بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة الھمزہ

اس سورہ میں جاہلیت کے معاشرے میں پائی جانے والی تین بیماریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

xپس پشت عیب نکالنے والے،اسے غیبت کہتے ہیں اوریہ بدترین گناہ ہے۔

x کسی کے سامنے اس کے حسب نسب،دین ومذہب اورشکل وصورت کاطعنہ دینا،اس کامذاق اڑانا۔

xمال کواللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے جمع کرنا اور گن گن کررکھنا۔

ان برائیوں کے حامل افراداس غلط فہمی میں مبتلاہیں کہ یہ مال ودولت ہمیشہ ان کے پاس رہے گی اوراسی غلط فہمی کاشکارہوکرمال کی بنیادپرہربرائی کرگزرتاہے ، مگروہ اس غلط فہمی میں نہ رہے ایسے شخص کونہایت حقارت وذلت کے ساتھ دوزخ میں ڈال دیاجائے گا،وہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جودلوں تک اثرکرتی ہے ،یہ آگ ان پر بندکردی جائے گی اس حال میں کہ وہ آگ کے لمبے لمبے ستونوں میں گھرے ہوئے ہوں گے اورکبھی اس سے باہرنہ نکل سکیں گے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ‎﴿١﴾‏ الَّذِی جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ‎﴿٢﴾‏ یَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ‎﴿٣﴾ (الھمزة)
بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو، جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔

جاہلیت کے معاشرے میں جہاں اللہ کوچھوڑکرطاغوت کی بندگی کی جاتی تھی ،جہاں قتل وغارت روزمرہ کی بات تھی ،جہاں سودی کاروبارنے انسانوں کو جکڑرکھاتھا،وہاں زر پرست مالداروں اورلیڈروں میں بھی بہت سی گھناونی اخلاقی برائیاں موجودتھیں جن کوسب لوگ ہی براتصورکرتے تھے ،چنانچہ بعض کے مطابق اخنس بن شریق یا ایسے گنہگاروں کی نفسیات بیان فرمائی کہ تباہی ہے اس شخص کے لئے جواپنے مال و دولت کے نشے میں سرشار ہو کر دوسروں کی تحقیر وتذلیل کرتاہے ،کسی شریف اوردیندارآدمی میں کوئی عیب نظر آتاہے تواس پرانگلیوں اورآنکھوں سے اشارے کرتا ہے،حقارت وذلت کے ساتھ کسی کے نسب پر طعن کرتا ہے،کسی کے منہ درمنہ چوٹیں کرتاہے، اہل دین اور معززلوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کی غیبتیں کرتاہے ،کہیں چغلیاں کھاکراورلگائی بجھائی کرکے دوستوں کولڑواتا اور بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتاہے ،جیسے فرمایا:

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍ۝۱۰ۙهَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍؚبِنَمِیْمٍ۝۱۱ۙمَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ۝۱۲ۙعُتُلٍؚّبَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍ۝۱۳ۙ [1]

ترجمہ:ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بےوقعت آدمی ہے ،طعنے دیتا ہے چغلیاں کھاتا پھرتا ہے،بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے،جفاکار ہے ، اور ان سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے۔

دوسری برائی کاذکر فرمایا جس نے جائزوناجائز،حلال وحرام ہرطرح سے کثرت سے مال جمع کیا مگراللہ کے عطاکردہ مال کواس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے زکوٰة وصدقات اور انفاق فی سبیل اللہ میں خرچ کرنے کے بجائے اپنے بخل اورزرپرستی میں گن گن کررکھتاہے،جیسے فرمایا:

وَجَمَعَ فَاَوْعٰى۝۱۸ [2]

ترجمہ:اورمال جمع کیااورسینت سینت کررکھا۔

اور وہ اس کام میں اس قدر منہمک ہے کہ اسے اپنی موت بھی یاد نہیں ،وہ اس غلط فہمی میں مبتلاہے کہ یہ مال اوریہ شان وشوکت اس کے پاس ہمیشہ ہمیشہ رہے گایعنی یہ دولت اس کو ہر زوال ،ذلت ،بیماری اور موت سے بچانے کاسبب بن سکتی ہے،اورکیاوہ نہیں سمجھتا کہ بخل اعمال کوختم،شہروں کوبرباد اورنیکی عمرمیں اضافہ کرتی ہے ،کیاوہ نہیں سمجھتاکہ ایک دن اسے یہ سب مال ودولت، اقتدار اور شان وشوکت چھوڑکرخالی ہاتھ دوسرے جہاں (عالم برزخ) روانہ ہوناہے۔

 كَلَّا ۖ لَیُنبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ ‎﴿٤﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ ‎﴿٥﴾‏ نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ ‎﴿٦﴾‏ الَّتِی تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّهَا عَلَیْهِم مُّؤْصَدَةٌ ‎﴿٨﴾‏ فِی عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ ‎﴿٩﴾‏ (الھمزة)
ہرگزنہیں ، یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا ،اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی، وہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی جو دلوں پر چڑھتے چلی جائے گی، اور ان پرہرطرف سے بندکی ہوئی ہوگی بڑے بڑے ستونوں میں ۔

ہرگزنہیں ،یہ معاملہ ایسانہیں ہے جیسااس کازعم اورگمان ہے بلکہ ایسے بخیل ،لالچی اورفتنہ پرور شخص کو توالْحُطَمَةُ یعنی توڑنے،کچل دینے اورٹکڑے ٹکڑے کرڈالنے والی جگہ میں بے وقعت اورحقیرسمجھ کرپھینک دیاجائے گا،اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم کیا جانوکہ کیا ہے وہ چکناچور کر دینے والی جگہ؟جہنم کی ہولناکی کوبیان کرنے کے لئے فرمایاوہ اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے،وہ اتنی ہولناک آگ ہوگی کہ تمہاری عقلیں اس کاادراک نہیں کرسکتیں اورتمہارافہم وشعوراس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا،یہ آگ انسان کے برے خیالات، فاسد عقائد ، ناپاک خواہشات وجذبات، خبیث نیتوں اورارادوں کے مرکزتک پہنچے گی اوراس کے استحقاق کے مطابق عذاب دے گی،مجرم اس میں تکلیف کی شدت سے شور مچائیں گے ،اللہ کوپکاریں گے مگردھتکاردیے جائیں گے ،جیسے متعددمقامات پرفرمایا:

وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِـــعِ الرُّسُلَ۝۰ۭ اَوَلَمْ تَكُوْنُوْٓا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ۝۴۴ۙ وَسَكَنْتُمْ فِیْ مَسٰكِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَتَبَیَّنَ لَكُمْ كَیْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ۝۴۵ [3]

ترجمہ:اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )! اس دن سے تم انہیں ڈرادوجب کہ عذاب انہیں آلے گا، اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ!ہمیں تھوڑی سے مہلت اور دیدے، ہم تیری دعوت کو لبّیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے،(مگر انہیں صاف جواب دے دیا جائے گاکہ ) کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان سے کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔

رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸ [4]

ترجمہ:اے پروردگار! اب ہمیں یہاں سے نکال دے پھر ہم ایسا قصور کریں تو ظالم ہوں گے،اللہ تعالیٰ جواب دے گا دور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو ۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَــَٔــنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۝۱۳فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۝۰ۚ اِنَّا نَسِیْنٰكُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۱۴ [5]

ترجمہ:کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے ) اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ہمیں اب یقین آگیا ہے،(جواب میں ارشاد ہوگا) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گاپس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کردیا ہے، چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ۔

وَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۝۰ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِیْرُ۝۰ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ۝۳۷ۧ [6]

ترجمہ:وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب!ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے(انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا ؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا، اب مزا چکھو، ظالموں کا یہاں کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰی مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ۝۵۶ۙاَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝۵۷ۙاَوْ تَـقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۵۸بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰیٰتِیْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ۝۵۹وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَی اللهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ۝۰ۭ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ۝۶۰ [7]

ترجمہ:کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے افسوس میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہابلکہ میں تو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھایا کہے کاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتایا عذاب دیکھ کر کہے کاش! مجھے ایک موقع اور مل جائے اورمیں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں ،(اور اس وقت اسے یہ جواب ملے کہ ) کیوں نہیں ، میری آیات تیرے پاس آ چکی تھیں ، پھر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھاآج جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے،کیا جہنم میں متکبروں کے لیے کافی جگہ نہیں ہے ؟۔

دروغہ جہنم کی منت سماجت کریں گےمگرلاحاصل ہوگا،جیسےفرمایا:

وَنَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ [8]

ترجمہ:وہ پکاریں گے اے مالک ! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے ،وہ جواب دے گاتم یوں ہی پڑے رہو گے۔

موت کی تمناکریں گے مگرآرزوکے باوجودبھی موت نہیں آئے گی،جیسے فرمایا:

وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭلَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا۝۱۴ [9]

ترجمہ:اور جب یہ دست و پا بستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے،(اس وقت ان سے کہا جائے گا )آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو۔

 اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [10]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

مجرموں کوگلے میں طوق ، پیروں میں وزنی بیڑیاں ڈال کر،سترہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑ کر، ٹانگوں سے پکڑکرذلت سے گھسیٹتے ہوئے سرکے بل اس میں پھینک دیاجائے گا،جیسے فرمایا

خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ۝۳۰ۙثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْهُ۝۳۱ۙثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ۝۳۲ۭاِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللهِ الْعَظِیْمِ۝۳۳ۙوَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۳۴ۭ [11]

ترجمہ:(حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو،پھر اسے جہنم میں جھونک دوپھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو،یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھااور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔

اور اوپرسے جہنم کے ساتوں دروازے بندکردیے جائیں گےتاکہ کوئی باہرنکل ہی نہ سکے اورخوب آنچ رہے، اوروہ اس ہولناک جہنم میں جس کے شعلے لمبے ستونوں کی شکل میں اٹھ رہے ہوں گے بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ جیسے فرمایا:

عَلَیْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ۝۲۰ۧ [12]

ترجمہ:ان پرآگ چھائی ہوئی ہوگی۔

یَوْمَ یَغْشٰـىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَیَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۵۵ [13]

ترجمہ: (اور انہیں پتہ چلے گا) اس روز جبکہ عذاب انہیں اوپر سے بھی ڈھانک لے گا اور پاؤں کے نیچے سے بھی اور کہے گا کہ اب چکھو مزا ان کرتوتوں کا جو تم کرتے تھے۔

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِــمِیْنَ۝۴۱ [14]

ترجمہ: ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا،یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ۔

ہشیم بن عتبہ کااسلام قبول کرنا

شَیْخُ الجَاهِلِیَّةِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَیٍّ،وَأُمُّهُ أُمُّ صَفْوَانَ وَاسْمُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ بْنِ مُحَرَّثٍ الْكِنَانِیُّ

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کانام شیخ جاہلیت عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصی تھا، آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ام صفوان تھیں جن کانام فاطمہ بنت صفوان بن امیہ بن محرث الکنانی تھا ۔[15]

واسمه هُشَیْم

آپ رضی اللہ عنہ کانام ہشیم تھا۔[16]

وكنیته أَبُو حذیفة

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحذیفہ تھی۔[17]

وَكَانَ أَبُو حُذَیْفَةَ رَجُلا طُوَالا حَسَنَ الْوَجْهِ مُرَادِفَ الأَسْنَانِ وَهُوَ الأَثْعَلُ

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ لمبے اورخوبصورت آدمی تھے ،دانت تلے اوپر تھے جس کو اثعل کہتے ہیں ۔ [18]

كَانَ من فضلاء الصحابة من المهاجرین الأولین

ابوحذیفہ ہشیم بن عتبہ کاشمارکبارصحابہ میں ہوتاہے۔[19]

وَأَبُو حذیفة بن عتبة بن ربیعة وَكَانَ من فضلاء الصحابة

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بن عتبہ بن ربیعہ کاشمارکبارصحابہ میں کیاجاتاہے۔[20]

انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولیں جوکفروشرک کی آماجگاہ تھا،ان کے والدعتبہ بن ربیعہ قریش کے سربرآرودہ رؤ سامیں سے تھااوراپنی قوم میں بڑے اثرورسوخ کاحامل تھا،اس کی معاملہ فہمی،دوراندیشی اوروضعداری کابھی سب کواعتراف تھالیکن جب سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق پیش کی تواس نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی،اس نے اپنے فرزندہشیم کی پرورش بڑے نازونعم کی اورجب وہ جوان ہوئے توان کی شادی خطیب قریش سہیل بن عمروکی صاحبزادی سہلہ سے کردی،ہشیم تیس بتیس برس کے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں توحیدکی صدابلندکی ،اللہ تعالیٰ نے انہیں فطرت سلیم عطافرمائی تھی اس لیے انہوں نے ہرقسم کے خطرات کے علی الرغم بلاتامل دعوت حق پرلبیک کہا،نیک بخت بیوی سہلہ بنت سہیل نے بھی اپنے شوہرکاساتھ دیااس طرح دونوں میاں بیوی سابقون الاولون کی مقدس جماعت میں شامل ہوگئے،

عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ:قَالَ: أسلم أَبُو حُذَیْفَةَ قَبْلَ دُخُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَارَ الأَرْقَمِ یَدْعُو فِیهَا

یزیدبن رومان کہتے ہیں ابوحذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لائے۔[21]

عتبہ پربیٹے اوربہوکی سعادت اندوزی اسلام سخت شاق گزری اوراس نے ان کی طرف سے آنکھیں پھیرلیں ،نتیجہ یہ ہواکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح مشرکین قریش کے جوروستم کانشانہ بن گئے،جب ظلم وستم کی انتہاہوگئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوم مسلمانوں کوحبشہ کی طرف ہجرت کرنے کامشورہ دیا،چنانچہ رجب پانچ بعدبعثت نبوی میں گیارہ مردوں اورچارخواتین نے ارض مکہ کوخیربادکہہ کرحبشہ کی راہ لی،ان میں ہشیم رضی اللہ عنہ اوران کی اہلیہ سہلہ رضی اللہ عنہا بنت سہیل بھی شامل تھے،حبشہ میں جب یہ خبرگرم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش میں صلح ہوگئی ہے تویہ خبرسن کربعض لوگ واپس مکہ آئے،ان میں ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اورسہلہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں مگرمکہ پہنچ کرمعلوم ہواکہ وہ محض افواہ تھی ،سب کی رائے یہی ٹھہری کی عمائدقریش میں سے کسی نہ کسی کی پناہ حاصل کرکے شہرمیں داخل ہوجائیں ،چنانچہ علامہ بلاذری رحمہ اللہ کے مطابق یہ امیہ بن خلف کی پناہ حاصل کرکے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے،مگرمکہ مکرمہ میں مشرکین کے مظالم شدیدسے شدیدترہوگئے تو۶بعدبعث نبوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پرسوکے قریب مردوعورتیں مسلمانوں کاایک قافلہ عازم حبشہ ہوگئے،اس قافلہ میں ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اورسہلہ رضی اللہ عنہا بنت سہیل بھی شامل تھے،دونوں میاں بیوی کئی سال تک حبشہ میں غٖریب الوطنی کی زدگی گزارتے رہےاسی دوران میں ان کے فرزندمحمدبن ابی حذیفہ پیداہوئے،

قَالُوا وَكَانَ أَبُو حُذَیْفَةَ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْحَبَشَةِ فِی الْهِجْرَتَیْنِ جَمِیعًا وَمَعَهُ امْرَأَتُهُ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو. وَوَلَدَتْ لَهُ هُنَاكَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِی حُذَیْفَةَ

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ سہلہ بنت سہیل بن عمروکے ہمراہ دومرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اوروہیں ان کا بیٹامحمدبن ابی حنیفہ پیداہوے۔[22]

وهاجر الهجرتین جمیعًا

آپ رضی اللہ عنہ حبشہ کی جانب دونوں ہجرتوں میں شامل تھے۔[23]

ثم قدم عَلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بمكة، فأقام بها حَتَّى هاجر إِلَى المدینة، وشهد بدرًا، وأحدًا، والخندق، والحدیبیة، والمشاهد كلها

ہجرت مدینہ منورہ سے کچھ پہلے حبشہ سے مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آگئے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہجرت مدینہ کااذن دیا تو ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بھی اپنی اہلیہ ،بیٹے اورآزادکردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کرگئے،اس طرح ان کوتیسری مرتبہ راہ حق میں ہجرت کرنے کاشرف حاصل ہواوہ غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق،حدیبیہ اوردوسرے تمام غزوات میں حصہ لیا۔[24]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ:قَالَ: لَمَّا هَاجَرَ أَبُو حُذَیْفَةَ بْنُ عُتْبَةَ وَسَالِمُ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلا عَلَى عَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ قَالُوا: وآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَبِی حُذَیْفَةَ وَعَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ

محمدبن جعفربن زبیرکہتے ہیں جب ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بن عتبہ نے اپنے آزادکردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کی تو عباد رضی اللہ عنہ بن بشراشہلی کے گھرقیام پذیرہوئے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصارکے مابین مواخاة قائم کرائی توابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کوان کے میزبان عباد رضی اللہ عنہ بن بشرہی کادینی بھائی بنایا۔[25]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال یوم بدر:إنِّی قَدْ عَرَفْت أن ناسا مِنْ بَنِی هَاشِمٍ وَغَیْرِهِمْ قَدْ أَخْرَجُوا كُرْهًا،لَا حَاجَةَ لَهُمْ بِقِتَالِنَا،فَمَنْ لَقِیَ مِنْكُمْ أَحَدًا منهم فَلَا یَقْتُلْهُ، وَمَنْ لَقِیَ أَبَا الْبَخْتَرِیِّ بْنَ هِشَامِ فَلَا یَقْتُلْهُ، وَمَنْ لَقِیَ الْعَبَّاسَ فَلَا یَقْتُلْهُ فَإِنَّهُ إنَّمَا أُخْرِجَ مُسْتَكْرَهًا ، فَقَالَ أَبُو حُذَیْفَةَ بن عتبة: أَنَقْتُلُ آبَاءَنَا وَإِخْوَتَنَا وَنَتْرُكُ الْعَبَّاسَ؟ والله لئن لقیته لألحمنه بالسیف، فبلغت رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِعُمَرِ بْنِ الْخَطَّابِ: یَا أَبَا حَفْصٍ، أَیُضْرَبُ وَجْهُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ بِالسَّیْفِ؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ بدرکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی میں جانتاہوں کہ بنوہاشم اورکچھ دوسرے لوگوں کوزبردستی ہمارے مقابلے کے لیے یہاں لایاگیاہےاگران میں سے کوئی تمہارے سامنے آجائے توانہیں قتل نہ کرنا،ابوالبختری بن ہشام(جس نے شعب بنوہاشم کامحاصرہ توڑنے میں نمایاں حصہ لیاتھا)کی بھی جان نہ لینا،اوربالخصوص میرے چچاعباس کے قتل سے بازرہناکیونکہ وہ سخت ناگواری کے ساتھ یہاں آئے ہیں ، ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کاجوش ایمان انتہا کو پہنچاہواتھااوران کے نزدیک حق کے مقابلے میں خونی اورنسبی تعلق اوررشتوں کی کوئی اہمیت نہ تھی انہوں نےسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکواچھی طرح نہ سمجھااوربول اٹھے یہ حق وباطل کامقابلہ ہے اگرہم حق کی خاطراپنے باپ ، بھائی،بیٹے اوردوسرے اقرباسے درگزرنہیں کرتے توبنوہاشم سے کیوں کریں بخدااگرمیں نے عباس کوپالیاتوان کولقمہ شمشیربنائے بغیرنہ رہوں گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کی اطلاع ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مخاطب ہوکرفرمایااے ابوحفض!تم نے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بات سنی،کیامیرے چچاکاچہرہ قتل کے لائق ہے؟

فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ ائذن لی فأضرب عُنُقه فو الله لَقَدْ نَافَقَ،فَكَانَ أَبُو حُذَیْفَةَ بعد یَقُولُ: والله ما آمن من تِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِی قُلْتُ، وَلَا أَزَالُ مِنْهَا خَائِفًا، إلَّا أَنْ یكفرها الله عَنِّی بشَهَادَة

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کوجوش آگیااورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگراجازت ہوتو ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی گردن اڑادوں اللہ کی قسم !وہ منافق ہوگیاہے،مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے بازرکھا، ابوحذیفہ کہاکرتے تھے کہ یہ گستاخانہ کلمہ جوغلطی سے میری زبان سے نکل گیاتھامیں اس سے ہمیشہ خوف زدہ رہتاتھاکہ معلوم نہیں اس کاکیاوبال مجھ پرپڑے گا اور میں یقین کرتاتھاکہ صرف راہ حق میں جان قربان کرناہی اس غلطی کاکفارہ ہوسکتاہے۔[26]

غزوہ بدرمیں ان کے والدعتبہ نے ابوجہل کے طعنے کوعملا ًثابت کرنے کے لیے اپنے بیٹے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کودعوت مبارزت دی،

أَنَّ أَبَا حُذَیْفَةَ بنَ عُتْبَةَ دَعَا یَوْمَ بَدْرٍ أَبَاهُ إِلَى البرَازِ

بعض روایتوں میں ہے کہ خود ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے جوش ایمانی سے بے قرارہوکراپنے باپ کودعوت مبارزت دی۔[27]

ان کی ہمشیرہ ہندبنت عتبہ بھی لشکرقریش کے ساتھ تھی انہوں نے اپنے بھائی کواپنے والداوردوسرے اقرباکے سامنے شمشیربکف دیکھاتوغصے سے بے قابوہوکربھائی کی مذمت میں یہ شعرکہے۔

الأَحْوَلُ الأَثْعَلُ الْمَشْؤُومُ طَائِرُهُ ،أَبُو حُذَیْفَةَ شَرُّ النَّاسِ فِی الدِّینِ

بھینگا،بڑے دانت والاجس کاطائربخت سخت منحوس ہے،یعنی ابوحذیفہ جودین میں سب سے براہے

أَمَا شَكَرْتَ أَبًا رَبَّاكَ مِنْ صِغَرٍ ، حَتَّى شَبَبْتَ شَبَابًا غَیْرَ مَحْجُونِ؟

کیاتواپنے والدکاشکرگزارنہیں جس نے بچپن سے تیری پرورش کی یہاں تک کہ تونے بے داغ جوانی پائی۔[28]

وشهد أیضا أحدًا والخندق والمشاهد كلها مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وقتل یَوْمَ الْیَمَامَةِ سَنَةَ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ أَوْ أَرْبَعٍ وَخَمْسِینَ سَنَةً. وَذَلِكَ فِی خِلافَةِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ

وہ غزہ احداورغزوہ خندق اوردوسرے تمام مشاہدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جنگ یمامہ میں ترپن یاچون کی عمرمیں شہیدہوگئے۔

[1] القلم۱۰تا۱۳

[2] المعارج۱۸

[3] ابراہیم۴۴،۴۵

[4] المومنون۱۰۷،۱۰۸

[5] السجدة۱۲تا۱۴

[6] فاطر۳۷

[7] الزمر۵۶تا۶۰

[8] الزخرف۷۷

[9] الفرقان۱۳،۱۴

[10] طہ۷۴

[11] الحاقة۳۰تا۳۴

[12] البلد۲۰

[13] العنکبوت۵۵

[14] الاعراف۴۱

[15] ابن سعد۶۱؍۳

[16] ابن سعد۶۱؍۳

[17] أسد الغابة فی معرفة الصحابة ۳۷۸؍۵

[18] ابن سعد۶۲؍۳، سیر أعلام النبلاء۱۰۷؍۳

[19] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۶۳۱؍۴

[20] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۶۸؍۶

[21] ابن سعد۶۲؍۳،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۶۳۱؍۴، أسد الغابة فی معرفة الصحابة۶۸؍۶

[22] ابن سعد۶۲؍۳

[23] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۶۳۱؍۴

[24] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۶۳۱؍۴

[25] ابن سعد۶۲؍۳، أسد الغابة فی معرفة الصحابة۶۸؍۶

[26] سیر أعلام النبلاء ۳۷۴؍۱

[27] سیر أعلام النبلاء ۱۰۷؍۳

[28] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۶۳۱؍۴،ابن سعد ۶۲؍۳

Related Articles