بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة الملک

انسان کی آنکھوں پرپڑے ہوئے غفلت کے پردے ہٹانے کے لیے اس سورة میں دین کی بنیادی تعلیمات بالاختصارمذکورہیں ۔

xاس عظیم الشان کائنات میں حقیقی بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ،فرمانروائی کے تمام اختیارات بھی بالکلیہ اسی کے ہاتھ میں ہیں ،اسی کے ہاتھ میں موت وحیات ،عزت وذلت ،فقروغنیٰ اورمنع وعطاکانظام ہے ،اس کے اس نظام میں کوئی دوسراحصہ داریاشریک نہیں ہے ،وہ علیم وخبیرہے ،اسے کائنات کے ذرے ذرے کاعلم ہے ،وہ انسان کے سینے میں پوشیدہ رازوں سے بھی باخبراورآگاہ ہے ،زمین میں چلنے پھرنے کے لیے اسی نے راستے بنائے ہیں ،اسی نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ فضاؤ ں میں اڑتے ہوئے پرندوں کوتھام ہے ،اوروہی اسی زمین سے اپنی تمام مخلوقات کو رزق مہیاکرتاہے ۔

xاللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کوبھیج کراوران پراپنی کتابیں نازل کرکے اسی دنیامیں نتائج سے خبردارکردیاہے ،اب اگراسلامی تعلیمات پرایمان لاکراپنارویہ ٹھیک نہیں کروگے تو آخرت میں تم حسرت وافسوس سے کہو گے کاش! ہم ان کی بات مان لیتے توآج اس طرح ذلت ورسوائی برداشت نہ کرناپڑتی ۔

xرب العالمین کے وجوداورواحدنیت پرتکوینی دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ آسمان کی چھت،اس میں ستاروں کی قندیلیں ،زمین کافرش اورپانی کے بہتے چشمے ایک حکیم وخبیر اور صانع ذات کے وجودکی خبردے رہے ہیں جس کی تخلیق میں تم کوئی نقص نہیں پاؤ گے۔

xایک دن تمہیں لازماًاللہ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے پیش ہوناہے ،مگرتم اس بات کی تکذیب کرتے ہواورباربارمطالبہ کرتے ہوکہ قیامت یاعذاب لاکر دکھا دیاجائے ،مگرجب تم جہنم کو دیکھوگے جو غیض وغضب سے جوش ماررہی ہوگی اوریوں محسوس ہوگاکہ مارے جوش کے پھٹ پڑے گی توتم حواس باختہ ہوجاؤ گے اورتم سے کہہ دیا جائے گاکہ یہی ہے وہ چیز جسے تم طلب کیاکرتے تھے۔

xاہل مکہ اسلام قبول کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوستے اوراہل ایمان کے لیے ہلاکت کی دعائیں مانگتے تھے،فرمایااگریہ سبھی مرجائیں یااللہ ان پررحم کرے ،تمہیں اس سے کیافائدہ پہنچے گا،تم اپنی فکرکروکہ اگراللہ کاعذاب اچانک تم پرآجائے توتمہیں اس کی گرفت سے کون بچائے گااور خبردار کیا کہ موت کے بعد تمام حقیقت کھل کرسامنے آ جائے گی کہ ہدایت یافتہ کون ہے اورگمراہ کون؟

xکفارکودعوت فکردی گئی کہ اللہ نے زمین کوتمہارے تابع کررکھاہے ،اگروہ تمہیں زمین میں دھنسادے یاتیزوتندطوفان بھیج دے جوتمہیں پیوندخاک کردے یاتمہارارزق روک دے یازمین کی گہرائیوں میں سے پانی کوناقابل حصول بنادے تواللہ تعالیٰ کے سواتمہارے معبودوں میں سے کون ہے جوتمہاری مددکرسکتا اورتم کویہ نعمتیں واپس لاکر دینے کی قدرت رکھتاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

تَبَارَكَ الَّذِی بِیَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١﴾‏ الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَكُمْ أَیُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِی خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ‎﴿٣﴾‏ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنقَلِبْ إِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِیرٌ ‎﴿٤﴾ (الملک)
بہت بابرکت ہے وہ (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہےاور وہ غالب اور بخشنے والا ہے، جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے (تو اسے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بےضابطگی نہ دیکھے گا، دوبارہ (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے، پھر دوہرا کردو دو بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی۔

فرمایاوہ بے انتہابزرگ اورعظیم ہے ،وہ اپنی ذات وصفات وافعال میں اپنے سواہرایک سے بالاترہے ،اسی کے ہاتھ میں کائنات کی بادشاہی ہے اوروہی سارے اختیارات کامالک ہے،ہرطرح کی قدرت اورغلبہ اسی کوحاصل ہے ،وہ کائنات میں جس طرح کاتصرف کرے کوئی اسے روک نہیں سکتا،کوئی اس کی حکمت ومشیت میں دخل نہیں دے سکتا،کوئی اس کے حکموں کوٹال نہیں سکتا، اس عظیم ہستی کاکوئی کام بے مقصدنہیں ہوتااورنہ یہ اس کی شان ہے ،اس نے انسان کوایک مقصدعظیم کے تحت پیدافرمایاہے،زندگی وموت کو بھی اسی نے ایجادکیاہے ، جیسے فرمایا:

كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸ [1]

ترجمہ: تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تم کو زندگی عطا کی پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا ، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔

تاکہ انسانوں کا امتحان لے اوریہ دیکھے کہ کس کاعمل زیادہ بہترہے،

عَنْ أَبِی عَجْلانَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ: لِیَبْلُوَكُمْ أَیُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا وَلَمْ یَقُلْ أَكْثَرُ عَمَلا

محمدبن عجلان کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایاہے کہ کون اچھے کام کرتاہے یہ نہیں فرمایاکہ کون زیادہ کام کرتاہے۔[2]

چنانچہ روزمحشر اعمال کے نتیجے میں جس شخص کاجیساعمل ہوگااس کے مطابق اس کو جزادی جائے گی، وہ اپنی مخلوق کے حق میں غالب ہونے کے باوجودرحیم وغفورہے اورگناہگاروں کی توبہ قبول کرکے ان کے گناہوں کو بخش دیتاہے خواہ وہ آسمان کے کناروں تک پہنچے ہوں اوران کے عیوب کوچھپاتا ہے خواہ وہ زمین بھرہوں ،اس لئے چندروزہ دنیوی زندگی کوغنیمت جان کر اخروی زندگی میں کامیاب ہونے کی سوچواوراس کے لئے تگ ودوکرو،وہ ایسی ہستی ہے جس نے آسمانوں کوایک طبق نہیں بلکہ ایک دوسرے کے اوپر سہاروں کے بغیرسات آسمان بنائے ،اورتم رحمان کی تخلیق کردہ پوری کائنات میں کمال درجے کاتناسب تو دیکھوگے مگر کہیں کوئی نقص، بدنظمی،بے ترکیبی اور بے ربطی نہ پاؤ گے،جواس بات پردلالت کرتے ہیں کہ ان سب کاپیداکرنے والا صرف ایک ہی الٰہ ہے متعددنہیں ،کوئی شگاف تلاش کرنے کے لئے تم لوگ پھرپلٹ کر جستجو کرلومگرتمہیں اس عظیم الشان کائنات میں کوئی رخنہ یادراڑنہیں ملے گا، جیسے فرمایا

اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓااِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا وَزَیَّنّٰهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ۝۶ [3]

ترجمہ:اچھا، تو کیا انہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا ؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے ۔

اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کوواضح ترکرنے کے لئے فرمایاتم رب کی تخلیق کردہ عظیم الشان کائنات میں کوئی رخنہ تلاش کرنے کے لئے باربار جستجوکرلومگرتمہیں کوئی شکست ورریخت نظرنہیں آئے گی ۔

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّیَاطِینِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیرِ ‎﴿٥﴾‏ وَلِلَّذِینَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿٦﴾‏ إِذَا أُلْقُوا فِیهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِیقًا وَهِیَ تَفُورُ ‎﴿٧﴾‏ تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِیَ فِیهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ یَأْتِكُمْ نَذِیرٌ ‎﴿٨﴾‏ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَیْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ كَبِیرٍ ‎﴿٩﴾‏ وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِی أَصْحَابِ السَّعِیرِ ‎﴿١٠﴾‏ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِیرِ ‎﴿١١﴾‏ (الملک)
بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں ) سے آراستہ کیا اور انہیں شیطان کے مارنے کا ذریعہ بنادیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے (دوزخ جلانے والا) عذاب تیار کردیا، اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے، جب اس میں یہ ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑے زور سے کی آواز سنیں گے، اور وہ جوش مار رہی ہوگی،  قریب ہے کہ (ابھی) غصے کے مارے پھٹ جائے، جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے دروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا؟وہ جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہا اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا، تم بہت بڑی گمراہی میں ہو،  اور کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں (شریک) نہ ہوتے ، پس انہوں نے اپنے جرم کا اقبال  کرلیا، اب یہ دوزخی دفع ہوں (دور ہوں ) ۔

ہم نے آسمان دنیاکوانگنت ستاروں اورکہکشاؤ ں سے خوب مزین اورآراستہ کیاہےجن کی کثرت، شان اورجگمگاہٹ سے انسان دنگ رہ جاتاہے ،اہل عرب کاعقیدہ اور کاہنوں کایہ دعویٰ تھاکہ شیاطین ان کے تابع یاان سے رابطہ میں ہیں اس لئے ان کے ذریعہ سے انہیں غیب کی خبریں حاصل ہوتی ہیں ، اس کے ردمیں فرمایاکہ اللہ نے ایسا سلسلہ قائم کیاہے کہ شیاطین کاعالم بالامیں جانے اوروہاں سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کاقطعاًکوئی امکان نہیں ہے ،جیسے فرمایا:

فَقَضٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَاَوْحٰى فِیْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا۝۰ۭ وَزَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۝۰ۤۖ وَحِفْظًا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ۝۱۲ [4]

ترجمہ:تب اس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے، اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کر دیا اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَ۝۱۶ۙوَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۝۱۷ۙاِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ۝۱۸ [5]

ترجمہ: یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے ،ان کودیکھنے والوں کے لئے (ستاروں سے)آراستہ کیا اور ہر شیطان مردودسے ان کومحفوظ کردیا،کوئی شیطان ان میں راہ نہیں پاسکتاالایہ کہ کچھ سن گن لے لے،اورجب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتاہے توایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتاہے ۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙوَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ۝۷ۚلَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ۝۸ۤۖدُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۝۹ۙاِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَةَ فَاَتْــبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ۝۱۰ [6]

ترجمہ :ہم نے آسمان دنیا کوتاروں کی زینت سے آراستہ کیاہے اورہرشیطان سرکش سے اس کومحفوظ کردیاہے ،یہ شیاطین ملاء اعلی کی باتیں نہیں سن سکتے ،ہرطرف سے مارے اورہانکے جاتے ہیں ، اور ان کے لئے پیہم عذاب ہے ،تاہم اگرکوئی ان میں سے کچھ لے اڑے توایک تیزشعلہ ان کاپیچھاکرتاہے ۔

یعنی ستاروں کا آسمان کی زینت ہونا ،شیاطین کواوپرجانے سے روکنااورتیسرامقصدبحروبرمیں راستوں کی راہ نمائی ہے ۔جیسے فرمایا:

وَعَلٰمٰتٍ۝۰ۭ وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ۝۱۶ [7]

ترجمہ:اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں ۔

قَالَ قَتَادَةُ: إِنَّمَا خُلِقَتْ هَذِهِ النُّجُومُ لِثَلَاثِ خِصَالٍ ، خَلَقَهَا اللَّهُ زِینَةً لِلسَّمَاءِ وَرُجُومًا لِلشَّیَاطِینِ وَعَلَامَاتٍ یُهْتَدَى بِهَا فَمَنْ تَأَوَّلَ فِیهَا غَیْرَ ذَلِكَ فَقَدْ قَالَ بِرَأْیِهِ وَأَخْطَأَ حَظَّهُ، وَأَضَاعَ نَصِیبَهُ، وَتَكَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کوتین مقاصدکے لیے پیدافرمایاہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان کے لیے زینت بنایا ہیں ،شیطانوں کومارنے کاآلہ ہیں ،اورعلامات ہیں کہ ان سے راستوں کاتعین کیاجاتاہے، جوکوئی شخص ان کے بارے میں کوئی اورنظریہ رکھے،تویہ اس کی محض اپنی رائے ہے جس کے استعمال کرنے میں اس نے راہ راست کوضائع کردیا اورعلم کے بغیرمحض تکلف سے کام لیاہے۔[8]

اورآخرت میں ان شیطانوں کے لئے جنہوں نے اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیارکی اوراس کے بندوں کوگمراہ کیا ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے ،انسان ہوں یاشیطان،جن لوگوں نے اپنے رب کاکفرکیاان کے لئے عذاب جہنم ہے جوبہت ہی براٹھکاناہے،میدان محشرمیں لانے سے پہلے جہنم کوخوب بھڑکایا جائے گاجیسےفرمایا:

وَاِذَا الْجَــحِیْمُ سُعِّرَتْ۝۱۲۠ۙ [9]

ترجمہ:اور جب جہنم دَہکائی جائے گی ۔

اورپھراسے میدان محشرمیں لایاجائے گا ۔

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ۝۹۱ۙ [10]

ترجمہ:اوردوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی ۔

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى۝۳۶ [11]

ترجمہ:اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے کھول کررکھ دی جائے گی ۔

اوروہ کفار پر مارے غیظ و غضب سے پھٹی جارہی ہوگی ،جب دروغہ جہنم مجرموں کوجہنمی لباس پہناکر،گلے میں طوق ڈال کراورزنجیروں سے کس کراورپیروں سے پکڑکرمنہ کے بل گھسیٹے ہوئے جہنم کی طرف لے کرچلے گاتووہ دورسے ہی جہنم کی بہت بلند،ہولناک اورکریہہ آوازیں سنیں گے ، جیسے فرمایا:

اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا۝۱۲ [12]

ترجمہ:وہ جب دورسے ان کودیکھے گی تویہ اس کے غضب اورجوش کی آوازیں سن لیں گے ۔

فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّشَهِیْقٌ۝۱۰۶ۙ [13]

ترجمہ:جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے (جہاں گرمی اور پیاس کی شدت سے) وہ ہانپیں گے اور پھنکارے ماریں گے ۔

قَالَ مُجَاهِدٌ: تَفُورُ بِهِمْ كَمَا یَفُورُ الْحَبُّ الْقَلِیلُ فِی الْمَاءِ الْكَثِیرِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جہنم ان کے ساتھ اس طرح جوش ماررہی ہوگی جس طرح زیادہ پانی میں تھوڑے دانے جوش مارتے ہیں ۔ [14]

چنانچہ جب مقدمہ کی تمام کاروائی کے بعد مجرموں کاانبوہ درانبوہ ذلت ورسوائی کے ساتھ جہنم میں ڈالاجائے گا توجہنم کے کارندے بطور طنز انسانوں سے یہ پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس خوشخبری اور ڈرانے کے لئے پیغمبرمبعوث نہیں ہوئے تھےجن کی اطاعت کرکے تم اس دردناک عذاب سے بچ کر انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنت کے وارث بن جاتے ، وہاں تم بڑی حسرت سے اپناجرم تسلیم کرو گے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپناوعدہ پورا کر دیا تھا،جیسے فرمایا

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۝۰ۭ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰٓی اَنْفُسِـنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَشَهِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ۝۱۳۰ [15]

ترجمہ:(اس موقع پر اللہ ان سے یہ بھی پوچھے گا کہ) اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے ہاں ! ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہےمگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَیُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ۝۷۱ [16]

ترجمہ:(اس فیصلہ کے بعد) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا ؟ وہ جواب دیں گے ہاں ، آئے تھے مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا ۔

اس نے گمراہ انسانوں کواس بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانے اور صراط مستقیم پرچلانے کے لئے رسولوں اورآسمانی کتابوں کاسلسلہ جاری فرمایاتھا،جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝۰ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى۝۰ۥۙ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی۝۱۲۳ [17]

ترجمہ:اور فرمایا تم دونو ں فریق ( یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے، اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہوگا۔

۔۔۔وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵ [18]

ترجمہ:اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے)ایک پیغام بر نہ بھیج دیں ۔

مگرہم باطل معبودوں کی پرستش اوردنیاداری میں غرق تھے ،ہمیں یقین ہی نہ تھاکہ اللہ تعالیٰ نے کچھ نازل فرمایا ہے اور یہ کہ قیامت آئے گی ،اس لئے ہم نے اس پاکیزہ دعوت کوسننے اورسمجھنے سے انکارکردیا تھااوراپنے آباؤ اجدادکے مشرکانہ دین کوصحیح سمجھتے ہوئے پیغمبروں سے علی الاعلان کہاتھاکہ تم اورتم پرایمان لانے والے سخت گمراہی میں مبتلاہو، چنانچہ کافرحسرت وافسوس کرتے ہوئے کہیں گے کاش! ہم اللہ اس کے رسولوں اورکتابوں پرایمان لاتے،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶ [19]

ترجمہ:جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔

یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸ [20]

ترجمہ:ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔

ان کی اطاعت میں عمل صالحہ اختیارکرتے توآج دوزخیوں میں شامل نہ ہوتے ۔

عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ الطَّائِیِّ،قَالَ: أَخْبَرَنِی مَنْ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَنْ یَهْلِكَ النَّاسُ حَتَّى یُعذِروا مِنْ أَنْفُسِهِمْ

ابوبختری طائی سے مروی ہےمجھے اس شخص نے خبردی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشادفرماتے ہوئے سنا لوگ ہرگزہلاک نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ(گناہ کرکے بودی اورناپائیدارتاویلوں کے ساتھ)اپنے آپ کومعذورٹھہرائیں ۔[21]

اس طرح وہ اپنے جرائم کوقبول کرکے اپنے خلاف حجت قائم کرلیں گے ،اللہ تعالیٰ فرمائے گااب یہ دوزحی اللہ سے اوراس کی رحمت سے دورہیں ،خسارہ اوربدبختی ان کا مقدرہے۔

 إِنَّ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَیْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِیرٌ ‎﴿١٢﴾‏ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿١٣﴾‏ أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ ‎﴿١٤﴾‏ (الملک)
بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور بڑا ثواب ہے، تم اپنی باتوں کو چھپاؤ یا ظاہر کرو وہ تو سینوں کی پوشیدگی کو بھی بخوبی جانتا ہے ،کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا پھر وہ باریک بین اور باخبر ہو۔

نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں :

وہ لوگ جوخلوتوں میں ان دیکھے الٰہ سے ڈرکربرائی سے اجتناب اورنیکی کواختیارکرتے ہیں ،جواپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں یقیناًاللہ ان کی بشری کمزوریوں ،کوتاہیوں کی مغفرت فرمادے گااوراپنی طرف سے اجرعظیم عطافرمائے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِی ظِلِّهِ، یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِی عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِی المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِی اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَیْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ یَمِینُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات قسم کے اشخاص کواللہ تعالیٰ اس دن جب کہیں کوئی سایہ نہ ہوگااپنے عرش کاسایہ دے گا،اول انصاف کرنے والابادشاہ،دوسرے وہ نوجوان جواپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا، تیسراایساشخص جس کادل ہروقت مسجدمیں لگارہتاہے،چوتھے دوایسے شخص جواللہ کے لئے باہم محبت رکھتے ہیں اوران کے ملنے اورجداہونے کی بنیادیہی للہی محبت ہے، پانچواں وہ شخص جسے کوئی مال ودولت اورحسن وجمال والی عورت زناکی دعوت دے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتاہوں ، چھٹاوہ شخص جس نے صدقہ کیامگراتنے پوشیدہ طورپرکہ بائیں ہاتھ کوبھی خبرنہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیاخرچ کیااور ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کویادکیااور(بے ساختہ)آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔[22]

عَن أَنَسٍ، قال: قالوا:یارسول اللَّهِ إِنَّا نَكُونُ عِنْدَكَ عَلَى حَالٍ، فَإِذَا فَارَقْنَاكَ كُنَّا عَلَى غَیْرِهِ قَالَ: كَیْفَ أَنْتُمْ وَرَبُّكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ رَبُّنَا فِی السِّرِّ وَالْعَلانِیَةِ قَالَ: لَیْسَ ذَلِكُمُ النِّفَاقَ.

انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہےایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے دلوں کی جوکیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے آپ کے بعدوہ نہیں رہتی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہاراکیاخیال رہتاہے؟عرض کیاکہ ظاہروباطن اللہ ہی کوہم رب مانتے ہیں ، فرمایاپھریہ نفاق نہیں ۔[23]

اللہ تعالیٰ نے اپنے وسیع علم کے بارے میں فرمایااے کافرو! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چھپ کر باتیں کرویاعلانیہ ،رات کے اندھیروں میں کرویادن کے اجالے میں ،جوبھی سازشیں تم تیار کروگے سب علام الغیوب اللہ کے علم میں ہیں ،وہ ہستی جس نے مخلوق کوبہترین طریق سے پیدافرمایاہے ،وہ توان کے کھلے اور چھپے اقوال واعمال اوران کی نیتیں اوران کے خیالات تک جانتاہے،جیسے فرمایا

وَاِنْ تَجْــهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی۝۷ [24]

ترجمہ:تم چاہے اپنی بات پکارکرکہووہ توچپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تربات بھی جانتاہے ۔

تمہاری سازشیں اورمکروفریب کس طرح اس سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں وہ تولطیف وخبیرہے۔

هُوَ الَّذِی جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِی مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَیْهِ النُّشُورُ ‎﴿١٥﴾‏ أَأَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِیَ تَمُورُ ‎﴿١٦﴾‏ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَیْفَ نَذِیرِ ‎﴿١٧﴾‏ وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیرِ ‎﴿١٨﴾(الملک)
وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست و مطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو، اور اللہ کی روزیاں کھاؤ  (پیو)، اسی کی طرف (تمہیں ) جی کر اٹھ کھڑے ہونا ہے،کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ آسمان والا تمہیں  زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ،یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسادے؟  پھرتو تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا ،اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا تو دیکھو ان پر میرا عذاب کیسا ہوا ؟ ۔

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے مغفرت وانعامات کاذکرفرماکراپنی مزیدنشانیاں بیان فرمائیں کہ سورج ،چاندستاروں اورسیاروں کی طرح اس زمین کوبھی اللہ ہی نے تمہارے لئے مسخرکررکھاہے ،جیسے فرمایا:

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَةً وَّبَاطِنَةً۔۔۔۝۲۰ [25]

ترجمہ:کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں ؟۔

تاکہ تم اس پررہنے کے لئے عمارتیں تعمیرکرواورمعاشی ضروریات کے لئے دوردرازملکوں اورشہروں میں جانے کے لئے شاہراہیں تیارکرواوران پرچلوپھرو،اوراسی اللہ ہی نے تمہارے لئے اس زمین میں سے رزق یعنی مختلف اجناس،سبزیاں اورانواع و اقسام کے پھل اورجانوروں کے لئے چارے وغیرہ نکالے ہیں ، اس لئے اس قدرتوں والے رب کے حضورجھک جاؤ اوراس کاشکراداکرواورزمین پرچلتے پھرتے اوراس کاعطاکردہ رزق کھاؤ ،

أَبَا تَمِیمٍ الْجَیْشَانِیَّ، یَقُولُ: سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، یَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَوْ أَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا

ابوتمیم جیشانی کہتے ہیں میں نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کوکہتے ہوئے سناکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنااگرتم اللہ تعالیٰ پراس طرح توکل کروجس طرح توکل کرنے کاحق ہےتووہ تمہیں اس طرح رزق عطافرمائے جس طرح وہ پرندوں کورزق دیتاہے کہ(اپنے گھونسلوں سے)صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اورشام کوسیرہوکرلوٹتے ہیں ۔[26]

اوررزق کھاتے ہوے یہ نہ بھولوکہ ایک دن تمہیں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اس کی بارگاہ میں پیش ہوناہے،اگراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں نیک عمل کروگے تو انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنت میں انعام واکرام سے نوازے جاؤ گے اوراگرفخروغرور،ضدوہٹ دھرمی اورتعصب میں نافرمانی کروگے توہولناک عذاب کے مستحق بنوگے ،کیاتم اللہ سے بے خوف ہوگئے ہوجوآسمانوں کے اوپراپنے عرش پراپنی شان کے لائق جلوہ گر ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِجَارِیَةٍ سَوْدَاءَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَلَیَّ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً،فَقَالَ لَهَا:أَیْنَ اللَّهُ؟فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ بِأُصْبُعِهَا،فَقَالَ لَهَا:فَمَنْ أَنَا؟فَأَشَارَتْ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى السَّمَاءِ یَعْنِی أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص ایک کالی لونڈی کولے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ پرایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہوگیاہے کیامیں اس لونڈی کو آزاد کرسکتاہوں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھااللہ کہاں ہے ؟اس نے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر دیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھااورمیں کون ہوں ؟اس نے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اورپھرآسمان کی طرف اشارہ کیاجس سے اس کایہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں ،اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے آزادکردویہ مومنہ ہے۔[27]

کہ وہ پچھلی تباہ شدہ قوموں کی طرح تمہیں بھی تمہارے کفروشرک اور بداعمالیوں کے سبب زمین میں دھنسادے اورتم اپنے معبودان باطلہ کوپکارتے ہی رہ جاؤ یاپرسکون زمین پرزلزلہ بھیج دے اوراس کی حرکت وجنبش کی وجہ سے تم اس میں زندہ ہی دفن ہوجاؤ اورکوئی تمہارانام لیواہی نہ بچے ،اورکیاتم اس رب سے بے خوف ہوگئے ہوکہ وہ تم پرقوم لوط اوراصحاب الفیل کی طرح پتھراؤ کرنے والی تندوتیز ہوابھیج کرسنگسارکردے اور تمہاری بستیوں کوغارت کرکے رکھ دے،جیسےفرمایا

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًا۝۶۸ۙاَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ یُّعِیْدَكُمْ فِیْهِ تَارَةً اُخْرٰى فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ۝۰ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهٖ تَبِیْعًا۝۶۹ [28]

ترجمہ :اچھاتوکیاتم اس بات سے بالکل بے خوف ہوکہ اللہ کبھی خشکی پرتم کوزمین میں دھنسادے یاتم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی بھیج دے اورتم اس سے بچانے والاکوئی حمایتی نہ پاؤ ؟اورکیاتمہیں اس کااندیشہ نہیں کہ اللہ پھرکسی وقت سمندرمیں تم کولے جائے اورتمہاری ناشکری کے بدلے تم پرسخت طوفانی ہوابھیج کرتمہیں غرق فناکردےاورتم کوایساکوئی نہ ملے جواس سے تمہارے اس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے؟۔

اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گاکہ اللہ وحدہ لاشریک کاعذاب کیاہوتاہے مگراس وقت یہ علم بے فائدہ ہوگا،ابھی مہلت کی کچھ گھڑیاں باقی ہےاس سے فائدہ اٹھالواور آنکھیں کھول کردیکھ لوکہ تم سے پہلے جن قوموں نے دعوت توحیدکوماننے سے انکار کیا تھا ، جنہوں نےرسولوں اور اہل ایمان کامذاق اڑایاتھا ،جنہوں نے دعوت توحید کا راستہ روکنے کے لئے ان پرظلم وستم کیاتھاوہ کیسے مبتلائے عذاب ہوئے۔جیسے فرمایا

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا۝۴۵ۧ [29]

ترجمہ:اورکہیں وہ لوگوں کوان کے کیے کرتوتوں پرپکڑتاتوزمین میں کسی متنفس کوجیتانہ چھوڑتامگروہ انہیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے مہلت دے رہاہے،پھرجب ان کاوقت آن پوراہوگاتواللہ اپنے بندوں کودیکھ لے گا ۔

أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَى الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَیَقْبِضْنَ ۚ مَا یُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ بَصِیرٌ ‎﴿١٩﴾‏ أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِی هُوَ جُندٌ لَّكُمْ یَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَٰنِ ۚ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِی غُرُورٍ ‎﴿٢٠﴾‏ أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِی یَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ بَل لَّجُّوا فِی عُتُوٍّ وَنُفُورٍ ‎﴿٢١﴾‏ أَفَمَن یَمْشِی مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِ أَهْدَىٰ أَمَّن یَمْشِی سَوِیًّا عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٢٢﴾‏ قُلْ هُوَ الَّذِی أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ قَلِیلًا مَّا تَشْكُرُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ قُلْ هُوَ الَّذِی ذَرَأَكُمْ فِی الْأَرْضِ وَإِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٢٤﴾ (الملک)
کیا یہ اپنے پر کھولے ہوئے اور (کبھی کبھی) سمیٹے ہوئے (اڑنے والے) پرندوں کو نہیں دیکھتے، انہیں (اللہ) رحمٰن ہی (ہواو فضامیں ) تھامے ہوئے ہے، بیشک ہر چیز اس کی نگاہ میں ہے، سوائے اللہ کے تمہارا وہ کونسا لشکر ہے جو تمہاری مدد کرسکے کافر تو سراسر دھو کے ہی میں ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا، بلکہ (کافر) تو سرکشی اور بدکنے پر اڑ گئے ہیں ، اچھا وہ شخص زیادہ ہدایت والا ہے جو اپنے سرکے بل اوندھا ہو کر چلے یا وہ جو سیدھا (پیروں کے بل) راہ راست پر چلا ہو، کہہ دیجئے کہ وہی( اللہ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان  آنکھیں اور دل بنائے تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو، کہہ دیجئے ! کہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا اور اس کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔

کیایہ لوگ اپنے اوپراڑنے والے چھوٹے بڑے رنگارنگ کے پرندوں کونہیں دیکھتےجوہوامیں اڑنے اورجھپٹنے کے لئے اپنے پرپھیلاتے اورسکیڑتے ہیں ، اللہ ہی نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں فضامیں تھام رکھاہے ،یعنی اسی نے ہرپرندے کووہ ساخت عطافرمائی ہے جس سے وہ اڑنے کے قابل ہواہے اوراسی نے ہرپرندے کواڑنے کا طریقہ سکھایاہے،جیسے فرمایا

اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَاۗءِ۝۰ۭ مَا یُمْسِكُہُنَّ اِلَّا اللہُ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۷۹ [30]

ترجمہ: کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں ؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔

اوریہ سب پرندوں پرہی موقوف نہیں جوچیزبھی دنیامیں موجودہے اللہ کی نگہبانی کی بدولت موجودہے ، انسانوں کو دعوت فکردی کہ پچھلی قوموں کی طرح تم لوگ اللہ کے غضب سے بے خوف ہوکر اس پاکیزہ دعوت کوروکنے کے لئے ہر ہتھکنڈااستعمال کررہے ہو،اگراللہ تمہارے اعمال کی بدولت تم پراپناعذاب نازل کردے توبتاؤ اس عذاب کوروکنے کے لئے تمہارے پاس کیاوسائل ہیں ،یعنی کوئی لشکراورجتھہ ایسانہیں جوتمہیں اللہ کے عذاب سے بچاسکے ،اوراگراللہ آسمان وزمین سے ملنے والے رزق کے تمام وسائل معدوم کردے تواے گمراہ انسانو!بتلاؤ تمہاراکون سامعبودتمہارے لئے خوراک مہیا کرسکتاہے ،یعنی کوئی نہیں جواس کی مشیت کے بغیرتمہیں رزق دے سکے ،پھرتم کیوں کفر پر اصرارکرکے اپنے پاوں پرکلہاڑی چلارہے ہو،پچھلی تباہ شدہ قوموں کے حالات واقعات پرغورفکرکرتے ہونہ عبرت پکڑتے ہو،ذراسوچوجوشخص گمراہی میں سرگشتہ پھرتا ہے ، اپنے کفرمیں غرق ہے ،اس کے نزدیک حق باطل اورباطل حق بن چکاہے یاوہ شخص جوحق کاعلم رکھنے والا،حق کوترجیح دینے والااوراس پرعمل کرنے والا اوراپنے اقوال وافعال اورتمام احوال میں صراط مستقیم پرگامزن ہوان دونوں اشخاس میں کون ہدایت یافتہ ہے ،یعنی یہ توسوچوجس راہ پرتم جارہے ہووہ صحیح بھی ہے یانہیں ،جیسے فرمایا

وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُہُمَآ اَبْكَمُ لَا یَـقْدِرُ عَلٰی شَیْءٍ وَّہُوَكَلٌّ عَلٰی مَوْلٰىہُ۝۰ۙ اَیْنَـمَا یُوَجِّہْہُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ۝۰ۭ ہَلْ یَسْتَوِیْ ہُوَ۝۰ۙ وَمَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ۝۰ۙ وَہُوَعَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَــقِیْمٍ۝۷۶ۧ [31]

ترجمہ:اللہ ایک اور مثال دیتا ہے، دو آدمی ہیں ایک گونگا بہرا ہے کوئی کام نہیں کر سکتا اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہےجدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے بن نہ آئے ، دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں ؟۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہواللہ تمہیں پہلی مرتبہ بغیرکسی معاون ومددگارکے عدم سے وجودمیں لایااوراسی نے تمہیں غوروفکرکرنے کے لئے دیکھنے ،سوچنے، سمجھنے اورفیصلہ کرنے کی صلاحیتیں عطافرمائیں ہیں مگرتم لوگ اللہ کی ہرسوپھیلی نشانیوں کودیکھ کراوران پرغوروفکر کرکے اس پرایمان نہیں لاتے ،اللہ نے جوتمہیں طرح طرح کی نعمتیں عطاکررکھی ہیں اس پر اس کاشکرادا نہیں کرتے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ دیں کہ اللہ ہی نے پرحکمت طریقے سے تمہیں مختلف زبانیں ،مختلف عادات اورجداگانہ رنگ وروپ دے کر زمین کے کناروں تک آبادکیاہےپھر ایک وقت مقررہ پرتم سب اسی کی بارگاہ میں اعمال کی جزاوسزا کے لئے گھیرلائے جاؤ گے،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ وَاِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۝۷۹ [32]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے ۔

 وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٢٦﴾‏ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِیئَتْ وُجُوهُ الَّذِینَ كَفَرُوا وَقِیلَ هَٰذَا الَّذِی كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ  ‎﴿٢٧﴾(الملک)
 (کافر) پوچھتے ہیں کہ وہ وعدہ کب ظاہر ہوگا اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ) ؟ آپ کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے میں تو صرف کھلے طور پر آگاہ کردینے والا ہوں ،جب یہ لوگ اس وعدے کو قریب تر پالیں گے اس وقت ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے، اور کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے جسے تم طلب کرتے تھے۔

یہ لوگ قیامت اورحیات بعدالموت کی تکذیب کرتے ہیں اوربطوراستہزاکے کہتے ہیں اگرتم اپنی بات میں حق بجانب ہوتوبتلاؤ قیامت کب قائم ہوگیاورہم کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کہہ دیں یہ تومجھے معلوم ہے کہ ایک وقت مقررہ پرقیامت قائم ہوگی مگر وہ کب قائم ہوگی اس کاعلم اللہ کے سواکسی کونہیں ہے، جیسے فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ۔۔۔۝۱۸۷ [33]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے۔

میں توبس اللہ کے فرامین کوصاف صاف پہنچادینے والااورتمہیں آئندہ زندگی میں پیش آنے والے احوال سے مطلع کردینے والاہوں ،ابھی کفارومشرکین اس سخت گھڑی کومذاق سمجھ رہے ہیں مگرجب وہ اس المناک عذاب کوقریب سے دیکھیں گے توذلت ،ہولناکی اور دہشت سے ان کے چہرے پرہوائیاں اڑرہی ہوں گی،ایک مقام پر فرمایا:

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ۔۔۔ ۝۱۰۶ [34]

ترجمہ :جبکہ کچھ لوگ سرخ روہوں گے اورکچھ لوگوں کامنہ کالاہوگا۔

اس وقت ان کوذلیل کرنے کے لئے کہاجائے گایہ وہی ہے جس کی تم تکذیب کرتے اورجلدی رونماہونے کا تقاضاکرتے تھے۔جیسے فرمایا

وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ۝۱۶ [35]

ترجمہ:اوریہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب!یوم الحساب سے پہلے ہی ہماراحصہ ہمیں جلدی سے دے دے۔

قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِیَ اللَّهُ وَمَن مَّعِیَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَن یُجِیرُ الْكَافِرِینَ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٢٨﴾‏ قُلْ هُوَ الرَّحْمَٰنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَیْهِ تَوَكَّلْنَا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٢٩﴾‏ قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن یَأْتِیكُم بِمَاءٍ مَّعِینٍ ‎﴿٣٠﴾‏ (الملک)
آپ کہہ دیجئے ! اچھا اگر مجھے اور میرے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے (بہر صورت یہ تو بتاؤ)  کہ کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا ؟ آپ کہہ دیجئے کہ وہی رحمٰن ہےہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ صریح گمراہی میں کون ہے، آپ کہہ دیجئے ! کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ اگر تمہارے (پینے کا) پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لیے نتھرا ہوا پانی لائے ؟ ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کے نتیجہ میں قریش کے مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افرادنے اسلام قبول کرناشروع کردیاتوگھرگھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوں کو بددعائیں دی جانے لگیں ،جادوٹونے کیے جانے لگے تاکہ آپ ہلاک ہوجائیں ،اس پرفرمایاتم لوگ ہمارے پیغمبرکے پاکیزہ کرداروگفتارکے گواہ ہو،وہ تمہیں نیکی وپاکیزگی کی تعلیم دے رہاہے ،ہمارے نازل شدہ پیغام کے ذریعہ قبل ازوقت تمہیں مابعدالموت کے احوال حساب کتاب،باطل معبودوں کی بے بسی ولاچاری ،جنت کی لازوال نعمتیں اورجہنم کی ہولناکیاں کھول کھول کربیان کررہاہےتاکہ اخروی زندگی میں تم کامیاب وکامران ٹھہرو، مگرتم اس کی بے لوث دعوت پرایمان لانے کے بجائے اس کے خلاف بد دعائیں کرتے ہو،زراسوچو اگریہ سبھی اہل ایمان موت یاقتل کے ذریعے ہلاک ہوجائیں یااللہ انہیں مہلت دے اوریہ زندہ رہیں توتمہیں اس سے کیا فائدہ پہنچے گا؟کیاتم اپنے کفرکے باوجود ہولناک عذاب سے بچ جاؤ گے ؟ان سے کہوہمارارب بڑارحیم ہے ،ہم اس کی وحدانیت پرایمان لائے ہیں اسی لئے اس کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے اوراپنے تمام معاملات اسی کے سپردکرتے ہیں ،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَعَلَی اللهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۲۳ [36]

ترجمہ:اللہ پربھروسہ رکھواگرتم مومن ہو۔

جبکہ تم اپنے جتھوں اور اپنے وسائل اورباطل معبودوں پربھروسہ کرتے ہو،اس لئے اللہ کی رحمت کے مستحق ہم ہوسکتے ہیں تم نہیں ،اس وقت تم لوگوں نے اپنی آنکھوں پرغفلت اورہٹ دھرمی کی پٹی باندھی ہوئی ہے اورتمہیں اصل حقیقت معلوم نہیں ہورہی مگر موت کے بعد ساری حقیقت کھل کر تمہارے سامنے آجائے گی کہ ہدایت یافتہ کون لوگ تھے اورگمراہ کون؟ مگر اس وقت پچھتانافضول ہوگا،ہم نے انسان کوپانی سے تخلیق فرمایا،جیسے فرمایا:

اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِیْنٍ۝۲۰ۙ [37]

ترجمہ:کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِیْنٍ۝۸ۚ [38]

ترجمہ:پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔

اوراس کی زندگی کادارومدار پانی پرہی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ۝۰ۭ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ۝۳۰ [39]

ترجمہ: اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی،کیا وہ (ہماری اس خلاقی کو )نہیں مانتے؟۔

اگراللہ تعالیٰ پانی کوخشک کردے ،یا زمین کی انتہائی گہرائیوں میں پہنچادے کہ اس کا حصول ممکن نہ رہے توبتلاؤ کون ہے جواس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کرلادے گا؟ یعنی کوئی نہیں ہے ،کیایہ زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے ، تمہارااپناوجود،پانی کے بہتے ہوئے یہ چشمے،زمین وآسمان سے ملتاہوابے بہارزق تمہیں کسی حکیم وخبیرذات کے وجودکاپتہ نہیں دے رہے؟اس لئے اس قادرمطلق ذات پر ایمان لاکراس قسم کے عذاب سے چھٹکاراحاصل کرنے کی فکرکرو۔

 سورۂ ملک کی فضیلت:

سورت ملک کاایک نام مَانِعُه اور مُنْجِیهِ بھی ہے یعنی عذاب قبرسے بچانے والی ،اس سورت کی فضیلت میں کئی احادیث واردہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:إِنَّ سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ، ثَلَاثُونَ آیَةً، شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّى غُفِرَ لَهُ، وَهِیَ: {تَبَارَكَ الَّذِی بِیَدِهِ الْمُلْكُ} [40]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقرآن مجیدمیں تیس آیات پرمشتمل ایک سورت ہے جس نے اپنے ساتھی کی شفاعت کی حتی کہ اسے معاف کردیاگیا یہ سورت الملک ہے۔[41]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سُورَةٌ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هِیَ إِلَّا ثَلَاثُونَ آیَةً، خَاصَمَتْ عَنْ صَاحِبِهَا حَتَّى أَدْخَلَتْهُ الْجَنَّةَ، وَهِیَ سُورَةُ تَبَارَكَ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقرآن مجیدمیں ایک ایسی سورت ہے جس میں تیس آیات ہیں جس نے اپنے ساتھی کی طرف سے جھگڑاکرتے ہوئے اسے جنت میں داخل کرادیا یہ سورت الملک ہے ۔[42]

عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ یَنَامُ حَتَّى یَقْرَأَ الْم تَنْزِیلُ، وَتَبَارَكَ الَّذِی بِیَدِهِ الْمُلْكُ.

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک سورہ السجدہ اورسورہ الملک کی تلاوت نہ فرمالیتے تھے۔[43]

 مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کادعوت اسلام قبول کرنا

كَانَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ فَتَى مَكَّةَ شَبَابًا وَجَمَالا وَسَبِیبًا وَكَانَ أَبَوَاهُ یُحِبَّانِهِ،وَكَانَتْ أُمُّهُ مَلِیئَةً كَثِیرَةَ الْمَالِ تَكْسُوهُ أَحْسَنَ مَا یَكُونُ مِنَ الثِّیَابِ وَأَرَقَّهُ

سارے مکہ میں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکی جوانی ،خوبصورتی اورپیشانی کے بالوں جیسا کوئی نوجوان نہیں تھا ان کے والدین ان سے محبت کرتے تھے،ان کی والدہ کواللہ تعالیٰ نے تمول اورآسودہ حالی کی نعمتوں سے نوازاتھاانہوں نے اپنے فرزندکوبڑے نازونعم سے پالاتھاوہ انہیں اعلی سے اعلی اورباریک کپڑے پہناتے تھے،

ولقد رأیت علیه حُلّة شراها أو شُریت بمائتی درهم

ان کے ایک جوڑے کی قیمت دودوسودرہم تک ہوتی تھی جواس زمانے میں ایک خطیررقم متصورہوتی تھی۔[44]

وَكَانَ أَعْطَرَ أَهْلِ مَكَّةَ،یَلْبَسُ الْحَضْرَمِیَّ مِنَ النِّعَالِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَذْكُرُهُ وَیَقُولُ: مَا رَأَیْتُ بِمَكَّةَ أَحَدًا أَحْسَنَ لِمَّةً وَلا أَرَقَّ حُلَّةً وَلا أَنْعَمَ نِعْمَةً مِنْ مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ، فَبَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُو إِلَى الإِسْلامِ فِی دَارِ أَرْقَمَ بْنِ أَبِی الأَرْقَمِ فَدَخَلَ عَلَیْهِ فَأَسْلَمَ وَصَدَّقَ بِهِ وَخَرَجَ فَكَتَمَ إِسْلامَهُ خَوْفًا مِنْ أُمِّهِ وَقَوْمِهِ

وہ اہل مکہ میں عمدہ سے عمدہ اورزیادہ خوشبویات استعمال کرتے تھے،جس گلی سے گزرتے وہ گلی مہک جاتی تھی، اوران کےپاؤ ں میں زری حضرمی جوتاہوتاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامکہ مکرمہ میں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرسے زیادہ خوبصورت بالوں والا،باریک کپڑے پہننے والااورنازونعمت والاکسی کونہیں دیکھا، لیکن اپنی خوبروئی اورخوش پوشی کے باوجود وہ نہایت پاکیزہ سیرت اوراخلاق کے حامل تھے جب انہیں معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارارقم بن ارقم میں دعوت اسلام پیش کررہے ہیں توباوجوداس کے کہ پرستاران حق ان دنوں بڑے پر صعوبت دورسے گزررہے تھے ،مشرکین نے اپنے ظلم وستم سے توحیدکے شیدائیوں کاجینادوبھرکررکھاتھاانہوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکردست حق پر بیعت کرلی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اورروانہ ہوگئے مگراپنی والدہ اورقوم کے خوف سے اپنااسلام چھپایامگراکثرخفیہ طورپردرباررسالت میں حاضرہوتے اورفیضان نبوی سے مقدوربھربہرہ یاب ہوتے ،

فَكَانَ یَخْتَلِفُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِرًّا فَبَصُرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ یُصَلِّی فَأَخْبَرَ أُمَّهُ وَقَوْمَهُ ، فَأَخَذُوهُ فَحَبَسُوهُ،فَلَمْ یَزَلْ مَحْبُوسًا حَتَّى خَرَجَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ فِی الْهِجْرَةِ الأُولَى

لیکن عشق اورمشک چھپائے نہیں چھپتے ایک دن کلیدبردارکعبہ عثمان بن طلحہ(جوابھی تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے)انہیں کہیں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے دیکھ لیا،انہوں نے فوراان کی والدہ اوردوسرے اہل خاندان کوجاکرخبردے دی، معصب رضی اللہ عنہ کی والدہ خناس بنت مالک اوردوسرے اہل خاندان پریہ خبربجلی بن کرگری ، مصعب رضی اللہ عنہ سے ان کی والہانہ محبت بے پناہ نفرت میں تبدیل ہوگئی انہوں نے پہلے توانہیں خوب زدوکوب کیااورپھررسیوں سے جکڑکرقیدتنہائی میں ڈال دیا، مصعب رضی اللہ عنہ دین حق سے منہ موڑکرپھروالدہ اوردوسرے عزیزوں کی محبت اورشفقت کا مرجع بن سکتے تھے لیکن بادہ توحیدنے انہیں کچھ ایسامست کردیاتھاکہ عیش وراحت سے محرومی اورقیدوبندکی مصیبتیں خندہ پیشانی سے قبول کرلیں لیکن دین حق سے منہ موڑنا گوارہ نہ کیاکچھ عرصہ اسی طرح گزرگیا، ادھرکفارکامعاملہ مسلمانوں سے شدیدترہوتاگیایہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستم رسیدہ مسلمانوں کوحبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت فرمادی ،چنانچہ پہلی ہجرت حبشہ کے لیے بارہ مردوں اور چارخواتین کی مختصرساقافلہ فی الفورہجرت کے لیے آمادہ ہوگیاراہ حق میں سب سے پہلے غریب الوطنی اختیارکرنے والے ان بلاکشاں اسلام میں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیربھی شامل تھے جوموقع پاکراپنے زنداں بلاسے بھاگ نکلے اور اس قافلہ کے ساتھ حبش جاپہنچے،

حتى خرج إلى أرض الحبشة فی الهجرة الأولى

حتی کہ وہ پہلی ہجرت حبشہ میں ہجرت کرگئے۔ [45]

ثُمَّ رَجَعَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ حِینَ رَجَعُوا

ابھی ان مہاجرین الی اللہ کوحبش میں تین ہی مہینے گزرے تھے کہ انہوں نے قریش مکہ کے مسلمان ہونے(یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ترک کردینے)کی خبرسنی تو کچھ مہاجرین مکہ مکرمہ واپس ہوگئے جن میں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیربھی شامل تھے۔

شہرکے قریب پہنچ کرمعلوم ہواکہ یہ خبربالکل بے بنیادتھی تاہم انہوں نے حبشہ کی طرف پلٹنا مناسب نہ سمجھااوران میں سے ہرایک عمائدقریش میں سے کسی نہ کسی کی امان حاصل کرکے شہرمیں داخل ہوگیا، مصعب رضی اللہ عنہ نے بااختلاف روایت

وَكَانَ النَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ مِنْ شَیَاطِینِ قُرَیْشٍ

قریش کے شیطانوں میں سے ایک شیطان۔[46]

نضربن الحارث بن کلدہ یاابوعزیربن عمیرکی پناہ حاصل کی، مصعب رضی اللہ عنہ حبش سے اس حال میں مکہ مکرمہ واپس آئے کہ غریب الوطنی نے ان کی رعنائی اورخوش پوشی کوخواب وخیال بنادیاتھا،اب بوسیدہ اورموٹے جھوٹے کپڑے جن میں کئی پیوندلگے ہوتے تھے ان کے زیب بدن ہوتے تھے ،جسم کی نرم ونازک کھال موٹی اورکھردری ہوگئی تھی ،چہرہ ست گیاتھااوررنگ برگ خزاں رسیدہ کی طرح پیلاپڑگیاتھالیکن اس مردحق آگاہ کی شان استقامت وعزیمت میں ذرہ برابرفرق نہ آیاتھا۔

عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ، وَمَا عَلَیْهِ إِلا بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَكَى لِلَّذِی كَانَ فِیهِ مِنَ النِّعْمَةِ، وَالَّذِی هُوَ فِیهِ الْیَوْمَ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن ہم مسجدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھےکہ مصعب رضی اللہ عنہ دربارنبوت میں اس شان سے حاضرہوئے کہ ان کے جسم پرکوئی کپڑاایسانہ تھاجس میں پیوندنہ لگے ہوں اورپھریہ کپڑے بھی سخت موٹے اورکھردرے تھے،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس حالت میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے کہ کبھی وہ نازونعمت میں پلے ہوئے تھے اورآج ان کی یہ حالت ہے۔[47]

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: بَیْنَا أَنَا جَالِسٌ یَوْمًا مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَهُوَ یَبْنِی الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَقْبَلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ ذَاتَ یَوْمٍ وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی أَصْحَابِهِ عَلَیْهِ قِطْعَةُ نَمِرَةٍ قَدْ وَصَلَهَا بِإِهَابٍ قَدْ رَدَّنَهُ ثُمَّ وَصَلَهُ إِلَیْهَا، فَلَمَّا رَآهُ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَكَّسُوا رَؤُوسَهُمْ رَحْمَةً لَهُ لَیْسَ عِنْدَهُمْ مَا یُغَیِّرُونَ عَنْهُ، فَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَحْسَنَ عَلَیْهِ الثَّنَاءَ، وَقَالَ:الْحَمْدُ لِلَّهِ لَیَقْلِبِ الدُّنْیَا بِأَهْلِهَا ، لَقَدْ رَأَیْتُ هَذَا. یَعْنِی مُصْعَبًا. وَمَا بِمَكَّةَ فَتًى مِنْ قُرَیْشٍ أَنْعَمَ عِنْدَ أَبَوَیْهِ نَعِیمًا مِنْهُ. ثُمَّ أَخْرَجَهُ مِنْ ذَلِكَ الرَّغْبَةُ فِی الْخَیْرِ فِی حُبِّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ

عروہ بن زبیرکہتے ہیں ایک روزہم عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے وہ مسجدبنارہے تھے،انہوں نے کہاایک روزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرآئے ،ان کے جسم پردھاری دارچادرکاایک ٹکڑاتھااوراس میں بھی چمڑے کاپیوندلگاہواتھا،اس کی انہوں نے آستین بنالی تھی اوراس کی کھال کا پیوند لگا لیا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مصعب رضی اللہ عنہ کواس لباس میں دیکھ کرتڑپ اٹھے اوررحم کی وجہ سے اپنے سرجھکالیے ،ان کے پاس وہ چیزبھی نہ تھی جس سے کپڑے کوبدل دیتے (یعنی وہ اتنے غریب ہوگئے تھے کہ پیوندلگانے کے لیے کپڑے کاٹکڑابھی نہ تھا)انہوں نے سلام کیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیااوراچھی طرح ان پراللہ کی ثناکی اورآبدیدہ ہو کر فرمایا الحمدللہ ،دنیاکوچاہیے کہ وہ اپنے اہل کوبدل دے، چندسال پہلے میں نے اس نوجوان کودیکھاتھاکہ سارے مکہ میں قریش کاکوئی جوان اپنے والدین کے پاس اس سے بڑھ کرنازونعمت کاپروردہ،خوش رو،خوش پوشاک اورآسودہ حال کوئی نہیں تھالیکن آج اللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اس نے اپنے تمام عیش وآرام کوقربان کردیاہے اورحسنات سے شغف نے اس کودنیوی لذات اوراسباب راحت سے بے نیازکردیاہے۔[48]

حبشہ سے ان اصحاب کے مراجعت فرمانے کے بعدقریش کی ستم آرائیوں میں اورشدت پیداہوگئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرہدایت فرمائی کہ جس مظلوم مسلمان سے بن پڑے وہ حبش کی طرف ہجرت کرجائے ،اب کی بار۸۰سے زیادہ مردوں اور۱۹،۲۰خواتین نے حبش کی راہ لی ، مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیربھی اس قافلہ میں شامل تھے،

عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ عَنْ أَبِیهِ قَالَ:كَانَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ لِی خِدْنًا وَصَاحِبًا مُنْذُ یَوْمَ أَسْلَمَ إِلَى أَنْ قُتِلَ. رَحِمَهُ اللَّهُ. بِأُحُدٍ. خَرَجَ مَعَنَا إِلَى الْهِجْرَتَیْنِ جَمِیعًا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ، وَكَانَ رَفِیقِی مِنْ بَیْنِ الْقَوْمِ فَلَمْ أَرَ رَجُلا قَطُّ كَانَ أَحْسَنَ خُلُقًا وَلا أَقَلَّ خِلافًا مِنْهُ

عامربن ربیعہ کہتے ہیں جب سے مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیراسلام لائے اس وقت سے غزوہ احدمیں شہیدہونے تک وہ میرے دوست اورساتھی رہے وہ ہمارے ساتھ دونوں ہجرتوں میں حبشہ گئے، جماعت مہاجرین میں وہ میرے رفیق تھے، میں نے ایساآدمی کبھی نہیں دیکھاکہ ان سے زیادہ خوش اخلاق ہواوران سے کم اس سے اختلاف ہو۔[49]

سب سے پہلے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والے مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیراورابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا تھے،

الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ یَقُولُ:أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَیْنَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ. یَعْنِی فِی الْهِجْرَةِ إِلَى الْمَدِینَةِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے سب سے پہلے جولوگ مدینہ منورہ کی ہجرت میں ہمارے پاس آئے وہ مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیراورابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا تھے۔[50]

لَمَّا هَاجَرَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدِ بن معاذ

جب مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی توسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس اترے۔[51]

لَمَّا انْصَرَفَ أَهْلُ الْعَقَبَةِ الأُولَى الاثْنَا عَشَرَ وَفَشَا الإِسْلامُ فِی دُورِ الأَنْصَارِ أَرْسَلَتِ الأَنْصَارُ رَجُلا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَتَبَتْ إِلَیْهِ كِتَابًا: ابْعَثْ إِلَیْنَا رَجُلا یُفَقِّهُنَا فِی الدِّینِ وَیُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ، فَبَعَثَ إِلَیْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مصعب بْنَ عُمَیْرٍ فَقَدِمَ فَنَزَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، وَكَانَ یَأْتِی الأَنْصَارَ فِی دُورِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ فَیَدْعُوهُمْ إِلَى الإِسْلامِ وَیَقْرَأُ عَلَیْهِمُ الْقُرْآنَ

جب عقبہ اولیٰ والے بارہ آدمی مدینہ منورہ واپس ہوئے اورانصارمیں اسلام پھیل گیا، تو انصارنےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کے ذریعہ ایک خط بھیجاکہ ہمارے پاس کسی ایسے شخص کوبھیجیں جوہمیں دین کی تعلیم دے اورقرآن پڑھائے،انصارکی درخواست پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکوبھیجا، وہ مدینہ منورہ آئے اورسعدبن زرارہ کے پاس اترے، مصعب رضی اللہ عنہ انصارکے پاس ان کے مکانوں اورقبائل میں آتے اورانہیں اسلام کی دعوت دیتے اورقرآن پڑھ کرسناتے،

فَیُسْلِمُ الرَّجُلُ وَالرِّجْلانِ حَتَّى ظَهَرَ الإِسْلامُ وَفَشَا فِی دُورِ الأَنْصَارِ كُلِّهَا وَالْعَوَالِیَ إِلا دُورًا مِنْ أَوْسِ اللَّهِ ، وَهِیَ خَطْمَةُ وَوَائِلٌ وَوَاقِفٌ. وَكَانَ مُصْعَبُ یُقْرِئُهُمُ الْقُرْآنَ وَیُعَلِّمُهُمْ، فَكَتَبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَأْذِنُهُ أَنْ یُجَمِّعَ بِهِمْ،

ان کی کوششوں سے ایک ایک دو،دولوگ مسلمان ہونے لگے اسلام ظاہرہوگیااورانصارکے تمام مکانوں اوراولیٰ(مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں )میں پھیل گیا،سوائے قبیلہ اوس کے مکانات کے جوحظمہ اوروائل اورواقف کے خاندان تھے، مصعب رضی اللہ عنہ انہیں قرآن مجیدپڑھ کرسناتے اوراسلام کی تعلیم دیتے تھے، مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولکھ کراس بات کی اجازت چاہی کہ وہ ان لوگوں کونمازجمعہ پڑھائیں ،

فَأَذِنَ لَهُ وَكَتَبَ إِلَیْهِ: انْظُرْ مِنَ الْیَوْمِ الَّذِی یَجْهَرُ فِیهِ الْیَهُودُ لِسَبْتِهِمْ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ فَازْدَلِفْ إِلَى اللَّهِ فِیهِ بركعتین واخطب فِیهِمْ فَجَمَّعَ بِهِمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ فِی دَارِ سَعْدِ بْنِ خَیْثَمَةَ ، وَهُمُ اثْنَا عَشَرَ رَجُلا وَمَا ذَبَحَ لَهُمْ یَوْمَئِذٍ إِلا شَاةً، فَهُوَ أَوَّلُ مَنْ جَمَّعَ فِی الإِسْلامِ جُمُعَةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نمازجمعہ پڑھانے کی اجازت فرمائی اورتحریرفرمایاکہ اس دن کودیکھ لیناکہ جس دن یہوداپنے سبت(ہفتہ)کی وجہ سے بلندآوازسے نمازپڑھتے ہیں جب آفتاب ڈھل جائے تواس وقت دورکعت سے اللہ کے قریب ہوجاؤ اورخطبہ پڑھو، مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے سعدبن خیشمہ کے مکان میں لوگوں کو نمازجمعہ پڑھائی،وہ بارہ آدمی تھے اوراس روزان لوگوں نے صرف ایک بکری ذبح کی گئی تھی، وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام میں جمعہ کی نمازپڑھائی۔[52]

كَانَ لِوَاءُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الأَعْظَمُ لِوَاءَ الْمُهَاجِرِینَ یَوْمَ بَدْرٍ مَعَ مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ،حَمَلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ اللِّوَاءَ یَوْمَ أُحُدٍ، فَلَمَّا جَالَ الْمُسْلِمُونَ ثَبَتَ بِهِ مُصْعَبٌ،فَأَقْبَلَ ابْنُ قَمِیئَةَ. وَهُوَ فَارِسٌ. فَضَرَبَ یَدَهُ الْیُمْنَى فَقَطَعَهَا وأخذ اللِّوَاءَ بِیَدِهِ الْیُسْرَى ، وَحَنَا عَلَیْهِ فَضَرَبَ یَدَهُ الْیُسْرَى فَقَطَعَهَا فَحَنَا عَلَى اللِّوَاءِ وَضَمَّهُ بِعَضُدَیْهِ إِلَى صَدْرِهِ ، ثُمَّ حَمَلَ عَلَیْهِ الثَّالِثَةَ بِالرُّمْحِ فَأَنْفَذَهُ وَانْدَقَّ الرُّمْحُ وَوَقَعَ مُصْعَبٌ وَسَقَطَ اللِّوَاءُ

عمربن حسین سے روایت ہے غزوہ بدرکے روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسب سے بڑاجھنڈاجومہاجرین کاجھنڈاتھا مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکے پاس تھا، غزوہ احدمیں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرنے جھنڈااٹھایا مسلمان ڈگمگاگئے تو مصعب رضی اللہ عنہ جھنڈےکولیے ہوئے ثابت قدم رہے ،ابن قمیہ جوگھوڑے پرسوارتھااس نے ان کے داہنے ہاتھ کوتلوارکاوارکرکے کاٹ دیا انہوں نے جھنڈابائیں ہاتھ میں لے لیااوراسے مضبوط پکڑلیا، اس نے مصعب رضی اللہ عنہ کے بائیں ہاتھ کوبھی تلوارکے وارسے کاٹ ڈالا،توانہوں نے جھنڈامضبوط پکڑ لیا اور اسے اپنے بازؤ وں سے اپنے سینے سے لگالیا، اس نے تیسری مرتبہ ان پرنیزے سے حملہ کیااوراسے ان کے جسم میں گھسیڑدیا،نیزہ ٹوٹ گیا، مصعب رضی اللہ عنہ گرپڑے اورجھنڈابھی گرگیا۔

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَى مُصْعَبِ بْنِ عُمَیْرٍ وَهُوَ مُنْجَعِفٌ عَلَى وَجْهِهِ، فَقَرَأَ هَذِهِ الآیَةَ: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ڮ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا [53]

عبیدبن عمیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکے پاس کھڑے ہوئے جومنہ کے بل پڑے ہوئے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔‘‘

عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ قَالَ:قَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ نَبْتَغِی وَجْهَ اللَّهِ، فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ،فَمِنَّا مَنْ مَضَى وَلَمْ یَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَیْئًا مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍقُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ یُوجَدْ لَهُ شَیْءٌ یُكَفَّنُ فِیهِ إِلا نَمِرَةً، قَالَ فكنا وَضَعْنَاهَا عَلَى رَأْسِهِ خَرَجَتْ رِجْلاهُ وَإِذَا وَضَعْنَاهَا عَلَى رِجْلَیْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ ، [فَقَالَ لَنَا رَسُولُ الله: اجْعَلُوهَا مِمَّا یَلِی رَأْسَهُ وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَیْهِ مِنَ الإِذْخَرِ وَمِنَّا مَنْ أَیْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ یَهْدِبُهَا

خباب بن الارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ کی راہ میں ہجرت کی جس سے ہم اللہ کی خوشنودی چاہتے تھے،اللہ تعالیٰ پرہمارااجرواجب ہوگیا،ہم میں سے بعض وہ ہیں جواس طرح گزرگئے کہ انہوں نے اپنے اجرمیں سے کچھ نہ کھایا،انہیں میں مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرہیں جوغزوہ احدمیں شہیدہوئے،ان کے لیے سوائےایک چادرکے اورکوئی چیزنہ ملی جس میں انہیں کفن دیاجاتا، راوی کہتے ہیں جب ہم اسے سرپرڈھانکتے توپاؤ ں کھل جاتے اورجب ان کے پاؤ ں پرڈھانکتے توسرکھل جاتارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے جوسرکے متصل ہے اس پرکردواوران کے پاؤ ں پراذخر(گھاس)رکھ دو،اورہم میں بعض وہ ہیں جن کے پھل پک گئے ہیں وہ انہیں کاٹتاہے۔

وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِینَ سَنَةً أَوْ یَزِیدُ شَیْئًا

انہوں نے چالیس سال کی عمرمیں شہادت پائی،

فَنَزَلَ فِی قَبْرِهِ أَخُوهُ أَبُو الرُّومِ بْنُ عُمَیْرٍ وَعَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ وَسُوَیْبِطُ بْنُ سَعْدِ بْنِ حَرْمَلَةَ

ان کی قبرمیں ان کے بھائی ابوالروم رضی اللہ عنہ بن عمیراورعامربن ربیعہ اورسویبط بن سعدبن حرملہ اترے۔[54]

[1] البقرة۲۸

[2] تفسیرابن ابی حاتم۲۰۰۶؍۶

[3] ق۶

[4] حم السجدة۱۲

[5] الحجر۱۶تا۱۸

[6] الصافات۶تا۱۰

[7] النحل۱۶

[8] تفسیر طبری ۱۸۵؍۱۷، تفسیرابن ابی حاتم۲۹۱۳؍۹

[9] التکویر۱۲

[10] الشعراء ۹۱

[11] النازعات۳۶

[12] الفرقان۱۲

[13] ھود۱۰۶

[14] تفسیرالقرطبی۲۱۲؍۱۸

[15] الانعام۱۳۰

[16] الزمر۷۱

[17] طہ۱۲۳

[18] بنی اسرائیل۱۵

[19] الاحزاب۶۶

[20] الفرقان۲۸

[21]مسنداحمد۱۸۲۸۹

[22] صحیح بخاری کتاب الاذان بابُ مَنْ جَلَسَ فِی المَسْجِدِ یَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ ۶۶۰ ، صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ فَضْلِ إِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ۲۳۸۰

[23] مسندالبزار۶۹۰۴

[24] طہ۷

[25] لقمان ۲۰

[26] مسنداحمد۲۰۵

[27] سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابٌ فِی الرَّقَبَةِ الْمُؤْمِنَةِ ۳۲۸۴، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ تَحْرِیمِ الْكَلَامِ فِی الصَّلَاةِ، وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ ۱۱۹۹،سنن نسائی كِتَابُ السَّهْوِ باب الْكَلَامُ فِی الصَّلَاةِ۱۲۱۹، مسنداحمد۷۹۰۶

[28] بنی اسرائیل۶۸،۶۹

[29] فاطر۴۵

[30] النحل۷۹

[31] النحل۷۶

[32] المومنون۷۹

[33] الاعراف۱۸۷

[34] (آل عمران۱۰۶)

[35] ص۱۶

[36] المائدة۲۳

[37] المرسلات۲۰

[38] السجدة۸

[39] الانبیاء ۳۰

[40] الملك: 1

[41] مسنداحمد۷۹۷۵،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ ثَوَابِ الْقُرْآنِ۳۷۸۶،سنن ابوداودکتاب شَهْرِ رَمَضَانَ بَابٌ فِی عَدَدِ الْآیِ۱۴۰۰، جامع ترمذی ابْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَةِ الْمُلْكِ۲۸۹۱،السنن الکبری للنسائی۱۱۵۴۸،مستدرک حاکم ۲۰۷۵

[42] المعجم الاوسط للطبرانی۳۶۵۴،الأحادیث المختارة ۱۷۳۸،۱۷۳۹

[43] جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَةِ الْمُلْكِ۲۸۹۲

[44] سیرة الصحابی الجلیل مصعب بن عمیر رضی الله عنه۱۹؍۱

[45] المنتظم فی تاریخ الأمم والملوك۱۹۳؍۳

[46] ابن ہشام۲۶۵؍۱

[47] اسدالغابة۱۷۵؍۵

[48] ابن سعد۸۶؍۳

[49] ابن سعد۸۶؍۳

[50] ابن سعد۸۶؍۳

[51] ابن سعد۸۷؍۳

[52] ابن سعد۸۷؍۳

[53] الأحزاب: 23.

[54] ابن سعد۹۰؍۳

Related Articles