بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة التکاثر (حصہ دوم)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ ‎﴿٦﴾‏ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِینِ ‎﴿٧﴾(التکاثر)
تو بیشک تم جہنم دیکھ لو گےاور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔

سب لوگ ننگے پاؤ ں ،برہنہ جسم اورغیرمختون حالت میں قبروں سے باہرنکل آئیں گے،

وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ۔۔۔[1]

ترجمہ:(اور اللہ فرمائے گا) لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔

اور بغیرکسی پس وپیش اللہ مالک یوم الدین کے دربارمیں پیش ہوجائیں گے ،

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ یَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ؟ فَقَالَ: الأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یُهِمَّهُمْ ذَاكِ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ننگے پاؤ ں ،برہنہ جسم اورغیرمختون اٹھائے جاؤ گے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پرمیں نے پوچھا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !توکیامرداورعورتیں ایک دوسرے کودیکھتے ہوں گے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا !اس وقت معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگا (سب پر قیامت کی ایسی دہشت غالب ہوگی) کہ اس کاخیال بھی کوئی نہیں کرسکے گا۔[2]

میدان محشرکی زمین کیسی ہوگی ۔

سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ القِیَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ، كَقُرْصَةِ نَقِیٍّ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان محشر کی زمین کی کیفیت کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایاقیامت کے دن لوگوں کاحشرسفیدوسرخی مائل زمین پرہوگا جیسے میدہ کی روٹی صاف وسفیدہوتی ہے ، اس زمین پرکسی(چیز)کانشان نہ ہوگا۔[3]

فرشتے اللہ کے حکم سے لوگوں کے ہاتھوں میں نامہ اعمال تھمادیں گے ،اس وقت جنت کوخوب سنوارکراور جہنم کوخوب دہکاکرمیدان محشرمیں لایاجائے گااورسب خلقت غیض وغضب سے پھٹتی جہنم کواپنی انہی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، میدان محشرمیں اللہ رب العزت کے رعب وجلال سے لوگوں کی زبانیں کنگ اورخوف سے جسموں پر کپکپی طاری ہو گی،اعمال کا وزن کرنے کے لئے میدان محشرمیں تراوزعدل قائم کردیا جائے گاجیسے فرمایا

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۔۔۔۝۴۷ [4]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا۔

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [5]

ترجمہ: اور وزن اس روزعین حق ہوگاجن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے اورجن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کوخسارے میں مبتلاکرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے ۔

اللہ تعالیٰ بغیرکسی مترجم کے خودبات فرمائے گا۔

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَیُكَلِّمُهُ رَبُّهُ، لَیْسَ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ تُرْجُمَانٌ، وَلاَ حِجَابٌ یَحْجُبُهُ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے کوئی ایسانہیں ہوگاجس سے اس کارب کلام نہ کرے،اس کے اوربندے کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگااورنہ کوئی حجاب ہوگاجواسے چھپائے رکھے۔[6]

عَنْ جَرِیرٍ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَیْلَةَ البَدْرِ قَالَ:إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُونَ فِی رُؤْیَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَصَلاَةٍ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَافْعَلُوا

جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندکی طرف دیکھا،چودھویں رات کاچاندتھااورفرمایاتم لوگ اپنے رب کواسی طرح دیکھوگے جس طرح اس چاندکودیکھ رہے ہواوراس کے دیکھنے میں کوئی دھکا پیل نہیں ہوگی ،پس اگرتمہیں اس کی طاقت ہو کہ سورج طلوع ہونے کے پہلے اور سورج غروب ہونے کے پہلے کی نمازوں میں سستی نہ ہوایساکرلو۔[7]

x اس پس منظر میں عدالت کی کاروائی شروع ہوجائے گی،اعمال کے وزن کے لئے میدان محشرمیں میزان عدل قائم کردیاجائے گا:

اللہ تعالیٰ نے متعددمقامات پرفرمایا

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [8]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ۝۶ۙفَهُوَفِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ۝۷ۭوَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ۝۸ۙفَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ۝۹ۭوَمَآ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْ۝۱۰ۭنَارٌ حَامِیَةٌ۝۱۱ۧ [9]

ترجمہ: پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گےوہ دل پسند عیش میں ہو گااور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گےاس کی جائے قرار گہری کھائی ہو گی،اور تمہیں کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟بھڑکتی ہوئی آگ۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا۝۱۰۵ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰیٰتِیْ وَرُسُلِیْ هُزُوًا۝۱۰۶ [10]

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے،ان کی جزا جہنم ہے اس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔

اس وقت نفسانفسی کاعالم ہوگاہرانسان شدیدخوف وگھبراہٹ کا شکار ہو گا کہ اس کے ساتھ کیاہونے والاہے ۔

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا ذَكَرَتِ النَّارَ فَبَكَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا یُبْكِیكِ؟ قَالَتْ: ذَكَرْتُ النَّارَ فَبَكَیْتُ، فَهَلْ تَذْكُرُونَ أَهْلِیكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا فِی ثَلَاثَةِ مَوَاطِنَ فَلَا یَذْكُرُ أَحَدٌ أَحَدًا: عِنْدَ الْمِیزَانِ حَتَّى یَعْلَمَ أَیَخِفُّ مِیزَانُهُ أَوْ یَثْقُلُ، وَعِنْدَ الْكِتَابِ حِینَ یُقَالُ {هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِیَهْ} حَتَّى یَعْلَمَ أَیْنَ یَقَعُ كِتَابُهُ أَفِی یَمِینِهِ أَمْ فِی شِمَالِهِ أَمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ، وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَیْنَ ظَهْرَیْ جَهَنَّمَ

ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےانہوں نے جہنم کاذکرکیااور رونے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتجھے کس چیزنے رلایاہے؟ کہنے لگیں مجھے جہنم کی آگ یادآئی تو بے ساختہ روناآگیاپھرانہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ قیامت کے دن اپنے گھروالوں کویادرکھیں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن تین مقامات ایسے ہوں گے جہاں کوئی کسی کویادنہیں کرے گا، ترازوکے پاس حتی کہ اسے پتاچل جائے کہ اس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکاہوا یابھاری اورنامہ اعمال کی تقسیم کے وقت،جب کہاجائے گا لوگو ! آؤ میرانامہ اعمال پڑھوحتی کہ جان لے کہ اس کااعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں تھمایاجاتاہے،یابائیں میں یاکمرکے پیچھے سے،اوراور(تیسرامقام)پل صراط ہے جب اسے جہنم پرعین وسط میں ٹکایاجائے گا۔[11]

بھائیو!اللہ کاقانون جزاوسزااتنامستحکم اورہمہ گیرہے کہ ابراہیم خلیل اللہ جیسے جلیل القدرپیغمبراپنے باپ کوبھی عذاب الٰہی سے بچانہیں سکیں گے توکسی دوسرے پیر،فقیریانبی ولی کی کیامجال ہے کہ وہ روزقیامت کسی کی نجات کادم بھرے ۔

بعض سعادت مند ایسے بھی ہوں گے جنہیں بغیرحساب ہی معاف کردیاجائے گا ۔

حَدَّثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عُرِضَتْ عَلَیَّ الأُمَمُ، فَأَخَذَ النَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ الأُمَّةُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ العَشَرَةُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ مَعَهُ الخَمْسَةُ، وَالنَّبِیُّ یَمُرُّ وَحْدَهُ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ كَثِیرٌ، قُلْتُ: یَا جِبْرِیلُ، هَؤُلاَءِ أُمَّتِی؟ قَالَ: لاَ، وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ كَثِیرٌ، قَالَ: هَؤُلاَءِ أُمَّتُكَ، وَهَؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا قُدَّامَهُمْ لاَ حِسَابَ عَلَیْهِمْ وَلاَ عَذَابَ، قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَ: كَانُوا لاَ یَكْتَوُونَ، وَلاَ یَسْتَرْقُونَ، وَلاَ یَتَطَیَّرُونَ ، وَعَلَى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُونَ “ فَقَامَ إِلَیْهِ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْهُمْ، قَالَ:اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ إِلَیْهِ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْهُمْ، قَالَ:سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں ،کسی نبی کے ساتھ پوری امت گزری ،کسی نبی کے ساتھ چندآدمی گزرے،کسی نبی کے ساتھ دس آدمی گزرے ،کسی نبی کے ساتھ پانچ آدمی گزرے ،اورکوئی نبی تنہاگزراپھرمیں نے دیکھاتوانسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت دورسے نظرآئی ، میں نےجبریلؑ سے پوچھاکیایہ میری امت ہے؟انہوں نے جواب دیاکہ نہیں ،بلکہ آپ افق کے اس طرف دیکھیں ،میں نے دیکھا توایک بہت زبردست جماعت دکھائی دی جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ آپ کی امت ہے اوریہ جوآگے آگے ستر ہزار افرادکی تعداد ہے ان لوگوں سے نہ حساب لیاجائے گااورنہ ان پرعذاب ہوگامیں نے پوچھا ایساکیوں ہوگا ؟ انہوں نے جواب دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے جسموں پرداغ نہیں لگواتے،فدم جھاڑنہیں کرواتے تھے،شگون نہیں لیتے تھے اوراپنے رب پربھروسہ کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ عظیم خوشخبری سن کرعکاشہ رضی اللہ عنہ بن محصن اٹھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرمادے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ! انہیں بھی ان میں شامل فرما،اس کے بعدایک اورصحابی کھڑے ہوئے اورعرض کیا میرے لئے بھی دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں شامل کردے،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ عکاشہ رضی اللہ عنہ اس میں تم سے سبقت لے گئے ہیں ۔[12]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب ستر ہزارخوش نصیبوں کے بغیر حساب جنت میں داخل ہونے کی عظیم بشارت سنی تو صحابہ کرام کوتشوش اورفکرمندی ہوئی کہ وہ خوش قسمت کون لوگ ہوں گے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب صحابہ کرام کی فکرمندی کاعلم ہواتوآپ مسلسل تین دن تک اللہ کی بارگاہ میں اس تعدادمیں اضافہ کے لئے دعائیں فرماتے رہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاکوشرف قبولیت بخشا اوراس تعدادمیں اضافہ کردیا ،

عن عمرو بن حزم الأنصاری رضى الله تعالى عنه قال: احتبس عنارَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثلاثا لایخرج إلا إلى صلاة مكتوبة ثم یرجع ، فلما كان الیوم الرابع خرج إلینا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقلنا: یا رسول الله احتبست عنا حتى ظننا أنه حدث حدث، قال: لم یحدث الأخیر إن ربی وعدنی أن یدخل من أمتی الجنة سَبْعُونَ أَلْفًا لا حساب وإنی سألت ربی فی هذه الثلاث أیام المزید فوجدت ربی ماجدا كریما فأعطانی مع كُل وَاحِدٍ سَبْعِینَ أَلْفًا

عمروبن حزم انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتین دن تک یہ معمول رہاکہ آپ صرف فرض نمازوں کے لئے مسجدمیں تشریف لاتے اورباقی وقت خلوت نشین رہتے اورکسی سے کوئی گفتگویاملاقات نہ فرماتے اس صورت حال سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتشویش ہوئی، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ خدشہ ظاہر کیاکہ کوئی بڑا حادثہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہیں لیکن کسی کوپوچھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی، جب چوتھادن ہواتوآپ حجرہ سے باہرتشریف لائے تو صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہم سے (تین دن ) الگ تھلگ رہے یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ لاحق ہواکہ کوئی حادثہ رونماہوگیاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابڑاہی خوش کن واقعہ پیش آیاہے اوروہ یہ ہے کہ میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایاتھاکہ میری امت میں سے سترہزار افراد کوبغیرحساب جنت میں داخل فرمائے گا (جبکہ میری امت کی کثرت کے اعتبارسے یہ تعداد بہت کم تھی) لہذامیں ان تین دنوں میں اپنے رب سے اس تعدادمیں مزید اضافے کاسوال اوردعا کرتا رہا تومیں نے اپنے رب کوبڑاکریم پایا ہےاس نے مجھے ان ستر ہزار میں سے ہرایک کے ساتھ ستر ہزارعطافرمادیاہے یعنی ان سترہزارمیں سے ہرایک کے ساتھ میر ا ستر ہزار امتی بغیرحساب جنت میں جائے گا ۔[13]

بعض خوش نصیبوں سے ہلکاحساب لیا جائے گا۔

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ المَازِنِیِّ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا أَمْشِی، مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا آخِذٌ بِیَدِهِ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: كَیْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی النَّجْوَى؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: “ إِنَّ اللَّهَ یُدْنِی المُؤْمِنَ، فَیَضَعُ عَلَیْهِ كَنَفَهُ وَیَسْتُرُهُ، فَیَقُولُ: أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ أَیْ رَبِّ، حَتَّى إِذَا قَرَّرَهُ بِذُنُوبِهِ، وَرَأَى فِی نَفْسِهِ أَنَّهُ هَلَكَ، قَالَ: سَتَرْتُهَا عَلَیْكَ فِی الدُّنْیَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الیَوْمَ، فَیُعْطَى كِتَابَ حَسَنَاتِهِ

صفوان بن محرز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ایک آدمی آ کر کہنے لگا کہ قیامت کے دن جو سرگوشی ہو گی اس کے متعلق آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندہ مومن کو اپنے قریب کرے گا اور اس پر اپنی چادر ڈال کر اسے لوگوں کی نگاہوں سے مستور کر لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا،اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یادہے ؟کیافلاں گناہ تجھ کو یادہے ؟وہ مومن کہے گا ہاں ،اے میرے پروردگار! جب وہ اپنے سارے گناہوں کا اقرار کر چکے گا اور اپنے دل میں یہ سوچ لے گا کہ اب تو وہ ہلاک ہو گیاتواللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھا اورآج بھی میں تیری مغفرت کرتاہوں چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی۔[14]

بعض گناہ گاروں کوکلمہ شہادت کے وزن پرمعاف کردیاجائے گا۔

عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العَاصِ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ سَیُخَلِّصُ رَجُلاً مِنْ أُمَّتِی عَلَى رُءُوسِ الخَلاَئِقِ یَوْمَ القِیَامَةِ فَیَنْشُرُ عَلَیْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِینَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ البَصَرِ، ثُمَّ یَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَیْئًا؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِی الحَافِظُونَ؟ فَیَقُولُ: لاَ یَا رَبِّ، فَیَقُولُ: أَفَلَكَ عُذْرٌ؟فَیَقُولُ: لاَ یَا رَبِّ، فَیَقُولُ: بَلَى إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، فَإِنَّهُ لاَ ظُلْمَ عَلَیْكَ الیَوْمَ، فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِیهَا: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَیَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ مَا هَذِهِ البِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلاَّتِ، فَقَالَ: إِنَّكَ لاَ تُظْلَمُ، قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلاَّتُ فِی كَفَّةٍ وَالبِطَاقَةُ فِی كَفَّةٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلاَّتُ وَثَقُلَتِ البِطَاقَةُ، فَلاَ یَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَیْءٌ.

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا ایک گنہگاربارگاہ الٰہی میں پیش کیا جائے گا اس کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے رجسٹرپھیلادیے جائیں گے اور ہررجسٹر اتناطویل وعریض ہوگاکہ جہاں تک اس مجرم کی نظرجائے گی رب العالمین فرمائے گاکیاتم اپنے گناہوں میں سے کسی کاانکارکرتے ہو؟میرے کاتبوں ،حفاظت کرنے والوں نے کوئی تجھ پرکوئی ظلم کیاہے؟وہ عرض کرے گانہیں اے میرے رب !اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیاتم کوئی عذرپیش کرناچاہتے ہو؟وہ عرض کرے گانہیں اے میرے رب!اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہاری ایک نیکی ہمارے پاس محفوظ ہے اور تجھ پرذرہ برابرظلم نہیں کیا جائے گا،اللہ تعالیٰ ایک پرچی نکالے گااس پرلکھاہوگا اشھدان لاالٰہ الااللہ واشھدان محمدعبدہ ورسولہ( میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی الٰہ نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں محمداللہ کے بندے اوررسول ہیں )پھرفرمائے گااپنے اعمال کووزن کرنے کے لئے جاؤ ،وہ عرض کرے گاکہ اے میرے رب ! ان رجسڑوں کے مقابلہ میں میری اس پرچی کاکیاوزن ہوگا ،اللہ تعالیٰ فرمائے گاتجھ پرظلم نہیں کیاجائے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاپھرگناہوں کے وہ رجسٹرمیزان کےایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اوروہ پرچی دوسرےپلڑےمیں رکھ دی جائے گی پس وہ گناہوں کے وہ سارے رجسٹرہلکے ہوجائیں گے اوروہ پرچی بھاری ہوجائے گی،اورکوئی اللہ تعالیٰ کے نام مبارک کے آگے کوئی چیزبرابرنہیں ہوسکتی۔ [15]

مگرکافر،مشرک اورنافرمان لوگ اپنے نامہ اعمال کوپڑھ کراپنے اعمال سے انکار کر دیں گے تواللہ تعالیٰ ان کے منہ پرمہرلگادے گا اوران کے اعضاکوقوت گویائی عطافرما کر گواہی کاحکم دے گے،جیسے فرمایا

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَیْدِیْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۶۵ [16]

ترجمہ:آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اوران کے پاؤ ں گواہی دیں گے کہ یہ دنیامیں کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔

وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللهِ اِلَى النَّارِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ۝۱۹حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَّهُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۱وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۲وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳ [17]

ترجمہ:اورذرااس وقت کاخیال کروجب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف گھیرلائے جائیں گے ،ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھاجائے گاپھرجب سب وہاں پہنچ جائیں گے توان کے کان اوران کی آنکھیں اوران کے جسم کی کھالیں ان پرگواہی دیں گی کہ وہ دنیامیں کیا کچھ کرتے رہے ہیں ،وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟وہ جواب دیں گے ہمیں اسی اللہ نے گویائی دی ہے جس نے ہرچیزکو گویا کر دیاہے اسی نے تم کوپہلی مرتبہ پیداکیاتھااوراب اسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو،تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے توتمہیں یہ خیال نہ تھاکہ کبھی تمہارے اپنے کان اورتمہاری آنکھیں اورتمہارے جسم کی کھالیں تم پرگواہی دیں گےبلکہ تم نے تویہ سمجھاتھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبرنہیں ہے،تمہارایہی گمان جوتم نے اپنے رب کے ساتھ کیاتھاتمہیں لے ڈوبااوراسی کی بدولت تم خسارے میں پڑگئے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ، فَقَالَ:هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ؟ قَالَ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ، یَقُولُ: یَا رَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِی مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ: یَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَیَقُولُ: فَإِنِّی لَا أُجِیزُ عَلَى نَفْسِی إِلَّا شَاهِدًا مِنِّی، قَالَ: فَیَقُولُ: كَفَى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ شَهِیدًا، وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِینَ شُهُودًا، قَالَ: فَیُخْتَمُ عَلَى فِیهِ، فَیُقَالُ لِأَرْكَانِهِ: انْطِقِی، قَالَ: فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ یُخَلَّى بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْكَلَامِ، قَالَ فَیَقُولُ: بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا، فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیاتم جانتے ہو میں کس واسطے ہنستا ہوں ؟ہم نے عرض کیااللہ اوراس کارسول ہی خوب جانتے ہیں ، سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں بندے کی اس گفتگوپرہنساہوں جووہ اپنے پروردگارسے کرے گابندہ کہے گااے میرے پروردگار! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے؟ (یعنی تونے وعدہ کیاہے کہ ظلم نہ کروں گا) اللہ تعالیٰ فرمائے گاہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر بندہ کہے گاکہ میں اپنے اوپر اپنی ذات کے سواکسی کی گواہی کوجائزاورصحیح نہیں سمجھتا(یعنی میں اپنے نامہ اعمال میں درج برائیوں کوصحیح تسلیم نہیں کرتا)پروردگار فرمائےگااچھا آج کے دن تیری ذات کی گواہی اورکراما ًکاتبین کی گواہی ہی کافی ہے، پھرسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر اس بندے کے منہ پرمہرلگ جائے گی اوراس کے جسمانی اعضاکوبولنے کاحکم دیاجائے گااوروہ اس کے سارے اعمال کی گواہی دیں گے،پھربندے کوبات کرنے کی اجازت دی جائے گی، بندہ اپنے جسم کے اعضاسے کہے گاچلو دورہوجاؤ ،اللہ کی مارتم پرمیں توتمہاری وجہ سے جھگڑاکررہاتھا۔[18]

x اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم وکرم سے ہربستی میں نبی اوررسول مبعوث فرمائے، انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے بعض پرکتابیں نازل فرمائیں تاکہ انسان طاغوت کی بندگی چھوڑکراپنے رب کی طرف پلٹ آئے،مگرمیدان محشرمیں جس طرح مجرم اپنے گناہوں سے انکارکریں گے اسی طرح بعض رسولوں کے امتی اپنے رسول کاہی انکارکریں گے اور انہیں پہچاننے سے ہی انکارکردیں گے۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُدْعَى نُوحٌ یَوْمَ القِیَامَةِ، فَیَقُولُ: لَبَّیْكَ وَسَعْدَیْكَ یَا رَبِّ، فَیَقُولُ: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ، فَیُقَالُ لِأُمَّتِهِ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَیَقُولُونَ: مَا أَتَانَا مِنْ نَذِیرٍ، فَیَقُولُ: مَنْ یَشْهَدُ لَكَ؟ فَیَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، فَتَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ: {وَیَكُونَ الرَّسُولُ عَلَیْكُمْ شَهِیدًا} [19] فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَكُونَ الرَّسُولُ عَلَیْكُمْ شَهِیدًا}[20]

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزقیامت نوح علیہ السلام کوبلایاجائے گاوہ عرض کریں گے لبیک وسعدیک، اللہ رب العزت فرمائے گاکیاتم نے (اپنی قوم کو)میراپیغام پہنچادیاتھا؟نوح علیہ السلام عرض کریں گےمیں نے (اپنی قوم کو) تیرا پیغام پہنچادیاتھا، پھران کی امت سے پوچھاجائے گاکیاانہوں نے تمہیں میراپیغام پہنچایاتھا ؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے پاس توکوئی ڈرانے والا نہیں آیا،اللہ تعالیٰ (نوح علیہ السلام سے)فرمائے گا آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتاہے؟وہ کہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت میری گواہ ہے،چنانچہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے اپناتبلیغی فریضہ اداکیاتھا اوررسول (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے(کہ انہوں نے سچی گواہی دی ہے)یہی مرادہے اللہ کے اس ارشادسے کہ اوراسی طرح ہم نے تم کوامت وسط بنایاتاکہ تم لوگوں کے لئے گواہی دواوررسول تمہارے لئے گواہی دیں ۔[21]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَجِیءُ النَّبِیُّ وَمَعَهُ الرَّجُلَانِ، وَیَجِیءُ النَّبِیُّ وَمَعَهُ الثَّلَاثَةُ، وَأَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، وَأَقَلُّ، فَیُقَالُ لَهُ: هَلْ بَلَّغْتَ قَوْمَكَ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ، فَیُدْعَى قَوْمُهُ، فَیُقَالُ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَیَقُولُونَ: لَا، فَیُقَالُ: مَنْ یَشْهَدُ لَكَ؟ فَیَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، فَتُدْعَى أُمَّةُ مُحَمَّدٍ، فَیُقَالُ: هَلْ بَلَّغَ هَذَا؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیَقُولُ: وَمَا عِلْمُكُمْ بِذَلِكَ؟ فَیَقُولُونَ: أَخْبَرَنَا نَبِیُّنَا بِذَلِكَ أَنَّ الرُّسُلَ قَدْ بَلَّغُوا فَصَدَّقْنَاهُ،

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ایک نبی بارگاہ الٰہی میں پیش کیاجائے گااوران کے ساتھ (ان پرایمان لانے والے)صرف دو آدمی ہوں گے،دوسرے نبی کولایاجائے گاتوان کی پیروکارصرف تین آدمی ہوں گےاورکسی نبی کے ساتھ اس سے زیادہ اوراس سے کم ہوں گےپھراس نبی سے سوال کیاجائے گاکیاآپ نے اپنی قوم کواللہ کاپیغام پہنچادیاتھا؟وہ بارگاہ الٰہی میں عرض کریں گے ہاں میرے رب !میں نے تیراپیغام ان لوگوں تک پہنچادیاتھا،پھراس کی قوم بلائی جائے گی اوران سے پوچھاجائے گاکہ کیا اس نبی نے تمہیں اللہ کاپیغام پہنچا دیاتھا؟وہ کہیں گے ہرگز نہیں ،یعنی ہمارے پاس کوئی ڈرانے والااورخوشخبری دینے والانہیں آیا،آخراس نبی سے کہاجائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت میری گواہ ہے،پس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کوبلایاجائے گااوران سے سوال کیاجائے گاکہ کیااس نبی نے اپنی امت کواللہ کاپیغام پہنچایاتھایانہیں ؟امت محمدیہ عرض کرے گی بے شک پہنچایاتھا،ان سے پوچھاجائے گاتم کوکیوں کرمعلوم ہواکہ انبیاء نے اپنی اپنی امت کو دعوت حق پہنچادی تھی،امت محمدیہ عرض کرے گی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبردی تھی کہ تمام انبیاء نے اپنی اپنی امت کو اللہ کی توحید و احکامات پہنچانے کاحق اداکردیاتھا،توہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلانے پرگواہی دیتے ہیں کہ ان انبیاء نے تبلیغ کافریضہ بااحسن وخوبی اداکردیاتھا۔[22]

الغرض اعمال کے وزن اورانصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعدکفار،مشرکین اور منافقوں کے بارے میں سرعام یہ اعلان ہوگا

 هَؤُلاَءِ الَّذِینَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ [23]

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پرجھوٹ باندھاتھا خبردار ظالموں پر تواللہ کی پھٹکار ہے۔[24]

پل صراط:

x ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں تین سخت ترین مراحل کاذکرہوچکا ہے ،ایک اعمال نامہ کی تقسیم کے وقت،دوسرااعمال کے وزن کے وقت اورتیسراسخت ترین مرحلہ پل صراط کاہوگا،پل صراط کیاہے،یہ ایک پل ہوگاجسے جہنم کے وسط میں دونوں کناروں پرنصب کردیاجائے گااوراس کے نیچے جہنم کی دہکتی آگ ہوگی اور ہرانسان کولازماًاس پرسے گزرناہوگا ،جن لوگوں نےدنیامیں تقویٰ اور پرہیزگاری کی زندگی گزاری ہوگی وہ اس بال سے زیادہ باریک اورتلوارکی دھارسے زیادہ تیزپل پرسے بخیر وعافیت گزرجائیں گے جبکہ کافر،مشرک اورنافرمان وبے عمل اس میں گرپڑیں گے جیسے فرمایا

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا۝۰ۚ كَانَ عَلٰی رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِیًّا۝۷۱ۚثُمَّ نُـنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِـمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا۝۷۲ [25]

ترجمہ:تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جوجہنم پر واردنہ ہو،یہ توایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے رب کاذمہ ہے ،پھرہم ان لوگوں کوبچالیں گے جومتقی تھے اورظالموں کواسی میں گرا ہو ا چھوڑدیں گے ۔

پل صراط کی کیفیت کیاہے۔

قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: بَلَغَنِی أَنَّ الْجِسْرَ أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرَةِ، وَأَحَدُّ مِنَ السَّیْفِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ پل صراط بال سے زیادہ باریک اورتلوارکی دھارسے زیادہ تیزہوگا ۔[26]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ:ثُمَّ یُضْرَبُ الْجِسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ، وَتَحِلُّ الشَّفَاعَةُ، وَیَقُولُونَ: اللهُمَّ سَلِّمْ، سَلِّمْ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا الْجِسْرُ؟قَالَ: دَحْضٌ مَزِلَّةٌ، فِیهِ خَطَاطِیفُ وَكَلَالِیبُ وَحَسَكٌ تَكُونُ بِنَجْدٍ فِیهَا شُوَیْكَةٌ یُقَالُ لَهَا السَّعْدَانُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پل کی کیفیت کے بارے میں فرمایاپھر پل کوجہنم پررکھاجائے گااورشفاعت شروع ہوگی اورلوگ کہیں گے اے اللہ!سلامتی عطا فرما،لوگوں نے کہا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ پل کیساہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسی چیز جس میں پھسلن ہوگی اور اس میں دانے دار کانٹے ہوں گے وہ لوہے کے کانٹے ہوں گے وہ لوہے کے کانٹے سعد ان جھاڑی کے کانٹوں کی طرح خم دار ہوں گے۔ [27]

سب رسولوں سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ساتھ اس پل کوعبورکریں گے ۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، أَخْبَرَهُمَا:فَیُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَیْنَ ظَهْرَانَیْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ یَجُوزُ مِنَ الرُّسُلِ بِأُمَّتِهِ، وَلاَ یَتَكَلَّمُ یَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا الرُّسُلُ، وَكَلاَمُ الرُّسُلِ یَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااورپل صراط کوجہنم کے دونوں بیچوں بیچ رکھاجائے گااورسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والاسب سے پہلارسول ہوں گا،اس دن سوائے انبیاء کے کسی کوکلام کرنے کی جرات نہیں ہوگی اوررسول بھی صرف یہی کہہ رہے ہوں گے اے اللہ!مجھے محفوظ رکھنا،اے اللہ!مجھے محفوظ رکھنا۔ [28]

نیک اورصالح لوگ اپنے عقیدے ،ایمان اوراعمال کے مطابق بڑی تیزی سے اس پل کوعبورکر جائیں گے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، فَیَمُرُّ الْمُؤْمِنُونَ كَطَرْفِ الْعَیْنِ، وَكَالْبَرْقِ، وَكَالرِّیحِ، وَكَالطَّیْرِ، وَكَأَجَاوِیدِ الْخَیْلِ وَالرِّكَابِ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَمَخْدُوشٌ مُرْسَلٌ، وَمَكْدُوسٌ فِی نَارِ جَهَنَّمَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پل صراط کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاپس اہل ایمان اس پل کوعبورکرجائیں گے بعض آنکھ جھپکنے کی ماند،بعض بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ،بعض پرندوں کی طرح اڑکر ، بعض تیزرفتار گھوڑوں کی ماننداوربعض اونٹ سواروں کی طرح پل صراط سے گزریں گے ، بعض اہل ایمان تواس پل کوصحیح سلامت عبورکرجائیں گے اوربعض تکلیف اٹھاکر گزرجائیں گے اوربعض زخمی ہوکرجہنم میں گرجائیں گے ۔

[29]حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَشْفَعَ لِی یَوْمَ القِیَامَةِ، فَقَالَ: أَنَا فَاعِلٌ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ فَأَیْنَ أَطْلُبُكَ؟ قَالَ: اطْلُبْنِی أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِی عَلَى الصِّرَاطِ. قَالَ: قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ؟ قَالَ: فَاطْلُبْنِی عِنْدَ الْمِیزَانِ. قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِیزَانِ؟ قَالَ: فَاطْلُبْنِی عِنْدَ الحَوْضِ فَإِنِّی لاَ أُخْطِئُ هَذِهِ الثَّلاَثَ الْمَوَاطِنَ.

ایک مرتبہ انس رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن میری شفاعت ضرورفرمائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کام تومیں کروں گا، انس رضی اللہ عنہ نے پھر سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اے اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم !حشرکے دن میں آپ کوکہاں تلاش کروں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے پہلے مجھے پل صراط کے پاس تلاش کرنا، میں نے عرض کیا اگرپل صراط کے پاس آپ سے ملاقات نہ کرسکاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر مجھے میزان کے قریب تلاش کرنا،میں نے عرض کیااگرمیں میزان کے پاس بھی ملاقات نہ کرسکوں ، فرما یا پھرحوض کوثرپرمیرے پاس آجاناکیونکہ میں ان تینوں مقامات پرکہیں نہ کہیں ضرورمل جاؤ ں گا۔[30]

الغرض نافرمان لوگوں کے لئے فرمایاکہ تم اس دنیاکی رنگینیوں میں مست ہوکرعقیدہ آخرت کوتسلیم نہیں کرتے مگرروزمحشرتم پہلے جہنم

(السَّعِیرِ ،جَحِیمٍ ،هَاوِیَة، الْحُطَمَةِ،سَقَرَ، لَظَى ،وَیْلٌ)

کو دور سے دیکھو گے اور جب جہنم کے سات دروازوں میں سے کسی ایک میں داخل ہو گے توتمہیں یقین آجائے گاکہ اللہ کی بات حق تھی اور رسول نے سچ کہاتھا۔

دنیاکی آگ سے ۶۹گنازیادہ حرارت والی یہ آگ نہ باقی رکھے گی اورنہ ہی چھوڑے گی،جیسے فرمایا

 وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ۝۲۷ۭلَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ۝۲۸ۚلَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ۝۲۹ۚۖ [31]

ترجمہ: اورتم کیاجانوکہ کیاہے وہ دوزخ ؟نہ باقی رکھے نہ چھوڑے ، کھال جھلس دینے والی ۔

اس آگ میں یہ جی سکیں گے اورنہ ہی مرسکیں گے ۔

وَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى۝۱۱ۙالَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [32]

ترجمہ:وہ انتہائی بدبخت جوبڑی آگ میں جائے گاپھرنہ اس میں مرے گانہ جیے گا۔

جب یہ بجھنے لگے گی تودروغہ جہنم اسے فوراًبھڑکادے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَنَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا۝۰ۭ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ۝۰ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا۝۹۷ [33]

ترجمہ:ان لوگوں کوہم قیامت کے روزاوندھے منہ کھینچ لائیں گے ، اندھے،گونگے اوربہرےان کاٹھکاناجہنم ہے جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکادیں گے۔

دوزخ کی آگ اتنی ہولناک ہے کہ اس کی حدت وشدت دیکھ کرجبرائیل علیہ السلام بھی گھبراگئے تھے،

قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: جَاءَ جِبْرِیلُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حِینٍ غَیْرِ حِینِهِ الَّذِی كَانَ یَأْتِیهِ فِیهِ، فَقَامَ إِلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَا جِبْرِیلُ مَا لِی أَرَاكَ مُتَغَیِّرَ اللَّوْنِ؟ فَقَالَ:مَا جِئْتُكَ حَتَّى أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِمَفَاتِیحِ النَّارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا جِبْرِیلُ، صِفْ لِیَ النَّارَ، وانْعَتْ لِی جَهَنَّمَ فَقَالَ جِبْرِیلُ:إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَمَرَ بِجَهَنَّمَ فَأُوقِدَ عَلَیْهَا أَلْفَ عَامٍ حَتَّى ابْیَضَّتْ، ثُمَّ أَمَرَ فَأُوقِدَ عَلَیْهَا أَلْفَ عَامٍ حَتَّى احْمَرَّتْ، ثُمَّ أَمَرَ فَأُوقِدَ عَلَیْهَا أَلْفَ عَامٍ حَتَّى اسْوَدَّتْ، فَهِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَةٌ لَا یُضِیءُ شَرَرُهَا، وَلَا یُطْفَأُ لَهَبُهَا،

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہے ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام بے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام کوبے وقت آتادیکھ کرکھڑے ہو گئے اورجبرائیل علیہ السلام سے پوچھا اے جبرائیل علیہ السلام خیریت توہے میں تیرے چہرے پررنج وغم کے آثار دیکھ رہاہوں اورتمہارے چہرے کی رنگت بھی بدلی ہوئی ہے،انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں جہنم کی آگ کوجلانے اوربھڑکانے کا منظردیکھ کرآیاہوں اس وجہ سے شدیدپریشان ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے جبرائیل علیہ السلام !میرے سامنے جہنم کی آگ کی حقیقت اور کیفیت بیان کرو،جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کے بارے میں حکم دیاتواسے ایک ہزارسال تک مسلسل جلایاگیایہاں تک کہ اس کی آگ کی رنگت سفیدہوگئی،پھرحکم دیا تواسے مزیدایک ہزارسال تک جلایاگیاجس سے اس کارنگ سرخ ہوگیاپھرحکم دیاتواسے ایک ہزار سال تک مزید جلایا گیا تووہ سیاہ اورتاریک ہوگئی ،اس کی چنگاریاں چمکتی نہیں ہیں اورنہ شعلے بجھتے ہیں ،

وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَوْ أَنَّ قَدْرَ ثُقْبِ إِبْرَةٍ فُتِحَ مِنْ جَهَنَّمَ لَمَاتَ مَنْ فِی الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیعًا مِنْ حَرِّهِ، وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَوْ أَنَّ ثَوْبًا مِنْ ثِیَابِ النَّارِ عُلِّقَ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَمَاتَ مَنْ فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْ حَرِّهِ، وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَوْ أَنَّ خَازِنًا مِنْ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ بَرَزَ إِلَى أَهْلِ الدُّنْیَا، فَنَظَرُوا إِلَیْهِ لَمَاتَ مَنْ فِی الْأَرْضِ كُلُّهُمْ مِنْ قُبْحِ وَجْهِهِ وَمِنْ نَتْنِ رِیحِهِ، وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَوْ أَنَّ حَلْقَةً مِنْ حَلْقَةِ سِلْسِلَةِ أَهْلِ النَّارِ الَّتِی نَعَتَ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ وُضِعَتْ عَلَى جِبَالِ الدُّنْیَا لَارْفَضَّتْ، وَمَا تَقَارَبَتْ حَتَّى تَنْتَهِیَ إِلَى الْأَرْضِ السُّفْلَى ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:حَسْبِی یَا جِبْرِیلُ لَا یَنْصَدِعُ قَلْبِی، فَأَمُوتُ

اس ذات کی قسم!جس نے آپ کوحق دے کرمبعوث فرمایااگرجہنم سوئی کے ایک سوراخ جتنی بھی کھول دی جائے تواس کی گرمی سے زمین کی ساری مخلوقات مرجائیں ، اوراس اللہ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگرجہنم کاایک دروغہ زمین والوں کی طرف ظاہرہوجائے تواس کی بدصورتی اوربدبوکے باعث اہل زمین فوت ہو جائیں ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کوسچادین دے کربھیجاہے کہ اگرجہنم کی زنجیرکاایک حلقہ جس کاذکراللہ نے اپنی کتاب میں فرمایاہے دنیاکے کسی پہاڑپررکھ دیاجائے تووہ پہاڑریزہ ریزہ ہوجائے گااوراسفل سافلین میں پہنچےتک نہیں ٹھہرے گاجبرائیل علیہ السلام کی زبانی جہنم کی آگ کی یہ تفصیلات سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبرائیل بس کروکہیں میرادل پاش پاش نہ ہوجائے اورمیں مرنہ جاؤ ں ،

وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ بِقَوْمٍ مِنَ الْأَنْصَارِ یَضْحَكُونَ ویَلْعَبُونَ، فَقَالَ:أَتَضْحَكُونَ وَوَرَاءَكُمْ جَهَنَّمُ؟ فَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِیلًا، وَلَبَكَیْتُمْ كَثِیرًا، وَلَمَا أَسَغْتُمُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَل

جبرائیل علیہ السلام سے جہنم کی کیفیت سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہرنکلے اورآپ کا گزرانصارکی ایک جماعت کے قریب سے ہواجوآپس میں ہنس کھیل رہے تھےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے گروہ انصار!تم ہنس رہے ہواورجہنم تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے،اگرتمہیں ان باتوں کاعلم ہوجائے جومجھے معلوم ہیں توتم ہنسناکم اوررونے زیادہ لگو،تمہیں کھاناپینااچھانہ لگے اورتم جنگلوں کی طرف نکل جاؤ اورپریشانی کے ازالہ کے لئے اللہ کی طرف رجوع کرو۔[34]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِیلًا، وَلَبَكَیْتُمْ كَثِیرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشَاتِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ، تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم!اگرتمہیں وہ معلومات حاصل ہو جائیں جومیں جانتاہوں توتم تھوڑاہنسواورزیادہ روتے رہو اور بستروں پرعورتوں سے لطف اندوز ہونا چھوڑدواوراللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے لئے جنگلوں کی طرف نکل جاؤ ۔[35]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:أُوقِدَتِ النَّارُ أَلْفَ سَنَةٍ فَابْیَضَّتْ، ثُمَّ أُوقِدَتْ أَلْفَ سَنَةٍ فَاحْمَرَّتْ،ثُمَّ أُوقِدَتْ أَلْفَ سَنَةٍ فَاسْوَدَّتْ، فَهِیَ سَوْدَاءُ كَاللَّیْلِ الْمُظْلِمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوزخ کی آگ ہزاربرس تک دھونکائی گئی جس سے وہ آگ سفید ہوگئی، اسے پھرہزاربرس تک دھونکایاگیاتووہ سرخ ہوگئی اسے پھرہزاربرس تک دھناکایا گیاتو سیاہ ہوگئی، اب اس میں ایسی سیاہی ہے جیسے اندھیری رات میں ہوگئی ہے۔ [36]

مجرموں کوسترہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑکر،گلے میں طوق ڈال کر،پیروں سے پکڑکرمنہ کے بل گھسیٹتے ہوئےسرکے بل جہنم میں گراکراسے بندکردیاجائے گاجیسے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا هُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَةِ۝۱۹ۭعَلَیْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ۝۲۰ۧ [37]

ترجمہ: اور جنہوں نے ہماری آیات کوماننے سے انکارکیاوہ بائیں بازووالے ہیں ،ان پر آگ چھائی ہوئی ہوگی۔

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَةُ۝۵ۭنَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ۝۶ۙالَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْــِٕدَةِ۝۷ۭاِنَّهَا عَلَیْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ۝۸ۙفِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ۝۹ۧ [38]

ترجمہ:اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چُور کر دینے والی جگہ؟اللہ کی آگ ،خوب بھڑکائی ہوئی جودلوں تک پہنچے گی ،وہ ان پرڈھانک کر بند کر دی جائے گی (اس حالت میں کہ وہ) اونچے اونچے ستونوں میں (گھرے ہوئے ہوں گے)۔

جہنم میں مختلف نوعیت کے مجرموں کوان کے عقیدہ واعمال کے مطابق سزادی جائے گی ،کسی کوسخت ترین عذاب دیاجائے گا،کسی کودرمیانی درجے کااورکسی کوہلکا،مگریہ ہلکاترین عذاب بھی ایساہے جس کاتصورکرکے جسم پرکپکپی طاری ہوجائے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا یَنْتَعِلُ بِنَعْلَیْنِ مِنْ نَارٍ، یَغْلِی دِمَاغُهُ مِنْ حَرَارَةِ نَعْلَیْهِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کے ہلکے ترین عذاب کاذکرکرتے ہوئے فرمایا دوزخیوں میں سب سے ہلکاعذاب اس شخص کوہوگا جسے آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن کی حدت سے اس آدمی کادماغ ابل رہاہوگا۔[39]

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا یَوْمَ القِیَامَةِ رَجُلٌ، عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَیْهِ جَمْرَتَانِ، یَغْلِی مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا یَغْلِی المِرْجَلُ وَالقُمْقُمُ

اورنعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن دوزخیوں میں عذاب کے اعتبارسے سب سے ہلکاعذاب پانے والاوہ شخص ہوگا جس کے دو پیروں کے نیچے دو انگارے رکھ دیئے جائیں گے جن کی وجہ سے اس کادماغ کھول رہا ہوگا جس طرح ہانڈی اورکیتلی جوش کھاتی ہے۔[40]

عذاب جہنم کتناہولناک ہے اس کی مختصرسی جھلک اس روایت میں ملتی ہے کہ ساری زندگی عیش وآرام میں گزارنے والاشخص اس کی صرف ایک جھلک دیکھ کرہی دنیاکا ساراسکھ چین بھول جائے گا۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَةً، ثُمَّ یُقَالُ: یَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِیمٌ قَطُّ؟ فَیَقُولُ: لَا، وَاللهِ یَا رَبِّ، وَیُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا، مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَیُصْبَغُ صَبْغَةً فِی الْجَنَّةِ، فَیُقَالُ لَهُ: یَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ؟ فَیَقُولُ: لَا، وَاللهِ یَا رَبِّ مَا مَرَّ بِی بُؤْسٌ قَطُّ، وَلَا رَأَیْتُ شِدَّةً قَطُّ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن جہنم جانے والوں میں سے ایک ایسے شخص کولایاجائے گاجس نے دنیامیں بہت زیادہ عیش وآرام کی زندگی گزاری ہوگی اسے دوزخ میں ایک غوطہ دیاجائے گااوراس سےپوچھاجائے گااے ابن آدم!کیاتونے کبھی دنیامیں آرام دیکھاتھا؟ اورکیا دنیامیں کبھی عیش وآرام بھی نصیب ہوا؟ وہ کہے گا اے میرے رب اللہ کی قسم نہیں ،اور اہل جنت میں سے اس آدمی کو پیش کیا جائے گا جسے دنیا میں لوگوں سے سب سے زیادہ تکلیفیں آئی ہوں گی پھر اسے جنت میں ایک دفعہ غوطہ دے کر پوچھا جائے گا اے ابن آدم کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف بھی دیکھی ؟کیا تجھ پر کبھی کوئی سختی بھی گزری؟ وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار اللہ کی قسم نہیں کبھی کوئی تکلیف میرے پاس سے نہ گزری اور نہ ہی میں نے کبھی کوئی شدت و سختی دیکھی۔[41]

الغرض مجرم میدان محشرمیں پہلے جہنم کودورسے دیکھیں گے اور پھرعدالتی کاروائی کے بعدجرم ثابت ہونے پراس میں داخل کردیے جائیں گے توانہیں یقین آجائے گاکہ اللہ کی بات حق تھی اور رسولوں نے سچ کہاتھا۔

 ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ ‎ (التکاثر)
پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا ۔

اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کوانسان کے لئے مسخرفرمادیااورپھر بغیرکسی استحقاق کے اسے جو بے شمارصلاحیتیں اورنعمتیں عطافرمادیں ان کے بارے میں سوال ہوگاکہ کیاتم نے میرے احسانات وانعامات پرمیراشکراداکیاجیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا۝۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۝۳۴ۧ [42]

ترجمہ:اگرتم اللہ کی نعمتوں کوشمار کرنا چاہوتونہیں کرسکتےحقیقت یہ ہے کہ انسان بڑاہی بے انصاف اورناشکراہے۔

ایک مقام پر ہے

۔۔۔اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶ [43]

ترجمہ:یقیناًآنکھ،کان اوردل سب ہی کی بازپرس ہونی ہے۔

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ الأَسْلَمِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ القِیَامَةِ حَتَّى یُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِیمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ فِیمَ فَعَلَ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَیْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِیمَ أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فِیمَ أَبْلاَهُ.

ابی برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزقیامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے کوئی بندہ پاؤ ں کوہلانہیں سکے گاجب تک اس سے نہ پوچھاجائے کہ اپنی عمر کن کاموں میں گزاری،اللہ نے اسے جوعلم عطافرمایاتھااس پر کتنا عمل کیا تھااور اپنامال کس ذرائع سے کمایااورکس طرح خرچ کیا اوراپنی جوانی کوکس کام میں لگایا۔[44]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَاعَةٍ لاَ یَخْرُجُ فِیهَا وَلاَ یَلْقَاهُ فِیهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ یَا أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِی وَجْهِهِ وَالتَّسْلِیمَ عَلَیْهِ، فَلَمْ یَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ یَا عُمَرُ؟ قَالَ: الجُوعُ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ، فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِی الهَیْثَمِ بْنِ التَّیْهَانِ الأَنْصَارِیِّ وَكَانَ رَجُلاً كَثِیرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ وَلَمْ یَكُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ یَجِدُوهُ، فَقَالُوا لاِمْرَأَتِهِ: أَیْنَ صَاحِبُكِ؟ فَقَالَتْ: انْطَلَقَ یَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہےایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے ایسے وقت باہرتشریف لائے جب کہ اس وقت نہیں نکلتے تھے اورنہ کوئی شخص اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتاتھایعنی گھرمیں آرام اورراحت کاوقت تھا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اچانک سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ !اس وقت تم کس وجہ سےآئے ہو؟سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ اللہ کے رسول سے ملاقات کروں ،ان کے چہرہ مبارک کی زیارت کروں اوران کوسلام کروں ،ان باتوں کوکچھ دیرنہیں ہوئی تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب بھی حاضر ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !اس وقت تم کس وجہ سے آئے ہو؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے بھوک آپ کے پاس لائی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے بھی بھوک لگی ہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ ایک انصاری ابی الہشیم بن تیہان رضی اللہ عنہ کے گھرتشریف لے گئے جن کے پاس بہت بکریاں اورکھجورتھیں ،مگران کے پاس کوئی خادم نہیں تھالیکن وہ گھرپرموجودنہیں تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زوجہ سےفرمایا تمہارا خاوند کہاں ہے؟اس نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ ہمارے لئے میٹھاپانی لینے گئے ہیں ،

 فَلَمْ یَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الهَیْثَمِ بِقِرْبَةٍ یَزْعَبُهَا فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَاءَ یَلْتَزِمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیُفَدِّیهِ بِأَبِیهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِیقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَفَلاَ تَنَقَّیْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ؟ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا، أَوْ قَالَ: تَخَیَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ،

ابھی یہ گفتگوہورہی تھی کہ وہ ابوالہشیم رضی اللہ عنہ بھی ایک مشک کواٹھائے ہوئے آگئے ، انہوں نے مشک کوایک طرف رکھ دیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اورکہنے لگے کہ میرے ماں باپ آپ پرفداہوں ،پھرسب کواپنے باغ میں لے گئے اوربیٹھنے کے لئے بچھونابچھایا،پھرکھجورکے درخت کے پاس گئے اورجلدی سے کھجورکاایک گچھاکاٹ کرلائے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم ہمارے لئے پکی ہوئی کھجوریں توڑکرکیوں نہ لائے؟انہوں نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے چاہاکہ آپ ان میں سےخودپسندکرلیں یاکہاکہ آپ ان کچی کھجوروں میں سے پکی کھالیں ،پس سب نے وہ کھجورکھالی اورجومیٹھاپانی وہ لائے تھے اس میں سےپیا

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مِنَ النَّعِیمِ الَّذِی تُسْأَلُونَ عَنْهُ یَوْمَ القِیَامَةِ، ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَیِّبٌ، وَمَاءٌ بَارِدٌ، فَانْطَلَقَ أَبُو الهَیْثَمِ لِیَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ، قَالَ: فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْیًا فَأَتَاهُمْ بِهَا فَأَكَلُوا،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس پروردگارکی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کی بابت قیامت کے دن تم سےسوال کیاجائے گا،تفصیل ان کی یہ ہے باغ کاٹھنڈاسایہ ،عمدہ خوش مزہ پکی ہوئی کھجوریں اورپاکیزہ سردپانی،پھرابوالہشیم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھاناتیارکرنے کے لئے گئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادودھ والی بکری ذبح نہ کرنا، چنانچہ انہوں نے ایک بکری کانریامادہ بچہ ذبح کیااورجلدی سے اس کاگوشت پکواکرمعززمہمانوں کی خدمت میں پیش کیا۔ [45]

الصِّحَّةُوَالْفَرَاغُ، السَّمْعِ وَالْبَصَرِ، وَمَالًا وَوَلَدًا،مَلَاذُّ الْمَأْكُولِ وَالْمَشْرُوبِ، وَظِلَالُ الْمَسَاكِنِ،وَاعْتِدَالُ الْخَلْقِ، وَلَذَّةُ النَّوْمِ

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحت وفراغت ،سننے اوردیکھنے کی صلاحیت، مال واولاد،ماکولات ومشروبات، مکانات،خلق اور نیندکی لذت وغیرہ کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی ۔[46]

كل شی مِنْ لَذَّةِ الدُّنْیَا

فرماتے ہیں الغرض لذت دنیاکی ہرشئے کے بارے میں سوال ہوگا۔ [47]

بعض مفسرین کے مطابق ان چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی،

قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِی سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ: بَیْتٌ یَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ یُوَارِی عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان ضروری بنیادی اشیاء کے علاوہ دنیاکی چیزوں میں آدم کے بیٹے کاکوئی حق نہیں ہے،رہائش کے لئے مکان،تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا،روٹی اور پانی۔[48]

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الْأَوْدِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ یَعِظُهُ:اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ , شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ , وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ , وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ , وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغُلِكَ , وَحَیَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ

عمروبن میمون رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپانچ نعمتوں کو پانچ آفتوں سے پہلے غنیمت سمجھواوران سے فائدہ اٹھاؤ ، اپنی جوانی کوبڑھاپے سے پہلے،اوراپنی صحت کوبیماری سے پہلے،اوراپنی مالداری کوغربت اورافلاس سے پہلے،اور اپنی فراغت کومشغولیت اورمصروفیت سے پہلے،اور اوراپنی زندگی کوموت سے پہلے۔[49]

ائمہ کرام عذاب قبرکے بارے میں یوں تبصرہ فرماتے ہیں :

عذاب قبرکے بارے میں علامہ شیخ سفارینی الاثری اپنی مشہورکتاب لوامع انوارالبھیہ میں فرماتے ہیں ۔

(وَمِنْهَا) أَیِ الْأُمُورِ الَّتِی یَجِبُ الْإِیمَانُ بِهَا وَأَنَّهَا حَقٌّ لَا تُرَدُّ عَذَابُ الْقَبْرِ ،قَالَ الْحَافِظُ جَلَالُ الدِّینِ السُّیُوطِیُّ فِی كِتَابِهِ شَرْحُ الصُّدُورِ فِی أَحْوَالِ الْمَوْتَى وَالْقُبُورِ وَقَدْ ذَكَرَ اللَّهُ عَذَابَ الْقَبْرِ فِی الْقُرْآنِ فِی عِدَّةِ أَمَاكِنَ كَمَا بَیَّنْتُهُ فِی الْإِكْلِیلِ فِی أَسْرَارِ التَّنْزِیلِ. انْتَهَى

عذاب قبرحق ہے جب پرایمان لاناواجب ہے ،اللہ پاک نے قرآن مجیدکی متعددآیات میں اس کاذکرفرمایاہے، تفصیلی ذکرحافظ جلال الدین سیوطی کی کتاب شرح الصدورفی احوال الموتی والقبور اور اکلیل فی اسرارالتنزیل میں موجودہے اوراللہ تعالیٰ نے متعددمقامات پرعذاب کے قبرکے بارے میں فرمایاہے،

قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ رَجَبٍ فِی كِتَابِهِ أَهْوَالِ الْقُبُورِ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ} [50]– إِلَى قَوْلِهِ – {إِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْیَقِینِ} [51]عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَى ،قَالَ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآیَاتِ، فَقَالَ: إِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَوْتِ قِیلَ لَهُ هَذَافَإِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْیَمِینِ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشِّمَالِ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب احوال القبورمیں آیت شریفہ ’’ جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے ۔‘‘کی تفسیرمیں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کوتلاوت فرمایااورفرمایاکہ جب موت کاوقت آتاہے تومرنے والے سے یہ کہا جاتاہے پس اگروہ مرنے والادائیں طرف والوں میں سے ہے تووہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کومحبوب رکھتاہے اوراللہ تعالیٰ اس سے ملنے کومحبوب رکھتاہے، اوراگرمرنے والا بائیں طرف والوں میں سے ہے تووہ اللہ کی ملاقات کومکروہ رکھتاہے اوراللہ پاک اس کی ملاقات کومکروہ رکھتاہے۔

وَقَالَ الْإِمَامُ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْقَیِّمِ فِی كِتَابِ الرُّوحِ قَوْلُ السَّائِلِ مَا الْحِكْمَةُ فِی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ لَمْ یُذْكَرْ فِی الْقُرْآنِ صَرِیحًا مَعَ شِدَّةِ الْحَاجَةِ إِلَى مَعْرِفَتِهِ وَالْإِیمَانِ بِهِ لِیَحْذَرَهُ النَّاسُ وَیُتَّقَى؟ فَأَجَابَ عَنْ ذَلِكَ بِوَجْهَیْنِ مُجْمَلٍ وَمُفَصَّلٍ أَمَّا الْمُجْمَلُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَنْزَلَ عَلَى رَسُولِهِ وَحْیَیْنِ فَأَوْجَبَ عَلَى عِبَادِهِ الْإِیمَانَ بِهِمَا وَالْعَمَلَ بِمَا فِیهِمَا وَهُمَا الْكِتَابُ وَالْحِكْمَةُ قَالَ تَعَالَى {وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ} [52] وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْهُمْ} [53]– إِلَى قَوْلِهِ – {وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ} [54] وَقَالَ تَعَالَى {وَاذْكُرْنَ مَا یُتْلَى فِی بُیُوتِكُنَّ} [55]الْآیَةَ وَالْحِكْمَةُ هِیَ السُّنَّةُ بِاتِّفَاقِ السَّلَفِ، وَمَا أَخْبَرَ بِهِ الرَّسُولُ عَنِ اللَّهِ فَهُوَ فِی وُجُوبِ تَصْدِیقِهِ وَالْإِیمَانِ بِهِ كَمَا أَخْبَرَ بِهِ الرَّبُّ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ، فَهَذَا أَصْلٌ مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ بَیْنَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا یُنْكِرُهُ إِلَّا مَنْ لَیْسَ مِنْهُمْ، وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنِّی أُوتِیتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ.

اورعلامہ محقق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں لکھاہے کہ کسی نے ان سے پوچھاکہ اس امرمیں کیاحکمت ہے کہ صراحت کے ساتھ قرآن مجیدمیں عذاب قبرکاذکرنہیں ہے حالانکہ یہ ضروری تھاکہ اس پرایمان لاناضروری ہے تاکہ لوگوں کواس سے ڈرپیداہو، علامہ رحمہ اللہ نے اس کاجواب مجمل اورمفصل ہردوطورپردیا، مجمل تویہ دیاکہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پردوقسم کی وحی نازل کی ہے اوران دونوں پرایمان لانااور ان دونوں پرعمل کرناواجب قراردیاہے اوروہ کتاب اورحکمت ہیں اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے تم پرکتاب اورحکمت نازل کی ہے۔‘‘وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے ، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔’’یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ۔‘‘ کتاب سے مرادقرآن مجیدہے، اورسلف صالحین سے متفقہ طورپرحکمت سے سنت(حدیث نبوی)مرادہے،اب عذاب قبرکی خبراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث میں دی ہے ،پس وہ خبریقیناًاللہ ہی کی طرف سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے اورجس پرایمان رکھنافرض ہے، جیساکہ رب تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان حقیقت ترجمان سے صحیح احادیث میں عذاب قبرکے متعلق بیان کرایاہے پس یہ اصول اہل اسلام میں متفقہ ہے اس کاوہی شخص انکارکرسکتاہے جواہل اسلام سے باہرہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ خبردار رہو کہ میں قرآن مجیددیاگیاہوں اوراس کی مثال ایک اورکتاب (حدیث )میں دیاگیاہوں ۔

وَأَمَّا الْجَوَابُ الْمُفَصَّلُ فَهُوَ أَنَّ نَعِیمَ الْبَرْزَخِ وَعَذَابَهُ مَذْكُورٌ فِی الْقُرْآنِ فِی مَوَاضِعَ (مِنْهَا) قَوْلُهُ تَعَالَى {وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ} [56] الْآیَةَ وَهَذَا خِطَابٌ لَهُمْ عِنْدَ الْمَوْتِ قَطْعًا وَقَدْ أَخْبَرَتِ الْمَلَائِكَةُ وَهُمُ الصَّادِقُونَ أَنَّهُمْ حِینَئِذٍ یُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آیَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ، وَلَوْ تَأَخَّرَ عَنْهُمْ ذَلِكَ إِلَى انْقِضَاءِ الدُّنْیَا لَمَا صَحَّ أَنْ یُقَالَ لَهُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى {فَوَقَاهُ اللَّهُ سَیِّئَاتِ مَا مَكَرُوا} [57]– إِلَى قَوْلِهِ – {یُعْرَضُونَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا} [58] الْآیَةَ فَذَكَرَ عَذَابَ الدَّارَیْنِ صَرِیحًا لَا یُحْتَمَلُ غَیْرُهُ. وَمِنْهَا قَوْلُهُ تَعَالَى {فَذَرْهُمْ حَتَّى یُلَاقُوا یَوْمَهُمُ الَّذِی فِیهِ یُصْعَقُونَ یَوْمَ لَا یُغْنِی عَنْهُمْ كَیْدُهُمْ شَیْئًا وَلَا هُمْ یُنْصَرُونَ} [59]انْتَهَى كَلَامُهُ.

پھرمحقق علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تفصیلی جواب میں فرمایا برزخ کاعذاب قرآن مجیدکی بہت سی آیات سے ثابت ہے اوربرزخ کی بہت سی نعمتوں کابھی قرآن مجیدمیں ذکر موجود ہے (یہی عذاب وثواب قبرہے)۔ کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ، نِکالو اپنی جان، آج تمہیں ان باتون کی پاداش میں ذِلّت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے۔ ان کے لئے موت کے وقت یہ خطاب قطعی ہے اوراس موقع پرفرشتوں نے خبردی ہے جوبالکل سچے ہیں ،یہاں اگرعذاب کودنیاکے خاتمہ پرموخرماناجائے تویہ صحیح نہیں ہوگا،یہاں توآج کادن استعمال کیاگیاہے اور کہا گیاہے کہ تم کوآج کے دن رسوائی کاعذاب ہوگا،اس آج کے دن سے یقیناًقبرکے عذاب کادن مرادہے ، اوردوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔آخرکار ان لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اس مومن کے خلاف چلیں اللہ نے ان سب سے اس کو بچا لیا اور فرعون کے ساتھی بدترین عذاب کے پھیر میں آ گئے دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں ، اور جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو ۔اس آیت میں عذاب دارین کاصریح ذکرہے اس کے سوااورکسی کا احتمال ہی نہیں (دارین سے قبرکاعذاب اورپھرقیامت کے دن کاعذاب مرادہے) اوراللہ تعالیٰ نے فرمایاپس اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )! انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن کو پہنچ جائیں جس میں یہ مار گرائے جائیں گے،جس دن نہ ان کی اپنی کوئی چال ان کے کسی کام آئے گی نہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ [60]

وَأَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ مِنْ حَدِیثِ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُو “ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَخْرَجَ التِّرْمِذِیُّ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا زِلْنَا فِی شَكٍّ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّى نَزَلَتْ {أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} [61] . وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذَا مَاتَ الْكَافِرُ أُجْلِسَ فِی قَبْرِهِ فَیُقَالُ لَهُ مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِینُكَ فَیَقُولُ لَا أَدْرِی فَیُضَیَّقُ عَلَیْهِ قَبْرُهُ ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنْكًا قَالَ الْمَعِیشَةُ الضَّنْكُ هِیَ عَذَابُ الْقَبْرِ.

وَقَالَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِی قَوْلِهِ تَعَالَى {عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ} [62]قَالَ عَذَابَ الْقَبْرِ. وَرُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِی قَوْلِهِ تَعَالَى {وَلَنُذِیقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ} [63] (قَالَ عَذَابُ الْقَبْرِ)

صحیح بخاری میں حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں ذکرہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعافرمایاکرتے تھے اے اللہ!میں تجھ سے عذاب قبرسے تیری پناہ چاہتاہوں ،اورجامع ترمذی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عذاب قبرکے بارے میں ہم مشکوک رہاکرتے تھے یہاں تک کہ یہ آیات نازل ہوئیں تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے،یہاں تک کہ اسی فکر میں تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو۔(گویاان آیات میں بھی مراد قبر کا عذاب ہی ہے)عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ جب کافرمرتاہے تواسے قبرمیں  بٹھایا جاتا ہے اوراس سے پوچھاجاتاہے تیرارب کون ہے؟ اورتیرادین کیاہے؟ وہ جواب دیتاہے کہ میں کچھ نہیں جانتا پس اس کی قبراس پرتنگ کردی جاتی ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی جوکوئی ہماری یاد سے منہ موڑے گااس کونہایت تنگ زندگی ملے گی۔ فرمایایہاں تنگ زندگی سے قبرکاعذاب مرادہے، براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے آیت شریفہ اور اس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں ۔ کی تفسیرمیں فرمایا یہاں بھی عذاب قبرہی کاذکر ہے ،یعنی کافروں کوبڑے سخت ترین عذاب سے پہلے ایک ادنیٰ عذاب میں داخل کیاجائے گا(اوروہ عذاب قبرہے)اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت کریمہ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے ۔کی تفسیرمیں فرماتے ہیں اس سے مراد عذاب قبرہی ہے،ایساہی قتادہ اورربیع بن انس نے آیت شریفہ ہم ان کودودفعہ عذاب میں مبتلاکریں گے۔کی تفسیرمیں فرمایا ایک عذاب سے مراددنیاکاعذاب اوردوسرے سے مرادقبرکاعذاب ہے۔[64]

قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ رَجَبٍ وَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَحَادِیثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ فَفِی الصَّحِیحَیْنِ عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ عَائِشَةَ الصِّدِّیقَةِ بِنْتِ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِقَالَ: نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عذاب قبرکے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتراحادیث مروی ہیں جن سے عذاب قبرکاحق ہوناثابت ہے،پھرعلامہ نے ان احادیث کا ذکرفرمایاجیساکہ یہاں بھی چنداحادیث مذکورہوئی ہیں ، صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبرکے بارے میں دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہاں ،عذاب قبرحق ہے۔

لم یَتَعَرَّضِ الْمُصَنِّفُ فِی التَّرْجَمَةِ لِكَوْنِ عَذَابِ الْقَبْرِ یَقَعُ عَلَى الرُّوحِ فَقَطْ أَوْ عَلَیْهَا وَعَلَى الْجَسَدِ وَفِیهِ خِلَافٌ شَهِیرٌ عِنْدَ الْمُتَكَلِّمِینَ،وَكَأَنَّهُ تَرَكَهُ لِأَنَّ الْأَدِلَّةَ الَّتِی یَرْضَاهَا لَیْسَتْ قَاطِعَةً فِی أَحَدِ الْأَمْرَیْنِ،فَلَمْ یَتَقَلَّدِ الْحُكْمَ فِی ذَلِكَ وَاكْتَفَى بِإِثْبَاتِ وُجُودِهِ، خِلَافًا لِمَنْ نَفَاهُ مُطْلَقًا مِنَ الْخَوَارِجِ وَبَعْضِ الْمُعْتَزِلَةِ، كَضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو وَبِشْرٍ الْمَرِیسِیِّ وَمَنْ وَافَقَهُمَا وَخَالَفَهُمْ فِی ذَلِكَ أَكْثَرُ الْمُعْتَزِلَةِ وَجَمِیعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَیْرِهِمْ، وَأَكْثَرُوا مِنَ الِاحْتِجَاجِ لَهُ وَذَهَبَ بَعْضُ الْمُعْتَزِلَةِ كَالْجَیَّانِیِّ إِلَى أَنَّهُ یَقَعُ عَلَى الْكُفَّارِ دُونَ الْمُؤْمِنِینَ،وَبَعْضُ الْأَحَادِیثِ الْآتِیَةِ تَرُدُّ عَلَیْهِمْ أَیْضًا

خلاصہ یہ ہے کہ مصنف (امام بخاری رحمہ اللہ )نے اس بارے میں کچھ تعرض نہیں فرمایاکہ عذاب قبرفقط روح کوہوتاہے یاروح اورجسم ہردوپرہوتاہے، اس بارے میں متکمین کابہت اختلاف ہے، حضرت امام نے قصداًاس بحث کوچھوڑدیااس لئے کہ ان کے حسب منشاء کچھ دلائل قطعی اس بارے میں نہیں ہیں ،پس آپ نے ان مباحث کوچھوڑدیااورصرف عذاب قبرکے وجود کو ثابت کردیا،جبکہ خوارج اورکچھ معتزلہ اس کاانکارکرتے ہیں ،جیسے ضراربن عمرو،بشرمریسی وغیرہ اوران لوگوں کی جملہ اہلسنت بلکہ کچھ معتزلہ نے بھی مخالفت کی ہے، اوربعض معتزلہ جیانی وغیرہ ادھرگئے ہیں کہ عذاب قبرصرف کافروں کوہوتاہے ایمان والوں کونہیں ہوتااورمذکوربعض احادیث ان کے اس غلط عقیدہ کی تردیدکررہی ہیں ۔[65]

بہرحال عذاب قبربرحق ہے جولوگ اس بارے میں شکوک وشہبات پیداکریں ان کی صحبت سے ہرمسلمان کودوررہناواجب ہے اوران کھلے ہوئے دلائل کے بعدبھی جن کی تشفی نہ ہوان کی ہدایت کے لئے کوشاں ہونابیکارمحض ہے ،وباللہ التوفیق۔

قال فی اللمعات: المراد بالقبر هنا عالم البرزخ، قال تعالى: ومن ورائهم برزخ إلى یوم یبعثون وهو عالم بین الدنیا والآخرة له تعلق بكل منهما، ولیس المراد به الحفرة التی یدفن فیها المیت، فرب میت لا یدفن كالغریق، والحریق، والمأكول فی بطن الحیوانات، یعذب، وینعم، ویسأل، وإنما خص العذاب بالذكر للاهتمام، ولأن العذاب أكثر لكثرة الكفار والعصاة -انتهى. قلت: حاصل ما قیل فی بیان المراد من البرزخ أنه اسم لأنقطاع الحیاة فی هذا العالم المشهود، أی دار الدنیا، وابتداء حیاة أخرى، فیبدأ شیء من العذاب أو النعیم بعد إنقطاع الحیاة الدنیویة، فهو أول دار الجزاء، ثم توفى كل نفس ما كسبت یوم القیامة عند دخولها فی جهنم أو الجنة، وإنما أضیف عذاب البرزخ ونعیمه إلى القبر لكون معظمه یقع فیه، ولكون الغالب على الموتى أن یقبروا، وإلا فالكافر ومن شاء الله عذابه من العصاة یعذب بعد موته ولو لم یدفن، ولكن ذلك محجوب عن الخلق إلا من شاءالله.

مختصرمطلب یہ ہے کہ لمعات میں ہے کہ یہاں قبرسے مرادعالم برزخ ہے جیساکہ قرآن مجیدمیں ہے کہ مرنے والوں کے لئے قیامت سے پہلے ایک عالم اورہے جس کانام برزخ ہے اوریہ دنیااورآخرت کے درمیان ایک عالم ہے جس کاتعلق دونوں سے ہے اورقبرسے وہ گڑھامرادنہیں جس میں میت کودفن کیاجاتاہے کیونکہ بہت سی میت دفن نہیں کی جاتی ہیں جیسے ڈوبنے والااورجلنے والااورجانوروں کے پیٹوں میں جانے والاحالانکہ ان سب کوعذاب وثواب ہوتاہے اوران سب سے سوال جواب ہوتے ہیں اور یہاں عذاب کاخاص طورپرذکرکیاگیاہے،اس لئے اس کاخاص اہتمام ہے اوراس لئے کہ اکثرطورپرگنہگاروں اورجملہ کافروں کے لئے عذاب ہی مقدرہے۔میں کہتاہوں کہ حاصل یہ ہے کہ برزخ اس عالم کانام ہے جس میں داردنیاسے انسان زندگی منقطع کرکے ابتدائے دارآخرت میں پہنچ جاتاہے ،پس دنیاوی زندگی کے انقطاع کے بعدوہ پہلاجزااورسزاکاگھرہے پھرقیامت کے دن ہرنفس کواس کاپوراپورابدلہ جنت یادوزخ کی شکل میں دیاجائے گااورعذاب اورثواب برزخ کوقبرکی طرف اس لئے منسوب کیاگیاہے کہ انسان اسی کے اندرداخل ہوتاہے اوراس لئے بھی کہ غالب موتی قبرہی میں داخل کئے جاتے ہیں ورنہ کافراورگنہگارجن کواللہ عذاب کرناچاہئے اس صورت میں بھی وہ ان کوعذاب کرسکتاہے کہ وہ دفن نہ کیے جائیں ،یہ عذاب مخلوق سے پردہ میں ہوتاہے(الامن شاء اللہ)

وقیل: لا حاجة إلى التأویل فإن القبر اسم للمكان الذی یكون فی المیت من الأرض، ولا شك أن محل الإنسان ومسكنه بعد انقطاع الحیاة الدنیویة هی الأرض كما أنها كانت مسكناً له فی حیاته قبل موته، قال تعالى {ألم نجعل الأرض كفاتاً، أحیاء وأمواتاًأی ضامة للأحیاء والأموات، تجمعهم وتضمهم وتحوزهم، فلا محل للمیت إلا الأرض، سواء كان غریقاً أو حریقاً أو مأكولاً فی بطن الحیوانات من السباع على الأرض، والطیور فی الهواء، والحیتان فی البحر، فإن الغریق یرسب فی الماء فیسقط إلى أسفله من الأرض، أو الجبل إن كان تحته جبل، وكذا الحریق بعد ما یصیر رماداً لا یستقر إلا على الأرض سواء أذرى فی البر أو البحر، وكذا المأكول، فإن الحیوانات التی تأكله لا تذهب بعد موتها إلا إلى الأرض، فتصیر تراباً.والحاصل أن الأرض محل جمیع الأجسام السفلیة ومقرها لا ملجأ لها إلا إلیها فهی كفات لها. واعلم أنه قد تظاهرت الدلائل من الكتاب والسنة على ثبوت عذاب القبر، وأجمع علیه أهل السنة، ولا مانع فی العقل أن یعید الله الحیاة فی جزء من الجسد أو فی جمیعه على الخلاف المعروف فیثیبه ویعذبه، وإذا لم یمنعه العقل، وورد به الشرع وجب قبوله واعتقاده، ولا یمنع من ذلك كون المیت قد تفرقت أجزاءه كما یشاهد فی العادة، أو أكلته السباع، والطیور، وحیتان البحر، كما أن الله تعالى یعیده للحشر وهو قادر على ذلك، فلا یستبعد تعلق روح الشخص الواحد فی آن واحد بكل واحد من أجزائه المتفرقة فی المشارق والمغارب، فإن تعلقه لیس على سبیل الحلول حتى یمنعه الحلول فی جزء من الحلول فی غیره، فلا استحالة فی تعذیب ذرات الجسم فی محالها، كیف وقد ثبت بالعقل والنقل الشعور فی الجمادات؟ قال فی مصابیح الجامع: وقد كثرت الأحادیث فی عذاب القبر حتى قال غیر واحد: إنها متواترة لا یصح علیها التواطئ وإن لم یصح مثلها لم یصح شیء من أمر الدین

اوریہ بھی کہاگیاہے کہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قبراسی جگہ کانام ہے جہاں میت کازمین میں مکان بنے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعدانسان کاآخری مکان زمین ہی ہے جیساکہ قرآن مجیدمیں ہے کہ ہم نے تمہارے لئے زمین کی زندگی اورموت ہرحال میں ٹھکانابنایاہے ،وہ زندہ اورمردہ سب کوجمع کرتی ہے اورسب کوشامل ہے پس میت ڈوبنے والے کی ہویاجلنے والے کی یابطن حیوانات میں جانے والے کی خواہ زمین کے بھیڑیوں کے پیٹ میں جائے یاہوامیں پرندوں کے شکم میں یادریامیں مچھلیوں کے پیٹ میں ،سب کانتیجہ مٹی ہونااورزمین میں ملناہے اورجان لوکہ کتاب وسنت کے ظاہردلائل کی بناپرعذاب قبربرحق ہے جس پرجملہ اسلام کااجماع ہے اوراس بارے میں اس قدرتواترکے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگران کوبھی صحیح نہ تسلیم کیاجائے تودین کاپھرکوئی بھی امرصحیح نہیں قراردیاجاسکتا۔[66] مزیدتفصیل کے لئے کتاب الروح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کامطالعہ کیاجائے۔

مگراتنی واضح اورمستندروایات کے باوجود تین گروہ عذاب قبرکے منکرہیں ۔

 معتزلہ :

پہلاگروہ معتزلہ کے نزدیک دینوی اوراخروی حیات کے درمیان کوئی اور حیات ہے نہ کوئی عذاب وتنعیم،وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے دوزندگیوں کا ذکر فرمایاہےایک دنیوی زندگی جو ماں کے پیٹ سے شرو ع ہوتی ہے اوردوسری اخروی حیات جس کی تعبیربعث بعدالموت ہے اوروہ آخرت ہے،جب تیسری حیات نہیں توپھر تنعیم وعذاب کاسوال پیدانہیں ہوتا ،اس سلسلہ میں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں ۔

 كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸ [67]

ترجمہ: تم اللہ کے ساتھ کفرکارویہ کیسے اختیارکرتے ہوحالانکہ تم بے جان تھے اس نے تم کوزندگی عطاکی،پھروہی تمہاری جان سلب کرے گاپھروہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گاپھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجاناہے۔

قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا۔۔۔ ۝۱۱ [68]

ترجمہ:وہ کہیں گے اے ہمارے رب!تونے واقعی ہمیں دودفعہ موت اوردودفعہ زندگی دے دی ہم اپنے قصوروں کااعتراف کرتے ہیں ۔

اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ۝۳۰ۡثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ۝۳۱ۧ [69]

ترجمہ:(اے نبی!)تمہیں بھی مرناہے اوران لوگوں کوبھی مرناہے آخرکار قیامت کے روزتم سب اپنے رب کے حضوراپنااپنامقدمہ پیش کروگے ۔

ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَ۝۱۵ۭثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ۝۱۶ [70]

ترجمہ:پھراس کے بعدتم کوضرورمرناہے پھر قیامت کے روزیقیناًتم اٹھائے جاؤ گے۔

مگراللہ تعالیٰ نے اس دنیامیں تین دفعہ حیات حقیقی عطافرمائی،اس سلسلہ میں سورة البقرہ میں پانچ واقعات ہیں ۔

وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۵ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۵۶ [71]

ترجمہ:یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ اللہ کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست کڑکے نے تم کو آلیا مگرپھرہم نے تم کوجلااٹھایا،شایدکہ اس احسان کے بعدتم شکرگزاربن جاؤ ۔

فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ یُـحْىِ اللهُ الْمَوْتٰى۝۰ۙ وَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۷۳ [72]

ترجمہ:اس وقت ہم نے حکم دیاکہ مقتول کی لاش کواس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ ، دیکھو اس طرح اللہ مردوں کوزندگی بخشتاہےاورتمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو ۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰۠ فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُوْتُوْا۝۰ۣ ثُمَّ اَحْیَاھُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ۝۲۴۳ [73]

ترجمہ:تم نے ان لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا مر جاؤ پھر اس نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَّهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِهَا۝۰ۚ قَالَ اَنّٰى یُـحْیٖ ھٰذِهِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِهَا۝۰ۚ فَاَمَاتَهُ اللهُ مِائَـةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ۝۰ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ۝۰ۭ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ۝۰ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ۔۔۔ ۝۲۵۹ [74]

ترجمہ:یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی ، اس نے کہا یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے اِسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ؟ اس پر اللہ نے اس کی رُوح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مُردہ پڑا رہا پھر اللہ نے اُسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟ اس نے کہا ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا ،فرمایا تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں ۔

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُـحْیِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝۰ۭ قَالَ بَلٰی وَلٰكِنْ لِّیَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۝۰ۭ قَالَ فَخُـذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا۔۔۔۝۰۝۲۶۰ۧ[75]

ترجمہ:فرمایااور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے ، جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے مالک! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے فرمایا کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ اس نے عرض کیاایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے، فرمایااچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کرلے پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔

اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات ہیں ،اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۥۙ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــــَٔــةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَاُبْرِیُٔ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ۝۰ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۴۹ۚ [76]

ترجمہ:(اورجب وہ بحیثیت رسول بنی اسرائیل کے پاس آیا تواس نے کہا ) میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کرآیاہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کاایک مجسمہ بناتاہوں اور اس میں پھونک مارتاہوں وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتاہے،میں اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اورکوڑھی کواچھاکرتاہوں اورمردے کوزندہ کرتاہوں ،میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیاکھاتے ہو اورکیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کرکے رکھتے ہو،اس میں تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگرتم ایمان لانے والے ہو۔

اِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَعَلٰی وَالِدَتِكَ۝۰ۘ اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝۰ۣ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَكَهْلًا۝۰ۚ وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ۝۰ۚ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِـاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِیْ وَتُبْرِیُٔ الْاَكْـمَهَ وَالْاَبْرَصَ بِـاِذْنِیْ۝۰ۚ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِیْ۝۰ۚ وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۱۰ [77]

ترجمہ:اے مریم رحمہ اللہ کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام یادکرو میری اس نعمت کوجومیں نے تجھے اور تیری ماں کوعطاکی تھی میں نے روح پاک سے تیری مددکی، توگہوارے میں لوگوں سے بات کرتاتھااور بڑی عمرکوپہنچ کربھی،میں نے تجھے کتاب اور حکمت اورتورات اورانجیل کی تعلیم دی ،تو میرے حکم سے مٹی کاپتلاپرندے کی شکل کا بناتااوراس میں پھونک مارتا تھااوروہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتاتھا،تومادرذاداندھے اورکوڑھی کومیرے حکم سے اچھا کرتا تھا تو مردوں کومیرے حکم سے نکالتاتھاپھرجب توبن اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لیکرپہنچااورجولوگ ان میں سے منکرحق تھے انہوں نے کہایہ نشانیاں جادوگری کے سوااورکچھ نہیں ہیں ۔

ان تمام آیات سے صراحتاًثابت ہواکہ اللہ تعالیٰ نے استثنائی صورت میں بعض لوگوں اوربعض حیوانوں کودنیامیں فوت کردینے کے بعددوبارہ زندہ کیا،ان آیات کی دورازکار تاویل کرنے والے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے منکرہیں ۔

 منکرحدیث :

دوسراگروہ منکرحدیث کاہے،وہ کہتے ہیں کہ متعددآیات سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعدسے لیکریوم حشرتک مردوں میں کسی قسم کااحساس وشعورنہیں ہوتا،جسم تو ویسے ہی مٹی میں گل سڑجاتاہے اورروح پربھی یہ زمانہ بس ایک گھڑی کے مانندگزرتاہے،بالفاظ دیگرجب کوئی مرتاہے اس وقت ہی اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے لہذا برزخ کازمانہ یا برزخ کی زندگی ناممکن سی باتیں ہیں ،قبرمیں پڑے مردوں کاکسی بات کاسننادرکنارشعورواحساس تک نہیں ہوتا۔[78]اس گروہ کی مشہور دلیل یہ آیت کریمہ ہے

قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا۔۔۔ ۝۵۲ [79]

ترجمہ:گھبراکرکہیں گےارےیہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھا کھڑاکیا ؟۔

وہ کہتے ہیں کہ رقاد کامعنی سونا ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَتَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا وَّهُمْ رُقُوْدٌ۔۔۔۝۱۸ [80]

ترجمہ:تم انہیں دیکھ کریہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سورہے تھے۔

اس گروہ نے بزرخ اور فصل زمانی کاانکاراس وجہ سے کیاکہ عذاب قبراوراحوال قبرسے انکارکرسکے۔

 جسمانی عذاب قبرکے منکر:

تیسراگروہ جوعذاب قبرکاتوقائل ہے اورقبرسے برزخ مرادلیتاہےوہ صرف روح کے لئے عذاب وتنعیم کاقائل ہے،بدن کے متعلق کسی قسم کی حیات اورعذاب وتنعیم کا عقیدہ نہیں رکھتااوردنیاوی قبرمیں عذاب کا بالکل منکرہے،یعنی عذاب قبراورعذاب فی القبرمیں کوئی فرق نہیں کرتا۔

یہ سارے فرقے اس مسئلے میں انکارحدیث کے مرتکب ہیں جبکہ ان کے بالمقابل اہل سنت والجماعت کاعقیدہ ہے کہ قبرمعروف(مدفن)میں جوبدن ہے یابدن کے ذرات جہاں بھی بکھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت عظیمہ سے ان کو(اگرعذاب کے مستحق ہوں )عذاب میں مبتلاکردیتاہے اوراسے عذاب فی القبر(دنیاوی قبرمیں عذاب ) کہاجاتاہےاورروح کوبھی عذاب ہوتاہے،لیکن روح کے لئے الگ مستقرہے (مسئلہ مستقرارواح،شرح عقیدہ طحاویة ،مجموعة الفتاوی مولاناعبدالحی لکھنوی) عذاب قبرکے بارے میں تفصیل اوپربیان کردی گئی ہے۔

 عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود(رازدان رسول)

عَنْ عُبَیْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ رَجُلا نَحِیفًا قَصِیرًا أَشَدَّ الأُدْمَةِ. وَكَانَ لا یُغَیِّرُ

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے مروی ہےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دبلے،پست قداورنہایت گندم گوں آدمی تھے ،وہ متغیرنہیں ہوتے تھے یعنی ان کے سراورداڑھی کے بال اپنارنگ نہیں بدلتے تھے۔ [81]

عَنْ إِبْرَاهِیمَ عَنْ عَلْقَمَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ یُكْنَى أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ.

ابراہیم بن علقمہ کہتے ہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودجن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن تھی۔ [82]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنْتُ غُلامًا یَافِعًا أَرْعَى غنما لعقبة ابن أَبِی مُعَیْطٍ فَجَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَقَدْ فَرَّا مِنَ الْمُشْرِكِینَ فَقَالا: یَا غُلامُ هَلْ عِنْدَكَ مِنْ لَبَنٍ تَسْقِیَنَا؟ فَقُلْتُ: إِنِّی مُؤْتَمَنٌ وَلَسْتُ سَاقِیَكُمَا. فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ عِنْدَكَ مِنْ جَذَعَةٍ لَمْ یَنْزُ عَلَیْهَا الْفَحْلُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. فَأَتَیْتُهُمَا بِهَا فَاعْتَقَلَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ الضَّرْعَ وَدَعَا فَحَفَّلَ الضَّرْعُ ثُمَّ أَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ بِصَخْرَةٍ مُتَقَعِّرَةٍ فَاحْتَلَبَ فِیهَا فَشَرِبَ أَبُو بَكْرٍ. ثُمَّ شَرِبْتُ ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ اقْلِصْ فَقَلَصَ. قَالَ: فَأَتَیْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقُلْتُ:عَلِّمْنِی مِنْ هَذَا الْقَوْلِ. قَالَ: إِنَّكَ غُلامٌ مُعَلَّمٌ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں جب قریب بلوغ کے تھاتو سردارقریش عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایاکرتاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ دین کے سلسلے میں مکہ مکرمہ سے باہرنکل جاتے تھے ، ایک مرتبہ اسی سلسلہ میں کہیں سے تشریف لارہے تھے کہ اثنائے راہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہوگئی جو تھکے ہوئے اورپیاس سے نڈھال ہورہے تھے ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سناہواتوتھامگرسارادن باہر گزارنے کی وجہ سے ملاقات نہیں تھی اس لئے پہچان نہ سکے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہااے لڑکے تمہارے پاس کچھ دودھ ہے جوتم ہمیں پلادوتاکہ ہم اپنی پیاس بجھا سکیں ؟ مگرعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کمال امانت ودیانت داری کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا یہ بکریاں میرے پاس کسی کی امانت ہیں میں کسی بکری کوآپ کے حوالے نہیں کرسکتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا کسی ایسی بکری کابتلاوابھی گابھن نہ ہوئی ہو، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہاہاں ،اورایک پٹھ بکری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ٹانگ اپنی ران میں دبائی اوربکری کے تھنوں پرہاتھ پھیرااوردعاکی اورپھرتھن چھوڑدیا،اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تھنوں میں دودھ بھرآیا پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پتھر لائے جس کے بیچ میں گڑھاتھانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دوہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دودھ پیا اور ان کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھن سے فرمایاسکڑجااوروہ سکڑگیا،یہ واقعہ ان کے لئے باعث رحمت بن گیا او چنددن کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلےانہوں نے اسلام قبول کرلیا اور عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے یہ کلام سکھلائیں یااس قرآن مجیدکومجھے سکھلائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سرپراپنادست مبارک پھرتے ہوئے فرمایاتم تعلیم یافتہ لڑکے ہو ۔[83]

عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ:أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ قَبْلَ دُخُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَارَ الْأَرْقَمِ

یزیدبن رومان کہتے ہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے ایمان لائے۔ [84]

أسلم بعدهم ثلاثة عشر رجلا

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودتیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعدایمان لائے۔ [85]

عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:كَانَ أَوَّلَ مَنْ جَهَرَ بِالْقُرْآنِ بِمَكَّةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ

عروہ بن مسعودکہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودہی ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ میں علی الاعلان قرآن کی تلاوت کی۔[86]

انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اخلاق اتنے دلفریب محسوس ہوئے کہ عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چھوڑکرانہوں نے اپنامشن ہی یہ بنالیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن اقدس میں رہے کران کی ادنیٰ ترین خدمت بجالانی ہےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات وسیرت کی پیروی کرنی ہے، کیونکہ ابھی کم سن تھے اورپردہ کاحکم بھی نازل نہیں ہواتھا اس لئے انہیں گھرمیں آنے کی اجازت تھی اوروہ ہمہ تن خدمت کے لئے موجود رہتے ،

كَانَ عَبْدُ اللَّهِ یُلْبِسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَعْلَیْهِ ثُمَّ یَمْشِی أَمَامَهُ بِالْعَصَا حَتَّى إِذَا أَتَى مَجْلِسَهُ نَزَعَ نَعْلَیْهِ فَأَدْخَلَهُمَا فِی ذِرَاعَیْهِ وَأَعْطَاهُ الْعَصَا فَإِذَا أراد رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. أن یقوم ألبسه ثُمَّ مَشَى بِالْعَصَا أَمَامَهُ حَتَّى یَدْخُلَ الْحُجْرَةَ قَبْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ صَاحِبَ سَوَادِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْنِی سِرَّهُ. وَوِسَادِهِ. یَعْنِی فِرَاشَهُ. وَسِوَاكِهِ وَنَعْلَیْهِ وَطَهُورِهِ وَهَذَا یَكُونُ فِی السَّفَرِیہ سفرمیں ہوتاتھا كَانَ عَبْدُ اللَّهِ یَسْتُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ وَیُوقِظُهُ إِذَا نَامَ وَیَمْشِی مَعَهُ فِی الأَرْضِ وَحْشًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حجرے سے باہر جانے کا ارادہ فرماتے توپہننے کے لئے جوتے قریب لا کر رکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے عصالے کرچلتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف لاتے توپاؤ ں مبارک سے نعلین اتارتے اوراپنی باہوں (بغل میں ) دبا لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوعصادے دیتے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھنے کاارادہ فرماتے تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونعلین پہنادیتے عصالے کرآگے چلتے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حجرے میں داخل ہو جاتے، عبداللہ بن مسعودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کابستررکھنے اوربچھانے والے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک اورنعلین مبارک رکھنے والے اور وضوکاپانی رکھنے والے تھے،اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل فرماتے توعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پردے کااہتمام کرتےاورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبیدارکرتے تھےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفرمیں مسلح ہوکر جاتے تھے۔ [87]

هَاجَرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ الْهِجْرَتَیْنِ جَمِیعًا

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودحبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں قافلہ حق کے ہمراہ رہے۔[88]

جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالا: لَمَّا هَاجَرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ.

جعفربن زبیرکہتے ہیں جب عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودنے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تومعاذبن جبل کے ہاں قیام کیا۔[89]

عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ابن قَتَادَةَ قَالَ: نَزَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ حِینَ هَاجَرَ عَلَى سَعْدِ بْنِ خَیْثَمَةَ.

عاصم بن عمرابن قتادہ کہتے ہیں جب عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودنے ہجرت کی توسعدبن خیثمہ کے ہاں قیام کیا۔[90]

الْحَارِثِ التَّیْمِیُّ عَنْ أَبِیهِ قَالَ:وآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ،قَالَ: آخَى رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – بَیْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَالزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ.

حارث تمیمی اپنے والدسے روایت کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصارمیں بھائی چارہ قائم فرمایاتو عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعوداور معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل میں بھائی چارہ قائم کیا،یہ بھی کہاجاتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا۔[91]

وشهد بدرًا، وأُحدًا، والخندق، وبیعة الرضوان، وسائر المشاهد مَعَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وشهد الیرموك بعد النَّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

وہ غزوہ بدر،غزوہ احد، غزوہ خندق،بیت رضوان اوررسول اللہ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدآپ رضی اللہ عنہ جنگ یرموک میں بھی شریک ہوئے۔ [92]

وَشَهِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ بَدْرًا وَضَرَبَ عُنُقَ أَبِی جَهْلٍ بَعْدَ أَنْ أَثْبَتَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ. وَشَهِدَ أُحُدًا وَالْخَنْدَقَ وَالْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود غزوہ بدرمیں شریک ہوئے اورعفراء کے بیٹوں کے بعدانہوں نے فرعون امت ابوجہل کی گردن کاٹی تھی وہ غزوہ احد،غزوہ خندق اورتمام غزوات میں شریک رہے۔[93]

عَنْ أُمِّ مُوسَى، قَالَتْ:سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُولُ:أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ مَسْعُودٍ فَصَعِدَ عَلَى شَجْرَةٍ یَأْتِیهِ مِنْهَا بِشَیْءٍ، فَنَظَرَ أَصْحَابُهُ إِلَى سَاقِ عَبْدِ اللَّهِ فَضَحِكُوا مِنْ حُمُوشَةِ سَاقَیْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَضْحَكُونَ؟ لَرِجْلُ عَبْدِ اللَّهِ أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنْ أُحُدٍ

ام موسی کہتی ہیں میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوحکم فرمایاکہ وہ اس درخت پرچڑھیں اوراس کی کوئی چیز (پیلو یا مسواک) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائیں ،اصحاب رضی اللہ عنہم نے ان کی پتلی پتلی پنڈلیں دیکھیں توہنسنے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اس کی پتلی پنڈلیں دیکھ کرہنس رہے ہومگرروزقیامت میزان عدل میں اس کی پنڈلیاں احدپہاڑسے زیادہ وزنی ہوں گی۔ [94]

قرآن مجید آیات اور مکمل سورتوں کی شکل میں ان کے سامنے نازل ہوتارہا اس لئے فرماتے تھے

وَالَّذِی لَا إِلَهَ غَیْرُهُ مَا مِنْ كِتَابِ اللهِ سُورَةٌ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ حَیْثُ نَزَلَتْ، وَمَا مِنْ آیَةٍ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِیمَا أُنْزِلَتْ وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا هُوَ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللهِ مِنِّی، تَبْلُغُهُ الْإِبِلُ، لَرَكِبْتُ إِلَیْهِ

اللہ کی قسم !جس کے سواکوئی معبودنہیں اللہ کی کتاب( قرآن مجید)میں کوئی ایسی سورت نہیں ہے مگرمیں جانتاہوں ہوں کہ وہ کہاں نازل ہوئی اورکوئی آیت ایسی نہیں ہے مگرمیں جانتاہوں کہ وہ کس باب میں نازل ہوئی ، اوراگرمجھے معلوم ہوتاکہ کسی کواللہ کی کتاب کاعلم مجھ سے زیادہ ہے اوراس تک اونٹ پہنچ سکتے ہیں تومیں سوارہوکراس کے پاس جاتا۔[95]

آپ رضی اللہ عنہ کا حافظہ خوب تھااس پرقرآن فہمی کاشوق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نازل شدہ آیات اوران کی تعلیمات صحابہ کرام کو دیتے رہے،جسے سن اورسمجھ کرآپ دوسرے صحابہ سے ممتاز ہوگئے ،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَقَالَ: ذَاكَ رَجُلٌ لاَ أَزَالُ أُحِبُّهُ، سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:خُذُوا القُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَبَدَأَ بِهِ ، وَسَالِمٍ، مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ

عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچارلوگوں سے قرآن سیکھو، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود،سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ، معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل اورابی بن کعب رضی اللہ عنہ ۔[96]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ عَلَیَّ سُورَةَ النِّسَاءِ، قَالَ قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَیْكَ وَعَلَیْكَ أُنْزِلَ؟قَالَ: إِنِّی أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَیْرِی، فَقَرَأْتُ عَلَیْهِ حَتَّى بَلَغْتُ:

فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍؚبِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِیْدًا۝۴۱ۭ ۬ یَوْمَىِٕذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ۝۰ۭ وَلَا یَكْتُمُوْنَ اللهَ حَدِیْثًا ۝۴۲ۧ

قَالَ: حَسْبُكَ الآنَ فَالْتَفَتُّ إِلَیْهِ، فَإِذَا عَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایامیرے سامنے سورہ النساء کی تلاوت کرومیں نے عرض کیامیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کروں جبکہ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوتاہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے یہ پسندہے کہ دوسروں سے قرآن کی تلاوت سنوں ،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ النساء کی تلاوت کی جب میں اس آیت تک پہنچا’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے،اس دن تمنا کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اور رسول کی نافرمانی کی تھی کہ کاش ان کے سمیت زمین برابرکردی جائے اور وہ اللہ سے کوئی بات بھی چھپا نہیں سکیں گے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپڑھنابس کرو،تومیں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤ ں سے بھرگئیں تھیں ۔[97]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے علم قرآن کے ساتھ حسن قرات سے بھی نوازاتھاایسی خوش الحانی اورسوزکے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے تھے کہ درودیواروجدمیں آجاتے تھے،

عن عبد الله، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یمر بین أبی بكر وعمر، وعبد الله یصلی، فافتتح سورة النساء، ویسجلها فقال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: من أحب أن یقرأ القرآن غضاً كما أنزل فلیقرأ قراءة ابن أم عبد. ثم سأل فی الدعاء، فجعل رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یقول:سَلْ تُعْطَهْ،سَلْ تُعْطَهْ،سَلْ تُعْطَهْ

عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نمازمیں سورہ النساء پڑھ رہے تھے کہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی معیت میں مسجدتشریف لائے اوران کے اندازتلاوت سے اس قدر مسرورہوئے کہ جب وہ نمازسے فارغ ہوئے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(جو)سوال کروپوراکیاجائے گا (جو) سوال کروپوراکیاجائے گاپھرارشادہواجوشخص چاہتاہے کہ قرآن کواسی طرح تروتازہ پڑھناسیکھے جس طرح وہ نازل ہواہے تووہ قرات میں ابن ام عبدکی اقتداء کرے۔[98]

فَرَجَعَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: الدُّعَاءُ الَّذِی كُنْتَ تَدْعُو بِهِ آنِفًا أَعِدْهُ عَلَیَّ، فَقَالَ: حَمِدْتُ اللَّهَ وَمَجَّدْتُهُ ثُمَّ قُلْتُ: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَعْدُكَ حَقٌّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَرُسُلُكَ حَقٌّ وَكِتَابُكَ حَقٌّ وَالنَّبِیُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ إِیمَانًا لَا یَرْتَدُّ وَنَعِیمًا لَا یَنْفَدُ وَقُرَّةَ عَیْنٍ لَا تَنْقَطِعُ ، وَمُرَافَقَةَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَعْلَى جَنَّةِ الْخُلْدِ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف گئے اورکہامیرے لیے بھی وہی دعاکروجواپنے لیے کی ہے،پہلے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور تمجیدبیان کی، پھرکہااللہ کے سواکوئی الٰہ نہیں ہے،اس نے جووعدے فرمائے ہیں وہ حق ہیں ، روزقیامت اس کے دربارمیں حاضرہونا حق ہے،اوراس نے نیکوکاروں کےلیے جوجنت تیارکی ہے وہ حق ہے اورگناہ گاروں کے لیے جوجہنم تیارکی ہے وہ حق ہے اور اس نے جتنے بھی رسول مبعوث فرمائے حق ہیں ،اوراس نے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائیں حق ہیں ،اور اس نے جتنے بھی نبی مبعوث فرمائے ہیں حق ہیں ،اور اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے،اے اللہ!میں تجھ سے ایساایمان چاہتاہوں جومتزلزل نہ ہو جائے، اورایسی نعمتیں چاہتاہوں جوختم نہ ہوں ،اورایسی آنکھوں کی ٹھنڈک چاہتاہوں جوزائل نہ ہواوراعلی جنتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت چاہتاہوں ۔[99]

عن أبی الدرداء قال قام رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فخطب خطبة خفیفة ، فلما فرغ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من خطبته قال: یا أبا بكر قم، فاخطب، فقام أبو بكر فخطب فقصر دون النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فلما فرغ أبو بكر من خطبته قال: یا عمر قم فاخطب، فقام عمر فخطب فقصر دون النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثم قال: یا بن أم عبد، قم فاخطب، فقام ابن أم عبد، فحمد الله وأثنى علیه، ثم قال: أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ رَبُّنَا وَإِنَّ الإِسْلاَم دِیْنُنَا وَإِنَّ القُرْآنَ إِمَامُنَا وَإِنَّ البَیْتَ قِبْلَتُنَا وَإِنَّ هَذَا نَبِیُّنَا وَأَوْمَأَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَضِیْنَا مَا رَضِیَ اللهُ لَنَا وَرَسُوْلُهُ وَكَرِهْنَا مَا كَرِهَ اللهُ لَنَا وَرَسُوْلُهُ ، فقال رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أصاب ابن أم عبد وصدق. مرتین،رَضِیتُ بما رَضِیَ الله به لِأُمَّتِی وابْنُ أُمِّ عَبْدٍ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشادکرنے کے لیے کھڑے ہوئے اورمختصرخطبہ ارشادفرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے فارغ ہوئے توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ !کھڑے ہواورخطبہ دو، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر خطبہ دیا، جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خطبہ سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !کھڑے ہواور خطبہ دو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصرخطبہ دیا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنارخ انور عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودکی طرف پھیرااور فرمایااے ابن ام عبدکھڑے ہواورخطبہ دو،ابن ام عبدکھڑے ہوئے پہلے اللہ عزوجل کی حمدوثنابیان کی پھرکہااے لوگو!بے شک اللہ عزوجل ہمارامالک ہے اوربے شک اسلام ہمارادین ہے اوربے شک قرآن ہماراامام اوربے شک کعبہ ہماراقبلہ ہے اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرکے)یہ ہمارے رسول اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،اللہ اوراس کے رسول نے جوچیزیں ہمارے لیے پسندفرمائی ہیں ہم نے وہ بھی چیزیں پسندکیں اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کوہمارے لیے مکروہ سمجھاہے ہم نے بھی وہ چیزیں مکروہ سمجھیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کاخطبہ سن کربہت خوش ہوئے اورفرمایاابن ام عبدنے ٹھیک کہاہے،ابن ام عبدنے ٹھیک کہااورسچ کہاہے،میں راضی ہوگیااس سے جس سے اللہ راضی ہے ،میرے لیے ، میری امت کے لیے اورابن ام عبدکے لیے۔ [100]

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعوداپنے خطبات ومواعظ میں بالعموم توحیدونمازباجماعت اورخوف آخرت کی تلقین فرمایاکرتے تھے،ان کے ارشادات کے چندفقرے ملاحظہ ہوں ۔

أَیُّهَا النَّاسُ من أراد الآخرة أضرَّ بالدنیا، ومن أراد الدنیا أضرَّ بالآخرة، یا قوم فأَضروا بالفانی للباقی.

لوگو!جس نے دنیاکاارادہ کیااس نے آخرت کونقصان پہنچایااورجس نے آخرت کاارادہ کیااس نے دنیاکونقصان پہنچایا،تمہیں چاہیے کہ فانی کاخسارہ باقی کے لیے برداشت کرو۔

أَیُّهَا النَّاسُ ومن یستكبر یضعه الله ومن یبتغ السمعة یسمع الله به ومن ینوی الدنیا تعجزہ فإنه من تواضع فی الدنیا یرفعه الله یوم القیامة

لوگو!جودنیامیں ریاکاری کرے اللہ قیامت کے دن اس کوریاکاری کابدلہ دے گا،جودنیامیں شہرت کے لیے کام کرتاہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کام کی شہرت کرائے گا(اوراس کے لیے جزاکچھ نہیں )اورجوعظمت اوربڑائی کی خاطربلندی اختیارکرتاہے اللہ اس کوگرادے گااورجس نے ازراہ خشوع تواضع اختیارکی اللہ اس کو سربلند کرے گا۔

تعبد الله، ولا تشرك به شیئا، وتزول مع القرآن أینما زال، ومن جاءك بصدق من صغیر أو كبیر، وإن كان بعیدا بغیضا، فاقبله منه، ومن جاءك بكذب، وإن كان حبیبا قریبا، فاردده علیه

بھائیو!اللہ کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو،قرآن کے ساتھ چلووہ جہاں تمہیں لے جائے اورجوتمہارے پاس حق لائے اسے قبول کرواگرچہ حق لانے والاکتناہی غیرہواورتمہیں اس سے دشمنی ہواورجوتمہارے پاس باطل لائے اس کوردکردواگرچہ وہ تمہاراکتناہی دوست اورقریبی رشتہ دارہو۔

التی لو حلفت علیها لبَررْت: لا یَسْتُر الله على عبد فی الدُّنیا، إلَّا سَتَر علیه فی الآخرة

لوگو!اگرمیں اس بات پرقسم کھالوں توحانث نہ ہوں گاکہ جب اللہ نے دنیامیں کسی بندہ کی پردہ پوشی کی تووہ ضرورآخرت میں بھی اس کی پردہ پوشی کرے گا۔

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا دُونَ شُورَى الْمُسْلِمِینَ لأَمَّرْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کے علاوہ کسی اور کو امیر بناتا تو ابن ام عبدو، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود کو امیر بناتا۔ [101]

عَن عَلیّ قَالَ قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَو كنت مستخلفا أحدا على أمتِی من غیر مشورة لاستخلفت عَلَیْهِم عبد الله بن مَسْعُود

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں مسلمانوں کی مجلس شوریٰ کے علاوہ کسی اور کو امیر بناتا تو عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود کو امیر بناتا۔[102]

عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ یُشَبَّهُ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی هَدْیِهِ وَدَلِّهِ وَسَمْتِهِ. وَكَانَ عَلْقَمَةُ یُشَبَّهُ بِعَبْدِ اللَّهِ .

علقمہ سے مروی ہےعبداللہ بن مسعودکوان کے طریقے ،ان کی حسن سیرت اوران کی میانہ روی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تشبیہ دی جاتی تھی اورعلقمہ رضی اللہ عنہ کوعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔[103]

عَن الشعبی، قال:أول من قضى بالكوفة عَبْد اللهِ بْن مسعود

شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کوفہ میں سب سے پہلے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود کوقاضی مقررکیاگیا۔[104]

عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرَّبٍ، قَالَ: قَرَأْتُ كِتَابَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ إِنِّی قَدْ بَعَثْتُ إِلَیْكُمْ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ أَمِیرًا، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ مُعَلِّمًا وَوَزِیرًا، وَهُمَا مِنَ النُّجَبَاءِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ فَخُذُوا عَنْهُمَا وَاقْتَدُوا بِهِمَا وَإِنِّی قَدْ آثَرْتُكُمْ بَعَبْدِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِی أَثَرَةً .

حارث بن مضرب کہتے ہیں میں نےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کامکتوب پڑھاتھاجوانہوں نے اہل کوفہ کوخط لکھاتھامیں نے تمہاری طرف عمار رضی اللہ عنہ بن یاسرکو امیر بناکراور عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودکومعلم اوران کاوزیربناکربھیجاہے، یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اوراہل بدرمیں سے ہیں ،ان دونوں کی اطاعت کومضبوطی سے پکڑلومیں نے عبدالله کواپنے اوپرترجیح دی ہے۔[105]

عبداللہ بن مسعودچاشت کی نمازاورنفلی روزں کی پابندی کرتے تھے۔

ابْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ:مَا نِمْتُ الضُّحَى مُنْذُ أَسْلَمْتُ ، أَنَّهُ كَانَ یَصُومُ الاثْنَیْنَ وَالْخَمِیسَ

چنانچہ وہ فرماتے تھےجب سے میں نے اسلام قبول کیاہے چاشت کے وقت نہیں سویا(یعنی اس وقت نمازپڑھتارہاہوں ) اورفرماتے تھے میں سومواراورجمعرات کاروزہ رکھتا رہاہوں ۔ [106]

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَانَ یَقُومُ قَائِمًا كُلَّ عَشِیَّةِ خَمِیسٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعرات کی رات کوساری رات نمازکے لیے کھڑے رہتے تھے۔[107]

عَنْ زَیْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ:كُنْتُ جَالِسًا فِی الْقَوْمِ عِنْدَ عُمَرَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ نَحِیفٌ قَلِیلٌ. فَجَعَلَ عُمَرُ یَنْظُرُ إِلَیْهِ وَیَتَهَلَّلُ وجهه ثم قال: كنیف ملیء علما. كنیف ملیء علما. كنیف ملیء عِلْمًا. فَإِذَا هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ

زیدبن وہب کہتے ہیں میں قوم کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھاہواتھاکہ ایک دبلاپتلاآدمی آیا،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اورخوشی سے ان کاچہرہ کھل اٹھااورفرمایایہ ایک ظرف ہے علم سے بھراہوا،یہ ایک ظرف ہے علم سے بھراہوا،یہ ایک ظرف ہے علم سے بھراہوا،یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ [108]

عن أبی وائل أن ابن مسعود رأى رجلا قد أسبل إزاره، فقال:ارفع إزارك، وأنت یا ابن مسعود فارفع إزارك ، فقال: إنی لست مثلك، إن بساقی.حموشة ، وأنا آدم الناس ، فبلغ ذلك عمر، فضرب الرجل، ویقول: أتردّ على ابن مسعود!

ابووائل سے مروی ہے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودنے ایک شخص کودیکھاکہ اس کی چادراس کے ٹخنوں سے نیچے تھی آپ نے اسے کہااپنی چادراپنے ٹخنوں سے اوپرکرلو،اس شخص نے جواب دیاابن مسعود!تم بھی تہہ بنداوپرکرکے باندھو،انہوں نے فرمایابھائی میں معذورہوں کیونکہ میری ٹانگیں بہت پتلی ہیں ،سیدناعمرنے یہ واقعہ سناتواس شخص کوبلاکردرے لگوائے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودجیسی شخصیت سے منہ زروی کی۔[109]

عَنْ خَیْثَمِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ أَوْصَى أَنْ یُكَفَّنَ فِی حُلَّةٍ بِمِائَتَیْ دِرْهَمٍ.

خثیم بن عمروسے مروی ہے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود نے مرض الموت میں اپنے اہل خانہ کووصیت فرمائی کہ انہیں دوسودرہم کی چادرکا کفن دیاجائے۔[110]

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ: مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ بِالْمَدِینَةِ وَدُفِنَ بِالْبَقِیعِ سَنَةَ اثْنَتَیْنِ وَثَلاثِینَ.

عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودکی ۲۳ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی اوربقیع میں ( عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون کے پہلومیں ) دفن ہوئے۔ [111]

وصلى عَلَیْهِ عثمان، وقیل: صلى عَلَیْهِ عمار بْن یاسر. وقیل: صلى عَلَیْهِ الزُّبَیْر

ان کی نمازجنازہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی،یہ بھی کہاجاتاہے کہ عمار رضی اللہ عنہ بن یاسرنے پڑھائی اور یہ بھی کہاجاتاہے زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام نے پڑھائی۔[112]

عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ: تُوُفِّیَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَهُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَسِتِّینَ سَنَةً.

عون بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودکی وفات ہوئی تووہ ساٹھ برس سے زائدتھے۔[113]

عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ قَالَ: تَرَكَ ابْنُ مَسْعُودٍ تِسْعِینَ أَلْفَ دِرْهَمٍ.

زربن حبیش کہتے ہیں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود نے اپنے ترکہ میں نوے ہزاردرہم چھوڑے۔[114]

[1] الانعام۹۶

[2] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ كَیْفَ الحَشْرُ۶۵۲۷ ،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۷۱۹۸ ،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الْبَعْثِ ۴۲۷۶،سنن نسائی کتاب الجنائز باب الْبَعْثُ۲۰۸۶، مسند احمد ۲۴۲۶۵

[3] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ یَقْبِضُ اللَّهُ الأَرْضَ یَوْمَ القِیَامَةِ ۶۵۲۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۵۹۰۸،شرح السنة للبغوی ۴۳۰۵

[4] الانبیاء ۴۷

[5] الاعراف ۸،۹

[6] صحیح بخاری کتاب التوحیدالجھمیة بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۷۴۴۳،شرح السنة للبغوی ۴۲۳۸

[7] صحیح بخاری کتاب التوحیدالجھمیة بابوُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ۷۴۳۴

[8] الاعراف۸،۹

[9] القارعة ۶تا۱۱

[10] الکہف۱۰۵،۱۰۶

[11] سنن ابوداودکتاب السنتہ بَابٌ فِی ذِكْرِ الْمِیزَانِ۴۷۵۵

[12] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ یَدْخُلُ الجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ۶۵۴۱

[13] تفسیرالالوسی ۔ روح المعانی ۴۵۲؍۸

[14] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ ۲۴۴۱

[15] جامع ترمذی ابواب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَمُوتُ وَهُوَ یَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ۲۶۳۹

[16] یٰسین۶۵

[17] حم السجدة۱۹تا۲۳

[18] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب لدنیاسجن المومن وجنت الکافر ۷۴۳۹،صحیح ابن حبان۷۳۵۸،شعب الایمان۲۶۰، مسندابی یعلی۱۱۷۳

[19] البقرة: 143

[20] البقرة: 143

[21] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بقرہ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَكُونَ الرَّسُولُ عَلَیْكُمْ شَهِیدًا۴۴۸۷

[22] سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ صِفَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۴۲۸۴

[23] ھود۱۸

[24] صحیح بخاری کتاب المظالم بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ ۲۴۴۱ ،مسنداحمد۵۴۳۶،المعجم الاوسط ۳۹۱۵،صحیح ابن حبان ۷۳۵۶

[25] مریم۷۱،۷۲

[26] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ ۴۵۵،مسنداحمد۲۴۷۹۳،صحیح ابن حبان ۷۳۷۷،شعب الایمان ۳۶۰

[27] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ ۴۵۳، مستدرک حاکم ۸۷۳۶،صحیح ابن حبان ۷۳۷۷،شعب الایمان ۳۶۷،الترغیب والترھیب للمنذری ۵۴۶۶

[28] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ ۸۰۶، الترغیب والترھیب للمنذری۵۴۶۵

[29] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ ۴۵۳،مستدرک حاکم ۸۷۳۶، صحیح ابن حبان ۷۳۷۷،شعب الایمان ۳۶۷،الترغیب والترھیب للمنذری ۵۴۶۶

[30] جامع ترمذی ابواب صفة القیامة بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الصِّرَاطِ ۲۴۳۳، مسند احمد۱۲۸۲۵

[31] المدثر۲۷تا ۲۹

[32] الاعلیٰ۱۱تا۱۳

[33] بنی اسرائیل۹۷

[34] المعجم الاوسط ۲۵۸۳، الترغیب والترھیب للمنذری ۵۵۳۸

[35] سنن ابن ماجہ کتاب الزھدباب الحزن والبکائ۴۱۹۰

[36] سنن ابن ماجہ کتاب بَابُ ذِكْرِ الشَّفَاعَةِ۴۳۲۰،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۱۶۵

[37] البلد۱۹،۲۰

[38] الھمزة۵تا۹

[39] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا۵۱۴،صحیح ابن حبان ۷۴۷۲،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۱۳۴، الترغیب والترھیب ۵۶۰۵

[40] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ۶۵۶۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا ۵۱۷، جامع ترمذی ابواب الجہنم باب۱۵۴۷،ح۲۶۰۴، مسند احمد ۱۸۴۱۳،مستدرک حاکم۸۷۳۳،شرح السنة للبغوی۴۴۰۱،الترغیب والترھیب للمنذری ۵۶۰۴

[41] صحیح مسلم کتاب المنافقین بَابُ صَبْغِ أَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْیَا فِی النَّارِ وَصَبْغِ أَشَدِّهِمْ بُؤْسًا فِی الْجَنَّةِ۷۰۸۸، مسند احمد ۱۳۱۱۲،شرح السنة للبغوی۴۴۰۴،الترغیب والترھیب للمنذری۵۶۱۴

[42] ابراہیم۳۴

[43] بنی اسرائیل۳۶

[44] جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ بَابٌ فِی الْقِیَامَةِ ۲۴۱۷، المعجم الاوسط۲۱۹۱،سنن دارمی ۵۵۴، الترغیب والترھیب للمنذری۵۴۴۳

[45] جامع ترمذی کتاب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِی مَعِیشَةِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۲۳۶۹

[46]تفسیر القرطبی ۱۷۶؍۲۰

[47] تفسیرالقرطبی۱۷۷؍۲۰

[48] تفسیر القرطبی۱۷۸؍۲۰

[49] شعب الایمان ۹۷۶۷،مستدرک حاکم۷۸۴۶، السنن الکبری للنسائی۱۱۸۳۲،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۳۱۹،شرح السنة للبغوی۴۰۲۱

[50] الواقعة: 83

[51] الواقعة: 95

[52] النساء: 113

[53] الجمعة: 2

[54] الجمعة: 2

[55] الأحزاب: 34

[56] الأنعام: 93

[57] غافر: 45

[58] غافر: 46

[59] الطور: 45

[60] لوامع الأنوار البهیة ۷۵؍۱

[61] التكاثر: 1

[62] الطور: 47

[63] السجدة: 21

[64] لوامع الأنوار البهیة۱۳؍۲

[65] فتح الباری۲۳۳؍۳

[66] مرعاة۲۱۷؍۱

[67] البقرة۲۸

[68] المومن۱۱

[69]الزمر۳۰، ۳۱

[70] المومنون ۱۵،۱۶

[71] البقرة۵۶،۵۵

[72] البقرة۷۳

[73] البقرة۲۴۳

[74] البقرة۲۵۹

[75] البقرہ۲۶۰

[76] آل عمران۴۹

[77] المائدة۱۱۰

[78] آئینہ پرویزیت۳۷۴

[79] یٰسین۵۲

[80] الکہف۱۸

[81] ابن سعد۱۱۷؍۳

[82] ابن سعد۱۱۱؍۳

[83] اسد الغابة ۳۸۱؍۳

[84] ابن سعد۱۵۱؍۳

[85] تاریخ دمشق لابن عساکر۶۹؍۳۳

[86] اسد الغابة ۳۸۱؍۳

[87] ابن سعد ۱۱۳؍۳

[88] ابن سعد۱۱۲؍۳

[89] ابن سعد۱۱۲؍۳

[90] ابن سعد۱۱۲؍۳

[91]ابن سعد۱۱۲؍۳

[92] اسدالغابة۲۸۲؍۳

[93] ابن سعد ۱۱۳؍۲

[94] اسد الغابة ۲۸۳؍۳

[95] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأُمِّهِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا۶۳۳۳

[96] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ مَنَاقِبِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ ۳۸۰۸، الإصابة فی تمییز الصحابة۱۳؍۳

[97] صحیح بخاری كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِ المُقْرِئِ لِلْقَارِئِ حَسْبُكَ ۵۰۵۰،اسد الغابة ۲۸۳؍۳

[98] مختصرتاریخ دمشق ۴۸؍۱۴،الاستعیاب فی معرفة الاصحاب۹۹۰؍۳

[99] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۴۶۷؍۱

[100] مختصرتاریخ دمشق۴۸؍۱۴

[101] ابن سعد۱۱۴؍۳

[102] فضائل الصحابة للنسائی۴۹؍۱

[103] ابن سعد۱۱۴؍۳

[104] اخبارالقضاة۱۸۴؍۲

[105]سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۴۶۵؍۱

[106] ابن سعد ۱۱۴؍۳

[107] ابن سعد۱۱۶؍۳

[108]ابن سعد۱۱۲؍۳

[109] الإصابة فی تمییز الصحابة۲۰۱؍۴

[110] ۔ابن سعد۱۱۷؍۳

[111] ابن سعد۱۱۸؍۳

[112] اسدالغابة۲۸۴؍۳

[113] ابن سعد۱۱۶؍۳

[114] ابن سعد۱۱۶؍۳

Related Articles