بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة الذاریات

زمانہ قدیم سے ہی موت کے بعدکی زندگی کے بارے میں  مختلف نظریات اس دنیامیں  موجودرہے مثلا ً۔

xبعض لوگ موت کے بعدکی زندگی کے صریحا منکرہیں ان کانظریہ یہ ہے کہ موت کے بعدکوئی زندگی نہیں  ۔

xکچھ قوموں  نے اس عقیدے کواپنایاکہ موت کے بعدزندگی ہوگی اوراس میں  انسانی اعمال کی وجہ سے اسے ایک اورشکل دے دی جائے گی،اگرانسان نیک ہے توکسی اچھے اور خوبصور ت روپ میں  دوبارہ اس کاظہورہوگااوراگرانسان بدکرداروگناہ گارہوگا تودوسرا جنم کسی مکروہ اور بد صورت مخلوق کی صورت میں  ہوگا،اس کونظریہ تناسخ بھی کہاجاتا ہے۔

x فلسفی لوگ حیات بعدالموت کے توقائل تھے مگراس حدتک کہ جزاوسزاکے بعدانسانی وجودکوپھرفناکردیاجائے گا۔

xاوربعض لوگوں  کی رائے یہ ہے کہ موت کے بعدزندگی توہے مگر اس میں  جزاوسزانام کی کوئی چیزنہیں ۔

یہ مختلف اورمتضادآراء ونظریات عقل انسانی کی اپنی پیداوارتھے جس میں  غلطی کاامکان غالب ہے ، آخرت سے متعلق مختلف آراء کی تردیدکرکے حقیقت حال کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ قیاس کی بنیاد پر نظریات واعتقادکابناناقوموں  کے لئے تباہ کن ہوتاہے،اس جہالت اورغفلت سے نکالنے کے لئے پہلے موت کے بعدکی زندگی پر بطور شاہد نظام کائنات کی مختلف کیفیات کوپیش کیامثلا ًہوا،بارش اورمخلوقات جس میں  انسان کااپناوجودبھی شامل ہے،زمین وآسمان کی پیدائش اورمختلف چیزوں  کی ساخت وغیرہ ، اس کے بعدفرمایاکہ یہ سارانظام مکافات عمل یعنی ہراچھائی یابرائی کے بدلے کامتقاضی ہے جس کے لئے ایک وقت کاتعین لازم امرہے اوراس آخرت کے وقوع کے بعد انسان کی ساری دنیاوی زندگی کے بدلے کے طورپرآخرت کی ساری زندگی ہوگی،عقیدہ آخرت کی وضاحت کے بعدعقیدہ توحید مختصر اور پرکشش اندازمیں  بیان فرمایا اور بتایاکہ انسان کی تخلیق کاتواصل مقصدغیراللہ کی بندگی نہیں  بلکہ اپنے خالق ،مالک اوررازق کی عبادت کرناہے ،انسان کاحقیقی معبودوہ قادروقیوم ذات ہے جوبناوٹی معبودوں  کی طرح محتاج نہیں  بلکہ اپنی تمام مخلوقات کا رازق ہے اورساری کائنات کانظام اسی کی قدرت کے باعث چل رہاہے،ان دونوں  عقیدوں  کی تشریح کے بعدیہ فرمایاکہ ہم نے انہی عقائد سے روشناس کرانے کے لئے انبیاء ورسل کاسلسلہ جاری کیاتھا تاکہ بھولابھٹکاانسان راہ راست کوپہچان لے اوراپنے رب کی رضاکے حصول کی راہ پرچل نکلے ،جن لوگوں  نے ان قدسی نفس بندوں  کی دعوت پرلبیک کہاوہ کامیاب وکامران ہوئے اورجنہوں  نے مخالفت کی ان کوعذاب کی چکی میں  پسناپڑا ، آخر سورة میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی کہ ان لوگوں  کی ضداورہٹ دھرمی کی طرف قطعاًتوجہ نہ کریں  بلکہ اپنے دعوت وتذکیرکے کام کوآگے بڑھاتے چلے جائیں ،وہ ظالم جواپنی سرکشی پرقائم ہیں  توان سے پہلے اسی روش پرچلنے والے اپنے حصے کاعذاب پاچکے ہیں  اوران کے حصے کاعذاب تیارہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالذَّارِیَاتِ ذَرْوًا ‎﴿١﴾‏ فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا ‎﴿٢﴾‏ فَالْجَارِیَاتِ یُسْرًا ‎﴿٣﴾‏ فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا ‎﴿٤﴾‏ إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ ‎﴿٥﴾‏ وَإِنَّ الدِّینَ لَوَاقِعٌ ‎﴿٦﴾‏ (الذاریات)
’’قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر، پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو، پھر چلنے والی نرمی سے، پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں ، یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کئے جاتے ہیں (سب) سچے ہیں اور بیشک انصاف ہونے والا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق کے مقابلہ میں کفارمکہ اپنی ضد،ہٹ دھرمی اورجاہلانہ غرورکی بناپر زوروشورسے تکذیب واستہزاء اورجھوٹے الزامات سے کام لے رہے تھے ، مگر ابھی ظلم وستم کی چکی چلناشروع نہیں  ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفارکو مختلف اندازسے توحیدکے پرزور دلائل اور آخرت کی جزاوسزاکی طرف خبردارکرنے کاسلسلہ جاری تھا تاکہ وہ اپنے خودساختہ آبائی دین کی قیاسات ورسومات کی حقیقت کوجانیں  اورایک تباہ کن حماقت سے نکل کر اعمال کی جوابدہی کے لئے تیار ہو جائیں ،چنانچہ اس سورہ میں  ایک بارپھربڑے مدلل اندازمیں  عقیدہ توحیداورآخرت کوموضوع بنایاگیاکہ اے کفروشرک اورفسق وفجورمیں  غرق لوگو!خواب غفلت سے نکل آؤ ،زمین کی ساخت ،آسمانوں  کی تخلیق ،دن اوررات کاایک دوسرے کے پیچھے آنا،ایک عظیم الشان ضابطہ کے مطابق گردآلوداورسبک رفتار ہواؤ ں  کاچلنا،بادلوں  کاسمندروں  سے کھاری پانی کو اٹھانا اورپھرروائے زمین کے مختلف حصوں  میں  پھیل کرایک خاص اندازے سے آسمان سے میٹھے پانی کا برسنا،بارش کے پانی سے مردہ زمینوں  کازندہ ہوکرمختلف انواع کی نباتات اورپھلوں  کاپیداکرنا،سمندروں  اوردریاؤ ں  میں  کشتیوں  کاچلنا،اللہ کے حکم سے فرشتوں  کا کائنات وآخرت کے مختلف امورکوسرانجام دینے پرمقررہوناان کی جو حدود مقرر کردی گئی ہیں  وہ ان سے تجاوزکرسکتاہے نہ ان میں  کچھ کمی کرسکتاہے،تمام مخلوقات کوجوڑوں  کی شکل میں  تخلیق کرناوغیرہ قیامت کے وقوع پردلیل ہے کہ کائنات کے اس عظیم الشان نظام کو جوصدیوں سے بے عیب طریقہ پرکام کررہاہے بے مقصدتخلیق نہیں  کردیاگیابلکہ اس نظام میں  ہرچیزمبنی برحقیقت ہے ،جب سب کچھ بامقصدہے توانسان جس کوعقل وشعورعطاکیاگیاہے ،نیکی وبدی کی تمیزاوراللہ کی بے شمارمخلوقات پرتصرف کے اختیارات دیئے گئے ہیں  اس کوایسے ہی لایعنی طریقے سے چھوڑدیاگیاہے کہ وہ جو چاہے کرتاپھرے اوراس کے اعمال کی بازپرس نہ ہو،اس کامحاسبہ نہ ہو،ایساہرگزنہیں  ہے جوذات اس کائنات کے نظام کو جوبظاہرنہایت مشکل اوراسباب عادیہ کے خلاف ہے چلارہی ہے وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانوں  کودوبارہ زندہ کرنے پربھی قادرہے ،اے کفروشرک اورفسق وفجورمیں  غرق غافل لوگو! خبردار ہو جاؤ جزائے اعمال کی وعید یقیناًسچی ہے ،اللہ کے حکم سے ایک وقت مقررہ پرقیامت برپاہوکررہے گی،پھرتم اپنی قبروں  سے جسم وجان کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوکراللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوگے جہاں  اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کے مطابق تمہارامحاسبہ فرمائے گا،اگراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کروگے توتمہاراٹھکانہ جنت ہوگی جس میں  تم آرام وسکون سے رب کی نعمتوں  سے استفادہ کروگے،اوراگرتعصبات اورغروروہٹ دھرمی میں  مبتلاہوکراس حقیقت سے انکارکروگے تو جہنم کی آگ میں  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جلتے رہوگے جہاں تمہاری آہ وپکارپرکوئی توجہ نہیں  کی جائے گی۔

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّكُمْ لَفِی قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ‎﴿٨﴾‏ یُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ‎﴿٩﴾ (الذاریات)
’’قسم ہے راہوں والے آسمان کی! یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو، اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہو۔‘‘

اورقسم ہے بغیرستونوں  کے بلندوبالا،وسیع وعریض،مضبوط ومستحکم اوراپنے اپنے مدارمیں  تیرتے چاند،سورج ،سیاروں  ،روشن ستاروں  اورلاکھوں  کہکشاؤ ں  سے مزین آسمان کی،پیغمبرآخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کوجھٹلانے والو !آخرت کے بارے میں تمہارے اقوال ایک دوسرے سے مختلف اورمضطرب ہیں ،تمہاراکسی بات پراجتماع نہیں ،تم میں  کوئی توقیامت کی بالکل نفی کردیتاہے اورکوئی شک وشبہ کا اظہارکرتاہے ،ایک طرف توتم اللہ کے خالق اوررازق ہونے کااعتراف کرتے ہواوردوسری طرف غیراللہ کواس کاشریک گردانتے ہو، اسی طرح تم لوگ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجادوگر،کبھی شاعر،کبھی کاہن اورکبھی کذاب ٹھہراتے ہو،تمہاراکسی ایک بات پرمتفق نہ ہونا تمہاراباطل پرہوناثابت کرتا ہے ،جیسے فرمایا

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا۝۸۲ [1]

ترجمہ:کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں  کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں  بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔

مگرعقیدہ آخرت سے وہی شخص گمراہ ہوتاہے جویقینی دلائل وبراہین سے منہ موڑتا ہے ، جیسے فرمایا

فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ۝۱۶۱ۙمَآ اَنْتُمْ عَلَیْهِ بِفٰتِـنِیْنَ۝۱۶۲ۙاِلَّا مَنْ هُوَصَالِ الْجَحِیْمِ۝۱۶۳ [2]

ترجمہ:پس تم اورتمہارے یہ معبوداللہ سے کسی کوپھیرنہیں  سکتے مگرصرف اس کوجودوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں  جھلسنے والاہو۔

 قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ ‎﴿١٠﴾‏ الَّذِینَ هُمْ فِی غَمْرَةٍ سَاهُونَ ‎﴿١١﴾‏ یَسْأَلُونَ أَیَّانَ یَوْمُ الدِّینِ ‎﴿١٢﴾‏ یَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ یُفْتَنُونَ ‎﴿١٣﴾‏ ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَٰذَا الَّذِی كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ‎﴿١٤﴾‏ إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ‎﴿١٥﴾‏ آخِذِینَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِینَ ‎﴿١٦﴾‏ كَانُوا قَلِیلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَهْجَعُونَ ‎﴿١٧﴾‏ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُونَ ‎﴿١٨﴾‏ وَفِی أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ‎﴿١٩﴾ (الذاریات)
’’بےسند باتیں کرنے والے غارت کردیئے گئے، جو غفلت میں ہیں اور بھولے ہوئے ہیں پوچھتے ہیں کہ یوم جزا کب ہوگا ؟ ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے، اپنی فتنہ پردازی کا مزہ چکھویہی ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے، بیشک تقوٰی والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہونگے، ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا اسے لے رہے ہوں گے، وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے، وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے اور ان کے مال میں مانگنے والوں اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا۔‘‘

تباہ وبربادہوئے مشرکین جوکفروجہالت میں  غرق اورضلالت کی موجوں  میں  گھرے ہوئے ہیں اورقرآن مجیدسے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے محض ظن وتخمین سے رائے قائم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآخرت کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں  بولتے ہیں ، وہ علم یایقین یا دلائل حاصل کرنے کے لئے نہیں  بلکہ حیات بعدالموت کوبعیدا ز امکان سمجھتے ہوئے،اللہ کی وعیدکو طعن اوراستہزاء کے طورپرپوچھتے ہیں  کہ آخریہ روزجزاء کب آئے گا؟جیسے فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىہَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ۝۰ۚ لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭۘؔثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً۝۰ۭ یَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْہَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللہِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۸۷ [3]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا آسمانوں  اور زمین میں  وہ بڑا سخت وقت ہوگا وہ تم پر اچانک آجائے گا یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں  گویا کہ تم اس کی کھوج میں  لگے ہوئے ہو کہو اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔

یَسْـَٔـــلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا۝۶۳ [4]

ترجمہ:لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی کہواس کا علم تو للہ ہی کو ہےتمہیں  کیا خبرشاید کہ وہ قریب ہی آ لگی ہو۔

یَسْـــَٔــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰـىہَا۝۴۲ۭ [5]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر وہ گھڑی کب آکر ٹھیرےگی؟ ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !انہیں  خبردارکریں  کہ یہ وہ دن ہے جس دن انہیں  ان کے خبث ظاہروخبث باطن کے سبب سے جہنم میں  پھینک کرسونے کی طرح تپایاجائے گا ،

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَوْلَهُ:{یُفْتَنُونَ}قَالَ:كَمَا یُفْتَنُ الذَّهَبُ فِی النَّارِ

مجاہد رحمہ اللہ ’’تپائے جائیں  گے۔‘‘کے بارے میں  کہتے ہیں  اس طرح جیسے سونے کوآگ میں  گرمایا جاتا ہے۔ [6]

اوران سے کہاجائے گااب دردناک عذاب کا مزہ چکھو ، یہ عذاب جس میں  تم ڈال دیئے گئے ہویہ اس فتنے کے اثرات ہیں  جس میں  تم مبتلاہوئے جس نے تمہیں  کفراورگمراہی میں  دھکیل دیاتھا،پھراورزیادہ حقارت کے لئے ان سے بطورڈانٹ ڈپٹ کے کہاجائے گایہ وہی عذاب ہے جس کے لئے تم جلدی مچارہے تھے پس اب مختلف انواع کی عقوبتوں  ،سزاؤ ں ،زنجیروں ،بیڑیوں ،اللہ کی ناراضگی اورعذاب کامزہ چکھو،البتہ وہ لوگ جواللہ اور اللہ کی منزل کتابوں ،رسولوں  اورآخرت پرایمان لائے اور اخروی کامیابی کے لیے اعمال صالحہ اختیارکیے وہ اس روز جنت کے مختلف انواع کے درختوں  اورمیوؤ ں  پرمشتمل باغوں  اورانواع واقسام کے رواں  دواں چشموں  میں  ہوں  گے ،جونعمتیں  ان کارب انہیں  عطافرمائے گااسے پسندیدگی سے لپک لپک کرقبول کر رہے ہوں  گے،دنیامیں  یہ لوگ پرہیزگارتھے ،جیسے فرمایا

كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِیْۗــــًٔۢـــابِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ۝۲۴ [7]

ترجمہ:(ایسے لوگوں  سے کہاجائے گا)مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں  میں  کیے ہیں ۔

وہ راتوں  کوعیش وعشرت اورفسق وفجور میں  نہیں  گزاردیتے تھے بلکہ رات کااچھاخاصا حصہ اپنے رب کی یادمیں  کھڑے تلاوت کرتے ،نوافل پڑھتے،آہ وزاری اور عبادت میں  گزارتے تھے ،

قَالَ ابْنُ عباس: لم تكن تَمْضِی عَلَیْهِمْ لَیْلَةٌ إِلَّا یَأْخُذُونَ مِنْهَا وَلَوْ شَیْئًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اس کے معنی یہ ہیں  کہ کوئی ایسی رات نہ ہوتی تھی جس میں  اللہ کی عبادت نہ کرتے ہوں خواہ تھوڑے سے وقت ہی کے لیے کیوں  نہ ہو۔ [8]

وَقَالَ قَتَادَةُ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللهِ: قلَّ لَیْلَةٌ تَأْتِی عَلَیْهِمْ لَا یُصَلُّونَ فِیهَا لِلَّهِ، عَزَّ وَجَلَّ، إِمَّا مِنْ أَوَّلِهَا وَإِمَّا مَنْ أَوْسَطِهَا

قتادہ رحمہ اللہ نے مطرف بن عبداللہ سے روایت کیاہے کہ کم راتیں  ہی ایسی ہوں  گی جن میں  انہوں  نے اللہ تعالیٰ کے لیے نمازنہ پڑھی ہو،خواہ رات کے ابتدائی حصے میں  پڑھی ہویادرمیانی حصے میں ۔ [9]

عَنْ مُجَاهِدٍ، فِی قَوْلِهِ:{كَانُوا قَلِیلًا مِنَ اللیْلِ مَا یَهْجَعُونَ }قَالَ:قَلِیلٌ مَا یَرْقُدُونَ لَیْلَةً حَتَّى الصَّبَّاحِ لَا یَتَهَجَّدُونَ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’وہ رات کوبہت کم سویاکرتے تھے۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں  اس کامفہوم یہ ہے کہ کم راتیں  ایسی ہوں  گی جن میں  وہ صبح تک سورہے ہوں  اورانہوں  نے تہجدنہ پڑھی ہو۔ [10]

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ:{كَانُوا قَلِیلا مِنَ اللیْلِ مَا یَهْجَعُونَ} كَابَدُوا قِیَامَ اللیْلِ،فَلَا یَنَامُونَ مِنَ اللیْلِ إِلَّا أَقَلَّهُ،وَنَشِطُوا فَمَدُّوا إِلَى السَّحَرِ حَتَّى كَانَ الِاسْتِغْفَارُ بِسَحَرٍ

حسن بصری رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’وہ رات کوبہت کم سویاکرتے تھے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں  انہوں  نے قیام اللیل کواپنامعمول بنالیاتھا جس کی وجہ سے وہ رات کے تھوڑے سے حصے میں  سوتے تھے ان کاقیام سپیدہ سحرنمودارہونے تک طویل ہوجاتاتھا حتی کہ بوقت سحروہ استغفارکرتے تھے۔ [11]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلاَمٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَیْهِ، وَقِیلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِی النَّاسِ لأَنْظُرَ إِلَیْهِ، فَلَمَّا اسْتَبَنْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَیْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، وَكَانَ أَوَّلُ شَیْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلاَمَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدْخُلُونَ الجَنَّةَ بِسَلاَمٍ

قیام اللیل کی تاکید میں  عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو لوگ دوڑتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے اور مشہور ہوگیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے،میں  بھی لوگوں  کے ساتھ آیا تاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں ، جب میری نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر پڑی تو میں  بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں  ہو سکتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر پہلی مرتبہ یہ بات فرمائی کہاےلوگوآپس میں  ایک دوسرے کوسلام کیاکرواورلوگوں  کو کھانا کھلاؤ اور رات کو جب لوگ سو جائیں  تو نماز پڑھا کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں  داخل ہوجاؤ گے۔ [12]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ فِی الْجَنَّةِ غُرْفَةً یُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا، وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَافَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِیُّ: لِمَنْ هِیَ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: لِمَنْ أَلَانَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَبَاتَ لِلَّهِ قَائِمًا وَالنَّاسُ نِیَامٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک جنت میں  کچھ ایسے بالاخانے ہوں  گے جن کے اندرسے باہرکامنظردیکھاجاسکے گااورباہرسے اندرکا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کن کے لیے ہوں  گے؟ فرمایااس کے لیے جونرم کلام کرے اورکھاناکھلائے اوراللہ کے لیے قیام میں  رات بسرکردے جبکہ (دوسرے)لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔[13]

پھروہی رات کے پچھلے پہروں  میں  جو قبولیت دعاکے بہترین اوقات میں  سے ہے اللہ غفورورحیم سے اپنے گناہوں  ، لغزشوں  اورکوتاہیوں  پر گڑگڑا کر توبہ واستغفار کرتے تھے،جیسے فرمایا

 اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِـتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْـتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ۝۱۷ [14]

ترجمہ:یہ وہ لوگ صبر کرنے والے ہیں ،راستبازہیں ،فرماں  برداراورفیاض ہیں  اور رات کے آخری گھڑیوں  میں  اللہ سے مغفرت کی دعائیں  مانگاکرتے ہیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ اسْمُهُ كُلَّ لَیْلَةٍ، حِینَ یَبْقَى ثُلُثُ اللیْلِ الْآخِرُ، إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَقُولُ: مَنْ یَدْعُونِی فَأَسْتَجِیبَ لَهُ؟مَنْ یَسْأَلُنِی فَأُعْطِیَهُ؟ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِی فَأَغْفِرَ لَهُ؟حَتَّى یَطْلُعَ الْفَجْرُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا پروردگاربلندبرکت والاہررات جب رات کاآخری حصہ باقی رہ جاتاہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورندادیتاہے کہ کون ہے جومجھ سے دعاکرے میں  اس کی دعاقبول کروں   کون ہے جومجھ سے مانگے میں  اس کو دوں  ؟کوئی ہے جومجھ سے بخشش چاہے میں  اسے بخش دوں ؟ یہاں  تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔ [15] اوران کے پاکیزہ مالوں  میں  سائل اور ان ضرورت مند لوگوں  کے لیے حصہ مقرر تھا جو سوال سے اجتناب کرتے تھے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَیْسَ الْمِسْكِینُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِی یَطُوفُ عَلَى النَّاسِ، فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ ، قَالُوا، فَمَا الْمِسْكِینُ؟ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:الَّذِی لَا یَجِدُ غِنًى یُغْنِیهِ، وَلَا یُفْطَنُ لَهُ، فَیُتَصَدَّقَ عَلَیْهِ،وَلَا یَسْأَلُ النَّاسَ شَیْئًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسکین وہ لوگ نہیں  جوگھومتارہتاہے اورلوگوں  کے گردرہتاہے اورایک لقمہ یاایک دو کھجورلے کرلوٹ جاتاہے،لوگوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسکین کون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسکین وہ ہے جس کواتناخرچ نہیں  ملتاجواس کی ضرورت بشری کی کفایت کرتاہواورنہ لوگ اسے مسکین جانتے ہیں  کہ اس کوصدقہ دیں  اورنہ وہ لوگوں  سے کچھ مانگتاہے۔ [16]

 وَفِی الْأَرْضِ آیَاتٌ لِّلْمُوقِنِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَفِی أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ (الذاریات)
’’اور یقین والوں کے لیے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو، اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے، آسمانوں اور زمین کے پروردگار کی قسم ! کہ یہ بالکل برحق ہے ایسا ہی جیسے کہ تم باتیں کرتے ہو۔‘‘

ایمان لانے والوں  کے لیے اس وسیع وہموارزمین میں  اللہ کی وحدانیت ،الوہیت اوراس کی قدرتوں  کی بے شمار نشانیاں  بکھری پڑی ہیں  جواس حقیقت پردلالت کرتی ہیں  کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک اوربے نیازہے،اس نے مخلوق کوکھیل تماشے کے طورپربے فائدہ پیدانہیں  کردیا،جیسے فرمایا

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ۝۱۶ [17]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں  ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں  بنایا ہے۔

اوراگرتمہیں  اپنے اردگرداللہ کی نشانیاں  نظرنہیں  آتیں  توخود اپنے وجودہی میں  دیکھ لوکہ کس طرح ہم نے تمہیں  نطفہ سے بتدریج مکمل کرکے ماں  کے پیٹ سے پیداکیا،جیسے فرمایا

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ۝۱۷ۭمِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ۝۱۸ۭمِنْ نُّطْفَةٍ۝۰ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ۝۱۹ۙ [18]

ترجمہ:لعنت ہو انسان پر کیسا سخت منکر حق ہے یہ،کس چیز سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے؟نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیاپھر اس کی تقدیر مقرر کی۔

کس طرح تمہارے جوڑوں  کومضبوط کیااورمتناسب بنایا،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ۝۶ۙ الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙفِیْٓ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ [19]

ترجمہ:اے انسان !کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں  ڈال دیاجس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایااور جس صورت میں  چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا ؟۔

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭاَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْـنٰى۝۳۷ۙثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰى۝۳۸ۙ [20]

ترجمہ:کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا ؟کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادر میں ) ٹپکا جاتا ہے؟پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے۔

کیاکیاجسمانی قوتیں  اورعقل وفہم کی صلاحیتیں  تمہیں  بخشیں ،حق وباطل میں  تمیزکرنے کی صلاحیت عطاکیں ،مافی الضمیرکااظہارکرنے کے لیے بولنے کی صلاحیت بخشی ،اور تمہارے اندر احساسات وجذبات ،میلانات اور رجحانات رکھے ، تمہارے اندرپھیپھڑوں  سے ہواکوکھینچنے اورباہرنکالنے،دل کے دھڑکنے، دیکھنے ،سننے ،کھانے ،چکھنے ،پینے ، جسم سے پانی اور غیرضروری عناصرخارج کرنے، گردوں  کاپیچیدہ خودکارنظام رکھا، پھر کیاتم تفکروتدبر نہیں کرتے کہ جوقادرمطلق یہ سب کام کرسکتاہے وہ تمہیں  دوبارہ زندہ کر کے اعمال کی جزا نہیں  دے سکتا،

قَالَ قَتَادَةُ: مَنْ تَفَكَّرَ فِی خَلْقِ نَفْسِهِ عَرَفَ أَنَّهُ إِنَّمَا خُلِقَ وَلُیِّنَتْ مَفَاصِلُهُ لِلْعِبَادَةِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ جوشخص اپنے نفس کی تخلیق کے بارے میں  غورکرے گاتواسے معلوم ہوجائے گاکہ اسے عبادت ہی کے لیے پیداکیاگیاہے اوراسی مقصودکوسامنے رکھتے ہوئے اس کے جوڑوں  کو لچکدار بنایا گیا ہے۔ [21]

تمہارارزق بھی آسمان ہی میں  ہے،یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آسمان سے بارش برساتا ہے جس سے مردہ زمین زندہ ہوکرلہلہانے لگتی ہے اوراس میں  سے تمہارارزق پیداہوتاہے اورانواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت بھی آسمان میں  ہے جس کاتم سے وعدہ کیاجارہاہے،پس آسمانوں  اورزمین کے رب کی قسم!جس طرح تمہیں  اپنے نطق لسان میں  کوئی شک نہیں  اسی طرح تمہیں  قیامت کے آنے اورمرنے کے بعددوبارہ زندہ ہوکراپنے اعمال کی جزاوسزامیں  کوئی شک نہیں  ہوناچاہیے۔

 هَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ ضَیْفِ إِبْرَاهِیمَ الْمُكْرَمِینَ ‎﴿٢٤﴾‏ إِذْ دَخَلُوا عَلَیْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِینٍ ‎﴿٢٦﴾‏ فَقَرَّبَهُ إِلَیْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِیمٍ ‎﴿٢٨﴾‏ فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِی صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِیمٌ ‎﴿٢٩﴾‏ قَالُوا كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْحَكِیمُ الْعَلِیمُ ‎﴿٣٠﴾‏(الذاریات)
’’کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے ؟ وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں ، پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) لائے اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوف زدہ ہوگئے، انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئےاور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی،پس ان کی بیوی آگے بڑھی اور حیرت میں آکر اپنے منہ پر مار کر کہا کہ میں تو بڑھیا ہوں اور ساتھ ہی بانجھ، انہوں نے کہا ہاں تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے، بیشک وہ حکیم وعلیم ہے ۔‘‘

مہمان اورمیزبان :

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم تمہیں ابراہیم کے معززمہمانوں  کاقصہ بتاتے ہیں ،جب وہ لوط علیہ السلام کی قوم کے پاس جانے سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کے پاس ایک بیٹے کی خوش خبری لے کر اس کے ہاں  پہنچے توانہوں کہاآپ کوسلام ہے ،ابراہیم علیہ السلام نے کہاآپ لوگوں  کوبھی سلام ہے،جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پرفرمایا

وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَــیُوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ كَانَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا۝۸۶ [22]

ترجمہ:اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں  سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دویا کم از کم اسی طرح، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

اوراپنے دل میں  خیال کرنے لگے کہ اس علاقے میں  اس شان اوراس وضع قطع کے لوگ نظرنہیں  آئے ،ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نوازتھے اس لیے ان چنداجنبیوں  کوبٹھاکرخاموشی سے ان کے کھانے کابندوبست کرنے کے لیے اپنے گھروالوں  کے پاس چلے گئے اور جلدہی ایک بھناہواموٹاتازہ بچھڑالاکرمہمانوں  کے آگے پیش کیامگرکھاناسامنے ہونے کے باوجودان اجنبیوں  نے کھانے کی طرف کوئی رغبت ظاہرنہیں  کی ، جب کافی دیر ہوگئی اورکھانابھی ٹھنڈاہونے لگا توابراہیم علیہ السلام نے کہاآپ حضرات کھاناکیوں  تناول نہیں  فرما رہے ؟پھروہ اپنے دل میں  ان سے ڈراکہ شایدیہ لوگ کسی برے ارادے سے آئے ہیں ،ابراہیم علیہ السلام کے چہرے پر خوف کے اثرات دیکھ کر فرشتوں  نے خودکوظاہرکیااور کہا اے ابراہیم علیہ السلام !خوف زدہ نہ ہوں ،جیسےفرمایا

وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلٰمًا۝۰ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ۝۶۹فَلَمَّا رَآٰ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً۝۰ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ۝۷۰ۭ [23]

ترجمہ:اوردیکھو،ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہاتم پرسلام ہو،ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیاتم پربھی سلام ہو،پھرکچھ دیرنہ گزری کہ ابراہیم علیہ السلام ایک بھناہوابچھڑا(ان کی ضیافت کے لیے)لے آیامگرجب دیکھاکہ ان کے ہاتھ کھانے پرنہیں  بڑھتے تووہ ان سے مشتبہ ہوگیااوردل میں  ان سے خوف محسوس کرنے لگا،انہوں  نے کہاڈرونہیں  ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔

اور انہوں  نے ابراہیم علیہ السلام کوکہاکہ ہم توتمہیں  ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کی خوش خبری سنانے کے لیے نازل ہوئے ہیں ،ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ جومہمانوں  کی تواضع کے لیے قریب ہی کھڑی ہوئی تھیں ، فرشتوں  کی زبانی یہ عظیم خبر سن کرکچھ دیرکے لیے تو ہکا بکا رہ گئیں  اور جب اوسان بحال ہوئے تو چیختی ہوئی آگے بڑھی اورعورتوں  کی عادت کے مطابق تعجب سے اس نے اپنامنہ پیٹ لیااورکہنے لگی کیامیں  بچہ جنوں  گی جبکہ میں  بوڑھی پھونس ہوچکی ہوں  اوراس کے ساتھ بانجھ بھی ہوں ،جیسے فرمایا

 وَامْرَاَتُهٗ قَاۗىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِـاِسْحٰقَ۝۰ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ۝۷۱قَالَتْ یٰوَیْلَــتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا۝۰ۭ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ۝۷۲ [24]

ترجمہ:ابراہیم علیہ السلام کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کرہنس دی ، پھر ہم نے اس کواسحاق علیہ السلام اوراسحاق علیہ السلام کے بعدیعقوب علیہ السلام کی خوش خبری دی،وہ بولی ہائے میری کم بختی!کیااب میرے ہاں  اولادہوگی جبکہ میں (نوے سال کی) بڑھیاپھونس ہوگئی اورمیرے میاں  بھی بوڑھے ہوچکے؟یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔

یعنی مانع حمل میں  تین چیزوں  کاذکرکیاکہ ایک تومیں  نوے سال کی بوڑھی پھونس ہوچکی ہوں  کہ جس عمرمیں  عورتیں  بچہ پیدانہیں  کرسکتیں ،دوسری یہ کہ میں  بانجھ بھی ہوں  اور بانجھ عورت کیونکربچہ پیدا کرسکتی ہے اورتیسرایہ کہ میراخاوندبھی سوسال کا بوڑھاہوچکا ہے ،فرشتوں  نے کہایہ عظیم خوش خبری ہم اپنی طرف سے نہیں  دے رہے بلکہ تیرے رب نے ہی یہ عظیم خبر دے کر ہمیں نازل کیاہے،اس کاکوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتاہے اورتم جس عزت وکرامت کے مستحق ہووہ خوب جانتاہے۔

 قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَیُّهَا الْمُرْسَلُونَ ‎﴿٣١﴾‏ قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّن طِینٍ ‎﴿٣٣﴾‏ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِیهَا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٣٥﴾‏ فَمَا وَجَدْنَا فِیهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَتَرَكْنَا فِیهَا آیَةً لِّلَّذِینَ یَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِیمَ ‎﴿٣٧﴾(الزاریات)
’’حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو ! ) تمہارا کیا مقصد ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم گناہ گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں جو تیرے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں ان حد سے گزر جانے والوں کے لئے، پس جتنے ایمان دار وہاں تھے ہم نے انہیں نکال لیا اور ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا، اور ہم نے ان کے لیے جو دردناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی۔‘‘

جب ابراہیم علیہ السلام کوتسلی ہوگئی توانہوں  نے فرشتوں  سے کہااے فرستادگان الٰہی!تمہیں کیامہم درپیش ہے؟فرشتوں  نے جواب دیااللہ رب العالمین نے ہمیں  شرک وضلالت اور فسق و فجورمیں  حدسے تجاوزکرنے والی ایک مجرم قوم کی طرف بھیجاہے تاکہ ہم اس پررب کی طرف سے پکی ہوئی مٹی کے نشان زدہ پتھر برسا کرصفحہ ہستی سے مٹاکرعبرت کا نشان بنا دیں  ،ابراہیم علیہ السلام نے فرمایااس بستی میں  تولوط علیہ السلام بھی ہیں ،جیسے فرمایا

قَالَ اِنَّ فِیْہَا لُوْطًا۝۰ۭ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْہَا۝۰۪ۡ لَنُنَجِّیَنَّہٗ وَاَہْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ۝۰ۤۡ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ۝۳۲ [25]

ترجمہ:ابراہیم علیہ السلام نے کہا وہاں  تو لوط علیہ السلام موجود ہے،انہوں  نے کہا ہم خوب جانتے ہیں  کہ وہاں  کون کون ہے ہم اسے اور اس کی بیوی کے سوا اس کے باقی گھر والوں  کو بچا لیں  گے، اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں  میں  سے تھی۔

پھرہم نے اپنی سنت کے مطابق عذاب سے پہلے ان سب لوگوں  کونکال لیاجواس بستی میں  مومن تھے اوروہاں  ہم نے لوط علیہ السلام اوران کی دوبیٹیوں کے سوامسلمانوں  کاکوئی گھر نہ پایا،جیسے فرمایا

 وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ۝۰ۣ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ۝۳۳ [26]

ترجمہ:انہوں  نے کہانہ ڈرواورنہ رنج کروہم تمہیں  اور تمہارے گھروالوں  کوبچالیں  گے سوائے تمہاری بیوی کے جوپیچھے رہ جانے والوں  میں  سے ہے۔

فَنَجَّیْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اَجْمَعِیْنَ [27]

ترجمہ:آخرکارہم نے اسے اور اس کے سب اہل وعیال کوبچالیا ۔

۔۔۔اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ۝۰ۭ نَجَّیْنٰهُمْ بِسَحَرٍ۝۳۴ۙ [28]

ترجمہ:صرف لوط کے گھر والے اس سے محفوظ رہے ان کوہم نے اپنے فضل سے رات کے پچھلے پہر بچا کرنکال دیا۔

فَاَنْجَیْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ۝۰ۡۖ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ۝۸۳ [29]

ترجمہ:آخرکار ہم نے لوط علیہ السلام اور اس کے گھر والوں  کو بچا لیابجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں  میں  تھی ۔

جب لوط علیہ السلام اپنے گھروالوں  کے ہمراہ بخیروعافیت اس سرزمین سے جو زلزلوں  کے اس علاقہ کے انتہائی حساس حصہ پرہے نکل گئے تو صبح کے آثار ہوتے ہی زلزلے کی ہولناک آوازنے انہیں  آدبوچا،یہ عظیم زلزلہ زمین کے ایک سونوے میٹر کے فاصلے تک پھٹنے سے پیش آیا جس سے خوبیدہ آتش فشاں  ایک ہولناک دھماکے سے پھٹ پڑا اس دھماکہ کے ساتھ ، بجلی،قدرتی گیس ،آتش زدگی، اور پکے ہوئے کنکرپتھر بھی اس تباہی میں  شامل تھے جس نے پوری ہی بستی کوالٹ پلٹ کرزیروزبر،تہ وبالاکردیااس دوران خوابیدہ آتش فشاں  سے بے شمارمواد بہہ نکلا، خوفناک زلزلے اورآتش فشاں  کے پھٹنے کے دھماکے سے یہ زمین بحیرہ روم سے چارسو میڑ نیچے چلی گئی اورپانی اوپر ابھرآیااورایک جھیل بن گئی جس کی گہرائی چارسو میٹرہے ،اس جھیل کی تہہ بحیرہ روم کی سطح سے آٹھ سو میٹرنیچے ہے جو زمین میں  سب سے نچلامقام ہے جبکہ سطح سمندرسے نیچے دوسرے علاقے زیادہ سے زیادہ سو میڑنیچے ہیں  اس جھیل کی تہہ قشرارض کی گہرائیوں  میں  واقع ہے۔ پھرجولوگ اس زلزلہ سے بچ گئے ان پرنامزد کئے ہوئے پکی ہوئی مٹی کے پتھروں  کاانتہائی خطرناک مینہ برسایااورپوری قوم کولوط علیہ السلام کی بیوی سمیت ہلاک کر دیا اور رہتی دنیاتک نشان عبرت بنادیاتاکہ رہتی دنیاتک لوگوں  کومعلوم ہوجائے کہ رب کی طرف سے تنبیہ نہ ماننے والوں  کاانجام کیاہوتاہے ، الله کے بنیادی قانون عدل وانصاف کو توڑنے کاانجام کیاہوتاہے، ہے کوئی جوگزشتہ اقوام کے عبرت انگیز واقعہ کی طرح اس واقعہ سے بھی عبرت حاصل کرے اورہرطرف سے منہ موڑکررب کی طرف پلٹ آئے، محققین نے ان بستیوں  کے تباہ شدہ آثار بحرمیت کے ساحل پرہویداکردئے ہیں  جو زبان حال سے کہہ رہے ہیں  کہ اے الله کے بندو!ابلیس کے دھوکے میں  رہ کراس فانی دنیاکی رنگینیوں  اوردلفرینیوں  میں  مت گم ہوجاؤ ورنہ تمہاراحشرہم سے مختلف نہیں  ہوگا ۔

وَفِی مُوسَىٰ إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُّبِینٍ ‎﴿٣٨﴾‏ فَتَوَلَّىٰ بِرُكْنِهِ وَقَالَ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ‎﴿٣٩﴾‏ فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِی الْیَمِّ وَهُوَ مُلِیمٌ ‎﴿٤٠﴾(الذاریات)
’’موسیٰ(علیہ السلام کے قصے) میں (بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے) کہ ہم نے فرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا، پس اس نے اپنے بل بوتے پر منہ موڑا اور کہنے لگا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے، بالآخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو اپنے عذاب میں پکڑ کر دریا میں ڈال دیا، وہ تھا ملامت کے قابل ۔‘‘

اورتمہارے لئے موسیٰ کے قصے میں  بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی ہے،جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو روشن دلائل اورواضح برہان کے ساتھ فرعون اوراس کے سرداروں کے پاس بھیجاتووہ دعوت حق کوجاننے کے باوجود اپنی قوت اورلشکروں  کے بل بوتے پرغرورمیں  مبتلاہوگیا،جیسے فرمایا

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۔۔۔۝۱۴ۧ [30]

ترجمہ: انہوں  نے سراسرظلم اورغرورکی راہ سے ان نشانیوں  کاانکارکیاحالاں  کہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۔۔۔ ۝۱۰۲ [31]

ترجمہ: موسیٰ نے جواب دیا تھا کہ تو خوب جانتا ہے کہ یہ نشانیاں  آسمانوں  اور زمین کے رب کے سوا کسی اور نے نہیں  اتاری ہیں ۔

اورمعجزات کودیکھ کربولایہ جادوگر ہے اورکبھی انہیں مجنون کہنے لگا،آخرکارایک وقت مقررہ تک ڈھیل دینے کے بعدہم نے اس متکبر شخص اور اس کے لاؤ لشکر کواپنی گرفت میں  لیااورسب کوایک ساتھ سمندرمیں  غرق کر دیااورشوکت وسطوت کاحامل فرعون اوراس کے ظالم سردار رہتی دنیاتک ملامت زدہ ہوکررہ گئے،اوران ظالموں  کے غرق ہونے کے بعدکوئی آنکھ ان پررونے والی نہ تھی،جیسے فرمایا

فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۝۲۹ۧ [32]

ترجمہ: پھر نہ آسمان ان پررویانہ زمین اورذراسی مہلت بھی ان کونہ دی گئی۔

وَفِی عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیحَ الْعَقِیمَ ‎﴿٤١﴾‏ مَا تَذَرُ مِن شَیْءٍ أَتَتْ عَلَیْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیمِ ‎﴿٤٢﴾‏ (الذاریات)
’’اسی طرح عادیوں میں بھی (ہماری طرف سے تنبیہ ہے) جب کہ ہم نے ان پر خیر و برکت سے خالی آندھی بھیجی، وہ جس چیز پر گرتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح (چورا چورا) کردیتی تھی۔‘‘

اورتمہارے لئے معروف قبیلہ عادکے عبرت ناک انجام میں  بھی ہماری کامل قوت وقدرت کی ایک نشانی ہے،جب انہوں  نے اپنے پیغمبرہود علیہ السلام کوجھٹلایاتوان کے ظلم وتکبرکے سبب ایک وقت مقررہ پر ہم نے ان پربطورعذاب ایک ایسی خشک اورنہایت تندوتیزہوابھیج دی جوسات راتیں  اورآٹھ دن مسلسل ان پرچلتی رہی اوروہ جس چیزپربھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح کرکے رکھ دیا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:نُصِرْتُ بِالصَّبَا، وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری مددپرواہواؤ ں  سے کی گئی ہے، اورعادی پچھوا (مغربی) ہواؤ ں  سے ہلاک ہوئے۔ [33]

وَفِی ثَمُودَ إِذْ قِیلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّىٰ حِینٍ ‎﴿٤٣﴾‏ فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ وَهُمْ یَنظُرُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ فَمَا اسْتَطَاعُوا مِن قِیَامٍ وَمَا كَانُوا مُنتَصِرِینَ ‎﴿٤٥﴾(الذاریات)
’’اور ثمود (کے قصے) میں بھی (عبرت) ہے، جب ان سے کہا گیا کہ تم کچھ دنوں تک فائدہ اٹھالو، لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی جس پر ان کے دیکھتے دیکھتے (تیز تند) کڑاکے نے ہلاک کردیا، پس نہ تو کھڑے ہو سکے اور نہ بدلہ لے سکے۔‘‘

اورتمہارے لئے قوم ثمودمیں  بھی عبرت کی ایک نشانی ہے جب صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت حق پہنچائی مگرانہوں  نے راہ ہدایت کے بجائے ضلالت کوپسندکیا۔

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَی الْهُدٰى۔۔۔۝۱۷ۚ [34]

ترجمہ:رہے ثمودتوان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگرانہوں  نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا ہی پسندکیا۔

پھر انہوں  نے معجزہ کا مطالبہ کیاجس پراللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ایک اونٹنی کوظاہرکردیااور صالح علیہ السلام نے انہیں  متنبہ کردیا کہ کسی برے ارادے سے اس اونٹنی کوہاتھ نہ لگاناورنہ اللہ کاعذاب تم پرنازل ہوجائے گامگراس تنبیہ پربھی انہوں  نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی اوراونٹنی کوقتل کردیا ،چنانچہ صالح علیہ السلام نے انہیں  متنبہ کر دیاکہ صرف تین دن اس دنیامیں  اورعیش وآرام کے مزے لوٹ لواس کے بعداللہ کاعذاب تم پرنازل ہوجائے گا،جیسے فرمایا

فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ۝۶۵ [35]

ترجمہ:پھر انہوں  نے اونٹنی کومارڈالا اس پرصالح نے ان کوخبردارکردیاکہ بس اب تین دن اپنے گھروں  میں  اوررہ بس لو یہ ایسی میعادہے جو جھوٹی نہ ثابت ہوگی۔

آخرکارتین دن کے بعدصبح کے وقت اچانک ایک تیزوتندکڑا کے ساتھ ایک شدیدزلزلہ نے انہیں  آلیا،جیسے فرمایا

 فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۷۸ [36]

ترجمہ:آخرکارایک دہلادینے والی آفت نے انہیں  آلیااوروہ اپنے گھروں  میں  اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔

فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ۝۵ [37]

ترجمہ: تو ثمود ایک سخت حادثہ سے ہلاک کیےگئے۔

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ۝۳۱ [38]

ترجمہ:ہم نے ان پر بس ایک دھماکہ چھوڑا اور وہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہو کر رہ گئے۔

وَقَوْمَ نُوحٍ مِّن قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاهَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَمِن كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ‎﴿٤٩﴾(الذاریات)
’’اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہوچکا تھا) وہ بھی بڑے نافرمان تھے، آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں ، اور زمین کو ہم نے فرش بنادیا پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں ، ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘

اورقوم عادوثموداورقوم فرعون سے پہلے ہم نے نوح علیہ السلام کی قوم کودعوت حق کی تکذیب اورسرکشی کے نتیجے میں  پانی میں  غرق کرکےہلاک کیاکیونکہ وہ بھی بڑے نافرمان لوگ تھے،آخرت کے حق میں  تاریخی دلائل پیش کرنے کے بعدآفاقی دلائل پیش کیے کہ ستونوں  کے بغیر بلندوبالاآسمان کوہم نے اپنی عظیم قدرت وقوت کے ساتھ بڑی مہارت کے ساتھ بنایاہے اورہم اس کومزیدوسیع کرنے کی طاقت و قدرت رکھتے ہیں ،اوراس وسیع وعریض فرش کی طرح ہموارزمین کوبھی ہم نے اپنی حکمت اوررحمت سے تمہاری اوردوسری مخلوقات کی ضرورت کے لیے بچھایاہے اوراپنی حمدوثنابیان کرتے ہوئے فرمایاکہ ہم بڑے اچھے ہموارکرنے والے ہیں  ،اور ہم نے جن وانس ،حیوانات ،بحروبرکی مخلوقات اورجمادات ونباتات وغیرہ کی افزائش کے لیے جوڑے جوڑے بنائے ہیں  ،یعنی نراورمادہ دواصناف پیداکہیں ،اسی طرح ہرچیز کی ضد جیسے آسمان وزمین، روشنی اوراندھیرا،خشکی اورتری ،چانداورسورج،میٹھااورکڑوا،رات اوردن،خیراورشر،زندگی اورموت ،ایمان اورکفر،جنت ودوزخ اوردنیاکے مقابل آخرت پیداکی ہے شایدکہ تم غوروتدبرکروکہ اس عظیم الشان کائنات کوتخلیق کرنے اوراسے ایک نظام کاپابندکرنے والااللہ وحدہ لاشریک ہی ہے ،جس کی کسی تخلیق اورامرمیں  کوئی ساجھی یا شریک نہیں اور ایک وقت مقررہ پرتم نے اپنے خالق کی بارگاہ میں  پیش ہوکراپنے اعمال کاجواب دیناہے۔

 فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ۖ إِنِّی لَكُم مِّنْهُ نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٥٠﴾‏ وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۖ إِنِّی لَكُم مِّنْهُ نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٥١﴾‏(الذاریات)
’’پس تم اللہ کی طرف دوڑ بھاگ (یعنی رجوع) کرو، یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں ، اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہراؤ، بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں ۔‘‘

پس کفرومعصیت سے تائب ہوکرفوراًاللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں  جھک جاؤ اور تم اپنی تمام تر توجہ کامرکزصرف اللہ تعالیٰ ہی کوبناؤ ، جس کاکوئی شریک نہیں  ،جس کاکوئی ہمسرنہیں ،اپنے تمام کاموں  میں  اسی کی ذات پراعتمادکرو،اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع میں  ہی امن وسکون ،مسرت ،دنیاوآخرت کی سعادت اورفوزوفلاح پوشیدہ ہیں ،لوگو!میں  تواللہ غفورورحیم کی طرف سے تمہیں  صاف صاف آگاہ کردینے والاہوں  ،خبردار اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کسی کوشریک یاہمسر نہ ٹھہراؤ ،اپنی مشکلات اورپریشانیوں  میں اس کوچھوڑکرکسی کو پکارانہ کرو،اللہ ہی اپنی مخلوقات کارزاق ہے لہذااپنارزق اپنے رب سے مانگوجودینے کی قدرت رکھتاہے جس کے خزانوں  میں  کچھ کمی نہیں ،اس کے سواکوئی دینے کی قدرت نہیں  رکھتا،اگرتم نے دعوت حق کی تکذیب کی اور غیراللہ کواس کاشریک ٹھہرادیاتوجنت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتوں  سے محروم ہوجاؤ گے اورپھرتمہیں  ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں  دھکیل دیا جائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۝۰ۭ وَمَا لِلظّٰلِــمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝۷۲ [39]

ترجمہ:جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنّت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنّم ہے اور ایسے ظالموں  کا کوئی مددگار نہیں  ۔

كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِینَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ‎﴿٥٢﴾‏ أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنتَ بِمَلُومٍ ‎﴿٥٤﴾‏ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٥٥﴾‏(الذاریات)
’’اس طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے،کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں ، (نہیں ) بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں ، تو آپ ان سے منہ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں ،اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمانداروں کو نفع دے گی۔‘‘

وعظ ونصیحت میں  صبروضبط کی اہمیت :

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ جوآپ کوالقابات دے رہے ہیں  پہلی بارایسانہیں  ہورہا،آپ سے پہلی قوموں  نے بھی اپنے نبیوں  کو ساحراورمجنون کے خطاب دیئے ہیں ،جیسے نوح علیہ السلام کی قوم نے کہا

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ۝۹ [40]

ترجمہ:ان سے پہلے نوح کی قوم جھٹلا چکی ہے، ان لوگوں  نے ہمارے بندے کو جھٹلایاقراردیا اورکہاکہ یہ دیوانہ ہے اوروہ بری طرح اسے جھڑکاگیا ۔

اِنْ هُوَاِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِیْنٍ۝۲۵ [41]

ترجمہ:کچھ نہیں ، بس اس آدمی کوذرا جنون لاحق ہو گیا ہے، کچھ مدت اوردیکھ لو (شاید افاقہ ہو جائے ) ۔

قوم ھودنے اپنے رسول کو کہا

اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ۔۔۔۝۰۝۵۴ۙ [42]

ترجمہ: ہم تو یہ سمجھتے ہیں  کہ تجھ پر ہمارے معبودوں  میں  سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔

قوم ثمودنے اپنے رسول کو کہا

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۝۱۵۳ۚمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۚۖ فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۵۴ [43]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیا تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے، تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے۔ لا کوئی نشانی اگر تو سچا ہے۔

فرعون نے بھی رسول کے بارے میں  یہی کہاتھا

قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ۝۲۷ [44]

ترجمہ:فرعون نے(حاضرین سے) کہا تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں  بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں  ۔

کفارومشرکین کایہ قول سلسلہ بہ سلسلہ یونہی چلاآرہاہے جیسے آپس میں  ایک دوسرے کووصیت کرکے جاتے ہوں ،سچ تویہ ہے کہ سرکشی اورسرتابی میں  ان سب کے دل متشابہ ہیں  اوران کے طورواطوار بھی ملتے جلتے ہیں ،جیسے ایک مقام پرفرمایا

وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللهُ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَةٌ۝۰ۭ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ۝۰ۭ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُھُمْ۝۰ۭ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۝۱۱۸ [45]

ترجمہ:نادان کہتے ہیں  کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں  نہیں  کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں  نہیں  آتی؟ ایسی ہی باتیں  اِن سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے ، ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں  ) کی ذہنیتیں  ایک جیسی ہیں ، یقین لانے والوں  کے لیے تو ہم نشانیاں  صاف صاف نمایاں  کر چکے ہیں ۔

لہذاآپ ان اعراض کرنے والوں  اور جھٹلانے والوں  سے روگردانی کرلیں  اوراپنے معاملات پرتوجہ مرکوزرکھیں ،ان کے گناہوں  بداعمالیوں  پر آپ کوکوئی ملامت نہیں ،آپ کے ذمے توصرف پہنچادیناہے جوآپ نے معقول طریقے سے پورا کردیا ہے ،اوردعوت عام کاسلسلہ جاری رکھیں  بلاشبہ نصیحت مومنین کو جو رب پریقین رکھتے ہیں  ، جورب کے وعدوں  پریقین کامل رکھتے ہیں ،جورب کے احکامات پربغیرکسی چوں  وچراں عمل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ،جوآخرت کے حساب کتاب کے خوف سے لرزاں  بدانداں  رہتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَةٌ اَنَّہُمْ اِلٰى رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ۝۶۰ۙ [46]

ترجمہ:اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں  جو کچھ بھی دیتے ہیں  اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں  کہ ہمیں  اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔

جورب کی خوشنودگی حاصل کرنے کے لئے اپنے مالوں  میں  سے سائل اورمحروم پر خرچ کرتے رہتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙ [47]

ترجمہ: جن کے مالوں  میں  سائل اور محروم کاایک مقرر حق ہے۔

جو راتوں  کوکم ہی سوتے ہیں  اوربے چین ہوکربستروں  سے کھڑے ہوجاتے ہیں  اوررب کے حضوراپنے گناہوں  اورلغزشوں  کی معافی چاہتے ہیں ،اوران لوگوں  کوبھی فائدہ دیتی ہے جوایمان قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں  اورجن کی بابت اللہ کے علم میں  ہے کہ وہ ایمان لائیں  گے،جیسے فرمایا

فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى۝۹ۭسَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى۝۱۰ۙ [48]

ترجمہ: لہذاتم نصیحت کرواگرنصیحت نافع ہوجو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے گا۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ ‎﴿٥٦﴾‏ مَا أُرِیدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِیدُ أَن یُطْعِمُونِ ‎﴿٥٧﴾‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِینُ ‎﴿٥٨﴾‏ فَإِنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِّثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُونِ ‎﴿٥٩﴾‏ فَوَیْلٌ لِّلَّذِینَ كَفَرُوا مِن یَوْمِهِمُ الَّذِی یُوعَدُونَ ‎﴿٦٠﴾‏(الذاریات)
’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ،نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ مجھے کھلائیں ، اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے،پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا، لہٰذا وہ مجھ سے جلدی طلب نہ کریں ، پس خرابی ہے منکروں کو ان کے اس دن کی جس کا وعدہ دیئے جاتے ہیں ۔‘‘

انسانوں  اورجنوں  کومقصدزندگی کی یاددہانی کرائی گئی کہ میں  نے جن اورانسانوں  کواس کے سواکسی کام کے لئے پیدانہیں  کیاکہ وہ مجھے معبودبرحق تسلیم کریں  اورمیری بندگی واطاعت کریں ،یعنی انسان کی پہلی ترجیح رزق کمانانہیں  بلکہ اللہ کی اطاعت وعبادت ہے ،میری اطاعت وعبادت سے میرایہ مقصودنہیں  کہ میں  ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اورنہ یہ چاہتاہوں  کہ وہ مجھے کماکر کھلائیں ،یعنی اللہ عزوجل اس سے بہت بلندہے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کسی کامحتاج ہوبلکہ رزق کے سارے خزانے تواللہ کے قبضہ قدرت میں  ہیں ،زمین وآسمان میں  کوئی جاندارایسانہیں  ہے جس کارزق اللہ تعالیٰ کے ذمے نہ ہو،جیسے فرمایا

وَمَامِنْ دَاۗبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا۝۰ۭ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶ [49]

ترجمہ:زمین میں  چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں  ہے جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں  وہ رہتا ہے اور کہاں  وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں  درج ہے۔

وَكَاَیِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا۝۰ۖۤ اَللہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاكُمْ۝۰ۡۖ وَہُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۶۰ [50]

ترجمہ:کتنے ہی جانور ہیں  جو اپنا رزق اٹھائے نہیں  پھرتے ، اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

اگرمیری اطاعت وعبادت کریں  گے توخودان کاہی فائدہ ہے اللہ تو بڑی قوت والااورقدرتوں  کامالک ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْنِی:قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ابْنَ آدَمَ، تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِی، أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى، وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ، مَلَأْتُ صَدْرَكَ شُغْلًا، وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے اے ابن آدم!اپنے آپ کومیری عبادت کے لیے فارغ کرلےمیں  تیرے سینے کوبے نیازی سے بھردوں  گااورتیرافقردورکردوں  گااوراگرتوایسانہیں  کرے گاتومیں  تیراسینہ مشاغل سے بھردوں  گا اورتیرافقربھی دورنہیں  کروں  گا۔ [51]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح ان سے پہلے لوگوں  کوکفروشرک کے سبب ان کوعذاب کاحصہ ملاتھااسی طرح ان ظالموں  کوان کے کفروشرک اور بداعمالیوں  کے سبب عذاب کاحصہ ملے گا جوخالق ومالک اوررازق حقیقی کوچھوڑکردوسروں  کی بندگی کررہے ہیں ،جوحیات بعدالموت اورروزجزاکے منکرہیں اوراپنے آپ کودنیامیں  غیرذمہ دارسمجھ رہے ہیں اورانبیاء کی دعوت کوجھٹلارہے ہیں ،ایک وقت مقررہ پر اللہ مالک یوم الدین انہیں  عذاب جہنم میں  داخل کرے گااس لئے یہ لوگ اس دردناک عذاب کے لئے جلدی نہ کریں ، کافروں  کے لئے قیامت کادن جس کاان سے وعدہ کیاجاتاہے تو باعث ہلاکت ہے ،وہ المناک دن جس میں  ان کومختلف قسم کے عذاب ،سزاؤ ں ،بیڑیوں  کی وعیدسنائی گئی ہے ،اس دن وہ بے یارومددگار ہوں  گے اور ان کواللہ کے عذاب سے بچانے والاکوئی نہ ہوگا۔

[1] النسائ۸۲

[2] الصافات ۱۶۱تا۱۶۳

[3] الاعراف۱۸۷

[4] الاحزاب۶۳

[5] النازعات۴۲

[6] تفسیر طبری ۴۰۴؍۲۲

[7] الحاقة۲۴

[8] تفسیرطبری۴۰۷؍۲۲

[9] تفسیر طبری ۴۰۷؍۲۲

[10] تفسیر طبری۴۰۸؍۲۲

[11] تفسیرابن کثیر ۴۱۷؍۷

[12] جامع ترمذی ابواب صفة القیامة باب ۱۵۱۴،ح ۲۴۸۵،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوات بَابُ مَا جَاءَ فِی قِیَامِ اللیْلِ ۱۳۳۴،مسنداحمد۲۳۷۸۴،شعب الایمان۳۰۹۰

[13] مسنداحمد۶۶۱۵

[14] آل عمران۱۷

[15] صحیح بخاری کتاب التھجدبَابُ الدُّعَاءِ فِی الصَّلاَةِ مِنْ آخِرِ اللیْلِ ۱۱۴۵،صحیح مسلم کتاب صلوٰة المسافرین بَابُ التَّرْغِیبِ فِی الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِی آخِرِ اللیْلِ، وَالْإِجَابَةِ فِیهِ۱۷۷۲،سنن ابوداودکتاب التطوع بَابُ أَیِّ اللیْلِ أَفْضَلُ؟۱۳۱۵،جامع ترمذی ابواب الدعوات ببَاب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیحِ بِالیَدِ۳۴۹۸،مسنداحمد۷۵۹۲،السنن الکبری للنسائی ۱۰۲۴۰،سنن الدارمی ۱۵۲۰،السنن الکبری للبیہقی۴۶۵۲، مصنف عبدالرزاق۲۱۰۶،شرح السنة للبغوی۹۴۸

[16] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى لاَ یَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا۱۴۷۹،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ الْمِسْكِینِ الَّذِی لَا یَجِدُ غِنًى، وَلَا یُفْطَنُ لَهُ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْهِ۲۳۹۳

[17] الانبیاء ۱۶

[18] عبس۱۷تا۱۹

[19] الانفطار۶تا۸

[20] القیامة۳۶تا۳۸

[21] الهدایة إلى بلوغ النهایة فی علم معانی القرآن وتفسیره۷۰۸۸؍۱۱، الدر المنثور۶۱۹؍۷،صفوة التفاسیر۲۳۵؍۳

[22] النسائ۸۶

[23] ھود۶۹،۷۰

[24] ھود۷۱،۷۲

[25] العنکبوت۳۲

[26] العنکبوت۳۳

[27] الشعراء۱۷۰

[28] القمر ۳۴

[29] الاعراف۸۳

[30] النمل۱۴

[31] بنی اسرائیل ۱۰۲

[32] الدخان ۲۹

[33] صحیح بخاری کتاب الااستسقاء بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نُصِرْتُ بِالصَّبَا۱۰۳۵،وکتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِهِ وَهُوَ الَّذِی أَرْسَلَ الرِّیَاحَ نُشُرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهِ۳۲۰۶،وکتاب الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِیحٍ صَرْصَرٍ۳۳۴۳،وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الخَنْدَقِ وَهِیَ الأَحْزَابُ ۴۱۰۵،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الِاسْتِسْقَاءِ بَابٌ فِی رِیحِ الصَّبَا وَالدَّبُورِ ۲۰۸۷،مسنداحمد۱۹۵۵،السنن الکبری للنسائی۱۱۴۰۳،السنن الکبری للبیہقی۶۴۸۴،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۶۴۶،مسندابویعلی۲۵۶۳،شرح السنة للبغوی۱۱۴۹

[34] حم السجدة۱۷

[35] ھود۶۵

[36] الاعراف۷۸

[37] الحاقة۵

[38] القمر۳۱

[39] المائدة۷۲

[40] القمر۹

[41] المومنون۲۵

[42] ھود۵۴

[43] الشعراء ۱۵۳،۱۵۴

[44] الشعراء ۲۷

[45] البقرة۱۱۸

[46] المومنون۶۰

[47] المعارج۲۴

[48] الاعلیٰ۹،۱۰

[49] ھود۶

[50] العنکبوت۶۰

[51] مسنداحمد۸۶۹۶

Related Articles