بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة البروج

اہل ایمان پرکفارکے مظالم کے سلسلے میں  دونوں  طبقات کوخبردارکیاگیاہے۔

xاہل ایمان اگرمظالم برداشت کریں  گے تواللہ تعالیٰ ان کواجرعظیم سے نوازے گا ۔

xظالموں سے ان کے ظلم کابدلہ خوداللہ تعالی لے گا۔

اس ضمن میں  اصحاب الاخدودپرکی گئی لعنت کاذکرکیاگیاہے اورکفارمکہ کوکہاکہ تم بھی اسی طرح کے عذاب کے مستحق ہو گے ،اس کے بعداہل ایمان کوبتایاگیاکہ پہلے ادوار میں ( ذونواس یہودی کے دورمیں  بیس ہزار) اہل ایمان نوجوانوں ،بوڑھوں ،بچوں ،مردوں  اورعورتوں  کواپنامذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں دہکتی ہوئی آگ کے گڑھوں  میں  پھینک دیاگیااورانہوں  نے ان سب مظالم کوخندہ پیشانی سے برداشت کیا مگردولت ایمان کوچھوڑنے پرتیارنہ ہوئے،اسی طرح اب بھی اہل ایمان کوچاہئے کہ ہرطرح کاسخت سے سخت عذاب بھگت لیں  مگراس انمول دولت کوہاتھ سے نہ جانے دیں ، اللہ تعالیٰ کی قدرت اورغلبے کاذکرہے کہ وہ زمین وآسمان کی سلطنت کا مالک ہے اورہرطرح کی حمدکامستحق بھی ہے ،وہ دونوں  گروہوں  کے اعمال اوراحوال کا براہ راست مشاہدہ کررہا ہے ،کافروں  کوان کے کفرکی سزاجہنم کی صورت میں  ملے گی اوراہل ایمان کوظلم برداشت کرنے ،اللہ پرتوکل اوربھروسے کی وجہ سے جنت کی ابدی اوریقینی نعمتوں  کاحقدار بنادیا جائے گا،کفارکوجب سزاملے گی توان کی جماعت بندی اورافرادی طاقت وقوت ان کے کسی کام نہ آسکے گی،اس سلسلے میں  فرعون،قوم ثمود اور دوسرے سرداروں  اوربادشاہوں  کاعبرتناک انجام سب کے لئے نمونہ عبرت کے طور پر موجود ہے ، آخرمیں  بتایاکہ باعظمت قرآن تمہیں  وہ باتیں  بتارہاہے جولوح محفوظ میں  ہیں  اوراس کی ہربات حتمی یقینی اورواقعی ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ ‎﴿١﴾‏ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُودِ ‎﴿٢﴾‏ وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ ‎﴿٣﴾‏ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ ‎﴿٤﴾‏ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ ‎﴿٥﴾‏ إِذْ هُمْ عَلَیْهَا قُعُودٌ ‎﴿٦﴾‏ وَهُمْ عَلَىٰ مَا یَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِینَ شُهُودٌ ‎﴿٧﴾‏ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ یُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ ‎﴿٨﴾‏ الَّذِی لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ‎﴿٩﴾(البروج)
’’برجوں والے آسمان کی قسم!وعدہ کئے ہوئے دن کی قسم ! حاضر ہونے والے اور حاضر کئے گئے کی قسم !(کہ) خندقوں والے ہلاک کئے گئے، وہ ایک آگ تھی ایندھن والی، جبکہ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے،یہ لوگ ان مسلمانوں (کے کسی اور گناہ) کا بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے جس کے لیے آسمان و زمین کا ملک ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے ہر چیز۔‘‘

گڑھوں  میں  آگ جلاکراہل ایمان کوان میں  زندہ جلادینے کے کئی واقعات بیان ہوئے ہیں ۔

پہلی روایت :

عَنْ صُهَیْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ مَلِكٌ فِیمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَكَانَ لَهُ سَاحِرٌ فَلَمَّا كَبِرَ السَّاحِرُ قَالَ لِلْمَلِكِ: إِنِّی قَدْ كَبِرَتْ سِنِّی، وَحَضَرَ أَجَلِی فَادْفَعْ إِلَیَّ غُلَامًا فَلَأُعَلِّمُهُ السِّحْرَ، فَدَفَعَ إِلَیْهِ غُلَامًا، فَكَانَ یُعَلِّمُهُ السِّحْرَ، وَكَانَ بَیْنَ السَّاحِرِ وَبَیْنَ الْمَلِكِ رَاهِبٌ، فَأَتَى الْغُلَامُ عَلَى الرَّاهِبِ، فَسَمِعَ مِنْ كَلَامِهِ فَأَعْجَبَهُ نَحْوُهُ وَكَلَامُهُ، فَكَانَ إِذَا أَتَى السَّاحِرَ ضَرَبَهُ وَقَالَ: مَا حَبَسَكَ؟ وَإِذَا أَتَى أَهْلَهُ ضَرَبُوهُ وَقَالُوا: مَا حَبَسَكَ؟ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى الرَّاهِبِ فَقَالَ: إِذَا أَرَادَ السَّاحِرُ أَنْ یَضْرِبَكَ فَقُلْ: حَبَسَنِی أَهْلِی، وَإِذَا أَرَادَ أَهْلُكَ أَنْ یَضْرِبُوكَ فَقُلْ: حَبَسَنِی السَّاحِرُ، قَالَ: فَبَیْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَتَى ذَاتَ یَوْمٍ عَلَى دَابَّةٍ فَظِیعَةٍ عَظِیمَةٍ، وَقَدْ حَبَسَتِ النَّاسَ، فَلَا یَسْتَطِیعُونَ أَنْ یَجُوزُوا، فَقَالَ: الْیَوْمَ أَعْلَمُ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَمْ أَمْرُ السَّاحِرِ؟ فَأَخَذَ حَجَرًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إِلَیْكَ وَأَرْضَى لَكَ مِنَ أَمِرِ السَّاحِرِ، فَاقْتُلْ هَذِهِ الدَّابَّةَ حَتَّى یَجُوزَ النَّاسُ، وَرَمَاهَا فَقَتَلَهَا، وَمَضَى النَّاسُ،

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا فَلَمَّا كَبِرَجب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں  بوڑھا ہو گیا ہوں  تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں  تاکہ میں  اسے جادو سکھا سکوں ، بادشاہ نے ایک لڑکے کواس کے پاس بھیج دیاتاکہ وہ جادو گراسے جادو سکھادے،جب وہ لڑکااس جادوگر کے ہاں  جاتاتوراستہ میں  اسے ایک راہب ملتاوہ لڑکااس راہب کے پاس بیٹھ جاتا اور اسکی باتیں  سنتا، وہ باتیں  اسے بہت اچھی معلوم ہوتیں  توجب کبھی وہ جادوگرکے پاس جاتاراہب کے پاس ضرور جاکربیٹھتا،جادوگراسے دیرسے آنے پرمارتا،اس لڑکے نے اس بات کی شکایت راہب سے کی، راہب نے کہا جب تمہیں  جادوگرسے اندیشہ ہوتوکہہ دیاکروکہ مجھے میرے گھروالوں  نے روک لیاتھااورجب تمہیں  گھروالوں  سے کسی قسم کااندیشہ ہوتو کہہ دیاکروکہ مجھے جادوگرنے روک لیاتھا،اسی طرح دن گذرتے رہے ایک دن ایساہواکہ وہ ایک بڑے چوپائے کے پاس پہنچا جس نے لوگوں  کاراستہ روک رکھاتھااس لڑکے نے سوچاآج میں  جان لوں  گاکہ راہب افضل ہے یا ساحر ؟ اس لڑکے نے ایک پتھراٹھایااوراس طرح دعاکی اے الله !اگرراہب کاکام تیرے نزدیک جادوگرکے کام کے مقابلے میں  پسندیدہ ہے تو اس چوپائے کوقتل کردے تاکہ لوگ آجاسکیں ،پھراس نے پتھر پھینکا اوراسے قتل کردیااور لوگ جانے آنے لگے،

فَأَخْبَرَ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ، فَقَالَ: أَیْ بُنَیَّ، أَنْتَ أَفْضَلُ مِنِّی، وَإِنَّكَ سَتُبْتَلَى، فَإِنْ ابْتُلِیتَ، فَلَا تَدُلَّ عَلَیَّ، فَكَانَ الْغُلَامُ یُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَسَائِرَ الْأَدْوَاءِ وَیَشْفِیهِمْ، وَكَانَ جَلِیسٌ لِلْمَلِكِ فَعَمِیَ، فَسَمِعَ بِهِ، فَأَتَاهُ بِهَدَایَا كَثِیرَةٍ فَقَالَ: اشْفِنِی وَلَكَ مَا هَاهُنَا أَجْمَعُ، فَقَالَ: مَا أَشْفِی أَنَا أَحَدًا، إِنَّمَا یَشْفِی اللَّهُ، فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِهِ، دَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ، فَآمَنَ فَدَعَا اللَّهَ لَهُ فَشَفَاهُ، ثُمَّ أَتَى الْمَلِكَ، فَجَلَسَ مِنْهُ نَحْوَ مَا كَانَ یَجْلِسُ، فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ: یَا فُلَانُ، مَنْ رَدَّ عَلَیْكَ بَصَرَكَ؟ فَقَالَ: رَبِّی، قَالَ: أَنَا؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ رَبِّی وَرَبُّكَ اللَّهُ، قَالَ: أَوَلَكَ رَبٌّ غَیْرِی؟ قَالَ: نَعَمْ. فَلَمْ یَزَلْ یُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّهُ عَلَى الْغُلَامِ،

وہ راہب کے پاس آیااوراسے اس واقعہ کی خبر دی،راہب نے اس سے کہااے میرے بیٹے !اب توتم مجھ سے افضل ہوگئے،میں  دیکھ رہاہوں  کہ تم کس مقام پر پہنچ گئے ہو اور (دیکھو) تم عنقریب آزمائش میں  مبتلاہوگے تواگرتم کسی آزمائش سے دوچارہوجاو تومیرانام نہ لینا،الغرض نوبت یہانتک پہنچی کہ وہ لڑکا مادرزاد اندھے کوبینا کردیتاتھا،برص زدہ کو اچھا کردیتاتھااور لوگوں  کی ہربیماری کاوہ کامیاب علاج کرتاتھا،یہ خبربادشاہ کے ایک ہم نشین کو پہنچی جواندھاہوگیاتھاوہ شخص بہت سے تحفے لیکر اس لڑکے کے پاس پہنچا اوراس سے کہااگرتم مجھے اچھاکردوتویہ سب کچھ تمہاراہے، لڑکے نے کہامیں  کسی کواچھانہیں  کرتااچھاتو الله سبحانہ وتعالیٰ ہی کرتاہے، اگرتم اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ تومیں  الله سے دعا کروں  گاوہ تمہیں  شفادے گا،وہ الله قادرمطلق پر ایمان لے آیا،قدرتوں  والے الله قادرمطلق نے اسے شفادی(وہ بینا ہوگیا) پھروہ بادشاہ کے پاس پہنچااوراس کے پاس بیٹھاجس طرح وہ بیٹھاکرتا تھا،بادشاہ نے اس سے پوچھا تمہاری بینائی تمہیں  کس نے لوٹائی؟اس نے کہا میرے اللہ وحدہ لاشریک نے ،مشرک بادشاہ اللہ وحدہ لاشریک کالفظ کیسے برداشت کرسکتاتھااس نے کہا کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے؟ اس نے کہا میرا اور تیرا رب اللہ ہے، بادشاہ نےاس جرم میں  اسکو گرفتار کرلیاگیااورمسلسل اسے تکلیف پہنچاتا رہا یہانتک کہ اس نے اس لڑکے کا نام بتادیا،

فَبَعَثَ إِلَیْهِ فَقَالَ: أَیْ بُنَیَّ قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِكَ أَنْ تُبْرِئَ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَهَذِهِ الْأَدْوَاءَ؟ قَالَ: مَا أَشْفِی أَنَا أَحَدًا، مَا یَشْفِی غَیْرُ اللَّهِ، قَالَ: أَنَا؟ قَالَ: لَا. قَالَ: أَوَلَكَ رَبٌّ غَیْرِی؟ قَالَ: نَعَمْ، رَبِّی وَرَبُّكَ اللَّهُ، فَأَخَذَهُ أَیْضًا بِالْعَذَابِ، فَلَمْ یَزَلْ بِهِ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهِبِ، فَأُتِیَ بِالرَّاهِبِ، فَقَالَ: ارْجِعْ عَنْ دِینِكِ، فَأَبَى، فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِی مَفْرِقِ رَأْسِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، وَقَالَ لِلْأَعْمَى: ارْجِعْ عَنْ دِینِكَ فَأَبَى فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ فِی مَفْرِقِ رَأْسِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ فِی الْأَرْضِ، وَقَالَ لِلْغُلَامِ: ارْجِعْ عَنْ دِینِكَ،فَأَبَى،

جس لڑکے نے اس کے لئے دعاکی تھی اس کو بادشاہ کے حضورپیش کیاگیابادشاہ نے اس سے کہااے میرے بیٹے !تمہاراجادواس حد تک پہنچ گیا کہ تم مادرزاد اندھے اور برص زدہ کواچھاکردیتے ہو اورتم ایساایسا کرتے ہو،لڑکے نے کہا مجھ میں  توکوئی قدرت نہیں  کہ کسی کواچھاکرسکوں ،ساری قدرتیں  تو اللہ وحدہ لاشریک کے اختیارمیں  ہیں  اچھا توو ہی کرتاہے، بادشاہ نے اسے گرفتار کرلیااور مسلسل اسے تکلیف پہنچاتا رہا یہانتک کہ اس نے راہب کانام بتادیا،بادشاہ نے راہب کوبلوایااوراس سے کہااپنے دین سے لوٹ آؤ اس نے انکارکیا تو بادشاہ نے ایک آرا منگوایاآرے کو اس کے سرکی مانگ پر رکھااوراس کے جسم کوچیرکردوٹکڑے کردیا، پھر بادشاہ نے اپنے ہم نشین کوبلوایااور اس سے کہااپنے دین سے لوٹ آؤ اس نے انکار کیاتو بادشاہ نے آرے کو اس کے سرکی مانگ پر رکھااس کے جسم کو بھی چیرکر دو ٹکڑے کردیے،پھراس لڑکے کو لایا گیا اوراس سے کہاگیاکہ اپنے دین سے پھر جاؤ اس نے بھی انکارکردیا،

فَبَعَثَ بِهِ مَعَ نَفَرٍ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: إِذَا بَلَغْتُمْ ذُرْوَتَهُ فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِینِهِ، وَإِلَّا فَدَهْدِهُوهُ مِنْ فَوْقِهِ، فَذَهَبُوا بِهِ، فَلَمَّا عَلَوْا بِهِ الْجَبَلَ قَالَ: اللَّهُمَّ اكْفِنِیهِمْ بِمَا شِئْتَ، فَرَجَفَ بِهِمُ الْجَبَلُ فَتَدَهْدَهُوا أَجْمَعُونَ، وَجَاءَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى الْمَلِكِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟ فَقَالَ: كَفَانِیهِمُ اللَّهُ، فَبَعَثَ بِهِ مَعَ نَفَرٍ فِی قُرْقُورٍ، فَقَالَ: إِذَا لَجَجْتُمْ بِهِ الْبَحْرَ، فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِینِهِ، وَإِلَّا فَغَرِّقُوهُ فَلَجَّجُوا بِهِ الْبَحْرَ، فَقَالَ الْغُلَامُ: اللَّهُمَّ اكْفِنِیهِمْ بِمَا شِئْتَ، فَغَرِقُوا أَجْمَعُونَ، وَجَاءَ الْغُلَامُ یَتَلَمَّسُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى الْمَلِكِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟ قَالَ: كَفَانِیهِمُ اللَّهُ،

توبادشاہ نے اس کو اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے حوالے کردیااوران سے کہااس لڑکے کوفلاں  پہاڑ کی چوٹی پر لے جاؤ جب تم چوٹی پرپہنچ جاؤ تواگریہ اپنے دین سے پھرجائے(تو ٹھیک ہے) ورنہ اسکو پہاڑ پرسے پھینک دینا،وہ لوگ اسکو لیکر پہاڑ کی چوٹی پرگئے، اس لڑکے نے دعاکی اے الله !تو جس طرح چاہے میرے لیے ان کے مقابلہ میں  کافی ہوجا،پہاڑہلااوروہ سب گرکر ہلاک گئے،لڑکالوٹ کرپھربادشاہ کے پاس پہنچ گیابادشاہ نے پوچھاتمہارے ساتھیوں  کاکیاہوا ؟لڑکے نے کہاان گنت قدرتوں  والاقادرمطلق الله ان سب کے مقابلہ میں  میرے لیے کافی ہوگیا، بادشاہ نے اس کواپنے اصحاب کے چند لوگوں  کے حوالہ کیااوران سے کہااس کو چھوٹی کشتی میں  بٹھا کربیچ سمندر میں  جاؤ اگر یہ اپنے دین سے بازآجائے توٹھیک ہے ورنہ اسکو سمندر میں  پھینک دو،وہ لوگ اسکوکشتی میں  بٹھاکر سمندر کے بیچ میں لے گئے،لڑکے نے کہا الله ان کے مقابلہ میں  جس طرح تو چاہے میرے لیے کافی ہوجااللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت سے کشتی الٹ گئی اوروہ سب غرق ہوگئے، لڑکاچلتاہوادوبارہ بادشاہ کے پاس جا پہنچا،بادشاہ نے پوچھا تمہارے ساتھیوں  کاکیاہوا؟لڑکے نے کہا الله ان کے مقابلے میں  میرے لئے کافی ہوگیا،

ثُمَّ قَالَ لِلْمَلِكِ: إِنَّكَ لَسْتَ بِقَاتِلِی حَتَّى تَفْعَلَ مَا آمُرُكَ بِهِ، فَإِنْ أَنْتَ فَعَلْتَ مَا آمُرُكَ بِهِ قَتَلْتَنِی، وَإِلَّا فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِیعُ قَتْلِی، قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: تَجْمَعُ النَّاسَ فِی صَعِیدٍ، ثُمَّ تَصْلُبُنِی عَلَى جِذْعٍ فَتَأْخُذُ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِی، ثُمَّ قُلْ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ قَتَلْتَنِی، فَفَعَلَ وَوَضَعَ السَّهْمَ فِی كَبِدِ قَوْسِهِ ثُمَّ رَمَى فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ، فَوَضَعَ السَّهْمَ فِی صُدْغِهِ فَوَضَعَ الْغُلَامُ یَدَهُ عَلَى مَوْضِعِ السَّهْمِ وَمَاتَ

پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہاآپ مجھے قتل نہیں  کرسکتے جب تک وہ کام نہ کروجومیں  تمہیں  بتاؤ ں  ،بادشاہ نے پوچھاوہ کیاکام ہے؟ لڑکے نے کہاایک میدان میں  سب کو جمع کردواورایک تنے پرمجھے لٹکادوپھرمیرے ترکش سے تیرنکالو پھراس تیرکو کمان پرچڑھاو اور پھر کہو اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر مجھے تیر مارو اگر تم اس طرح کرو تو مجھے قتل کرسکتے ہو ورنہ نہیں ، پھر بادشاہ نے لوگوں  کو ایک میدان میں  اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا پھر اس کے ترکش میں  سے ایک تیر لیا پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں  رکھ کر کہا اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا تو وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں  جا گھسا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا،

فَقَالَ النَّاسُ: آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، فَقِیلَ لِلْمَلِكِ: أَرَأَیْتَ مَا كُنْتَ تَحْذَرُ؟ فَقَدْ وَاللَّهِ نَزَلَ بِكَ، قَدْ آمَنَ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَأَمَرَ بِأَفْوَاهِ السِّكَكِ فَخُدِّدَتْ فِیهَا الْأُخْدُودُ وَأُضْرِمَتْ فِیهَا النِّیرَانُ، وَقَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِینِهِ فَدَعُوهُ، وَإِلَّا فَأَقْحِمُوهُ فِیهَا، قَالَ: فَكَانُوا یَتَعَادَوْنَ فِیهَا وَیَتَدَافَعُونَ، فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ بِابْنٍ لَهَا تُرْضِعُهُ، فَكَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِی النَّارِ، فَقَالَ الصَّبِیُّ: یَا أُمَّهْ، اصْبِرِی، فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ

جب لوگوں  نے یہ ماجرا دیکھاتو کہاہم اس لڑکے کے رب پرایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پرایمان لائے ،ہم اس لڑکے کے رب پرایمان لائے، بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی اور اس سے کہا گیا تجھے جس بات کا ڈر تھا اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے، تو پھر بادشاہ نے گلیوں  کے دھانوں  پر خندق کھودنے کا حکم دیا پھر خندق کھودی گئی اور ان خندقوں  میں  آگ جلا دی گئی،اوربادشاہ نے کہا جو آدمی اپنے مذہب سے پھرنے سے باز نہیں  آئے گا تو میں  اس آدمی کو اس خندق میں  ڈلوا دوں  گا، اس کے کارندوں  نے ایسا ہی کیااہل ایمان آتے رہے اورآگ کے حوالے ہوتے رہے مگراپنے دین وایمان سے نہ ہلے یہانتک کہ ایک عورت آئی اس کے پاس ایک سات ماہ کا بچہ تھاجب اسے آگ میں  ڈالاجانے لگاتووہ بھڑکتے ہوئے شعلوں  کودیکھ کر ذرا ٹھٹھکی، الله تعالیٰ نے اس شیرخوارمعصوم بچے کوگویائی عطافرمائی ،اس عورت کا بچہ بول اٹھااے میری ماں ! صبر کرو بیشک تم حق پر ہو۔ [1]

دوسری روایت:

فَعَنْ عَلِیٍّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،أَنَّهُمْ أَهْلُ فَارِسٍ، حِینَ أَرَادَ مَلِكُهُمْ تَحْلِیلَ تَزْوِیجِ الْمَحَارِمِ فَامْتَنَعَ عَلَیْهِ عُلَمَاؤُهُمْ، فَعَمَدَ إِلَى حَفْرِ أُخدود فَقَذَفَ فِیهِ مَنْ أَنْكَرَ عَلَیْهِ مِنْهُمْ، وَاسْتَمَرَّ فِیهِمْ تَحْلِیلُ الْمَحَارِمِ إِلَى الْیَوْمِ

سیدناعلی علیہ السلام بن ابی طالب سے مروی ہے فارس کے بادشاہ نے یہ قانون جاری کرنا چاہا کہ محرمات ابدیہ (یعنی ماں  بہن بیٹی وغیرہ ) سب حلال ہیں  ان وقت کے علمائے کرام نے اس کا انکار کیا اور روکا اس پر اس نے خندقیں  کھدوا کر اس میں  آگ جلا کر ان حضرات کو اس میں  ڈال دیا چنانچہ یہ اہل فارس آج تک ان عورتوں  کو حلال ہی جانتے ہیں ۔ [2]

تیسری روایت:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:قَالَ: هُمْ نَاسٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، خَدُّوا أُخْدُودًا فِی الْأَرْضِ، ثُمَّ أَوْقَدُوا فِیهَا نَارًا، ثُمَّ أَقَامُوا عَلَى ذَلِكَ الْأُخْدُودَ رِجَالًا وَنِسَاءً، فَعُرِضُوا عَلَیْهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے غالباًاسرائیلی روایات سے نقل کیاہے بابل والوں  نے بنی اسرائیل کودین موسوی سے پھرجانے پرمجبورکیاتھایہاں  تک کہ انہوں  نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں  میں  ان لوگوں  کوپھینک دیاجواس سے انکارکرتے تھے۔ [3]

چوتھی روایت :

ایک روایت ہے کہ سردی کی شدت کے باعث اہل حبشہ اپنانائب یمن روانہ نہ کرسکےتوذونواس نے ان کی حکومت غصب کرلی اور وہاں  کی عیسائی آبادی کویہودی مذہب تبدیل کرنے کے لئے بہت تکالیف دیں ،اس کے علاوہ وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجران پرفوج کشی کردی اورشہرپرقبضہ کرلیااورعیسائی آبادی کوتلواراورآگ میں  جلاکرختم کردیا۔

پانچویں  روایت :

سب سے مشہورواقعہ نجران کاہے جوابن ہشام ،طبری،ابن خلدون اورصاحب البلدان وغیرہ میں  ہے،

ابْنُ تِبَان أَسْعَدُ أَبِی كَرب، وَهُوَ تُبَّع الَّذِی غَزَا الْمَدِینَةَ وَكَسَى الْكَعْبَةَ، وَاسْتَصْحَبَ مَعَهُ حِبْرَیْنِ مِنْ یَهُودِ الْمَدِینَةِ، فَكَانَ تَهَوّد مَنْ تَهَوّد مِنْ أَهْلِ الْیَمَنِ عَلَى یَدَیْهِمَافَسَارَ إِلَیْهِمْ ذُو نُوَاسٍ بِجُنْدِهِ، فَدَعَاهُمْ إِلَى الْیَهُودِیَّةِ،وخیَّرهم بَیْنَ ذَلِكَ أَوِ الْقَتْلِ، فَاخْتَارُوا الْقَتْلَ، فَخَدَّ الْأُخْدُودَ، فَحَرَّقَ بِالنَّارِ وَقَتَلَ بِالسَّیْفِ وَمَثَّلَ بِهِمْ، حَتَّى قَتَلَ مِنْهُمْ قَرِیبًا مِنْ عِشْرِینَ أَلْفًا فَقَتَلَ ذُو نُوَاسٍ فِی غَدَاةٍ وَاحِدَةٍ فِی الْأُخْدُودِ عِشْرِینَ أَلْفًا، وَلَمْ یَنْجُ مِنْهُمْ سِوَى رَجُلٍ وَاحِدٍ یُقَالُ لَهُ: دَوْسٌ ذُو ثَعلبان، ذَهَبَ فَارِسًا، وطَرَدُوا وَرَاءَهُ فَلَمْ یُقدَر عَلَیْهِ،فَذَهَبَ إِلَى قَیْصَرَ مَلِكِ الشَّامِ، فَكَتَبَ إِلَى النَّجَاشِیِّ مَلِكِ الْحَبَشَةِ، فَأَرْسَلَ مَعَهُ جَیْشًا مِنْ نَصَارَى الْحَبَشَةِ،

حمیر(یمن )کابادشاہ ابن تبان اسعدابوکرب ایک مرتبہ یثرب گیااور کعبہ کو غلاف چڑھایاجہاں  یہودیوں  سے متاثرہوکراس نے دین یہودقبول کرلیااوربنی قریظہ کے دویہودی عالموں  کواپنے ساتھ یمن لے گیا،وہاں  اس نے بڑے پیمانے پریہودیت کی اشاعت کی ،پھراس کابیٹاذونواس اس کاجانشیں  ہوا،اس نے نجران پرجوجنوبی عرب میں  عیسائیوں  کاگڑھ تھاحملہ کیاتاکہ وہاں  سے عیسائیت کاخاتمہ کردے اوراس کے باشندوں  کویہودیت اختیارکرنے پرمجبورکرے(ابن ہشام کے مطابق یہ لوگ عیسٰی علیہ السلام کے اصل دین پرتھے)نجران پہنچ کر ذوانواس نے لوگوں  کویہودیت قبول کرنے کی دعوت دی مگرانہوں  نے انکارکردیااس پراس نے بکثرت لوگوں  کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں  میں  پھینک کر جلوا دیااوربہت سوں  کوقتل کردیایہاں  تک کہ مجموعی طورپر ۲۰ ہزارآدمی مارے گئے،اورتمام آبادی خاکستر ہوگئی (ہمارے نزدیک ساری آبادی کاخاکستر ہونے کی روایت صحیح نہیں  ہوسکتی کیونکہ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کچھ ہی پہلے کاہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں  نجران میں  عیسائی آبادی موجودتھی ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران میں  بھی دعوت اسلام بھیجی تھی جس کے جواب میں  دو راہب مناظرہ کرنے کے لئے مدینہ منورہ میں حاضرہوئے تھے اوربغیرمناظرہ ہی واپس پلٹ گئے تھے ،اوریہ بھی ممکن ہے کہ حبشی عیسائیوں  کے عہد میں  وہاں  دوبارہ آبادی ہو گئی ہومگراس مختصرعرصہ میں  اتنی آبادی نہیں  ہوسکتی)ذونواس نے ایک ہی صبح خندقوں  میں  بیس ہزارانسانوں  کوقتل کرادیاتھا، اہل ایمان میں سے ایک عیسائی امیر جس کا نام دوس ذوثعلبان تھایہ گھوڑے پر بھاگ کھڑا ہوا اس کو پکڑنے کے لیے گھڑسوار دوڑے لیکن کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلنے میں  کامیاب ہوگیا،وہ بھاگ کرشام(روم)کے بادشاہ قیصرکے پاس چلاگیااوراس ظلم کی شکایت کی،چنانچہ قیصرنے حبشہ کے بادشاہ کولکھاچنانچہ دوس وہاں  کے حبشہ کے نصرانیوں  کا لشکر لے کریمن پرفوج کشی کی۔ [4]

اورایک روایت کی روسے نجاشی نے قیصرسے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی ،مورخ تھیوفانواس اس واقعہ کویوں  بیان کرتاہے کہ چھٹی صدی کے شروع میں  کچھ رومی یمن سے گزررہے تھےحمیریوں  نے ان پرظلم وستم کرکے انہیں  قتل کردیااس وقعہ سے رومیوں  نے اہل یمن سے تجارت بند کردی،اہل حبش کورومیوں  کا تجارت بند کرنا ناگوار گزرا،بادشاہ حبش نجاشی کی قیادت میں  اہل حبش بحراحمرعبورکرکے حمریوں  سے معرکہ آراہوگئے اورحمریوں  کے بادشاہ دمیانوس (ذونواس) کومارڈالااورقیصر جسٹینین کے ساتھ اس شرط پرمعاہدہ کیاکہ تمام باشندگان اکسوم عیسائی ہوجائیں  اورسکندریہ سے ان کے لئے ایک بشپ مقرر ہے (انسائیکوپیڈیا برٹانیکا کا مضمون نگارابی سینااس واقعہ کویوں  قلم بندکرتاہے کہ چھٹی صدی میں  حمرنے عیسائیوں  کوسخت تکلیف پہنچائی ،آخرجسٹینین اول نے شاہ حبش کوجس کانام کالب الاصبح تھا لکھاکہ ان کی مددکرے،چنانچہ اس نے حمیرکے ہاتھ سے یمن لے لیا

فدخلوها ومع أریاط سبعون ألفاً من الحبشة ،وتخوف أن یأخذوه، فضرب فرسه حتى وقع فی البحر، فمات فیه

بہرحال ۵۲۵ء میں  حبش کی ستر ہزارفوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں  یمن پرحملہ آورہوئی ، ذونواس شاہ یمن نے ان حملہ آوروں  کاسواحل عدن وحضرموت پراستقبال کیا اورقوت سے نہیں  بلکہ بہ تدبیروحیلہ اہل حبش کوشکست فاش دی اوروہ مجبوراًحبش کو واپس لوٹ گئےمگربہت جلد طاقت وقوت جمع کرکے دوبارہ یمن پرحملہ آور ہوئےجس سے حمیریوں  کے پاؤ ں  اکھڑگئے،ذونواس نے جان بچانے کے لئے اپنے گھوڑے کودریامیں  ڈال دیامگرپھراسے دریاسے نکلنانصیب نہ ہوا اور وہیں  دم توڑدیا،اس کاقائم مقام ذوجدان ہوااس کابھی وہی حشرہوا،آخری شخص ذوالیزن کھڑاہوامگر اسے بھی کوئی مددنہ مل سکی اوروہ بھی افسردہ ہو کر رہ گیا،اس طرح یمن سے یہودی حکومت کاخاتمہ ہوگیا ، حبشی گورنروں  نے اپناپایہ تخت شہرصنعاء کوقراردیا اور ۵ ۲۵ء تا۵۹۸ء بہتر برس تک یمن حبش کی عیسائی سلطنت کاحصہ بن گیا ،مسیحی فاتحین نے یمن کے یہودیوں  کوعیسائی مذہب قبول کرنے کے لئے ظلم وستم اورقتل سے گریزنہ کیا ۔

اہل مکہ نے مسلمانوں  پرظلم وستم کابازارگرم کررکھاتھااس سلسلہ میں  اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی جس میں  اصحاب اخدودکاحوالہ دے کر مسلمانوں  کوتسلی دی گئی کہ ظالم ظلم کرکے بچ نہیں  جائے گابلکہ ظالموں  سے ان کے ظلم وستم کابدلہ خوداللہ تعالیٰ لے گا،اورمسلمانوں  کو اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے گا ،اوراہل ایمان کوبتایاکہ پہلے ادوارمیں  اہل ایمان میں  مردوں ،عورتوں ،بچوں  اوربوڑھوں  کوان کے دین سے منحرف کرنے کے لئے آگ کے گڑھوں  میں  گرایاگیااورانہوں  نے ان سب مظالم کوخندہ پیشانی سے برداشت کیامگرجان بچانے کے لئے دین سے منحرف نہ ہوئے اورنہ ہی اللہ تعالیٰ کاشکوہ کیا۔

آسمان کے عظیم الشان تاروں  اورسیاروں  کی منزلوں  کی قسم ، جیسے فرمایا

تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّقَمَـــرًا مُّنِیْرًا۝۶۱ [5]

ترجمہ: بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں  برج بنائے اوراس میں  ایک چراغ اورایک چمکتاچاندروشن کیا۔

اوراس دن کی قسم جس میں ہر شخص الله تعالیٰ کے حضوراپنے اعمال کی جزا کے لئے پیش ہوگااورقیامت کی قسم جس کے ہولناک احوال سب دیکھنے والے دیکھیں  گے،جیسے فرمایا ۔۔۔

ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ۝۰ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ۝۱۰۳ [6]

ترجمہ:وہ ایک دن ہوگاجس میں  سب لوگ جمع ہوں  گے اورجوکچھ بھی اس روزہوگاسب کی آنکھوں  کے سامنے ہوگا۔

باری تعالیٰ نے تین چیزوں  کی قسم کھاکر فرمایاگڑھے والوں  پراللہ کی لعنت پڑی اوروہ عذاب الٰہی کے مستحق ہوگئے جنہوں  نے بڑی بڑی خندقیں  کھودکراہل ایمان کواس میں  جھونکنے کے لئے خوب آگ دہکائی تھی اوراہل ایمان کواس جرم میں  اس آگ میں  زندہ جھونک دیاکہ وہ ایک اکیلے غالب رب پرایمان لے آئے تھے ،کفر و شرک ،جاہلانہ رسومات سے تائب ہوکر،آبائی دین سے متنفرہوکر،ابلیس سے ناتاتوڑ کر ، رب العالمین کوہی اپناخالق ومالک، رازق ،مشکل کشا ،حاجت روا ،بگڑی بنانے والا مان کراس کے حضورجھک گئے تھے ،اور بادشاہ کے کارندے بطوررنگرانی کہ اہل ایمان میں  سے کوئی زندہ بچ نہ جائے ،رب کی زمین پرمشرکوں  کے علاوہ رب کانام لیوا کوئی نظر نہ آئے اور بطورنظارہ کہ ایساہولناک نظارہ جس میں  جلنے والوں  کی آہ وبکا سے ایک کہرام برپاہوہمیشہ نظرنہیں  آتاان خندقوں  کے کنارے بیٹھے ہوئے قساوت قلبی سے ان کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے، ان زندہ جلنے والے مردوں ، عورتوں  ، بچوں  اور بوڑھوں  پرکسی کوترس آیانہ ان کادل پسیجابلکہ اس ظالمانہ فعل پر نازاں  تھے ،اوراللہ تعالیٰ جس کی طاقتوں  اور قدرتوں  کی کوئی حدوحساب نہیں ، جو اپنے اقوال وافعال اور اوصاف میں  قابل تعریف ہے ،حمدکامستحق ہے، ان کے اعمال اوراحوال کامشاہدہ کر رہا ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَاللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۶ ۧ [7]

ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ اپنے علم،سمع وبصرکی بناپرپرچیزپرگواہ ہے۔

اوراس کے مقررفرشتے ان کے نامہ اعمال میں  یہ ظلم وبربریت درج کررہے تھے ۔

إِنَّ الَّذِینَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ ‎﴿١٠﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِیرُ ‎﴿١١﴾(البروج)
’’بیشک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے، بیشک ایمان قبول کرنے والوں اور نیک کام کرنے والوں کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘

جن لوگوں  نے مظلوم مومن مردوں  اورعورتوں  پرظلم وستم توڑااورپھراپنے گناہوں  پرنادم ہوکر تائب نہ ہوئے یقیناًانہیں  جہنم میں  داخل کیاجائے گا اوران کے لئے جہنم کی آگ سے زیادہ تیز آگ کا عذاب ہے،

قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْكَرَمِ وَالْجُودِ قَتَلُوا أَوْلِیَاءَهُ وَهُوَ یَدْعُوهُمْ إِلَى التَّوْبَةِ وَالْمَغْفِرَةِ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ کے جودوکرم کاتوملاحظہ کروانہوں  نے تواللہ تعالیٰ کے دوستوں  کوقتل کیاتھامگراللہ تعالیٰ انہیں  توبہ ومغفرت کی دعوت دے رہاہے۔ [8]

اورجولوگ خلوص نیت سے ایمان لائے اورعمل صالحہ اختیارکیے ،حق کی پاداش میں ظلم وستم برداشت کیا،اللہ وحدہ لاشریک پرتوکل اوربھروسہ رکھا،یقیناًان کو اکرام وتکریم کے ساتھ جنت کے ابدی انواع و اقسام کے پھولوں  اور میوہ جات سے لدے باغات میں  داخل کیا جائے گا،جن کے گھنے سایہ داردرختوں  کے نیچے صاف وشفاف پانی،مختلف ذائقوں  کی شرابوں  ، دودھ اورشہد کی نہریں  بہتی ہوں  گی ،جیسے فرمایا

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ۝۰ۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝۰ۭ وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ۝۰ۭ كَمَنْ هُوَخَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَهُمْ۝۱۵ [9]

ترجمہ:پرہیز گاروں  کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں  نہریں  بہہ رہی ہوں  گی نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں  ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، ایسی شراب کی جو پینے والوں  کے لیے لذیذ ہوگی ، نہریں  بہہ رہی ہوں  گی صاف شفاف شہد کی، اس میں  ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں  گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش ۔

ان کے علاوہ اور بے شمار نعمتیں  عطاکی جائیں  گی،جیسے فرمایا

لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ۝۵۷ۚۖ [10]

ترجمہ:ہر قسم کی لذیذ چیزیں  کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں  موجود ہیں  جو کچھ وہ طلب کریں  ان کے لیے حاضر ہے۔

اورسب سے بڑی نعمت رب کادیدارہوگا،تم لوگ جائزو ناجائزطریقے سے دنیاکے مال ودولت کوجمع کرنے،کسی اونچے منصب کے حاصل کرنے کوکامیابی سمجھتے ہومگراللہ کی نظرمیں یہ کامیابی نہیں  بلکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کسی کے گناہوں  سے درگزرفرمائے اور جہنم کے دردناک عذاب سے بچاکرنعمتوں  بھری جنت میں  داخل فرمادے،جیسے فرمایا

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ  [11]

ترجمہ: آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو، کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں  آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں  داخل کردیا جائے، رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے ۔

إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیدٌ ‎﴿١٢﴾‏ إِنَّهُ هُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیدُ ‎﴿١٣﴾‏ وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ ‎﴿١٤﴾‏ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیدُ ‎﴿١٥﴾‏ فَعَّالٌ لِمَا یُرِیدُ ‎﴿١٦﴾‏ هَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ الْجُنُودِ ‎﴿١٧﴾‏ فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ ‎﴿١٨﴾‏ بَلِ الَّذِینَ كَفَرُوا فِی تَكْذِیبٍ ‎﴿١٩﴾‏ وَاللَّهُ مِنْ وَرَائِهِمْ مُحِیطٌ ‎﴿٢٠﴾‏ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِیدٌ ‎﴿٢١﴾‏ فِی لَوْحٍ مَحْفُوظٍ ‎﴿٢٢﴾‏(البروج)
’’یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے، وہی پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اوروہی دوبارہ پیدا کرے گا، وہ بڑا بخشش کرنے والا اور بہت محبت کرنے والا ہے، عرش کا مالک عظمت والا ہےجو چاہے اسے کر گزرنے والا ہے، تجھے لشکروں کی خبربھی ملی ہے ؟ (یعنی) فرعون اور ثمود کی(کچھ نہیں ) بلکہ کافر توجھٹلانے میں پڑے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے، بلکہ یہ قرآن ہے بڑی شان والا، لوح محفوظ میں ( لکھا ہوا ) ۔‘‘

جولوگ رسولوں  کی تکذیب ،اللہ کے حکموں  کی مخالفت اوراللہ کی قائم کردہ حدوں  کوپامال کرتے ہیں  ،انہیں  رب کی پکڑسے کوئی بچانہیں  سکتا،یہ اسی کی قدرت کاملہ ہے کہ وہ پانی کے ایک حقیرقطرے سے انسان کوپہلی بارپیداکرتاہے،اوریہ بھی اس کی قدرت کاملہ ہے کہ مرنے کے بعداعمال کی جزاکے لئے دوبارہ جسم وجان کے ساتھ کھڑاکرے گا،ایسی طاقتوں  وقدرتوں  والارب گناہ گاروں  کواگروہ تائب ہوکراپنی غرورسے تنی ہوئی گردن اس کے حضورجھکادیں  اوراعمال صالحہ کریں  توبخشنے والامہربان ہے ، اے لوگو!اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے عداوت نہیں  رکھتاکہ خواہ مخواہ کسی کو عذاب میں  مبتلاکردے ،جیسے فرمایا

مَا یَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ شَاكِرًا عَلِــیْمًا۝۱۴۷ [12]

ترجمہ:آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں  خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو ۔

اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔بلکہ اس کے برعکس وہ اپنی مخلوق سے بڑی محبت رکھتاہے اوروہ صرف سرکشی کی صورت میں  ہی سزادیتا ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗ۔۔۔ٓ۝۰۝۵۴ [13]

ترجمہ:جواللہ کومحبوب ہوں  گے اوراللہ ان کومحبوب ہوگا۔

اوراللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتاہے،

عَنْ سِمَاكٍ، قَالَ: خَطَبَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِیرٍ، فَقَالَ:لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ حَمَلَ زَادَهُ وَمَزَادَهُ عَلَى بَعِیرٍ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى كَانَ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَأَدْرَكَتْهُ الْقَائِلَةُ، فَنَزَلَ، فَقَالَ: تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَغَلَبَتْهُ عَیْنُهُ، وَانْسَلَّ بَعِیرُهُ، فَاسْتَیْقَظَ فَسَعَى شَرَفًا فَلَمْ یَرَ شَیْئًا، ثُمَّ سَعَى شَرَفًا ثَانِیًا فَلَمْ یَرَ شَیْئًا، ثُمَّ سَعَى شَرَفًا ثَالِثًا فَلَمْ یَرَ شَیْئًا، فَأَقْبَلَ حَتَّى أَتَى مَكَانَهُ الَّذِی قَالَ فِیهِ، فَبَیْنَمَا هُوَ قَاعِدٌ إِذْ جَاءَهُ بَعِیرُهُ یَمْشِی، حَتَّى وَضَعَ خِطَامَهُ فِی یَدِهِ، فَلَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ، مِنْ هَذَا حِینَ وَجَدَ بَعِیرَهُ عَلَى حَالِهِ

سماک سے مروی ہےنعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا تو کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہےجس نے اپنا زاد راہ اور مشکیزہ اونٹ پر لادا ہو پھر چل دیا یہاں  تک کہ کسی جنگل کی زمین میں  پہنچے جہاں  کھانااورپانی نہ ہو اور دوپہر کاوقت ہوجائے، وہ اتر کر ایک درخت کے نیچے سو جائے اوراس کی آنکھ لگ جائےاور اس کا اونٹ کسی طرف چلا جائے،وہ بیدار ہو کر ٹیلہ پر چڑھ کر دیکھے لیکن کچھ بھی نظر نہ آئے،پھر دوسری مرتبہ ٹیلہ پر چڑھے لیکن کچھ بھی نہ دیکھے،پھر تیسری مرتبہ ٹیلہ پر چڑھے لیکن کچھ بھی نظر نہ آئے،پھر وہ اسی جگہ واپس آجائے جہاں  وہ سویا تھا پھر جس جگہ وہ بیٹھا ہوا ہو اچانک وہیں  پر اونٹ چلتے چلتے پہنچ جائے یہاں  تک کہ اپنی مہار لا کر اس آدمی کے ہاتھ میں  دے دے، البتہ اللہ تعالیٰ کو بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنااونٹ نا امیدی کے عالم میں  پا لے۔ [14]

اور کیایہ اس کی محبت نہیں  کہ وہ ایک گناہ کی سزا اس کے مثل اورایک نیکی کی جزادس گناہ اوربڑھاتے ہوئے سترگناہ کر دیتاہے تاکہ انسان کسی طرح عذاب جہنم سے بچ جائے ،جیسے فرمایا

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ۝۰ۭ وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱ [15]

ترجمہ:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں  صرف کرتے ہیں  ان کے خرچ کی مثال ایسی ہےجیسے ایک دانا بویا جائے اور اس کے سات بالیاں  نکلیں  اور ہر بالی میں  سو دانے ہوں  ،اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے ،وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

وہی سلطنت کائنات کافرمانرواہے،اس سے سرکشی کرنے والااس کی پکڑسے بچ کرکہیں  پناہ حاصل نہیں  کرسکتا،وہ مالک کائنات بزرگ وبرترہے مگرانسان اس کے مقابلے میں  گستاخی کا رویہ اختیارکرتاہےحالانکہ وہ مالک الملک ہے، وہ جب کسی چیزکاارادہ کرتاہے تواسے کرگزرتاہے اورجب وہ کسی چیزکاارادہ کرتاہے تواسے کہہ دیتاہے ہوجاتووہ ہوجاتی ہے ،جیسے فرمایا

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۱۱۷ [16]

ترجمہ:وہ آسمانوں  اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہو جاتی ہے۔

۔۔۔اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۷ [17]

ترجمہ: وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہو جاتا ہے۔

اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۴۰ۧ [18]

ترجمہ:ہمیں  کسی چیز کو وجود میں  لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں  کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں  ہو جا اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [19]

ترجمہ:وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہوجا اور وہ ہو جاتی ہے۔

هُوَالَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ۝۰ۚ فَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَـقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۶۸ۧ [20]

ترجمہ:وہی ہے زندگی دینے والا، اور وہی ہے موت دینے والا ہے، وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہےبس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے سواکوئی ایسی ہستی نہیں  کہ وہ جوچاہے کرلے ،کوئی اس کی مشیت کوٹالنے والا،اس کے کسی فیصلے یاحکم پرگرفت کرنے یامزاحم ہونے والانہیں ،

عَنْ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ أَنَّهُ قِیلَ لَهُ وَهُوَ فِی مَرَضِ الْمَوْتِ:هَلْ نَظَرَ إِلَیْكَ الطَّبِیبُ؟قَالَ: نَعَمْ،قَالُوا: فَمَا قَالُ لَكَ؟قَالَ: قَالَ لِی: إِنِّی فَعَّالٌ لِمَا أُرِیدُ

مرض الموت میں  کسی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھاکیا کسی طبیب نے آپ کودیکھا؟انہوں  نے جواب دیاہاں ،پوچھااس نے کیا کہا؟فرمایااس نے کہاہے جوچاہوں  کروں ،میرے معاملے میں  کوئی دخل دینے والانہیں ۔ [21]

کیادعوت حق کوجھٹلانے والوں  کوسرکش فرعون اورثمودکے لشکروں  کی کوئی خبرنہیں پہنچی ہے ،جن کی طرف اللہ نے واضح نشانیاں  دے کر پیغمبربھیجے تھے ، مگر انہوں  نے فخروغرور اوراپنے معبودان باطلہ کی حمایت میں  دعوت اسلام کو جھٹلایا ، غروروسرکشی میں دعوت حق کامذاق اڑایا، جیسے فرمایا

وَفِیْ مُوْسٰٓى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۝۳۸فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝۳۹ [22]

ترجمہ:اور (تمہارے لیے نشانی ہے) موسیٰ کے قصے میں  جب ہم نے اسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجاتو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا یہ جادوگر ہے یا مجنوں  ہے۔

پاکیزہ دعوت کا مقابلہ کیا،جیسے فرمایا

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یٰمُوْسٰى۝۵۷فَلَنَاْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى۝۵۸ قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی۝۵۹فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَـجَمَعَ كَیْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى۝۶۰ [23]

ترجمہ: کہنے لگا اے موسیٰ علیہ السلام ، کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں  ویسا ہی جادو لاتے ہیں  ،طے کر لیے کب اور کہاں  مقابلہ کرنا ہے، نہ ہم اس قرارداد سے پھریں  گے نہ تو پھریو ،کھلے میدان میں  سامنے آجا،موسی علیہ السلام نے کہا جشن کا دن طے ہوا اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں ،فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں  آگیا۔

سیدھے راستے پرچلنے کی پاداش میں پیغمبروں  اوران کے پیروکاروں  پرانسانیت سوزمظالم ڈھائے ،جیسے فرمایا

قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا۔۔۔۝۱۲۹ۧ [24]

ترجمہ:اس کی قوم کے لوگوں  نے کہا تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں ۔

آخرایک وقت مقررہ پر اللہ نے ان پراپناعذاب نازل کر دیا جسے وہ خود افرادی طاقت و قوت رکھنے کے باوجود یاان کاکوئی معبودجس کی وہ جے پکارتے تھے ٹال نہ سکااورلمحوں  میں  پیوند خاک ہوگئے،مگراپنے چہار جانب ایسی قوموں  کے کھنڈرات دیکھ کرجن کواللہ نے کفروشرک اور معصیت کی بناپر صفحہ ہستی سے مٹادیاعبرت حاصل کرنے کے بجائے یہ بھی ان کے نقش قسم پرچل رہے ہیں  ، یہ بھی رسول کوجھٹلا رہے ہیں ،اللہ کے حکموں  کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں ،اہل ایمان پرظلم وستم کے پہاڑتوڑرہے ہیں ،مگریہ بھول گئے ہیں  کہ اللہ نے ان کواپنے علم اورقدرت سے احاطہ کیاہواہے ، جیسے فرمایا

اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ۝۱۴ۭ [25]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ تمہارارب گھات لگائے ہوئے ہے ۔

مگران لوگوں  کے جھٹلانے سے اس کلام کاکچھ نہیں  بگڑتا، بلکہ یہ کلام توبڑی شان وعظمتوں  اوربہت زیادہ علم وخیر والاہے اورلوح محفوظ میں  لکھاہوا ہے جس میں  اللہ تعالیٰ نے ہرچیزدرج کررکھی ہے ، یہ اس کی رفعت شان اورقدرومنزلت ہے کہ اللہ کے برگزیدہ فرشتے اس کی حفاظت پرمامورہیں ، اس لئے یہ شیاطین سے بھی محفوظ ہے اور اس میں  کوئی کمی یازیادتی نہیں  ہوسکتی، اوراللہ تعالیٰ حسب ضرورت واقتضا اسے نازل فرماتاہے۔

[1] مسنداحمد۲۳۹۳۱،صحیح مسلم کتاب الزھد والرقاق بَابُ قِصَّةِ أَصْحَابِ الْأُخْدُودِ وَالسَّاحِرِ وَالرَّاهِبِ وَالْغُلَامِ ۷۵۱۱،صحیح ابن حبان۸۷۳، البدایة والنہایة۱۵۳؍۲

[2] تفسیر ابن کثیر ۳۶۶؍۸

[3] تفسیرطبری ۳۳۸؍۲۴

[4] تفسیر ابن کثیر ۳۶۹؍۳

[5] الفرقان ۶۱

[6] ھود ۱۰۳

[7] المجادلة۶

[8] تفسیرابن کثیر۹۴؍۶

[9] محمد۱۵

[10] یٰسین۵۷

[11] آل عمران۱۸۵

[12] النسائ۱۴۷

[13] المائدة۵۴

[14] صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بَابٌ فِی الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا۶۹۵۸

[15] البقرة۲۶۱

[16] البقرة۱۱۷

[17] آل عمران۴۷

[18] النحل۴۰

[19] یٰسین۸۲

[20] المومن۶۸

[21] تفسیر ابن کثیر ۳۷۲؍۸، تفسیر القرطبی ۲۹۷؍۱۹

[22] الذاریات۳۸،۳۹

[23] طہ۵۷تا۶۰

[24] الاعراف۱۲۹

[25] الفجر۱۴

Related Articles