بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة الناس

سورہ الفلق میں  ایک صفت کاذکرفرماکرچارآفات سے پناہ مانگنے کاحکم دیاگیاتھا،اس سورہ میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی تین صفات ربوبیت، مالکیت اور الوہیت کا ذکر فرماکر ہر اس وسوسہ اندازکے شرسے پناہ مانگنے کاحکم دیاگیاہے جوبابارپلٹ کرآتاہے اورلوگوں  کے دلوں  میں  وسوسے ڈالتاہے خواہ وہ شیاطین جن میں  سے ہو یا انس میں  سے ،سورہ الفلق میں  نفس اوربدن کی سلامتی مطلوب ہے جبکہ اس سورت میں  دین کے ضررسے بچنااوراس کی سلامتی مطلوب ہے،اوردین کاچھوٹے سے چھوٹا نقصان دنیاکے بڑے سے بڑے نقصان سے زیادہ خطرناک ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  میں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‎﴿١﴾‏ مَلِكِ النَّاسِ ‎﴿٢﴾‏ إِلَٰهِ النَّاسِ ‎﴿٣﴾‏ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِ النَّاسِ ‎﴿٥﴾‏ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ‎﴿٦﴾‏(الناس)
’’آپ کہہ دیجئے ! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں ، لوگوں کے مالک کی ، (اور)لوگوں کے معبود کی (پناہ میں )، وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے، جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے،(خواہ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے ۔‘‘

لوگوں  کے رب! اوران کے معبودسے جوہرجاندارکی پیشانی کوپکڑے ہوئے ہے شیطان کی پناہ مانگیں ،جوتمام برائیوں  کی جڑاوران کامادہ ہے،جس کافتنہ اور شریہ ہے کہ وہ لوگوں  کے دلوں  میں  وسوسہ ڈالتاہے ،ان کے سامنے شرکی تحسین کرتاہے ،برائی کوانتہائی خوبصورت بناکران کے سامنے پیش کرتا ہے اوربرائی کے ارتکاب کے لئے ان کے اندر نشاط پیداکرتاہے ،وہ انہیں  بھلائی سے بازرکھتاہے اوراس کوکسی اورہی صورت میں  ان کے سامنے پیش کرتا ہے ،وہ ہمیشہ اسی حال میں  رہتاہے کہ وہ وسوسہ ڈالتاہے اور پیچھے ہٹ جاتاہےخواہ وہ جنوں  میں  سے ہویاانسانوں  میں  سے۔

جعال رضی اللہ عنہ بن سراقہ الضمری کاقبول اسلام:

ان کے نام ونسب دونوں  میں  اختلاف ہے،بعض ان کانام جعیل بتاتے ہیں  ،نسب کے اعتبارسے بعض انہیں

أو الغفاریّ أو الثعلبیّ

غفاری بعض ثعلبی اوربعض حمیری بتاتے ہیں  ۔

من أهل الصفة وفقراء المسلمین. وكان رجلًا صالحًا دمیمًا قبیحًا وأسلم قدیمًا

آپ اصحاب صفہ اور فقرائے مہاجرین میں  سے تھے ، مردصالح ،کریہ منظراوربدشکل تھے ،دعوت توحیدکے ابتدائی زمانے میں  مکہ آئے اوربارگاہ رسالت میں  حاضرہوکرقبول اسلام کاشرف حاصل کیا۔

اہل سیرنے صراحت کے ساتھ لکھاہے

وَشَهِدَ أَیْضًا جُعَالٌ الْمُرَیْسِیعَ والمشاهد كلها مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،وَأَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ بِالْجِعْرَانَةِ مِنْ غَنَائِمِ خَیْبَرَ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ: یَا رَسُولَ اللهِ أَعْطَیْتَ عُیَیْنَةَ بْنَ حِصْنٍ وَالأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ وَأَشْبَاهَهُمَا مِائَةَ مِائَةٍ مِنَ الإِبِلِ وَتَرَكَتَ جُعَیْلَ بْنَ سُرَاقَةَ الضَّمْرِیَّ،فَقَالَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لجُعَیْلُ بْنُ سُرَاقَةَ خَیْرٌ مِنْ طِلاعِ الأَرْضِ كُلِّهَا مِثْلِ عُیَیْنَةَ وَالأَقْرَعِ وَلَكِنِّی تَأَلَّفْتُهَمَا لِیُسْلِمَا وَوُكِّلْتُ جُعَیْلَ بْنَ سراقة إلى إِسْلامُهُ ،

وہ المریسیع اورتمام مشاہد غزوہ احد،غزوہ بنی قریظہ ،غزوہ حنین اورغزوہ تبوک میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرانہ میں  غنائم خیبرمیں  سے ان لوگوں  کوعطافرمایاجن کی تالیف قلوب منظورتھی، توسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے عیینہ بن حصین اورالاقرع بن حابس اوران کے مشابہ لوگوں کوتوسوسواونٹ عطافرمائے اورجعیل بن سراقہ الضمری کوچھوڑدیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں  میری جان ہے جعیل بن سراقہ رضی اللہ عنہ روئے زمین کے تمام عیینہ اورالاقرع جیسے لوگوں  سے بہترہیں  لیکن میں  نے ان لوگوں  کے قلوب کومانوس کیاتاکہ وہ اسلام لے آئیں اورجعیل بن سراقہ رضی اللہ عنہ کوان کے اسلام کے سپردکردیا،

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جُعَالَ بْن سُرَاقَةَ بَشِیرًا إِلَى الْمَدِینَةِ بِسَلامَةِ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِینَ فِی غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ لما غزا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فی شعبان سنة ستّ اسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ

غزوہ ذات الرقاع میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعیل بن سراقہ رضی اللہ عنہ کومسلمانوں  کی سلامتی کابشیر(خوش خبری دینے والا)بناکے مدینہ منورہ بھیجاتھا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان چھ ہجری میں غزوہ بنی مصطلق کے لئے تشریف لے گئے تومدینہ منورہ پر جعیل رضی اللہ عنہ کوحاکم بناگئے،ان کاسال وفات کسی کتاب میں  درج نہیں ۔ [1]

 

 

         

[1] ابن سعد۱۸۵؍۴، اسد الغابة ۵۳۶؍۱، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۵۸۷،۵۹۶؍۱

Related Articles