بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة الفیل

اس سورہ میں عبرت اورنصیحت کے لیے عرب کامشہور واقعہ فیل کامختصرذکرکیاگیاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے کچھ عرصہ قبل مزدلفہ اورمنیٰ کے درمیان وادی محصب میں پیش آیاتھااوراللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کوبھیج کریمن کے دارالسلطنت صنعاء کے گورنرابرہہ کے ساٹھ ہزارجنگجوؤ ں اورنویاتیرہ ہاتھیوں کا صفایا کر دیا جومعاشی وسیاسی اورمذہبی اغراض کے لیے کعبہ کوڈھانے کی غرض سے آیا تھا ، یہ واقعہ بیان کرنے کامقصوداہل مکہ کودعوت فکردیناتھاکہ اگرآج بھی کوئی قوم اس پیغام الٰہی کی مخالفت پرکمربستہ ہوئی توان کوبھی ہاتھی والوں کی طرح نیست ونابودکردیاجائے گا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

أَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِیلِ ‎﴿١﴾‏ أَلَمْ یَجْعَلْ كَیْدَهُمْ فِی تَضْلِیلٍ ‎﴿٢﴾‏ وَأَرْسَلَ عَلَیْهِمْ طَیْرًا أَبَابِیلَ ‎﴿٣﴾‏ تَرْمِیهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّیلٍ ‎﴿٤﴾‏ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ‎﴿٥﴾‏ (الفیل)
کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کردیا؟  اور ان پر پرندوں کے جھنڈ پر جھنڈ بھیج دیئےجو ان کو مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے،  پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔

سورت الفیل کی پانچ آیات میں اختصارکے ساتھ اصحاب الفیل کامشہورواقعہ بیان ہواہے ،جب صنعاء کے گورنرابراہہ اشرم حبشی نے ۵۷۰ء یا۵۷۱ء میں عرب میں عیسائیت پھیلانے اوردوسری طرف اس تجارت پرقبضہ کرنے کے لئے جوبلادمشرق اوررومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی بڑے کروفرسے کم وبیش ساٹھ ہزارکاآزمودہ کارفوجی لشکراورنویاتیرہ ہاتھیوں کے ساتھ بیت اللہ پرچڑھائی کردی جسے آخرکاراللہ تبارک وتعالیٰ نے نیست ونابودکردیااس واقعہ کے بعدحبشیوں کی یمن میں طاقت بالکل ٹوٹ گئی ،جگہ جگہ یمنی سردارعلم بغاوت لے کراٹھ کھڑے ہوئے اور آخر کار ۵۷۵ء میں حبشی حکومت کاخاتمہ ہوگیا،جس سال یہ واقعہ پیش آیااس کوعام الفیل کہتے ہیں ،یہ مشہور واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے صرف پچاس دن پہلے پیش آیا تھااور اللہ تبارک وتعالیٰ نے بطورایک تاریخی شہادت کے ان لوگوں کی تباہی کاواقعہ بیان کیا ہے جو قوت کے گھمنڈ اور دولت کے نشہ میں سرشارہوکر رب کے قہروغضب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ کے مقدس گھرپرچڑھ دوڑے تھے حالانکہ اس عظیم گھر کی عظمت سے وہ اپنے مذہبی صحیفوں کے ذریعہ سے اچھی طرح واقف تھے، ا س سورت کے مخاطب اہل مکہ یمن تک کے وہ ہزاروں لوگ ہیں جنہوں نے اس واقعہ کا چشم دید مشاہدہ کیا تھا یااس کو تواترکے ساتھ سن کر اس پریقین رکھتے تھے کہ بیت اللہ کی حفاظت کسی دیوی دیوتانے نہیں بلکہ اللہ وحدہ لاشریک نے کی تھی مگراس واقعہ سے عبرت حاصل کرکے اکیلے رب کی بندگی کرنے کے بجائے آباؤ اجدادکی اندھی تقلیدمیں آنکھیں بندکرکے آبائی مشرکانہ دین پر قائم تھے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے احسانات یاددلاکرآل قریش کوجوخودکوبنی اسماعیل کہتے تھے اور جنہوں نے بنی اسرائیل کی طرح اللہ سے بالکلیہ علیحدگی کبھی اختیارنہیں کی تھی، وہ اللہ سے لگاؤ بھی رکھتے تھے البتہ انہوں نے اس کے دربارکے لئے بہت سے سفارشی ٹھہرا لئے تھے جن کونصاریٰ کی طرح خداکے بیٹوں اور بیٹیوں کادرجہ دیتے تھے، وہ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے،اس کے نام کی تکبیرکہتے تھے،اس کی عبادت وپرستش کرتے تھے،وہ اپنے دین سے اس وقت ہٹے جب امتدادزمانہ کے بعدابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات بالکل فراموش ہو گئیں اورایک لمبے عرصہ تک کوئی دوسرانبی یاددہانی کے لئے معبوث نہیں ہوا لیکن اس کے باوجودان میں ایسے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعدادباقی رہی جودین حنیفی پر قائم رہے اورجوبت پرستی سے متنفرتھے ، جنہوں نے اہل مکہ کے ایک ایک فردکومخاطب کرکے اس کی ذمہ داری یاد دلائی ،انہیں بندگی اوراتباع توحیدپرابھارا اور ان کوایک سمجھی بوجھی ہوئی حقیقت کو نظراندازکرنے پرتنبیہ کی کہ دیکھوتمہارے جیسے شریروں اورمغروروں کے سر اللہ نے کس طرح کچلے، ان کی ایک بھاری فوجی قوت کس طرح پامال کرڈالی اورمکہ پرچڑھائی کرنے والوں کی نجاستوں سے کس طرح پاک کردیا، پھر زرا خیال کروتم نے اپنے زوربازوسے ان کومغلوب نہیں کیابلکہ اس کے لئے اس اکیلے رب کی تلوار بے نیام ہوئی تھی جو اس گھرکامحافظ ہے ،جب یہ لشکروادی محسرکے پاس پہنچاتواللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اپنارعب ڈالااوران کوآگ میں پکی ہوئی ماش یامسورجتنی موٹی کنکریوں سے سنگسار کیا جن کی ضربوں سے ان کے اجزائے جسم اس طرح بکھرگئے جیسے کھائی ہوئی بھوسی ہوتی ہے،تم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان کی لاشوں کے انباردیکھے ، پھر اللہ نے ان پرسمندرکی طرف سے جھنڈکی جھنڈ چڑیاں بھیجیں جنہوں نے عظیم الحبثہ ہاتھیوں اورسربلندبادشاہ کی لاشوں کا گوشت نوچا اور تمہاری مقدس وادی کوبدبوسے پاک کیا اور تم کوایک بڑی زحمت سے بچا کر اپنے جلال قدرت کی ایک دوسری نشانی کا مشاہدہ کرایا،اس طرح اللہ ان کے شرکے لئے کافی ہوگیااوراس نے ان کی چال کوانہی پر لوٹا دیا ، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ نعمتوں کی ان حیرت انگیز مثالوں کے بعد اللہ کی نافرمانی اوراس کے شعائرکی توہین کی جرات کیسے کرتے ہو؟ تم رب کی قدرتوں سے اگاہ ہونے کے باوجوداس قسم کی غفلت کے مرتکب کیوں ہوتے ہوکہ تم اس گھرکے رب کی پوجاجو تمہارا خالق ومالک ہے کیوں نہیں کرتے اورشرک واصنام پرستی کو چھوڑ کراس ایک ہی رب پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے جس نے تم کو تمہارے طاقتور دشمنوں سے مامون کیا اورہرموقع پر تمہاری مددفرمائی ، تمہیں تواس رب کاشکر گزار ہونا چاہئے تھاتم تواپنے مالک حقیقی کی قدرتوں سے ڈرتے اورباطل معبودوں کوچھوڑکراس کی ہی عبادت کرتے،کیاتم دیکھتے نہیں کہ بنی اسرائیل کوتمام شرف وامتیازکے باوجود انہیں قتل اورقیدوغلامی کی تمام تباہیوں سے دوچار ہونا پڑا حتی کہ مسجدیروشلم اورمقدس ہیکل دونوں ان کے ہاتھوں سے چھن گئے اوروہ بری طرح برباد ہوئے، لیکن اللہ تعالیٰ کایہ مقدس گھرجو ابراہیم علیہ السلام اور اسمٰعیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور جس کی جگہ کاتعین بھی رب نے کیاتھادونوں نے اپنے مقدس ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا اور صرف مومنین کے لئے امن و برکت کی دعافرمائی مگر اللہ تعالیٰ نے اس مقدس گھرکی برکتوں کودنیاکی زندگی میں مومن وکافردونوں کے لئے عام کر دیا،اللہ کایہ گھرجودنیامیں توحیداورغرباپروری کامرکزبناجس کی وجہ سے تم امن میں ہو،یہ گھر جو دین الہٰی کی اصل واساس ہے،جوکمال اسلام کی تصویرہے ہمیشہ محفوظ رہاکیونکہ خود اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اعلان عام کیاگیاکہ جولوگ اس مقدس گھر میں الحاد اور شرک کے مرتکب ہوں گے اوراس کی حرمت کوبٹہ لگائیں گے اللہ تعالیٰ ان کوہلاک کردے گا،چنانچہ اصحاب فیل کے ساتھ اس نے ایساہی کیالیکن یہ فضیلت ہمیشہ اللہ کے علم وحکمت کے تحت حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے اس پرمغرورہونے کے بجائے اس رب کاہی شکر گزار ہونا چاہیے۔

عامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ کااسلام

كنیته أَبُو عَبْد اللَّهِ

عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔[1]

وقال ابن سعدكان قد حالف الخطاب فتبنَّاه فكان یقال عامر بن الخطاب حتى نزلت ادعوهم لآبائهم فرجع عامر إلى نسبه . فَقِیل عامر بْن ربیعة

ابن سعدکہتے ہیں ان کاخاندان بنوعدی کاحلیف تھاسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے والدخطاب کو عامر رضی اللہ عنہ سے اتنی محبت تھی کہ اس نے انہیں اپنابیٹا(متنبیٰ)بنالیاتھااورلوگ ان کوعامربن خطاب کہہ کرپکارتے تھے لیکن جب قرآن مجید میں لوگوں کواپنے نسبی آباکے انتساب سے پکارنےکاحکم نازل ہواتولوگ انہیں اپنے اصلی باپ کی نسبت سے عامربن ربیعہ کہنے لگے۔[2]

عَنْ یَزِید بْن رومان:أسلم عَامِر بْن ربیعة قدیما قبل أَن یدخل رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسَلَّمَ دار الأَرقم بْن أَبی الأَرقم، وقبل أَن یدعو فِیهَا

یزیدبن رومان کہتے ہیں عامربن ربیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم بن ارقم میں داخل ہونے سے پہلے اسلام لائے۔[3]

أسلمت قدیمًا وبایعت

ان کی اہلیہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا بنت حثمہ عدویہ بھی نیک بخت خاتون تھیں وہ بھی شوہرکے ساتھ شرف اسلام سے بہرہ ورہوگئیں ،قبول اسلام کے بعددوسرے سابقون الاولون کی طرح یہ دونوں میاں بیوی بھی مشرکین مکہ کے عتاب کانشانہ بن گئے،جب مشرکین کاانسانیت سوزظلم وستم حدسے بڑھ گیاتوسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحبشہ کی طرف ہجرت کرنے کااذن دیاتو

فخرج عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ حلیف آل الخطاب، وامْرَأَتُهُ لَیْلَى بِنْتُ أَبِی حَثْمَةَ الْعَدَوِیَّةُ

عامربن ربیعہ اپنی زوجہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا بنت ابی حثمہ عدویہ کے ساتھ حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے قافلہ میں شامل ہوگئے۔

مگرتین ماہ بعدجب مشرکین مکہ کے قبول اسلام کی افواہ اڑی تو عامر رضی اللہ عنہ اوران کی اہلیہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا واپس مکہ آگئے اورعاص بن وائل سہمی کی پناہ حاصل کرکے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے ، اس کے بعدتومشرکین نے ظلم وستم کی انتہاکردی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عامر رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ دوبارہ حبشہ کیطرف ہجرت کرگئے وَهَاجَرَ الهِجْرَتَیْنِ

عامر رضی اللہ عنہ نےدومرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔

عَنْ أُمِّهِ لَیْلَى قَالَتْ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَلَیْنَا فِی إِسْلَامِنَا، فَلَمَّا تَهَیَّأْنَا لِلْخُرُوجِ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ جَاءَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَأَنَا عَلَى بَعِیرٍ نُرِیدُ أَنْ نَتَوَجَّهَ، فَقَالَ: أَیْنَ یَا أُمَّ عَبْدِ اللهِ؟ فَقُلْتُ لَهُ:: قد آذَیْتُمُونَا فِی دِینِنَا،فَنَذْهَبُ فِی أَرْضِ اللهِ حَیْثُ لَا نُؤْذَى فِی عِبَادَةِ اللهِ،فَقَالَ: صَحِبَكُمُ اللهُ،ثُمَّ ذَهَبَ، فَجَاءَ زَوْجِی عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَیْتُ مِنَ رِقَّةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: تَرْجِینَ یُسْلِمُ؟فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللهِ لَا یُسْلِمُ حَتَّى یُسْلِمَ حِمَارُ الْخَطَّابِ. یعنی من شِدَّتِهِ عَلَى الْمُسْلِمِینَ

متعدداہل سیرنے تھوڑے بہت لفظی اختلاف کے ساتھ بیان کیاہے کہ سیدناعمراسلام قبول کرنے سے پہلے بہت سخت تھے، لیلیٰ رضی اللہ عنہا حبشہ ہجرت کرنے کے لیے اونٹ پرسوارتھیں کہ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں آگئے،انہوں نے لیلیٰ رضی اللہ عنہا سے پوچھاام عبداللہ!کدھرکاقصدہے؟انہوں نے جواب دیاہم تمہاری ایذارسانیوں سے تنگ آکرگھربارکوخیربادکہہ رہے ہیں ، اللہ کاملک تنگ نہیں ہے جہاں ملی وہاں چلے جائیں گے اورجب تک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے من وسکون کی صورت نہ پیداکردےوطن سے دورہی رہیں گے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کی باتوں سے بہت متاثرہوئے اورکہااللہ تمہارے ساتھ ہو، جب وہ چلے گئے تو عامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ بھی آپہنچےتوانہوں نے جو رقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب میں دیکھی تھی وہ انہیں بیان کردی اورکہا کیاخبراللہ تعالیٰ ان کادل پھیردے، عامر رضی اللہ عنہ نے کہاکیاتم یہ چاہتی ہوکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایمان لے آئیں ؟ انہوں نے کہاہاں ، عامر رضی اللہ عنہ نے کہاہاں اللہ کی قسم ! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خطاب کاگدھااسلام قبول نہیں کرے گا۔[4]

اللہ تعالیٰ نے لیلیٰ رضی اللہ عنہا کی تمنایوں پوری فرمائی کہ آگلے ہی سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مشرف بہ ایمان ہوگئےاوراسلام کے قوی دست وبازوبن گئے ، عامر رضی اللہ عنہ اوران کی زوجہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا ہجرت مدینہ منورہ سے کچھ عرصہ قبل کچھ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ واپس آگئے اور پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اذن پاکرمدینہ منورہ کی طرف مستقل ہجرت کرگئے،

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَدِمَهَا مِنَ الْمُهَاجِرِینَ بَعْدَ أَبِی سَلَمَةَ، عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ حَلِیفُ بَنِی عَدِیٍّ، مَعَهُ امْرَأَتُهُ لَیْلَى بِنْتُ أَبِی حَثْمَةَ الْعَدَوِیَّةُ

ابن اسحاق کہتے ہیں مدینہ منورہ ہجرت کرنے والوں میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بعد عامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ اوران کی زوجہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا بنت حثمہ مدینہ منورہ داخل ہوئے۔[5]

وآخى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ یزید بن المنذر وعامر بْن ربیعة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ اوریزیدبن المنذر رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخاة قائم فرمائی۔[6]

غزوات کاآغازہواتو عامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ نے غزوہ بدرسے لے کرغزوہ تبوک تک تمام غزوات نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کاشرف حاصل کیا،

وكان عامر بن ربیعة یكنى أبا عبد الله وشهد بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْخَنْدَقَ وَالْمَشَاهِدَ كلها مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اور عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ جن کی کنیت ابوعبداللہ تھی غزوہ بدر ، غزوہ احد،غزوہ خندق اورتمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔[7]

اس کے علاوہ بھی اورکئی چھوٹی چھوٹی مہمات میں شریک ہوئےاوران کی انجام دہی کے لیے بڑی بڑی سختیاں اورمصیبتیں برداشت کیں ،

عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ، عَنْ أَبِیهِ، وَكَانَ بَدْرِیًّا، قَالَ: لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَبْعَثُنَا فِی السَّرِیَّةِ یَا بُنَیَّ، مَا لَنَا زَادٌ إِلَّا السَّلْفُ مِنَ التَّمْرِ، فَیَقْسِمُهُ قَبْضَةً قَبْضَةً حَتَّى یَصِیرَ إِلَى تَمْرَةٍ تَمْرَةٍ

عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کومہمات پربھیجتے تھے اورعسرت کے سبب خوراک میں تھوڑی سی کھجوریں عطافرماتے تھے اگرکسی مہم پرزیادہ دن سرف ہوجاتے تویہ کھجوریں فی کس ایک مٹھی سے کم ہوتے ہوتے ایک کھجورفی کس ملاکرتی تھی بعض اوقات کھجوریں بالکل ختم ہوجاتی تھیں اورہمیں درختوں کے پتوں سے پیٹ بھرنا پڑتا تھا ۔[8]

قام عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ یصلی من اللیل، وذَلِكَ حِینَ شغب النَّاسُ فِی الطَّعْنِ عَلَى عُثْمَانَ، فصلى مِنَ اللَّیْلِ، ثم نام فأتی عی منامه، فقیل لَهُ: قم فسل اللَّه أَن یعیذك من الْفِتْنَة. الَّتِی أعاذ منها صَالِح عباده ، فقام فصلى، ثُمَّ اشتكى، قال: فَمَا خرج قط إِلَّا جِنَازَةً

عامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ کابیشتروقت عبادت الٰہی میں گزرتا تھا ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے آخری دورمیں فتنوں نے سراٹھایاتوبالکل گوشہ نشین ہوگئے اوراس خدشے سے باہرنکلنابہت کم کردیاکہ کسی فتنے میں نہ پڑجائیں ،دن رات گھرکے اندرنمازروزہ اورادووظائف میں مشغول رہتے تھے ،ایک رات نیندآگئی اسی حالت میں خواب دیکھاکہ کوئی شخص کہہ رہاہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس فتنہ سے بچانے کی دعاکروجس سے اس نے دوسرے نیک بندوں کوبچایاہے، عامر رضی اللہ عنہ نے بیدارہوکراسی طرح نہایت خشوع وخضوع سے دعامانگی اورپھریکسرایسے غرلت گزیں ہوئے کہ کسی نے ان کوگھرسے کبھی باہرنکلتے نہ دیکھااسی حالت میں علیل ہوگئے اورپھران کاجنازہ ہی باہرنکلا۔[9]

توفی بعد قتل عُثْمَانَ رضی اللَّه عنهما، بأیام

عامر رضی اللہ عنہ نے سیدناعثمان بن عفان کی شہادت کے چنددن بعدوفات پائی۔[10]

[1] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۱۸؍۳،معرفة الصحابة لابی نعیم۲۰۵۰؍۴،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۷۹۰؍۲

[2] تهذیب التهذیب ۶۲؍۵

[3] تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۱۹؍۱۴

[4] سیرأعلام النبلاء۲۲۹؍۱،سیرة ابن اسحاق ۱۸۱؍۱،دلائل النبوة للبہیقی۲۲۲؍۲،معرفة الصحابة لابی نعیم۳۴۳۹؍۶

[5] السیرة النبویة لابن کثیر۲۱۷؍۲

[6]ابن سعد۴۳۲؍۳،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۸۰؍۴، إكمال تهذیب الكمال فی أسماء الرجال ۱۲۶؍۷

[7] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۱۶؍۲۵،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۱۸؍۳

[8] مسنداحمد۱۵۹۲

[9] تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۱۹؍۱۴،معرفة الصحابة لابی نعیم۲۰۵۰؍۴،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۷۹۰؍۲،سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی ۶۲۴؍۱، أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۱۸؍۳،سیر أعلام النبلاء۱۳؍۴، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۶۹؍۳،تهذیب التهذیب ۶۲؍۵

[10] أسد الغابة فی معرفة الصحابة ۱۱۸؍۳، سیر أعلام النبلاء ۱۳؍۴، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۶۹؍۳، تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۲۰؍۱۴

Related Articles