بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة عبس

فلس ونادرلوگ ہی تھے ،مگر ان لوگوں کا حال یہ تھاکہ دین کاعلم سیکھنے اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کسی لمحے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا نہیں چھوڑتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے سرداروں کودعوت حق پہنچاناچاہتے تھے مگروہ اپنے تکبراورہٹ دھرمی اورصداقت سے بے نیازی کی بناپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کوحقارت کے ساتھ ردکررہے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں فطری طور پریہ تمناہروقت سراٹھاتی رہتی تھی کہ کسی طرح قوم کے بااثرلوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں تاکہ ان کااسلام اللہ کے دین کی قوت اوراس کے رسول کی دعوت کی تائیدکاذریعہ بن جائے یاکم ازکم یہ لوگ کمزور اہل ایمان کی اذیت رسانی سے باز آجائیں ، مگر قریشی سرداراپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مفلس ونادار مسلمانوں کے ساتھ بیٹھناپسندنہیں کرتے تھے ،حق وباطل کی کشمکش میں آمدورفت اوران کے ساتھ ملاقاتوں کاسلسلہ ابھی بند نہیں ہواتھااس لئے ان دنوں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی طرف بڑی شدت کے ساتھ متوجہ تھے ، ایک مرتبہ آپ عتبہ بن ربیعہ ، اس کابھائی شیبہ بن ربیعہ، عمرو بن ہشام (ابوجہل)امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ جیسے بدترین دشمن اسلام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اورتنہائی میں انہیں دعوت اسلام پہنچا رہے تھےاوروہ ہمہ تن گوش اسلام کاپیغام سن رہے تھے کہ اسی دوران ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدکے پھوپھی زاد بھائی ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا جن کے والدکانام قیس بن زیداور والدہ کانام عاتکہ بنت عبداللہ تھا مگر اپنی کنیت ام مکتوم کے ساتھ مشہورتھیں کیونکہ عبداللہ پیدائشی طورپرنابیناتھے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق آکر قرآن مجیدکی ایک آیت کا مطلب پوچھنے لگے اورعرض کیا۔

یَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِی مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ

اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے وہ علم سکھائیے جواللہ نے آپ کوسکھایاہے۔[1]

ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کاتعلق قریش سے ہی تھااوریہ غریب یاکم حیثیت آدمی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادرنسبتی تھے، مگران کی اس وقت مداخلت پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کبیدہ خاطرہوئے اوران کی طرف بے اعتنائی برتتے ہوئے بدستور ان قریشی سرداروں کی طرف متوجہ رہےتاکہ ان میں سے ایک شخص بھی ہدایت پالے تواسلام کی تقویت کا بڑاذریعہ بن سکتاہے ،جب محفل برخاست ہوئی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی گھرجانے کاارادہ ہی فرما رہے تھے کہ آپ پرنزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اوراللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی جس میں سرداروں کوتنبیہ کی گئی کہ جونخوت ،ہٹ دھرمی اورصداقت سے بے نیازی کی بناپردین حق کے پیغام پراس لئے توجہ نہ دیتے تھے کہ ہمیشہ کی طرح ابتدائی طورپراسلام کوغریب لوگوں نے قبول کیا ہے ، نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بات کی طرف متوجہ کیا گیاکہ آپ کی یہ فکرکہ قوم کے بااثرافرادکی توجہ سے دین حق کاکام آسان ہوجائےگادرست نہیں گوآپ کی یہ خواہش سراسراخلاق اوردعوت حق کوفروغ دینے کے جذبے پرمبنی ہے کیونکہ تبلیغ دین کااصول یہ ہے کہ جوشخص طلب حق کے جذبے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہووہ بظاہرکیساہی بے اثر،معذور یا کمزور کیوں نہ ہواس کی قدروقیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں دیگرافرادسے کہیں زیادہ ہے ،اسی طرح اصول دعوت کے سلسلے میں فرمایاکہ پیغام حق توسب کوپہنچائیں مگرتوجہ ان افراد پرزیادہ مرکوزرکھیں جوطلب حق کی پیاس لے کرآپ کی خدمت میں حاضرہوتے ہیں ، اور آخر سورت میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل،انسانی ضروریات کی تکمیل میں صرف ہونے والی اشیاء خصوصا ًنباتات،چوپاؤ ں وغیرہ کاذکرکرکے غورو فکر کی دعوت دی ،قیامت کے مناظرکی ہولناکی کابھی ذکرکیاکہ اس روزنفسانفسی کایہ عالم ہوگاکہ آدمی خوفزدہ ہوکر اپنے بھائی ، ماں ، باپ،بیوی اوربیٹوں تک سے دوربھاگے گااور کوئی شخص کسی دوسرے کی ضرورت اس دن پوری نہ کرسکے گا، اس وقت ہرشخص کواپنے اعمال ہی کام دیں گے نیزاس وقت اعمال کے اعتبارسے ہرشخص کے چہرے کے تاثرات عیاں ہوں گے،کچھ چہروں پرکامیابی کی تروتازگی ہو گی اورکچھ چہروں پرناکامی کی ذلت اورتاریکی چھائی ہوگی ، میدان حشرکے سارے لوگ ایک دوسرے کاانجام اس کے چہرے کے تاثرات سے معلوم کریں گے۔ اس کے بعد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ یاعمر بن ام مکتوم سے بہت محبت کرنے لگے،جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملتے توبہت عزت کرتے اوران کاخاص خیال رکھتے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ‎﴿١﴾‏ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا یُدْرِیكَ لَعَلَّهُ یَزَّكَّىٰ ‎﴿٣﴾‏ أَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ ‎﴿٤﴾‏ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ‎﴿٥﴾‏ فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ‎﴿٦﴾‏ وَمَا عَلَیْكَ أَلَّا یَزَّكَّىٰ ‎﴿٧﴾‏ وَأَمَّا مَن جَاءَكَ یَسْعَىٰ ‎﴿٨﴾‏ وَهُوَ یَخْشَىٰ ‎﴿٩﴾‏ فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ‎﴿١٠﴾‏ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ‎﴿١١﴾‏ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ ‎﴿١٢﴾‏ فِی صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ‎﴿١٣﴾‏ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ‎﴿١٤﴾‏ بِأَیْدِی سَفَرَةٍ ‎﴿١٥﴾‏ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ‎﴿١٦﴾ (عبس)
وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا(صرفٖ اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا، تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا یا نصیحت سنتا  اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی، جو بے پروائی کرتا ہے اس کی طرف تو پوری توجہ کرتاہے حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر  کوئی الزام نہیں ،اور جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور وہ ڈر (بھی) رہا ہے تو اس سے بےرخی برتتا ہے،یہ ٹھیک نہیں ،قرآن تو نصیحت( کی چیز) ہے جو چاہے اس سے نصیحت لے ،(یہ تو) پر عظمت آسمانی کتب میں سے (ہے)  جو بلند بالا اور پاک صاف ہے، ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے جو بزرگ اور پاکباز ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرائے میں سیدکونین صلی اللہ علیہ وسلم پرناراضی کااظہارکیاکہ ایک نابیناکے ساتھ آپ کا یہ رویہ آپ کی بلندشان اور اخلاق عالیہ کوزیب نہیں دیتا،دعوت دین کااصل مقصد اللہ کے بندوں چاہے وہ صاحب حیثیت ہوں یابے حیثیت،امیرہوں یاغریب،آقاہویاغلام ،مردہویاعورت،کوئی چھوٹاہویابڑاسب کی یکساں اصلاح ہے ، اس لئے آپ کویہ نہیں دیکھناکہ کون بااثرشخص دین اسلام قبول کرلے تواسلام کی تقویت کاسبب بن سکتاہے اورکس کمزور کاایمان دین کے فروغ میں کچھ زیادہ مفیدنہیں ہے، بلکہ یہ دیکھناچاہیے کہ کون نصیحت کوقبول کرکے برائیوں سے بچنے اوراحکام کی تعمیل کے لئے تیارہے ،آپ مخلصین کوچھوڑکر بااثرمعرضین لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جن کی روش علانیہ یہ بتلارہی ہے کہ وہ راہ ہدایت قبول کرنے کوتیار نہیں ہیں ،اس طرح اس پاکیزہ دعوت کوقبول نہ کرکے وہ اپناہی نقصان کریں گے،آپ کا کام اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے اس کے بعدآپ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے،جیسے فرمایا:

فَذَكِّرْ۝۰ۣۭ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝۲۱ۭلَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ۝۲۲ۙ [2]

ترجمہ:اچھاتو (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) نصیحت کیے جاؤ ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہوکچھ ان پرجبرکرنے والے نہیں ہو۔

ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ اگرکسی کوراہ راست پرلاناچاہے اور کسی کودوررکھناچاہے تواس کی حکمت وہی جانتاہے ، اس لئے غریب سے اعراض اوراصحاب حیثیت کی طرف خصوصی توجہ یہ ٹھیک نہیں ،یہ قرآن توایک نصیحت ہے جوبرائی سے روکتااورراہ راست کی طرف رہنمائی کرتاہے ،جیسے ایک مقام پرفرمایا:

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًا۝۹ۙ [3]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے، جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

جو لوگوں کوظلمتوں سے نکال کرروشنی کی طرف لاتا ہے ،جیسے فرمایا:

یَّهْدِیْ بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِهٖ وَیَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۶ [4]

ترجمہ:اورایک ایسی حق نماکتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔

 الۗرٰ۰ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۝ۥۙ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۝۱ۙ [5]

ترجمہ:ا۔ ل۔ ر، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمودہے۔

هُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۭ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا۝۴۳ [6]

ترجمہ:وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے ، وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے ۔

هُوَالَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِهٖٓ اٰیٰتٍؚبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۭ وَاِنَّ اللهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۹ [7]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہر بان ہے ۔

اب جوچاہے اس نصیحت کو قبول کرے اور صرا ط مستقیم پرگامزن ہو کر جنت کی عظیم اورلازوال نعمتوں کاحقداربن جائےاورجوچاہے اس سے اعراض کرے ،بے رخی برتے اورجہنم کاایندھن بن جائے ،جیسے فرمایا:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَكْفُرْ۝۰ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا۝۰ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۝۲۹ [8]

ترجمہ: صاف کہہ دوکہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے،اب جس کاجی چاہے مان لے اورجس کاجی چاہے انکارکردے ہم نے (انکارکرنے والے)ظالموں کے لیے ایک آگ تیارکررکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں ۔

یہ قرآن جس میں حق کی تعلیم دی گئی ہے ایسے صحیفوں میں درج ہے جو قدرومنزلت میں بلند،تمام آفات سے سلامت اور ہرقسم کے انسانی تخیلات اورشیطانی وساوس کی آمیزش سے پاک ہے،اوریہ صحیفے خلق کے اعتبار سے بہت زیادہ خیروبرکت والے اورافعال کے اعتبارسے نیکوکاروپاکباز فرشتوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں ۔جیسے فرمایا

اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ۝۷۷ۙفِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝۷۸ۙلَّا یَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۝۷۹ۭ [9]

ترجمہ:یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے ایک محفوظ کتاب میں ثبت جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَثَلُ الَّذِی یَقْرَأُ القُرْآنَ، وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الكِرَامِ البَرَرَةِ، وَمَثَلُ الَّذِی یَقْرَأُ، وَهُوَ یَتَعَاهَدُهُ، وَهُوَ عَلَیْهِ شَدِیدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو اس شخص کی مثال جوقرآن پڑھتاہے اوروہ اس کاحافظ بھی ہے،مکرم اورنیک لکھنے والے(فرشتوں )جیسی ہے،اورجوشخص قرآن باربارپڑھتاہے اورپھربھی وہ اس کے لئے دشوارہے(یعنی سہولت اورروانی سے نہیں پڑھتا) تواسے دوگنا ثواب ملے گا۔[10]

قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ‎﴿١٧﴾‏ مِنْ أَیِّ شَیْءٍ خَلَقَهُ ‎﴿١٨﴾‏ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ‎﴿١٩﴾‏ ثُمَّ السَّبِیلَ یَسَّرَهُ ‎﴿٢٠﴾‏ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ‎﴿٢١﴾‏ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ‎﴿٢٢﴾‏ كَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَا أَمَرَهُ ‎﴿٢٣﴾‏ فَلْیَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ‎﴿٢٤﴾‏ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ‎﴿٢٥﴾‏ ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا ‎﴿٢٦﴾‏ فَأَنبَتْنَا فِیهَا حَبًّا ‎﴿٢٧﴾‏ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ‎﴿٢٨﴾‏ وَزَیْتُونًا وَنَخْلًا ‎﴿٢٩﴾‏ وَحَدَائِقَ غُلْبًا ‎﴿٣٠﴾‏ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ‎﴿٣١﴾‏ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ‎﴿٣٢﴾(عبس)
اللہ کی مار انسان پر کیسا ناشکرا ہے، اسے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا(اسے) ایک نطفہ سے،  پھر اندازہ پر رکھا اس کو،پھر اس کے لیے راستہ آسان کیا، پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا پھر جب چاہے گا اسے زندہ کر دے گا، ہرگز نہیں ! اب تک اللہ کے حکم کی بجا آوری نہیں کی، انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے کو دیکھے  کہ ہم نے خوب پانی برسایا، پھر پھاڑا زمین کو اچھی طرح، پھر اس میں اناج اگائے اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجور اور گنجان باغات اور میوہ اور (گھاس) چارہ (بھی اگایا)، تمہارے استعمال و فائدہ کے لیے اور تمہارے چوپایوں کے لئے۔

انسان ہلاک ہوجائے کس قدرناشکراہے جواپنے محسن کے احسانات کی ناشکری کرتا اوراپنے خالق ورازق اورمالک کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیارکرتاہے ،جوحق کے واضح ہوجانے کے بعدبھی اس کے ساتھ شدیدعنادرکھتاہے اوربغیرکسی سنداوردلیل کے قیامت کی تکذیب کرتاہے ،انسان کوغوروفکرکی دعوت فرمائی کہ انسان ذرا اپنی حقیقت پر غور تو کرے کہ وہ کس چیزسے وجودمیں آیاہے ،اللہ نے اسے ماں اورباپ کے مخلوط غلیظ بدبودار پانی کی ایک بوندسے بہترین ساخت پرپیدافرمایا ہے،جیسے فرمایا:

فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ۝۵ۭخُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۝۶ۙیَّخْرُجُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۝۷ۭ [11]

ترجمہ:پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ۔۔۔۝۲ [12]

ترجمہ:ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔

اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے رزق کابندوبست فرمایا،بچپن کی ناتوانی سے اسے تنومندکیا،جیسے فرمایا:

نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهُمْ۔۔۔۝۲۸ [13]

ترجمہ:ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں ۔

مگروہ تکبرکرتاہے اورحیات بعدالموت اوراعمال کی جزاوسزا کوتسلیم نہیں کرتا جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ [14]

ترجمہ: کیا انسان دیکھتانہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اورپھروہ صریح جھگڑالوبن کرکھڑا ہو گیا؟اب وہ ہم پرمثالیں چسپاں کرتاہے اوراپنی پیدائش کوبھول جاتاہے ، کہتاہے کون ان ہڈیوں کوزندہ کرے گاجب کہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں ۔

حالانکہ اللہ نے ماں کے پیٹ میں ہی اس کی تقدیرمقررکردی ہے کہ وہ لڑکا ہوگا یا لڑکی ، اس کی کیاصلاحیتیں ہوں گی ،وہ دنیاکی زندگی میں کیا کرداراداکرے گا،اسے کتناعرصہ دنیامیں رہناہوگا،جو تقدیر مقرر کردی گئی ہے اس میں وہ ذرہ برابر ردوبدل نہیں کر سکتا ، پھر دنیامیں آنے کے بعداللہ نے اسے تمام اسباب ووسائل فراہم کیے جن سے وہ کام لے سکے ،اوراللہ نے اس پر خیرو شردونوں راستے کھول دیے تاکہ وہ اپنے لئے شکر و اطاعت یاکفروعصیان کی جوراہ چاہے اختیارکرلے ، جیسے فرمایا:

اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۝۳ [15]

ترجمہ:ہم نے اسے راستہ دکھادیاخواہ شکر کرنے والابنے یاکفرکرنے والا۔

پھر وقت مقررہ پراسے موت دی اور قبر میں پہنچایاتاکہ اس کااحترام برقراررہے ،اور پھرجب اللہ چاہے گااسے زندہ کر کے اعمال کی جوابدہی کے لئے اپنی بارگاہ میں کھڑا کر دے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ: أَرْبَعُونَ یَوْمًا؟ قَالَ: أَبَیْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ شَهْرًا؟ قَالَ: أَبَیْتُ، قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً؟ قَالَ: أَبَیْتُ، قَالَ:ثُمَّ یُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیَنْبُتُونَ كَمَا یَنْبُتُ البَقْلُ، لَیْسَ مِنَ الإِنْسَانِ شَیْءٌ إِلَّا یَبْلَى، إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ، وَمِنْهُ یُرَكَّبُ الخَلْقُ یَوْمَ القِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ساتھیوں نے پوچھا کیا اس سے چالیس دن مراد ہیں ؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انکار کیا،لوگوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہے؟انہوں نے انکار کیا،پھر پوچھا کیا چالیس سال؟ انہوں نے انکار کیا، فرمایاپھراللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گاجس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں گے جیسے سبزیاں پانی سے اگ آتی ہیں ،اس وقت انسان کاہرحصہ گل چکاہوگاسواریڑھ کی ہڈی کے اوراس سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔[16]

ان حقائق کی بنا پر اس کافرض تویہ تھاکہ اپنے خالق کے گن گاتا،اس کے احکام کی اطاعت کرتااور مخلوق ہونے کا تقاضاپورا کرتا مگراس نے نافرمانی کی روش اختیارکی ،پھر انسان اپنی خوراک پر غوروفکرکرے کہ اللہ نے کس طرح مختلف اسباب مہیاکرکے متعدد مراحل میں سے گزرنے کے بعد انہیں پیداکیاہے ، اللہ نے رزق رسانی کے لئے مختلف اسباب مہیاکرکے سمندروں سے پانی اٹھایااورپھر مختلف علاقوں کے لئے خاص حساب سے آسمان سے بارش برسائی ، پھرانسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے بیج، گھٹلیوں اورنباتات کی پنیریوں کوزمین میں مناسب حال غذابہم پہنچا کر نشوو نما دی اوران کی نازک کونپلوں کوزمین سے پھاڑکر باہر نکالا ،اور مختلف اجناس،انگور،طرح طرح کی ترکاریاں ، زیتون،کھجوریں اور انواع و اقسام کے پھل مثلاًانجیر،آڑواوراناروغیرہ اور چوپاؤ ں کے لئے مختلف چارے اگائے۔

 فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ‎﴿٣٣﴾‏ یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیهِ ‎﴿٣٤﴾‏ وَأُمِّهِ وَأَبِیهِ ‎﴿٣٥﴾‏ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِیهِ ‎﴿٣٦﴾‏ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیهِ ‎﴿٣٧﴾‏ وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ ‎﴿٣٨﴾‏ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ ‎﴿٣٩﴾‏ وَوُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ ‎﴿٤٠﴾‏ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ‎﴿٤١﴾‏ أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ‎﴿٤٢﴾‏ (عبس)
پس جب کان بہرے کردینے والی (قیامت) آجائے گی، اس دن آدمی اپنے بھائی سےاور اپنی ماں اور اپنے باپ سے،اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا، ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لیے کافی ہوگی، اس دن بہت سے چہرے روشن ہونگے، (جو) ہنستے ہوئے اور ہشاش بشاش ہوں گے اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہونگے جن پر سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی، وہ یہی کافر بدکردار لوگ ہوں گے ۔

قیامت کی ہولناکی کاذکرفرمایاکہ جب اللہ کے حکم سے ایک مقررہ وقت پر کانوں کوبہراکردینے والی چیخ بلندہوگی ،یعنی نفخ صورکی قیامت خیزآوازبلندہوگی ،جس کے ساتھ ہی سب اولین وآخرین لوگ اپنی قبروں سے نکل کرمیدان محشرمیں جمع ہوجائیں گے ،جیسے فرمایا

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۝۴۹ۙلَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰ [17]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں گے ؟اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں ؟اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں سے کہو یقینا اگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے۔

وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۵ۚۖءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۱۶ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۱۷ۭقُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ۝۱۸ۚفَاِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ فَاِذَا هُمْ یَنْظُرُوْنَ۝۱۹ [18]

ترجمہ:اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے ،بھلا کہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں ؟اور کیا ہمارے اگلے وقتوں کے آبا و اجداد بھی اٹھائے جائیں گے ؟ان سے کہو ہاں ، اور تم (اللہ کے مقابلے میں ) بےبس ہو،بس ایک ہی جھڑکی ہوگی اور یکایک یہ اپنی آنکھوں سے (وہ سب کچھ جس کی خبر دی جا رہی ہے ) دیکھ رہے ہوں گے۔

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ یَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ؟قَالَ:یَا عَائِشَةُ، إِنَّ الْأَمْرَ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یُهِمَّهُمْ ذَلِكَ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب لوگ میدان محشرمیں ننگے بدن،ننگے پیر،پیدل اورغیرمختون ہوں گے،ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !توکیامردوعورتیں ایک دوسرے کودیکھتے ہوں گے؟ آپ نے فرمایااے عائشہ!اس وقت معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا(یعنی قیامت کی ایسی دہشت غالب ہوگی کہ ہوش وحواس جواب دے جائیں گے)اس کاخیال بھی کوئی نہیں کرسکے گا۔[19]

آج تم لوگ اللہ سے بے خوف اورآخرت سے غافل ہوکر اپنے خاندان ، برادری اوربیوی بچوں کی محبت یا خوف یامالی منفعت کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے مگر روزقیامت نفسانفسی کایہ عالم ہوگاکہ آدمی اپنے بھائی ،اپنی ماں ،اپنے باپ ، اپنی بیوی اور اپنی اولادکومصیبت میں مبتلادیکھ کرمددکرنے کے بجائے ان سے دور بھاگے گا،اوران میں سے ہرایک کو ایسی فکردامن گیر ہو گی جواسے اپنے سواتمام اقربااوراحباب سے بے نیازاوربے پرواہ کردے گی،جیسے ایک مقام پرفرمایا:

وَلَا یَسْـَٔــلُ حَمِیْمٌ حَمِـیْمًا۝۱۰ۚۖیُّبَصَّرُوْنَهُمْ۝۰ۭ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍؚبِبَنِیْهِ۝۱۱ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِیْهِ۝۱۲ۙوَفَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُـــــْٔـوِیْهِ۝۱۳ۙوَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ ثُمَّ یُنْجِیْهِ۝۱۴ۙ [20]

ترجمہ:اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گاحالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے، مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کواپنی بیوی کواپنے بھائی کو اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھااور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے۔

اس وقت اعمال کے اعتبارسے ہرشخص کے چہرے کی تاثرات عیاں ہوں گے اورمیدان حشرکے سارے لوگ ایک دوسرے کاانجام اس کے چہرے کے تاثرات سے معلوم کریں گے ،چنانچہ فرمایا محشرکے دن لوگ دوگرہوں میں تقسیم ہوں گے ،خوش بختوں کاگروہ اوربدبختوں کاگروہ ،خوش بختوں (متقین) کوان کے نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں تھمائے جائیں گے جس سے انہیں اپنی اخروی سعادت وکامیابی اورنعمتوں سے فیض یاب ہونے کایقین ہوجائے گا، ان سے دیدار الٰہی کاوعدہ پوراہونے والاہوگاجس سے ان کے دل ہشاش بشاش ہوجائیں گے اور ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے ہوں گے ،جیسے فرمایا:

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ۝۲۲ۙعَلَی الْاَرَاۗىِٕكِ یَنْظُرُوْنَ۝۲۳ۙتَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیْمِ۝۲۴ۚ [21]

ترجمہ:بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے،اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے،ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝۲۲ۙ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۝۲۳ۚ [22]

ترجمہ:اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہونگے،اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

اوروہ لوگ جو اللہ کا ، رسولوں کااورقیامت کا انکارکرنے والے تھے اوراس کے ساتھ بدکردار وبداطوار بھی تھے وہ ہربھلائی سے مایوس ہوں گے ،اپنانامہ اعمال پڑھ کرانہیں اپنی بدبختی اورہلاکت کاعلم ہوگیاہوگا،جس سے ان کے چہروں پرذلت چھارہی ہوگی ،سامنے غیض وغضب سے پھٹتی جہنم کو دیکھ کر اورعذاب کے خوف وغم وحزن سے ان کے چہرے غبارآمود،کدورت زدہ اورسیاہ ہوں گےجیسے فرمایا

وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَةٌ۝۲۴ۙتَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ۝۲۵ۭ [23]

ترجمہ:اور کچھ چہرے اداس ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔

اس تین سالہ دعوت کے زریعہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورمخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی انتھک کوششوں سے قریش کے بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا ً ۳۷ افراد ایمان کی دولت سے بہریاب ہوئے ۔

[1] تفسیر طبری۲۱۸؍۲۴،تفسیرابن ابی حاتم محققا۱۹۱۲۵، ۳۳۹۹؍۱۰،تفسیرالقرطبی ۲۱۲؍۱۹

[2] الغاشیة۲۱،۲۲

[3] بنی اسرائیل۹

[4] المائدة۱۶

[5] ابراہیم۱

[6] الاحزاب۴۳

[7] الحدید۹

[8] الکہف۲۹

[9] الواقعة۷۷تا۷۹

[10] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة عبس۴۹۳۷،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ فَضْلِ الْمَاهِرِ فِی الْقُرْآنِ، وَالَّذِی یَتَتَعْتَعُ فِیهِ ۱۸۶۲، مسند احمد ۲۴۷۸۸،صحیح ابن حبان ۷۶۷

[11] الطارق۵تا۷

[12] الدھر۲

[13] الدھر۲۸

[14] یٰسین۷۷،۷۸

[15] الدھر۳

[16] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة عم یتساء لون ۴۹۳۵ ،صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ۷۴۱۴،السنن الکبری للنسائی ۱۱۳۹۵،شرح السنة للبغوی ۴۳۰۰

[17] الواقعة۴۷تا۵۰

[18] الصافات۱۵تا۱۹

[19] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ كَیْفَ الحَشْرُ ۶۵۲۷،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ عَبَسَ ۳۳۳۲،سنن نسائی کتاب الجنائزباب الْبَعْثُ۲۰۸۵،مسنداحمد۲۴۲۶۵،مستدرک حاکم ۲۹۹۵

[20] المعارج۱۰تا۱۴

[21] المطففین۲۲تا۲۴

[22] القیامة۲۲،۲۳

[23] القیامة۲۴،۲۵

Related Articles