بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة القریش

مکہ مکرمہ کا باعزت قبیلہ قریش جوبنی اسمٰعیل سے نسبت رکھتاتھااس لئے بیت اللہ کامتولی بھی تھا،ان کی گزران کاسب سے بڑا ذریعہ تجارت تھا،قصی بن کلاب نے حجازمیں بکھرے ہوئے خاندان کے افرادکوجمع کیااورتدبروفراست کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ریاستی زندگی کاآغازکیا،قصی اوراس کی اولادنے حجاج کی خدمت کے ساتھ ساتھ تجارت کوذریعہ معاش بنایا،اس کے بعد عبدمناف کے چاربیٹوں ہاشم،عبدشمس،مطلب اورنوفل نے اس وقت کے تمام پہلوؤ ں کومدنظررکھ کربین الاقوامی تجارت کی منصوبہ بندی کی اوراپنے تینوں بھائیوں عبدشمس ،مطلب اورنوفل کوبھی اس میں شامل کیاچنانچہ ہاشم نے شام کے غسانی بادشاہ سے،عبدشمس نے حبش کے بادشاہ سے،مطلب نے یمنی امراء سے اورنوفل نے عراق وفارس کی حکومتوں سے تجارتی مراعات حاصل کرلیں جس سے ان بھائیوں کی تجارت بڑی تیزی سے ترقی کرنے لگی ،اسی بناپریہ چاروں بھائی متجرین (تجارت پیشہ)کے نام سے مشہورہوگئے،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گردوپیش کے قبائل سے بھی معاہدے کیے،چنانچہ ان لوگوں نے منصوبہ بندی کرکے سال میں دو مرتبہ تجارتی قافلوں کی روانگی کاپروگرام بنایا،سردیوں میں ایک قافلہ یمن کی طرف روانہ ہوتاجوگرم علاقہ ہے اورگرمیوں میں شام وفلسطین کی طرف سفرکرتاجوٹھنڈا علاقہ ہے ، تمام قبائل عرب بیت اللہ کاعزت واحترام کرتے تھے،اس کاحج اورقربانی دیتے تھے ، قریش کابیت اللہ کے خدمت گزارہونے ،مختلف قبائل کے ساتھ معاہدوں کی وجہ سے اورحج کے زمانے میں نہایت فیاضی کے ساتھ حاجیوں کی جوخدمت قریش کے لوگ کرتے تھے اس کی بناپر تمام عرب ان کی عزت واکرام کرتے تھے،جس کی وجہ سے قریش کے ہزاروں اونٹوں پرمشتمل تجارتی قافلے بے خوف وخطر سفرکرتے رہتے تھے ، اور اس بدامنی وقتل وغارت کے دور میں کوئی ان کی طرف نگاہ بد اٹھاکرنہیں دیکھتاتھااورنہ بھاری ٹیکس ہی وصول کرتاتھاجودوسرے قافلوں سے طلب کیا جاتا تھا ،اس تجارت کی وجہ سے قریش کے لوگوں کوشام ،مصر،عراق ،ایران اورحبش کے ممالک سے تعلقات کے مواقع حاصل ہوئے،انہی روابط کی بناپرقریش نے ان تمام شہروں سے بسنے والوں سے ثقافتی اورتہذیبی روایات بھی سیکھیں اور قریش کاعلم وفکر،دانش وبینش اتنا نمایاں اور اتنا بلند ہو گیاکہ عرب کاکوئی دوسراقبیلہ ان کے مقابلے کانہ رہا،اوردولت کے اعتبارسے بھی مکہ مکرمہ جزیرةالعرب کاسب سے زیادہ اہم تجارتی مرکزبن گیا،قریش لکھناپڑھنانہیں جانتے تھے مگر ان بین الاقوامی تعلقات کی وجہ سے قریش عراق سے رسم الخط لے کرآئے جوبعدمیں قرآن مجیدلکھنے کے لئے استعمال ہوا،عرب کے کسی دوسرے قبیلے میں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہ تھے جتنے قریش میں تھے ، انہی وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا

وَقُرَیْشٌ قَادَةُ النَّاسِ فِی الْخَیْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ

قریش بھلائی کے اخذ میں اور برائی کو دور کرنے میں لوگوں کے لیڈرہیں ۔[1]

عَنْ ذِی مَخْبَرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَانَ هَذَا الْأَمْرُ فِی حِمْیَرَ فَنَزَعَهُ اللهُ مِنْهُمْ فَصَیَّرَهُ فِی قُرَیْشٍ

اورذی مخبر سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپہلے عرب کی سرداری قبیلہ حمیروالوں کوحاصل تھی پھراللہ تعالیٰ نے وہ ان سے سلب کرکے قریش کو دے دی۔[2]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

لِإِیلَافِ قُرَیْشٍ ‎﴿١﴾‏ إِیلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْفِ ‎﴿٢﴾‏ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ هَٰذَا الْبَیْتِ ‎﴿٣﴾‏ الَّذِی أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ‎﴿٤﴾‏ (القریش)
قریش کے مانوس کرنے کے لیے (یعنی) انہیں سردی اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے لئے(اس کے شکریہ میں )پس  انہیں چاہیے کہ اسی گھر کے رب کی عبادت کرتے رہیں جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور ڈر  (اور خوف) میں امن( وامان) دیا ۔

اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قریش پراپنااحسان جتلایاکہ یوں توتم پراللہ کی نعمتوں کاکوئی شمارنہیں ،

۔۔۔ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا۝۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۝۳۴ۧ [3]

ترجمہ: اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بےانصاف اور ناشکرا ہے ۔

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۸ [4]

ترجمہ: اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔

مگرخاص طورپر سردیوں اور گرمیوں میں جو دوسفرتم کرتے ہووہ ہمارے احسان کی وجہ سے ہے کہ ہم نے تمہیں مکہ مکرمہ میں سب سے بڑی نعمت امن عطاکیاہواہے اوربنی اسمٰعیل میں ہونے کی وجہ سے معزز بنایا ہوا ہے ،اگرہم یہ دونوں چیزیں بہم نہ پہنچاتے تو تمہارے تجارتی قافلوں کی آمدورفت ناممکن ہوجاتی،جیسے فرمایا:

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ۔۔۔۝۶۷ [5]

ترجمہ:کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ ان کے گرد وپیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں ؟۔

اصحاب الفیل کاواقعہ کچھ زیادہ پرانانہیں ،جو ایک بہانہ بناکرتمہاری تجارتی پٹی پرقبضہ کرنے کے لئے تم پر چڑھ دوڑاتھا ، ہم نے ان ہزاروں آزمودہ کارفوجیوں کو تمہاری عزت وقاراوررعب ودبدبہ برقرار رکھنے اورتمہارے تجارتی قافلوں کا سلسلہ قائم رکھنے کے لئے نیست ونابود کر دیااورتم نے اپنی آنکھوں سے ان کی تباہی وبربادی کامنظردیکھاہے، اگرابراہہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہو جاتا تو تمہاری عزت وسیادت بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتی اورتجارتی سلسلہ سفربھی منقطع ہوجاتا،جس سے تم خستہ حالی میں مبتلاہوجاتے،مگرابراہہ کی تباہی کے بعدملک بھرمیں تمہاری دھاک پہلے سے زیادہ قائم ہوگئی اس لئے احسان شناسی کاتقاضاتویہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بیشمارنعمتوں اوراس عظیم احسان کویادکرکےکفروشرک سے باز آجاؤ اور اس دعوت کوقبول کرکے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو،جیسے فرمایا:

اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَلَهٗ كُلُّ شَیْءٍ۝۰ۡوَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۱ۙ [6]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر(مکہ) کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں ۔

ورنہ تمہارا انجام بھی اتنا خوفناک ہوسکتاہے،جیسے فرمایا:

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللهِ فَاَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۝۱۱۲ وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۱۱۳ [7]

ترجمہ:اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے وہ امن واطمینان کی زندگی بسرکررہی تھی اورہرطرف سے اس کوبفراغت رزق پہنچ رہاتھاکہ اس نے اللہ کی نعمتوں کاکفران شروع کردیا ، تب اللہ نے اس کے باشندوں کوان کے کرتوتوں کایہ مزاچکھایاکہ بھوک اورخوف کی مصیبتیں ان پرچھا گئیں ، ان کے پاس اس کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیامگرانہوں نے اس کو جھٹلایا آخرکارعذاب نے ان کوآلیاجبکہ وہ ظالم ہوچکے تھے۔

سہیل رضی اللہ عنہ بن بیضاء کااسلام

سهل بْن بیضاء، وهو قرشی من بنی فهرقدیم الإسلام،هاجر إِلَى أرض الحبشة،

یہ قریش کے خاندان بنوفہربن مالک سے تعلق رکھتے تھے،سہیل رضی اللہ عنہ ان عظیم المرتبت بزرگوں میں سے ہیں جن کودعوت حق کے ابتدائی تین سالوں میں قبول اسلام کی شرف حاصل ہوااس وقت ان کی مسیں بھیگ رہی تھیں ،انہوں نے راہ حق میں وطن کوخیربادکہہ کرحبشہ کی غریب الوطنی اختیارکی۔[8]

فَكَانُوا أَوَّلَ من هاجر إلى الحبشة

وہ سب سے پہلے حبشہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔[9]

ثم عاد إِلَى مكة، وهاجر إِلَى المدینة، فجمع الهجرتین جمیعًا، ثم شهد بدرًا وغیرها، ومات بالمدینة فی حیاة النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سنة تسع، وصلى علیه رَسُول اللَّهِ فی المسجد،

کئی سال پردیس میں گزارنے کے بعدہجرت نبوی کے کچھ عرصہ پہلے مکہ مکرمہ مراجعت کی اورپھروہاں سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی،اس طرح انہیں دوہجرتیں کرنے کاشرف حاصل ہوا،غزوات کاآغازہواتوانہوں نے غزوہ بدرسے تبوک تک تمام غزوات میں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کاشرف حاصل کیااورہرغزوے میں اپنی سرفروشی کے جوہردکھائے، انہوں نے نوہجری کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدینہ منورہ میں وفات پائی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں ان کی نمازجنازہ پڑھائی۔[10]

وَمَاتَ بَعْدَ رُجُوْعِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوْكٍ بِالمَدِیْنَةِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس مدینہ منورہ تشریف لائے توچنددنوں بعدان کاانتقال ہوگیا۔[11]

وَلَمْ یُعْقِبْ

انہوں نے کوئی اولادنہیں چھوڑی۔[12]

لَمَّا هَاجَرَ سُهَیْلٌ وَصَفْوَانُ ابْنَا بَیْضَاءَ مِنْ مَكَّةَ نَزَلاَ عَلَى كُلْثُوْمِ بنِ الهِدْمِ

جب سہیل اورصفوان رضی اللہ عنہ بن بیضاء نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی تومدینہ منورہ میں کلثوم بن الہدم رضی اللہ عنہ کے گھراترے۔[13]

عن عَائِشَةَ، قَالَت: صَلَّى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَیْلِ بْنِ بَیْضَاءَ فِی الْمَسْجِدِ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کی نمازجنازہ مسجدنبوی میں پڑھائی۔[14]

عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبد اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَمَرَتْ بِسَعْدٍ أن یُّمَرَّ بِهِ فِی الْمَسْجِدِ لِیُصَلَّى عَلَیْهِ ، قال: فَأَنْكَرَ النَّاسُ ذَلِكَ. فَقَالَتْ: مَا أَسْرَعَ النَّاسُ إِلَى الشَّرِّ، مَاصَلَّى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ على سهیل بن بَیْضَاءَ إِلا فِی الْمَسْجِدِ

عبادبن عبداللہ بن زبیرکہتے ہیں ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کاجنازہ مسجدمیں لانے کافرمایاتاکہ ان کی نمازجنازہ پڑھ سکیں ،بعض لوگوں نے اس پراعتراض کیا عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایالوگ کس قدرجلدبات بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل رضی اللہ عنہ بن بیضاء کے جنازہ کی نمازمسجدہی میں پڑھی تھی۔[15]

 سعد رضی اللہ عنہ بن خولی

یہ حاطب بن ابی بلتعہ کے غلام تھے ، حاطب رضی اللہ عنہ بنی اسدبن عبدالعزیٰ قرشی کے حلیف تھے چونکہ ہرقبیلے کاغلام اورحلیف اسی قبیلے میں شمارکیاجاتاتھااس لیے سعد رضی اللہ عنہ بن خولی کا شمار مہاجرین قریش بنی اسدمیں کیاجاتاہے ،انہوں نے اوائل بعثت میں اسلام قبول کیا

سعد بن خولة من مهاجرة الحبشة الأولى

سعد رضی اللہ عنہ بن خولی پہلی ہجرت حبشہ کرنے والوں میں شریک ہوئے۔[16]

وكان من مهاجرة الحبشة فی الهجرة الثانیة

اورمحمدبن اسحاق کے مطابق آپ دوسری ہجرت حبشہ میں شریک ہوئے۔[17]

ہجرت کااذن ہواتووہ بھی حاطب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے،

لَمَّا هَاجَرَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى كُلْثُومِ بْنِ الْهِدْمِ ،وَشَهِدَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ بَدْرًا

جب سعد رضی اللہ عنہ بن خولی نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی توکلثوم رضی اللہ عنہا بن الہدم کے گھرپراترے،[18]

سب سے پہلے غزوہ بدرمیں دادشجاعت دی۔[19]

شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ

پھرغزوہ احدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑے جوش اورجذبے کے ساتھ شریک ہوئے اوراسی غزوے میں مردانہ وارلڑتے ہوئے شہادت پائی۔[20]

قَالَ: وَكَانَ رُشَیْدٌ الْفَارِسِیّ مولى بنى معاویة لَقِیَ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِكِینَ مِنْ بَنِی كِنَانَةَ مُقَنّعًا فِی الْحَدِیدِ یَقُولُ: أَنَا ابْنُ عُوَیْمٍ! فَیَعْتَرِضُ لَهُ سَعْدٌ مَوْلَى حَاطِبٍ فَضَرَبَهُ ضَرْبَةً جَزَلَهُ بِاثْنَیْنِ ، وَیُقْبِلُ عَلَیْهِ رُشَیْدٌ فَیَضْرِبُهُ عَلَى عَاتِقِهِ، فَقَطَعَ الدّرْعَ حَتّى جَزَلَهُ بِاثْنَیْنِ ، وَهُوَ یَقُولُ: خُذْهَا وَأَنَا الْغُلَامُ الْفَارِسِیّ! وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَرَى ذَلِكَ وَیَسْمَعُهُ، فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا قُلْت خُذْهَا وَأَنَا الْغُلَامُ الْأَنْصَارِیّ؟ فَیَعْتَرِضُ لَهُ أَخُوهُ، وَأَقْبَلَ یَعْدُو كَأَنّهُ كَلْبٌ، یَقُولُ: أَنَا ابْنُ عُوَیْمٍ! وَیَضْرِبُهُ رُشَیْدٌ عَلَى رَأْسِهِ وَعَلَیْهِ الْمِغْفَرُ، فَفَلَقَ رَأْسَهُ، یَقُولُ: خُذْهَا وَأَنَا الْغُلَامُ الْأَنْصَارِیّ!فَتَبَسّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَحْسَنْت یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ! فَكَنّاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ وَلَا وَلَدَ لَهُ

ایک روایت میں ہےرشیدالفارسی جوبنی معاویہ کے آزادکردہ غلام تھے ان کامقابلہ بنی کنانہ کے ایک زرہ پوش سے ہواجس نے سعد رضی اللہ عنہ پروارکرتے ہوئے نعرہ لگایامیں عویمرکابیٹاہوں ، حاطب رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام سعد رضی اللہ عنہ اس کی تلوارسے دوٹکڑے ہوکرگرپڑے،پاس ہی بنی معاویہ کے آزادکردہ غلام رشیدفارسی کھڑے تھے وہ فوراًابن عویمرکی طرف بڑھے اوریہ کہہ کراس پراپنی تلوارکی بھرپورضرب لگائی ،لے اس کواورمیں غلام فارسی ہوں ،ان کی تلوارزرہ کوتوڑتی ہوئی ابن عویمر کے شانے میں اترگئی،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ماجرادیکھ رہے تھے اورسن رہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشید رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکرفرمایااے رشید رضی اللہ عنہ !تونے یہ کیوں نہ کہالے میں ایک انصاری غلام ہوں ؟اتنے میں ابن عویمرکابھائی شکاری کتے کی طرح جھپٹ کرآگے آیا اورہنکارامیں ہوں ابن عویمر!رشید رضی اللہ عنہ نے اس پربھی تلوارکابھرپوروارکیاجس سے اس کاخوداترگیااورسرکے دوٹکڑے ہوگئے ،اس وقت رشید رضی اللہ عنہ نے نعرہ لگایا،لے میں ایک انصاری غلام ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کرمتبسم ہوگئے اورفرمایامرحبااے اباعبداللہ!اسی دن سے رشید رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ مشہورہوگئی حالانکہ عبداللہ نام کاان کاکوئی لڑکانہ تھا۔[21]

[1] البدایة والنہایة ۱۲۲؍۱۱

[2] المعجم الکبیرللطبرانی۴۲۲۷

[3] ابراہیم۳۴

[4] النحل۱۸

[5] العنکبوت۶۷

[6] النمل۹۱

[7] النحل۱۱۲،۱۱۳

[8] اسدالغابة۵۸۲؍۲

[9] سیرأعلام النبلاء۲۳۱؍۱

[10] اسدالغابة ۵۸۲؍۲،معرفة الصحابة لابن منده۶۷۰؍۱

[11] سیر أعلام النبلاء۲۳۴؍۳

[12] أسدالغابة فی معرفة الصحابة ۵۸۲؍۲،سیر أعلام النبلاء ۲۳۴؍۳

[13] سیر أعلام النبلاء۲۳۴؍۳

[14] اسدالغابة۵۸۲؍۲

[15]تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۴۴۹؍۱۸

[16] الجرح والتعدیل لابن ابن حاتم۸۲؍۴

[17]ابن سعد۳۱۱؍۳

[18] ابن سعد۳۱۱؍۳

[19] ابن سعد۳۱۲؍۳، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۵۸۵؍۲،اسدالغابة۴۲۸؍۲،الإصابة فی تمییز الصحابة۴۵؍۳

[20] معرفة الصحابة لابن نعیم۲۹۷۰؍۵

[21] مغازی واقدی ۲۶۱؍۱،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۴۹۶؍۲،اسدالغابة۲۷۵؍۲

Related Articles