بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة فاطر

اس ساری سورۂ میں  مسلمانوں  کوبشارت،رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی اوراہل مکہ اوران کے سرداروں  نے دعوت توحیدکے مقابلے میں  جورویہ اختیارکررکھاتھا اس پرناصحانہ انداز میں  نصیحت فرمائی گئی ہے کہ جس پاکیزہ دعوت کاراستہ روکنے کے لیے مکاریاں  اورچالبازیاں  کررہے ہواورجس پیغام کو ناکام بنانے کے لئے تم لوگ تدبیریں  کررہے ہو اس پرایمان لانے میں  خود تمہارااپناہی بھلاہے،ہدایت وحکمت کی یہ باتیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہی بتاتے ہیں  ان کااس سلسلہ میں  کوئی زرہ برابربھی مفادپوشیدہ نہیں  ہے، اور اس دعوت کو روکنے کے لئے جوبھی حربے تم استعمال کررہے ہووہ خود تمہارے لئے ہی وبال جان ہیں ،اس سے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکچھ نہیں  بگاڑپاؤ گے، اہل مکہ کایہ کہناکہ ہم دوبارہ کیسے زندہ ہوں  گے توبتایا گیاکہ وہ رب تواحکم الحاکمین ہے ، جس کاکوئی شریک یاہمسرنہیں  ،وہ ہرشے کاخالق ہے ، اسی نے تمہیں  بغیرکسی نمونے کے پانی کی ایک حقیر بوندسے پیداکیاہے پھروہ تمہیں دوبارہ زندہ کیوں  نہیں  کرسکتا؟جوخالق اس عظیم الشان کائنات کوتخلیق کرسکتا ہے، اس کاایک مربوط نظام وضع کرسکتاہے تواس کے لیے تمہیں  دوبارہ زندہ کردینا کیامشکل کام ہے، اس سورۂ میں  خصوصاًایمان،ہدایت،نمازوزکواة اورتزکیہ نفس کی عظمت کے مقابل دعوت حق کی تکذیب وضلالت اور کفرسے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِی أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ یَزِیدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١﴾‏ مَا یَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا یُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٢﴾‏ یَا أَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللَّهِ یَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ‎﴿٣﴾‏وَإِنْ یُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ‎﴿٤﴾‏(فاطر)
’’اس اللہ کے لیے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداء) آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے، مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے،اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کردے تو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے، لوگو ! تم پر جو انعام اللہ نے کئے ہیں انہیں یاد کرو، کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے ؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے جاتے ہو؟ اور اگر یہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے کے تمام رسول بھی جھٹلائے جا چکے ہیں ، تمام کام اللہ ہی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔‘‘

ہرطرح کی حمدوثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جس کی قدرت کمال اوروسعت اقتدار،انوکھی حکمت اوراحاطہ علم یہ ہے کہ اس نے سات آسمانوں  اورسات زمینوں  کواوران کے درمیان جوکچھ پہلے پہل بغیر نمونے کے چھ دنوں  میں  تخلیق کردیا،اس کے لیے انسانوں  کودوبارہ پیداکردیناکوئی ناممکن کام ہے ،جیسے فرمایا

اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ۝۰ۭ۬ بَلٰى۝۰۝۰ۤوَہُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِـیْمُ۝۸۱ [1]

ترجمہ:کیا وہ جس نے آسمانوں  اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں  ہے کہ جیسوں  کو پیدا کر سکے ؟ کیوں  نہیں ، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے۔

اہل مکہ فرشتوں  کواللہ کی بیٹیاں  قراردے کران کی عبادت کرتے تھے ان کی بابت فرمایاکہ وہ تواللہ کی دوسری مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں ، اللہ نے ان کے دودواورتین تین اور چارچار بازو بنائے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کو انبیاء کی طرف یامختلف مہمات پرپیغام رساں  بنا کر بھیجتا ہے،اس کے علاوہ کائنات میں  اللہ تعالیٰ کے احکام لے جانا اوران کا نافذ کرنابھی انہی کا کام ہے اوروہ خادموں  کی طرح فرمانروائے حقیقی کے احکام کی تعمیل کے لئے دوڑتے پھرتے ہیں ،ان خادموں  کے اختیارمیں  کچھ بھی نہیں  ہے سارے اختیارات تواصل فرمانرواکے ہاتھ میں  ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔لَّا یَعْصُوْنَ اللهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۝۶ [2]

ترجمہ:جوکبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اورجوحکم بھی انہیں  دیاجاتاہے اسے بجا لاتے ہیں ۔

وہ اپنی مخلوق کی سرعت رفتاراورقوت کار میں  جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے ،یعنی بعض فرشتوں  کی سرعت رفتاراور قوت کارکے لئے اس سے بھی زیادہ بازو ہیں ،

 أَخْبَرَنِی ابْنُ مَسْعُودٍ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِیلَ لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات جبرائیل علیہ السلام کوان کی اصلی صورت میں  دیکھااس کے چھ سوپرتھے۔ [3]

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى جِبْرِیلَ، لَمْ یَرَهُ فِی صُورَتِهِ إِلَّا مَرَّتَیْنِ: مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ المُنْتَهَى، وَمَرَّةً فِی جِیَادٍ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الأُفُقَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کودومرتبہ ان کی اصلی شکل میں  دیکھاان کے چھ سوبازوتھےاوروہ پورے افق پر چھائے ہوئے تھے۔ [4]

یقیناً اللہ ہرچیزپرقدرت رکھتا ہے،اللہ مالک الملک جس رحمت کادروازہ بھی لوگوں  کے لئے کھول دے اسے دنیاکی کوئی ہستی بند کرنے والی نہیں  اورکسی کواپنی رحمت سے محروم کردے تو اسے اللہ کے سوا کوئی دوسرا کھولنے والانہیں ،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِیِّ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِیَةُ عَلَى الْمِنْبَرِ:اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ، مَنْ یُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَیْرًا یُفَقِّهُّ فِی الدِّینِ سَمِعْتُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ

محمدبن کعب القرظی سے مروی ہے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ کلمات کہے’’ اے اللہ! جسے آپ دیں  اس سے کوئی روک نہیں  سکتا اور جس سے آپ روک لیں  اسے کوئی دے نہیں  سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں  پہنچا سکتی۔‘‘اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے ، اسے دین کی سمجھ عطاء فرما دیتا ہے،میں  نے یہ کلمات اسی منبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں ۔ [5]

مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِیَّ، قَالَ:سَمِعْتُ مُعَاوِیَةَ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ

محمدبن کعب القرظی سے مروی ہےمیں  نےامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ میں  نے نماز سے فراغت کے بعد میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا ہے ’’اے اللہ جسے آپ دیں  اس سے کوئی روک نہیں  سکتا اور جس سے آپ روک لیں  اسے کوئی دے نہیں  سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں  پہنچا سکتی ۔ ‘‘ [6]

اس کے سوانہ کوئی منعم ہے اورنہ مانع وقابض، جیسے فرمایا

وَاِنْ یَّمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ۝۰ۭ وَاِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱۷وَهُوَالْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ۝۰ۭ وَهُوَالْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ۝۱۸ [7]

ترجمہ:اگراللہ تمہیں  کسی قسم کانقصان پہنچائے تواس کے سواکوئی نہیں  جوتمہیں اس نقصان سے بچاسکے اوراگروہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مندکرے تووہ ہر چیز پر قادر ہے،وہ اپنے بندوں  پرکامل اختیارات رکھتا ہے اوردانااور باخبر ہے ۔

وَاِنْ یَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ وَاِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝۰ۭ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ وَھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۱۰۷ [8]

ترجمہ:اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں  ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں  جو اس مصیبت کو ٹال دے اور اگر وہ تیرے حق میں  کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں  ہے، وہ اپنے بندوں  میں  سے جن کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ۔

المُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ فِی دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ مَكْتُوبَةٍ، لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ اللهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ

مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازکے بعد ہمیشہ یہ کلمات پڑھتے تھے،اللہ کے سواکوئی لائق عبادت نہیں ،اس کاکوئی شریک نہیں ،بادشاہت اس کی ہے اورتمام تعریف اسی کے لئے ہے،وہ ہرچیزپرقادرہے، اے اللہ جسے تودے اس سے روکنے والاکوئی نہیں  اورجسے تونہ دے اسے دینے والاکوئی نہیں  اورکسی مال دارکواس کی دولت ومال تیری بارگاہ میں  کوئی نفع نہ پہنچاسکیں  گے۔ [9]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ حِینَ یَقُولُ:سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ:رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ خَیْرُ، مَا قَالَ الْعَبْدُ وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ، لَا مَانِعَ لَمَا أَعْطَیْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ

اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سرمبارک اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمیدہ کہہ کریہ فرماتے اے ہمارے رب!تیری ہی تعریف ہے جس سے کہ آسمان بھرجائیں ،زمین بھرجائے اوران کے علاوہ جوتوچاہے بھرجائے ،اے وہ ذات جوتعریف وبزرگی کے اہل ہے!سب سے حق بات جوبندے کوکہنی لائق ہےاورہم سب تیرے ہی بندے ہیں  یہی ہے کہ جوتوعنایت فرما دے اسے کوئی روک نہیں  سکتااورتیرے مقابلے میں  کسی کی بڑائی اوربزرگی فائدہ نہیں  دے سکتی۔ [10]

وہ وحدہ لاشریک ہی کائنات کی ہر چیز پر غالب ہے ، اس کے فیصلوں  کو نافذ ہونے سے کوئی نہیں  روک سکتا اور اس کا ہر فیصلہ سراسر حکمت پرمبنی ہوتا ہے ، لوگو!تم پراللہ کے جوبے شماراحسانات ہیں  انہیں  یادرکھو اور شکر گزاربن کر اطاعت کرواوراس کی حمدوثنابیان کرو ، کیااللہ کے سواکوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں  اوراپنی بے شمار مخلوقات کو آسمان اور زمین سے رزق رسانی کاسامان کر رہا ہو ؟ زندگی اور موت پرقادر ہو؟عزت وذلت کامالک ہو؟نفع یانقصان دینے پرقادرہو؟ مشکلات ، آفات اور پریشانیوں  میں  تمہاری پکار کو سننے اور مدد کرنے پرقدرت رکھتا ہو ؟ اولادیں  دینے والاہو؟ یاد رکھواللہ کے سوا کوئی معبودنہیں  ہے،کسی کے پاس کوئی طاقت ، قدرت اوراختیار نہیں  اور کائنات کی ہرمخلوق اپنے رب کی تسبیح بیان کررہی ہے،جب تم تسلیم کرتے ہوکہ تمہاراخالق اور رزاق اللہ ہی ہے توپھرتم اس کی الوہیت اورعبودیت کاانکارکیوں  کرتے ہو؟خالق ورزاق کی عبادت کو چھوڑکرمخلوق کی عبادت کیوں کرتے ہوجوخودرزق کی محتاج ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے اورحوصلہ دلانے کے لئے فرمایا اب اگراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہرطرح کے دلائل اور نشانیوں  کے باوجودیہ لوگ تمہیں  جھٹلاتے ہیں توشکستہ دل نہ ہوں ،یہ کوئی انوکھی بات نہیں تم سے پہلے بھی بہت سے انبیاء ومرسلین جھٹلائے جا چکے ہیں ،توہم نے جھٹلانے والوں  کوپیوندخاک کردیا اوراپنے رسولوں اوران کے پیروکاروں  کوبچالیا،آخرکارسارے معاملات کے فیصلے اللہ تعالیٰ ہی کوکرنے ہیں  ،میدان محشرمیں  وہ ساری خلقت کے سامنے لم نشرح کردے گاکہ کون راہ راست سے بھٹکاہوا تھااورکون اپنے رب کی بندگی بجالارہاتھا ، اگرپچھلی امتوں  کی طرح یہ بھی اپنی روش سے بازنہ آئے تو انہیں  پیوندخاک کر دینا ہمارے لئے کوئی مشکل کام نہیں  ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا ۖ وَلَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ‎﴿٥﴾‏ إِنَّ الشَّیْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا یَدْعُو حِزْبَهُ لِیَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِیرِ ‎﴿٦﴾‏ الَّذِینَ كَفَرُوا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ ۖ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِیرٌ ‎﴿٧﴾‏(فاطر)
’’لوگو ! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تمہیں زندگانی دنیا دھوکے میں نہ ڈالےاور نہ دھوکے باز شیطان تمہیں غفلت میں ڈالے،یادرکھو شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن جانو، وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لیے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہوجائیں ،جو لوگ کافر ہوئے ان کے لیے سخت سزا ہے اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لیے بخشش ہے اور (بہت) بڑا اجر ۔‘‘

لوگو!اس بھول میں  نہ رہوکہ یہ دنیاہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گی اوریہ کبھی فنانہیں  ہوگی ،اللہ کاوعدہ یقیناًبرحق ہے،اس میں  کوئی شک وشبہ اورکوئی ترددنہیں  کہ ایک وقت مقررہ پرقیامت قائم ہوگی،جیسے فرمایا

۔۔۔وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا۝۲ [11]

ترجمہ:جس نے ہرچیزکوپیداکیاپھراس کی ایک تقدیرمقررکی۔

اورتمام معاملات اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں  پیش ہوں  گے ،پھراللہ ترازوعدل قائم فرمائے گااورہرشخص سے فرداًفرداً ذرہ ذرہ کاحساب فرمائے گا ،جیسے فرمایا

وَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [12]

ترجمہ:سب قیامت کے روز فردا فردا اس کے سامنے حاضر ہوں  گے۔

اور ہر شخص کواس کے اعمال کے مطابق جزاوسزا دے گا، جیسے فرمایا

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْہَا۝۰ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزَى الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۸۴ [13]

ترجمہ:جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھلائی ہے اور جو برائی لے کر آئے تو برائیاں  کرنے والوں  کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے۔

وَلِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى۝۳۱ۚ [14]

ترجمہ:اور زمین اور آسمان کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے تاکہ اللہ برائی کرنے والوں  کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں  کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں  نے نیک رویہ اختیار کیا ہے۔

لہذامال ودولت ،حیثیت ومرتبہ ،جاہ وحشمت اور اولادیں یاآخرت کاانکارکہ حیات بعدالموت نہیں  ،کوئی حساب کتاب نہیں ،کوئی جنت یادوزخ نہیں  یایہ کہ جس طرح ہم دنیامیں  موج میلے کررہے ہیں  وہاں  بھی اسی طرح نصیب ہوگاوغیرہ،جیسے فرمایا

وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً۝۰ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا۝۳۶ [15]

ترجمہ:اور مجھے توقع نہیں  کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی تاہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں  گا۔

اس طرح کے عقائدواعمال تمہیں  آخرت کی ان انگنت نعمتوں  سے غافل نہ کردیں ، لہذا شیطان مردود کے مکروفریب سے بچ کررہووہ اللہ کے بارے میں  تمہیں  اپنے دجل وفریب اورہتھکنڈوں  سے دھوکہ نہ دینے پائےکہ کوئی الٰہ نہیں  ہے ،یہ عظیم الشان کائنات خودبخودقائم ہو گئی ہے ،اوراس کایہ بے داغ نظام چلانے والاکوئی نہیں یایہ کہ اللہ بڑاغفوررحیم ہے ،تم نے دنیامیں  کلمہ توحیدپڑھ لیاہے اب خواہ کچھ بھی کرتے پھرووہ تمہیں  بخش دے گا یایہ کہ اللہ کے فلاں  نیک بندوں  کے آستانے کوپکڑ لو پھر تمہارا بیڑا پارہوجائے گا وغیرہ جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا۝۰۪ وَلَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللهِ الْغَرُوْرُ۝۳۳ [16]

ترجمہ: پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں  دھوکے میں  نہ ڈالے اور نہ وہ دھوکہ باز اللہ کے معاملے میں  تمہیں  دھوکہ دینے پائے۔

درحقیقت شیطان تمہاراازلی دشمن ہے اس لئے تم بھی اسے اپنادوست سمجھنے کے بجائے دشمن ہی سمجھو،جیسے فرمایا

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ [17]

ترجمہ:اے آدم کی اولاد! کیا میں  نے تمہیں  تاکید نہ کر دی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

وہ تورب کے حضوراپنے چیلنج کے مطابق اپنے پیرووں  کو اپنی راہ پراس لئے بلارہاہے کہ وہ دوزخیوں  میں  شامل ہو جائیں  ، چنانچہ یاد رکھو جو لوگ اللہ کی منزل کتاب اوراس کے رسول کی دعوت حق پرایمان نہیں  لائیں  ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے اورجواللہ اوراس کے رسول اوران تعلیمات پرایمان لائیں  گے جواللہ نے نازل کی ہیں  اور رسولوں  کی اطاعت میں اعمال صالحہ اختیار کریں  گےاللہ ان کی خطاؤ ں  سے درگزرفرماکر بخشش فرمائے گااوران کے نیک اعمال کا بدلہ کئی گنابڑھاچڑھاکرعطافرمائے گا،جیسے فرمایا

لِیُكَفِّرَ اللہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۳۵ [18]

ترجمہ: تاکہ جو بد ترین اعمال انہوں  نے کیے تھے انہیں  اللہ ان کے حساب سے ساقط کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے انکے لحاظ سے انکو اجر عطا فرمائے۔

أَفَمَنْ زُیِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَهْدِی مَنْ یَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ بِمَا یَصْنَعُونَ ‎﴿٨﴾‏ وَاللَّهُ الَّذِی أَرْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَیِّتٍ فَأَحْیَیْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ‎﴿٩﴾‏ مَنْ كَانَ یُرِیدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِیعًا ۚ إِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِینَ یَمْكُرُونَ السَّیِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ یَبُورُ ‎﴿١٠﴾(فاطر)
’’کیا پس وہ شخص جس کے لیے اس کے برے اعمال مزین کردیئے گئے پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ شخص جیسا ہے)؟ (یقین مانو) کہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے، پس آپ کو ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنی چاہیے، جو کچھ کر رہے ہیں اس سے یقیناً اللہ تعالیٰ بخوبی واقف ہے، اور اللہ ہی ہوائیں چلاتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ہم بادلوں کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں اور اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتے ہیں اس طرح دوبارہ جی اٹھنا (بھی) ہے، جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے، اور ان کا یہ مکر برباد ہوجائے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ کے سرداروں کاذکرفرمایا جودعوت کاراستہ روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کازورلگارہے تھے ،فرمایابھلا اس شخص کی گمراہی کاکچھ ٹھکاناہے جس کے لیے شیطان نے کفروشرک اوربداعمالیوں  کومزین کردیاگیاہواوروہ اپنے عقائدواعمال پرنازاں  ہو؟حقیقت یہ ہے کہ اللہ اپنی مشیت وحکمت سے اس شخص کوہدایت کی توفیق سے محروم کردیتاہے جومسلسل نافرمانیوں  اور بداعمالیوں  سے اپنے آپ کواس کامستحق ٹھہرا چکتاہے اورجوہدایت کاطالب ہوتا ہے اسے اپنے فضل وکرم سے راہ راست دکھا دیتا ہے ، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کاہرکام حکمت اورعلم تام پرمبنی ہوتاہے اس لئے کسی کی گمراہی پراتناغم وافسوس نہ کریں  کہ آپ اپنے آپ کوہلاک میں  ڈال دیں  ، ایسے لوگوں  کوراہ راست پرلے آناآپ کی ذمہ داری نہیں  ہے آپ کافرض صرف پہنچادیناہے ،یہ لوگ دعوت حق کی تکذیب اور اس کوروکنے کے لئے جوسازشیں  اوراوچھے سے اوچھا ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں  اللہ علام الغیوب اس کوبخوبی جانتاہےاوروہ دنیاوآخرت میں  ان کے کرتوتوں  کی خبرلے کررہے گا ، کفار مکہ حیات بعد الموت کو بعید از امکان تصورکرتے تھے ان کوزمین کے مردہ ہوجانے کے بعداس کازندہ کرنے کے ایک عام فہم واقعہ سے سمجھایا کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی توہے جواپنی رحمت سے ہواؤ ں  کو بھیجتا ہے جو پانی سے بوجھل بادلوں  کو اٹھاتی ہیں ،پھرہم اسے ایک مردہ زمین کی طرف لے جاتے ہیں  اور اس پر بارش برساتے ہیں  تو یکایک اس میں  حیات پیدا ہو جاتی ہے،اورمدتوں  سے مری ہوئی جڑیں  سرسبزوشاداب ہو کر زمین کی تہوں  میں  سے سرنکالناشروع کردیتی ہیں  ، جیسے فرمایا

 وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِیجٍ ‎﴿٥﴾‏ [19]

ترجمہ:اورتم دیکھتے ہوکہ زمین سوکھی پڑی ہے پھر جہاں  ہم نے اس پرمینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اورپھول گئی اوراس نے ہر قسم کی خوش منظرنباتات اگلنی شروع کردی ۔

اسی طرح عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام اجسام اورارواح اپنی اپنی قبروں  سے اٹھ کھڑے ہوں  گے اورمیدان محشرکی طرف دوڑنے لگیں  گے ،جیسے فرمایا:

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۹ [20]

ترجمہ:اور اللہ کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہےپھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے یقینا جو اللہ اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں  کو بھی زندگی بخشنے والا ہے یقینا وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

وَہُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۵۷ [21]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہےپھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں  تو انہیں  کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں  مینہ برسا کر( اسی مری ہوئی زمین سے ) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے، دیکھو اس طرح ہم مردوں  کو حالت موت سے نکالتے ہیں  شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثُمَّ یُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیَنْبُتُونَ كَمَا یَنْبُتُ البَقْلُ، لَیْسَ مِنَ الإِنْسَانِ شَیْءٌ إِلَّا یَبْلَى، إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ، وَمِنْهُ یُرَكَّبُ الخَلْقُ یَوْمَ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھراللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گاجس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں  گے جیسےسبزیاں  پانی سے اگ آتی ہیں  اس وقت انسان کاہرحصہ گل چکاہوگاسوائے ریڑھ کی ہڈی کےاوراسی سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔ [22]

کفارمکہ دعوت حق کا مقابلہ اس لئے کر رہے تھے کہ خانہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے اردگرد کے قبائل میں  انہیں  جو عزت ووقاراوراثرورسوخ حاصل ہے وہ خاک میں  مل جائے گا،اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خام خیالی کی بابت فرمایا کہ اللہ سے کفروبغاوت کرکے تم نے جوعزت و وقارقائم کررکھاہے یہ توایک جھوٹی عزت ہے جوخاک میں  مل کررہے گی ،دنیاوآخرت میں حقیقی اورپائیدارعزت تواللہ وحدہ لاشریک کی بندگی میں  ہی مل سکتی ہے،اس لئے اس کی اطاعت گزاری کرو،وہ جس کوعزت دے وہی عزیز ہوگا اورجس کوچاہے ذلیل و خوار کردے اسے دنیاکی کوئی طاقت عزت نہیں  دے سکتی ، جیسے فرمایا

الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۭ اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلہِ جَمِیْعًا۝۱۳۹ۭۭ [23]

ترجمہ:کیا یہ عزت کی طلب میں  ان کے پاس جاتے ہیں  ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے ۔

وَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُھُمْ۝۰ۘ اِنَّ الْعِزَّةَ لِلہِ جَمِیْعًا۝۰ۭ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۶۵ [24]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جو باتیں  یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں  وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں ، عزّت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں  ہے اور سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

۔۔۔وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۸ۧ [25]

ترجمہ: حالاں  کہ عزت تواللہ اوراس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے مگریہ منافق جانتے نہیں  ہیں ۔

اللہ کے ہاں  خبیث اورمفسدانہ اقوال نہیں  بلکہ اللہ کی تسبیح اورتہلیل وتحمید،تلاوت،امربالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ عروج پاتے ہیں  اورقول کے مطابق عمل صالح اس کواوپر چڑھاتاہے،یعنی قول عمل صالح کے بغیراللہ کے ہاں  بے حیثیت ہے ،

الْمُخَارِقِ بْنِ سُلَیْمٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ:إِذَا حَدَّثْنَاكُمْ بِحَدِیثٍ أَتَیْنَاكُمْ بِتَصْدِیقِ ذَلِكَ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ. إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ إِذَا قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهَ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، تَبَارَكَ اللَّهُ، أَخَذَهُنَّ مَلَكٌ، فَجَعَلَهُنَّ تَحْتَ جَنَاحَیْهِ، ثُمَّ صَعِدَ بِهِنَّ إِلَى السَّمَاءِ، فَلَا یَمُرُّ بِهِنَّ عَلَى جَمْعٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا اسْتَغْفَرُوا لِقَائِلِهِنَّ حَتَّى یُحَیِّیَ بِهِنَّ وَجْهَ الرَّحْمَنِ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ: {إِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهُ} [26]

مخارق بن سلیم سے روایت ہےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایاجب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کریں  توکتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی پیش کردیں  گے،جب کوئی مسلمان یہ کلمات کہتاہے سبحان اللہ وبحمدہ (اللہ پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ)والحمدللہ(سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے)ولاالٰہ الااللہ،واللہ اکبر(اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  اوراللہ سب سے بڑاہے)تبارک اللہ (اللہ بابرکت ہے)توفرشتہ ان کلمات کولے کراپنے پرکے نیچے کرلیتاہے پھرانہیں  لے کرآسمان کی طرف چڑھ جاتاہے،اوروہ جب بھی فرشتوں  کی کسی جماعت کے پاس سے گزرتاہے تووہ ان کلمات کے کہنے والے کے لیے استغفارکرتے ہیں حتی کہ وہ کلمات لے کراللہ عزوجل کے پاس پہنچ جاتاہے، پھر کتاب اللہ سے تصدیق کے طورپرعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ’’اس کے ہاں  جوچیزاوپڑچڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اورعمل صالحہ اس کواوپرچڑھاتا ہے۔‘‘ [27]

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الَّذِینَ یَذْكُرُونَ مِنْ جَلَالِ اللَّهِ مِنْ تَسْبِیحِهِ، وَتَحْمِیدِهِ، وَتَكْبِیرِهِ، وَتَهْلِیلِهِ، یَتَعَاطَفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ، لَهُنَّ دَوِیٌّ كَدَوِیِّ النَّحْلِ، یُذَكِّرْنَ بِصَاحِبِهِنَّ، أَلَا یُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ لَا یَزَالَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ شَیْءٌ یُذَكِّرُ بِهِ؟

نعمان بن بشیرسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجولوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کی وجہ سے اس کاذکرکرتے ہوئے تسبیح (سبحان اللہ)اورتکبیر (اللہ اکبر) اورتمحید (الحمدللہ)اورتہلیل (الاالٰہ الااللہ )پڑھتے ہیں تویہ کلمات عرش الٰہی کاطواف کرناشروع کردیتے ہیں اوران کی آوازشہدکی مکھیوں  کی آوازجیسی ہوتی ہےاوروہ ان کلمات کے کہنے والے کوبھی یادکرتے ہیں توکیاتم میں  سے کوئی اس بات کوپسندنہیں  کرتاکہ اللہ کے ہاں  کوئی چیزاس کی یاددلاتی رہے۔ [28]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {إِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهُ} [29] قَالَ:الْكَلَامُ الطَّیِّبُ: ذِكْرُ اللَّهِ، وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ: أَدَاءُ فَرَائِضِهِ؛ فَمَنْ ذَكَرَ اللَّهَ سُبْحَانَهُ فِی أَدَاءِ فَرَائِضِهِ، حُمِلَ عَلَیْهِ ذِكْرُ اللَّهِ فَصَعِدَ بِهِ إِلَى اللَّهِ، وَمَنْ ذَكَرَ اللَّهَ، وَلَمْ یُؤَدِّ فَرَائِضَهُ، رَدَّ كَلَامَهُ عَلَى عَمَلِهِ، فَكَانَ أَوْلَى بِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ ’’اس کے ہاں  جوچیزاوپڑچڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اورعمل صالحہ اس کواوپرچڑھاتا ہے۔‘‘ کے بارے میں  روایت ہے پاکیزہ کلمات سے مراداللہ تعالیٰ کاذکرہے جواللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتاہے اورعمل صالح سے مرادفرائض کواداکرناہے،توجوشخص فرائض اداکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کاذکرکرے تواس کاعمل اللہ تعالیٰ کے ذکرکواٹھالیتاہے اوراسے اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچادیتاہےاورجوشخص اللہ تعالیٰ کاذکرتوکرے مگرفرائض ادانہ کرےتواس کے کلام کواس کے عمل کی طرف لوٹادیاجائے گا اوروہی اس کازیادہ مستحق ہوگا۔ [30]

رہے وہ لوگ جوکفروشرک کرتے ہیں  اورکلمہ حق کو مغلوب کرنے کے لئے سازشیں  ،نظر فریب استدلال اورریاکاریاں  کرتے ہیں  ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کے مکروفریب کاتاروپودبوسیدہ ہوکربکھرجائے گااوراس کاوبال انہی پرپڑے گاجیسے فرمایا

۔۔۔وَلَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَهْلِهٖ۔۔۔۝۰۝۴۳ [31]

ترجمہ:حالاں  کہ بری چالیں  اپنے چلنے والوں  ہی کولے بیٹھتی ہیں ۔

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِی كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرٌ ‎﴿١١﴾‏وَمَا یَسْتَوِی الْبَحْرَانِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِیهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿١٢﴾(فاطر)
’’ لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے پیداکیاہے، پھر تمہیں جوڑے جوڑے (مرد و عورت) بنادیا ہے، عورتوں کا حاملہ ہونا اور بچوں کاتولد ہونا سب اس کے علم سے ہی ہے، اور جو بھی بڑی عمر والا عمر دیا جائے اور جس کی عمر گھٹے وہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ پر یہ بات بالکل آسان ہے، اور برابر نہیں دو دریایہ میٹھا ہے پیاس بجھاتا پینے میں خوشگوار، یہ دوسرا کھاری ہے کڑوا، تم ان دونوں میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو اور وہ زیورات نکالتے ہو جنہیں تم پہنتے ہو،اور آپ دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی کشتیاں پانی کو چیرنے پھاڑنے والی ان دریاؤں میں ہیں تاکہ تم اس کا فضل ڈھونڈو تاکہ تم اس کا شکر کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حیات بعدالموت کی تیسری دلیل فرمائی کہ اللہ نے انسان کی آفرنیش پہلے براہ راست مٹی سے کی ،پھرپانی کے ایک حقیربدبودارقطرے سے تمہاری نسل چلائی اور مرد و عورت کے جوڑے بنادیے، یہ بھی اس کالطف وکرم اورانعام واحسان ہے کہ مردوں  کے لئے بیویاں  بنائیں  جوان کے لیے سکون وراحت کاسبب ہیں ،جیسے فرمایا

 وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً۔۔۔۝۲۱ [32]

ترجمہ:اور اس کی نشانیوں  میں  سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں  بنائیں  تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ۔

نکاح کے بعدجب مردو عورت کے ملاپ سے کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے اورتخلیق کے مختلف مراحل کے بعدجب بچہ جنتی ہے یہ سب کچھ اللہ کے علم میں  ہوتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۵۹ [33]

ترجمہ: درخت سے گرنے والاکوئی پتہ ایسانہیں  جس کااسے علم نہ ہو ، زمین کے تاریک پردوں  میں  کوئی دانہ ایسانہیں  جس سے وہ باخبرنہ ہو،خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں  لکھاہواہے ۔

اَللهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ۝۰ۭ وَكُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ۝۸ [34]

ترجمہ:اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ،جوکچھ اس میں  بنتاہے اسے بھی وہ جانتاہے اور جوکچھ اس میں  کمی یابیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے ،ہرچیزکے لئے اس کے ہاں  ایک مقدارمقررہے۔

اللہ کی تقدیروقضاسے کوئی عمر پانے والا عمر نہیں  پاتااورنہ کسی کی عمرمیں  کچھ کمی ہوتی ہے مگریہ سب کچھ ایک کتاب میں  لکھا ہوتا ہے،جیسے فرمایا

یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاۗءُ وَیُثْبِتُ۝۰ۚۖ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ۝۳۹ [35]

ترجمہ:اللہ جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اورام الکتاب اسی کے پاس ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:

وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖٓ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ،

یَقُولُ:لَیْسَ أَحَدٌ قَضَیْتُ لَهُ طُولَ الْعُمُرِ وَالْحَیَاةَ إِلَّا وَهُوَ بَالِغٌ مَا قَدَّرْتُ لَهُ مِنَ الْعُمُرِ، وَقَدْ قَضَیْتُ ذَلِكَ لَهُ، وَإِنَّمَا یَنْتَهِی إِلَى الْكِتَابِ الَّذِی قَدَّرْتُ لَهُ، لَا یُزَادُ عَلَیْهِ، وَلَیْسَ أَحَدٌ قَضَیْتُ لَهُ أَنَّهُ قَصِیرُ الْعُمُرِ وَالْحَیَاةِ بِبَالِغٍ الْعُمُرَ، وَلَكِنْ یَنْتَهِی إِلَى الْكِتَابِ الَّذِی قَدَّرْتُ لَهُ لَا یُزَادُ عَلَیْهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ’’ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں  پاتا اور نہ کسی کی عمر میں  کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں  لکھا ہوتا ہے،اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے۔‘‘ کے بارے میں  روایت ہے جس شخص کے لیے بھی طویل عمراوردرازی حیات کافیصلہ کردیاہوتووہ اس عمرتک ضرورپہنچ کررہتاہےجس کااس کے بارے میں  فیصلہ کیاگیاہوتاہے اورجوفیصلہ کیاگیاہوتاہے وہ اس سے زیادہ عمرنہیں  پاسکتااورجس کے لیے کم عمراورکم زندگی کافیصلہ کردیاگیاہوتاہے وہ جب اس عمرکوپہنچ جاتاہے تواس میں  اضافہ نہیں  ہوسکتاگویااس کاہرقسم کامعاملہ تقدیرکے مطابق ہوتاہے۔ [36]

ماڈرن تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ انسان کاایک ایک خلیہ اپنی نوعیت میں  پوراکمپوٹرہے جس پرانسانی زندگی کاپوراپروگرام درج ہوتاہے ،اس میں  زندگی کی تمام منازل کاذکرہے ،انسان کی ورثہ میں  پائی ہوئی بیماریاں  یہاں  ہوتی ہیں  ، وہ کس قدرذہین ہوگا،اس کی صحت کیسی ہوگی ،قدکس قدرہوگا،اس کی آنکھوں  کارنگ کیساہوگا،وہ غصہ والاہوگا،محبت والاہوگا،ہمدردہوگا،ظالم ہوگا،ہونہارہوگاالغرض انسان کے متعلق سب کچھ اس کے خلیہ خلیہ پرپہلے سے درج ہوتاہے جس کے مطابق انسانی زندگی کاکلاک چلتارہتاہے حتی کہ آخری حکم آجاتاہے جس پرزندگی کی حرکت بند ہو جاتی ہےاورانسان نفس حیات کی بندھن سے آزادہوکرعالم برزخ میں  چلاجاتاہے،

 أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُبْسَطَ لَهُ فِی رِزْقِهِ، وَیُنْسَأَ لَهُ فِی أَثَرِهِ، فَلْیَصِلْ رَحِمَهُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجویہ چاہتاہے کہ اس کارزق فراخ اورعمرطویل ہوتواسے چاہیے کہ اپنے عزیزواقارب سے میل ملاپ رکھے ۔ [37]

اپنی بے شمارمخلوق کے بارے میں  بے شمارمعلومات اورہرایک کے بارے میں  اتنے مفصل احکام اورفیصلے کرنااللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں  ہے،اس کاعلم تو تمام مخلوق کوگھیرے ہوئے ہے،جیسے فرمایا

اِنَّمَآ اِلٰــہُكُمُ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۹۸ [38]

ترجمہ:لوگو، تمہارا الٰہ تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں  ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔

۔۔۔وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [39]

ترجمہ:اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔

اوریہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ،اس کی حکمت اوراس کی بے پایاں  رحمت ہے کہ اللہ نے عالم ارضی کے لئے پانی کے دو ذخیرے تخلیق فرمائے اوران کوایک سانہیں  بنایا،ان میں  ایک باغوں  اورکھیتیوں  کوسیراب کرنے والامیٹھا،پینے میں خوشگواراور پیاس بجھانے والاہے ، جبکہ دوسراسخت کاری کہ حلق چھیل دےتاکہ یہ محفوظ ذخیرہ خراب نہ ہونے پائے، جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ۝۰ۚ وَجَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا۝۵۳ [40]

ترجمہ:اوروہی ہے جس نے دو سمندروں  کوملا رکھا ہے ایک لذیذوشیریں  دوسراتلخ وشور اوردونوں  کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ،ایک روکاوٹ ہے جوانہیں  گڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے۔

مگرپانی کے ان دونوں  متضاد ذخیروں  سے تم آبی جانوروں  کا تروتازہ گوشت حاصل کرتے ہو،جس کامرداربھی حلال ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی مَاءِ الْبَحْرِ:هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحَلَالُ مَیْتَتُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسمندرکاپانی پاک اوراس کامردہ حلال ہے۔ [41]

اورپہننے کے لئے موتی،مونگے اوربعض دریاؤ ں  سے ہیرے اورسونانکالتے ہو، جیسے فرمایا

یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ۝۲۲ۚفَبِاَیِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۲۳ [42]

ترجمہ: ان سمندروں  سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ،پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے ؟۔

اور یہ بھی اللہ کی قدرت کاملہ ہے کہ اس نے پانی کوکشتیوں  کے لئے مسخرفرمایاتاکہ بڑی بڑی کشتیاں  اور جہاز اس میں  رواں  دواں  ہوکر انسان کونقل وحمل کی سہولتیں  بہم پہنچائیں  اور تم اس میں  اللہ کافضل (معاش )تلاش کرواوراس کے شکر گزار بنو۔

یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُولِجُ النَّهَارَ فِی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ یَجْرِی لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا یَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِیرٍ ‎﴿١٣﴾‏ إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا یَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیرٍ ‎﴿١٤﴾‏(فاطر)
’’وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہےاور آفتاب و ماہتاب کو اسی نے کام پر لگا دیا ہے، ہر ایک میعاد معین پر چل رہا ہے، یہی ہے اللہ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے، جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ،اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (با لفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شریک کا صاف انکار کر جائیں گے، آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کی ایک اوردلیل بیان فرمائی کہ وہ دن کورات میں  اوررات کو دن میں داخل کرتاہے،کبھی راتوں  کوبڑاکردیتاہے اورکبھی دن کواورکبھی دونوں  کویکساں  کر دیتاہے ،جس سے بندوں ،حیوانات ،باغات اورکھیتوں  کے مصالح پورے ہوتے ہیں ،کائنات کے نظام کومربوط رکھنے کے لئے اس نے چانداورسورج کو ایک ضابطے کاپابندبنارکھاہے ،اوریہ اپنے اپنے مدار میں  مقررشدہ چال پرتیرتے ہوئے اپنااپنا کام سرانجام دے رہے ہیں اور قیامت تک سرانجام دیتے رہیں  گے،جیسے فرمایا

وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ۭوَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝۳۹لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [43]

ترجمہ:اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے،اور چانداس کے لیے ہم نے منزلیں  مقرر کر دی ہیں  یہاں  تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے ،نہ سورج کے بس میں  یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں  تیر رہے ہیں ۔

اورجب قیامت قائم ہوگی توچاندبے نور کر دیاجائے گا ، جیسے فرمایا

وَخَسَفَ الْقَمَرُ۝۸ۙ [44]

ترجمہ:اور چاند بےنور ہو جائے گا۔

سورج کوروشنی سے محروم کردیاجائے گااور ستارے بکھرجائیں  گے ،جیسے فرمایا

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝۱۠ۙوَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۝۲۠ۙ [45]

ترجمہ:جب سورج لپیٹ دیا جائے گااور جب تارے بکھر جائیں  گے۔

اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ۝۱ۙوَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ۝۲ۙ [46]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گااور جب تارے بکھر جائیں  گے۔

جس کے حکم سے یہ تمام افعال انجام پاتے ہیں  ،جوتمام اقدارکامالک ہے ،کائنات میں  جس کی حاکمیت ہے، وہی رب الٰہ اوروہی مستحق عبادت ہے، اتنی قدرتوں  والے رب کو چھوڑکرتم جن ملائکہ،جن،شیاطین اورفوت شدگان صالحین کو پکارتے ہو وہ تواتنے بے بس ہیں  کہ کھجورکی گھٹلی کے اوپرپتلی سی جھلی کے بھی مالک نہیں  ہیں  ، یعنی آسمان و زمین کی حقیرسے حقیرچیزکے بھی مالک نہیں  ہیں ،اگرتم انہیں  اپنے مصائب وپریشانیوں  میں  پکاروتووہ تمہاری دعائیں  سن ہی نہیں  سکتے اوراگربفرض محال سن لیں  تو ان کے ہاتھ میں  سرے سے کوئی اختیارہی نہیں  ہے ، اس لئے تمہاری التجاؤ ں  کے مطابق فریاد رسی،حاجت برداری نہیں  کرسکتے،اللہ وحدہ لاشریک ہی تمام قدرتوں ،طاقتوں  اور اختیارات کا مالک ہے،اس مالک الملک کو چھوڑکرغیراللہ کو پکارنابے فائدہ اورخود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے اورروزقیامت وہ تمہارے شرک کی صاف تردیدکردیں  گے ،جیسے فرمایا ۔۔۔

وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ۝۲۸فَكَفٰى بِاللهِ شَهِیْدًۢا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۲۹ [47]

ترجمہ:اوران کے شریک کہیں  گے کہ تم ہماری عبادت تونہیں  کرتے تھے ،ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگرہماری عبادت کرتے بھی تھے تو)ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبرتھے۔

وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗٓ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۝۵ [48]

ترجمہ: آخر اس شخص سے زیادہ بہکاہواانسان اورکون ہوگاجواللہ کوچھوڑکران کوپکارے جوقیامت تک اسے جواب نہیں  دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبرہیں  کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں  اورجب تمام انسان جمع کیے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اوران کی عبادت کے منکرہوں  گے۔

 وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا۝۸۱ۙكَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [49]

ترجمہ:ان لوگوں  نے اللہ کوچھوڑکراپنے کچھ الٰہ بنارکھے ہیں  کہ وہ ان کے پشتبان ہوں  گے ،کوئی پشتبان نہ ہوگا،وہ سب ان کی عبادت کاانکارکریں  گے اورالٹے ان کے مخالف بن جائیں  گے۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاۗءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۝۴۰قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ۝۰ۚ بَلْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ۝۰ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ۝۴۱ [50]

ترجمہ:اورجس دن وہ تمام انسانوں  کوجمع کرے گا پھرفرشتوں  سے پوچھے گاکیایہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیاکرتے تھے؟تووہ جواب دیں  گے کہ پاک ہے آپ کی ذات ، ہماراتعلق توآپ سے ہے نہ کہ ان لوگوں  سے،دراصل یہ ہماری نہیں  بلکہ جنوں  کی عبادت کرتے تھے ،ان میں  سے اکثرانہی پرایمان لائے ہوئے تھے۔

الغرض ساری ہی مخلوقات چاہے فرشتے ہوں ،جن ہوں  یا انسان حقیقتاًاللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ،اس لئے ان کے بجائے اللہ کے آگے سربسجودہوکراس کا پکارناچاہیے جودعاؤ ں  کاسننے والا او ر قبول فرمانے والاہے اورجس کے پاس کبھی نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں ،اللہ ہی کامل علم کامالک ہے اوروہی حقیقت حال سے براہ راست باخبرہے اس لئے اس کے سوا کوئی تمہیں  صحیح صورت حال کی خبر نہیں  دے سکتا۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ ‎﴿١٥﴾‏ إِنْ یَشَأْ یُذْهِبْكُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ ‎﴿١٦﴾‏ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِیزٍ ‎﴿١٧﴾‏ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَنْ تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا یَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِیرُ ‎﴿١٨﴾‏(فاطر)
’’ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز اور خوبیوں والا ہے، اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق پیدا کر دے، اور یہ بات اللہ کوکچھ مشکل نہیں ، کوئی بھی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اگر کوئی گراں بار دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے بلائے گا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھائے گا گو قرابت دار ہی ہو، تو صرف انہی کو آگاہ کرسکتا ہے جو غائبانہ طور پر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور جو بھی پاک ہوجائے وہ اپنے نفع کے لیے پاک ہوگا، لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے۔‘‘

معبودان باطلہ کی عاجزی ودرماندگی:

لوگو!زمین کے عام لوگ ہوں یاصالحین،یاجن یافرشتے یاانبیاء ہوں  یاکوئی اورمخلوق سب ہرلحاظ سے اللہ کے درکے محتاج ہیں لیکن اللہ تومحتاج نہیں  ہے ،وہ تواپنی ذات اوراپنے ناموں  میں  قابل حمدوستائش ہے ،وہ اتنابے نیازہے کہ زمین پربسنے والے تمام انسان اس کے نافرمان ہوجائیں  تواس سے اس کی سلطنت میں  کوئی کمی اورسب اس کے اطاعت گزاربن جائیں  تواس سے اس کی قوت میں  کوئی زیادتی نہیں  ہوگی ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ:یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِی أَهْدِكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ جَائِعٌ، إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْكُمْ، یَا عِبَادِی كُلُّكُمْ عَارٍ، إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِی أَكْسُكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا، فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَكُمْ، یَا عِبَادِی إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی، فَتَنْفَعُونِی،

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے بندو! میں  نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں  نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو،اے میرے بندو تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  ہدایت دوں  تم مجھ سے ہدایت مانگو میں  تمہیں  ہدایت دوں  گا،اے میرے بندو تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  کھلاؤں  تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں  تمہیں  کھانا کھلاؤں  گا، اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں  پہناؤں  تو تم مجھ سے لباس مانگو تو میں  تمہیں  لباس پہناؤں  گا، اے میرے بندو تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں  سارے گناہوں  کو بخشتا ہوں  تو تم مجھ سے بخشش مانگو میں  تمہیں  بخش دوں  گا ، اے میرے بندو تم مجھے ہرگز نقصان نہیں  پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو،

یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِی مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِی شَیْئًا، یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِی إِلَّا كَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، یَا عِبَادِی إِنَّمَا هِیَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِیهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّیكُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا، فَلْیَحْمَدِ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِكَ، فَلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ قَالَ سَعِیدٌ: كَانَ أَبُو إِدْرِیسَ الْخَوْلَانِیُّ، إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِیثِ، جَثَا عَلَى رُكْبَتَیْهِ.

اے میرے بندو اگر تم سب اولین و آخرین اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں  کچھ بھی اضافہ نہیں  کر سکتے، اور اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں  کچھ کمی نہیں  کر سکتے، اے میرے بندو اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں  کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں  ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں  تو پھر بھی میرے خزانوں  میں  اس قدر بھی کمی نہیں  ہوگی جتنی کہ سمندر میں  سوئی ڈال کر نکالنے سے،اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں  کہ جنہیں  میں  تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں  پھر میں  تمہیں  ان کا پورا پورا بدلہ دوں  گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے،سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تھے تو اپنے گھٹنوں  کے بل جھک جاتے تھے۔ [51]

وہ چاہے توتمہیں  تمہارے کلمہ حق کی تکذیب،مکروفریب اوربداعمالیوں  کے سبب ایک اشارے سے فناکے گھاٹ اتاردے اورتمہاری جگہ ایک نئی مخلوق پیداکردے جوتم سے زیادہ اس کے اطاعت گزارہوں اورایک نیا عالم پیداکردے جس سے تم ناآشناہو ایساکرنااللہ کے لئے کچھ بھی دشوارنہیں  ہے ،کوئی چیزاللہ کے قبضہ قدرت سے باہرنہیں  اورکوئی ہستی اسے عاجزنہیں  کرسکتی،جیسے فرمایا

وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۡوَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ۝۲۲ۧ [52]

ترجمہ:تم نہ زمین میں  عاجز کرنے والے ہو نہ آسمان میں ، اور اللہ سے بچانے والا کوئی سرپرست اور مددگار تمہارے لیے نہیں  ہے۔

لہذااپنی اوقات پہچانواوران قوموں  کی روش اختیارنہ کروجن کوحق کی تکذیب کے سبب صفحہ ہستی سے نابودکردیاگیا، مکہ میں  جولوگ دائرہ اسلام میں  داخل ہورہے تھے انہیں جھانسہ دینے کے لئے ان کے مشرک رشتہ داراوربرادری کے لوگ کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کوچھوڑدواوراپنے آبائی دین پرقائم رہوتمہاراعذاب ثواب ہماری گردن پرہوگا،اس کے علاوہ مشرکین کایہ بھی عقیدہ تھاکہ روزآخرت اللہ تعالیٰ کے حضورہمارے معبودہماری سفارش کریں  گے اورہماری غلطیوں  کابوجھ اپنے سر لے لیں  گے ،جیساکہ عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں  اوردورحاضرکے بعض نام نہادمسلمانوں  کابھی یہی عقیدہ ہے ، اس کے ردمیں  اللہ رب العزت نے فرمایاہرشخص اپنے عمل کا خود ذمہ دارہے، روزآخرت کوئی گنہگار کسی دوسرے گنہگارکابوجھ نہ اٹھائے گا البتہ جس نے دوسروں  کوگمراہ کیا ہو گا وہ اپنے گناہوں  کے ساتھ ان کے گناہوں  کابوجھ بھی اٹھائے گا، جیسے فرمایا

وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ۔۔۔۝۰۝۱۳ۧ [53]

ترجمہ:ہاں  ضروروہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں  گے اوراپنے بوجھوں  کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی ۔

اور اگرکوئی گنہگار انسان اپنابوجھ اٹھانے کے لئے اپنے ماں  ،باپ، بیٹے اورقریب ترین رشتہ داروں  کو التماس کرے گامگرکوئی بھی اس کے گناہوں  کاایک ادنیٰ حصہ بھی اٹھانے کے لئے آمادہ نہیں  ہو گا،سب کواپنی نجات کی فکر پڑی ہوگی ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ۝۰ۡوَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَجَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَـیْـــــًٔا۔۔۔۝۰۝۳۳ [54]

ترجمہ: لوگوبچو اپنے رب کے غضب سے اورڈرواس دن سے جب کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گااورنہ کوئی بیٹاہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والاہوگا۔

اور فرمان ہے

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭ [55]

ترجمہ:اس روزآدمی اپنے بھائی اوراپنی ماں  اوراپنے باپ اوراپنی بیوی اوراپنی اولادسے بھاگے گا۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تمہارے انذار وتبلیغ کا فائدہ انہی لوگوں  کوہوسکتاہے جو صاحب فراست ہوں  اوربے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، اورنمازکواپنے وقت پراس کی تمام حدودوشرائط،ارکان وواجبات اورپورے خشوع وخضوع کے ساتھ قائم کرتے ہیں  ، جیسےفرمایا

اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىهَا۝۴۵ۭ [56]

ترجمہ:آپ صرف خبردار کرنے والے ہیں  ہر اس شخص کو جو اس کاخوف کرے ۔

ایک مقام پر فرمایا

 اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّـبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ۔۔۔۝۰۝۱۱ [57]

ترجمہ:تم تواسی شخص کوخبردارکرسکتے ہوجو نصیحت کی پیروی کرے اوربے دیکھے اللہ رحمان سے ڈرے۔

جوشخص بھی شرک وفواحش،ریا،تکبر،جھوٹ،دھوکہ،مکروفریب،نفاق اوردیگراخلاق رذیلہ کی آلودگیوں  سے پاک ہوناچاہتاہے تواس کے تزکہ نفس کافائدہ اسی کو حاصل ہوگا ،جیسے فرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۝۰ۭ وَمَآ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍ۝۱۰۸ۭ [58]

ترجمہ:اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو کہ لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے اور میں  تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں  ہوں  ۔

مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا یَہْــتَدِیْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا۝۰ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔۔۝۱۵ [59]

ترجمہ:جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہے،کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۝۶ [60]

ترجمہ:جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا اللہ یقینا دنیا جہان والوں  سے بےنیاز ہے۔

اورایک وقت مقررہ پراعمال کی جزاکے لئے سب کواللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے۔

وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِیرُ ‎﴿١٩﴾‏ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ‎﴿٢٠﴾‏ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ‎﴿٢١﴾‏ وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُسْمِعُ مَنْ یَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُورِ ‎﴿٢٢﴾‏ إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِیرٌ ‎﴿٢٣﴾‏ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا ۚ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِیهَا نَذِیرٌ ‎﴿٢٤﴾‏ وَإِنْ یُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِیرِ ‎﴿٢٥﴾‏ ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِینَ كَفَرُوا ۖ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیرِ ‎﴿٢٦﴾‏(فاطر)
’’اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اور نہ تاریکی نہ روشنی اور نہ چھاؤں نہ دھوپ اور زندہ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ، آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں ،ہم نے ہی آپ کو حق دے کر خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےاور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو،اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں انہوں نے بھی جھٹلایا تھا، ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر معجزے اور صحیفے اور روشن کتابیں لے کر آئے تھے، پھر میں نے ان کافروں کو پکڑ لیا سو میرا عذاب کیسا ہوا۔‘‘

ایک عادلانہ موازنہ :

کافرجوکلمہ حق کی تکذیب کرتااورغیراللہ کی عبادت کرتاہے اورمومن جوحق پرایمان لاتاہے اوراطاعت الٰہی کرتاہے دونوں  ایک جیسے نہیں  ہیں ، باطل کا گھوراندھیرا اورحق کی تیز روشنی بھی یکساں  نہیں  ہیں ، ٹھنڈی پرسکون چھاؤ ں  اور جھلساتی ہوئی دھوپ ایک جیسی نہیں  ہے ، زندہ انسان اورمردے مساوی نہیں  ہیں ،اللہ کی رحمت کاسایہ پاکرجنت میں  جانے والااوراپنی بداعمالیوں  کے سبب ودوزخ میں  داخل ہونے والے بھی ایک جیسے نہیں  ہے، اور علمائجوحق کا علم رکھتے ہیں  اورہٹ دھرم کفارجنہیں  حق سے کوئی واسطہ نہیں  مساوی نہیں  بلکہ ان سب میں  زمین وآسمان کاسافرق ہے ،جیسے فرمایا

اَوَمَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۔۔۔ ۝۱۲۲ [61]

ترجمہ:کیاوہ شخص جوپہلے مردہ تھاپھرہم نے اسے زندگی بخشی اوراس کووہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں  وہ لوگوں  کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتاہے اس شخص کی طرح ہوسکتاہے جوتاریکیوں  میں  پڑاہواہواورکسی طرح ان سے نہ نکلتاہو؟۔

مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ۝۰ۭ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۲۴ۧ [62]

ترجمہ:ان دونوں  فریقوں  کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرااوردوسراہودیکھنے اورسننے والا ، کیایہ دونوں  یکساں  ہوسکتے ہیں ؟کیاتم(اس مثال سے)کوئی سبق نہیں  لیتے؟۔

اللہ اپنی مشیت وحکمت سے جسے راہ راست سے نوازنا چاہتاہے اسے حجت ودلیل سننے اوراسے قبول کرنے کی توفیق نصیب فرمادیتاہے، جس طرح قبروں  میں مدفون اشخاص کوکوئی بات نہیں  سنائی جاسکتی اس طرح جن کے دلوں  کوکفروشرک نے موت سے ہمکنارکردیا ہے ، جن کے سینے ضمیرکے مدفن بن چکے ہوں ،جوصدائے حق سنناہی نہ چاہتے ہوں  ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم انہیں  حق کی بات نہیں  سنا سکتے ،تم انہی لوگوں  کوسناسکتے ہوجومعقول بات پرکان دھرنے کے لئے تیارہوں ،جیسے فرمایا

اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّـبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ۝۰ۚ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَةٍ وَّاَجْرٍ كَرِیْمٍ۝۱۱ [63]

ترجمہ:تم تو اسی شخص کو خبردار کر سکتے ہی جو نصیحت کی پیروی کرے اور بےدیکھے خدائے رحمان سے ڈرےاسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو۔

تمہاراکام صرف دعوت حق کی تبلیغ ہے اگرکوئی دعوت حق کوقبول نہیں  کرتاتواس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ،کسی کوہدایت سے سرفرازکرنا اورکسی کوضلالت میں  غرق کردینا اللہ کی حکمت ومشیت کے تابع ہے ،ہم نے تم کومجرد حق کے ساتھ بھیجاہے،جوحق کااتباع کریں  انہیں  دنیاوی اوراخروی ثواب کی بشارت دینے والا اور جو نافرمانی کریں ان کے لئے دنیاوی اوراخروی عذاب سے ڈرانے والابناکربھیجاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۱۸۸ۧ [64]

ترجمہ:میں  تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں  ان لوگوں  کے لیے جو میری بات مانیں ۔

اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کوئی نئے رسول تو نہیں  ہیں  ، آپ سے پہلے بھی کوئی امت ایسی نہیں  گزری ہے جس میں  اتمام حجت کے لئے ہم نے کوئی ڈرانے والا مبعوث نہ کیاگیاہو تاکہ روزجزاکوئی قوم یہ نہ کہہ سکے کہ ہمارے پاس کوئی پیغمبر نہیں  آیاتھااس لئے ہمیں  تو ایمان وکفرکاعلم ہی نہ تھا، جیسے فرمایا

۔۔۔ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۝۷ۧ [65]

ترجمہ: اور ہرقوم کے لئے ایک رہنماہے ۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَى اللہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَةُ ۔ ۔ ۔ ۝۳۶ [66]

ترجمہ:ہم نے ہر امت میں  ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ،اس کے بعد ان میں  سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی ۔

وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ۝۲۰۸ۤۖۛ [67]

ترجمہ:ہم نے کبھی کسی بستی کواس کے بغیرہلاک نہیں  کیاکہ اس کے لئے خبردارکرنے والے حق نصیحت اداکرنے کوموجودتھے ۔

اب اگریہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں  توان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی پیغمبروں  کی تکذیب کر چکے ہیں ،ان کے پاس ان کے رسول اپنی رسالت کے واضح دلائل اور نصائح اوراخلاقی ہدایات پرمشتمل صحیفے اورپوری شریعت والی کتاب لے کر آئے تھے،جیسے فرمایا

وَمَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝۱۱ [68]

ترجمہ: اے نبی!ہم تم سے پہلے بہت سی گزری ہوئی قوموں  میں  رسول بھیج چکے ہیں  کبھی ایسا نہیں  ہواکہ ان کے پاس کوئی رسول آیاہواورانہوں  نے اس کامذاق نہ اڑایاہو۔

پھرجن لوگوں  نے حق کی اتباع نہ کی اورطاغوت کی بندگی کرتے رہے ،توہم نے انہیں  تدبروتفکرکے لئے ایک لمبی مہلت دی،جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اورگناہوں  پراصرارکرتے رہے توپھر ہم نے ان پرمختلف انواع کے عذاب نازل کیے اور انہیں  صفحہ ہستی سے مٹادیا ،پھرنہ ان کامال و دولت ،نہ طاقت وقوت ،نہ بڑے لشکر،نہ سنگی مضبوط مکانات اورنہ ہی ان کے معبودان کے کچھ کام آسکے،اوروہ نشان عبرت بن کررہ گئے،اس لئے رسول کی تکذیب سے بچو ورنہ تم پربھی ایسا رسواکن عذاب نازل ہوسکتاہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ ‎﴿٢٧﴾‏ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ غَفُورٌ ‎﴿٢٨﴾(فاطر)
’’ کیا آپ نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے اور پہاڑوں کے مختلف حصے ہیں سفید اور سرخ کہ ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاہ، اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں ان کی رنگتیں مختلف ہیں ، اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں ، واقعی اللہ تعالیٰ زبردست بڑا بخشنے والا ہے ۔‘‘

کائنات میں  یک رنگی ویکسانی نہیں  ہے:

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اورحکمت تامہ کی طرف اشارہ کیاکہ کیاتم دیکھتے نہیں  ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتاہے اورپھراسی ایک پانی سے ہم زمین سے انواع و اقسام کے پھل مثلاًانگور،کھجور،انار،زیتون وغیرہ نکال لاتے ہیں  جن کے رنگ،جسامت ،ذائقے اورخوشبو مختلف ہوتے ہیں ، جیسے فرمایا

وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ۝۰ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۴ [69]

ترجمہ:اور دیکھوزمین میں  الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں  جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں  ،انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں  ہیں ، کھجور کے درخت ہیں  جن میں  کچھ اکہرے ہیں  اور کچھ دوہرے ،سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں  ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں  اور کسی کو کمتر ،ان سب چیزوں  میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لے جو عقل سے کام لیتے ہیں  ۔

بلند و بالا ٹھوس پہاڑوں  کے رنگ بھی سفید،سرخ اورگہری سیاہ دھاریاں  والے ہوتے ہیں  اوراسی طرح جانداروں  میں  ،سمندری مخلوق میں ،مختلف علاقوں  میں  رہنے والے انسانوں  ،جانوروں  اور مویشیوں  کے رنگ،اوصاف اورآوازیں  بھی مختلف ہیں ،جیسے بربر(مراکش،الجزائراورتیونس کے باشندے) حبشی (سوڈان کی ایک نسل) ،طماطم (سسلی کے باشندے جوبالکل سیاہ فام ہوتے ہیں )،صقالبہ( روم،قسطنطنیہ کے شمالی پہاڑی علاقوں  اوربلادخزر(جنوبی روس)کے مغرب میں  آبادقوم یوکرینی، رومانی، بلغاری اورسرب وغیرہ )اوررومی بالکل سفیدرنگ کے ہیں  ،عرب ان دونوں  کے درمیان ہیں  جبکہ ہندی ان سے بھی کم سفیدہیں ،جیسے فرمایا

وَمِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّــلْعٰلِمِیْنَ۝۲۲ [70]

ترجمہ:اوراس کی نشانیوں  میں  سے آسمانوں  اورزمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں  اور تمہارے رنگوں  کااختلاف ہے ،یقینا ًاس میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  دانشمندلوگوں  کے لئے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں  میں  سے صرف کتاب وسنت کا علم رکھنے والے لوگ ہی اللہ کی ان قدرتوں  اور اس کے کمال صناعی کوجان اورسمجھ سکتے ہیں ،اورجتنی انہیں  رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اتناہی وہ رب کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۝۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ۝۸ۧ [71]

ترجمہ:اللہ ان سے راضی ہوااوروہ اللہ سے راضی ہوئے ،یہ کچھ ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے رب کاخوف کیاہو۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللهُ، عَنْهُ قَالَ: لَیْسَ الْعِلْمُ مِنْ كَثْرَةِ الْحَدِیثِ، وَلَكِنَّ الْعِلْمَ مِنَ الْخَشْیَةِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایاعلم کثرت حدیث کی بناپرنہیں  بلکہ اللہ کے خوف کے کثرت کے لحاظ سے ہے۔ [72]

عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ رَضِیَ اللهُ، عَنْهُ قَالَ: إِنَّ الْعِلْمَ لَیْسَ بِكَثْرَةِ الرِّوَایَةِ إِنَّمَا الْعِلْمُ نُورٌ یَقْذِفُهُ اللهُ فِی الْقَلْبِ

اورامام مالک رحمہ اللہ کاقول ہے علم کثرت روایات پرنہیں  بلکہ علم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں  کتنانورپیدافرمایا۔ [73]

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: الْعَالِمُ مَن خَشِیَ الرَّحْمَنَ بِالْغَیْبِ، وَرَغِبَ فِیمَا رَغِبَ اللهُ فِیهِ، وَزَهِدَ فِیمَا سَخط اللهُ فِیهِ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں عالم وہ ہے جو اللہ سے بے دیکھے ڈرے ،جوکچھ اللہ کوپسندہے اس کی طرف وہ راغب ہواورجس چیزسے اللہ ناراض ہے اس سے وہ کوئی دلچسپی نہ رکھے۔ [74]

قَالَ:كَانَ یُقَالُ:الْعُلَمَاءُ ثَلاثَةٌ عَالِمٌ بِاللَّهِ، وَعَالِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، وَعَالِمٌ بِاللَّهِ لَیْسَ بِعَالِمٍ بِأَمْرِ اللَّهِ، وَعَالِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ لَیْسَ بِعَالِمٍ بِاللَّهِ، فَالْعَالِمُ بِاللَّهِ وَبِأَمْرِ اللَّهِ الَّذِی یَخْشَى اللَّهَ وَیَعْلَمُ الْحُدُودَ وَالْفَرَائِضَ، وَالْعَالِمُ بِاللَّهِ لَیْسَ بِعَالِمٍ بِأَمْرِ اللَّهِ: الَّذِی یَخْشَى اللَّهَ ولا یعلم الحدود: لا الْفَرَائِضَ وَالْعَالِمُ بِأَمْرِ اللَّهِ لَیْسَ بِعَالِمٍ بِاللَّهِ: الَّذِی یَعْلَمُ الْحُدُودَ وَالْفَرَائِضَ وَلا یَخْشَى اللَّهَ . عَزَّ وَجَلَّ

سفیان ثوری فرماتے ہیں  علماکی تین قسمیں  ہیں  عالم باللہ بھی ہواورعالم بامراللہ بھی، عالم باللہ توہومگرعالم بامراللہ نہ ہو،اورعالم بامراللہ توہومگرعالم باللہ نہ ہو،عالم باللہ اورعالم بامراللہ سے مراد وہ عالم ہے جواللہ سے ڈرتااوراس کے حدودوفرائض کوجانتاہو،جو عالم باللہ توہومگرعالم بامراللہ نہ ہوتواس سے مرادوہ ہےجواللہ سے توڈرتاہے لیکن اس کے حدودوفرائض سے بے علم ہے، ا ورجوعالم بامراللہ توہومگرعالم باللہ نہ ہوتواس سے مرادوہ عالم ہےجوحدودوفرائض سے باخبرہو لیکن خشیت الٰہی سے عاری ہو۔ [75]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ البَاهِلِیِّ، قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلاَنِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِی عَلَى أَدْنَاكُمْ. ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِینَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِی جُحْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَیُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَیْرَ.

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوآدمیوں  کاذکرکیاگیاایک عابداوردوسراعالم،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعالم(اس سے مرادعلوم شرعیہ کاوہ عالم جوفرائض کی پابندی کرنے والاہو) کی عابد(اس سے مرادوہ عبادت گزارہے جوضروری علوم شرعیہ سے آگاہ ہو)پرفضیلت تم میں  سے سب سے کم مرتبہ والے شخص پرمیری فضیلت کی مانندہے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًاللہ تعالیٰ اس کے فرشتے آسمانوں  اورزمینوں  والے یہاں  تک کہ چیونٹی اپنے بل میں  اورمچھلی لوگوں  کوخیرکی بات سکھلانے والے پردرودبھیجتے ہیں ۔ [76]

بے شک اللہ زبردست اوربندوں  کی لغزشوں  کودرگزرفرمانے والا ہے۔

إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً یَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ ‎﴿٢٩﴾‏ لِیُوَفِّیَهُمْ أُجُورَهُمْ وَیَزِیدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ‎﴿٣٠﴾‏(فاطر)
’’جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی ،تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے زیادہ دے ،بیشک وہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے، اور یہ کتاب جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے طور پر بھیجی ہے یہ بالکل ٹھیک ہے جو کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘

جولوگ پابندی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کااہتمام کرتے ،اس کے معانی میں  غوروحوض کرتے اوراس میں  جواحکامات دیئے گئے ہیں  اس کی اطاعت کرتے ہیں  اوروقت کی پابندی اورخضوع وخشوع کے ساتھ دعوی اسلام کی صداقت کی علامت نمازقائم کرتے ہیں  اورجوکچھ ہم نے انہیں  رزق حلال دیا ہے اس میں  سے حسب ضرورت دن رات علانیہ اورپوشیدہ عزیزو اقارب،مساکین ،یتیموں  ،بیواؤ ں  اورضرورت مندوں  پر خرچ کرتے ہیں ،ایسے لوگوں  کااجراللہ کے ہاں  یقینی ہے ،جس میں  مندے اورکساد کا کوئی امکان نہیں ،اللہ کے مخلص بندے یہ نیک اعمال اس لئے کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اجروثواب پورے کے پورے ان کودے اورمزیداپنے فضل سے ان کو بڑھا چڑھا کر عطاکرے، اگرکوئی خلوص نیت سے گناہوں  سے توبہ کرتا اورراہ راست اختیارکرتاہے تو اللہ اس کی خطاؤ ں  پرچشم پوشی کرتا اورجوچھوٹے سے چھوٹے نیک عمل وہ کرتا ہے اس کی قدر فرماتاہے ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ قرآن جو ہم نے بذریعہ وحی تم پرنازل کیاہے وہ سراسرحق ہے اور تیرے لئے اورتیری امت کے لئے اس پرعمل کرنا ضروری ہے ، اور یہ کتاب کوئی نرالی دعوت پیش نہیں  کررہی بلکہ اس میں  بھی وہی تعلیمات ہیں  جوپچھلی کتابوں  میں  پیش کی گئیں  تھیں ،بیشک اللہ اپنے بندوں  کے حال سے باخبر ہے ،وہ جانتاہے پچھلی کتابیں  تحریف وتغیرکاشکارہوگئیں  اوراب ہدایت کے قابل نہیں  رہی تھیں  اس لئے اس نے تمام دنیاکے انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے یہ کلام نازل کیا ہے،بیشک اللہ ہرچیزپرنگاہ رکھنے والاہے۔

وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِیرٌ بَصِیرٌ ‎﴿٣١﴾‏ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیرُ ‎﴿٣٢﴾‏ جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَهَا یُحَلَّوْنَ فِیهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِیهَا حَرِیرٌ ‎﴿٣٣﴾‏ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ‎﴿٣٤﴾‏ الَّذِی أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ لَا یَمَسُّنَا فِیهَا نَصَبٌ وَلَا یَمَسُّنَا فِیهَا لُغُوبٌ ‎﴿٣٥﴾‏(فاطر)
’’پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں پسند فرمایا، پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعضے ان میں متوسط درجے کے ہیں اور بعضے ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کئے چلے جاتے ہیں ، یہ بڑا فضل ہے، وہ باغات میں ہمیشہ رہنے کے جن میں یہ لوگ داخل ہوں گےسونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے،اور پوشاک ان کی وہاں ریشم کی ہوگی، اور کہیں گے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کیا، بیشک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا بڑا قدردان ہے، جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے کے مقام میں لا اتاراجہاں نہ ہم کو کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہم کو کوئی خستگی پہنچے گی۔‘‘

پھرہم نے امت محمدیہ کو قرآن مجید کاوارث بنادیاجنہیں  ہم نے وراثت کے لئے پوری نوح انسانی سے چھانٹ لیا،جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا۔۔۔۝۱۴۳ [77]

ترجمہ:اوراسی طرح توہم نے تم مسلمانوں  کوایک امت وسط بنایاہے تاکہ تم دنیاکے لوگوں  پرگواہ ہواوررسول تم پرگواہ ہو۔

امت محمدیہ تین طبقوں  میں  تقسیم ہے۔

xاپنے نفس پرظلم کرنے والے :یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  میں  ایمان ہے ،وہ اللہ پراوراللہ کے رسول کی نبوت پرایمان رکھتے ہیں  لیکن فرائض میں  کوتاہی اوربعض محرمات کا ارتکاب کرلیتے ہیں  ، یا بعض کے نزدیک صغائرکا ارتکاب کرتے ہیں ۔

xبیچ کی راہ :یہ وہ لوگ ہیں  جودین کاجذبہ رکھتے ہیں اورملے جلے عمل کرتے ہیں یابعض کے نزدیک فرائض کے پابند،محرمات کے تارک توہیں  لیکن کبھی مستحبات کا ترک اوربعض محرمات کا ارتکاب بھی ان سے ہوجاتاہے یاوہ ہیں  جونیک توہیں  لیکن نیکیوں  پیش پیش نہیں ۔

xنیکیوں  میں  سبقت کرنے والے :تیسرے وہ ہیں  جودین کے معاملے میں  پچھلے دونوں  سے سبقت کرنے والے ہیں ۔

نیکیوں  میں  سبقت کرنایااس جلیل القدرکتاب کا وارث ہونااوراس وراثت کے لئے چن لیاجانا بہت بڑاشرف وفضل ہے جس کے سامنے تمام نعمتیں  ہیچ ہیں ،چنانچہ تینوں  گروہ یعنی سابقین بغیرحساب کتاب کے اورمقتصدین آسان حساب کے بعداورظالمین شفاعت سے یاسزابھگتنے کے بعد لازوال نعمتوں  سے بھری ،عالی شان محلات اورآراستہ کیے ہوئے گھروں  پرمشتمل جنتوں  میں  داخل ہوں  گے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ} [78] إِلَى قَوْلِهِ: {الْفَضْلُ الْكَبِیرُ} [79] «هُمْ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَرَّثَهُمُ اللَّهُ كُلَّ كِتَابٍ أَنْزَلَهُ، فَظَالِمُهُمْ یُغْفَرُ لَهُ، وَمُقْتَصَدُهُمْ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا، وَسَابِقُهُمْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاکی تفسیرمیں روایت ہےاس سے امت محمدیہ کے لوگ مراد ہیں  اللہ تعالیٰ نے انہیں  ہراس کتاب کاوارث بنادیاہے جسے اس نے نازل فرمایا توان میں  سے جوظالم ہے اسے بخش دیاجائے گا،میانہ روسے آسان حساب لیاجائے گااورسبقت کرنے والوں  کوحساب کے بغیر جنت میں  داخل کردیاجائے گا۔ [80]

ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ ذَاتَ یَوْمٍ:شَفَاعَتِی لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِی، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: السَّابِقُ بِالْخَیْرَاتِ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ، وَالْمُقْتَصِدُ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اللهِ، وَالظَّالِمُ لِنَفْسِهِ وَأَصْحَابُ الْأَعْرَافِ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری شفاعت میری امت کے اہل کبائرکے لیے ہوگی،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایانیکیوں  میں  سبقت کرنے والے بغیرحساب جنت میں  داخل ہوں  گے، اوردرمیانہ رواللہ کی رحمت کے ساتھ جنت میں  داخل ہوں  گے،اوراپنے آپ پرظلم کرنے والے اوراصحاب اعراف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے ساتھ جنت میں  داخل ہوں  گے۔ [81]

ان برگزیدہ مردوں وعورتوں  کووہاں  سونے کے کنگنوں  اور موتیوں  سے آراستہ کیاجائے گا،

عَنْ أَبِی حَازِمٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَهُوَ یَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ فَكَانَ یَمُدُّ یَدَهُ حَتَّى تَبْلُغَ إِبْطَهُ فَقُلْتُ لَهُ: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ مَا هَذَا الْوُضُوءُ؟ فَقَالَ: یَا بَنِی فَرُّوخَ أَنْتُمْ هَاهُنَا؟ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ هَاهُنَا مَا تَوَضَّأْتُ هَذَا الْوُضُوءَ، سَمِعْتُ خَلِیلِی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:تَبْلُغُ الْحِلْیَةُ مِنَ الْمُؤْمِنِ، حَیْثُ یَبْلُغُ الْوَضُوءُ

ابی حازم سے مروی ہے میں  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھاوہ نمازکے لیے وضوکررہے تھے،وہ بازودھورہے تھے حتی کہ بغلوں  تک پہنچ گئے،میں  نے کہااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !یہ کیسا وضوہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہااے فروخ کی نسل!(فروخ ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کانام ہے جس کی اولادمیں  عجم کے لوگ ہیں  ، ابوحازم بھی عجمی تھے)تم یہاں  موجودہواگرمیں  جانتاکہ تم یہاں  ہوتومیں  اس طرح وضونہ کرتا،میں  نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے قیامت کے دن مومن کا زیوروہاں  تک پہنچے گاجہاں  تک وضوکاپانی پہنچے گا۔ [82]

وہاں  ان کالباس باریک اور موٹا سبز ریشم ہوگا،اللہ تعالیٰ نےدنیامیں  مردوں  کے لیے ریشم کوممنوع قراردیاہے مگرآخرت میں  انہیں  ریشم کالباس پہنایا جائے گا،

عُمَرَ، یَقُولُ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَبِسَ الحَرِیرَ فِی الدُّنْیَا لَمْ یَلْبَسْهُ فِی الآخِرَةِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاریشم اوردیباج دنیامیں  مت پہنو،اس لئے کہ جو اسے دنیامیں  پہنے گاوہ اسے آخرت میں  نہیں  پہن سکے گا۔ [83]

اورجب ان پرنعمتوں  کااتمام اورلذتوں  کی تکمیل ہوجائے گی تووہ کہیں  گے کہ اللہ کا شکرہے جس نے ہم سے عقبیٰ میں  اپنے انجام کی فکرسے آزاد کر دیا اور جس نے ہمارے قصورمعاف فرمادیے اورجوتھوڑے بہت عمل ہم نے کیے تھے اس کی قدردانی فرمائی اور ان کے بدلہ میں  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنتوں  میں  داخل فرما دیا ،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَنْ یُدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الجَنَّةَ قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لاَ، وَلاَ أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّهُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَلاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُكُمُ المَوْتَ: إِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّهُ أَنْ یَزْدَادَ خَیْرًا، وَإِمَّا مُسِیئًا فَلَعَلَّهُ أَنْ یَسْتَعْتِبَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے تم میں  سے کسی کوبھی اس کاعمل جنت میں  ہرگزداخل نہیں  کرسکے گا،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ (کاعمل) بھی (آپ کوجنت میں  داخل)نہیں (کرسکے گا؟)فرمایامیں  بھی نہیں  الایہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اوراپنے فضل کے ساتھ مجھے ڈھانپ لے ،اس لیے(عمل میں )میانہ روی اختیارکرواورقریب قریب چلواورتم میں  کوئی شخص موت کی تمنانہ کرےکیونکہ یاوہ نیک ہوگاتوامیدہے کہ اس کے اعمال میں  اضافہ ہوجائےاور اگر وہ براہے توممکن ہے وہ توبہ ہی کرلے۔ [84]

اب یہاں  ہمیں  کوئی پرمشقت کام نہیں  کرناپڑتاجس سے ہمیں  تھکان لاحق ہوتی ہو،اوراللہ تعالیٰ جنتیوں  سے فرمائے گا

كُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِیْۗـــــًٔــــۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ۝۲۴ [85]

ترجمہ: (ایسے لوگوں  سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں  میں  کیے ہیں  ۔

وَالَّذِینَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا یُقْضَىٰ عَلَیْهِمْ فَیَمُوتُوا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِی كُلَّ كَفُورٍ ‎﴿٣٦﴾‏ وَهُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا یَتَذَكَّرُ فِیهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِیرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ نَصِیرٍ ‎﴿٣٧﴾(فاطر)
’’اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا، ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ،اور وہ لوگ جو اس طرح چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، (اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزہ چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔‘‘

سعادت مندبندوں  کے حال کے بعدبدبخت لوگوں  کاحال بیان فرمایااورجن لوگوں  نے اللہ تعالیٰ !اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان پرنازل کردہ کلام اوراپنے رب کی ملاقات کا انکارکیا ہے ان کے لئے جہنم کاہولناک عذاب ہے،جس میں  نہ وہ مریں  گے اورنہ ہی ان کے عذاب میں  کوئی کمی کی جائے گی،اس حالت میں  نہ اسے موت آئے گی کہ آرام پالیں  اورنہ وہ جیتا ہی رہے گاجیسے فرمایا

 ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [86]

ترجمہ: پھر نہ اس میں  مرے گانہ جیے گا۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِینَ هُمْ أَهْلُهَا، فَإِنَّهُمْ لَا یَمُوتُونَ فِیهَا وَلَا یَحْیَوْنَ وَلَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ – أَوْ قَالَ بِخَطَایَاهُمْ – فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا كَانُوا فَحْمًا أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ ، فَجِیءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَفَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ ثُمَّ قِیلَ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، أَفِیضُوا عَلَیْهِمْ،فَیَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِی حَمِیلِ السَّیْلِ،فَقَالَ: رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، كَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ بِالْبَادِیَةِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ لوگ جوابدی جہنمی ہیں  وہ نہ تومریں  گے نہ جئیں  گے،لیکن کچھ لوگ جوگناہوں  کی وجہ سے دوزخ میں  جائیں  گے آگ ان کومارکرکوئلہ بنادے گی،پھرشفاعت کی اجازت ہوگی اورلوگ گروہ درگروہ لائے جائیں  گے اورانہیں  جنت کی نہروں  پرپھیلادیاجائے گااورحکم ہوگااے جنت کے لوگو!ان پرپانی ڈالو،تب وہ اس طرح جی اٹھیں  گے جیسے دانہ اس مٹی میں  اگتاہے جس کوپانی بہاکرلاتاہے،ایک شخص بولامعلوم ہوتاہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جنگل میں  رہے ہیں (جب ہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہے کہ بہاؤ میں  جومٹی جمع ہوتی ہے اس میں  دانہ خوب اگتاہے)۔ [87]

اوراہل جہنم پرجہنم کی آگ کودھیمانہیں  ہونے دیاجائے گا۔

۔۔۔مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ۝۰ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا۝۹۷ [88]

ترجمہ: ان کا ٹھکانا جہنم ہےجب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑ کا دیں  گے۔

بلکہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں  کے عذاب میں  اضافہ ہی کرتارہے گا،

 فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا۝۳۰ۧ [89]

ترجمہ: اب چکھومزہ ہم تمہارے لئے عذاب کے سواکسی چیزمیں  ہرگز اضافہ نہ کریں  گے۔

اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۷۴ۚۖلَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ۝۷۵ۚ [90]

ترجمہ:رہے مجرمین،تووہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں  مبتلارہیں  گے کبھی ان کے عذاب میں  کمی نہ ہوگی اور وہ اس میں  مایوس پڑے ہوں  گے ۔

یعنی ہروقت اورہرآن ان کے عذاب میں  دائمی شدت رہے گی،وہ شدید عذاب سے گھبراکر دروغہ جہنم سے التجا کریں  گے کہ تم ہی اللہ سے دعاکروکہ وہ ہمیں  موت دے دےلیکن وہ کورا سا جواب دے دیں  گے ،جیسے فرمایا

وَنَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ۝۰ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ۝۷۷لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ۝۷۸ [91]

ترجمہ:وہ پکاریں  گے اے مالک!تیرارب ہماراکام ہی تمام کردے تواچھاہے ،وہ جواب دے گاتم یوں  ہی پڑے رہوگے ہم تمہارے پاس حق لے کرآئے تھے مگرتم میں  سے اکثرکوحق ہی ناگوارتھا۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔ یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَیَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَــنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۝۴۰ۧ [92]

ترجمہ :جس آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گاجواس کے ہاتھوں  نے آگے بھیجاہے اورکافرپکاراٹھے گاکاش میں  خاک ہوتا۔

جوشخص حق کی اطاعت کے بجائے تکذیب کرتاہے ہم اس طرح اسے بدلہ دیتے ہیں  ،وہ جہنم میں  اپنے گناہوں  کااعتراف کرتے ہوئے چیخ چیخ کرکہیں  گے کہ اے ہمارے رب!ہمیں  اس دردناک عذاب سے نکال لے اوردنیامیں  واپس جانے کاایک اورموقع دے دے اب ہم غیر اللہ کے بجائے تیری عبادت اورمعصیت کے بجائے اطاعت کریں  گے ، انہیں  جواب دیاجائے گاکیاہم نے تم کوطویل عمرعطانہیں  کی تھی،جس میں  ہم نے تمہیں  دنیامیں  اسباب دنیاسے بہرہ ورکیا،تمہیں  رزق عطاکیا،تمہارے لئے اسباب راحت مہیا کیے ، تمہارے سامنے پے درپے اپنی نشانیاں  ظاہرکیں جنہیں  دیکھ کر اگرتونصیحت کوسمجھنا چاہتا توسمجھ سکتاتھا،پھراس وقت تونے حق کو سمجھنے اوراسے اختیارکرنے کی کوشش کیوں  نہیں  کی تھی ؟ایک مقام پرمجرمین کی درخواست کاجواب یوں  فرمایا

۔۔۔ فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ۝۱۱ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗٓ اِذَا دُعِیَ اللهُ وَحْدَهٗ كَفَرْتُمْ۝۰ۚ وَاِنْ یُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ فَالْحُكْمُ لِلهِ الْعَلِیِّ الْكَبِیْرِ۝۱۲ [93]

ترجمہ:کیا اب یہاں  سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ (جواب ملے گا) یہ حالت جس میں  تم مبتلا ہو ، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں  کو ملایا جاتاتو تم مان لیتے تھے، اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعْذَرَ اللهُ إِلَى امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَهُ، حَتَّى بَلَّغَهُ سِتِّینَ سَنَةً

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے عذرکے سلسلے میں  حجت تمام کردی جس کی موت کو موخر کیا یہاں  تک کہ وہ ساٹھ سال کی عمرکوپہنچ گیا۔ [94]

اور سمجھانے،ڈرانے اوردھمکانے کے لئے تمہارے پاس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اوراس کے منبر و محراب کے وارث علماتمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں  سختی اورنرمی سے آزمایاگیا تھا چنانچہ اتنی لمبی عمرمیں اگرتونیک وبد اور حق وباطل میں  امتیازکرناچاہتاتوکر سکتاتھا لیکن تم نے اپنی عقل وفہم سے کام نہ لیااورنہ داعیان حق کی باتوں  کی طرف دھیان دیا اب اپنی گمراہی کا مزاچکھو،جن لوگوں  نے آنکھیں ،کان اوردل رکھنے کے باوجود اپنی جانوں  پرخودہی ظلم کیاہے ان کا یہاں  کوئی مددگار نہیں  ہے جو ان کواس عذاب سے نکال سکے یا اس میں  تخفیف کرسکے۔

‏ إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَیْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٣٨﴾‏هُوَ الَّذِی جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِی الْأَرْضِ ۚ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهُ ۖ وَلَا یَزِیدُ الْكَافِرِینَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِلَّا مَقْتًا ۖ وَلَا یَزِیدُ الْكَافِرِینَ كُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَارًا ‎﴿٣٩﴾(فاطر)
’’بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا، بیشک وہی جاننے والا ہے سینوں کی باتوں کا، وہی ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں آباد کیا، سو جو شخص کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑے گا، اور کافروں کے لیے ان کے کفر ان کے پروردگار کے نزدیک ناراضی ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے اور کافروں کے لیے ان کا کفر خسارہ ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی وسعت علم سے آگاہ فرمایاکہ اب تم دوبارہ دنیامیں  جانے کی آرزوکررہے ہواوردعویٰ کررہے ہوکہ اب نافرمانی کی جگہ اطاعت اورشرک کی جگہ توحیداختیار کروگے ،لیکن ہم جانتے ہیں  کہ تم ایسانہیں  کروگے اگرتمہیں  دنیامیں  دوبارہ لوٹادیاجائے توتم تب بھی وہی کچھ کروگے جوپہلے کرتے رہے ہو،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝۲۸ [95]

ترجمہ:اگرانہیں  سابق زندگی کی طرف واپس بھیجاجائے توپھروہی سب کچھ کریں  گے جس سے انہیں  منع کیاگیاہے،وہ توہیں  ہی جھوٹے۔

بے شک اللہ آسمانوں  اورزمین کی ہر پوشیدہ چیزسے واقف ہے،وہ توسینوں  کے چھپے ہوئے رازتک جانتاہے جوسب سے زیادہ مخفی ہوتے ہیں ،اللہ احکم الحاکمین نے اپنی حکمت کاملہ اوربندوں  پراپنی رحمت کاذکرفرمایاکہ وہی توہے جس نے تم کواپنی بے شمار مخلوقات پرفضیلت بخشی اورتم کوزمین میں  پہلوں  کا جانشین بنایا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَیَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۔۔۔۝۶۲ۭ [96]

ترجمہ:اور (کون ہے جو) تمہیں  زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی (یہ کام کرنے والا)ہے؟ ۔

اورزمین میں  تصرف کے اختیارات بخشے ہیں اس کے باوجوداب جوکوئی دعوت حق کوماننے سے انکارکرتاہے اوراپنی حیثیت خلافت بھول کرغیراللہ کی بندگی اختیار کرتاہے تواس باغیانہ روش کاخمیازہ بھی اسی کوبھگتنا پڑے گا اور کافروں  پران کے کفرکے سبب اللہ کا غیض وغضب زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے ، کفارہمیشہ ترین بدبختی،گھاٹے اوررسوائی میں  مبتلارہیں  گے ۔

قُلْ أَرَأَیْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَیْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَیِّنَتٍ مِنْهُ ۚ بَلْ إِنْ یَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا ‎﴿٤٠﴾‏ ۞ إِنَّ اللَّهَ یُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا ۚ وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِیمًا غَفُورًا ‎﴿٤١﴾(فاطر)
’’ آپ کہیے کہ تم اپنے قرار داد شریکوں کا حال تو بتاؤ جن کو تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو، یعنی مجھے یہ بتلاؤ کہ انہوں نے زمین میں کونسا (جزو) بنایا ہے یا ان کا آسمانوں میں کچھ ساجھا ہےیا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس کی دلیل پر قائم ہوں ، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکے کی باتوں کا وعدہ کرتے آتے ہیں ،یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں اور اگر ٹل جائیں تو پھر اللہ کے سوا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا ،وہ حلیم غفور ہے۔‘‘

مدلل پیغام:

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !مشرکین سے پوچھوکبھی تم نے اپنے ان شریکوں  کوجنہیں  تم اللہ کوچھوڑکرپرستش کرتے ہوان کی قدرت کاتماشا دیکھابھی ہے؟مجھے بتاؤ تمہارے شریکوں  نے اس وسیع وعریض زمین میں  کون سی چیزپیداکی ہے،آیاانہوں  نے سمندروں  اورپہاڑوں  کو پیداکیاہے؟کیاانہوں  نے حیوانات یاجمادات ونباتات کوپیداکیا ہے ؟ یا آسمانوں  کی تخلیق وتدبیر میں  ان کی شراکت ہے جس کی وجہ سے تم انہیں  معبودمانتے ہو،کیاوہ تمہیں  آسمان وزمین سے رزق دیتے ہیں ،جب تمہارے اپنے عقیدے کے مطابق نہ تووہ کائنات کے خالق ہیں  اورنہ ہی ساجے داراورنہ ہی اس کی تدبیرمیں  شامل ہیں ،اورنہ ہی آسمان وزمین سے رزق دینے پرقادرہیں توپھروہ معبودکیسے ہوگئے؟ ان کی بے بسی کااقرارکرنے کے باوجودکیوں  انہیں  پکارتے ہواورکیوں  ان کی پرستش کرتے ہو،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہرپیغمبرکوہمیشہ توحیدہی کی وحی فرمائی ہے،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [97]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جورسول بھی بھیجاہے اس کویہی وحی کی ہے کہ میرے سواکوئی الٰہ نہیں  ہے پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــیَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ ۔۔۔۝۵ۭ [98]

ترجمہ:اوران کواس کے سواکوئی حکم نہیں  دیاگیاتھاکہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کواس کے لئے خالص کرکےبالکل یک سوہوکر۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے پوچھو کیااللہ نے تم پرکوئی کتاب نازل کی ہے جس میں  یہ تحریرلکھ کردی ہوکہ یہ ہمارے شریک ہیں  اوراللہ کے ساتھ ساتھ ان کو بھی پکارو اوران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے نام کی نذر و نیازاورقربانیاں  کرو،وہ یہی جواب دیں  گے کہ تخلیق وتدبیرکائنات میں  ان کاکوئی حصہ نہیں  ہے ،مگر یہ پیشوا، پیرو پنڈت، پروہت وکاہن اوروعظ ومجاور اپنے باطل معبودوں  کی طاقت وقدرت کے من گھڑٹ افسانے اور دیومالائی کہاوتیں  گھڑگھڑکر ایک دوسرے کو بھروسے دلارہے ہیں ،یہ کسی فرشتہ،جن،نبی یاولی کی قدرت نہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت وطاقت اوربے پایاں  رحمت ہے کہ ا س نے انسانوں کے کفروشرک کے باوجود آسمانوں  اور زمین کوتھاما ہوا ہے اورانہیں  اپنی جگہ سے جنبش نہیں  کرنے دیتا ورنہ وہ اس ظلم عظیم پرپھٹ پڑیں  اور پلک جھپکتے ہی کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے، جیسے فرمایا

تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا۝۹۰ۙاَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۝۹۱ۚ [99]

ترجمہ: قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں  ، زمین شق ہوجائے اورپہاڑگر جائیں اس بات پرکہ لوگوں  نے رحمان کے لئے اولادہونے کادعویٰ کیا۔

۔۔۔وَیُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔۝۰ ۝۶۵ [100]

ترجمہ:اوروہی آسمان کواس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیروہ زمین پرنہیں  گرسکتا ۔

وَمِنْ اٰیٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ۔۔۔۝۲۵ [101]

ترجمہ: اور اس کی نشانیوں  میں  سے یہ ہے کہ آسمان اورزمین اس کے حکم سے قائم ہیں  ۔

اگراللہ انہیں  تھامے نہ رکھے اوروہ پھٹ پڑیں  تواللہ کے سوا تمہارے کسی معبود میں  یہ طاقت و قدرت نہیں  کہ انہیں  تھام لیں ،یہ توسراسر اللہ تعالیٰ کاحلم اورچشم پوشی ہے کہ اپنے بندوں  کو کفرو شرک اورنافرمانیاں  کرتے ہوئے دیکھتاہے پھربھی فوری گرفت کے بجائے انہیں  سنبھلنے کے لئے ڈھیل دیتاہے اور وہ بڑاغفور ہے ،اگر کوئی گنہگار توبہ واستغفار وندامت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں  جھک جائے تووہ معاف فرما دیتا ہے۔

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِیرٌ لَیَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِیرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا ‎﴿٤٢﴾‏ اسْتِكْبَارًا فِی الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّیِّئِ ۚ وَلَا یَحِیقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِینَ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِیلًا ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِیلًا ‎﴿٤٣﴾‏(فاطر)
’’اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں ، پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آپہنچے تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا، دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اور ان کی بری تدبیروں کی وجہ سے اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے، سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے، سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مشرکین مکہ یہودونصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کودیکھ کر کڑی کڑی قسمیں  کھاکرکہاکرتے تھے کہ اگرہماری طرف کوئی پیغمبرمبعوث ہوا تو ہم اس کاخیرمقدم کریں  گے اوراس پرایمان لانے میں  ایک مثالی کرداراداکریں  گے ،جیسے فرمایا

وَاِنْ كَانُوْا لَیَقُوْلُوْنَ۝۱۶۷ۙلَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ۝۱۶۸ۙ لَكُنَّا عِبَادَ اللهِ الْمُخْلَصِیْنَ۝۱۶۹ [102]

ترجمہ: یہ لوگ پہلے توکہاکرتے تھے کہ کاش ہمارے پاس وہ ذکرہوتاجوپچھلی قوموں  کوملاتھاتوہم اللہ کے چیدہ بندے ہوتے۔

اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰی طَاۗىِٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا۝۰۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَ۝۱۵۶ۙاَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰی مِنْهُمْ۔۔۔۝۰۝۱۵۷ [103]

ترجمہ:اب تم یہ نہیں  کہہ سکتے کہ کتاب توہم سے پہلے کے دوگروہوں  کودی گئی تھی اورہم کوکچھ خبرنہ تھی کہ وہ کیاپڑھتے پڑھاتے تھے ،اوراب تم یہ بہانہ بھی نہیں  کرسکتے کہ اگرہم پرکتاب نازل کی گئی ہوتی توہم ان سے زیادہ راست روثابت ہوتے۔

مگر جب ان کی تمناکے مطابق انہی میں  سے تمام انسانیت کے لئے خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نبی بن کرآئے اوراللہ نے ان پراپناآخری کلام قرآن مجید نازل فرما دیا جوسراسرحق وہدایت ہے تو انہوں  نے ایمان واطاعت کے بجائے انکارومخالفت کاراستہ اختیار کیا ،ان کاکفربڑھ گیااوریہ اللہ کی زمین میں  اورزیادہ سرکشی کرنے اور دعوت حق کاراستہ روکنے کے لئے بری بری چالیں  چلنے لگے حالاں  کہ بری چالیں  اپنے چلنے والوں  ہی کولے بیٹھتی ہیں  ، اب کیایہ لوگ کفروشرک،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اوراہل ایمان کوایذائیں  پہنچانے پرمصررہ کر اس بات کے منتظر ہیں  کہ اللہ اپنے دستورکے مطابق ان کا بھی صفایا کردے جس طرح اس نے پچھلی قوموں  کونیست ونابودکردیا تھا؟اگریہی بات ہے تو تم اللہ کے دستور میں  ہرگزکوئی تبدیلی نہ پاؤ گے،جس قوم پرعذاب کاارادہ الٰہی ہو چکاپھراس ارادے کے بدلنے پرکوئی قدرت نہیں  رکھتا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ۝۱۱ [104]

ترجمہ:اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں  ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں  ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے ۔

أَوَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیُعْجِزَهُ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِیمًا قَدِیرًا ‎﴿٤٤﴾‏وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ یُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِیرًا ‎﴿٤٥﴾‏(فاطر)
’’ اور کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں جس میں دیکھتے بھالتے کہ جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا انجام کیا ہوا ؟ حالانکہ وہ قوت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے، اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو ہرا دے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ، وہ بڑے علم والا بڑی قدرت والا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب دارو گیر فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن اللہ تعالیٰ ان کو میعاد معین تک مہلت دے رہا ہے، سو جب ان کی میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا۔‘‘

کیایہ لوگ زمین میں  کبھی چلے پھرے نہیں  ہیں  کہ انہیں  ان لوگوں  کاعبرتناک انجام نظرآتاجوان سے پہلے گزرچکے ہیں ،وہ ان سے زیادہ مال اوراولادرکھنے والے اوران سے زیادہ طاقت ورتھے،انہوں  نے ان سے زیادہ زمین کوآبادکیاتھالیکن جب انہوں  نے اللہ مالک الملک اوراس کے رسولوں  کی تکذیب کی،روزآخرت کوجھٹلایا تو ایک وقت مقررہ تک مہلت دینے کے بعداللہ نے ان پر عذاب نازل کیاتواللہ کے مقابلے میں ان کے بڑے بڑے جتھے،مال د دولت ،اولادیں  ،سنگی مکانات اوران کے بے شمارمعبود انہیں  اللہ کی گرفت سے بچانہ سکے اوراللہ تعالیٰ کی قدرت اورمشیت ان میں  نافذہوکررہی ،اور ان کے اثاروکھنڈرات عبرت کے نشان بن کررہ گئے ہیں ،جیسے فرمایا

 وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۲۷فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً۝۰ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ۝۰ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۝۲۸ [105]

ترجمہ:تمہارے گردوپیش کے علاقوں  میں  بہت سی بستیوں  کوہم ہلاک کرچکے ہیں ،ہم نے اپنی آیات بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایاشایدکہ وہ باز آجائیں  ، پھر کیوں  نہ ان ہستیوں  نے ان کی مددکی جنہیں  اللہ کوچھوڑکرانہوں نے تقرب الی اللہ کاذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنالیا تھابلکہ وہ توان سے کھوئے گئے ،اوریہ تھاان کے جھوٹ اور ان بناوٹی عقیدوں  کاانجام جوانہوں  نے گھڑرکھے تھے۔

ہرطرح کی طاقت وقدرت اور اختیارصرف اللہ وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت میں  ہیں ، اس وسیع وعریض کائنات میں اس کے حکم کوکوئی ٹال نہیں  سکتا،وہ علام الغیوب ہے اورہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے،اگراللہ تعالیٰ لوگوں  کوان کے گناہوں  کی پاداش میں  اورجانوروں  کوانسانوں  کی نحوست کی وجہ فوری طورپرگرفت کرتاتوتمام اہل زمین کو ہلاک کر دیتا،مگریہ اس کی مشیت اورحکمت ہے کہ وہ انہیں  سوچنے وسنبھلنے کے لئے ایک مقرروقت تک کے لئے مہلت دے رہاہے،پھرجب ان کاوقت آن پوراہوگاتواللہ ان کامحاسبہ کرے گااور ہر شخص کواس کے اعمال کاپوراپورابدلہ دے گا ۔

[1] یٰسین۸۱

[2] التحریم۶

[3] صحیح مسلم کتاب الایمان باب معنی قول اللہ عزوجل وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ۴۳۲،صحیح بخاری تفسیرسورة النجم بَابُ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَى ۴۸۵۶،وکتاب بدء الخلق بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِینَ وَالمَلاَئِكَةُ فِی السَّمَاءِ، آمِینَ فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۳۲۳۲، جامع ترمذی کتاب التفسیرالقراٰن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ۳۲۷۷،السنن الکبری للنسائی۱۱۴۷۰،مسندابی یعلی۵۳۳۷

[4] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقراٰن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ۳۲۷۸

[5] مسنداحمد۱۶۸۳۹

[6] مسنداحمد۱۶۸۸۹

[7] الانعام ۱۷،۱۸

[8] یونس۱۰۷

[9] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ۸۴۴،صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ ۱۳۳۸،سنن ابوداودکتاب الوتر بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ ۱۵۰۵،سنن نسائی کتاب الافتتاع عَدَدُ التَّهْلِیلِ وَالذِّكْرِ بَعْدَ التَّسْلِیمِ۱۳۴۳

[10] صحیح مسلم کتاب الصلاةبَابُ مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ۱۰۷۱،سنن نسائی كِتَابُ التَّطْبِیقِ قَدْرُ الْقِیَامِ بَیْنَ الرَّفْعِ مِنَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۱۰۶۹ ،سنن ابوداودکتاب الصلاة باب الاقعاء بین السجدتین ۸۴۷،مسنداحمد۱۱۸۲۸

[11] الفرقان۲

[12] مریم۹۵

[13] القصص۸۴

[14] النجم۳۱

[15] الکہف۳۶

[16] لقمان۳۳

[17] یٰسین۶۰

[18] الزمر۳۵

[19] الحج۵

[20] حم السجدة۳۹

[21] الاعراف۵۷

[22] صحیح بخاری تفسیر سورة عم یتساء لون بَابُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا ۴۹۳۵ ، صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ۷۴۱۴ ،السنن الکبری للنسائی ۱۱۳۹۵، شعب الایمان۳۴۸، شرح السنة للبغوی۴۳۰۰

[23] النسائ۱۳۹

[24] یونس۶۵

[25] المنافقون۸

[26] فاطر: 10

[27] تفسیرطبری۴۴۵؍۲۰

[28] مسنداحمد۱۸۳۶۲

[29] فاطر: ۱۹

[30] تفسیرطبری۴۴۵؍۲۰

[31] فاطر۴۳

[32] الروم۲۱

[33] الانعام۵۹

[34] الرعد ۸

[35] الرعد ۳۹

[36] تفسیرطبری ۴۴۷؍۲۰

[37] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَنْ بُسِطَ لَهُ فِی الرِّزْقِ بِصِلَةِ الرَّحِمِ ۵۹۸۶،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ وَتَحْرِیمِ قَطِیعَتِهَا۶۵۲۳،سنن ابوداودکتاب الزکوٰة بَابٌ فِی صِلَةِ الرَّحِمِ ۱۶۹۳،السنن الکبری للنسائی۱۱۳۶۵،مسنداحمد۱۳۵۸۵،مسندالبزار۶۳۱۶،صحیح ابن حبان۴۳۸، شعب الایمان۷۵۷۱، شرح السنة للبغوی۳۴۲۹، مسند ابی یعلی۴۰۹۷

[38] طہ۹۸

[39] الطلاق۱۲

[40] الفرقان ۵۳

[41] موطاامام مالک کتاب الصیدباب ماجآء فی صیدالبحر۱۰ ،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ۳۸۶،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ۸۳،جامع ترمذی کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی مَاءِ البَحْرِ أَنَّهُ طَهُورٌ۶۹،سنن نسائی کتاب المیاہ الْوُضُوءُ بِمَاءِ الْبَحْرِ۳۳۳،سنن الدارمی ۷۵۶،مسنداحمد۷۲۳۳

[42] الرحمٰن۲۲،۲۳

[43] یٰسین۳۸تا۴۰

[44] القیامة۸

[45] التکویر۱،۲

[46] الانفطار۱،۲

[47] یونس۲۸،۲۹

[48] الاحقاف۵

[49] مریم ۸۱ ،۸۲

[50] سبا۴۰،۴۱

[51] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۲

[52] العنکبوت۲۲

[53] العنکبوت۱۳

[54] لقمان۳۳

[55] عبس۳۴تا۳۶

[56] النازعات ۴۵

[57] یٰسین ۱۱

[58] یونس۱۰۸

[59] بنی اسرائیل۱۵

[60] العنکبوت۶

[61] الانعام۱۲۲

[62] ھود۲۴

[63] یٰسین۱۱

[64] الاعراف۱۸۸

[65] الرعد ۷

[66] النحل۳۶

[67] الشعراء ۲۰۸

[68] الحجر۱۱

[69] الرعد۴

[70] الروم۲۲

[71] البینة۸

[72] تفسیر ابن ابی حاتم۳۱۸۰؍۱۰

[73] تفسیر ابن ابی حاتم۳۱۸۰؍۱۰

[74] تفسیر ابن ابی حاتم۳۱۸۰؍۱۰

[75] تفسیر ابن ابی حاتم ۳۱۸۰؍۱۰

[76] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْعِلْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الفِقْهِ عَلَى العِبَادَةِ۲۶۸۵

[77] البقرة۱۴۳

[78] فاطر: ۳۲

[79] فاطر: ۳۲

[80] تفسیرطبری۴۶۵؍۲۰

[81] المعجم الکبیرللطبرانی۱۱۴۵۴

[82] صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ بَابٌ تَبْلُغُ الْحِلْیَةُ حَیْثُ یَبْلُغُ الْوُضُوءُ۵۸۶،سنن نسائی كِتَابُ الطَّهَارَةِ حِلْیَةُ الْوُضُوءِ۱۴۹

[83] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ لُبْسِ الحَرِیرِ وَافْتِرَاشِهِ لِلرِّجَالِ، وَقَدْرِ مَا یَجُوزُ مِنْهُ۵۸۳۴، صحیح مسلم کتاب اللباس بَابُ تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِیرِ عَلَى الرَّجُلِ، وَإِبَاحَتِهِ لِلنِّسَاءِ، وَإِبَاحَةِ الْعَلَمِ وَنَحْوِهِ لِلرَّجُلِ مَا لَمْ یَزِدْ عَلَى أَرْبَعِ أَصَابِعَ۵۴۰۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ كَرَاهِیَةِ لُبْسِ الْحَرِیرِ۳۵۸۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الحَرِیرِ وَالدِّیبَاجِ۲۸۱۷،السنن الکبری للنسائی۹۵۰۹، مسندالبزار۶۴۰۳، مسنداحمد۱۸۱،صحیح ابن حبان۵۴۳۵

[84] صحیح بخاری كِتَابُ المَرْضَى بَابُ تَمَنِّی المَرِیضِ المَوْتَ ۵۶۷۳،صحیح مسلم كتاب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ بَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۱۱

[85] الحاقة۲۴

[86] الاعلیٰ۱۳

[87] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِثْبَاتِ الشَّفَاعَةِ وَإِخْرَاجِ الْمُوَحِّدِینَ مِنَ النَّارِ ۴۵۹، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الشَّفَاعَةِ۴۳۰۹،مسنداحمد۱۱۰۷۷،صحیح ابن حبان۱۸۴،شعب الایمان۳۱۵،مسندابی یعلی۱۰۹۷

[88] بنی اسرائیل ۹۷

[89] النبا۳۰

[90] الزخرف۷۴،۷۵

[91] الزخرف۷۷، ۷۸

[92] النبا۴۰

[93] المومن۱۱،۱۲

[94] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَنْ بَلَغَ سِتِّینَ سَنَةً، فَقَدْ أَعْذَرَ اللهُ إِلَیْهِ فِی العُمُرِ۶۴۱۹،مسنداحمد۹۳۹۴

[95] الانعام۲۸

[96] النمل۶۲

[97] الانبیاء ۲۵

[98] البینة۵

[99] مریم۹۰،۹۱

[100] الحج۶۵

[101] الروم۲۵

[102] الصافات۱۶۷تا۱۶۹

[103] الانعام۱۵۶،۱۵۷

[104] الرعد۱۱

[105] الاحقاف۲۷،۲۸

Related Articles