بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة الحاقہ

اس سورة کے دومضامین نمایاں  ہیں  ۔

xاوائل سورة میں  آخرت کے مناظرکی بھرپورعکاسی ہے ،اس کے ساتھ یہ ذکرہے کہ پہلے انبیاء کی امتوں  کے سامنے بھی آخرت کاذکرہوتاتھاتووہ اس عقیدے کی تکذیب کرتے تھے ،یہ تکذیب بالآخر ان کے لیے عذاب الہٰی کاموجب بنی اوران اقوام کے آثاروکھنڈرات عبرت کی صورت میں  تمہارے اردگردبکھرے پڑے ہیں ،حشرکے مناظرکے تذکرے میں  فرمایاکہ ہر شخص اپنانامہ اعمال اپنے ہاتھ میں  اٹھائے گا،نیک لوگ اپناصاف ستھرانامہ اعمال دیکھ کر خوش ہوں  گے اورخوشی کے مارے اپنے نامہ اعمال دوسروں  کودکھائیں  گے،انہیں  جنت کادائمی عیش وآرام نصیب ہوگا جبکہ کافرومنکر غمگین اورپریشانی کے عالم میں  مبتلا ہوں  گے اوربڑی حسرت سے کہیں  گے کاش!مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی اورمیں  نہ جانتاکہ حساب کیاہے؟کاش!موت میراکام ہی تمام کردیتی،میرے مال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا،میراغلبہ بھی مجھ سے جاتارہا،مگریہ حسرت و پشیمانی ان کے کچھ کام نہ آئے گی ،بارگاہ الٰہی سے غضب ناک حکم ہوگاپکڑلواس شخص کواورسترہاتھ لمبی زنجیروں  میں  جکڑکراورگردن میں طوق پہناکردوزخ میں  پھینک دو، کیونکہ یہ اللہ پرایمان نہیں  رکھتاتھا،یہ نہ خودغریبوں  کوکھاناکھلاتاتھااورنہ دوسروں  کواس کی ترغیب دیتاتھا، پھر اسے وہی طعام دیاجائے گاجوگناہ گاروں  کے سواکوئی دوسرانہ کھا سکے گا۔

xدوسرے حصے میں  قرآن مجیدکے منزل من اللہ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کے بارے میں  ہے ،قوم عاد،ثمود اورفرعون کاانجام بدعبرت کے لئے ہے،اہل مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومجنون ، شاعراورکاہن کے القابات سے نوازتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اہل مکہ کے ان غلط نظریات کی نفی کی گئی ہے، قرآن مجیدکی حقانیت کاانکارممکن نہیں ،اہل عرب اپنے آپ کو دنیا کی فصیح ترین اور زبان آورقوم سمجھتے تھے اوراپنے مقابلے میں  دوسرے لوگوں  کوعجمی یعنی گونگے قراردیتے تھے ،اس کے باوصف وہ اپنی خواہش وکوشش کے باوجود قرآن کا انکار دل سے نہ کرسکے،مشہورواقعہ ہے کہ کسی نے کعبے کی ایک دیوارپرسورة الکوثرلکھ دی ، عرب کے شعراء ،ادباء اورخطباء دیرتک ان تین آیات کی فصاحت وبلاغت اورسلاست کا جائزہ لیتے رہے،آخران میں  سے ایک آگے بڑھااوراس نے ان آیتوں  کے بعدیہ لکھ دیا

 لیس هَذَاقَوْلُ الْبَشَرِ

یہ انسان کاکلام نہیں

اس کے علاوہ اعجاز قرآن کے کئی دیگر پہلوہیں  کوئی آخرکب تک اورکس کس کاانکارکرسکتاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الْحَاقَّةُ ‎﴿١﴾‏ مَا الْحَاقَّةُ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ ‎﴿٣﴾‏ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ ‎﴿٤﴾‏ فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِیَةِ ‎﴿٥﴾‏ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِیحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍ ‎﴿٦﴾‏ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَثَمَانِیَةَ أَیَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِیهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ ‎﴿٧﴾‏ فَهَلْ تَرَىٰ لَهُم مِّن بَاقِیَةٍ ‎﴿٨﴾‏ (الحاقة)
ثابت ہونے والی، ثابت ہونے والی کیا ہے ؟ تجھے کیا معلوم کہ وہ ثابت شدہ کیا ہے ؟ اس کھڑکا دینے والی کو ثمود اور عاد نے جھٹلا دیا تھا (جس کے نتیجے میں ) ثمود تو بیحد خوفناک (اور اونچی) آواز سے ہلاک کردیئے گئے اور عاد بیحد تیز و تند ہوا سے غارت کردیئے گئے، جسے ان پر سات رات اور آٹھ دن تک (اللہ نے) مسلط رکھا، پس تم دیکھتے کہ یہ لوگ زمین پر اس طرح گرگئے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں ، کیا ان میں  سے کوئی بھی تجھے باقی نظر آرہا ہے؟۔

الحاقہ (وہ واقعہ جولازماًپیش ہوناہے )یہ قیامت کے ناموں  میں  ایک نام ہے،فرمایاوہ واقعہ جولازماًمخلوق پرپیش ہوکررہے گا !قیامت کی عظمت اورفخامت شان بیان کرنے اور سامعین کوچونکانے کے لئے فرمایا

وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ أَیْ:أَیُّ شَیْءٍ أَعْلَمَكَ مَا هِیَ؟ أی: كأنك لست تعلمها إذ لم فَكَأَنَّهَا خَارِجَةٌ عَنْ دَائِرَةِ عِلْمِ الْمَخْلُوقِینَ

وہ واقعہ (یعنی قیامت) جسے تم لوگ جھٹلارہے ہو جولازماًپیش ہوکر رہے گا کیاہے ؟ تم اس حاقہ کی صحیح کیفیت سے بے خبرہو اورنہ تم نے اس کی ہولناکیوں  کا مشاہدہ کیاہے ،یعنی وہ مخلوقات کے دائرہ علم سے باہرہے۔ [1]

تم لوگوں  سے پہلے کی صالح علیہ السلام کی قوم ثمودجوحجرکے علاقے میں  آبادتھی اورہود علیہ السلام کی قوم عادنے بھی توحیدکی راہ پرچلنے سے گریزکیاتھااور حیات بعد الموت ، حساب کتاب اوراس اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت (یعنی قیامت) کوجھٹلایاتھا،توحق کی تکذیب کی پاداش میں  اللہ نے قوم ثمودکوکلیجوں  کوپاش پاش کردینے والی کرخت چنگھاڑسے ہلاک کر دیا اوران کے بستیوں  کے آثارنشان عبرت کی صورت میں  موجودہیں  ، قوم ثمودکے عذاب کی مختلف کیفیت یوں  بیان فرمائی گئی ہے۔

 وَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۷۸ [2]

ترجمہ:آخرکارایک دہلا دینے والی آفت نے انہیں  آلیا اوروہ اپنے گھروں  میں  اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے ۔

وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۶۷ۙ [3]

ترجمہ: رہے وہ لوگ جنہوں  نے ظلم کیا تھا تو ایک سخت دھماکے نے ان کو دھر لیا اور وہ اپنی بستیوں  میں  اس طرح بےحِسّ و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے ۔

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَی الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۱۷ۚ [4]

ترجمہ:رہے ثمودتوان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگرانہوں  نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہناہی پسند کیا آخران کے کرتوتوں  کی بدولت ذلت کاعذاب ان پرٹوٹ پڑا۔

رہی قوم عاداولیٰ جوحضرموت کے باشندے تھے کویخ بستہ اوردل چھیددینے والی نہایت تندوتیز، اورسرکش ہوا کے ذریعے سے خاک نشین کردیا، انہوں نے بھی اپنے پیغمبرہود علیہ السلام کی تکذیب کی تھی اورقیامت کاانکارکیاتھا،چنانچہ ان کے تکبرکے نتیجہ میں  اللہ نے خوفناک ہواکو مسلسل ومتواتر سات رات اورآٹھ دن ان پر مسلط رکھا،ان دنوں  میں  ان کے لئے سوائے نحوست وبربادی کے اورکوئی بھلائی نہ تھی ، جیسے فرمایا

 فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِــزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰۝۱۶ [5]

ترجمہ:آخرکارہم نے چندمنحوس دنوں  میں  سخت طوفانی ہواان پربھیج دی تاکہ انہیں  دنیاہی کی زندگی میں  ذلت ورسوائی کے عذاب کامزا چکھا دیں  ۔

اس طوفانی اوریخ بستہ ہوانے لوگوں  کواٹھااٹھاکرپٹخاجس سے ان کے فخرونخوت سے اٹھے سرپھٹ کر چور چورہوگئے،پسلیاں  جن میں  بغض وعنادسے بھرے دل دھڑکتے تھے کانام ونشان مٹ گیا، کیونکہ قوم عاددرازقدتھی اس لئے ان کوکھجورکے تنوں  سے تشبیہ دے کر فرمایاتم وہاں  ہوتے تودیکھتے کہ عذاب کے بعد وہ اپنے محفوظ گھروں  میں  اس طرح بے روح اورمنتشر پڑے تھے جیسے کھجورکے کھوکھلے تنے بکھرے پڑے ہوں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:نُصِرْتُ بِالصَّبَا، وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری مددکی گئی صبا یعنی پروا ہواکے ساتھ،اورعادی ہلاک کیے گئے دبورسے یعنی مغر بی ہوا سے۔ [6]

اس طرح تمام مشرکین کوصفحہ ہستی سے مٹادیاگیاکہ ان کاکوئی نام لیوابھی باقی نہ رہا۔

وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ‎﴿٩﴾‏ فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَّابِیَةً ‎﴿١٠﴾‏ (الحاقة)
فرعون اور اس کے پہلے کے لوگ اور جن کی بستیاں  الٹ دی گئیں ، انہوں  نے بھی خطائیں کیں  اور اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی (بالآخر) اللہ نے (بھی) زبردست گرفت میں  لیا۔

عادووثمودکے علاوہ بھی سرکش اورنافرمان قومیں  آئیں  جیسے فرعون اوراس کی قوم،اللہ نے موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام کوواضح نشانیوں  کے ساتھ ان کی طرف بھیجامگرانہوں  نے دعوت حق کو ٹھکرادیا ،اور اللہ کی وحدانیت اورربوبیت،حیات بعد الموت ،حساب کتاب اورقیامت کاانکارکیااوراس عقیدے کامذاق اڑایاتواللہ نے انہیں  شدیددردناک اورخوفناک اندازمیں  پکڑا،اوربنی اسرائیل کے سامنےفرعون اوراس کے متکبرقبطی سرداروں  سمیت سمندرمیں غرق کردیااور فرعون کی لاش کوقیامت تک کے لئے عبرت کانشان بنادیا ، جیسے فرمایا

۔۔۔حَتّٰٓی اِذَآ اَدْرَكَہُ الْغَرَقُ۝۰ۙ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۹۰اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۹۱ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً۔۔۔۝۹۲ۧ [7]

ترجمہ:حتی کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا میں  نے مان لیا کہ خداوند حقیقی اس کے سوا کوئی نہیں  ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائےاور میں  بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں  میں  سے ہوں  (جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے ! حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں  میں  سے تھا اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں  گے تاکہ تو بعد کی نسلوں  کے لیے نشان عبرت بنے ۔

اوراسی خطائے عظیم کا ارتکاب قوم لوط نے کیا،انہوں  نے بھی اپنے رسول لوط علیہ السلام کی تکذیب کی اوراعمال خبیثہ سے بازنہ آئے تواللہ نے ان کوبھی سختی سے پکڑااورصبح کے وقت جبکہ وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے ایک زبردست دھماکا ہوااورمشرکین بجھ کررہ گئے،پھر فرشتوں  نے ان پرپکی مٹی کے نشان زدہ پتھربرسائے اور ان کی بستیوں  کو تل پٹ کردیاجیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ۝۰ۭ وَمَا هِیَ مِنَ الظّٰلِـمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۝۸۳ۧ [8]

ترجمہ:پھرجب ہمارے فیصلہ کاوقت آپہنچاتوہم نے اس بستی کو تل پٹ کردیا اور اس پرپکی ہوئی مٹی کے پتھرتابڑتوڑبرسائے جن میں  سے ہر پتھرتیرے رب کے ہاں  نشان زدہ تھااورظالموں  سے یہ سزا کچھ دور نہیں  ہے۔

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَ۝۷۳ۙفَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۷۴ۭ [9]

ترجمہ:آخرکارپوپھٹتے ہی ان کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور ہم نے اس بستی کوتل پٹ کرکے رکھ دیااوران پرپکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کی بارش برسادی۔

یعنی جتنی بھی قومیں  تھیں  سب نے اپنے اپنے زمانے کے رسولوں  کو جھٹلایا،جیسے فرمایا

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ۝۱۲ۙوَثَمُــوْدُ وَقَوْمُ لُوْطٍ ۔۔۔وَّاَصْحٰبُ لْــــَٔـیْكَةِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الْاَحْزَابُ۝۱۳اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ۝۱۴ۧ [10]

ترجمہ: ان سے پہلے بھی قوم نوح اور عاد اور میخوں والے فرعون نے جھٹلایا تھا ، اور ثمود نے اور قوم لوط نے اور ایکہ کے رہنے والوں نے بھی، یہی (بڑے) لشکر تھے ،ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے رسولوں کی تکذیب نہ کی ہو پس میری سزا ان پر ثابت ہوگئی ،

إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِی الْجَارِیَةِ ‎﴿١١﴾‏ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِیَهَا أُذُنٌ وَاعِیَةٌ ‎﴿١٢﴾ (الحاقة)
جب پانی میں  طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں  کشتی میں  چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لیے نصیحت اور یادگار بنادیں  ،اور (تاکہ) یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔

عہدرسالت کے لوگوں  کومخاطب کرکے فرمایاکہ جب قوم نوح نے حق سے سرکشی اورپیغمبرکی تکذیب کی تواللہ نے ان پرعذاب نازل کیااور آسمان وزمین کوحکم فرمایاکہ وہ پانی کے دھارے کھول دیں ،جیسے فرمایا

فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۝۱۰فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَاۗءِ بِمَاۗءٍ مُّنْہَمِرٍ۝۱۱ۡۖوَّفَجَّــرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۝۱۲ۚ [11]

ترجمہ:آخرکار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں  مغلوب ہو چکا اب تو ان سے انتقام لے،تب ہم نے موسلا دھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیےاور زمین کو پھاڑ کر چشموں  میں  تبدیل کر دیا اور یہ سارا پانی اس کام کو پورا کرنے لیے مل گیا جو مقدر ہو چکا تھا۔

چنانچہ جب پانی کی بلندی تجاوزکرگئی توہم نے چند اہل ایمان کوجوہمارے رسول پرایمان لائے تھے اوراس کے اطاعت گزارتھے بچانے کے لئے کشتی میں  سوار کر دیا تھا اور باقی قوم کوغرق کردیاتھا،جیسے فرمایا

قِیْلَ یٰنُوْحُ اہْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ۔۔۔۝۴۸ [12]

ترجمہ:حکم ہوا اے نوح اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں  ہیں  تجھ پر اور ان گروہوں  پر جو تیرے ساتھ ہیں ۔

اس لئے نوح علیہ السلام کوآدم ثانی کہاجاتاہے،تاکہ اس واقعہ کوتمہارے لئے ایک سبق آموزیادگاربنادیں  اوریادرکھنے والے کان اس کی یاد محفوظ رکھیں ،یعنی تم ان اہل ایمان کی اولادہوجنہیں  ان کے ایمان کے سبب ہم نے بپھرے ہوئے پانی سے بچایاتھاپھرتم لوگ طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر کیوں  دعوت حق پرلبیک نہیں  کہتے ؟اس وقعہ سے سبق عبرت کیوں  حاصل نہیں  کرتے کہ رسولوں  کی تکذیب ،حیات بعدالموت اورروزآخرت کاانکارکیساہولناک ہوتاہے۔

فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ ‎﴿١٣﴾‏ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً ‎﴿١٤﴾‏ فَیَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ‎﴿١٥﴾‏ وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِیَ یَوْمَئِذٍ وَاهِیَةٌ ‎﴿١٦﴾‏ وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْجَائِهَا ۚ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَةٌ ‎﴿١٧﴾‏ یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِیَةٌ ‎﴿١٨﴾‏ فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ كِتَابَهُ بِیَمِینِهِ فَیَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِیَهْ ‎﴿١٩﴾‏ إِنِّی ظَنَنتُ أَنِّی مُلَاقٍ حِسَابِیَهْ ‎﴿٢٠﴾‏ فَهُوَ فِی عِیشَةٍ رَّاضِیَةٍ ‎﴿٢١﴾‏ فِی جَنَّةٍ عَالِیَةٍ ‎﴿٢٢﴾‏ قُطُوفُهَا دَانِیَةٌ ‎﴿٢٣﴾‏ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِیئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخَالِیَةِ ‎﴿٢٤﴾ (الحاقة)
پس جبکہ صور میں  ایک پھونک پھونکی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جائیں  گے اور ایک ہی چوٹ میں  ریزہ ریزہ کردیئے جائیں  گے،اس دن ہو پڑنے والی (قیامت) ہو پڑے گی، اور آسمان پھٹ جائے گا اس دن بالکل بود ہوجائے گا ،اس کے کناروں  پر فرشتے ہوں  گے اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئ ہوں  گے، اس دن تم سب سامنے پیش کئے جاؤ گے تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا، سو جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا تو وہ کہنے لگے گا لو میرا نامہ اعمال پڑھو، مجھے تو کامل یقین تھا مجھے اپنا حساب ملنا ہے، پس وہ ایک دل پسند زندگی میں  ہوگا بلند وبالا جنت میں ، جس کے میوے جھکے پڑے ہوں  گے (ان سے کہا جائے گا) کہ مزے سے کھاؤ، پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزشتہ زمانے میں  کئے۔

مکذبین کاانجام بیان کرنے کے بعدفرمایاکہ الحاقہ کس طرح واقع ہوگی ،فرمایاکہ اسرافیل علیہ السلام جومنہ سے صورلگائے سرجھکائے اپنے رب کے حکم کے منتظرہیں ، اللہ مالک الملک انہیں  حکم فرمائے گاتووہ صرف ایک مرتبہ صورمیں  پھونک ماریں  گے جس کی ہیبت ناک آوازسے نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا،زمین میں  ٹھوکے ہوئے بلندوبالا پہاڑ زمین سے نکل کر روئی کے گالوں  کی طرح ہوامیں  اڑنے لگیں  گے اورآپس میں  ٹکراکر ریزہ ریزہ ہوکرریت کی طرح ہوجائیں  گے،جس سے زمین ہموارمیدان بن جائے گی اوراس میں  کوئی نشیب وفرازنہیں  رہے گا،جیسے فرمایا

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙفَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙ لَّا تَرٰى فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ [13]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گااور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گاکہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔

اس روزوہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا،اس دن آسمان ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوکرمختلف ٹکڑوں  میں  بٹ جائے گا،جیسے فرمایا

وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا۝۱۹ۙ [14]

ترجمہ:اورآسمان کھول دیاجائے گاحتی کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کررہ جائے گا ۔

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مُنْخَرِقَةٌ، وَالْعَرْشُ بِحِذَائِهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ آسمان میں  شگاف اوردراڑپڑجائیں  گے اورعرش اس کے سامنے ہوگا۔ [15]

اورفرشتے آسمانوں  کے ثابت ٹکڑوں  کے کناروں  پر ہوں  گے ،قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کی حکومت وفرمانروائی اوراس کے معاملات کاتصور دلانے کے لئے نقشہ پیش کیاگیا جو دنیامیں  بادشاہی کانقشہ ہوتاہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کے درمیان اپنے عدل وانصاف اوراپنے فضل وکرم کے ساتھ فیصلے کرنے کے لئے آئے گاتومکرم فرشتے اس کے اطراف وجوانب میں  ہوں  گے اوراٹھ فرشتے اس روزتیرے رب کاعرش اپنے اوپراٹھائے ہوئے ہوں  گے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ:وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ ،قَالَ: ثَمَانِیَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ لَا یَعْلَمُ عِدَّتَهُمْ إِلا اللهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت کریمہ ’’ اور آٹھ فرشتے اس روز تیرے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں  گے۔‘‘

کے بارے میں  فرماتے ہیں  فرشتوں  کی آٹھ صفیں  ہوں  گی جن کی تعداداللہ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں  جانتا۔ [16]

یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَحْمِلُ الْعَرْشَ ثَمَانِیَةٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ. وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَكُونَ الْمُرَادُ بِهَذَا الْعَرْشِ الْعَرْشَ الْعَظِیمَ، أَوِ: الْعَرْشَ الَّذِی یُوضَعُ فِی الْأَرْضِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لِفَصْلِ الْقَضَاءِ

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کے روزآٹھ مخصوص مکرم فرشتوں  نے تیرے رب کاعرش اپنے اوپر اٹھایاہوا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس عرش سے مرادوہ عرش ہوجوفیصلوں  کے لئے زمین پر رکھا جائے جس پراللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا۔ [17]

وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ

اوران فرشتوں  کاحلیہ کیسا ہوگا،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُذِنَ لِی أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ ، إِنَّ مَا بَیْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِیرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اجازت دی گئی کہ میں  حاملین عرش میں  سے ایک فرشتے کے متعلق بیان کروں ، بلاشبہ اس کے کانوں  کی لوسے اس کے کندھے تک کافاصلہ سات سوسال کے سفرکے برابرہے۔ [18]

اس دن تمام انسان ننگے پاؤ ں ،ننگے جسم اورغیرمختون حالت میں  اعمال کی جزا کے لئے اللہ کی بارگاہ میں  پیش کیے جائیں  گے ، اس روز کسی انسان کا چھوٹا بڑا، اچھابراکوئی عمل چھپ نہ سکے گا۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُعْرَضُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثَلَاثَ عَرَضَاتٍ، فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِیرُ وَأَمَّا الثَّالِثَةُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِیرُ الصُّحُفُ فِی الْأَیْدِی ، فَآخِذٌ بِیَمِینِهِ وَآخِذٌ بِشِمَالِه

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگوں  کوقیامت کے دن تین بارپیش کیاجائے گا،دوپیشیوں  میں  توبحث مباحثہ اورعذرمعذرت ہوگی،اورتیسری پیشی کے موقع پرہاتھوں  میں  نامہ اعمال تھمادیے جائیں  گے، کچھ لوگوں  کے دائیں  ہاتھ میں  اورکچھ لوگوں  کے بائیں  ہاتھ میں ۔ [19]

اس وقت جس خوش نصیب کانامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں  دیاجائے گاجواس کی سعادت ،نجات اورکامیابی کی دلیل ہوگاوہ جوش مسرت میں  اپنے ساتھیوں  سے کہے گا ، ایک مقام پر فرمایا

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ۝۷ۙفَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا۝۸ۙ وَّیَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا۝۹ۭ [20]

ترجمہ: پھرجس کانامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں  دیاگیااس سے ہلکاحساب لیاجائے گااوروہ اپنے لوگوں  کی طرف خوش خوش پلٹے گا ۔

اورکہے گا لو دیکھو اور پڑھو میرا نامہ اعمال،دینوی زندگی میں  میں  آخرت سے غافل نہ تھابلکہ میراکامل یقین تھاکہ روزآخرت اللہ کی بارگاہ میں  حاضرہوکر مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے،ایک مقام پر فرمایا

الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۝۴۶ۧ [21]

ترجمہ:مگران فرماں  برداربندوں  کے لئے مشکل نہیں  ہے جوسمجھتے ہیں  کہ آخرکارانہیں  اپنے رب سے ملناہے اوراسی کی طرف پلٹ کرجاناہے۔

أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْظَلَةَ غَسِیلِ الْمَلَائِكَةِقَالَ: إِنَّ اللهَ یَقِفُ عَبْدَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیُبْدِی سَیِّئَاتِهِ فِی ظَهْرِ صَحِیفَتِهِ، فَیَقُولُ لَهُ: أَنْتَ عَمِلْتَ هَذَا؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ أَیْ رَبِّ، فَیَقُولُ لَهُ إِنِّی لَمْ أَفْضَحْكَ بِهِ، وَإِنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَكَ، فَیَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ،هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِیَهْ إِنِّی ظَنَنْتُ أَنِّی مُلاقٍ حِسَابِیَهْ ، حِینَ نَجَا مِنْ فَضْحه یَوْمَ الْقِیَامَةِ

عبداللہ بن عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ سے روایت ہےبے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندے کوقیامت کے دن اپنے سامنے کھڑاکرے گا اوراس کی برائیوں  کوظاہرکرے گاجواس کے نامہ اعمال کی پشت پرلکھی ہوں  گی،اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاتونے یہ کام کیاتھا؟ بندہ اعتراف کرتے ہوئے عرض کرے گاہاں  اے میرےرب!اللہ تعالیٰ فرمائے گامیں  تیرے اس عمل کی وجہ سے تجھے رسوانہیں  کروں  گاکیونکہ میں  نے تجھے معاف کردیاہے،اس موقع پربندہ پکاراٹھے گالودیکھو،پڑھومیرانامہ اعمال،میں  سمجھتاتھاکہ مجھے ضروراپناحساب ملنے والا ہے، بندہ یہ اس وقت کہے گاجب وہ قیامت کے دن کی ذلت ورسوائی سے نجات پاجائے گا۔ [22]

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ المَازِنِیِّ، قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا أَمْشِی، مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا آخِذٌ بِیَدِهِ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: كَیْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ فِی النَّجْوَى؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ یُدْنِی المُؤْمِنَ، فَیَضَعُ عَلَیْهِ كَنَفَهُ وَیَسْتُرُهُ،

صفوان بن محرزسے مروی ہےمیں  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں  ہاتھ دیئے جارہاتھاکہ ایک شخص سامنے آیااورپوچھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے(قیامت میں  اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی)سرگوشی کے بارے میں  کیاسناہے؟عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مومن کواپنے نزدیک بلالے گااوراس پراپناپردہ ڈال دے گااوراسے چھپالے گا

فَیَقُولُ: أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ أَیْ رَبِّ، حَتَّى إِذَا قَرَّرَهُ بِذُنُوبِهِ، وَرَأَى فِی نَفْسِهِ أَنَّهُ هَلَكَ، قَالَ: سَتَرْتُهَا عَلَیْكَ فِی الدُّنْیَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الیَوْمَ، فَیُعْطَى كِتَابَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الكَافِرُ وَالمُنَافِقُونَ، فَیَقُولُ الأَشْهَادُ: {هَؤُلاَءِ الَّذِینَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ} [23]

اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گاکیاتجھ کوفلاں  گناہ یاد ہے ؟ کیا فلاں  گناہ تجھ کویادہے؟وہ مومن کہے گاہاں  اے میرے پروردگار!آخرجب وہ اپنے گناہوں  کااقرارکرلے گااوراسے یقین آجائے گاکہ اب وہ ہلاک ہواتواللہ تعالیٰ فرمائے گامیں  نے دنیامیں  تیرے گناہوں  پرپردہ ڈالااورآج بھی تیری مغفرت کرتاہوں  چنانچہ اسے اس کی نیکیوں  کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کفاراورمنافقین کے متعلق ان پرگواہ(ملائیکہ،انبیاء اورجن وانس سب)کہیں  گے، ’’یہ ہیں  وہ لوگ جنہوں  نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا ، سنو ! اللہ کی لعنت ہے ظالموں  پر۔ ‘‘ [24]

پس وہ بلندوبالابہشت میں  من پسندعیش میں  ہوگا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ، وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، جَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِهِ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ كَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ، فَاسْأَلُوهُ الفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الجَنَّةِ وَأَعْلَى الجَنَّةِ – أُرَاهُ – فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الجَنَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور نماز پڑھے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں  داخل کر دے گاخواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد کرے یا جس سر زمین میں  پیدا ہوا ہو وہیں  جما رہے،صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم لوگوں  میں  اس بات کی بشارت نہ سنادیں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت میں  سودرجے ہیں  جواللہ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لئے تیارکیے ہیں ،ان کےدودرجوں  کے درمیان زمین اتنافاصلہ ہے جتناآسمان وزمین میں  ہے اس لئے جب اللہ تعالیٰ سے مانگناہوتوفردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کاسب سے درمیانی درجہ ہےاورجنت کے سب سے بلنددرجے پر ہے ، اس کے اوپرپروردگارکاعرش ہے اوروہیں  سے جنت کی نہریں  نکلتی ہیں ۔ [25]

جنت میں  پھل دار درختوں  پر بہترین ذائقوں  والے پھلوں  اورمیوؤ ں  کے گھچے جھکے پڑرہے ہوں  گے،

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، یَقُولُ فِی هَذِهِ الْآیَةِ {قُطُوفُهَا دَانِیَةٌ ،قَالَ: یَتَنَاوَلُ الرَّجُلُ مِنْ فَوَاكِهِهَا وَهُوَ نَائِمٌ عَلَى سَرِیرِهِ

ابن اسحاق کہتے ہیں  میں  نےبراء بن عازب رضی اللہ عنہ کواس آیت کریمہ’’ جس کے پھلوں  کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں  گے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا جنت کے پھل اتنے قریب ہوں  گے اگرکوئی جنتی اپنے چھپرکھٹ پر لیٹے لیٹے بھی توڑناچاہے گا توسہولت اورآسانی سے پکڑسکےگا۔ [26]

ایسے لوگوں  سے اکرام وتکریم کے طورپرکہاجائے گاہرفکراورہرغم سے بے نیازہوکراللہ کے عطاکردہ انواع واقسام اور بہترین ذائقوں کے پھلوں سے لطف اندوزہو اورمختلف اقسام کی شراب ، شہد ، دودھ وغیرہ کی نہروں  سے دل کھول کرپیواپنے ان اعمال صالحہ کے صلے جوتم نے دنیاوی زندگی میں  کیے تھے ، مگر اعمال کو صلہ کہنابطورلطف کے ہےورنہ

 عَنْ عَائِشَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ لا یُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُهُ، قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: وَلا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللهُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَةٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعمل کرتے جاؤ ،دیکھوجونیک کام کروٹھیک طورسے کرواورحدسے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو(میانہ روی اختیار کرو)اورخوش رہواوریادرکھوکہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں  نہیں  جائے گاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااوراے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ بھی نہیں  ؟ فرمایا اورمیں  بھی نہیں ،سوااس کے کہ اللہ اپنی مغفرت اوررحمت کے سایہ میں  ڈھانک لے۔ [27]

 وَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَیَقُولُ یَا لَیْتَنِی لَمْ أُوتَ كِتَابِیَهْ ‎﴿٢٥﴾‏ وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِیَهْ ‎﴿٢٦﴾‏ یَا لَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَ ‎﴿٢٧﴾‏ مَا أَغْنَىٰ عَنِّی مَالِیَهْ ۜ ‎﴿٢٨﴾‏ هَلَكَ عَنِّی سُلْطَانِیَهْ ‎﴿٢٩﴾‏ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ‎﴿٣٠﴾‏ ثُمَّ الْجَحِیمَ صَلُّوهُ ‎﴿٣١﴾‏ ثُمَّ فِی سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ ‎﴿٣٢﴾‏ إِنَّهُ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِیمِ ‎﴿٣٣﴾‏ وَلَا یَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِینِ ‎﴿٣٤﴾‏ فَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هَاهُنَا حَمِیمٌ ‎﴿٣٥﴾‏ وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِینٍ ‎﴿٣٦﴾‏ لَّا یَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ (الحاقة)
لیکن جسے اس (کے اعمال) کی کتاب اس کے بائیں  ہاتھ میں  دی جائے گی وہ تو کہے گا کاش! کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی اور میں  جانتا ہی نہ کہ حساب کیا ہے، کاش ! کہ موت (میرا) کام ہی تمام کردیتی ،میرے مال نے بھی مجھے کچھ نفع نہ دیا، میرا غلبہ بھی مجھ سے جاتا رہا،(حکم ہوگا) اسے پکڑ لو پھر اسے طوق پہنا دو، پھر اسے دوزخ میں  ڈال دو ر اسے ایسی زنجیروں  جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے جکڑ دو، بیشک یہ اللہ عظمت والے پر ایمان نہ رکھتا تھا، اور مسکین کے کھلانے پر رغبت نہ دلاتا تھا، پس آج اس کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ سوائے پیپ کے اس کی کوئی غذا ہے،جسے گنہگاروں  کے سوا کوئی نہیں  کھائے گا۔

اورساری خلقت کے سامنے جس کانامہ اعمال اس کے بائیں  ہاتھ میں  دیاجائے گاجوبدبختی کی علامت ہوگاتووہ اپنے نامہ اعمال کوپیٹھ پیچھے چھپاکر حسرت وافسوس سے کہے گا کاش! ساری خلقت کے سامنے علانیہ میرااعمال نامہ مجھے دے کرذلیل ورسوانہ کیاگیا ہوتا،دنیامیں میرایہ عقیدہ نہیں  تھاکہ ایک دن مجھے اپنے اعمال کا حساب بھی دیناپڑے گا ، کاش! دنیاوی موت کے بعدمیں  ہمیشہ کے لئے معدوم ہوگیاہوتا اورمجھے حساب کتاب کے لئے اٹھایانہ جاتاکہ میں  یہ روزبد دیکھتا ، آج میرا مال ومتاع جس پرمیں  اترایاکرتا تھا اوراللہ کی راہ میں  خرچ کرنے کے بجائے حق کومغلوب کرنے کے لئے خرچ کرتاتھا،جس کے نشے میں  میں  حق قبول کرنے سے قاصررہا میرے کچھ کام نہ آیا،میری بلندحیثیت و مرتبہ،جاہ وجلال اورسلطنت وحکومت بھی جس کے بل بوتے پر میں  اکڑتاتھا میرے کچھ کام نہ آئی ،اورآج میں  بے بس ولاچارہوکر اکیلا ہی یہاں  سزابھگتنے پرمجبورہوں  ،ایک مقام پر اس کاجرم یہ بیان فرمایاکہ وہ روزجزاکابھی منکرتھا

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَاۗءَ ظَهْرِهٖ۝۱۰ۙفَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا۝۱۱ۙوَّیَصْلٰى سَعِیْرًا۝۱۲ۭاِنَّهٗ كَانَ فِیْٓ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا۝۱۳ۭاِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ۝۱۴ۚۛبَلٰٓى۝۰ۚۛ اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِیْرًا۝۱۵ۭ [28]

ترجمہ: رہاوہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گاتووہ موت کوپکارے گااوربھڑکتی ہوئی آگ میں  جاپڑے گا،وہ اپنے گھر والوں  میں  مگن تھا اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں  ہے،پلٹنا کیسے نہ تھااس کا رب اس کے کرتوت دیکھ رہا تھا۔

وَقَالَ قَتَادَةُ: تَمَنَّى الْمَوْتَ، وَلَمْ یَكُنْ شَیْءٌ فِی الدُّنْیَا أَكْرَهُ إِلَیْهِ مِنْهُ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ وہ موت کی تمناکرے گاحالانکہ دنیامیں  اسے موت سے بڑھ کراورکوئی چیززیادہ ناپسندنہ تھی ۔ [29]

وہ اپنے گھروالوں  میں  مگن تھااس نے سمجھاتھاکہ اسے کبھی پلٹنا نہیں  ہے ، پلٹناکیسے نہ تھااس کا رب اس کے کرتوت دیکھ رہاتھا۔اس کافیصلہ چکانے کے بعدباری تعالیٰ انتہائی سخت اورنہایت درشت خو ملائکہ جہنم کو حکم فرمائے گاپکڑواس کٹے کافرکو اوراس کی گردن میں  طوق ڈال دوجواس کاگلا گھونٹ دےپھراسے جہنم کے دردناک عذاب میں  جھونک دوپھر اس کوسترہاتھ لمبی جہنمی زنجیرمیں  جکڑدو ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {فَاسْلُكُوهُ} تَدَخُلُ فِی اسْتِهِ ثُمَّ تَخْرُجُ مِنْ فِیهِ، ثُمَّ یُنْظَمُونَ فِیهَا كَمَا یُنَظَمُ الْجَرَادُ فِی الْعُودِ حِینَ یُشْوَى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے’’جکڑدو۔‘‘ کاحکم جب ہوگاتواس زنجیرکواس کی دبرسے داخل کرکے منہ سے نکال لیاجائے گا،اورپھراس کے ساتھ فرشتے اسے اس طرح آگ میں  بھونیں  گے جس طرح سیخ کباب کوبھوناجاتاہے۔ [30]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: یُسْلَكُ فِی دُبُرِهِ حَتَّى یَخْرُجَ مِنْ مَنْخِرَیْهِ، حَتَّى لَا یَقُومَ عَلَى رِجْلَیْهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے زنجیرکواس کی دبرسے داخل کرکے نتھنوں  سے نکال لیاجائے گاحتی کہ وہ اپنے پاؤ ں  پرکھڑانہ ہوسکے گا ۔ [31]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ رَصَاصَةً مِثْلَ هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى مِثْلِ الجُمْجُمَةِ، أُرْسِلَتْ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ، وَهِیَ مَسِیرَةُ خَمْسِمِائَةِ سَنَةٍ لَبَلَغَتِ الأَرْضَ قَبْلَ اللَّیْلِ، وَلَوْ أَنَّهَا أُرْسِلَتْ مِنْ رَأْسِ السِّلْسِلَةِ لَسَارَتْ أَرْبَعِینَ خَرِیفًا اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ أَصْلَهَا أَوْ قَعْرَهَا.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراس طرح کاایک پتھر،سر کی کھوپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاآسمان سے زمین پرپھینکاجائے اوریہ پانچ سوسال کی مسافت ہے تووہ پتھررات سے پہلے پہلے زمین پرپہنچ جائے گا لیکن اسی پتھرکواگراس زنجیرکے ایک سرے سے پھینکاجائے تواسے دوسرے سرے تک پہنچنے میں  چالیس سال لگ جائیں  گے۔ [32]

اور سزاکی علت بیان فرمائی کہ یہ اللہ بزرگ وبرتر پر جو اس کاخالق ومالک اور رازق تھا ، جس نے اسے مال ودولت اور اولادسے نوازاتھا جس نے اسے جاہ ومرتبہ عنایت کیا تھا ،اس کی واحدانیت وربوبیت پرایمان لاکرعبادت واطاعت کے ذریعے اللہ کاحق ادا نہیں  کرتاتھا،رسول جوحق لے کرآئے تھے اس کی تکذیب کرنے والاتھا،جیسے فرمایا

اَلْقِیَا فِیْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِیْدٍ۝۲۴ۙمَّنَّاعٍ لِّــلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِۨ۝۲۵ۙالَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللهِ اِلٰـــهًا اٰخَرَ فَاَلْقِیٰهُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ۝۲۶ [33]

ترجمہ:حکم دیاگیاپھینک دو جہنم میں  ہرکٹے کافرکوجوحق سے عنادرکھتاتھا، خیر کو روکنے والااورحدسے تجاوزکرنے والاتھا،شک میں  پڑاہواتھااوراللہ کے ساتھ کسی دوسرے کوالٰہ بنائے بیٹھاتھا،ڈال دواسے سخت عذاب میں ۔

اس کے دل میں  رحم نام کی کوئی چیزنہیں  تھی اس لئے رحم کھاکراپنے مال میں  سے خود مسکین کو کھانا کھلاتا تھا اورنہ ہی گھر والوں  اوردوسروں  کوایساکرنے کی ترغیب دیتا تھایعنی حقوق اللہ اور حقوق العباددونوں  ادا نہیں  کرتا تھا ، لہذا آج نہ یہاں  اس کاکوئی یارغم خوارہے اورنہ سفارشی جواسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے ، جیسےفرمایا

۔۔۔مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ۝۱۸ۭ [34]

ترجمہ: ظالموں  کانہ کوئی مشفق دوست ہوگااورنہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے۔

دنیامیں  تویہ انواع و اقسام کے مزے مزے کے کھانے کھاتاتھااوراللہ کاشکر ادا نہیں  کرتا تھامگراب جہنم میں زخموں  کی دھوون کے سوااس کے لئے کوئی کھانانہیں  ہےجسے دوزخیوں کے سواکوئی نہیں  کھاتا۔

فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِیمٍ ‎﴿٤٠﴾‏ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِیلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ‎﴿٤١﴾‏ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِیلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ تَنزِیلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٤٣﴾‏ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ ‎﴿٤٤﴾‏ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِینِ ‎﴿٤٥﴾‏ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ ‎﴿٤٧﴾ (الحاقة)
پس مجھے قسم ہے ان چیزوں  کی جنہیں  تم دیکھتے ہو، اور ان چیزوں  کی جنہیں  تم نہیں  دیکھتے کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے، یہ کسی شاعر کا قول نہیں  ،(افسوس) تمہیں  بہت کم یقین ہے، نہ کسی کاہن کا قول ہے، (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو،یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے اور اگریہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتےپھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔

بات وہ نہیں  جوتم لوگوں  نے سمجھ رکھی ہے ،میں  قسم کھاتاہوں  اللہ کی پیداکردہ چیزوں  کی جنہیں تم دیکھتے ہواورجوتمہاری نگاہوں  سے پوشیدہ ہیں  ،یہ فصیح وبلیغ قرآن اللہ کاکلام ہے جواس نے اپنے برگزیدہ رسول پرنازل کیاہے اوراللہ کے حکم سے یہ رسول کریم تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے تمہیں  پہنچاتاہے ،یہ حکمتوں  سے بھرپور پاکیزہ کلام کسی شاعرکاکلام نہیں  ہے اورنہ ہی اس سے مشابہ ہے ،جیسے فرمایا

وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْۢبَغِیْ لَہٗ۝۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ۝۶۹ۙ [35]

ترجمہ:ہم نے اس (نبی) کو شعر نہیں  سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے، یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب۔

اسے سن کرتمہارادل اس کی حقانیت کی گواہی دیتاہے مگرتم اپنے تعصبات، بغض وعناداورضدوہٹ دھرمی کی بناپرایمان نہیں  لاتے اور فصاحت وبلاغت سے بھرپوریہ کلام کسی کاہن کابھی نہیں  ہے ،اورتم لوگ اچھی طرح جانتے ہوکاہن کس طرح کاکلام کرتے ہیں  لیکن تم لوگ پھربھی قرآن پر ایمان لاتے ہو نہ اس سے ہدایت ورہنمائی حاصل کرتے ہو، بلکہ تمہاری بہتان طرازیوں  کے برعکس یہ پاکیزہ کلام رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ،کیونکہ کفارکہتے تھے یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودگھڑلیاہے ،اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا اگراس نبی نے خود گھڑ کرکوئی بات اللہ کی طرف منسوب کی ہوتی، یاجووحی کی گئی ہے اس میں  کمی بیشی کی ہوتی تو غالب اورقدرت رکھنے والارب فوراًاس کامواخذہ کرتا اورکچھ ڈھیل دیئے بغیراس کی رگ گردن کاٹ ڈالتاپھرتم میں  سے کوئی ہمیں اس کام سے روکنے والانہ ہوتا۔

‏ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِینَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِینَ ‎﴿٥٠﴾‏ وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْیَقِینِ ‎﴿٥١﴾‏ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیمِ ‎﴿٥٢﴾‏ (الحاقة)
یقیناً یہ قرآن پرہیزگاروں  کے لیے نصیحت ہے، ہمیں  پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں  سے بعض اس کے جھٹلانے والے ہیں ، بیشک (یہ جھٹلانا) کافروں  پر حسرت ہے، اور بیشک (و شبہ) یہ یقینی حق ہے،پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر ۔

درحقیقت یہ کلام پرہیزگارلوگوں  کے لئے ایک ہدایت ورہنمائی ہے،اورجوسیدھے راستے پرگامزن ہوناچاہتے ہیں  ،جیسے فرمایا

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۝۰ۚۖۛ فِیْهِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۲ۙ [36]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں  کوئی شک نہیں ،ہدایت ہے پرہیزگاروں  کے لئے ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَشِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۙ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِـمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا۝۸۲ [37]

ترجمہ:ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزل میں  وہ کچھ نازل کررہے ہیں  جوماننے والوں  کے لئے شفااوررحمت ہے مگرظالموں  کے لئے خسارے کے سوااورکسی چیزمیں  اضافہ نہیں  کرتا۔

ہم جانتے ہیں  کہ تم میں  سے کچھ لوگ آباواجدادکی اندھی تقلید،تعصبات اور بغض وعنادکے سبب جھٹلاتے ہیں ،مگرروزقیامت اس کی تکذیب کرنے والے جب اہل ایمان کوقرآن پرایمان اوراس کی تعلیمات پرعمل کرنے کااجرملتاہوادیکھیں  گے تویاس و حسرت سے کہیں  گے ،کاش! ہم بھی اس پاکیزہ دعوت پرایمان لاتے اوراس پرعمل کرتے ، اور لوگو! قرآن مجیدکااللہ کی طرف سے ہونابالکل حق وسچ ہے ،یہ حیات بعدالموت ، حساب کتاب ،جنت ودوزخ اورجزاوسزا کے بارے میں  جوخبردیتاہے اس میں  قطعاًشک وشبہ کی گنجائش نہیں  ہے،پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کروجس نے دنیاکے تمام لوگوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے قرآن کریم جیسی جلیل القدر آخری کتاب نازل فرمائی۔

[1] فتح القدیر۳۳۳؍۵

[2] الاعراف ۷۸

[3] ھود ۶۷

[4] حم السجدة ۱۷

[5] حم السجدة۱۶

[6] صحیح بخاری کتاب الاستسقاء بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نُصِرْتُ بِالصَّبَا۱۰۳۵،صحیح مسلم کتاب صلاة الاستسقاء بَابٌ فِی رِیحِ الصَّبَا وَالدَّبُورِ۲۰۸۷، مسند احمد ۱۹۵۵،صحیح ابن حبان ۶۴۲۱،السنن الکبری للنسائی ۱۱۴۰۳،السنن الکبری للبیہقی ۶۴۸۴،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۶۴۶،مسندابی یعلی ۲۵۶۳،شرح السنة للبغوی ۱۱۴۹

[7] یونس۹۰تا۹۲

[8] ھود ۸۲، ۸۳

[9] الحجر۷۳،۷۴

[10] ص۱۲تا۱۴

[11] القمر۱۰تا۱۲

[12] ھود۴۸

[13] طہ۱۰۵تا۱۰۷

[14] النبا۱۹

[15] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۷۰؍۱۰،تفسیرابن کثیر۲۱۲؍۸

[16] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۷۰؍۱۰

[17] تفسیر ابن کثیر۲۱۱؍۸

[18] سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْجَهْمِیَّةِ ۴۷۲۷

[19] مسنداحمد۱۹۷۱۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی العَرْضِ۲۴۲۵،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ الْبَعْثِ ۴۲۷۷

[20] الانشقاق۷تا۹

[21] البقرة۴۶

[22] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۷۱؍۱۰

[23] هود: ۱۸

[24] صحیح بخاری كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى أَلاَ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّالِمِینَ۲۴۴۱،وكِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {وَیَقُولُ الأَشْهَادُ هَؤُلاَءِ الَّذِینَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ،۴۶۸۵،صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بَابُ قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ۷۰۱۵،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۸۳،مسنداحمد۵۴۳۶،تفسیرابن ابی حاتم۲۰۱۶؍۶

[25] صحیح بخاری کتاب الجھاد والسیر بَابُ دَرَجَاتِ المُجَاهِدِینَ فِی سَبِیلِ اللهِ، یُقَالُ هَذِهِ سَبِیلِی وَهَذَا سَبِیلِی ۲۷۹۰،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ بَیَانِ مَا أَعَدَّهُ اللهُ تَعَالَى لِلْمُجَاهِدِ فِی الْجَنَّةِ مِنَ الدَّرَجَاتِ عن ابوسعیدخدری ۴۸۷۹، مسند احمد ۸۴۱۹،صحیح ابن حبان ۴۶۱۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۶۶،شرح السنة للبغوی ۲۶۱۰

[26] تفسیر طبری ۵۸۶؍۲۳

[27] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ ۶۴۶۷،۶۴۶۴، صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۱۱،مسنداحمد۱۰۰۱۰،مسندابی یعلی عن جابر ۱۷۷۵

[28] الانشقاق۱۰تا۱۵

[29] تفسیرطبری۵۸۷؍۲۳

[30] الدر المنثور ۲۷۴؍۸

[31] تفسیر طبری ۵۸۹؍۲۳،تفسیرابن ابی حاتم۳۳۷۲؍۱۰

[32] جامع ترمذی أَبْوَابُ صِفَةِ جَهَنَّمَ باب ۲۵۸۸، مسند احمد۶۸۵۶،تفسیرطبری ۵۸۹؍۲۳، الدر المنثور ۳۰۵؍۷

[33] ق۲۴تا۲۶

[34] المومن ۱۸

[35] یٰسین۶۹

[36] البقرة۲

[37] بنی اسرائیل۸۲

Related Articles