل کے حکم کے موجب بارشوں ،نباتات،ہواؤ ں ،سمندروں ،ماؤ ں کے پیٹوں میں بچوں ،حیوانات اورجہنم وغیرہ کاانتظام چلاتے ہیں ،مثلاًتم مرنے کے بعداپنے اعمال کے محاسبہ کے لئے ضرور زندہ کیے جاؤ گے ،جیسے فرمایا:

زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا۝۰ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ۝۰ۭ وَذٰلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ۝۷ [1]

ترجمہ: منکرین بڑے دعوے سے کہاہے کہ وہ مرنے کے بعدہرگزدوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ،ان سے کہو کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے( دنیا میں ) کیا کچھ کیاہے اورایساکرنااللہ کے لئے بہت آسان ہے ۔

جب اللہ کے حکم سے صور پھونکاجائے گا جس کے نتیجے میں ساری کائنات کانپ اورلرز اٹھے گی ،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ۔۔۔ ۝۱۴ [2]

ترجمہ:جب زمین اور پہاڑلرزاٹھیں گے۔

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ [3]

ترجمہ:جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی۔

جس سے ہرچیزفناہوجائے گی ،تمام انسان اورفرشتے ماسوائے جنہیں اللہ زندہ رکھناچاہے گامرجائیں گے پھرچالیس سال بعددوسرا صور پھونکا جائے گا جس سے تمام انسان جسم وجاں کے ساتھ زندہ ہوکرمیدان محشرکی طرف دوڑنے لگیں گے جیسے فرمایا

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ۝۶۸ [4]

ترجمہ:اوراس روزصور پھونکاجائے گااوروہ سب مرکرگرجائیں گے جوآسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھناچاہے،پھرایک دوسراصور پھونکا جائے گااوریکایک سب کے سب اٹھ کردیکھنے لگیں گے۔

سب انسان میدان محشرمیں جمع ہوجائیں گے ،اللہ کے حکم سے فرشتے نیک بخت لوگوں کوسیدھے ہاتھ میں اور بد بختوں کوپیچھے سے الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال تھمادیں گے ، اپنے ہرطرح کے اعمال ہرانسان خودپڑھ لے گا،جیسے فرمایا:

اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا۝۱۴ۭ [5]

ترجمہ:پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

میدان محشرمیں انصاف کا ترازو قائم کردیا جائے گاجو مادی چیزوں کو تولنے کے بجائے انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گا اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گا کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے ،نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد،جیسے فرمایا:

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۴۷ [6]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا ۔

اللہ رب العزت اپنی شان کے لائق اپنے تخت پر جلوہ گرہوگا،فرشتے سرجھکائے صف باندھے کھڑے ہوں گے ،جہنم کوجواپنے غیض وغضب سے پھٹی جاتی ہوگی اوراس میں سے بھیانک آوازیں نکل رہی ہوں گی جیسے فرمایا

اِذَآ اُلْقُوْا فِیْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِیْقًا وَّهِىَ تَفُوْرُ۝۷ۙتَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۔۔۔۝۸ [7]

ترجمہ:جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دھاڑنے کی ہولناک آوازیں سنیں گے اور وہ جوش کھا رہی ہوگی شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔

گھسیٹ کر میدان میں لایاجائے گا،جیسے فرمایا:

وَّعَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِیْنَ عَرْضَۨا۝۱۰۰ۙ [8]

ترجمہ:اور وہ دن ہوگا جب ہم جہنم کو کافروں کے سامنے لائیں گے۔

وَجِایْۗءَ یَوْمَىِٕذٍؚبِجَهَنَّمَ۔۔۔۝۲۳ۭ [9]

ترجمہ:اور جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی۔

یہ سب منظر دیکھ کرکفار،فجاراورمنافقین کویقین آجائے گا کہ اللہ اوراس کے رسول نے قیامت ، حیات بعد الموت اورجزاوسزا کے بارے میں صحیح خبر دی تھی ،قیامت کے اہوال اور شدائدسے ان کی نگاہیں سہمی اورتاسف وحسرت سے مجرموں کی طرح جھکی ہوئی ہوں گی ،جیسے فرمایا

خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ۔۔۔۝۴۳ [10]

ترجمہ:ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔

خوف و دہشت سے ان کے دل ہول کھارہے ہوں گے،ان کے برعکس اہل تقویٰ بالکل مطمئن ہوں گے جیسے فرمایا:

لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ۝۰ۭ ھٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۱۰۳ [11]

ترجمہ: وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور فرشتے بڑھ کر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ ہے وہ تمہاراوہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

یَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِی الْحَافِرَةِ ‎﴿١٠﴾‏ أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً ‎﴿١١﴾‏ قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ ‎﴿١٢﴾‏ فَإِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ ‎﴿١٣﴾‏ فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ ‎﴿١٤﴾ (النازعات)

کہتے ہیں کہ کیا پہلی کی سی حالت کی طرف لوٹائے جائیں گے؟ کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے، کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان دہ ہے، (معلوم ہونا چاہیے)وہ تو صرف ایک (خوفناک) ڈانٹ ہے کہ  (جس کے ظاہر ہوتے ہی) وہ ایک دم میدان میں جمع ہوجائیں گے ۔


منکرین قیامت اللہ کی آیات پر حیرت وبے یقینی سے کہتے ہیں کیاواقعی ہمیں اس طرح زندہ کردیاجائے گاجس طرح مرنے سے بیشترتھے؟انکارحیات بعدالموت کی مزید تاکیدکے طورپرکہتے ہیں ہم کس طرح زندہ کردیے جائیں گے جب کہ قبروں میں جانے کے بعد ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوکرمٹی کے ساتھ مٹی ہوچکی ہوں گے ،تو ان لوگوں کو جواب دیاگیاہاں واقعی ایک وقت مقررہ پراللہ قادرمطلق تمہیں اپنے اعمال کی جزاکے لئے زندہ کرے گا تویہ تمسخر کے طورپرآپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے اگر واقعی ایساہواجیساکہ خیرالاولین والآخرین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تووہ زندگی ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہوگی ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کام کویہ بہت بڑا اور ناممکن سمجھ رہے ہیں وہ توہماری قدرت کاملہ کے تحت بہت ہی معمولی کام ہے ،بس اللہ کے حکم سے اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے اوردنیاکے تمام لوگ یکایک اپنے آپ کو ایک نئی زمین کی پیٹھ پر جسم و جان کے ساتھ موجودپائیں گے،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۴۸ [12]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بےنقاب حاضر ہو جائیں گے۔

یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۝۵۲ۧ [13]

ترجمہ: جس روزوہ تمہیں پکارے گاتوتم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکارکے جواب میں نکل آؤ گے اورتمہاراگمان اس وقت یہ ہوگاکہ ہم بس تھوڑی دیرہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں ۔

اوریہ کہ اللہ کاحکم فورا ًنافذ ہوتا ہے۔

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍؚبِالْبَصَرِ۝۵۰ [14]

ترجمہ:اورہماراحکم بس ایک ہی حکم ہوتاہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں آجاتاہے۔

۔۔۔وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَاَقْرَبُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۷۷ [15]

ترجمہ: اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائےبلکہ اس سے بھی کچھ کم، حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [16]

ترجمہ:وہ جب کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو بس وہ اس سے اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ جاتی ہے۔

هَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ مُوسَىٰ ‎﴿١٥﴾‏ إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ‎﴿١٦﴾‏ اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ‎﴿١٧﴾‏ فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ ‎﴿١٨﴾‏ وَأَهْدِیَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ ‎﴿١٩﴾‏ فَأَرَاهُ الْآیَةَ الْكُبْرَىٰ ‎﴿٢٠﴾‏ فَكَذَّبَ وَعَصَىٰ ‎﴿٢١﴾‏ ثُمَّ أَدْبَرَ یَسْعَىٰ ‎﴿٢٢﴾‏ فَحَشَرَ فَنَادَىٰ ‎﴿٢٣﴾‏ فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ ‎﴿٢٤﴾‏ فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰ ‎﴿٢٥﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن یَخْشَىٰ ‎﴿٢٦﴾‏  (النازعات)

کیا موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر تمہیں پہنچی ہے ؟ جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا ( کہ) تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کرلی ہے، اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے،  اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے، پس اسے بڑی نشانی دکھائی تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی، پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے، پھر سب کو جمع کر کے پکارا تم سب کا رب میں ہی ہوں ، تو (سب سے بلند وبالا) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا،  بیشک اس میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو ڈرے۔


کفارومشرکین مکہ عقیدہ حیات بعدالموت کوتسلیم نہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اوردعوت اسلام کوزک پہنچانے کی کوشش کررہے تھے،اس لئے انہیں فرعون کاقصہ سنایا گیا کہ تمہیں موسٰی علیہ السلام کے قصے کی خبرہے جب اللہ رب العالمین نے موسٰی علیہ السلام کوجوسردی کے دنوں میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ مدین سے مصرواپس جارہے تھےاورجبکہ رات کاکچھ حصہ گزر چکاتھاتوانہیں مقدس وادی طویٰ میں پکاراتھااورانہیں خلعت رسالت سے سرفراز فرمایا تھا۔

فَلَمَّآ اَتٰىهَا نُوْدِیَ یٰمُوْسٰى۝۱۱ۭاِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ۝۰۝۱۲ۭوَاَنَا اخْتَرْتُكَ۔۔۔ ۝۱۳ [17]

ترجمہ:وہاں پہنچاتوپکاراگیااے موسیٰ میں ہی تیرارب ہوں ،جوتیاں اتاردے تووادی مقدس طویٰ میں ہے اور میں نے تجھ کو چن لیاہے ۔

پھرحکم فرمایاتھاکہ فرعون مصرجوبندگی کی حدسے تجاوزکرکے خالق اورخلق دونوں کے معاملہ میں سرکشی کرتاہے کے پاس دعوت اسلام لے کرجاؤ ،جیسے فرمایا:

اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰی۝۲۴ۧ [18]

ترجمہ:اب توفرعون کے پاس جاوہ سرکش ہوگیاہے۔

اوراس سے کہوکہ کیاتم دعوت اسلام قبول کرتے ہو ، جیسےفرمایا:

۔۔۔وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا مَنْ تَزَكّٰى۝۷۶ۧ [19]

ترجمہ:یہ جزا ہے اس کی شخص کی جوپاکیزگی اختیارکرے ۔

وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ یَزَّكّٰٓی۝۳ۙ [20]

ترجمہ:تمہیں کیاخبرشایدوہ سدھرجائے یانصیحت پردھیان دے ۔

وَمَا عَلَیْكَ اَلَّا یَزَّكّٰى۝۷ۭ [21]

ترجمہ:حالانکہ اگروہ نہ سدھرے توتم پراس کی کیاذمہ داری ہے۔

اگرتم یہ پاکیزہ دعوت قبول کروتومیں اللہ کارسول تمہیں تمہارے رب کی طرف جانے والے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کروں تاکہ تواپنے مالک حقیقی کوپہچان جائے ، اس کی طاقت و قدرتوں سے تیرے دل میں اس کا خوف پیداہواورتواعمال صالحہ اختیارکرکے اس کی رحمت کامستحق بن جائے ،چنانچہ حکم ربانی کے مطابق موسیٰ علیہ السلام نے فرعون مصرکے دربارمیں جاکراسے دعوت اسلام پیش کی ،اس پرفرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کی کوئی نشانی مانگی،جیسے فرمایا:

قَالَ فَاْتِ بِهٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۳۱ [22]

ترجمہ: فرعون نے کہا اچھا تو لے آاگرتوسچاہے۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی صداقت کے دلائل میں معجزات دکھانے کے لئے اپنی لاٹھی کوزمین پرپھینکااوراللہ کی قدرت سے وہ بے جان عصاسب درباریوں کے سامنے ایک اژدہابن گیا اور ادھر ادھردوڑنے لگا، جب موسیٰ علیہ السلام نے اسے پکڑا توعصااپنی اصلی حالت پرلوٹ آیا،موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دوسری نشانی دکھائی کہ اپناہاتھ بغل میں دبایا اور جب باہرنکالاوہ وہ ہاتھ بغیرکسی تکلیف کے خوب چمکنے لگا،جیسے فرمایا:

فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ۝۳۲ۚۖوَّنَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِىَ بَیْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۝۳۳ۧ [23]

ترجمہ:موسیٰ نے اپناعصاپھینکااوریکایک وہ ایک صریح اژدہاتھا،پھراس نے اپناہاتھ(بغل سے )کھینچااوروہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہاتھا۔

مگرفرعون نے دعوت حق کوقبول کرنے اوران معجزات کوماننے سے انتہائی حقارت وتکبرکے ساتھ انکارکردیااوران معجزات کوجادوگردانا،جیسے فرمایا:

فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى ۝۳۶ [24]

ترجمہ:پھرجب موسی ٰ ان لوگوں کے پاس ہماری کھلی کھلی نشانیاں لے کرپہنچاتوانہوں نے کہاکہ یہ کچھ نہیں ہے مگربناوٹی جادو۔

اور چالبازی کرتے ہوئے ماہر جادوگروں کوموسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لئے بلوایا،جیسے فرمایا

قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَابْعَثْ فِی الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِیْنَ۝۳۶ۙیَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ۝۳۷فَجُمِــــعَ السَّحَرَةُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۳۸ۙ [25]

ترجمہ:انہوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیےکہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں ،چنانچہ ایک روز مقررہ وقت پرجادوگراکٹھے کر لیے گئے۔

توفرعون نےانہیں اپنامقرب بنانے اورانعام واکرام کالالچ دے کر موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں کھڑاکردیا،جیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ۝۴۱قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۝۴۲[26]

ترجمہ:جب جادوگرمیدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہاہمیں انعام توملے گااگرہم غالب رہے؟اس نے کہاہاں ،اورتم تو اس وقت مقربین میں شامل ہوجاؤ گے۔

ماہرفن جادوگروں نے اپنے فن کاخوب مظاہرہ کیامگر ناکام رہے،جیسے فرمایا:

 وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ۝۱۱۶ [27]

ترجمہ:اوربڑاہی زبردست جادو بنا لائے۔

موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کودیکھ کرجادوگرجن کی زندگی ہی جادوکوسیکھتے ہوئے گزری تھی حقیقت کوپاگئے کہ یہ جادونہیں معجزہ ہے جس پرانہوں نے اسی مجمع میں علی الاعلان دعوت اسلام کوقبول کرلیا،جیسے فرمایا

فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ۝۴۶ۙقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۴۷ۙ [28]

ترجمہ:اس پرسارے جادوگربے اختیار سجدے میں گرپڑے اوربول اٹھے کہ مان گئے ہم رب العالمین کو۔

اس طرح پوری عوام کے سامنے فرعون کی چالبازی خود اس کے لئے ہی باعث ذلت بن گئی،فرعون اللہ کی ہستی کامنکرنہ تھاوہ بھی بے شمار معبودوں کی پرستش کرتاتھا،جیسے فرمایا:

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ۔۔۔۝۰۝۱۲۷

[29]ترجمہ: فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہاکیاتوموسیٰ اوراس کی قوم کو یوں ہی چھوڑدے گا کہ ملک میں فسادپھیلائیں اوروہ تیری اورتیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں ؟۔

فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ۝۵۳ [30]

ترجمہ:(اگرموسیٰ اللہ کابھیجاہواہوتاتو)کیوں نہ اس پرسونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یافرشتوں کاایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا ۔

وہ حکومت ،طاقت اور اختیارات کے غرورمیں مبتلا ہوکراپنے آپ کوالٰہ اوررب اعلیٰ کہتاتھا،جیسے فرمایا:

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ۝۲۹ [31]

ترجمہ: فرعون نے کہااگرتونے میرے سواکسی اورکو معبود مانا توتجھے بھی ان لوگوں میں شامل کردوں گاجو قیدخانوں میں پڑے سڑرہے ہیں ۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ۝۰۔۔۔ ۝۳۸ [32]

ترجمہ: اورفرعون نے کہااے اہل دربارمیں تواپنے سوا تمہارے کسی الٰہ کو نہیں جانتا۔

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ [33]

ترجمہ: اس نے کہا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: هُوَ قَوْلُهُ: {مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَیْرِی} وَقَوْلُهُ: {أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى} ، وَكَانَ بَیْنَهُمَا أَرْبَعُونَ سَنَةً

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرعون نے پہلے یہ کہاتھا’’میں تواپنے سوا تمہارے کسی الٰہ کو نہیں جانتا‘‘پھراس کے چالیس سال بعدیہ کلمہ کہا ’’میں ہی تمہاراسب سے بڑارب ہوں ۔ ‘‘[34]

یعنی میں اقتداراعلیٰ کامالک ہوں ، میرے سواکسی کومیری مملکت میں حکم چلانے کاحق نہیں ہے ،اورمیرے اوپرکوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جس کافرمان یہاں جاری ہوسکتا ہو ، اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ نافرمانوں اورسرکشوں کولمبی مہلت عطافرماتاہے،جیسے فرمایا:

 ۔۔۔فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۱ [35]

ترجمہ:ہم ان لوگوں کو جوہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لئے چھوٹ دے دیتے ہیں ۔

مگر آخر ہر چیز کا ایک وقت مقررہے جیسے فرمایا:

۔۔۔لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ۝۰ۭ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۴۹ [36]

ترجمہ:ہرامت کے لئے مہلت کی ایک مدت ہے ، جب یہ مدت پوری ہوجاتی ہے توگھڑی بھرکی تقدیم وتاخیربھی نہیں ہوتی۔

بالآخرفرعون کی ڈھیل کاوقت ختم ہوااوراللہ نے اسے اوراس کے لشکرکوغرق کردیااورفرعون کی لاش کورہتی دنیاتک عبرت کانشان بنادیا ،جیسے فرمایا:

۔۔۔حَتّٰٓی اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۹۱فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۝۹۲ۧ [37]

ترجمہ:حتٰی کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا میں نے مان لیا کہ خداوند حقیقی اس کے سوا کوئی نہیں ہے جِس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں (جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے ! حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھااب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ۔

اوراس جرم میں کہ اس نے رسول کی دعوت کوقبول کرنے سے انکارکیااورسرکشی میں مقابلے پرنکل کھڑاہواقبرمیں صبح شام اس کے سامنے دوزخ پیش کی جاتی ہے جس میں وہ داخل کیاجائے گا،جیسے فرمایا:

اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـیًّا۝۰ۚ وَیَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ۝۰ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝۴۶ [38]

ترجمہ:دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو ۔

 وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ۝۰ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ۝۴۱ [39]

ترجمہ:ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا اور قیامت کے روز وہ کہیں سے کوئی مدد نہ پا سکیں گے۔

اس طرح اللہ نے اسے دنیاوآخرت کے عذاب میں گرفتارکردیا،اے لوگو!اگرتم نے لوگوں کے واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو تمہارا انجام بھی فرعون جیساہوسکتاہے ۔

‏ أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ‎﴿٢٧﴾‏ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ‎﴿٢٨﴾‏ وَأَغْطَشَ لَیْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ‎﴿٢٩﴾‏ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ‎﴿٣٠﴾‏ أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا ‎﴿٣١﴾‏ وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا ‎﴿٣٢﴾‏ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (النازعات)

کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے بنایا اس کی بلندی اونچی کی  پھر اسے ٹھیک ٹھاک کردیا،اسکی رات کو تاریک بنایا اسکے دن کو نکالا، اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا اس میں سے پانی اور چارہ نکالااور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑھ دیا،  یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے ہیں ۔


انسان جوحیات بعدالموت کوامرمحال سمجھتاہے اوراس کوناممکن سمجھتے ہوئے مختلف تاویلات گھڑتاہے،مگرکبھی اس چیزپرتم غوروفکرنہیں کرتے کہ عالم بالا جس میں بے حدو حساب ستارے ،سیارے اوران گنت کہکشائیں ہیں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یاانسانوں کو دربارہ اسی شکل صورت اورجسم وجاں سے پیداکردینا؟ جس حکیم وداناہستی کے لئے زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے کی تخلیق کچھ مشکل کام نہیں ہے توپھروہ انسانوں کودوبارہ زندہ کردینے پرکیوں قادرنہیں ہوسکتا ،جیسے فرمایا

اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ۔۔۔ ۝۸۱ [40]

ترجمہ:کیاوہ جس نے آسمانوں اورزمین کوپیداکیااس پرقادرنہیں کہ ان جیسوں کوپیداکر سکے؟ ۔

 لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ۔۔۔ ۝۵۷ [41]

آسمانوں اورزمین کاپیداکرناانسان کوپیداکرنے کی بہ نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے۔

اللہ رب العزت نے زمین کے اوپرچھت کی مانند آسمان کوکسی ستون کے بغیر بلندوبالا،کشادہ،محکم اورمضبوط بنایا،جیسے فرمایا

اَللهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا۔۔۔۝۲ [42]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا۔۔۔۝۱۰ [43]

ترجمہ:اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں ۔

جس سے باہر کوئی نکل نہیں سکتا،جیسے فرمایا:

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝۳۳ۚ [44]

ترجمہ:اے گروہ جن وانس!اگرتم زمین اورآسمان کی سرحدوں سے نکل کربھاگ سکتے ہوتو بھاگ دیکھو،نہیں بھاگ سکتے اس کے لئے بڑازورچاہیے۔

پھراس میں چمکنے والے ستارے جڑ دیے،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۔۔۔ ۝۵ [45]

ترجمہ:ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے۔

۔۔۔ وَزَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۝۰ۤۖ وَحِفْظًا۔۔۔۝۱۲ [46]

ترجمہ: اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا ۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙ [47]

ترجمہ:ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔

پھران بے شمارستاروں ، سیاروں اورکہکشاؤ ں کے درمیان حیرت انگیزتوازن قائم کیا،جیسے فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰى۝۲۠ۙ [48]

ترجمہ:جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ۔

سورج غروب ہونے سے زمین پررات کی تاریکی چھاجاتی ہے جیسے اوپرسے اس پرپردہ ڈال کر ڈھانک دیاگیا ہو ، اورسورج کے طلوع ہونے سے روشن دن نکل آتا ہے ، اسی اللہ نے زمین میں روئیدگی کی صلاحیت پیداکی اوراس کے اندر میٹھے پانی کے سوتے جاری کیے جس کی وجہ سے وہ انسانوں اور جانوروں کی ضرورت کے لئے اربوں ، کروڑوں سالوں سے مختلف اجناس ، انواع و اقسام کے لذیزپھل ،میوہ جات ، جانوروں کے لئے چارے،آگ جلانے اور دوسرے کئی کاموں کے لئے انواع اقسام کے درخت ،بیماروں کی شفاکے لئے جڑی بوٹیاں پیداکرتی چلی آرہی ہے، اوراس میں بلندوبالا پہاڑ میخوں کی طرح گاڑ دیے،جیسے فرمایا:

وَهُوَالَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ۔۔۔۝۳ [49]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں ۔

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ ۝۱۹[50]

ترجمہ:ہم نے زمین کو پھیلایا اس میں پہاڑ جمائے۔

وَاَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ۔۔۔ ۝۱۵ۙ [51]

ترجمہ:اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے۔

وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ [52]

ترجمہ:اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے ۔

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ ۔۔۔۝۷ۙ [53]

ترجمہ:اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے۔

زمین وآسمان کے درمیان یہ عظیم الشان نظام جس میں کوئی کجی نہیں اتفاقاًقائم نہیں ہوگیا بلکہ اللہ نے زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لئے بڑی حکمت کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ایک اندازے کے مطابق یہ نظام قائم کیاہے،کیاوہ قدرتوں والارب انسانوں کودوبارہ پیدانہیں کرسکتا۔

فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَىٰ ‎﴿٣٤﴾‏ یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ مَا سَعَىٰ ‎﴿٣٥﴾‏ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیمُ لِمَن یَرَىٰ ‎﴿٣٦﴾‏ فَأَمَّا مَن طَغَىٰ ‎﴿٣٧﴾‏ وَآثَرَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ‎﴿٣٨﴾‏ فَإِنَّ الْجَحِیمَ هِیَ الْمَأْوَىٰ ‎﴿٣٩﴾‏ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٤٠﴾‏ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوَىٰ ‎﴿٤١﴾(النازعات)

پس جب وہ بڑی آفت (قیامت) آجائے گی، جس دن کے انسان اپنے کئے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا،  اور (ہر) دیکھنے والے کے سامنے جہنم ظاہر کی جائے گی، تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی)  اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی( ہوگی)(اسکا) ٹھکانا جہنم ہی ہے،  ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔


جب قیامت کاعظیم ہنگامہ برپاہوگاجس کے سامنے ہرسختی ہیچ ہے،جیسے فرمایا:

بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ۝۴۶ [54]

ترجمہ:اوروہ بڑی آفت اورزیادہ تلخ ساعت ہے۔

اسی سختی میں انسان اپنے والدین،اولاداوردوستوں سے غافل ہوجائے گا،جیسے فرمایا

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ۝۳۳ۡیَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙ وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭلِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ۭ [55]

ترجمہ:آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی ،اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گاان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا ۔

 وَلَا یَسْـَٔــلُ حَمِیْمٌ حَمِـیْمًا۝۱۰ۚۖیُّبَصَّرُوْنَهُمْ۝۰ۭ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍؚبِبَنِیْهِ۝۱۱ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِیْهِ۝۱۲ۙوَفَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُـــــْٔـوِیْهِ۝۱۳ۙوَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ ثُمَّ یُنْجِیْهِ۝۱۴ۙ [56]

ترجمہ:اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گاحالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے ، مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کواپنی بیوی کواپنے بھائی کو اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھااور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے۔

تمام اسباب اورتعلقات منقطع ہوجائیں گے ،جیسے فرمایا:

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ ۝۱۰۱ [57]

ترجمہ:پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

اس وقت انسان کواچھی طرح یادآجائے گاکہ یہ وہی ہولناک دن ہے جس کی اسے خبردی جاتی رہی ہے،پھرجب وہ میدان محشر میں کھڑاہوگااوراللہ کے فرمان کوحق دیکھ کرنامہ اعمال کے ملنے سے قبل ہی اس کے چشم تصورمیں اپنے اچھے برے،چھوٹے بڑے تمام اعمال یک لخت گھوم جائیں گے ،اس وقت وہ اپنی نیکیوں میں ذرہ بھرنیکی کے اضافے کی تمنا کرے گااوراپنی برائیوں میں ذرہ بھر اضافے پرغم زدہ ہوجائے گامگراس وقت سب تمنائیں ،آرزوئیں لاحاصل ہوں گی،فرشتے جہنم کولگاموں سے گھسیٹ کرمیدان محشر میں خلقت کے سامنے لے آئیں گےجسے دیکھ کر کفارومشرکین خوف ودہشت میں مبتلاہوجائیں گے ،ان کے غم وحسرت میں اضافہ ہوجائے گا،جیسے فرمایا:

وَجِایْۗءَ یَوْمَىِٕذٍؚبِجَهَنَّمَ۝۰ۥۙ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى۝۲۳ۭ [58]

ترجمہ : اورجہنم اس روزسامنے لائی جائے گی اس دن انسان کوسمجھ آئے گی اوراس وقت کے سمجھنے کا کیا حاصل؟۔

جس شخص نے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی بجائے بغاوت کی ہوگی،حق کاراستہ روکنے کی کوشش کی ہوگی ،اللہ عزوجل کی آیات کامذاق اڑایااورحدووں کوپامال کیاہوگا، جو اپنے نفس کی خواہشوں کاغلام بن کردنیاہی کے حظوظ وشہوات میں مستغرق رہااوراسی کے لئے بھاگ دوڑکی ہوگی،الغرض جس نے دنیاکی عارضی زندگی کوآخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی پرترجیح دی ہوگی اس کادائمی ٹھکانہ یہی جہنم ہوگا، اللہ ان کے بارے میں فرمائے گا۔

اَلْقِیَا فِیْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِیْدٍ۝۲۴ۙمَّنَّاعٍ لِّــلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِۨ۝۲۵ۙ [59]

ترجمہ:پھینک دوجہنم میں ہرکٹر کافر کو جو حق سے عنادرکھتاتھا ، خیر کوروکنے والا اورحدسے تجاوذکرنے والاتھا۔

چنانچہ فرشتے اسے بالوں سے پکڑکراورپاؤ ں سے گھسیٹ کر جہنم کی ہولناک وادیوں میں پھینک دیں گے ،جہنم کی آگ مجرموں کو اوپر اورنیچے سے گھیرلے گی ،پھروہ اس عذاب میں نہ جی سکیں گے نہ ہی انہیں موت آئے گی،جیسے فرمایا:

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [60]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى۝۱۰ۙوَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙالَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [61]

ترجمہ:جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر ے گااور اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بد بخت جو بڑی آگ میں جائے گاپھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔

اورجس شخص نے اللہ اوراس کے رسول کی فرمانبرداری کی،اپنی خواہشات کواللہ اوراس کے رسول کے حکم کے تابع کردیا،اللہ کے احکامات وفرائض کوکماحقہ ہوبجالانے کی کوشش کی،دنیاکی دلکش رنگینیوں ، ناروالذتوں اورہنگاموں سے بچ کرچلنے کی کوشش کرتا رہا ،جوشخص رب کے سامنے کھڑے ہونے اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے خوف سے زندگی گزارتارہا اس کادائمی ٹھکانہ جنت ہوگی ،جس میں رب کی کبھی ختم نہ ہونے والی نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی،جیسے فرمایا:

 وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ۝۴۶ۚ [62]

ترجمہ:اور جو شخص اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرتا رہا اس کے لئے (بہشت کے) دو باغ ہوں گے۔

لوگو!اللہ نے سزاوجزاکی دونوں صورتیں واضح کردی ہیں ،جیسے فرمایا:

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [63]

ترجمہ:اور(نیکی اوربدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں ) دکھا دئیے ؟۔

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا۝۸۠ۙ [64]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔

فیصلہ بہرحال تم کوہی کرناہے کہ تم کون سی زندگی گزارناچاہتے ہو؟کیاوسیع وعرض جنت کی لازوال انواع واقسام نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہناچاہتے ہویادوزخ کے المناک عذاب میں ؟

 یَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَیَّانَ مُرْسَاهَا ‎﴿٤٢﴾‏ فِیمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا ‎﴿٤٣﴾‏ إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَهَاهَا ‎﴿٤٤﴾‏ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرُ مَن یَخْشَاهَا ‎﴿٤٥﴾‏ كَأَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا عَشِیَّةً أَوْ ضُحَاهَا ‎﴿٤٦﴾‏ (النازعات)

لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں ،آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق ؟  ااس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے، آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں ، جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں ) رہے ہیں ۔


مشرکین مکہ قیامت اورروزآخرت اورحشرونشرکے منکرتھے وہ ان واقعات کوغیرممکن اوربعیدازعقل سمجھتے تھے اس لئے قیامت کوجھٹلانے اوراس کامذاق اڑانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باربارسوال کرتے تھے کہ قیامت کی وہ گھڑی جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتے ہو کب آئے گی ،جیسے فرمایا:

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۵ [65]

ترجمہ:یہ کہتے ہیں اگرتم سچے ہوتوبتاؤ یہ وعدہ کب پوراہوگا؟۔

فرمایایہ لوگ آپ سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیں کہ اس پرتومجھے یقین کامل ہے کہ قیامت واقع ہوگی البتہ وہ کب واقع ہوگی مجھے اس گھڑی کاکوئی یقینی علم نہیں ہے ،اس کے وقوع ہونے کی گھڑی کاعلم صرف اللہ رب العزت ہی کو ہے ،جیسے فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ۝۰ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً۝۰ۭ یَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۸۷ [66]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخروہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہو گی؟کہواس کاعلم میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اپنے وقت پروہی ظاہرکرے گا،آسمانوں اورزمین میں وہ بڑاسخت وقت ہوگا،وہ تم پراچانک آ جائے گی ،یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویاکہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو،کہواس کاعلم توصرف اللہ کوہے مگراکثرلوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا المَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورکچھ سوالات کیے،جن کے جوابات آپ نے دئیے،پھرانہوں نے قیامت کے دن کی تعین کا سوال پوچھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا۔[67]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صرف ڈرانے والے ہیں ،قیامت کی گھڑی کی خبردینے والے نہیں ، اوراس انذاروتبلیغ سے اصل فائدہ وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کاخوف ہوتاہے ،جواللہ کے حضورکھڑے ہونے سے خائف ہوتے ہیں ، ابھی یہ لوگ ان حقائق پرایمان نہیں لاتے مگرجب یہ اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کرمیدان محشرمیں جمع ہوں گے ، اس وقت انہیں دنیاکی لمبی عمر بہت ہی کم نظرآئے گی ،انہیں ایسے معلوم ہوگاکہ انہوں نے صبح یاصرف شام کاکچھ حصہ وہاں گزاراتھا،جیسے فرمایا:

قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۝۱۱۲ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّیْنَ۝۱۱۳ [68]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ پوچھے گا تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ کہیں گے ایک دن یادن کابھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھہرے ہیں ،شمارکرنے والوں سے پوچھ لیجئے۔

ایک مقام پر ہے کہ دنیاکی لمبی زندگی انہیں بمشکل دس دن نظرآئے گی۔

یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا۝۱۰۳ [69]

ترجمہ:آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیامیں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے۔

اسی طرح مجرم لوگ برزخ کی زندگی کوبھی بہت قلیل سمجھیں گے ،انہیں احساس بھی نہیں ہوگا کہ وہ مرچکے تھے اورایک مدت دراز کے بعدانہیں دوبارہ زندہ کیاگیاہے۔

 یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۝۵۲ۧ [70]

ترجمہ:جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آؤ گے اور تمہارا گمان اس وقت یہ ہوگا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں ۔

وَیَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ یُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۰ۥۙ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ۝۵۵وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللهِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ۝۰ۡفَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۵۶ [71]

ترجمہ: اور جب وہ ساعت برپا ہوگی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھیرے ہیں ، اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے، مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں گے کہ ا للہ کے نوشتے میں تو تم روز حشر تک پڑے رہے ہو سو یہ وہی روز حشر ہے لیکن تم جانتے نہ تھے۔

یعنی قبروں سے اٹھنے کے بعدکفارومشرکین جب آخرت کی بے پایاں زندگی کواپنے سامنے پائیں گے تو اس وقت وہ پلٹ کراپنی دنیاکی زندگی پرنگاہ ڈالیں گے توانہیں مستقبل کے مقابلہ میں اپنایہ ماضی نہایت حقیرمحسوس ہوگا،اس وقت ان کوخوب اندازہ ہوجائے گاکہ انہوں نےاپنی پچھلی زندگی میں تھوڑی سے لذتوں اورمنفعتوں کی خاطراپنے اس ابدی مستقبل کوخراب کرکے کتنی بڑی حماقت کاارتکاب کیاتھا۔

زبیربن العوام رضی اللہ عنہ :

أن العوّام لما مات كان نوفل بن خویلد یلی ابن أخیه الزبیر ،وكانت صفیة تضربه وهو صغیر وتغلظ علیه، فعاتبها نوفل وقال: ما هكذا یضرب الولد، إنك لتضربینه ضرب مبغضة،فرجزت به صفیة

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہےجب العوام فوت ہوگئے توچچانوفل بن خویلدنے اپنی سرپرستی میں ان کی پرورش کی ،زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بڑی شجاع اورشیردل خاتون تھیں چنانچہ وہ زبیر رضی اللہ عنہ سے سخت محنت ومشقت کاکام لیتیں اوروقتاًفوقتا ًزجروتوبیخ اورزدوکوب سے بھی گریزنہ کرتیں ،نوفل بن خویلدایک دن بھتیجے کوماں کے ہاتھوں پٹتادیکھ کربیتاب ہوگئے اورصفیہ رضی اللہ عنہا کوسختی سے روکاکہ اس طرح تم بچے کومارڈالوگی ،انہوں نے بنوہاشم سے بھی کہاکہ وہ صفیہ رضی اللہ عنہا کوبچے پرسختی کرنے سے روکیں جب اس بات کاچرچاعام ہواتوصفیہ رضی اللہ عنہا نے لوگوں کے سامنے یہ رجزپڑھا۔

من قال إنّی أبغضه فقد كذب،وإِنَّمَا أَضْرِبُهُ لِكَی یلب

جس نے یہ کہاکہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں اس نے غلط کہا،میں اس کواس لیے پیٹتی ہوں کہ عقلمندہو

 ویهزم الجَیْشَ ویأتی بالسّل ، ولا یكن لماله خبأ مخب

اورفوج کوشکست دے اورمال غنیمت حاصل کرےاور اپنے مال کو نہ چھپائے۔[72]

عُرْوَةَ، وَكَسَرَ یَدَ غُلاَمٍ ذَاتَ یَوْمٍ فَجِیْءَ بِالغُلاَمِ إِلَى صَفِیَّةَ فقیل لها ذلك،فقالت كیف وجدت زبرًا أَأَقِطاً أَمْ تَمْرَاأَمْ مُشْمَعِلاَّ صَقْرَا

عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے زبیر رضی اللہ عنہ کولڑکپن میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آگیاانہوں نے ایسی ضرب لگائی کہ اس شخص کاہاتھ ٹوٹ گیا،لوگوں نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی توانہوں نے کہا کیا تو نے زبیر رضی اللہ عنہ کوپنیریاکھجورسمجھاتھایاپرپھیلانے والاشکرہ یعنی کیاتم نے اسےبزدل سمجھابہادرنہیں ۔[73]

الغرض ماں کی تربیت کایہ اثرہواکہ زبیر رضی اللہ عنہ بڑے ہوکرایک دلاورصف شکن اورضیغم شجاعت بنے۔

حَدَّثَنِی أَبُو الأَسْوَدِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ قَالَ: وَكَانَ إِسْلامُ الزُّبَیْرِ بَعْدَ أَبِی بَكْرٍ. كَانَ رَابِعًا أَوْ خَامِسًا

ابوالاسودکہتے ہیں بعض مورخین نے اسلام لانے والوں میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد ان کانمبرچوتھایاپانچواں لکھاہے، لیکن یہ صحیح نہیں ۔[74]

وَأسلم الزبیر وَهُوَ ابْن اثْنَتَیْ عشرَة سنة أَو ثَمَان أَو سِتّ عشرَة سنة

زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام نے بااختلاف روایت آٹھ ،بارہ یاسولہ برس کی عمرمیں ہی دعوت حق پرلبیک کہا۔[75]

حدثنی أبو الأسود، قال:لما أسلم الزبیر كان عمه یعلقه فی حصیر ویدخن علیه بالنار، ویقول له: ارجع إلى الكفر، فیقول الزبیر: لا أكفر أبدًا.

ابوالاسودکہتے ہیں جب زبیربن العوام نے اسلام قبول کیاتوانہیں اپنے آباؤ اجدادکے دین پرلوٹانے کے لئے ان کے چچا انہیں ایک چٹائی میں لپیٹ کرنیچے سے دھواں دیتے، مگر زبیر رضی اللہ عنہ فرماتےمیں کبھی بھی کفرنہیں کروں گا۔[76]

قال عروة وَنَفَحَتْ نَفْحَةٌ مِنَ الشَّیْطَانِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ أُخِذَ بِأَعْلَى مَكَّةَ ، فَخَرَجَ الزُّبَیْرُ وَهُوَ غُلاَمٌ ابْنُ اثْنَتَی عَشْرَةَ سَنَةً ومعه السَّیْفُ فَمَنْ رَآهُ ممن لا یعرفه قال الغلام معه السَّیْفُ حَتَّى أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال فقال له رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا لَكَ یَا زُبَیْرُ؟قال أخبرت أنك أخذت

عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن مکہ مکرمہ میں ایک وحشت اثرافواہ پھیل گئی کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے بالائی حصہ میں گرفتارکرلیاہے،اس منحوس خبرنے پرستاران حق کوسخت اضطراب میں مبتلاکردیاہرایک کی زبان پریہی الفاظ تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے ابھی ابوطالب زندہ ہیں اوربنوہاشم کی تلواریں کندنہیں ہوگئیں ،بنوہاشم سخت غیظ وغضب کے عالم میں تھے اوراس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے کے بارے میں ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ زبیر رضی اللہ عنہ جواس وقت سولہ برس کے تھے وہ شمشیربرہنہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑےیہاں تک کہ گلی گلی تلاش کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے زبیر رضی اللہ عنہ !اس وقت تم شمشیربرہنہ سونت کرکیسے آرہے ہو؟ زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں میں نے سناتھاکہ آپ کودشمنوں نے گرفتار کر لیا ہے۔[77]

قَالَ: سَمِعْتُ أَنَّكَ قُتِلْتَ

ایک روایت میں ہےمیں نے یہ منحوس خبرسنی کہ شایدآپ شہیدکردیئے گئے ہیں ۔[78]

قَالَ فكنت صَانِعًاماذا؟ قَالَ: أَرَدْتُ والله أَنْ أَسْتَعْرِضَ أَهْلَ مَكَّةَ، قال فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ولسیفه وكان أَوَّلُ سَیْفَ سل فِی سَبِیْلِ اللهِ تعالى

ارشادہوااچھاتویہ بات ہے ااوراگرواقعی مجھے قتل کردیاجاتا توتم کیاکرتے؟ زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم میں اہل مکہ سے لڑمرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کے جذبہ فدویت کی تحسین فرمائی اوراس کے حق میں دعائے خیرکی بلکہ اس کی تلوارکوبھی دعادی کہ یہ پہلی تلوارتھی جوراہ حق اوررسول برحق کی حمایت میں بلندہوئی۔[79]

[1] التغابن۷

[2] المزمل۱۴

[3] الزلزال۱

[4] الزمر ۶۸

[5] بنی اسرائیل۱۴

[6] الانبیائ۴۷

[7] الملک۷،۸

[8] الکہف۱۰۰

[9] الفجر۲۳

[10] القلم۴۳

[11] الانبیائ۱۰۳

[12] ابراہیم۴۸

[13]بنی اسرائیل۵۲

[14] القمر۵۰

[15] النحل۷۷

[16] یٰسین۸۲

[17] طہ۱۱تا۱۳

[18] طہ۲۴

[19] طہ۷۶

[20] عبس۳

[21]عبس۷

[22] الشعرائ۳۱

[23] الشعراء ۳۲ ، ۳۳

[24] القصص ۳۶

[25] الشعرائ۳۶تا۳۸

[26] الشعرائ۴۱،۴۲

[27] الاعراف۱۱۶

[28] الشعرائ۴۶،۴۷

[29] الاعراف۱۲۷

[30] الزخرف۵۳

[31] الشعرائ۲۹

[32] القصص۳۸

[33] النازعات۲۴

[34] تفسیرطبری۲۰۱؍۲۴،تفسیرالقرطبی۲۰۲؍۱۹

[35] یونس۱۱

[36]یونس۴۹

[37] یونس۹۰تا۹۲

[38] المومن۴۶

[39] القصص۴۱

[40] یٰسین۸۱

[41] المومن۵۷

[42] الرعد۲

[43] لقمان۱۰

[44] الرحمٰن۳۳

[45] الملک۵

[46] حم السجدة۱۲

[47] الصافات۶

[48] الاعلی۲

[49] الرعد۳

[50] الحجر۱۹

[51] النحل۱۵

[52] الانبیائ۳۱

[53] ق۷

[54] القمر۴۶

[55] عبس۳۳تا۳۷

[56] المعارج۱۰تا۱۴

[57] المومنون۱۰۱

[58] الفجر۲۳

[59] ق۲۴،۲۵

[60] طہ۷۴

[61] الاعلی۱۰تا۱۳

[62] الرحمٰن ۴۶

[63] البلد۱۰

[64] الشمس۸

[65] الملک۲۵

[66]الاعراف ۱۸۷

[67] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ۵۰،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ الْإِیمَانُ مَا هُوَ وَبَیَانُ خِصَالِهِ۹۷، مسند احمد۱۸۴

[68] المومنون ۱۱۲ ، ۱۱۳

[69] طہ ۱۰۳

[70] بنی اسرائیل۵۲

[71] الروم ۵۵، ۵۶

[72] الإصابة فی تمییز الصحابة۴۵۷؍۲

[73] سیراعلام النبلائ۳۴؍۳،الاصابة فی تمیزاصحابة ۴۵۸؍۲

[74] اسدالغابة۳۰۷؍۲،ابن سعد۷۵؍۳، اکمال تہذیب الکمال۴۸؍۳

[75] الوافی بالوفیات ۱۲۲؍۱۴

[76] الریاض النضرة فی مناقب العشرة۲۷۳؍۴، اکمال فی تہذیب الکمال ۴۷؍۵،الوافی بالوفیات ۱۲۲؍۱۴،الاصابة فی تمیزاصحابة ۴۵۷؍۲

[77] تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۵۱؍۱۸

[78] تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۵۱؍۱۸

[79] تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۴۴؍۱۸،دلائل النبوة لأبی نعیم الأصبهانی۶۲۲؍۱،اسدالغابة۳۰۷؍۲

Related Articles