بعثت نبوی کا چوتھا سال

 مضامین سورة الصافات

کفارمکہ کے ظلم وستم سے مجبورہوکربہت سے مسلمان پناہ کے لئے حبشہ جاچکے تھے اورمکہ میں  بمشکل چالیس مسلمان باقی رہ گئے تھے،اہل مکہ بہت خوش تھے کہ اب مسلمانوں  کاانجام قریب ہے اوریہ تحریک مکے کی گھاٹیوں  ہی میں  دفن ہوکررہ جائے گی ،ایسے حالات میں  کفارمکہ کوسابقہ اقوام نوح ،ابراہیم ،اسماعیل ،اسحق ، موسٰی وہارون علیہ السلام ،لوط اور الیاس علیہ السلام ،یونس علیہ السلام کے احوال بتا کر تنبیہ کی گئی کہ ہم اپنے بھیجے ہوئے انبیاء کرام کی مخالفت اورتکذیب کرنے والی قوموں  کوصفحہ ہستی سے ہی مٹاکرعبرت کانشان بنا دیتے ہیں  ، اورمسلمانوں  کوسابقہ انبیاء اوران کے پیرو کاروں  کے حالات وواقعات بتاکر ہمت افزائی فرمائی گئی کہ کفارومشرکین کوئی بھی داوپیچ استعمال کرلیں  فتح وغلبہ ہم ہمیشہ اپنے مومن بندوں  ہی کوعطاکرتے ہیں  ،اہل مکہ خودکو ابراہیم علیہ السلام کے نسب میں  شمارکرتے اوراس پرفخرکرتے تھےاس سورہ میں  کفارومشرکین کو ترغیب دیتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام اوران کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے بھی حالات بیان کرکے فرمایاکہ ان دونوں  نے اپنی جان اوراولادکی قربانی کی کیسی اعلیٰ وعمدہ مثال قائم کی،اسی طرح ایک سچے مسلمان کورب کی رضاکے لئے اپنی جان ومال کونچھاورکر نا ہی سعادت سمجھناچاہئے، اس کے علاوہ اس سورہ میں توحید،بعثت بعدالموت اورحساب وجزا کوبہت ہی دلکش اندازسے بیان کیاگیا ہے،سورہ کے آخرمیں دوزخیوں  کے باہمی لعن طعن بتلاکر کفارکوتنبیہ اورمومنوں  کاآپس میں  مکالمہ بتلاکرجنتوں  کی بشارت دی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ‎﴿١﴾‏ فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا ‎﴿٢﴾‏ فَالتَّالِیَاتِ ذِكْرًا ‎﴿٣﴾‏ إِنَّ إِلَٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ ‎﴿٤﴾‏ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ‎﴿٥﴾‏ إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِینَةٍ الْكَوَاكِبِ ‎﴿٦﴾‏ وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ ‎﴿٧﴾‏ لَا یَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ وَیُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ ‎﴿٨﴾‏ دُحُورًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ ‎﴿٩﴾‏ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ‎﴿١٠﴾(الصافات)
’’ قسم صف باندھنے والے (فرشتوں ) کی،پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی، پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی، یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے ، آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مشرقوں کا رب وہی ہے،ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا اور حفاظت کی سرکش شیطان سے، عالم بالا کے فرشتوں (کی باتوں ) کو سننے کے لیے وہ کان بھی نہیں لگا سکتے بلکہ ہر طرف سے وہ مارے جاتے ہیں بھگانے کے لیے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے، مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو (فورا ہی) اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے۔‘‘

آسمانوں  پراللہ کی عبادت اورنظام کائنات کی تدبیرکے لئے قطادردرقطارصف باندھنے والے فرشتوں  کی قسم۔پھران فرشتوں  کی قسم جونافرمانوں  اورمجرموں  کوڈانٹنے والے ہیں ۔پھران فرشتوں  کی قسم جوامرحق کی طرف توجہ دلانے کے لئے تذکیرکی خدمت انجام دیتے ہیں ۔فرشتوں  کے تینوں  گروہوں  کی قسم کھاکراللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تمام مخلوقات کامعبودحقیقی متعددنہیں  بس ایک اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے ،جس کی الوہیت وربوبیت میں  کوئی شریک نہیں  ہے ،اورکائنات کا پورا نظام اللہ کی بندگی میں  چل رہاہے ، تمہارے معبود حقیقی کی قدرت شان تو یہ ہے کہ وہ زمین اور آسمانوں  اوران کے درمیان جوکچھ ہے کاخالق ومالک ،مدبر،رازق اورمتصرف ہے، جبکہ تمہارے معبودوں  نے کچھ بھی تخلیق نہیں  کیا اورنہ ہی وہ اللہ کی تخلیق میں  ساجے دارہیں ،نہ کسی کام میں  اللہ کے مددگارہیں ،نہ ہی وہ آسمان وزمین سے رزق دینے پر قادر ہیں  اورنہ ہی ان کے پاس کسی قسم کے اختیارات ہیں توپھراللہ تعالیٰ کوچھوڑکر ان بے اقتدار ہستیوں  کی پرستش کیوں  کرتے ہو؟جیسے فرمایا

قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۚ لَا یَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِیْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِیْرٍ۝۲۲ [1]

ترجمہ:(اے نبی!ان مشرکین سے ) کہو کہ پکاردیکھواپنے ان معبودوں  کو جنہیں  تم اللہ کے سوااپنامعبودسمجھے بیٹھے ہو ، وہ نہ آسمانوں  میں  کسی ذرہ برابرچیز کے مالک ہیں  نہ زمین میں ،وہ آسمان وزمین کی ملکیت میں  شریک بھی نہیں  ہیں ،ان میں  سے کوئی اللہ کامددگاربھی نہیں  ہے ۔

قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِ۝۰ۭ اِیْتُوْنِیْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَآ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۴ [2]

ترجمہ:اے نبی!ان سے کہوکبھی تم نے آنکھیں  کھول کردیکھابھی کہ وہ ہستیاں  ہیں  کیاجنہیں  تم اللہ کوچھوڑکر پکارتے ہو؟ذرامجھے دکھاؤ توسہی کہ زمین میں  انہوں  نے کیا پیدا کیا ہے ؟یاآسمانوں  کی تخلیق وتدبیرمیں  ان کاکوئی حصہ ہے؟اس سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب یاعلم کاکوئی بقیہ (ان عقائدکے ثبوت میں )تمہارے پاس ہو تووہی لے آؤ اگرتم سچے ہو۔

کیونکہ سورج ہرروزایک نئے زاویے سے طلوع و غروب ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ سورج کا ہرروز ایک نئی جہت سے طلوع وغروب ہونابھی اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے،جیسے فرمایا

فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ۝۴۰ۙ [3]

ترجمہ:میں  قسم کھاتا ہوں  مشرقوں  اورمغربوں  کے مالک کی ہم اس پرقادرہیں  ۔

رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ۝۱۷ۚ [4]

ترجمہ:دونوں  مشرق اوردونوں  مغرب، سب کامالک وپروردگار وہی ہے ۔

اوریہ بھی اللہ کی صفت ہے کہ اس نے آسمان دنیاکی زینت کے لئے ان گنت تاروں  سے مزین کیا ہےکیونکہ شیاطین کاہنوں  کوکچھ خبردینے کے لئے اوپر جاکرٹوہ لینے کی کوشش کرتے ہیں  ،اس کے بارے میں  فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیا کومستحکم سرحدوں  کے ذریعے سے ہرسرکش شیطان سے محفوظ کردیاہے،کسی شیطان کا ان حدوں  سے گزرنا ممکن نہیں  ہے ،جب شیاطین آسمان دنیاپرکوئی سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں  توستارے ان پرٹوٹ پڑتے ہیں  جس سے بالعموم شیطان جل جاتے ہیں  ، اوراپنے رب کی اطاعت سے سرکشی کی بناپران کے لئے دائمی عذاب تیار کیا گیاہے،ان ستاروں  کاتیسرا مقصد بحروبر کی تاریکیوں  میں  رہنمائی بھی ہے ، یہ شیاطین عالم بالا میں  جاکر مقرب فرشتوں  کی باتیں  نہیں  سن سکتےاوراگراتفاقاًکوئی ذراسی بھنک کسی شیطان کے کان میں  پڑ جاتی ہے توقبل اس کے کہ وہ نیچے اپنے اولیاتک پہنچے ایک تیز شعلہ اس کو جالیتاہے ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ۝۵ [5]

ترجمہ:ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں  سے آراستہ کیاہے اورانہیں  شیاطین کوماربھگانے کا ذریعہ بنادیاہے،ان شیطانوں  کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کررکھی ہے ۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیْنَ۝۱۶ۙوَحَفِظْنٰہَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۝۱۷ۙاِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ۝۱۸ [6]

ترجمہ:یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں  ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے ، ان کو دیکھنے والوں  کے لیے مزین کیااور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا کوئی شیطان ان میں  راہ نہیں  پا سکتا الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتا ہے۔

ایک مقام پر جنوں  کا بیان فرمایا

وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُهُبًا۝۸ۙوَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ۝۰ۭ فَمَنْ یَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا۝۹ۙ [7]

ترجمہ: اور یہ کہ ہم نے آسمان کوٹٹولاتودیکھاکہ وہ پہریداروں  سے پٹاپڑا ہے اورشہابوں  کی بارش ہورہی ہے،اوریہ کہ پہلے ہم سن گن لینے کے لئے آسمان میں  بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے مگر اب جوچوری چھپے سننے کی کوشش کرتاہے وہ اپنے لئے گھات میں  ایک شہاب ثاقب لگاہواپاتا ہے۔

فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا ۚ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِینٍ لَازِبٍ ‎﴿١١﴾‏ بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَإِذَا ذُكِّرُوا لَا یَذْكُرُونَ ‎﴿١٣﴾‏ وَإِذَا رَأَوْا آیَةً یَسْتَسْخِرُونَ ‎﴿١٤﴾‏ وَقَالُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِینٌ ‎﴿١٥﴾‏ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ‎﴿١٦﴾‏ أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ ‎﴿١٧﴾(الصافات)
’’ ان کافروں سے پوچھو تو کہ آیا ان کا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا (ان کا) جنہیں ہم نے (ان کے علاوہ )پیدا کیا ہے ؟ ہم نے (انسانوں ) کو لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے ؟ بلکہ تو تعجب کر رہا ہے اور یہ مسخرا پن کر رہے ہیں ، اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے یہ نہیں مانتے،اور جب کسی معجزے کو دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بالکل کھلم کھلا جادو ہی ہے، کیا جب ہم مرجائیں گے خاک اور ہڈی ہوجائیں گے پھر کیا (سچ مچ) ہم اٹھائے جائیں گے ؟ کیا ہم سے پہلے کے ہمارے باپ دادا بھی ؟ ۔‘‘

اللہ کے لئے دوبارہ پیداکردینادشوارنہیں :اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !منکرین آخرت سے پوچھیں  اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے سات آسمانوں  اوروسیع وعریض ہموارزمین،دہکتے ہوے سورج ، چمکتے ہوے چانداوربلندوبالاٹھوس پہاڑوں  وغیرہ کوتخلیق کیاہے جواپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے نہایت انوکھے ہیں ،اب کیااللہ کے لئے ان لوگوں  کودوبارہ زندہ کردینا ان چیزوں  کی تخلیق سے زیادہ مشکل اورمشقت والا ہے،جس اللہ کے لئے چنددنوں  میں  یہ عظیم الشان کائنات پیداکردینامشکل نہیں  تھااورجوخودانہیں  ایک دفعہ پیداکرچکاہے اس کے متعلق یہ سمجھتے ہیں  کہ وہ ان کی دوبارہ تخلیق سے عاجز ہے، اورانسان کوئی بڑی چیزنہیں  ہے ،ان کے جدامجد آدم علیہ السلام کو ہم نے چکنی لیس دارمٹی سے پیداکیاتھاجیسے فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۶ۚ [8]

ترجمہ:ہم نے انسان کوسڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا ۔

اور پھر اس کی نسل کوپانی کے ایک بد بو دار حقیرقطرے سے چلایاہے ، اسی طرح جب اللہ چاہے گا انہیں دوبارہ مٹی سے بناکرکھڑاکردے گا ،تم اللہ کی قدرت کے کرشموں  پرحیران ہواوریہ اپنی جہالت میں  اس کا مذاق اڑا رہے ہیں  ،واضح دلائل وبراہین سے حق وباطل کافرق سمجھایا جاتا ہے توسمجھ کرنہیں  دیتے،اللہ کانازل کردہ کلام سنتے ہیں  جس میں  انہیں  اخروی زندگی کے بارے میں  تنبیہ کی جاتی ہے توکلام اللہ کو ٹھٹھوں  میں  اڑادیتے ہیں  اورتمسخراڑاتے ہوئے کہتے ہیں  دعویٰ آخرت،جنت ودوزخ توطلسماتی باتیں  ہیں بھلایہ کس طرح ممکن ہے کہ جب ہم مرچکے ہوں  اورمٹی بن جائیں  اورہڈیوں  کاپنجرہ رہ جائیں  اس وقت ہم پھرزندہ کرکے اٹھا کھڑے کیے جائیں ،اورکیاہمارے اگلے وقتوں  کے آبا و اجدادبھی اٹھائے جائیں  گے؟،جیسے فرمایا

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۝۴۹ۙ [9]

ترجمہ: کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہوجائیں  گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں  گے ؟ اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں  گے جو پہلے گزر چکے ہیں  ؟ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں  سے کہو یقینا اگلے اور پچھلے سب ۔

قُلْ نَعَمْ وَأَنْتُمْ دَاخِرُونَ ‎﴿١٨﴾‏ فَإِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ یَنْظُرُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَقَالُوا یَا وَیْلَنَا هَٰذَا یَوْمُ الدِّینِ ‎﴿٢٠﴾‏ هَٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِی كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ ‎﴿٢١﴾‏ ۞ احْشُرُوا الَّذِینَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا یَعْبُدُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِیمِ ‎﴿٢٣﴾‏(الصافات)
’’آپ جواب دیجئے کہ ہاں ہاں اور تم ذلیل (بھی)ہوئوگے، وہ تو صرف ایک روز کی جھڑکی ہے کہ یکایک یہ دیکھنے لگیں گے اور کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی یہی جزا (سزا) کا دن ہے،یہی فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلاتے ہو، ظالموں کو اور ان کے ہمراہیوں کو اور (جن) جن کی وہ اللہ کے علاوہ پرستش کرتے تھے (ان سب کو ) جمع کرکے انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو ۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوہاں یقیناًاللہ مالک یوم الدین اعمال کی جزاکے لئے تمہیں  اورتمہارے آباواجدادکودوبارہ زندہ فرمائے گااورتم سب ذلت سے نگاہیں  جھکائے اس کی بارگاہ میں  حاضر ہوجاؤ گے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ۝۸۷ [10]

ترجمہ:اورسب کان دبائے اس کے حضورحاضرہوجائیں  گے ۔

جس طرح اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پرتم وجودمیں  آگئے تھے اوراس نے تمہیں  زمین میں  پھیلادیاتھا اسی طرح ایک اشارے پروہ تمہیں  تمہاری قبروں  سے زندہ کرکے میدان محشرمیں  جمع کردے گااورتم اللہ کے مقابلے میں بے بس ہو،اللہ کے حکم سے اسرافیل علیہ السلام جیسے ہی صورمیں پھونکیں  گے آن کی آن میں  یہ سب اپنی قبروں  سے تمام اجزا سمیت ،ننگے پاؤ ں ، عریاں  اورغیرمختون اٹھ کھڑے ہوں  گے اور خوف ودہشت سے پھٹی ا پنی آنکھوں  سے قیامت کے وحشت انگیز مناظراورمیدان محشرکی سختیاں  دیکھ رہے ہوں  گے ، جب مجرمین کو اپنی ہلاکت صاف نظرآنے لگے گی تووہ اپنی کوتاہیوں  کے اعتراف اور اظہارندامت کرتے ہوئے کہیں  گے ہائے ہماری کم بختی یہ تویوم الجزاہے،اہل ایمان یافرشتے ان کی ندامت بڑھانے کے لئے کہیں  گے ہاں  ،یہ رب اوربندے کے درمیان ان کے حقوق کے بارے میں  اوربندوں  کے درمیان ان کے آپس کے حقوق کے بارے میں  فیصلے کادن ہے جسے واضح دلیل وبراہین کے باوجودتم جھٹلایا کرتے تھے،اللہ رب العزت حکم فرمائے گاگھیرلاؤ سب کفروشرک اورمعاصی کاارتکاب کرنے والوں ،ان کاموں  میں ان کاساتھ دینے والوں  اوران معبودوں  کوجن کی وہ اللہ کوچھوڑکر بندگی کیاکرتے تھے،پھرسختی کے ساتھ ان سب کوہانک کرجہنم میں  ڈال دو ، جیسےفرمایا

اَلْقِیَا فِیْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِیْدٍ۝۲۴ۙمَّنَّاعٍ لِّــلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِۨ۝۲۵ۙالَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللهِ اِلٰـــهًا اٰخَرَ فَاَلْقِیٰهُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ۝۲۶ [11]

ترجمہ:حکم دیا گیا پھینک دوجہنم میں  ہرکٹے کافر کوجوحق سے عنادر کھتاتھا،خیرکوروکنے والااورحدسے تجاوزکرنے والاتھا،شک میں  پڑاہواتھااوراللہ کے ساتھ کسی دوسرے کوالٰہ بنائے بیٹھا تھا، ڈال دواسے سخت عذاب میں ۔

‏ وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ بَلْ هُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْیَمِینِ ‎﴿٢٨﴾‏ قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ وَمَا كَانَ لَنَا عَلَیْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ ۖ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِینَ ‎﴿٣٠﴾‏ فَحَقَّ عَلَیْنَا قَوْلُ رَبِّنَا ۖ إِنَّا لَذَائِقُونَ ‎﴿٣١﴾‏ فَأَغْوَیْنَاكُمْ إِنَّا كُنَّا غَاوِینَ ‎﴿٣٢﴾‏(الصافات)
’’اور انہیں ٹھہرا لو،( اس لیے) کہ ان سے (ضروری) سوال کیے جانے والے ہیں ، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ (اس وقت) تم ایک دوسروں کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ (سب کے سب) آج فرماں بردار بن گئے،وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال و جواب کرنے لگیں گے کہیں گے کہ تم ہمارے پاس ہماری دائیں طرف سے آتے تھے، وہ جواب دیں گے کہ نہیں بلکہ تم ہی ایماندار نہ تھے اور کچھ ہمارا زور تو تھا (ہی) نہیں بلکہ تم (خود) سرکش لوگ تھے، اب تو ہم (سب) پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوچکی کہ ہم (عذاب) چکھنے والے ہیں ،پس ہم نے تمہیں گمراہ کیا ہم خودبھی گمراہ ہی تھے۔‘‘

حساب کتاب کے بعدجب فرشتے بڑے بڑے ہیکڑمجرموں  کے گلے میں  طوق ڈال دیں  گے اوروہ انتہائی ذلت ولاچاری کے ساتھ سرجھکائے جہنم کی طرف جارہے ہوں  گے تواللہ عزوجل فرمائے گاذراانہیں  ٹھہراؤ ،دنیامیں  جوافترابردازی یہ کیاکرتے تھے اس کے بارے میں  ان سے کچھ پوچھناہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ پوچھے گادنیامیں  توتم کفرو شرک ،معصیت اورشروفسادمیں  ایک دوسرے کے مددگارتھے اب تمہیں  کیاہوگیاہے؟تم پریہ کیامصیبت آن پڑی کہ تم ایک دوسرے کی مددنہیں  کرسکتے حالانکہ تم تودنیامیں  اس زعم باطل میں  مبتلاتھے کہ تمہارے معبودتم سے عذاب کودورکردیں  گے،تمہاری مددکریں  گے یااللہ کے ہاں  تمہاری سفارش کریں  گے،ان کے دل ان باتوں  کی گواہی دیں  گے اس لئے سرجھکائے خاموش رہیں  گے تواللہ رب العزت فرمائے گاارے!آج تویہ سب فرمانبرداربن گئے ہیں ،اس کے بعددوزخی ایک دوسرے کی طرف مڑیں  گے اور باہم تکرارشروع کردیں  گے،پیروی کرنے والے اپنے پیشواؤ ں  کوملامت کرتے ہوئے کہیں  گےدنیامیں  تم اپنے فاسدعقائداورمشرکانہ اعمال کے بارے ہمیں  قسمیں  کھاکھا کر یہ یقین دلاتے رہے کہ جس راہ کی طرف تم ہمیں  چلارہے ہووہی حق اوربھلائی کی راہ ہے اورہم نے تمہیں  اپناخیرخواہ سمجھ کر انہی عقائدکو اپنالیاتھاجس کاآج یہ انجام بد دیکھنے کوملاہے ،پیشوا جواب دیں  گے تم ہمیں  موردطعن مت بناؤ ،ہمیں  تم سے کفرکاارتکاب کرانے کی کوئی قوت اوراختیارحاصل نہ تھا ،سچ تویہ ہے کہ طبعاًتم برائی کی طرف مائل تھے اور تمہارے دل توحیدکی آوازسے تکبرونفرت کرتے اورکفرسے بھرے ہوئے تھے ،ہم نے تمہیں  جس چیزکی طرف دعوت دی وہ کوئی حق بات نہ تھی نہ اس کی بھلائی پر کوئی دلیل تھی لیکن چونکہ خودتمہارے دلوں  میں  سرکشی اور برائی تھی اس لئے تم نے ہماراکہنامان لیا، میدان محشر ، جہنم میں  جانے کے بعداورجہنم کے اندرتابعین اور متبوعین کی یہ باہمی تکرارقرآن مجیدمیں  متعدد مقامات پربیان کی گئی ہے ،جیسے فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚۖ یَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۝۳۱قَالَ الَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ۝۳۲وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللهِ وَنَجْعَلَ لَهٗٓ اَنْدَادًا۔۔۔۝۰۝۳۳ [12]

ترجمہ:کاش! تم دیکھوان کاحال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضورکھڑے ہوں  گے،اس وقت یہ ایک دوسرے پرالزام دھریں  گے ،جولوگ دنیامیں  دباکررکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں  سے کہیں  گے کہ اگرتم نہ ہوتے توہم مومن ہوتے ،وہ بڑے بننے والے ان دبے ہوئے لوگوں  کوجواب دیں  گے کیاہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکاتھاجوتمہارے پاس آئی تھی؟نہیں بلکہ تم خودمجرم تھے ،وہ دبے ہوئے لوگ ان بڑے بننے والوں  سے کہیں  گے نہیں  بلکہ شب وروزکی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفرکریں  اوردوسروں  کواس کاہمسر ٹھیرائیں ۔

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [13]

ترجمہ: اور کہیں  گےاے رب ہمارے ! ہم نے اپنے سرداروں  اوراپنے بڑوں  کی اطاعت کی اورانہوں  نے ہمیں  راہ راست سے بے راہ کردیااے رب!ان کو دوہراعذاب دے اور ان پرسخت لعنت کر ۔

۔۔۔كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا۝۰ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۰ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ۝۳۹ۧ [14]

ترجمہ:ہرگروہ جب جہنم میں  داخل ہوگاتواپنے پیش روگروہ پرلعنت کرتاہوا داخل ہوگا،حتی کہ جب سب وہاں  جمع ہوجائیں  گے توہربعدوالاگروہ پہلے گروہ کے حق میں  کہے گاکہ اے رب!یہ لوگ تھے جنہوں  نے ہم کوگمراہ کیا لہذاانہیں  آگ کادوہرا عذاب دے،جواب میں  ارشاد ہوگا،ہرایک کے لئے دوہراعذاب ہی ہےمگرتم جانتے نہیں  ہو،اورپہلاگروہ دوسرے گروہ سے کہے گاکہ (اگرہم قابل الزام تھے)توتم کو ہم پرکون سی فضیلت حاصل تھی اب اپنی کمائی کے نتیجہ میں  عذاب کامزاچکھو۔

وَاِذْ یَتَـحَاۗجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ۝۴۷قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُلٌّ فِیْهَآ۝۰ۙ اِنَّ اللهَ قَدْ حَكَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ۝۴۸ [15]

ترجمہ:پھرذراخیال کرواس وقت کاجب یہ لوگ دوزخ میں  ایک دوسرے سے جھگڑرہے ہوں  گے ، دنیامیں  جولوگ کمزورتھے وہ بڑے بننے والوں  سے کہیں  گے ہم تمہارے تابع تھے اب کیایہاں  تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کوبچالو گے ؟ وہ بڑے بننے والے جواب دیں  گےہم سب یہاں  ایک حال میں  ہیں اوراللہ بندوں  کے درمیان فیصلہ کرچکاہے۔

اب تو ہم سب پر ہمارے رب کی یہ بات ثابت ہوچکی کہ ہم عذاب کا مزا چکھنے والے ہیں  ، ہم خودگمراہی میں  بھٹکے ہوئے تھے اوراسی راستے کی طرف تمہیں  دعوت دی۔

فَإِنَّهُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِیلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ یَسْتَكْبِرُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ وَیَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ ‎﴿٣٦﴾‏ بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِیمِ ‎﴿٣٨﴾‏ وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٣٩﴾(الصافات)
’’سو اب آج کے دن (سب کے سب) عذاب میں شریک ہیں ہم گناہ گاروں کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں ، یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں ،(نہیں نہیں ) بلکہ (نبی) تو حق (سچا دین) لائے ہیں اور سب رسولوں کو سچا جانتے ہیں ، یقیناً تم دردناک عذاب (کا مزہ) چکھنے والے ہو، تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے ۔‘‘

جس طرح دنیامیں  ان کے جرائم مشترکہ تھے اس طرح عذاب جہنم میں  مشترک ہوں  گےاگرچہ جرم کے مطابق عذاب کی مقدارمیں  فرق ہوگا،ہم مجرموں  کوایسی ہی دردناک سزادیاکرتے ہیں ،یہ جرائم کی تمام حدیں  پھلانگ جانے والے وہ لوگ تھے کہ جب دنیامیں  انہیں  وعظ ونصیحت کی جاتی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں  ہے،کائنات کی ہرچیزاللہ کی مخلوق ہے اورہرمخلوق اپنی بقاا وررزق کے لئے اپنے رب کی محتاج ہے،کسی مخلوق کے پاس کوئی قدرت واختیارنہیں  ہے ، اس لئے طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر صرف اسی کی عبادت کرو،مشکلات و پریشانیوں  میں اسی کوپکارواوراسی سے امیدیں  وابستہ کرلو تویہ گھمنڈمیں  آجاتے تھے اورکلمہ حق کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے تھے کیاہم ایک شاعر اورایک دیوانے کی دیوانگی کی خاطراپنے معبودوں  کوچھوڑدیں  جن کی پرستش ہمارے آباواجدادکرتے چلے آئے ہیں  ؟

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى یَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی نَفْسَهُ وَمَالَهُ، إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اس بات کاحکم دیا گیا ہے کہ میں  اس وقت تک لوگوں  سے قتال کروں  جب تک وہ لاالٰہ الااللہ کااقرارنہ کرلیں ، جس نے لاالٰہ الااللہ کا اقرار کرلیا اس نے اپنی جان اورمال کی حفاظت کرلی الایہ کہ اسلام کاکوئی حق ہواوراس کاباطنی حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ [16]

کفار کے اس مقولے کے بعدقرآن مجیدنے یہ حقیقت اجاگرکی کہ سابقہ انبیاء ومرسلین کی خبرکے مطابق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لائے تھے ،اور سابقہ انبیاء اوران پرنازل کتابوں  کی تصدیق کرتے تھے اوروہی تعلیم پیش کررہے تھے جوسابقہ انبیاء نے پیش کی تھیں ،جیسے فرمایا

مَا یُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ۔۔۔۝۰۝۴۳ [17]

ترجمہ: اے نبی!تم کو جوکچھ کہاجارہاہے اس میں  کوئی چیزبھی ایسی نہیں  ہے جوتم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں  کونہ کہی جا چکی ہو ۔

اب ان سے کہا جائے گاکہ تم لازماً درد ناک سزاکامزاچکھنے والے ہو،ہم نے تم پرکوئی ظلم نہیں  کیابلکہ یہ دردناک عذاب تمہارے انہی اعمال خبیثہ کانتیجہ ہے جوتم کرتے رہے ہو۔جیسے فرمایا

۔۔۔فَمَا كَانَ اللہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۷۰ [18]

ترجمہ:پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے ۔

اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْـــًٔـا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۴۴ [19]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں  پر ظلم نہیں  کرتا لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔

إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ أُولَٰئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ ‎﴿٤١﴾‏ فَوَاكِهُ ۖ وَهُمْ مُكْرَمُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ ‎﴿٤٣﴾‏ عَلَىٰ سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَأْسٍ مِنْ مَعِینٍ ‎﴿٤٥﴾‏ بَیْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ لَا فِیهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِینٌ ‎﴿٤٨﴾‏ كَأَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَكْنُونٌ ‎﴿٤٩﴾(الصافات)
’’مگر اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیدہ بندے انہیں کے لیے مقررہ روزی ہے(ہر طرح) کے میوےاور باعزت و اکرام ہونگے، نعمتوں والی جنتوں میں تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے (بیٹھے) ہونگے، جاری شراب کے جام کا ان پر دور چل رہا ہوگا جو صاف شفاف اور پینے میں لذیذ ہوگی ،نہ اس سے درد ہوگا اور نہ اسکے پینے سے بہکیں گے ،اور ان کے پاس نیچی نظروں بڑی بڑی آنکھوں والی (حوریں ) ہونگی ایسی جیسے چھپائے ہوئے انڈے۔‘‘

متقیوں  کے لئے نجات اورانعامات :

مگراللہ کے برگزیدہ بندے اس عذاب سے محفوظ ہوں  گے ،اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں  سے درگزرفرمائے گااوران کی نیکیوں  کااجردس دس گنا بلکہ سات سات سوگنابلکہ اس سے بھی بہت زیادہ بڑھاچڑھا کرلازوال نعمتوں  بھری جنتوں میں  داخل فرمائے گا،جس میں  ان کے لئے ہمیشہ کے لئے انواع و اقسام کے لذیذ پھل ،میوہ جات اورطرح طرح کے ذائقوں  والی شرابیں  ہوں  گی جس میں  وہ عزت واکرام اورتعظیم وتوقیر کے ساتھ رہیں  گے، وہ ذی عزت انسانوں  کی طرح جنت کے گھنے سایہ داردرختوں  کے نیچے جہاں  طرح طرح کے چشمے اورنہریں  رواں  دواں  ہوں  گے بلند مرسع تختوں  پرہاتھوں  میں  سونے چاندی کے کنگن پہنے آمنے سامنے تکیوں  پر ٹیک لگائے بیٹھیں  گے، موتیوں  کی طرح چمکتے چاق وچوبند نوجوان خدام ہروقت شراب کے چشموں  سے ایک خاص انداز سے ساغر بھربھرکراورہرقسم کے پرندوں  کے بھنے ہوئے گوشت اورمیوہ جات ان کے درمیان پھرتے رہیں  گے،جیسے فرمایا

یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙبِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۝۱۸ۙلَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙوَفَاكِہَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۝۲۰ۙوَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ۝۲۱ۭ [20]

ترجمہ:ان کی مجلسوں  میں  ابدی لڑکے شراب چشمہ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیئے دوڑ تے پھرتے ہونگے جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان میں  فتور آئے گااور وہ ان کے سامنے طرح طرح لذیذ پھل پیش کریں  گے کہ جسے چاہیں  چن لیں  ،اور پرندوں  کے گوشت پیش کریں  گے کہ جس پرندے کا چاہیں  استعمال کریں ۔

اوران خدام کی خوبصورتی کے بارے میں  فرمایا

وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ۝۲۴ [21]

ترجمہ:اوران کی خدمت کے لئے گردش کریں  گے ان کے خادم لڑکے ،ایسے خوبصورت جیسے صدف میں  چھپے موتی۔

وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۰ۚ اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا۝۱۹ [22]

ترجمہ:ان کی خدمت کے لئے گردش کریں  گے ایسے لڑکے جوہمیشہ لڑکے ہی رہنے والے ہیں ،تم انہیں  دیکھوتوسمجھوکہ موتی بکھیردیے گئے ہیں ۔

جنتی شراب دنیاکی شرابوں  کی طرح بد رنگ،بدبودار ،بدذائقہ نہیں  ہوگی بلکہ یہ خوش رنگ،خوشبودار،خوش ذائقہ ہونےکے ساتھ ساتھ پینے والوں  کوکیف وسروربھی بخشے گی ،مگر اس کے پینے سے ان کے جسم کوکسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور نہ ان کی عقل میں  فتورواقع ہوگا ،اللہ تعالیٰ ان کا نکاح بڑی اور موٹی آنکھوں  والی،غزال چشم ہم سن نوخیز حوروں  سے کردے گاجوااپنی عفت اوراپنے شوہرکے حسن وجمال اوراس کے کمال کی وجہ سے کسی اورطرف نگاہ نہ کریں  گی ،یہ حوریں  حسن و جمال اوررعنائی ونزاکت میں  ایسی دلکش اور جاذب نظر ہوں  گی جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی جھلی۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِی عَنْ قَوْلهِ {كَأَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَكْنُونٌ} [[23]] قَالَ:رِقَّتُهُنَّ كَرِقَّةِ الْجِلْدَةِ الَّتِی رَأَیْتُهَا فِی دَاخِلِ الْبَیْضَةِ الَّتِی تَلِی الْقِشْرَ وَهِیَ الْغِرْقِیءُ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت كَأَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَكْنُونٌ کا مطلب پوچھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کی نرمی ونزاکت اس جھلی جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے۔ [24]

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٥٠﴾‏ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّی كَانَ لِی قَرِینٌ ‎﴿٥١﴾‏یَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِینَ ‎﴿٥٢﴾‏ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِینُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ ‎﴿٥٤﴾‏ فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِی سَوَاءِ الْجَحِیمِ ‎﴿٥٥﴾‏ قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِینِ ‎﴿٥٦﴾‏ وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّی لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِینَ ‎﴿٥٧﴾‏ أَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ ‎﴿٥٩﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿٦٠﴾‏(الصافات)
’’(جنتی) ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے پوچھیں گے ،ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا جو (مجھ سے) کہا کرتا تھا کیا تو (قیامت کے آنے کا) یقین کرنے والوں سے ہے ؟ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا اسوقت ہم جزا دیئے جانے والے ہیں ؟ کہے گا تم چاہتے ہو کہ جھانک کر دیکھ لو ؟ جھانکتے ہی اسے بیچوں بیچ جہنم میں (جلتا ہوا) دیکھے گا، کہے گا واللہ ! قریب تھا کہ مجھے (بھی) برباد کردے اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کئے جانے والوں میں ہوتا، کیا (یہ صحیح ہے) ہم مرنے والے ہی نہیں ؟ بجز پہلی ایک موت کے اور ہم نہ عذاب کیے جانے والے ہیں ، پھر تو (ظاہر بات ہے کہ) یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘

عیش وعشرت کے اس دلکش ماحول میں جنتی کدورتوں  سے پاک دل لئے آمنے سامنے بیٹھ کر دنیاکے واقعات یادکریں  گے اورایک دوسرے سے دنیاوی حالات پوچھیں  گے،ان میں  سے ایک کہے گا دنیامیں  میراایک مشرک ہم نشین تھاجومجھ سے استہزااورمذاق کے طورپرکہاکرتاتھا کیاتم بھی ایسے ضعیف الاعتقادہوجو ایسی بعیدازعقل بات پرایمان رکھتے ہو ؟کیاواقعی جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں  گے اور ہڈیوں  کاپنجربن کررہ جائیں  گے توہمیں  دوبارہ زندہ کرکے اعمالوں  کاحساب کیاجائے گااوراس کے مطابق جزاوسزادے کرجنت ودوزخ میں  بھیجا جائے گا،مگرمیں  اس کے طعن تشنیع اورچرب زبانی کے باوجود ایمان پرقائم رہااورروزآخرت کی تصدیق کرتارہااوروہ شخص اپنے عقائدپرقائم رہا،مجھے ذرہ بھرشک نہیں  کہ وہ جہنم میں  پڑاہوگا،اے میرے ساتھی کیا تم پسندکروگے کہ ہم جہنم میں  جھانک کردیکھیں شایدکہ وہ شخص مجھے وہاں  نظرآجائے اور میں  تمہیں  وہ شخص دکھلاؤ ں ؟یہ کہہ کر جونہی وہ اس شخص کودیکھنے کے لئے جھکے گاتوجہنم کی گہرائی میں  اس کومبتلائے عذاب دیکھ لے گااوراس کوملامت کرتے ہوئے کہے گااللہ کی قسم !اگراللہ کی رحمت میرے شامل حال نہ ہوتی تواپنے مزعومہ شبہات کے سبب مجھے گمراہ کرکے ہلاک ہی کرچکاہوتا،اگرمیرے رب کااحسان شامل حال نہ ہوتااوراس نے مجھے اسلام پرثابت قدمی کی توفیق نہ بخشی ہوتی توآج میں  بھی ان لوگوں  میں  سے ہوتاجوعذاب جہنم میں  مبتلا ہیں ،جیسے فرمایا

 وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدٰىنَا لِـھٰذَا۝۰ۣ وَمَا كُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰىنَا اللہُ۝۴۳ [25]

ترجمہ: اور وہ کہیں  گے کہ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں  راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا ۔

پھروہ شخص انتہائی حیرت واستعجاب اوروفورمسرت کے خودسے کلام کرتے اپنے احساسات کااظہار کرتے ہوئے کہے گاکہ اللہ نے مجھے جنت کی آرام دہ، پرسکون زندگی اور اس کی لازوال نعمتیں  عطافرمائی ہیں کیایہ دائمی نہیں  ہیں ؟ دنیا میں  جو موت ہمیں  آنی تھی وہ بس پہلے آ چکی،اب سب کے سامنے موت کوایک مینڈھے کی شکل میں  جنت ودوزخ کے درمیان لاکرذبح کردیاگیاہے؟اب ساری کوفتوں  کا خاتمہ ہو چکااب کسی کوموت نہیں  آئے گی ، یقیناًیہی عظیم الشان کامیابی ہےایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنے والوں  کوعمل کرناچاہیے۔

لِمِثْلِ هَٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ ‎﴿٦١﴾‏ أَذَٰلِكَ خَیْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ‎﴿٦٢﴾‏ إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِینَ ‎﴿٦٣﴾‏ إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِی أَصْلِ الْجَحِیمِ ‎﴿٦٤﴾‏ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّیَاطِینِ ‎﴿٦٥﴾‏ فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ‎﴿٦٦﴾‏ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَیْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِیمٍ ‎﴿٦٧﴾‏ ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِیمِ ‎﴿٦٨﴾‏ إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّینَ ‎﴿٦٩﴾‏ فَهُمْ عَلَىٰ آثَارِهِمْ یُهْرَعُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿٧١﴾‏ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِیهِمْ مُنْذِرِینَ ‎﴿٧٢﴾‏ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِینَ ‎﴿٧٣﴾‏ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِینَ ‎﴿٧٤﴾(الصافات)
’’ایسی (کامیابی) کے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے، کیا یہ مہمانی اچھی ہے یاسینڈھ (زقوم) کا درخت؟ جسے ہم نے ظالموں کے لیے سخت آزمائش بنا رکھا ہے ، بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے جسکے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں ،(جہنمی) اسی درخت میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے، پھر اس پر گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، پھر ان سب کا لوٹنا جہنم کی(آگ کی ڈھیری کی) طرف ہوگا، یقین مانو کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو بہکایا ہوا پایااوریہ انہی کے نشان قدم پر دوڑتے رہے، ان سے پہلے بھی بہت سے اگلے بہک چکے ہیں ،جن میں ہم نے ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے، اب تو دیکھ لے کہ جنہیں دھمکایا گیا تھا ان کا انجام کیسا ہوا ،سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے۔‘‘

اب فیصلہ تم خودکرلو،جنت کی یہ ضیافت اچھی ہے یاجہنم میں سخت بدبودار،کڑوااورنہایت کریہ زقوم(تھوہر) کےدرخت کاکھانا؟اس درخت کاحال سن کر ابوجہل اوراس کے ساتھی قرآن مجید پرطعن اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراستہزاء کاموقع پاکر ٹھٹھامارکرکہتے ہیں  لوسنو،جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں  بھی درخت ہوگاجوجہنمی کھائیں  گے ،فرمایاہم نے منکرین کے لئے اس درخت کو فتنہ بنادیا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِ۝۰ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ۝۰ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۝۶۰ۧ [26]

ترجمہ: اور اس درخت کوجس پرقرآن میں  لعنت کی گئی ہے ہم نے ان لوگوں  کے لئے بس ایک فتنہ بناکررکھ دیا،ہم انہیں  تنبیہ پرتنبیہ کیے جارہے ہیں  مگرہرتنبیہ ان کی سرکشی میں  اضافہ کیے جاتی ہے۔

وہ ایسا درخت ہے جس کی جڑجہنم کی گہرائی میں  اوراس کی شاخیں  ہرطرف پھیلی ہوئی ہیں  اوراس کے شگوفے نہایت بدصورت ہیں ،جب اہل جہنم بھوک کی شکایت کریں  گے تو انہیں  زقوم پیش کیاجائے گاجسے وہ کراہت سے کھائیں  گے اور اسی سے پیٹ بھریں  گے، پھرجب اسے نگلنے کے لئے پانی مانگیں  گے توانہیں  پگھلے ہوئے تانبے جیسا کھولتا ہوا پانی دیاجائے گا،جیسے فرمایا

ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝۵۱ۙلَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۝۵۲ۙفَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ۝۵۳ۚفَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیْمِ۝۵۴ۚ فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِ۝۵۵ۭھٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ۝۵۶ۭ [27]

ترجمہ:پھراے گمراہو اور جھٹلانے والو!تم زقوم کے درخت کی غذاکھانے والے ہو ، اسی سے تم پیٹ بھروگے اوراوپرسے کھولتاہواپانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیوگے ،یہ ہے (ان بائیں  بازو والوں ) کی ضیافت کاسامان روز جزا میں ۔

 تُسْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍ۝۵ۭلَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ۝۶ۙلَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ۝۷ۭ [28]

ترجمہ: کھولتے ہوئے چشمے کاپانی انہیں  پینے کو دیا جائے گا،خاردارسوکھی گھاس کے سواکوئی کھاناان کے لئے نہ ہوگاجونہ موٹاکرے نہ بھوک مٹائے۔

ایک مقام پر اس پانی کے بارے میں  فرمایا

۔۔۔وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ۝۰ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا۝۲۹ [29]

ترجمہ: وہاں  اگروہ پانی مانگیں  گے توایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جوتیل کی تلچھٹ جیساہوگااوران کے منہ بھون ڈالے گا،بدترین پینے کی چیزاوربہت بری آرام گاہ۔

اوریہ پانی اتناگرم ہوگاکہ اس سے ان کی انتڑیاں  کٹ جائیں  گی ، جیسے فرمایا

۔۔۔كَمَنْ هُوَخَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَهُمْ۝۱۵ [30]

ترجمہ:(کیاوہ شخص جس کے حصہ میں  یہ جنت آنے والی ہے)ان لوگوں  کی طرح ہوسکتاہے جو جہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے اورجنہیں  ایساگرم پانی پلایا جائے گاجوان کی آنتیں  تک کاٹ دے گا؟۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الآیَةَ: {اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِی دَارِ الدُّنْیَا لأَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَهُمْ، فَكَیْفَ بِمَنْ یَكُونُ طَعَامَهُ؟.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بارآیت

’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ

‘‘کی تلاوت فرمائی،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرزقوم کاایک قطرہ زمین پرٹپک آئے توروئے زمین کے لوگوں  کی زندگی خراب کردےپھران لوگوں  کا کیا حال ہوگا (اللہ کی پناہ)جن کے پاس اس کے سواکھانے کوکچھ نہیں  ہوگا؟۔[31]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: إِذَا جَاعَ أَهْلُ النَّارِ اسْتَغَاثُوا بِشَجَرَةِ الزَّقُّومِ، فَأَكَلُوا مِنْهَا فَاخْتَلَسَتْ جُلُودُ وُجُوهِهِمْ، فَلَوْ إِنَّ مَارًّا یَمُرُّ بِهِمْ یَعْرِفُهُمْ لَعَرَفَ وُجُوهَهُمْ فِیهَا، ثُمَّ یُصَبُّ عَلَیْهِمْ الْعَطَشُ، فَیَسْتَغِیثُونَ فیغاثون بِمَاءٍ كَالْمُهْلٍ. وَهُوَ الَّذِی قَدِ انْتَهَى حَرُّهُ فَإِذَا أَدْنَوْهُ مِنْ أَفْوَاهِهِمِ اشْتَوَى مِنْ حَرِّهِ لُحُومُ وُجُوهِهِمُ الَّتِی قَدْ سَقَطَتْ، عَنْهَا الْجُلُودُ، وَیُصْهَرُ مَا فِی بُطُونِهِمْ، فَیَمْشُونَ تَسِیلُ أَمْعَاؤُهُمْ، وَتَتَسَاقَطُ جُلُودُهُمْ ثُمَّ یُضْرَبُونَ بِمَقَامِعَ مِنْ حَدِیدٍ، فَیَسْقُطُ كُلّ عُضْوٍ عَلَى حِیَالِهِ، یَدْعُونَ بِالثُّبُورِ .

سعیدبن جبیرسے روایت ہےجب دوزخیوں  کوبھوک لگے گی تووہ تھوہرکے درخت کوکھائیں  گے جس سے ان کے چہروں  کی کھالیں  جھلس جائیں  گی،ان کے پاس سے اگرکوئی گزرے گاتووہ ان کے چہروں  کی بدبوسے انہیں  پہچانے گاپھران پرپیاس طاری کر دی جائے گی،وہ پانی طلب کریں  گے توانہیں  ایساپانی دیاجائے گاجوپگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگااورانتہائی گرم،جب وہ اسے اپنے مونہوں  کے قریب کریں  گے تواس کی شدیدحرارت کی وجہ سے ان کے چہروں  کاگوشت بھن جائے گا،کھالیں  جل جائیں  گی اورپیٹ کی انتڑیاں  باہرنکل آئیں  گی، اورجب وہ چلیں  گے توان کی انتڑیاں  بہ رہی ہوں  گی اورکھالیں  گررہی ہوں  گی،اورپھرانہیں  لوہے کے ہتھوڑوں  کے ساتھ ماراجائے گاجس سے ایک ایک عضوٹوٹ جائے گااوروہ موت مانگنے لگیں  گے۔ [32]

جہنم کے اس درخت کو کھانے اورکھولتاہواپانی پینے کے بعدانہیں  دوبارہ جہنم میں  جھونک دیاجائے گا،اوراسی طرح یہ لوگ جہنم اوراس شدیدحرارت والے پانی میں  گردش کرتے پھریں  گے،جیسے فرمایا

یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ۝۴۴ۚ [33]

ترجمہ:اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں  گے۔

یہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے انبیاء ومرسلین کی پاکیزہ دعوت کی طرف عقل وشعورسے کام نہ لیااور اپنے آباؤ اجدادکے گمراہ کن عقائد کی پیروی کرتے رہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝۲۳ [34]

ترجمہ:ہم نے اپنے باپ داداکوایک طریقے پرپایاہے اورہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کررہے ہیں ۔

گزشتہ امتوں  میں  بھی اکثرلوگ طاغوت کی بندگی اوربداعمالیوں  میں  مبتلا رہے ہیں  ، اللہ نے ان کی طرف ہدایت ور ہنمائی اوراتمام حجت کے لئے رسول بھیجے تھے،انہوں  نے اپنی اپنی قوموں  کو دعوت حق پہنچائی اورعدم قبول کی صورت میں  اللہ کے عذاب سے ڈرایامگروہ پھر بھی طاغوت کی بندگی میں  گمراہ آباواجدادکے نقش قدم پرچلتے رہے ،ایک مہلت کے بعدحق کی تکذیب کے نتیجہ میں  اللہ نے ان پرعذاب نازل کیااورانہیں  نشان عبرت بنادیا ،اس عبرتناک انجام سے بس اللہ کے وہی بندے بچے ہیں  جنہیں  اس نے ایمان وتوحیدکی توفیق سے نوازکربچالیا ۔

وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیبُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ وَنَجَّیْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیمِ ‎﴿٧٦﴾‏وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهُ هُمُ الْبَاقِینَ ‎﴿٧٧﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْآخِرِینَ ‎﴿٧٨﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِی الْعَالَمِینَ ‎﴿٧٩﴾‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٨٠﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٨١﴾‏ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِینَ ‎﴿٨٢﴾(الصافات)
’’اور ہمیں نوح (علیہ السلام) نے پکارا تو (دیکھ لو) ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں ، ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو اس زبردست مصیبت سے بچا لیا اور اس کی اولاد کو باقی رہنے والی بنادی ،اور ہم نے اس کا (ذکر خیر) پچھلوں میں باقی رکھا ، نوح (علیہ السلام) پر تمام جہانوں میں سلام ہو، ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ، وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھا پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا۔‘‘

اوپرکی آیات میں  گمراہ لوگوں  کااجمالا ًذکرکیاگیاتھا اب ان کاتفصیلی ذکرفرمایاسب سے پہلے آدم ثانی نوح علیہ السلام کاذکرفرمایاکہ اللہ نے نوح علیہ السلام کوان کی قوم کی طرف مبعوث کیا تھا ، انہوں  نے نوسوپچاس سال تک اپنی قوم کو دعوت حق دی ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا۔۔۔۝۱۴ [35]

ترجمہ:ہم نے نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس ان کے درمیان رہا۔

مگرقوم کی اکثریت نے ان کی تکذیب کی اورایذائیں  پہنچائیں ،مگرانہوں  نے قوم کی طرف سے پہنچائے جانے والے مصائب وشدائدکوخندہ پیشانی سے برداشت کیااور جب ان کی طرف سے اذیت کی انتہاہوگئی اورہدایت کی کوئی راہ نظرنہ آئی توانہوں  نے اپنے رب کے حضوران کی ہلاکت کی بددعافرمائی۔

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝۱۰ [36]

ترجمہ:آخرکاراس نے اپنے رب کاپکاراکہ میں  مغلوب ہوگیاہوں  اب توان سے انتقام لے ۔

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ۝۲۶ [37]

ترجمہ:پروردگار!ان لوگوں  نے جومیری تکذیب کی ہے اس پراب توہی میری نصرت فرما۔

اوراپنی قوم کے کفروشرک سے بیزارہوکر پربدعاکی۔

 وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶ [38]

ترجمہ : اور نوح نے دعا کی میرے رب ! ان کافروں  میں  سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔

ہم نے فوراً نوح علیہ السلام کی دعاکوقبول فرمایااوراپنی مدح وثنابیان کرتے ہوئے فرمایاہم پکارنے والے کی پکار اور اس کی آہ وزاری کوسنتے ہیں  اور خوب جواب دیتے ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قوم پرپانی کاعذاب بھیجا اور تمام کفار کو غرق کردیااور نوح علیہ السلام اوراس کے گھروالوں  کو سوائے ان کی بیوی اورایک لڑکے کے اوراہل ایمان کواس عظیم سیلاب سے بچالیااوران کی اور اہل ایمان کی نسل سےانسانیت بڑھائی اور باقی رکھی اور قیامت تک آنے والے اہل ایمان نوح علیہ السلام پرسلام بھیجتے ہیں  اور بھیجتے رہیں  گے ،ہم نیکی کرنے والوں  کوایسی ہی عزت وتکریم بخشتے ہیں  ،اسی طرح جوبھی اپنے اقوال وافعال میں  محسن اوراس باب میں  راسخ اور معروف ہوگااس کے ساتھ بھی ہم ایساہی معاملہ کریں  گے ،سلام ہے نوح علیہ السلام پردنیاوالوں  میں ،درحقیقت وہ ہمارے مومن بندوں  میں  سے تھا۔

وَإِنَّ مِنْ شِیعَتِهِ لَإِبْرَاهِیمَ ‎﴿٨٣﴾‏ إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ ‎﴿٨٤﴾‏ إِذْ قَالَ لِأَبِیهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ ‎﴿٨٥﴾‏ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِیدُونَ ‎﴿٨٦﴾‏ فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُومِ ‎﴿٨٨﴾‏ فَقَالَ إِنِّی سَقِیمٌ ‎﴿٨٩﴾‏ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِینَ ‎﴿٩٠﴾‏ فَرَاغَ إِلَىٰ آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ‎﴿٩١﴾‏ مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ ‎﴿٩٢﴾‏ فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًا بِالْیَمِینِ ‎﴿٩٣﴾(الصافات)
’’اور اس (نوح (علیہ السلام)) کی تابعداری کرنے والوں میں سے (ہی) ابراہیم (علیہ السلام) (بھی) تھے، جبکہ اپنے رب کے پاس بےعیب دل لائے، انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو ؟ کیا تم اللہ کے سوا گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو ؟ تو یہ (بتلاؤ کہ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے ؟ اب ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی اور کہا میں بیمار ہوں ، اس پر سب اس سے منہ موڑے ہوئے واپس چلے گئے ،آپ (چپ چپاتے) ان کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں ؟ تمہیں کیا ہوگیا بات تک نہیں کرتے ہو، پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے ۔‘‘

کیونکہ اہل عرب اوریہودونصاریٰ ابراہیم علیہ السلام کواپناپیشوااورمقتدامانتے تھے ،خصوصاًقریش کے فخرونازکی ساری بنیادہی یہ تھی کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاداوران کے تعمیرکردہ خانہ کعبہ کے متولی ہیں  ، اس لئے ان کے سامنے ابراہیم علیہ السلام کے عقیدہ توحیداورشرک سے ان کی بیزاری کاذکرفرماکرقریش کے مذہب اوران کی برہمنیت پرکاری ضرب لگاتے ہوئے فرمایاکہ ابراہیم خلیل اللہ بھی اہل دین واہل توحیدکے اسی گروہ سے تھا جن کونوح علیہ السلام کی طرح انابت الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی تھی،جب وہ اپنے رب کے حضورتمام اعتقادی اور اخلاقی خرابیوں  سے پاک دل جس میں  کفروشرک اورشکوک وشبہات تک نہ تھےلے کرآیا،جب اس نے اپنے باپ اوراپنی قوم کودعوت توحیددیتے ہوئے کہایہ توتمہارے اپنے ہاتھوں  سے پتھروں  سے تراشی ہوئی مورتیاں  ہیں  جن کی تم پرستش کررہے ہو؟ جونہ سن سکتی ہیں ،نہ دیکھ سکتی ہیں اورنہ کسی نفع ونقصان پرقادرہیں ،تمہارے یہ عقائدکہ یہ دیویاں  اوردیوتاہیں ،یاخداکے اوتاریااس کی اولادہیں ،یااللہ کے مقرب اوراس کے ہاں  شفیع ہیں  یایہ کہ ان میں  سے کوئی شفادینے والااورکوئی اولادبخشنے والااورکوئی روزگاردلوانے والاہے ،کوئی نفع یانقصان پہنچانے والا،کوئی بیماری سے شفادینے والاہے وغیرہ یہ سب جھوٹی باتیں  ہیں  اورتم لوگوں  نے اپنے وہم وگمان سے تصنیف کرلی ہیں  حقیقت اس کے سواکچھ نہیں  کہ یہ محض لکڑی پتھروغیرہ کے بے جان،بے اختیاراور بے اثر بت ہیں ،جیسے فرمایا

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّـمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ۝۵۲ [39]

ترجمہ:یاد کرو وہ موقع جبکہ اس نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے کہاتھاکہ یہ مورتیں  کیسی ہیں  جن کے تم لوگ گرویدہ ہورہے ہو؟۔

وَاِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّــقُوْهُ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۶اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهٗ۝۰ۭ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۱۷ [40]

ترجمہ:اور ابراہیم کوبھیجاجب کہ اس نے اپنی قوم سے کہااللہ کی بندگی کرو اوراس سے ڈرویہ تمہارے لئے بہترہے اگرتم جانو،تم اللہ کوچھوڑکرجنہیں  پوج رہے ہووہ تو محض (مٹی،پتھراورمختلف دھاتوں  سے تمہاری اپنی من مرضی کی شکل پرتراشے ہوئے) بت ہیں  اورتم ایک جھوٹ گھڑرہے ہو،درحقیقت اللہ کے سواجن کی تم پرستش کرتے ہووہ تمہیں  کوئی رزق بھی دینے کااختیارنہیں  رکھتے ،اللہ سے رزق مانگواوراسی کی بندگی کرواوراس کاشکر اداکرواسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو ۔

کیا مختلف چیزوں  سے تراشے ہوئے یہ معبوداللہ کے ہم جنس ہوسکتے ہیں ؟یااس کی لامحدودقدرتوں ، صفات اور اختیارات میں  شریک ہوسکتے ہیں ،کیاتم لوگوں  کواللہ رب العالمین کی پکڑسے خوف نہیں  آتاکہ وہ اس ظلم عظیم پر کتنا غضبناک ہوتا ہوگا ؟ کیونکہ قوم کاپورامعاشی ،تمدنی،سیاسی اورمعاشرتی نظام ہی طاغوت کی بندگی پر استوار تھا اگر قوم ابراہیم علیہ السلام کے عقیدے،دعوت کوتسلیم کرلیتی توشاہی خاندان کی معبودیت وحاکمیت ،پوجاریوں  اوراونچے طبقوں  کی معاشرتی ، معاشی اورسیاسی حیثیت اورپورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زدمیں  آجاتی اور سوسائٹی کی عمارت ڈھیرہوجاتی اس لئے قوم نے اس عقیدے کوتسلیم نہ کیا بلکہ اس آوازکودبانے کے لئے کھڑے ہوگئے، قوم ابراہیم علیہ السلام سال میں  ایک مرتبہ شہرسے باہرجاکراپنے قومی تہوارکو عید کی طرح منایاکرتی تھی، ابراہیم علیہ السلام کے خاندان نے بھی انہیں  ساتھ چلنے کی دعوت دی،لیکن ابراہیم علیہ السلام پہلے اپنی قوم کوواضح طورپرمتنبہ کرچکے تھے کہ میں  تمہارے معبودوں  کی خبرلوں  گا۔

وَتَاللهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۵۷ [41]

ترجمہ:اوراللہ کی قسم!میں  تمہاری غیرموجودگی میں  ضرورتمہارے بتوں  کی خبرلوں  گا۔

اس سلسلہ میں وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تنہائی اورموقع کے منتظر تھے، چنانچہ اس موقع کووہ کیسے ہاتھ سے جانے دیتے ،کیونکہ قوم ابراہیم ستاروں  کی گردش کوحوادث زمانہ میں  موثرمانتے تھے اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے غوروفکرکرتے ہوئے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور قوم کو معذرت کرتے ہوئے کہا میری طبیعت خراب ہے،یعنی میں  کمزورہوں میں  تم لوگوں  کے ساتھ نہیں  جاسکتا ،خاندان نے اپنے اعتقاد کے موجب ان کایہ عذرقبول کرلیااور انہیں  تنہا چھوڑکردوسرے لوگوں  کے ساتھ شہر سے باہرچلاگیا ، جیسے ہی موقع میسرآیاابراہیم علیہ السلام چپکے سے ان کے معبودوں  کے مرکزی وسیع وعریض مندر میں  گھس گیاجہاں  ان کے معبودوں  کے آگے نذرونیازاورچڑھاوے کے کھانے پڑے ہوئے تھے ،یہ منظر دیکھ کر ابراہیم علیہ السلام تمسخرکے ساتھ بولےتم لوگوں  کے لئے یہ انواع و اقسام کے لذیذ کھانے پڑے ہوئے ہیں تم لوگ انہیں  کھاتے کیوں  نہیں  ہو؟پھروہ تھوڑی دیران کے جواب کا انتظار کرتے رہے ،اورپھرانہیں  مخاطب ہوکرکہا آپ لوگ بولتے بھی نہیں ؟ پھر کہا بہت ہی بے وقوف ہیں  وہ لوگ جوتمہاری پرستش کرتے ہیں جواپنے ہاتھوں  سے تمہیں  مختلف اشکال میں  تراشتے ہیں  اورپھرخدائی کے مختلف اختیارات عطاکرکے تمہاری پرستش شروع کردیتے ہیں  اورخالق کوبھول جاتے ہیں ،پھران کے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیااوران بتوں  کو ملیامیٹ کرنے کے لئے سیدھے ہاتھ میں  تھامے ہوئے ہتھوڑے یاکلہاڑے سے چھوٹے دیوی دیوتاؤ ں  پرپل پڑااور زورزورسے مارکرانہیں توڑڈالا،ان میں سب سے اہم اورمعزز چاند دیوتا تھا جسے انسانی شکل وصورت میں  لمبی ڈاڑھی کے ساتھ تراشاگیاتھااورہلال کی شکل والے چاندکالباس پہنے ہوئے تھااس کے کاندھے پرکلہاڑارکھ کرچھوڑدیا،جیسے فرمایا

فَجَــعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ۝۵۸ [42]

ترجمہ:چنانچہ اس نے ان کوٹکڑے ٹکڑے کردیااورصرف ان کے بڑے کوچھوڑدیاتاکہ شایدوہ اس کی طرف رجوع کریں ۔

فَأَقْبَلُوا إِلَیْهِ یَزِفُّونَ ‎﴿٩٤﴾‏ قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْیَانًا فَأَلْقُوهُ فِی الْجَحِیمِ ‎﴿٩٧﴾‏ فَأَرَادُوا بِهِ كَیْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِینَ ‎﴿٩٨﴾(الصافات)
’’ وہ (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے،وہ کہنے لگے اس کے لیے ایک مکان بناؤ اور اس (دھکتی ہوئی) آگ میں ڈال دو، انہوں نے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہیں کو نیچا کردیا۔‘‘

جب مشرکین تہوارسے تھکے ماندے شہرمیں  داخل ہوئے اوربتوں  کوپرنام کرنے کے لئے مندرمیں  داخل ہوئےتواپنے دیوی دیوتاؤ ں  کومنہ کے بل اوندھے اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے پایا،کسی کاہاتھ نہیں  توکسی کاپاؤ ں  ،کسی کاسرنہیں  اورکسی کادھڑ،جواپنی زبان حال سے پجاریوں  کی بے وقوفی ونادانی پرمہرلگاتے ہوئے چلاچلاکرکہہ رہے تھے کہ وہ الٰہ نہیں ہیں بلکہ محض بے جان ،ذلیل وحقیر ادنیٰ چیزہیں  ،صورت حال کاتجزیہ کرنے کے بجائے کہ جومعبودخوداپنابچاؤ نہیں  کرسکے وہ ان کوکیانفع یانقصان پہنچاسکتے ہیں ،وہ یہ دیکھ کر دانت پیسنے لگے،جن لوگوں  نے ابراہیم علیہ السلام کااعلان سناتھا

وَتَاللهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۵۷ [43]

ترجمہ:اوراللہ کی قسم!میں  تمہاری غیر موجودگی میں  ضرور تمہارے بتوں  کی خبرلوں  گا۔

کہنے لگے کہ ایک نوجوان جس کانام ابراہیم ہے اس کوہم نے اپنے معبودوں  کی کھلے عام مذمت کرتے ہوئے سناہے۔

قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِـهَتِنَآ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۵۹قَالُوْا سَمِعْنَا فَـتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗٓ اِبْرٰهِیْمُ۝۶۰ۭ [44]

ترجمہ:(انہوں  نے آکربتوں  کایہ حال دیکھا تو)کہنے لگے ہمارے خداؤ ں  کایہ حال کس نے کر دیا ؟بڑاہی کوئی ظالم تھاوہ(بعض لوگ )بولے ہم نے ایک نوجوان کوان کاذکرکرتے سناتھاجس کانام ابراہیم ہے ۔

چنانچہ سب کے سامنے ابراہیم علیہ السلام کوبلاکر پوچھاگیا

قَالُوْٓا ءَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰٓـاِبْرٰهِیْمُ۝۶۲ۭ [45]

ترجمہ: انہوں  نے پوچھاکیوں  ابراہیم علیہ السلام !تونے ہمارے خداؤ ں  کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟۔

ابراہیم علیہ السلام نے انہیں  لاجواب کرنے کے لئےفرمایا

قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ۝۰ۤۖ كَبِیْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ۝۶۳فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۶۴ۙثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰی رُءُوْسِهِمْ۝۰ۚ لَــقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰٓـؤُلَاۗءِ یَنْطِقُوْنَ۝۶۵قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَـیْــــًٔا وَّلَا یَضُرُّكُمْ۝۶۶ۭ اُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۶۷ [46]

ترجمہ:اس نے جواب دیابلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردارنے کیاہے ان ہی سے پوچھ لواگریہ بولتے ہوں ،یہ سن کروہ اپنے ضمیرکی طرف پلٹے اور(اپنے دلوں  میں )کہنے لگے،واقعی تم خودہی ظالم ہو،مگرپھران کی مت پلٹ گئی اوربولےتوجانتاہے کہ یہ بولتے نہیں  ہیں ،ابراہیم علیہ السلام نے کہا پھرکیاتم اللہ کوچھوڑکران چیزوں  کوپوج رہے ہو جونہ تمہیں  نفع پہنچانے پرقادرہیں  نہ نقصان ،تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں  پرجن کی تم اللہ کوچھوڑکرپوجاکررہے ہو ، کیا تم کچھ بھی عقل نہیں  رکھتے۔

یعنی کیاتم اپنے ہی ہاتھوں  سے مختلف شکلوں  میں تراشی ہوئی مورتیوں  اور بنائی ہوئی تصویروں  کومعبودسمجھتے ہو ،جونہ بول سکتے ،نہ سن سکتے ،نہ دیکھ سکتے،نہ اپنادفاع کرسکتے اورنہ کوئی نفع یانقصان پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاۗءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا۔۔۔۝۱۶ [47]

ترجمہ: پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں  کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے؟ ۔

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۷۶ [48]

ترجمہ:اِن سے کہو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا ؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے۔

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [49]

ترجمہ:لوگوں  نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں  کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں  ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں  نہ جلا سکتے ہیں ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں  ۔

مگرپھربھی تم لوگ اپنے معبودحقیقی کوچھوڑکر جس کے پاس ہرقدرت واختیارہے ان کے حضوررسوم عبادات بجالاتے ہو؟حالاں  کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں  اوران چیزوں  کو بھی جن سے تم مورتیاں  بناتے ہوپیداکیا،یعنی اللہ ہی تمہارااورتمام چیزوں  کاخالق ہے ،جیسے فرمایا

ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۔۔۔۝۱۰۲ [50]

ترجمہ:یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی الٰہ اس کے سوا نہیں  ہے، ہر چیز کا خالق لہذا تم اسی کی بندگی کرو ۔

۔۔۔قُلِ اللہُ خَالِـقُ كُلِّ شَیْءٍ وَّہُوَالْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۝۱۶ [51]

ترجمہ:کہوہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے ، سب پر غالب! ۔

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللہِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۔۔۔۝۳ [52]

ترجمہ:لوگو!تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں  انہیں  یاد رکھو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں  آسمان اور زمین سے رز ق دیتا ہو؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ۔

اَللہُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ۝۰ۡوَّہُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ۝۶۲ [53]

ترجمہ:اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔

ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ۝۰ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۡۚ ۔۔۔۝۶۲ [54]

ترجمہ:وہی اللہ (جس نے تمہارے لیے یہ کچھ کیا ہے ) تمہارا رب ہےہر چیز کا خالق،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔

پھرمخلوق کے پاس خدائی کے اختیارات کہاں  سے آ گئے ،مگرابراہیم علیہ السلام کے عقلی ونقلی دلائل کاوعظ ونصیحت سن کرقوم کے دلوں  پرکچھ اثرنہ ہوا لہذا کفارکی پرانی روش کی طرح اپنی قوت وجمعیت سے حق کودبانے کے لئے اپنی شقاوت قلبی کامظاہرہ کیاکہنے لگے اپنے معبودوں  کی حمایت میں  گڑھا کھودکرخوب آگ بھڑکاؤ اوراس میں  ابراہیم علیہ السلام کوزندہ ڈال دو تاکہ اس کی ہڈیاں  بھی راکھ بن جائیں اوراس کانام ونشان تک مٹ جائے ، جیسے فرمایا

قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ۝۶۸ [55]

ترجمہ:انہوں  نے کہاجلاڈالواس کواورحمایت کرواپنے خداؤ ں  کی اگرتمہیں  کچھ کرنا ہے ۔

ساری قوم نے اس فیصلہ پرعمل درآمدکرنے کے لئے حصہ لیا اور ایک الاؤ تیارکیا ، جب آگ کے شعلے آسمان سے باتیں  کرنے لگے تو ابراہیم علیہ السلام کوزندہ آگ میں  پھینک دیاگیا ، باری تعالیٰ نے فرمایا مشرکین نے خلیل اللہ کے خلاف سخت ترین کاروائی کی تھی مگرہماری مشیت کے بغیرکیا ہوسکتا تھا،لہذاہم نے براہ راست آگ کوحکم دیا

 قُلْنَا یٰنَارُ كُـوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ۝۶۹ۙ [56]

ترجمہ:ہم نے کہااے آگ ٹھنڈی ہوجااورسلامتی بن جاابراہیم کے لئے ۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔ فَاَنْجٰىهُ اللهُ مِنَ النَّارِ۔۔۔۝۰۝۲۴ [57]

ترجمہ: پھر اللہ نے اس کوآگ سے بچالیا۔

اللہ تعالیٰ کابراہ راست حکم پاتے ہی بھڑکتی ہوئی آگ سلامتی والی ٹھنڈی ہوگئی اورابراہیم علیہ السلام معجزانہ طورپرزندہ سلامت آگ سے نکل آئے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی مددفرمائی اور مشرکین کو ذلیل وخوارکردیا۔

اس واقعہ سے اللہ تعالیٰ نے قریش کومتنبہ فرمایاکہ تم ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہونے اور ان کے طریقہ پر چلنے کے دعوے دارہومگر ابراہیم خلیل اللہ مشرک نہیں  بلکہ توحیدپرست تھےاوران کی دعوت بھی وہی تھی جو آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کررہے ہیں  ،اور ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کو توحیدکی آوازبلندکرنے کے لئے تعمیرکیاتھا صنم کدہ کے طورپر نہیں ، اورجس طرح ابراہیم علیہ السلام کی قوم اتناسخت قدم اٹھانے کے باوجود ان کاکچھ نہیں  بگاڑ سکی تھی اسی طرح تم بھی اس دعوت کوروکنے اور دبانے کے لئے اپنی سازشوں  میں  ناکام ونامرادہی رہو گے ۔

وَقَالَ إِنِّی ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّی سَیَهْدِینِ ‎﴿٩٩﴾‏ رَبِّ هَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿١٠٠﴾‏ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِیمٍ ‎﴿١٠١﴾‏ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَىٰ فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِینَ ‎﴿١٠٢﴾‏فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِینِ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَنَادَیْنَاهُ أَنْ یَا إِبْرَاهِیمُ ‎﴿١٠٤﴾‏ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٠٥﴾‏(الصافات)
’’اوراس (ابراہیم علیہ السلام)نے کہامیں توہجرت کرکے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا، اے میرے رب ! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما،تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرےتو اس (ابراہیم (علیہ السلام)) نے کہا کہ میرے پیارے بچے ! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ، اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟بیٹے نے جواب دیا کہ ابا ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے،غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اوراس نے(باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔‘‘

اسماعیل علیہ السلام کی بشارت اورزبردست آزمائش:

آگ سے باسلامت نکل آنے کے بعدابراہیم علیہ السلام نے تن تنہااللہ کے بھروسے پرملک سے نکل جانے کاارادہ کیااورچلتے وقت کہااللہ ہی میری رہنمائی کرے گاکہ مجھے کس طرف جاناہے،جیسے فرمایا

وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ۝۰ۡۖ عَسٰٓى اَلَّآ اَكُوْنَ بِدُعَاۗءِ رَبِّیْ شَقِیًّا۝۴۸ [58]

ترجمہ:میں  آپ لوگوں  کوبھی چھوڑتاہوں  اوران ہستیوں  کوبھی جنہیں  آپ لوگ اللہ کوچھوڑکرپکاراکرتے ہیں ،میں  تواپنے رب ہی کوپکاروں  گاامیدہے کہ میں  اپنے رب کو پکارکرنامرادنہ رہوں  گا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی رہنمائی فرمائی اورآپ کواپنی بیوی سارہ اورلوط علیہ السلام کے ساتھ اس ملک(شام) میں  پہنچادیاجس میں  اقوام عالم کے لئے برکتیں  رکھی گئیں  تھیں  ،ابراہیم علیہ السلام ابھی تک اولادکی نعمت سے محروم تھے ،دوران ہجرت انہوں  علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑاکرایک نیک اورصالح لڑکے کی دعا مانگی، اے میرےپروردگار!مجھے ایک بیٹاعطاکرجو صالحین میں  سے ہو،اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاکوشرف قبولیت بخشااورجب ابراہیم علیہ السلام تقریباً۸۶برس کے ہوگئے تواللہ نے انہیں  ایک حلیم(بردبار)لڑکے کی بشارت دی،جیسے فرمایا

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَی الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَاۗءِ۝۳۹ [59]

ترجمہ: اللہ کاشکرہے جس نے مجھے بڑھاپے میں  اسماعیل اور اسحاق عطافرمائے ۔

اسماعیل علیہ السلام کے بعداللہ تعالیٰ نے اسحٰق علیہ السلام اوران کے بعدیعقوب علیہ السلام کی بشارت اس وقت دی تھی جب فرشتے لوط علیہ السلام کی قوم کونشان عبرت بنانے کے لئے نازل ہوئے تھے اورپہلے ابراہیم علیہ السلام کوبشارت دینے کے لئے گئے تھےاس وقت ابراہیم علیہ السلام کی عمرتقریباً۹۹برس کی تھی،جیسے فرمایا

 ۔۔۔فَبَشَّرْنٰهَا بِـاِسْحٰقَ۝۰ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۝۷۱ [60]

ترجمہ:پھرہم نے اس کواسحاق کی اوراسحاق کے بعدیعقوب کی خوشخبری دی۔

بیشک میرا رب دعاؤں  کا سننے والا ہے۔

اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ ذبیح اسحاق علیہ السلام نہ تھے، ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی بیوی سارہ اور اپنے دودھ پیتے بیٹے اسماعیل کوفاران جابسایاتھا اوران کی خبرگیری کے لئے آتے رہتے تھے ،جب اسماعیل علیہ السلام اپنے والدکے ساتھ دوڑدھوپ کرنے کی عمرکوپہنچ گئے، مفسرین کے مطابق اس وقت ان کی عمرتیرہ سال کی تھی تو ایک روز ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہابیٹا!میں  خواب میں  دیکھتا ہوں  کہ میں  تجھے ذبح کررہاہوں اب تو بتا تیراکیاخیال ہے؟ پیغمبروں  کے خواب وحی ہوتے ہیں مگرابراہیم علیہ السلام نے آزمائش کے لئے بیٹے کے سامنے اپناارادہ ظاہرکہا اوراسماعیل علیہ السلام تابعداری واطاعت میں  بے مثل تھے ،جن کی تربیت ایک نبی نے کی تھی اوروہ مستقبل کے ایک نبی تھے فوراًبات کی تہہ تک پہنچ گئے کہ رب نے کیاحکم دیاہے ، انہوں  نے پوری رضاورغبت سے عرض کیا اباجان ! اللہ تعالیٰ آپ کو جو حکم فرمارہاہے اسے بجالانے میں  دیرنہ کریں  اگرمیری نسبت کسی قسم کاکوئی کھٹکا ہے تودل سے نکال دیں آپ ان شاء اللہ مجھے صبرکرنے والاپائیں  گے،اور اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں  فرمایا

وَاذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ۝۰ۡاِنَّہٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا۝۵۴ۚوَكَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ۝۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا۝۵۵ [61]

ترجمہ:اور اس کتاب میں  اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرو وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول نبی تھاوہ اپنے گھر والوں  کو نماز اور زکوة کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔

جب باپ وبیٹاحکم الٰہی کی تعمیل میں  صبر و استقلال کاکوہ گراں  بن کربکف تیار ہو گئے ، اوربوڑھے ابراہیم علیہ السلام نے ارمانوں  سے مانگے ہوئے اکلوتے بیٹے کواللہ کی خوشنودی کے لئے ذبح کرنے کے لئے منٰی میں  اوندھے منہ گراکرگلے پر چھری چلادی مگرکوشش کے باوجود تیز چھری نے اپناکام سرانجام نہ دیا،اس انتہائی اضطرابی کیفیت اوردہشت ناک حالت میں اچانک ایک دلفریب آواز گونج اٹھی اے ابراہیم! علیہ السلام تونے خواب سچ کر دکھایا تمہاری یہ آزمائش بڑی ہی کھٹن تھی مگرتم اس میں  سرخرو ہوئے ،یہ واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں  تجھے کوئی چیزبھی عزیزترنہیں ،آوازپرابراہیم علیہ السلام نے مڑکردیکھا تو ایک بڑے بڑے سینگوں  ،صاف آنکھوں  والاجس کی اون سفیدسرخی مائل رنگ کی تھی جسیم ولحیم مینڈھانظرآیاجسے اللہ تعالیٰ نے جنت سے اسماعیل علیہ السلام کے فدیے میں  بھیجاتھا، ابراہیم علیہ السلام نے اسے ذبح کردیاجسے قادرکریم نے ذبح عظیم کے زبردست خطاب سے نوازا ، اس دنبہ کے سینگ سرسمیت کعبہ کے پرنالے کے پاس آویزاں  کردیے گئے تھے جو ابتدائے اسلام کے زمانے تک وہاں  زینت بنے رہےمگرعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دورمیں  بیت اللہ میں  آگ لگنے کی وجہ سے یہ بھی جل گئے،

قَالَ سُفْیَانُ: لَمْ یَزَلْ قَرْنَا الْكَبْشِ مُعَلَّقَیْنِ فِی الْبَیْتِ حتى احترق البیت، فاحترقا

سفیان کہتے ہیں  یہ دونوں  سینگ بیت اللہ میں  لٹکے رہے حتی کہ ایک بارجب بیت اللہ کوآگ لگی تویہ دونوں  سینگ بھی جل گئے۔ [62]

عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ:رَأَیْتُ قَرْنَیِ الْكَبْشِ فِی الْكَعْبَةِ

شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں  میں  نے مینڈھے کے دونوں  سینگوں  کوکعبہ میں  دیکھاتھا۔ [63]

فرمایااحسان کی روش اختیارکرنے والوں  کوہم سختیوں  سے بچالیتے ہیں  اوران کے درجات بلندکرتے ہیں ۔

إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِینُ ‎﴿١٠٦﴾‏ وَفَدَیْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٠٧﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْآخِرِینَ ‎﴿١٠٨﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِیمَ ‎﴿١٠٩﴾‏ كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١١٠﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١١١﴾‏ وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِیًّا مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿١١٢﴾‏ وَبَارَكْنَا عَلَیْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِینٌ ‎﴿١١٣﴾(الصافات)
’’درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا، ابراہیم (علیہ السلام) پر سلام ہوہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا، اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا، اور ہم نے ابراہیم و اسحاق (علیہما السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں اور ان دونوں کی اولاد میں بعضے تو نیک بخت اور بعض اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والے ہیں ۔‘‘

ارمانوں  سے مانگے اکلوتے بیٹے کواللہ کی خوشنودی کے لئے ذبح کرنے کاحکم یقیناً ایک بڑی آزمائش تھی جس میں  توسرخرورہا اورہم نے ایک بڑاذبیحہ فدیے میں  دے کر اسماعیل علیہ السلام کوچھڑالیااورقیامت تک کے لئے یہ سنت جاری فرمادی کہ اسی تاریخ کوتمام اہل ایمان دنیابھرمیں  جانورقربان کریں  اوروفاداری وجاں  نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یادتازہ کرتے رہیں ،اورابراہیم علیہ السلام کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لئے بعدکی نسلوں  میں  چھوڑدی،اللہ کاسلام ہے ابراہیم علیہ السلام پر،جیسے فرمایا

قُلِ الْحَمْدُ لِلهِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى ۔۔۔ ۝۵۹ۭ [64]

ترجمہ:(اے نبی!)کہوحمدہے اللہ کے لئے اورسلام اس کے ان بندوں  پرجنہیں  اس نے برگزیدہ کیا۔

ہم نیکی کرنے والوں  کوایسی ہی جزادیتے ہیں  یقیناًوہ ہمارے مومن بندوں  میں  سے تھا،چنانچہ مسلمان،عیسائی اوریہودی تینوں  انہیں  اپناپیشوا مانتے ہیں ،پھرجب فرشتے لوط علیہ السلام کی قوم کونیست ونابود کرنے کے لئے بھیجے گئے تواس سے پہلے ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو ہاجرہ کے بطن سے دوسری اولاد اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی اوراس کے ساتھ یہ عظیم الشان خوش خبری بھی فرمادی کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی خلعت نبوت سے نوازے گا اوراس کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کوبھی نبوت سے نوازے گااوروہ بھی نبی ہوگا ،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَبَشَّرْنٰہَا بِـاِسْحٰقَ۝۰ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۝۷۱ [65]

ترجمہ:پھر ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔

۔۔۔وَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ۝۰ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا۝۴۹ [66]

ترجمہ:تو ہم نے اس کو اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا۔

اوراللہ تعالیٰ نے ان دونوں  کی اولادکوبہت پھیلایااورانبیاء و رسل کی زیادہ تعداد انہی کی نسل سے ہوئی ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ۔۔۔۝۲۷ [67]

ترجمہ:اور اس کی نسل میں  نبوت اور کتاب رکھ دی۔

اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعقوب علیہ السلام ہوئے،جن کے بارہ بیٹوں  سے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل بنے اوران سے بنی اسرائیل کی قوم بڑھی اور پھیلی اوراکثرانبیاء ان ہی میں  سے ہوئے ، جبکہ اسماعیل علیہ السلام سے عربوں  کی نسل چلی اوران میں  پیغمبرآخرالزماں  محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ،اب ان دونوں  کی ذریت میں  سے کوئی محسن ہے اورکوئی شرک ومعصیت اورظلم وفساد کا ارتکاب کرکے اپنے نفس پرصریح ظلم کرنے والاہے۔

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ‎﴿١١٤﴾‏ وَنَجَّیْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیمِ ‎﴿١١٥﴾‏ وَنَصَرْنَاهُمْ فَكَانُوا هُمُ الْغَالِبِینَ ‎﴿١١٦﴾‏ وَآتَیْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِینَ ‎﴿١١٧﴾‏ وَهَدَیْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ‎﴿١١٨﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْآخِرِینَ ‎﴿١١٩﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ‎﴿١٢٠﴾‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٢١﴾‏ إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٢٢﴾(الصافات)
’’یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر بڑا احسان کیا اور انہیں اور ان کی قوم کو بہت بڑے دکھ درد سے نجات دی اور ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے، اور ہم نے انہیں (واضح اور) روشن کتاب دی اور انہیں سیدھے راستے پر قائم رکھا، اور ہم نے ان دونوں کے لیے پیچھے آنے والوں میں یہ بات باقی رکھی کہ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر سلام ہو بیشک ہم نیک لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں ،یقیناً دونوں ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔‘‘

اورہم نے عمران کے بیٹوں  موسیٰ وہارون علیہ السلام کونبوت ورسالت اوردعوت الی اللہ کے منصب پرسرفرازکیا،ان کے طاقتوردشمن فرعون اس کے سرداروں  کوان کی نظروں کے سامنے سمندرمیں  غرق کردیااوردونوں  جلیل القدرہستیوں  اوران کی قوم کوفرعون کی غلامی اوراس کے ظلم واستبداد سے نجات دی،انہیں  نصرت بخشی جس کی وجہ سے وہی غالب رہے،بنی اسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کے لئے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی جوحق وباطل میں  فرق وفیصلہ کرنے والی اورنوروہدایت والی تھی،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ الْـفُرْقَانَ وَضِیَاۗءً وَّذِكْرًا لِّـلْمُتَّـقِیْنَ۝۴۸ۙ [68]

ترجمہ:یہ بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسیٰ و ہارون کو فیصلے کرنے والی نورانی اور پرہیزگاروں  کے لئے وعظ و نصیحت والی کتاب عطا فرمائی ہے۔

ان دونوں  کوصراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائی اوران کے اقوال وافعال میں استقامت بخشی ، اور قیامت تک ان کے ذکرخیر ثناء وصفت کو باقی رکھا،سلام ہے موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام پر،ہم نیکی کرنے والوں  کوایسی ہی جزادیتے ہیں ،بیشک وہ ہمارے مومن بندوں  میں  سے تھے۔

وَإِنَّ إِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٢٣﴾‏ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏ أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِینَ ‎﴿١٢٥﴾‏ اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٢٦﴾‏فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ‎﴿١٢٧﴾‏ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِینَ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْآخِرِینَ ‎﴿١٢٩﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ یَاسِینَ ‎﴿١٣٠﴾‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٣١﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٣٢﴾‏(الصافات)
’’بیشک الیاس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے ، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو ؟ اللہ جو تمہارے اگلے تمام باپ دادوں کا رب ہے، لیکن قوم نے انہیں جھٹلایا پس وہ ضرور (عذاب میں ) حاضر رکھے جائیں گے سوائے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کے،ہم نے الیاس (علیہ السلام) کا ذکر خیر پچھلوں میں بھی باقی رکھا کہ الیاس پر سلام ہو ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ،بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے۔‘‘

موسیٰ علیہ السلام کے بعدبنی اسرائیل صحرائے سیناء سے نکل کرفلسطین میں  آکرآبادہوئے تویہاں  بھی ان کاسامناایک مشرک اقوام کے ساتھ ہوا ،طالوت ،داود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے اپنی جہادی کوششوں  سے ارد گرد کی ریاستوں سے کفروشرک کامکمل طورپرصفایاکردیا،صرف شمالی اورجنوب مغربی سواحل پرچندریاستیں  باقی رہ گئیں  جومکمل طور پر مغلوب نہ ہوسکیں  البتہ سلیمان علیہ السلام کے تابڑتوڑحملوں  نے ان کی کمرتوڑکررکھ دی تھی اوروہ ریاستیں  سلیمان علیہ السلام کی باجگزاربن گئیں  تھیں ، بنی اسرائیل کی مضبوط سلطنت قائم کرکے سلیمان علیہ السلام فوت ہو گئے ، طالوت سے لیکرسلیمان علیہ السلام تک تقریباً ۹۴ سال تک بنی اسرائیل کے نبی ان کودعوت اسلام دیتے رہے تھے،اوراللہ تعالیٰ ان پراپنی رحمتیں  نازل فرماتارہاتھامگرانہوں  نے اس سے کچھ سبق حاصل نہ کیابلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کواپنااستحقاق سمجھااس لئے اللہ کی محبت اور اسلام کی حقانیت ان کے دلوں  میں  راسخ نہ ہوسکی، چنانچہ سلیمان علیہ السلام کے فوت ہونے کے تھوڑے عرصہ بعدہی بنی اسرائیل ایک مرتبہ پھر دنیاپرستی میں  مبتلاہوگئے ،ان میں  دو دھڑے بن گئے اوربنی اسرائیل کی حکومت حاصل کرنے کے لئے آپس میں  جھگڑنے لگے ، جب بنی اسرائیل کسی ایک شخص پرمتفق نہ ہوسکے تو یہ مضبوط سلطنت دو دھڑوں  میں  تقسیم ہو گئی ، ایک دھڑے کانام سلطنت بنی اسرائیل کہلایاجوشمالی فلسطین اورشرق اردن کے علاقوں  پرمشتمل تھی جسکا دارالحکومت سامریہ تھا،جبکہ دوسرادھڑاسلطنت یہودیہ کہلائی جوجنوبی فلسطین اورادوم کے علاقوں  پرمشتمل تھی اس کاپایہ تخت یروشلم تھا،اس طرح ان دونوں  کمزورسلطنتوں  میں  ہمیشہ کے لئے کشمکش شروع ہوگئی، بنی اسرائیل نے جن کے دل قبطیوں  کی غلامی میں  رہتے ہوئے مصری دیوتاوں  ومظاہرقدرت کی ہیبت سے بے حد متاثرتھے ،اس لئے جب یہ دوسلطنتیں بن گئیں  توبہت جلد سلطنت بنی اسرائیل کے لوگ اردگرد بسنے والی دوسری مشرک قوموں  کے عقائد،عبادات ،رسم ورواج اور بد اخلاقیوں  سے متاثرہوگئے،اور اس حدتک پستی وگراوٹ میں  پہنچ گئے کہ تورات کے سخت حکم امتناہی کے باوجود سلطنت بنی اسرائیل کے حکمران اخی نے دینی حمیت ووقار کو بالائے طاق رکھ کرہمسایہ سلطنت صیداکی مشرک شہزادی ایزبل سے شادی رچالی،شہزادی ایزبل اپنے شوہراخی پرحاوی ہوگئی اور اپنے مشرکانہ دین کورعایا میں پھیلانے کے لئے حکومت کی طاقت اورذرائع کابھرپوراستعمال کیا، رعایاکے دل ابھی تک توحیدپرست نہیں  ہوئے تھے اس لئے انہوں  نے بھی اس روش کوپسندکیااور ان مشرک اقوام کے ساتھ شادی بیاہ اورمعاشرتی تعلقات قائم کرلئے جس کے نتیجے میں  ہر طرح کاشرک و بداخلاقیوں  کامر ض تیزی سے بنی اسرائیل میں  سرایت کرگیا ، اور ایسا پھیلا کہ اللہ تعالیٰ کے بجائے صیدا کے معبود قدیم سامی اقوام کا زمین کی زرخیزی وافزائش کا دیوتابعل (جس کی عبادت بابل سے مصرتک پورے مشرق اوسط میں  کی جاتی تھی ،خصوصاًلبنان اورشام وفلسطین کی مشرک اقوام اس کی عبادت میں  بری طرح مبتلاتھیں )کی علانیہ پرستش کرنے اورتقرب حا صل کرنے کے لئے اس کے ہیکل میں لوبان اوردیگربخورات جلائے جلانے اور اس کے حضور قربانیاں  پیش کرنے لگے،اس دیوتاکی خوشنودی کے لئے اولادتک کوآگ میں  ڈال دیاجاتاتھااوریہ بہترین قربانی سمجھی جاتی ہے ،اس کی پوجا کے لئے خاص قسم کے برتن اورظروف ہوتے تھے ،یہ دیوتا سورج سے منسوب تھا اور سونے کابناہوا ساٹھ فٹ اونچا تھا جس کے چاروں سمتوں  کی جانب چارمنہ تھے ،اس کی خدمت کے لئے چارسو خدام مقررتھے ۔

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پرایک بارپھراپنی رحمت نچھاورکرتے ہوئے ہارون علیہ السلام کی اولادمیں الیاس علیہ السلام کومنصب رسالت سے سرفرازفرمایا اور انہیں  اسرائیلی ریاست سامرہ کی طرف بھیجا، الیاس علیہ السلام نے اپنی قوم کورب کی طرف پکارااورایک بارپھران کواسلام کی بھولی ہوئی دعوت توحیدپیش کی ،وعظ ونصیحت کرتے ہوئے فرمایا اے میری قوم کے لوگو! الله تعالیٰ نے تمہاری رشدوہدایت کے لئے پے درپے پیغمبربھیجے ،تمہاری رہنمائی کے لئے ان پرکتابیں  نازل فرمائیں مگربڑے تعجب کی بات ہے کہ تم لوگوں  نے الله تعالیٰ جو تمہارا اورتمہارے آباؤ اجداد کابھی رب ہے کوچھوڑکر،ہدایت ورہنمائی کی کتابوں  کودورپھینک کرمظاہرپرستی کی پرستش کرتے ہو،توحیدکی روشن شاہراہ سے ہٹ کرذلت وپستی کی ڈگراختیارکرچکے ہو،تمہیں  اپنے جداعلیٰ ابراہیم علیہ السلام پربڑافخرہے ،تمہیں  بڑامان ہے کہ ان کے بعد تمہاری طرف لگاتارکئی پیغمبر بھیجے گئے ہیں  ، ذراان کی سیرت کی طرف غورکرو،ابراہیم علیہ السلام نے تو تن تنہاکسی خوف وخطرکی پرواہ نہ کرتے ہوئے مشرک قوم کے باطل مذہب مظاہرپرستی کومٹانے اوراللہ کے نام کو سر بلندکرنے کے لئے کوششیں  کیں  تھیں ، جس پرمشتعل ہوکربادشاہ وقت نمرود نے انہیں  آگ میں  ڈلوا دیاتھامگراللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں  اس عذاب سے محفوظ رکھا،اللہ نےانہیں  اوربھی کئی طرح سے آزمایاتھااوروہ ہرآزمائش میں  کامیاب وکامران رہے تھے ،اللہ نے ان کے کردارو سیرت کوپسندفرمایا، تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے ان پرصحیفے نازل فرمائے،جیسے فرمایا

اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۸ۙصُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰى۝۱۹ۧ [69]

ترجمہ:یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں  میں  بھی کہی گئی تھی،ابراہیم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے صحیفوں  میں ۔

اور انہیں  رہتی دنیاتک تمام مذاہب کے لوگوں  کا پیشواقراردیا،جیسے فرمایا

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ۝۰ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝۱۲۴ [70]

ترجمہ:یاد کرو کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند باتوں  میں  آزمایا اور وہ ان سب میں  پورا اتر گیا تو اس نے کہا میں  تجھے سب لوگوں  کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔

اب اپنے کردارکی طرف غورکرو، جن باطل معبودوں  کے خلاف وہ سرگرم رہے ،جن کومٹانے کے لئے انہوں  نے تمام عمرجدوجہدجاری رکھی ،ہرطرح کی مشکلات وتکالیف پرصبرکیا،مگرتم لوگ اللہ تعالیٰ سے کیا ہواعہدوپیمان توڑکر ،جیسے فرمایا

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّــتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰی۝۰ۚۛ شَہِدْنَا۝۰ۚۛ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ۝۱۷۲ۙ [71]

ترجمہ: اور اے نبی، لوگوں  کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں  سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں  خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں  تمارا رب نہیں  ہوں ؟ انہوں  نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں  یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں  تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم اس بات سے بےخبر تھے ۔

اس وحدہ لاشریک کی بندگی سے منہ موڑکران خودساختہ معبودوں  کی پرستش میں  لگ گئے جنہیں  مٹانے کے لئے انبیاء تشریف لاتے رہے ہیں  ،کیایہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جس کی تم پیروی کررہے ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہاری رشدوہدایت کاسلسلہ جاری رکھنے کے لئے ابراہیم علیہ السلام کے اسحاق ،ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام اورپھر یوسف علیہ السلام کومبعوث فرمایااورمصرکی طاقتوار حکومت عطافرمائی مگرتم لوگ بہت جلدصحیح ڈگرسے ہٹ گئے جس کے نتیجے میں  تم قبطی قوم کے ہاتھوں  مغلوب ہوکران کے غلام بن کررہے جہاں  تمہارے بیٹوں  کوقتل اورلڑکیوں  کوزندہ رکھاجاتاتھا،اس وقت تم اللہ کوپکارنے ،اس کی عبادت کرنے کے بجائے ان کے معبودوں  سے متاثر رہے ،اللہ تعالیٰ نے تمہارے حال پررحم کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایاتاکہ وہ تمہیں  جابروقاہر فرعون کے عذاب سے نجات دلائے اورتمہیں  صراط مستقیم پرگامزن کرے ،اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہیں  قوم فرعون سے نجات عطافرمائی اورتم لوگوں  نے اپنے سامنے فرعون سمیت اس مشرک قوم کے غرق ہونے کامنظردیکھا ،پھراللہ نے سموئیل علیہ السلام کو تمہاری رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا،تم لوگ قبائلی عصبیت میں  مبتلاہوکرمنتشر اور کمزور تھے اوراس قابل ہی نہ تھے کہ مشرکین کواپنے علاقوں  سے پاک کرسکوبلکہ اس کے برعکس غیرمغلوب قوموں  نے تمہارے علاقے اورتابوت سکینہ تک تم سے بزور چھین لئے تھے،پھرتمہاری فرمائش پر ۱۰۲۰ قبل مسیح میں  طالوت کوتمہارابادشاہ مقررفرمایاگیامگرجب وہ جہادفی سبیل اللہ کے لئے نکلے تو تم نے ان کی بھی نافرمانی کی اورجہادسے منہ پھیرکربیٹھ گئے ، ان کے بعداللہ نے داود علیہ السلام کو علیہ السلام تمہاری طرف مبعوث فرمایااوران پراپنی مقدس کتاب زبورنازل فرمائی انہوں  نے اللہ کے کلمہ کوسربلندکرنے کے لئے جہادفی سبیل اللہ جاری رکھا اور بہت سی مشرک قوموں  کی سرکوبی فرمائی، ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کوبھی نبوت اورمضبوط ومستحکم حکومت عطا فرمائی ،انہوں  نے بھی بڑے جوش وجذبے سے اس مقدس کام کو اور آگے بڑھایا اور ان کی وفات کے بعدتم لوگ اس حکومت کے وارث بنے ،مگرجس کام کوانہوں  نے جاری رکھاتھاتم اس سے کنارہ کش ہوگئے ،اب اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایاہے ،اس طرح رب کریم کاتمہاری طرف لگاتار فضیان رحم وکرم کرتارہاہے، ہوناتویہ چاہیے تھاکہ رب کی نشانیوں  اوراس کی بخشش کودیکھ کر اس کاشکرکرتے، صبح وشام اس رب کی حمدوستائش بیان کرتے اور اس ہی کے حضوراپنے سر جھکاتے ،اس کی نازل کردہ کتابوں  سے رہنمائی حاصل کرتے مگر اس کے برعکس سلیمان علیہ السلام کوفوت ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں  گزراکہ تم لوگوں  نے تمام کتابوں  کے احکامات کوپس پشت ڈال دیا ہے ، طالوت علیہ السلام ،داود علیہ السلام اورسلیمان علیہ السلام کے نقش قدم پرچلتے ہوئے جن قوموں  کوتمہیں  مغلوب کرناتھا ،جنہیں  دعوت توحیددینی تھی ،ان کے باطل رسم ورواج ،عقائداورعبادات میں  غرق ہو رہے ہو،ان کے باطل معبودوں  کی پرستش اوران کی ہی سیوامیں  لگے رہتے ہو حالانکہ ان معبودوں  کاحال تویہ ہے کہ کسی کو سیدھی راہ دکھانااوراپنے پرستاروں  کی رہنمائی کرناتو درکناروہ بیچارے توخودکسی رہنماکی پیروی کرنے کے قابل بھی نہیں  ہیں ،ان کوتم اپنا حاجت رواسمجھتے ہو جونہ تو تمہاری پکار کو چاہئے زندگی بھر بلاتے رہوسن سکتے ہیں ، جو چڑھاوے تم ان پر چڑھاتے ہونہ انہیں  دیکھ سکتے ہیں  اورنہ ہی کچھ بول سکتے ہیں  کہ کچھ اپنی عبادت کے طریقے ہی بتلا سکیں  ،نہ ہی آسمان وزمین سے تمہیں رزق بہم پہنچا سکتے ہیں  اورنہ ہی اللہ کااتاراہوارزق روک سکتے ہیں ،جونہ تمہیں  کسی طرح کانفع پہنچاسکتے ہیں  اورنہ نقصان،تمہارے خیال میں  کیامعبودایسے بے جان ،بے شعوراوربے حس ہوتے ہیں ؟ جب صورت حال یہ ہے توپھریہ تمہاری کم عقلی اورحماقت نہیں  کہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان کے خوف سے کانپتے اوران کوخوش رکھنے کے جتن کرتے ہو،ان سے آس وامیدیں  وابستہ کرتے ہو، بھائیوان معبودوں کے اختیار میں  کچھ بھی نہیں  ہے ، سب اختیارات صرف اور صرف تمہارے الحی القیوم رب کے پاس ہیں  ،وہ توایسارب ہے کہ تمہاری باربارکی نافرمانیوں  کے باوجوداپنی نعمتیں  تمہارے بن مانگے تم پر نچھاورکرتارہتاہے ،وہی علیم وبصیررب تمہاری فریادوں کوسنتاہے اورتمہاری ضروریات کوپورا کرتا ہے ،تمہاری تکالیف ومصائب کودورفرماتا ہے،تمہاراسونے کا بنا ہوا دیوتا بعل یاعستارات دیوی تمہاری کھیتیوں  کی نشوونما نہیں  کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں  سے تمہارے لئے رزق نازل کرتا ہے،جس کی بھیجی ہوئی ہوائیں  سمندروں  سے پانی اٹھاکربادل بناتی ہیں  اورپھررب کے حکم سے جہاں  وہ چاہتاہے بارش برساتی ہیں جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح روزقیامت تمہیں  تمہاری قبروں  سے دوبارہ کھڑاکرے گا،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ۝۰ۚ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَةً مَّیْتًا۝۰ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ۝۱۱ [72]

ترجمہ:جس نے ایک خاص مقدار میں  آسمان سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھایا اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کیے جاؤ گے۔

بارش کے پانی کورواں  دواں  کرنے کے لئے دریاؤ ں  کے راستے بنائے جس میں  تم اپنی کشتیوں  کے زریعہ سفرکرتے ہو، اس پانی کی بدولت انوا ع واقسام کے مختلف ذائقوں  ورنگوں  کے پھل ، تمہاری مختلف فصلیں ،سبزیاں  ،چارے اورمختلف نباتات پیدا ہوتے ہیں  جسے تم اور تمہارے جانورکھاتے ہیں  ،ان جانوروں  سے تم باربرداری ،گوشت ، کھال اوردودھ حاصل کرتے ہو، لہذااپنے رب سے عاجزی ،محبت اورخلوص سے مانگو،اس سے مانگنے سے نہ کتراو،اس کے خزانوں  میں  کوئی کمی نہیں  اوروہی عطاکرنے کی طاقت و قدرت رکھتاہے،رب العزت کویہ پسندہے کہ اس کے بندے اس سے زیادہ سے زیادہ مانگیں  ، اسی سے مانگ کرپھراسی پرتوکل وبھروسہ کرو،اللہ وحدہ لاشریک کے حضور جھکنا اور دعا کرناہی تمہارے تمام تکالیف کا مداواہے ،دعاجس کی قبولیت کاانحصاررب سے پختہ تعلقات پر ہے ،اگرکفروشرک سے تائب ہوکراس کی الوہیت اور ربوبیت پرایمان لاکر اپنا تعلق پختہ کرلوگے توپھر انشاء الله تمہاری دعائیں  رائیگاں  نہیں  جائیں  گی اوراگر انکار کروگے تو رب کریم کسی مشرک ومتکبرکی دعاکوقبول نہیں  کرتا، ہاں  اس نے تمہاری تخلیق فرمائی ہے تمہارارزق اس کے ذمہ ہے وہ اپنی مشیت کے تحت جتناچاہے گاضرور دیتارہے گا، بھائیو! پیغمبروں  کے توسط سے دعوت صراط مستقیم تم تک پہنچ چکی ہے ،اس دعوت سے اغماض نہ برتو،طاغوت کے پنجے میں  پھنس کرراہ راست سے انحراف نہ کرو، ان معبودوں  کی بزرگی و عظمت کے سحرسے آزادہوکراپنے رب حقیقی کی عبادت کرو، وہی مستحق عبادت ہے اس کے سواکسی قسم کی عبادت کسی کے لئے لائق نہیں اس لئے اپنے آپ کومکمل طورپراس کے سپردکردو،اس کے فرمانوں  کے مطابق عمل صالحہ اختیارکرو اور شرک جوظلم عظیم ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳ [73]

ترجمہ:حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

جورب سے بغاوت وسرکشی ہے سے بازآجاؤ ،ان بے جان دیوی ،دیوتاوں  کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانیاں  پیش کرو،ابلیس نے جن کامشن ہی یہ ہے کہ تمہیں  رب سے دورکردے اس نے تمہیں  گمراہی کی راہ کو خوشنما بنا کر ڈال دیا ہے اس سے پلٹ آو،رب کی شدید پکڑ اوراس کے المناک عذاب سے ڈرجاو،اپنے گناہوں  پررب سے توبہ اورمغفرت چاہووہ غفور و رحیم ہے وہ ایک بارپھر تمہارے گناہوں  کوبخش دے گا اور مزید بے شمار انعام و اکرام سے نوازے گا،پہلے رسولوں  کی طرح میں  تمہاری طرف بھیجاہوارسول اور تمہارا سچاخیرخواہ ہوں ابلیس کے پیچھے چلنے کے بجائے میری پیروی کرو،میرے وعظ و نصیحت پرغور و فکرکرواوراسے ہنسی مذاق میں  نہ اڑاو،تم ان قوموں  کے بارے میں  اچھی طرح جانتے ہوجن کی طرف رب کے رسول آئے، انہوں  نے اپنی اپنی قوموں  کو صراط مستقیم کی دعوت دی مگران قوموں  نے رب کی پاکیزہ دعوت کوجھٹلایا، رسولوں  سے استہزاکیا،بشررسول کوتعجب و حیرت کی نگاہوں  سے دیکھا ،اپنے اعمال کاحساب دینے کے لئے دوبارہ جی اٹھنے کودیوانے کی بڑسمجھااوراس دنیا میں  ظلم وستم کابازارگرم رکھااللہ مالک الملک نے انہیں  مہلتیں  عطافرمائیں  کہ شاید وہ راہ راست کی طرف پلٹ آئیں  مگروہ رب کی اس رحمت کوبھی نہ سمجھے اوران مہلتوں  پربے فکر ہوگئے ، پھرکیاتم دیکھتے نہیں  انجام کار رب نے ان کے اعمال کی بدولت ان کے ساتھ کیا کیا اس نے اپنا عذاب نازل کرکے انہیں  اور جن چیزوں  پر انہیں  بڑا فخرومان تھا صفحہ ہستی سے ہی مٹادیا،کیاتم آنکھیں  کھول کر ان کے انجام سے عبرت حاصل نہیں  کرتے ،ان قوموں  کے بھی باطل معبودتھے ، جن کی طرف ان لوگوں  نے بے شمارالوہی صفات منسوب کررکھی تھیں ،جن کی طاقت وقوت سے وہ لرزاں  ہوکر تمہاری طرح پرستش کرتے ، ان کے استانوں  پرچڑھاوے چڑھاتے اورتکالیف و مشکلوں  میں  پکارتے تھےمگرجب رب کا عذاب نازل ہواتووہ معبود اپنے پرستش کرنے والوں  کورب کے دردناک اوررسواکن عذاب سے نہ بچا سکے اوران کے معبود ان کے ساتھ ہی فناہوگئے ،یہ تورب کا معمولی عذاب تھااصل عذاب توابھی ان کامنتظرہے جوبڑاہی درد ناک ہے، اے لوگو!یہ دنیادارفناہے اسے دوام حاصل نہیں  ایک دن تم سب کوجیسے تمہارے آباؤ اجداد مرگئے اس دنیاسے جاناہے اوردوبارہ رب کے حکم سے زندہ ہوکر اپنے اعمال کا حساب دیناہے، اگرسرکشی کرتے ہوئے شرک و کفرکی راہ پرچلتے رہوگے توجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ تمہارا اوڑھنا اور بچھونا ہوگی جس میں  نہ تم جی سکوگے اور نہ ہی تمہیں  موت آئے گی ،جیسے فرمایا

اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [74]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں  وہ نہ جیے گا نہ مرے گا ۔

سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى۝۱۰ۙوَیَتَجَنَّبُہَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙ الَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [75]

ترجمہ:جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے گااور اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بد بخت جو بڑی آگ میں  جائے گاپھر نہ اس میں  مرے گا اور نہ جیے گا۔

اس وقت تم بہت پچھتاؤ گے مگراس وقت تمہاراپچھتاواتمہارے کچھ کام نہ آئے گا ،ابھی وقت ہے رب کی طرف پلٹ آو،میری دعوت کوقبول کرلواور ابلیس کے جھوٹے وعدوں  پر بھروسہ نہ کرووہ تمہیں  اپنے ہمراہ جہنم میں  لے جاکرہی چھوڑے گا، اور اگررب کی سیدھی راہ پرچلوگے جس کی طرف تمہارے پہلے رسول اوراب میں  تمہیں  بلارہاہوں  تولازوال انواع واقسام کی نعمتوں  سے بھری جنتوں  کے وارث بنوگےجس میں  رب کی رحمتوں  کی بارش ہوتی ہی رہے گی ،مگران ظالم لوگوں  نے الله تعالیٰ کی بھیجی ہوئی پاکیزہ دعوت کو ٹھکرا دیا،رسول کی خیرخواہانہ نصیحت کی کوئی پرواہ نہ کی اوراپنی مشرکانہ ڈگرپرسرپٹ دوڑتے چلے گئےاورانجام کارقبروں میں  دفن ہوگئے ،الیاس علیہ السلام نے جب ہرطرح سے دعوت پہنچانے کی حجت قائم کردی اوربنی اسرائیل کفر وشرک سے تائب ہوکر دعوت حق کی طرف پلٹ آنے کوتیارنہ ہوئے تواللہ کی بھیجی ہوئی رحمت کی ناشکری کے جرم میں اللہ نے اشوریوں  کوبنی اسرائیل کی کمزور حکومت کی طرف متوجہ کردیاجنہوں  نے اس مملکت پرمسلسل حملے شروع کردیئے،عاموس نبی ۷ ۸۷ قبل مسیح ا ۷۴۷ قبل مسیح اورپھرہوسیع نبی ۷۴۷ قبل مسیح تا۷۳۵ قبل مسیح نے یکے بعد ایک بارپھربنی اسرائیل کواللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرایا مگربنی اسرائیل ابلیس کی سلائی ہوئی گہری نیندسے جاگنے کے لئے تیارنہ ہوئے،توحیدسے دوری اورکفروشرک میں  ترقی کرتے ہوئے آخریہ حدبھی آپہنچی کہ سلطنت بنی اسرائیل کے فرمانروانے عاموس نبی کواپنی مملکت میں  دعوت توحیددینے سے منع کردیااور انہیں  سلطنت سے نکل جانے کا حکم دیا،بس پھرکیاتھااس جرم شدید میں  اللہ تعالیٰ نے اپناغضب نازل کردیاکچھ زیادہ عرصہ نہ گزراتھاکہ ۷۲۱ ق م میں  اشورکے سخت گیر حکمران سارگون نے سامریہ پرحملہ کرکے ہزاروں  بنی اسرائیلیوں  کوقتل کردیااور ۲۷ ہزار سے زاہد بااثراسرائیلیوں  کوگرفتارکرکے اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں  منتشرکردیا، سارگون نے دوسری قوموں  سے گرفتارلوگوں  کو بھی انہی علاقوں  میں  لابسایا،جن کے اختلاط سے بنی اسرائیلی اپنی قومی تہذیب سے دورہوتے چلے گئے، اوراخلاقی واعتقادی زوال کی پستیوں  میں  گرنے کے بعدپھرنہ اٹھ سکے،اس طرح سلطنت بنی اسرائیل اپنے انجام کوپہنچی،اوردنیاوی عذاب کے بعد آخرت میں  وہ عذاب جہنم کے لئے پیش کیے جانے والے ہیں ،مگرجن قلیل التعدادغریب لوگوں  نے دعوت توحیدکوقبول کرلیاتھاان کواللہ نے بچالیااورروزقیامت ان پررب کی ان گنت رحمتیں  ہوں  گی، الله تعالیٰ نے الیاس علیہ السلام کی ثناء جمیل اورذکرخیرپچھلے لوگوں  میں  بھی باقی رکھاکہ ہر مسلم کی زبان سے ان پردرود و سلام بھیجاجاتاہے اور قیامت تک بھیجاجاتارہے گا الله تعالیٰ اپنے نیکوکار بندوں  کوایساہی بدلہ دیتے ہیں ،واقعی وہ ہمارے مومن بندوں  میں  سے تھا۔

وَإِنَّ لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٣٣﴾‏ إِذْ نَجَّیْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِینَ ‎﴿١٣٤﴾‏ إِلَّا عَجُوزًا فِی الْغَابِرِینَ ‎﴿١٣٥﴾‏ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِینَ ‎﴿١٣٦﴾‏ وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَیْهِمْ مُصْبِحِینَ ‎﴿١٣٧﴾‏ وَبِاللَّیْلِ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿١٣٨﴾(الصافات)
’’بیشک لوط (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے،ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی بجز اس بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں رہ گئی پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا اور تم تو صبح ہونے پر ان کی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہو اور رات کو بھی، کیا پھر بھی نہیں سمجھتے ؟۔‘‘

اورلوط علیہ السلام بھی انہی لوگوں  میں  سے تھاجورسول بناکربھیجے گئے ہیں ،ان کی قوم شرک کے ساتھ ساتھ اعمال خبیثہ میں  مبتلاتھی ،جیسے فرمایا

۔۔۔اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ۝۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَ۔۔۔۝۲۹ [76]

ترجمہ:کیا تمہارا حال یہ ہے کہ مردوں  کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں  میں  برے کام کرتے ہو؟۔

اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۵ۙوَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ۝۱۶۶ [77]

ترجمہ:کیا تم دنیا کی مخلوق میں  سے مردوں  کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں  میں  تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝۵۴اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْـہَلُوْنَ۝۵۵ [78]

ترجمہ:اور لوط علیہ السلام کو ہم نے بھیجایاد کرو وہ وقت جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم آنکھوں  دیکھتے بدکاری کرتے ہو؟ کیا تمہارا یہی چلن ہے کہ عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  کے پاس شہوت رانی کے لیے جاتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ سخت جہالت کا کام کرتے ہو۔

لوط علیہ السلام نے انہیں  دعوت توحیددی اور ہرممکن طورپرراہ راست پرلانے کی کوشش کی مگرانہوں  نے بھی اس پاکیزہ دعوت کو جھٹلایااورفواحش سے بازنہ آئے،بلکہ اپنے پیغمبرکوشہربدرکرنے کے درپے ہوئے،جیسے فرمایا

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ۝۰ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ۝۵۶ [79]

ترجمہ:مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں  نے کہا نکال دو لوط علیہ السلام کے گھر والوں  کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں  ۔

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ۝۱۶۷ [80]

ترجمہ:انہوں  نے کہا اے لوط علیہ السلام ! اگر تو ان باتوں  سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں  سے نکالے گئے ہیں  ان میں  تو بھی شامل ہو کر رہے گا۔

تواللہ نے اپنی سنت کے مطابق لوط علیہ السلام کواوراس کے سب گھروالوں  کوراتوں  رات اس بستی سے نکال لیا،جیسے فرمایا

۔۔۔نَجَّیْنٰہُمْ بِسَحَرٍ۝۳۴ۙ [81]

ترجمہ:ان کو ہم نے اپنے فضل سے رات کے پچھلے پہر بچا کر نکال دیا۔

فَنَجَّیْنٰہُ وَاَہْلَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ۝۱۷۰ۙ [82]

ترجمہ:آخرکار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا۔

اورباقی قوم پر المناک عذاب نازل فرمایا اوران کی بستیوں  کوالٹ دیا اور پھر ان پرنشان زدہ پکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کی بارش برسائی ،جیسےفرمایا

 فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙ [83]

ترجمہ: پھرجب ہمارے فیصلہ کاوقت آپہنچاتوہم نے اس بستی کو تل پٹ کردیااوراس پرپکی مٹی کے پتھرتابڑتوڑبرسائے ،جن میں  سے ہرپتھرتیرے رب کے ہاں  نشان زدہ تھااورظالموں  سے یہ سزاکچھ دورنہیں  ہے۔

فَاَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَ۝۷۳ۙفَجَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۷۴ۭ [84]

ترجمہ:آخر کار پو پھٹتے ہی ان کو ایک زبردست دھماکے نے آلیااور ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کی بارش برسا دی ۔

وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا۝۰ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ۝۱۷۳ [85]

ترجمہ:اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں  پر نازل ہوئی۔

کیونکہ ان کی بیوی نے اسلام قبول نہیں  کیاتھااس لئے وہ اپنی مشرک قوم کے ساتھ مبتلائے عذاب ہوئی ،جیسے فرمایا

اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ۝۱۷۱ۚ [86]

ترجمہ:بجز ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں  میں  تھی۔

آج تم شام وفلسطین کی طرف تجارتی سفرمیں  شب وروزلوط علیہ السلام کی تباہ شدہ بستیوں سے گزرتے رہتے ہو،کیاان آثار وکھنڈرات کودیکھ کرتم عبرت حاصل نہیں  کرتے ،اب تم لوگ بھی اسی مشرکانہ روش پرگامزن ہوتوکیاتم اللہ کے عذاب سے محفوظ رہوگے ؟۔

وَإِنَّ یُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٣٩﴾‏ إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ‎﴿١٤٠﴾‏ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِینَ ‎﴿١٤١﴾‏ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِیمٌ ‎﴿١٤٢﴾‏ فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ ‎﴿١٤٣﴾‏ لَلَبِثَ فِی بَطْنِهِ إِلَىٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ ‎﴿١٤٤﴾‏ ۞ فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِیمٌ ‎﴿١٤٥﴾‏ وَأَنْبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِنْ یَقْطِینٍ ‎﴿١٤٦﴾‏ وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ یَزِیدُونَ ‎﴿١٤٧﴾‏ فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِینٍ ‎﴿١٤٨﴾(الصافات)
’’اور بلاشبہ یونس (علیہ السلام) نبیوں میں سے تھے، جب بھاگ کر پہنچے بھری کشتی پر، پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہوگئے تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے، پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے، پس انہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ اس وقت بیمار تھے ،اور ان پر سایہ کرنے والا ایک بیل دار درخت ہم نے اگا دیا، اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا، پس وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش و عشرت دی۔‘‘

یونس علیہ السلام کے والدکانام متٰی تھا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لاَ یَنْبَغِی لِعَبْدٍ أَنْ یَقُولَ: أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی شخص کے لئے یہ کہنالائق نہیں  کہ میں  یونس بن متی سے افضل ہوں ۔ [87]

اگرچہ آپ اسرائیلی نبی تھے مگر الله تعالیٰ نے آپ کواشوریوں (اسیریا) کی ہدایت ورہنمائی کے لئے معبوث فرمایا،آشوریوں  کاپایہ تخت عراق کا شہرنینوی (موجودہ موصل) تھا ،یہ شہردریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پرساٹھ میل کے وسعت میں  پھیلاہواتھا ،یہاں  آشوریوں  نے ایک لاکھ سے زائد بنی اسرائیلیوں کوقیدی بنایاہواتھااس لئے آشوریوں  کوقوم یونس کہاجاتاہے ،یونس علیہ السلام نے اپنی گمراہ قوم کوجو معبودان باطل کی پرستش کرتے تھے پوری خیرخواہی کے ساتھ دعوت توحید دی اور صراط مستقیم کی طرف بلایاکہ یہی نجات اورکامیابی کی راہ ہے اوراس راہ سے اعراض و انحراف تباہی وبربادی کا باعث ہے، رب العالمین کی قدرتوں  وطاقتوں کابیان کیا،ہرسوبکھری رب کی نشانیاں  دکھائیں  ،انہیں  پتھر کے بے جان،عقل وشعورسے بیگانہ باطل معبودوں  کی عبادت ،ان پر اعتکاف کرنے ، نذرانے چڑھانے اورمنتیں ماننے سے روکا،ان مورتیوں  کا اندھا ، بہرہ اور گونگا ہونا ثابت کیا، اوراس کاردفرمایاکہ پتھر کے یہ بے جان ٹکڑے رب کی خدائی میں تصرف کاکوئی اختیار رکھتے ہیں  اس لئے ان کومدد کے لئے پکارنا اور ان سے امیدیں  وابستہ کرنے سے روکا ، گزشتہ اقوام جواپنے اعمال باطلہ کے سبب حرف غلط کی طرح مٹ گئیں  اوراوراق تاریخ پرعبرت کانمونہ بن گئیں  ان کی مثالوں  ،ان کے کرداروں  اوران کے باطل معبودوں  کوجن کو انہوں  نے اپنے حسن ظن سے خدائی صفات دے رکھی تھیں  کی بے بسی ولاچاری بیان فرمائی رحیم و کریم رب کے عفوودرگزرکرنے کی صفت عام بیان کر کے انہیں  توبہ واستغفار کرنے پرابھارا،توحیدکی راہ اختیارکرنے اوراعمال صالحہ پرانہیں جنت اور اس کی نعمتوں کی خوشخبریاں  دیں  اوراس راہ سے انحراف پررب کی گرفت اوراس کے عذاب سے ڈرایا، جہنم اوراس کی ہولناکیوں  کوبیان کیا ، مگروہ لوگ کفرو معصیت الہٰی میں  اتنے غرق ہو چکے تھے کہ قبول حق کی فطری استعداد وصلاحیت ہی ان میں ختم ہو چکی تھی ،انہوں  نے بھی الله تعالیٰ کی آیات پرغوروفکرنہ کیا،یونس علیہ السلام کا کوئی وعظ ونصیحت ان پر اثر نہ کرسکا،حق کی کوئی دلیل ان کے لئے کار گرنہ ہوئی ، الله کے سخت الم ناک عذاب وہلاکت کی کوئی دھمکی کوپرکاہ برابراہمیت نہ دی اور پچھلی قوموں  کی طرح یونس علیہ السلام کوگمراہ ،سحرزدہ خیال کرکے ان علیہ السلام کا مذاق اڑاتے رہے، اپنے باطل اعتقادپرآنکھیں  بند کر کے گمراہی وضلالت کی گمبھیرتاریکیوں میں ڈوب کر مستحق عبادت ذات کو چھوڑکراپنے باطل معبودوں  کی پرستش میں  لگ کر ظلم عظیم کے مرتکب ہوتے رہے ، ان قوموں  کی روش چلتے رہے جن پررب کاعذاب آیا ، الله تعالیٰ اپنے بندوں  سے اپنے کرم وفضل اوربھلائی کامعاملہ فرماتا رہا حالاں  کہ اعمال کے اعتبار سے وہ اس کے مستحق نہیں  تھے اور آخر کار آسودہ حال لوگوں  نے ( کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں  میں  ہوتی ہے) اپنے معبودوں  کی قوت وطاقت پربھروسہ کرکے مطالبہ عذاب کردیا اس طرح وہ لوگ عذاب الہٰی کے مستحق قرارپائے، یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کودھمکی دی کہ عنقریب فلاں  دن تم عذاب الہٰی کی گرفت میں  آ جاؤ گے ،رب کی حکمتیں  رب ہی جانے الله تعالیٰ کی طرف سے عذاب میں  تاخیرہوئی اور قبل اس کے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے یونس علیہ السلام کوقوم کوچھوڑنے اور ہجرت کاحکم آتا دل میں  یہ گمان کر کے کہ اب جبکہ رب کا عذاب آنے ہی والا ہے اگروہ اپنی قوم کوچھوڑکرچلے بھی جائیں  تورب کی ان پر گرفت نہیں  ہوگی ، اس حسن ظن کی بنیادپروہ اپنی قوم سے ناراض ہوکر چلے گئے ،جیسے فرمایا

وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ۔۔۔ ۝۸۷ۚۖ [88]

ترجمہ: اور مچھلی والے کوبھی ہم نے نوازایاد کروجب کہ وہ بگڑکر چلاگیاتھااورسمجھا تھاکہ ہم اس پر گرفت نہ کریں  گے ۔

یونس علیہ السلام نے قوم سے جدا ہو کر ترشیش (جہاں  آجکل تیونس آبادہے) جانے کی کوشش کی اور سمندر پر جا کرایک کشتی میں  سوار ہوگئے ،جس کشتی میں  آپ سوارہوئے وہ پہلے ہی کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ، کشتی ابھی کچھ دور(یافا)ہی پہنچی تھی کہ اللہ کے حکم سے سمندر میں  چاروں طرف سے موجیں  اٹھیں  اور سخت طوفان آگیا جس سے کشتی سمندرکی موجوں  میں  گھرگئی اورکھڑی ہوگئی ، سب مسافروں  کوکشتی ڈوبنے کایقین اوراپنی موت نظرآنے لگی چنانچہ کشتی کاوزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کوکشتی سے سمندرمیں  پھینکنے کی تجویزسامنے آئی تاکہ کشتی میں  سوارباقی انسانوں  کی جانیں  بچ جائیں  ،لیکن یہ قربانی دینے کے لئے کوئی تیارنہیں  تھااس لئے کشتی میں  تین مرتبہ قرعہ اندازی کرنی پڑی ،اللہ تعالیٰ جس کام کاارادہ کرتاہے تواس کے لئے اسباب فراہم کردیتاہے ،چنانچہ قرعہ اندازی میں  ہرمرتبہ یونس علیہ السلام کانام آیااوروہ مغلوبین میں  سے ہوگئے ،چنانچہ یونس علیہ السلام نے طوعاًوکرھااپنے آپ کوبھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندرکی موجوں  کے سپرد کر دیا، ادھر الله تعالیٰ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی (غالبا وہیل مچھلی)نے آپ علیہ السلام کوثابت ہی نگل لیااورسمندرمیں  پھرنے لگی،یونس علیہ السلام انسان ہی تھے اورکوئی بھی انسان اس پرقادرنہیں  ہوسکتاکہ ہروقت اس بلندترین معیارکمال پرقائم رہے جومومن کے لئے مقررکیاگیاہے ،بسااوقات کسی نفسیاتی موقع پرنبی جیسااعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیرکے لئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتاہے لیکن جونہی اسے اپنی معمولی سی بھی غلطی یاکوتاہی کا احساس ہوتا ہے یا الله تعالیٰ کی طرف سے احساس کرادیا جاتاہے کہ اس کاقدم مطلوبہ معیارسے نیچے جارہاہے تو وہ فوراًرب کے حضور توبہ کرتاہے اوراپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں  اسے ایک لمحہ کے لئے تامل نہیں  ہوتا،چنانچہ اب یونس علیہ السلام کوخیال آیاکہ ان سے نافرمانی سرزد ہو گئی ہے اور انہوں  نے رب کے حکم کے بغیرشہر کوچھوڑکر چلے آنے میں  بے صبری اور جلد بازی کا ثبوت دیا ہے تو وہ اپنے آپ کواس فعل پر ملامت کرنے لگے ،چنانچہ یونس علیہ السلام جوفراغی ، کشادگی اورامن وامان کی حالت میں  رب کی بڑی پاکیزگی بیان کرنے والے تھے انہوں  نے مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں  میں  بھی رب کی عظمت وپاکیزگی ،اپنے قصوروارہونے کا اعتراف کرکے رب کے حضورتوبہ کی تسبیح پڑھنی شروع کردی ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۸۷ۚۖ [89]

ترجمہ:آخرکاراس نے تاریکیوں  میں  سے پکارانہیں  ہے کوئی اللہ مگرتو،پاک ہے تیری ذات بیشک میں  نے قصورکیا۔

الله تعالیٰ جودکھی دلوں  اوراپنے محبوب بندوں  کی پکارکو سنتا ہے ان اندھیروں  میں  یونس علیہ السلام کی پکار، فریاد ،التجا کو سنا اوراپنافضل خاص فرماکر انہیں  اندھیروں  سے نجات عطا فرمائی اورزندہ سلامت مچھلی کے پیٹ سے باہرنکال لائے اسی طرح الله مومنوں کوجوصرف اپنے رب پر بھروسہ وتوکل رکھتے ہیں  تکالیف ومصائب میں نجات دیتے ہیں  ۔

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: وَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّ أَنَسًا یَرْفَعُ الْحَدِیثَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ یُونُسَ النَّبِیَّ حِینَ بَدَا لَهُ أَنْ یَدْعُوَ اللَّهَ بِالْكَلِمَاتِ حِینَ نَادَاهُ وَهُوَ فِی بَطْنِ الْحُوتِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ، فَأَقْبَلَتِ الدَّعْوَةُ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: یَا رَبِّ هَذَا صَوْتٌ ضَعِیفٌ مَعْرُوفٌ فِی بِلَادٍ غَرِیبَةٍ، قَالَ: أَمَا تَعْرِفُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا یَا رَبِّ وَمَنْ هُوَ؟ قَالَ: ذَلِكَ عَبْدِی یُونُسُ، قَالُوا: عَبْدُكَ یُونُسُ الَّذِی لَمْ یَزَلْ یُرْفَعُ لَهُ عَمَلٌ مُتَقَبَّلٌ وَدَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، قَالُوا: یَا رَبِّ أَوَلَا یُرْحَمُ بِمَا كَانَ یَصنَعُ فِی الرَّخَاءِ فَتُنْجِیهِ مِنَ الْبَلَاءِ؟ قَالَ: بَلَى، فَأَمَرَ الْحُوتَ فَطَرَحَهُ بِالْعَرَاءِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےاللہ کے نبی یونس علیہ السلام نے جب ان کلمات کے ساتھ دعاشروع کی جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں  تھے توانہوں  نے کہااے اللہ!تیرے سواکوئی معبود نہیں  توپاک ہے ،یقیناًمیں (اپنے آپ پر)زیادتی کرنے والوں  میں  سے ہوں  تودعاکے ان کلمات نے عرش کوگھیرلیا،فرشتوں  نے عرض کی اے رب!یہ کمزورسی آوازجانی پہچانی معلوم ہوتی ہے جوکسی دوردرازکے اجنبی سے علاقے سے آرہی ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیاتم نہیں  جانتے کہ یہ کس کی آواز ہے؟فرشتوں  نے عرض کی اے رب! یہ کس کی آوازہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایامیرے بندے یونس کی،فرشتوں  نے عرض کی تیراوہی بندہ یونس جن کے اعمال صالحہ اورجن کی قبول ہونے والی دعائیں  ہمیشہ آپ کے پاس پہنچتی رہی ہیں ؟فرشتوں  نے عرض کی اے اللہ!اس کی آسودگی میں  کیے گئے اعمال کے عوض تواس پررحم فرماکراسے آزمائش سے نجات نہیں  دے گا،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیوں  نہیں !پھراللہ تعالیٰ نے مچھلی کوحکم دیااوراس نے آپ کوایک چٹیل میدان میں  ڈال دیا [90]

ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:تَعَرَّفْ(إِلَى اللهِ) فِی الرَّخَاءِ، یَعْرِفْكَ فِی الشِّدَّةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تم اللہ تعالیٰ کوخوش حالی میں  پہچانووہ تمہیں  تمہاری سختی کے دنوں  میں  پہچانے گا۔ [91]

قوسین والے الفاظ مستدرک حاکم میں  ہیں ۔

اگر الله تعالیٰ انہیں  توبہ ومناجات کی توفیق نہ دیتااوریونس علیہ السلام توبہ واستغفاراور الله کی تسبیح بیان نہ کرتے اور الله تعالیٰ اپنافضل وکرم کرتے ہوئے ان کی دعاقبول نہ کرتا توقیامت تک وہ مچھلی کے پیٹ میں  ہی رہتے اورمچھلی کاپیٹ ان کی قبربنارہتا،مگر الله تعالیٰ نے آپکی دعاکوقبول فرمایااورقبولیت دعاکے بعدآپ محمود ہو گئے ،

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:دَعْوَةُ ذِی النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِی بَطْنِ الحُوتِ: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ، فَإِنَّهُ لَمْ یَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِی شَیْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللهُ لَهُ

سعدسےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو مسلمان بھی ان کلمات لاالٰہ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا کرتاہے تواسکی دعاقبول ہوتی ہے۔ [92]

الله تعالیٰ نے ہربستی میں انسانوں  پر اہتمام حجت کے لئے بشر رسولوں  کوکھڑاکیامگرکوئی بستی بھی ان پراوران کی دعوت حقہ پر ایمان نہ لائی جو ان کے لئے دنیا و آخرت میں  فائدہ مندہوتااورہرقوم بالآخراپنی سرکشی ،غروروتکبرکی وجہ سے رب کے عذاب کی مستحق بنی اور انہیں  عبرت کانشان بنادیاگیا،البتہ ان ہزاروں  قوموں  میں صرف یونس علیہ السلام کی قوم دنیا میں  واحدمثا ل ہے کہ انہوں  نے بھی دعوت حقہ اوررسول کاانکار کیامگریونس علیہ السلام کے کہنے کے مطابق اسی گھڑی میں  الله تعالیٰ کاعذاب بادل کی طرح ان پرامنڈآیاتووہ لوگ ڈر گئے ، آشوری اپنے بچوں  ،عورتوں  حتیٰ کہ جانوروں  کولیکر ایک میدان میں  جمع ہوگئے اور سب کے سب لوگوں  نے باطل معبودوں  سے تائب ہوکررب حقیقی کی الوہیت وربوبیت کااقرار کر لیا اوربارگاہ الہٰی میں  عجزی وانکساری سے توبہ واستغفارشروع کردیا، عذاب دیکھ کرایمان لانانافع نہیں  ہوتالیکن الله تعالیٰ نے آشوریوں  کو اپنے اس قانون سے مستثنیٰ کردیا، چونکہ یونس علیہ السلام دعوت دین کی حجت قائم ہونے سے پہلے ہی بغیراذن اللہ ہجرت کرگئے تھے اور رب کریم اس وقت اپناعذاب نازل نہیں  فرماتاجب تک اتمام حجت قائم نہ ہوجائے،اس بناپراللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف نے اس قوم کوعذاب دیناپسندنہ فرمایااور ان لوگوں کی توبہ قبول فرماکران سے دینوی رسوائی کاعذاب ٹال دیااور موت کی گھڑیوں  تک دینوی فائدے بھی دیئے جن سے وہ بہرہ مند ہوئے،چنانچہ رب کریم نے فرمایا اگردوسری قومیں  بھی اپنی گمراہی سے تائب ہوکرہمارے حضورجھک جاتیں  توہم انہیں  بھی اپنی رحمت سے معاف فرمادیتے،جیسے فرمایا

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِیْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ۝۰ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِیْنٍ۝۹۸ [93]

ترجمہ: پھر کیاکوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کرایمان لائی ہواوراس کا ایمان اس کے لئے نفع بخش ثابت ہواہویونس علیہ السلام کی قوم کے سوا، وہ قوم جب ایمان لے آئی توالبتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں  رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھااوراس کوایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیاتھا۔

مچھلی کے پیٹ میں  وہ کتناعرصہ رہے اس بارے میں  مختلف قول ہیں  یعنی صبح سے شام تک ،تین دن ،سات دن ،چالیس دن ،بہرحال وہ کتنا عرصہ مچھلی کے پیٹ میں  رہے اس کاعلم رب ہی کوہے ،البتہ جب الله تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے یونس علیہ السلام کو دجلہ کے کنارے یایمن کی سر زمین پرایک چٹیل میدان میں ڈال دیا اس وقت تک وہ بیمار ہوکر نہایت مضمحل ،کمزور اور ناتواں  ہوچکے تھے حتی کہ ہلنے جلنے تک کی بھی طاقت نہ تھی بس سانس چل رہی تھی، اس چٹیل میدان میں  جہاں  کوئی درخت ،سبزہ ،روئیدگی گھاس وغیرہ نہ تھا الله تعالیٰ نے ان پر کمزوری اوربیماری کی وجہ سے آپ پردھوپ سے چھاؤ ں  کے لئے ایک لوکی کی بیل اگادی جس کاسایہ ٹھنڈاہوتاہے اوراس پرمکھیاں  نہیں  بیٹھتیں  اور اس بے کسی وبے بسی میں  ان کی حفاظت فرمائی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگھیابہت پسندتھا ،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: إِنَّ خَیَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ، فَقَرَّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا وَمَرَقًا، فِیهِ دُبَّاءٌ وَقَدِیدٌ، فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَیِ القَصْعَةِ، قَالَ:فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ یَوْمِئِذٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کھانے کی دعوت دی جو اسنے آپ کے لئے تیار کیا تھا،انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں  بھی آپ کے ساتھ اس کھانے کی دعوت میں  گیا،اس درزی نے روٹی اورشورباجس میں  کدو اور بھنا ہوا گوشت تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیا، میں  نے دیکھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدوکے قتلے پیالے میں  تلاش کررہے تھے (یعنی اور برتن میں  سے چن چن کر اسے کھاتے تھے)اسی دن سے میں  بھی برابرکدوکوپسندکرتاہوں  ۔ [94]

اوررب کریم نے انہیں  تواناوتندرست کرنے کے بعد دوبارہ رسالت سے نوازا اورانہیں  صالح بندوں  میں  شامل کردیا اور انہیں ان کی قوم کے پاس جو ایک لاکھ یااس سے کچھ زائدتھی دوبارہ بھیجا (یعنی اگرکوئی ان کی بستی کودیکھتاتویہی اندازہ کرتاکہ اس شہرکی آبادی ایک لاکھ سے زائدہوگی کم نہ ہوگی)ان کی قوم نے یونس علیہ السلام کی رسالت کی تصدیق کی اور رب کے فرمان پر چلنے لگے چنانچہ رب نے بھی ان کوایک خاص وقت تک کے لئے اس دنیاکے مال ومتاع سے بہرہ مندکیااوروہ عیش وآرام سے زندگی گزارنے لگے، اورہم نے ایک وقت خاص تک انہیں  باقی رکھا۔

فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ ‎﴿١٤٩﴾‏ أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ ‎﴿١٥٠﴾‏ أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَیَقُولُونَ ‎﴿١٥١﴾‏ وَلَدَ اللَّهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿١٥٢﴾‏ أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِینَ ‎﴿١٥٣﴾‏مَا لَكُمْ كَیْفَ تَحْكُمُونَ ‎﴿١٥٤﴾‏ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ‎﴿١٥٥﴾ أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِینٌ ‎﴿١٥٦﴾‏ فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿١٥٧﴾‏‏(الصافات)
’’ان سے دریافت کیجئے کہ کیا آپ کے رب کی بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں ؟ یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مونث پیدا کیا، آگاہ رہو کہ یہ لوگ صرف اپنی بہتان پروازی سے کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے یقیناً یہ محض جھوٹے ہیں ،کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ، تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو ؟کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے ؟ یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے تو جاؤ اگر سچے ہو اپنی کتاب لے آؤ۔‘‘

اہل عرب حیات بعدالموت اورجزاوسزاکوبعیدازقیاس سمجھتے تھے اوراس عقیدہ کامذاق اڑاتے تھے ،اس لئے ان سے پہلا سوال حیات بعدالموت کاکیاگیاتھااوردلائل دیے گئے تھے ،چونکہ قریش ، جہینہ ،بنی سلمہ،خزاعہ،بنی ملیح اوربعض دوسرے قبائل کاعقیدہ تھاکہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں  ہیں اس طرح وہ اللہ کی طرف اولادمنسوب کرتے تھے ،جیسے فرمایا

اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۔۔۔ ۝۱۱۷ۙ [95]

ترجمہ:وہ اللہ کوچھوڑکر دیویوں  کومعبودبناتے ہیں ۔

وَیَجْعَلُوْنَ لِلهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ۝۰ۙ وَلَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ۝۵۷ [96]

ترجمہ:یہ اللہ کے لئے بیٹیاں  تجویزکرتے ہیں  ،سبحان اللہ ! اور ان کے لئے جویہ خودچاہیں ؟۔

اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنَاثًا۔۔۔ ۝۴۰ۧ [97]

ترجمہ:کیسی عجیب بات ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں  تو بیٹوں  سے نوازااورخوداپنے لئے ملائکہ کوبیٹیاں  بنالیا؟۔

اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّاَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ۝۱۶ [98]

ترجمہ:کیااللہ نے اپنی مخلوق میں  سے اپنے لئے بیٹیاں  انتخاب کیں  اورتمہیں  بیٹوں  سے نوازا؟۔

اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى۝۲۱تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى۝۲۲ [99]

ترجمہ:کیابیٹے تمہارے لئے ہیں  اوربیٹیاں  اللہ کے لئے ؟ یہ توپھربڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی!۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ۝۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ۝۲۶ۙلَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ۝۲۷ [100]

ترجمہ: یہ کہتے ہیں ،رحمان اولاد رکھتا ہے ،سبحان اللہ وہ (یعنی فرشتے)توبندے ہیں  جنہیں  عزت دی گئی ہے،اس کے حضوربڑھ کرنہیں  بولتے اور بس اس کے حکم پرعمل کرتے ہیں  ۔

چنانچہ مشرکوں  کے نظریات وعقائدکے بے بنیاداورلغوہونے کاذکرفرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !، ذراغیراللہ کواللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے والوں  سے پوچھو،کیاتمہاراانصاف یہ ہے کہ اللہ کے لئے توہوں  بیٹیاں  اوران کے لئے ہوں  بیٹے؟کیاواقعی اللہ نے ملائکہ کوعورتیں  ہی بنایاہے اور کیایہ فرشتوں  کی پیدائش کے وقت وہاں  موجودتھے اورانہوں  نے فرشتوں  کے اندرعورتوں  والی خصوصیات کامشاہدہ کیاتھا ؟خوب سن رکھویہ محض بے بنیاداور من گھڑت باتیں  ہیں  کہ اللہ اولاد رکھتا ہےاور فی الواقع یہ جھوٹے ہیں ،اللہ کواولاداوربیوی کی کوئی حاجت نہیں ،کیااللہ نے جوتمام مخلوقات کاخالق ہے اپنے لئے بیٹوں  کے بجائے بیٹیاں  پسند کر لیں  جبکہ یہ خود اپنے لئے بیٹیاں  نہیں  بیٹے پسندکرتے ہیں ، جیسے فرمایا

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَہُوَكَظِیْمٌ۝۵۸ۚ [101]

ترجمہ:جب ان میں  سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔

تمہاری عقلوں  کو کیاہوگیاہے ،کیسے ظلم وجورپرمبنی فیصلہ کررہے ہو؟کیاتمہیں  ہوش نہیں  آتاکہ اس عقیدے کاانجام تمہارے حق میں  کیسادردناک ہوگا؟ یاپھر تمہارے پاس اپنی ان باتوں  کے لئے کوئی صاف سند ہے تولاؤ اپنی وہ کتاب اگرتم سچے ہو۔جب اس عقیدے کے قائلین کے پاس نہ آنکھوں  دیکھامشاہدہ ہے اورنہ ہی سندکے طور پرکوئی کتاب الٰہی توپھروہ ایسی باتیں  رب العالین کی طرف منسوب کرکے اس کے عذاب کوکیوں  دعوت دے رہے ہیں ۔

وَجَعَلُوا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ‎﴿١٥٨﴾‏ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا یَصِفُونَ ‎﴿١٥٩﴾‏ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِینَ ‎﴿١٦٠﴾‏ فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ ‎﴿١٦١﴾‏ مَا أَنْتُمْ عَلَیْهِ بِفَاتِنِینَ ‎﴿١٦٢﴾‏ إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِیمِ ‎﴿١٦٣﴾‏ وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ ‎﴿١٦٤﴾‏ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ‎﴿١٦٥﴾‏ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ‎﴿١٦٦﴾‏
’’اور لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی ہے، اور حالانکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وہ (اس عقیدے کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کئے جائیں گے، جو کچھ یہ (اللہ کے بارے میں ) بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ بالکل پاک ہے، سوائے ! اللہ کے مخلص بندوں کے، یقین مانو کہ تم سب اور تمہارے معبودان (باطل)کسی ایک کو بھی بہکا نہیں سکتےبجز اس کے جو جہنمی ہی ہے،( فرشتوں کا قول ہے کہ) ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہ ہے اور ہم تو (بندگی الٰہی میں ) صف بستہ کھڑے ہیں اور اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں ۔‘‘

انہوں  نے اپنی جہالت میں  اللہ اوراس کی ایک مخلوق ملائکہ کے درمیان نسب کارشتہ بنارکھاہےحالاں  کہ ملائکہ خوب جانتے ہیں  کہ اس عقیدے کے حامل لوگ روزآخرت مجرم کی حیثیت سے پیش کیے جائیں  گے، اور مشرکین کے عقائدکے ردمیں کہتے ہیں  اے گمراہو!یہ جوتم ہمیں  اللہ کی اولادقراردے کرہماری پرستش کررہے ہوتم ہم کوفتنے میں  نہیں  ڈال سکتے ، تمہاری گمراہی اورشرک وکفرکی تعلیم وہی قبول کریں  گے جودوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں  جھلسنے والاہو ،ہم تواللہ کے عاجزاورفروتربندے ہیں ،اللہ کی اولادہونا تو درکنار ہمارا حال تویہ ہے کہ ہم میں  سے جس کاجودرجہ اور مرتبہ مقررہے اس سے ذرہ برابرتجاوزتک کرنے کی مجال ہم نہیں  رکھتے اورہم ہروقت اللہ کی تسبیح وتقدیس میں  مصروف رہتے ہیں ،

عن عائشة أنها قالت: قال نبیّ الله صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّم:ما فِی سَماءِ الدُّنْیا مَوْضِعُ قَدَمٍ إلا عَلَیْه مَلَكٌ ساجِد أوْ قائم

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآسمان دنیامیں  کوئی جگہ ایسی نہیں  جہاں  کوئی فرشتہ سجدے یاقیام کی حالت میں  نہ ہو۔ [102]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّم: مَا فِیهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا عَلَیْهِ مَلَكٌ سَاجِدٌ

اورابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآسمان میں  چارانگلیوں  کے بقدربھی جگہ نہیں  ہے مگرفرشتہ وہاں  سجدہ کر رہاہے۔ [103]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:إِنَّ فِی السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ سَمَاءٌ مَا فِیهَا مَوْضِعُ شِبْرٍ إِلَّا عَلَیْهِ جَبْهَةُ مَلَكٍ أَوْ قَدَمَاهُ قَائِمًا» ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ} [104]

اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آسمانوں  میں  ایک ایساآسمان بھی ہے کہ جس میں  ایک بالشت برابربھی ایسی جگہ نہیں  جہاں  کسی فرشتے کی پیشانی یاقدم نہ ہوں ، پھرعبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سورہ کی آیت ۱۶۶کی تلاوت فرمائی۔ [105]

وَإِنْ كَانُوا لَیَقُولُونَ ‎﴿١٦٧﴾‏ لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِنَ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٦٨﴾‏ لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِینَ ‎﴿١٦٩﴾‏ فَكَفَرُوا بِهِ ۖ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ‎﴿١٧٠﴾‏ وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٧١﴾‏ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ ‎﴿١٧٢﴾‏ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ‎﴿١٧٣﴾‏ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِینٍ ‎﴿١٧٤﴾‏ وَأَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُونَ ‎﴿١٧٥﴾‏(الصافات)
’’کفار تو کہا کرتے تھے اگر ہمارے سامنے اگلے لوگوں کا ذکر ہوتا تو ہم بھی اللہ کے چیدہ بندے بن جاتے، لیکن پھراس قرآن کے ساتھ کفرکرگئے پس اب عنقریب جان لیں گے، اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صادر ہوچکا ہے کہ یقیناً وہ ہی مدد کئے جائیں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا، اب آپ کچھ دنوں تک منہ پھیر لیجئے اور انہیں دیکھتے رہیئے اور یہ بھی آگے چل کر دیکھ لیں گے۔‘‘

مشرکین مکہ کے یہودونصاریٰ کے ساتھ تجارتی روابط تھےکیونکہ وہ اہل کتاب تھے اس لئے خودکودوسروں  سے برترسمجھتے تھے،ان کی یہ حالت دیکھ کرمشرکین بھی اہل کتاب بننے کی تمناکرتے تھے،ان کی اس خواہش کاذکرکرتے ہوئے فرمایااہل کتاب کے پاس الہامی کتابیں  دیکھ کریہ کفاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اورنزول قرآن سے پہلے توکہاکرتے تھے کہ کاش ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب ہوتی،یاکوئی ہادی اورمنذرہمیں  بھی وعظ ونصیحت کرنے والاہوتا توہم اللہ کے چیدہ بندے ہوتے ،مگرجب ان کی خواہش کے مطابق ہم نے انہی میں  سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام جن وانس کی طرف ہادی بناکر مبعوث کردیااور ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اس پر قرآن مجید جیسی جلیل القدرکتاب بھی نازل فرمادی توانہوں  نے رسول اورقرآن دونوں  کی تکذیب کی ،جیسے فرمایا

وَاَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ۝۰ۚ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَۨا۝۴۲ۙ [106]

ترجمہ:یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں  کھاکرکہاکرتے تھے کہ اگرکوئی خبردار کرنے والاان کے ہاں  آگیاہوتاتویہ دنیاکی ہردوسری قوم سے بڑھ کرراست روہوتے،مگرجب خبردارکرنے والاان کے ہاں  آگیاتواس کی آمدنے ان کے اندرحق سے فرار کے سواکسی چیزمیں  اضافہ نہ کیا۔

اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰی طَاۗىِٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا۝۰۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۱۵۶ۙ اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَہْدٰی مِنْہُمْ۝۰ۚ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَہُدًى وَّرَحْمَةٌ۝۰ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَصَدَفَ عَنْہَا۝۰ۭ سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یَصْدِفُوْنَ۝۱۵۷ [107]

ترجمہ:اب تم یہ نہیں  کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں  کو دی گئی تھی اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے،اور اب تم یہ بہانہ بھی نہیں  کر سکتے کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم ان سے زیادہ راست رو ثابت ہوتے، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے، اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے ،جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں  انہیں  اس روگردانی کی پاداش میں  ہم بدترین سزا دے کر رہیں  گے۔

بہت جلدانہیں اس تکذیب کاانجام معلوم ہوجائے گا،اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کی کامیابی وکامرانی کاذکرکرتے ہوئے فرمایاکفارومشرکین یہ نہ سمجھیں  کہ وہ دنیامیں  غالب ہی رہیں  گے ،اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں  سے پہلے ہی وعدہ کرچکا ہے کہ یقیناًان کی مددکی جائے گی اوراہل ایمان ہی غالب ہوکررہیں  گے،جیسے فرمایا

كَتَبَ اللهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۲۱ [108]

ترجمہ:اللہ نے لکھ دیاہے کہ میں  اورمیرے رسول ہی غالب ہو کررہیں  گے ،فی الواقع اللہ زبردست اورزورآورہے۔

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۝۵۱ۙ [109]

ترجمہ:یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں  اورایمان لانے والوں  کی مدداس دنیاکی زندگی میں  بھی لازماًکرتے ہیں  اوراس روز بھی کریں  گے جب گواہ کھڑے ہوں  گے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ایک وقت مقررہ تک انہیں  ان کے حال پرچھوڑدواور صبرو استقامت کے ساتھ ان کی باتوں  اور ایذاؤ ں  کوبرداشت کرو ، بہت جلدیہ لوگ اپنی شکست اورتمہاری فتح کو اپنی آنکھوں  سے دیکھ لیں  گے ۔

‏ أَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُونَ ‎﴿١٧٦﴾‏ فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ ‎﴿١٧٧﴾‏ وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِینٍ ‎﴿١٧٨﴾‏ وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُونَ ‎﴿١٧٩﴾‏ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُونَ ‎﴿١٨٠﴾‏ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِینَ ‎﴿١٨١﴾‏ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٨٢﴾‏
’’کیایہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں ؟ سنو ! جب ہمارا عذاب ان کے میدان میں اتر آئے گا اس وقت ان کی جن کو متنبہ کردیا گیا تھا بڑی بری صبح ہوگی، آپ کچھ وقت تک ان کا خیال چھوڑ دیجئےاور دیکھتے رہیے یہ بھی ابھی ابھی دیکھ لیں گے ،پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں ،پیغمبروں پر سلام ہے، اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔‘‘

کیایہ اللہ کی گرفت سے بے خوف ہوکر عذاب کے لئے جلدی مچارہے ہیں ؟مگرجن لوگوں  کومتنبہ کیاجاچکا ہے جب اللہ کاعذاب ان کی بستیوں  پرنازل ہو گاتووہ دن ان لوگوں  کے لئے بہت براہوگا ،

انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں  مسلمان یہودیوں  کےگڑھ خیبرپرحملہ کرنے کے لئے گئےتومسلمانوں  کالشکرکفارکی بے خبری میں صبح ہی صبح خیبرپہنچ گیا،جب یہودی حسب عادت کھیتوں  میں  کام کرنے کے اوزارلے کرقلعہ کے اندرسے نکلے تومسلمانوں  کو اچانک اپنے قلعہ کے سامنے دیکھ کرگھبراگئےاور دوسرے لوگوں  کوخبردارکرنے کے لئے قلعہ کے اندربھاگے

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَیْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ {فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِینَ

جس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبرکہہ کرفرمایا ہم جب کسی قوم کے میدان میں  اترآتے ہیں  اس وقت ان کی درگت ہوتی ہے ۔ [110]

اوراللہ تعالیٰ نے بطورتاکیدکے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! انہیں  مقررہ مدت تک کے لئے چھوڑدواوردیکھتے رہوبہت جلد یہ خوداللہ کے عذاب کودیکھ لیں  گے،چنانچہ یہ بات ثابت ہوکررہی ، ابھی چودہ ،پندرہ سال کا عرصہ ہی گزراتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دس ہزار جانثاروں  کے ہمراہ فاتحانہ طورپرمکہ مکرمہ میں  داخل ہوئے تھے۔سورة کااختتام تسبیح وتقدیس کی آیات کے ساتھ فرمایاکہ یہ لوگ اللہ کی طرف بیوی اوراولادمنسوب کرتے اوراس کے شریک مقررکرتے ہیں ،مگراللہ بلند و بالا اورلازوال عزت والاہے اور ہرطرح کے عیوب ونقائص سے پاک ہے ،اورسلام ہے رسولوں  پرکہ انہوں  نے ہرطرح کے مصائب وشدائدکے باوجوداللہ کاپیغام پوری دیانت داری اورصبراستقلال کے ساتھ لوگوں  تک پہنچایا اورہرطرح کی تسبیحات،تمجیدات،حمدوستائش کی تمام اقسام اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے،

عَنْ قَتَادَةَ، {وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِینَ} قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا سَلَّمْتُمْ عَلَیَّ فَسَلِّمُوا عَلَى الْمُرْسَلِینَ فَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ مِنَ الْمُرْسَلِینَ

قتادہ رحمہ اللہ سے آیت کریمہ ’’پیغمبروں  پرسلام ہے۔‘‘َکے بارے میں  روایت ہےانہوں  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم مجھ پرسلام بھیجوتوتمام رسولوں  پرسلام بھیجوکیونکہ میں  بھی رسولوں  میں  سے ایک رسول ہوں ۔ [111]

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ:مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَكْتَالَ بِالْمِكْیَالِ الْأَوْفَى مِنَ الْأَجْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَلْیَكُنْ آخِرُ كَلَامِهِ مِنْ مَجْلِسِهِ،سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِینَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العالمین

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جوشخص یہ چاہے کہ اسے روزقیامت پوراپورااجروثواب ملے تومجلس میں  اس کی آخری بات یہ ہونے چاہیے پاک ہے تیرارب،عزت کا مالک ، ان تمام باتوں  سے جویہ لوگ بنا رہے ہیں ،اورسلام ہے رسولوں  پر اورساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے۔ [112]

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: بِأَخَرَةٍ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ مِنَ الْمَجْلِسِ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیْكَ فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَتَقُولُ قَوْلًا مَا كُنْتَ تَقُولُهُ فِیمَا مَضَى، فَقَالَ: كَفَّارَةٌ لِمَا یَكُونُ فِی الْمَجْلِسِ

اورکفارہ مجلس کی دعا ہے ابوبرزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری ایام میں  جب کسی مجلس سے اٹھتے تویہ کلمات کہتے تھےپاکی بیان کرتاہوں  تیری اے اللہ! تیری ہی تعریف کے ساتھ ،میں  شہادت دیتاہوں  کہ تیرے سواکوئی معبود (برحق)نہیں  ہے ،میں  تجھ ہی سے مغفرت چاہتاہوں  اورتیری طرف ہی توبہ کرتاہوں ،ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ یہ کلمات کہتے ہیں  جوپہلے نہیں  کہاکرتے تھے(اس کی کیاوجہ ہے)آپ نے فرمایایہ اس چیزکے کفارے کے لیے ہے جومجلس میں  ہوجاتی ہے۔ [113]

[1] سبا۲۲

[2] الاحقاف۴

[3] المعارج۴۰

[4] الرحمٰن۱۷

[5] الملک۵

[6] الحجر۱۶تا۱۸

[7] الجن ۸، ۹

[8] الحجر۲۶

[9] الواقعہ۴۷تا۴۹

[10] النمل۸۷

[11] ق ۲۴تا۲۶

[12] سبا۳۱تا۳۳

[13] الاحزاب ۶۷،۶۸

[14] الاعراف ۳۸،۳۹

[15] المومن۴۷،۴۸

[16] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ، وَأَنْ لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ۲۹۴۶،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى یَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ۱۲۴،سنن ابوداودکتاب الزکاة باب وجوبھا۱۵۵۶،مسنداحمد۱۰۵۱۸،صحیح ابن حبان ۱۷۴،السنن الکبری للنسائی ۳۴۱۸، السنن الکبری للبیہقی ۵۱۴۰،مصنف ابن ابی شیبة۲۸۹۳۴،مسندابی یعلی ۲۲۸۲،شرح السنة للبغوی ۳۲

[17] حم السجدة ۴۳

[18] التوبة۷۰

[19] یونس۴۴

[20] الواقعة۱۷تا۲۱

[21] الطور ۲۴

[22] الدہر۱۹

[23] الصافات: ۴۹

[24] تفسیرطبری ۴۴؍۲۱،تفسیرابن کثیر۱۴؍۷

[25] الاعراف۴۳

[26] بنی اسرائیل۶۰

[27] الواقعة۵۱تا۵۶

[28] الغاشیة۵تا۷

[29] الکہف۲۹

[30] محمد۱۵

[31] جامع ترمذی کتاب صفة جھنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ ۲۵۸۵ ، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الشَّفَاعَةِ۴۳۲۵، مسند احمد ۲۷۳۵،صحیح ابن حبان ۷۴۷۰،السنن الکبری للنسائی ۱۱۰۰۴،المعجم الصغیرللطبرانی ۹۱۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۱۰۶۸، مستدرک حاکم ۳۶۸۶، شرح السنة للبغوی ۴۴۰۸

[32] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۱۷؍۱۰

[33] الرحمٰن۴۴

[34] الزخرف۲۳

[35] العنکبوت۱۴

[36] القمر۱۰

[37] المومنون۲۶

[38] نوح۲۶

[39] الانبیاء ۵۲

[40] العنکبوت۱۶،۱۷

[41] الانبیاء ۵۷

[42] الانبیاء ۵۸

[43] الانبیاء ۵۷

[44] الانبیاء ۵۹،۶۰

[45] الانبیاء ۶۲

[46] الانبیاء ۶۳تا۶۷

[47] الرعد۱۶

[48] المائدة۷۶

[49] الفرقان۳

[50] الانعام۱۰۲

[51] الرعد۱۶

[52] فاطر۳

[53] الزمر۶۲

[54] المومن۶۲

[55] الانبیاء ۶۸

[56] الانبیاء ۶۹

[57] العنکبوت ۲۴

[58] مریم ۴۸

[59] ابراہیم۳۹

[60] ھود۷۱

[61] مریم۵۴،۵۵

[62] تفسیرابن کثیر۳۱؍۷

[63] تفسیرطبری۸۴؍۲۱

[64] النمل۵۹

[65] ھود۷۱

[66] مریم۴۹

[67] العنکبوت۲۷

[68] الانبیاء ۴۸

[69] الاعلیٰ۱۸،۱۹

[70] البقرة۱۲۴

[71] الاعراف۱۷۲

[72] الزخرف۱۱

[73] لقمان۱۳

[74] طہ۷۴

[75] الاعلی۱۰تا۱۳

[76] العنکبوت۲۸،۲۹

[77] الشعراء ۱۶۵،۱۶۶

[78] النمل۵۴،۵۵

[79] النمل۵۶

[80] الشعراء ۱۶۷

[81] القمر۳۴

[82] الشعراء ۱۷۰

[83] ھود۸۲

[84] الحجر۷۳،۷۴

[85] الشعراء ۱۷۳

[86] الشعراء ۱۷۱

[87] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَإِنَّ یُونُسَ لَمِنَ المُرْسَلِینَ۳۴۱۶ ،صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی ذکر یونس  ۶۱۵۹

[88] الانبیاء ۸۷

[89] الانبیاء ۸۷

[90] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۲۸؍۱۰،تفسیرطبری۱۰۹؍۲۱

[91] مسند احمد ۲۸۰۳،مستدرک حاکم۶۳۰۳

[92] مسنداحمد۱۴۶۲،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیحِ بِالیَدِ۳۵۰۵،السنن الکبری للنسائی ۱۰۴۱۷،مسندابی یعلی ۷۷۲

[93] یونس۹۸

[94] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ ذِكْرِ الخَیَّاطِ۲۰۹۲،صحیح مسلم کتاب الاشربة باب جواز اکل المرق۵۳۲۵، صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ جَوَازِ أَكْلِ الْمَرَقِ، وَاسْتِحْبَابِ أَكْلِ الْیَقْطِینِ، وَإِیثَارِ أَهْلِ الْمَائِدَةِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا وَإِنْ كَانُوا ضِیفَانًا إِذَا لَمْ یَكْرَهْ ذَلِكَ صَاحِبُ الطَّعَامِ۵۳۲۵،سنن ابوداودکتاب الاطعمة بَابٌ فِی أَكْلِ الدُّبَّاءِ ۳۷۸۲،السنن الکبری للنسائی ۶۶۲۸،شرح السنة للبغوی ۲۸۵۹

[95] النسائ۱۱۷

[96] النحل ۵۷

[97] بنی اسرائیل ۴۰

[98] الزخرف۱۶

[99] النجم۲۱،۲۲

[100] الانبیاء ۲۶ ، ۲۷

[101] النحل۵۸

[102] تفسیر طبری ۱۲۶؍۲۱

[103] مسنداحمد۲۱۵۱۶

[104] الصافات: 166

[105] المعجم الکبیرللطبرانی۹۰۴۲،شعب الایمان۱۵۷،تفسیرطبری۱۲۷؍۲۱،تفسیرابن ابی حاتم ۳۲۳۲؍۱۰، تفسیر عبدالرزاق ۱۰۷؍۳

[106] فاطر۴۲

[107] الانعام۱۵۶،۱۵۷

[108] المجادلة ۲۱

[109] المومن ۵۱

[110] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ مَا یُذْكَرُ فِی الفَخِذِ۳۷۱،کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۸، صحیح مسلم کتاب الجھاد بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۶۶۵

[111] تفسیرطبری۱۳۴؍۲۱،تفسیرابن ابی حاتم۳۲۳۴؍۱۰

[112] تفسیرالبغوی۵۲؍۴

[113] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی كَفَّارَةِ الْمَجْلِسِ۴۸۵۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ بَاب مَا یَقُولُ إِذَا قَامَ مِنْ مَجْلِسِهِ۳۴۳۳،مسنداحمد۱۹۸۱۲

Related Articles