بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة ص

اس سورۂ میں  اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم کی قسم کھاکرفرمایا کہ یہ قرآن جسے تم تکبر،حسد اورجہالت کی بناپر ہمارانازل کردہ نہیں  مانتے سراپانصیحت ہے،جووہ شخص تمہارے سامنے پیش کررہاہے جوتمہارے قبیلے اوربرادری سے ہے ،جوبچپن سے لے کراب تک تمہارے سامنے رہاہے ،جس کے کردارکی تم خودگواہی دیتے ہوئے اوراسے صادق و امین کاخطاب دے چکے ہو،اگروہ تمہاری گمراہی و جہالت کے پردے کوچاک کر رہا ہے ،اورتمہاارے جاہلانہ تخیلات ،تمہاری خودپرستی ،تمہاری انانیت اس کی تعلیم کی پیروی کی اجازت نہیں  دیتی تویہ تمہاری بدبختی ہے ،تمہارے لیے بہترتویہ ہے پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت اورغم وغصہ کے اظہار کے بجائے اپنی ہی فلاح و بھلائی کے لئے اس کی دعوت حق کوقبول کرلو،اگرتم ایسانہیں  کرتے توتم چاہے ہمارے رسول سے استہزاء کرو،اس کوبرے ناموں  والقابات سے نوازو اس سے کچھ فرق نہیں  پڑے گامگرایک دن بلاآخروہ تم پرغالب ہوکررہے گااورتم سب اس کے آگے سرنگوں  نظرآؤ گے ،ابلیس ملعون کی رب کے سامنے بے جاہٹ دھرمی اورنافرمانی کے گناہ پر سزا اور آدم علیہ السلام کی لغزش اور پھراس پر فوراً توبہ کاذکرکرکے نصیحت فرمائی کہ الله کے ہاں  وہی لوگ ہی مقبول ہوتے ہیں  جو اپنے گناہوں  پرنادم ہوکررب سے اپنی بخشش ومغفرت چاہیں تاکہ ابلیس کی طرح اکڑ کر لعنت کے مستحق اورجہنم کاانیدھن بنیں  ، مزیدوضاحت کے لئے سابقہ انبیاء اصحاب الایکہ،قوم عادوثمود،فرعون اورابلیس کا ذکر فرمایا گیااورمتقی وجنتی لوگوں  کے تذکرے میں  نوح ،ابراہیم علیہ السلام ،لوط ، داود علیہ السلام ،سلیمان علیہ السلام ،اسحق ،یعقوب علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،ایوب علیہ السلام ،الیسع اورذوالکفل علیہ السلام کاذکرفرمایاگیا،عالم آخرت کانقشہ کھینچا گیاکہ جہنم میں  جہاں  نافرمان قوم کے علمبردار افراد اوران کے حواری سب جمع ہوں  گے اورایک دوسرے کوکوس رہے گے،اوران کی تکلیف میں  اس وقت مزیداضافہ ہوجائے گا جب آنکھیں  پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود وہ اس جہنم میں  ان لوگوں  کونہیں  پائیں  گے جن کے بارے میں  ان کاخیال یہ تھاکہ وہ لوگ کبھی بھی اچھائی اوربھلائی کے مستحق قرارنہیں  دیئے جائیں  گے ، اب صور ت حال اس کے بالکل ہی مخالف ہوگئی وہ لوگ رب کی نعمتوں  سے سرفراز ہوں  گے اوریہ جواپنے بارے میں  خوش گمانیوں  میں  گرفتارتھے رب کے ہولناک عذاب میں  مبتلاہوں  گے، اخلاق حسنہ کے ضمن میں  ایمان ، عمل صالح کی عظمت وفضیلت ترغیب دینے کے لئے بیان کی گئی،اوراس کے برعکس بے جافخروغروروتکبر،ظلم،کفراوربدبختی کی شدید مذمت کی گئی ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّكْرِ ‎﴿١﴾‏ بَلِ الَّذِینَ كَفَرُوا فِی عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ ‎﴿٢﴾‏ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِینَ مَنَاصٍ ‎﴿٣﴾‏(ص)
’’ص ! اس نصیحت والے قرآن کی قسم! بلکہ کفار غرور و مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ، ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا، انہوں نے ہرچند چیخ پکار کی لیکن وہ وقت چھٹکارے کا نہ تھا۔‘‘

ص ، قسم ہے قرآن کریم کی جوسراسرنصیحت ہے ،کفارمکہ جنہوں  نے اس نصیحت سے لبریزقرآن اور واضح دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے ،اور مخالفت اورمخاصمت پر کمر باندھ رکھی ہے اس کی اصل وجہ دعوت اسلام کاکوئی نقص یا خلل نہیں  ہے ، اورنہ ہی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اظہارحق میں  کوئی کوتاہی کی ہے بلکہ اس کی وجہ ان کی جاہلانہ نخوت وتکبر،ضدوہٹ دھرمی ،بغض وحسداوراپنے آباؤ اجدادکی اندھی تقلید پر اصرار ہے،یہ لوگ اپنے تعصبات میں  اس کے لئے تیارنہیں  ہیں  کہ اپنی ہی قوم وبرادری کے ایک آدمی کواللہ کارسول مان کراس کی اطاعت قبول کر لیں ،یہ انہی مشرکانہ رسم ورواج پر جمے رہناچاہتے ہیں ،انہی ظلمتوں  میں  ڈوبے رہناچاہتے ہیں  جن پرانہوں  نے اپنے آباؤ اجداد کوپایاہے ،اورجب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے جاہلیت وگمراہی کوطشت ازبام کرکے اصل حقیقت کوپیش کرتے ہیں  تویہ اسے عجیب ،نرالی اورانہونی بات قرار دیتے ہیں ،قرآن کی تعلیمات پر جوسراسرعبرت اور نصیحت ہیں  غوروفکرکرنے کے بجائے توحید،رسالت اور آخرت کا مذاق اڑاتے ہیں ،اللہ نے کتنی ہی قوموں  کوحق سے کفروتکذیب کی وجہ سے تہہ وبالا کردیاجوان سے زیادہ مضبوط اورقوت والے تھے، جب ان پراللہ کاعذاب نازل ہواتواس مشکل گھڑی میں چیخ و پکارکرنے اورعذاب کوٹالنے کی التجائیں  کرنے لگے ، معبودان باطلہ کوچھوڑکراللہ وحدہ لاشریک کومددکے لئے پکارا،کفرومعصیت سے توبہ اور توحیدکی قبولیت پرآمادگی ظاہرکی، جیسے فرمایا

فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَـنَآ اِذَا ہُمْ مِّنْہَا یَرْكُضُوْنَ۝۱۲ۭلَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِیْہِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــَٔـلُوْنَ۝۱۳ [1]

ترجمہ:جب ان کو ہمارا عذاب محسوس ہوا تو لگے وہاں  سے بھاگنے(کہا گیا) بھاگو نہیں ، جاؤ اپنے انہی گھروں  اور عیش کے سامانوں  میں  جن کے اندر تم چین کر رہے تھے، شاید کہ تم سے پوچھا جائے۔

لیکن وہ وقت عذاب سے گلو خلاصی اوراس کودورکرنے والا نہیں  تھاکیونکہ جب مہلت کی گھڑیاں  ختم ہوجاتی ہیں  اور اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا ہے اس وقت نہ ایمان نافع ہوتاہے ااورنہ کوئی بھاگ کرعذاب سے بچ سکتاہے۔

وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ‎﴿٤﴾‏ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ ‎﴿٥﴾‏ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَیْءٌ یُرَادُ ‎﴿٦﴾(ص)
’’اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آگیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے، کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کردیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے، ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے۔‘‘

بشررسول پرتعجب :

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت عام کی ابتداکی اورمکہ مکرمہ میں  پے درپے یہ خبریں  پھیلنی شروع ہوگئی تھیں  کہ آج فلاں  آدمی مسلمان ہوااورکل فلاں ،اس وقت تقریباً۲۵ سرداران قریش جن میں  ابوجہل،ابوسفیان،امیہ بن خلف،عاص بن وائل،اسودبن المطلب،عقبہ بن ابی معیط،عتبہ اورشیبہ شامل تھے ،ابوطالب کے پاس پہنچے اوراپنی شکایات بیان کیں ،پھرکہاہم آپ کے سامنے ایک انصاف کی بات پیش کرتے ہیں ،آپ کابھتیجاہمیں  ہمارے دین پرچھوڑدے اورہم اسے اس کے دین پرچھوڑ دیتے ہیں ،وہ جس معبود کی عبادت کرناچاہے کرے ہمیں  اس سے کوئی تعرض نہیں  مگروہ ہمارے معبودوں  کی مذمت نہ کرے اوریہ کوشش نہ کرتاپھرے کہ ہم اپنے معبودوں  کو چھوڑ دیں ،اس شرط پرآپ ہم سے اس کی صلح کرادیں ،ابوطالب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہابھتیجے،یہ تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں ان کی خواہش ہے کہ تم ایک منصفانہ بات پران سے اتفاق کرلوتاکہ تمہارااوران کاجھگڑاختم ہوجائے ،پھرانہوں  نے وہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتائی جوسرداران قریش نے ان سے کہی تھی

قَالَ:یَا عَمِّ أُرِیدُهُمْ عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ تَدِینُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی الْعَجَمُ إِلَیْهِمْ الْجِزْیَةَ ، قَالَ: مَا هِیَ؟ قَالَ:لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ فَقَامُوا: فَقَالُوا: أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا؟ قَالَ: وَنَزَلَ: {ص وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّكْرِ} ، فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ: {إِنَّ هَذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ} [2]

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں  فرمایا چچا جان ! میں  توان کے سامنے ایک ایساکلمہ پیش کرتاہوں  جسے اگریہ مان لیں  توعرب ان کاتابع فرمان اورعجم ان کاباج گزارہوجائے ،یہ سنکرپہلے تووہ لوگ سٹپٹائے،ان کی سمجھ میں  نہ آتاتھاکہ آخرکیاکہہ کرایسے مفیدکلمے کوردکردیں ،پھرابوجہل سنبھل کربولا تم ایک کلمہ کہتے ہوہم ایسے دس کلمے کہنے کوتیارہیں مگر یہ تو بتاؤ کہ وہ کلمہ کیاہے؟آپ نے فرمایااس بات کااقرارکرلوکہ اللہ کے سواکوئی الٰہ نہیں  ہے، اس پروہ سب یکبارگی اٹھ کھڑے ہوئے اوربڑبڑاتے ہوئے کیاہم سارے معبودچھوڑکرصرف ایک اللہ کواختیارکرلیں  ابوطالب کی مجلس سے نکل گئے،اس پریہ آیات نازل ہوئیں ’’کیااس نے سارے الٰہوں  کی جگہ بس ایک ہی الٰہ بناڈالا؟یہ توبری عجیب بات ہے۔‘‘ [3]

اس واقعہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایایہ منکرین حق رب کی رحمت کاشکرکرنے کے بجائے اس بات پرتعجب کرتے ہیں کہ ایک آدمی جوانہی کی طرح کاایک بشر ہے ، جوانہی کی قوم وبرادری سے تعلق رکھتا اورانہی کی زبان بولتاہے،جس کی سیرت وکردارکویہ اچھی طرح جانتے اورصادق وامین کالقب دے چکے ہیں ، ان کواللہ کے دردناک عذاب سے خبردارکرنے کے لئے مبعوث کیاگیاہے،ہرگزنہیں ،کوئی انسان کبھی منصب نبوت پرفائزنہیں  ہوسکتا،یہ شخص جادوگراوراپنے دعویٰ رسالت میں  جھوٹاہے ،جیسےفرمایا

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭؔ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ۝۲ [4]

ترجمہ: کیا لوگوں  کے لیے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خودانہی میں  سے ایک آدمی پروحی بھیجی کہ(غفلت میں  پڑے ہوئے)لوگوں  کوچونکادے اور جومان لیں  ان کوخوش خبری دے دے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچی عزت وسرفرازی ہے(اس پر)منکرین نے کہاکہ یہ شخص توکھلاجادوگرہے۔

اوراللہ کی وحدانیت پربھی تعجب کرتے ہیں  کہ تین سوساٹھ معبودوں  کے بجائے ایک ہی اللہ اس عظیم الشان کائنات کونظام چلانے والاہےجس کاکوئی شریک نہیں اوروہی اکیلا عبادت اورنذرونیازکامستحق ہے،یہ تو بڑی عجیب بات ہے، اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دوررہواس کی زبان سے متاثرہوکرجوشخص ایک باراس کلمہ پر ایمان لے آتاہے توپھروہ جان پر کھیل جانے ، ساری برادری اور دنیا بھر سے کٹ جانے اورسخت سے سخت جسمانی اذیتیں  اورہرمصیبت برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے مگراس کلمہ کوچھوڑنے پرراضی نہیں  ہوتا، محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی دعوت پرتوجہ نہ دواور اپنے مشرکانہ آبائی دین پرڈٹ جاؤ ،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو دعوت دے رہے ہیں  اس کامقصداس کے سوا اور کچھ نہیں  ہے کہ ہم ان کے تابع فرمان ہوجائیں  اوروہ ہم پرحکم چلائیں ۔

مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِی الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ‎﴿٧﴾‏ أَأُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَیْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِی شَكٍّ مِنْ ذِكْرِی ۖ بَلْ لَمَّا یَذُوقُوا عَذَابِ ‎﴿٨﴾(ص)
’’ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے، کیا ہم سب میں سے اسی پر کلام الٰہی کیا گیا ہے ؟ دراصل یہ لوگ میری وحی کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ (صحیح یہ ہے کہ) انہوں نے اب تک میرا عذاب چکھا ہی نہیں ۔‘‘

اب محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے ہم ایک نرالی بات سن رہے ہیں  کہ پوری کی پوری کائنات بس ایک اکیلے اللہ ہی کی ہے اور تمام کی تمام طاقتیں ،قدرتیں  اور اختیارات صرف اورصرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت میں  ہیں ، ہمارے معبودوں  میں  کسی کوبھی اللہ کی الوہیت میں  کوئی حصہ نہیں  یہ سب باتیں  اس کی من گھڑت ہیں ہم نے یہ بات یہود و نصاریٰ ، مجوسی اورقریب کے زمانے کی ملت میں  کسی سے نہیں  سنی اورنہ اپنے آباؤ اجدادکواس پرعمل کرتے پایاہے، اور عیسائی بھی عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کی الوہیت میں  شریک تسلیم کرتے ہیں  ، اور لوگوں  کاایک جم غفیر اپنی ضروریات کے لئے ہمارے معبودوں  کے آستانوں  پرجاکرماتھارگڑتا ہے،وہ ان کی خوشنودی کے لئے نذرونیازپیش کرتے ہیں  ، اپنی مشکلات وپریشانیوں  میں  انہیں  پکارتے ہیں  اور ان کی مرادیں برآتی ہیں ،کائنات میں ان کے تصرف کوایک دنیامان رہی ہے ،اس لئے اسی راستے پرچلتے رہوجس پر تمہارے آباؤ اجدادچلتے رہے ہیں  ،وہی حق ہے اورجس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں  وہ جھوٹ اورافتراپردرازی کے سواکچھ نہیں  ہے ،اوراللہ کے انتخاب میں  کیڑے نکالنے کے لئے کہتے کہ مکہ اورطائف میں  بڑے بڑے نامورسردار،جاگیرداراوررئیس ہیں ،اگراللہ کسی کونبی بناناچاہتاتوان میں  سے کسی کوبنادیتا،جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوان پرکوئی فضیلت حاصل نہیں  توان سب کوچھوڑکروحی ورسالت کے لئے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انتخاب بڑا عجیب مسئلہ ہے ،

قوم صالح علیہ السلام نے بھی اپنے نبی سے یہی کہاتھا

ءَ اُلْقِیَ الذِّكْرُ عَلَیْہِ مِنْۢ بَیْنِنَا بَلْ ہُوَكَذَّابٌ اَشِرٌ۝۲۵ [5]

ترجمہ:کیاہمارے درمیان بس یہی ایک شخص تھا جس پراللہ کاذکرنازل کیاگیاہے؟نہیں  بلکہ یہ پرلے درجے کاجھوٹااوربرخودغلط ہے۔

اس کے جواب میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اَہُمْ یَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ۝۰ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا۝۰ۭ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۳۲ [6]

ترجمہ:کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں  ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں ، اور ان میں  سے کچھ لوگوں  کو کچھ دوسرے لوگوں  پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں  اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں  ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ آپ پرشک نہیں  کررہے کیونکہ آپ کی راست گوئی اورعقل سلیم کے یہ گواہ ہیں  دراصل یہ بغیرعلم اوردلیل کے میرے پیغام پرشک کررہے ہیں  جس میں  نمایاں  دعوت توحید اور آخرت ہے،جیسے فرمایا

قَدْنَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللهِ یَجْحَدُوْنَ۝۳۳ [7]

ترجمہ:اے نبی!ہمیں  معلوم ہے کہ جوباتیں  یہ لوگ بناتے ہیں  ان سے تمہیں  رنج ہوتا ہے ، لیکن یہ لوگ تمہیں  نہیں  جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کاانکارکررہے ہیں ۔

انہیں  ایسی باتیں  کہنے کی جرات اس لئے ہوئی کہ وہ آخرت سے بے خوف ہو کر دنیامیں  مزے اڑارہے ہیں  اور انہوں نے ابھی تک اللہ کے عذاب کامزہ چکھاہی نہیں  ہے اگراس عذاب کاادنیٰ سامزہ بھی چکھ لیتے توہماری دعوت کی تکذیب ہرگز نہ کرتے ، اورجب یہ اپنے بغض وعناداور اپنی ہٹ دھرمی کا مزہ چکھیں  گے تواس وقت نہ ان کی تصدیق کام آئے گی اورنہ ایمان ہی کوئی فائدہ دے گا۔

أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِیزِ الْوَهَّابِ ‎﴿٩﴾‏ أَمْ لَهُمْ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ۖ فَلْیَرْتَقُوا فِی الْأَسْبَابِ ‎﴿١٠﴾‏ جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزَابِ ‎﴿١١﴾‏ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ ‎﴿١٢﴾‏ وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَیْكَةِ ۚ أُولَٰئِكَ الْأَحْزَابُ ‎﴿١٣﴾‏ إِنْ كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ ‎﴿١٤﴾(ص)
’’یا کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں یا کیا آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کی بادشاہت ان ہی کی ہےتو پھر رسیاں تان کر چڑھ جائیں ، یہ بھی (بڑے بڑے) لشکروں میں سے شکست پایا ہوا (چھوٹا سا) لشکر ہے، ان سے پہلے بھی قوم نوح اور عاد اور میخوں والے فرعون نے جھٹلایا تھا اور ثمود نے اور قوم لوط نے اور أیکہ کے رہنے والوں نے بھی یہی (بڑے) تھے، ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے رسولوں کو نہیں جھٹلایا پس میری سزا ان پر ثابت ہوگئی۔‘‘

یہ اپنی حماقت کے غرہ میں  کہتے ہیں  کہ اللہ کی رحمت ان کے بڑے بڑے سرداروں ،جاگیرداروں  اوررئیسوں  میں  سے کسی پرنازل کیوں  نہیں  ہوئی ،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَـتَیْنِ عَظِیْمٍ۝۳۱ [8]

ترجمہ:کہتے ہیں  یہ قرآن دونوں  شہروں (مکہ اورطائف) کے بڑے آدمیوں  میں  سے کسی پر کیوں  نہ نازل کیا گیا ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیااللہ کی رحمت کے خزانے (جن میں  نبوت بھی ہے ) ان کے قبضہ قدرت میں  ہیں  کہ جس کوچاہیں  عطاکریں  اورجس کونہ چاہیں  اس رحمت سے محروم کر دیں ،جیسے فرمایا

اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا۝۵۳ۙاَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰىھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ۔۔۔۝۰۝۵۴ [9]

ترجمہ:کیاحکومت میں  ان کاکوئی حصہ ہے؟اگر ایساہوتا تو یہ دوسروں  کوایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے،پھرکیایہ دوسروں  سے اس لیے حسدکرتے ہیں  کہ اللہ نے انہیں  اپنے فضل سے نوازدیا؟۔

ایک مقام پرفرمایا

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْـیَةَ الْاِنْفَاقِ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۝۱۰۰ۧ [10]

ترجمہ:اے نبی! ان سے کہواگرکہیں  میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں  ہوتے توتم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضروران کوروکے رکھتے، واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔

کفارمکہ باربارکہتے تھے کیاہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیاتھاجس پر اللہ کاذکرنازل کردیاگیا ، اللہ تعالیٰ نے جواب دیاکہ اللہ کافضل اوراس کی رحمت ان کے قبضہ قدرت میں  نہیں  کہ جسے چاہیں  دیں  اورجسے چاہیں  روک دیں  بلکہ اپنے کبھی ختم نہ ہونے والے خزانوں  کا مالک وہی الوھاب ہے جوبہت دینے والاہے، توپھرانہی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی رسالت کاانکارکیوں  کررہے ہو جسے اس نوازنے والے رب نے اپنی رحمت خاص سے نوازاہے،اور کیایہ منکرین آسمان وزمین اوران کے درمیان کی چیزوں  کے مالک ہیں  ؟اگرایساہے توپھر یہ عالم اسباب کی بلندیوں  پرچڑھ کردیکھیں !مگران کی قبضہ قدرت میں  کچھ بھی نہیں  ہے،یہ توبڑے بڑے جتھوں  میں  سے ایک چھوٹاساجتھہ ہے جواسی شہرمکہ مکرمہ میں  ایک دن شکست فاش کھانے والاہے،جیسے فرمایا

سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۝۴۵ [11]

ترجمہ:عنقریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں  گے۔

اوریوسف علیہ السلام کے بھائیوں  کی طرح شرمندگی سے اس کے سامنے منہ لٹکائے کھڑے ہوں  گے، سابقہ اقوام کاتذکرہ کرکے متنبہ فرمایا ان لوگوں  سے پہلے قوم نوح ، قوم عاد ،قوم ثمود،قوم شعیب علیہ السلام ،قوم لوط،ایکہ والے اورمضبوط سلطنت والا فرعون اس پاکیزہ دعوت کوجھٹلاچکے ہیں ،جب اللہ نے ان کی ہدایت ورہنمائی کے لیے رسول مبعوث فرمائے تو کثرت مال واولاد،افرادی قوت وطاقت اورذرائع ووسائل کے فخرو غرورمیں  انہوں  نے ایک بشرکورسول تسلیم کرنے سے انکارکردیا، اللہ کی نازل کردہ تعلیمات کامذاق اڑایا،حیات بعدالموت اوراعمال کی جزاوسزاکوایک دیوانے کی بڑقراردیا، اپنی طاقت،افرادی قوت اوردنیاوی سازوسامان کودعوت حق کاراستہ روکنے اور نیچادکھانے کے لئے جمع کیااور مشرکانہ روش میں  بد مست رہے ،بالآخران کی تکذیب اور معصیت کی بدولت اللہ کاعذاب ان پرنازل ہوکررہا،پھرکوئی دنیاوی طاقت اوران کے باطل معبود ان کے کچھ کام نہ آئے اوروہ پیوندخاک ہوگئے۔

وَمَا یَنْظُرُ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا صَیْحَةً وَاحِدَةً مَا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ ‎﴿١٥﴾‏ وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّلْ لَنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ‎﴿١٦﴾‏(ص)
’’انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار ہے جس میں کوئی توقف (اور ڈھیل) نہیں ہے، اور انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب ! ہماری سر نوشت تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی دے دے ،آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا ، یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔‘‘

یہ لوگ بھی بس صورپھونکنے کے منتظرہیں  جس کے بعدقیامت کازلزلہ برپاہوجائے گا،اللہ کاعذاب توایسادردناک ہوتاہے کہ جب کسی قوم پرنازل ہوتاہے توپھروہ قوم عبرت کی یادگاربن جاتی ہے اوریہ لوگ جنہیں  اللہ کاعذاب نہیں  پہنچا،وقوع قیامت کوناممکن اورعذابوں  کومحال سمجھتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استہزااورتمسخرکے طورپر کہتے ہیں  کہ جس یوم الحساب سے تم ہمیں  ہروقت ڈراتے رہتے ہواس کے وقوع ہونے تک ہمارے معاملے کونہ ٹالوبلکہ ہماراحساب دنیامیں  ہی چکتاکردوتاکہ ہمارے حصے کی جواچھی یا بری سزا لکھی ہے وہ فوراًہی ہوجائے، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ آپ کوساحراورکذاب کہتے ہیں  ،آپ کی رسالت پرشک وشبہ کرتے ہیں  ،آپ کی نیت پرالزام لگاتے ہیں ،پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح پہلے انبیاء ومرسلین نے صبرکیاآپ بھی ان کی تکذیب اورتمسخر پر صبر کریں بہت جلدانہیں  معلوم ہوجائے گاکہ کون حق پرتھااورکون باطل پر،جیسےفرمایا

فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَــقُوْلُوْنَ وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا۝۰ۚ وَمِنْ اٰنَاۗیِٔ الَّیْلِ فَسَبِّــحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى۝۱۳۰ [12]

ترجمہ: جو باتیں  یہ لوگ بناتے ہیں  ان پرصبرکریں  اوراپنے رب کی حمدوثناکے ساتھ اس کی تسبیح کروسورج نکلنے سے پہلے اورغروب ہونے سے پہلے،اوررات کے اوقات میں  بھی تسبیح کرو اوردن کے کناروں  پربھی ،شایدکہ تم راضی ہوجاؤ ۔

اوراللہ کے برگزیدہ بندے داود علیہ السلام کی عظمت کاذکرکریں  جواللہ کی عبادت کے لئے اپنے قلب وبدن میں  عظیم طاقت رکھتے تھے ،اورمحبت ،خوف ،امید،کثرت گریہ زاری اورکثرت دعاکے ساتھ اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے ،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَى اللهِ صَلاَةُ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، وَأَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَى اللهِ صِیَامُ دَاوُدَ، وَكَانَ یَنَامُ نِصْفَ اللیْلِ وَیَقُومُ ثُلُثَهُ وَیَنَامُ سُدُسَهُ ، وَیَصُومُ یَوْمًا، وَیُفْطِرُ یَوْمًا وَلَا یَفِرُّ إِذَا لَاقَى

عبداللہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کوسب سے زیادہ محبوب نمازداود علیہ السلام کی نمازاورسب سے زیادہ محبوب روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں ، وہ نصف رات جاگتے پھراٹھ کر رات کاتہائی حصہ قیام کرتےاورپھراس کے چھٹے حصے میں  سوجاتے، ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن ناغہ کرتے، اور دشمن سے سامنا ہونے پر بھاگتے نہیں  تھے۔ [13]

اور ہرحال میں  اپنے رب کی طرف رغبت ورجوع رکھتے تھے۔

اصْبِرْ عَلَىٰ مَا یَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَیْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ ‎﴿١٧﴾‏ إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْإِشْرَاقِ ‎﴿١٨﴾‏ وَالطَّیْرَ مَحْشُورَةً ۖ كُلٌّ لَهُ أَوَّابٌ ‎﴿١٩﴾‏ وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَیْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ‎﴿٢٠﴾‏(ص)
’’ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں ، اور پرندوں کو بھی جمع ہو کر، سب کے سب اس کے زیر فرمان رہتے، اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کردیا تھا اور اسے حکومت دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا۔‘‘

ہم نے پہاڑوں  کوداود علیہ السلام کے ساتھ مسخرکررکھاتھااور وہ اشراق اوردن کے آخری پہر میں  اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے،ان اوقات میں اڑتے ہوئے پرندے بھی سمٹ آتے اور سب کے سب اس کی تسبیح کاساتھ دیتے تھے ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا۝۰ۭ یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَالطَّیْرَ۔۔۔ ۝۱۰ۙ [14]

ترجمہ:ہم نے داود علیہ السلام کواپنے ہاں  سے بڑافضل عطا کیاتھا(ہم نے حکم دیاکہ)اے پہاڑو!اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو(اوریہی حکم ہم نے)پرندوں  کودیا۔

ہم نے اس کو عظیم سلطنت اوراقتدارعطاکیااوراس کی سلطنت کو افرادی قوت،دنیاوی سازوسامان اورروحانی اسباب کے ذریعے سے مستحکم کردیاتھا،

عَن مُجَاهِد رَضِی الله عَنهُ {وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ ، قَالَ: عَنْ مُجَاهِدٍ: كَانَ أَشَدَّ أَهْلِ الدُّنْیَا سُلْطَانًا

مجاہد رحمہ اللہ سے آیت کریمہ ’’اورہم نے اس کی سلطنت کومضبوط کردیاتھا۔‘‘ کے بارے میں  قول ہے اہل دنیامیں  سب سے زیادہ مضبوط بادشاہت آپ کی تھی۔ [15]

اس کونبوت وحکمت عطاکی تھی،

عن السدیّ، قوله (وَآتَیْنَاهُ الْحِكْمَةَ)قال: النبوّة

سدی کاآیت کریمہ ’’ اس کو حکمت عطا کی تھی۔‘‘کے بارے میں قول ہے یہاں  حکمت سے مرادنبوت ہے۔ [16]

اورلوگوں  کے باہمی جھگڑوں  میں  فیصلہ کن بات کہنے کاملکہ بخشاتھا،

عَنْ شُرَیْحٍ، أَنَّهُ قَالَ فِی قَوْلِهِ: وَفَصْلَ الْخِطَابِ،قَالَ:بَیِّنَةَ الْمُدَّعِی، أَوْ یَمِینَ الْمُدَّعَى عَلَیْهِ

قاضی شریح رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’ اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی ۔‘‘ سے مرادہے فیصلے کے لیے گواہوں  اورقسموں  کاطریقہ سکھایا۔ [17]

وَقَالَ قَتَادَةُ: شَاهِدَانِ عَلَى الْمُدَّعِی أَوْ یَمِینُ الْمُدَّعَى عَلَیْهِ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں  یہ سکھایاکی مدعی دوگواہ پیش کرے یامدعاعلیہ قسم پیش کرے۔ [18]

وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ‎﴿٢١﴾‏ إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ ‎﴿٢٢﴾‏ إِنَّ هَٰذَا أَخِی لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِیَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِیهَا وَعَزَّنِی فِی الْخِطَابِ ‎﴿٢٣﴾(ص)
’’اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے ،جب یہ (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، پس یہ ان سے ڈر گئے، انہوں نے کہا خوف نہ کیجئے ! ہم دو فریق مقدمہ ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، پس آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور ناانصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتا دیجئے، (سنیئے) یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس نناوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے لیکن یہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اپنی یہ ایک دنبی بھی مجھ ہی کو دے دے اور مجھ پر بات میں بڑی سختی برتتا ہے ۔‘‘

صبروتحمل کی آزمائش :

داود علیہ السلام الله تعالیٰ کی بڑی کثرت سے عبادت کرنے والے بندے تھے ،وہ رب کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے کثرت سے روزے رکھتے،آپ علیہ السلام کاروزہ رکھنے کاطریقہ کار یہ تھاکہ ایک دن چھوڑکردوسرے دن روزہ رکھتے، اور دن میں بادشاہت کے کاموں ،لوگوں  کے فیصلوں  ،بنی اسرائیل کووعظ ونصیحت اورمشرک قوموں  سے جہاد سے فارغ ہوکررات کو ایک علیحدہ کمرے میں  جس پرپہرے دار متعین ہوتے تاکہ اند ر آکرکوئی ان کی عبادت میں  مخل نہ ہو یکسوہوکر الله تعالیٰ کی عبادت میں  منہمک ہوجاتے، ایک رات جب وہ بالاخانے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضورجھکے ہوے تھے کہ اچانک دو جھگڑا کرنے والے اشخاص جن کی دیدہ دلیری کایہ عالم تھا کہ بادشاہ وقت سے کوئی خوف وخطر محسوس نہ کرتے ہوئے پہرے داروں  کی آنکھوں  سے بچ کرپیچھے سے دیوارپھاندکر اندرآگئے اور دندناتے ہوئے عبادت خانے میں  اندرگھس آئے ،داود علیہ السلام اپنے رب کی حمدوثنامیں  مشغول تھے ،ان کے وہم وگمان میں  بھی نہیں  تھاکہ کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیرانہیں  اس عبادت گاہ میں  آکرمخل کرے گا،اس لئے داود علیہ السلام ظاہری اسباب اور بشری طبعی تقاضاسے اچانک ان دونوں  جھگڑنے والوں  کو اپنے سامنے دیکھ کرگھبراگئے ، داود علیہ السلام کی گھبراہٹ محسوس کرکے دونوں  اشخاص بولے آپ گھبرائیے نہیں  ، اصل میں ہم دونوں  میں  جو فریق مقدمہ ہیں  جھگڑاہوگیاہے اوریقیناًایک فریق نے دوسرے پرکچھ ذیادتی کی ہے اس لیے ہم آپ سے فیصلہ کرانے حاضر ہوئے ہیں  ،آپ ناانصافی نہ کرتے ہوئے حق کے ساتھ ہمارے جھگڑے کا فیصلہ فرمائیں اورساتھ ہی سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی فرمائیں (ان کا انداز تخاطب بھی غصہ دلانے والاتھا)مگر داود علیہ السلام نے رب کی بخشی ہوئی توفیق سے ان جھگڑنے والوں  کا کمرہ عبادت میں داخل ہونے کے طریقہ کاراورعبادت کے مخصوص اوقات میں  آ کرمخل ہونے اور ان کی بات کرنے کے انداز پر کمال صبروتحمل کامظاہرہ کیااور مشتعل نہ ہوئے،اب ان دونوں  اشخاص میں  سے ایک نے مقدمہ داود علیہ السلام کی عدالت میں  پیش کیا اور کہنے لگاکہ یہ شخص میرادینی بھائی ،دوست یاشریک کاروبارہے، اس کے پاس ننانوے (۹۹) دنبیاں  ہیں  ،جس طرح اس کے پاس مجھ سے زیادہ مال ہے اسی طرح یہ مجھ سے ذہن و زبان کابھی تیزہے ،اوراپنی تیزطراری کی وجہ سے لوگوں  کواپنی غلط بات کابھی قائل کرلیتاہے ،اب اس شخص نے اپنی زبان کی تیزی وطراری نے مجھے دبالیاہے اورمجھ سے سختی سے مطالبہ کررہاہے کہ میں  اپنی ایک دنبی بھی اس کے حوالے کردوں  ،اورمیں  اپنے اندراتنی سکت نہیں  رکھتاکہ اس کے مطالبے کوردکرسکوں ، دوسراشخص جس کے خلاف مدعی بیان دے رہاتھا محض کھڑامقدمہ سنتارہااوراس کی تردیدمیں  کچھ نہ بولا،اس پرداود علیہ السلام نے یہ رائے قائم کی کہ واقعہ یہی ہے جویہ شخص بیان کررہاہے۔

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِیرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَیَبْغِی بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِیلٌ مَا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩ ‎﴿٢٤﴾‏ فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ ‎﴿٢٥﴾(ص)
’’آپ نے فرمایا اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے، اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں ،اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گرپڑے اور( پوری طرح) رجوع کیا، پس ہم نے بھی ان کا وہ (قصور) معاف کردیا، یقیناً وہ ہمارے نزدیک بڑے مرتبہ والے اور بہت اچھے ٹھکانے والے ہیں ۔‘‘

مقدمہ میں  مدعی کایک طرفہ بیان سن کرداود علیہ السلام نے اپنی رائے کااظہار کر دیا اورمدعاعلیہ کی بات سننے کی حاجت ہی نہ سمجھی کہ تیرایہ بھائی تجھ سے تیری ایک دنبی مانگ کرتم پرظلم کر رہا ہے،اورحقیقت یہ ہے کہ انسانوں  میں  یہ کوتاہی عام ہے، اکثرشریک کاروبار اپنے ساتھیوں  پرایسی زیادتی کرتے ہی رہتے ہیں  اور کوشش کرتے ہیں  کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہڑپ کرجائیں ،البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان جن کے دلوں  میں  اللہ تبارک وتعالیٰ کاخوف ہوتاہے کہ وہ ان کے اعمال دیکھ رہااوراس کے مقررہ فرشتے ان کے اعمال لکھ رہے ہیں ، اورجن کویہ یقین کامل ہوتاہے کہ مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہوکرروزقیامت رب کے حضورحساب دیناہے،جہاں  ذرہ ذرہ کاانصاف کیاجائے گااس لئے اہل ایمان رب سے ڈرتے ہوئے اپنے اعمال پرنگاہ رکھتے اورعمل صالحہ اختیارکرتے ہیں  ،کسی پرظلم وزیادتی کرنااوردوسروں  کامال ہڑپ کرجانے کی سعی کرناان کے مزاج میں  شامل نہیں  ہوتا،ایسے بلندکردار الله سے ڈرنے والے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ۝۱۳ [19]

ترجمہ:میرے بندوں  میں  کم ہی شکر گزار ہیں  ۔

اپنے رب کی خوشنودی کے حصول کے لئے اس کی راہ میں  اپنی پاکیزہ کمائی غریبوں ، یتیموں ،مسکینوں ،مسافروں  ،قیدیوں اورضرورت مندوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں  ،اپنی رائے کے اظہارکے دوران ہی داود علیہ السلام سمجھ گئے کہ الله تعالیٰ نے اس مقدمہ کے ذریعہ ان کے صبروتحمل کی آزمائش کی ہے ،ان لوگوں  کے طریقہ کارکی وجہ سے داود علیہ السلام کے دل میں  طبعی ناگواری کاجوہلکاسابھی احساس پیداہواتھاانہوں  نے اسے اپنی کوتاہی پرمحمول کیااورمذمت کااحساس ہوتے ہی پوری طرح الله تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرلیااور فوراًبارگاہ الٰہی کے حضور سجدے میں گرکر گڑگڑانے اور توبہ واستغفارکرنے لگے۔ [20]

غفورو رحیم رب نے جواپنے بندوں  کی کوتاہیوں  اورلغزشوں  پرتوبہ بشرطیکہ خلوص نیت سے کی گئی ہو قبول کرتاہے داود علیہ السلام کی کوتاہی کومعاف فرمادیا، اور دنیاوآخرت میں  ان کوجوبلند مقام حاصل تھا اس کوبرقرارفرمایا۔

یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِینَ یَضِلُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَابِ ‎﴿٢٦﴾ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ‎﴿٢٧﴾ (ص)‏
’’ اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنادیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی، یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے،اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا، یہ گمان تو کافروں کا ہے، سو کافروں کے لیے خرابی ہے آگ کی۔‘‘

اور انہیں  نصیحت فرمائی اے داود علیہ السلام !ہم نے اپنی زمین میں  تمہیں خلیفہ اس لئے بنایا ہے کہ تم ہماری زمین پرفتنہ و فسادکومٹانے کی کوشش کرو،فتنہ وفساداس وقت بڑھتااورابلیس خوشی سے اس وقت ننگاہوکرناچتاہے جب عدل وانصاف کی موت واقع ہوجاتی ہے ،جب سچے شخص کوسچائی کے باوجودپابندسلاسل اورجھوٹے کواس کے مال ودولت اورمرتبہ کی وجہ سے احترام کیاجاتاہے ،اے داود علیہ السلام ! انصاف کاصرف ایک ہی طریقہ ہے کہ جب انصاف کرنے لگوتولوگوں  کے درمیان چاہے وہ تمہارے عزیزواقارب،دوست ہوں  یا بلند مرتبہ حکومتی اہل کارو امراء حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرو،اس وقت یہ نہ دیکھوکہ تمہارے سامنے کوئی غریب محتاج جسے بولنے کا سلیقہ بھی نہ آتاہو کھڑاہے یاکوئی صاحب حیثیت شخص ،یادرکھوجن قوموں  ، ملکوں  ، شہروں  اوربرادریوں  میں  انصاف نہیں  ہوتا وہاں  امن وسکون نہیں  بلکہ بدامنی ،قتل وغارت ، چوری وڈاکہ زنی اورہرطرح کے سنگین جرائم ہوتے ہیں  جس کی لپیٹ میں پورامعاشرہ ہی آجاتاہے، پھروہاں  حکومتوں کو چاہے وہ کتنی ہی طاقتورہواندونی و بیرونی استحکام حاصل نہیں  ہوتااوربالآ خروہ قومیں  ، حکومتیں  تباہ و بربادہو جاتی ہیں ، لوگوں  سے درشتی اورسختی کے بجائے نرمی ،احسان اوردرگزرکاسلوک کرواوراپنی خواہشات نفسی کی پیروی ہرگز نہ کرویہ عدل وانصاف کے لئے زہرقاتل ہے ، اگرتم نے خواہش نفس کی پیروی کی تویہ عمل تمہیں  الله تعالیٰ کی صراط مستقیم سے بھٹکادے گااوریہ توتم اچھی طرح جانتے ہی ہوجو الله تعالیٰ کے سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے وہ پھرظلمتوں  کے اندھیروں  میں  ٹھوکریں  کھاتے کھاتے تباہ و بربادہوجاتاہے،ایسے لوگ جوہماری سیدھی شاہراہ سے کنارہ کش رہتے ہیں  ، جو اس زندگی کے بعدکی زندگی پر ایمان ویقین نہیں  رکھتے جس میں  انہیں  زرہ زرہ کاحساب دینا ہوگابھول جائیں  گے اور اپنی من مانی روش اختیارکریں  گے ان پر ہمارا شدید عذاب ہوگا ،اللہ تعالیٰ نے آسمانوں  اورزمین کی تخلیق کی حکمت کے بارے میں  آگاہ فرمایاکہ اللہ نے اس کائنات کو محض کھیل کے طورپرتخلیق نہیں  کردیا کہ اس میں  کوئی حکمت نہ ہو،کوئی غرض اورمقصدنہ ہو،کوئی عدل وانصاف نہ ہو،اورنہ ہی انسان کوپیداکرکے شتربے مہارکی طرح چھوڑدیاگیاہے کہ جوچاہے کرتاپھرے بلکہ ایک خاص مقصدکے لئے تخلیق کیاہےیعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کاذرہ ذرہ پرمعنی بنایاہے یہاں  کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیزبھی یونہی فضول نہیں  بنائی گئی بلکہ تمام معدوم اورموجوداشیااپنے اپنے مقصدسے باہم متصل ہیں ،اس نظام میں  ایک کامقصددوسرے کی تکمیل ہے،اسی اصول کے تحت قیامت بھی دراصل کائنات کی تخلیق کامقصدپوراکرنے کے لیے ظہورپذیرہوگی اوروہ یہ کہ انسان اللہ رب العالمین کی بندگی واطاعت کریں  جو کامل علم ،کامل قدرت اورلامحدودقوت کامالک ہے،وہی اکیلامعبودہے اس کے سواکوئی الٰہ نہیں  ، ایک وقت مقررہ پرجب اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت قائم ہوگی تواللہ اطاعت گزاروں  اورمنکرین کے درمیان فیصلہ کرے گا، نیکوکاروں  کوبہترین جزاسے نوازے گااورمنکرین کوجو یوم آخرت کے قائل نہیں  ہیں اوریہ سمجھتے ہیں  کہ وہ مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں  گے،اور اس کے بعدکوئی زندگی نہیں  ،کسی کاکوئی محاسبہ نہیں  ہوگا،کسی کوکسی بھلائی یابرائی کاکچھ بدلہ نہیں  ملے گا ، ایسے منکرین کو عذاب جہنم میں  مبتلا کرے گا۔

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِینَ فِی الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ كَالْفُجَّارِ ‎﴿٢٨﴾‏ كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَیْكَ مُبَارَكٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِهِ وَلِیَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿٢٩﴾‏(ص)
’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کردیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے ؟ یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔‘‘

کیاہم ان لوگوں  کوجواللہ وحدہ لاشریک ،اس کے رسولوں ،ان پرمنزل کتابوں  اوریوم آخرت پرایمان لاتے اور اعمال صالحہ اختیار کرتے ہیں  اوران کوجوزمین میں  فتنہ و فسادبرپاکرتے ہیں  یکساں  کر دیں ؟کیامتقیوں  کوہم فاجروں  جیساکردیں ؟یعنی یہ اندھیرنگری نہیں  ہے کہ کوئی کچھ بھی کرتاپھرے اوراس سے اس کے اعمال کاحساب نہ کیا جائے ،ہرگزنہیں ،ایک وقت مقررہ پرسب اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں  جمع کیے جائیں  گے اور اپنے اعمال کاحساب دیں  گے ،جیسے فرمایا

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [21]

ترجمہ:کیاتم نے یہ سمجھ رکھاہے کہ ہم نے تمہیں  فضول ہی پیداکیاہے اورتمہیں  ہماری طرف کبھی پلٹناہی نہیں  ہے۔

 وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ۝۳۸مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۳۹اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتُهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۴۰ۙ [22]

ترجمہ:ہم نے آسمانوں  اور زمین کواوران کے درمیان جوکچھ ہے کھیل کے طورپرپیدانہیں  کیاہے،ہم نے ان کوبرحق پیداکیاہے مگراکثرلوگ جانتے نہیں  ہیں ،درحقیقت فیصلے کادن ان سب کے لیے حاضری کاوقت مقررہے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہاری طرف جوبابرکت کتاب نازل کی ہے وہ خیرکثیراورعلم بسیط کی حامل کتاب ہے ،اوراس جلیل القدرکتاب کونازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس کی آیات پر غوروتدبرکریں ،اس کے اسراروحکم میں  غوروفکرکریں  اورعقل وفکررکھنے والے اس سے سبق حاصل کریں  ۔

وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَیْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ ‎﴿٣٠﴾‏ إِذْ عُرِضَ عَلَیْهِ بِالْعَشِیِّ الصَّافِنَاتُ الْجِیَادُ ‎﴿٣١﴾‏ فَقَالَ إِنِّی أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّی حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ‎﴿٣٢﴾ رُدُّوهَا عَلَیَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ ‎﴿٣٣﴾‏ ‏(ص)
’’اور ہم نے داؤد کو سلیمان (نامی فرزند) عطا فرمایا جو بڑا اچھا بندہ تھا اور بیحد رجوع کرنے والا تھا، جب ان کے سامنے شام کے وقت تیز رو خاصے گھوڑے پیش کئے گئےتو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی یہاں تک کہ (آفتاب) چھپ گیا، ان (گھوڑوں ) کو دوبارہ میرے سامنے لاؤ ! پھر تو پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔‘‘

داود علیہ السلام کی نبوت کا وارث سلیمان علیہ السلام :

الله تعالیٰ نے داود علیہ السلام کو کئی لڑکے دیئے تھے اور بطورخاص داود علیہ السلام کوایک نیک وصالح فرزندعطاکیاجن کانام سلیمان علیہ السلام تھاجو والدکے دل کی ٹھنڈک اور آنکھوں  کاسرورتھے ،وہ خوب عبادت گزاراوراللہ کی طرف جھکنے والے تھے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں  نبی بنایاجیسے فرمایا

وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ ۔۔۔۝۱۶ [23]

ترجمہ:اورداود علیہ السلام کاوارث سلیمان علیہ السلام ہوا ۔

سلیمان علیہ السلام کواللہ کی راہ میں  جہادکرنابہت پسندتھااوراس مقصدکے لیے انہوں  نے عمدہ اصیل، تیزرو گھوڑوں  کوپال رکھاتھا، ایک موقع پر شام کے وقت ان کے سامنے جنگی مقاصدکے لئے سدھائے ہوئے کچھ گھوڑوں  کومعائنہ کے لیے پیش کیا گیا تواس نے کہامیں  ان اصیل گھوڑوں  کواپنے نفس کی خاطرمحبوب نہیں  رکھتابلکہ میں  ان کواس لئے پسندکرتاہوں  کیونکہ میں  ان کے ذریعے سے اللہ کی راہ میں  جہادکرتاہوں ،پھران گھوڑوں  کوآزمانے کے لئے دوڑایاگیاجب وہ گھوڑے نظروں  سے اوجھل ہوگئے تواس نے حکم دیاکہ انہیں  میرے پاس واپس لاؤ جب گھوڑے واپس آئے تووہ پیارومحبت سے ان کوتھپکی دینے اوران کی پنڈلیوں  اورگردنوں  پرہاتھ پھیرنے لگا۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمَانَ وَأَلْقَیْنَا عَلَىٰ كُرْسِیِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ ‎﴿٣٤﴾‏ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِی وَهَبْ لِی مُلْكًا لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِی ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ‎﴿٣٥﴾‏ فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیحَ تَجْرِی بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَیْثُ أَصَابَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَالشَّیَاطِینَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ ‎﴿٣٧﴾‏ وَآخَرِینَ مُقَرَّنِینَ فِی الْأَصْفَادِ ‎﴿٣٨﴾‏ هَٰذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ‎﴿٣٩﴾‏ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ ‎﴿٤٠﴾‏(ص)
’’اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک جسم ڈال دیا پھر اس نے رجوع کیاکہا اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے لائق نہ ہو تو بڑا ہی دینے والا ہے، پس ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کردیا وہ آپ کے حکم سے جہاں آپ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی،اور (طاقتور) جنات کو بھی (ان کے ماتحت کردیا) ہر عمارت بنانے والے کو اور غوط خور کو، اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے، یہ ہے ہمارا عطیہ اب تو احسان کر یا روک رکھ کچھ حساب نہیں ، ان کے لیے ہمارے پاس بڑا تقرب ہے اور بہت اچھا ٹھکانا ہے۔‘‘

اور سلیمان علیہ السلام کوبھی ہم نے آزمائش میں  مبتلاکیااوراس کے تخت پرایک جسدلاکرڈال دیا،یہ آزمائش کیاتھی اورکرسی پرڈالاجسم کس چیزکاتھااس کی قرآن کریم اورحدیث میں  کوئی تفصیل نہیں  ملتی ،بہرحال سلیمان علیہ السلام نے اپنے اس فعل سے توبہ کی اور رجوع کرلیا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ: سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ لَأَطُوفَنَّ اللَّیْلَةَ عَلَى سَبْعِینَ امْرَأَةً، تَحْمِلُ كُلُّ امْرَأَةٍ فَارِسًا یُجَاهِدُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَلَمْ یَقُلْ، وَلَمْ تَحْمِلْ شَیْئًا إِلَّا وَاحِدًا، سَاقِطًا أَحَدُ شِقَّیْهِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ قَالَهَا لَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مرتبہ سلیمان بن داود علیہ السلام نے جہادسے سرشارہوکر کہاکہ آج کی رات میں  اپنی ستر( ۷۰) بیویوں کے پاس جاؤ ں  گا اور ہربیوی سے ایک شہسوارپیداہوگاجو اللہ کی راہ میں  جہادکرے گا،ان کے ساتھی نے کہاان شاء اللہ لیکن انہوں  نے نہیں  کہااس کانتیجہ یہ ہوا کسی بیوی کے یہاں  بھی بچہ پیدا نہیں  ہوا صرف ایک کے یہاں  ہوااوراس کی بھی ایک جانب بیکارتھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرسلیمان علیہ السلام ان شاء اللہ کہہ لیتے (توسب کے یہاں  بچے پیدا ہوتے) اور اللہ کی راہ میں  جہادکرتے۔ [24]

سلیمان علیہ السلام نے کہاکہ اے میرے رب!مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی عطافرما دے جو میرے بعد کسی کے لئے سزاوارنہ ہو،بے شک توہی اصل داتاہے،اوربڑادینے والاہے ،ہم نے سلیمان علیہ السلام کی اس گزارش کوشرف قبولیت بخشااور اس کے لئے ہواکو مسخر کر دیا جواس کے حکم سے حسب ضرورت نرمی اورتیز ی کے ساتھ اس طرف چلتی تھی جدھروہ چاہتاتھا ،جیسے فرمایا

وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا۔۔۔ ۝۸۱ [25]

ترجمہ:اورسلیمان علیہ السلام کے لئے ہم نے تیزہواکومسخرکردیاجواس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں  ہم نے برکتیں  رکھی ہیں ۔

اور ہرطرح کے معمار اورغوطہ خورجنات کوبھی اس کاماتحت کر دیااوردوسرے سرکش جنات کوبھی اس کے تابع کردیا جونافرمانی کرتے توانہیں کسی طریقہ سے مقید کردیتے تھے تاکہ وہ اپنے کفروسرکشی کی وجہ سے سرتابی نہ کرسکیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ عِفْرِیتًا مِنَ الجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَیَّ البَارِحَةَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا لِیَقْطَعَ عَلَیَّ الصَّلاَةَ، فَأَمْكَنَنِی اللَّهُ مِنْهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِیَةٍ مِنْ سَوَارِی المَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَیْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِی سُلَیْمَانَ: رَبِّ هَبْ لِی مُلْكًا لاَ یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِی ، قَالَ رَوْحٌ:فَرَدَّهُ خَاسِئًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگزشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا یااسی طرح کاکلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تاکہ میری نمازخراب کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پرقدرت دے دی،میں  نے سوچاکہ اسے مسجدکے ستون سے باندھ دوں  تاکہ صبح کے وقت تم سب لوگ بھی اسے دیکھ سکو پھرمجھ کواپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی یادآگئی کہ اے میرے رب!مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعدکسی کومیسرنہ ہو،روح نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو ذلت کے ساتھ بھگادیا ۔ [26]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْنَاهُ یَقُولُ:أَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ ثُمَّ قَالَ أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللهِ ثَلَاثًا، وَبَسَطَ یَدَهُ كَأَنَّهُ یَتَنَاوَلُ شَیْئًا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ قَدْ سَمِعْنَاكَ تَقُولُ فِی الصَّلَاةِ شَیْئًا لَمْ نَسْمَعْكَ تَقُولُهُ قَبْلَ ذَلِكَ، وَرَأَیْنَاكَ بَسَطْتَ یَدَكَ، قَالَ:إِنَّ عَدُوَّ اللهِ إِبْلِیسَ، جَاءَ بِشِهَابٍ مِنْ نَارٍ لِیَجْعَلَهُ فِی وَجْهِی، فَقُلْتُ: أَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قُلْتُ: أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللهِ التَّامَّةِ، فَلَمْ یَسْتَأْخِرْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَرَدْتُ أَخْذَهُ، وَاللهِ لَوْلَا دَعْوَةُ أَخِینَا سُلَیْمَانَ لَأَصْبَحَ مُوثَقًا یَلْعَبُ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِینَةِ

اورابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکرنمازاداکرناشروع فرمائی توہم نے سناکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھےمیں  تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بارفرمایامیں  تجھ پراللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجتاہوں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کواس طرح آگے بڑھایاگویاکسی چیزکوپکڑرہے ہوں ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے توہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ سے نمازپڑھتے ہوئے ایسے الفاظ سنے جوپہلے کبھی نہیں  سنے تھے اورہم نے دیکھاکہ آپ نے اپنے دست مبارک کوآگے کی طرف بڑھایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ کادشمن ابلیس آگ کاایک انگارالے کرآیاتاکہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے تومیں  نے تین باریہ کلمہ پڑھامیں  تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتاہوں ،پھرمیں  نے کہامیں  تجھ پراللہ تعالیٰ کی مکمل لعنت بھیجتاہوں ،مگروہ تینوں  بارپیچھے نہ ہٹا تومیں  نے ارادہ کرلیاکہ اسے پکڑلوں ،اللہ کی قسم !اگرہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعانہ ہوتی تووہ یہاں  بندھاہوتااوراہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ [27]

ہم نے اس سے کہاتیری دعاکے مطابق ہم نے تجھے عظیم بادشاہی سے نوازدیاہے اب تجھے پورا اختیارہے کہ انسانوں  میں  سے جس کو چاہے عنایت کردے اورجس سے چاہے روک لے،ہم تجھ سے اس کا کوئی حساب نہیں  لیں  گے،اس دنیوی جاہ ومرتبت عطاکرنے کے باوجود آخرت میں  بھی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں  مقربین اورمکرمین کے زمر ے میں  شمارہوتے ہیں  ۔

وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَیُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّی مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ‎﴿٤١﴾‏ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ ‎﴿٤٢﴾‏ وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ‎﴿٤٣﴾‏ وَخُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ ‎﴿٤٤﴾(ص)
’’اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کر جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے ،اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے، اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا بلکہ اتنا ہی اور بھی اس کے ساتھ ،اپنی (خاص) رحمت سے اور عقلمندوں کی نصیحت کے لیے ، اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو) لے کر مار دے، اور قسم کا خلاف نہ کر، سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا، وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔‘‘

پہلے تمام انبیاء کی طرح ایوب علیہ السلام کوبھی دنیامیں  رب پرغیرمتزلزل بھروسہ ویقین کی مثال قائم کرنے کے لئے بڑی سخت آزمائشوں  سے گزاراورپرکھاگیا ،سب سے پہلے کلدانی آپ کے گھوڑے ،اونٹوں  کے گلے،بھیڑبکریوں  کے ریوڑاورگدھوں  کوہانک کرلے گئے،پھرسبائیوں  نے آپ کے غلاموں  پرقبضہ کرلیا، آپ کے تمام غلہ خانوں  میں  آگ لگ گئی اورتمام مال واسباب جل کرراکھ ہوگیا ،پھر الله تعالیٰ کے حکم سے زرعی زمین اورپھلوں  کے باغات سب ہاتھ سے نکل گئے ،پھرایک ایک کرکے تمام اولاددنیاسے گزرگئی ، ان مصائب میں  ان کی زبان سے ہمیشہ کلمہ شکرورضاکے سواکچھ نہ نکلا، الله سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں  شیطان رجیم کے ذریعہ غیرمعمولی بیماری اور تکلیف میں  گھیرکرآزمایا یہانتک کہ جسمانی کمزوری کی وجہ سے آپ علیہ السلام کااٹھنابیٹھناتک مشکل ہوگیا اورجب رفع حاجت کے لئے جاتے تو آپ کی بیوی آپ علیہ السلام کے ہاتھ سے چمٹ کرآپ کوکھڑاکرنے کے لئے سہارا دیتیں ، ان کے دور کے عزیز و اقارب توایک طرف رہے قریب ترین رشتہ دار بھی سوائے ان کے دوبھائیوں  کے جو کبھی کبھار ان کے پاس آتے جاتے رہے سب رخ موڑ گئے کہ کہیں  یہ مہلک وموزی مرض انہیں  نہ لگ جائے ، چنانچہ اس آزمائش کے دورمیں  آپ علیہ السلام کاکوئی پرسان حال اورغم گسار نہ رہا ،مگر آپ علیہ السلام کی تابعداربیوی جوہمہ وقت آپ علیہ السلام کی تیما رداری اور خدمت میں  دل وجاں  سے مصروف رہتیں  اورساتھ ہی محنت مزدوری کرکے اپنااوراپنے خاوندکاپیٹ بھی بھرتیں  ، ان سخت کھٹن حالات میں  پاوں  ڈگمگانے کے بجائے وہ مجسم تسلیم و رضا کے پیکرنکلے ،کیامجال جوآپ علیہ السلام کے ایمان واعتقاد میں  زراسی بھی لغزش آئی ہو،شیطان اپنے گندے وسوسوں  سے ان پرحملہ آورہوتارہامگرایوب علیہ السلام صدموں ،تکلیفوں ،ناگواریوں اورشیطان کے گندے وسوسوں  پر صبرکرتے رہے اور ان کی زبان سے گلے اورشکوے شکایت کے بجائے ہروقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور صبروشکرکے کلمات ہی نکلتے رہے،ناموافق حالات میں  حق اورسچائی پرمضبوطی سے قدم جماکر الله سبحانہ وتعالیٰ کی حمدوستائش ہی کرتے رہے ،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ أَیُّوبَ نَبِیَّ اللهِ لَبِثَ بِهِ بَلَاؤُهُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَرَفَضَهُ الْقَرِیبُ وَالْبَعِیدُ، إِلَّا رَجُلَیْنِ مِنْ إِخْوَانِهِ كَانَا مِنْ أَخَصِّ إِخْوَانِهِ، قَدْ كَانَا یَغْدُوَانِ إِلَیْهِ وَیَرُوحَانَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ ذَاتَ یَوْمٍ: نَعْلَمُ وَاللهِ لَقَدْ أَذْنَبَ أَیُّوبُ ذَنْبًا مَا أَذْنَبَهُ أَحَدٌ مِنَ الْعَالَمِینَ ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: مُنْذُ ثَمَانِیَ عَشْرَةَ سَنَةً لَمْ یَرْحَمْهُ اللهُ فَكَشَفَ عَنْهُ مَا بِهِ ، فَلَمَّا رَاحًا إِلَى أَیُّوبَ لَمْ یَصْبِرِ الرَّجُلُ حَتَّى ذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ أَیُّوبُ: لَا أَدْرِی مَا تَقُولُ، غَیْرَ أَنَّ اللهَ یَعْلَمُ أَنِّی كُنْتُ أَمُرُّ بِالرَّجُلَیْنِ یَتَنَازَعَانِ یَذْكُرَانِ اللهَ فَأَرْجِعُ إِلَى بَیْتِی، فَأُكَفِّرُ عَنْهُمَا كَرَاهِیَةَ أَنْ یُذْكَرَ اللهُ إِلَّا فِی حَقٍّ،

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانبی ایوب علیہ السلام کی آزمائش اٹھارہ برس تک جاری رہی، نزدیک اوردورکے ہرشخص نے آپ کوچھوڑدیا البتہ دوشخص جوآپ کے خاص دوست تھے صبح وشام آپ کے پاس آیاکرتے تھے،ان میں  سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہامعلوم ہوتاہے کہ اللہ کی قسم !ایوب نے کوئی ایساگناہ کیاہے جوتمام جہانوں  میں  سے کسی نے نہیں  کیا،اس نے پوچھاوہ کیا؟اس نے کہااٹھارہ سال سے اللہ تعالیٰ نے ان پررحم نہ کیااورنہ ان کی تکلیف کودورکیا، جب دونوں  ایوب علیہ السلام کے پاس گئے تویہ شخص صبرنہ کرسکااوراس نے اپنے ساتھی کی بات آپ کے سامنے بیان کردی، ایوب علیہ السلام نے ساری بات کوبڑ ی تحمل و برداشت سے سنااورپھرجواب دیااے میرے بھائی! مجھے نہیں  معلوم کہ توکیاکہہ رہاہے،میں  نے کوئی معصیت نہیں  کی ہے جس کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے یہ جزاہے بلکہ یہ عالم قدروقضاہے جس کے لئے کوئی سبب درکارنہیں  ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمارحکمتیں  ہیں  جن کوسمجھنے سے انسان بے بس وعاجزہے، ہاں  البتہ ایک بات ضرور ہے وہ یہ کہ میں  جب جھگڑتے ہوئے دوایسے آدمیوں  کے پاس سے گزرتاجواللہ تعالیٰ کانام لیتے تومیں  اپنے گھرجاکران کی طرف سے کفارہ اداکردیتاکیونکہ میں  اس بات کوناپسندکرتاتھاکہ حق کے سواکسی اوربات میں  اللہ تعالیٰ کا(پاک)نام لیاجائے،اس کے علاوہ تومجھے کچھ علم نہیں ،

قَالَ: وَكَانَ یَخْرُجُ إِلَى حَاجَتِهِ، فَإِذَا قَضَاهَا أَمْسَكَتِ امْرَأَتُهُ بِیَدِهِ حَتَّى یَبْلُغَ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ یَوْمٍ أَبْطَأَ عَلَیْهَا، وَأُوحِیَ إِلَى أَیُّوبَ فِی مَكَانِهِ: أَنِ {ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ} فَاسْتَبْطَأَتْهُ، فَتَلَقَّتْهُ تَنْظُرُ، فَأَقْبَلَ عَلَیْهَا قَدْ أَذْهَبَ اللَّهُ مَا بِهِ مِنَ الْبَلَاءِ، وَهُوَ عَلَى أَحْسَنِ مَا كَانَ؛ فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ: أَیْ بَارَكَ اللَّهُ فِیكَ، هَلْ رَأَیْتَ نَبِیَّ اللَّهِ هَذَا الْمُبْتَلَى، فَوَاللَّهِ عَلَى ذَلِكَ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ بِهِ مِنْكَ إِذْ كَانَ صحِیحًا؟ قَالَ: فَإِنِّی أَنَا هُوَ؛ قَالَ: وَكَانَ لَهُ أَنْدَرَانِ: أَنْدَرٌ لِلْقَمْحِ، وَأَنْدَرٌ لِلشَّعِیرِ،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانوبت یہاں  تک پہنچ گئی کہ آپ حاجت کے لیے نکلتے اورحاجت سے فارغ ہوجاتے توآپ کی زوجہ محترمہ ہاتھ تھام کرآپ کواپنی جگہ پہنچادیتی تھیں ، نبی بھی جب کسی بیماری میں  گرفتار ہو جاتاہے تو الله تعالیٰ ہی کے حضورشفاکے لیے ہاتھ پھیلاتاہے وہ الله ہی سے شفامانگنے والاہوتاہے دوسروں  کوشفادینے والانہیں  ہوتا آخر انہوں  نے رب سے التجا کی ترجمہ:اے میرے رب !شیطان نے مجھے بیماری کی شدت،مال ودولت کے ضیاع اوراس حالت میں  اعزہ واقرباکے منہ موڑ لینے سے میں  بڑی سخت تکلیف اورعذاب میں  مبتلاہوں  اوراس سے بڑھ کر تکلیف اورعذاب میرے لئے یہ ہے کہ شیطان اپنے گندے وسوسوں  سے مجھے تنگ کررہاہے اور ان برے حالات میں  وہ مجھے تمہاری رحمت وکرم سے مایوس وناامیدکرنے کی کوشش کررہاہے تاکہ میں  تمہاری عطاکردہ نعمتوں  کی ناشکری کروں  اورخاص طور پروہ ملعون اس بات کے درپے ہے کہ میں  اس دکھ ودردمیں  صبر کادامن ہاتھ سے چھوڑدوں  ،جیسے فرمایا

۔۔۔ رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَـمُ الرّٰحِمِیْنَ۝۸۳ۚۖ [28]

ترجمہ: یادکروجب کہ اس نے اپنے رب کوپکاراکہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اورتوارحم الرحمین ہے ۔

اے میرے پروردگارتوبڑاہی رحم وکرم کرنے والاہے ،تیرے سواکوئی نہیں  جواس دکھ ودرد اور تکلیف کو دور کر سکے ،اے میرے مولا!مجھ پراپنی رحمت نازل فرما اور اس بیماری سے مجھے نجات عطافرما، الله تعالیٰ اپنے بندوں  کی دل سے نکلی دعائیں  سنتااورقبول فرماتا ہے چنانچہ جب ایوب علیہ السلام ان پے درپے آزمائیشوں  میں  کامیاب وکامران ہوئے توآپ علیہ السلام کی دعابھی قبول فرمائی اور انہیں  اس بیماری سے نجات بخشی اور الله غفوروشکور نے بڑے فخرسے قرآن مجید میں  انہیں  صابراوراپنابندہ کاٹائٹل عنایت فرمایا ،آغازمیں  انبیاء کوکیسی ہی آزمائشوں  سے سابقہ پڑاہومگرآخرکارانبیاء کی دعائیں  معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوتی رہی ہیں  الله تعالیٰ ہمیشہ غیرمعمولی طورپرنبیوں  کی مددکرتارہاہے،اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی دعاکوقبول فرمایا

فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ یَوْمٍ أَبْطَأَ عَلَیْهَا فَأَوْحَى اللهُ إِلَى أَیُّوبَ فِی مَكَانِهِ ، أَنِ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ،فَاسْتَبْطَأَتْهُ فَتَلَقَّتْهُ تَنْظُرُ وَأَقْبَلَ عَلَیْهَا قَدْ أَذْهَبَ اللهُ مَا بِهِ مِنَ الْبَلَاءِ وَهُوَ أَحْسَنُ مَا كَانَ ، فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ: أَیْ بَارَكَ اللهُ فِیكَ هَلْ رَأَیْتَ نَبِیَّ اللهِ هَذَا الْمُبْتَلَى؟ وَاللهِ عَلَى ذَلِكَ مَا رَأَیْتُ رَجُلًا أَشْبَهَ بِهِ مِنْكَ إِذْ كَانَ صَحِیحًا قَالَ: فَإِنِّی أَنَا هُوَ

ایک دن جب آپ کوواپسی میں  دیرہوگئی تواللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمادی (زمین پر)لات مارو(دیکھو)یہ(چشمہ نکل آیا)نہانے کوٹھنڈااورپینے کو (شیریں ) ( الله تعالیٰ نے فرمایااے ایوب علیہ السلام اس پانی کوپیواوراس سے نہاؤ ،چنانچہ انہوں  نے ایساکیا،پانی پیتے ہی فورا ًتمام اندونی بیماریاں  اورغسل کرنے سے تمام ظاہری بیماریاں  دورہوگئیں اس طرح الله تعالیٰ نے انہیں  شفا کاملہ عطاء فرمائی، ان کے اہل وعیال ان کو واپس لوٹادیے اوراپنی رحمت وکرم وفضل سے اتنے ہی اورعطاء فرمائے تاکہ اہل دانش کے لئے ایک سبق ہوکہ رب کے خزانوں  میں  کچھ کمی نہیں  مگروہ اپنے بندوں  کوآزمانے کے لئے ضرورت سے زائد دے دیتاہے کہ اس کابندہ اس کاشکرگزاربنتاہے یایہ کہتاہے کہ یہ سب مال ودولت اس کی تدبیراورمحنت کی وجہ سے ہے اورکبھی مال واولاد دے کرواپس لے لیتاہے کہ اب میرا بندہ صبروشکرکرتاہے یاآہ فغاں  میں  مبتلا ہو جاتا ہے،اس لئے ہرحال میں  صبرشکرکرناچاہیے)تاخیرکی وجہ سے آپ کی اہلیہ نے دیکھناشروع کیاتوکیادیکھتی ہیں  کہ آپ ان کی طرف اس حال میں  آرہے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے تمام تکلیف کودورفرمادیااورپہلے سے بھی زیادہ خوبصورت شکل میں  ہیں ،انہوں  نے دیکھاتوکہااے شخص!اللہ تعالیٰ تمہیں  برکت دے کیاتم نے آزمائش میں  مبتلااللہ تعالیٰ کے نبی کودیکھاہے؟اللہ تعالیٰ کی قسم !جب وہ صحیح سلامت تھے تومیں  نے نہیں  دیکھاکہ کوئی شخص تمہاری نسبت ان سے زیادہ مشابہت رکھتاہو،آپ علیہ السلام نے فرمایامیں  ایوب ہوں

 قَالَ: وَكَانَ لَهُ أَنْدَرَانِ أَنْدَرٌ لِلْقَمْحِ وأَنْدَرٌ لِلشَّعِیرِفَبَعَثَ اللهُ سَحَابَتَیْنِ، فَلَمَّا كَانَتْ أَحَدُهُمَا عَلَى أَنْدَرِ الْقَمْحِ أَفْرَغَتْ فِیهِ الذَّهَبَ حَتَّى فَاضَ، وَأَفْرَغَتِ الْأُخْرَى فِی أَنْدَرِ الشَّعِیرِ الْوَرِقَ حَتَّى فَاضَ

آپ علیہ السلام کے دوکھلیان تھے ایک گندم کاکھلیان اوردوسراجوکا اللہ تعالیٰ نے دوبادل بھیج دیے ان میں  سے ایک جب گندم کے کھلیان پرآیاتواس نے اس میں  سونابرسایاحتی کہ وہ بھرگیا اوردوسرے نے جوکے کھلیان پرچاندی ڈال دی حتی کہ وہ بھی بھرگیا ۔ [29]

وَعَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:بَیْنَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا فَخَرَّ عَلَیْهِ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ أَیُّوبُ یَحْتَثِی فِی ثَوْبِهِ، ؟فَنَادَاهُ رَبُّهُ: یَا أَیُّوبُ، أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَیْتُكَ عَمَّا تَرَى،قَالَ: بَلَى وَعِزَّتِكَ، وَلَكِنْ لاَ غِنَى بِی عَنْ بَرَكَتِكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایوب علیہ السلام ننگے ہوکرنہارہے تھےکہ آسمان سے سونے کی ٹڈیاں  برسنے لگیں  ایوب علیہ السلام نے جلدی جلدی انہیں  اپنے کپڑے میں  سمیٹنی شروع کردیں ،اللہ تعالیٰ نے آوازدی کہ اے ایوب علیہ السلام کیامیں  نے تمہیں  اس چیزسے بے نیاز نہیں  کردیا؟ایوب علیہ السلام نے عرض کیا ہاں  تیری بزرگی کی قسم!بیشک تونے مجھے بہت کچھ عنایت فرما رکھاہے لیکن تیری رحمت سے بے نیازنہیں  ہوں ۔ [30]

بیماری کے دوران کسی بات پرغصے ہوکرایوب علیہ السلام نے کسی کو مارنے کی قسم اٹھالی تھی (روایات یہ ہیں  کہ اپنی بیوی کو مارنے کی قسم کھائی تھی)اوراسی قسم ہی میں  انہوں  نے یہ بھی کہاتھاکہ تجھے اتنے کوڑے ماروں  گا اب جب وہ شفایاب اورتندرست ہوگئے اورحالت مرض کاوہ غصہ بھی دور ہو گیا جس میں  یہ قسم کھائی گئی تھی توان کویہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قسم پوری کرتاہوں  تو خامخواہ ایک بے گناہ کو مارنا پڑے گااورقسم توڑتاہوں  تویہ بھی ایک گناہ کاارتکاب ہے، الله سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو اس مشکل سے اس طرح نکالا کہ انہیں  حکم دیااے ایوب! آپ اپنی قسم کونہ توڑیں  بلکہ اپنی قسم کوپورا کرنے کے لئے ایسا کریں  کہ اتنے تنکوں  کاایک مٹھا بنا لیں  جتنے کوڑے تم نے مارنے کی قسم کھائی تھی اور اس مٹھے سے اس کو صرف ایک دفعہ ضرب لگادیں  اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہوجائے گی اوراسے نارواتکلیف بھی نہیں  پہنچے گی،چنانچہ انہوں  نے اس طرح اپنی قسم پوری کی،اللہ تعالیٰ نے فرمایاہم نے اسے صابر(وثابت قدم)پایا،بہترین بندہ اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا،ارشادباری تعالیٰ ہے

وَمَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۝۲ۙوَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَحَسْبُہٗ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ۝۰ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا۝۳ [31]

ترجمہ:جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گااور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیئے وہ کافی ہے، اللہ اپنا کام پورا کرے کے رہتا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے ۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ:كَانَ بَیْنَ أَبْیَاتِنَا رَجُلٌ مُخْدَجٌ ضَعِیفٌ، فَلَمْ یُرَعْ إِلَّا وَهُوَ عَلَى أَمَةٍ مِنْ إِمَاءِ الدَّارِ یَخْبُثُ بِهَافَرَفَعَ شَأْنَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:اجْلِدُوهُ ضَرْبَ مِائَةِ سَوْطٍ،قَالُوا: یَا نَبِیَّ اللهِ، هُوَ أَضْعَفُ مِنْ ذَلِكَ، لَوْ ضَرَبْنَاهُ مِائَةَ سَوْطٍ مَاتَ،قَالَ فَخُذُوا لَهُ عِثْكَالًا فِیهِ مِائَةُ شِمْرَاخٍ فَاضْرِبُوهُ ضَرْبَةً وَاحِدَةً

سعید رضی اللہ عنہ بن سعدبن عبادہ سے مروی ہےہمارے گھروں  میں  ایک ایک لنجا ،یاایک ضعیف وناتواں  رہتاتھا،جب وہ گھرکی لونڈیوں  میں  سے ایک لونڈی پرسوارتھااوراس کے ساتھ براکام کررہاتھااس وقت اس نے لوگوں  کوڈرایااس کایہ حال سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کوسوکوڑے ماردو،لوگوں  نے عرض کیااے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم !وہ بہت ناتواں  ہے اگرہم اس کوسوکوڑے ماریں  گے تووہ مرجائے گا،فرمایااچھاایک خوشہ کھجور کالوجس پرشاخیں  ہوں  اورایک باراس کولگادو [32]

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ أُولِی الْأَیْدِی وَالْأَبْصَارِ ‎﴿٤٥﴾‏ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ ‎﴿٤٦﴾‏ وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْأَخْیَارِ ‎﴿٤٧﴾‏ وَاذْكُرْ إِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِنَ الْأَخْیَارِ ‎﴿٤٨﴾(ص)
’’ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا بھی لوگوں سے ذکر کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے، ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کردیا تھا، یہ سب ہمارے نزدیک برگزیدہ اور بہترین لوگ تھے، اسماعیل، یسع اور ذوالکفل (علیہم السلام) کا بھی ذکر کر دیجئے، یہ سب بہترین لوگ تھے۔‘‘

اورہمارے بندے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ،ان کے بیٹے اسحاق علیہ السلام اوران کے پوتے یعقوب علیہ السلام کاذکرکروجواپنے پروردگارکی عبادت اوراللہ کے کلمہ کوسربلندکرنے کے کاموں  میں  بڑے سرگرم تھے،جواللہ کے دین میں  بصیرت سے بہرہ مندتھے ،جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اورمعصیتیوں  سے بچنے کی زبردست طاقت رکھتے تھے ،ان کے نزدیک اس عارضی دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی بلکہ قیامت کے روز بارگاہ الٰہی میں  پیش ہونے کی فکرانہیں  کھائے جاتی تھی، اوروہ اپنے رب کی خوشنودی کے لیے ایسے اعمال کرتے تھے جو انہیں محبوب بنا دیں ،

قَالَ مَالِكُ بْنُ دِینَارٍ: نَزَعْنَا مِنْ قُلُوبِهِمْ حُبَّ الدُّنْیَا وَذِكْرَهَا، وَأَخْلَصْنَاهُمْ بِحُبِّ الْآخِرَةِ وَذِكْرِهَا

مالک بن دینارکاقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں  سے دنیاکی محبت اوردنیاکاذکرنکال دیاتھااورآخرت کی محبت اوراس کے ذکرکاشوق عطاکردیاتھا ۔ [33]

اسی وصف کی بنا پر ہم نے ان کوبرگزیدہ کیاتھا،جس سے تم لوگ لاپرواہی برتتے ہو اور جھٹلاتے ہو ، یقیناًہمارے ہاں  ان کاشمارچنیدہ اورپسندیدہ نیک اشخاص میں  ہے اور اسماعیل علیہ السلام اور الیسع علیہ السلام اور ذوالکفل علیہ السلام کاذکرکرو،یہ سب نیک لوگوں  میں  سے تھے،جیسے پیغمبروں  کے سلسلہ میں فرمایا

وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَاالْكِفْلِ۝۰ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ۝۸۵ۚۖوَاَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا۝۰ۭ اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۸۶ [34]

ترجمہ:اوریہی نعمت اسماعیل علیہ السلام اورادریس علیہ السلام اورذوالکفل کودی کہ یہ صابرلوگ تھے اوران کوہم نے اپنی رحمت میں  داخل کیا کہ وہ نیکوکاروں  میں  سے تھے ۔

وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا۝۰ۭ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۸۶ۙ [35]

ترجمہ: اسماعیل علیہ السلام ،الیسع علیہ السلام اوریونس علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کوراستہ دکھایا ان میں  سے ہرایک کوہم نے تمام دنیاوالوں  پرفضیلت عطاکی۔

هَٰذَا ذِكْرٌ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِینَ لَحُسْنَ مَآبٍ ‎﴿٤٩﴾‏ جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ ‎﴿٥٠﴾‏ مُتَّكِئِینَ فِیهَا یَدْعُونَ فِیهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِیرَةٍ وَشَرَابٍ ‎﴿٥١﴾‏ ۞ وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ ‎﴿٥٢﴾‏ هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ ‎﴿٥٣﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادٍ ‎﴿٥٤﴾‏ هَٰذَا ۚ وَإِنَّ لِلطَّاغِینَ لَشَرَّ مَآبٍ ‎﴿٥٥﴾(ص)
’’یہ نصیحت ہے اور یقین مانو کہ پرہیزگاروں کی بڑی اچھی جگہ ہے(یعنی ہمیشگی والی) جنتیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں ، جن میں با فراغت تکیے لگائے بیٹھے ہوئے طرح طرح کے میوے اور قسم قسم کی شرابوں کی فرمائشیں کر رہے ہیں ، اور ان کے پاس نیچی نظروں والی ہم عمر حوریں ہوں گی،یہ ہے جس کاوعدہ تم سے حساب کے دن کے لیے کیاجاتاہے، بیشک روزیاں (خاص) ہمارا عطیہ ہیں جن کا کبھی خاتمہ ہی نہیں ۔‘‘

صالحین کااجر:

یہ ایک نصیحت ہے،

وَقَوْلُهُ:{هَذَا ذِكْرٌ} أَیْ: هَذَا فَصْلٌ فِیهِ ذِكْرٌ لِمَنْ یَتَذَكَّرُ.وَقَالَ السُّدِّیُّ: یَعْنِی الْقُرْآنَ

سدی ؒ’’یہ نصیحت ہے۔‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں  یہ ذکراس کے لیے نصیحت ہے جونصیحت حاصل کرناچاہے یعنی قرآن عظیم۔ [36]

اوراللہ کا مومنین ومومنات کے لئے جواللہ کی الوہیت، وحدانیت اورربوبیت پرایمان رکھتے ہیں ،اللہ کے رسول کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہیں ،اللہ کی نازل کردہ کتاب کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے اورنواہی سے اجتناب کرکے تقویٰ اختیارکرتے ہیں ،جواللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں اورنادانی میں  اگران سے کوئی خطاہوجاتی ہے توفوراًاپنے گناہوں  اورلغزشوں  پراللہ سے گڑگڑاکر مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں ،جو آخرت پرکامل یقین رکھتے ہیں ،اللہ کاان سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں  نیک اعمال کی جزاکے طورپرانواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  میں  داخل فرمائے گا ،جب وہ جنت کے آٹھ دروازوں  پرپہنچیں  گے توانہیں  اپنے لئے کھلاہواپائیں  گے،جنت کے انتظامی فرشتے استقبال کے لئے موجودہوں  گے ،وہ اہل جنت کوسلام کہہ کرخوش آمدیدکہیں  گے اورکہیں  گے کہ جنت میں  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہوجائیں  ،جیسے فرمایا

۔۔۔ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ۝۷۳ [37]

ترجمہ: یہاں  تک کہ جب وہ وہاں  پہنچیں  گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں  گے تو اس کے منتظمین ان سے کہیں  گے کہ سلام ہو تم پر ، بہت اچھے رہے داخل ہو جاؤ اس میں  ہمیشہ کے لیے ۔

اہل جنت بصدخوشی جنت میں  داخل ہوجائیں  گے اورپھرپھل دار،سرسبزوشاداب گھنے درختوں  کے سائے کے نیچے جہاں  انواع و اقسام کی نہریں  اورچشمے بہہ رہے ہوں  گے اونچی سجائی ہوئی نشست گاہوں  اورآراستہ کی ہوئی مسندوں  پرکامل راحت وطمانیت سے گاؤ تکیوں  پر ٹیک لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں  گے ، اورموتیوں  کی طرح خوبصورت نوجوان خدام کوحکم دیں  گے کہ وہ ان کی خدمت میں  انواع واقسام کے میوہ جات اور طرح طرح کے مشروبات پیش کریں ،جن کوان کے نفس پسندکریں  اوران کی آنکھیں  لذت حاصل کریں  ،جیسے فرمایا

یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّاَكْوَابٍ۝۰ۚ وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ۔۔۔۝۷۱ۚ [38]

ترجمہ:ان کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کریں  گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں  کو لذت دینے والی چیز وہاں  موجود ہوگی۔

لَہُمْ مَّا یَشَاۗءُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الْمُحْسِـنِیْنَ۝۳۴ۚۖ [39]

ترجمہ:انہیں  اپنے رب کے ہاں  وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں  گے یہ ہے نیکی کرنے والوں  کی جزا۔

خدام ان کی طلب کردہ چیزوں  کو فورا ًان کی خدمت میں  بکثرت پیش کردیں  گے، اللہ کاعنایت فرمایاہواوہ رزق دائمی ہوگااوراس میں  اضافہ ہوتا چلا جائے گا،جنتی اس اعزازواکرام سے ہمیشہ لطف اندوزہوتے رہیں  گے ، جیسے فرمایا

مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ۔۔۔۝۰ ۝۹۶ [40]

ترجمہ:جوکچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہوجانے والاہے اورجوکچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے ۔

۔۔۔عَطَاۗءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۝۱۰۸ [41]

ترجمہ:ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کاسلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔

اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۝۲۵ۧ [42]

ترجمہ:البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں  اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجرہے۔

۔۔۔اُكُلُہَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّہَا۝۰ۭ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۝۰ۤۖ وَّعُقْبَى الْكٰفِرِیْنَ النَّارُ۝۳۵ [43]

ترجمہ:اس کے پھل دائمی ہیں  اور اس کا سایہ لازوال، یہ انجام ہے متقی لوگوں  کا اور منکرین حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۝۸ۧ [44]

ترجمہ:رہے وہ لوگ جنہوں  نے مان لیااور نیک عمل کیے ان کے لئے یقیناً ایسا اجر ہے جس کاسلسلہ کبھی ٹوٹنے والانہیں  ہے ۔

اللہ تعالیٰ ان کی شادی عفیفہ ،پاک دامن، ان کے ہم عمر،جیسے فرمایا

اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۝۳۵ۙفَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۝۳۶ۙعُرُبًا اَتْرَابًا۝۳۷ۙ [45]

ترجمہ:ان کی بیویوں  کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں  گے اور انہیں  باکرہ بنا دیں  گے، اپنے شوہروں  کی عاشق اور عمر میں  ہم سن ۔

وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا۝۳۳ۙ [46]

ترجمہ:اور نوخیز ہم سن لڑکیاں  ۔

بڑی بڑی آنکھوں  والی،جیسے فرمایا

وَحُوْرٌ عِیْنٌ۝۲۲ۙكَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ [47]

ترجمہ:اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں  والی حوریں  ہوں  گی ، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

اورنیچی نگاہیں  رکھنے والی ،جیسے فرمایا

وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ۝۴۸ۙكَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّكْنُوْنٌ۝۴۹ [48]

ترجمہ:اور ان کے پاس نگاہیں  بچانے والی ، خوبصورت آنکھوں  والی عورتیں  ہوں  گی،ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی ۔

لازوال حسن وجمال کی حامل،جیسے فرمایا

كَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ۝۵۸ۚ [49]

ترجمہ:ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔

نوجوان حوروں  سے کردیں  گے جیسے فرمایا

۔۔۔وَزَوَّجْنٰہُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ۝۵۴ۭ [50]

ترجمہ: اور ہم گوری گوری آہو چشم عورتیں  ان سے بیاہ دیں  گے ۔

۔۔۔وَزَوَّجْنٰہُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ۝۲۰ [51]

ترجمہ: اور ہم خوبصورت آنکھوں  والی حوریں  ان سے بیاہ دیں  گے ۔

جن کونہ کسی انس و جن نے نہیں  دیکھا ہے اورنہ چھواہے ، جیسے فرمایا

لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۷۴ۚ [52]

ترجمہ:ان جنتیوں  سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہوگا۔

دونوں  میاں  بیوی ایک دوسرے سے راضی ہوں  گے اور اپنے ساتھی کوبدلناچاہیں  گے نہ اس کے عوض کچھ اورچاہیں  گے ۔

‏ هَٰذَا ۚ وَإِنَّ لِلطَّاغِینَ لَشَرَّ مَآبٍ ‎﴿٥٥﴾‏ جَهَنَّمَ یَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ ‎﴿٥٦﴾‏ هَٰذَا فَلْیَذُوقُوهُ حَمِیمٌ وَغَسَّاقٌ ‎﴿٥٧﴾‏ وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ ‎﴿٥٨﴾(ص)
’’ یہ تو ہوئی جزا، (یاد رکھو کہ) سرکشوں کے لیے بڑی بری جگہ ہے، دوزخ ہے جس میں وہ جائیں گے (آہ) کیا ہی برا بچھونا ہے، یہ ہے پس اسے چکھیں ، گرم پانی اور پیپ اس کے علاوہ اور طرح طرح کے عذاب۔‘‘

اہل جہنم کے احوال :

یہ تو ان لوگوں  کااعزازواکرام ہے جوروزآخرت پرکامل یقین رکھتے ہیں  اوراللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں  ،اوروہ لوگ جواللہ کے احکامات سے سرکشی وبغاوت اوررسولوں  کی تکذیب کی روش اپنائیں  گے،ان کوکوئی خوش آمدیدنہیں  کہے گا،اللہ کے حکم سے جہنم کے دروغہ انہیں  گلے میں  طوق ڈال کراورسترگزلمبی زنجیروں  میں  جکڑکران کومنہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  دھکیل دیں  گے،جہنم کی حدت سے پڑی ہوئی سیاہ آگ انہیں  اوپرنیچے ہرطرف سے گھیر لے گی ،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَغْشٰـىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۔۔۔۝۵۵ [53]

ترجمہ: (اور انہیں  پتہ چلے گا) اس روز جبکہ عذاب انہیں  اوپر سے بھی ڈھانک لے گا اور پاؤں  کے نیچے سے بھی ۔

لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۔۔۔۝۰۝۱۶ [54]

ترجمہ:ان پر آگ کی چھتریاں  اوپر سے بھی چھائی ہوں  گی اور نیچے سے بھی۔

جہاں  فضیحت ورسوائی کے لئے انتہائی گرم کھولتے ہوئے پانی سے جو آنتوں  کوکاٹتا ہوا پنڈلیوں  تک پہنچے گااورکھالوں  کوہڈیوں  سے علیحدہ کردے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔كَمَنْ ہُوَخَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ۝۱۵ [55]

ترجمہ: (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں  یہ جنت آنے والی ہے) ان لوگوں  کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے اور جنہیں  ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں  کاٹ دے گا؟۔

ان کی کھالوں  سے جوپیپ ،لہواورکچ لہوجیسی انتہائی بدبودارمتعفن چیزیں  نکلیں  گی جس کاپینا مشکل ہوگااس سے ان کی تواضع کی جائے گی،جیسے فرمایا

لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْہَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا۝۲۴ۙاِلَّا حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًا۝۲۵ۙ [56]

ترجمہ:اس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں  گے،کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں  کا دھوون ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَوْ أَنَّ دَلْوًا مِنْ غَسَّاقٍ یُهْرَاقُ فِی الدُّنْیَا لَأَنْتَنَ أَهْلَ الدُّنْیَا

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اگرایک ڈول عساق کادنیامیں  بہایاجائے توتمام اہل دنیا بدبودارہوجائیں ۔ [57]

جہنم میں  جہنمیوں  کے لیے آگ کے علاوہ طرح طرح کے عذاب ہوں  گے ،

وَقَالَ غَیْرُهُ: كَالزَّمْهَرِیرِ وَالسَّمُومِ وَشُرْبِ الْحَمِیمِ وَأَكْلِ الزَّقُّومِ وَالصُّعُودِ وَالْهُوِیُّ إِلَى غَیْرِ ذَلِكَ مِنَ الْأَشْیَاءِ الْمُخْتَلِفَةِ وَالْمُتَضَادَّةِ وَالْجَمِیعُ مِمَّا یُعَذَّبُونَ بِهِ وَیُهَانُونَ بِسَبَبِهِ

اوردیگرائمہ تفسیر رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ اس سے مرادشدیدسردی،زہر،کھولتے ہوئے گرم پانی کاپینا،تھوہرکاکھانا،صعودپرچڑھایاجانااورجہنم کی اتھاہ گہرائیوں  میں  گرایا جانا وغیرہ مختلف اورمتضاداشیاء مرادہیں  جن سے انہیں  عذاب دیااورذلیل ورسواکیاجائے گا۔ [58]

جہنم میں  عذاب کی شدت سے یہ چیختے چلاتے رہیں  گے مگران کی چیخ وپکارکوکوئی سننے والانہ ہوگا۔

‏ هَٰذَا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ ۖ لَا مَرْحَبًا بِهِمْ ۚ إِنَّهُمْ صَالُو النَّارِ ‎﴿٥٩﴾‏ قَالُوا بَلْ أَنْتُمْ لَا مَرْحَبًا بِكُمْ ۖ أَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ۖ فَبِئْسَ الْقَرَارُ ‎﴿٦٠﴾‏ قَالُوا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هَٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِی النَّارِ ‎﴿٦١﴾‏ وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَىٰ رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ ‎﴿٦٢﴾‏ أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِیًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ‎﴿٦٣﴾‏ إِنَّ ذَٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ ‎﴿٦٤﴾(ص)
’’ یہ ایک قوم ہے جو تمہارے ساتھ (آگ میں ) جانی والی ہے، کوئی خوش آمدید ان کے لیے نہیں ہے یہی تو جہنم میں جانے والے ہیں ،وہ کہیں گے بلکہ تم ہی ہو جن کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں ہے، تم ہی نے تو اسے پہلے ہی سے ہمارے سامنے لا رکھا تھا پس رہنے کی بڑی بری جگہ ہے،وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! جس نے (کفر کی رسم) ہمارے لیے پہلے سے نکالی ہو اس کے حق میں جہنم کی دگنی سزا کر دے، اور جہنمی کہیں گے کیا یہ بات ہے کہ وہ لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے ،کیا ہم نے ہی ان کا مذاق بنا رکھا تھا یا ہماری نگاہیں ان سے ہٹ گئی ہیں ، یقین جانو کہ دوزخیوں کا یہ جھگڑا ضرور ہی ہوگا۔‘‘

وہ دروغہ جہنم کے ساتھ اپنے پیرووں  کوآتے دیکھ کرآپس میں  کہیں  گے یہ ایک لشکرتمہارے پاس گھساچلاآرہاہے ،یہ آگ میں  جھلسنے والے ہیں ان کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں  ہے ، ان کے پیروکار ان کوجواب دیں  گے نہیں  بلکہ تم ہی جھلسے جارہے ہواورتمہارے لیے کوئی خیرمقدم نہیں  ہے،اوران ائمہ کفراورپشیوایان ضلالت سے کہیں  گے تم لوگ ہی کفر و ضلالت کے راستے کوہمارے سامنے مزین کرکے پیش کرتے تھے اورہم تم لوگوں  پراعتمادکرکے اس راستے پرچلتے رہے مگرتم نے ہمیں  گمراہ کردیا،تم لوگ ہی ہمارے اس برے انجام کاباعث ہو ، رہنے کے لیے یہ کیسی بری جگہ ہے،پھروہ ان لوگوں  کے بارے میں  اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں  گے اورکہیں  گے اے ہمارے رب! جس نے ہمیں  اس بدترین انجام کوپہنچانے کابندوبست کیااس کودوزخ کا دوہراعذاب دے ، جیسے فرمایا

قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ۝۰ۭ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا۝۰ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۳۸ [59]

ترجمہ:اللہ فرمائے گاجاؤ تم بھی اسی جہنم میں  چلے جاؤ جس میں  تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن وانس جاچکے ہیں ،ہرگروہ جب جہنم میں  داخل ہوگاتواپنے پیش روگروہ پر لعنت کرتاہواداخل ہوگاحتی کہ جب سب وہاں  جمع ہوجائیں  گے توہربعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں  کہے گاکہ اے رب!یہ لوگ تھے جنہوں  نے ہم کوگمراہ کیالہذاانہیں  آگ کا دوہراعذاب دے۔

رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [60]

ترجمہ:اے رب!ان کودوہراعذاب دے اوران پرسخت لعنت کر۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا

قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸ [61]

ترجمہ: سب کے لیے دوہراعذاب ہے مگرتم جانتے نہیں  ہو۔

اور وہ حیران ہوکرہرطرف دیکھیں  گے اور آپس میں  کہیں  گےہم اورہمارے پیشواتواپنے انجام کوپہنچ چکے مگر ہم ان فقراء مومنین کوکہیں  نہیں  دیکھتے جنہیں  ہم دنیا میں  گمراہ، بنیادپرست ،دہشت گرد،انتہاپسندوغیرہ کے القاب سے نوازتے تھے؟جن کے زہدوتقویٰ کی بناپر عزت واحترام کرنے کے بجائے ان کے پاکیزہ اطوارکا مذاق اڑاتے تھے،جیسے فرمایا

اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۝۱۰۹ۚۖفَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰٓی اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِیْ وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ۝۱۱۰ [62]

ترجمہ: تم وہی لوگ توہوکہ میرے بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار!ہم ایمان لائے ،ہمیں  معاف کردے،ہم پررحم کرتوسب رحیموں  سے اچھارحیم ہے توتم نے ان کامذاق بنالیایہاں  تک کہ ان کی ضد نے تمہیں  یہ بھی بھلادیاکہ میں  بھی کوئی ہوں  اورتم ان پرہنستے رہے۔

کیاوہ بھی ہمارے ساتھ عذاب میں  مبتلا ہیں  یاہماری نظریں  انہیں  دیکھ نہیں  پا رہیں ؟اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !بے شک اللہ علام الغیوب کی ہر بات سچی ہے،ایک وقت مقررہ پرجہنم میں ائمہ کفروضلالت اوران کے پیروکاروں  میں  یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں ۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ‎﴿٦٥﴾‏ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا الْعَزِیزُ الْغَفَّارُ ‎﴿٦٦﴾‏ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِیمٌ ‎﴿٦٧﴾‏ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ ‎﴿٦٨﴾‏(ص)
’’کہہ دیجئے کہ میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں اور بجز اللہ واحد غالب کے کوئی لائق عبادت نہیں ،جو پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وہ زبردست اور بڑا بخشنے والا ہے،آپ کہہ دیجئے کہ یہ بہت بڑی خبر ہے جس سے تم بے پروا ہو رہے ہو۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان منکرین حق سے جواللہ کی ہرسوبکھری نشانیوں  کودیکھ کراورحق کے واضح دلائل سنکربھی ایمان نہیں  لاتے اورکج بحثی کے لئے معجزات کامطالبہ کرتے ہیں  کہہ دیں  کہ میں  توتم جیساایک بشرہوں  ،اللہ نے اپنی رحمت سے مجھے رسالت کے لیے منتخب فرمایاہےجیسے فرمایا

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۝۱۱۰ۧ [63]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہو کہ میں  تو ایک انسان ہوں  تم ہی جیسا، میرے طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ بس ایک ہی اللہ ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں  اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ۔۔۔۝۶ۙ [64]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہو میں  تو ایک بشر ہوں  تم جیسا ،مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا الٰہ تو بس ایک ہی الٰہ ہے لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔

میں  اس کے حکم سے تمہیں  اللہ کے دردناک عذاب اور اس کےہولناک عتاب سے ڈراتاہوں  اورجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کریں  اورعمل صالح اختیارکریں ان کو خوشخبری دینے والاہوں  ،تاکہ تم پریہ اچھی طرح واضح کردوں  کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں  وزمین اور ان کے درمیان جوکچھ ہے کاخالق ومالک ہے،وہ اکیلاہے ، اس کی کوئی اولاد،بیوی اورماں  باپ نہیں  ، اس کاکوئی ہمسراورکفونہیں ،وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ،جیسے فرمایا

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚ ۖ وَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [65]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

اس کی بے شمار تخلیقات ،لامحدودقوت واختیارات اورعلم میں کوئی شریک نہیں ،اس عظیم الشان کائنات میں سب تصرفات اسی کے قبضہ میں  ہیں ،وہ علام الغیوب ہے اوراپنے علم کی وجہ سے ہرچیزسے باخبرہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۰ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ۝۸۰ [66]

ترجمہ:میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے پھر کیا تم ہوش میں  نہ آؤ گے؟ ۔

اِنَّمَآ اِلٰــہُكُمُ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۹۸ [67]

ترجمہ:لوگو! تمہارا الٰہ تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں  ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔

۔۔۔وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [68]

ترجمہ: اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔

وہ اپنی سلطنت کی ہر چیزپرغالب ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۲۱ [69]

ترجمہ: اللہ اپناکام کرکے رہتاہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں  ۔

کائنات کی ہرچیزاس کے ماتحت ہے اوراپنے خالق ورازق کی بندگی کے گن گارہی ہے،جیسے فرمایا

تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [70]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں  آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں  بیان کر رہی ہیں  جو آسمان و زمین میں  ہیں  کوئی چیز ایسی نہیں  جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں  ہو ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ۔۔۔۝۴۱ [71]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں  وہ سب جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں  اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے۔

۔۔۔یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔۔۝۲۴ۧ [72]

ترجمہ: ہر چیز جو آسمانوں  اور زمین میں  ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے ۔

یُسَـبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔۔۔۝۱ [73]

ترجمہ:اللہ کی تسبیح کر ہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں  میں  ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں  ہے۔

وہ بڑی عزتوں  والاہے اورباوجودعظمت وعزت کے بڑابخشنے والااورمہربان ہے ، اس وحدہ لاشریک کے سواکوئی ایسی ہستی نہیں  جس کی بندگی واطاعت کی جائے ، اس لئے ان معبودوں  سے جونہ کچھ پیداکر سکتے ہیں  اورنہ کسی کوموت دے سکتے ہیں ،نہ کسی کو نفع پہچاسکتے ہیں  نہ نقصان ،جن کے پاس نہ کوئی قوت ہے نہ اقتدار،جنہیں  کسی چیزپرکچھ بھی اختیارنہیں  ،جوکسی چیزکاعلم نہیں  رکھتے اورجوگناہوں  کی بخشش نہیں  کرسکتے تائب ہو کر اللہ کی بارگاہ میں  اپنی پیشانیاں  جھکادو،اوررب کی رحمتوں  کے امیدواربن جاؤ ، میں  تم پر نگراں  نہیں  ہوں  کہ تمہیں  زبردستی ظلمتوں  سے نکال کرروشنی میں  لے آؤ ں ،اگراللہ وحدہ لاشریک پراوراس کے رسولوں  پر، نازل شدہ کتابوں پر اور روز آخرت پرایمان لاؤ گے تواپناہی فائدہ کروگے اور اگرتکذیب کر و گے اورسرکشی وبغاوت کی روش اپناؤ گے تواس کاوبال بھی تم ہی اٹھاؤ گے،میری اس دعوت سے اعراض وغفلت نہ برتو،بلکہ سنجیدگی سے اس پرغوروتدبرکرو ۔

مَا كَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ إِذْ یَخْتَصِمُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ إِنْ یُوحَىٰ إِلَیَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِیرٌ مُبِینٌ ‎﴿٧٠﴾‏ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِینٍ ‎﴿٧١﴾‏ فَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ‎﴿٧٢﴾‏ فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ‎﴿٧٣﴾‏ إِلَّا إِبْلِیسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِینَ ‎﴿٧٤﴾(ص)
’’مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جبکہ وہ تکرار کر رہے تھے ،میری طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں صاف صاف آگاہ کردینے والا ہوں ،جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ، سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گرپڑنا چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) ، اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے ۔‘‘

تخلیق آدم علیہ السلام اورابلیس کی سرکشی :

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوتخلیق آدم علیہ السلام کے وقت شیطان کی بلندقدر فرشتوں  کی توسط سے اپنے رب کے ساتھ گفتگوکامجھے کوئی علم نہ تھا ،مجھے تووحی کے ذریعہ سے یہ باتیں  صرف اس لئے بتائی جاتی ہیں  کہ میں  اللہ کے احکامات کوواضح طورپر بیان کردوں  جن کے اختیارکرنے سے تم اللہ کی خوشنودی کے مستحق ہوگے ، اوران محرمات ومعاصی کی وضاحت کردوں  جن کو اختیارکرنے سے تم اللہ کے غیض وغضب کے مستحق قرارپاؤ گے، جب رب العالمین نے فرشتوں  سے ارشادفرمایاتھاکہ میں  اپنے ہاتھوں  سے مٹی کاایک پتلا تخلیق کرنے والا ہوں ،جوبال وپرسے عاری ہوگا،جب میں  اسے پوری طرح انسانی پیکرمیں  ڈھال لوں  اوراس میں  اپنی روح پھونک دوں  جس سے اس پیکرخاکی میں  زندگی کی لہردوڑجائے تو اس کی تعظیم وتکریم میں  تم سب کے سب اس کے آگے سجدہ میں  گرجانا،اسلام میں  کسی کے لیے تعظیمی سجدہ بھی جائزنہیں  رکھا گیا،

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، ائْذَنْ لِی فَلِأَسْجُدَ لَكَ ، قَالَ:لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ المَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا

ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیں  میں  آپ کوسجدہ کروں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگریہ جائزہوتاتومیں  عورت کوحکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندکوسجدہ کرے۔ [74]

چنانچہ جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تکمیل ہوئی اوراللہ نے اس پیکرخاکی میں  روح پھونک دی تو تمام فرشتے بیک وقت سجدے میں  گرگئے مگرابلیس نے سجدہ نہ کیااور نہایت غروروتکبرسے اپنے رب کے حکم کوٹھکرادیااور کافروں  میں  سے ہوگیا۔

قَالَ یَا إِبْلِیسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِینَ ‎﴿٧٥﴾‏ قَالَ أَنَا خَیْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِینٍ ‎﴿٧٦﴾‏ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِیمٌ ‎﴿٧٧﴾‏ وَإِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِی إِلَىٰ یَوْمِ الدِّینِ ‎﴿٧٨﴾‏ قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِی إِلَىٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ ‎﴿٨٠﴾‏ إِلَىٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ‎﴿٨١﴾(ص)
’’ اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس ! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا، کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایااور اسے مٹی سے بنایا ہے، ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت و پھٹکار ہے، کہنے لگا میرے رب! مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے،(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے متعین وقت کے دن تک۔‘‘

خالق کائنات نے فرمایااے ابلیس،تجھے آدم علیہ السلام کوسجدہ کرنے سے کیاچیز مانع ہوئی جسے میں  نے اپنے دونوں  ہاتھوں  سے بنایاہے؟اس طرح وہ عزت واکرام کاحامل ہے،کیاتوگھمنڈمیں  مبتلاہوگیاہے یاتوہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں  میں  سے؟اس نے خالق کائنات کواپنے زعم فاسدمیں  جواب دیامیں  نے اس کواس لیے سجدہ نہیں  کیاکیونکہ میں  اس سے بہترہوں ،آپ نے مجھے آگ سے پیداکیاہے اور اس کومٹی سے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایااچھاتواس عزت وتکریم کے مقام سے نکل جا، تو دھتکارا ہوا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ۝۱۳ [75]

ترجمہ:پس تونکل جاکہ درحقیقت توان لوگوں  میں  سے ہے جوخوداپنی ذلت چاہتے ہیں ۔

اورتیرے اوپر یوم الجزاتک میری لعنت وپھٹکار ہے،یعنی میری لعنت وپھٹکاردائمی اورابدالآبادتک ہے اوراس کے بعدتواپنے کرتوتوں  کی سزابھگتے گا،ابلیس بولااے میرے رب!اگریہ بات ہے توپھرمجھے اس وقت تک کے لئے مہلت دے دے جب یہ لوگ اعمال کی جزاکے لیے دوبارہ اٹھائے جائیں  گے،باری تعالیٰ نے اپنی حکمت ومشیت کے تقاضوں  کے مطابق ابلیس کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایاٹھیک ہے ،ہم نے تجھے اس متعین وقت کے دن تک مہلت دے دی جس کاوقت صرف مجھے معلوم ہے۔

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٨٢﴾‏ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ ‎﴿٨٤﴾‏ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿٨٥﴾‏(ص)
’’کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو یقیناً بہکا دونگا بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں ،فرمایا سچ تو یہ ہے، اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں میں (بھی) جہنم کو بھر دونگا۔‘‘

ابلیس مردود نے انتہائی ڈھٹائی سے کہااے میرے رب تیری عزت کی قسم!میں  ان سب اولادآدم کوراہ راست سے گمراہ کرکے دم لوں  گاالبتہ تیرے چیدہ پسندیدہ بندوں  پرجوتیری یادمیں  منہمک رہیں  گے میراکوئی بس نہیں  چلے گا،جیسے فرمایا

قَالَ اَرَءَیْتَكَ ہٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ۝۰ۡلَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا۝۶۲ [76]

ترجمہ:پھر وہ بولادیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں  اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں  بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں  گے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاحق یہ ہے اورمیں  حق ہی کہاکرتاہوں  کہ میں  جہنم کوتجھ سمیت پوری جنس شیاطین سے اوران سب لوگوں  سے بھردوں  گا جو ان انسانوں  میں  سے تیری پیروی کریں  گے،جیسے فرمایا

قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاۗؤُكُمْ جَزَاۗءً مَّوْفُوْرًا۝۶۳ [77]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے فرمایااچھاتوجاان میں  سے جوبھی تیری پیروی کریں  تجھ سمیت ان سب کے لیے جہنم ہی بھرپورجزاہے۔

۔۔۔وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَــَٔــنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۝۱۳ [78]

ترجمہ:مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں  نے کہی تھی کہ میں  جہنم کو جنوں  اور انسانوں  سب سے بھر دوں  گا ۔

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِینَ ‎﴿٨٦﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِینٍ ‎﴿٨٨﴾‏(ص)
’’کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ، یہ تمام جہان والوں کے لیے سراسر نصیحت (و عبرت) ہے، یقیناً تم اس کی حقیقت کو کچھ ہی وقت کے بعد (صحیح طور پر) جان لو گے ۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان منکرین حق سے کہہ دیں  کہ مجھے تمہارے مال ودولت ،مرتبہ وحیثیت اوردنیاوی نفع حاصل کرنے کی کوئی لالچ یا تمنا نہیں ، یہ وعظ ونصیحت میں  اپنے کسی ذاتی مفادکے لئے نہیں  کررہا اورنہ ہی میں  جھوٹاآدمی ہوں  کہ اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کردوں  جواس نے نہ کہی ہویامیں  تمہیں  ایسی بات کی طرف دعوت دوں  جس کا اللہ نے مجھے حکم نہ دیاہوبلکہ میں  اللہ کے احکامات پوری دیانت وامانت کے ساتھ تم تک پہنچا رہا ہوں ،اس وعظ وتبلیغ سے میرامقصود صرف اللہ کی رضاوخوشنودی ہے،اورمیں  جودعوت پیش کررہاہوں  وہ دنیابھرکے انسانوں  اورجنات کے لئے نصیحت ہے بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے کاقصدکرے ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۔۔۔ [79]

ترجمہ:اوریہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجاگیاہے تاکہ تمہیں  اورجس جس کویہ پہنچے سب کومتنبہ کردوں ۔

وَمَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ [80]

ترجمہ:اورانسانی گروہوں  میں  سے جوکوئی اس کاانکارکرے تواس کے لیے جس جگہ کاوعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔

اللہ کے کلام (قرآن)کی تصدیق،میرے بیان کی سچائی اورمیری زبان کی صداقت بہت جلد تمہاری زندگی میں  ہی یامرتے ہی جب تمام اسباب منقطع ہوجائیں  گے تمہارے سامنے آجائے گی ۔

محرز رضی اللہ عنہ بن نضلہ کاقبول اسلام:

محرز رضی اللہ عنہ بن نضلہ کاشماربڑے عظیم المرتبت صحابہ میں  ہوتاہےان کاتعلق بنواسدبن خزیمہ سے تھا سلسلہ نسب یہ ہے،

محرز بن نضلة :بن عبد الله بن مرة بن كثیر بن غنم بن دودان بن أسد بن خزیمة الأسدی، أبو نضلة، ویعرف بالأخرم

محرز رضی اللہ عنہ بن نضلہ بن عبداللہ بن مرہ بن کثیربن غنم بن دودان بن اسدبن خزیمہ ،مگریہ اخرم اسدی کے لقب سے مشہورہیں

والذی عند الناس أنه حلیف بنی عبد شمس

ایام جاہلیت میں  ان کاخاندان بنوعبدشمس کاحلیف تھا۔ [81]

یہ ان سعیدالفطرت نوجوانوں  میں  سے ہیں  جنہوں  نے بعثت نبوی کی ابتداہی میں  عین عنفوان شباب میں  دعوت توحیدپرلبیک کہااس طرح ان کوالسابقون الاولون کی مقدس جماعت کارکن ہونے کاشرف حاصل ہوگیاتھا

وكانت بنو عَبْد الأشهل یدعون أنّه حلیفهم

تیرہ بعثت نبوی میں  سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کااذن عام دیاتواخرم اسدی رضی اللہ عنہ بھی دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے یہاں  بنونجارکے خاندان بنوعبدالاشہل نے انہیں  اپناحلیف بنالیا،

مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِیمَ عَنْ أَبِیهِ قَالَ:قَالَ: آخَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ مُحْرِزِ بْنِ نَضْلَةَ وَعُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ،وَشَهِدَ بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْخَنْدَقِ

محمدبن ابراہیم اپنے والدسے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کارشتہ مواخاة انصارکے جلیل القدرفرزندعمارہ رضی اللہ عنہ بن خزم نجاری سے قائم فرمایا۔ [82]

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ: وَشَهِدَ بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْخَنْدَقِ.

محمدبن عمرسے روایت ہےغزوات کاسلسلہ شروع ہواتوانہوں  نے غزوہ بدرمیں  اپنی شمشیرخاراشگاف کے جوہردکھائے،اس کے بعدغزوہ احداورغزوہ احزاب میں  اپنی شجاعت اورسرفروشی کی دھاک بٹھادی۔ [83]

قَالَ مُحْرِزُ بْنُ نَضْلَةَ: رَأَیْتُ سَمَاءَ الدُّنْیَا أَفْرَجَتْ لِی حَتَّى دَخَلْتُهَا حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ. ثُمَّ انْتَهَیْتُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى فَقِیلَ لِی:هَذَا مَنْزِلُكَ، فَعَرَضْتُهَا عَلَى أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ. وَكَانَ أَعْبُرُ النَّاسِ فَقَالَ: أَبْشِرْ بِالشَّهَادَةِ!

محرزبن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں  نے خواب دیکھاکہ آسمان دنیا کے دروازے میرے لئے کھول دیئے گئے اورمیں  عالم بالاکی سیرکرتے ہوئے ساتویں  آسمان یہاں  تک کہ سدرة المنتہیٰ تک پہنچ گیا،اس وقت غیب سے آوازآئی یہی تمہارامسکن ہے،میں نے اپناخواب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیان کیا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے تعبیر رویاء میں کمال درجے کی مہارت عطافرمائی تھی اوراکثرلوگ ان کی خدمت میں  اپنے خوابوں  کی تعبیرپوچھنے کے لئے حاضرہوا کرتے تھے، سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں  تمہیں  بشارت دیتاہوں  کہ تم راہ حق میں  درجہ شہادت پر فائزہوگئے۔ [84]

خَرَجْتُ أَنَا وَرَبَاحٌ غُلاَمُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجْتُ بِفَرسٍ لِطَلْحَةَ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُیَیْنَةَ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِیُّ قَدْ أَغَارَ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَاقَهُ أَجْمَعَ، وَقَتَلَ رَاعِیَهُ، فَقُلْتُ: یَا رَبَاحُ! اقعُدْ عَلَى هَذَا الفَرَسِ، فَألْحِقْهُ بِطَلْحَةَ، وَأَعْلِمْ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ,أَنَّ الْمُشْرِكِینَ قَدْ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِهِ وَقُمْتُ عَلَى تلٍّ،فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِینَةَ ثُمَّ نَادَیْتُ ثَلاَثاً: یَا صَبَاحَاهُ! وَاتَّبَعْتُ القَوْمَ فَجَعَلْتُ أَرْمِیهِم وَأَعْقِرُ بِهِم، وَذَلِكَ حِیْنَ یَكْثُرُ الشَّجَرُ، فَإِذَا رَجَعَ إِلَیَّ فَارِسٌ قَعَدْتُ لَهُ فِی أَصلِ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَمَیْتُهُ، وَجَعَلْتُ أَرمِیْهِ وَأَقُوْلُ:

چنددن بعدوہ وقت آ گیا جس کااخرم اسدی رضی اللہ عنہ کوشدت سے انتظارتھاربیع الآخر چھ ہجری میں  عیینہ بن حصن فزاری نے چالیس سواروں  کے جتھے کے ساتھ غابہ کی چراہ گاہ پر چھاپہ مارا،یہ چراہ گاہ مدینہ منورہ سے چندمیل کے فاصلے پر ایک چشمے ذی قرد سے متصل واقع تھی اوراس میں  سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں  چراکرتی تھیں  ، فزاری غارت گروں  نے اونٹنیوں  کے نگران کوشہیدکرڈالااوربیس شیردار اونٹنیوں  کو ہانک کرلے چلے ، سلمہ رضی اللہ عنہ بن الاکوع اسلمی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام رباح طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پرسوارہوکروہاں  آنکلے، سلمہ رضی اللہ عنہ کو غارت گروں  کی حرکت کاعلم ہواتووہ غم وغصہ سے بے تاب ہوگئے انہوں  نے کہا اے رباح رضی اللہ عنہ !اس گھوڑے پرسوارہوکرکر فوراًمدینہ منورہ جاؤ اوراسے طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دو اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس واقعہ کی اطلاع دے دوکہ مشرکین نے چراہ گاہ پرحملہ کر دیا ہے،اورخودتن تنہافزاری لٹیروں  سے لڑنے مرنے کے لئے تیارہوگئے ،وہ بڑے دلاور اورنڈرآدمی تھے اورقدرانداری میں  بھی کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے ، انہوں  نے پہلے ایک قریبی ٹیلے پرچڑھ کرمدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے تین بار( جس کے لفظی معنی ہے اے صبح کی مصیبت )کانعرہ لگایااس زمانے میں  جب کوئی شخص یہ نعرہ لگاتاتھاتواس کامطلب یہ ہوتاتھاکہ وہ مصیبت میں  مبتلاہے یااس کوکوئی سخت معاملہ درپیش ہے جس سے نکلنے کے لیے اس کومددکی ضرورت ہے، یہ نعرہ لگا کرسلمہ رضی اللہ عنہ ٹیلے سے نیچے اترے اورلٹیروں  کے تعاقب میں  چل پڑے اوردرختوں  کی آڑلے کرچھاپہ ماروں  پرپتھروں  اورتیروں  کی بوچھاڑکردی ،جب لٹیرے ان کی طرف آنے کی کوشش کرتے تووہ درختوں  کے جھنڈ میں  چھپ جاتے ، جب وہ واپس جاتے توپھرتیروں  سے بوچھاڑکردیتے اورللکارکریہ رجزپڑھتے

خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعْ ، وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعْ

اسے لے میں  اکوع کابیٹاہوں     اورآج کادن چھٹی کادودھ یادکرانے(یاسخت لڑائی)کادن ہے

وَأَصَبتُ رَجُلاً بَیْنَ كَتِفَیْهِ، وَكُنْتُ إِذَا تَضَایَقَتِ الثَّنَایَا، علوتُ الجَبلَ، فَرَدَأْتُهُم بِالحِجَارَةِ، فَمَا زَالَ ذَلِكَ شَأْنِی وَشَأْنُهُم, حَتَّى مَا بَقِیَ شَیْءٌ مِنْ ظَهْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِی، وَاسْتَنْقَذْتُهُ، ثُمَّ لَمْ أَزَلْ أَرْمِیْهِم حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثِیْنَ رُمْحاً، وَأَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثِیْنَ بُرْدَةً یَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا، وَلاَ یُلْقُوْنَ شَیْئاً إلَّا جَعَلْتُ عَلَیْهِ حِجَارَةً، وَجَمَعتُهُ عَلَى طَرِیقِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا امتدَّ الضُّحَى أَتَاهُم عُیَیْنَةُ بنُ بَدْرٍ مَدَداً لَهُم ، وَهُم فِی ثَنِیَّةٍ ضَیِّقَةٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الجَبَلَ

اس اکیلے مردمجاہدنے اپنے تیروں  اورپتھروں  سے لٹیروں  کا ناطقہ بندکردیااوروہ بدحواسی کے عالم میں  ساری اونٹنیاں  چھوڑکربھاگ کھڑے ہوئے ،سلمہ رضی اللہ عنہ نے اونٹنیوں  کومدینہ منورہ کی طرف ہانک دیااورخودبرابرلٹیروں  کاپیچھاکرتے رہے جواپنی تیس چادریں  اورتیس نیزے پھینک برق رفتاری کے ساتھ بھاگتے جاتے تھے،جب چاشت سے کچھ زیادہ وقت ہواتوعیینہ بن فزاری کچھ مسلح سواروں  کے ساتھ غارتگروں  کی مددکے لیے آپہنچا،ان لوگوں  نے سلمہ رضی اللہ عنہ کوگرفتارکرناچاہامگرسلمہ رضی اللہ عنہ ایک قریبی پہاڑی چوٹی پرچڑھ گئے،

قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ، وَالَّذِی أَكَرَمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ یَطْلُبُنِی رَجُلٌ مِنْكُم فَیُدْرِكَنِی، وَلاَ أَطْلُبُهُ فَیَفُوتَنِی ،قَالَ فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِی ذَلِكَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم یخللون الشَّجَرَ وَإِذَا أَوَّلُهُمِ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِیُّ، وَعَلَى أَثَرِهِ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى أثره الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ الْكِنْدِیُّ، فولَّى الْمُشْرِكُونَ مُدْبِرِینَ

اوروہاں  سے للکارکرکہااے اللہ کے دشمنوں !جانتے ہومیں  کون ہوں  ،میں  ہوں  اکوع کابیٹا،اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انورکوبزرگ بنایاتم میں  سے کسی کی مجال نہیں  کہ مجھ کوگرفتارکرسکے اگرتم میں  سے کوئی میرے نزدیک آیاتووہ ہرگزبچ کرنہ جانے پائے گا، ابھی فزاری غارت گراگلاقدم اٹھانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ دورسے گرداڑتی نظرآئی اوردرختوں  کے جھنڈسے شہسوارنمودارہوئے جواپنے گھوڑے اڑاتے سلمہ رضی اللہ عنہ کی مددکے لئے آرہے تھے،یہ شہسواراس امدادی دستے کاہراول تھے جوسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاکے کی اطلاع ملتے ہی لٹیروں  کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا تھا سب سے آگے اخرم اسدی رضی اللہ عنہ تھے ان کے پیچھے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ اوران کے پیچھے کچھ دورمقداد رضی اللہ عنہ بن الاسودکندی تھے

وأنزل من الجبل فأعرض للأخرم فأخذ عنان فرسه، فقلت: یا أخرم ائذن القوم یعنی احذرهم فإنی لا آمن من أَنْ یَقْتَطِعُوكَ فَاتَّئِدْ حَتَّى یَلْحَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ،قَالَ: یَا سَلَمَةُ إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَیْنِی وَبَیْنَ الشَّهَادَةِ ،قَالَ: فَخَلَّیْتُ عِنَانَ فَرَسِهِ، فَیَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُیَیْنَةَ وَیَعْطِفُ عَلَیْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ فَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ ، فَیَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ بِأَبِی قَتَادَةَ وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ

اس وقت سلمہ رضی اللہ عنہ فوراً پہاڑی کی چوٹی سے نیچے اترے اوراخرم رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی باگ پکڑکرکہااخرم رضی اللہ عنہ !رک جاؤ !اگرتم آگے بڑھے تومجھے ڈرہے کہ لٹیرے تم پر حملہ کردیں  گےتھوڑی دیر انتظار کروتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم آجائیں ،اخرم رضی اللہ عنہ کوغیرت دینی نے شعلہ جوالہ بنادیاتھااوروہ غارت گروں  سے دودوہاتھ کرنے کے لیے سخت بے تاب تھےانہوں  نے فرمایااے سلمہ رضی اللہ عنہ !اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتے ہواورسمجھتے ہوکہ جنت حق ہے اوردوزخ حق ہے تومجھے راہ حق میں  اپنی جان قربان کرنے سے نہ روکو ،یہ جملے انہوں  نے اس جوش اورجذبہ کے ساتھ کہے کہ سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے گھوڑے کی باگ چھوڑدی اور وہ گھوڑااڑاتے ہوئے لٹیروں  کی طرف بڑھے ، فزاریوں  کانامورجنگجوعبدالرحمٰن بن عیینہ سب سے پہلے ان کے سامنے آیاانہوں  نے اپنی تلوارسے اس پرایک بھرپوروارکیاوہ خودتوبچ گیالیکن اس کاگھوڑازخمی ہوگیااب اس نے سنبھل کراخرم رضی اللہ عنہ پراپنے نیزے کاوارکیایہ وارکارگرثابت ہوااوراخرم رضی اللہ عنہ کے جگرکے پار ہوگیاوہ شہیدہوکرفرش خاک پرگرگئے اوروہ اخرم کے گھوڑے پرچڑھ بیٹھا،یوں  ان کے اس خواب کی تعبیرپوری ہوگئی جس میں  سدرة المنتہیٰ کوان کامسکن قراردیاگیاتھا،اتنے میں  ابوقتادہ رضی اللہ عنہ گھوڑااڑاتے آپہنچے اوراپنے نیزے سے عبدالرحمٰن بن عیینہ کوجہنم واصل کرکے اخرم رضی اللہ عنہ کابدلہ لے لیا اور اخرم رضی اللہ عنہ کاگھوڑااپنی تحویل میں  لے لیا۔ [85]

وَكَانَ یَوْم قتل ابن سبع وثلاثین، أو ثمان وثلاثین سنة

شہادت کے وقت ان کی عمر۳۷یا۳۸ برس کی تھی۔ [86]

[1] الانبیاء ۱۲،۱۳

[2] ص: ۵

[3] مسنداحمد۲۰۰۸، السنن الکبری للبیہقی ۱۸۶۴۸،صحیح ابن حبان ۶۶۸۶،مستدرک حاکم ۳۶۱۷،مصنف ابن ابی شیبة۳۶۵۶۴

[4] یونس۲

[5] القمر۲۵

[6] الزخرف۳۲

[7] الانعام۳۳

[8] الزخرف۳۱

[9] النسائ۵۳،۵۴

[10] بنی اسرائیل۱۰۰

[11] القمر۴۵

[12] طہ۱۳۰

[13] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَآتَیْنَا دَاوُدَ زَبُورًا ۳۴۱۹ ،وکتاب التھجدبَابُ مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ۱۱۳۱، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ یُفْطِرِ الْعِیدَیْنِ وَالتَّشْرِیقَ، وَبَیَانِ تَفْضِیلِ صَوْمِ یَوْمٍ، وَإِفْطَارِ یَوْمٍ ۲۷۳۴، مسنداحمد۶۴۹۱

[14] سبا۱۰

[15] الدر المنثور۱۵۳؍۷

[16] تفسیرطبری۱۷۱؍۲۱

[17] تفسیرطبری۱۷۲؍۲۱

[18] تفسیرابن کثیر۵۹؍۷

[19] سبا۱۳

[20] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الأَیْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ

[21] المومنون۱۱۵

[22] الدخان ۳۸تا۴۰

[23] النمل۱۶

[24] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَیْمَانَ نِعْمَ العَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۳۴۲۴

[25] الانبیاء ۸۱

[26] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة ص بَابُ قَوْلِهِ هَبْ لِی مُلْكًا لاَ یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِی، إِنَّكَ أَنْتَ الوَهَّابُ، صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ جَوَازِ لَعْنِ الشَّیْطَانِ فِی أَثْنَاءِ الصَّلَاةِ، وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ وَجَوَازِ الْعَمَلِ الْقَلِیلِ فِی الصَّلَاةِ ۱۲۰۹، مسند احمد ۷۹۶۹،صحیح ابن حبان ۶۴۱۹،السنن الکبری للبیہقی ۳۱۸۴،شرح السنة للبغوی ۷۴۶

[27] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ جَوَازِ لَعْنِ الشَّیْطَانِ فِی أَثْنَاءِ الصَّلَاةِ، وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ وَجَوَازِ الْعَمَلِ الْقَلِیلِ فِی الصَّلَاةِ۱۲۱۱،السنن الکبری للنسائی۵۵۴

[28] الانبیاء ۸۳

[29] تفسیرطبری۲۱۱؍۲۱،تفسیرابن ابی حاتم۲۴۶۰؍۸،صحیح ابن حبان ۲۸۹۸، مستدرک حاکم۴۱۱۵،مسندابی یعلی۳۶۱۷،الاحادیث الطوال۲۷۶؍۱

[30] صحیح بخاری کتاب الغسل بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْیَانًا وَحْدَهُ فِی الخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ ۲۷۹، مسند احمد ۸۱۵۹،شرح السنة للبغوی۲۰۲۷،السنن الکبری للبیہقی۹۵۸

[31] الطلاق۲،۳

[32] سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ الْكَبِیرِ وَالْمَرِیضِ یَجِبُ عَلَیْهِ الْحَدُّ۲۵۷۵، مسند احمد ۲۱۹۳۵

[33] تفسیرالبغوی۷۴؍۴

[34] الانبیاء ۸۵،۸۶

[35] الانعام۸۶

[36] تفسیرابن کثیر۷۷؍۷

[37] الزمر۷۳

[38] الزخرف۷۱

[39] الزمر۳۴

[40] النحل۹۶

[41] ھود۱۰۸

[42] الانشقاق۲۵

[43] الرعد۳۵

[44] حم السجدة۸

[45] الواقعة۳۵،۳۶

[46] النبا۳۳

[47] الواقعة۲۲،۲۳

[48] الصافات ۴۸،۴۹

[49] الرحمٰن۵۸

[50] الدخان۵۴

[51] الطور۲۰

[52] الرحمٰن۷۴

[53] العنکبوت۵۵

[54] الزمر۱۶

[55] محمد۱۵

[56] النبا۲۴،۲۵

[57] جامع ترمذی کتاب صفة جھنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ ۲۵۸۴، مسند احمد ۱۱۲۲۹، مسندابی یعلی ۱۳۸۱،شرح السنة للبغوی ۴۴۰۷

[58] تفسیرابن کثیر۱۱۳؍۶، التفسیر المنیر فی العقیدة والشریعة والمنهج۲۲۳؍۲۳، الأساس فی التفسیر۴۷۸۷؍۸

[59] الاعراف۳۸

[60] الاحزاب۶۸

[61] الاعراف۳۸

[62] المومنون ۱۰۹،۱۱۰

[63] الکہف۱۱۰

[64] حم السجدة۶

[65] الرحمٰن۲۶،۲۷

[66] الانعام۸۰

[67] طہ۹۸

[68] الطلاق۱۲

[69] یوسف۲۱

[70] بنی اسرائیل۴۴

[71] النور۴۱

[72] الحشر۲۴

[73] الجمعة۱

[74] مشکوٰة المصابیح کتاب النکاح باب عشرة النساء ۳۲۵۵، بحوالہ جامع ترمذی ،جامع ترمذی ابواب الرضاع بَابُ مَا جَاءَ فِی حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ ۱۱۵۹، مسند احمد ۱۹۴۰۳،سنن الدارمی ۱۵۰۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۷۰۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۷۱۳۴،شرح السنة للبغوی ۲۳۲۹

[75] الاعراف ۱۳

[76] بنی اسرائیل۶۲

[77] بنی اسرائیل۶۳

[78] السجدة۱۳

[79] الانعام۱۹

[80] ھود۱۷

[81] مغازی واقدی ۱۹۵؍۱۱

[82] ابن سعد۷۱؍۳

[83] ابن سعد۷۰؍۳

[84] انساب الاشراف للبلاذری۱۹۵؍۱۱،ابن سعد۷۰؍۳

[85] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدٍ وَغَیْرِهَا۴۶۷۸ ، البدیة والنہایة۱۷۴؍۴،تاریخ طبری ۵۹۸؍۲،ابن سعد۶۳؍۲، سیراعلام النبلا۷؍۲،الإصابة فی تمییز الصحابة۵۸۲؍۵

[86] اسدالغابة۶۸؍۵،ابن سعد۷۱؍۳، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۳۶۵؍۳

Related Articles