بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة التکاثر (حصہ اول)

اس سورت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو دولت،شہرت اوراقتدارکے حصول کواپنامقصدحیات بنالیتے ہیں اور دنیا کا ایندھن جمع کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے اورانہی چیزوں کے حصول پرفخرکرنے میں لگے رہتے ہیں ،ان کے انہماک کودیکھ کریوں لگتا ہے کہ انہیں دنیامیں ہمیشہ رہنا ہے لیکن پھراچانک موت آجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اورانہیں بے بسی کے ساتھ پرآسائش اوروسیع قصر ،مال ودولت اوراقتدارکوچھوڑکر اندھیری تنگ قبرکی طرف منتقل ہوناپڑتاہے،جہاں ان کی دولت ، اقتدار اوراس کی جاہ وحشمت کسی کام نہیں آسکیں گے ،ان لوگوں کوبرے انجام پرمتنبیہ گیاکہ قیامت کے دن تم سے تمہارے تمام اعمال کے بارے میں سوال کیاجائے گا ، پھر تم دہکتی اورغیض وغضب سے پھٹتی جہنم کوضروردیکھوگے جس کی طرف سے تم ابھی بے خوف ہو اورجن نعمتوں کو تم یہاں بے فکری کے ساتھ سمیٹ رہے ہویہ محض نعمتیں ہی نہیں ہیں بلکہ تمہاری آزمائش کاسامان بھی ہیں ،روزقیامت تم سے اللہ کی ان عطاکردہ نعمتوں کے بارے میں جواب طلب کیاجائے گاکہ امن، صحت ،فراغت ،اکل وشرب، مسکن، علم اوردولت جیسی نعمتوں کوکہاں استعمال کیاتھا؟عذاب قبرکے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ‎﴿١﴾‏ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ‎﴿٢﴾ (التکاثر)
زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔

تم لوگوں نے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ومحبت کوچھوڑ کر مال واولاد، اعوان وانصار،خاندان وقبیلہ ،خدم وحشم ،دنیاکے تمام فوائدومنافع،سامان عیش وعشرت ،وسائل قوت و اقتدارکو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی وجہداوران کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے ،ایک دوسرے کے مقابلہ میں ان کی کثرت پر فخرجتانے کی دھن، تمہارا لہوو لعب اوردنیاکی رنگینیوں میں تمہاری خودفراموشیوں نے تمہیں ایسامشغول کررکھاہے کہ تم اخلاقی حدود، اخلاقی ذمہ داریوں اورسب سے اہم چیزاللہ کے احکام،عمل صالح اور آخرت کی جوابدہی سے غافل ہو گئے ہو یعنی تمہاری زندگی اورزندگی کی تمام سرگرمیوں کامحوربس دنیاہی ہے ،جس کے عشق میں تم اپنی ساری زندگی کھپا کر آخرت کی پہلی منزل برزخی مسکن میں پہنچ جاتے ہو،مگرجب تم اس دنیاسے انتقال کرتے ہوتو حلال وحرام ،جائز و ناجائزطریقے سے حاصل کیاہوا یہ مال قبر میں تمہارے ساتھ نہیں جاتااورنہ ہی آخرت میں ہی کچھ کام آئے گا،وہاں کا سکہ رائج وقت تو ایمان کی حالت میں کی گئی نیکیاں اور بھلائیاں ہی ہیں ،ان بدبخت اورنامرادلوگوں کے بارے میں جن کی ساری سعی وجہددنیاکے حصول میں بیتی،جومال ودولت اوردنیاوی حیثیت کے نشے میں نبیوں اوررسولوں کامذاق اڑاتے رہے ،جواللہ کی نشانیاں اورآخرت کے منکرتھے جیسےفرمایا:

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا۝۱۰۳ۭاَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا۝۱۰۵ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰیٰتِیْ وَرُسُلِیْ هُزُوًا۝۱۰۶ [1]

ترجمہ:اے نبی!ان سے کہوکیاہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ونامرادلوگ کون ہیں ؟وہ کہ دنیاکی زندگی جن کی ساری سعی وجہدراہ راست سے بھٹکی رہی ناوروہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کوماننے سے انکارکیااوراس کے حضورپیشی کایقین نہ کیااس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئےقیامت کے روزہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے ،ان کی جزاجہنم ہے اس کفرکے بدلے جوانہوں نے کہااوراس مذاق کی پاداش میں جووہ میری آیات اورمیرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے ۔

ایسے ہی لوگوں کی بابت ایک مقام پر فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۰وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُهَا۰ۭ وَاللهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۱ۧ [2]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!تمہارے مال اورتمہاری اولادیں تم کواللہ کی یادسے غافل نہ کردیں ،جولوگ ایساکریں گے وہی خسارے میں رہنے والے ہیں ،جورزق ہم نے تمہیں دیااس میں سے خرچ کروقبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کاوقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ اے میرے رب!کیوں نہ تونے مجھے تھوڑی سی مہلت اوردے دی کہ میں صدقہ دیتااورصالح لوگوں میں شامل ہوتا،حالاں کہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کاوقت آجاتاہے تواللہ کسی شخص کو ہرگز مزیدمہلت نہیں دیتا اورجوکچھ تم کرتے ہواللہ اس سے باخبرہے۔

جن لوگوں نے ساری زندگی دنیاکے عشق وطلب میں گنوادی ہوگی مگرروزقیامت جب اس کی زندگی کے تمام اعمال وافعال اوراللہ کی بخشی ہوئی تمام نعمتوں کے متعلق پرشش ہوگی تو اپنی اس بے حاصل بوالہوسی اورخسران پرماتم کریں گے لیکن اس وقت کاماتم بالکل بے سودہوگا، جیسے فرمایا

وَجِایْۗءَ یَوْمَىِٕذٍؚبِجَهَنَّمَ۝۰ۥۙ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى۝۲۳ۭیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ۝۲۴ۚ [3]

ترجمہ:اور جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ؟وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا! ۔

ایک مقام پر یوں فرمایا:

حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ۝۹۹ۙلَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّا۝۰ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَقَاۗىِٕلُهَا۝۰ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۱۰۱فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِیْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۳ۚ [4]

ترجمہ:(یہ لوگ اپنی کرنی سے بازنہ آئیں گے )یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کوموت آجائے گی توکہناشروع کرے گاکہ اے میرے رب،مجھے اسی دنیامیں واپس بھیج دیجئے جسے میں چھوڑ آیا ہوں امیدہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا،ہرگزنہیں ،یہ توبس ایک بات ہے جووہ بک رہاہے ،اب ان سب (مرنے والوں )کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک ، پھرجونہی کہ صورپھونک دیاگیاان کے درمیان پھرکوئی رشتہ نہ رہے گااورنہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے ،اس وقت جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اورجن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کوگھاٹے میں ڈال لیا ،وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

قرآن مجیدنے دولت کی محبت اوربخیلی کاایک واقعہ یوں بیان کیاہے۔

اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَـمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ۝۰ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَ۝۱۷ۙوَلَا یَسْتَثْنُوْنَ۝۱۸فَطَافَ عَلَیْهَا طَاۗىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَهُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝۱۹فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِ۝۲۰ۙفَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ۝۲۱ۙاَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ۝۲۲فَانْطَلَقُوْا وَهُمْ یَتَخَافَتُوْنَ۝۲۳ۙاَنْ لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌ۝۲۴ۙوَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ۝۲۵فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ۝۲۶ۙبَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۝۲۷قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُـسَبِّحُوْنَ۝۲۸قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ۝۲۹فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ۝۳۰قَالُوْا یٰوَیْلَنَآ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ۝۳۱عَسٰى رَبُّنَآ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَآ اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ۝۳۲كَذٰلِكَ الْعَذَابُ۝۰ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ۝۰ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۝۳۳ۧ [5]

ترجمہ:ہم نے ان (اہل مکہ )کواسی طرح آزمائش میں ڈالاہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالاتھا جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضروراپنے باغ کے پھل توڑیں گے اوروہ کوئی استثناء نہیں کر رہے تھے، رات کووہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بلااس باغ پرپھرگئی اوراس کاایساحال ہوگیاجیسے کٹی ہوئی فصل،صبح سویرے ان لوگوں نے ایک دوسرے کوپکاراکہ اگرپھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف نکل چلو،چنانچہ وہ چل پڑے اورآپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے کہ آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں نہ آنے پائے ، وہ کچھ نہ دینے کافیصلہ کیے ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی اس طرح وہاں گئے جیسے کہ وہ پھل (توڑنے پر) قادرہیں ، مگرجب باغ کودیکھاتو کہنے لگے ہم راستہ بھول گئے نہیں بلکہ ہم محروم رہے گئے، ان میں جوسب سے بہترآدمی تھا اس نے کہامیں نے تم سے کہانہ تھاکہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟ وہ پکاراٹھے پاک ہے ہمارا رب! واقعی ہم گناہ گار تھے، پھران میں سے ہرایک دوسرے کوملامت کرنے لگاآخرکوانہوں نے کہاافسوس ہمارے حال پربیشک ہم سرکش ہو گئے تھے،بعیدنہیں کہ ہمارا رب ہمیں بدلے میں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ،ایساہوتاہے عذاب اورآخرت کاعذاب اس سے بھی بڑاہے کاش یہ لوگ اس کو جانتے۔

اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال کی کثرت اور دولت کی فراوانی قطعاًپسندنہ تھی،

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اللَّهُمَّ أَحْیِنِی مِسْكِینًا وَأَمِتْنِی مِسْكِینًا وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَةِ المَسَاكِینِ یَوْمَ القِیَامَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعامانگاکرتے تھےاے میرے اللہ !مجھے مسکین زندہ رکھ اورمجھے موت بھی مسکینی کی حالت میں ہی آئے اور میرا حشربھی مسکینوں کے گروہ میں ہو ۔[6]

عَنْ أُسَامَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:قُمْتُ عَلَى بَابِ الجَنَّةِ، فَكَانَ عَامَّةَ مَنْ دَخَلَهَا المَسَاكِینُ، وَأَصْحَابُ الجَدِّ مَحْبُوسُونَ، غَیْرَ أَنَّ أَصْحَابَ النَّارِ قَدْ أُمِرَ بِهِمْ إِلَى النَّارِ وَقُمْتُ عَلَى بَابِ النَّارِ فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ دَخَلَهَا النِّسَاءُ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں (معراج کی رات)جنت کے دروازے پر کھڑاہواتواس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت فقراء کی تھی جبکہ امراء کو (میدان حشر میں ) روکاہواتھاالبتہ دوزخیوں کو دوزخ (میں ڈالنے)کاحکم دیاجاچکاتھا،میں دوزخ کے دروازے پرکھڑاتھاوہاں اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی تھی۔[7]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ،قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِینَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِیَاءِ بِأَرْبَعِینَ خَرِیفًا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس میں کچھ شک نہیں کہ قیامت کے دن فقرامہاجرلوگ ،مالدارلوگوں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔[8]

اسی طرح قرآن مجید ایک اور واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح مال ودولت کی کثرت انسان کوشرک کے اندھیروں میں غرق کردیتی ہے۔

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًا۝۳۲ۭكِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَـیْــــًٔـا۝۰ۙ وَّفَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًا۝۳۳ۙوَّكَانَ لَهٗ ثَمَــــرٌ۝۰ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَهُوَیُحَاوِرُهٗٓ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا۝۳۴وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ۝۰ۚ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖٓ اَبَدًا۝۳۵ۙوَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً۝۰ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا۝۳۶قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَیُحَاوِرُهٗٓ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا۝۳۷ۭلٰكِنَّا۟ هُوَاللهُ رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِكُ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا۝۳۸وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ۝۰ۚ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا۝۳۹ۚفَعَسٰی رَبِّیْٓ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ وَیُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْـبَانًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًا۝۴۰ۙاَوْ یُصْبِحَ مَاۗؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا۝۴۱وَاُحِیْطَ بِثَمَرِهٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ كَفَّیْهِ عَلٰی مَآ اَنْفَقَ فِیْهَا وَھِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِهَا وَیَـقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا۝۴۲وَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا۝۴۳ۭ هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلهِ الْحَقِّ۝۰ۭ هُوَخَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا۝۴۴ۧ [9]

ترجمہ:اے نبی انکے سامنے ایک مثال پیش کرو،دوشخص تھے ان میں ایک کوہم نے انگورکے دو باغ دیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی اوران کے درمیان کاشت کی زمین رکھی ، دونوں باغ خوب پھلے پھولے اوربارآور ہونے میں انہوں نے زرابھی کسربھی نہ چھوڑی ، ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہرجاری کر دی اوراسے خوب نفع حاصل ہوا،یہ سب کچھ پاکرایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولامیں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتاہوں پھروہ اپنی جنت میں داخل ہو ااور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کرکہنے لگامیں نہیں سمجھتاکہ یہ دولت کبھی فناہوجائے گی اورمجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی تاہم اگرکبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیاتو ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤ ں گا،اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہاکیاتو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھرنطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پوراآدمی بناکھڑاکیا، رہا میں ، تومیرارب تووہی اللہ ہے اورمیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتااورجب تواپنی جنت میں داخل ہورہاتھا تواس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا  مَا شَاءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ  اگر تم مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پارہا ہے تو بعید نہیں کہ میرارب مجھے تیری جنت سے بہتر عطافرمادے اور تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کررہ جائے یا اسکا پانی زمین میں اترجائے اور پھرتواسے کسی طرح نہ نکال سکے،آخرکار ہوایہ کہ اسکا سارا ثمر مارا گیااوروہ اپنے انگوروں کے باغ کوٹٹیوں پرالٹاپڑادیکھ کراپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتارہ گیا اور کہنے لگاکاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرایا ہوتا،نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مددکرتااورنہ کرسکاوہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ ، اس وقت معلوم ہواکہ کار سازی کااختیار خدائے برحق ہی کے لئے ہے،انعام وہی بہتر ہے جووہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جووہ دکھائے۔

عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقْرَأُ: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُقَالَ: یَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِی، مَالِی، قَالَ: وَهَلْ لَكَ، یَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَیْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ، أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ؟

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن شخیرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ التکاثرپڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کہتاہے کہ میرامال میرامال اوراے آدمی !تیرامال کیا ہے ؟ تیرامال صرف وہ ہے جسے تونے کھا کر فنا کر دیا یاپہن کر بوسیدہ کردیا صدقہ کیااورتوشہ آخرت بنالیا ؟ [10]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: یَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِی، مَالِی، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ، وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ کہتاہے میرامال ،میرامال حالانکہ اس کامال تین چیزیں ہیں ،جوکھایا اور فنا کیااور جو پہنا اور بوسیدہ کردیا اوراللہ کی راہ میں دیااورجمع کیا،اور اس کے سواجوکچھ ہے اسے تو لوگوں کے لئےچھوڑ کرجانے والا ہے۔[11]

انسان دولت کا کتناحریص اورمال جمع کرنے کاکس قدرخواہش مندہے اس کے بارے میں

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِیًا مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَكُونَ لَهُ وَادِیَانِ، وَلَنْ یَمْلَأَ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَیَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرفرزندآدم کے پاس سونے سے بھری ہوئی ایک وادی ہوتواس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس ایک کے بجائے سونے کی دودادیاں ہونی چاہئیں ،اورآدم کے بیٹے کے منہ کوصرف (قبرکی)مٹی ہی بھر سکتی ہے،اوراللہ اس کی توبہ قبول کرتاہے جوتوبہ کرے۔[12]

وَلاَ یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں آدم کے بیٹے کا پیٹ تو(قبرکی)مٹی ہی بھرے گی۔[13]

 وَلاَ یَمْلَأُ عَیْنَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں فرزندآدم کی آنکھ کو(قبرکی)مٹی ہی سیرکرے گی۔[14]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ، وَالدِّرْهَمِ، وَالقَطِیفَةِ، وَالخَمِیصَةِ، إِنْ أُعْطِیَ رَضِیَ، وَإِنْ لَمْ یُعْطَ لَمْ یَرْضَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہلاک ہوگیادینارکابندہ ،ہلاک ہو گیا درہم کابندہ ،ہلاک ہوگیاادنی چادرکابندہ اورہلاک ہوگیامخملی چادرکابندہ،اگراسے دیا گیاتوراضی ہوااوراگرنہیں دیا گیا تو ناراض ہوگیا۔[15]

انسان کی اسی غفلت،لاپرواہی اورآخرت سے بے رغبتی پر اظہارافسوس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا:

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَتْبَعُ المَیِّتَ ثَلاَثَةٌ، فَیَرْجِعُ اثْنَانِ وَیَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ: یَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ، فَیَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَیَبْقَى عَمَلُهُ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں ،دوتوواپس آجاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتاہے،اس کے ساتھ اس کے گھروالے اس کامال اوراس کاعمل چلتاہے،اس کے گھروالے اورمال(جن کی محبت اورفکرمیں انسان زندگی بھرڈوبا رہتا ہے اوران کی طرف لگاؤ کی وجہ سے آخرت کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتا) توواپس آجاتے ہیں اوراس کاعمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتاہے(اوروہی اس کے ساتھی اور سہارابنتے ہیں ) ۔ [16]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَكْبَرُ ابْنُ آدَمَ وَیَكْبَرُ مَعَهُ اثْنَانِ: حُبُّ المَالِ، وَطُولُ العُمُرِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن آدم بوڑھا ہو جاتاہے لیکن دوچیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں مال کی محبت اورعمربڑھنے کی حرص۔ [17]

یہاں یہ غلط فہمی ہرگزنہیں ہونی چاہیے کہ اللہ نے مال کمانے سے منع فرمایاہے ،ایساہرگزنہیں ہے بلکہ جوشخص جائزاورحلال طریقے سے مال کماتاہے اوراپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے کے بعدباقی مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کے زرق میں کشائش وبرکت عطافرماتاہےاوراس کے مال کی حفاظت کرتا ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فِی سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِیقَةَ فُلَانٍ، فَتَنَحَّى ذَلِكَ السَّحَابُ، فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِی حَرَّةٍ، فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْكَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذَلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ، فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِی حَدِیقَتِهِ یُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهِ، فَقَالَ لَهُ: یَا عَبْدَ اللهِ مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: فُلَانٌ – لِلِاسْمِ الَّذِی سَمِعَ فِی السَّحَابَةِ – فَقَالَ لَهُ: یَا عَبْدَ اللهِ لِمَ تَسْأَلُنِی عَنِ اسْمِی؟ فَقَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ صَوْتًا فِی السَّحَابِ الَّذِی هَذَا مَاؤُهُ یَقُولُ: اسْقِ حَدِیقَةَ فُلَانٍ، لِاسْمِكَ، فَمَا تَصْنَعُ فِیهَا؟ قَالَ: أَمَّا إِذْ قُلْتَ هَذَا، فَإِنِّی أَنْظُرُ إِلَى مَا یَخْرُجُ مِنْهَا، فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ، وَآكُلُ أَنَا وَعِیَالِی ثُلُثًا، وَأَرُدُّ فِیهَا ثُلُثَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ بیان فرمایاایک شخص کسی بیابان اور ویران جگہ پرتھاکہ اسی دوران اس نے ایک بادل میں آوازسنی فلاں کے باغ کو سیراب کر تووہ بادل (دوسرے بادلوں سے ہٹ کر)ایک طرف چلا گیا اور پانی ایک پتھریلی زمین پربرسادیاوہ ساراپانی وہاں بنی نالیوں میں جمع ہوتا گیا (اورایک جانب کو بہتاگیا)،وہ شخص (جس نے آواز سنی تھی ( پانی کے پیچھے پیچھے چلا(کہ دیکھے آخر ماجرا کیا ہے ) آگے چل کراس نے دیکھاکہ ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑاپیلچے سے پانی کو باغ کی طرف پھیررہاہے،اس شخص نے اس باغ والے سے کہااے اللہ کے بندے !تیرانام کیا ہے ؟اس آدمی نے وہی نام بتایا جو اس نے بادل میں سے سناتھا،اب اس باغ والے نے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے !تو نے میرانام کس لئے پوچھاہے ؟اس نے کہاکہ میں نے اس بدلی میں جس کاپانی آرہا ہے غیبی آوازسنی تھی کسی کہنے والے نے تمہارا نام لے کرکہاتھاکہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کردے توآخرتم اس باغ میں کیاکرتے ہو؟ ( جو اتنے مقرب ہو اللہ کے یہاں )اس نے کہاکہ جب تم نے یہ بات کہی ہے تو مجھے بتاناہی پڑے گامیں اس باغ کی پیداوارکودیکھتاہوں ،اس کی کل پیداوارمیں سے ایک تہائی غریبوں ،مسکینوں ،یتیموں کو)صدقہ کر دیتا ہوں ،ایک تہائی میں اور میرے اہل وعیال کھاپی لیتے ہیں اور ایک تہائی دوبارہ اسی باغ میں استعمال کرلیتاہوں ۔[18]

كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٣﴾‏ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٤﴾‏ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِینِ ‎﴿٥﴾‏(التکاثر)

ہرگز نہیں ، تم عنقریب معلوم کرلو گے، ہرگز نہیں ،پھر تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا، ہرگز نہیں ، اگر تم یقینی طور پر جان لو۔

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَا یَنْزِلُ بِكُمْ مِنَ الْعَذَابِ فِی الْقَبْرِ. ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ فِی الْآخِرَةِ إِذَا حَلَّ بِكُمُ الْعَذَابُ. فَالْأَوَّلُ فِی الْقَبْرِ، وَالثَّانِی فِی الْآخِرَةِ، فَالتَّكْرَارُ لِلْحَالَتَیْنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خبردار!عنقریب تم جان لوگے،اس سے مرادوہ عذاب ہے جوتمہیں قبرمیں دیاجائے گا ،پھر خبردار! عنقریب تمہیں علم ہوجائے گاسے مرادآخرت کاعذاب ہے،پس پہلی آیت قبرکے بارے میں ہے اوردوسری آیت آخرت کے متعلق ہے ، اورایک جیسے الفاظ کادو مرتبہ آنا دو حالتوں (قبراورآخرت)کوبیان کرنے کے لئے ہے ۔[19]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَهُ:كُنَّا نَشُكُّ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ، حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ، فَأَشَارَ إِلَى أَنَّ قَوْلَهُ: كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ یَعْنِی فِی الْقُبُورِ. وَقِیلَ: كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ

سیدناعلی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے بھی اس آیت کی یہی تفسیربیان کی ہےفرماتے ہیں ہم عذاب قبرکے متعلق شک میں مبتلاتھے کہ سورة التکاثرنازل ہوئی توہمارا شک دورہوگیا،آپ کا اشارہ اس آیت کی طرف تھاخبردارعنقریب تم جان لوگے یعنی قبروں میں تمہیں اپنے عقائدواعمال کے انجام کاعلم ہو جائے گا۔[20]

یہ ضعیف روایت ہے ،اس کی سندمیں موسیٰ بن عبیدہ اور یزیدبن ابان ضعیف راوی ہیں ۔

عقیدہ عذاب قبراس قدراہم ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اثبات عذاب القبر،ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ نے کتاب القبور اور کتاب الاھوال ،امام قرطبی رحمہ اللہ نے التذکرہ ،ابن رجب رحمہ اللہ نے اھوال القبور،حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح اورجلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے شرح الصدورجیسی گراں قدر کتابیں لکھی ہیں ، چنانچہ لوگوں کوقبرکے حالات پرغوروخوض کرنے اورقبرمیں پیش آنے والے واقعات کی فکرکرنے کی رغبت دلاتے ہوئے متنبہ کیاگیاکہ اے انسانوں !میرے احکام سے روگردانی ، اطاعت رسول سے اعراض اور ذکرالٰہی سے غفلت کاجوراستہ تم نے اختیارکررکھاہےاگرتم اس سے بازنہ آئے اوردینوی جاہ وجلال اورمال ومنال کی طلب اور حصول میں اسی طرح مشغول رہے تو موت کاذائقہ چکھنے کے بعد قبرمیں تمہیں تمہارے اعتقادات ونظریات اوراعمال وافعال کے نتائج سے آگاہ کیاجائے گا اور تمہیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گاکہ تم کتنے غلط کار،نافرمان اورروگردان تھے،اورتم نے دنیاکی حرص وہوس میں آخرت کوبھلاکرکیساخسارے ،گھاٹے اور نقصان کا سوداکیا ،ابتداسے لے کرانتہاتک انسان کو پانچ ادوار سے واسطہ پڑتاہے،اورہردورکی کیفیت دوسرے دورکی کیفیت سے یکسرمختلف ہے۔

x جب روحوں کوآدم علیہ السلام کی پشت سے نکالاگیااورانہیں عقل اورقوت گویائی عطافرماکراپنی ربوبیت عامہ کا عہدلیاتھا،جیسے فرمایا

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّــتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰی۔۔۔ ۝۱۷۲ۙ [21]

ترجمہ:اور اے نبی ! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے کہاضرورآپ ہی ہمارے رب ہیں ۔

اس کوعالم ارواح کہتے ہیں اوراسی سے انسانی زندگی کے سفرکی ابتداہوئی تھی۔

x اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سےرحم مادرمیں نوماہ تک جسم کی تخلیق فرماتا ہے اوردنیامیں بھیجنے سے پہلےانسان کوہرطرح کی صلاحیتیں بخشی جاتی ہیں ،اس کو عالم بطن کہتے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِیْنٍ۝۱۲ۚثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۝۱۳۠ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۝۱۴ۭ [22]

ترجمہ:ہم نے انسان کومٹی کے ست سے بنایاپھراسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوندمیں تبدیل کیا،پھراس بوندکولوتھڑے کی شکل دی ،پھرلوتھڑے کوبوٹی بنادیا،پھربوٹی کی ہڈیاں بنائیں ،پھرہڈیوں پرگوشت چڑھایاپھراسے ایک دوسری ہی مخلوق بناکھڑاکیاپس بڑاہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھاکاریگر۔

ایک مقام پر فرمایا :

۔۔۔حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا۔۔۔ ۝۱۵ [23]

ترجمہ:اس کی ماں نے مشقت اٹھاکراسے پیٹ میں رکھااورمشقت اٹھاکرہی اس کوجنا۔

x رحم مادرسے باہرآنے سے لے کرموت تک کے عرصہ کوعالم دنیایاعالم حیات کہتے ہیں یہ امتحان کادورہے،یہ دورختم ہونے کے بعدایک وقت مقررہ پرہرذی روح کوچاہے وہ اللہ کاپیغمبر ہو،صالح یابدکارانسان ہوموت کاذائقہ چکھناہے،جیسے فرمایا:

اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ۝۳۰ۡ [24]

ترجمہ(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) تمہیں بھی مرناہے اوران لوگوں کوبھی مرنا ہے ۔

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ۝۳۴كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً۝۰ۭ وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ۝۳۵ [25]

ترجمہ:اوراے نبی،ہمیشگی توہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لئے نہیں رکھی ہےاگرتم مروگے توکیایہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کوموت کامزہ چکھناہے۔

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۔۔۔ [26]۝۱۴۴

ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اس کے سواکچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ،ان سے پہلے اوررسول بھی گزرچکے ہیں پھرکیااگروہ مر جائیں یاقتل کردیے جائیں توتم الٹے پاؤ ں پھرجاؤ گے؟۔

x موت کے وقت سے لے کردوبارہ اٹھنے تک کے طویل ترین دورکو عالم برزخ کہتے ہیں ۔

۔۔۔وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۱۰۰ [27]

ترجمہ:اب ان سب (مرنے والوں )کے پیچھے ایک برزخ حائل ہےدوسری زندگی کے دن تک۔

x دنیاوی جسم وجاں کے ساتھ قبروں سے اٹھائے جانے اورمحاسبہ اعمال کے بعدحقیقی قیام گاہ ،جنت یاجہنم میں دائمی زندگی کوعالم آخرت کہاجاتاہے۔

جولوگ عذاب قبر،حیات بعدالموت اورجزاوسزا کے منکرہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جوشخص آگ میں جل کرراکھ ہوگیااوراس کے ذرات ہوامیں منتشرہوگےیاجوشخص پانی میں ڈوب مرااوراس کاجسم پانی کی مخلوق نے کھا کر برابر کر دیا تو اس کوجب قبر نصیب ہی نہیں ہوئی تو عذاب قبرکیسے ہوگا؟ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کواس پرقادرنہیں سمجھتے کہ وہ انسان کے ذرات کو اکٹھا کرکے عدالت میں کھڑاکرسکتاہے ،اس کی وضاحت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زمانے کے ایک ایسے شخص کاذکرفرمایاجسے اللہ تعالیٰ نے وافرمال اور اولاد عطا فرما رکھی تھی ،

قَالَ حُذَیْفَةُ وَسَمِعْتُهُ یَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا حَضَرَهُ المَوْتُ، فَلَمَّا یَئِسَ مِنَ الحَیَاةِ أَوْصَى أَهْلَهُ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَاجْمَعُوا لِی حَطَبًا كَثِیرًا، وَأَوْقِدُوا فِیهِ نَارًا، حَتَّى إِذَا أَكَلَتْ لَحْمِی وَخَلَصَتْ إِلَى عَظْمِی فَامْتُحِشَتْ، فَخُذُوهَا فَاطْحَنُوهَا، ثُمَّ انْظُرُوا یَوْمًا رَاحًا فَاذْرُوهُ فِی الیَمِّ ،فَفَعَلُوا فَجَمَعَهُ اللَّهُ فَقَالَ لَهُ: لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: مِنْ خَشْیَتِكَ، فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب ایک شخص کی موت کاوقت آگیااوروہ اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہوگیاتواس نے اپنے گھروالوں کووصیت کی کہ جب میں مرجاؤ ں تومیرے لئے بہت ساری لکڑیاں جمع کرنااوران میں آگ لگادینا،جب آگ میرے گوشت کوجلاچکے اورآخری ہڈی کوبھی جلادے توان جلی ہوئی ہڈیوں کوپیس ڈالنااورکسی تندوتیزہواوالے دن کا انتظار کرنا اور (ایسے کسی دن) میری راکھ کوہوامیں اڑادینا اس کے گھروالوں نے وصیت کے مطابق کام کیالیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کوجمع کیااوراس سے پوچھا توتم ایساکیوں کروایاتھا؟ اس نے عرض کیااے میرے رب!میں نے تیرے خوف اورڈرسے یہ کام کیاتھا،رب العالمین نے اسی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی۔[28]

x موت کاعمل اس وقت شروع ہوتاہے جب عزائیل علیہ السلام انسان کی جان قبض کرنے کے لئے آتے ہیں اوراس وقت مرنے والے کوفرشتوں کے برتاؤ سےخوب احساس ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ عالم برزخ میں کیاسلوک کیاجانے والاہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب کفارومشرکین کی روحیں قبض کرنے کے لئے ملائکہ آتے ہیں توسختی سے روح قبض کرتے ہیں ۔

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِهِمْ۝۰۠ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۲۸ فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ۝۲۹ [29]

ترجمہ:ہاں انہی کافروں کے لئے جواپنے نفس پرظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتارہوتے ہیں تو(سرکشی چھوڑکر)فوراًڈگیں ڈال دیتے ہیں اورکہتے ہیں ہم توکوئی قصورنہیں کر رہے تھے ،ملائکہ جواب دیتے ہیں کرکیسے نہیں رہے تھے ! اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے ،اب جاؤ جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ وہیں تم کوہمیشہ رہناہے ،پس حقیقت یہ ہے کہ بڑاہی بڑاٹھکانہ ہے متکبروں کے لئے ۔

اس کے برعکس متقیوں کی روح قبض کرنے کے لئے خوبصورت اورروشن چہروں والے ملائکہ کو جنت سے خوشبوداراورسفیدرومال دے کربھیجاجاتاہے۔

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَیِّبِیْنَ۝۰ۙ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ۝۰ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۳۲ [30]

ترجمہ:ان متقیوں کوجن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں توکہتے ہیں تم پر سلام ہو اپنے اعمال کے بدلےجنت میں جاؤ ۔

وَعَن الْبَراء بن عَازِب رَضِی الله عَنهُ قَالَ خَرَجْنَا فِی جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَیْنَا إِلَى الْقَبْرِ وَلَمَّا یُلْحَدُ قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِنَا الطَّیْرَ، وَفِی یَدِهِ عُودٌ یَنْكُتُ بِهِ ِ ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، وَقَالَ:اسْتَعِیذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِفَإِنَّ الرَّجُلَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ نَزَلَ إِلَیْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ بِیضُ الْوجُوهِ كَأَنَّ عَلَى وُجُوهِهِمُ الشَّمْسَ، مَعَهُمْ حَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ، وَكَفَنٌ مِنْ كَفَنِ الْجَنَّةِ، حَتَّى یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَیَقُولُ: أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِی إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ایک انصاری کے جنازے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ قبرستان کی طرف گئے،جب قبرپرپہنچے توقبرابھی تیارنہیں ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرماہوئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگردانتہائی خاموشی سے بیٹھ گئے جیسے سروں پرپرندے بیٹھے ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کوکریدرہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناسرمبارک اوپراٹھاکردویاتین مرتبہ فرمایا، عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو پھرآپ نے فرمایابے شک مومن جب دنیاسے رخصت ہوکرآخرت کی طرف روانہ ہونے لگتاہے تواس کے پاس آسمان سے سفیدچہروں والے فرشتے آتے ہیں ،ان کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں ،ان کے پاس جنت کالباس اور جنت کی خوشبوہوتی ہے،وہ مومن سے حدنگاہ کے فاصلے پربیٹھ جاتے ہیں پھرملک الموت آتاہے اوراس کے سرہانے بیٹھ کرکہتاہے اے پاک روح!تواللہ تعالیٰ کی مغفرت اوررضاکی جانب نکل آ

فَتَخْرُجُ نَفْسُهُ فَتَسِیلُ كَمَا تَسِیلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِیِّ السِّقَاءِ، فَأَخَذَهَا فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ یَدَعُوهَا فِی یَدِهِ طَرْفَةَ عَیْنٍ حَتَّى یَأْخُذُوهَا فَیَجْعَلُوهَا فِی ذَلِكَ الْكَفَنِ وَفِی ذَلِكَ الْحَنُوطِ ثُمَّ یَخْرُجُ مِنْهَا كَأَطْیَبِ نَفْحَةِ رِیحِ مِسْكٍ وُجِدَتْ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ، فَلَا یَمُرُّونَ بِمَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا: مَا هَذِهِ الرِّیحُ الطَّیِّبَةُ؟ فَیَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَحْسَنِ أَسْمَائِهِ الَّتِی كَانَ یُسَمَّى بِهَا فِی الدُّنْیَا حَتَّى یُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیُفْتَحُ لَهُ فَیُشَیِّعُهُ مِنْ كُلِّ سَمَاءٍ مُقَرَّبُوهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِی تَلِیهَا حَتَّى یُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروح اس قدرآرام اورآسانی کے ساتھ نکل آتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کاقطرہ بہہ نکلتا ہے ،چنانچہ ملک الموت اس روح کوپکڑلیتاہے ،وہ روح موت کے فرشتے کے ہاتھ میں لمحہ بھرہی رہتی ہے کہ دوسرے فرشتے اس روح کوملک الموت کے ہاتھ میں آنکھ جھپکنے کے برابر(عرصے تک)بھی نہیں رہنے دیتے کہ اس سے لے لیتے ہیں ،پھراسے لے کرجنتی لباس اورجنتی خوشبومیں لپیٹ لیتے ہیں ،اس روح سے زمین میں پائی جانے والی کستوری سے بھی نہایت عمدہ مہک کی طرح خوشبوپھیل رہی ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر فرشتے اس روح کولے کرآسمان کی طرف چڑھتے ہیں ،وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے بھی گزرتے ہیں تووہ (فرشتوں کی جماعت)پوچھتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کس آدمی کی ہے ؟ فرشتے جواب میں اس آدمی کانام بتاتے ہیں کہ یہ فلاں کا بیٹافلاں ہے،اس کاوہ نہایت عمدہ نام بتلاتے ہیں جس سے وہ دنیامیں پکاراجاتاتھا،یہاں تک کہ فرشتے اس روح کولے کرآسمان دنیاتک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کادروازہ کھولنے کی درخواست کرتے ہیں تواس کے لئے آسمان کا دروازہ کھول دیاجاتاہے ،پس اس آسمان کے فرشتے اگلے آسمان تک اس روح کو الوداع کہنے کے لئے ساتھ جاتے ہیں یہاں تک کہ اس روح کوساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتاہے،

فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِی فِی عِلِّیِّینَ فِی السَّمَاءِ السَّابِعَةِ وَأَعِیدُوهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَإِنِّی مِنْهَا خَلَقْتُهُمْ وَفِیهَا أُعِیدُهُمْ وَمِنْهَا أُخْرِجُهُمْ تَارَةً أُخْرَى

اب اللہ عزوجل کی طرف سے حکم دیاجاتاہے کہ میرے اس بندے کانام عِلِّیِّینَ میں لکھ دواوراسے دوبارہ زمین میں لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں مٹی سے پیداکیاہے ،اسی میں انہیں دوبارہ لے جاؤ ں گا اور اسی سے قیامت کواٹھاؤ ں گا۔[31]

x جب نیک ا وربری روح کا جنازہ لے جایا جارہا ہوتاہے تواس وقت میت کہہ رہی ہوتی ہے۔

أَبَا سَعِیدٍ الخُدْرِیَّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِذَا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ، فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ: قَدِّمُونِی،وَإِنْ كَانَتْ غَیْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لِأَهْلِهَا: یَا وَیْلَهَا أَیْنَ یَذْهَبُونَ بِهَا یَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَیْءٍ إِلَّا الإِنْسَانُ، وَلَوْ سَمِعَ الإِنْسَانُ لَصَعِقَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب میت چارپائی پررکھی جاتی ہے اورلوگ اسے کندھوں پراٹھالیتے ہیں اس وقت اگروہ مرنے والا نیک ہوتاہے توکہتاہے مجھے جلدی لے چلو لیکن اگروہ نیک نہیں ہوتا توکہتاہے ہائے بربادی! مجھے کہاں لے جارہے ہو؟میت کی یہ آوازانسانوں کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے ،کہیں اگر انسان مردے کی اس آواز کوسن لیں توبے ہوش ہوجائیں ۔[32]

جنازہ اٹھائے وقت اللہ تعالیٰ برزخی زبان میت کوعطاکردیتاہےجس میں وہ اگرجنتی ہے توجنت کے شوق میں کہتاہے کہ مجھ کوجلدی جلدی لے چلوتاکہ جلداپنی مرادکوحاصل کروں اوراگروہ دوزخی ہے تووہ گھبراگھبراکرکہتاہے کہ ہائے مجھے کہاں لئے جارہے ہو؟اس وقت اللہ تعالیٰ ان کواس طورپرمخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتاہے اوراس آوازکوانسان اورجنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے،اس حدیث سے سماع موتی پربعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جوبالکل غلط ہے،قرآن مجیدمیں صاف سماع موتی کی نفی موجودہے ۔

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى۔۔۔ ۝۸۰ [33]

ترجمہ:تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے۔

اگرمرنے والے ہماری آوازیں سن پاتے توان کومیت ہی نہ کہاجاتااس لئے جملہ ائمہ ہدیٰ نے سماع موتی کاانکارکیاہے ،جولوگ سماع موتی کے قائل ہیں ان کے دلائل بالکل بے وزن ہیں ۔

قبرمیت کودباتی ہے:

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:هَذَا الَّذِی تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ،وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِوَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسعدبن معاذوہ شخص ہے جس(کی وفات پراللہ تعالیٰ کا)عرش(ان کے استقبال کی خوشی میں ) جھوم گیاجس کے لئے آسمانوں کے(سارے)دروازے کھول دیئے گئے،جس (کے جنازہ)میں سترہزارفرشتے شریک ہوئے،اسے بھی قبرنے ایک مرتبہ دبایاپھرفراغ ہوگئی۔[34]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:قَالَ:ضُمَّ سَعْدٌ فِی الْقَبْرِ ضَمَّةً فَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ یَكْشِفَ عَنْهُ

عبداللہ بن عمرسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسعدقبرمیں دبائے گئے،میں نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ اس سے یہ تکلیف دورفرمادے(اوراللہ نے دورفرمادی)۔[35]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرِهِ وَهُوَ یُدْفَنُ، فَبَیْنَمَا هُوَ جَالِسٌ إِذْ قَالَ: سُبْحَانَ اللهِ مَرَّتَیْنِ، فَسَبَّحَ الْقَوْمُ، ثُمَّ قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ فَكَبَّرَ الْقَوْمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَهَذَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ شَدَّدَ اللهُ عَلَیْهِ فِی قَبْرِهِ حَتَّى كَانَ هَذَا حِینَ فُرِّجَ عَنْهُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب سعد رضی اللہ عنہ دفن کیے گئے اورہم قبرکے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ وفعة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ کہااورباقی حضرات نے بھی آپ کے ساتھ سبحان اللہ کہا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر،اللہ اکبر کہاتوحاضرین نے بھی اللہ اکبر،اللہ اکبر کہا،صحابہ نے دریافت کیاکہ آپ نے کس بات پر سبحان اللہ اوراللہ اکبر،اللہ اکبر فرمایاتھا،آپ نے فرمایااس نیک بندے کی قبرتنگ ہوگئی تھی مگراللہ تعالیٰ نے اس میں وسعت پیدافرمادی۔[36]

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ لِلْقَبْرِ ضَغْطَةً، وَلَوْ كَانَ أَحَدٌ نَاجِیًا مِنْهَا نَجَا مِنْهَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ

اور ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاایک دفعہ قبرمیت کوضروردباتی ہے اگرکوئی اس سے نجات پاسکتاتوسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اس سے ضرورنجات پاتے۔ [37]

x جب میت کودفن کردیاجاتاہے تومردہ کووقتی پر عزیزوا قارب،دوست واحباب اور واقف کاروں کے لوٹتے پاؤ ں کی آہٹ سنائی جاتی ہے تاکہ اسے یقین کامل ہو جائے کہ اس کادنیاسے رابطہ منقطع ہوچکا ہے ،اورجن اہل وعیال ،عزیزواقارب ،اوررفیقوں کے لئے جائزوناجائزکام کرتارہاہوں ،اللہ کی نافرمانیاں کرتارہاہےوہ اسے قبرمیں بے یارومددگار چھوڑ کر واپس جارہے ہیں ۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْعَبْدَ، إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِهِ، وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب بندہ اپنی قبرمیں دفن کردیاجاتاہے اوراس کے ساتھی واپس لوٹتے ہیں تومیت ان کے پاؤ ں کی آواز سنتی ہے ۔[38]

قبرمیں منکرنکیر کے سوال وجواب کے لئے میت کے جسم میں عارضی طورپراس کی روح لوٹادی جاتی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ذَكَرَ فَتَّانَ الْقُبُورِ فَقَالَ عُمَرُ: أَتُرَدُّ عَلَیْنَا عُقُولُنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَعَمْ، كَهَیْئَتِكُمُ الْیَوْمَ،فَقَالَ عُمَرُ: بِفِیهِ الْحَجَرُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر میں آزمائش کرنے والے فرشتوں کا ذکر فرمایاتوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیاہمیں وہاں ہماری عقل وسمجھ لوٹادی جائے گی ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (قبرمیں )آج کی طرح عقل وشعوردیاجائے گاتوسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہاپھرتومیں اس فرشتے کے منہ پر پتھردے ماروں گایعنی اسے خاموش کرادوں گا۔ [39]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،براء بن عازب رضی اللہ عنہ ،جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ،اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ اورعائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سب کی روایت میں یہی ہے کہ منکر نکیر کے سوالات کے لئے روح قبرمیں لوٹا دی جاتی ہےمگربعض فقہااورمتکلمین اس مسئلہ میں مختلف الرائے ہیں ،بعض کاخیال ہے کہ صرف روح سے اوربعض کے مطابق صرف جسم سے سوال و جواب ہوتا ہے ۔

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں حوض کوثر،شفاعت ،عذاب قبر،ملک الموت کاروحوں کوقبض کرنا اورقبروں میں اجسام کی طرف لوٹائے جانے اورایمان وتوحیدکے متعلق سوال ہونے پرایمان رکھناضروری ہے۔ [40]

وإعادة الرّوح إِلَى الْجَسَد فِی قَبره حق

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اورقبرمیں میت کی طرف روح کالوٹایاجانابرحق ہے ۔ [41]

وسؤال مُنكر وَنَكِیر حق كَائِن فِی الْقَبْر وإعادة الرّوح إِلَى الْجَسَد فِی قَبره حق وضغطة الْقَبْر وعذابه حق

ایک مقام پرفرماتے ہیں منکرنکیرکے سوال حق ہے،اورقبرمیں میت کی طرف روح کالوٹایاجانابرحق ہے،قبرکامردہ کودباناحق ہے اورعذاب قبربرحق ہے۔[42]

قَالَ ابو حنیفَة من قَالَ لَا اعرف عَذَاب الْقَبْر فَهُوَ من الْجَهْمِیة الهالكة لِأَنَّهُ انكر قَوْله تَعَالَى {سَنُعَذِّبُهُمْ مرَّتَیْنِ} یَعْنِی عَذَاب الْقَبْر

ایک مقام پرفرماتے ہیں جوشخص یہ کہتاہے کہ میں عذاب قبرکوتسلیم نہیں کرتاتووہ فرقہ جہمیہ سے تعلق رکھتاہے اوراللہ تعالی کے قول ہم انہیں دومرتبہ عذاب سے دوچارکریں گے کونہیں مانتا یعنی عذاب قبر۔

الْأَحَادِیث الصَّحِیحَة المتواترة تدل على عود الرّوح إِلَى الْبدن وَقت السُّؤَال وسؤال الْبدن بِلَا روح قَول قَالَه طَائِفَة من النَّاس وَأنْكرهُ الْجُمْهُور وقابلهم آخَرُونَ فَقَالُوا السُّؤَال للروح بِلَا بدن وَهَذَا قَالَه ابْن مرّة وَابْن حزم وَكِلَاهُمَا غلط وَالْأَحَادِیث الصَّحِیحَة ترده وَلَو كَانَ ذَلِك على الرّوح فَقَط لم یكن للقبر بِالروحِ اخْتِصَاص

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں صحیح اورمتواتراحادیث اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ سوالات کے وقت روح بدن میں لوٹادی جاتی ہے ،روح کے بغیرصرف بدن ہی سے سوال کے بھی بعض لوگ قائل ہیں مگرجمہورنے اس کاانکارکیاہے ،اسی طرح بعض کے نزدیک محض روح سے سوال ہوتاہے بدن سے نہیں جیساکہ ابن مرہ رحمہ اللہ اورابن حزم رحمہ اللہ کی رائے ہے مگریہ دونوں باتیں غلط ہیں اورصحیح احادیث کی روشنی میں باطل ہیں ،اگرسوال محض روح ہی سے ہوتاتوروح کے لئے قبرکی خصوصیت نہ ہوتی۔[43]

فهؤلاء السلف كلهم صرحوا بأن الروح تعاد إلى البدن عند السؤال وصرح بمثل ذلك طوائف من الفقهاء والمتكلمین من أصحابنا وغیرهم كالقاضی أبی یعلى وغیره

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں ان سب ائمہ سلف نے صراحت فرمائی ہے کہ سوالات کے وقت روح کا جسم کی طرف لوٹایا جانا ایک مستندامرہے اوراسی طرح ہمارے ساتھیوں میں سے فقہااورمتکلمین کی جماعتوں نے بھی اس کی صراحت کی ہے جیسے قاضی ابویعلی وغیرہ ہیں ۔

 وَقد أَخذ بن جَرِیرٍ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْكَرَّامِیَّةِ مِنْ هَذِهِ الْقِصَّةِ أَنَّ السُّؤَالَ فِی الْقَبْرِ یَقَعُ عَلَى الْبَدَنِ فَقَطْ وَأَنَّ اللَّهَ یَخْلُقُ فِیهِ إِدْرَاكًا بِحَیْثُ یسمع وَیعلم ویلذ ویألم، وَذهب بن حزم وبن هُبَیْرَةَ إِلَى أَنَّ السُّؤَالَ یَقَعُ عَلَى الرُّوحِ فَقَطْ مِنْ غَیْرِ عَوْدٍ إِلَى الْجَسَدِ وَخَالَفَهُمُ الْجُمْهُورُفَقَالُوا تُعَادُ الرُّوحُ إِلَى الْجَسَدِ أَوْ بَعْضِهِ كَمَا ثَبَتَ فِی الْحَدِیثِ، وَلَوْ كَانَ عَلَى الرُّوحِ فَقَطْ لَمْ یَكُنْ لِلْبَدَنِ بِذَلِكَ اخْتِصَاصٌ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذَلِكَ كَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَتَفَرَّقُ أَجْزَاؤُهُ لِأَنَّ اللَّهَ قَادِرٌ أَنْ یُعِیدَ الْحَیَاةَ إِلَى جُزْءٍ مِنَ الْجَسَدِ وَیَقَعُ عَلَیْهِ السُّؤَالُ كَمَا هُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ یَجْمَعَ أَجْزَاءَهُ

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں بلاشبہ اس واقعہ سے ابن جریراورفرقہ کرامیہ کے ایک گروہ نے یہ دلیل لی ہے کہ قبرمیں سوال صرف بدن سے ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ اس بدن میں ایساادراک پیدافرمادیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سنتااورجانتا،لذت اوردردبھی محسوس کرتاہے جبکہ ابن حزم رحمہ اللہ اورابن ہبیرہ رحمہ اللہ کامذہب یہ ہے کہ صرف روح سے بغیرجسم کی طرف لوٹائے سوال ہوتاہے لیکن جمہورعلماء نے ان سب کی مخالفت کی ہے،جمہورکامسلک یہ ہے کہ روح کوجسم یااس کے بعض حصے کی طرف لوٹایاجاتاہے جیساکہ صحیح احادیث سے ثابت ہےکیونکہ اگریہ ساری کاروائی فقط روح سے وابستہ ہوتی توبدن کی اس میں کوئی خصوصیت نہ ہوتی (حالانکہ بدن اس میں ملحوظ ہے)اوراس میں بھی کوئی امتناع نہیں کہ کبھی میت کے اجزابالکل بکھرجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات پرقادرہے کہ بدن کے ایک حصے کی طرف روح لوٹادے اوراس سے سوال ہوجیساکہ وہ تمام اجزاکے جمع کرنے پرقادرہے۔ [44]

( فَتُعَادُ رُوحُهُ فِی جَسَدِهِ) ظَاهِرُ الْحَدِیثِ أَنَّ عَوْدَ الرُّوحِ إِلَى جَمِیعِ أَجْزَاءِ بَدَنِهِ،فَلَا الْتِفَاتَ إِلَى قَوْلِ الْبَعْضِ بِأَنَّ الْعَوْدَ إِنَّمَا یَكُونُ إِلَى الْبَعْضِ وَلَا إِلَى قَوْلِ ابْنِ حَجَرٍ إِلَى نِصْفِهِ فَإِنَّهُ لَا یَصِحُّ أَنْ یُقَالَ مِنْ قِبَلِ الْعَقْلِ بَلْ یَحْتَاجُ إِلَى صِحَّةِ النَّقْلِ

جسم کے بعض اجزاکی طرف روح لوٹائے جانے والی بات کی تردیدکرتے ہوئے علامہ علی قاری رحمہ اللہ کہتے ہیں حدیث کے الفاظ پھراس کے جسم کی طرف اس کی روح لوٹادی جاتی ہے کاظاہراسی بات کاتقاضاکرتاہے کہ روح کالوٹایاجاناسارے بدن کی طرف ہوتاہے ،لہذاان چندلوگوں کے قول کی طرف توجہ نہیں کی جاسکتی جویہ کہتے ہیں کہ عودروح بدن کے بعض حصے کی طرف ہوتی ہے،اورنہ ہی ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کی طرف التفات کیاجاسکتاہے جونصف بدن کی طرف اعادہ روح کے قائل ہیں کیونکہ محض عقلا ًایساکہنادرست نہیں اس میں صحت نقل ضروری ہے۔ [45]

إِن الْأَرْوَاح تُعَاد إِلَى الأجساد عِنْد الْمَسْأَلَة وَهُوَ قَول الْأَكْثَر من أهل السّنة

علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ کہتے ہیں بلاشبہ قبرمیں سوال کے وقت روحوں کوان کے اجسام کی طرف لوٹادیاجاتاہے اوریہ قول اہل سنت کی اکثریت کاہے۔ [46]

وَالشَّرْعُ لَا یَأْتِی بِمَا تُحِیلُهُ الْعُقُولُ وَلَكِنَّهُ قَدْ یَأْتِی بِمَا تَحَارُ فِیهِ الْعُقُولُ، فَإِنَّ عَوْدَ الرُّوحِ إِلَى الْجَسَدِ لَیْسَ عَلَى الْوَجْهِ الْمَعْهُودِ فِی الدُّنْیَابَلْ تُعَادُ الرُّوحُ إِلَیْهِ إِعَادَةً غَیْرَ الْإِعَادَةِ الْمَأْلُوفَةِ فِی الدُّنْیَا

علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ فرماتے ہیں شریعت ایسی باتوں کاذکرنہیں کرتی جن کوعقلیں محال سمجھیں البتہ ایسی باتوں کاذکرضرورکرتی ہے جس میں عقلیں حیران ہوتی ہیں ،پس یقین کرلوکہ روح کاجسم کی طرف لوٹایاجانااس طرح کانہیں جس طرح دنیامیں معروف ہے بلکہ روح کااعادہ اس اعادہ کے خلاف ہے جودنیامیں معلوم ہے۔[47]

پھراللہ کی طرف سے دوفرشتے آتے ہیں جنہیں منکراورنکیر کہاجاتا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا قُبِرَ المَیِّتُ أَوْ قَالَ: أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، یُقَالُ لِأَحَدِهِمَا: الْمُنْكَرُ، وَلِلْآخَرِ: النَّكِیرُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب میت کوقبرمیں دفن کردیا جاتاہے تواس کے پاس دوفرشتے آتے ہیں جن کے رنگ سیاہ اورآنکھیں نیلی ہوتی ہیں ان میں سے ایک کومنکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔[48]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: شَهِدْنَا جَنَازَةً مَعَ نَبِیِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ دَفْنِهَا وَانْصَرَفَ النَّاسُ قَالَ نَبِیُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّهُ یَسْمَعُ الْآنَ خَفْقَ نِعَالِكُمْ، أَتَاهُ مُنْكَرٌ وَنَكِیرٌ، أَعْیُنُهُمَا مِثْلُ قُدُورِ النُّحَاسِ، وَأَنْیَابُهُمَا مِثْلُ صَیَاصِی الْبَقَرِ، وَأَصْوَاتُهُمَا مِثْلُ الرَّعْدِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں ان کاحلیہ یوں بیان کیا گیاہےہم ایک جنازے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے جب ہم اس کودفن کرکے فارغ ہوئے اورلوگ واپس جانے لگے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب یہ تمہارے جوتوں کی آہٹ سنے گااوراس کے پاس منکرنکیرآئے ہیں جن کی آنکھیں تانبے کے دیگچے جیسی ،ان کے دانت گائے کے سینگ کی ماننداوران کی آوازبادلوں کی بجلی کی طرح گرجدارہے۔[49]

منکرنکیروحشت کاماحول پیدا کرنے کے لئے اپنے دانتوں سے زمین کواکھیڑتے اورزوردارآوازیں نکالتے ہوئے قبرمیں میت کے پاس آتے ہیں ،

عَنِ الْبَرَاءِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ فِیهِ اسْمَ الْمَلَكَیْنِ فَقَالَ فِی ذِكْرِ الْمُؤْمِنِ:فَیُرَدُّ إِلَى مَضْجَعِهِ فَیَأْتِیهِ مُنْكَرٌ، وَنَكِیرٌ یُثِیرَانِ الْأَرْضَ بِأَنْیَابِهِماْ، وَیُلْحِقَانِ الْأَرْضَ بِأَشْفَاهِهِمَا

براء بن عازب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن آدمی کی قبرکاذکرکرتے ہوئے فرمایاپھراس کے پاس منکر اورنکیر اپنے دانتوں سے زمین کواکھیڑتے اورپروں سے زمین کو روندتے ہوئے آتے ہیں ۔[50]

کیونکہ صالح آدمی نے قبرکے لئے تیاری مکمل کی ہوئی ہوتی ہے اس لئے اسے کوئی خوف یاگھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ الْمَیِّتَ یَصِیرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَیُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِی قَبْرِهِ، غَیْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرمیں نیک آدمی کی حالت کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایاجب نیک آدمی کی میت قبرکی طرف لے جائی جاتی ہے پس اسے قبرمیں بٹھایاجاتاہے تواسے کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ اورپریشانی نہیں ہوتی۔[51]

مومن کوجب ہوش آتاہے تواسے ایسامحسوس ہوتاہے کہ نمازعصرکاوقت نکلاچلاجا رہاہے اس لئے ا سے پہلے نماز کی فکرلا حق ہوتی ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا دَخَلَ الْمَیِّتُ الْقَبْرَ، مُثِّلَتِ الشَّمْسُ عِنْدَ غُرُوبِهَا فَیَجْلِسُ یَمْسَحُ عَیْنَیْهِ، وَیَقُولُ: دَعُونِی أُصَلِّی

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب میت کوقبرمیں داخل کیاجاتاہے تو اسے نظرآتاہے جیسے سورج غروب ہونے کے قریب ہے وہ اپنی دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے بیٹھ جاتاہے اور(فرشتوں سے)کہتاہے مجھے چھوڑ دوکہ میں (عصر کی ) نماز ادا کرلوں ۔[52]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَیُقَالُ لَهُ: اجْلِسْ فَیَجْلِسُ قَدْ مُثِّلَتْ لَهُ الشَّمْسُ قَدْ دَنَتْ لِلْغُرُوبِ،فَیُقَالُ لَهُ: هَذَا مَا تَقُولُ فِیهِ؟ فَیَقُولُ: دَعُونِی أُصَلِّی

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھراسے کہا جاتاہے کہ بیٹھ جاؤ تووہ بیٹھ جاتا ہے ،اس کے سامنے سورج اس شکل میں پیش کیاجاتاہے جیسے وہ غروب ہونے کے قریب ہو اس سے پوچھاجاتاہے اس شخص کے متعلق تو کیا کہتاتھاجوتم میں (مبعوث ہوئے)تھے اورتواس کے متعلق کیاگواہی دیتاتھا؟وہ کہتاہے مجھے چھوڑدوتاکہ میں نماز ادا کر لوں ۔[53]

مگراس توحیدپرست شخص کو احساس ہوتاہے کہ یہ عالم برزخ ہے ،نمازکامقام نہیں تووہ بڑے سکون ووقارکے ساتھ منکرنکیرکے سوالات کے جوابات دینے کو تیار ہو جاتا ہے،اللہ تعالیٰ اس انسان کوجس نے رب العالمین کی ذات وصفات اوراختیارات میں کسی دوسرے کوکسی صورت میں شریک نہیں ٹھہرایاہوگاثابت قدمی ، استقلال اور استقامت عطافرماتاہے اورکلمہ توحیدکی برکت سے وہ منکرنکیرکے سوالات کے جوابات دے سکے گا۔

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا أُقْعِدَ المُؤْمِنُ فِی قَبْرِهِ أُتِیَ، ثُمَّ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،فَذَلِكَ قَوْلُهُ: یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالقَوْلِ الثَّابِتِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب مومن کواس کی قبرمیں بٹھادیاجاتاہے تواس کے پاس (منکرنکیر)آتے ہیں ، پھروہ مومن گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اوربے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کایہی مطلب ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اہل ایمان کومضبوط کلمہ توحیدکی وجہ سے دنیااورآخرت میں ثابت قدمی عطافرماتاہے۔‘‘[54]

منکرنکیرجوسوالات کرتے ہیں ان کاتعلق انسان کے عقائدونظریات سے ہے ۔چنانچہ قبرمیں موحد ومشرک، کافر و مسلمان،مومن ومنافق کے درمیان فرق واضح کرنے کے لئے انسان سے صرف چارسوالات کیے جاتے ہیں ،ان کے جوابات سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ بندہ توحیدپرست ہے یامشرک، شقی ہے یاسعید،اہل جنت ہے یااہل النار۔

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:قَالَ:وَیَأْتِیهِ مَلَكَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَیَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَیَقُولُ: رَبِّیَ اللَّهُ ،فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا دِینُكَ؟فَیَقُولُ: دِینِیَ الْإِسْلَامُ،فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیكُمْ؟قَالَ: فَیَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَیَقُولَانِ: وَمَا یُدْرِیكَ؟فَیَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوایُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرمیں مومن میت کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایااس کے پاس دوفرشتے آتے ہیں اوراسے بٹھاتے ہیں اوراسے کہتے ہیں تیرارب کون ہے؟مومن جواب دیتاہے میرارب اللہ تعالیٰ ہے،پھروہ پوچھتے ہیں ؟پھراس سے پوچھتے ہیں تیرادین کیاہے؟وہ جواب دیتاہے میرادین اسلام ہے،وہ کہتےہیں یہ آدمی کون ہے جوتم میں مبعوث کیاگیاتھا؟تووہ کہتا ہےوہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ،پھروہ کہتے ہیں تجھے کیسےعلم ہوا؟وہ کہتاہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پرایمان لایااوراس کی تصدیق کی،یہی(سوال جواب ہی)مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا(جب مومن ان چارسوالات کے صحیح جوابات دے دیتاہے تواس پر نوازشات کانزول شروع ہوجاتاہے)

فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِی فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِوَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِقَالَ:فَیَأْتِیهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِیبِهَا قَالَ:وَیُفْتَحُ لَهُ فِیهَا مَدَّ بَصَرِهِ

پھرآسمان سے منادی کرنے والااعلان کرتاہے،تحقیق میرے بندے نے سچ کہاہے اس کے لیے جنت کابستربچھادواوراس کوجنت کالباس پہنادواس کے لئے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو،فرمایاجنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں ،راحتیں اورخوشبوآنے لگتی ہیں ، اوراس کی قبرکوانتہائے نظرتک وسیع کردیاجاتاہے۔[55]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثُمَّ یُفْسَحُ لَهُ فِی قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِی سَبْعِینَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن شخص کی قبرکوسترگزطول میں اور ستر گز چوڑان میں کشادہ کردیاجاتاہے۔[56]

اس شخص کی قبرکوروشن کردیاجاتاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثُمَّ یُنَوَّرُ لَهُ فِیهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھراس کی قبرکو نورسے بھردیاجاتاہے۔[57]

اس پرہیزگار شخص کی خوشی کے لئے اس کے نیک اعمال کوپاکیزہ اورخوش لباس انسان کی شکل میں اس کے سامنے پیش کیاجاتاہے:

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:قَالَ: وَیَأْتِیهِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ حسن الثِّیَاب طیب الرّیح،فَیَقُول أبشر بِالَّذِی یَسُرك هَذَا یَوْمك الَّذِی كنت توعد فَیَقُول من أَنْت فوجهك الْوَجْه الْحسن یَجِیء بِالْخَیرِ فَیَقُول أَنا عَمَلك الصَّالح، فَیَقُول رب أقِم السَّاعَة رب أقِم السَّاعَة حَتَّى أرجع إِلَى أَهلِی وَمَالِی

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااوراس (پرہیزگار شخص)کے پاس قبرمیں ایک خوبصورت چہرے والاآدمی بہترین لباس پہنے اوراعلیٰ قسم کی خوشبولگائے ہوئے حاضرہوتاہے،اورکہتاہے کہ تجھے خوشی اورمسرت کی بشارت ہو یہی وہ دن ہے جس کاتجھ سے وعدہ کیاگیاتھا، مومن اس کی خوش کن گفتگوسن کرپوچھتاہے کہ تم کون ہو؟تمہاراچہرہ ہی ایساہے جس سے خیروبرکت پھوٹ رہی ہے ؟ وہ کہتاہے میں تمہارانیک عمل ہوں ، تب مومن دعاکرتے ہوئے کہتاہے اے میرے رب !قیامت قائم فرماتاکہ میں اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ جاؤ ں (اورانہیں اپنی کامیابی کی نوید سناؤ ں ) ۔ [58]

جیسے ایک مقام پرفرمایا:

اِنِّىْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِ۝۲۵ۭقِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ۝۰ۭ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ۝۲۶ۙبِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ۝۲۷ [59]

ترجمہ:میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا تم بھی میری بات مان لواور اس شخص سے کہہ دیا گیاکہ داخل ہو جاجنت میں اس نے کہا کاش !میری قوم کو یہ معلوم ہوتاکہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا۔

قبرمیں سوال جواب کے بعدپرہیزگار شخص کوخوشخبری دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے جہنم سے آزادی کااعلان فرمایاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَیُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَیَنْظُرُ إِلَیْهَا یَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًافَیُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّه

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے سامنے جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھولاجاتاہے ،وہ اسے دیکھتاہے کہ آگ کاایک حصہ دوسرے کوکھا رہا ہے (یعنی ہرطرف سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں ) اسے بتایاجاتاہے کہ دیکھو!یہ ہے وہ آگ جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچالیاہے۔ [60]

عذاب جہنم کانظارہ اوراس سے آزادی کی بشارت سنانے کے بعدمومن کوجنت میں اس کامقام دیکھایاجاتاہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ یُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَیَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا، وَمَا فِیهَافَیُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ،وَیُقَالُ لَهُ: عَلَى الْیَقِینِ كُنْتَ، وَعَلَیْهِ مُتَّ، وَعَلَیْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرقبرمیں جنت کی طرف ایک دوسرادریچہ کھولاجاتاہے،وہ وہاں کی تازگی اورلطافت کو دیکھتا ہے تواسے کہا جاتا ہے یہی تمہارا ٹھکانہ ہے اوراس سے کہاجاتاہےتم نے ایمان ویقین پرزندگی بسرکی اوراایمان کی حالت میں تمہیں موت آئی اور ان شاء اللہ حشرکے دن ایمان ہی کی حالت میں اٹھائے جاؤ گے۔ [61]

راحت ،اطمینان اورسکون کاماحول پیداکرکے اس شخص کوسلادیاجاتاہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ثُمَّ یُقَالُ لَهُ، نَمْ،فَیَقُولُ: أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِی فَأُخْبِرُهُمْ، فَیَقُولَانِ: نَمْ كَنَوْمَةِ العَرُوسِ الَّذِی لَا یُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَیْهِ ،حَتَّى یَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھراس کو کہا جاتا ہے کہ سوجا،وہ بندہ کہتاہے میں اپنے اہل وعیال کے پاس واپس جاناچاہتاہوں تاکہ انہیں (اپنی کامیابی وکامرانی اورنیک انجام) کی اطلاع دوں (تاکہ وہ بھی میرے جیسے اعمال اختیارکریں اور اس نعمت کوپائیں )اس کے جواب میں منکرنکیرکہتے ہیں کہ (یہاں سے واپسی توممکن نہیں ہے البتہ)اب تم دلہن کی طرح سوجاؤ جسے اس کے خاوندکے سواکوئی بیدارنہیں کرسکتا(چنانچہ پرہیزگارشخص سو جاتاہے) یہاں تک کہ حشرکے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کی خواب گاہ سے بیدارکرے گا۔ [62]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸ [63]

ترجمہ:جولوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اوررنج کاموقع نہ ہوگا۔

۔۔۔فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی۝۱۲۳ [64]

ترجمہ:جوکوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گاوہ نہ بھٹکے گانہ بدبختی میں مبتلاہوگا۔

یہودی بھی عذاب قبرکے قائل تھےمگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیسیوں احادیث کے باوجودفرقہ معتزلہ عذاب قبرکوتسلیم نہیں کرتے،اسی طرح بعض لوگوں کایہ عقیدہ ہے کہ عذاب وثواب اس جسدعنصری کونہیں ملتابلکہ عالم برزخ میں روح کوایک مثالی جسم دیاجاتاہے جوروح کے ساتھ عذاب سے دوچارہوتاہے ،بعض لوگوں کایہ خیال ہے کہ میت کواس ارضی قبرمیں عذاب نہیں ہوتابلکہ کسی برزخی قبرمیں ہوتاہے ،مگریہ سب غلط اورمن گھڑت نظریات ہیں ،صحیح عقیدہ یہی ہے کہ انسان کے جسدعنصری کوہی اسی ارضی قبرمیں عذاب یا ثواب ملتاہے،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ یَهُودِیَّةً دَخَلَتْ عَلَیْهَا، فَذَكَرَتْ عَذَابَ القَبْرِ، فَقَالَتْ لَهَا: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ القَبْرِفَقَالَ:نَعَمْ، عَذَابُ القَبْرِقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلاَةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہےایک دن ایک یہودیہ عورت میرے پاس آئی اوراس نے میرے سامنے عذاب قبرکاتذکرہ کرتے ہوئے مجھے دعادی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبرکے عذاب سے محفوظ رکھے،اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبرکے متعلق اس کی وضاحت چاہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں عذاب قبربرحق ہے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعدمیں نے کبھی ایسانہیں دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نمازپڑھی ہواوراس میں عذاب قبرسے اللہ کی پناہ نہ مانگی ہو۔ [65]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہیں اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنہم کی عظیم بشارت دی اوربعض کوان کی زندگی ہی میں جنت کی خوشخبری سنائی گئیں مگر جب انہوں نے فتنہ قبرکاحال سناتوان کی چیخیں نکل گئیں ،

أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، تَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطِیبًا فَذَكَرَ فِتْنَةَ القَبْرِ الَّتِی یَفْتَتِنُ فِیهَا المَرْءُ، فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ المُسْلِمُونَ ضَجَّةً حَالَتْ بَیْنِی وَبَیْنَ أَنْ أَفْهَمَ آخِرَ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَكَنَتْ ضَجَّتُهُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِیبٍ مِنِّی: أَیْ بَارَكَ اللَّهُ فِیكَ، مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ:قَدْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِی الْقُبُورِ قَرِیبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ

اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرکے امتحان کاتذکرہ فرمایاجہاں انسان کومبتلاجانچاجاتاہے،جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ قبرکاذکرفرمارہے تھے تومسلمانوں کی(روروکر) ہچکیاں بندھ گئیں اس وجہ سے میں آپ کی بات نہ سمجھ سکی،پھرجب ان کی چیخیں بندہوگئیں تومیں نے ایک شخص سے کہاجومیرے قریب ہی بیٹھاتھااللہ آپ کوبرکت دے !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے کے آخرمیں کیا فرمایاہے؟اس نے کہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے یقین کرلومیری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ بلاشبہ تم لوگ قبروں میں فتنہ دجال جیسی آزمائش ہوگی۔ [66]

عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ:كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جِنَازَةٍ، فَجَلَسَ عَلَى شَفِیرِ الْقَبْرِ، فَبَكَى، حَتَّى بَلَّ الثَّرَى ثُمَّ قَالَ:یَا إِخْوَانِی لِمِثْلِ هَذَا فَأَعِدُّوا

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ایک جنازے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرکے کنارے بیٹھ کررونے لگے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسوؤ ں سے مٹی تر ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااے میرے بھائیو!اس کے لئے کچھ تیاری کرلو۔ [67]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ:فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْ شَیْءٍ كُنْتُ لَمْ أَرَهُ إِلَّا قَدْ رَأَیْتُهُ فِی مَقَامِی هَذَا، حَتَّى الجَنَّةَ وَالنَّارَ وَلَقَدْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِی القُبُورِ مِثْلَ أَوْ قَرِیبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ لاَ أَدْرِی أَیَّتَهُمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ، یُؤْتَى أَحَدُكُمْ، فَیُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا المُؤْمِنُ أَوِ المُوقِنُ، لاَ أَدْرِی أَیَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ – فَیَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَالهُدَى، فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا وَاتَّبَعْنَافَیُقَالُ لَهُ: نَمْ صَالِحًا، فَقَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا وَأَمَّا المُنَافِقُ أَوِ المُرْتَابُ لاَ أَدْرِی أَیَّتَهُمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ – فَیَقُولُ: لاَ أَدْرِی، سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُولُونَ شَیْئًا فَقُلْتُه

اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکرفرماتی ہیں سورج گرہن کے موقع پرنمازکسوف کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تواللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعدفرمایاکہ وہ چیزیں جوکہ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں اب انہیں میں نے اپنی اس جگہ سے دیکھ لیا ، جنت اوردوزخ تک بھی میں نے دیکھی، اورمجھے وحی کے ذریعہ آگاہ کیاگیاہے کہ تم قبر میں دجال کے فتنہ کی طرح یا(یہ کہاکہ)دجال کے فتنہ کے قریب ایک فتنہ میں مبتلا ہو گے مجھے یادنہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیاکہاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں لایاجائے گااورپوچھاجائے گاکہ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کے بارے میں تم کیاجانتے ہو؟مومن یایہ کہاکہ یقین کرنے والا(مجھے یادنہیں کہ ان دوباتوں میں سے اسماء رضی اللہ عنہا نے کونسی بات کہی تھی) توکہے گایہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،آپ ہمارے سامنے صحیح راستہ اوراس کے واضح دلائل پیش کیے اورہم آپ ایمان لائے تھے اورآپ کی بات قبول کی اورآپ کااتباع کیاتھا اس پراس سےکہاجائے گاکہ تم صالح انسان ہو پس آرام سے سوجاؤ ہمیں پہلے ہی سے معلوم تھاکہ توایمان ویقین والاہے، اورمنافق یا شک کرنے والا(مجھے معلوم نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا تھا ) وہ یہ کہے گاکہ مجھے توکچھ پتہ نہیں ہے میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی وہی میں نے بھی کہی(آگے مجھ کوکچھ حقیقت معلوم نہیں )۔[68]

چنانچہ اسی خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرمایا:

أَمَرَهُمْ أَنْ یَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

وہ عذاب قبرسے پناہ مانگاکریں ۔[69]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُو وَیَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ المَحْیَا وَالمَمَاتِ، وَمِنْ فِتْنَةِ المَسِیحِ الدَّجَّالِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعافرماتے تھےاے اللہ!میں قبرکے عذاب سے تیری پناہ چاہتاہوں اوردوزخ کے عذاب سے اورزندگی اورموت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلاسے تیری پناہ چاہتاہوں ۔ [70]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ ونصیحت کے علاوہ عذاب قبرکے بارے میں قرآن مجیدمیں متعدد جگہوں پر ذکر کیاگیاہے ، جیسے فرمایا

فَوَقٰىهُ اللهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ۝۴۵ۚاَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـیًّا۝۰ۚ وَیَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ۝۰ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝۴۶ [71]

ترجمہ:آخرکاران لوگوں نے جوبری سے بری چالیں اس مومن کے خلاف چلیں ،اللہ نے ان سب سے اس کوبچالیااورفرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیرمیں آگئے ، دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح وشام وہ پیش کیے جاتے ہیں اورجب قیامت کی گھڑی آجائے گی توحکم ہوگاکہ آل فرعون کوشدید ترعذاب میں داخل کرو۔

اس آیت میں قیامت سے پہلے عذاب کاذکرہے جوصورپھونکنے تک جاری رہے گا،فن لغت کے مشہورامام ابن قتیبہ الموفی ۲۰۰ہجری اپنی کتاب تاویل مشکل القرآن میں لکھتے ہیں ۔

قوله: النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْها غُدُوًّا وَعَشِیًّا ، فإنه لم یرد أن ذلك یكون فی الآخرة، وإنما أراد أنهم یعرضون علیها بعد مماتهم فی القبور.وهذا شاهد من كتاب الله لعذاب القبر، یدلّك على ذلك قوله: وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ، فهم فی البرزخ یعرضون على النار غدوّا وعشیّا، وفی القیامة یدخلون أشد العذاب.[72]

اس آیت’’ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں ‘‘میں آخرت کاعذاب مرادنہیں بلکہ یہ قبروں میں صبح وشام آگ پرپیش ہوتے ہیں اوریہ کتاب اللہ میں عذاب قبرکے لیے دلیل ہے کیونکہ آیت کادوسراحصہ کہ آل فرعون کوقیامت کے دن سخت عذاب میں ڈال دو۔اس پردلالت کرتاہے ۔یعنی وہ برزخ میں (یعنی دنیااورآخرت کے درمیانی وقت میں )صبح وشام آگ پرپیش ہوتے ہیں اورقیامت کے کے دن سخت عذاب میں داخل ہوں گے۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ۝۰ۭۛ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَةِ۝۰ۣۛؔ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ۝۰ۣ لَاتَعْلَمُھُمْ۝۰ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۝۰ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍ۝۱۰۱ۚ [73]

ترجمہ: تمہارے گردوپیش جوبدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اوراسی طرح خودمدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجودہیں جونفاق میں طاق ہوگئے ہیں ،تم انہیں نہیں جانتے ہم ان کوجانتے ہیں ،قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کودوہری سزا(ایک تودنیااور دوسرا قبرکاعذاب )دیں گے ، پھروہ زیادہ بڑی سزاکے لئے واپس لائے جائیں گے ۔

ایک مقام پر یوں فرمایا:

یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۝۰ۚ وَیُضِلُّ اللهُ الظّٰلِــمِیْنَ۝۰ۣۙ وَیَفْعَلُ اللهُ مَا یَشَاۗءُ۝۲۷ۧ [74]

ترجمہ:ایمان لانے والوں کواللہ ایک قول ثابت کی بنیادپردنیااورآخرت دونوں میں ثبات عطاکرتاہے اورظالموں کواللہ بھٹکا دیتاہے ،اللہ کو اختیار ہے جوچاہے کرے۔

عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أُقْعِدَ المُؤْمِنُ فِی قَبْرِهِ أُتِیَ، ثُمَّ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ:یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالقَوْلِ الثَّابِتِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب ایمان دارشخص کوقبرمیں بٹھادیاجاتاہے توفرشتے اس کے پاس آتے ہیں وہ گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تویہی اس فرمان الٰہی کی تعبیرہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اہل ایمان کودرست بات پرثابت قدمی عطا فرماتاہے۔‘‘[75]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ! تُبْتَلَى هَذِهِ الأُمَّةُ فِی قُبُورِهَا، فَكَیْفَ بِی وَأَنَا امْرَأَةٌ ضَعِیفَةٌ؟ قَالَ:یُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَةِ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جائیں گے اورمیراکیاحال ہوگامیں توایک کمزورسے خاتون ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ اہل ایمان کوکلمہ توحیدکی برکت سے دنیاکی زندگی اورقبرمیں ثابت قدم رکھتاہے۔ [76]

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:{یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ}قَالَ: نَزَلَتْ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ

اور براء بن عازب سے مروی ہےآیت’’ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے۔‘‘ عذاب قبرکے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[77]

ایک مقام پر نوح علیہ السلام کی قوم کے بارے میں فرمایا:

مِمَّا خَطِیْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا۝۰ۥۙ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اَنْصَارًا۝۲۵ [78]

ترجمہ: اپنی خطاؤ ں کی بناپرہی وہ غرق کیے گئے اورآگ میں جھونک دیے گئے ،پھرانہوں نے اپنے لئے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگارنہ پایا ۔

غرق آب ہوتے ہی آگ میں داخل کیا جاناہی عذاب قبرہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد روایات اورآیات قرآنیہ سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ قبرکا عذاب اور ثواب برحق ہے،اگرکوئی انہیں تسلیم نہیں کرتاتووہ قرآنی آیات کاہی منکر ہے اور اس کے لئے دعاہی کی جاسکتی ہے،پرہیزگار انسان کے برعکس کفار،مشرکین ،منافقین اور مرتدین کوموت کے وقت ہی عذاب شروع ہوجاتا ہے ، جیسے فرمایا

۔۔۔ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْهِمْ۝۰ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳ [79]

ترجمہ:کاش تم ظالموں کواس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے اورفرشتے ہاتھ بڑھابڑھاکرکہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالواپنی جان،آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیاجائے گاجوتم اللہ پرتہمت رکھ کر ناحق بکاکرتے تھے اوراس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے۔

گناہ گاروں کے جسم سے روح قبض کرتے وقت فرشتے انہیں سختیوں ، تلخیوں اوراذیتوں میں مبتلا کر تے ہیں ۔گناہ گاروں کے جسم سے روح قبض کرتے وقت فرشتے انہیں سختیوں ، تلخیوں اوراذیتوں میں مبتلا کر کے عذاب جہنم کی خبرسناتے ہیں ،جب وہ اپناانجام بددیکھتے ہیں تو اپنے گناہوں سے ہی انکارکردیتے ہیں ۔جیسے ایک مقام پرفرمایا:

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِهِمْ۝۰۠ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۭ بَلٰٓى اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۲۸فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ۝۲۹ [80]

ترجمہ:ہاں ،انہی کافروں کے لئے جواپنے نفس پرظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتارہوتے ہیں تو(سرکشی چھوڑکر)فوراڈگیں ڈال دیتے ہیں اورکہتے ہیں ہم تو کوئی قصورنہیں کررہے تھے ، ملائکہ جواب دیتے ہیں کرکیسے نہیں رہے تھے !اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے ،اب جاؤ جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ ،وہیں تم کو ہمیشہ رہناہے ،پس حقیقت یہ ہے کہ بڑاہی بڑاٹھکانہ ہے متکبروں کے لئے۔

موت کے فرشتے روح قبض کرتے وقت ان کے چہروں اورکولہوں پرضربیں لگاتے ہیں ۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا۝۰ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ۝۰ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۵۰ [81]

ترجمہ:کاش تم اس حالت کودیکھ سکتے جب کہ فرشتے مقتول کافروں کی روحیں قبض کررہے تھے ،وہ ان کے چہروں اوران کے کولھوں پرضربیں لگاتے جاتے تھے اورکہتے جاتے تھے لواب جلنے کی سزابھگتو۔

ایک مقام پر یوں فرمایا:

فَكَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ۝۲۷ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَـــطَ اللهَ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَــطَ اَعْمَالَهُمْ۝۲۸ۧ [82]

ترجمہ: پھراس وقت کیاحال ہوگاجب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اوران کے منہ اورپیٹھوں پرمارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے ،یہ اسی لئے توہوگاکہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جواللہ کوناراض کرنے والاہے اوراس کی رضاکاراستہ اختیارکرناپسندنہ کیااسی بناپراس نے ان کے سب اعمال ضائع کردیے۔

کفارومشرکین کی روح قبض کرنے کے لئے سیاہ چہروں والے عذاب کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ٹاٹ کے بدبودارکپڑے ہوتے ہیں ۔

وَعَن الْبَراء بن عَازِب رَضِی الله عَنهُ قَالَ۔۔۔اسْتَعِیذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَرَّتَیْنِ، أَوْ ثَلَاثًا ۔۔۔وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَیْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَیَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَیَقُولُ: أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِیثَةُ، اخْرُجِی إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ، قَالَ:فَتُفَرَّقُ فِی جَسَدِهِ، فَیَنْتَزِعُهَا كَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَیَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ یَدَعُوهَا فِی یَدِهِ طَرْفَةَ عَیْنٍ حَتَّى یَجْعَلُوهَا فِی تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَیَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِیحِ جِیفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَیَصْعَدُونَ بِهَا فَیَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا یَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مَا هَذَا الرُّوحُ الْخَبِیثُ؟

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم ایک انصاری کے جنازے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ قبرستان کی طرف گئے،جب قبرپرپہنچے توقبرابھی تیارنہیں ہوئی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھ گئے اورہم بھی آپ کے اردگردانتہائی خاموشی سے بیٹھ گئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کوکریدرہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناسرمبارک اوپراٹھایااورفرمایادویاتین مرتبہ فرمایاقبرکے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو ، پھرمومن آدمی کے دنیاسے انتقال کامنظربیان فرمایاپھرکافرکی دنیاسے رخصتی اورموت کے وقت اس کے ساتھ کی جانے والی سختیوں کاذکرفرمایاکافرآدمی جب دنیاسے رخصت ہوتااورآخرت کی طرف روانہ ہوتاہے تواس کی طرف سیاہ چہروں والے فرشتے نازل ہوتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتا ہے اوروہ اس فوت ہونے والے کی حدنگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں ،پھرملک الموت آتاہے جواس کے سرہانے بیٹھ جاتاہے اوراسے حکم دیتاہے کہ اے خبیث روح نکل اور اللہ کے غضب اورغصہ کی طرف چل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروح جسم میں چھپنے کی کوشش کرتی ہےتوفرشتے اسے اس طرح باہرکھنچتے ہیں جیسے کانٹے دارلوہے کی سیخ گیلی اون سے باہر نکالی جاتی ہے، پھروہ فرشتے اس کی روح کو تیز رفتاری سے ہاتھوں ہاتھ لیتے اورٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں ، اس روح سے بدبودارمردے جیسی بو آتی ہے،فرشتے اس ناپاک روح کولے کراوپرآسمان کی طرف چڑھتے ہوئے فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تووہ پوچھتے ہیں یہ خبیث روح کی کی ہے؟

فَیَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِی كَانَ یُسَمَّى بِهَا فِی الدُّنْیَاحَتَّى یُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا، فَیُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا یُفْتَحُ لَهُ،ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّةَ حَتّٰی یَـلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ،[83] فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِی سِجِّینٍ فِی الْأَرْضِ السُّفْلَى ، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًاثُمَّ قَرَأَ:وَمَنْ یُّشْرِكْ بِاللهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ ۔[84]

وہ جواب دیتے ہیں یہ فلاں کابیٹاہے ،فرشتے اس کاوہ بدترین نام لیتے ہیں جس سے وہ دنیامیں معروف تھایہاں تک کہ فرشتے اس روح کو پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اورآسمان اول کے فرشتوں سے دروازہ کھولنے کامطالبہ کرتے ہیں مگرآسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ یقین جانوجن لوگوں نے ہماری آیات کوجھٹلایاہے اوران کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لئے آسمان کے دروازے ہرگزنہ کھولے جائیں گے ،ان کاجنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتناسوئی کے ناکے سے اونٹ کاگزرنا۔ پھراللہ تعالیٰ فرشتوں کوحکم دیتاہے کہ سب سے نچلی زمین میں موجودسجین میں اس روح کااندراج کرلو،چنانچہ اس روح کااندراج کرنے کے بعد اسے بری طرح پھینک دیاجاتاہے ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اورجوکوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے توگویاوہ آسمان سے گرگیا ، اب یاتواسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کوایسی جگہ لے جاکرپھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔[85]

الغرض کفارومشرکین وغیرہ کوجب قبرمیں دفن کیاجاتاہے توان کی حالت زار یوں ہوتی ہے۔

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:۔۔۔قَالَ:فَتُعَادُ رُوحُهُ فِی جَسَدِهِ، وَیَأْتِیهِ مَلَكَانِ فَیُجْلِسَانِهِ، فَیَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟فَیَقُولُ: هَاهْ هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِی،فَیَقُولَانِ لَهُ: مَا دِینُكَ؟فَیَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِی،فَیَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیكُمْ؟فَیَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِی

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے،اور (قبر میں ) اس کے پاس دو فرشتے (منکرنکیر) آتے ہیں وہ اسے اٹھاکربٹھاتے ہیں اور(عقائدونظریات کے بارے میں )پوچھتے ہیں بتاؤ تمہارارب کون ہے؟وہ جواب دیتا ہےہائے ہائے میں تونہیں جانتا،پھروہ سوال کرتے ہیں تمہارادین کیاہے؟وہ کہتاہے ہائے ہائے میں تویہ بھی نہیں جانتا،پھراس سےسوال کیاجاتاہے تم اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہوجسے تمہاری طرف (رسول بنا کر ) بھیجاگیاتھا،وہ کہتاہے ہائے ہائے مجھے توان کے بارے میں بھی علم نہیں ہے،

فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ، فَافْرِشُوا لَهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ، فَیَأْتِیهِ مِنْ حَرِّهَا، وَسَمُومِهَا، وَیُضَیَّقُ عَلَیْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِیهِ أَضْلَاعُهُ ثُمَّ یُقَیَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِیدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا قَالَ:فَیَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً یَسْمَعُهَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ فَیَصِیرُ تُرَابًا قَالَ:ثُمَّ تُعَادُ فِیهِ الرُّوحُ

توآسمان سے ایک آوازدینے والااعلان کرتاہے کہ اس نے جھوٹ بولاہے،پھرآوازآتی ہےا س کے لئے آگ کابستربچھادو،اسے آگ کالباس پہنادوا وراس کے لئے جہنم کی طرف سے دروازہ کھول دو،ا س کے لئے اس کی قبر کوتنگ کردیاجاتاہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں پیوست ہوجاتی ہیں ،پھراس پرایک اندھا،بہرہ فرشتہ مقررکردیاجاتاہے جس کے پاس لوہے کی ایسی گرز ہوتی ہے کہ اگراسے پہاڑپرماراجائے تووہ پہاڑریزہ ریزہ ہوکرمٹی بن جائے،پھروہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتاہے جس کی چیخ وپکارانسانوں اور جنات کے علاوہ مشرق ومغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے،اورپھروہ مٹی(ریزہ ریزہ)ہوجاتاہےفرمایاپھراس میں روح لوٹائی جاتی ہے۔

فَیَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً یَسْمَعُهَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ فَیَصِیرُ تُرَابًا، قَالَ:ثُمَّ تُعَادُ فِیهِ الرُّوحُ

ابوداودکے مذکورہ الفاظ صحیح ثابت نہیں اس لئے کہ ایک تویہ روایت مختصرہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری روایات جومفصل بھی ہیں ان میں یہ اضافہ نہیں ملتا، مسند ابوداود طیالسی کی ایک روایت میں یہ اضافہ ملتاہے لیکن اس کی سند میں بھی عمروبن ثابت ہیں جوبالاتفاق ضعیف ہیں )۔[86]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِی قَوْلِهِ جَلَّ وَعَلَا: {فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنْكًا} [طه ] قَالَ:عَذَابُ الْقَبْرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے’’اور جو میرے ذکر (درس نصیحت ) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔‘‘کی تفسیربیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ عذاب قبرہے۔ [87]

اوراس کے عذاب قبرکی صورت یہ ہوگی ۔

عَن أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُسَلَّطُ عَلَى الْكَافِرِ فِی قَبْرِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ تِنِّینًا تَنْهَشُهُ وَتَلْدَغُهُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ، وَلَوْ أَنَّ تِنِّینًا مِنْهَا نَفَخَ فِی الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ خَضْرَاءَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بلاشبہ کافر پر ننانوے اژدھے مسلط کردیے جاتے ہیں ان میں سے ہر اژدھا ستر سانپوں کے برابرہوگااورہرسانپ کے سترسر ہوں گے ،وہ سارے سانپ اس قبروالے کو قیامت تک ڈستے اورکاٹتے رہیں گے اگران میں سے ایک اژدھاسانپ زمین پرپھونک مار دے توزمین پرکوئی چیزپیدانہ ہو۔ [88]

عَائِشَةَ، تَقُولُ: یُسَلَّطُ عَلَى الْكَافِرِ فِی قَبْرِهِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ فَیَأْكُلُ لَحْمَهُ مِنْ رَأْسِهِ إِلَى رِجْلَیْهِ، ثُمَّ یُكْسَى اللَّحْمَ فَیَأْكُلُ مِنْ رِجْلَیْهِ إِلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ یُكْسَى اللَّحْمَ فَیَأْكُلُ مِنْ رَأْسِهِ إِلَى رِجْلَیْهِ فَهُوَ كَذَلِكَ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےیقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھامسلط کر دیاجاتاہے جو سرسے پاؤ ں تک اس کاگوشت کھاتا رہتا ہے،پھراس پردوبارہ گوشت چڑھادیاجاتاہے جسے وہ دوبارہ پاؤ ں سے سرتک کھاتا چلاجاتاہے، پھراس پردوبارہ گوشت چڑھادیاجاتاہے جسے وہ دوبارہ پاؤ ں سے سرتک کھاتا چلاجاتاہے اوریہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک)جاری رہے گا۔[89]

ایسے شخص کوقبرمیں خوف ،گھبراہٹ اوردہشت کے عذاب میں مبتلاکیاجاتاہے۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:۔۔۔ وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السُّوْءُ، أُجْلِسَ فِی قَبْرِهِ فَزِعًا مَشْعُوفًا

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااوربرے آدمی کواس کی قبرمیں شدید گھبراہٹ اورخوف کی حالت میں بٹھایاجاتاہے ۔[90]

اور پھراس برے شخص کی حسرت ویاس میں اضافہ کے لئے اسے دورسے جنت کا نظارا کرایاجاتاہے۔

فَیُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَیَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِیهَا، فَیُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ

اور جنت کی طرف ایک دریچہ کھول کراسے دورسے جنت کانظارہ بھی کرایاجاتاہے ،وہ جنت کی رونقیں اوردوسری نعمتیں دیکھتاہے تواسے بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ جنت ہے جس سے اللہ نے تجھے محروم کردیاہے۔ [91]

پھراس شخص کودوزخ میں اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اورکہاجاتاہے کہ اب توروزقیامت تک قبرکے عذاب میں مبتلارہے گا۔

ثُمَّ یُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَیَنْظُرُ إِلَیْهَا یَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَیُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا، كُنْتَ عَلَى الشَّكِّ، وَعَلَیْهِ مِتَّ، وَعَلَیْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ یُعَذَّبُ

پھراس کے لئے جہنم کی طرف ایک دریچہ کھولاجاتاہے وہ دیکھتاہے کہ جہنم کی آگ ایک دوسرے کوکھارہی ہے تو اسے کہاجاتاہے کہ یہ تمہارا ٹھکانہ ہے تونے شک میں زندگی گزاردی ،تجھے شک کی حالت میں ہی موت آئی اوران شاء اللہ قیامت کے دن شک پرہی اٹھایاجائے گاپھراسے قبر کے عذاب میں مبتلاکردیا جاتا ہے۔ [92]

اوراس کے برے اعمال اس کے پاس ایک بدصورت آدمی کی شکل میں آتاہے اوراسے برے انجام کی بشارت دیتاہے۔

وَیَأْتِیهِ رَجُلٌ قَبِیحُ الْوَجْهِ قَبِیحُ الثِّیَابِ مُنْتِنُ الرِّیحِ فَیَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُوءُكَ هَذَا یَوْمُكَ الَّذِی كُنْتَ تُوعَدُفَیَقُولُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ یَجِیءُ بِالشَّرِّ فَیَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِیثُ، فَیَقُولُ: رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَةَ

پھر اس کے پاس بدصورت غلیظ کپڑوں والا اوربدترین بدبو والا ایک آدمی آتاہےاورکہتاہے تجھے اپنے برے انجام کی بشارت ہو یہ ہے وہ دن جس کاتجھ سے وعدہ کیا گیا تھا وہ قبروالااس آنے والے سے پوچھتاہے تم کون ہو؟تمہاراچہرہ بڑاہی بدصورت ہے اورتومیرے لئے خبربھی بری ہی لایاہے، وہ جواب دیتاہے میں تیرابراعمل ہوں تووہ بدعمل کہتاہے کہ اے میرے پروردگاراب قیامت قائم نہ کرنا (کیونکہ قیامت کا عذاب تواس عذاب سے شدیدترہوگا) [93]

عذاب قبرکی وجہ سے مردہ چیختاچلاتاہے۔

حَدَّثَنِیهِ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: بَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَائِطٍ لِبَنِی النَّجَّارِ، عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ، إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِیهِ، وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ: كَذَا كَانَ یَقُولُ الْجُرَیْرِیُّ فَقَالَ:مَنْ یَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ؟قَالَ: مَاتُوا فِی الْإِشْرَاكِ، فَقَالَ:إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِی قُبُورِهَا، فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ یُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِی أَسْمَعُ مِنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ:تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ:تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، قَالَ:تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ

زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ نجارکے باغ میں اپنے خچرپرسوارہوکرجارہے تھےہم بھی آپ کے ہمراہ چل رہے تھے اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر ڈرگیااورایسابدکاکہ ہمیں اندیشہ لاحق ہوگیاکہ کہیں یہ خچرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگراہی نہ دے اسی دوران ہمیں وہاں چار،پانچ یاچھ قبریں نظر آئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تم میں سے کون ان قبروں میں مدفون لوگوں کوجانتاہے ؟ایک شخص نے عرض کیامیں انہیں جانتاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیایہ لوگ کب فوت ہوئے تھے ؟اس نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ شرک کے زمانہ میں فوت ہوئے تھے،یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اس امت کا قبروں میں امتحان ہوگااگرمجھے اندیشہ نہ ہوتاکہ تم خوف کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دوگے تومیں اللہ سے دعاکرتاکہ قبرکاعذاب جومیں سن رہاہوں وہ عذاب اللہ تمہیں بھی سنادیتا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایااللہ سے آگ کے عذاب سے پناہ طلب کرو،سب لوگوں نے کہاہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ،پھرحکم دیااللہ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگو،سب نے دعاکی ہم عذاب قبرسے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ، پھر فرمایا اللہ سےظاہری وباطنی فتنوں کی پناہ مانگو،سب نے کہا ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ کاسوال کرتے ہیں ،پھرفرمایا اللہ سےدجال کے فتنہ کی پناہ طلب کرو،سب نے کہاہم فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔[94]

جب کفار و مشرکین،منافقین یامرتدین میں سے کوئی منکرنکیر کے سوالات کاجواب نہیں دے سکتا توپھرفرشتے انہیں زدوکوب کرتے ہیں ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۔۔۔ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَكٌ فَیَنْتَهِرُهُ فَیَقُولُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟فَیَقُولُ: لَا أَدْرِی، فَیُقَالُ لَهُ: لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ،فَیُقَالُ لَهُ: فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِی هَذَا الرَّجُلِ؟فَیَقُولُ: كُنْتُ أَقُولُ مَا یَقُولُ النَّاسُ فَیَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِیدٍ بَیْنَ أُذُنَیْهِ، فَیَصِیحُ صَیْحَةً یَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکافرآدمی کوجب قبرمیں رکھاجاتاہے تواس کے پاس ایک فرشتہ آتاہے اوراس کوجھڑکتاہے اوراس سےپوچھتاہے توکس کی عبادت کیاکرتاتھا؟وہ کہتاہے مجھے نہیں معلوم،پھراس سے کہاجاتاہے نہ تونے جانااورنہ پڑھا،پھراس سے پوچھاجاتاہےتواس آدمی کے بارے میں کیاکہاکرتا تھا؟ وہ جواب دیتاہے میں وہی کہتاتھاجولوگ کہتے تھے تووہ فرشتہ لوہے کے ایک بھاری بھرکم ہتھوڑے (گرز)کے ساتھ اس کے کانوں کے درمیان مارتاہے تووہ اس سے اس قدرچیختاہے کہ جنوں اورانسانوں کے علاوہ قرب وجوارکی ساری مخلوق اس کی آوازسنتی ہے۔[95]

x رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کرمدینہ منورہ تشریف لے آئے تویہودنے تورات وانجیل کی بشارتوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچان لیاجیسے انسان اپنی اولادکوپہچان لیتاہےمگرچند یہود کوچھوڑکراکثریت نے محض تعصبات اور بغض وعداوت کی وجہ سے دعوت اسلام قبول کرنے سے انکارکیا، جب ان میں کوئی فوت ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودکو قبر میں دیے جانے والے عذاب کا تذکرہ فرماتے۔

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى یَهُودِیَّةٍ یَبْكِی عَلَیْهَا أَهْلُهَافَقَالَ:إِنَّهُمْ لَیَبْكُونَ عَلَیْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِی قَبْرِهَا

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ کسی یہودی عورت کی قبرکے پاس سے گزرے جس کے مرنے پراس کے گھروالے رورہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ لوگ اس پررورہے ہیں اوراسے اس کی قبرمیں (اپنے گناہوں کی وجہ سے) عذاب دیاجا رہا ہے۔[96]

عَنْ أَبِی أَیُّوبَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ:خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ:یَهُودُ تُعَذَّبُ فِی قُبُورِهَا

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول ہےایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے باہرتشریف لے گئے اورسورج غروب ہوچکاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواچانک ایک زوردارآوازسنائی دی اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہودی کواس کی قبرمیں عذاب ہورہاہے۔[97]

وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّ الْیَهُودَ تُعَذَّبُ بِیَهُودِیَّتِهِمْ ثَبَتَ تَعْذِیبُ غَیْرِهِمْ مِنَ الْمُشْرِكِینَ لِأَنَّ كُفْرَهُمْ بِالشِّرْكِ أَشَدُّ مِنْ كُفْرِ الْیَهُودِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب یہ بات ثابت ہے کہ یہودپریہودیت کی وجہ سے عذاب ہوتاہے تواس سے ثابت ہواکہ مشرکین وغیرہ کوبھی عذاب ہوتاہے کیونکہ اس کاکفرشرک کے ساتھ یہودکے کفرسے زیادہ سخت ہے۔ [98]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں ایک مرتدکوعذاب قبرکاواقعہ پیش آیاجسے تمام لوگوں نے دیکھا ۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِیًّا فَأَسْلَمَ، وَقَرَأَ البَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ، فَكَانَ یَكْتُبُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَعَادَ نَصْرَانِیًّا، فَكَانَ یَقُولُ: مَا یَدْرِی مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا كَتَبْتُ لَهُ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ، فَقَالُوا: هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ، نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْهُ، فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ، فَقَالُوا: هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ، نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ، فَحَفَرُوا لَهُ وَأَعْمَقُوا لَهُ فِی الأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ، فَعَلِمُوا: أَنَّهُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ، فَأَلْقَوْهُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک عیسائی مسلمان ہوگیا اور اس نے سورة البقرہ اور سورة آل عمران یادکرلی،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کتابت کیاکرتاتھالیکن بعدمیں مرتدہوگیا اور کہنے لگاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتو کسی چیزکاپتہ ہی نہیں جوکچھ میں لکھ کردیتاہوں بس وہی کہہ دیتے ہیں ، جب اسے موت آئی توعیسائیوں نے اسے دفن کردیاجب صبح ہوئی توزمین نے اسے باہرپھینک دی،جس پرعیسائیوں نے کہایہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوراس کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ کرآیاہے اس لئے انہوں نے انتقام لینے کی غرض سے رات کی تاریکی میں اس کی لاش کوقبرسے نکال کرباہرپھینک دیاہے،چنانچہ عیسائیوں نے اس کے لئے دوبارہ نئی جگہ پرپہلے سے زیادہ گہری قبرتیارکی اورلاش کو دوبارہ دفن کر دیا، جب صبح ہوئی تو (لوگوں نے دیکھاکہ)زمین نے اسے دوبارہ باہرپھینک دیاہے،عیسائیوں نے پھرالزام لگایاکہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھیوں کاکام ہے کیونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ کر آیا ہے لہذاانہوں نے اس کی قبرکوکھودکرلاش باہرپھینک دی ہے ،انہوں نے اس کے لئے تیسری مرتبہ قبرتیارکی اوراپنی استطاعت کے مطابق جتنی گہری قبر وہ تیارکرسکتے تھے انہوں نے تیارکی اوراسے قبرمیں دفن کردیا،لیکن صبح لوگ یہ منظردیکھ کرحیران رہے گئے کہ زمین نے اس کی لاش کوتیسری مرتبہ بھی باہرنکال کرپھینک دیا ہے ، یہ صورت حال دیکھ کرعیسائیوں کویقین آگیاکہ یہ مسلمانوں کاکام نہیں (بلکہ اللہ کاعذاب ہے کہ زمین اس مرتدکی لاش قبول کرنے کے لئے تیارنہیں )چنانچہ عیسائیوں نے اس مرتدکی لاش کو اسی طرح چھوڑدیا۔[99]

عذاب قبرصرف کفارومشرکین،منافقین،یہودونصاریٰ کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب مسلمان بھی اس میں مبتلاکیے جاتے ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَیْنِ فَقَالَ:إِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِیرٍ ثُمَّ قَالَ: بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ یَسْعَى بِالنَّمِیمَةِ، وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا، فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَیْنِ، ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ، ثُمَّ قَالَ:لَعَلَّهُ یُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوقبروں کے قریب سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان دونوں کوقبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں کسی بہت بڑے جرم کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا،ان میں سے ایک چغلی کھاتاتھایعنی غیبت کرتاتھا اور دوسرا پیشاب کے قطروں سے احتیاط نہیں کرتاتھا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(کھجورکی)ایک شاخ منگوائی اوراسے توڑ کر دو ٹکڑے کیاپھران میں ایک (ایک ایک ٹکڑا)ہرایک کی قبرپررکھ دیا،لوگوں نے آپ سے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ آپ نے کس لئے کیا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاامیدہے کہ جب تک یہ شاخیں ہری رہیں ان سے عذاب میں تخفیف رہے۔ [100]

قَالَ الزَّیْنُ بْنُ الْمُنِیرِ الْمُرَادُ بِتَخْصِیصِ هَذَیْنِ الْأَمْرَیْنِ بِالذِّكْرِ تَعْظِیمُ أَمْرِهِمَا لَا نَفْیُ الْحُكْمِ عَمَّا عَدَاهُمَا فَعَلَى هَذَا لَا یَلْزَمُ مِنْ ذِكْرِهِمَا حَصْرُ عَذَابِ الْقَبْرِ فِیهِمَا لَكِنِ الظَّاهِرُ مِنَ الِاقْتِصَارِ عَلَى ذِكْرِهِمَا أَنَّهُمَا أَمْكَنُ فِی ذَلِكَ مِنْ غَیْرِهِمَاوَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ السُّنَنِ مِنْ حَدِیثِ أَبِی هُرَیْرَةَ اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں زین بن منیرنے کہاکہ باب میں صرف دوچیزوں کاذکران کی اہمیت کے پیش نظرکیاگیاہے ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی مرادنہیں پس ان کے ذکرسے یہ لازم نہیں آتاکہ عذاب قبرانہی دوگناہوں پر منحصرہے ،یہاں ان کے ذکرپرکفایت کرنااشارہ ہے کہ ان کے ارتکاب کرنے پرعذاب کاہونازیادہ ممکن ہے حدیث ابوہریرہ کے لفظ یہ ہیں کہ پیشاب سے پاکی حاصل کروکیونکہ عام طورپرعذاب قبراسی سے ہوتا ہے۔ [101]

قَالَ بن رَشِیدٍ وَیَظْهَرُ مِنْ تَصَرُّفِ الْبُخَارِیِّ أَنَّ ذَلِكَ خَاص بهما فَلذَلِك عقبه بقول بن عمر إِنَّمَا یظله عمله

اور شاخوں کولگانے کے متعلق علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابن رشیدنے کہاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تصرف سے یہی ظاہرہے کہ شاخوں کے گاڑنے کاعمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا،اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ اس ذکرکے بعدہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کاقول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کاعمل ہی اس کوسایہ کرسکے گاجن کی قبرپرخیمہ دیکھاگیاتھاوہ عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خیمہ دورکرادیاتھا۔ [102]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَكْثَرَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنَ الْبَوْلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااکثرعذاب قبرپیشاب کی وجہ سے ہوتاہے۔ [103]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپیشاب(کے چھینٹوں سے) پرہیز کرو۔ [104]

اس میں سب جانداروں کے پیشاب سے پرہیزکاحکم ہے الاکہ استثنیٰ کاثبوت ہو،اس حدیث کوحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں واردکرکے لکھاہے

وَالتَّمَسُّكُ بِعُمُوم حَدِیث أبی هُرَیْرَة ۔۔۔۔ أَوْلَى لِأَنَّهُ ظَاهر فِی تنَاول جَمِیع الابوال فَیَجِبُ اجْتِنَابُهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکورسے دلیل پکڑنابہتراوراولی ہے کیونکہ حدیث کے ظاہری الفاظ تمام جانداروں کے پیشاب کوشامل ہیں توسب سے پرہیزکرناواجب ہوا۔ [105]

للاتفاق على نَجَاسَة بولها

ایک مقام پرلکھتے ہیں کتے کے پیشاب کی نجاست پرسب کواتفاق ہے۔ [106]

اورقرآن مجیدنے غیبت کے بارے میں فرمایا:

۔۔۔ وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۔۔۔۝۰۝۱۲ [107]

ترجمہ: اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ،کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ ۔

لیکن سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عذاب قبرسے محفوظ رہنے کے لئے راستہ بتلایاہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الْمَیِّتَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِهِ إِنَّهُ یَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِینَ یُوَلُّونَ عَنْهُ، فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا، كَانَتِ الصَّلَاةُ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَكَانَ الصِّیَامُ عَنْ یَمِینِهِ، وَكَانَتِ الزَّكَاةُ عَنْ شِمَالِهِ، وَكَانَ فِعْلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّلَةِ وَالْمَعْرُوفِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى النَّاسِ عِنْدَ رِجْلَیْهِ، فَیُؤْتَى مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ، فَتَقُولُ الصَّلَاةُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ، ثُمَّ یُؤْتَى عَنْ یَمِینِهِ، فَیَقُولُ الصِّیَامُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ، ثُمَّ یُؤْتَى عَنْ یَسَارِهِ، فَتَقُولُ الزَّكَاةُ: مَا قِبَلِی مَدْخَلٌ، ثُمَّ یُؤْتَى مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْهِ، فَتَقُولُ فَعَلُ الْخَیْرَاتِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصِّلَةِ وَالْمَعْرُوفِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیت کوجب قبرمیں رکھ دیاجاتاہے تودفن کے بعدوہ واپس پلٹنے والے لوگوں کے(وقتی طورپر) جوتوں کی آوازسنتی ہےپھراگروہ میت پرہیزگارشخص کی ہوتونمازاس کے سرکی طرف سے ،روزہ اس کے دائیں جانب سے، زکوٰة بائیں جانب سے ، جبکہ دیگرنیک اعمال یعنی صدقہ،صلہ رحمی،لوگوں سے حسن سلوک اوربھلائی اس کے پاؤ ں کی طرف سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ، عذاب کافرشتہ اس میت کے سرکی طرف سے آتاہے تونمازکہتی ہے کہ میری طرف سے راستہ نہیں ہے (کسی اورطرف سے آؤ ) وہ فرشتہ دائیں طرف سے آنے کی کوشش کرتاہے توروزہ کہتاہے کہ اس طرف سے راستہ نہیں ہے پھروہ فرشتہ بائیں جانب سے آنے کی کوشش کرتاہے توزکوٰة کہتی ہے کہ میری طرف سے بھی راستہ نہیں ہے، پھرفرشتہ پاؤ ں کی طرف سے آتاہے تو دوسری نیکیاں کہتی ہیں یہاں سے بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔[108]

اس طرح نیک آدمی قبرکے عذاب سے محفوظ رہتاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: یُؤْتَى الرَّجُلُ فِی قَبْرِهِ، فَإِذَا أُتِیَ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ دَفَعَتْهُ تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ،وَإِذَا أُتِیَ مِنْ قِبَلِ یَدَیْهِ دَفَعَتْهُ الصَّدَقَةُ وَإِذَا أُتِیَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْهِ دَفَعَهُ مَشْیُهُ إِلَى الْمَسَاجِدِ

ایک اورروایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آدمی کوجب قبرمیں دفن کردیاجاتاہے تو عذاب کافرشتہ سرکی طرف سے آتا ہے توقرآن مجیدکی تلاوت اسے میت سے دور ہٹا دیتی ہے اورجب فرشتہ عذاب سامنے سے آتاہے توصدقہ وخیرات اسے دورکردیتے ہیں اورفرشتہ جب پاؤ ں کی طرف سے آنے کی کوشش کرتاہے تومسجدکی طرف(نمازکے لئے )چل کر جانے والے قدم اس کے آگے رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ [109]

بعض سعادت مندلوگ عذاب قبرسے محفوظ رہتے ہیں ۔

عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا بَالُ الْمُؤْمِنِینَ یُفْتَنُونَ فِی قُبُورِهِمْ إِلَّا الشَّهِیدَ؟ یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا بَالُ الْمُؤْمِنِینَ یُفْتَنُونَ فِی قُبُورِهِمْ إِلَّا الشَّهِیدَ؟قَالَ:كَفَى بِبَارِقَةِ السُّیُوفِ عَلَى رَأْسِهِ فِتْنَةً

راشدبن سعد رضی اللہ عنہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ایک آدمی نے سوال کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاوجہ ہے کہ تمام اہل ایمان کوان کی قبروں میں آزمایاجاتاہے مگر شہیدکوقبرکے فتنہ سے محفوظ رکھاجاتاہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے لئے سروں پرچمکتی ہوئی تلواروں کی آزمائش ہی کافی ہے۔ [110]

اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی آرزو فرمایاکرتے تھے،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَوْلاَ أَنَّ رِجَالًا یَكْرَهُونَ أَنْ یَتَخَلَّفُوا بَعْدِی، وَلاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ، مَا تَخَلَّفْتُ لَوَدِدْتُ أَنِّی أُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھےمجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان لوگوں کاخیال نہ ہوتا جومیرے ساتھ غزوہ میں شریک نہ ہوسکنے کوبراجانتے ہیں مگراسباب کی کمی کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکتے اورکوئی ایسی چیزمیرے پاس نہیں ہے جس پرانہیں سوارکروں تومیں کبھی (غزوات میں شریک ہونے سے)پیچھے نہ رہتا، میری توخواہش ہے کہ اللہ کے راستے میں قتل کیاجاؤ ں ،پھرزندہ کیاجاؤ ں ،پھرقتل کیا جاؤ ں ،پھرزندہ کیاجاؤ ں ،پھرقتل کیاجاؤ ں ،اورپھرزندہ کیا جاؤ ں اورپھر مارا جاؤ ں ۔[111]

وہ شخص جسے اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے موت آئے وہ بھی عذاب قبرسے محفوظ رہتاہے۔

فَضَالَةَ بْنَ عُبَیْدٍ، یُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: كُلُّ مَیِّتٍ یُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِی مَاتَ مُرَابِطًا فِی سَبِیلِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ یَنْمُو لَهُ عَمَلُهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَیَأْمَنُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرمرنے والے کا عمل(اس کے مرنے پر) ختم ہوجاتاہے مگرجسے اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے موت آئے،اس کا عمل قیامت تک کے لئے بڑھتا رہتا ہے اوروہ قبرکے عذاب سے(یامنکرونکیرکے سوال جواب)سے امن میں رہتا ہے۔ [112]

اگرکسی توحیدپرست شخص کو جمعہ کے دن موت آجائے تو جمعہ کے دن کی برکت سے وہ عذاب قبرسے محفوظ رہتاہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوتُ یَوْمَ الجُمُعَةِ أَوْ لَیْلَةَ الجُمُعَةِ إِلاَّ وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ القَبْرِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس مسلمان کوجمعہ کے دن یاجمعہ کی رات کوموت آئے تو اللہ تعالیٰ اسے قبرکے عذاب سے محفوظ رکھتاہے۔ [113]

اگرکوئی پیٹ کی بیماری سے فوت ہوجائے وہ بھی عذاب قبرسے محفوظ رہتا ہے ۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ یَسَارٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا وَسُلَیْمَانُ بْنُ صُرَدٍ وخَالِدُ بْنُ عُرْفُطَةَ، فَذَكَرُوا أَنَّ رَجُلًا تُوُفِّیَ مَاتَ بِبَطْنِهِ فَإِذَا هُمَا یَشْتَهِیَانِ أَنْ یَكُونَا شُهَدَاءَ جَنَازَتِهِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ: أَلَمْ یَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ یَقْتُلْهُ بَطْنُهُ، فَلَنْ یُعَذَّبَ فِی قَبْرِهِ، فَقَالَ الْآخَرُ: بَلَى

عبداللہ بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بیٹھا ہواتھاکہ اچانک سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ اورخالدبن عرفطہ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے،لوگوں نے انہیں بتایاکہ فلاں آدمی پیٹ کی بیماری کے باعث فوت ہو گیا ہے، تو ان دونوں نے اس خواہش کااظہارکیاکہ کاش وہ اس کے جنازے میں شریک ہوتے، پھران دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہاکیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشادنہیں فرمایاتھاکہ جس شخص کو اس کے پیٹ کی بیماری مارڈالے تواسے قبرمیں عذاب نہیں دیاجائے گا؟دوسرے نے کہاہاں کیوں نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاہے۔[114]

سورة الملک بھی میت کوعذاب قبرسے محفوظ رکھتی ہے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: یُؤْتَى الرَّجُلُ فِی قَبْرِهِ فَتُؤْتَى رِجْلَاهُ فَتَقُولُ رِجْلَاهُ: لَیْسَ لَكُمْ عَلَى مَا قِبَلِی سَبِیلٌ كَانَ یَقُومُ یَقْرَأُ بِی سُورَةَ الْمُلْكِ، ثُمَّ یُؤْتَى مِنْ قِبَلِ صَدْرِهِ أَوْ قَالَ بَطْنِهِ، فَیَقُولُ: لَیْسَ لَكُمْ عَلَى مَا قِبَلِی سَبِیلٌ كَانَ یَقْرَأُ بِی سُورَةَ الْمُلْكِ، ثُمَّ یُؤْتَى رَأْسُهُ فَیَقُولُ: لَیْسَ لَكُمْ عَلَى مَا قِبَلِی سَبِیلٌ كَانَ یَقْرَأُ بِی سُورَةَ الْمُلْكِ ، قَالَ: فَهِیَ الْمَانِعَةُ تَمْنَعُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب آدمی کی میت کو اس کی قبرمیں رکھ دیا جاتاہے اورعذاب کافرشتہ اس کے پاؤ ں ،سینے،پیٹ اورسرکی طرف سے اس کے پاس آنے کی کوشش کرتاہے توہرطرف سے آوازآتی ہے کہ تیرے لئے اس میت کے پاس آنے کاکوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ یہ شخص سورة الملک کی تلاوت کیاکرتاتھا پھرانہوں نے فرمایاسورة ملک رکاوٹ والی سورة ہے جواپنے پڑھنے والے سے قبرکے عذاب کوروکتی ہے۔[115]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خِبَاءَهُ عَلَى قَبْرٍ وَهُوَ لاَ یَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ فَإِذَا فِیهِ إِنْسَانٌ یَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الَّذِی بِیَدِهِ الْمُلْكُ حَتَّى خَتَمَهَا، فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی ضَرَبْتُ خِبَائِی عَلَى قَبْرٍ وَأَنَا لاَ أَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ، فَإِذَا فِیهِ إِنْسَانٌ یَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الْمُلْكِ حَتَّى خَتَمَهَافَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هِیَ الْمَانِعَةُ، هِیَ الْمُنْجِیَةُ، تُنْجِیهِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکسی صحابی نے ایک قبر پر خیمہ لگا دیا انہیں علم نہیں تھا کہ یہاں قبر ہے لیکن وہ قبر تھی، جس میں ایک شخص سورت ملک پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ اسے مکمل کیا وہ صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ( سورت ملک) عذاب قبر کو روکنے اور اس سے نجات دلانے والی ہے اور اپنے پڑھنے والے کو اس سے بچاتی ہے۔[116]

عَنْ جَابِرٍأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا یَنَامُ حَتَّى یَقْرَأَ الم تَنْزِیلُ، وَتَبَارَكَ الَّذِی بِیَدِهِ المُلْكُ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےبے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں سوتے تھے جب تک سورة الم سجدہ اورسورة ملک نہ پڑھ لیتے۔[117]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دفن ہونے والے شخص کی قبرپرکھڑے ہوکراس کی مغفرت اورثابت قدمی کے لئے دعامانگنے کاحکم دیاہے۔

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْهِ اسْتَغْفِرُوا لِأَخِیكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِیتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ یُسْأَلُ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کودفن کرکے فارغ ہوجاتے توقبرکے قریب کھڑے ہوجاتے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم دیتے کہ اپنے بھائی کے لئے بخشش طلب کرو اور ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو بے شک اب اس سے سوال کیا جائے گا۔[118]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبرسے بچاؤ کے لئے یہ دعائیں سکھائی ہیں ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَثِیرًا مَا یَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ:اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَأَنْقِ قَلْبِی مِنَ الْخَطَایَا كَمَا أَنْقَیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ كَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ، وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مرتبہ یہ دعا مانگتے تھے اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری دوزخ کے فتنہ سے اور دوزخ کے عذاب سے اور قبر کے فتنہ سےاور عذاب قبر سے اور دجال کے فساد سے اور تنگ دستی کے فتنہ اور مال داری کے فتنہ سے، اے اللہ! میری غلطیاں برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کے گناہ کو صاف کر دے جیسے تو نے صاف کیا سفید کپڑے کو تیل سے اور دور کر دے مجھ کو گناہوں سے اس قدر دور کر دے کہ جس قدر مشرق مغرب سے دور ہے ، اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں کاہلی اور بڑھاپے سے اور گناہ اور مقروض ہونے سے۔[119]

عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو فِی الصَّلاَةِ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِیحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْیَا، وَفِتْنَةِ المَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ “ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِیذُ مِنَ المَغْرَمِ، فَقَالَ:إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ، حَدَّثَ فَكَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں عذاب قبرسے حفاظت کے لئے یہ دعاپڑھاکرتے تھے اے اللہ! میں عذاب قبرسے تیری پناہ چاہتاہوں ، اورمجھےمسیح دجال کے فتنہ سے محفوظ رکھ اورمجھے زندگی کے فتنوں (زندگی کافتنہ یہ ہے کہ انسان زندگی میں رب العالمین کانافرمان رہے ،دین حق سے برگشتہ رہے،زندگی کی خوش نمائیوں میں کھوکرحق تعالیٰ سے غافل رہے)اورموت کے فتنوں (موت کافتنہ یہ ہے کہ مرتے وقت شیطان گمراہ کردے،کلمہ توحیدنصیب نہ ہو،بری حالت پرموت آئے) سے محفوظ فرما، اے اللہ!مجھے گناہ کے کاموں اورقرضے سے بچائے رکھ، کسی کہنے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاآپ قرض سے کس قدرزیادہ پناہ طلب کرتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی آدمی مقروض ہوتاہے پھربات کرتاہے توجھوٹ بولتاہے اوروعدہ کرتاہے تووعدہ خلافی کرتاہے۔[120]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِیلَ وَمِیكَائِیلَ، وَرَبَّ إِسْرَافِیلَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ حَرِّ النَّارِ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعابھی پڑھاکرتے تھےاے اللہ!اے جبریل اورمیکائیل کے رب!اوراے اسرافیل کے پروردگار!میں جہنم کی گرمی اورقبرکے عذاب سے آپ کی پناہ طلب کرتاہوں ۔[121]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقُولُ:اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالهَرَمِ، وَالمَغْرَمِ وَالمَأْثَمِ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ القَبْرِ وَعَذَابِ القَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِیحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِی مِنَ الخَطَایَا كَمَا یُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ كَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعامانگاکرتے تھے اے میرے اللہ! یقیناً میں سستی ، بڑھاپے،قرض اورگناہوں سے تیری پناہ چاہتاہوں ، اے اللہ!بے شک میں آگ کے عذاب اورآگ(جہنم)کے فتنے،قبرکے فتنے اورقبرکے عذاب،دولتمندی کے فتنے کے شراورغربت کے فتنے کے شر اورمسیح دجال کے فتنے کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں ،اے اللہ! تو میری خطاؤ ں کواولوں اوربرف کے پانی سے دھودے،اورمیرے دل کوخطاؤ ں سے ایساپاک صاف کردے جس طرح سفید کپڑامیل کچیل سے پاک صاف کیاجاتاہے، اورمیرے اورمیری خطاؤ ں کے درمیان دوری فرمادے جیسے تو نے مشرق اورمغرب کے درمیان دوری فرمارکھی ہے۔[122]

الغرض قبروہ خطرناک جگہ ہے جس سے جلیل القدرصحابہ رضی اللہ عنہم لرزاں رہتے تھے۔

سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جوسابقون الاولون میں سے ہیں ،جنہوں نے دومرتبہ حبشہ اورتیسری مرتبہ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ،مسجدنبوی کی تعمیرمیں حصہ لیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوصاحبزادیاں رقیہ رضی اللہ عنہا اورام کلثوم رضی اللہ عنہا یکے بعددیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرمیری اوربیٹیاں ہوتیں تومیں ان کانکاح عثمان سے کردیتا،جنہیں غزوہ بدرمیں شریک نہ ہونے کے باوجودمال غنیمت میں حصہ دیاگیا،جن کے لئے بیت رضوان منعقد ہوئی ،جنہیں نے اپنامال اللہ کی راہ میں بے دریغ لٹایااور اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے متعددمرتبہ جنت کی بشارتیں ملیں مگران کاحال یہ تھاکہ قبرکودیکھ کرآبدیدہ ہوجاتے ،

هَانِئًا، مَوْلَى عُثْمَانَ قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ، إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى یَبُلَّ لِحْیَتَهُ، فَقِیلَ لَهُ: تُذْكَرُ الجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلاَ تَبْكِی وَتَبْكِی مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ القَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَیْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ یَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ. قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا رَأَیْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلاَّ وَالقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ.

آپ رضی اللہ عنہ کے غلام ہانی رضی اللہ عنہ کابیان ہےسیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبرکے قریب کھڑے ہوتے تواتناروتے کہ آنسوؤ ں سے آپ کی داڑھی ترہوجاتی،آپ کی یہ حالت دیکھ کرایک دن کسی نے آپ سے پوچھا عثمان رضی اللہ عنہ !جنت اوردوزخ کے تذکرے پرتوآپ کو رونا نہیں آتامگرقبرکودیکھتے ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوبہناشروع ہوجاتے ہیں اس کی کیاوجہ ہے؟انہوں نے جواب دیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرکے حالات وواقعات اور کیفیات کاذکرکرتے ہوئے فرمایاہےقبرآخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے پس جوشخص اس کے عذاب سے نجات پا گیا تو بعد کا معاملہ تواس کے لئے کہیں زیادہ آسان ہے،اوراگرکوئی شخص عذاب قبرسے ہی نجات حاصل نہ کرسکا تواس کے لئے بعد کے معاملات تواس سے زیادہ سخت ہوں گے، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا میں نے قبرسے بڑھ کرکوئی خوفناک منظرنہیں دیکھا۔[123]

عمروبن العاص جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا عمرو رضی اللہ عنہ سچے مومن ہیں ،ایک مرتبہ فرمایاعمروبن عاص رضی اللہ عنہ قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں ،ایک مرتبہ ان کے حق میں یوں دعافرمائی اےاللہ!عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کی مغفرت فرما،ایک اورموقع پردعافرمائی اللہ! عمرو رضی اللہ عنہ پررحم فرما،جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کلمات کہے ہوں ان کے مومن ہونے میں کیاشک رہ جاتاہے،مگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم عذاب قبرسے خائف رہتے تھے کہ ان کاوہاں کیاانجام ہوتاہے

حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، وَهُوَ فِی سِیَاقَةِ الْمَوْتِ، یَبَكِی طَوِیلًا، وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ، فَجَعَلَ ابْنُهُ یَقُولُ: یَا أَبَتَاهُ، أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا؟أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا؟ قَالَ: فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ،إِنِّی قَدْ كُنْتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ، لَقَدْ رَأَیْتُنِی وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنِّی، وَلَا أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ أَكُونَ قَدِ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ، فَقَتَلْتُهُ فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ،فَلَمَّا جَعَلَ اللهُ الْإِسْلَامَ فِی قَلْبِی أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ یَمِینَكَ فَلْأُبَایِعْكَ، فَبَسَطَ یَمِینَهُ، قَالَ: فَقَبَضْتُ یَدِی

چنانچہ جب عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی موت کاوقت آیاتووہ دیوارکی طرف منہ کرکے دیرتک روتے رہے ،ان کے بیٹوں نے کہااباجان!کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کوفلاں فلاں بشارتیں نہیں دیں ،تب عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اپناچہرہ سامنے کیااورکہاہم لوگ(یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )کلمہ شہادت لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ کا اقرارسب سے افضل باتوں میں شمار کرتے تھے ، میرے اوپرتین حالتیں گزری ہیں پہلی حالت وہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کوبرانہیں سمجھتاتھااورمیری خواہش تھی کہ میں آپ پرقابوپاؤ ں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کردوں اگرمیں اسی حالت میں مرجاتاتوجہنمیوں میں سے ہوتااس کے بعددوسری حالت وہ تھی جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی اورمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیاکہ اپناہاتھ بڑھائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنادایاں ہاتھ آگے کیاتومیں نے اپناہاتھ کھینچ لیا

قَالَ:مَا لَكَ یَا عَمْرُو؟قَالَ: قُلْتُ: أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ، قَالَ:تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟قُلْتُ: أَنْ یُغْفَرَ لِی،قَالَ:أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟وَأَنَّ الْحَجَّ یَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِی عَیْنِی مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِیقُ أَنْ أَمْلَأَ عَیْنَیَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ؛ لِأَنِّی لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَیْنَیَّ مِنْهُ، وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ،ثُمَّ وَلِینَا أَشْیَاءَ مَا أَدْرِی مَا حَالِی فِیهَا، فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمرو رضی اللہ عنہ کیابات ہے؟ میں نے عرض کیامیں شرط کرناچاہتاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکون سی شرط؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمرو رضی اللہ عنہ !کیاتونہیں جانتاکہ اسلام قبول کرناگزشتہ سارے گناہوں کومعاف کردیتاہے اورہجرت کرناگزشتہ سارے گناہوں کومعاف کردیتاہے؟اورحج گزشتہ سارے گناہوں کومعاف کردیتاہے؟ تب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی محبت تھی کہ اتنی زیادہ کسی دوسرے سے نہیں تھی اورمیری نگاہ میں آپ کی اتنی زیادہ شان تھی جواورکسی کی نہیں تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارک کے متعلق پوچھتے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوجہ عظمت وجلال دیکھ نہ سکااگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی،پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا ؟

فَإِذَا مِتُّ فَلَا تَبْكِیَنَّ عَلَیَّ،وَلَا تُتْبِعْنِی مَادِحًا وَلَا نَارًا وَشُدُّوا عَلَیَّ إِزَارِی فَإِنِّی مُخَاصِمٌ، وَسُنُّوا عَلَیَّ التُّرَابَ سَنًّا، فَإِنَّ جَنْبِیَ الْأَیْمَنَ لَیْسَ بِأَحَقَّ بِالتُّرَابِ مِنْ جَنْبِی الْأَیْسَرِ وَلَا تَجْعَلَنَّ فِی قَبْرِی خَشَبَةً وَلَا حَجَرًا فَإِذَا وَارَیْتُمُونِی فَاقْعُدُوا عِنْدِی قَدْرَ نَحْرِ جَزُورٍ وَتَقْطِیعِهَا، أَسْتَأْنِسْ بِكُمْ

جب مجھے موت آجائے تومیرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی عورت نہ ہواورمیرے جنازے کے ساتھ کوئی آگ لے کرنہ چلے،میرا تہبند مضبوطی سے باندھ دو کہ مجھ سے جواب طلبی ہوگی،مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا اور سب طرف بکھیر دینا کیونکہ دایاں پہلو بائیں پہلو سے زیادہ حق نہیں رکھتااورمیری قبر پر کوئی لکڑی یا پتھر نہ گاڑنا اورجب تم مجھے دفن کروتومیری قبرکے اردگرداتنی دیرتک دعاکرتے رہناجتنی دیرمیں اونٹ ذبح کرکے اس کاگوشت تقسیم کیاجاتاہے تاکہ تمہاری دعاسے مجھے تسلی رہے اورمجھے پتہ چل جائے کہ میں اپنے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں (منکرنکیر)کوکیاجواب دیتاہوں ۔[124]

سَلْمُ بْنُ بُشَیْرِ بْنِ جَحْلٍ، أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، بَكَى فِی مَرَضِهِ، فَقِیلَ لَهُ: مَا یُبْكِیكَ؟ فَقَالَ:أَمَا إِنِّی لَا أَبْكِی عَلَى دُنْیَاكُمْ هَذِهِ، وَلَكِنِّی أَبْكِی عَلَى بُعْدِ سَفَرِی، وَقِلَّةِ زَادِی، وَإِنِّی أَمْسَیْتُ فِی صَعُودِ مَهْبَطَةٍ عَلَى جَنَّةٍ وَنَارٍ، لَا أَدْرِی إِلَى أَیَّتِهِمَا یُؤْخَذُ بِی

سلم بن بشیربن جحل سے مروی ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے مرض الموت میں رونے لگے آپ سے پوچھاگیاکہ کیوں رورہے ہیں ؟ فرمانے لگے میں تمہاری اس دنیا(کوچھوڑنے کی)وجہ سے نہیں رورہا بلکہ(آئندہ پیش آنے والے)طویل سفراورقلت زادسفرکی وجہ سے رورہاہوں ،میں نے ایسی بلندی پرشام کی ہے جس کے آگے جنت ہے یاجہنم،اورمیں نہیں جانتاان دونوں میں سے میرامقام کون ساہوگا۔[125]

مالك بن دینار یقول: عجباً لمن یعلم أن الموت مصیره والقبر مورده كیف تقر بالدنیا عینه؟ وكیف یطیب فیها عیشه؟ قال: ثم یبكی مالك حتى یسقط مغشیاً علیه.

مالک بن دینارکہتے ہیں اس شخص پرتعجب ہے جوجانتاہے کہ اس کاانجام موت ہے،قبراس کاٹھکانہ ہے(اس کے باوجوداسے اس دنیامیں قرارحاصل ہے اورسکون کی زندگی بسرکررہاہے)راوی کہتاہے مالک بن دینار رحمہ اللہ نے یہ کہااورزاروقطاررونے لگے حتی کہ بے ہوش ہوکرگرپڑے۔[126]

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَا یَنْزِلُ بِكُمْ مِنَ الْعَذَابِ فِی الْقَبْرِ. ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ فِی الْآخِرَةِ إِذَا حَلَّ بِكُمُ الْعَذَابُ. فَالْأَوَّلُ فِی الْقَبْرِ، وَالثَّانِی فِی الْآخِرَةِ، فَالتَّكْرَارُ لِلْحَالَتَیْنِ.

جیسے پہلے بیان کیاجاچکاہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’خبردار!عنقریب تم جان لوگے،اس سے مرادوہ عذاب ہے جوتمہیں قبرمیں دیا جائے گا ،پھر خبردار! عنقریب تمہیں علم ہو جائے گا۔‘‘سے مرادآخرت کاعذاب ہے،پس پہلی آیت قبرکے بارے میں ہے اوردوسری آیت آخرت کے متعلق ہے اورایک جیسے الفاظ کادو مرتبہ آنا دو حالتوں (قبر اور آخرت) کوبیان کرنے کے لئے ہے۔[127]

ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ: عِنْدَ الْبَعْثِ أَنَّ مَا وَعَدْتُكُمْ بِهِ صِدْقٌ

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’پھرخبردار!عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔‘‘یہ آیت قبروں سے اٹھائے جانے کے بارے میں ہی نازل کی گئی ہے یعنی اے لوگو! قبروں سے اٹھائے جانے کے بارے میں جوتم سے وعدہ کیاگیاہے وہ برحق ہے۔ [128]

لیکن کفار ومشرکین اس عقیدے کوماننے کے لئے تیارنہیں تھےاوروہ بطورتمسخر کے کہتے تھے۔

۔۔۔قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ [129]

ترجمہ:کون ان ہڈیوں کوزندہ کرے گاجب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ۝۰ۭ وَهُوَبِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـیْمُۨ۝۷۹ۙ [130]

ترجمہ:اس سے کہوانہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیداکیاتھااوروہ تخلیق کے ہرکام جانتاہے۔

ایک مقام پر کفارکے عقیدے کویوں بیان فرمایا:

وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا۝۶۶اَوَلَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَكُ شَـیْـــــًٔـا۝۶۷ [131]

ترجمہ: انسان کہتاہے کیاواقعی جب میں مرچکوں گاتوپھرزندہ کرکے نکال لایاجاؤ ں گا؟کیاانسان کو یاد نہیں آتاکہ ہم پہلے اس کوپیداکرچکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟۔

ایک مقام پر فرمایا کہ جب انسان کاوجودہی نہ تھااوراللہ نے اسے تخلیق فرمادیاتومرنے کے بعداسے دوبارہ زندہ کر دینا اس کے لئے کیامشکل ہے،جیسے فرمایا:

هَلْ اَتٰى عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَـیْــــًٔا مَّذْكُوْرًا۝۱اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ۝۰ۤۖ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۝۲ [132]

ترجمہ: کیا انسان پر لامتناہی زمانے کاایک وقت ایسابھی گزراہے جب وہ کوئی قابل ذکرچیزنہ تھا ،ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔

لوگو!تم لوگ حیات بعدالموت کے عقیدے کو تسلیم کرو یانہ کرومگرایک وقت مقررہ پرتمام بنی نوح انسانوں کوان کی قبروں سے جسم وجان کے ساتھ زندہ کیاجائے گااوروہ اللہ رب العزت کے دربارمیں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے حاضرکیے جائیں گے،جیسے فرمایا

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱ [133]

ترجمہ:پھرایک صورپھونکاجائے گااوریکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔

قبروں سے نکل آنے کے بعد کفارومشرکین کی ذلت کا نقشہ یوں کھینچاگیا۔

 یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۝۴۳ۙخَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْیَوْمُ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۝۴۴ۧ [134]

ترجمہ:جب یہ اپنی قبروں سے نکل کراس طرح دوڑے جارہے ہوں گے جیسے اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑرہے ہوں ،ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی ،ذلت ان پرچھارہی ہوگی وہ دن ہے جس کاان سے وعدہ کیا جارہاہے۔

کفارومشرکین کوفرمایاتم لوگ بعث بعدالموت کومحال اورناممکن سمجھتے ہومگرحقیقت یہ ہے کہ صورکی آوازکے ساتھ ہی بحروبراورمشرق ومغرب میں انسان کے بکھرے ہوئے تمام ذرات جمع ہوجائیں گے اوروہ اپنی قبروں سے نکل کردوڑتے ہوئے میدان محشرکی طرف دوڑنے لگیں گے،جیسے فرمایا

فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙفَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ۝۱۴ۭ [135]

ترجمہ:حالاں کہ یہ بس اتناکام ہے کہ ایک زورکی ڈانٹ پڑے گی اوریکایک یہ کھلے میدان میں موجود ہوں گے۔

ایک مقام پر ان کی حالت یوں بیان فرمائی۔

 یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ۝۶ۙخُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ۝۷ۙ مُّهْطِعِیْنَ اِلَى الدَّاعِ۝۰ۭ یَقُوْلُ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ۝۸ [136]

ترجمہ:جس روزپکارنے والاایک سخت ناگوارچیزکی طرف پکارے گا،لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے گویاوہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں ،پکارنے والے کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے اوروہی منکرین (جودنیامیں اس کاانکارکرتے تھے)اس وقت کہیں گے کہ یہ دن توبڑاکٹھن ہے۔

عَنْ أَبِی سَلَمَةَ،عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ، دَعَا بِثِیَابٍ جُدُدٍ فَلَبِسَهَا ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ الْمَیِّتَ یُبْعَثُ فِی ثِیَابِهِ الَّتِی یَمُوتُ فِیهَا

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی وفات کاوقت قریب آیاتوانہوں نے نئے کپڑے منگوائے اورپہن لئے پھرکہنے لگے بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناتھا کہ میت کوانہی کپڑوں میں اٹھایا جائے گاجن میں اسے موت آئے گی۔ [137]

یعنی اگرکوئی نمازپڑھتے ہوئے فوت ہواہوگاتووہ حالت نمازمیں ہی اٹھایا جائے گا،جوشخص اللہ کے گھرکی زیارت کرنے والاہوگاوہ لبیک،لبیک کہتاہواقبرسے باہر آجائے گا،جواللہ کے آخری کلام کی تلاوت کرتارہاہوگاوہ قرآن مجیدکی تلاوت کرتاہوا نکلے گااورجس کواللہ کی نافرمانی میں موت آئی ہوگی تووہ وہی جرم کرتاہواقبرسے کھڑا ہو گا ۔

متقی اورصالح لوگوں کاقبروں سے نکلتے ہی فرشتے پرتپاک استقبال کریں گے،جیسے فرمایا:

یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا۝۸۵ۙ [138]

ترجمہ: وہ دن آنے والاہے جب متقی لوگوں کوہم مہمانوں کی طرح رحمان کے حضورپیش کریں گے۔

عقائدواعمال کے حسب حال نیک لوگوں کوقبروں سے نکلتے ہی سواریاں پیش کی جائیں گی ۔

عَن عَلیّ قَالَ: سَأَلت رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم عَن هَذِه الْآیَة {یَوْم نحْشر الْمُتَّقِینَ إِلَى الرَّحْمَن وَفْدًا} قلت: یَا رَسُول الله هَل الْوَفْد إِلَّا الركب قَالَ النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّهُمْ إِذَا خَرَجُوا مِنْ قُبُورِهِمُ اسْتُقْبِلُوا بِنُوقٍ بِیضٍ لَهَا أَجْنِحَةٌ عَلَیْهَا رَحَائِلُ الذَّهَبِ،شِرْكِ نِعَالِهِمْ نُورٌ تَلأْلأَ، كُلُّ خُطْوَةٍ مِنْهَا مثل مَدَّ الْبَصَرِ، وینتهون إلى باب الجنة

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت کریمہ ’’یَوْم نحْشر الْمُتَّقِینَ إِلَى الرَّحْمَن وَفْدًا‘‘کے بارے میں سوال کیاگیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیانیک لوگوں کے لیے سواریاں ہوں گی ؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایامجھے اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے پرہیزگارلوگ جب اپنی قبروں سے نکلیں گے توفرشتے سفیدرنگ کی اونٹنیوں کے ساتھ ان کااستقبال کریں گے ،ان اونٹنیوں کے اڑنے کے لئے پرہوں گے جن کے کجاوے سونے کے ہوں گے ،ان کے پاؤ ں کی گھریاں روشن اورچمکدارہوں گی اوران کے قدم حدنگاہ پرپڑیں گے ،ایسی بے مثال اونٹنیوں پرسوارکرکے فرشتے انہیں جنت کے دروازے تک پہنچادیں گے ۔ [139]

قول علىّ رضى الله عنه مَا یُحْشَرُونَ وَاللَّهِ عَلَى أرجلهم ولكن على نوق رجالها الذهب ونجائب مرحبها الیواقیت ان هموابها سارت وان هموا طارت

ایک اورتفسیرمیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کاقول ہے بعض اہل ایمان کوقبروں سے نکلتے ہی اصیل گھوڑوں پرسوارکیاجائے گاوہ گھوڑے یاقوت کی زمین پردوڑیں گے اوراگران کے سوارچاہیں گے تووہ سواریاں اڑنے لگیں گی ۔ [140]

وَقَالَ عَلِیٌّ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّی رَأَیْتُ الْمُلُوكَ وَوُفُودَهُمْ فَلَمْ أَرَ وَفْدًا إِلَّا رُكْبَانًا. قَالَ: (یَا عَلِیُّ إِذَا كَانَ الْمُنْصَرَفُ مِنْ بَیْنِ یَدَیِ اللَّهِ تَعَالَى تَلَقَّتِ الْمَلَائِكَةُ الْمُؤْمِنِینَ بِنُوقٍ بِیضٍ رِحَالُهَا وَأَزِمَّتُهَا الذَّهَبُ عَلَى كُلِّ مَرْكَبٍ حُلَّةٌ لَا تُسَاوِیهَا الدُّنْیَا فَیَلْبَسُ كُلُّ مُؤْمِنٍ حُلَّةً ثُمَّ تَسِیرُ بِهِمْ مَرَاكِبُهُمْ فَتَهْوِی بِهِمُ النُّوقُ حَتَّى تَنْتَهِیَ بِهِمْ إِلَى الْجَنَّة

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تومیں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا متقی لوگوں کو سرداروں اوروفودکی طرح اللہ کے دربارمیں حاضرہونے کے لیےسواریاں دی جائیں گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے علی رضی اللہ عنہ !ان لوگوں کوپیدل نہیں لایاجائے گااورنہ ہی پیچھے سے ہانک کرلایاجائے گابلکہ ان کے لئے ایسی اونٹنیاں حاضرکی جائیں گی کہ ان جیسی خوبصورت اونٹنیوں کومخلوق میں سے کسی نے نہیں دیکھا،ان کے کجاوے سونے کے اورلگامیں موتیوں کی ہوں گی ،وہ متقی لوگ ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر جنت کے دروازے تک جائیں گے اورجنت کادروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔[141]

عن ابى هریرة قال قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُحْشَرُ الْأَنْبِیَاءُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَى الدَّوَابِّ لِیُوَافُوا مِنْ یَوْمِهِمُ الْمَحْشَرَوَیُبْعَثُ صَالِحٌ عَلَى نَاقَتِهِ وَأُبْعَثُ أَنَا عَلَى الْبُرَاقِ وَیُبْعَثُ ابْنَایَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَى نَاقَتَیْنِ مِنْ نُوقِ الْجَنَّةِ ،ویبعث بلال على ناقة مِنْ نُوقِ الْجَنَّةِ فینادى بالأذان محضا بالشهادة حقا حتى إذا قال أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ شهد له المؤمنون من الأولین والآخرین فقبلت ممن قبلت وردّت لمن ردّت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء کرام کوسواریوں پرلے جایاجائے گایہاں تک کہ وہ میدان حشرتک پہنچ جائیں گے ،صالح علیہ السلام کوان کی اونٹنی پرسوارقبرسے اٹھایا جائے گااورمجھے براق پرسوارکیاجائے گااورمیرے دونوں نواسوں حسن رضی اللہ عنہ اورحسین رضی اللہ عنہ کوجنت سے آئی ہوئی دو اونٹنیاں پربٹھایاجائے گا اوربلال رضی اللہ عنہ کوبھی جنت کی اونٹنی پرسوارکیا جائے گا،وہ خالص توحیدکی شہادت والی اذان دیں گے اورجب وہ اشھدان محمدرسول اللہ کہیں گے تواگلے پچھلے تمام مومن اس کی گواہی دیں گے ،جس کی شہادت قبول ہونی ہو گی ہوجائے گی اورجس کی شہادت ردہونی ہوگی ردہوجائے گی۔[142]

جب صورپھونکاجائے گاتوسب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبرمبارک سے باہرآئیں گے اوروہی اہل ایمان کی قیادت کریں گے ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا، وَأَنَا خَطِیبُهُمْ إِذَا وَفَدُوا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَیِسُوا، لِوَاءُ الحَمْدِ یَوْمَئِذٍ بِیَدِی، وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّی وَلاَ فَخْرَ.

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب لوگوں کوقبروں سے نکالاجائے گاتو سب سے پہلے میں قبرسے باہرآؤ ں گاجب لوگ بارگاہ الٰہی میں حاضرہوں گے تومیں ان کاترجمان ہوں گااورجب لوگ مایوس ہورہے ہوں گے تومیں انہیں خوشخبری سناؤ ں گا،اس روزحمدکاجھنڈامیرے ہاتھ میں ہوگا اورمیں اپنے پروردگارکے ہاں ساری اولادآدم سے زیادہ باعزت ہوں گااورمیں (اللہ کے کرم وفضل پر)فخروغرور نہیں کرتا۔[143]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ آتِی أَهْلَ البَقِیعِ فَیُحْشَرُونَ مَعِی، ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَهْلَ مَكَّةَ حَتَّى أُحْشَرَ بَیْنَ الحَرَمَیْنِ.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک اورروایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں پہلاشخص ہوں گاجس کی قبرکوپھاڑاجائے گا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبرشق کی جائے گی ،پھر عمر رضی اللہ عنہ کونکالاجائے گا، پھرمیں (مدینہ منورہ کے قبرستان) بقیع میں آؤ ں گاتومیرے اصحاب کومیرے پاس جمع کیاجائے گا پھرمیں اہل مکہ کاانتظارکروں گاجب مکہ مکرمہ کے قبرستان میں دفن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قبروں سے نکل کر آ جائیں گے تومیں حرمین شریفین کے اہل ایمان کے درمیان میدان حشرکی طرف روانہ ہوں گا۔[144]

بعض روایات میں عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر بھی ہے۔

عَن عبد الله بن عَمْرو قا ل:قا ل رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَنْزِلُ عِیسَى بن مَرْیَمَ إِلَى الْأَرْضِ، فَیَتَزَوَّجُ وَیُولَدُ لَهُ وَیَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِینَ سَنَةً ، ثُمَّ یَمُوتُ فَیُدْفَنُ مَعِی فِی قَبْرِی، فأقوم أَنا وَعِیسَى بن مَرْیَمَ فِی قَبْرٍ وَاحِدٍ بَیْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعیسیٰ علیہ السلام (قیامت سے پہلے)آسمان سےزمین پراتریں گے،نکاح کریں گے اوران کے اولادہوگی اوروہ پینتالیس سال تک زندہ رہیں گے،پھرفوت ہوجائیں گے اورمیرے ساتھ میری قبرمیں دفن ہوں گے،میں اورعیسیٰ بن مریم ،سیدنا ابوبکر اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک ہی قبر(مقبرہ) سے اٹھیں گے۔[145]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ فَأُكْسَى الْحُلَّةَ مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أَقُومُ عَنْ یَمِینِ الْعَرْشِ لَیْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلاَئِقِ یَقُومُ ذَلِكَ الْمَقَامَ غَیْرِی.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں وہ پہلاشخص ہوں گا جس سے (قبرکی)زمین پھاڑی جائے گی اورمجھے جنت کے جبوں میں سے جبہ پہنایاجائے گاپھرمیں عرش کے دائیں جانب کھڑاہوں گامیرے سواوہاں کوئی کھڑانہیں ہوسکے گا ۔[146]

باری تعالیٰ نے فرمایاقبروں سے نکلنے کے بعدلوگ تین اقسام میں تقسیم ہوجائیں گے۔

اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ۝۱ۙلَیْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ۝۲ۘخَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ۝۳ۙاِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙوَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ ۙ وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً۝۷ۭ [147]

ترجمہ:جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا،تو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگا،وہ تہہ و بالا کر دینے والی آفت ہوگی،زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے،تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ القِیَامَةِ ثَلاَثَةَ أَصْنَافٍ: صِنْفًا مُشَاةً، وَصِنْفًا رُكْبَانًا، وَصِنْفًا عَلَى وُجُوهِهِمْ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَكَیْفَ یَمْشُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ؟ قَالَ: إِنَّ الَّذِی أَمْشَاهُمْ عَلَى أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ یُمْشِیَهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَمَا إِنَّهُمْ یَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن انسانوں کوتین اقسام میں جمع کیاجائے گا بعض لوگ قبروں سے نکل کرپیدل میدان حشرکی طرف جائیں گے، بعض لوگ سواریوں پرسوارہوکربارگاہ الٰہی میں حاضرہوں گے، اوربعض لوگ چہروں کے بل الٹے چل کرحاضرہوں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !لوگ چہروں کے بل کیسے آئیں گے؟ فرمایاوہ ذات جس نے انہیں ( دنیا میں ) پاؤ ں پرچلایاوہی انہیں چہروں کے بل چلانے پربھی قدرت رکھتاہے ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی جب نافرمان لوگ قبروں سے نکل کرچہروں کے بل الٹے چلتے ہوئے میدان حشرکی طرف آئیں گے تووہ زمین کی کنکریوں اورکانٹوں کواپنے چہروں سے ہٹانے کی کوشش کریں گے۔[148]

الغرض اگرتم اس غفلت کاانجام اس طرح یقینی طورپرجان لوجس طرح دنیاکی کسی دیکھی بھالی چیزکاتمہیں یقین ہوتاہے توتم یقیناً اس تکاثروتفاخرمیں مبتلانہ ہوتے اورنہ تمہارا زندگی گزارنے کایہ طرزعمل ہوتا۔

[1] الکہف۱۰۳تا۱۰۶

[2] المنافقون۹تا۱۱

[3] الفجر۲۳،۲۴

[4] المومنون۹۹تا۱۰۳

[5] القلم ۱۷تا۳۳

[6] جامع ترمذی کتاب الزھد بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِینَ یَدْخُلُونَ الجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِیَائِهِمْ۲۳۵۲،مشکوٰة المصابیح کتاب الرقاق باب فضل الفقرائ۵۲۴۴

[7] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ لاَ تَأْذَنِ المَرْأَةُ فِی بَیْتِ زَوْجِهَا لِأَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ۵۱۹۶، صحیح مسلم کتاب الرقاق بَابُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْفُقَرَاءُ وَأَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ النِّسَاءُ وَبَیَانِ الْفِتْنَةِ بِالنِّسَاءِ ۶۹۳۷،مشکوٰة المصابیح کتاب الرقاق باب فضل الفقراء ۵۲۳۳

[8] جامع ترمذی کتاب الزھد بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِینَ یَدْخُلُونَ الجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِیَائِهِمْ۲۳۵۴، صحیح مسلم کتاب الزھد الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ۷۴۶۳،مشکوٰة المصابیح کتاب الرقاق باب فضل الفقرائ۵۲۳۵، مسند احمد ۱۴۴۷۶

[9] الکہف ۳۲تا ۴۴

[10] صحیح مسلم کتاب الزھد الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ۷۴۲۲،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ۳۳۵۴

[11] صحیح مسلم کتاب الزھد الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ۷۴۲۲، مسند احمد۸۸۱۳،صحیح ابن حبان ۳۲۴۴، شعب الایمان ۳۰۶۲،السنن الکبری للبیہقی ۶۵۱۰، الترغیب والترھیب للمنذری ۱۲۷۳

[12]صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَا یُتَّقَى مِنْ فِتْنَةِ المَالِ ۶۴۳۹

[13] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَا یُتَّقَى مِنْ فِتْنَةِ المَالِ۶۴۳۷

[14]صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَا یُتَّقَى مِنْ فِتْنَةِ المَالِ۶۴۳۹

[15] صحیح بخاری کتاب الجہاد بَابُ الحِرَاسَةِ فِی الغَزْوِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ۲۸۸۶ ،وکتاب الرقاق بَابُ مَا یُتَّقَى مِنْ فِتْنَةِ المَالِ ۶۴۳۵

[16] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ سَكَرَاتِ المَوْتِ ۶۵۱۴،صحیح مسلم کتاب الزھد الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ۷۴۲۴،جامع ترمذی ابواب الزھدباب ۱۴۸۵،ح ۲۳۷۹

[17] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَنْ بَلَغَ سِتِّینَ سَنَةً، فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّهُ إِلَیْهِ فِی العُمُرِ۶۴۲۱،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ كَرَاهَةِ الْحِرْصِ عَلَى الدُّنْیَا۲۴۱۲

[18] صحیح مسلم کتاب الزھدبَابُ الصَّدَقَةِ فِی الْمَسَاكِینِ ۷۴۷۳، مسند احمد ۷۹۴۱ ، مسندالبزار۹۳۷۲، صحیح ابن حبان۳۳۵۵ ،شعب الایمان۳۱۳۴،السنن الکبری للبیہقی۷۵۱۲

[19] تفسیرالقرطبی۱۷۲؍۲۰

[20] تفسیر القرطبی ۱۷۲؍۲۰، تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم۳۴۵۹؍۱۰،جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن باب ومن سورة الھاکم التکاثر۳۳۵۵

[21] الاعراف۱۷۲

[22] المومنون۱۲تا۱۴

[23] الاحقاف۱۵

[24] الزمر۳۰

[25] الانبیاء ۳۴،۳۵

[26] آل عمران ۱۴۴

[27] المومنون۱۰۰

[28] صحیح بخاری کتاب الانبیاء بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۴۵۲،سنن نسائی کتاب الجنائزباب أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِینَ۲۰۸۲، مسند احمد ۲۳۳۵۳، مسندالبزار۲۸۲۲،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۴۲،شعب الایمان ۶۷۶۰،السنن الکبری للنسائی ۱۱۸۲۵،شرح السنة للبغوی ۴۱۸۳،روح البیان ۲۶۷؍۱۰، تفسیرابن کثیر۵۹۵؍۶

[29]النحل ۲۸،۲۹

[30] النحل ۳۲

[31] الترغیب والترہیب للمنذری۵۳۹۶، مسنداحمد۱۸۵۳۴،ابن ابی شیبہ۱۲۰۵۹ ، اثبات عذاب القبر للبیہقی۴۴

[32] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ المَیِّتِ وَهُوَ عَلَى الجِنَازَةِ: قَدِّمُونِی ۱۳۱۶،وبَابُ حَمْلِ الرِّجَالِ الجِنَازَةَ دُونَ النِّسَاءِ۱۳۱۴،وبَابُ كَلاَمِ المَیِّتِ عَلَى الجَنَازَةِ۱۳۸۰،سنن نسائی کتاب الجنائزباب السُّرْعَةُ بِالْجَنَازَةِ۱۹۱۱ ،مسنداحمد۱۱۳۷۲،اثبات عذاب القنرللبیہقی ۴۲،کتاب الروح ۶۵؍۱،شرح الصدور۱۵، اھوال القبورواحوال اھلھاالی النشور۹۵؍۱،صحیح ابن حبان ۳۰۳۸،السنن الکبری للنسائی ۲۰۴۷،السنن الکبری للبیہقی ۶۸۴۶،مسندابی یعلی ۱۲۶۵،شرح السنة للبغوی۱۴۸۲

[33] النمل۸۰

[34] سنن نسائی کتاب الجنائزباب ضَمَّةُ الْقَبْرِ وَضَغْطَتُهُ۲۰۵۷

[35]مستدرک حاکم ۴۹۲۴، صحیح ابن حبان۷۰۳۴

[36] شرح مشکل الآثار۴۱۷۳ ، مسنداحمد۱۴۵۰۵

[37] مسنداحمد۲۴۲۸۳ ،اثبات عذاب القبرللبیہقی۱۰۶

[38] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابٌ: المَیِّتُ یَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ ۱۳۳۸،صحیح مسلم کتاب الجنة ونعیمھابَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ ۷۲۱۷،سنن نسائی کتاب الجنائزباب التَّسْهِیلُ فِی غَیْرِ السِّبْتِیَّةِ۲۰۵۲،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْمَشْیِ فِی النَّعْلِ بَیْنَ الْقُبُورِ ۳۲۳۱،مسند احمد ۱۲۲۷۱، صحیح ابن حبان ۳۱۲۰،السنن الکبری للبیہقی ۷۲۱۷،شرح السنة للبغوی ۱۵۲۲

[39] مسنداحمد۶۶۰۳،المعجم الکبیرللطبرانی۱۰۶،صحیح ابن حبان ۳۱۱۵،الترغیب والترہیب۵۳۹۱

[40] کتاب الصلاة۴۵

[41] الفقہ الاکبر ۱۰۱

[42] الفقہ الاکبر ۶۵؍۱

[43] کتاب الروح ۵۰؍۱

[44] فتح الباری ۲۳۵؍۳

[45] مرقاة۱۱۷۸؍۳

[46] عمدة القاری ۹۳؍۱۷

[47] شرح العقیدة الطحاویة۵۷۸؍۲

[48] جامع ترمذی کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۱،ابن حبان۳۱۱۷،بیہقی فی عذاب القبر۵۶، مسند البزار ۸۴۶۲،شرح السنة للبغوی۱۵۲۲

[49] المعجم الاوسط۴۶۲۹،الترغیب والترہیب للمنذری۵۳۹۸

[50] الترغیب والترہیب ۵۳۹۶،۵۳۹۸،شعب الایمان۳۹۰

[51] سنن ابن ماجہ ابواب الزہد بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى ۴۲۶۸،مسندالبزار۸۲۲۰

[52] سنن ابن ماجہ ابواب الزہد بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى۴۲۷۲

[53] صحیح ابن حبان ۳۱۱۳، مستدرک حاکم۱۴۰۳، اثبات عذاب القبرللبیہقی ۶۷

[54] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۳۶۹،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْمَسْأَلَةِ فِی الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۴۷۵۰،سنن نسائی کتاب الجنائزباب عَذَابُ الْقَبْرِ ۲۰۵۹

[55] سنن ابوداود کتاب السنتہ بَابٌ فِی الْمَسْأَلَةِ فِی الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۴۷۵۳،مستدرک حاکم ۱۰۷، مسند احمد ۱۸۵۳۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۲۰۵۹

[56] جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۱،صحیح ابن حبان ۳۱۰۷،مصنف ابن ابی شیبة ۱۲۰۶۲،بیہقی فی عذاب القبر۶۸

[57]جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۱،صحیح ابن حبان ۳۱۰۷،بیہقی فی عذاب القبر۵۶،مسندالبزار۸۴۶۲،صحیح الترغیب والترہیب۳۵۶۰،الترغیب والترہیب للمنذری۵۳۹۹

[58] صحیح الترغیب والترہیب۲۱۹؍۳، مسنداحمد۱۸۵۳۴، مصنف ابن ابی شیبہ۱۲۰۵۹،مستدرک حاکم۱۰۷،اثبات عذاب القبرللبیہقی۴۴،شعب الایمان۳۹۰

[59] یٰسین۲۵تا۲۷

[60] سنن ابن ماجہ ابواب الزہد بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى۴۲۶۸، مسند احمد ۲۵۰۸۹،مسندالبزار۸۲۱۹

[61] سنن ابن ماجہ کتاب الزہدبَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى۴۲۶۸

[62] جامع ترمذی کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۱

[63] البقرة۳۸

[64] طہٰ۱۲۳

[65] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۳۷۲،صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ ذِكْرِ عَذَابِ الْقَبْرِ فِی صَلَاةِ الْخُسُوفِ۲۰۹۸

[66] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۳۷۳،سنن نسائی کتاب الجنائزباب التَّعَوُّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۲۰۶۴،اثبات عذاب القبرللبیہقی ۱۰۲،السنن الکبری للنسائی ۲۲۰۰

[67] سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الْحُزْنِ وَالْبُكَاءِ۴۱۹۵

[68] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ فِی الكُسُوفِ ۱۰۵۳،صحیح مسلم کتاب الکسوف بَابُ مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلَاةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ۲۱۰۳،موطاامام مالک کتاب صلوٰة الکسوف باب ماجاء فی صلوٰہ الکسوف ۱۴۴۷، مسنداحمد۲۶۹۲۵، صحیح ابن حبان ۳۱۱۴،اثبات عذاب القبرللبیہقی۱۸،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۱۳،السنن الکبری للبیہقی ۶۳۶۰،شرح السنة للبغوی ۱۱۳۷

[69] صحیح بخاری کتاب الکسوف بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ فِی المَسْجِدِ ۱۰۵۶، مسند احمد ۱۴۱۵۲،السنن الکبری للبیہقی ۶۳۰۸،معرفة السنن والاثار۷۰۵۲،مصنف عبدالرزاق ۶۷۴۲،شرح السنة للبغوی ۱۱۴۱

[70] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ۱۳۷۷

[71] المومن۴۵،۴۶

[72]تأویل مشكل القرآن۵۶؍۱

[73] التوبة۱۰۱

[74] ابراہیم۲۷

[75] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۳۶۹،سنن ابوداودکتاب السنةبَابٌ فِی الْمَسْأَلَةِ فِی الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۴۷۵۳

[76] کشف الاستارعن زوائدالبزار۸۶۸

[77] صحیح مسلم کتاب الجنة ونعیمھا بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ ۷۲۲۰،سنن نسائی کتاب الجنائزباب عَذَابُ الْقَبْرِ۲۰۵۹،اثبات عذاب القبر للبیہقی ۸

[78] نوح۲۵

[79] الانعام۹۳

[80] النحل ۲۸،۲۹

[81] الانفال۵۰

[82] محمد۲۷،۲۸

[83] الْأَعْرَاف

[84] الحج

[85]الترغیب والترہیب للمنذری۵۳۹۶، ۱۹۷؍۴،اثبات عذاب القبرللبیہقی ۴۴، مسند احمد ۱۸۵۳۴،شعب الایمان ۳۹۰،مصنف ابن ابی شیبة۱۲۰۵۹،حادی الارواح الابادالافراح۷۱؍۱

[86] سنن ابوداودکتاب السنتہ باب فی المسئلة فی القبروعذاب القبر۴۷۵۳ ،اثبات عذاب القبرللبیہقی۲۱،صحیح الترغیب والترھیب ۳۵۵۸،۲۱۹؍۳،الترغیب والترھیب للمنذری۵۳۹۶

[87]صحیح ابن حبان ۳۱۱۹،مستدرک حاکم ۱۴۰۵،اثبات عذاب القبرللبیہقی ۵۷

[88] مسند احمد ۱۱۳۳۴،صحیح ابن حبان ۳۱۲۱،سنن الدارمی۲۸۵۷،مصنف ابن ابی شیبة ۳۴۱۸۷، مسندابی یعلی ۱۳۲۹، الترغیب والترھیب للمنذری ۵۳۸۹

[89]مصنف ابن ابی شیبة ۳۴۷۴۹

[90] مسند احمد ۲۵۰۸۹، اثبات عذاب القبر للبیہقی۲۹،صحیح الترغیب والترھیب۳۵۵۷،الترغیب وترھیب للمنذری ۵۳۹۵

[91] سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى ۴۲۶۸،مسنداحمد۲۵۰۸۹،مسندالبزار۸۲۱۹، الترغیب والترھیب للمنذری۵۳۹۵

[92] مسنداحمد ۲۵۰۸۹ ، الترغیب والترھیب للمنذری۵۳۹۵

[93] مسنداحمد۱۸۵۳۴،مصنف ابن ابی شیبہ ۱۲۰۵۹، الترغیب والترهیب للمنذری ۵۳۹۶، مستدرک حاکم ۱۰۷،شعب الایمان ۳۹۰،اثبات عذاب القبرللبیہقی۴۴

[94] صحیح مسلم کتاب الجنة وصفتہ نعیمھا بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۱۲،مسنداحمد۱۳۴۴۷،بیہقی فی عذاب القبر۱۴،مصنف ابن ابی شیبہ۲۹۱۲۱،صحیح ابن حبان ۱۰۰۰،المعجم الکبیرللطبرانی ۴۷۸۴

[95] مسند احمد۱۳۴۴۷،صحیح بخاری کتاب الجنائزباب ماجاء فئ عذاب القبر۱۳۷۴، سنن ابوداود کتاب السنة بَابٌ فِی الْمَسْأَلَةِ فِی الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۴۷۵۱،اثباتعذاب القبر للبیہقی ۱۴

[96] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ ۱۲۸۹،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی البُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ۱۰۰۳،سنن نسائی کتاب الجنائزالنِّیَاحَةُ عَلَى الْمَیِّتِ ۱۸۵۶، مسند احمد ۲۴۷۵۸، اثبات عذاب القبرللبیہقی ۸۸،السنن الکبری للبیہقی ۷۱۷۴،معرفة السنن والآثار۷۷۸۴،شرح السنة للبغوی ۱۵۳۸

[97] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ۱۳۷۵،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۱۵،اثبات عذاب القبرللبیہقی۸۶، مسنداحمد۲۳۵۵۵

[98] فتح الباری۲۴۱؍۳

[99] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۱۷،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین باب صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ ۷۰۴۰، مسندابی یعلی۳۹۱۹

[100] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ عَذَابِ القَبْرِ مِنَ الغِیبَةِ وَالبَوْلِ۱۳۷۸،وکتاب الوضوبَابٌ مِنَ الكَبَائِرِ أَنْ لاَ یَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ ۲۱۶،وکتاب الادب بَابُ الغِیبَةِ۶۰۵۲،صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الدَّلیلِ عَلَى نَجَاسَةِ الْبَوْلِ وَوُجُوبِ الَاسْتِبْرَاءِ مِنْهُ ۶۷۷،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الِاسْتِبْرَاءِ مِنَ الْبَوْلِ۲۰،جامع ترمذی ابواب الطھارة باب التشدیدفی البول ۷۰،سنن نسائی کتاب الطھارة باب التَّنَزُّهُ عَنِ الْبَوْلِ ۳۱، ۲۰۷۲، ۲۰۷۳،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة باب التشدفی البول۳۴۷ ، مسنداحمد۱۹۸۰،صحیح ابن خزیمة۵۵،صحیح ابن حبان ۳۱۲۸، مصنف ابن ابی شیبة۱۲۰۴۵

[101] فتح الباری ۲۴۲؍۳

[102] فتح الباری۲۲۳؍۳

[103] سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ التَّشْدِیدِ فِی الْبَوْلِ ۳۴۸، مسند احمد ۹۰۵۹،اثبات عذاب القبر للبیہقی ۱۲۱

[104]سنن الدارقطنی۴۶۴ ،مسندالبزار۴۹۰۷

[105] فتح الباری۳۳۶؍۱

[106] فتح الباری۲۷۸؍۱

[107] الحجرات۱۲

[108] صحیح ابن حبان ۳۱۱۳، مستدرک حاکم۱۴۰۳،المعجم الاوسط۲۶۳۰،بیہقی فی عذاب القبر۶۷،الترغیب والترھیب للمنذری ۵۴۰۰

[109] المعجم الاوسط۹۴۳۸،الترغیب الترھیب للمنذری۵۴۰۱

[110] سنن نسائی کتاب الجنائزباب الشَّهِیدُ۲۰۵۷

[111] صحیح بخاری کتاب التمنیٰ بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّمَنِّی، وَمَنْ تَمَنَّى الشَّهَادَةَ۷۲۲۶

[112] جامع ترمذی ابواب فضائل الجہاد بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا۱۶۲۱،سنن ابوداودکتاب الجھادبَابٌ فِی فَضْلِ الرِّبَاطِ۲۵۰۰،صحیح ابن حبان ۴۶۲۴، مستدرک حاکم ۲۴۱۷، مسندالبزار۳۷۵۳،المعجم الکبیرللطبرانی ۸۰۳،اثبات عذاب القبرللبیہقی ۱۴۳

[113] جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ مَاتَ یَوْمَ الجُمُعَةِ۱۰۷۴ ، مسند احمد ۶۵۸۲، الترغیب وترھیب ۵۴۰۹،اثبات عذاب القبرللبیہقی۱۵۶،شرح الصدور۱۶

[114] سنن نسائی کتاب الجنائز باب مَنْ قَتَلَهُ بَطْنُهُ۲۰۵۶،صحیح ابن حبان۲۹۳۳،مسنداحمد۱۸۳۱۱،المعجم الکبیر للطبرانی ۴۱۰۱،شعب الایمان ۹۴۱۷،السنن الکبری للنسائی ۲۱۹۰، الترغیب والترھیب للمنذری ۲۱۷۹

[115] مستدرک حاکم ۳۸۳۹

[116] جامع ترمذی ابواب فضائل القرآن بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَةِ الْمُلْكِ۲۸۹۰

[117]جامع ترمذی ابواب فضائل القرآن بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَةِ الْمُلْكِ۲۸۹۲

[118] سنن ابوداودکتاب الجنائزباب الاستغفارعندالقبرللمیت فی وقت الانصراف۳۲۲۱، مستدرک حاکم ۱۳۷۲، اثبات عذاب القبرللبیہقی۴۰

[119] سنن نسائی کتاب الاستعاذة باب الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْقَبْرِ۵۴۷۱

[120]صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ۸۳۲ ،صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ مَا یُسْتَعَاذُ مِنْهُ فِی الصَّلَاةِ ۱۳۲۵،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ الدُّعَاءِ فِی الصَّلَاةِ ۸۸۰،سنن نسائی کتاب الافتتاع باب نَوْعٌ آخَرُ۱۳۱۰

[121] سنن نسائی کتاب الاستعاذة باب الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ حَرِّ النَّارِ۵۵۲۱،بیہقی فی عذاب القبر۱۸۱

[122]صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ أَرْذَلِ العُمُرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدُّنْیَا وَفِتْنَةِ النَّارِ۶۳۷۵،جامع ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی عقدالتسنیح بالید ۳۴۹۵،سنن نسائی کتاب الاستعاذة باب الاستعاذة من شرفتنة القبر۵۴۷۱،سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء باب ماتعوذمنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۳۸۳۸

[123] جامع ترمذی ابواب الزہدبَابُ مَا جَاءَ فِی ذِكْرِ الْمَوْتِ۲۳۰۸،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى۴۲۶۷ ، مسند احمد۴۵۴،بیہقی فی عذاب القبر۲۲۲

[124] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ الْإِسْلَامِ یَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ وَكَذَا الْهِجْرَةِ وَالْحَجِّ عن ابن شماسہ ۳۲۱، مسند احمد۱۷۷۸۰

[125]کتاب الزھدوالرقاق لابن مبارک۳۸؍۲

[126] صفة الصفوة۱۶۴؍۲

[127] تفسیرالقرطبی۱۷۲؍۲۰

[128] تفسیر القرطبی۱۷۲؍۲۰

[129] یٰسین۷۸         

[130] یٰسین۷۹

[131] مریم۶۶،۶۷

[132] الدھر۱،۲

[133] یٰسین۵۱

[134] المعارج۴۳،۴۴

[135] النازعات۱۳،۱۴

[136] القمر۶تا۸

[137] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنْ تَطْهِیرِ ثِیَابِ الْمَیِّتِ عِنْدَ الْمَوْتِ۳۱۱۴

[138] مریم۸۵

[139] الدر المنثور۵۳۹؍۵

[140] تفسیرمظہری ۱۱۸؍۶

[141] تفسیرالقرطبی۱۵۲؍۱۱

[142] تفسیرمظہری ۱۱۹؍۶ ،المعجم الکبیرللطبرانی ۲۶۲۹

[143] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۱۰

[144] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی مَنَاقِبِ أَبِی حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ۳۶۹۲

[145] مشکوٰة المصابیح باب نزول عیسیٰ بن مریم فصل ثالث۵۵۰۸،وفاء الوفاء ۱۲۲؍۲

[146] جامع ترمذی ابواب المناقببَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۶۱۱

[147] الواقعة۱تا۷

[148] جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ بَنِی إِسْرَائِیلَ ۳۱۴۲، مسند احمد ۸۷۵۵

Related Articles