ہجرت نبوی کا ساتواں سال

مضامین سورةالمائدہ

یہ سورۂ تین بڑے مضامین پرمشتمل ہے۔

xحج کے تفصیلی احکامات ابھی تک نازل نہیں ہوئے تھے،اس سورہ میں حج کے احکامات ،شعائراسلامی،زائرین کعبہ کے احترام،کھانے پینے کی چیزوں میں حلال وحرام کی قطعی حدود اوردورجاہلیت کے خود ساختہ رسم ورواج کے خاتمہ کے واضح ہدایات دی گئیں ،اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت اورجوا،شراب،چوری وڈاکہ زنی،قسم توڑنے کا کفارہ اور شہادت کے بارے میں مزیدچنددفعات کااضافہ کیا گیا،عبادات کے سلسلہ میں وضو،تیمم،غسل اورنشے کی حالت میں نمازکے احکام کی تصریح کی گئی۔

xمسلمانوں کوگذشتہ اقوام کے احوال کاذکرکرکے تنبیہ کی گئی کہ وہ اقتدارکے نشہ میں مست نہ ہوجائیں ہرحالت میں  اللہ کے قانون کی پیروی کریں اور عدل وانصاف کادامن تھامے رہیں ،اپنے جملہ معاملات کے فیصلوں میں کتاب الٰہی کے پابندرہیں اورمنافقت کی روش سے اجتناب کریں ورنہ ان کاانجام سابقہ امتوں سے مختلف نہیں ہوگا ۔

xیہودو نصاریٰ،اصنام پرست اورمجوسیوں کوان کے عقائدونظریات کی غلطیاں بیان کرکے دعوت اسلام دی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِیمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا یُتْلَىٰ عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیدُ ‎﴿١﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْیَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ‎﴿٢﴾‏(المائدة)
’’ اے ایمان والو ! عہد و پیمان پورے کرو، تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم کرتا ہے،اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو، نہ ادب والے مہینوں کی ، نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں، اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں، ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو، جن لوگوں نے تمہیں مسجد احرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر امادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ، نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

اہل ایمان کومخاطب کرکےفرمایا اے مومنو!اوریہ بہت خاص لفظ ہے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ یہ لفظ استعمال کریں تواس کی طرف توجہ کرنی چاہیے،

أَنَّ رَجُلًا أَتَى عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ [رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ: اعْهَدْ إلیَّ، فَقَالَ: إِذَا سَمِعْتَ اللهَ یَقُولُ:یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا، فارْعِها سَمْعَك، فَإِنَّهُ خَیْر یَأْمُرُ بِهِ، أَوْ شَر یَنْهَى عَنْهُ

ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے پاس آیاکہامجھے خاص نصیحت فرمائیں ،عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاجب توقرآن میں لفظ’’اے لوگو!جوایمان لائے ہو۔‘‘سنے توفوراًکان لگاکردل کی انتہائی گہرائیوں سے اس کی طرف متوجہ ہو جا،کیونکہ اس کے بعدکسی نہ کسی بھلائی کاحکم ہوگا یاکسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہوگی۔[1]

عَنْ خَیْثَمَةَ، قَالَ: مَا تَقْرَءُونَ فِی الْقُرْآنِ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا}فَإِنَّ مَوْضِعَهُ فِی التَّوْرَاةِ: یَا أَیُّهَا الْمَسَاكِینُ

اورخیثمہ سے مروی ہےہروہ چیزجسے قرآن کریم میں اے ایمان والو!کے خطاب سے بیان کیاگیاہے اسے تورات میں اے مسکینو!کے خطاب سے بیان کیاگیاہے۔[2]

عہدوپیمان کی اہمیت کے پیش نظرسورۂ کے آغازمیں وعدے کے ایفاء کاحکم دیاگیاجوبندے اوراس کے رب کے درمیان ہیں جیسے اس کی عبودیت کالتزام،اسے پوری طرح قائم رکھنا اور اس کے حقوق میں کچھ کمی نہ کرنا،جوبندے اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین اتباع اوراطاعت کے بارے میں ہیں ،اوروہ معاہدے جوبندے اوراس کے والدین، عزیزو اقارب کے درمیان ان کے ساتھ حسن سلوک ،صلہ رحمی اورعدم قطع رحمی کے بارے میں ہیں ،اوروہ معاملات مثلاًخریدوفروخت اوراجارہ وغیرہ کے ضمن میں بندے اور لوگوں کے درمیان ہیں ،اور مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ بھی شامل ہے ،جیسے فرمایا فرمایا

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ۔۔۔ ۝۱۰ۧ [3]

ترجمہ:تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔

 عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: {أَوْفُوا بِالْعُقُودِ} یَعْنِی: مَا أُحِلَّ , وَمَا حُرِّمَ، وَمَا فُرِضَ , وَمَا حُدَّ فِی الْقُرْآنِ كُلِّهِ ، فَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَنْكُثُوا ثُمَّ شَدَّدَ ذَلِكَ فَقَالَ: {وَالَّذِینَ یَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ یُوصَلَ} [[4]إِلَى قَوْلِهِ: {سُوءُ الدَّارِ} [5]

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’اے ایمان والو ! وعدے پورے کرو۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے معاہدوں کوپوراکرنے سے مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جوحلال اورحرام قراردیاہے اورجوفرائض وحدودقرآن میں مقررکیے ہیں ان کی پابندی کرواورانہیں نہ توڑو،انہیں توڑنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سخت حکم بیان کرتے ہوئے فرمایاہے’’ اورجولوگ اللہ سے عہدواثق کرکے اس کوتوڑڈالتے اورجن (رشتہ ہائے قرابت)کے جوڑے رکھنے کااللہ نے حکم دیاہے ان کوقطع کردیتے ہیں اورزمین میں فسادکرتے ہیں انہی لوگوں کے لیے لعنت ہے اوران کے لیے (آخرت کا)گھربھی بہت براہے۔ [6]

وَقَالَ الضَّحَّاكُ:أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ،قَالَ: مَا أَحَلَّ اللهُ وَمَا حَرَّمَ، وَمَا أَخَذَ اللهُ مِنَ الْمِیثَاقِ عَلَى مَنْ أَقَرَّ بِالْإِیمَانِ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْكِتَابِ أَنْ یُوفُوا بِمَا أَخَذَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِنَ الْفَرَائِضِ مِنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ

اورضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اے ایمان والو ! وعدے پورے کرو۔‘‘معاہدوں کوپوراکرنے سے مرادیہ ہے اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کوحلال وحرام قراردیاہے،نبی اورکتاب کے ساتھ ایمان لانے والوں سے جوعہدوپیمان لیاہے اوراپنے بندوں پرحلال اورحرام میں سے جن چیزوں کوفرض قراردیاہے ان سب کے بارے میں حکم ہے کہ ان کی پابندی کی جائے۔[7]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ:لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی خطبہ ایسا نہیں دیا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو اور اس شخص کا دین نہیں جس کے پاس وعدہ کی پاسداری نہ ہو۔[8]

ایک حدیث میں عہدشکنی کومنافقت کی علامت قرار دیاگیا۔

اوران حدود اور قیود کی سختی سے پابندی کروجن کااللہ نے انسانوں کو مکلف ٹھیرایاہے ،خواہ تمہیں ان کی مصلحت سمجھ میں آئے یا نہیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پراپنے احسان کاذکرکرتے ہوئے فرمایاتمہارے لئے وہ تمام چرند چوپائے حلال کیے گئے ہیں جونباتی غذاکھاتے ہیں ،جیسے اونٹ ، گائے،بکری اوربھیڑ،یہ نراورمادہ مل کرآٹھ قسمیں ہیں اوران کے علاوہ ہرن،نیل گائے وغیرہ جن کاعموماًشکارکیاجاتاہے بھی حلال ہیں یعنی وہ چوپائے(درندے) جو مویشیوں کےبرعکس کچلیاں رکھتے ہوں جیسے شیر،چیتا،کتااوربھیڑیاوغیرہ اور کچلی کے دانت سے دوسرے جانوروں کو پکڑتااورچیرتاہو حلال نہیں ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کرکے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پرندوں (جیسے شکرہ،باز،شاہین عقاب وغیر ہ)کوبھی حرام قراردیاجن کے پنجے ہوتے ہیں جن سے وہ دوسرے جانوروں کاشکارکرکے کھاتے ہیں یامردار خور ہوتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِی مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرپھاڑکرکھانے والے درندوں کااور پنجوں (ناخنوں ) سے شکارکرنے والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔[9]

لیکن احرام کی حالت میں جس طرح حجامت، خوشبو کا استعمال ، ہرقسم کی زینت وآرائش اورقضاء شہوت حرام ہیں اسی طرح کسی جنگلی جانورکا شکار بھی حرام ہے ،یہ حاکم مطلق کاحکم ہے وہ اپنی حکمت کے تحت جوچاہئے حکم فرماسکتاہے، ہر مذہب کے کچھ شعار (نشانیاں )ہوتی ہیں جس طرح گرجا ، قربان گاہ اور صلیب مسیحت کے شعائرہیں ، مندر ،چوٹی اورزناربرہمنیت کے شعائر ہیں ، کیس ، کڑا اورکرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں ،ہتھوڑااوردرانتی اشتراکیت کا شعار ہے ، سواستیکاآریہ نسل پرستی کاشعارہے ،اورسب اپنے اپنے شعائر کا احترام کرتے ہیں ، بیت اللہ اور نذرکے جانور کیونکہ حرمات اللہ ہیں جن کی تعظیم وحرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے اور یہ مسلمانوں اورمشرکین کے درمیان موافقت ہے اس لئے مسلمانوں کوان حرمات کے احترام کاحکم فرمایاگیاکہ جب یہ مشرکین حج کے دنوں میں اللہ کے گھر کی طرف جا رہے ہوں توانہیں نہ چھیڑواورنہ قربانی اورنذر کے جانورپر ہاتھ ڈالو جن کے گلے میں نذرکی علامت کے طورپرقلائد پڑے ہوئے ہوں ،

عَنْ مُجَاهِدٍ , فِی قَوْلِ اللهِ:شَعَائِرَ اللهِ، الصَّفَا وَالْمَرْوَةُ , وَالْهَدْیُ وَالْبُدْنُ

مجاہد رحمہ اللہ کاآیت کریمہ ’’ اللہ کی نشانیوں ۔‘‘ کے بارے میں قول ہے صفا،مروہ ،ہدی اوراونٹ شعائراللہ میں سے ہیں ۔[10]

اورتاقیامت مناسک حج ،صفاومروہ ،قربانی کے جانور،اللہ کی حرام کردہ ہرچیزاورحرمت والے چاروں مہینوں رجب، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اورمحرم کی حرمت برقراررکھواور ان میں جدال و قتال مت کرو، جیسے فرمایا

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۝۰ۥۙ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ۝۳۶ [11]

ترجمہ:بے شک اللہ کے نزدیک اس کتاب میں مہینے گنتی میں بارہ ہیں اس روزسے کہ اس نے آسمانوں اورزمین کوپیداکیا،ان میں چارمہینے حرمت کے ہیں ، یہی مضبوط دین ہے ،تم ان مہینوں میں (ناحق لڑائی کرکے)اپنے آپ پرظلم نہ کرو۔

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ۝۰ۭ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ كَبِیْرٌ۔۔۔ ۝۲۱۷ [12]

ترجمہ:لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو اس میں لڑنا بہت بڑا(گناہ)ہے ۔

شان نزول سورة التحریم:

عَنْ أَبِی بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَیْئَتِهِ یَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلاَثٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وَذُو الحِجَّةِ، وَالمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ، مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَى، وَشَعْبَانَ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمارے سامنے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا لوگو! یعنی سال کی گردش پوری ہو گئی اپنی اس وضع کے موافق جس پر کہ وہ اس روز تھا جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا (یعنی سال اپنی وضع کے مطابق بارہ مہینے کا پورا ہو گیا ہے)سال بارہ مہینے کا ہوتا ہےجس میں سے چار مہینے باحرمت ہیں ، تین تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ ، محرم، اور چھوتھا مضر کا رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔[13]

اوراللہ کی رضاکاقصدرکھنے والے سے تعرض کرنے کی ممانعت فرمائی کہ ان لوگوں پر ہاتھ نہ ڈالوجوتجارت وکاروبارکی تلاش یاحج ،عمرہ،طواف بیت اللہ ،نماز اور مختلف انواح کی دیگر عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کاارادہ رکھتے ہوں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِـاِلْحَادٍؚبِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۲۵ۧ [14]

ترجمہ:اورجوکوئی اس میں ظلم سے کج روی کرناچاہئے ہم اسے دردنام عذاب کامزاچکھائیں گے۔

چونکہ اللہ نے حالت احرام میں شکارکرنے سے منع کیاہے اس لئے فرمایا جب تم احرام کھول دو تو اب اس کی تحریم ختم ہوگئی ،اب جس طرح تم حجامت بنوا سکتے ہو، خوشبو کا استعمال کر سکتے ، ہرقسم کی زینت وآرائش کرسکتے ہواسی طرح تمہیں شکارکرنے کا بھی اختیارہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس ارادہ سے روکااورحلم وعفوکاحکم فرمایا کہ جس طرح مشرکین نے تمہیں زیارت بیت اللہ سے روک کر ظلم وتعدی کی ہے اس طرح تم بھی بغض وعداوت میں بیت اللہ کی طرف جاتے ہوئے قافلوں پرچھاپے مارکر ناروازیادتیاں نہ کرنے لگو ،

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَیْبِیَةِ ، وَأَصْحَابُهُ حِینَ صَدَّهُمُ الْمُشْرِكُونَ عَنِ الْبَیْتِ، وَقَدِ اشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَیْهِمْ، فَمَرَّ بِهِمْ أُنَاسٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ مِنْ أَهْلِ الْمَشْرِقِ یُرِیدُونَ الْعُمْرَةَ، فَقَالَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَصُدُّ هَؤُلَاءِ كَمَا صَدَّنَا أَصْحَابُهُمْ، فَأَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الْآیَةَ

زیدبن اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیبیہ میں تھے اورجب مشرکوں نے انہیں بیت اللہ جانے سے روک دیاتھااوریہ بات ان پربہت گراں گزری تھی،اوراسی دوران میں جب مشرق کے کچھ مشرک وہاں سے گزررہے تھے اوران کاعمرہ کرنے کاارادہ تھاتوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہاکہ ہم بھی ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں گے جیساکہ ان کے ساتھیوں نے ہماری راہ روکی تھی، تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔[15]

ایک نہایت اہم اصول بیان فرمایاجوایک مسلمان کے لئے قدم قدم پررہنمائی مہیا کر سکتاہے کہ اس کے برعکس تمہارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ نیکی،پرہیزگاری اور حقوق اللہ وحقوق العباد کے کاموں میں سب سے تعاون کرواورجوگناہ اورزیادتی کے کام ہیں ان میں تعاون نہ کرو،اللہ سے ڈرتے رہو ، اگرتم محارم کے ارتکاب کی جسارت کروگے تودنیاوی یا اخروی سزاکے مستحق بن جاؤگے،اللہ کی گرفت اورسزابڑی سخت ہے،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا ، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَیْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَیْفَ أَنْصُرُهُ؟ قَالَ:تَحْجُزُهُ، أَوْ تَمْنَعُهُ، مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ

انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہوخواہ مظلوم،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مظلوم ہونے کی صورت میں مددکرناٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مددکریں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے ظلم نہ کرنے دو،ظلم سے روک لویہی اس وقت اس کی مددہے۔[16]

عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ـ قَالَ: أَظُنُّهُ ابْنَ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْمُؤْمِنُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِی لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ مومن جولوگوں سے مل جل کررہتااوران کی تکلیفوں پرصبرکرتاہے اسے اس سے زیادہ اجروثواب ملے گاجولوگوں سے مل جل کرنہیں رہتااوران کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا۔[17]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَیْئًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص ہدایت کی دعوت دےتواسے ان تمام لوگوں کے اجروثواب کے مطابق اجروثواب ملے گاجواس کے مطابق عمل کریں گےاوراس سے عمل کرنے والوں کے اجروثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی،اورجوشخص گمراہی وضلالت کی دعوت دےتواسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کے برابرگناہ ہوگاجواس کے مطابق عمل کریں گے اوراس سے عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔[18]

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِیرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَیْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن دِینِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِی مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٣﴾(المائدة)
 ’’تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مرگیا ہو، جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں، اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرویہ سب بدترین گناہ ہیں، آج کفار دین سے ناامید ہوگئے، خبردار !تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا، پس جو شخص شدت کی بھوک میں نے قرارہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے ۔‘‘

حلال وحرام کی وضاحتیں :سورۂ کے آغازمیں جن محرمات کاذکرشروع کیاگیااس کے بارے میں فرمایاکہ تم پروہ جانورحرام کیاگیاہے جوطبعی موت مرگیاہومگراس میں مچھلی شامل نہیں ،

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ:سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ بِمَاءِ الْبَحْرِ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ وَالْحِلُّ مَیْتَتُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سمندرمیں سفرکرتے ہیں اوراپنے ساتھ (پینے کے لئے) تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں اگرہم اس سے وضوکرنے لگیں توپیاسے رہ جائیں توکیاہم سمندرکے پانی سے وضوکرلیاکریں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسمندر کاپانی پاک ہے اوراس کا مردہ حلال ہے۔[19]

وہ خون جوجانورکوذبح کرتے وقت بہا ہوا، جیسے فرمایا

۔۔۔ اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا۔۔۔۝۱۴۵ [20]

ترجمہ:یا بہایا ہوا خون ہو۔

یا جانورکی رگ کاٹ کرخون پیا جائے،

عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: آكُلُ الطُّحَالَ؟قَالَ: نَعَمْ،قَالَ: إِنَّ عَامَّتَهَا دَمٌ؟قَالَ: إِنَّمَا حَرَّمَ اللهُ الدَّمَ الْمَسْفُوحَ

عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیااورپوچھاکیاہم کلیجی کھاسکتے ہیں ؟توانہوں نے جواب دیاکہ ہاں اسے کھاسکتے ہو،اس نے کہاکہ وہ توخون ہے؟انہوں نے فرمایااللہ تعالیٰ نےبہتےہوےخون کوحرام کیاہے۔[21]

اور سورکاگوشت اورچربی وغیرہ چاہئے وہ جنگی ہویاپالتو حرام ہے،

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِیرِ، فَكَأَنَّمَا غَمَسَ یَدَهُ فِی لَحْمِ خِنْزِیرٍ وَدَمِهِ

ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص چوسر کھیلا وہ گویااپنے ہاتھ سورکے گوشت وخون میں رنگنےوالاہے۔[22]

یعنی ایسے کھیل جو وقت اورسرمائے کے ضیاع کاباعث ہوں قطعاًناجائزہیں ،ایسے کھیل کھیلنااوراس کی حوصلہ افزائی کرناتودورکی بات ہے رحمٰن کے بندوں کی تویہ شان بیان کی گئی ہے

۔۔۔وَاِذَا مَرُّوْا بِاللغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا۝۷۲ [23]

ترجمہ:اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ: سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ عَامَ الفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ: إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَیْعَ الخَمْرِ، وَالمَیْتَةِ وَالخِنْزِیرِ وَالأَصْنَامِ، فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَیْتَ شُحُومَ المَیْتَةِ، فَإِنَّهَا یُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، وَیُدْهَنُ بِهَا الجُلُودُ، وَیَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ؟فَقَالَ:لاَ، هُوَ حَرَامٌ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:قَاتَلَ اللهُ الیَهُودَ إِنَّ اللهَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ، فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااورآپ کاقیام ابھی مکہ مکرمہ ہی میں تھا اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اوربتوں کی تجارت کوحرام قراردے دیا ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مردارکی چربی کشتیوں پرچڑھائی جاتی ہے ، کھالوں پرلگائی جاتی ہے اورچراغ جلانے کے کام بھی آتی ہے،اس کے بارے میں کیاحکم ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں نہیں !وہ حرام ہے، اسی موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ یہودیوں کو برباد کرے،اللہ تعالیٰ نے جب چربی ان پرحرام کی توان لوگوں نے(شرعی حیلہ کیااور) اسے پگھلاکربیچناشروع کردیااوراس کی قیمت کھانے لگے۔[24]

یعنی وہ اشیاء جن کااستعمال جائزنہ ہواس کی تجارت بھی جائزنہیں ہے۔

اوروہ جانورجس کوذبح کرتے وقت اللہ کے سواکسی اورکانام لیاگیاہواوروہ جس کاگلاکوئی شخص گھونٹ سے یا کھونٹے میں پھنس کر خود گلاگھٹ جائےیاوہ جانورجس کوکسی نے پتھر،لاٹھی یااورکوئی چیز(دھاری دارنہیں )ماری جس سے وہ بغیرذبح مرگیاہو وہ بھی حرام ہے ،

وَقَالَ قَتَادَةُ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ یَضْرِبُونَهَا بِالْعَصَى حَتَّى إِذَا مَاتَتْ أَكَلُوهَا

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ جانوروں کولاٹھیوں سے مارتے تھے اورجب وہ مرجاتے توپھرانہیں کھالیتے تھے۔[25]

عَدِیَّ بْنَ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ المِعْرَاضِ، فَقَالَ:إِذَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، فَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ فَإِنَّهُ وَقِیذٌ فَلاَ تَأْكُلْ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھالے سے شکارکے بارے میں دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگروہ دھارکی طرف سے لگاہوتواسے کھالو لیکن اگروہ موٹائی کی طرف سے لگے اوروہ اس سے مرجائے تووہ چوٹ زدہ ہے اسے نہ کھاؤ [26]

یاوہ جانورجوچاہئے خودپہاڑوغیرہ سے گراہو یا کسی نے دھکادے کر گرا دیا ہو یاکنوئیں میں گرکرمراہو،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:وَالْمُتَرَدِّیَةُ،قَالَ:الَّتِی تَتَرَدَّى مِنَ الْجَبَلِ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’ بلندی سے گر کر مرا ہو۔‘‘سے مرادوہ جانورہے جوپہاڑسے گرکرمرجائے۔[27]

عَنْ قَتَادَةَ:وَالْمُتَرَدِّیَةُ،قَالَ:الَّتِی تَرَدَّتْ فِی الْبِئْرِ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’ بلندی سے گر کر مرا ہو۔‘‘ سے مراد وہ جانورہے جوکنوئیں میں گرکرمرجائے۔ [28]

عَنِ السُّدِّیِّ , فِی قَوْلِهِ: وَالْمُتَرَدِّیَةُ،قَالَ: هِیَ الَّتِی تَرَدَّى مِنَ الْجَبَلِ أَوْ فِی الْبِئْرِ

اورسدی کاقول ہے’’ بلندی سے گر کر مرا ہو۔‘‘سے مراد وہ جانورہے جوپہاڑسے گرکریاکنوئیں میں گرکرمرجائے۔[29]

یادوسرے جانورکی سینگ یاکسی اورچیزسے ٹکرکھاکربغیرذبح مراہویااسے کسی کچلیوں سے شکارکرنے والے درندے نے پھاڑدیا ہو اور وہ مر گیاہو،

وَقَدْ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ یَأْكُلُونَ مَا أَفْضَلَ السَّبُعُ مِنَ الشَّاةِ أَوِ الْبَعِیرِ أَوِ الْبَقَرَةِ وَنَحْوِ ذَلِكَ

زمانہ جاہلیت میں لوگ اس بکری،گائے اوراونٹ وغیرہ کو کھالیاکرتے تھے جسے درندوں نے پھاڑکھایاہوتاتھا۔[30]

سوائے اس کے کہ اس میں زندگی کے آثارپاکراللہ کانام لے کر(یعنی شرعی طریقہ سے)ذبح کر لیا ہوتویہ حلال ہے ،

قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ: {إِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ} یَقُولُ: إِلَّا مَا ذَبَحْتُمْ مِنْ هَؤُلَاءِ وَفِیهِ رُوحٌ، فَكُلُوهُ،فَهُوَ ذَكِیٌّ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے اس سے مرادیہ ہے کہ ان جانوروں میں سے جن میں ابھی روح موجودہواورتم ان کوذبح کرلو توانہیں کھالو وہ حلال ہیں ۔[31]

عَنْ عَلِیٍّ , قَالَ: إِذَا أَدْرَكْتَ ذَكَاةَ الْمَوْقُوذَةِ وَالْمُتَرَدِّیَةِ وَالنَّطِیحَةِ، وَهِیَ تُحَرِّكُ یَدًا أَوْ رِجْلًا فَكُلْهَا

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےاگرتم چوٹ لگنے،گرنے والے اورسینگ لگنے والے جانورکواس طرح پالوکہ وہ ہاتھ پاؤں ہلارہاہوتواسے کھالیاکرو۔[32]

رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا لاَقُو العَدُوِّ غَدًا وَلَیْسَتْ مَعَنَا مُدًى أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ؟ قَالَ: أَعْجِلْ أَوْ أَرِنْ، مَا أَنْهَرَ الدَّمَ، وَذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ فَكُلْ، لَیْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ ، وَأَمَّا الظُّفُرُ، فَمُدَى الْحَبَشَةِ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کل دشمن سے ہماری مڈبھیڑہوگی اورہمارے پاس چھری موجودنہیں ہے توکیاہم سرکنڈے سے ذبح کرلیں ؟ جوچیزبھی خوب بہا دےاوراس پراللہ کانام لیاجائےتواسے کھالولیکن اسے دانٹ اورناخن سے ذبح نہ کرو اورابھی میں اس کی وجہ بیان کرتاہوں ،اوروہ یہ ہے کہ دانٹ ہڈی ہے اورناخن حبشیوں کی چھری ہے۔[33]

اوروہ جوکسی غیراللہ کے تھان ، آستانہ،درگاہ،مقبرہ وغیرہ پران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ذبح کیاجائے ،جیسے فرمایا

 اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللهِ ۔۔۔ ۝۱۷۳ [34]

ترجمہ:تم پرمردہ اور(بہاہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہروہ چیزجس پراللہ کے سوادوسروں کانام پکاراگیاہوحرام ہے۔

قَالَ مُجَاهِدٌ وَابْنُ جُرَیْج كَانَتِ النُّصُبُ حِجَارَةً حَوْلَ الْكَعْبَةِ،قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ: وَهِیَ ثَلَاثُمِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا كَانَ الْعَرَبُ فِی جَاهِلِیَّتِهَا یَذْبَحُونَ عِنْدَهَا وَیَنْضَحُونَ مَا أَقْبَلَ مِنْهَا إِلَى الْبَیْتِ بِدِمَاءِ تِلْكَ الذَّبَائِحِ، وَیُشَرِّحُونَ اللحْمَ وَیَضَعُونَهُ عَلَى النُّصُبِ

مجاہد رحمہ اللہ اور ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ ‘‘ نصب سے مرادوہ پتھرہیں جوکعبے کے اردگردرکھے ہوئے تھے،ابن جریج کہتے ہیں کہ یہ تین سوساٹھ بت تھے اور زمانہ جاہلیت میں لوگ ان کے پاس جانورذبح کیا کرتے تھےاوران کے خون بیت اللہ کے اگلے حصے پرمل دیتے تھے اورگوشت ٹکڑے ٹکڑے کرکے بتوں کے آگے رکھ دیتے تھے۔[35]

عَنْ أَبِی الطُّفَیْل قَالَ: نَزَلَ آدَمُ بِتَحْرِیمِ أَرْبَعٍ: الْمَیْتَةِ، وَالدَّمِ، وَلَحْمِ الْخِنْزِیرِ، وَمَا أُهِلَّ لِغَیْرِ اللَّهِ بِهِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْأَرْبَعَةَ الْأَشْیَاءِ لَمْ تَحِلَّ قَطُّ،

ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کرآج تک یہ چاروں چیزیں حرام رہیں مرداراورخون اورسورکاگوشت اوراللہ کے سوادوسرے کے نام کی چیز، یہ چاروں چیزیں کسی وقت بھی حلال نہیں ہوئیں ۔[36]

پھر جو مجبورہوجائے اوروہ حدسے بڑھنے والا اورزیادتی کرنے والانہ ہواس پران کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں ،اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے ۔

اہل عرب نے فال گیری کے لئے ہبل دیوتاکے استھان پر سات تیررکھے ہوئے تھے جن پرمختلف الفاظ اورفقرے کندہ تھے ،کسی کام کے کرنے یانہ کرنے کا سوال ہو،کھوئی ہوئی چیزکاپتہ پوچھنا ہو، خون کے مقدمہ کافیصلہ مظلوب ہوالغرض کوئی بھی کام ہواس کے لئے ہبل کے پانسہ دار (صاحب القداح)کے پاس پہنچ جاتے ، اس کا نذرانہ پیش کرتے اورہبل سے دعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملہ کافیصلہ کردے ،پھرپانسہ داران تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتااورجوتیربھی فال میں نکل آتااس پرلکھے ہوئے لفظ کوہبل کافیصلہ سمجھا جاتا تھا ۔

ایک روایت کہ انہوں نے تین تیرہبل کے آستانہ پررکھے ہوئے تھے ،ایک پرلکھا ہواتھا أَفْعَلْیعنی کرلو،دوسرے پرلکھاہواتھا لَا تَفْعَلْ یعنی نہ کرواورتیسراتیرخالی تھاجب انہیں کوئی کام کرنے میں ترددہوتاتووہ ان تیروں کوکسی ڈونگی وغیرہ میں رکھ کر گھماتے ،پھران میں سے ایک تیرنکالتے ،اگر أَفْعَلْ نکلتاتواس کام کوکرتے اگرلَا تَفْعَلْ کا تیر نکلتاتووہ کام نہ کرتے،اگرخالی تیرنکلتاتونئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے ، یہاں تک کہ لکھاہواتیرنکل آتا،

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ قَالَ: مَكْتُوبٌ عَلَى الْوَاحِدِ:أَمَرَنِی رَبِّی، وَعَلَى الْآخَرِ: نَهَانِی رَبِّی، وَالثَّالِثُ غُفْلٌ لَیْسَ عَلَیْهِ شَیْءٌ ، فَإِذَا أَجَالَهَا فَطَلَعَ السَّهْمُ الْآمِرُ فَعَلَهُ ، أَوِ النَّاهِی تَرَكَهُ،وَإِنْ طَلَعَ الْفَارِغُ أَعَادَ

بعض لوگوں نے کہاہے کہ ایک تیرپریہ لکھاہوتاتھا میرے رب نے مجھے یہ حکم دیاہے، دوسرے پرلکھاہواہوتاتھا میرے رب نے مجھے منع فرمایاہےاورتیسراخالی ہوتااوراس پرکچھ نہیں لکھاہوتاتھا،اورجب وہ انہیں فضامیں اچھالتے اوروہ تیراوپرآجاتاجس پرکام کرنے کالکھاہوتاتووہ اس کام کوکرلیتےاورنہ کرنے والااوپرآجاتاتووہ اسے نہ کرتے ،اوراگرخالی تیراوپرآجاتاتووہ اس عمل کودوبارہ کرتے۔[37]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ:وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ، یَعْنِی: الْقَدَحَ , كَانُوا یَسْتَقْسِمُونَ بِهَا فِی الْأُمُورِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’ نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانْسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی تیر، لوگ ان تیروں سے اپنے امورومعاملات کے انجام معلوم کیاکرتے تھے ۔[38]

وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ وَغَیْرُهُ: أَنَّ أَعْظَمَ أَصْنَامِ قُرَیْشٍ صَنَمٌ كَانَ یُقَالُ لَهُ: هُبَل، وَكَانَ دَاخِلَ الْكَعْبَةِ، مَنْصُوبٌ عَلَى بِئْرٍ فِیهَا تُوضَعُ الْهَدَایَا وَأَمْوَالُ الْكَعْبَةِ فِیهِ، كَانَ عِنْدَهُ سَبْعَةُ أَزْلَامٍ، مَكْتُوبٌ فِیهَا مَا یَتَحَاكَمُونَ فِیهِ، مِمَّا أُشْكِلَ عَلَیْهِمْ، فَمَا خَرَجَ لَهُمْ مِنْهَا رَجَعُوا إِلَیْهِ وَلَمْ یَعْدِلُوا عَنْهُ

محمدبن اسحاق وغیرہ نے ذکرکیاہے کہ قریش کے سب سے بڑے بت کانام ہبل تھاجوکعبے کے اندرایک کنوئیں پرنصب کیاگیاتھا جس میں تحائف اورکعبے کے اموال ڈالے جاتے تھے، یہاں سات تیررکھے ہوئے تھے اوران پران کے مشکل کاموں کے فیصلے لکھے ہوتے تھے، قسمت آزمائی کے وقت ان میں سے جوتیرنکل آتااس کے مطابق عمل کرتے اوراس سے انحراف نہیں کرتے تھے۔[39]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ أَبَى أَنْ یَدْخُلَ البَیْتَ وَفِیهِ الآلِهَةُ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ، فَأَخْرَجُوا صُورَةَ إِبْرَاهِیمَ، وَإِسْمَاعِیلَ فِی أَیْدِیهِمَا الأَزْلاَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّهُمَا لَمْ یَسْتَقْسِمَا بِهَا قَطُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (فتح مکہ کے موقع پرمکہ مکرمہ )تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے میں داخل ہونے سے انکارکردیااس میں جھوٹے معبودتھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکالنے کاحکم دیا،انہوں نے ابراہیم اوراسماعیل علیہ السلام کے بت نکالے ان دونوں کے ہاتھوں میں تیرتھے، تو(یہ دیکھ کر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ ان لوگوں کوتباہ وبربادکرےاللہ کی قسم !کیاانہیں معلوم نہیں تھاکہ ابراہیم اوراسماعیل علیہ السلام نے تیروں کے ساتھ کبھی قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔[40]

چنانچہ اس عبث کام کوروکنے کے لئے فرمایا دیوی یادیوتاسے قسمت کاحال پوچھنے ،غیب کی خبردریافت کرنے ،باہمی نزاعات کاتصفیہ کرنے کے لئے فال گیری، رمل، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اورنچھتروغیرہ اورجوئے کی قسم کے سارے کھیل بھی فسق،جہالت اور حرام ہیں ۔

استخارہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فال گیری،رمل،نجوم،جفر،مختلف قسم کے شگون اورنچھتروغیرہ کے بجائے استخارہ کرنے کی تعلیم دی۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِی الأُمُورِ كُلِّهَا، كَالسُّورَةِ مِنَ القُرْآنِ، إِذَا هَمَّ بِالأَمْرِ فَلْیَرْكَعْ رَكْعَتَیْنِ ثُمَّ یَقُولُ:اللهُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ،وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العَظِیمِ،فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوبِ،اللهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی فَاقْدُرْهُ لِی وَیَسِّرْهُ لِی، ثُمَّ بَارِكْ لِی فِیهِ،اللهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَةِ أَمْرِی فَاصْرِفْهُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِی الخَیْرَ حَیْثُ كَانَ ، ثُمَّ رَضِّنِی بِهِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنابھی تعلیم فرماتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کوکوئی اہم(اورجائز) کام آپڑے(اوروہ اس میں مترددہوکہ اسے کروں یانہ کروں ) تواسے چاہیے کہ وہ(خشوع وخضوع سے) دورکعت نمازنفل پڑھ کریہ دعاپڑھے’’اے اللہ!یقیناًمیں (اس کام میں )تجھ سے تیرے علم کی مددسے خیرمانگتاہوں اور(حصول خیرکے لئے)تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے استطاعت مانگتاہوں اورمیں تجھ سے تیرافضل عظیم مانگتاہوں ،بے شک توہرچیزپرقادرہےاورمیں کسی چیزپرقادرنہیں ،تو(ہرکام کاانجام)جانتاہے اورمیں (کچھ)نہیں جانتااورتوتمام غیبوں کاجاننے والاہے ،الٰہی!اگرتوجانتاہے کہ یہ کام (جس کامیں ارادہ رکھتاہوں )میرے لئے میرے دین ،میری زندگی اورمیرے انجام کارکے لحاظ سے بہترہے تواسے میرے لئے مقدرکراورآسان کرپھراس میں میرے لئے برکت پیدافرما،اوراگرتیرے علم میں یہ کام میرے لئے میرے دین ،میری زندگی اورمیرے انجام کارکے لحاظ سے براہے تواس (کام)کومجھ سے اورمجھے اس سے پھیردے اورمیرے لئے بھلائی مہیاکرجہاں (کہیں بھی)ہوپھرمجھے اس کے ساتھ راضی کردے۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ هَذَا الأَمْرَ کی جگہ اپنی حاجت کانام لو،مثلا ًنکاح ہوتوھٰذاالنکاح،سفرمیں ہوتوھٰذاالسفر،بیوپارمیں ہوتوھٰذہ التجارة وغیرہ۔[41]

وَالْحَدِیثُ یَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِیَّةِ صَلَاةِ الِاسْتِخَارَةِ وَالدُّعَاءِ عَقِیبَهَا وَلَا أَعْلَمُ فِی ذَلِكَ خِلَافًا

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں نمازاستخارہ اوراس کے بعدکی دعاکی مشروعیت میں کوئی اختلاف میرے علم میں نہیں ۔[42]

یَنْبَغِی أَنْ یَفْعَلَ بَعْدَ الِاسْتِخَارَةِ مَا یَنْشَرِحُ لَهُ

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں جب کوئی شخص استخارہ کرے تواس کے بعداس کام کواپنالے جس پراسے انشراح صدرہوجائے۔[43]

xاستخارہ صرف بعض اولیاء کے لئے خاص نہیں ۔

أنّ الاستخارة لا تكون معتبرةً إلا إذا دعا بها بعضُ النّاس، وأنّه لابُدّ فیها من الرؤیا المنامیة، فهذا غلوُّ وجمود لم یأمر به الله، ولا هدت إلیه سنّةُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وإنما نشأ عن التكلّف الذی لا ینبغی للمسلمین فعله، حتى جرّهم ذلك إلى أن عطّلوا سنّةً عظیمةً من سنن النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وحرموا أنفسهم مثوبة هذه السنّة وبركاتها، والتعرّض لنفحاتها

یہ گمان رکھناکہ استخارہ صرف وہی سودمندہوتاہے جولوگوں میں سے بعض بزرگ شخصیات سے کروایاجائےاوریہ خیال کرناکہ استخارے کے لئے دوران نیندخواب آناضروری ہےمحض (دین میں )ایساغلووجمودہےجس کانہ تواللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے اورنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس کی رہنمائی کرتی ہے ،اس لئے مسلمانوں کوچاہیے کہ اپنے تمام معاملات میں پروردگارسے خوداستخارہ کرے یقینا ًوہ ضروراسے ہدایت بخشے گااوردورحاضرکے لوگوں نے جس تشددکواورمحض دوسروں (یعنی اولیاء وبزرگوں )پرہی اعتماد کر لینا عادت ورواج بنالیاہے اس کی طرف یکسرتوجہ نہ کرے۔[44]

xاگر استخارے کے بعد مطلوبہ کام کرنے یانہ کرنے کے متعلق شرح صدرنہ ہوتوکیاوہ شخص دوبارہ استخارہ کرے گا؟

امام شوکانی نے مستحب ہونے کی دلائل کو ضعیف قرار دیا ہے اور ان کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دوبارہ استخارہ کرنے کے متعلق کوئی بھی مرفوع حدیث ثابت نہیں ہے۔[45]

عمل استخارہ کوپیشہ بنالینابھی کسی طورپردرست نہیں کیونکہ اسے ہرانسان کی اپنی ذات کے لئے مشروع کیاگیاہے۔

کیونکہ اب اسلامی نظام حکومت تکمیل کے مراحل طے کرچکاہے،اس وقت دنیامیں کوئی نظریہ حیات،کوئی دین اورکوئی مذہب نہیں جوبحیثیت ایک نظریہ کے گردن تان کے اسلام کے سامنے کھڑاہوسکے اس لئے آج کافروں کی یہ امیدیں خاک میں مل گئی ہیں کہ وہ آئندہ تمہارے دین کومٹاسکیں گے یااس میں کچھ تبدیلی یاتحریف کرسکیں گے،اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے،جیسے فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ [46]

ترجمہ:ہم ہی نے قرآن مجیدکونازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: قَوْلُهُ: {الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ دِینِكُمْ} یَعْنِی: أَنْ تَرْجِعُوا إِلَى دِینِهِمْ أَبَدًا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہےکہ اس آیت کریمہ’’ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے ۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اب کفارمایوس ہوگئے ہیں کہ مسلمان اب کبھی بھی ان کے دین کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔[47]

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ یَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِی جَزِیرَةِ الْعَرَبِ، وَلَكِنْ فِی التَّحْرِیشِ بَیْنَهُمْ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرماتے تھےشیطان اس سے تومایوس ہوچکاہے کہ نمازی مسلمان جزیرة عرب میں اس کی پرستش کریں ہاں وہ اس کوشش میں رہے گاکہ مسلمانوں کوآپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائے۔[48]

عَنْ هَارُونَ بْنِ أَبِی وَكِیعٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {الْیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ} وَذَلِكَ یَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، بَكَى عُمَرُ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا یُبْكِیكَ؟ قَالَ: أَبْكَانِی أَنَّا كُنَّا فِی زِیَادَةٍ مِنْ دِینِنَافَأَمَا إذْ أُكْمِلَ فَإِنَّهُ لَمْ یَكْمُلْ شَیْءٌ إِلَّا نَقُصَ، فَقَالَ: صَدَقْتَ

ہارون بن عنترہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں جب حج اکبرکے دن یہ آیت کریمہ’’آج میں نے تمہارے لیے دیم کوکامل کردیا۔‘‘ نازل ہوئی توسیدناعمر رضی اللہ عنہ رونے لگ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیوں روتے ہو؟ انہوں نے عرض کی مجھے یہ بات رلارہی ہے کہ پہلے ہمارے دین میں اضافہ ہورہاتھا اورجب کوئی چیزمکمل ہوجائے توپھراس میں کمی شروع ہوجاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم سچ کہتے ہو۔[49]

یہ حدیث بھی اس کی تائیدکرتی ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ غَرِیبًا كَمَا بَدَأَ (فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااسلام کاآغازاجنبیت میں ہوااورحالت اجنبیت ہی کی طرف یہ عنقریب لوٹ آئے گاجیسے اس کاآغازہواتوان اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے۔[50]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ۔

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْیَهُودِ إِلَى عُمَرَ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آیَةً فِی كِتَابِكُمْ، لَوْ عَلَیْنَا مَعْشَرَ الْیَهُودِ نَزَلَتْ، لاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْیَوْمَ عِیدًا، قَالَ: وَأَیُّ آیَةٍ هِیَ؟ قَالَ: قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {الْیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِی} [51]قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنَّی لَأَعْلَمُ الْیَوْمَ الَّذِی نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالسَّاعَةَ الَّتِی نَزَلَتْ فِیهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، عَشِیَّةَ عَرَفَةَ فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ

طارق بن شہاب سے مروی ہےایک یہودی نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی اے امیرالمومنین!آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگرہم یہودیوں کی کتاب میں یہ آیت نازل ہوئی ہوتی توہم اس کے نزول کے دن کوعیدکادن بنالیتے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکون سی آیت؟اس نے جواب دیا’’ آج میں نے تمہارے دین کوتمہارے لئے مکمل کردیاہے اوراپنی نعمت تم پرتمام کردی ہے۔‘‘یہ سن کرسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایااللہ کی قسم !میں اس دن کوجانتاہوں جس میں یہ آیت کریمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی تھی اورمیں اس وقت کوبھی جانتاہوں جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی تھی، وقت عرفہ کی شام کاتھااوردن جمعة المبارک تھا(یعنی ہماری تواس دن دوعیدیں تھیں )۔[52]

لہذاکفارکی طاقت ومخالفت سے ڈرنے کے بجائے ثابت قدم رہو،تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت میں جھک جاؤ ، آج اللہ نے دین اسلام کو چاہئے سیاسی نظام ہو،معاشی نظام ہو،عدالتی نظام ہویامعاشرتی نظام ہوتمہارے لئے پورا کر کے اس(ظاہری وباطنی) نعمت ہدایت کی ہرحیثیت سے تکمیل کردی ہے (اگرتکلف کاشکارکوئی شخص یہ دعویٰ کرتاہے کہ لوگ عقائداوراحکام دین کی معرفت کے لئے کتاب و سنت کے علم کے علاوہ دیگرعلوم مثلاًعلم کلام وغیرہ کے محتاج ہیں تووہ جاہل اوراپنے دعوی میں جھوٹاہے گویاوہ اس زعم میں مبتلاہے کہ دین کی تکمیل اس کے اقوال اوران نظریات کے ذریعے سے ہوئی ہے) اوردین اسلام کوایک مستقل نظام فکروعمل اورایک ایسامکمل نظام تہذیب وتمدن بنادیاہے اوراسلام کوتمہارے لئے دین کے طورپر اورتمہیں اسلام کے لئے چن لیاہے لہذااب اپنے رب کی شکرگزاری کے لئے میرے قانون کی حدودپرقائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ، البتہ کوئی شخص اگروہ گناہ کی طرف مائل نہ ہوبلکہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں جان بچانے کے لئے ان میں سے کوئی چیزتھوڑی سے کھالے تواللہ معاف کرنے اوربے پایاں رحمت کامالک ہے ، جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۷۳ [53]

ترجمہ: ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو ، یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے ، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى رُخَصُهُ كَمَا یَكْرَهُ أَنْ تُؤْتَى مَعْصِیَتُهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ اس بات کوپسندفرماتاہے کہ اس کی عطاکردہ رخصتوں کوقبول کرلیاجائے جیساکہ وہ اس بات کوناپسندفرماتاہے کہ اس کی معصیت کاارتکاب کیاجائے۔[54]

اللہ تعالیٰ کی مردارکھانے کی رخصت میں تین دن کی کوئی شرط نہیں ہے ،بلکہ جب بھی کوئی مجبورہوجائے تواس کے لیے کھاناجائزہوجاتاہے،

عَنْ أَبِی وَاقِدٍ اللَّیْثِیِّ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ تُصِیبُنَا بِهَا مَخْمَصَةٌ، فَمَا یَحِلُّ لَنَا مِنَ الْمَیْتَةِ؟ قَالَ:إِذَا لَمْ تَصْطَبِحُوا، وَلَمْ تَغْتَبِقُوا، وَلَمْ تَحْتَفِئُوا بَقْلًا، فَشَأْنُكُمْ بِهَا

ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےلوگوں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم ایک ایسے علاقے میں ہیں جہاں ہم بھوک سے ناچارہوجاتے ہیں توہمارے لیے مردارکھاناکب حلال ہوتاہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تمہیں صبح کا کھانا نہ ملےاورجب شام کاکھانانہ ملےاورتمہیں کوئی سبزی ترکاری وغیرہ بھی نہ ملے تواسے کھالو۔[55]

یَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِینَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَیْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ‎﴿٤﴾‏ الْیَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَیْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِینَ غَیْرَ مُسَافِحِینَ وَلَا مُتَّخِذِی أَخْدَانٍ ۗ وَمَن یَكْفُرْ بِالْإِیمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٥﴾‏(المائدة)
’’ آپ سے دریافت کرتے ہیں ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئیں ہیں، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے، یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھالو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرلیا کرو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے،کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لیے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیںان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔‘‘

قدیم نظریہ یہ تھاکہ سب کچھ حرام ہے بجزاس کے جسے حلال ٹھیرایاجائے،قرآن مجیدنے اس کے برعکس یہ اصول مقررکیاکہ سب کچھ حلال ہے بجزاس کے جس کی حرمت کی تصریح کردی جائے ۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْر، عَنْ عَدِیّ بْنِ حَاتِمٍ، وَزَیْدِ بْنِ المهَلْهِل الطَّائِیَّیْنِ سَأَلَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ حَرَّمَ اللَّهُ الْمَیْتَةَ، فَمَاذَا یَحِلُّ لَنَا مِنْهَا؟ فَنَزَلَتْ: {یَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبَاتُ}

سعیدبن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہےعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ اورزیدبن مہلہل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ نےمردہ جانورکوحرام قراردیاہےہمارے لیےاب حلال کیاہے؟ اس پریہ آیت نازل ہوئی’’’ لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیاحلال کیاگیاہے،جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کہہ دیں تمہارے لئے (جن چیزوں سے ذوق سلیم کراہت کرے یا جنہیں مہذب انسان نے بالعموم اپنے فطری احساس نظافت کے خلاف پایاہوکے سوا)ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں ۔‘‘[56]

جیسے فرمایا

۔۔۔ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ۔۔۔۝۱۵۷ۧ [57]

ترجمہ:وہ پاک چیزوں کوان کے لئے حلال کرتاہے اورناپاک چیزوں کوان کے لئے حرام ٹھیراتا ہے ۔

عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ قَوْلُهُ: الطَّیِّبَاتِ،قَالَ: الطَّیِّبَاتُ:ما أحل لَهُمْ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ أَنْ یُصِیبُوهُ وَهُوَ الْحَلَالُ مِنَ الرِّزْقِ

مقاتل بن حیان رحمہ اللہ آیت کریمہ’’، ساری پاک چیزیں ۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں ہروہ چیزجس کے کھانے کی اجازت دی گئی ہے وہ حلال رزق ہے۔[58]

سدھائے ہوئے جانورکی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کاشکارکرتاہے اسے عام درندوں کی طرح پھاڑنہیں کھاتابلکہ اپنے مالک کے لئے پکڑرکھتاہے اسی وجہ سے فرمایاکہ جن شکاری جانوروں مثلا ً کتے، چیتے، باز ، شکرے اور تمام وہ درندے اورپرندے جن سے انسان شکارکی خدمت لیتاہے،

عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ: وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِینَ، وَهُنَّ الْكِلَابُ الْمُعَلَّمَةُ وَالْبَازِی، وَكُلُّ طَیْرٍ یُعَلَّمُ لِلصَّیْدِ وَالْجَوَارِحُ: یَعْنِی الْكِلَابَ الضَّوَارِی وَالْفُهُودَ وَالصُّقُورَ وَأَشْبَاهَهَا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے شکاری جانوروں سے مراد سدھائے ہوئے کتے،بازاورہروہ پرندہ ہے جوشکارکرناجانتاہے اور’’جوارح۔‘‘ سے مراد شکاری کتے،چیتے اورشکرے وغیرہ۔[59]

اگروہ اس جانورکوپکڑرکھیں جس کاتم نے شکارکیاہے تو اسے بھی کھا سکتے ہو،

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَیْدِ الكَلْبِ،فَقَالَ:مَا أَمْسَكَ عَلَیْكَ فَكُلْ، فَإِنَّ أَخْذَ الكَلْبِ ذَكَاةٌ،وَإِنْ وَجَدْتَ مَعَ كَلْبِكَ أَوْ كِلاَبِكَ كَلْبًا غَیْرَهُ، فَخَشِیتَ أَنْ یَكُونَ أَخَذَهُ مَعَهُ، وَقَدْ قَتَلَهُ فَلاَ تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللهِ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تَذْكُرْهُ عَلَى غَیْرِهِ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتے کے شکارکے بارے میں پوچھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجسے وہ تمہارے لئے رکھے (یعنی خودنہ کھائے)تواسے کھالوکیونکہ کتے کاشکارکوپکڑلیناہے یہ بھی ذبح کرناہے اوراگرتم اپنے کتے یاکتوں کے ساتھ کوئی دوسراکتابھی پاؤاورتمہیں اندیشہ ہوکہ تمہارے کتے نے شکاراس دوسرے کے ساتھ پکڑاہوگااورکتاشکارکو مارچکا ہوتو ایسا شکار نہ کھاؤکیونکہ تم نے اللہ کانام (بسم اللہ )اپنے کتے پرلیاتھادوسرے کتے پرنہیں لیاتھا۔[60]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: أَمَّا مَا صَادَ مِنَ الطَّیْرِ البُزاة وَغَیْرُهَا مِنَ الطَّیْرِ فَمَا أدركتَ فَهُوَ لَكَ، وَإِلَّا فَلَا تَطْعَمْهُ

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےپرندوں میں سے بازوغیرہ جوشکارکریں تواس شکارکوتم پالوتووہ تمہاراہےاوراگراس نے خودکھالیاہوتوپھرتم اسے نہ کھاؤ۔[61]

اللہ تعالیٰ نے جوقانون حرام وحلال مقررفرمادیئے ہیں اس کی سختی سے پابندی کروورنہ اللہ کوحساب لیتے کچھ دیرنہیں لگتی،آج تمہارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں ،اگریہودونصاریٰ (باقی کفارکے ذبیحے نہیں ) پاکی وطہارت کے ان قوانین کی پابندی کریں جوشریعت کے نقطہ نظرسے ضروری ہیں ،اوران کے کھانے میں حرام چیزیں (سور،شراب وغیرہ) شامل نہ ہوں ،اورجانورپراللہ کانام لے کرذبح کریں (مشینی ذبیحہ نہیں )توان کاکھانااورذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے،

 عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: وَطَعَامُ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ، قَالَ: ذَبَائِحُهُمْ

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’ اوراہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے۔‘‘کھانےسے مراداہل کتاب کے ذبیحے ہیں ۔ [62]

اورتمہارا کھانایعنی تمہارے ذبیحے ان کے لئے حلال ہیں ، اور یہودونصاریٰ کی آزاد،پاک دامن ،عصمت آب عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ تم آزادشہوت رانی یاچوری چھپے آشنائیاں (زمانہ جاہلیت میں زنا کاروں کی دواقسام تھیں ،کسی بھی عورت کے ساتھ زناکرنے والے کو مُسٰفِحِیْنَ کہا جاتا ہےاورصرف اپنی محبوبہ کے ساتھ زنا کرنے والےاَخْدَانٍ ہیں ) کرنے کے بجائے ان کاحق المہراداکرکے ان کے محافظ بنو،جیسے فرمایا

۔۔۔ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ۔۔۔۝۰۝۲۵ۧ [63]

ترجمہ:عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں ۔

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ،كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ نِكَاحِ النَّصْرَانِیَّةِ وَالیَهُودِیَّةِ، قَالَ : إِنَّ اللهَ حَرَّمَ المُشْرِكَاتِ عَلَى المُؤْمِنِینَ ، وَلاَ أَعْلَمُ مِنَ الإِشْرَاكِ شَیْئًا أَكْبَرَ مِنْ أَنْ تَقُولَ المَرْأَةُ: رَبُّهَا عِیسَى، وَهُوَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے عیسائی اوریہودی عورتوں سے نکاح کے بارے میں دریافت کیاگیا کہ عیسائی عورت سے نکاح کرناجائزنہیں ہے،انہوں نے فرمایااللہ تعالیٰ نے مشرک عورتیں مسلمانوں پرحرام کی ہیں اس سے بڑھ کراورزیادہ شرک کیاہوسکتاہے کہ عیسائی عورت یہ کہتی ہے کہ اس کارب عیسیٰ ہے،اوروہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں ۔[64]

اورتنبیہ کے طورپر فرمایا اگرایسی عورت سے نکاح کرنے سے تمہارے عقائداوراعمال متاثر ہوں اورتم اخلاق ومعاشرت میں ایسی روش پرچل پڑوکہ اپنے ایمان سے ہاتھ نہ دھوبیٹھو توقیامت کے روز اپنی جان ،مال اور اپنے اہل وعیال کے بارے میں سخت خسارے میں ہو گے اورابدی بدبختی تمہارانصیب بنے گی،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۱۷ [65]

ترجمہ: (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَیْدِیَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَیْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَیْدِیكُم مِّنْهُ ۚ مَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن یُرِیدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٦﴾‏ (المائدة)
’’اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کہنیوں سمیت دھو لو، اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو ،اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو، ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم سے کوئی حاجت ضروری فارغ ہو کر آیا ہو، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو ، اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔‘‘

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَیْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَیْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِی،فَأَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، وَلَیْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَیْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ،فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِی بَكْرٍ فَقَالُوا: أَلَا تَرَى إِلَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ؟أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ مَعَهُ، وَلَیْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَیْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفرمیں نکلے جب بیداء یاذات الجیش (مقام)پرپہنچے تومیراہارٹوٹ کرگرپڑا(بیداء اورذات الجیش یہ دونوں مقام خیبرکے درمیان میں ہیں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تلاش کرنے کے لئے ٹھیرگئے اورلوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھیرگئے ،لیکن وہاں پانی نہ تھااورنہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا، لوگ سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر(انہیں ) کہنے لگے کیاآپ کومعلوم ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کیاکیا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورلوگوں کے ساتھ آپ کوبھی ایسے مقام پر ٹھیرا دیاہے جہاں پانی نہیں ہے اورنہ ہی لوگوں کے پاس پانی ہے

فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِی قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَیْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَیْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ،قَالَتْ فَعَاتَبَنِی أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَقُولَ، وَجَعَلَ یَطْعُنُ بِیَدِهِ فِی خَاصِرَتِی، فَلَا یَمْنَعُنِی مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِی، فَنَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَیْرِ مَاءٍ،فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فصَلَّوْا بِغَیْرِ وُضُوءٍ

یہ سن کر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس تشریف لائے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پرسررکھ کرسورہے تھے،انہوں نے کہاتونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورلوگوں کوایسے مقام پرروک دیاہے جہاں پانی نہیں ہے اورنہ ہی ان کے پاس پانی ہے، اورمجھ سے ناراض ہوئے اورجواللہ نے چاہاوہ کہہ ڈالااورمیری کوکھ پرہاتھ سے کچوکے دینے لگے جس سے مجھے تکلیف ہوئی لیکن میں نے ہلچل نہیں کی صرف اس وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسرمیری ران پرتھا(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے)جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کوجاگے توپانی نہ تھا،بعض صحابہ نے بغیروضوکے ہی نماز پڑھ لی ۔[66]

فَأَنْزَلَ اللهُ آیَةَ التَّیَمُّمِ فَتَیَمَّمُوا فَقَالَ أُسَیْدُ بْنُ الْحُضَیْرِ: وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ مَا هِیَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ یَا آلَ أَبِی بَكْرٍفَقَالَتْ عَائِشَةُ:فَبَعَثْنَا الْبَعِیرَ الَّذِی كُنْتُ عَلَیْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ

تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمادی،اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے اوروہ نقیبوں میں سے تھے ، اے ابوبکر کے گھروالو!یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے (یعنی تمہاری وجہ سے بہت سی برکتیں اورراحتیں مسلمانوں کونصیب ہوئی ہیں )عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھرہم نے اپنااونٹ اٹھایاجس پرمیں سوارتھی تومیراہاربھی اس کے نیچے سے برآمدہوگیا ۔[67]

اسی مضمون کو ایک اور مقام پر فرمایا

 وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَیْدِیْكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا۝۴۳ [68]

ترجمہ:اوراگرتم بیمار ہو یا سفر میں ہویاتم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہواورتمہیں پانی نہ ملے توپاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ (اس سے منہ اورناک کے اندرمٹی داخل کرنااوربالوں کی جڑوں تک مسح کرنامتثنیٰ ہے)اوراپنے ہاتھ مل لو،بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والابخشنے والاہے۔

فرمایااے ایمان والو!اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق ان امورپرعمل کرو جو ہم نے تمہارے لئے مشروع کیے ہیں ۔

ہرقسم کی نمازکی صحت کے لئے طہارت شرط ہے اس لئے فرمایاجب تم نمازفرض ،نفل،فرض کفایہ اورنمازجنازہ پڑھنے کی نیت اورارادہ کروتووضوکرلو۔

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى ابْنِ عَامِرٍ یَعُودُهُ وَهُوَ مَرِیضٌ فَقَالَ: أَلَا تَدْعُو اللهَ لِی یَا ابْنَ عُمَرَ؟ قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَیْرِ طُهُورٍ

مصعب بن سعد رحمہ اللہ سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ابن عامرکی عیادت کے لیے آئے،انہوں نے کہااے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تم میرے لیے دعانہیں کرتے،انہوں نے کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سنااللہ تعالیٰ بغیرطہارت کے نمازکوقبول نہیں کرتا۔[69]

طریقۂ وضو

وضوکے لغوی معنی صفائی ستھرائی اورروشنی کے ہیں ،شرعی اصطلاع میں وضوطریقہ مقررہ کے ساتھ صفائی کرناہےجس کی برکت سے قیامت کے دن اعضائے وضوکونورحاصل ہوگا،وہ سفیداورروشن ہوں گے ،کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ) چمک بڑھانے کے لئے بعض مرتبہ ہاتھوں کومونڈھوں تک اورپاؤں کوگھٹنے تک دھولیتے تھے ۔

عبادت کے لئے وضوکاعمل ان خصوصیات اسلام سے ہے جس کی نظیرمذاہب عالم میں نہیں ملتی۔

xجب کوئی شخص نیندسے جاگے اوروضوکرناچاہئے تواسے چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے ہاتھ پاک کرے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَإِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَلْیَغْسِلْ یَدَهُ قَبْلَ أَنْ یُدْخِلَهَا فِی وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لاَ یَدْرِی أَیْنَ بَاتَتْ یَدُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااورجب تم میں سے کوئی سوکراٹھےتووضوکے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھولے کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ رات کواس کاہاتھ کہاں رہاہے( یعنی شرمگاہ پرلگ کرناپاک ہوگئے ہوں )۔[70]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلَا یَغْمِسْ یَدَهُ فِی الْإِنَاءِ حَتَّى یَغْسِلَهَا ثَلَاثًا، فَإِنَّهُ لَا یَدْرِی أَیْنَ بَاتَتْ یَدُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کوئی سوکراٹھے تواپناہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک اس کو تین بارنہ دھولے۔[71]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو شیطانوں ،پلیدی یانجاستوں یاشیاطین اورمعاصی سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے۔

 أَنَسًا، یَقُولُ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الخَلاَءَ قَالَ: اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الخُبُثِ وَالخَبَائِثِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے توکہتے ’’ اے اللہ میں پناہ مانگتاہوں تیری ناپاک شیطانوں اورشیطانینوں سے یاپلیدی یانجاستوں سے یاشیاطین اورمعاصی سے۔‘‘[72]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کاحکم فرمایا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْضِ حِیطَانِ المَدِینَةِ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَیْنِ یُعَذَّبَانِ فِی قُبُورِهِمَا فَقَالَ: یُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی كَبِیرٍ، وَإِنَّهُ لَكَبِیرٌ، كَانَ أَحَدُهُمَا لاَ یَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وَكَانَ الآخَرُ یَمْشِی بِالنَّمِیمَةِ،ثُمَّ دَعَا بِجَرِیدَةٍ فَكَسَرَهَا بِكِسْرَتَیْنِ أَوْ ثِنْتَیْنِ، فَجَعَلَ كِسْرَةً فِی قَبْرِ هَذَا، وَكِسْرَةً فِی قَبْرِ هَذَا، فَقَالَ: لَعَلَّهُ یُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے کسی باغ سے تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو(مردہ)انسانوں کی آوازسنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیاجارہاتھا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان دونوں قبروالوں پر عذاب ہورہاہے اورکچھ بڑے گناہ پرعذاب نہیں ہورہاہے ،ان میں سےایک تواپنے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے میں احتیاط نہ کرتاتھااوردوسرا چغل خور تھا(یعنی لڑائی کروانے کے لئے ایک کی بات دوسرے سے کرتاتھا) پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجورکی ہری ٹہنی منگوائی اوراس کوچیرکردوکرلیااورہرایک قبرپرایک ٹہنی گاڑدی اورفرمایاکہ شاید جب تک یہ ٹہنیاں نہ سوکھیں اس وقت تک تک ان کاعذاب ہلکاہوجائے۔[73]

xہاتھ پاک کرنے کے بعدوضوکرنے سے پہلے ناک میں پانی چڑھاکرتین بارجھاڑیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ مَنَامِهِ فَتَوَضَّأَ فَلْیَسْتَنْثِرْ ثَلاَثًا، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَبِیتُ عَلَى خَیْشُومِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم نیندسے بیدارہواورپھروضوکاارادہ کروتوتین بارناک جھاڑوکیونکہ شیطان ناک کے بانسے میں رات گزارتا ہے (جس سے آدمی پرسستی غالب آجاتی ہے ،پس ناک جھاڑنے سے وہ سستی دورہوجاتی ہے)۔[74]

x وضوسے پہلے نیت فرض ہے ۔

عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّیْثِیَّ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى

علقمہ بن وقاص لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کومسجدنبوی میں منبر پرفرماتے ہوئے سناوہ فرمارہے تھے کہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ نے فرمایااعمال کادارومدارنیت پرہے اورہرعمل کانتیجہ ہرانسان کواس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔[75]

x وضوسے پہلے بسم اللہ پڑھنی بھی ضروری ہے ۔

 عَنْ أَنَسٍ قَالَ:تَوَضَّئُوا بِسْمِ اللهِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا وضوشروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں ۔[76]

پوری بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھناسنت سے ثابت نہیں ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا وُضُوءَ لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کاوضونہیں اس کی نمازنہیں ۔[77]

عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَقْبَلُ اللهُ صَلَاةً بِغَیْرِ طُهُورٍ

ابوالملیح اپنے والدسے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ بے وضوکی نماز قبول نہیں فرماتا۔[78]

xکیونکہ جوشخص وضوشروع کرتے ہوئے بسم اللہ نہیں پڑھتااس کاوضونہیں ہوتا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَلَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ یَذْكُرِ اسْمَ اللهِ تَعَالَى عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورجو شخص وضوکے شروع میں اللہ کانام نہ لے یعنی بسم اللہ نہ کہے اس کاوضونہیں ۔[79]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپناہرکام داہنے ہاتھ کی طرف سے شروع کرناپسندفرماتے تھے۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْجِبُهُ التَّیَمُّنُ، فِی تَنَعُّلِهِ، وَتَرَجُّلِهِ، وَطُهُورِهِ، وَفِی شَأْنِهِ كُلِّهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتاپہننے،کنگھی کرنے،وضوکرنے اوراپنے ہرکام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداکرنے کوپسندفرمایا کرتے تھے۔[80]

xوضوکرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھوتے۔

أَنَّ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، رَأَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ دَعَا بِإِنَاءٍ، فَأَفْرَغَ عَلَى كَفَّیْهِ ثَلاَثَ مِرَارٍ، فَغَسَلَهُمَا

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سے حمران رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانہوں نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے (حمران سے)پانی مانگا(اورپانی لیکرپہلے)اپنی ہتھیلیوں پرتین مرتبہ پانی ڈالاپھر انہیں دھویا۔[81]

xجب وضوکے لئے پہنچوں تک ہاتھ دھوئیں توانگلیوں کے درمیان خلال بھی کریں ۔

لَقِیطِ بْنِ صَبْرَةَ، قَالَ:فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنِی، عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ:أَسْبِغِ الْوُضُوءَ، وَخَلِّلْ بَیْنَ الْأَصَابِعِ

لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی روایت کے آخرمیں ہےمیں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وضو کا طریقہ بتلائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوضو کو مکمل کرو اور انگلیوں میں خلال کرو۔[82]

xپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کاایک چلولے کر آدھے پانی سے کلی فرماتے اورآدھے پانی کوناک میں ڈال کرناک کوجھاڑتے ،یہ عمل تین مرتبہ کرتے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَیْدٍ،أَنَّهُ أَفْرَغَ مِنَ الإِنَاءِ عَلَى یَدَیْهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ غَسَلَ – أَوْ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ – مِنْ كَفَّةٍ وَاحِدَةٍ، فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلاَثًا

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(وضوکرتے وقت)انہوں نے برتن سے(پہلے)اپنے دونوں ہاتھوں پرپانی ڈالا،پھرانہیں دھویا(یایوں کہاکہ)کلی کی اورناک میں ایک چلو سے پانی ڈالااورتین مرتبہ اسی طرح کیا۔[83]

عَمْرُو بْنُ یَحْیَى، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: كَانَ عَمِّی یُكْثِرُ مِنَ الوُضُوءِ، قَالَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ زَیْدٍ: أَخْبِرْنِیا كَیْفَ رَأَیْتَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ؟فَدَعَا بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ، فَكَفَأَ عَلَى یَدَیْهِ، فَغَسَلَهُمَا ثَلاَثَ مِرَارٍثُمَّ أَدْخَلَ یَدَهُ فِی التَّوْرِ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ

عمروبن یحییٰ سے مروی ہے میرے چچابہت زیادہ وضوکیاکرتے تھے(یایہ کہ وضومیں بہت پانی بہاتے تھے)ایک دن انہوں نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کہاکہ مجھے بتلائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضوکیاکرتے تھے؟انہوں نے پانی کاایک طشت منگوایا،اس کو(پہلے)اپنے ہاتھوں پرجھکایا ، پھر دونوں ہاتھ تین باردھوئے،پھراپناہاتھ طشت میں ڈال کر(پانی لیااور)ایک چلوسے کلی کی اورتین مرتبہ ناک صاف کی۔[84]

أَنَّ حُمْرَانَ، مَوْلَى عُثْمَانَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ:دَعَا بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ فَغَسَلَ كَفَّیْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے مولیٰ(آزادکردہ غلام)حمران رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے وضوکاپانی طلب فرمایااوروضوکیاپس اپنی دونوں ہتھیلیوں کوتین باردھویاپھرکلی کی اور ناک صاف کیا۔[85]

عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: دخَلْتُ یَعْنِی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَتَوَضَّأُ، وَالْمَاءُ یَسِیلُ مِنْ وَجْهِهِ وَلِحْیَتِهِ عَلَى صَدْرِهِ، فَرَأَیْتُهُ یَفْصِلُ بَیْنَ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ

طلحہ اپنے والدسے ،وہ ان کے داداسے روایت کرتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواجب کہ آپ وضوفرمارہے تھے اورپانی آپ کے چہرے اورڈاڑھی سے سینے پرگررہاتھامیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ کلی کرنے اورناک میں پانی لینے میں فرق کرتے تھے(یعنی کلی کے لئے علیحدہ اورناک کے لئے علیحدہ پانی لیتے تھے)۔[86]

حكم الألبانی : ضعیف

شیخ البانی نے اسے ضعیف کہاہے۔

اللیْثُ بْنُ أَبِی سُلَیْمٍ ضَعِیفٌ

امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے،امام نووی اورحافظ ابن حجرنے بھی ضعیف کہا ہے ،

امام نودی اورامام ابن قیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوضوکاطریقہ چلوسے آدھاپانی منہ میں اورآدھاناک میں ڈالناہے۔

xاس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین بارمنہ مبارک دھوتے۔

ثُمَّ أَدْخَلَ یَدَهُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا

عمروبن حسن نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوکے بارے میں پوچھاتوانہوں نے بیان کیا۔۔۔پھراپناہاتھ طشت میں ڈالااورتین مرتبہ منہ دھویا۔[87]

xپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی کاخلال فرماتے۔

عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ: رَأَیْتُ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ تَوَضَّأَ فَخَلَّلَ لِحْیَتَهُ، فَقِیلَ لَهُ:، أَوْ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ:، أَتُخَلِّلُ لِحْیَتَكَ؟، قَالَ: وَمَا یَمْنَعُنِی؟ وَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَلِّلُ لِحْیَتَهُ

حسان بن بلال سے مروی ہے میں نےعماربن یاسر رضی اللہ عنہ کوداڑھی کاخلال کرتے ہوئے دیکھاتوعرض کیاآپ داڑھی کاخلال کرتے ہیں ؟انہوں نے فرمایا کون سی چیز میرے لیے مانع ہے جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو(اس کے بعدپانی کاایک چلولیکراسے داڑھی کے نیچے داخل فرماکر) اپنی ڈاڑھی کا خلال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔[88]

عَنْ أَنَسٍ یَعْنِی ابْنَ مَالِكٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ، أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْیَتَهُ وَقَالَ:هَكَذَا أَمَرَنِی رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضوکرتے توایک چلوپانی لیکراس کوتھوڑی کے نیچے لے جاتے اور داڑھی کاخلال کرتےاورفرماتے مجھے اللہ عزوجل نے ایساہی حکم دیاہے[89]

xپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ اپنادایاں اوربایاں ہاتھ کہنی تک دھوتے ۔

أَنَّ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ،وَیَدَیْهِ إِلَى المِرْفَقَیْنِ ثَلاَثَ مِرَارٍ

حمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھرکہنیوں تک تین باردونوں ہاتھ دھوئے۔[90]

 عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ،ثُمَّ غَسَلَ یَدَهُ الْیُمْنَى إِلَى الْمِرْفَقِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ غَسَلَ یَدَهُ الْیُسْرَى مِثْلَ ذَلِك

حمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھراپنے دائیں ہاتھ کوتین بارکہنی تک دھویا،پھربائیں ہاتھ کوکہنی تک تین بار دھویا۔ [91]

xپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرمبارک کاایک مرتبہ مسح فرماتے۔

قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَیْدٍ،ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِیَدَیْهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِی بَدَأَ مِنْه

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔۔۔پھراپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کامسح کیا،اس طورپراپنے ہاتھ (پہلے)آگے لائے ،پھرپیچھے لے گئے(مسح )سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا، پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جاکروہیں واپس لائے جہاں سے (مسح )شروع کیاتھا۔[92]

ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ

پھراپنے سر کامسح کیا۔[93]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَیْدٍ، ثُمَّ أَدْخَلَ یَدَهُ فَمَسَحَ رَأْسَهُ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ مَرَّةً وَاحِدَةً

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔۔۔پھراپناہاتھ طشت میں ڈالااورسر کامسح کیا(پہلے آگے لائے پھر پیچھے لے گئے ،ایک بار۔[94]

xپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوں کامسح فرماتے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَیْهِ، ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکااورکانوں کے اوپرکا اور اندرکا مسح کیا۔[95]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ,أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکانوں کاتعلق سر سے ہے۔ [96]

اسے ابن جوزی وغیرہ نے صحیح کہاہے،اس کامطلب یہ ہے کہ کانوں کے مسح کے لئے نئے پانی کی ضرورت نہیں ،کانوں کے مسح کے لئے نئے پانی لینے والی روایت کوحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شاذکہاہے۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گدی کے نیچےگردن کےالگ مسح کے بارے میں قطعاًکوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔

گردن کے مسح کی روایت کے متعلق امام نودی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوں کامسح اس طرح فرماتے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ أُذُنَیْهِ دَاخِلَهُمَا بِالسَّبَّابَتَیْنِ، وَخَالَفَ إِبْهَامَیْهِ إِلَى ظَاهِرِ أُذُنَیْهِ، فَمَسَحَ ظَاهِرَهُمَا وَبَاطِنَهُمَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت کوکانوں کے اندرکیااورانگوٹھوں سے ان کے ظاہرکامسح کیا،غرض مسح کیاکانوں کے اوپراوراندر۔[97]

xپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اپنادایاں اورپھربایاں پاؤں ٹخنوں تک تین باردھوتے۔

أَنَّ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْهِ ثَلاَثَ مِرَارٍ إِلَى الكَعْبَیْن

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے مولیٰ حمران سے مروی ہے ۔۔۔اورتین مرتبہ داہناپاؤں دھویا،پھرتین مرتبہ بایاں پاؤں دھویا۔[98]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَیْدٍ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْهِ إِلَى الكَعْبَیْنِ

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔۔۔پھرٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔[99]

أَنَّ حُمْرَانَ، مَوْلَى عُثْمَانَ،ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْیُمْنَى إِلَى الْكَعْبَیْنِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ غَسَلَ الْیُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے مولیٰ حمران سے مروی ہے ۔۔۔پھراپنے دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین باردھویاپھراسی طرح بائیں پاؤں کودھویا۔[100]

xپھررسول اللہ پاؤں دھونے کے بعدپاؤں کی انگلیوں میں چھنگلی(چھوٹی انگلی)سے خلال فرماتے تھے۔

عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ یَدْلُكُ أَصَابِعَ رِجْلَیْهِ بِخِنْصَرِهِ

مستوربن شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاجب وضو کرتے تھے تواپنے پاؤں کی انگلیوں کو چھنگلیاسےملتے تھے۔[101]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پروعیدفرمائی جو لاپروائی یاجلدبازی میں پاؤں صحیح طرح نہیں دھوتے ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِیقِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ الْعَصْرِ، فَتَوَضَّئُوا وَهُمْ عِجَالٌ فَانْتَهَیْنَا إِلَیْهِمْ وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ یَمَسَّهَا الْمَاءُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف لوٹے ،جب ہم راستہ میں موجودایک پانی پرپہنچے تولوگوں نے عصرکی نمازکے وقت جلدی وضوکیااوروہ جلدبازتھے ،ہم جب پہنچے توان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں ،ان کوپانی چھواتک نہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاایڑیوں کے لئے آگ سے خرابی اور عذاب ہے اچھی طرح وضوکیاکرو۔[102]

عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ تُوُفِّیَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ فَدَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ فَتَوَضَّأَ عِنْدَهَا فَقَالَتْ: یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَسْبِغِ الْوُضُوءَ فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس دن سعدبن ابووقاص فوت ہوئے اس دن ان کے پاس (ان کے بھائی)عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آئے اوران کے ہاں وضوکیاتو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایااے عبدالرحمٰن وضوپورااورمکمل طورپرکروکیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے (خشک)ایڑیوں کے لئے آگ سے ویل(یعنی عذاب)ہے۔[103]

أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،أَنَّ رَجُلًا تَوَضَّأَ فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى قَدَمِهِ ، فَأَبْصَرَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ، فَرَجَعَ، ثُمَّ صَلَّى

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےایک آدمی نے وضوکیااوراس کے پاؤں پرایک ناخن کے برابرجگہ خشک رہ گئی،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کودیکھاتوارشادفرمایاکہ واپس جاؤپس اپنا وضواچھی طرح کروپس وہ لوٹ گیا(اوردوبارہ وضوکرکے)پھرنمازپڑھی۔[104]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضومکمل فرماکرکلمہ شہادت پڑھتے تھے۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ یَتَوَضَّأُ فَیُبْلِغُ أَوْ فَیُسْبِغُ الْوَضُوءَ ثُمَّ یَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِیَةُ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّهَا شَاءَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔۔۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص وضوکرے اورکامل وضوکرے پھرکہے’’ اشھدان الاالٰہ الاللہ واشھدان محمدعبدہ ورسولہ۔‘‘ تواس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں ان میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔[105]

ایک روایت ہے کہ وضوکے بعدمنہ آسمان کی طرف کرکے کلمہ شہادت پڑھے۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِیِّ،قَالَ: عِنْدَ قَوْلِهِ:فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ رَفَعَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ،فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ. وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ،فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِیَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّهِنَّ شَاءَ

عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے ۔۔۔اچھی طرح وضوکرے پھراپنی آنکھ آسمان کی طرف اٹھادےاورکہے’’ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں وہ اکیلاہے اس کاکوئی ساجھی نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ محمداس کے بندے اوررسول ہیں ۔‘‘ تواس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں ان میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے[106]

اس روایت میں ابوعقیل کاچچاذادبھائی مجہول ہے،اس لئے یہ روایت ضعیف ہےاس لئے وضوکے بعددعاپڑھتے ہوئے آسمان کی طرف نظراٹھانایاانگلی اٹھاناصحیح نہیں ہے۔

xبعض مرتبہ ایسابھی ہوتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں دھونے کے بجائے اپنے موزوں پرمسح فرمالیتے تھے۔

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ المُغِیرَةِ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَأَهْوَیْتُ لِأَنْزِعَ خُفَّیْهِ، فَقَالَ:دَعْهُمَا، فَإِنِّی أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَیْنِ،فَمَسَحَ عَلَیْهِمَا

مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ سے مروی ہےمیں ایک سفرمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھاتومیں نے چاہا(کہ وضوکرتے وقت)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارڈالوں ، آپ نے فرمایاکہ انہیں رہنے دوچونکہ جب میں نے انہیں پہناتھاتومیرے پاؤں پاک تھے (یعنی میں وضوسے تھا) پس آپ نے ان پرمسح کیا۔[107]

موزوں پرمسح کرنے کی روایت کم ازکم سترصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اوریہ خیال قطعاًغلط ہے کہ سورہ المائدة کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکاہے کیونکہ مغیرہ بن شعبہ نے یہ روایت غزوہ تبوک کے موقعہ پربیان کی ہے اورسورت المائدہ اس سے قبل نازل ہوچکی تھی ۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پرمسح کرنے کی مدت مقیم کے لئے ایک دن رات اورمسافرکے لئے تین دن رات مقررفرمائی۔

عَنْ شُرَیْحِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: أَتَیْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّیْنِ،فَقَالَتْ: عَلَیْكَ بِابْنِ أَبِی طَالِبٍ، فَسَلْهُ فَإِنَّهُ كَانَ یُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلْنَاهُ،فَقَالَ:جَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ، وَیَوْمًا وَلَیْلَةً لِلْمُقِیمِ

مشریح بن ہانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیں موزوں کامسئلہ پوچھنے کے لئے کے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا انہوں نے فرمایاکہ تم ابوطالب کے بیٹے(یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ )سے پوچھووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفرکیاکرتے تھے، ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کاسوال کیا توآپ نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافرکے لئے تین دن اورتین راتیں اورمقیم کے لئے ایک دن اوررات مدت مقرر فرمائی۔[108]

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَنْ لاَ نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ وَلَیَالِیهِنَّ

صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کوجب ہم سفرمیں ہوں اپنے موزے نہ اتارنے کی تین دن تین رات تک رخصت دی۔[109]

xاسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پگڑی پربھی مسح فرمالیاکرتے تھے۔

عَمْرِو بْنِ أُمَیَّةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ عَلَى عِمَامَتِهِ وَخُفَّیْهِ

عمروبن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے عمامے اورموزوں پرمسح کرتے دیکھا۔[110]

عَنْ بِلَالٍ:مَسَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْخُفَّیْنِ وَالْخِمَارِ

بلال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں اورعمامہ پرمسح فرمایا۔[111]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضوکے اعضاکاتین تین باردھونامعمول تھا ، مگر امت کی آسانی کے لئے کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعضاکو ایک ایک باراوردودوباربھی دھویاہے فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا أَوْ نَقَصَ فَقَدْ أَسَاءَ وَظَلَمَ – أَوْ ظَلَمَ وَأَسَاءَ

اگرکوئی شخص تین مرتبہ سے زیادہ دھوئے گاوہ حدسے تجاوزکرے گا۔[112]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضوسے کئی نمازیں ادافرمائیں ۔

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صَلَّى الصَّلَوَاتِ یَوْمَ الْفَتْحِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّیْهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ صَنَعْتَ الْیَوْمَ شَیْئًا لَمْ تَكُنْ تَصْنَعُهُ، قَالَ:عَمْدًا صَنَعْتُهُ یَا عُمَرُ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک وضوکے ساتھ کئی نمازیں ادافرمائیں اورموزوں پرمسح کیا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیابلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج وہ عمل فرمایاہے جواس سے قبل نہیں فرمایاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !میں نے جان بوجھ کرایسا کیا ہے (تاکہ امت کویہ مسئلہ معلوم ہوجائے کہ ایک وضوسے کئی اوقات کی نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں )۔[113]

بغیروضونمازقبول نہیں ہوتی

xنمازدین اسلام کابنیادی فریضہ ہے ،نمازکوقائم کرنے کے لئے طہارت شرط ہے ،طہارت کے بغیرخواہ وہ طہارت بالماء ہویابالتراب نمازقبول نہیں ہوتی،خواہ وہ فرض نمازہو یا نفل،سجدة تلاوت ہویاسجدہ شکریانمازجنازہ وغیرہ۔

عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَقْبَلُ اللهُ صَلَاةً بِغَیْرِ طُهُورٍ

ابوالملیح اپنے والدسے روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناکہ نمازبغیرطہارت کے قبول نہیں ہوتی۔[114]

 عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى ابْنِ عَامِرٍ یَعُودُهُ وَهُوَ مَرِیضٌ فَقَالَ: أَلَا تَدْعُو اللهَ لِی یَا ابْنَ عُمَرَ؟قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَیْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ، وَكُنْتَ عَلَى الْبَصْرَة

مصعب بن سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ابن عامرکے پاس عیادت کوآئے( کیونکہ ابن عامر رضی اللہ عنہ بیمارتھے)ابن عامر رضی اللہ عنہ نے کہااے ابن عمر رضی اللہ عنہ !تم میرے لئے دعانہیں کرتے ؟انہوں نے کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ بغیرطہارت کے نمازکوقبول نہیں کرتااوراس مال غنیمت میں سے دیئے گئے صدقے کوبھی قبول نہیں کرتاجوتقسیم سے پہلے اڑالیاجائے اورتم توبصرہ کے حاکم رہ چکے ہو۔[115]

کھانے پینے سے وضوخراب نہیں ہوتا

xدودھ پینے،گوشت کھانے یاکھاناوغیرہ کھانے سے وضوختم نہیں ہوجاتا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا فَمَضْمَضَ، وَقَالَ:إِنَّ لَهُ دَسَمًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیاپھرکلی کی اورفرمایااس میں چکنائی ہوتی ہے۔[116]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ كَتِفَ شَاةٍ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ یَتَوَضَّأْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کاشانہ کھایا پھرنمازپڑھی اوروضونہیں کیا۔[117]

سُوَیْدَ بْنَ النُّعْمَانِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَیْبَرَ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالصَّهْبَاءِ، وَهِیَ أَدْنَى خَیْبَرَ، فَصَلَّى العَصْرَ، ثُمَّ دَعَا بِالأَزْوَادِ، فَلَمْ یُؤْتَ إِلَّا بِالسَّوِیقِ، فَأَمَرَ بِهِ فَثُرِّیَ، فَأَكَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلْنَا، ثُمَّ قَامَ إِلَى المَغْرِبِ ، فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ یَتَوَضَّأْ

سویدبن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فتح خیبروالے سال وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صہباکی طرف جوخیبرکے قریب ایک جگہ ہے پہنچے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصرکی نماز پڑھی ، پھرناشتہ منگوایاگیاتوسوائے ستوکے اورکچھ نہیں لایاگیا،پھرآپ نے حکم دیاتووہ بھگودیاگیاپھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایااورہم نے بھی کھایا،پھرمغرب (کی نماز)کے لئے کھڑے ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی اورہم نے (بھی)پھرآپ نے نمازپڑھی اورنیاوضونہیں کیا[118]

ان چیزوں سے وضوٹوٹ جاتاہے

xاگرکوئی شخص حدث کرے،شرمگاہ کوہاتھ لگائے،مذی خارج ہوجائے ،سوجائے تووضو ٹوٹ جائے گا،جب تک وہ نیاوضونہ کرے اس وقت تک اس کی نمازقبول نہیں ہوتی۔

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تُقْبَلُ صَلاَةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى یَتَوَضَّأَ قَالَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ: مَا الحَدَثُ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ؟، قَالَ: فُسَاءٌ أَوْ ضُرَاطٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جوشخص حدث کرے اس کی نمازقبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ (دوبارہ )وضونہ کرلے،حضرموت کے ایک شخص نے پوچھااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدث ہوناکیاہے؟آپ نے فرمایاکہ(پاخانہ کے مقام سے نکلنے والی)آوازوالی یابے آوازہوا۔[119]

بُسْرَةُ بِنْتُ صَفْوَانَ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا مَسَّ أَحَدُكُمْ ذَكَرَهُ فَلْیَتَوَضَّأْ

بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا جب تم میں سے کوئی اپنے ذکرکو(بغیرکسی حائل کے ) چھوئےتووضوکرے۔[120]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً فَأَمَرْتُ المِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ أَنْ یَسْأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ:فِیهِ الوُضُوءُ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں ایساشخص تھاجسے جریان مذی کی شکایت تھی تومیں نے(اپنے شاگرد)مقدادکوحکم دیاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ مذی خارج ہونے سے غسل واجب ہوتاہے یانہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس مرض میں غسل نہیں ہے(ہاں )وضو فرض ہے۔[121]

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً وَكُنْتُ أَسْتَحْیِی أَنْ أَسْأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ،فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ فَسَأَلَهُ فَقَالَ:یَغْسِلُ ذَكَرَهُ وَیَتَوَضَّأُ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمجھے کثرت سے مذی آتی تھی اورمیں آپ کی صاحبزادی کے میرے نکاح میں ہونے کی وجہ سے حیاءکرتاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کروں ، تومیں نے مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ کوحکم دیاانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتوآپ نے فرمایاکہ اپنا آلہ تناسل کودھولے اوروضوکرے۔[122]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وِكَاءُ السَّهِ الْعَیْنَانِ، فَمَنْ نَامَ فَلْیَتَوَضَّأْ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامقعدکاڈانٹ گویا آنکھیں ہیں (جب تک آدمی جاگتارہتاہے توخبرداررہتاہے اورمقعداپنے اختیارمیں رکھتا ہے ) جوشخص سوجائے وہ وضوکرے۔[123]

xکسی شخص کوجب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اسکی ہواخارج ہوئی ہے یاوہ بومحسوس کرے اسے نئے وضوکی ضرورت نہیں ۔

عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ الَّذِی یُخَیَّلُ إِلَیْهِ أَنَّهُ یَجِدُ الشَّیْءَ فِی الصَّلاَةِ؟ فَقَالَ:لاَ یَنْفَتِلْ أَوْ لاَ یَنْصَرِفْ حَتَّى یَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ یَجِدَ رِیحًا

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتاہے کہ نمازمیں کوئی چیز(یعنی ہوانکلتی)معلوم ہوئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ(نمازسے)نہ پھرے یانہ مڑے جب تک آوازنہ سنے یابونہ پائے۔[124]

بعض روایت میں ہے قے یانکسیرسے وضو ٹوٹ جاتاہے۔

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا; أَنَّ رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَصَابَهُ قَیْءٌ أَوْ رُعَافٌ, أَوْ قَلَسٌ, أَوْ مَذْیٌ فَلْیَنْصَرِفْ فَلْیَتَوَضَّأْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کوقے یانکسیرآئے یاپیٹ سے کچھ کھانامنہ کوآئے یامذی نکلے تووہ وضوکرے۔[125]

امام احمد رحمہ اللہ اوردیگرمحدثین نے اس سلسلے کی تمام روایات کوسخت ضعیف قراردیاہے،اگر خون نکلنے سے وضوفاسدہوجاتاتوغزوہ ذات الرقاع میں زخمی ہونے والے صحابی اپنی نماز ترک کردیتے مگرانہوں نے اپنی نمازپوری ادافرمائی ۔

 عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْنِی فِی غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ،فَأَصَابَ رَجُلٌ امْرَأَةَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِینَ،فَحَلَفَ أَنْ لَا أَنْتَهِیَ حَتَّى أُهَرِیقَ دَمًا فِی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ،فَخَرَجَ یَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَنَزَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَقَالَ: مَنْ رَجُلٌ یَكْلَؤُنَا؟ فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: كُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ،قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إِلَى فَمِ الشِّعْبِ اضْطَجَعَ الْمُهَاجِرِیُّ، وَقَامَ الْأَنْصَارِیُّ یُصَلِّ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم غزوہ ذات الرقاع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نکلے،کسی مسلمان نے مشرکین میں سے کسی کی بیوی کوقتل کردیااس مشرک نے قسم کھائی میں اصحاب محمدمیں خون بہاکررہوں گا،چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے لگا،ادھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منزل پرپڑاؤکیا اورفرمایاکون ہماری حفاظت کرے گا؟اس کام کے لئےایک مہاجراورایک انصاری مستعدہوئے،آپ نے ان سے فرمایاتم دونوں گھاٹی کے دھانے پرکھڑےرہو،جب وہ دونوں گھاٹی کے سرے پرپہنچے(توانہوں نے طے کیاکہ باری باری پہرہ دیں گے)چنانچہ مہاجرلیٹ گیااورانصاری کھڑا ہوکرنمازپڑھنے لگا(اورپہرہ بھی دیتارہا)

وَأَتَى الرَّجُلُ فَلَمَّا رَأَى شَخْصَهُ عَرَفَ أَنَّهُ رَبِیئَةٌ لِلْقَوْمِ، فَرَمَاهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِیهِ فَنَزَعَهُ، حَتَّى رَمَاهُ بِثَلَاثَةِ أَسْهُمٍ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْتَبَهَ صَاحِبُهُ،فَلَمَّا عَرَفَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ هَرَبَ،وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِیُّ مَا بِالْأَنْصَارِیِّ مِنَ الدَّمِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللهِ أَلَا أَنْبَهْتَنِی أَوَّلَ مَا رَمَى،قَالَ: كُنْتَ فِی سُورَةٍ أَقْرَؤُهَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَهَا

ادھرسےوہ مشرک بھی آگیاجب اس نے ان کاسراپادیکھاتوسمجھ گیاکہ یہ اس قوم کا محافظ ہے،چنانچہ اس نے ایک تیرمارااوراس کےا ندرتول دیااس (انصاری)نے وہ تیر (اپنے جسم سے) نکال دیا(اورنمازمیں مشغول رہا)حتیٰ کہ اس نے تین تیرمارے،پھراس نے رکوع اورسجدہ کیاادھروہ (مہاجر)ساتھی بھی جاگ گیا،اس (مشرک) کو جب محسوس ہواکہ یہ لوگ ہوشیار ہو گئے ہیں توبھاگ نکلا،مہاجرنے جب انصاری کودیکھاکہ وہ لہولہان ہورہاہے تواس نے کہاسبحان اللہ!تم نے مجھے پہلے تیرہی پر کیوں نہ جگادیا ، انصاری نے جواب دیا میں ایک سورت پڑھ رہاتھامیراجی نہ چاہاکہ اسے ادھوری چھوڑدوں ۔[126]

أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنَ اللیْلَةِ الَّتِی طُعِنَ فِیهَا. فَأَیْقَظَ عُمَرَ لِصَلاَةِ الصُّبْحِ. فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ. وَلاَ حَظَّ فِی الْإِسْلاَمِ لِمِنَ تَرَكَ الصَّلاَةَ. فَصَلَّى عُمَرُ، وَجُرْحُهُ یَثْعَبُ دَماً

اسی طرح مسوربن مخرمہ سے مروی ہےجس رات کوسیدناعمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تھے میں ان کے پاس گیا، امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کونمازفجر کے لئےجگایاگیا پس فرمایا کہ ہاں اس شخص کااسلام میں اچھاحصہ نہیں جونمازکوترک کرے ،توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نےنمازپڑھی اورزخم سے ان کا خون بہہ رہاتھا۔[127]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ حَرْمَلَةَ الْأَسْلَمِیِّ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَیْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَرْعُفُ، فَیَخْرُجُ مِنْهُ الدَّمُ، حَتَّى تَخْتَضِبَ أَصَابِعُهُ مِنَ الدَّمِ الَّذِی یَخْرُجُ مِنَ أَنْفِهِ، ثُمَّ یُصَلِّی، وَلاَ یَتَوَضَأُ

عبدالرحمٰن سے مروی ہےمیں نے سعیدبن المسیب کودیکھاکہ ان کی نکسیرپھوٹتی اورخون نکلتایہاں تک کہ اس خون سے ان کی انگلیاں رنگین ہوجاتیں مگروہ نمازپڑھتے اور وضونہیں کرتے تھے۔[128]

قہقہہ سے وضونہیں ٹوٹتا:

اس کی کوئی واضح دلیل موجودنہیں ہے اورجس روایت سے استدلال کیاجاتاہے وہ ضعیف ہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى قَالَ: بَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ، فَتَرَدَّى فِی حُفْرَةٍ كَانَتْ فِی الْمَسْجِدِ وَكَانَ فِی بَصَرِهِ ضَرَرٌ فَضَحِكَ كَثِیرٌ مِنَ الْقَوْمِ وَهُمْ فِی الصَّلَاةِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ضَحِكَ أَنْ یُعِیدَ الْوُضُوءَ وَیُعِیدَ الصَّلَاةَ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کونمازپڑھارہے تھے کہ ایک آدمی جس کی آنکھوں میں کچھ تکلیف تھی مسجدمیں داخل ہوتے وقت گڑھے میں گرگیا،(یہ دیکھ کر)حالت نمازمیں بہت زیادہ لوگ ہنسنے لگے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم ارشادفرمایاجوہنسے ہیں وہ وضو اورنمازدہرائیں ۔[129]

رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ فِی الْكَبِیرِ وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ وَفِی بَعْضِهِمْ خِلَافٌ

امام طبرانیخ نے الکبیرمیں لکھا کہ اس میں سچے راوی ہیں اوربعض نہیں بھی۔

وفی إسناده محمد بن عبد الملك بن مروان بن الحكم أبو جعفر الواسطی الدقیقی قد اختلف فیه

اس کے علاوہ اس کی سندمیں محمدبن عبدالملک بن مروان بن حکم ابوجعفرواسطی دقیقی راوی مختلف فیہ ہے۔[130]

شلوارٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے وضونہیں ٹوٹتا:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَیْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِی النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتہبندکاجوحصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکاہووہ جہنم میں ہوگا۔[131]

ٹخنوں سے نیچے ازارلٹکانے کی جو سزا مقررہے وہ توازارلٹکانے والےشخص کولازماًمل کررہے گی ،مگرکسی بھی محدث وفقیہ نے کتب حدیث وفقہ کے تراجم وابواب میں اسے نواقض وضومیں شمارنہیں کیا،اس ضمن میں جوروایت پیش کی جاتی ہے وہ ضعیف ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: بَیْنَمَا رَجُلٌ یُصَلِّی مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، ثُمَّ قَالَ:اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ یَتَوَضَّأَثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ كَانَ یُصَلِّی وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ وَإِنَّ اللهَ تَعَالَى لَا یَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دفعہ ایک آدمی نمازپڑھ رہاتھااوروہ اپناتہ بندٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دیکھاتو)اسے فرمایاجاؤاوروضوکرکے آؤ،چنانچہ وہ گیااوروضوکرکے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ فرمایاجاؤاوروضوکرکے آؤ،چنانچہ وہ گیااوروضوکرکے آیا،توایک آدمی نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کس وجہ سے آپ نے اسے وضوکرنے کاحکم دیاپھرآپ اس سے خاموش ہورہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ شخص اپناتہ بندلٹکاکرنمازپڑھ رہاتھااوراللہ تعالیٰ ایسے بندے کی نمازقبول نہیں کرتاجواپناتہ بندلٹکاکرنمازپڑھ رہاہو[132]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہاہے۔

وَفِی إسْنَادِهِ أَبُو جَعْفَرٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ لَا یُعْرَفُ اسْمُهُ

اس روایت کی سندمیں ابوجعفرراوی مجہول ہے جیساکہ امام منذری رحمہ اللہ اورامام شوکانی رحمہ اللہ نے اسے غیرمعروف قراردیاہے۔[133]

وضوکے فوائد

x جنت میں مومن کانوروہاں تک ہوگاجہاں تک وضوکااثرپہنچے گا۔

عَنْ أَبِی حَازِمٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَهُوَ یَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ فَكَانَ یَمُدُّ یَدَهُ حَتَّى تَبْلُغَ إِبْطَهُ،فَقُلْتُ لَهُ: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ مَا هَذَا الْوُضُوءُ؟ فَقَالَ: یَا بَنِی فَرُّوخَ أَنْتُمْ هَاهُنَا؟ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ هَاهُنَا مَا تَوَضَّأْتُ هَذَا الْوُضُوءَ،سَمِعْتُ خَلِیلِی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:تَبْلُغُ الْحِلْیَةُ مِنَ الْمُؤْمِنِ، حَیْثُ یَبْلُغُ الْوَضُوءُ

ابوحازم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑاتھااوروہ نمازکے لئے وضوکررہے تھے وہ اپنے ہاتھ دھونے کوبڑھاتے تھے یہاں تک کہ بغل تک دھویا،میں نے عرض کی اے ابوہریرہ !یہ کیساوضوہے؟ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایااے بنی فروخ!یعنی اے عجمی تم یہاں ہو؟اگرمجھے معلوم ہوتاتم یہاں ہوتومیں اس طرح وضونہ کرتا، میں نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ،قیامت کے دن (جنت میں )مومن کازیور(نور)وہاں تک پہنچے گاجہاں تک وضوکااثرپہنچے گا[134]

عَنْ نُعَیْمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ،أَنَّهُ رَأَى أَبَا هُرَیْرَةَ یَتَوَضَّأُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَیَدَیْهِ حَتَّى كَادَ یَبْلُغُ الْمَنْكِبَیْنِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْهِ حَتَّى رَفَعَ إِلَى السَّاقَیْنِ،ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أُمَّتِی یَأْتُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِینَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ یُطِیلَ غُرَّتَهُ فَلْیَفْعَلْ

نعیم بن عبداللہ مجمر سے مروی ہے میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کودیکھاکہ وضوکرتے ہوئے انہوں نے منہ دھویاتواس کوپورادھویا،پھرداہناہاتھ دھویایہاں تک کہ بازو کا ایک حصہ بھی دھویا،پھرسر کامسح کیا ، پھرسیدھاپاؤں دھویاتوپنڈلی کابھی ایک حصہ دھویا،پھربایاں پاؤں دھویایہاں تک کہ پنڈلی کابھی ایک حصہ دھویاپھرکہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایساہی وضوکرتے ہوئے دیکھاہے اورکہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن پوراوضوکرنے کی وجہ سے تمہاری پیشانیاں اورہاتھ پاؤں سفید (نورانی) ہوں گے توجوکوئی تم میں سے اپنی چمک کوبڑھاناچاہے توبڑھالے(یعنی اپنے اعضاء کوآگے تک دھوئے)۔[135]

xروزقیامت مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں اورچہرے وضوکرنے کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے اوراسی وجہ سے پہچانے جائیں گے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَى الْمَقْبُرَةَ، فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَیْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ ، وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا إِخْوَانَنَا،قَالُوا: أَوَلَسْنَا إِخْوَانَكَ؟ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ:أَنْتُمْ أَصْحَابِی وَإِخْوَانُنَا الَّذِینَ لَمْ یَأْتُوا بَعْدُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان تشریف لائے توفرمایاسلام ہے تم پر،یہ گھرہے مسلمانوں کااوراللہ نے چاہاتوہم بھی تم سے ملنے والے ہیں ،میری آرزو ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کودیکھیں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم تومیرے اصحاب ہو اور بھائی ہمارے وہ لوگ ہیں جوابھی دنیا میں نہیں آئے،

فَقَالُوا: كَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِكَ؟ یَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ:أَرَأَیْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَهُ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ بَیْنَ ظَهْرَیْ خَیْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ أَلَا یَعْرِفُ خَیْلَهُ؟قَالُوا: بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ: فَإِنَّهُمْ یَأْتُونَ غُرًّا مُحَجَّلِینَ مِنَ الْوُضُوءِ، وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ،أَلَا لَیُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِی كَمَا یُذَادُ الْبَعِیرُ الضَّالُّ أُنَادِیهِمْ أَلَا هَلُمَّ، فَیُقَالُ: إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ،فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اپنی امت کے ان لوگوں کوکیسے پہچانیں گے جن کوآپ نے دیکھاہی نہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابھلاتم دیکھواگرایک سفیدپیشانی ،سفیدہاتھ پاؤں والے گھوڑے سیاہ مشکی گھوڑوں میں مل جائیں تووہ اپنے گھوڑے نہیں پہچانے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بیشک وہ توپہچان لے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن وضوکی وجہ سے میری امت کے لوگ سفیدمنہ اورسفیدہاتھ پاؤں رکھتے ہوں گے اورحوض کوثرپرمیں ان کاپیش خیمہ ہوں گا،خبرداررہوکہ بعض لوگ میرے حوض پرسے ہٹائے جائیں گے جیسے بھٹکا ہو ا اونٹ ہنکایا جاتاہے میں ان کوپکاروں گاآو،آو، اس وقت کہا جائے گاکہ ان لوگوں نے اپنادین بدل دیاتھااورکافرہوگئے تھے یاان کی حالت بدل گئی تھی ،بدعت اورظلم میں گرفتارہوگئے تھے، تب میں کہوں گادورہوجاؤ، جاؤدورہوجاؤ۔ [136]

xسختی اورتکلیف میں کامل وضوکرنے سے گناہ مٹ جاتے ہیں اوردرجات بلندہوتے ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا یَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَایَا، وَیَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ قَالُوا بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکیامیں تم کوایسی بات نہ بتلاؤں جس سے گناہ مٹ جاتے ہیں اوراس سے درجات بلندہوتے ہیں ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاکیوں نہیں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایاسختی اورتکلیف میں وضوکامل طورپرکرنااور مسجدکی طرف زیادہ قدم چل کرجانااورنمازکے بعدنمازکاانتظارکرنا( بلنددرجات کازریعہ ہیں )پس تمہارے لئے یہی رباط ہے[137]

xوضوکے ساتھ گناہ نکل جاتے ہیں اورآدمی گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ – أَوِ الْمُؤْمِنُ – فَغَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِیئَةٍ نَظَرَ إِلَیْهَا بِعَیْنَیْهِ مَعَ الْمَاءِ – أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاء ، فَإِذَا غَسَلَ یَدَیْهِ خَرَجَ مِنْ یَدَیْهِ كُلُّ خَطِیئَةٍ كَانَ بَطَشَتْهَا یَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَیْهِ خَرَجَتْ كُلُّ خَطِیئَةٍ مَشَتْهَا رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ،حَتَّى یَخْرُجَ نَقِیًّا مِنَ الذُّنُوبِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب بندہ مسلمان یامومن(راوی کاشک ہے)وضوکرتاہے اورمنہ دھوتا ہے تواس کے منہ سے وہ سب گناہ (صغیرہ) نکل جاتے ہیں جواس نے آنکھوں سے کیے(پانی کے ساتھ یاآخری قطرہ کے ساتھ جومنہ سے کرتاہے ،یہ بھی راوی کا شک ہے )پھرجب ہاتھ دھوتاہے تواس کے ہاتھوں میں سے ہر ایک گناہ جوہاتھ سے کیاتھا،پانی کے ساتھ یاآخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتاہے، پھرجب پاؤں دھوتاہے توہرایک گناہ جس کواس نے پاؤں سے چل کرکیاتھا پانی کے ساتھ یاآخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتاہے یہاں تک کہ سب گناہوں سے پاک صاف ہوکرنکلتاہے۔[138]

حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ،أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَتَمَّ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللهُ تَعَالَى فَالصَّلَوَاتُ الْمَكْتُوبَاتُ كَفَّارَاتٌ لِمَا بَیْنَهُنَّ

حمران رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے مکمل وضوکیاجیساکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیاہے توفرض نمازیں اس کے ان تمام گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی جوان نمازوں کے درمیان ہوں گے۔[139]

عَنْ حُمْرَانَ أَنَّهُ قَالَ: فَلَمَّا تَوَضَّأَ عُثْمَانُ قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا یَتَوَضَّأُ رَجُلٌ فَیُحْسِنُ وُضُوءَهُ ثُمَّ یُصَلِّی الصَّلَاةَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الصَّلَاةِ الَّتِی تَلِیهَا

حمران رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے وضوکیاتوانہوں نے کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جوشخص نمازکے لئے پوراوضوکرے پھرفرض نمازکے لئے (مسجد کو)چلے اور لوگوں کے ساتھ باجماعت سے یامسجدمیں نمازپڑھے تواللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گاجواس نمازکے بعدسے دوسری نمازتک ہوں گے۔[140]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طہارت کو آدھے ایمان کے برابرفرمایا۔

عَنْ أَبِی مَالِكٍ الْأَشْعَرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ ،وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِیزَانَ ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ أَوْ تَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ،وَالصَّلَاةُ نُورٌوَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ ،وَالصَّبْرُ ضِیَاءٌ،وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَیْكَ،كُلُّ النَّاسِ یَغْدُو فَبَایِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاطہارت آدھے ایمان کے برابر ہے،اورالحمدللہ ترازوکوبھردے گا(یعنی اس قدراس کاثواب عظیم ہے کہ روز جزا اعمال تولنے کاترازواس کے اجرسے بھرجائے گا)اورسبحان اللہ اورالحمدللہ دونوں آسمانوں اورزمین کے بیچ کی جگہ کوبھردیں گے (اگر ان کاثواب ایک جسم کی شکل میں فرض کیاجائے)اورنمازنورہےاورصدقہ دلیل ہے اورصبرروشنی ہے اورقرآن تیرے لئے دلیل ہوگایاتیرے خلاف دلیل ہوگا(اگرقرآن پرعمل ہوگاتودلیل بن جائے گا ورنہ وبال بن جائے گا)ہرایک آدمی(بھلاہویابرا)صبح کواٹھتاہے یاپھراپنے آپ کو(نیک کام کرکے اللہ کے عذاب سے)آزادکرتاہے یا(برے کام کر کے )اپنے آپ کو تباہ کرتاہے۔[141]

xطہارت کی حالت میں سونے والے کے لیے فرشتے استغفارکرتے ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: طَهِّرُوا هَذِهِ الْأَجْسَادَ طَهَّرَكُمُ اللَّهُ فَإِنَّهُ لَیْسَ مَنْ عَبْدٍ یَبِیتُ طَاهِرًا إِلَّا بَاتَ مَعَهُ فِی شِعَارِهِ مَلَكٌ لَا یَنْقَلِبُ سَاعَةً مِنَ اللَّیْلِ إِلَّا قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِكَ ; فَإِنَّهُ بَاتَ طَاهِرًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان جسموں کوپاک کرواللہ تعالیٰ تمہیں پاکیزگی عطافرمائے، جوبندہ بھی طہارت کی حالت میں سوئے یقینا ًایک فرشتہ اس کے ساتھ رات بسرکرتاہے،جب بھی وہ شخص رات کے کسی وقت کروٹ بدلتاہے تووہ فرشتہ(دعاکرتے ہوئے)کہتاہے اے اللہ!اپنے بندے کومعاف فرمایقیناًوہ حالت طہارت میں سویاتھا۔[142]

x جب ایساشخص بیدارہوتاہے تب بھی وہی فرشتہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتاہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ بَاتَ طَاهِرًا بَاتَ فِی شِعَارِهِ مَلَكٌ ، فَلَمْ یَسْتَیْقِظْ إِلَّا، قَالَ الْمَلَكُ اللهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِكَ فُلَانٍ فَإِنَّهُ بَاتَ طَاهِرًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص حالت طہارت میں سوئے تواس کے ہمراہ ایک فرشتہ ہوتاہے،جب بھی وہ بیدارہوتاہے توفرشتہ کہتاہے اے اللہ!اپنے فلاں بندے کومعاف فرما یقیناًوہ طہارت کی حالت میں سویاتھا۔[143]

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَبِیتُ عَلَى ذِكْرٍ طَاهِرًا فَیَتَعَارُّ مِنَ اللیْلِ فَیَسْأَلُ اللهَ خَیْرًا مِنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاهُ إِیَّاهُ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاذکرکرتے ہوئے حالت طہارت میں سونے والامسلمان رات کوبیدارہونے پردنیاوآخرت کی جوبھلائی اللہ تعالیٰ سے طلب کرتاہے وہ اس کوعطافرماتاہے۔[144]

وضواوراس کے اذکارکی بدعات

زبان کے ساتھ وضوکی نیت :تمام لوگوں کااس پراجماع ہے کہ نیت کامقام دل ہے زبان نہیں ،کسی چیزکے بارے میں ارادہ کونیت کہتے ہیں جس کے لئے زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیں اورنہ ہی ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جوعمل کوواضح کریں ، مگرکئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کتاب وسنت سے اس کی کوئی دلیل نہ ہوتے ہوئے بھی محض وسوسہ کی بناپرغسل کرتے اوروضوکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں فلاں نمازکے لئے وضوکی یاغسل کی نیت کرتاہوں ۔

عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الأَعْمَالُ بِالنِّیَّةِ،وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لدُنْیَا یُصِیبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ یَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَیْهِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااعمال کادارومدارنیتوں پرہے،اورہرآدمی کو(مثلاًثواب وعذاب)اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گاپس جس نے اللہ اوراس کے رسول کے لئے ہجرت کی تواس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول کے لئے ہی ہوگی،اورجس نے دنیاحاصل کرنے یاکسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہجرت کی تواس کی ہجرت اسی مقصدکے لئے ہو گی (نہ کہ اللہ ورسول کے لئے)۔[145]

یعنی اعمال وہی معتبرہیں جن کی دل میں نیت اورعمل کے ساتھ تصدیق کی جائے ،کسی شخص نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ جوشخص نکاح یاحصول دنیامثلاًخریدوفروخت یا تجارت کے لئے اپناگھربارچھوڑے تواس پرزبان سے نیت کرنالازم ہے بلکہ ایسے شخص کی نیت اس کے طرزعمل سے معلوم ہوتی ہے۔

عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیرشرعی دلیل کے جائزنہیں بلکہ حرام ہے۔

كَانَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ قَالَ، اللهُ أَكْبَرُ ، وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا قَبْلَهَا، وَلَا تَلَفَّظَ بِالنِّیَّةِ الْبَتَّةَ، وَلَا قَالَ أُصَلِّی لِلَّهِ صَلَاةَ كَذَا مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ إِمَامًا أَوْ مَأْمُومًا، وَلَا قَالَ أَدَاءً وَلَا قَضَاءً وَلَا فَرْضَ الْوَقْتِ، وَهَذِهِ عَشْرُ بِدَعٍ لَمْ یَنْقُلْ عَنْهُ أَحَدٌ قَطُّ بِإِسْنَادٍ صَحِیحٍ وَلَا ضَعِیفٍ، وَلَا مُسْنَدٍ وَلَا مُرْسَلٍ لَفْظَةً وَاحِدَةً مِنْهَا الْبَتَّةَ، بَلْ وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَلَا اسْتَحْسَنَهُ أَحَدٌ مِنَ التَّابِعِینَ وَلَا الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازکے لئے کھڑے ہوتے تواللہ اکبرفرماتے اس سے پہلے کچھ نہ کہتے حتی کہ زبان سے نیت بھی نہ کرتے ،نہ یہ فرماتے کہ میں چاررکعت نمازکی نیت کعبہ کی طرف رخ کرکے امام یامقتدی بن کرآتاہوں ،نہ ادااورقضاکالفظ استعمال فرماتے ،نہ وقت کانام لیتے یہ ساری باتیں بدعت ہیں ،اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی مروی نہیں ہے نہ احادیث صحیحہ سے نہ ضعیف حدیثوں سے،نہ مسندسے نہ مرسل سے نہ کسی صحابی سے ،تابعین میں سے کسی نے ان باتوں کوپسندنہیں کیااورنہ ائمہ اربعہ نے۔[146]

أَنَّ النِّیَّةَ مَعَ الْعِلْمِ فِی غَایَةِ الْیُسْرِ لَا تَحْتَاجُ إلَى وَسْوَسَةٍ وَآصَارٍ وَأَغْلَالٍ؛ وَلِهَذَا قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ: الْوَسْوَسَةُ إنَّمَا تَحْصُلُ لِعَبْدِ مِنْ جَهْلٍ بِالشَّرْعِ أَوْ خَبَلٍ فِی الْعَقْلِ، وَقَدْ تَنَازَعَ النَّاسُ: هَلْ یُسْتَحَبُّ التَّلَفُّظُ بِالنِّیَّةِ؟فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِ أَبِی حَنِیفَةَ وَالشَّافِعِیِّ وَأَحْمَد: یُسْتَحَبُّ لِیَكُونَ أَبْلَغَ،وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِ مَالِكٍ وَأَحْمَد: لَا یُسْتَحَبُّ بَلْ التَّلَفُّظُ بِهَا بِدْعَةٌ؛ فَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ وَالتَّابِعِینَ لَمْ یُنْقَلْ عَنْ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَنَّهُ تَكَلَّمَ بِلَفْظِ النِّیَّةِ لَا فِی صَلَاةٍ وَلَا طَهَارَةٍ وَلَا صِیَامٍ، قَالُوا: لِأَنَّهَا تَحْصُلُ مَعَ الْعِلْمِ بِالْفِعْلِ ضَرُورَةً فَالتَّكَلُّمُ بِهَا نَوْعُ هَوَسٍ وَعَبَثٍ وَهَذَیَانٍ وَالنِّیَّةُ تَكُونُ فِی قَلْبِ الْإِنْسَانِ وَیَعْتَقِدُ أَنَّهَا لَیْسَتْ فِی قَلْبِهِ فَیُرِیدُتَحْصِیلَهَا بِلِسَانِهِ وَتَحْصِیلُ الْحَاصِلِ مُحَالٌ فَلِذَلِكَ یَقَعُ كَثِیرٌ مِنْ النَّاسِ فِی أَنْوَاعٍ مِنْ الْوَسْوَاسِ

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے علماء کے اقوال تفصیل سے ذکرکیے ہیں علم کے ساتھ نیت انتہائی آسان ہے یہ وسوسوں ،خودساختہ بندشوں اورنام نہادزنجیروں کی محتاج نہیں ہے اوراسی لئے بعض علماء کہتے ہیں کہ آدمی کووسوسہ اس وقت ہوتاہے جب وہ فاترالعقل یاشریعت کے بارے میں جاہل ہوتا ہے ۔لوگوں نے اس بات کے بارے میں اختلاف کیاہے کہ کیازبان سے نیت کرنامستحب ہے؟امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ کے ساتھیوں میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ ایساکرنامستحب ہے کیونکہ اس طرح بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے،امام مالک رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ کایہ کہناہے کہ ایساکرنامستحب نہیں بلکہ نیت کے لئے زبان سے الفاظ اداکرنابدعت ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صحابہ کرام اورتابعین سے نماز،وضویاروزوں میں یہ چیزقطعاًثابت نہیں ہے، علماء یہ کہتے ہیں کہ کسی فعل کے بارے میں علم کے ساتھ ہی نیت حاصل ہوجاتی ہے لہذازبان کے ساتھ رٹے رٹائے الفاظ پڑھناہوس پرستی،فضول اورہذیان ہے،نیت انسان کے دل میں ہوتی ہے اورزبان کے ساتھ نیت کرنے والا یہ عقیدہ رکھتاہے کہ نیت کاتعلق دل سے نہیں ،اسی لئے وہ اپنی زبان سے نیت حاصل کرناچاہتاہے اورظاہرہے کہ حاصل شدہ چیزکے حصول کی ہوس تحصیل حاصل کے زمرہ میں آتی ہے ،اس مذکورہ غلط عقیدہ کی وجہ سے بہت سے لوگ ان وسوسوں میں مبتلاہوجاتے ہیں ۔[147]

وَلَا یُعْلَمُ فِی هَذِهِ الْمَسَائِلِ نَقْلٌ خَاصٌّ عَنِ السَّلَفِ، وَلَا عَنِ الْأَئِمَّةِ

امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان مسائل میں کوئی خاص حوالہ ہم نہ سلف صالحین سے پاتے ہیں اورنہ کسی اورامام سے۔[148]

قَالَتْ: قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ذَاتَ یَوْمٍ یَا عَائِشَةُ، هَلْ عِنْدَكُمْ شَیْءٌ؟قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا عِنْدَنَا شَیْءٌ، قَالَ:فَإِنِّی صَائِمٌ

اردن کے ایک سردار سقاف ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے نیت کے تلفظ پراستدلال کرتاہے جس میں آیاہےفرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھااے عائشہ رضی اللہ عنہا !کیاگھرمیں کھانے کوکچھ موجودہے ؟فرماتی ہیں میں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے گھرمیں کھاناموجودنہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنکر فرمایا میں روزہ رکھتاہوں ۔[149]

یہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام حج میں اس قول سے بھی استدلال کیاہے۔

قَالَ أَنَسٌ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَبَّیْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنااے اللہ!میں حج اورعمرہ کے ساتھ لبیک کہہ رہاہوں ۔[150]

حالانکہ اس کایہ استدلال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزورہے اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نیت کے تلفظ پراستدلال غلط ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حال اورکیفیت کی خبردی ہے نہ کہ نیت کی، اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم لفظی نیت کرتے تو اس طرح کہتے کہ میں روزے کی نیت کرتاہوں یااس کے مشابہ کوئی بات فرماتے،

فِی تَلْبِیَتِهِ، فَیَقُولُ: لَبَّیْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا وَإِنَّمَا كَلَامُنَا فِی أَنَّهُ یَقُولُ عِنْدَ إِرَادَةِ عَقْدِ الْإِحْرَامِ: اللهُمَّ إِنِّی أُرِیدُ الْحَجَّ أَوِ الْعُمْرَةَ

تلبیہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا َ حج عمرہ کےلئے لبیک کہنابھی لفظی نیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ورنہ آپ یوں کہتے کہ میں عمرہ اورحج کاارادہ کرتاہوں یامیں حج وعمرہ کی نیت کرتاہوں ،ان الفاظ کاتعلق اس سنت نبوی سے ہے جوتلبیہ (لبیک کہنے)سے ہے نہ کہ لفظی نیت سے ۔

حج اورعمرہ میں لفظی نیت کے بری اورمذموم بدعت ہونے پردلیل حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کاوہ قول بھی ہے جوانہوں نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے

أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا عِنْدَ إِحْرَامِهِ یَقُولُ: اللهُمَّ إِنِّی أُرِیدُ الْحَجَّ أَوِ الْعُمْرَةَ، فَقَالَ لَهُ: أَتُعْلِمُ النَّاسَ؟ أَوَ لَیْسَ اللهُ یَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِكَ؟

انہوں نے ایک آدمی کواحرام کے وقت یہ کہتے سناکہ میں حج اورعمرہ کاارادہ کرتاہوں ،توانہوں نے (ناراض ہوکر)اسے کہاکیاتولوگوں کو(اپنی نیت وارادہ کے بارے میں )بتاناچاہتاہے (کہ تونیکی کابڑاکام کررہاہے)؟کیااللہ تعالیٰ تیرے دل کے بھیدوں سے(بھی) واقف نہیں ہے؟۔[151]

توعبداللہ بن عمریہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ زبان کے ساتھ نیت کرنامطلقاًمستحب نہیں ہے بلکہ یہ اصلاًجائزبھی نہیں ہے۔

دوران وضولمبی لمبی دعائیں پڑھنا:بعض لوگ ایک من گھڑٹ روایت کاسہارالے کرہرعضوکے دھونے پرلمبی لمبی دعائیں پڑھتے ہیں ،وہ روایت کچھ یوں ہے۔

وَعَن أنس رَضِی دَخَلْتُ عَلَى رَسُول الله وَبَیْنَ یَدَیْهِ إِنَاءٌ مِنْ مَاءٍ،فقال لى:یَا أَنَسُ ادْنُ مِنِی أُعَلِّمْكَ مَقَادِیرَ الْوُضُوءِ،فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَلَمَّا أَنْ غَسَلَ یَدَیْهِ قَالَ: بِسْمِ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ، فَلَمَّا اسْتَنْجَى قَالَ: اللهُمَّ حَصِّنْ فَرْجِی وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی، فَلَمَّا تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ قَالَ: اللهُمَّ لَقِّنِّی حُجَّتِی وَلا تَحْرِمْنِی رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، فَلَمَّا أَنْ غَسَلَ وَجْهَهُ قَالَ: اللهُمَّ بَیِّضْ وَجْهِی یَوْمَ تَبْیَضُّ الْوُجُوهُ، فَلَمَّا أَنْ غَسَلَ ذِرَاعَیْهِ قَالَ: اللهُمَّ أَعْطِنِی كِتَابِی بِیَمِینِی،فَلَمَّا مَسَحَ یَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ قَالَ اللهُمَّ تَغَشَّنَا بِرَحْمَتِكَ وَجَنِّبْنَا عَذَابَكَ،فَلَمَّا غَسَلَ قَدَمَیْهِ قَالَ اللهُمَّ ثَبِّتْ قَدَمَیَّ یَوْمَ تُزَلُّ فِیهِ الأَقْدَامُ،ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ یَا أَنَسُ مَا مِنْ عبد قالها ثم وُضُوئِهِ لَمْ یَقْطُرْ مِنْ خَلَلِ أَصَابِعِهِ قَطْرَةٌ إِلا خَلَقَ اللهُ مِنْهَا مَلَكًا یُسَبِّحُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ سَبْعِینَ لِسَانًا یَكُونُ ثَوَابُ ذَلِكَ التَّسْبِیحِ لَهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانی کا برتن تھا،توآپ نے فرمایااے انس!میرے قریب ہو جاؤمیں تمہیں وضوکی دعائیں سکھاؤں ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہاتھ دھوئے فرمایاشروع کرتاہوں اللہ کے نام سے،ہرطرح کی حمدوثنااللہ ہی کے لئے ہے اورنہ کوئی گھیرنے کی اورنہ کوئی روکنے کی طاقت رکھتاہے مگراللہ، جب استنجا کیا فرمایااے اللہ!میری شرم گاہ کی حفاظت کرنااورمیرا کام کوآسان فرمانا،جب کلی کی اورناک میں پانی ڈالاتوکہااے اللہ!میرے لئے اس کوحجت بنادےاورمجھےجنت کی خوشبوسے محروم نہ رکھنا،جب اپناچہرہ دھویا تو فرمایااے اللہ!میراچہرہ روشن کر دے جس روز چہرے سفیدہوں گے، جب کہنیوں تک ہاتھ دھولئے توکہااے اللہ!میرانامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دینا،جب سرکامسح کیاتوفرمایااے اللہ!مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اورعذاب سے بچالے،جب دونوں پاؤں دھوئے توکہااے اللہ!اس روز میرے قدموں کوجمادیناجس دن لوگ کے پاؤں متزلزل ہوجائیں گے،پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے انس رضی اللہ عنہ !اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجاہےاے انس رضی اللہ عنہ ! جوآدمی بھی وضوکے دوران یہ دعائیں پڑھتاہے تواس کے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں سے جتنے قطرے گرتے ہیں ان کے بدلے اللہ تعالیٰ اتنے فرشتے پیدا کر دیتاہے کہ ہرفرشتہ سترزبانوں کے ساتھ اللہ کی تسبیح بیان کرتارہتاہے اوراسے اس بے شمارتسبیح کاثواب قیامت کے دن ملے گا۔[152]

اس من گھڑت روایت کوفن حدیث کے ماہرعلماء نے ردکردیاہے۔

فِیهِ عبَادَة بن صُهَیْب مِنْهُم وَقَالَ البُخَارِیّ وَالنَّسَائِیّ. مَتْرُوك

اس روایت میں عبادہ بن صہیب ہے، امام بخاری اورامام نسائی کہتے ہیں متروک ہے۔[153]

وَقَالَ ابْنُ الصَّلَاحِ لَمْ یَصِحَّ فِیهِ حَدِیثٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن الصلاح رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ اس بارے میں کوئی حدیث بھی ثابت نہیں ہے۔[154]

النَّوَوِیّ على بُطْلَانه وَأَنه لَا أصل لَهُ

امام نووی رحمہ اللہ نے کہااس کی کوئی اصل نہیں ہے۔[155]

وأما الدعاء على أعضاء الوضوء، فلم یجئ فیه شئ عن النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اپنی دوسری کتاب میں فرمایااعضائے وضوپر دعاکے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی (باسند)حدیث نہیں آئی ہے۔[156]

قَالَ النَّوَوِیُّ فِی الرَّوْضَةِ: هَذَا الدُّعَاءُ لَا أَصْلَ لَهُ وَلَمْ یَذْكُرْهُ الشَّافِعِیُّ وَالْجُمْهُورُ

امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الروضہ میں لکھاہے اس دعاکی کوئی اصل نہیں ہے امام شافعی اورجمہورنے اس کاکوئی ذکرنہیں کیا۔[157]

وَأَمَّا الْحَدِیثُ الْمَوْضُوعُ فِی الذِّكْرُ عَلَى كُلِّ عُضْوٍ فَبَاطِلٌ

شیخ الاسلام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کہااعضائے وضو پرذکر (اوردعاؤں )والی تمام احادیث باطل ہیں ،ان میں سے کوئی چیزبھی ثابت نہیں ہے۔[158]

وَكُلُّ حَدِیثٍ فِی أَذْكَارِ الْوُضُوءِ الَّذِی یُقَالُ عَلَیْهِ فَكَذِبٌ مُخْتَلَقٌ لَمْ یَقُلْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا مِنْهُ، وَلَا عَلَّمَهُ لِأُمَّتِهِ

اورمزیدکہاوضوکے دوران اذکار (اور دعاؤں )والی ہرحدیث جھوٹی اورمن گھڑٹ ہے ان میں سے کوئی بات بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی اورنہ اپنی امت کواس کی تعلیم دی ہے۔[159]

جبکہ وضوکے بارے میں سنت یہ ہے کہ شروع میں بسم اللہ پڑھی جائے۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:ثُمَّ قَالَ:تَوَضَّئُوا بِسْمِ اللهِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا وضوشروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں ۔[160]

اوراس کے اختتام پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ذکرپڑھیں ۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ:قَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ یَتَوَضَّأُ فَیُبْلِغُ – أَوْ فَیُسْبِغُ الْوَضُوءَ ثُمَّ یَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکوئی تم میں سے وضوکرے اچھی طرح پوراوضوپھرکہے’’ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اورمحمداللہ کے بندے اوررسول ہیں ۔‘‘[161]

گردن کامسح کرنا:بہت سے لوگ گردن کامسح فرض یاسنت موکدہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ صرف ایک خودساختہ بدعت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وضومیں گردن کاالٹے ہاتھوں سے مسح قطعاًثابت نہیں ہے اورنہ آپ کے کسی صحابی سے یہ عمل ثابت ہے اورنہ کسی قابل اعتمادعالم سے یہ بات ثابت ہے۔

 لَمْ یَصِحَّ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى عُنُقِهِ فِی الْوُضُوءِ، بَلْ وَلَا رُوِیَ عَنْهُ ذَلِكَ فِی حَدِیثٍ صَحِیحٍ، بَلْ الْأَحَادِیثُ الصَّحِیحَةُ الَّتِی فِیهَا صِفَةُ وُضُوءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَكُنْ یَمْسَحُ عَلَى عُنُقِهِ،وَلِهَذَا لَمْ یَسْتَحِبَّ ذَلِكَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ: كَمَالِكٍ، وَالشَّافِعِیِّ، وَأَحْمَدَ فِی ظَاهِرِ مَذْهَبِهِمَا ، وَمَنْ اسْتَحَبَّهُ فَاعْتَمَدَ عَلَى أَثَرٍ یُرْوَى عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ، أَوْ حَدِیثٍ یَضْعُفُ نَقْلُهُ أَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ حَتَّى بَلَغَ الْقَذَالَ ، وَمِثْلُ ذَلِكَ لَا یَصْلُحُ عُمْدَةٌ، وَلَا یُعَارِضُ مَا دَلَّ عَلَیْهِ الْأَحَادِیثُ، وَمَنْ تَرَكَ مَسْحَ الْعُنُقِ فَوُضُوءُهُ صَحِیحٌ بِاتِّفَاقِ الْعُلَمَاءِ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضومیں گردن کامسح ثابت نہیں ہے اورنہ اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی ہے بلکہ وضوکی صحیح احادیث میں گردن کے مسح کاکوئی ذکرنہیں ،اسی لئے جمہورعلماء نےمثلا ً امام مالک رحمہ اللہ ،شافعی رحمہ اللہ اوراحمد رحمہ اللہ نےاپنے ظاہرمذہب میں مستحب نہیں کہاہے اورجس نے اسے مستحب کہاہے اس کی دلیل وہ اثرہے جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یاوہ ضعیف حدیث ہے جس میں سر کے مسح کے ساتھ گردن تک کے مسح کاذکرہے توایسی روایات پراعتمادنہیں کیاجاسکتاکیونکہ جوعمل احادیث سے ثابت ہے اس کامعارضہ ایسی روایات سے کرناصحیح نہیں ہے اورعلماء کااس پراتفاق ہے کہ جس نے وضو میں گردن کامسح نہ کیاتواس کاوضوبالاتفاق صحیح ہے۔[162]

وَلَمْ یَصِحَّ عَنْهُ فِی مَسْحِ الْعُنُقِ

ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں گردن کے مسح کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ۔[163]

مَسْحُ الرَّقَبَةِ(الْعُنُقِ) فِی الْوُضُوءِ بَاطِلٌ

اوردوسری کتاب میں فرماتے ہیں اوراسی طرح دوران وضوگردن کے مسح کی حدیث باطل ہے۔[164]

امام نووی وغیرہ نے گردن کے مسح کوبدعت اورمسح والی حدیث کوموضوع قراردیاہے ۔

جولوگ گردن کے مسح کے جوازکے قائل ہیں ان کااعتماداس حدیث پرہے۔

ابْنِ عُمَرَأَنَّهُ كَانَ إذَا تَوَضَّأَ مَسَحَ عُنُقَهُ وَیَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عُنُقَهُ لَمْ یُغَلَّ بِالْأَغْلَالِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے وضوکے دوران گردن پرمسح کیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے وضوکیااورگردن کا مسح کیااسے قیامت کے دن طوق نہیں پہنایاجائے گا۔[165]

اس روایت کو ابونعیم نے اپنی کتاب میں اس سندکے ساتھ روایت کیاہے

حد ثنامحمد بن احمد بن محمد حدثنا عبدالرحمٰن بن داود، حدثنا عثمان بن خرازادحدثناعمروبن محمد بن الحسن المکتب حدثنامحمد بن عمروبن عبیدالانصاری عن انس بن سیرین عن ابن عمر بہ ۔[166]

قَالَ الْحَافِظ الْعِرَاقِیّ وَفِیه أَبُو بكر الْمُفِید شیخ أبی نعیم، قَالَ الْحَافِظ الْعِرَاقِیّ وَهُوَ آفته

ابن عراق نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ اس حدیث کاایک راوی ابونعیم کااستاد ابوبکر المفید ہے اوراس کا وجود ہی اس روایت کے مردودہونے کے لئے کافی ہے۔[167]

ابوبکرالمفیدوضع حدیث کے ساتھ متہم بھی ہے جیسا کہ میزان الاعتدال لذھبی ۴۶۰، ۴۶۱؍۳اورلسان المیزان لابن حجر ۵۳/۵ میں لکھاہوا ہے ۔

اس روایت کادوسراراوی محمدبن عمروبن عبیدالانصاری ہے

ضعفه یحیى القطان، وابن معین، وقال محمد بن عبد الله بن نمیر: لیس یساوى شیئا

یحی القطان رحمہ اللہ اور ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ سخت ضعیف ہے،ابن نمیرنے کہاہے وہ کسی چیزکے برابر نہیں ہے ۔[168]

قَالَ لنا الدارقطنی: عمرو بْن مُحَمَّد الأعسم منكر الحدیثاورالمکتب

(جو اعسم سے مشہور )غالباًوہ راوی ہے جس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں منکرالحدیث یعنی وہ منکر احادیث بیان کرتاتھا۔[169]

قَالَ الْحَافِظُ: عَنْ فُلَیْحِ بْنِ سُلَیْمَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَر أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ بِیَدَیْهِ عَلَى عُنُقِهِ وُقِیَ الْغُلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی ایک دوسری سندفلیح بن سلیمان عن نافع عن عبداللہ بن عمرمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے وضوکیااوراپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن کامسح کیاتو قیامت کے دن طوق (اور زنجیریں ) پہنائے جانے سے بچ جائے گا۔

اسے الرویانی نے البحرمیں ذکرکیاہے جیسا کہ التلخیص الحبیر ۲۸۸؍۱ میں لکھاہواہے ،الرویانی نے ابوالحسین بن فارس کے (منسوب)جزء میں پڑھاہے اورابن فارس نے اپنی (نامعلوم سندسے یہ حدیث فلیح سے بیان کی ہے(راجح یہی ہے کہ فلیح بن سلیمان حسن الحدیث ہے اور وہ روایت مذکورہ سے بری الذمہ ہے)

قُلْتُ: بَیْنَ ابْنِ فَارِسٍ وَفُلَیْحٍ مَفَازَةٌ فَیُنْظَرُ فِیهَا

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہاابن فارس اورفلیح کے درمیان سندموجودنہیں ہے جس کی تحقیق کی جائے یعنی یہ روایت بلا سندہے لہذامردودہے۔

وَهُوَ فِی كُتُبِ أَئِمَّةِ الْعِتْرَةِ فِی أَمَالِی أَحْمَدَ بْنِ عِیسَى، وَشَرْحِ التَّجْرِیدِ بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ فِیهِ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلْوَانَ عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْوَاسِطِیِّ بِلَفْظِ:مَنْ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ سَالِفَتَیْهِ وَقَفَاهُ أَمِنَ مِنْ الْغُلِّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

اس روایت کوشوکانی احمدبن عیسی کی امالی اورشرح التجرید سے منسوب کیاہے لیکن ان کی سندکادارومدار الحسین بن علوان عن ابی خالد الواسطی پرہے اوراس روایت کے الفاظ یوں ہیں جس نے وضوکیااوراپنی گردن کے دونوں طرف اورگدی کامسح کیاتووہ قیامت کے دن طوق سے بچ جائے گا۔[170]

اس روایت کاراوی الْحُسَیْنُ بْنُ عَلْوَانَ کذاب اوراحادیث گھڑنے والاہے۔

قال یحیى: كذاب. وقال على: ضعیف جدا.وقال أبو حاتم والنسائی والدارقطنی: متروك الحدیث، وقال ابن حبان: كان یضع الحدیث على هشام وغیره وضعا

یحییٰ فرماتے ہیں کہ وہ جھوٹا تھا۔اور علی فرماتے ہیں کہ وہ بہت ہی زیادہ ضعیف ہے ۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ ، امام نسائی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ کا فرمانا ہے کہ وہ متروک الحدیث ہے۔اور امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ہشام وغیرہ پر حدیثیں وضع کیا کرتاتھا۔[171]

صالح جزرہ رحمہ اللہ نے کہاوہ حدیثیں گھڑتاتھا ۔

اس روایت کاایک راوی أَبِی خَالِدٍ الْوَاسِطِیِّ بن خالد القرشی ہے ،

قال الدارقطنی:كذاب،عن أحمد بن حنبل، قال: عمرو بن خالد الواسطی كذاب، وقال النسائی:روى عن حبیب بن أبی ثابت ،كوفی لیس بثقة،قالت وكیع: كان فی جوارنا، یضع الحدیث

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے عمرو بن خالد الواسطی کو کذاب ٹھیرایا ہے۔اور امام نسائی رحمہ اللہ حبیب بن ابی ثابت سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الواسطی کوفی ہے اور بااعتماد راوی نہیں ۔ اما م وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے قرب وجوار میں رہ کر بھی حدیثیں وضع کیا کرتاتھا۔[172]

اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہاہے کہ یہ متروک ہے ۔

مَسْحُ الرَّقَبَةِ أَمَانٌ مِنْ الْغُلِّ

ایک اورروایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے گردن کامسح طوق سے امان ہے۔

هَذَا مَوْضُوعٌ لَیْسَ مِنْ كَلَامِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

امام نووی رحمہ اللہ نے کہایہ موضوع ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام نہیں ہے۔[173]

أَنَّ قَوْلَ النَّوَوِیِّ مَسْحُ الرَّقَبَةِ بِدْعَةٌ ، وَأَنَّ حَدِیثَهُ مَوْضُوعٌ مُجَازَفَةً ، وَأَعْجَبُ مِنْ هَذَا قَوْلُهُ: وَلَمْ یَذْكُرْهُ الشَّافِعِیُّ وَلَا جُمْهُورُ الْأَصْحَابِ

امام نووی رحمہ اللہ نے کہاگردن کامسح کرنا بدعت ہے اوریہ حدیث من گھرٹ ہے اورممکن ہے یہ اس کاقول ہواس کاتذکرہ شافعی رحمہ اللہ اوراصحاب جمہورنے نہیں کیا۔[174]

هَذَا الْحَدِیثُ أَوْرَدَهُ أَبُو مُحَمَّدٍ الْجُوَیْنِیُّ وَقَالَ: لَمْ یَرْتَضِ أَئِمَّةُ الْحَدِیثِ إسْنَادَهُ فَحَصَلَ التَّرَدُّدُ فِی أَنَّ هَذَا الْفِعْلَ هُوَ سُنَّةٌ أَوْ أَدَبٌ ، وَتَعَقَّبَهُ الْإِمَامُ بِمَا حَاصِلُهُ أَنَّهُ لَمْ یَجْرِ لِلْأَصْحَابِ تَرَدُّدٌ فِی حُكْمٍ مَعَ تَضْعِیفِ الْحَدِیثِ الَّذِی یَدُلُّ عَلَیْهِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں اس حدیث کوابومحمدالجوینی(امام الحرمین)نے ذکرکرکے کہاہے کہ محدثین کرام اس روایت کی سند سے راضی نہیں ہیں لہذااس فعل کے بارے میں ترددہے کہ یہ سنت ہے یاادب؟اس بات پر تعاقب کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہااس روایت کے بارے میں کوئی ترددنہیں کہ یہ ضعیف ہے ۔

 وَقَالَ الْقَاضِی أَبُو الطَّیِّبِ: لَمْ تَرِدْ فِیهِ سُنَّةٌ ثَابِتَةٌ، وَقَالَ الْقَاضِی حُسَیْنٌ: لَمْ تَرِدْ فِیهِ سُنَّةٌ وَقَالَ الْفُورَانِیُّ لَمْ یَرِدْ فِیهِ خَبَرٌ، وَأَوْرَدَهُ الْغَزَالِیُّ فِی الْوَسِیطِ وَتَعَقَّبَهُ ابْنُ الصَّلَاحِ فَقَالَ هَذَا الْحَدِیثُ غَیْرُ مَعْرُوفٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مِنْ قَوْلِ بَعْضِ السَّلَفِ،وَكَلَامُ بَعْضِ السَّلَفِ الَّذِی ذَكَرَهُ ابْنُ الصَّلَاحِ یَحْتَمِلُ أَنْ یُرِیدَ بِهِ مَا رَوَاهُ أَبُو عُبَیْدٍ فِی كِتَابِ الطُّهُورِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِیٍّ عَنْ الْمَسْعُودِیِّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: مَنْ مَسَحَ قَفَاهُ مَعَ رَأْسِهِ وُقِیَ الْغُلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، قُلْتُ: فَیَحْتَمِلُ أَنْ یُقَالَ هَذَا وَإِنْ كَانَ مَوْقُوفًا فَلَهُ حُكْمُ الرَّفْعِ لِأَنَّ هَذَا لَا یُقَالُ مِنْ قِبَلِ الرَّأْیِ فَهُوَ عَلَى هَذَا مُرْسَلٌ

قاضی ابوالطیب رحمہ اللہ نے کہااس بارے میں کوئی سنت ثابت نہیں ،اور تقریباًیہی بات قاضی حسین اورالفورانی نے کہی ہے،اورجب یہ حدیث غزالی نے الوسیط میں ذکرکی توابن الصلاح نے ردکرتے ہوئے کہاکہ یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (باسندصحیح یاحسن)معلوم نہیں ہے بلکہ بعض علمائے سلف کاقول ہے، بعض علمائے سلف کے قول سے ابن الصلاح کی مرادغالباًاس روایت سے ہے جسے ابوعبیدالقاسم بن سلام نے عبدالرحمٰن بن مہدی عن المسودی عن القاسم بن عبدالرحمٰن عن موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیا ہے ،جس نے سرکے ساتھ اپنی گدی کامسح کیاتووہ قیامت کے دن طوق پہنائے جانے سے بچ جائے گا،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس بات کااحتمال ہے کہ اگرچہ یہ موقوف (بلکہ مقطوع)ہے لیکن اس کاحکم مرفوع حدیث کاحکم ہے کیونکہ ایسی بات کاتعلق رائے سے نہیں ہے لہذایہ روایت مرسل ہے۔ [175]

قَالَ:مَنْ مَسَحَ قَفَاهُ مَعَ رَأْسِهِ وُقِیَ الْغُلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِیفٌ،قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو عُبَیْدٍ قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ , قَالَ حَجَّاجٌ: وَلَا أَحْفَظُ عَنْهُ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ

اوریہ روایت جسے ابوعبیدنے (الطھور ۳۶۸،۳۷۳؍۱)سے نقل کی ہے اس کی سندبھی ضعیف ہے کیونکہ المسودی کاحافظہ آخری عمرمیں خراب ہوگیاتھا،ابن مہدی کااس سے سماع آخری زمانے کا ہے اوراس روایت میں اضطراب بھی ہے، ابوعبیدنے حجاج سے اس نے مسعودی سےاس نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے اس کاقول بیان کیاہے کہ حجاج نے کہامجھے اس روایت میں موسیٰ بن طلحہ کا نام یاد نہیں ہے لہذااس قول کی سلف صالحین سے نسبت صحیح نہیں ہے۔[176]

ثنا أَبُو إِسْرَائِیلَ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا مَسَحَ رَأْسَهُ مَسَحَ قَفَاهُ مَعَ رَأْسِهِ . هَذَا مَوْقُوفٌ وَالْمُسْنَدُ فِی إِسْنَادِهِ ضَعْفٌ

امام بیہقی رحمہ اللہ نے نقل کیاہے جوروایت ابواسرائیل عن فضیل بن عمروعن مجاہدعن ابن عمرکی سندسے ہے کہ عبداللہ بن عمرسر کے مسح کے ساتھ گدی کامسح بھی کرتے تھے وہ ثابت نہیں ہے اوراس کی سندضعیف ہے۔[177]

اس کاراوی ابواسرائیل اسماعیل بن خلیفہ الملائی ضعیف الحدیث ہے

وقَال البُخارِیُّ: تركه ابْن مهدی، وكَانَ یشتم عثمان

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن مہدی نے اسے چھوڑا کیونکہ یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کوگالیاں دیتا تھا۔( اور اللہ تعالیٰ اس شخص کورسواکرے جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوگالیاں دیتاہے)

وَتَعَقَّبَهُ ابْنُ الرِّفْعَةِ بِأَنَّ الْبَغَوِیَّ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِیثِ وَقَدْ قَالَ بِاسْتِحْبَابِهِ وَلَا مَأْخَذَ لِاسْتِحْبَابِهِ إلَّا خَبَرٌ أَوْ أَثَرٌ لِأَنَّ هَذَا لَا مَجَالَ لِلْقِیَاسِ فِیهِ انْتَهَى كَلَامُهُ وَلَعَلَّ مُسْتَنَدَ الْبَغَوِیِّ فِی اسْتِحْبَابِ مَسْحِ الْقَفَا

امام بغوی رحمہ اللہ کاخیال ہے کہ وضومیں گردن کامسح مستحب ہےلیکن ابن الرفعہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے مستحب ہونے پرکوئی حدیث یاکسی صحابی کاقول تک بھی نہیں ہے اوریہ ایسی بات ہے کہ جس میں قیاس کاکوئی عمل دخل نہیں ہے۔

ابن الرافعتہ پرتعاقب کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہوسکتاہے گردن کے مستحب کہنے میں بغوی کی دلیل وہ حدیث ہوجسے احمدبن حنبل رحمہ اللہ اور ابوداود رحمہ اللہ نے

عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ رَأْسَهُ مَرَّةً وَاحِدَةً حَتَّى بَلَغَ الْقَذَالَ

عن لیث بن ابن سلیم،عن طلحہ بن مصرف عن ابیہ عن جدہ کی سندسے روایت کیاہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ نے سر کامسح کیاحتی کہ آپ گدی اورگردن تک جا پہنچے ۔[178]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ضعیف روایت ہے۔

قَالَ مُسَدَّدٌ: فَحَدَّثْتُ بِهِ یَحْیَى فَأَنْكَرَهُ

امام ابوداود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مسددنے کہامیں نے یہ روایت یحییٰ (بن سعیدالقطان)کوبیان کی توانہوں نے اس کومنکرکہا۔[179]

 مصرف ابن عمرو ابن كعب أو ابن كعب ابن عمرو الیامی الكوفی روى عنه طلحة ابن مصرف مجهول

اس روایت کی سندضعیف ہےاس کا راوی مصرف بن کعب بن عمرو جو کہ ابن عمروبن کعب کے نام سے پہچاناجاتاہے وہ مجہول ہے۔[180]

وعنه لیث ابن أبی سلیم مجهول

او ر لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے۔[181]

 مَنْ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ سَالِفَتَیْهِ وَقَفَاهُ أَمِنَ مِنْ الْغُلِّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ شوکانی رحمہ اللہ کا یہ قول جس نے وضوکیااوراپنی گردن کے دونوں طرف اورگدی کامسح کیاتووہ قیامت کے دن طوق سے بچ جائے گا۔[182]

بدعت ہے اوراس کی حدیث موضوع اورباطل ہے۔

یہ قول بذات خودباطل ہے کیونکہ اس سلسلہ کی تمام روایات جوکہ ذکرکی جاچکی ہیں وہ باطل یامردودہیں ۔

یادرہے کہ ان ضعیف روایات کاتعلق سراورکانوں کے مسح کے ساتھ گردن پرمسح کرنے سے ہے ،رہابعض لوگوں کاسراورکانوں کے مسح کے بعدالٹے ہاتھوں سے گردن کامسح کرنا ،تواس پرکوئی ضعیف روایت بھی موجودنہیں ہے۔

جرابوں پرمسح میں تنگی:بہت سے لوگ طہارت اوروضوکے بعدپہنی ہوئی جرابوں پرمسح کرنے میں سخت حرج محسوس کرتے ہیں ،جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے۔ موزوں پرمسح کرنے کی روایت کم ازکم سترصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اوریہ خیال قطعاًغلط ہے کہ سورہ المائدة کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکاہے کیونکہ مغیرہ بن شعبہ نے یہ روایت غزوہ تبوک کے موقعہ پربیان کی ہے اورسورت المائدة اس سے قبل نازل ہوچکی تھی ۔

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ، وَالنَّعْلَیْنِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوکیااورجرابوں اورجوتوں پرمسح کیا۔[183]

وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ وَالنَّعْلَیْنِ

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں اورجوتوں پرمسح کیاہے۔[184]

یہ قول اس کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک مغیرہ بن شعبہ کی حدیث صحیح ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس مسئلہ میں بے شمارآثارہیں ،ابن المنذرالنیسابوری نے امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیاہے

قَدْ فَعَلَهُ سَبْعَةٌ أَوْ ثَمَانِیَةٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سات یاآٹھ صحابہ کرام نے جرابوں پرمسح کیاہے۔[185]

عَنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِی سَبْعُونَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّیْنِ

حسن بصری رحمہ اللہ نے کہامجھ سے سترصحابیوں نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پرمسح کرتے تھے۔[186]

ان میں بعض یہ ہیں

مَسَحَ عَلَى الْخُفَّیْنِ، وَأَمَرَ بِالْمَسْحِ عَلَیْهِمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، وَجَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، وَأَبُو أَیُّوبَ الْأَنْصَارِیُّ، وَأَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِیُّ، وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَقَیْسُ بْنُ سَعْدٍ، وَأَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِیُّ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَیْدِیُّ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَأَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ، وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، وَأَبُو زَیْدٍ الْأَنْصَارِیُّ، وَجَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ، وَأَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیُّ، وَحُذَیْفَةُ بْنُ الْیَمَانِ، وَالْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، وَالْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ وَرُوِی ذَلِكَ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ، وَخَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَبِلَالٍ۔[187]

ان جلیل القدرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض کی روایات درج ذیل ہیں ۔

۱۔ابن ابی شیبہ اورابن المنذرنے صحیح سندکے ساتھ روایت کیاہے

عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ، قَالَ: رَأَیْتُ عَلِیًّا بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ

عمروبن حریث نے کہامیں نے دیکھا سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیاپھروضوکیااورجرابوں پرمسح کیا۔[188]

عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ رَجَاءٍ عَنْ أَبِیهِ( رجاء بن ربیعہ الزبیدی)قَالَ: رَأَیْتُ الْبَرَاءَ، تَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ

عن الاعمش عن اسماعیل بن رجاء عن ابیہ کی سندسے مروی ہے میں (رجاء)نے دیکھابراء رضی اللہ عنہ (البراء بن عازب رضی اللہ عنہ ) نے وضوکیااورجرابوں پر مسح کیا۔[189]

اس کی سندحسن ہے۔

عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ،أَنَّهُ كَانَ یَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ

قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بیشک انس بن مالک جرابوں پرمسح کرتے تھے۔[190]

اس کی سندصحیح ہے قتادہ رحمہ اللہ مدلس ہیں اورعن سے روایت کررہے ہیں ۔

عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِیمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ:كَانَ یَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ

عبدالرزاق اورابن المنذرنےعن الاعمش عن ابراہیم عن ھمام بن الحارث عن عبداللہ بن مسعود کی سندسے روایت کیاہےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما جرابوں پرمسح کرتے تھے۔ [191]

اس کی سندصحیح ہے۔

عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِی غَالِبٍ قَالَ: رَأَیْتُ أَبَا أُمَامَةَ، یَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ

ابن ابی شیبہ اورابن المنذرنےعن حمادبن سلمہ عن اباغالب والی حسن سندکے ساتھ نقل کیاہے میں (اباغالب)نے ابوامامہ کوجرابوں پرمسح کرتے ہوئے دیکھاہے۔[192]

ابن ابی شیبہ نے حسن سندکے ساتھ فافع مولیٰ عبداللہ بن عمرسے اورصحیح سندکے ساتھ ابراہیم النخفی سے نقل کیاہے کہ جرابیں موزوں کے حکم میں ہیں اوریہی قول احمدابن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب ہے اوراسے ہی ابن المنذر نے عطاء،سعیدبن المسیب ،ابراہیم نخفی،سعیدبن جبیر،الاعمش،سفیان ثوری،حسن بن صالح،ابن المبارک،زفربن الھذیل اوراسحقٰ بن راہویہ سے نقل کیاہے۔

جرابوں کے اوپراورنیچے سے مسح کرنا:بعض لوگ جرابوں پرصرف اوپرسے مسح کرنے کے بجائے اوپراورنیچے سے مسح کرتے ہیں جوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے،

وَكَانَ یَمْسَحُ ظَاهِرَ الْخُفَّیْنِ، وَلَمْ یَصِحَّ عَنْهُ مَسْحُ أَسْفَلِهِمَا إِلَّا فِی حَدِیثٍ مُنْقَطِعٍ. وَالْأَحَادِیثُ الصَّحِیحَةُ عَلَى خِلَافِهِ

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے اوپرمسح کرتے تھے ،آپ سے صحیح سندکے ساتھ موزوں کے نیچے مسح کرناثابت نہیں ہے ،اس بارے میں جوحدیث آئی ہے اس کی سند منقطع ہے اوریہ روایت صحیح احادیث کے مخالف بھی ہے[193]

یہی بات مغیرہ کی جرابوں پرمسح والی حدیث میں آئی ہے۔

عَنْ هَمَّامِ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: رَأَیْتُ جَرِیرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّیْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى،فَسُئِلَ، فَقَالَ:رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا

ھمام بن حارث سے مروی ہےمیں نےجریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کودیکھاانہوں نے پیشاب کیاپھروضوکیااور موزوں کے اوپرمسح کیاپھرکھڑے ہوئے اور(موزوں سمیت)نماز پڑھائی،آپ سے جب اس کے متعلق پوچھاگیاتوفرمایامیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوایساہی کرتے دیکھاہے۔[194]

علیٰ کاظاہرمفہوم اوپرہے لہذااس حدیث سے جراب یاموزہ کے اوپرمسح کرنے کاثبوت وا ضح ہوتاہے۔

نَافِعٌ:رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یَمْسَحُ عَلَیْهِمَا، یَعْنِی مَسْحَةً وَاحِدَةً بِیَدَیْهِ كِلْتَیْهِمَا بُطُونَهُمَا وَظُهُورَهُمَا

نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے موزوں یاجرابوں پراپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اوپرنیچے صرف ایک دفعہ مسح کرتےہوئے دیکھا۔[195]

اس کی سندصحیح ہے۔

یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کااجتہادہے جوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح وثابت سنت کے مخالف ہے اورغالباًیہ اسی پرہی محمول ہے کہ انہیں درج بالاحدیث نہیں پہنچی تھی اوریہ مسئلہ عام لوگوں کوبھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث ہیں جوبعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواگرمعلوم تھیں تودوسروں کوان کاعلم ہی نہیں تھا،اس لئے اس بات کواچھی طرح ذہن نشین کرلیناچاہیے۔

بعض روایات میں یہ صراحت بھی آئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پرنیچے کے بجائے صرف اوپرہی مسح کرتے تھے لیکن یہ تمام روایات بلحاظ سندضعیف ہیں ۔

موزوں پرمسح کی احادیث بلحاظ مسح عام ہے ،نیچے یااوپرمسح کی صراحت کے ساتھ صرف تین احادیث مروی ہیں ۔

۱۔ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُبَشِّرٍ، قَالَ: رَأَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ یَتَوَضَّأُ وَیَمْسَحُ عَلَى خُفَّیْهِ عَلَى ظُهُورِهِمَا مَسْحَةً وَاحِدَةً إِلَى فَوْقُ، ثُمَّ یُصَلِّی الصَّلَوَاتِ كُلَّهَاقَالَ: وَرَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُهُ، فَأَنَا أَصْنَعُ كَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

الفضل بن مبشرنے کہامیں نے دیکھاکہ جابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے وضوکیاآپ نے صرف ایک دفعہ ہی موزوں کے اوپرمسح کیاپھراس وضوکی حالت میں جتنی نمازیں آئیں ساری نمازیں نئے وضوکے بغیرپڑھیں ،اورفرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایساکرتے دیکھاہے اورمیں اسی طرح کررہاہوں جیساکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا۔[196]

یہ روایت مسح کے ذکرکے بغیرسنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَالصَّلَوَاتِ كُلِّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ ۵۱۱ میں بھی موجودہے۔اس روایت کاراوی فضل بن مبشر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔

۲۔حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ عَلَى الخُفَّیْنِ عَلَى ظَاهِرِهِمَا

عبدالرحمٰن بن ابی الزنادنے اپنے والدسے ،اس نے عروہ بن الزبیرسے اوراس نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہےمیں نے دیکھانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے ظاہرپر( اوپر) مسح کررہے تھے۔[197]

 وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا یَذْكُرُ

امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہایہ روایت عبدالرحمٰن کے علاوہ کسی اورنے بیان نہیں کی ہے۔[198]

یعنی اس کلام سے امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبدالرحمٰن کی زیادت کے منکرہونے کی طرف اشارہ کیاہے،بات وہی ہے جوامام ترمذی رحمہ اللہ نے کہی ہے کیونکہ ابن ابی الزنادکے حافظہ میں (محدثین کا)کلام ہے ،لہذاایسے راوی کی زیادت مذکورہ کوقبول نہیں کیاجائے گا،محفوظ یہی ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ظاہراوراوپرکے الفاظ نہیں ہیں ۔

۳۔عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ خَیْرٍ،عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّیْهِ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ اپنے موزوں کے اوپرہی مسح کیاکرتے تھے۔[199]

اس روایت کاراوی ابواسحاق السبعیی مدلس ہے اورعن سے روایت کررہاہے۔

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:وَضَّأْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةِ تَبُوكَ، مَسَحَ أَعْلَى الْخُفَّیْنِ وَأَسْفَلَهُمَا

اورمغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہےمیں نے سفرتبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کووضوکروایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(اس موقع پر) موزوں کے اوپراورنیچے(دونوں جگہوں پر)مسح کیاہے۔[200]

حكم الألبانی: ضعیف

وَهَذَا حَدِیثٌ مَعْلُولٌ، لَمْ یُسْنِدْهُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیدَ غَیْرُ الوَلِیدِ بْنِ مُسْلِمٍ

امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہایہ حدیث معلول ( ضعیف)ہے،اسے ولیدبن مسلم کے علاوہ کسی دوسرے نے ثوربن یزیدسے سنداروایت نہیں کیا ۔[201]

ابوزرعہ رحمہ اللہ اورامام بخاری رحمہ اللہ دونوں کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ یہی روایت عبداللہ بن المبارک نے ثورعن رجاء بن حیوة قال حدثت عن کاتب المغیرة مرسلابیان کی ہے اوراس میں مغیرہ کاذکرنہیں ہے۔

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَبَلَغَنِی أَنَّهُ لَمْ یَسْمَعْ ثَوْرُ هَذَا الْحَدِیثَ مِنْ رَجَاءٍ

امام داود رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی ایک اورعلت (دلیل)بھی بیان کی ہے مجھے معلوم ہواہے کہ ثورنے یہ روایت رَجَاء بن حیوة سے نہیں سنی تھی۔[202]

ابن المنذر نے امام احمدابن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیاہے کہ وہ اس حدیث کوضعیف قراردیتے تھے۔

موزوں یاجرابوں پرایک سے زیادہ بارمسح کرنا:مسنون یہی ہے کہ موزوں پرایک ہی دفعہ مسح کیاجائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ مرتبہ مسح کرناثابت نہیں ہے۔ جیساکہ گزرچکاہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ ایک دفعہ ہی مسح کرتے تھے ۔

موزے یاجرابیں اتارکر(خواہ مخواہ )پاؤں کادھونا:بعض لوگ اپنے آپ کوخودساختہ مشقت میں مبتلاکرکے جہل مرکب کے مرتکب بن جاتے ہیں حالانکہ اس سلسلہ میں صحیح حدیث ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:إِنَّ اللهَ یُحِبُّ أَنْ تُقْبَلَ رُخَصُهُ ، كَمَا یُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى عَزَائِمُهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیشک اللہ تعالیٰ یہ (اسی طرح ) پسندکرتاہے کہ اس کی رخصتوں پرعمل کیاجائے جس طرح کہ وہ پسندکرتاہے کہ عزیمت والے امور پر عمل کیا جائے ۔[203]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَهُمَا، مَا لَمْ یَكُنْ إِثْمًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےانہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دوچیزوں میں سے کسی ایک کے اختیارکرنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے ہمیشہ اسی کواختیارفرمایاجس میں آپ کوزیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔[204]

چنانچہ وہ عبادت جس میں دونوں صورتیں جائز ہوں ان میں بے جاتکلفات سے منع کیاگیاہے۔

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ فَقَالَ:نُهِینَا عَنِ التَّكَلُّفِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھےآپ نے فرمایاہمیں تکلف اختیارکرنے سے منع کیا گیا ہے۔[205]

وَلَمْ یَكُنْ یَتَكَلَّفُ ضِدَّ حَالِهِ الَّتِی عَلَیْهَا قَدَمَاهُ، بَلْ إِنْ كَانَتَا فِی الْخُفِّ مَسَحَ عَلَیْهِمَا وَلَمْ یَنْزِعْهُمَا، وَإِنْ كَانَتَا مَكْشُوفَتَیْنِ غَسَلَ الْقَدَمَیْنِ وَلَمْ یَلْبَسِ الْخُفَّ لِیَمْسَحَ عَلَیْهِ ، وَهَذَا أَعْدَلُ الْأَقْوَالِ فِی مَسْأَلَةِ الْأَفْضَلِ مِنَ الْمَسْحِ وَالْغَسْلِ

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جرابوں اورموزوں وغیرہ میں )اپنے حال کے خلاف بے جاتکلف نہیں کرتے تھے بلکہ اگرآپ کے پاؤں میں موزے ہوتے تو اتارنے کے بغیرہی ان پرمسح کرلیتے تھے اوراگرآپ کے پاؤں ننگے ہوتے توانہیں دھولیتے تھے،اس مسئلہ میں کہ مسح افضل ہے یادھونا؟تواس میں یہی قول سب سے زیادہ راجح ہے کہ اگرپاؤں ننگے ہوں تودھولے اوراگرموزے یاجرابیں ہوں تومسح کرلے۔[206]

پھٹی ہوئی جراب یاموزے پرمسح نہ کرنا:

لوگوں کاطرزعمل سلف صالحین اورمحقق علماء کے خلاف ہے۔

قَالَ الثَّوْرِیُّ امْسَحْ عَلَیْهَا مَا تَعَلَّقَتْ بِهِ رِجْلُكَ، وَهَلْ كَانَتْ خِفَافُ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ إِلَّا مُخَرَّقَةً مُشَقَّقَةً مُرَقَّعَةً

سفیان ثوری فرماتے ہیں اس وقت تک مسح کرتے رہوجب تک وہ (موزے)تیرے پاؤں سے لٹکے رہیں ، کیا تجھے معلوم نہیں کہ مہاجرین اورانصارکے موزے پھٹے ہوئے ہوتے تھے۔[207]

اس کی سندصحیح ہے۔

وَیَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَى اللفَائِفِ فِی أَحَدِ الْوَجْهَیْنِ، حَكَاهُ ابْنُ تَمِیمٍ وَغَیْرُهُ، وَعَلَى الْخُفِّ الْمُخَرَّقِ مَا دَامَ اسْمُهُ بَاقِیًا، وَالْمَشْیُ فِیهِ مُمْكِنٌ ، وَهُوَ قَدِیمُ الشَّافِعِیِّ، وَاخْتِیَارُ أَبِی الْبَرَكَاتِ وَغَیْرِهِ مِنْ الْعُلَمَاءِ

اسی بات کوشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیارکیاہے وہ فرماتے ہیں دواقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ لفافوں پرمسح جائزہے ،اسے ابن تیم رحمہ اللہ وغیرہ نے ذکرکیاہے اورپھٹے ہوئے موزے پراس وقت تک مسح جائزہے جب تک اسے موزہ کہاجائے اوراس میں چلناممکن ہو،امام شافعی رحمہ اللہ کایہی قدیم فتویٰ ہے اورابوالبرکات رحمہ اللہ وغیرہ علماء نے بھی اسے ہی اختیارکیاہے۔[208]

وضوکے بعداعضائے وضوکوخشک نہ کرنا:

کچھ لوگ وضوکرنے کے بعداعضائے وضوکوخشک نہیں کرتے اور اس سلسلہ میں ابن قیم رحمہ اللہ کے قول کوبطوردلیل پیش کرتے ہیں

وَلَمْ یَكُنْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْتَادُ تَنْشِیفَ أَعْضَائِهِ بَعْدَ الْوُضُوءِ ،وَلَا صَحَّ عَنْهُ فِی ذَلِكَ حَدِیثٌ الْبَتَّةَ، بَلِ الَّذِی صَحَّ عَنْهُ خِلَافُهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوکے بعداپنے اعضائے وضوکوخشک نہیں کرتے تھےحالانکہ اس بارے میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف سنت ہے ۔[209]

یہ تسلیم ہے کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ بہت بڑے محقق امام تھے لیکن اصول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواہرشخص کی بات قبول یاردہوسکتی ہےاورمحققین کے نزدیک حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے مذکورہ قول میں نظرہے ،اس لئے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے اس فعل کاجوازمروی ہے جسے ابن ماجہ نے محفوظ بن علقمہ عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ کی سندسے روایت کیا ہے

عَنْ مَحْفُوظِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، فَقَلَبَ جُبَّةَ صُوفٍ كَانَتْ عَلَیْهِ، فَمَسَحَ بِهَا وَجْهَهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوکیا،آپ نے اپنااونی جبہ الٹاکیاپھراس کے ساتھ اپنامنہ مبارک صاف کیا۔[210]

رہاابن قیم رحمہ اللہ کایہ قول کہ بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے تواس کااشارہ اس حدیث کی طرف ہے،

قَالَتْ مَیْمُونَةُ: وَضَعْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، فَسَتَرْتُهُ بِثَوْبٍ، وَصَبَّ عَلَى یَدَیْه

ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاوضوکے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رومال لایاگیاتوآپ نے اسے ہاتھ نہیں لگایا اوراپنے ہاتھوں سے وضوکاپانی جھاڑتے رہے۔ [211]

حالانکہ اس حدیث کاتعلق غسل کے ساتھ ہے وضوکے ساتھ نہیں اوراگروضوسے بھی ہوتاتویہ ممانعت کی دلیل نہیں ہے،

قَالَ أَبُو بَكْرٍ:وَهَذَا الْخَبَرُ لَا یُوجِبُ حَظْرَ ذَلِكَ وَلَا الْمَنْعَ مِنْهُ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَنْهَ عَنْهُ مَعَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ یَدَعُ الشَّیْءَ الْمُبَاحَ لِئَلَّا یَشُقَّ عَلَى أُمَّتِهِ

کیونکہ اس کے بارے میں حافظ ابن المنذر فرماتے ہیں یہ حدیث ممانعت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ آپ نے کسی کپڑے سے اعضائے وضوصاف کرنے سے منع نہیں کیا اور آپ بسااوقات ایسے مباح کام چھوڑدیتے تھے جن سے امت کی مشقت کاڈرہوتا۔[212]

ابن المنذرکایہ کتنابہترین کلام ہے تقریبا ًاسی کلام جیساکلام امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ثابت ہے ،

سَمِعت أبی سُئِلَ عَن مسح الْوَجْه بالمندیل بعد الْوضُوء،قَالَ أَرْجُو أَن لَا یكون بِهِ بَأْس، قیل لأبی حَدِیث كریب عَن ابْن عَبَّاس عَن مَیْمُونَة،قَالَ لَیْسَ ذَلِك بَین إِنَّمَا، رَأَیْت أبی غیر مرّة ینشف بمندیل بعد الْوضُوء

عبداللہ بن احمدابن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے اپنے اباسے پوچھاکہ کیاوضوکے بعدرومال (اورتولیہ وغیرہ)استعمال کرسکتے ہیں ؟فرمایاجی ہاں !اس میں کوئی حرج نہیں ہے،میں نے میمونہ رضی اللہ عنہا والی حدیث(کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے)؟ توفرمایاکہ یہ روایت(ممانعت پر)واضح(دلیل)نہیں ہے،عبداللہ کہتے ہیں میں نے کئی دفعہ دیکھاہے کہ میرے اباجان (امام احمدابن حنبل رحمہ اللہ ) وضوکے بعدرومال یاکپڑے سے اپنے اعضاء خشک کرتے تھے۔[213]

بعض علماء نے اسے جومکروہ کہا ہے تواس پران کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث اور انس رضی اللہ عنہ کاعمل اس کے جوازکی دلیل ہے۔

وضوکے پانی میں اسراف:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوکے پانی میں مکمل کفایت شعاری سے کام لیتے تھےاورایک مدیااس سے کچھ کم سے وضوفرماتے تھے۔

عَنْ سَفِینَةَ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُغَسِّلُهُ الصَّاعُ مِنَ الْمَاءِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وَیُوَضِّئُهُ الْمُدُّ

سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (تقریباًڈھائی کلوپانی)کے ساتھ غسل جنابت اورایک مد(تقریباچوتھائی صاع)سے وضوکرتے تھے۔[214]

أُمُّ عُمَارَةَ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَأُتِیَ بِإِنَاءٍ فِیهِ مَاءٌ قَدْرُ ثُلُثَیِ الْمُدِّ

ام عمارہ انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوکیاآپ کے پاس پانی کاجوبرتن تھااس میں تقریباًدوتہائی مدپانی تھا۔[215]

سندصحیح۔

مداتناہوتاہے کہ اس سے آدمی کی دونوں ہتھیلیاں بھرجائیں ۔

وَكَانَ مِنْ أَیْسَرِ النَّاسِ صَبًّا لِمَاءِ الْوُضُوءِ، وَكَانَ یُحَذِّرُ أُمَّتَهُ مِنَ الْإِسْرَافِ فِیهِ، وَأَخْبَرَ أَنَّهُ یَكُونُ فِی أُمَّتِهِ مَنْ یَعْتَدِی فِی الطُّهُورِ وَقَالَ:إِنَّ لِلْوَضُوءِ شَیْطَانًا یُقَالُ لَهُ الْوَلْهَانُ فَاتَّقُوا وَسْوَاسَ الْمَاءِ، وَمَرَّ عَلَى سعد وَهُوَ یَتَوَضَّأُ فَقَالَ لَهُ:لَا تُسْرِفْ فِی الْمَاءِ، فَقَالَ: وَهَلْ فِی الْمَاءِ مِنْ إِسْرَافٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهْرٍ جَارٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضومیں پانی اچھی طرح استعمال فرماتے تھے لیکن پھربھی امت کوپانی کے استعمال میں اسراف سے پرہیزکی تلقین فرماتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں وہ لوگ بھی ہوں گے جووضومیں اسراف کریں گے ،نیزفرمایاکہ وضوکے وقت بھی ایک شیطان ہوتاہے جسے ولہان کہتے ہیں ،اس لیے وضوکے وقت وسوسوں سے بچو،ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے وہ اس وقت وضوکررہے تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپانی میں اسراف نہ کرنا،انہوں نے عرض کیاکیاپانی میں بھی اسراف ہوتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں اگرچہ تم کسی بہتے ہوئے دریاکے کنارے کیوں نہ ہو۔[216]

وقال الإمام أحمد:كان یقال: من قلة فقه الرجل ولعه بالماء،وقال المیمونى:كنت أتوضأ بماء كثیر: فقال لى أحمد: یا أبا الحسن، أترضى أن تكون كذا؟ فتركته

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کے کم عقل ہونے کی یہ دلیل ہے کہ وہ وضومیں بہت زیادہ پانی استعمال کرتاہے،امام احمد رحمہ اللہ کے شاگردالمیمونی نے کہاکہ میں وضومیں بہت زیادہ پانی استعمال کرتاتھاتوامام احمدنے مجھے بطورانکار کہا اے ابوالحسن !کیا توایساطرزعمل روارکھتاہے ؟یعنی وسوسوں میں مبتلاہے ؟ تومیں نے یہ طرزعمل چھوڑدیا۔[217]

وضوپروضوکرنا:اس عمل کے مستحب ہونے کے بارے میں بعض لوگ ایسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کی کوئی اصل نہیں ہے ،

الْوُضُوءُ عَلَى الْوُضُوءِ نُورٌ عَلَى نُورٍ

حدیث ہےوضوپروضوکرنا نور پر نور ہے۔

ذكره الغزالی فی الإحیاء، فقال مخرجه: لم أقف علیه، وسبقه لذلك المنذری ، إنه حدیث ضعیف، رواه رزین فی مسنده

محدث عراقی کہتے ہیں مجھے اس روایت کی اصل نہیں ملی،ان سے پہلے یہی بات امام منذری رحمہ اللہ نے کہی ہے ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہااس کی سندضعیف ہے مگر اس کی کوئی سندبیان نہیں کی۔رزین نے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔[218]

بعض لوگوں کی دلیل ایک دوسری حدیث ہے

عَنْ أَبِی غُطَیْفٍ الْهُذَلِیِّ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَلَمَّا نُودِیَ بِالظُّهْرِ تَوَضَّأَ فَصَلَّى، فَلَمَّا نُودِیَ بِالْعَصْرِ تَوَضَّأَ، فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ كَتَبَ اللهُ لَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص وضوہوتے ہوئےوضوکرے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔[219]

یہ حدیث ضعیف ومنکرہے اس سے دلیل پکڑناغلط ہے اس کاکوئی تابع بھی نہیں ہے اورفضائل اعمال میں بھی اس پرعمل کرناجائزنہیں ہے

ھذااسنادفیہ عبدالرحمٰن بن زیاد (الافریقی)وھوضعیف ومع ضعفہ کان یدلس

کیونکہ اس کادارومدارعبدالرحمٰن بن زیادبن انعم الافریقی پرہے جوحدیث میں ضعیف ہے اورمنکرروایات بیان کرتا تھا اوریہ روایت بھی ان منکرروایات میں سے ہے۔

وَرَوَى هَذَا الحَدِیثَ الْإِفْرِیقِیُّ، عَنْ أَبِی غُطَیْفٍ، وَهُوَ إِسْنَادٌ ضَعِیفٌ

اس کادوسراراوی ابوغطیف الہذلی مجہول الحال ہے،امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کوضعیف کہاہے۔

عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ طَاهِرًا أَوْ غَیْرَ طَاهِرٍقَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ: فَكَیْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ أَنْتُمْ؟ قَالَ: كُنَّا نَتَوَضَّأُ وُضُوءًا وَاحِدًا

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہرنمازکے لئے وضوکرتے تھے،چاہے آپ کاپہلے سے وضوہویانہ ہو،حمیدالطویل کہتے ہیں میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضوکرتے تھے ؟فرمایاہم ایک وضوکے ساتھ وضونہ ٹوٹنے سے پہلے پہلے ساری نمازیں پڑھ لیتے تھے۔[220]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف روایت ہے۔

حَدِیثُ أَنَسٍ غَرِیبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ

امام ترمذی نے انس رضی اللہ عنہ کی روایت کو حسن غریب کہاہے لیکن اس کی سندضعیف ومنکرہے۔[221]

محمدبن اسحاق بن یسارمدلس ہے اورعَنْ سے روایت کررہاہے،امام ترمذی رحمہ اللہ کااس روایت میں استادمحمدبن حمیدالرازی ضعیف ہے بلکہ بعض علماء نے اسے جھوٹابھی قراردیاہے ،یہ روایت اس صحیح روایت کے خلاف ہے

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ،قُلْتُ: كَیْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟قَالَ: یُجْزِئُ أَحَدَنَا الوُضُوءُ مَا لَمْ یُحْدِثْ

جس میں انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہرنمازکے لئے وضوکرتے تھے،عمروبن عامرالانصاری نے کہامیں نے پوچھاآپ یعنی انس رضی اللہ عنہ کیاکرتے تھے ؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایاہم ساری نمازیں وضوٹوٹنے سے پہلے ایک وضوکے ساتھ پڑھتے تھے۔[222]

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام وضوپروضوکرنے کی تکلیف نہیں کرتے تھے بلکہ اگروضوٹوٹ جاتاتوپھروضوکرتے تھے اوررہایہ مسئلہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرنمازکے لئے وضوکیاتویہ عمومی عمل ہے،

سُوَیْدُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَیْبَرَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ،صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العَصْرَ فَلَمَّا صَلَّى دَعَا بِالأَطْعِمَةِ، فَلَمْ یُؤْتَ إِلَّا بِالسَّوِیقِ، فَأَكَلْنَا وَشَرِبْنَا ثُمَّ قَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى المَغْرِبِ، فَمَضْمَضَ، ثُمَّ صَلَّى لَنَا المَغْرِبَ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ

سویدبن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم غزوہ خیبروالے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جب صہباء میں پہنچے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصرکی نمازپڑھائی،جب نمازپڑھ چکے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے منگوائے مگر(کھانے میں )صرف ستوہی لایاگیاسوہم نے (اس کو)کھایااورپیاپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نمازکے لئے کھڑے ہوگئے توآپ نے کلی کی پھرہمیں مغرب کی نمازپڑھائی اور(نیا)وضونہیں کیا(یعنی عصراورمغرب کی نمازایک ہی وضوسے پڑھائی)[223]

اعضائے وضوکانامکمل دھونا:بعض لوگ جلدبازی یالاپروائی یاسستی کی وجہ سے اپنے پیرصحیح نہیں دھوتے اورٹخنوں یاایڑیوں پرخشک جگہ چھوڑجاتے ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اگروضوکے اعضاپورے پورے نہ دھوئے جائیں تووضونہیں ہوتاجس کے نتیجے میں نمازباطل ہوجاتی ہے ۔

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَیْرِ طُهُورٍ

مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناآپ فرماتے تھے بغیرطہارت کے نماز قبول نہیں ہوتی۔[224]

اورجس نے جان بوجھ کربغیر وضو نمازپڑھی اس نے بہت بڑاگناہ کیا۔

مُحَمَّدُ بْنُ زِیَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَیْرَةَ، وَكَانَ یَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ یَتَوَضَّئُونَ مِنَ المِطْهَرَةِ، قَالَ: أَسْبِغُوا الوُضُوءَ، فَإِنَّ أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ

محمدبن زیادنے بیان کیاکہتے ہیں میں نےابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سناوہ ہمارے پاس سے گزرے اورلوگ وضوکررہے تھےآپ نے کہا پوراپوراوضوکروکیونکہ میں نے ابوالقاسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سناہے کہ وضومیں جوایڑیاں خشک رہ جائیں گی ان کے لئے ہلاکت ہے ، آگ کے عذاب کی۔[225]

یاعورتیں تنگ آستینوں کی وجہ سے اعضائے وضوکومکمل طریقے سے نہیں دھوتیں جس کی وجہ سے صحیح وضو نہیں ہوتا۔

الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَخَلَّفْتُ مَعَهُ ،فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ قَالَ:أَمَعَكَ مَاءٌ؟فَأَتَیْتُهُ بِمِطْهَرَةٍ،فَغَسَلَ كَفَّیْهِ وَوَجْهَهُ،ثُمَّ ذَهَبَ یَحْسِرُ عَنْ ذِرَاعَیْهِ فَضَاقَ كُمُّ الْجُبَّةِ، فَأَخْرَجَ یَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ، وَأَلْقَى الْجُبَّةَ عَلَى مَنْكِبَیْهِ، وَغَسَلَ ذِرَاعَیْهِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں پیچھے رہ گئے میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے توفرمایاتمہارے پاس پانی ہے؟ میں پانی کی ایک چھاگل لے آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ دھوئے اورمنہ دھویا پھربازو آستینوں میں سے نکالناچاہیں توتنگ ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے سے ہاتھ کونکالااورجبہ کواپنے مونڈھوں پرڈال دیااوردونوں ہاتھ دھوئے۔ [226]

ایک ایک ، دودویاتین تین مرتبہ ، دونوں ہتھیلیاں دھونے،کلی کرنے،ناک میں پانی ڈال کرجھاڑنے کے بعدجیساکہ حدیث سے ثابت ہے ،

أَبَا هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَنْ تَوَضَّأَ فَلْیَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوتِرْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو وضوکرے اسے چاہیے کہ وہ ناک صاف کرے اورجوپتھرسے استنجاکرے اسے چاہیے کہ طاق عدد(یعنی ایک ،تین ، پانچ)سے کرے۔[227]

منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کوکہنیوں سمت دھویاکرو،اورایک مرتبہ پورے سرکامسح کیاکرو،یعنی اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائیں اورپھر وہاں سے آگے کولائیں جہاں سے شروع کیا تھا،اسی کے ساتھ کانوں کامسح کرلیں ۔

عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، أَخَذَ غَرْفَةً مِنْ مَاءٍ، فَمَضْمَضَ بِهَا وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً مِنْ مَاءٍ، فَجَعَلَ بِهَا هَكَذَا، أَضَافَهَا إِلَى یَدِهِ الأُخْرَى، فَغَسَلَ بِهِمَا وَجْهَهُ، ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً مِنْ مَاءٍ، فَغَسَلَ بِهَا یَدَهُ الیُمْنَى، ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً مِنْ مَاءٍ، فَغَسَلَ بِهَا یَدَهُ الیُسْرَى، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً مِنْ مَاءٍ، فَرَشَّ عَلَى رِجْلِهِ الیُمْنَى حَتَّى غَسَلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً أُخْرَى، فَغَسَلَ بِهَا رِجْلَهُ، یَعْنِی الیُسْرَى ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ

عطااء بن یسارکہتے ہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وضو کرنے بیٹھتے تومنہ دھویا(اس طرح کے پہلے)ایک چلوپانی کالے کرکلی کی اور ناک کوصاف کیاپھرپانی کاایک اور چلولیاپھراس کواس طرح کیا(یعنی)دوسرے ہاتھ کوملایاپھراس سے اپنا چہرہ دھویاپھرپانی کادوسراچلولیااوراس سے اپناداہناہاتھ دھویاپھرپانی کاایک اورچلولے کراس سے اپنابایاں ہاتھ دھویا اس کے بعداپنے سرکامسح کیاپھرپانی کاایک چلولے کراپنے داہنے پاؤں پرڈال کر اسے دھویاپھردوسرے چلوسے اپنا بایاں پاؤں دھویا پھر فرمایامیں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواسی طرح وضوکرتے دیکھاہے۔[228]

 أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَیْدٍ، وَهُوَ جَدُّ عَمْرِو بْنِ یَحْیَى أَتَسْتَطِیعُ أَنْ تُرِیَنِی، كَیْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَیْدٍ: نَعَمْ، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَأَفْرَغَ عَلَى یَدَیْهِ فَغَسَلَ مَرَّتَیْنِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلاَثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا، ثُمَّ غَسَلَ یَدَیْهِ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ إِلَى المِرْفَقَیْنِ، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِیَدَیْهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِی بَدَأَ مِنْهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْهِ أَتَسْتَطِیعُ أَنْ تُرِیَنِی، كَیْفَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ زَیْدٍ: نَعَمْ،فَدَعَا بِمَاءٍ،فَأَفْرَغَ عَلَى یَدَیْهِ فَغَسَلَ مَرَّتَیْنِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلاَثًا ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًاثُمَّ غَسَلَ یَدَیْهِ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ إِلَى المِرْفَقَیْنِ،ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِیَدَیْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِی بَدَأَ مِنْهُ ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْهِ

عبداللہ بن زیدبن عاصم رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہاکیاآپ مجھے دکھاسکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح وضوکیاہے؟عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہاہاں !پھرانہوں نے پانی کابرتن منگوایا،پہلے پانی اپنے ہاتھوں پرڈالااور دودومرتبہ دھوئے،پھرتین بار کلی کی اورتین بار ناک صاف کی، پھرتین دفعہ اپناچہرہ دھویا،پھرکہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دومرتبہ دھوئےپھراپنےدونوں ہاتھوں سے اپنے سر کامسح کیا،اس طورپراپنے ہاتھ (پہلے)آگے لائے پھرپیچھے لے گئے(مسح)سرکے ابتدائی حصے سے شروع کیاپھردونوں ہاتھ گدی تک لے جاکروہیں واپس لائےجہاں سے (مسح)شروع کیاتھا(ایک ہی مرتبہ)پھراپنے دونوں پیردھوئے۔[229]

اگرسرپرپگڑی یاعمامہ ہوتوحدیث کی روسے موزوں کی طرح اس پربھی مسح جائز ہے۔

وَمَسَحَ بِنَاصِیَتِهِ وَعَلَى الْعِمَامَةِ وَعَلَى خُفَّیْهِ

اورپیشانی پراورعمامہ پراورموزوں پرمسح کیا۔[230]

گردن کا مسح ثابت نہیں ۔

پھراپنے پیروں کوٹخنوں تک دھوئیں اوراگرموزے یاجرابیں پہنی ہوئی ہیں (بشرطیکہ وضوکے حالت میں پہنی ہوں ) توحدیث کی روسے پیروں کودھونے کے بجائے جرابوں پرمسح بھی جائزہے۔

x اگرپہلے سے باوضوہوتونیاوضوضروری نہیں تاہم ہرنمازکے لئے تازہ وضوبہترہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرنمازکے لئے تازہ وضوفرمایاکرتے تھے۔

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:صَلَّى الصَّلَوَاتِ یَوْمَ الْفَتْحِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّیْهِ،فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ صَنَعْتَ الْیَوْمَ شَیْئًا لَمْ تَكُنْ تَصْنَعُهُ،قَالَ:عَمْدًا صَنَعْتُهُ یَا عُمَرُ

فتح مکہ والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوکیااورجرابوں پرمسح کیااوراسی ایک وضوسے کئی نمازیں ادافرمائیں ،یہ دیکھ کرسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آج آپ نے وہ کام کیاہے جوآج سے پہلے نہیں کرتے تھے،آپ نے فرمایاہاں اے عمر رضی اللہ عنہ ! میں نے بھول کرایسانہیں کیابلکہ جان بوجھ کرقصدایہ کیاہے۔[231]

الْفَضْلُ بْنُ مُبَشِّرٍ قَالَ: رَأَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ یُصَلِّی الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍفَقُلْتُ مَا هَذَا؟فَقَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ هَذَا، فَأَنَا أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

فضل بن مبشرکے صاحبزادے نے کہا میں نےجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ انہوں نےایک وضوسے کئی نمازیں پڑھیں تومیں نے کہا کیاآپ اسے اپنی رائے سے کرتے ہیں ؟انہوں نے کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایساکرتے دیکھاتومیں بھی ویساہی کرتاہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے [232]

x داڑھی گھنی ہوتواس کاخلال کیاجائے ۔

عَنْ أَنَسٍ یَعْنِی ابْنَ مَالِكٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ، أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْیَتَهُ ، وَقَالَ: هَكَذَا أَمَرَنِی رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوکرتے وقت ایک چلوپانی لے کراپنی تھوڑی تلے ڈال کراپنی داڑھی مبارک کاخلال کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ مجھے میرے رب عزوجل نے اسی طرح حکم فرمایاہے۔[233]

عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ:رَأَیْتُ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ تَوَضَّأَ فَخَلَّلَ لِحْیَتَهُ،فَقِیلَ لَهُ:، أَوْ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ:، أَتُخَلِّلُ لِحْیَتَكَ؟قَالَ: وَمَا یَمْنَعُنِی؟وَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخَلِّلُ لِحْیَتَهُ

حسان بن بلال سے روایت ہےمیں نے عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کودیکھاکہ انہوں نے وضوکیااورداڑھی میں خلال کیا،پس حسان نے ان سے کہا کیاآپ اپنی داڑھی میں خلال کرتے ہیں ؟ عمار رضی اللہ عنہ نے کہامجھے داڑھی میں خلال کرنے سے کون روک سکتاہے؟ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی داڑھی میں خلال کرتے ہوئے دیکھاہے۔[234]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ خَلَّلَ لِحْیَتَهُ بِالْمَاءِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضوفرماتے توپانی کے ساتھ داڑھی میں خلال فرماتے تھے۔[235]

x اعضاء کوترتیب واردھویاجائے ۔

اس آیت سے جمہورنے وضوکی ترتیب کے وجوب پراستدلال کیاہے ،صرف ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کے خلاف ہیں وہ وضومیں ترتیب کوشرط نہیں جانتے ،ان کے نزدیک اگرکوئی شخص پہلے پیروں کودھوئے ،پھرسرکامسح کرے ،پھرہاتھ دھوئے پھرمنہ دھوئے جب بھی جائزہے اس لئے کہ آیت نے ان اعضاء کے دھونے کاحکم دیاہے ۔

x ان کے درمیان فاصلہ نہ کیاجائے یعنی ایک عضودھونے کے بعددوسرے عضوکے دھونے میں دیرنہ کی جائے بلکہ سب اعضاء تسلسل کے ساتھ یکے بعددیگرے دھوئے جائیں ۔

x اعضائے وضومیں سے کسی بھی عضوکاکوئی حصہ خشک نہ رہے ورنہ وضونہیں ہوگا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَخَلَّفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنَّا فِی سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا العَصْرَ فَجَعَلْنَا نَتَوَضَّأُ وَنَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےفرماتے ہیں (ایک مرتبہ) ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے تھے ،پھر(تھوڑی دیربعد)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پالیااورعصرکاوقت آپہنچاتھا،ہم وضوکرنے لگے اور(اچھی طرح پاؤں دھونے کے بجائے جلدی میں )ہم پاؤں پرمسح کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلندآوازسے فرمایاایڑیوں کے لئے آگ کاعذاب ہے دومرتبہ یاتین مرتبہ فرمایا۔[236]

اس میں روافض کاردہے جوقدموں پربلاموزوں کے مسح کے قائل ہیں ۔

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّبَیْدِیِّ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:وَیْلٌ لِلْأَعْقَابِ، وَبُطُونِ الْأَقْدَامِ مِنَ النَّارِ

عبداللہ بن حارث الزبیدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرمارہے تھے ہے ویل ہے ایڑیوں کے لئے اورتلوں کے لئے آگ ہے۔[237]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:وَیْلٌ لِلْعَرَاقِیبِ مِنَ النَّار

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ فرمارہے تھے ٹخنوں کوویل ہے آگ سے۔[238]

عَنْ جَابِرٍ، أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،أَنَّ رَجُلًا تَوَضَّأَ فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى قَدَمِهِ ، فَأَبْصَرَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ،فَرَجَعَ، ثُمَّ صَلَّى

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے وضوکیااوراس کاپیرکسی جگہ سے ناخن کے برابرخشک رہ گیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھاتوفرمایا لوٹ جاؤاوراچھی طرح وضوکرکے آو ،وہ لوٹ گیا(اوراچھی طرح وضوکیا) پھرآکرنمازپڑھی۔[239]

یعنی اگرکوئی شخص وضومیں ایک ذرہ سامقام بھی جس کادھوناواجب ہے سوکھاچھوڑدے تووضودرست نہ ہوگااس پرسب کااتفاق ہے۔

xکوئی عضوتین مرتبہ سے زیادہ نہ دھویاجائے ایساکرناخلاف سنت ہے ۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُهُ عَنِ الْوُضُوءِ؟ فَأَرَاهُ ثَلَاثًا، ثَلَاثًا قَالَ:هَذَا الْوُضُوءُ فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا فَقَدْ أَسَاءَ، وَتَعَدَّى، وَظَلَمَ

عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دیہاتی نے وضو کے متعلق پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین مرتبہ اعضاء دھو کر دکھائے اور فرمایا یہ ہے وضو جو شخص اس میں اضافہ کرے وہ برا کرتا ہے اور حد سے تجاوز کر کے ظلم کرتا ہے۔[240]

عَنْ عُثْمَانَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین تین مرتبہ اعضاء وضو دھویاکر۔[241]

شریعت کے پانچ مقاصدہیں ،انسانی جان،عزت و آبرو، مال واسباب ،عقل اور دین کی حفاظت،چنانچہ فرمایا اگرتم جنابت کی حالت میں ہویعنی احتلام یامباشرت وغیرہ کی وجہ سے ناپاکی ہوگئی ہے،یہ حکم حیض اورنفاس کی حالت کے لئے بھی ہے کہ جب حیض ونفاس کاخون بندہوجائے توطہارت حاصل کرنے کے لئے غسل کرلیاکرو، اللہ تعالیٰ نے طہارت کی حس اورنمازکااحترام قائم رکھنے کے لئے فرمایاالبتہ اگرتم بیمار ہو اورپانی استعمال کرنامضرہویاسفرکی حالت میں ہویاقضائے حاجت سے فارخ ہوکرآئے ہو اور قریب پانی ممکن نہ ہو یا عورتوں سے ہم بستری کی ہواورتلاش کرنے کے باوجودتمہیں پانی میسرنہ ہو تو نیت کرکے پاک مٹی سے تیمم کرلیاکرو۔اللہ نے جوشریعت نازل فرمائی ہے اس کامقصدتم پرتنگی نافذکرنانہیں بلکہ یہ توتمہاری زندگی کومزیدآسان اور حسین بنانے کے لئے نافذکی جارہی ہے، اس لئے تمہیں وضویاغسل کی چھوٹ دی گئی ہے،اور اللہ کی چاہت یہ ہے کہ وہ تمہیں پاک کردے اورتمہیں اپنی پوری پوری نعمتیں عطافرمائے ،تاکہ تم اللہ کی اس طرح کی رخصتوں اورعنایات پرشکرگزاربندے بنو۔

[1] تفسیرابن ابی حاتم۱۰۳۷،۱۹۶؍۱

[2] مصنف ابن ابی شیبہ۳۵۰۲۴

[3] الحجرات۱۰

[4] الرعد: 25

[5] الرعد: 25

[6] تفسیرطبری۴۵۲؍۹

[7] تفسیرابن کثیر۷؍۲

[8] مسند أحمد ۱۲۳۸۳، مسند البزار۷۱۹۶، صحیح ابن حبان ۱۹۴

[9] مصنف عبدالرزاق۸۷۰۷،مصنف ابن ابی شیبة۱۹۸۶۸،مسنداحمد۲۱۹۲،سنن الدارمی ۲۰۲۵،صحیح بخاری کتاب الذبائع والصیدبَابُ أَكْلِ كُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ۵۵۳۰ ، صحیح مسلم کتاب بَابُ إِذَا غَابَ عَنْهُ الصَّیْدُ ثُمَّ وَجَدَهُ ۴۹۹۶،سنن ابن ماجہ کتاب الصیدبَابُ أَكْلِ، كُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ۳۲۳۴

[10] تفسیرطبری۴۶۳؍۹

[11] التوبة۳۶

[12] البقرة۲۱۷

[13] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِی كِتَابِ اللهِ، یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّینُ۴۶۶۲،صحیح مسلم كِتَابُ الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِینَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّیَاتِ بَابُ تَغْلِیظِ تَحْرِیمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ۴۳۸۳

[14] الحج ۲۵

[15] الدر المنثور۹؍۳

[16] صحیح بخاری کتاب الاکرہ باب یَمِینِ الرَّجُلِ لِصَاحِبِهِ إِنَّهُ أَخُوهُ ، إِذَا خَافَ عَلَیْهِ القَتْلَ أَوْ نَحْوَهُہ ۶۹۵۲، مسنداحمد۱۱۹۴۹

[17] مسنداحمد۲۳۰۹۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ باب۲۵۰۷،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الْبَلَاءِ ۴۰۳۲

[18] صحیح مسلم كتاب الْعِلْمِ بَابُ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَیِّئَةً وَمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى أَوْ ضَلَالَةٍ۶۸۰۴،سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابُ لُزُومِ السُّنَّةِ۴۶۰۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْعِلْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى فَاتُّبِعَ أَوْ إِلَى ضَلاَلَةٍ۲۶۷۴

[19] سنن ابوداود کتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ۸۳،جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی مَاءِ البَحْرِ أَنَّهُ طَهُورٌ۶۹،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ۳۸۶، موطاامام مالک کتاب الطھارة باب الطَّهُورُ لِلْوَضُوءِ ۱۲،مسنداحمد۸۷۳۵،سنن الکبری للنسائی ۵۸،صحیح ابن حبان۱۲۴۳،صحیحُ ابن خُزَیمة۱۱۲

[20] الانعام۱۴۵

[21] تفسیرابن ابی حاتم۱۴۰۶؍۵

[22] صحیح مسلم کتاب الشعربَابُ تَحْرِیمِ اللعِبِ بِالنَّرْدَ شِیرِ۵۸۹۶،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ اللعِبِ بِالنَّرْدِ ۳۷۶۳،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ اللعِبِ بِالنَّرْدِ ۴۹۳۹، مسنداحمد۲۲۹۷۹

[23] الفرقان۷۲

[24] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ بَیْعِ المَیْتَةِ وَالأَصْنَامِ ۲۲۳۶،صحیح مسلم کتاب المساقاة بَابُ تَحْرِیمِ بَیْعِ الْخَمْرِ، وَالْمَیْتَةِ، وَالْخِنْزِیرِ، وَالْأَصْنَامِ ۴۰۴۸، سنن ابوداودکتاب الاجارة بَابٌ فِی ثَمَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْتَةِ ۳۴۸۶،سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ مَا لَا یَحِلُّ بَیْعُهُ ۲۱۶۷،مسنداحمد۱۴۴۹۵،السنن الکبری للنسائی۶۲۲۰

[25] تفسیرطبری۴۹۶؍۹

[26] صحیح بخاری کتاب الذبائع بَابُ صَیْدِ المِعْرَاضِ ۵۴۷۶،صحیح مسلم کتاب الصیدبَابُ الصَّیْدِ بِالْكِلَابِ الْمُعَلَّمَةِ ۴۹۷۴، سنن ابوداودکتاب الصید بَابٌ فِی الصَّیْدِ ۲۸۵۴،مسنداحمد۱۹۳۷۱،سنن الدارمی ۲۰۵۲

[27] تفسیرطبری۴۹۸؍۹

[28] تفسیرطبری۴۹۸؍۹

[29] تفسیرطبری ۴۹۸؍۹

[30] تفسیرابن کثیر۲۲؍۳

[31] تفسیرابن کثیر۲۲؍۳

[32] تفسیرطبری۵۰۳؍۹

[33] صحیح بخاری كِتَاب الشَّرِكَةِ بَابُ قِسْمَةِ الغَنَمِ ۲۴۸۸، وكِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّیْدِ بَابُ مَا نَدَّ مِنَ البَهَائِمِ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الوَحْشِ ۵۵۰۹،صحیح مسلم كتاب الْأَضَاحِیِّ بَابُ جَوَازِ الذَّبْحِ بِكُلِّ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ، إِلَّا السِّنَّ، وَالظُّفُرَ، وَسَائِرَ الْعِظَامِ۵۰۹۲،مسنداحمد۱۷۲۶۳

[34] البقرة۱۷۳

[35] تفسیرابن کثیر۲۳؍۳

[36] تفسیرابن کثیر۱۷؍۳

[37] تفسیرابن کثیر۲۴؍۳

[38] تفسیر طبری ۵۱۴؍۹

[39] تفسیرابن کثیر۲۴؍۳

[40] صحیح بخاری كِتَابُ الحَجِّ بَابُ مَنْ كَبَّرَ فِی نَوَاحِی الكَعْبَةِ ۱۶۰۱

[41] صحیح بخاری کتاب التھجد بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثْنَى مَثْنَى ۱۱۶۲، و کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ الِاسْتِخَارَةِ ۶۳۸۲،مسنداحمد۱۴۷۰۷

[42] نیل الاوطار۸۹؍۳

[43] الاذکارللنووی۲۳۱

[44] القول المبین فی اخطاء المصلین۳۹۴،المدخل۹۰؍۳،الدین الخالص ۲۴۵؍۵

[45] نیل الاوطار ۸۹؍۳

[46] الحجر۹

[47] تفسیرطبری۵۱۶؍۹،الدر المنثور۱۶؍۳

[48] صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ تَحْرِیشِ الشَّیْطَانِ وَبَعْثِهِ سَرَایَاهُ لِفِتْنَةِ النَّاسِ وَأَنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ قَرِینًا ۷۱۰۳،مسنداحمد۱۴۳۶۶

[49] تفسیرطبری ۵۱۹؍۹، مصنف لابن ابی شیبة۳۴۴۰۸

[50] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ أَنَّ الْإِسْلَامِ بَدَأَ غَرِیبًا وَسَیَعُودُ غَرِیبًا، وَأَنَّهُ یَأْرِزُ بَیْنَ الْمَسْجِدَیْنِ۲۷۳

[51] [المائدة: 3]

[52] مسنداحمد۱۸۸،صحیح بخاری كِتَابُ الإِیمَانِ بَابُ زِیَادَةِ الإِیمَانِ وَنُقْصَانِهِ۴۵،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ،جامع ترمذیأَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ۳۰۴۳،سنن نسائی كِتَابُ الْإِیمَانِ وَشَرَائِعِهِ باب زِیَادَةُ الْإِیمَانِ۵۰۱۲

[53] البقرة۱۷۳

[54] صحیح ابن حبان۲۷۴۲

[55] مسند احمد ۲۱۸۹۸

[56] تفسیرابن کثیر۳۲؍۳

[57] الاعراف۱۵۷

[58] تفسیرابن ابی حاتم۱۹۸۵؍۶

[59] تفسیرطبری۵۴۸؍۹،الدر المنثور۲۲؍۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۸۸۶۸

[60] صحیح بخاری کتاب الذبائع والصیدبَابُ التَّسْمِیَةِ عَلَى الصَّیْدِ ۵۴۷۵،صحیح مسلم کتاب الصیدبَابُ الصَّیْدِ بِالْكِلَابِ الْمُعَلَّمَةِ ۴۹۷۷،مسنداحمد۱۹۳۹۰

[61] تفسیر طبری ۵۴۹؍۹

[62] تفسیر طبری ۵۷۸؍۹

[63] النسائ۲۵

[64] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَلاَ تَنْكِحُوا المُشْرِكَاتِ حَتَّى یُؤْمِنَّ، وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۵۲۸۵

[65] البقرة۲۱۷

[66] سنن ابوداود کتاب الطھارة باب التیمم۳۱۷

[67] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة المائدہ باب قَوْلِهِ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا ۴۶۰۸،صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ التَّیَمُّمِ۸۱۶ ،السنن الکبری للنسائی۲۹۵،مسنداحمد۲۵۴۵۵،صحیح ابن حبان۱۳۰۰

[68] النساء ۴۳

[69]صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ۵۳۵

[70] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ الِاسْتِجْمَارِ وِتْرًا ۱۶۲

[71] صحیح مسلم کتاب الطھارةبَابُ كَرَاهَةِ غَمْسِ الْمُتَوَضِّئِ وَغَیْرِهِ یَدَهُ الْمَشْكُوكَ فِی نَجَاسَتِهَا فِی الْإِنَاءِ قَبْلَ غَسْلِهَا ثَلَاثًا۶۴۳،مسنداحمد۷۲۸۲،سنن الدارمی۷۹۳

[72] صحیح بخاری كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ مَا یَقُولُ عِنْدَ الخَلاَءِ ۱۴۲،مسنداحمد۱۱۹۸۳،سنن الدارمی۶۹۶،السنن الکبری للنسائی۱۹،صحیح ابن حبان۱۴۰۷

[73] صحیح بخاری کتاب الادب بَابٌ النَّمِیمَةُ مِنَ الكَبَائِرِ ۶۰۵۵،صحیح مسلم کتاب الطھارةبَابُ الدَّلیلِ عَلَى نَجَاسَةِ الْبَوْلِ وَوُجُوبِ الَاسْتِبْرَاءِ مِنْهُ ۶۷۷،مسنداحمد۱۹۸۰،سنن الدارمی۷۶۶

[74] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ صِفَةِ إِبْلِیسَ وَجُنُودِهِ ۳۲۹۵،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْإِیتَارِ فِی الَاسْتِنْثَارِ وَالَاسْتِجْمَارِ ۵۶۴،سنن الکبری للنسائی ۹۶

[75] صحیح بخاری کتاب بَدْءُ الوحی كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ ۱،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّةِ ۴۹۲۷،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِیمَا عُنِیَ بِهِ الطَّلَاقُ وَالنِّیَّاتُ ۲۲۰۱،مسنداحمد۱۶۸،صحیح ابن حبان۳۹۹

[76] صحیح ابن خزیمة ۱۴۴

[77] سنن ابوداودکتاب الطھارةبَابٌ فِی التَّسْمِیَةِ عَلَى الْوُضُوءِ ۱۰۱،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّسْمِیَةِ فِی الْوُضُوءِ ۳۹۹،مسنداحمد۹۴۱۸،سنن الدارقطنی ۲۵۶، مستدرک حاکم ۵۱۸

[78] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ۵۳۵، سنن نسائی کتاب الطھارة بَابُ فَرْضِ الْوُضُوءِ۱۳۹، سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ لَا یَقْبَلُ اللهُ صَلَاةً بِغَیْرِ طُهُورٍ۲۷۱،سنن ابوداود کتاب الطھارة بَابُ فَرْضِ الْوُضُوءِ۵۹،مسنداحمد۴۷۰۰،سنن الدارمی۷۱۳

[79] سنن ابوداودکتاب الطھارةبَابٌ فِی التَّسْمِیَةِ عَلَى الْوُضُوءِ ۱۰۱

[80] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ التَّیَمُّنِ فِی الوُضُوءِ وَالغَسْلِ ۱۶۸،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ التَّیمُّنِ فِی الطُّهُورِ وَغَیْرِهِ ۶۱۶،سنن ابوداودکتاب اللباس بَابٌ فِی الِانْتِعَالِ ۴۱۴۰،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ التَّیَمُّنِ فِی الْوُضُوءِ۴۰۱،جامع ترمذی ابواب السفر بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ التَّیَمُّنِ فِی الطُّهُورِ۶۰۸، مسند احمد ۲۴۶۲۷،شرح السنة للبغوی۲۱۶

[81] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ الوُضُوءُ ثَلاَثًا ثَلاَثًا ۱۵۹،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ الْوُضُوءِ وَكَمَالِهِ ۵۳۸،مصنف عبدالرزاق۱۳۹، مسند احمد ۴۲۱

[82] سنن ابوداود کتاب الطھارة بَابٌ فِی الِاسْتِنْثَارِ۱۴۲،جامع ترمذی ابواب الطھارةبَابٌ فِی تَخْلِیلِ الأَصَابِعِ ۳۸،مسنداحمد۱۶۳۸۱،مستدرک حاکم۶۴۷

[83] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ مَنْ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ ۱۹۱،شرح السنة للبغوی۲۲۴

[84] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ الوُضُوءِ مِنَ التَّوْرِ ۱۹۹

[85] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ الْوُضُوءِ وَكَمَالِهِ ۵۳۸

[86] سنن ابوداودکتاب الطھارةبَابٌ فِی الْفَرْقِ بَیْنَ الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ۱۳۹،السنن الکبری للبیہقی۲۳۴

[87] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ مَسْحِ الرَّأْسِ كُلِّهِ ۱۸۵، ۱۸۶،۱۹۲

[88] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی تَخْلِیلِ اللِّحْیَةِ۲۹،۳۰

[89]۔سنن ابوداود کتاب الطھارة بَابُ تَخْلِیلِ اللِّحْیَةِ۱۴۵

[90] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ الوُضُوءُ ثَلاَثًا ثَلاَثًا ۱۵۹

[91] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ الْوُضُوءِ وَكَمَالِهِ ۵۳۸،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۰۶

[92] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ مَسْحِ الرَّأْسِ كُلِّهِ ۱۸۵،۱۹۲،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابٌ فِی وُضُوءِ النَّبِیِّ صلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۵۵۵،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۱۸،مسنداحمد۱۶۴۳۱

[93] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ الْوُضُوءِ وَكَمَالِهِ۵۳۸

[94] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ إِلَى الكَعْبَیْنِ ۱۸۶

[95]جامع ترمذیأَبْوَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ مَسْحِ الأُذُنَیْنِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا ۳۶، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَابَابُ مَا جَاءَ فِی مَسْحِ الْأُذُنَیْنِ۴۳۹

[96] سنن الدارقطنی۳۲۱،مسنداحمد ۲۲۲۸۲،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَابَابُ الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ ۴۴۳

[97] سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة وسنتھابَابُ مَا جَاءَ فِی مَسْحِ الْأُذُنَیْنِ۴۳۹ ،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ۱۳۵

[98] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ الوُضُوءُ ثَلاَثًا ثَلاَثًا ۱۵۹

[99] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ إِلَى الكَعْبَیْنِ ۱۸۶

[100] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ الْوُضُوءِ وَكَمَالِهِ ۵۳۸

[101] سنن ابوداود کتاب الطھاة بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ ۱۴۸،جامع ترمذی کتاب الطھارةبَابٌ فِی تَخْلِیلِ الأَصَابِعِ۳۸

[102]صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ بِكَمَالِهِمَا ۵۷۰

[103] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ بِكَمَالِهِمَا ۵۶۶

[104] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ اسْتِیعَابِ جَمِیعِ أَجْزَاءِ مَحَلِّ الطَّهَارَةِ ۵۷۶

[105] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الذِّكْرِ الْمُسْتَحَبِّ عَقِبَ الْوُضُوءِ ۵۵۳،۵۵۴،مسنداحمد۱۷۳۹۳

[106] سنن ابوداود کتاب الطھارةبَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا تَوَضَّأَ ۱۷۰

[107] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ إِذَا أَدْخَلَ رِجْلَیْهِ وَهُمَا طَاهِرَتَانِ ۲۰۶،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّیْنِ ۶۳۲،سنن الدارمی ۷۴۰، مسنداحمد۱۸۱۹۶

[108] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ التَّوْقِیتِ فِی الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّیْنِ ۶۳۹،مسنداحمد۱۱۱۹،سنن الدارمی۷۴۱

[109] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الخُفَّیْنِ لِلْمُسَافِرِ وَالمُقِیمِ ۹۶،سنن نسائی کتاب الطھارة بَابُ التَّوْقِیتِ فِی الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّیْنِ لِلْمُسَافِرِ۱۲۸

[110] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ المَسْحِ عَلَى الخُفَّیْنِ ۲۰۵

[111] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْمَسْحِ عَلَى النَّاصِیَةِ وَالْعِمَامَةِ ۶۳۷،مسنداحمد۲۳۸۸۴

[112] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ۱۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارةبَابُ مَا جَاءَ فِی الْقَصْدِ فِی الْوُضُوءِ وَكَرَاهِیَةِ التَّعَدِّی فِیهِ ۴۲۲،سنن نسائی کتاب الطھارة الِاعْتِدَاءُ فِی الْوُضُوءِ ۱۴۰

[113] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ جَوَازِ الصَّلَوَاتِ كُلِّهِا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ ۶۴۲،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الرَّجُلِ یُصَلِّ الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ ۱۷۲،مسنداحمد۲۲۹۶۶

[114]سنن ابوداود کتاب الطھارة بَابُ فَرْضِ الْوُضُوءِ۵۹، صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ۵۳۵، سنن نسائی کتاب الطھارة بَابُ فَرْضِ الْوُضُوءِ۱۴۱، سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ لَا یَقْبَلُ اللهُ صَلَاةً بِغَیْرِ طُهُورٍ۲۷۱،مسنداحمد۴۷۰۰،سنن الدارمی۷۱۳

[115] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ۵۳۵

[116] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابٌ هَلْ یُمَضْمِضُ مِنَ اللبَنِ؟ ۲۱۱،صحیح مسلم کتاب بَابُ نسْخِ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ ۷۹۸،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْوُضُوءِ مِنَ اللبَنِ ۱۹۶،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الْمَضْمَضَةِ مِنْ شُرْبِ اللبَنِ ۴۹۸،مسنداحمد۱۹۰۵۱

[117] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ مَنْ لَمْ یَتَوَضَّأْ مِنْ لَحْمِ الشَّاةِ وَالسَّوِیقِ ۲۰۷

[118] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ مَنْ مَضْمَضَ مِنَ السَّوِیقِ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ۲۰۹،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الرُّخْصَةِ فِی ذَلِكَ ۴۹۲،مصنف ابن ابی شیبة۵۲۷

[119] صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابٌ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَیْرِ طُهُورٍ ۱۳۵،صحیح مسلم بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ۵۳۷،سنن ابوداودكِتَاب الطَّهَارَةِ بَابُ فَرْضِ الْوُضُوءِ ۶۰،مصنف عبدالرزاق ۵۳۰،مسنداحمد۸۰۷۸،السنن الکبری للبیہقی۵۶۹

[120] موطاامام مالک کتاب الطھارة الْوُضُوءُ مِنْ مَسِّ الْفَرْجِ ۵۸

[121] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ مَنِ اسْتَحْیَا فَأَمَرَ غَیْرَهُ بِالسُّؤَالِ ۱۳۲

[122] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ الْمَذْیِ ۶۹۵،مسنداحمد۶۰۶،السنن الصغیرللبیہقی۲۵

[123] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ ۲۰۳،شرح السنة للبغوی۱۶۲

[124]صحیح بخاری کتاب الوضوئ بَابُ مَنْ لاَ یَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى یَسْتَیْقِنَ ۱۳۷،صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ مَنْ تَیَقَّنَ الطَّهَارَةَ، ثُمَّ شَكَّ فِی الْحَدَثِ فَلَهُ أَنْ یُصَلِّیَ بِطَهَارَتِهِ تِلْكَ۸۰۴،سنن ابوداودکتاب الطھارةبَابٌ إِذَا شَكَّ فِی الْحَدَثِ ۱۷۶،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ حَدَثٍ ۵۱۳

[125] بلوغ المرام کتاب الطھارة بَابُ نَوَاقِضِ اَلْوُضُوءِ ۷۴، سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی الْبِنَاءِ عَلَى الصَّلَاةِ۱۲۲۱

[126] سنن ابوداودکتاب الطہارة بَابُ الْوُضُوءِ مِنَ الدَّمِ ۱۹۸

[127] موطاامام مالک کتاب الطھارة الْعَمَلُ فِی مَنْ غَلَبَهُ الدَّمُ مِنْ جُرْحٍ أَوْ رُعَافٍ ۵۲

[128] موطاامام مالک کتاب الطھارة باب الْعَمَلُ فِی الرُّعَافِ ۵۰

[129]مجمع الزوائد۱۲۷۸،۲۴۴۳

[130] التعلیق علی السیل الجرار۶۴؍۱

[131] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَیْنِ فَهُوَ فِی النَّارِ۵۷۸۷،مسنداحمد۹۹۳۴

[132] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ الْإِسْبَالِ فِی الصَّلَاةِ ۶۳۸

[133] نیل الاوطار۱۳۴؍۲

[134] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابٌ تَبْلُغُ الْحِلْیَةُ حَیْثُ یَبْلُغُ الْوُضُوءُ ۵۸۶

[135]صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ اسْتحْبَابِ إِطَالَةِ الْغُرَّةِ وَالتَّحْجِیلِ فِی الْوُضُوءِ ۵۸۰

[136] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ اسْتحْبَابِ إِطَالَةِ الْغُرَّةِ وَالتَّحْجِیلِ فِی الْوُضُوءِ ۵۸۴

[137] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ ۵۸۷

[138]صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ خُرُوجِ الْخَطَایَا مَعَ مَاءِ الْوُضُوءِ ۵۷۷

[139] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ عَقِبَهُ ۵۴۷

[140] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ عَقِبَهُ ۵۴۲

[141] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ ۵۳۴

[142] الترغیب والترهیب۸۷۹

[143] صحیح ابن حبان۱۰۵۱

[144] مسنداحمد۲۲۰۴۸،سنن ابوداودکتاب النَّوْمِ بَابٌ فِی النَّوْمِ عَلَى طَهَارَةٍ ۵۰۴۲

[145] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّیَّةِ وَالحِسْبَةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ۵۴ ،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّةِ ۴۹۲۷، مسند احمد۱۶۸

[146] زادالمعاد۱۹۴؍۱

[147]مجموع الفتاویٰ ۲۶۳، ۲۶۴؍۱۸

[148] جامع العلوم ۹۲؍۱

[149] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ جَوَازِ صَوْمِ النَّافِلَةِ بِنِیَّةٍ مِنَ النَّهَارِ قَبْلَ الزَّوَالِ، وَجَوَازِ فِطْرِ الصَّائِمِ نَفْلًا مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ۲۷۱۴

[150] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ إِهْلَالِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهَدْیِهِ ۳۰۲۹

[151] جامع العلوم ۹۲؍۱

[152] تحفة المحتاج ۸۹،۱۹۳؍۱،الفواک المجموعة۳۳،۱۳؍۱،روضة المحدثین۵۰۶۲،۶۲؍۱۱،العلل المتناھیة فی حدیث الواھیة۵۵۴ ،۳۳۹؍۱

[153] السنن والمبتدعات۳۰؍۱

[154] التلخیص الحبیر ۲۹۷؍۱

[155] السنن والمبتدعات۳۰؍۱

[156] الاذکار۲۹؍۱

[157]التلخیص الحبیر۲۹۷؍۱

[158] المنارالمنیف ۱۲۰؍۱

[159] زادالمعاد۱۸۸؍۱

[160] صحیح ابن خزیمة ۱۴۴

[161] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الذِّكْرِ الْمُسْتَحَبِّ عَقِبَ الْوُضُوءِ ۵۳۵

[162] الفتاوی الکبریٰ ۴۱۸؍۱

[163] زادالمعاد ۱۸۸؍۱

[164] المنارالمنیف ۱۲۰

[165] اخباراصبھان ۷۸؍۲

[166] اخبار اصبھان ۱۱۵؍۲

[167] تنزیہ الشریعة ۷۵؍۲

[168] میزان الاعتدال ۶۷۴؍۳

[169] تاریخ بغداد للخطیب ۱۱۲؍۱۴

[170] نیل الاوطار ۲۰۷؍۱

[171] میزان الاعتدال ۵۴۲؍۱

[172] میزان الاعتدال ۲۵۷؍۳

[173] المجموع شرح المھذب۴۶۵؍۱

[174] نیل الاوطار۲۰۷؍۱

[175] التلخیص الحبیر۲۸۶؍۱

[176] الطھور۳۶۹،۳۷۳؍۱

[177] السنن الکبریٰ للبیہقی۲۷۹،۹۹؍۱

[178] سنن ابوداودکتاب الطھارةَابُ صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۱۳۲،مسنداحمد۱۵۹۵۱،تلخیص الحبیر ۲۸۷؍۱

[179] سنن ابوداودکتاب الطھارةَابُ صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۱۳۲

[180] تقریب التہذیب۶۶۸۵،۵۳۳؍۱

[181] تقریب التہذیب۳۷۵؍۱

[182] نیل الاوطار ۲۰۷؍۱

[183] صحیح ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْجَوْرَبَیْنِ ۱۵۹

[184] زادالمعاد۱۹۲؍۱

[185] الأوسط فی السنن والإجماع والاختلاف ۴۶۳؍۱

[186] الأوسط فی السنن والإجماع والاختلاف۴۳۸

[187] الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف۴۳۸،۴۲۶؍۱

[188] مصنف ابن ابی شیبة ۱۹۸۵، الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف ۴۷۹،۴۶۲؍۱

[189] مصنف عبدالرزاق ۷۷۸،مصنف ابن ابی شیبة۱۹۸۴،الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف ۴۸۳، ۴۶۳؍۱،المحلی بالآثار۳۲۳؍۱

[190] مصنف ابن ابی شیبة۱۹۷۸،المعجم الکبیر للطبرانی ۶۸۶

[191]مصنف عبدالرزاق۷۷۷،الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف ۴۸۰،۴۶۲؍۱،المعجم الکبیرللطبرانی۹۲۳۹

[192] مصنف ابن ابی شیبة۱۹۷۹،الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف۴۸۵،۴۶۳؍۱

[193]۔ زادالمعاد۱۹۲؍۱

[194] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ الصَّلاَةِ فِی الخِفَافِ۳۸۷،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّیْنِ۶۲۲

[195] الأوسط فی السنن والإجماع والاختلاف ۴۷۰، ۴۵۲؍۱

[196] الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف۴۷۶،۴۵۴؍۱

[197] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابٌ فِی الْمَسْحِ عَلَى الخُفَّیْنِ ظَاهِرِهِمَا ۹۸

[198] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابٌ فِی الْمَسْحِ عَلَى الخُفَّیْنِ ظَاهِرِهِمَا ۹۸

[199] سنن ابی داودکتاب الطھارةبَابُ كَیْفَ الْمَسْحُ ۱۶۲،۱۶۴، سنن الدارقطنی۱۶۲

[200] سنن ابی داودکتاب الطھارة بَابُ كَیْفَ الْمَسْحُ ۱۶۵،جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابٌ فِی الْمَسْحِ عَلَى الخُفَّیْنِ أَعْلاَهُ وَأَسْفَلِهِ ۹۷،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی مَسْحِ أَعْلَى الْخُفِّ وَأَسْفَلِهِ ۵۵۰،الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف۴۷۴،۴۵۳؍۱

[201] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابٌ فِی الْمَسْحِ عَلَى الخُفَّیْنِ أَعْلاَهُ وَأَسْفَلِهِ ۹۷

[202]سنن ابی داودکتاب الطھارة بَابُ كَیْفَ الْمَسْحُ ۱۶۵

[203] مصنف ابن ابی شیبة۲۶۴۷۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۰۰۳۰

[204] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ صِفَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۵۶۰، مسنداحمد۲۴۸۳۰،الادب المفرد۲۷۴،موطاامام مالک کتاب الجماع بَابُ مَا جَاءَ فِی حُسْنِ الْخُلُقِ ۴۰

[205] صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ یَعْنِیهِ ۷۲۹۳

[206] زادالمعاد۱۹۲؍۱

[207] مصنف عبدالرزاق ۷۵۳

[208] الفتاوی الکبری لابن تیمیة ۳۰۴؍۵

[209] زادالمعاد۱۸۶؍۱

[210] سنن ابن ماجہ کتاب الطھارةبَابُ الْمِنْدِیلِ بَعْدَ الْوُضُوءِ، وَبَعْدَ الْغُسْلِ ۴۶۸،وکتاب اللباس بَابُ لُبْسِ الصُّوفِ ۳۵۶۴

[211] صحیح بخاری کتاب الغسل بَابُ نَفْضِ الیَدَیْنِ مِنَ الغُسْلِ عَنِ الجَنَابَةِ ۲۷۶ ،صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ صِفةِ غُسْلِ الْجَنَابَةِ۷۲۲

[212] الاوسط فی السنن والاجماع واختلاف ۴۱۹؍۱

[213] مسائل الامام احمدروایة ابنہ عبداللہ۱۰۶، ۱۰۵

[214] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْقَدْرِ الْمُسْتَحَبِّ مِنَ الْمَاءِ فِی غُسْلِ الْجَنَابَةِ۷۳۸،صحیح بخاری کتاب الوضوء بَابُ الوُضُوءِ بِالْمُدِّ ۲۰۱،جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ الوُضُوءِ بِالمُدِّ ۵۶،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی مِقْدَارِ الْمَاءِ لِلْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ ۲۶۷

[215] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ مَا یُجْزِئُ مِنَ الْمَاءِ فِی الْوُضُوءِ۹۴،سنن نسائی کتاب بَابُ الْقَدْرِ الَّذِی یَكْتَفِی بِهِ الرَّجُلُ مِنَ الْمَاءِ لِلْوُضُوءِ۷۴

[216] مسنداحمد۷۰۶۵،زادالمعاد۱۸۴؍۱،اغاثة اللھفان من مصاید الشیطان۱۴۰؍۱

[217] اغاثة اللھفان من مصاید الشیطان۱۴۰؍۱

[218] المقاصد الحسنة للسخاوی ۱۲۶۴

[219]سنن ابی داودکتاب الطھارة بَابُ الرَّجُلِ یُجَدِّدُ الْوُضُوءَ مِنْ غَیْرِ حَدَثٍ۶۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ الوُضُوءِ لِكُلِّ صَلاَةٍ ۵۹، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ الْوُضُوءِ عَلَى الطَّهَارَةِ۵۱۲

[220] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ الوُضُوءِ لِكُلِّ صَلاَةٍ ۵۸

[221] جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ الوُضُوءِ لِكُلِّ صَلاَةٍ ۵۸

[222] صحیح بخاری کتاب الوضوبَابُ الوُضُوءِ مِنْ غَیْرِ حَدَثٍ ۲۱۴

[223] ۔صحیح بخاری کتاب الوضوء بَابُ الوُضُوءِ مِنْ غَیْرِ حَدَثٍ ۲۱۵

[224] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ۵۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ لَا یَقْبَلُ اللهُ صَلَاةً بِغَیْرِ طُهُورٍ ۲۷۳

[225] صحیح بخاری کتاب الوضوبَابُ غَسْلِ الأَعْقَابِ ۱۶۵،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ بِكَمَالِهِمَا ۵۷۴

[226] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْمَسْحِ عَلَى النَّاصِیَةِ وَالْعِمَامَةِ۶۳۳،سنن نسائی کتاب الطھارةبَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ مَعَ النَّاصِیَةِ۱۰۹،۱۲۴

[227] صحیح بخاری کتاب الوضوء بَابُ الِاسْتِنْثَارِ فِی الوُضُوءِ۱۶۱،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الْإِیتَارِ فِی الَاسْتِنْثَارِ وَالَاسْتِجْمَارِ۵۶۲،سنن نسائی کتاب الطھارة باب الْأَمْرُ بِالِاسْتِنْثَارِ۸۹،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة باب الْمُبَالَغَةُ فِی الِاسْتِنْشَاقِ وَالِاسْتِنْثَارِ ۴۰۹،مسنداحمد۷۲۲۱

[228] صحیح بخاری کتاب الوضوء بَابُ غَسْلِ الوَجْهِ بِالیَدَیْنِ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ۱۴۱ ،مسند احمد۲۴۱۶

[229] صحیح بخاری کتاب الوضوءبَابُ مَسْحِ الرَّأْسِ كُلِّهِ ۱۸۵،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابٌ فِی وُضُوءِ النَّبِیِّ صلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۵۵۵،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۱۸،مسنداحمد۱۶۴۴۵

[230] صحیح مسلم کتاب الطہارة بَابُ الْمَسْحِ عَلَى النَّاصِیَةِ وَالْعِمَامَةِ۶۳۳

[231] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ جَوَازِ الصَّلَوَاتِ كُلِّهِا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ۶۴۲، مسنداحمد۲۲۹۷۳

[232] سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَالصَّلَوَاتِ كُلِّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ ۵۱۱

[233] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ تَخْلِیلِ اللِّحْیَةِ۱۴۵

[234] جامع ترمذی ابواب الطھارةبَابُ مَا جَاءَ فِی تَخْلِیلِ اللِّحْیَةِ ۲۹،۳۰، سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی تَخْلِیلِ اللِّحْیَةِ۴۲۹

[235] مسنداحمد۲۵۹۷۱

[236] صحیح بخاری کتاب الوضوء بَابُ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ، وَلاَ یَمْسَحُ عَلَى القَدَمَیْنِ ۱۶۳،صحیح مسلم کتاب الطھارة باب وجوب غسل الرجلین بکما لھما۲۴۱

[237] السنن الصغیر للبیہقی ۱۰۴ ،السنن الکبری للبیہقی ۳۲۶، مستدرک حاکم۵۸۰

[238] سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ غَسْلِ الْعَرَاقِیبِ ۴۵۴،مسنداحمد۶۸۸۳

[239] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ وُجُوبِ اسْتِیعَابِ جَمِیعِ أَجْزَاءِ مَحَلِّ الطَّهَارَةِ ۲۴۳،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارةبَابُ مَنْ تَوَضَّأَ فَتَرَكَ مَوْضِعًا لَمْ یُصِبْهُ الْمَاءُ ۶۶۶

[240] مسند احمد ۶۶۸۴ ، السنن الکبری للنسائی ۸۹

[241]صحیح مسلم کتاب الطہارة بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ عَقِبَهُ۵۴۵

Related Articles