بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة العصر

یہ سورہ مختصرترین الفاظ میں اسلام کے عظیم اصولوں اورانسانی زندگی کے دستورکی وضاحت کرتی ہے ،اس کااندازبیان اس قدر دلکش ہے کہ سارامفہوم ایک دم دل کی گہرائی میں اترجائے اور انسان کی فکری دنیامیں انقلاب پیداکردے،زبان اس قدرآسان ہے کہ باآسانی ہر زبان پریہ الفاظ جاری ہوجائیں ،امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگرلوگ صرف اس سورت میں تدبرکرلیں تویہ سورة ان کی نجات کے لیے کافی ہوسکتی ہے ،زمانہ اوراس کی ہرچیزکوگواہ بناکرلگی لپٹی رکھے بغیر واضح کردیاکہ فلاح و نجات اور بربادی وہلاکت کے راستے کون سے ہیں ؟خلاصہ یہ کہ ایمان ،عمل صالحہ، سچائی کی تلقین اورصبرواستقامت کی تلقین ہی فلاح کے راستے ہیں ،ان کے سوا بربادی ہی بربادی ہے ، طبرانی کی ایک روایت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب بھی ایک دوسرے سے ملتے توجدا ہونے سے قبل سورہ عصرایک دوسرے کوسناتے،اس سورة سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ اہل ایمان اورصالح افرادامت کو فردفردبن کرنہیں رہناچاہئے بلکہ انہیں ایک دوسرے کوحق کی نصیحت اورصبرکی تلقین کے زریعہ ایک ایسامعاشرہ قائم کرنا چاہیے جس میں دین قائم ہو ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالْعَصْرِ ‎﴿١﴾‏ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ ‎﴿٢﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ‎﴿٣﴾‏ (العصر)
زمانے کی قسم! بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔

جس طرح لفظالدَّهْرِ میں زمانہ کی مجموعیت کالحاظ ہے ،اسی طرح لفظ عَصْرمیں اس کے گزرنے اوراس کی تیزروی کی طرف اشارہ ہے ،اسی وجہ سے اس کا اطلاق بیشتر گزرے ہوئے زمانہ پرہوتاہے ،ایک تویہ زمانہ گزشتہ کے حوادث واحوال یاددلاتاہے دوسرے زمانہ کی مخصوص صفت یعنی اس کی تیزروی اور برق رفتاری کی طرف توجہ دلا رہا ہے ،ان دونوں حقیقتوں سے دواہم نتائج سامنے آتے ہیں ،ایک یہ کہ انسانوں پران کے اعمال کے لحاظ سے اللہ کے فیصلے نافذہوں گے ،دوسرے یہ کہ ہمیں زمانہ سے جس کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت اس کی تیزروی اوربرق رفتاری ہے زیادہ سے زیادہ مستعدی اور سرگرمی سے فائدہ اٹھاناچاہیے، پچھلی قوموں پراللہ تعالیٰ کے جوفیصلے نافذہوئے وہ ٹھیک ٹھیک ان کے اعمال کابدلہ تھے ،اگرانہوں نے نیکیاں اوربھلائیاں کیں تواللہ نے انہیں عروج وکمال بخشا،اوراگرانہوں نے اللہ کی زمین پرظلم وفسادکی راہ اختیارکی توقانون الٰہی نے ان کوصفحہ ہستی سے نیست و نابودکردیا،جیسے فرمایا:

اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ۝۰ۥۙ وَقَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِكٰتِ۝۰ۭ اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ۝۰ۚ فَمَا كَانَ اللهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۷۰ [1]

ترجمہ:کیا ان لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوح کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیم کی قوم، مدین کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں الٹ دیا گیا، ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئےپھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔

هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّكَ۝۰ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۝۰ۭ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۳۳ [2]

ترجمہ:اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )! اب جو یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں تو اس کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا ہے کہ ملائکہ ہی آپہنچیں ، یا تیرے رب کا فیصلہ صادر ہو جائے؟ اس طرح ڈھٹائی ان سے پہلے بہت سے لوگ کر چکے ہیں ، پھر جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ ان پر اللہ کا ظلم نہ تھا بلکہ ان کا اپنا ظلم تھا جو انہوں نے خود اپنے اوپر کیا۔

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ۝۰ۣ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَ۝۳۹ۚۖفَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ۝۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا۝۰ۚ وَمَا كَانَ اللهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۴۰ [3]

ترجمہ:اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا، موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس بینات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے،آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیااور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو غرق کر دیااللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔

انہی حقائق کویاددلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھائی کہ لوگ یادرکھیں کہ ایک دن اعمال کی اس حقیقت سے لازماًان کوبھی دو چارہوناپڑے گا ، اس کے علاوہ زمانہ کی قسم میں ایک اورنکتہ بھی مضمرہے ،وہ یہ کہ انسان کااصل راس المال زمانہ ہی ہے اوراس کاحال یہ ہے کہ تیزروی اوربرق رفتاری میں کوئی چیزبھی اس سے بڑھ کرنہیں ،لیکن یہ انسان کی کیسی نادانی ہے کہ وہ زمانہ کی اس بے وفائی سے واقف ہونے کے باوجوداس پربھروسہ کرتاہے اور اپنی زندگی کی بے ثباتی ، روز قیامت کی بازپرس اورجزائے اعمال کے قانون سے بالکل غافل ہے،اس معاملہ میں انسان کی مثال بالکل اس تاجرکی سی ہے جوبرف کی تجارت کرتاہے لیکن بجائے اس کے کہ اس کوجلدازجلدبیچ کراپنے دام کھرے کرنے کی فکرکرے اس کواس نے رکھ چھوڑاہے اور اس کی چمک اورٹھنڈک کانظارہ دیکھ رہا ہے ، ظاہرہے کہ ایسے تاجرکوبہت جلد اپنی غفلت ونادانی پرکف افسوس ملناپڑے گا،بالکل یہی حال اس غافل انسان کاہے جووقت کی قدروقیمت سے غافل ہے مگرجب موت کی گھڑی اس کے سرپرآجائے گی ، حسرت ونامرادی کے سوااس کی جیب ودامن میں کچھ نہ ہوگا،جیسے فرمایا

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللهِ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا۝۰ۙ وَهُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰی ظُهُوْرِهِمْ۝۰ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا یَزِرُوْنَ۝۳۱وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ۝۰ۭ وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۳۲ [4]

ترجمہ: نقصان میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کوجھوٹ قراردیا، جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے افسوس ،ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیرہوئی، اوران کاحال یہ ہوگاکہ اپنی پیٹھوں پراپنے گناہوں کابوجھ لادے ہوئے ہوں گے ،دیکھو!کیسابرابوجھ ہے جو یہ اٹھارہے ہیں ،دنیاکی زندگی تو ایک کھیل اورایک تماشاہے حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لئے بہترہے جوزیاں کاری سے بچناچاہتے ہیں ،پھرکیاتم لوگ عقل سے کام نہ لوگے ۔

وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۝۲۲ۚوَجِایْۗءَ یَوْمَىِٕذٍؚبِجَهَنَّمَ۝۰ۥۙ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى۝۲۳ۭیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ۝۲۴ۚ [5]

ترجمہ:اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اس حال میں کہ فرشتے صف درصف کھڑے ہوں گےاور جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی، اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ؟وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا!۔

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹ [6]

ترجمہ:ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا،ہائے میری کم بختی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتااس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بےوفا نکلا ۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ اور بعض دوسرے علماء نے بھی وَالْعَصْرِکی تفسیرمیں یہی کہاہے کہ زمانہ کی قسم اس لئے کھائی ہے کہ زمانہ گوناگوں نیرنگیوں اورعبرتوں کامجموعہ ہے ،انسانوں کی نامرادی بیان کرنے کے بعدان لوگوں کی خصوصیات بیان کیں جواس چندروزہ زندگی کے بدلہ میں کامیابی ،ابدی نعمتوں اورجنت کی پرآسائش زندگی سے بہرہ ورہوں گے ، ان لوگوں کی چار خصوصیتیں بیان فرمائیں ،ایمان ،عمل صالحہ ،حق وسچائی کی تلقین اورصبرواستقامت کی تلقین۔ان چاروں صفتوں نے اپنے اندردنیاوآخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹ لی ہیں ، یعنی ایمان باللسان اورتصدیق بالقلب تمام عقائدکاشیرازہ ہے ، جیسے فرمایا:

 اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا۔۔۔ ۝۱۵ [7]

ترجمہ: حقیقت میں مومن وہ ہیں جواللہ اوراس کے رسول پرایمان لائے اور پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا۔

ایک مقام پر فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا۔۔۔ ۝۳۰ [8]

ترجمہ:جن لوگوں نے کہاہمارارب اللہ ہے اورپھروہ اس پرثابت قدم رہے ۔

اورکن چیزوں پرایمان لاناضروری ہے اس کے بارے میں فرمایا:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ۝۰ۣ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۝۰ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔۔۔ ۝۲۸۵ [9]

ترجمہ:رسول اس ہدایت پرایمان لایاہے جواس کے رب کی طرف سے اس پرنازل ہوئی ہے اورجولوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کودل سے تسلیم کرلیاہے ،یہ سب اللہ اوراس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اوراس کے رسولوں کومانتے ہیں اوران کاقول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کوایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ،ہم نے سنااوراطاعت قبول کی ۔

اس کے ساتھ حیات بعدالموت،اوراللہ کی عدالت میں جزاوسزااورجنت وجہنم پر ایمان لانابھی ضروری ہے ،جیسے فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ وَمَنْ یَّكْفُرْ بِاللهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۝۱۳۶ [10]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو!ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل کرچکاہے،جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفرکیا وہ گمراہی میں بھٹک کربہت دورنکل گیا۔

ایمان کے ساتھ عمل صالحہ تمام شریعت کامجموعہ ہےکیونکہ ایمان وہی معتبراورمفیدہوتاہے جس کے صادق ہونے کاثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے ،اگرکوئی انسان ایمان کادعویٰ توکرتاہے مگراس کے ثبوت میں عمل صالحہ پیش نہیں کرتا تواس کاایمان محض ایک دعویٰ ہے ، حقیقت نہیں ۔اورعمل صالحہ کیاہیں ؟وہ فرض اور نفلی نمازقائم کرنا،فرض اورنفلی زکوٰة اداکرنا،فرض اورنفلی روزے رکھنا اگرممکن ہوزندگی میں کم ازکم ایک بارحج کرنااوراللہ نے جوحقوق و فرائض فرمائے ہیں انہیں پوراکرناہے ۔ ایمان اور عمل صالحہ کے بعد ایک دوسرے کو حق وسچائی اورمحرمات ومعاصی سے اجتناب کی تلقین ایک فرض عام ہے جس میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں ،جس معاشرے میں حق وسچائی کی تلقین کی روح موجودنہ رہے تووہ معاشرہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخرکارمبتلاہوکررہتے ہیں جو حق پرقائم توہوں مگرحق کوپامال ہوتے دیکھتے رہیں اور خاموش رہیں ، جیسےفرمایا

 لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۝۷۸كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۝۷۹ [11]

ترجمہ:بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیارکی ان پرداوداورعیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اورزیادتیاں کرنے لگے تھے ، انہوں نے ایک دوسرے کوبرے افعال کے ارتکاب سے روکناچھوڑدیاتھابراطرزعمل تھاجوانہوں نے اختیار کیا ۔

ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا:

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ۰ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ۝۰ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ۝۰ۚۛ كَذٰلِكَ۝۰ۚۛ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۱۶۳وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨاۙ اللهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا۝۰ۭ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۝۱۶۴فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍؚ بَىِٕیْــسٍؚبِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۱۶۵ [12]

ترجمہ: اور ذراان سے اس بستی کاحال بھی پوچھوجوسمندرکے کنارے واقع تھی ،انہیں یاددلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ)کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اوریہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھرابھرکرسطح پران کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سواباقی دنوں میں نہیں آتی تھیں ،یہ اس لئے ہوتاتھاکہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے، اورانہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہاکہ تم ایسے لوگوں کوکیوں نصیحت کرتے ہوجنہیں اللہ ہلاک کرنے والایاسخت سزادینے والاہے توانہوں نے جواب دیا تھاکہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضوراپنی معذرت پیش کرنے کے لئے کرتے ہیں اور اس امیدپرکرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیزکرنے لگیں ،آخر کار جب وہ ان ہدایات کوبالکل ہی فراموش کرگئے جوانہیں یادکرائی گئی تھیں توہم نے ان لوگوں کوبچالیاجوبرائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کوجوظالم تھے ان کی نافرمانیوں پرسخت عذاب میں پکڑلیا۔

ایک مقام پر فرمایا:

وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّةً۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۲۵ [13]

ترجمہ: اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طورپرصرف انہی لوگوں تک محدودنہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیاہو،اور جان لو کہ بیشک اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔

اب کوئی انسان اس فریضہ کوپوراکرنے کے درد مندی ،خیرخواہی اورایثارکے جذبہ سے نیکی کی تبلیغ کرے گا اورمعاشرے میں برائی کوروکنے کی کوشش کرے گا تو یقیناًطاغوتی قوتیں اس کی راہ میں مزاحم ہوں گی اوراسے ان لوگوں سے تکالیف پہنچیں گی،اس لئے اس کے بعدمصائب وآلام پرصبرکی تعلیم فرمائی کیونکہ جب تک آدمی لوگوں کی پہنچائی ہوئی اذیتیں اوران کی غلطیوں سے چشم پوشی اور در گزر کرنے کاعادی نہ ہوجائے اس وقت تک صحیح مرحمت وجود میں نہیں آسکتی، جیسے فرمایا:

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ۝۱۷ۭ [14]

ترجمہ:پھر(اس کے ساتھ یہ کہ ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہوجوایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کوصبر اور (اللہ کی مخلوق پر )رحم کی تلقین کی ۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۴۳ۧ [15]

ترجمہ: البتہ جو شخص صبرسے کام لے اور درگزر کرے تویہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔

ایک مقام پر فرمایا

 یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۝۰ۣ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۲۰۰ۧ [16]

ترجمہ:اے لوگوجو ایمان لائے ہو! صبر سے کام لو،باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ ،حق کی خدمت کے لئے کمربستہ رہواور اللہ سے ڈرتے رہوامیدہے کہ فلاح پاؤ گے ۔

ایک مقام پر فرمایا:

اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِیْرٌ۝۱۱ [17]

ترجمہ:اس عیب سے پاک اگرکوئی ہیں توبس وہ لوگ جوصبر کرنے والے اورنیکوکار ہیں اوروہی ہیں جن کے لئے درگزربھی ہے اور بڑا اجر بھی ۔

اور لقمان نے بھی اپنے بیٹوں کو یہی نصیحت کی تھی۔

یٰبُنَیَّ اَقِـمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَكَ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۱۷ۚ [18]

ترجمہ: بیٹا!نمازقائم کر،نیکی کاحکم دے ، بدی سے منع کراورجو مصیبت بھی پڑے اس پرصبر کر،یہ وہ باتیں ہیں جنکی بڑی تاکید کی گئی ہے۔

یعنی صرف اپنے اعمالوں میں نہ گم ہوجاناکہ صرف اپنی نجات کی فکر کرواوردوسروں کی اصلاح کی فکرنہ کروا ور معروف کاموں کاحکم نہ دو، برائی کو دیکھو اوراسے بدلنے کی کوشش نہ کرو،ظالم کوظلم کرتے ہوئے پاؤ اوراس کاہاتھ نہ پکڑوتواس وقت تمہارارب تم پر غصہ ہو گااور اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول نہیں فرمائے گابعیدنہیں کہ اللہ تمہیں بھی اپنے عذاب میں لپیٹ لے اس لئے لوگوں کوحق بات کی نصیحت کرتے اوربرے کاموں پر انہیں نرمی ، حکمت اوردلائل سے منع کرتے رہنایہ بہت مشکل راہ ہے اس میں مشکلات ہی مشکلات ہیں ، اس راہ میں شدائدومصائب اورطعن وملامت ناگزیرہے، پھرتم پراس پسندیدہ کام کے عوض جو بھی مصیبت آجائے توآہ وفغاں نہ کرنے لگ جانا، گھبراکرکنارہ کش نہ ہوجانابلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا اور مضبوطی سے صبرکا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم وہمت کے کاموں میں سے ہے اور اہل عزم وہمت کاایک بڑا ہتھیار، اس کے بغیرفریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کوپسندکرتاہے اور بہترین صلہ عنایت کرتاہے۔ اورصبر کے اصلی معنی قرآن مجیدنے خودکھول دیے ہیں ۔

۔۔۔وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷ [19]

ترجمہ: اور تنگی ومصیبت کے وقت میں اورحق وباطل کی جنگ میں صبرکریں ،یہ ہیں راستبازلوگ اوریہی لوگ متقی ہیں ۔

اوردرحقیقت معاشی تنگ دستی ،دکھ ،بیماری،قدرتی آفات کی مصیبت اورجنگ ہی تمام مصائب وشدائد کے سرچشمہ ہیں ، پس اس سورة میں حق وصبر کا ذکرفرماکراللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دوبنیادی نیکیوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حِصْنٍ قَالَ: كَانَ الرَّجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا الْتَقَیَا، لَمْ یَتَفَرَّقَا إِلَّا عَلَى أَنْ یَقْرَأَ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخَرِ سُورَةَ الْعَصْرِ إِلَى آخِرِهَا، ثُمَّ یُسَلِّمُ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخَرِ

عبداللہ بن حصن رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ دستورتھاکہ جب آپس میں ملتے توایک سورت العصر کوپڑھتااوردوسراسنتاپھرسلام کرکے رخصت ہو جاتے۔ [20]

لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ هَذِهِ السُّورَةَ، لَوَسِعَتْهُمْ

اس لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے سورة العصر کے بارے میں فرمایااگرلوگ تنہااسی سورة پرغورکریں توان کے لئے کفایت کرے ۔

جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب(جعفرطیار رضی اللہ عنہ ) کاایمان لانا:

جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وصورت میں مشابہ تھے،

وَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَشْبَهْتَ خَلْقِی وَخُلُقِی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتھاتم صورت اورسیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو۔[21]

وكان أشبه الناس برسول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خلقًا وخلْقا، أسلم بعد إسلام أخیه علی بقلیل

وہ شکل وصورت اوراخلاق وکردار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے،وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے کچھ ہی عرصہ بعدایمان لے آئے۔[22]

عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ: أسلم جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَارَ الأَرْقَمِ وَیَدْعُوَ فِیهَا

یزیدبن رومان کہتے ہیں جعفربن ابوطالب اس وقت ایمان لائے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دارارقم میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔[23]

أن أبا طالب رَأَى النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وعلیًا رضی اللَّه عنه یصلیان، وعلی عن یمینه، فقال لجعفر رضی اللَّه عنه: صل جناح ابن عمك، وصل عن یساره، قیل: أسلم بعد واحد وثلاثین إنسانًا، وكان هو الثانی والثلاثین

ایک دن سروعالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نمازپڑھ رہے تھے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلومیں کھڑے تھے،ابوطالب اپنے بھتیجے اورفرزندکاخشوع وخضوع دیکھ کربہت متاثرہوئے اورانہوں نے جعفر رضی اللہ عنہ سے کہابیٹے!تم بھی اپنے ابن عم کے پہلومیں کھڑے ہوجاؤ ،جعفر رضی اللہ عنہ فورارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں پہلومیں کھڑے ہوگئے،فرماتے ہیں میں اکتیس بتیس آدمیوں کے بعدایمان لایا ۔[24]

یكنى أبا عَبْد الله

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ تھی،

وكان جعفر أكبر من علی رضی الله عنهما بعشر سنین

جعفر رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔ [25]

أَخُو عَلِیِّ بنِ أَبِی طَالِبٍ وهو أسن من علی بعشر سنین

جعفر رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اوران سے دس سال بڑے تھے۔[26]

وَهَاجَرَ جَعْفَرٌ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ فِی الْهِجْرَةِ الثَّانِیَةِ وَمَعَهُ امْرَأَتُهُ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ، وَوَلَدَتْ لَهُ هُنَاكَ عَبْدَ اللَّهِ وَعَوْنًا وَمُحَمَّدًا

جعفر رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ اسماء بنت عمیس کے ہمراہ دوسری ہجرت حبشہ میں قافلہ کے ساتھ گئے،حبشہ ہی میں ان کے بیٹے عبداللہ،عون اور محمد پیدا ہوئے۔ [27]

أَنَّ أَمِیرَهُمُ فِی الْهِجْرَةِ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ

حبشہ میں مہاجرین کے امیرجعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب تھے۔[28]

ثُمَّ هَاجَرَ إِلَى الْمَدِینَة

حبشہ سے واپس آکرانہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔[29]

وله هجرتان: هجرة إِلَى الحبشة، وهجرة إِلَى المدینة

انہوں نے دوہجرتیں کیں ایک ہجرت حبشہ اوردوسری ہجرت مدینہ منورہ۔[30]

وقدم منها على رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حین فتح خیبر فتلقاه النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وأعتنقه وقال: ما أدری بأیهما أنا أشد فرحًا

آپ رضی اللہ عنہ حبشہ سے مدینہ اس وقت پہنچے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح خیبرسے فارغ ہوچکے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گلے سے لگایااورپیشانی کوبوسہ دیااورفرمایامجھے نہیں معلوم کہ دونوں میں سے کس پرخوشی کااظہارکروں جعفر رضی اللہ عنہ کی آمدپریافتح خیبرپر۔[31]

فَقَسَمَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی خَیْبَرَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر رضی اللہ عنہ کاخیبرکے مال غنیمت میں حصہ لگایا۔[32]

وَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب اور معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل کے درمیان مواخاة فرمایا ۔[33]

لیکن یہ روایت کیسے صحیح ہوسکتی ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصارمیں مواخاة قائم فرمائی تھی اس وقت جعفر رضی اللہ عنہ حبشہ میں تھے۔

جعفر رضی اللہ عنہ غریب مسکینوں کابڑاخیال رکھتے تھے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: وَكَانَ أَخْیَرَ النَّاسِ لِلْمِسْكِینِ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، كَانَ یَنْقَلِبُ بِنَا فَیُطْعِمُنَا مَا كَانَ فِی بَیْتِهِ حَتَّى إِنْ كَانَ لَیُخْرِجُ إِلَیْنَا العُكَّةَ الَّتِی لَیْسَ فِیهَا شَیْءٌ، فَنَشُقُّهَا فَنَلْعَقُ مَا فِیهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مسکینوں کے ساتھ سب سے بہترسلوک کرنے والے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب تھے، وہ ہمیں اپنے گھرلے جاتے اورجوکچھ بھی گھرمیں موجودہوتاوہ ہم کو کھلاتے،بعض اوقات توایساہوتاکہ صرف شہدیاگھی کی کپی ہی نکال کرلاتے اوراسے ہم پھاڑکراس میں جوکچھ ہوتااسے ہی چاٹ جاتے۔[34]

وكان رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یسمیه: أبا المساكین

مساکین سے حسن سلوک کی وجہ سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام مسکینوں کاباپ رکھ دیاتھا۔[35]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب کوموتہ کی طرف روانہ فرمایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جعفر رضی اللہ عنہ نے دائیں ہاتھ میں جھنڈاتھام لیااورکفارسے لڑتے رہے ، دشمنوں نے انہیں گھیرلیااوران کا دایاں بازو کاٹ ڈالامگرانہوں نےفوراً جھنڈا بائیں ہاتھ میں تھام لیااورجھنڈے کوگرنے نہیں دیا،جب دشمنوں نے بائیں ہاتھ کوبھی کاٹ ڈالاتوآپ رضی اللہ عنہ زخموں سے چورچورہوکرشہیدہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذی الجناحین (دو پروں والا)کالقب عطا فرمایا ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ: كُنْتُ بُمُؤْتَةَ فَلَمَّا فَقَدْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ طَلَبْنَاهُ فِی الْقَتْلَى فَوَجَدْنَاهُ وَبِهِ طَعْنَةٌ وَرَمْیَةٌ بِضْعٌ وَتِسْعُونَ فوجدنا ذلك فیما أقبل من جسده

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں جنگ موتہ میں موجودتھاجب ہم نے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب کونہ پایاتومقتولین میں تلاش کیاہم نے انہیں اس حالت میں پایاکہ نیزے اور تیر کے نوے زخم تھے یہ ہم نے ان کے اس حصہ میں پائے جولایاگیاگیاتھا(مگرپیٹھ پیچھے کوئی زخم نہ تھا)۔[36]

جعفر رضی اللہ عنہ جمادی الثانی آٹھ ہجری میں ۳۳،۳۴ سال کی عمرمیں جنگ موتہ میں شہیدہوئے۔

فصلى عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَهُ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: اسْتَغْفِرُوا لأَخِیكُمْ جَعْفَرٍ فَإِنَّهُ شَهِیدٌ وَقَدْ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَهُوَ یَطِیرُ فِیهَا بِجَنَاحَیْنِ مِنْ یَاقُوتٍ حیث شاء من الْجَنَّةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پرنمازجنازہ پڑھی اوران کے لیے دعافرمائی، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے بھائی جعفر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے مغفرت کروکیونکہ وہ شہیدہیں اورجنت میں داخل ہوگئے ہیں ، وہ اپنے یاقوت کے دوبازوؤ ں سے اڑکرجنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں ۔[37]

[1] التوبة۷۰

[2] النحل۳۳

[3] العنکبوت۳۹،۴۰

[4]الانعام۳۱،۳۲

[5] الفجر۲۲تا۲۴

[6] الفرقان۲۷تا۲۹

[7] الحجرات۱۵

[8] حم السجدة۳۰

[9] البقرة۲۸۵

[10] النسائ۱۳۶

[11] المائدة ۷۸،۷۹

[12] الاعراف۱۶۳تا۱۶۵

[13] الانفال۲۵

[14] البلد ۱۷

[15] الشوریٰ۴۳

[16] آل عمران۲۰۰

[17] ھود۱۱

[18] لقمان۱۷

[19]البقرة۱۷۷

[20] المعجم الاوسط للطبرانی ۵۱۲۴

[21] صحیح بخاری کتاب أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ الهَاشِمِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ

[22] اسدالغابة۵۴۱؍۱

[23] ابن سعد۲۵؍۴

[24] اسدالغابة۵۴۱؍۱

[25] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۲۴۲؍۱

[26] سیر أعلام النبلاء۱۳۰؍۳

[27] ابن سعد۲۵؍۴

[28] ابن سعد ۲۵؍۴

[29] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۱۲؍۷

[30] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۵۴۱؍۱

[31] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۲۴۲؍۱

[32] ابن سعد۲۶؍۴

[33] ابن سعد۲۶؍۴

[34] صحیح بخاری کتاب أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ الهَاشِمِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ۳۷۰۸

[35] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۳۴۱؍۱

[36] ابن سعد۲۸؍۴،صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ۴۲۶۱

[37] ابن سعد۲۸؍۴

Related Articles