بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة السجدہ

اس سورہ میں  ان مضامین پربات کی گئی ہے جواہل مکہ اورسابقہ اقوام تسلیم نہیں  کرتی تھیں  یعنی توحید،رسالت اورعقیدہ آخرت ۔

اہل مکہ جب بعثت بعدالموت کو ہی نہیں  مانتے تھے توجزاوسزااورجنت ودوزخ کوکیامانتے اس سلسلہ میں  بتایاگیاکہ یہ سب کچھ افتراء نہیں  ہے ،ہماری کائنات کی تخلیق پراورقرآنی حقائق پرغوروتدبرکروتو خودتمہاری عقل ہی جواب دے دے گی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جوتعلیمات پیش کررہے ہیں  وہ سچ ہیں ،آخرت کاایک نقشہ کھینچاگیااورایمان لانے کے نتائج وثمرات کاتذکرہ کیاگیااورایمان نہ لانے کے سلسلہ میں  سابقہ امتوں  کی بربادشدہ بستیوں  کوپیش کیاگیاجنہیں  مکہ کے تجارتی کارواں  راستوں  میں  دیکھتے تھے

اور کہا گیا کہ جس عذاب کاتم مطالبہ کررہے ہواسے نازل کرنے سے بیشترتمہیں  خبردارکیاجارہاہے،اس میں  بتایاگیاکہ یہ چندکمزورمسلمان ہمیشہ ایسے ہی نہیں رہیں  گے بلکہ یہ تو ایک بڑے انقلاب لانے والوں  کاہراول دستہ ہے، کفارباربارایک سوال کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی بتایاگیاکہ اس کاعلم صرف رب ہی کوہے مگرجب وہ قائم ہوجائے گی تو اس وقت تم آرزوکروگے کہ کاش !ہمیں  دنیامیں  لوٹادیاجائے توہم ایمان ویقین کے ساتھ اعمال صالحہ کریں  اوراپنی نجات کاسامان کرلیں ،لیکن ایساہرگزنہ ہو گا چونکہ اللہ تعالیٰ کاازلی فیصلہ یہ ہے کہ زندگی اوراس کی نعمتیں  صرف ایک مرتبہ ہی عطاکی جاتی ہیں  اوراس زندگی میں  عقل مندانسان وہی ہے جواللہ کاذکراورحکم سن کرسرتسلیم خم کر لے اوراپنے رب کے حضورسجدہ ریزہوجائے ،اس کے علاوہ رب کے حضور قیام وسجدہ،رب کی حمدوثنا، الله کی رضاکے لئے خرچ کرنے کی عظمت اورفسق وفجورسے بچنے کی تلقین فرمائی گئی،سورة کے اختتام پرموسیٰ علیہ السلام کوتورات دیے جانے کاذکرہے جواس بات پرتنبیہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورموسیٰ علیہ السلام کی رسالت میں  مشابہت پائی جاتی ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے کرنے والا ہے

الم ‎﴿١﴾‏ تَنزِیلُ الْكِتَابِ لَا رَیْبَ فِیهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٢﴾‏ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِیرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُونَ ‎﴿٣﴾(السجدة)
’’ا،ل،م،بلاشبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے ،کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے گھڑ لیا ہے، (نہیں نہیں ) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انھیں ڈرائیں جنکے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں ۔‘‘

ا،ل،م۔یہ قرآن جھوٹ،جادو،کہانت اورمن گھڑت قصے کہانیوں  کی کتاب نہیں  بلکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے تمہارے لئے صحیفہ ہدایت ہے جس میں  قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں  ہے،جیسے فرمایا

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ۝۰ۚۖۛ فِیْہِ۝۲ۙ [1]

ترجمہ:یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں  کوئی شک نہیں  ہے۔

مگریہ ظالم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پراعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ فرمانروائے کائنات کے نازل کردہ اس پاکیزہ کلام کوجوسراسررحمت وہدایت ہے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود گھڑ کراللہ مالک الملک کی طرف منسوب کردیاہے؟ان کے قول کی تردیدکرتے ہوئے فرمایاہرگزنہیں ،جب تم اس کلام کوسنتے ہوتوتم لوگوں  کے دل اس کے سچ کی گواہی دیتے ہیں  ، تمہارے مشہورومعروف ادیب وشاعر اورشعلہ بیاں خطیب اس کی نظیرپیش کرنے سے عاجزہیں  مگرحق سے گریزکی وجہ سے تم رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے ہو کہ اس نے اس عظیم الشان کتاب کو خود تصنیف کرلیا ہے ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو رب العالمین کی طرف سے تم پر حق نازل ہوا ہے جس کے سامنے سے باطل آ سکتاہے نہ پیچھے سے ، جیسے فرمایا

 لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ۝۴۲ [2]

ترجمہ:باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے ، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔

تاکہ تو ڈھائی ہزاربرس قبل سے نبوت کے فیض سے محروم ،اخلاقی پستی ،سخت پسماندگی اور غفلت میں  پڑی ایک قوم کو خبردار کردے جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والانہیں  آیااورنہ کوئی کتاب نازل ہوئی تھی،جیسے فرمایا

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ۝۶ [3]

ترجمہ:تاکہ تم خبردار کرو ا یک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں  پڑے ہوئے ہیں ۔

شایدکہ وہ طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکرراہ ہدایت پرگامزن ہوجائیں  ۔

اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا شَفِیعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ‎﴿٤﴾‏ یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْهِ فِی یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ‎﴿٥﴾‏ ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ‎﴿٦﴾‏ الَّذِی أَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِینٍ ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِینٍ ‎﴿٨﴾‏ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِیهِ مِنْ رُوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِیلًا مَا تَشْكُرُونَ ‎﴿٩﴾(السجدة)
’’اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کردیا ،پھر عرش پر قائم ہوا، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ، کیا اس پر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے، وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے، پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے،یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے والا، زبردست غالب بہت ہی مہربان، جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک بےوقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی، جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے، (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو ۔‘‘

ہرپیغمبرنے اپنے قوم کویہی دعوت دی کہ اللہ جوتمہاراخالق ومالک ہے ،جوتمہیں  آسمان وزمین سے رزق عطافرماتاہے ،جوزندگی اورموت دیتاہے کے سواکوئی معبود،کوئی کار ساز،کوئی حاجت روا،پکارکوسننے والا،بگڑی بنانے والانہیں  ہے ،جیسے فرمایا

وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۝۱۶۳ۧ [4]

ترجمہ:تمہارا االٰہ ایک ہی الٰہ ہے اس رحمٰن اور رحیم کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں  ہے۔

اِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔۔۔۝۲۲ [5]

ترجمہ:تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے۔

قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّـمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۸ [6]

ترجمہ:ان سے کہو میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک الٰہ ہے ، پھر کیا تم سر اطاعت جھکاتے ہو؟۔

جس پرمشرکین کوسخت اعتراض ہوتا تھاکہ خودکو پیغمبر کہنے والایہ شخص ہمارے دیوتاؤ ں  کی کی معبودیت سے انکار کرتاہے جن کی ہمارے آباؤ اجدادپرستش کرتے چلے آرہے ہیں ،جیسے فرمایا

وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ۝۰ۡوَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ۝۴ۖۚاَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ۝۵ [7]

ترجمہ:ان لوگوں  کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈراتے والا خود انہی میں  سے آگیا، منکرین کہنے لگے کہ یہ ساحر ہے، سخت جھوٹا ہے ،کیا اس نے سارے خداؤں  کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بھی یہی تھی اورپہلی تباہ شدہ قوموں  کی طرح کفارمکہ کااعتراض بھی یہی تھااللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کاجواب دیاکہ تم لوگ آنکھیں  بندکرکے اپنے آباؤ اجدادکی اندھی تقلید میں  اپنے ہاتھوں  سے تراشے ہوئے جن ان گنت معبودوں  کی پرستش کرتے ہو انہوں  نے کیاتخلیق کیاہے ؟کیایہ اللہ کی کسی تخلیق میں  ساجھے دارتھے؟ اوران کے اختیاروقدرت میں  کیاچیز ہے ؟ کچھ بھی نہیں ،جب وہ تخلیق میں  شامل نہیں  ،ساجھے داربھی نہیں اورنہ ہی انہیں  کوئی قدرت حاصل ہے توپھروہ معبودکیسے ہوسکتے ہیں  جبکہ اللہ وحدہ لاشریک کی کمال قدرت اور عجائب صنعت یہ ہے کہ اس نے سات آسمانوں  اورسات زمینوں  کواور ان ساری چیزوں  کوجوان کے درمیان ہیں  چھ دنوں  میں  پیداکیا ،جیسے فرمایا

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ۝۰ۭ یَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۰ۥۙ وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [8]

ترجمہ:اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند، ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمہیں  اس لیے بتائی جا رہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔

اوراس کے بعد عرش پرجلوہ فرما ہوا ،جیسے متعددمقامات پرفرمایا

اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۣ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا۝۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِهٖ۝۰ۭ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۵۴ [9]

ترجمہ:درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا ، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے، جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے،سب اس کے فرمان کے تابع ہیں ، خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے، بڑا برکت ہے اللہ سارے جہانوں  کا مالک و پروردگار ۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۳ [10]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوکر کائنات کا انتظام چلا رہا ہے ۔کوئی شفاعت( سفارش) کرنے والا نہیں  ہے الایہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے ،یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو پھر کیا تم ہوش میں  نہ آؤ گے؟۔

اَللهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۝۲ [11]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں  ، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ، اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے، وہ نشانیاں  کھول کھول کر بیان کرتا ہے ، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو ۔

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰى۝۵لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰى۝۶ [12]

ترجمہ:وہ رحمان( کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے، مالک ہے ان سب چیزوں  کا جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں  اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں  اور جو مٹی کے نیچے ہیں ۔

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۚۛ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔــلْ بِهٖ خَبِیْرًا۝۵۹ [13]

ترجمہ:وہ جس نے چھ دنوں  میں  زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں ، پھر آپ ہی عرش پر جلوہ فرما ہوا، رحمان ، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو۔

هُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۭ یَعْلَمُ مَا یَـلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا۝۰ۭ وَهُوَمَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝۴ [14]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فر ما ہوا ، اس کے علم میں  ہے جو کچھ زمین میں  جاتا ہے اور کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اتر تا ہے اور جو کچھ اس میں  چڑھتا ہے ،وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں  بھی تم ہو، جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔

اس استوی کی کیفیت کیاہے اورعرش کی ہیئت کیسی ہے ؟اس کاذکرنہ قرآن مجیدمیں  ہے اورنہ کتب احادیث میں  اس کی صراحت ملتی ہے کیونکہ یہ چیزیں  انسانی عقل وشعور سے ماوراء ہیں اس لئے ان پراجمالی ایمان کافی ہے ،دنیاوآخرت میں اس کے سوا تمہاراکوئی دوست ومددگارنہیں ہے جوتمہارے معاملات میں  تمہاری سرپرستی کرے، اورنہ کوئی اس کی بارگاہ میں  ازخودآگے بڑھ کر سفارش کرنے والا ہے،پھراے غیراللہ کی پرستش کرنے والو!اوراللہ کوچھوڑکر دوسروں  پرتوکل رکھنے والو! پھربھی تم نصیحت حاصل نہیں  کرتے ؟ اللہ وحدہ لاشریک ہی آسمان سے زمین تک دنیاکے تمام امور مثلاموت و زندگی ، صحت ومرض،عطاومنع، غناوفقر ، جنگ وصلح، عزت وذلت اپنی تقدیرکے مطابق تدبیریں ، انتظام اورتصرفات کرتاہے اور مقرب فرشتے اس تدبیرکی رؤ داداوپراس کی بارگاہ میں  پیش کرتے ہیں  اس دن کی مقدار تمہارے شمارسے ایک ہزارسال ہے،جیسےفرمایا

وَیَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللهُ وَعْدَهٗ۝۰ۭ وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۝۴۷ [15]

ترجمہ:یہ لوگ عذاب کے لئے جلدی مچارہے ہیں ،اللہ ہرگزاپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا مگرتیرے رب کے ہاں  کاایک دن تمہارے شمار کے ہزاربرس کے برابر ہواکرتاہے ۔

سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ۝۱ۙلِّلْكٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَهٗ دَافِعٌ۝۲ۙمِّنَ اللهِ ذِی الْمَعَارِجِ۝۳ۭتَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَیْهِ فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ۝۴ۚفَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا۝۵اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًا۝۶ۙوَّنَرٰىهُ قَرِیْبًا۝۷ۭ [16]

ترجمہ:مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے (وہ عذاب)جو ضرور واقع ہونے والا ہے، کافروں  کے لیے ہے کوئی اسے دفع کرنے والا نہیں ، اس اللہ کی طرف سے ہے جو عروج کے زینوں  کا مالک ہے، ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں  ایک ایسے دن میں  جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پس اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، صبر کرو، شائستہ صبر ، یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں  اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں  ۔

اللہ ہی ہرپوشیدہ اور ظاہر کاجاننے والاہے ، ہر چیز پرغالب ہے ، کوئی اس کومغلوب نہیں  کرسکتامگراس کے باوجودوہ اپنی مخلوق پررحیم وشفیق ہے،اس عظیم الشان کائنات میں  اس نے اپنی حکمت ومصلحت سے بے حدوحساب سے چیزیں  بنائیں اورجوچیزبھی بنائی خوب ہی بنائی،اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداگارے سے کی،یعنی انسانوں  کے جدامجد آدم علیہ السلام کوکھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنایا،

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸ [17]

ترجمہ:پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں  سے کہا کہ میں  سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔

 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙ [18]

ترجمہ:انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا ۔

اس کی زوجہ حواکو اس کی بائیں  پسلی سے پیداکیا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا۔۔۔۝۱ [19]

ترجمہ: اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا ۔

پھراس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جوحقیرپانی کی طرح کاہے،پھراس بچہ کورحم مادرمیں  نشوونمادے کر اس کے جسم کے تمام اعضاء وجوارح کومکمل کردیا ،پھراس کے اندراپنی روح پھونکتے ہیں ،جس سے انسان کے اندرعلم ،فکروشعور،ارادہ ،فیصلہ،اختیاراوراس طرح کے دوسرے اوصاف پیداہوگئے ، جب انسان مکمل ہوگیاتوہم نے انسان کو غوروتدبر کے لئے کان دیےتاکہ تم وہ سننے والی بات کوسنیں ،آنکھیں  دیں  تاکہ دیکھنے والی چیز کودیکھ سکیں  اوردل دیےتاکہ ہرعقل وفہم میں  آنے والی بات کوسمجھ سکیں ۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۷۸ [20]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں  سننے اور دیکھنے کی قوتیں  دیں  اور سوچنے کو دل دیے مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۷۸ [21]

ترجمہ:ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں  دیں  اور سوچنے سمجھنے والے دل دیےمگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا۔۔۔۝۱۷۹ [22]

ترجمہ:اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں  جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں  مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ، ان کے پاس آنکھیں  ہیں  مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں  ، ان کے پاس کان ہیں  مگر وہ ان سے سنتے نہیں  ۔

مگراتنے احسانات کے باوجودتم لوگ اللہ کی ذات اوراس کی نعمتوں کاانکارکرتے ہواوراس وحدہ لا شریک کے شریک بنانے لگتے ہو اور خواہشات کے غلام بن کرنفس کی لذتوں  میں  غرق ہوجاتے ہو۔

‏ وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِی الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ ۚ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ ‎﴿١٠﴾‏ ۞ قُلْ یَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِی وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ‎﴿١١﴾‏وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ‎﴿١٢﴾‏ وَلَوْ شِئْنَا لَآتَیْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّی لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ‎﴿١٣﴾‏ فَذُوقُوا بِمَا نَسِیتُمْ لِقَاءَ یَوْمِكُمْ هَٰذَا إِنَّا نَسِینَاكُمْ ۖ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٤﴾(السجدة)
’’ اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے ؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں ،کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے، کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہ گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے، ہم یقین کرنے والے ہیں ، اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب فرما دیتے، لیکن میری بات بالکل حق ہوچکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا، اب تم اپنے اس دن کی ملاقات کے فراموش کردینے کا مزہ چکھو ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا، اور اپنے کئے ہوئے اعمال (کی شامت) سے ابدی عذاب کا مزہ چکھو۔‘‘

کفارمکہ بھی پہلی قوموں  کی طرح حیات بعدالموت کے منکرتھے اوراس بات کوناممکن سمجھتے ہوئے بڑے تعجب سے کہتے تھے کہ مرنے کے بعدجب ہمارے جسم کاذرہ ذرہ مٹی میں  رل مل کر مٹی ہو چکاہوگا توکیاہم دوبارہ پیداکیے جائیں  گے؟،جیسے فرمایا

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۔۔۔۝۵ [23]

ترجمہ:اب اگر تمہیں  تعجّب کرنا ہے تو تعجّب کے قابل لوگوں  کا یہ قول ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں  گے تو کیا ہم نئے سروں  سے پیدا کیے جائیں  گے؟۔

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا۝۰ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ۝۳ [24]

ترجمہ:کیا جب ہم مر جائیں  گے اور خاک ہو جائیں  گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں  گے )؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آخرت پران کے لایعنی اعتراض کاجواب فرمایاجب اللہ سات آسمان وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے پیداکرنے کی قدرت رکھتاہے،جس اللہ نے انسان کو پہلی باربغیرکسی نمونہ کےپیداکیاتھا توپھرانہیں  دنیاوی جسم وجان کے ساتھ دوبارہ کھڑاکردینے میں  کیاامرمانع ہے ،یہ لوگ مردہ زمین کودیکھتے ہیں جس میں  خاک اڑرہی ہوتی ہے، پھرجب اللہ تعالیٰ اس پر بارش برساتا ہے تویہی بنجر زمین ہری بھری ہوجاتی ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِیْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ۝۱۰ [25]

ترجمہ:اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں  قسم قسم کی عمدہ چیزیں  اگا دیں  ۔

 وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَهِیْجٍ۝۵ [26]

ترجمہ: اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے پھر جہاں  ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کردی۔

جب ہم مردہ زمین کوزندہ کر دینے کی قدرت رکھتے ہیں  توپھرانسان کوکیوں  زندہ نہیں  کرسکتے ، حیات بعدالموت کوئی بعیدازامکان بات نہیں  جوان کی سمجھ میں  نہ آسکتی ہوبلکہ دراصل ان کے خواہش نفس ہے کہ یہ زمین میں  جوچاہیں  کرتے پھریں  اورانہیں  اس کاکوئی حساب نہ دیناپڑے اس لئے یہ اس کاانکارکرتے ہیں ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہوتم اس حقیقت کوتسلیم کرویانہ کرو مگر ایک وقت مقررہ پرملک الموت(عزرائیل علیہ السلام ) اوراس کےمددگارفرشتے آکرتمہاری روح قبض کرلیں  گےاوریہ مکمل طورپر ا س کے قبضے میں  رہے گی اورپھرجب اللہ چاہے گاتمہیں  تمہاری قبروں  سے اسی جسم وجاں  کے ساتھ زندہ فرمائے گااورمیدان محشرمیں تم اعمال کی جواب دہی کے لئے اپنے رب کی بارگاہ میں  پیش کیے جاؤ گے،کاش تم دیکھووہ وقت جب یہ مجرم اپنے کفروشرک اورمعصیت کی وجہ سے ذلت و ندامت کے مارے گردنیں  جھکائے اپنے رب کے حضورکھڑے ہوں  گے،اس وقت یہ خشوع وخضوع اورانکساری کے ساتھ سرنگوں  ہوکراپنے جرائم کااقرارکرتے ہوئے التجاکریں گے اے ہمارے رب! دنیامیں  ہم حیات بعدالموت اورجزاسزا کی تکذیب کرتے تھے،اب تمام معاملہ ہمارے سامنے واضح ہوگیاہے اورہمارے لئے عین الیقین بن گیاہے اب دنیا میں  ہمیں  دوبارہ واپس بھیج دے تاکہ ہم ایمان ویقین کے ساتھ عمل صالح اختیار کریں اورنجات کا سامان لے کرآئیں ، ہمیں  اب یقین کامل ہو گیاہے کہ رسولوں  نے ہمیں  سچی دعوت پہنچائی تھی،جیسےفرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۷ [27]

ترجمہ:کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں  گے ،اس وقت وہ کہیں  گے کاش کوئی صورت ایسی ہوکہ ہم دنیامیں  پھرواپس بھیجے جائیں  اوراپنے رب کی نشانیوں  کونہ جھٹلائیں  اورایمان لانے والوں  میں  شامل ہوں ۔

ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ۝۰ۭ یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۝۰ۚ فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۝۵۳ۧ [28]

ترجمہ:اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں  کہ وہ انجام سامنے آجائے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے؟جس روز وہ انجام سامنے آگیا تو وہی لوگ جنہوں  نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا کہیں  گے واقعی ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے پھر کیا اب ہمیں  کچھ سفارشی ملیں  گے جو ہمارے حق میں  سفارش کریں ؟ یا ہمیں  دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کر کے دکھائیں  ۔

لیکن ایساہرگزنہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کاازلی فیصلہ یہ ہے کہ زندگی اوراس کی نعمتیں  صرف ایک مرتبہ ہی عطاکی جائیں  گی اوراس زندگی میں  عقل مند انسان وہی ہے جواللہ کا ذکر اورحکم سن کرسرتسلیم خم کرلے اوراپنے رب کے حضورسجدہ ریزہوجائے (جواب میں  ارشادہوگا)اگراس طرح حقیقت کامشاہدہ اورتجربہ کراکرہی لوگوں  کوہدایت دیناہمارے پیش نظرہوتاتودنیاکی زندگی میں  اتنے بڑے امتحان سے گزارکرتم کو یہاں  لانے کی کیاضرورت تھی ،ہم چاہتے تودنیامیں  ہرنفس کوجبری ہدایت دے دیتےلیکن اس میں  امتحان کی گنجائش نہ ہوتی ،اوریہ ہماری حکمت کے خلاف ہے،جیسے فرمایا

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِیْعًا۔۔۔۝۹۹ [29]

ترجمہ:اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں  سب مومن و فرماں  برادر ہی ہوں ) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ۝۱۱۸ۙ [30]

ترجمہ:بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں  کو ایک گروہ بنا سکتا تھا مگر اب تو وہ مختلف طریقوں  ہی پر چلتے رہیں  گے۔

تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کوسجدہ کرنے سے انکارکردیااورانسانوں  کو بہکانے اوربھٹکانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی تھی،جیسے فرمایا

قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۱۴ [31]

ترجمہ:بولا، مجھے اس دن تک مہلت دے جب کہ یہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں  گے۔

قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۳۶ [32]

ترجمہ: اس نے عرض کیامیرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اس روز تک کے لیے مہلت دے جب کہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں  گے۔

قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۷۹ [33]

ترجمہ:وہ بولا اے میرے رب یہ بات ہے توپھراس وقت تک کے لیے مجھے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں  گے۔

اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا

قَالَ فَالْحَقُّ۝۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۝۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۸۵ [34]

ترجمہ:فرمایاتوحق یہ ہے اورمیں  حق ہی کہاکرتاہوں  کہ میں  جہنم کو تجھ سے اوران سب لوگوں  سے بھردوں  گاجوان انسانوں  میں  سےتیری پیروی کریں  گے ۔

اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایااور میری وہ بات سچ ثابت ہوگئی جومیں  نے کہی تھی کہ میں  جہنم کوشیاطین اور شیاطین کے پیروکارانسانوں  کوایک ساتھ واصل جہنم کردوں  گا،پس دوزخیوں  سے بطو رسرزنش کہا جائے گاکہ کفروتکذیب اور اپنے باطل عقائد وبداعمالیوں  کے بدلے جہنم کے دائمی عذاب کامزہ اٹھاؤ ،جہاں  گرم کھولتاہواپانی اورلہوپیپ کے اورکچھ نہ ہوگا ، جیسے فرمایا

لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا۝۲۴ۙاِلَّا حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًا۝۲۵ۙجَزَاۗءً وِّفَاقًا۝۲۶ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابًا۝۲۷ۙوَّكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كِذَّابًا۝۲۸ۭوَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ كِتٰبًا۝۲۹ۙفَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا۝۳۰ۧ [35]

ترجمہ:اس کے اندرکسی ٹھنڈک اورپینے کے قابل کسی چیزکامزہ وہ نہ چکھیں  گے ،کچھ ملے گاتوبس گرم پانی اور زخموں  کادھوون (ان کے کرتوتوں ) کا بھر پور بدلہ،وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور ہماری آیات کو انہوں  نے بالکل جھٹلا دیا تھااور حال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز گن گن کر لکھ رکھی تھی اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں  ہرگز اضافہ نہ کریں  گے۔

جس طرح تم لوگوں  نے دنیاکی رنگینیوں  اور نفس کی لذتوں  میں  ڈوب کر یوم جزا کوفراموش کردیاتھااسی طرح ہم نے بھی اب تمہیں  فراموش کر دیا ہے ، جیسے فرمایا

وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَـمَا نَسِیْتُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا وَمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۳۴ [36]

ترجمہ: اور ان سے کہہ دیاجائے گاکہ آج ہم بھی اسی طرح تمہیں  بھلائے دیتے ہیں  جس طرح تم اس دن کی ملاقات کوبھول گئے تھے ،تمہاراٹھکانہ اب دوزخ ہے اورکوئی تمہاری مدد کرنے والانہیں  ہے ۔

اب اپنے کفر،فسق اور معاصی کی پاداش میں دائمی عذاب کامزاچکھو۔

إِنَّمَا یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا الَّذِینَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُونَ ۩ ‎﴿١٥﴾‏ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنْفِقُونَ ‎﴿١٦﴾(السجدة)
’’ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی ان سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گرپڑتے ہیں ، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے، ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کے خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں ، اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ۔‘‘

اہل دانش کی علامات :

ہماری آیات کی وہ لوگ تصدیق کرتے اوراطاعت کرتے ہیں  جنہیں  قرآن کی آیات سناکرجب نصیحت کی جاتی ہے توذکرالٰہی کی تعظیم اوراس کی سطوت وعذاب سے ڈرتے ہوئے سجدے میں  گرپڑتے ہیں  اوراپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں  اور وہ جاہلوں  اورکافروں  کی طرح تکبرنہیں  کرتےبلکہ قبول حق اور اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ،یہ مومنین دنیاپرستوں  کی طرح ساری رات اپنے بستروں  پرانٹھتے نہیں  رہتے بلکہ کچھ رات آرام کرکے اٹھتے ہیں  اوراپنے رب کا تقرب حاصل کرنے کے لئے نوافل (تہجد) پڑھتے ،توبہ واستغفار،تسبیح وتحمیداوردعاوالحاح وزاری کرتے ہیں  ،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:عَجِبَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَجُلَیْنِ: رَجُلٍ ثَارَ عَنْ وِطَائِهِ وَلِحَافِهِ، مِنْ بَیْنِ أَهْلِهِ وَحَیِّهِ إِلَى صَلَاتِهِ، فَیَقُولُ رَبُّنَا: أَیَا مَلَائِكَتِی، انْظُرُوا إِلَى عَبْدِی، ثَارَ مِنْ فِرَاشِهِ وَوِطَائِهِ، وَمِنْ بَیْنِ حَیِّهِ وَأَهْلِهِ إِلَى صَلَاتِهِ، رَغْبَةً فِیمَا عِنْدِی، وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِی، وَرَجُلٍ غَزَا فِی سَبِیلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَانْهَزَمُوا، فَعَلِمَ مَا عَلَیْهِ مِنَ الْفِرَارِ، وَمَا لَهُ فِی الرُّجُوعِ، فَرَجَعَ حَتَّى أُهْرِیقَ دَمُهُ، رَغْبَةً فِیمَا عِنْدِی، وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِی، فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَلَائِكَتِهِ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِی، رَجَعَ رَغْبَةً فِیمَا عِنْدِی، وَرَهْبَةً مِمَّا عِنْدِی، حَتَّى أُهَرِیقَ دَمُهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارے رب کو دو قسم کے آدمی بڑے اچھے لگتے ہیں ،ایک تو وہ جو اپنے بستر اور لحاف، اپنے اہل خانہ اور محلہ کو چھوڑ کر نماز کے لئے نکلتا ہےتو اللہ تعالیٰ فرماتاہے اے میرے فرشتو! میرے اس بندے کو دیکھو جو اپنے بستر اور لحاف، اپنے محلے اور اہل خانہ کو چھوڑ کر نماز کے لئے آیا ہے، میرے پاس موجود نعمتوں  کے شوق میں  اور میرے یہاں  موجود سزاء کے خوف سے،اور دوسرا وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں  جہاد کے لئے نکلا،لوگ شکست کھا کر بھاگنے لگے اسے معلوم تھا کہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے کی کیا سزا ہے اور واپس لوٹ جانے میں  کیا ثواب ہےچنانچہ وہ واپس آکر لڑتا رہا یہاں  تک کہ اس کا خون بہا دیا گیااور اس کا یہ عمل بھی صرف میری نعمتوں  کے شوق اور میری سزا کے خوف سے تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں  سے فرماتاہے میرے اس بندے کو دیکھو جو میری نعمتوں  کے شوق اور سزا کے خوف سے واپس آگیا یہاں  تک کہ اس کا خون بہا دیا گیا۔ [37]

اورمومنین کاکرداریہ ہے کہ اپنے غفورورحیم رب کے عتاب و غضب اورمواخذہ عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں  اوراس کی رحمت اورفضل وکرم کی امید بھی رکھتے ہیں  اور اللہ نے انہیں  جوتھوڑایازیادہ رزق حلال عطافرمایاہے اس میں  سے حسب استطاعت صدقہ وخیرات کرتے ہیں ،

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ:قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَأَصْبَحْتُ یَوْمًا قَرِیبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِیرُفَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّةَ، وَیُبَاعِدُنِی مِنَ النَّارِ قَالَ:لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِیمٍ وَإِنَّهُ لَیَسِیرٌ عَلَى مَنْ یَسَّرَهُ اللهُ عَلَیْهِ تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَیْئًا وَتُقِیمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِی الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ ثُمَّ قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَیْرِ؟: الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِیئَةَ، وَصَلَاةُ الرَّجُلِ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ ثُمَّ قَرَأَ: {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ} [38]، حَتَّى بَلَغَ ، {یَعْمَلُونَ}[39]

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  سفرمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا،راستے میں  چلتے چلتے ایک دن میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت قریب آگیا میں  نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے ایک ایساعمل بتادیں  جوجنت میں  داخل کردے اورجہنم سے دورکردے،آپ نے فرمایاتم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے،لیکن اس کے لیے بہت آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اسے آسان بنادے،اوروہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی کوبھی شریک نہ بناؤ ،اور نماز قائم کرواورزکوة اداکرو اور رمضان کے روزے رکھو اوربیت اللہ کاحج کروپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں  تجھے نیکی کے دروازوں  کے بارے میں  نہ بتاؤ ں ؟روزہ ڈھال ہے،اور صدقہ گناہ کو مٹا دیتا ہے،اور رات کوآدمی کانمازاداکرناپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت فرمائی

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۡوَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۱۶فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ [40]

ترجمہ:ان کی پیٹھیں  بستروں  سے الگ رہتی ہیں  ،اپنے رب کوخوف اورطمع کے ساتھ پکارتے ہیں  اورجوکچھ رزق ہم نے انہیں  دیاہے اس میں  سے خرچ کرتے ہیں ،پھرجیساکچھ آنکھوں  کی ٹھنڈک کاسامان ان کے اعمال کی جزاء میں  ان کے لئے چھپارکھاگیاہے اس کی کسی متنفس کوخبرنہیں  ہے۔

ثُمَّ قَالَ:أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ وَعَمُودِهِ وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟ فَقُلْتُ: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُثُمَّ قَالَ:أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى یَا نَبِیَّ اللَّهِ. فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ، فَقَالَ:كُفَّ عَلَیْكَ هَذَا فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ یَا مُعَاذُ، وَهَلْ یَكُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَوْ قَالَ: عَلَى مَنَاخِرِهِمْ، إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ؟

پھرفرمایاکیامیں  تجھے اصل معاملہ ،اس کے ستونوں  اوراس کے کوہان کی بلندی کے بارے میں  نہ بتاؤ ں ؟میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ضرورارشادفرمائیں  آپ نے فرمایااصل معاملہ تواسلام ہے،اس کاستون نمازہے،اوراس کے کوہان کی بلندی جہادفی سبیل اللہ ہے، پھرفرمایاکیامیں  تجھے ان سب کے قوام وبنیادکے بارے میں  نہ بتاؤ ں ؟ میں  نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ضرورارشادفرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک کوپکڑاپھرفرمایااپنی اس زبان کوقابومیں  رکھ،میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم جوگفتگوکرتے ہیں  کیااس پربھی ہمارامواخذہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامعاذ رضی اللہ عنہ !تیری ماں  تجھے گم پائے یہ زبانوں  کی لغواورلایعنی باتیں  ہی توہوں  گی جولوگوں  کواوندھے منہ جہنم میں  گرادیں  گی۔ [41]

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٧﴾‏ أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۚ لَا یَسْتَوُونَ ‎﴿١٨﴾‏ أَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَأَمَّا الَّذِینَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِیدُوا فِیهَا وَقِیلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِی كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ ‎﴿٢٠﴾‏(السجدة)
’’کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے، کیا جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو ؟ یہ برابر نہیں ہوسکتے،جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لیے ہمیشگی والی جنتیں ہیں ، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے تھے،لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اعمال صالحہ کی جزاء میں  ایسی ایسی نعمتوں  کو وسیع وعریض جنتوں  میں چھپارکھاگیاہے جس کی اللہ کے سوا کسی کوخبرنہیں  ہے ،یہ ایسی عظیم الشان نعمتیں  ہوں  گی کہ مومنین کی آنکھیں  انہیں  دیکھ کر ٹھنڈی ہوجائیں  گی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ، مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ:فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے میں  نے اپنے صالح اور نیک بندوں  کے لئے وہ وہ چیزیں  تیارکررکھی ہیں  جوکسی آنکھ نے نہیں  دیکھیں ،کسی کان نے نہیں  سنیں ،نہ کسی انسان کے وہم وگمان میں  ان کاگزرہوا،اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ اگرچاہوتواس آیت کوپڑھ لو’’اورجیسا کچھ آنکھوں  کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں  ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں  ہے۔ ‘‘ [42]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ذُخْرًا بَلْهَ، مَا أُطْلِعْتُمْ عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں  ہےاللہ کی ان نعمتوں  سے واقفیت اورآگاہی توالگ رہی (ان کاکسی کوگمان وخیال بھی پیدانہیں  ہوا)۔ [43]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا یَحْسَبُ حَمَّادٌ أَنَّهُ قَالَ:مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ یَنْعَمُ لَا یَبْأَسُ، لَا تَبْلَى ثِیَابُهُ، وَلَا یَفْنَى شَبَابُهُ، فِی الْجَنَّةِ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص جنت میں  داخل ہوگاوہ نازونعم میں  ہوگااورکبھی بدحال نہ ہوگا،اس کے کپڑے کبھی بوسیدہ نہ ہوں  گے،اورجنت میں  ایسی ایسی نعمتیں  ہوں  گی جنہیں  کسی آنکھ نے دیکھااورنہ کسی کان نے سناہوگااورنہ کسی انسان کے دل میں  ان کاخیال آیاہوگا۔ [44]

بھلاکہیں  یہ ہوسکتاہے کہ جوشخص اللہ تعالیٰ کواپنارب اورمعبودواحدمان کراس قانون کی اطاعت اختیارکرے جواللہ نے اپنے پیغمبروں  کے ذریعہ سے بھیجاہے ،وہ اس شخص کی طرح ہوجائے جواللہ تعالیٰ کواپنارب حقیقی اوروحدہ لاشریک نہیں  مانتابلکہ غیراللہ کی اطاعت کارویہ اختیارکرتاہے ؟نہ دنیامیں  ان کاطرزفکروطرزحیات یکساں  ہوسکتاہے اورنہ آخرت میں  ان کے ساتھ اللہ کا معاملہ یکساں  ہوسکتاہے ،بلکہ ان کے درمیان بڑا فرق وتفاوت ہوگاجیسے فرمایا

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ۝۰ۭ سَاۗءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝۲۱ۧ [45]

ترجمہ: کیاوہ لوگ جنہوں  نے برائیوں  کاارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں  کہ ہم انہیں  اورایمان لانے والوں  اورنیک عمل کرنے والوں  کوایک جیسا کر دیں  گے کہ ان کاجینااور مرنا یکساں  ہوجائے ؟بہت برے حکم ہیں  جویہ لوگ لگاتے ہیں ۔

اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۝۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ۝۲۸ [46]

ترجمہ:کیاہم ان لوگوں  کوجوایمان لاتے اورنیک اعمال کرتے ہیں  اوران کوجوزمین میں  فسادکرنے والے ہیں  یکساں  کردیں ؟کیامتقیوں  کوہم فاجروں  جیسا کر دیں ؟۔

لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰ [47]

ترجمہ :دوزخ میں  جانے والے اورجنت میں  جانے والے کبھی یکساں  نہیں  ہوسکتے ،جنت میں  جانے والے ہی اصل میں  کامیاب ہیں ۔

مومن اللہ کے مہمان ہوں  گے اوراعزازواکرام کے مستحق اورفاسق وکافر تعزیر و عقوبت کی بیڑیوں  میں  جکڑے ہوئے جہنم کی آگ میں  جھلسیں  گے،جیسے فرمایا

یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا۝۸۵ۙوَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَہَنَّمَ وِرْدًا۝۸۶ۘ [48]

ترجمہ:وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں  کو ہم مہمانوں  کی طرح رحمان کے حضور پیش کریں  گے،اور مجرموں  کو پیاسے جانوروں  کی طرح جہنم کی طرف ہانک لے جائیں  گے۔

جولوگ ایمان لائے ہیں  اورجنہوں  نے عمل صالحہ اختیار کیے ہیں  ان کے لئے تو ضیافت کے طورپران کے اعمال کے بدلے میں  لازوال نعمتوں  سے بھری جنتوں  کی قیام گاہیں  ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدٰىنَا لِـھٰذَا۝۰ۣ وَمَا كُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰىنَا اللہُ۝۰ۚ لَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۴۳ [49]

ترجمہ:اور وہ کہیں  گے تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں  راستہ دکھایا ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا ، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے، اس وقت ندا آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں  ان کے اعمال کے بدلے میں  ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے۔

تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا۝۶۳ [50]

ترجمہ: یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں  میں  سے اس کو بنائیں  گے جو پرہیزگار رہا ہے۔

اورجنہوں  نے نافرمانی اوربغاوت کارویہ اختیارکیاہے ان کاٹھکانا دوزخ ہے،جیسے فرمایا

قِیْلَ ادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا۝۰ۚ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ۝۷۲ [51]

ترجمہ:کہا جائے گا داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں  میں ، یہاں  اب تمہیں  ہمیشہ رہنا ہے ، بڑا ہی برا ٹھکانا ہے یہ متکبروں  کے لیے۔

جب کبھی مکذبین جہنم کے عذاب کی شدت اورہولناکی سے گھبر ا کر باہر نکلناچاہیں  گے توجہنم کے نگران فرشتے انہیں  پھرجہنم کی گہرائیوں  میں  دھکیل دیں  گے ،جیسے فرمایا

وَلَہُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ۝۲۱كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَا۝۰ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۲۲ۧ [52]

ترجمہ:اور ان کو خبر لینے کے لیے لوہے کے گرز ہوں  گےجب کبھی وہ گھبراکرجہنم سے نکلنے کی کوشش کریں  گے پھراسی میں  دھکیل دیے جائیں  گے کہ چکھواب جلنے کی سزا کا مزہ۔

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَا۝۰ۡوَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ۝۳۷ [53]

ترجمہ:وہ چاہیں  گے کہ دوزخ کی آگ سے نکل بھاگیں  مگر نہ نکل سکیں  گے اور انہیں  قائم رہنے والا عذاب دیا جائے گا ۔

قَالَ الفُضَیل بْنُ عِیَاضٍ: وَاللهِ إِنَّ الْأَیْدِیَ لَمُوثَقَةٌ، وَإِنَّ الْأَرْجُلَ لَمُقَیَّدَةٌ، وَإِنَّ اللهَبَ لَیَرْفَعُهُمْ وَالْمَلَائِكَةَ تَقْمَعُهُمْ

فضیل بن عیاض فرماتے ہیں  اللہ کی قسم !ہاتھ بندھے ہوں  گے پاؤ ں  میں  بیڑیاں  ہوں  گی اوراوپرجہنم کی آگ کے شعلے ہوں  گے ،فرشتے انہیں  ہتھوڑے سے ماررہے ہوں  گے۔ [54]

اوراللہ کی طرف سے نداآئے گی یافرشتے کہیں  گے کہ چکھواب اسی آگ کے عذاب کامزاجس کوتم جھٹلایاکرتے تھے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَنَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝۴۲ [55]

ترجمہ: اور ظالموں  سے ہم کہہ دیں  گے کہ اب چکھو اس عذاب جہنم کا مزہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝۱۴ [56]

ترجمہ:اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

ثُمَّ اِنَّہُمْ لَصَالُوا الْجَــحِیْمِ۝۱۶ۭثُمَّ یُقَالُ ہٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِہٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۱۷ۭ [57]

ترجمہ:پھر یہ جہنم میں  جا پڑیں  گے،پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

وَلَنُذِیقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٢١﴾‏ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآیَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِی مِرْیَةٍ مِنْ لِقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِی إِسْرَائِیلَ ‎﴿٢٣﴾‏ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ‎﴿٢٥﴾‏(السجدة)
’’ بالیقین ہم انھیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں ، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ پھیرلیا ،(یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گار سے انتقام لینے والے ہیں ، بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا چاہیےاور ہم نے اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا، اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے، آپ کا رب ان (سب) کے درمیان ان (تمام) باتوں کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۔‘‘

سرکش کون :

کفروفسق کی پاداش میں جہنم کے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیامیں انہیں  نمونے کے طورپر وفتاًفوقتاً چھوٹے عذاب مثلادکھ درداوربیماریوں ،المناک حادثات ،طوفان،زلزلے اورسیلاب کی تباہ کاریوں  ،قحط سالیاں  ،قتل وغارت، فسادات،بڑے پیمانے پراچانک اموات اورجنگوں  وغیرہ کامزاانہیں  چکھاتے رہیں  گے شاید کہ یہ کفر و شرک اورمعصیت سے تائب ہوکرتوحیدکی راہ اپنا لیں ، جیسے فرمایا

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۴۱ [58]

ترجمہ:خشکی اورتری میں  فسادبرپاہوگیاہے لوگوں  کے اپنے ہاتھوں  کی کمائی سے، تاکہ مزاچکھائے ان کوان کے بعض اعمال کا،شایدکہ وہ بازآجائیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:وَلَنُذِیقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى، یَقُولُ: مَصَائِبُ الدُّنْیَا وَأَسْقَامُهَا وَبَلَاؤُهَا مِمَّا یَبْتَلِی اللهُ بِهَا الْعِبَادَ حَتَّى یَتُوبُوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  آیت کریمہ ’’بالیقین ہم انہیں  قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سواچکھائیں  گے تاکہ وہ لوٹ آئیں ۔‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں  عذاب دنیاسے مراددنیاکے مصائب،بیماریاں ،آفتیں  اور وہ آزمائشیں  مرادہیں  جن میں  اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کومبتلاکرتارہتاہے تاکہ وہ اس کے حضورتوبہ کرلیں ۔ [59]

اور سب سے بڑاظالم وسرکش تووہ شخص ہے جسے رب کی نشانیوں  کے ذریعہ سے(یعنی قرآن مجیدکے ذریعہ سے) تذکیرونصیحت کی جائے اوروہ ایمان لانے اور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرنے کے بجائے اعراض کرتاہے ،ایسے مجرموں  سے توہم انتقام لے کر رہیں  گے،

قَالَ قَتَادَةُ، رَحِمَهُ اللهُ: إِیَّاكُمْ وَالْإِعْرَاضَ عَنْ ذِكْرِ اللهِ، فَإِنَّ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِهِ فَقَدِ اغْتَرَّ أَكْبَرَ الغرَّة وَأَعْوَزَ أَشَدَّ العَوَز ، وَعَظَّمَ مِنْ أَعْظَمِ الذُّنُوبِ وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى مُتَهَدِّدًا لِمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ ، أَیْ: سَأَنْتَقِمُ مِمَّنْ فَعَلَ ذَلِكَ أَشَدَّ الِانْتِقَامِ

قتادہ ؒفرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ کے ذکرسے اعراض نہ کروکیونکہ جواس کے ذکرسے اعراض کرتاہے وہ بہت زیادہ دھوکے میں  مبتلاہوجاتاہے اور شدیدمحتاجی کواختیارکرلیتاہے اوربہت بڑے گناہ کاارتکاب کرتاہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایساکرنے والوں  کوسرزنش کرتے ہوئے فرمایاہےایسے مجرموں  سے توہم انتقام لے کر رہیں  گے،یعنی جولوگ ایساکریں  گے ہم ان سے شدیدانتقام لیں  گے۔ [60]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ مشرکین آپ پرقرآن مجیدکے نزول کو بعید از امکان اور انوکھا واقعہ سمجھتے ہوئے کہتے ہیں  ۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۔۔۔ ۝۳ [61]

ترجمہ :کیایہ لوگ کہتے ہیں  کہ اس شخص نے اسے خودگھڑلیاہے؟

اوراللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے۔اس کاجواب دیاگیاتھا

۔۔۔بَلْ ہُوَالْحَـقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ۝۳ [62]

ترجمہ:نہیں ،بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے تاکہ تو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کوجس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والانہیں  آیاشایدکہ وہ ہدایت پاجائیں ۔

جیسے فرمایا

تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۝۵ۙلِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ۝۶ [63]

ترجمہ: (اور یہ قرآن ) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہےتاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گیے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں  پڑے ہوئے ہیں ۔

اب اس کاوہ جواب دیاگیا جومشرکین مکہ اہل کتاب سے سن کر جانتے تھے کہ یہودیوں  کے پاس توریت ہے جوموسیٰ علیہ السلام پرنازل کی گئی تھی اورنصاریٰ کے پاس انجیل ہے جوعیسیٰ علیہ السلام پرنازل کی گئی تھی، فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ سے پہلے ہم ابراہیم علیہ السلام پرصحیفے،داود علیہ السلام پرزبور موسیٰ علیہ السلام پرتورات ،اورعیسیٰ علیہ السلام پرانجیل نازل کر چکے ہیں  ،جیسے فرمایا

وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ ‎وَكِیْلًا۝۲ۭ [64]

ترجمہ:ہم نے اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کوکتاب دی تھی اوراسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایاتھااس تاکیدکے ساتھ کہ میرے سواکسی کواپناوکیل نہ بنانا۔

وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭاِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۸ۙصُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰى۝۱۹ۧ [65]

ترجمہ:حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے،یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں  میں  بھی کہی گئی تھی، ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں  میں  ۔

اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰى۝۳۶ۙوَاِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰٓی۝۳۷ۙ [66]

ترجمہ: کیا اسے ان باتوں  کی کوئی خبر نہیں  پہنچی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں  اور اس ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں  میں  بیان ہوئی ہیں  جس نے وفا کا حق ادا کر دیا ؟ ۔

۔۔۔وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۝۱۶۳ۚ [67]

ترجمہ: ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور دی۔

۔۔۔وَّاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۝۵۵ [68]

ترجمہ: اور ہم نے ہی داؤد (علیہ السلام) کو زبور دی تھی۔

اوراب قیامت تک انسانوں  کی رشدوہدایت کے لئے ہم نے بڑی بلندمرتبہ اورحکمت سے لبریز آخری کتاب قرآن مجید تم پر نازل کیاگیاہے ،جیسے فرمایا

وَاِنَّهٗ فِیْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌ۝۴ۭ [69]

ترجمہ: درحقیقت یہ ام الکتاب میں  ثبت ہے ،ہمارے ہاں  بڑی بلندمرتبہ اورحکمت سے لبریزکتاب۔

توآخراس میں  کیاانوکھی بات ہے جس پرخوامخواہ شک کیاجائے ،یعنی نہ توکسی پیغمبر کا مبعوث ہوناانوکھی بات ہے اورنہ کسی کتاب کا نازل ہونابعیدازامکان ہے ،ہم نے تورات کوبنی اسرائیل کے لئے ہدایت ورہنمائی کاذریعہ بنایاتھا،جب تک وہ اللہ کے اوامر کے بجا لانے اور ترک زواجر اوراللہ کے رسولوں  کی تصدیق اوران کے اتباع میں  جو تکلیفیں  آنہیں  انہیں  خندہ پیشانی سے جھیلتے رہے توہم نے ان کودینی امامت اور پیشوائی کے منصب پرفائز کیالیکن جب انہوں  نے اس کے برعکس تبدیل وتحریف اورتاویل کاارتکاب شروع کر دیا تو ان سے یہ مقام سلب کرلیاگیا چنانچہ اس کے بعدان کے دل سخت ہو گئے ،پھراس کا عمل صالحہ رہااور نہ ان کااعتقادصحیح ، دنیامیں  توہرگروہ اپنے دلائل پرمطمئن اوراپنی ڈگر پرقائم رہتاہے مگر اللہ تعالیٰ روز قیامت تمام اختلافات کا فیصلہ کردے گا جن میں  یہود ونصاریٰ کے گروہ ،اہل ایمان واہل کفر اوراہل توحیدواہل شرک باہم اختلاف کرتے رہے ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاللہُ یَحْكُمُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۱۳ [70]

ترجمہ:یہ اختلافات جن میں  یہ لوگ مبتلا ہیں  ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا۔

۔۔۔اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۹۳ [71]

ترجمہ:یقیناً تیرا رب قیامت کے روز ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں  وہ اختلاف کر تے رہے ہیں  ۔

۔۔۔وَاِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِـیْمَا كَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۲۴ [72]

ترجمہ: اور یقینا تیرا رب قیامت کے روز ان سب باتوں  کا فیصلہ کر دے گا جن میں  وہ اختلاف کرتے رہے ہیں  ۔

أَوَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ یَمْشُونَ فِی مَسَاكِنِهِمْ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ ۖ أَفَلَا یَسْمَعُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا یُبْصِرُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْفَتْحُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٢٨﴾‏ قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِینَ كَفَرُوا إِیمَانُهُمْ وَلَا هُمْ یُنْظَرُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ إِنَّهُمْ مُنْتَظِرُونَ ‎﴿٣٠﴾‏(السجدة)
’’کیا اس بات نے بھی انھیں کوئی ہدایت نہیں دی کہ ہم نے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کردیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں ، اس میں تو( بڑی) بڑی نشانیاں ہیں کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے ؟ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر (غیرآباد)زمین کی طرف بہا کرلے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں ، کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے؟ ـ اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو( تو بتلاؤ)جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان لانا بےایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا، اور نہ انھیں ڈھیل دی جائے گی ،اب آپ ان کا خیال چھوڑ دیں اور منتظر رہیں یہ بھی منتظر رہیں ۔‘‘

کیایہ لوگ پچھلی امتوں  مثلاًقوم نوح ،قوم ہود،قوم ثمود ،قوم لوط اورقوم فرعون کی تاریخ سے عبرت حاصل نہیں  کرتے جن کوطاغوت کی بندگی ،حق کی تکذیب،رسولوں  کااستہزاء اورعدم ایمان کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا ،اور جولوگ پیغمبرپرایمان لائے اوراطاعت کی انہیں  بچالیاگیا، فخروغرورمیں  مبتلاان قوموں  کاتوکوئی وجود دنیا میں  نہ رہامگر جس سر زمین پر وہ آبادتھے،جیسے فرمایا

وَكَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ۝۰ۭ ہَلْ تُـحِسُّ مِنْہُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَہُمْ رِكْزًا۝۹۸ۧ [73]

ترجمہ:ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں  کو ہلاک کر چکے ہیں  پھر آج لیں  تم ان کا نشان پاتے ہو یا ان کی بھنک بھی کہیں  سنائی دیتی ہے؟۔

۔۔۔كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْہَا۔۔۔۝۹۲ [74]

ترجمہ: وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں  میں  بسے ہی نہ تھے۔

فَتِلْكَ بُیُوْتُہُمْ خَاوِیَةًۢ بِمَا ظَلَمُوْا۔۔۔۝۵۲ [75]

ترجمہ:وہ ان کے گھر خالی پڑے ہیں  اس ظلم کی پاداش میں  جو وہ کرتے تھے۔

ان کے آثاروکھنڈرات سے یہ گزرتے رہتے ہیں ،ان آثاروکھنڈرات میں  سمجھنے والوں  کے لئے عبرت کی بڑی نشانیاں  ہیں ،جیسے فرمایا

اَ فَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِہِمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰى۝۱۲۸ۧ [76]

ترجمہ:پھر کیا ان لوگوں  کو(تاریخ کے اس سبق سے) کوئی ہدایت نہ ملی کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں  کو ہم ہلاک کر چکے ہیں  جن کی (بربادشدہ) بستیوں  میں  آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟ درحقیقت اس میں  بہت سی نشانیاں  ہیں  ان لوگوں  کے لیے جو عقل سلیم رکھنے والے ہیں ۔

کیایہ نہیں  سمجھتے کہ اگران لوگوں  نے بھی تباہ شدہ قوموں  جیسی روش اختیارکی تو ان کاحشربھی ان قوموں  جیساہوسکتاہے،جیسے فرمایا

 اَہُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ۝۰ۙ وَّالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ اَہْلَكْنٰہُمْ۝۰ۡاِنَّہُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۝۳۷ [77]

ترجمہ:یہ بہتر ہیں  یا تبع کی قوم اور اس سے پہلے کے لوگ؟ ہم نے ان کو اسی بنا پر تباہ کیا کہ وہ مجرم ہوگئے تھے۔

حیات بعدالموت پراستدلال کرتے ہوئے فرمایا کیاان لوگوں  نے ہماری حکمت کاملہ کامشاہدہ نہیں  کیاکہ ایک بنجر،بے آباد اور چٹیل زمین پڑی ہے جس کودیکھ کرکوئی یہ گمان نہیں  کرسکتاکہ یہ بھی کبھی لہلہاتی کشت زاربن جائے گی ،مگرجب اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساکراورچشموں ،نالوں  اوروادیوں  کا پانی بہاکراس زمین کی طرف لاتاہے تو وہی مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اورمختلف انواع کی نباتات اگانے لگتی ہے جس سے ان کے مویشیوں  کوبھی چارہ ملتا ہے اوریہ خودبھی کھاتے ہیں ؟ جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳ [78]

ترجمہ: ان لوگوں  کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ،ہم نے اس کوزندگی بخشی اوراس سے غلہ نکالاجسے یہ کھاتے ہیں ۔

تو کیایہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کودیکھتے نہیں  جس کے ذریعے سے اس نے زمین اوربندوں  کوزندگی بخشی؟اسی طرح اللہ عزوجل انسانوں  کوان کی قبروں  سے زندہ کردینے کی قدرت رکھتاہے ،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۵۷ [79]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں  کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں  تو انہیں  کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں  مینہ برسا کر (اسی مری ہوئی زمین سے )طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے، دیکھو، اس طرح ہم مردوں  کو حالت موت سے نکالتے ہیں  شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۹ [80]

ترجمہ:اور اللہ کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا، یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے۔

یقینا جو اللہ اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں  کو بھی زندگی بخشنے والا ہے ، یقینا وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔کفارمکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!اپنے زعم میں تم کہتے ہوکہ اللہ کی مددآئے گی اورجھٹلانے والوں  پراس کاغضب ٹوٹ پڑے گا بتلاؤ تیرے اللہ کی مدد تیرے لئے کب آئے گی ؟ کب ہمارے اورتمہارے درمیان فیصلہ ہوگافی الحال توہم دیکھ رہے ہیں  کہ تجھ پرایمان لانے والے بے وقعت ہوکر چھپتے پھررہے ہیں ، فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جن لوگوں  نے کفرکیاہے ان سے کہوجس عذاب کے لئے تم بے قرارہورہے ہوجب نازل ہوگا تو اس وقت تمہارا ایمان لانا کچھ بھی نافع نہ ہوگااور نہ ہی تمہیں  سنبھلنے کا موقع نصیب ہوگاکہ اپنے معاملے کوسدھارلو،لہذازندگی کی بقایاگھڑیوں  کو غنیمت جانو اور ایمان قبول کرلو ، اچھا،یہ نصیحت قبول نہیں  کرتے تو تم مشرکین کو ان کے حال پرچھوڑ دو اورجووحی آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اس کی روشنی میں تبلیغ ودعوت کا کام جاری رکھو ، جیسے فرمایا

اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۰۶ [81]

ترجمہ:ائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اس وحی کی پیروی کیے جاؤ جوتم پرتمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیوں  کہ اس ایک رب کے سواکوئی اورالٰہ نہیں  ہے اوران مشرکین کے پیچھے نہ پڑو ۔

اللہ کاوعدہ کب پوراہوتاہے اوروہ کب تمہیں  مخالفین پرغلبہ عطا فرماتاہے اس کا انتظار کرو، یہ بھی منتظرہیں  کہ کب تم گردشوں  کاشکارہوتے ہو اورکب تمہاری دعوت دم توڑتی ہے،جیسے فرمایا

اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝۳۰ [82]

ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں  کہ یہ شخص شاعر ہے جس کے حق میں  ہم گردش ایام کا انتظار کر رہے ہیں  ؟۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الجُمُعَةِ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ الم تَنْزِیلُ السَّجْدَةَ، وَهَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ حِینٌ مِنَ الدَّهْرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بروزجمعہ نمازفجرمیں  پہلی رکعت میں الم السجدہ اوردوسری رکعت میں  سورة الدہرپڑھاکرتے تھے۔ [83]

عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ یَنَامُ حَتَّى یَقْرَأَ الْم تَنْزِیلُ، وَتَبَارَكَ الَّذِی بِیَدِهِ الْمُلْكُ.

اورجابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے بیشترسورة الم السجدہ اورسورة الملک پڑھاکرتے تھے۔ [84]

 ابوعبداللہ سالم رضی اللہ عنہ مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کااسلام:

وقد اختلفوا فی اسم ابیه فقیل معقل وقال بعضهم عتبة، وتعقب

سالم رضی اللہ عنہ کے والدکانام باختلاف روایت معقل یاعتبہ یاتعقب تھا۔ [85]

من أَهْل إصطخر

ان کے اباؤ اجدادایران کے شہراصطخرکے رہنے والے تھے۔

یكنى أبا عَبْد اللهِ

ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ [86] سالم رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ کب اورکیسے پہنچے اس بارے میں  مختلف روایات ہیں  اوران کی تطبیق میں  خاصی مشکل پیش آتی ہے،البتہ انہوں  نے لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے ہجرت تک کاسارازمانہ مکہ مکرمہ میں  ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس ہی گزارا،

وَتَبَنَّاهُ أَبُو حُذَیْفَةَ. فَكَانَ یقال سالم ابن أَبِی حُذَیْفَةَ

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ان پربے حدشفقت فرماتے تھے یہاں  تک کہ انہیں  اپنامتبنیٰ قراردیاتھااس لیے وہ لوگوں  میں  سالم بن ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہورہوگئے تھے۔ [87]

سالم رضی اللہ عنہ بھی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ پرجان چھڑکتے تھے، دونوں  کے تعلق خاطر کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ

وَزَوَّجَهُ أَبُو حُذَیْفَةَ بِنْتَ أَخِیهِ فَاطِمَةَ بِنْتَ الْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی حقیقی بھتیجی فاطمہ بنت ولیدکانکاح سالم رضی اللہ عنہ سے کردیاتھا۔

جب بارگاہ الٰہی سے حکم نازل ہواکہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹے نہیں  ہوتے اورانہیں  اپنے اصل باپوں  ہی سے منسوب کیاکروتولوگ انہیں  سالم بن ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے بجائے سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔

أسلمت وبایعت

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق دینی شروع کی تو انہوں  نے بغیرکسی تامل کے لوائے حق کوتھام لیااوردست حق پربیعت کی ،یوں  وہ سابقون الاولون کی مقدس جماعت کے رکن بن گئے۔

لما قدم المهاجرین الأَوَّلُوْنَ العُصْبَةَ قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ سَالِمٌ یَؤُمُّهُم

جب ہجرت مدینہ منورہ کاحکم ہواتو سالم رضی اللہ عنہ ،ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور متعدد دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ [88]

سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبامیں  نزول اجلال سے پہلے سالم رضی اللہ عنہ کومہاجرین اولین کی امامت کاشرف حاصل ہوا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:لَمَّا قَدِمَ المُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ العُصْبَةَ مَوْضِعٌ بِقُبَاءٍ قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَؤُمُّهُمْ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ، وَكَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قباکے مقام عصبہ میں  پہنچے توان کی امامت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیاکرتے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کوقرآن مجیدسب سے زیادہ یادتھا ۔ [89]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباسے مدینہ منورہ تشریف لے گئے توسالم رضی اللہ عنہ مسجدقبامیں  مستقلاًامامت کے فرائض انجام دینے لگے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف ،سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص اوربے شماردوسرے جلیل القدرصحابہ رضی اللہ عنہم نے بارہاسالم رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں  نمازپڑھی،

 ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ قَالَ:كَانَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ یَؤُمُّ المُهَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ، وَأَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَسْجِدِ قُبَاءٍ فِیهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَبُو سَلَمَةَ، وَزَیْدٌ، وَعَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام سالم مہاجرین اولین اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی مسجدقبامیں  امامت کیاکرتے تھے ،ان اصحاب میں  سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ ، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بن عبدالاسد،زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اورعامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ بھی ہوتے تھے۔ [90]

وآخَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ مُعَاذِ بْنِ مَاعِصٍ الأَنْصَارِیِّ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصارمیں  مواخاة قائم فرمائی توابوعبداللہ سالم رضی اللہ عنہ مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کا بھائی چارہ معاذ رضی اللہ عنہ بن ماعض انصاری کے ساتھ قائم فرمایا۔

مکہ مکرمہ میں  انہوں  نے ہرقسم کی رکاوٹوں  اورمصائب وشدائدکے باوجودفیضان نبوی سے بہرہ یاب ہونے کاکوئی موقعہ کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیاتھاچنانچہ علوم دینی میں  انہیں  درجہ تبحرحاصل ہوگیاتھااوروہ اپنے فضل وکمال ،حفظ قرآن اورحسن قرات کی بدولت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں  بڑی عزت کی نظروں  سے دیکھے جاتے تھے،

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ اسْتَقْرِئُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأُبَیٍّ، وَمُعَاذٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ

عبداللہ بن عمروبن عاص سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقرآن سیکھناہے توچارلوگوں  سے سیکھوعبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعود،ابی رضی اللہ عنہ بن کعب،معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل اورسالم رضی اللہ عنہ مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ۔ [91]

ان چاروں  میں  بھی سالم رضی اللہ عنہ کویہ امتیازحاصل تھاکہ وہ عربی نثرادنہیں  تھے بلکہ ایرانی الاصل تھے ،اس کے باوجوداللہ تعالیٰ نے انہیں  فہم قرآن میں  وہ ملکہ عطا فرمایا کہ خودلسان رسالت نے لوگوں  کوان سے قرآن حاصل کرنے کی تلقین فرمائی ۔

اوروہ قرآن کریم کی تلاوت انتہائی محویت ،استغراق اور سوزبھرے اندازسے کرتے کہ سننے والا سنتاہی رہ جاتاتھا،

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:اسْتَبْطَأنِی رَسُوْلُ اللهِ ذَاتَ لَیْلَةٍ، فَقَالَ: مَا حَبَسَكِ؟ قُلْتُ: إِنَّ فِی المَسْجِدِ لأَحْسَنَ مَنْ سَمِعْتُ صَوْتاً بِالقُرْآنِ ، فَأَخَذَ رِدَاءهُ، وَخَرَجَ یَسْمَعُهُ، فَإِذَا هُوَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ فَقَالَ: الحَمْدُ لِلِّهِ الَّذِی جَعَلَ فِی أُمَّتِی مِثْلَكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک دن سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کاشانہ اقدس میں  رونق افروزتھے اورم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کسی کام سے باہرگئی ہوئی تھیں  ان کی واپسی میں  خلاف توقع غیرمعمولی دیرہوگئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مضطرف ہوگئے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں  کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا واپس تشریف لے آئیں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاعائشہ رضی اللہ عنہا !اتنی دیرکہاں  لگائی؟ام المومنین رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  واپس آرہی تھی کہ مسجدمیں  ایک قاری کی تلاوت قرآن کی آوازمیرے کانوں  میں  پڑی ،اس آوازمیں  کچھ ایساسوزاورایسی تاثیرتھی کہ میں  اس میں  محوہوکررہ گئی اورزمین نے میرے قدم پکڑلیے اسی سبب سے مراجعت میں  تاخیرہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کرمعاًاٹھ کھڑی ہوئے اوروفوراشتیاق میں  اپنی ردائے مبارک سنبھالتے ہوئے باہر تشریف لے آئے دیکھا کہ ابوعبداللہ سالم رضی اللہ عنہ مولیٰ ابوحذیفہ انتہائی محویت اوراستغراق کی کیفیت میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کارخ اقدس فرط مسرت سے چمکنے لگااورزبان رسالت پربے اختیاریہ الفاظ جاری ہوگئے ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے میری امت میں  تمہارے جیسے شخص کوپیدافرمایا۔ [92]

سالم رضی اللہ عنہ علم وفضل کے میدان کے ہی شہسوارنہ تھے بلکہ میدان جہادکے بھی شیر تھے،

وَشَهِدَ سَالِمُ أُحُدًا، وَالْخَنْدَقَ وَالْمَشَاهِدَ كُلَّهَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وقتل یَوْم الیمامة شهیدًا

سالم رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اور تمام غزوات میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اورکمال شجاعت کامظاہرہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کاحق اداکیا،وہ جنگ یمامہ میں  شہید ہوئے۔ [93]

پردے کاحکم نازل ہوچکاتھامگرسالم رضی اللہ عنہ اسی پرانی طرزپرابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے گھرآزادانہ آتے جاتے رہتے تھے جوابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کوناگوارگزرتی تھی ،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ سَالِمًا، مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ كَانَ مَعَ أَبِی حُذَیْفَةَ وَأَهْلِهِ فِی بَیْتِهِمْ، فَأَتَتْ، یَعْنِی سَهْلَةَ بِنْتَ سُهَیْلٍ، النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ (بعد أن نزلت الآیَةُ:ادْعُوهُمْ لِآبائِهِمْ فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا قَدْ بَلَغَ مَا یَبْلُغُ الرِّجَالُ. وَعَقَلَ مَا عَقَلُوا. وَإِنَّهُ یَدْخُلُ عَلَیْنَا. وَإِنِّی أَظُنُّ أَنَّ فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ مِنْ ذَلِكَ شَیْئًا. فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْضِعِیهِ تَحْرُمِی عَلَیْهِ، وَیَذْهَبِ الَّذِی فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےسالم رضی اللہ عنہ مولیٰ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ ،حذیفہ رضی اللہ عنہ اوران کی اہلیہ کے ہمراہ ایک ہی مکان میں  رہتے تھے،اس آیت کے نزول کے بعدکہ لوگوں  کوان کے باپوں  کے نام سے پکارو، ایک دن ان کی اہلیہ سہلہ بنت سہیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئی اورعرض کیاکہ سالم رضی اللہ عنہ بالغ ہوگیاہے اوروہ ہمارے گھرمیں  آزادانہ داخل ہوتاہے اورمیراگمان ہے کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ پر اس کی آمدورفت گراں  گزرتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم سالم رضی اللہ عنہ کودودھ پلادواس طرح وہ تمہارامحرم ہوجائے گا اورابوحذیفہ پراس کی آمدورفت گراں  نہیں  گزرے گی ،

قالت وكیف أرضعه وَهُوَ رجل كَبِیرٌ؟فتبسم رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وقال قد علمت أنه رجل كَبِیرٌ

ایک روایت میں  ہےانہوں  نے کہا میں  اسے دودھ کیسے پلاؤ ں  وہ توجوان آدمی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کرتبسم فرمایا اور فرمایامیں  جانتاہوں  وہ جوان آدمی ہے،

 فَقَالَ:أَرْضِعِیهِ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ ذُو لِحْیَةٍ ، قَالَ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ ذُو لِحْیَةٍ

ایک روایت میں  ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہیں  دودھ پلادوانہوں  نے عرض کیاوہ توداڑھی والے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے معلوم ہے کہ وہ داڑھی والے ہیں ۔ [94]

فَرَجَعَتْ إِلَیْهِ، فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ أَرْضَعْتُهُ فَذَهَبَ الَّذِی فِی نَفْسِ أَبِی حُذَیْفَةَ

کہتی ہیں  میں  گھرمیں  واپس آئی اوراس کودودھ پلادیااورابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں  جوتھاوہ صاف ہوگیا۔ [95]

أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:إِنَّمَا هَذَا رُخْصَةٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ لِسَالِمٍ خَاصَّةً

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت صرف سالم رضی اللہ عنہ کے لیے خاص تھی۔ [96]

یمامہ کی جنگ کے بارے میں بعض مورخین کی رائے ہے کہ مسلمانوں  کوجتنی لڑائیاں  پیش آئیں  ان میں  یمامہ کی جنگ سخت ترین تھی ،اس میں  لوہے کی لوہے سے ٹکرتھی،ایک طرف وہ عرب مجاہدین تھے جواللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لڑرہے تھے اوردوسری طرف وہ کثیرالتعدادعرب مرتدین تھے جوقبائلی عصبیت اورمسلمہ کذاب کے دجل وتلبیس کے زیراثرلڑرہے تھے،یہی لوگ جب دوبارہ اسلام کے دائرے میں  آگئے توانہوں  نے اول الذکرمجاہدین کے ساتھ مل کرقیصروکسریٰ کے تخت الٹ دیئے،اس خونی جنگ میں  مہاجرین کاعلم سالم رضی اللہ عنہ کے پاس تھاجوانہوں  نے گرنے نہ دیا،

لَمَّا انكشف الْمُسْلِمُونَ یَوْمَ الْیَمَامَةِ قَالَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِی حذیفة: ما كهذا كنا نفعل مع رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَفَرَ لِنَفْسِهِ حُفْرَةً وَقَامَ فِیهَا وَمَعَهُ رَایَةُ الْمُهَاجِرِینَ یَوْمَئِذٍ

ثابت بن قیس بن شماس سے مروی ہےایک موقع پر جب مرتدوں  کے بے پناہ دباؤ سے مجبورہوکرمسلمانوں  کے قدم اکھڑنے لگے توسالم رضی اللہ عنہ ایک گڑھاکھودکراس میں  پاؤ ں  جماکرکھڑے ہوگئے اورللکارے مسلمانوں !افسوس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں  توہم اس طرح میدان نہیں  چھوڑتے تھے،ان کی للکارسے مسلمانوں  کے اکھڑتے قدم پھرسے جم گئے۔ [97]

وَقَالَ غَیْرُهُ: نَخْشَى مِنْ نَفْسِكَ شَیْئًا فَنُوَلِّی اللِّوَاءَ غَیْرَكَ، فَقَالَ: بِئْسَ حَامِلُ الْقُرْآنِ أَنَا إِذًا،أَخَذَ اللِّوَاءَ بِیَمِینِهِ فَقُطِعَتْ، ثُمَّ تَنَاوَلَهَا بِشِمَالِهِ فَقُطِعَتْ، ثُمَّ اعْتَنَقَ اللِّوَاءَ وَجَعَلَ یَقْرَأُ:وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ [98] إِلَى أَنْ قُتِلَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

ایک مجاہدنے غلط فہمی کی بناپرکہہ دیااے سالم رضی اللہ عنہ !ہم کوتمہاری طرف سے اندیشہ ہے کہ تم یہ علم کسی دوسرے کودے دو، یہ سن کرجوش آگیااورفرمایااگرمیں  اپنے آپ کو مسلمانوں  کی علمبرداری کااہل ثابت نہ کروں  تومجھ سے بڑھ کربدبخت حامل قرآن کوئی نہیں ،ابھی یہ الفاظ منہ ہی میں  تھے کہ مرتدوں  کاایک زبردست ریلاآیا،سالم رضی اللہ عنہ اس جوش سے لڑے کہ کشتوں  کے پشتے لگادیئے لیکن مرتدوں  کاہجوم تھاکہ کسی طرح کم ہونے میں  نہ آتاتھا،انہوں  نے جھنڈادائیں  ہاتھ میں  تھام لیا،ایک بدبخت نے ان کے داہنے ہاتھ پرتلوارکابھرپوروارکیاوہ کٹ کردورجاگرا،انہوں  نے علم اسلام بائیں  ہاتھ میں  تھام لیاوہ بھی کٹ گیاتودست بریدہ بازوؤ ں  کاحلقہ بناکرعلم اسلام کوسینے سے چمٹالیااوربے اختیاریہ الفاظ قرآنی زبان پر جاری ہوگئے،

 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ [99]

ترجمہ:محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سواکچھ نہیں  کہ بس ایک رسول ہیں  ،ان سے پہلے اوررسول بھی گزرچکے ہیں  ،پھرکیااگروہ مرجائیں  یاقتل کردیے جائیں  توتم لوگ الٹے پاؤ ں  پھرجاؤ گے۔

آخرمرتدین کے تیروں  ،تلواروں  اور برچھیوں  سے چھلنی ہوکرگرپڑے۔ [100]

فَلَمَّا صُرِعَ قَالَ لأَصْحَابِهِ: مَا فَعَلَ أَبُو حُذَیْفَةَ؟قِیلَ: قُتِلَ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ فُلانٌ؟ لِرَجُلٍ سَمَّاهُ،قِیلَ: قُتِلَ قَالَ: فَأَضْجِعُونِی بَیْنَهُمَا

دم نزع میں  لوگوں  سے پوچھاابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کاکیاحال ہے؟جواب ملاانہوں  نے جام شہادت نوش کیا،پھر پوچھامیراوہ مسلمان بھائی کہاں  ہے جس نے مجھ پراعتراض کیا تھا لوگوں  نے کہاوہ بھی رتبہ شہادت پر فائز ہوئے، سالم رضی اللہ عنہ نے فرمایامجھے ان دونوں  کے درمیان دفن کرنا،اس کے بعدروح قفس عنصری سے پروازکرگئی۔ [101]

فَوُجِدَ رَأْسُ سَالِمٍ عِنْدَ رِجْلَیْ أَبِی حُذَیْفَةَ

مگرابن سعدکابیان ہےجب وہ شہیدہوئے توان کاسراپنے منہ بولے باپ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے قدموں  پر تھا ۔ [102]

سالم رضی اللہ عنہ کے فضل وکمال اوراخلاق ومحاسن کاسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پراتنااثرتھاکہ

ان عمر بْن الخطاب رضی اللّٰه عنه، یكثر الثناء علیه حتى قال: لما أوصى عند موته: لَو كَانَ سالمٌ حیّاً مَا جعلْتُها شُورَى

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اکثر ان کے لیے دعا کیا کرتے تھے یہاں  تک کہ اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا اگرسالم رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تومیں  خلافت کے لیے انہیں  نامزدکردیتامجلس شوریٰ کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ [103]

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ارشادسے سالم رضی اللہ عنہ کے مرتبہ اورصلاحیتوں  کابخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے۔

سالم رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکہ میں  ایک گھوڑے ہتھیاراورمعمولی مال واسباب کے سواکچھ نہ چھوڑا،کیونکہ ساری عمرمعمول رہاکہ جوکماتے تھے اللہ کی راہ میں  خرچ کردیتے تھے ، اولادکوئی نہیں  تھی اورکسی دوسرے نے ان کے ترکے کادعوی نہ کیااس لیے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسے بعدمیں  بیت المال میں  داخل کردیا۔

[1] البقرة۲

[2] حم السجدة۴۲

[3] یٰسین۶

[4] البقرة۱۶۳

[5] النحل۲۲

[6] الانبیاء ۱۰۸

[7] ص۴،۵

[8] الطلاق ۱۲

[9] الاعراف۵۴

[10] یونس۳

[11] الرعد۲

[12] طہ۵،۶

[13] الفرقان۵۹

[14] الحدید۴

[15] الحج۴۷

[16] المعارج ۱تا۷

[17] الحجر۲۸

[18] الرحمٰن۱۴

[19] النسائ۱

[20] المومنون۷۸

[21] الملک۲۳

[22] الاعراف۱۷۹

[23] الرعد۵

[24] ق۳

[25] لقمان۱۰

[26] الحج۵

[27] الانعام۲۷

[28] الاعراف۵۳

[29] یونس۹۹

[30] ھود۱۱۸

[31] الاعراف۱۴

[32] الحجر۳۶

[33] ص۷۹

[34] ص۸۴،۸۵

[35] النبا ۲۴تا۳۰

[36] الجاثیة۳۴

[37] مسند احمد۳۹۴۹،سنن ابوداودکتاب الجھادبَابٌ فِی الرَّجُلِ یَشْرِی نَفْسَهُ ۲۵۳۶،مسندابن ابی شیبة ۳۸۵،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۰۳۸۳،مستدرک حاکم ۲۵۳۱،صحیح ابن حبان ۲۵۵۷،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۹۳۰،مصنف ابن ابی شیبة۱۹۴۰۲،مسندابی یعلی ۵۳۶۱

[38] السجدة: ۱۶

[39] السجدة: ۱۷

[40] السجدة۱۶،۱۷

[41] مسنداحمد۲۲۰۱۶،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِیمَانِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حُرْمَةِ الصَّلاَةِ ۲۶۱۶،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ كَفِّ اللِّسَانِ فِی الْفِتْنَةِ ۳۹۷۳، السنن الکبری للنسائی۱۱۳۳۰

[42] صحیح بخاری تفسیرسورة السجدہ بَابُ قَوْلِهِ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ۴۷۷۹،وکتاب بدء الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ۳۲۴۴،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ السَّجْدَةِ ۳۱۹۷،مسنداحمد۹۶۴۹، مسندالبزار۹۱۴۳،المعجم الاوسط۱۶۳۷،معجم ابن عساکر۱۱۶۰،صحیح ابن حبان ۳۶۹، شعب الایمان۳۷۷،السنن الکبری للنسائی۱۱۰۱۹،سنن الدارمی۲۸۷۰،مصنف ابن ابی شیبة۳۳۹۹۵،مسندابی یعلی۶۲۷۶،شرح السنة للبغوی۴۳۷۲

[43] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ ۴۷۸۰،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا باب صفة الْجَنَّةِ۷۱۳۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ السَّجْدَةِ۳۱۹۷

[44] صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابٌ فِی دَوَامِ نَعِیمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۷۱۵۶،مسنداحمد۹۳۹۱

[45] الجاثیة۲۱

[46] ص۲۸

[47] الحشر۲۰

[48] مریم۸۵،۸۶

[49] الاعراف۴۳

[50] مریم۶۳

[51] الزمر۷۲

[52] الحج۲۱،۲۲

[53] المائدة۳۷

[54] تفسیرابن کثیر۳۶۹؍۶، تفسیر المراغی۱۱۵؍۲۱،صفوة التفاسیر۴۶۴؍۲،التفسیر المنیر فی العقیدة والشریعة والمنهج۲۱۲؍۲۱، التفسیر الوسیط للقرآن الكریم۱۲۸؍۸

[55] سبا۴۲

[56] الطور۱۴

[57] المطففین۱۶،۱۷

[58] الروم۴۱

[59] تفسیرطبری۱۸۹؍۲۰

[60] تفسیرابن کثیر۳۷۰؍۶،توفیق الرحمن فی دروس القرآن۴۷۶؍۳

[61] السجدة۳

[62] السجدة۳

[63] یٰسین۵،۶

[64] بنی اسرائیل۲

[65] الاعلی۱۷تا۱۹

[66] النجم۳۶،۳۷

[67] النسائ۱۶۳

[68] بنی اسرائیل۵۵

[69] الزخرف۴

[70] البقرة۱۱۳

[71] یونس۹۳

[72] النحل۱۲۴

[73] مریم۹۸

[74] الاعراف۹۲

[75] النمل۵۲

[76] طہ۱۲۸

[77] الدخان۳۷

[78] یٰسین۳۳

[79] الاعراف۵۷

[80] حم السجدہ۳۹

[81] الانعام ۱۰۶

[82] الطور۳۰

[83] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ مَا یُقْرَأُ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ یَوْمَ الجُمُعَةِ ۸۹۱،وکتاب سجودالقرآن بَابُ سَجْدَةِ تَنْزِیلُ السَّجْدَةُ ۱۰۶۸،صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ مَا یُقْرَأُ فِی یَوْمِ الْجُمُعَةِ ۲۰۳۱،جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یَقْرَأُ فِی صَلاَةِ الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۵۲۰،سنن نسائی كِتَابُ الِافْتِتَاحِ باب الْقِرَاءَةُ فِی الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۹۵۶،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْفَجْرِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۸۲۱

[84] جامع ترمذی کتاب فضائل القرآن بَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَةِ الْمُلْكِ ۲۸۹۲، مسند احمد۱۴۶۵۹، مستدرک حاکم۳۵۴۵،شعب الایمان۲۲۲۸، السنن الکبری للنسائی۱۰۴۷۷،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۸۱۶

[85] الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم۱۸۴؍۴

[86] اسد الغابة ۱۵۵؍۳

[87] ابن سعد ۶۳؍۳

[88] سیراعلام النبلاء ۱۰۹؍۳

[89] صحیح بخاری كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ إِمَامَةِ العَبْدِ وَالمَوْلَى۶۹۲،شرح السنة للبغوی۸۳۷

[90] صحیح بخاری كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ اسْتِقْضَاءِ المَوَالِی وَاسْتِعْمَالِهِمْ ۷۱۷۵، شرح مشکل الآثار ۳۹۸؍۱۴،المعجم الکبیرللطبرانی۶۳۷۱،مصنف عبدالرزاق۳۸۰۷

[91] تاریخ اسلام بشار۳۶؍۲،صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ سَالِمٍ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۷۶۰ ،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأُمِّهِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا ،السنن الکبری للنسائی كِتَابُ الْمَنَاقِبِ باب سَالِمٌ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۸۲۲۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۸۱۰

[92] اسد الغابة ۳۸۲؍۲،سیراعلام النبلائ۱۶۸؍۱

[93] اسد الغابة ۳۸۲؍۲

[94] ابن سعد۶۳؍۳

[95] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی باب باب۴۰۰۰، اسد الغابة ۳۸۳؍۲

[96] تاریخ اسلام بشار۳۶؍۲

[97] ابن سعد۶۴؍۳، تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۷۵؍۵۲، اسد الغابة ۳۵۶؍۲

[98] آل عمران: ۱۴۴

[99] آل عمران۱۴۴

[100] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی ۴۳۶؍۱

[101] اسدالغابة ۳۸۲؍۳،تهذیب الأسماء واللغات ۲۰۷؍۱

[102] ابن سعد۶۵؍۳

[103] اسدالغابة ۳۸۲؍۲،السیرة الحلبیة۳۱؍۲

Related Articles