بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة الشمس

اس سورة میں  دومضامین بیان کیے گئے ہیں ۔

xسورج کی چمک ،چاندکی ٹھنڈک،دن کی روشنی،رات کی تاریکی،آسمان کی بلندی اورخوبصورتی اورزمین کی ہموارسطح اور جسم انسانی کے اعتدال کاذکرکرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اورحکمت بالغہ کوواضح فرمایا،نیزیہ کہ اسی وحدہ لاشریک ذات نے انسانی فطرت کونیکی وبدی کا شعور الہام کیاہے اورخیروشرکے امتیازکی صلاحیت بخشی ہے،اب تمیز ،ارادے اورفیصلے کی صلاحیت اورعمل کے اختیارکے بعداگرکوئی انسان کفر،شرک اوربرے اخلاق سے خودکو پاک کرلے تویہ اس کی عظیم کامیابی ہوگی اورجوغفلت اختیار کرے اورفسق وفجور پر اصرار کرے تویہ اس کے لیے بہت بڑے نقصان کا سودا ہے۔

xقوم ثمودکے ذکرمیں  رسول کی عظمت واہمیت کوواضح کرکے فرمایاکہ نبی کی بے چوں  وچرا ں اطاعت ہی اخروی فلاح کی ضامن ہے،دنیاکے کسی چھوٹے بڑے انسان کا خود ساختہ فلسفہ خیروشر رضائے الہٰی کی بنیادنہیں  بن سکتا،اسی طرح اگرکوئی قوم نبی کی مخالفت پرکمربستہ ہوتی ہے توہمیشہ کی طرح اس کوحرف غلط کی طرح مٹادیاجائے گا،کیونکہ اس وقت مکہ میں  قوم ثمودجیسے حالات تھے ،چنانچہ اسی تذکرے میں  سرداران قریش کوتنبیہ کی گئی کہ جوقوم قوم ثمودکے نقش قدم پرچلتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گی اس کوبھی نیست و نابودکردیاجائے گا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  میں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ‎﴿١﴾‏ وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا ‎﴿٢﴾‏ وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ‎﴿٣﴾‏ وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاهَا ‎﴿٤﴾‏ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ‎﴿٥﴾‏ وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا ‎﴿٦﴾‏ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ‎﴿٧﴾‏ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ‎﴿٨﴾‏ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ‎﴿٩﴾‏ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ‎﴿١٠﴾‏(الشمس)
’’قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی، قسم ہے چاند کی جب اس کے پیچھے آئے، قسم ہے دن کی جب سورج کو نمایاں کرے، قسم ہے رات کی جب اسے ڈھانپ لے، قسم ہے آسمان کی اور اس کے بنانے کی، قسم ہے زمین کی اور اسے ہموار کرنے کی، قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی، پھر سمجھ دی اسکو بدکاری سے اور بچ کر چلنے کی، جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا، اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا ۔‘‘

سورج اوراس کی دھوپ کی قسم!اورچاندکی قسم !جبکہ وہ سورج ڈھلنے کے بعدرات کوطلوع ہوتاہے،اوردن کی قسم !جبکہ وہ تاریکی کودورکرے، جیسے فرمایا

وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى [1]

ترجمہ:اور دن کی(قسم) جبکہ وہ روشن ہو ۔

اوررات کی قسم !جب سورج افق سے نیچے اترجائے اورہرسمت اندھیراچھاجائے ،جیسے فرمایا

فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ۝۱۶ۙوَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَ۝۱۷ۙ [2]

ترجمہ:پس نہیں ، میں  قسم کھاتا ہوں  شفق کی،اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے۔

آسمان کی اوراللہ رب العالمین کی قسم! جس نے آسمان کو زمین پر بغیرستونوں  کے کھڑاکیا ،جیسے فرمایا

اَللهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا۔۔۔۝۲ [3]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں  ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا۔۔۔۝۱۰ [4]

ترجمہ:اس نے آسمانوں  کو پیدا کیا بغیر ستونوں  کے جو تم کو نظر آئیں ۔

اورزمین اور اللہ رب کائنات کی قسم! جس نے زمین کو ہموار فرش کی طرح پھیلایااوروسعت عطاکی،جیسے فرمایا

وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ۝۴۸ [5]

ترجمہ:زمین کوہم نے بچھایاہے اورہم بڑے اچھے ہموارکرنے والے ہیں ۔

وَاِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ۝۲۰۪ [6]

ترجمہ: اور زمین کو نہیں  دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی ؟۔

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا۝۳۰ۭ [7]

ترجمہ:اس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا ۔

اوراس خالق کائنات کی قسم ! جس نے انسان کو موزوں  ترین جسم ،کئی قسم کے بہترین حواس ،زندگی بسرکرنے کے لئے قوت عقل وفکر،قوت استدلال واستنباط ،قوت خیال،قوت حافظہ ، قوت تمیز،قوت فیصلہ ،قوت ارادی اوردوسری بے شمارذہنی قوتیں  عطا فرمائیں ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ۝۶ۙالَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙفِیْٓ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ [8]

ترجمہ:اے انسان! کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں  ڈال دیاجس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایااور جس صورت میں  چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا ؟۔

اورسیدھی فطرت پرپیداکیا ،جیسے فرمایا

۔۔۔فِطْرَتَ اللهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا۔۔۔ ۝۳۰ۤۙ [9]

ترجمہ: قائم ہوجاؤ اس فطرت پرجس پراللہ تعالیٰ نے انسانوں  کوپیداکیاہے ۔

فَإِنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ ، كَانَ یُحَدِّثُ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهِ أَوْ یُنَصِّرَانِهِ، أَوْ یُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ البَهِیمَةُ بَهِیمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِیهَا مِنْ جَدْعَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کویوں  بیان فرمایاہے کہ کوئی بچہ ایسانہیں  ہے جو فطرت کے سواکسی اورچیز پر پیداہوتاہو،پھراس کے ماں  باپ اسے یہودی یانصرانی یامجوسی بنا دیتے ہیں ، یہ ایساہی ہے جیسے جانورکے پیٹ سے پوراکاپوراصحیح وسالم بچہ پیدا ہوتا ہےکیا تم ان میں  کسی کاکان کٹاہواپاتے ہو؟۔ [10]

عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ ذَاتَ یَوْمٍ، فَقَالَ فِی خُطْبَتِهِ: إِنَّ رَبِّی أَمَرَنِی أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ، مِمَّا عَلَّمَنِی فِی یَوْمِی هَذَا كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عِبَادِی حَلَالٌ، وَإِنِّی خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ، وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّیَاطِینُ فَأَضَلَّتْهُمْ عَنْ دِینِهِمْ،

عیاض بن حمارسے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نے آج جو باتیں  مجھے سکھائی ہیں  اور تم ان سے ناواقف ہو، میں  تمہیں  وہ باتیں  سکھاؤں ، (چنانچہ میرے رب نے فرمایا ہے کہ) ہر وہ مال جو میں  نے اپنے بندوں  کو ہبہ کر دیا ہے وہ حلال ہے،اور میں  نے اپنے تمام بندوں  کو حنیف (سب سے یکسو ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہونے والا) بنایا ہے، لیکن پھر شیاطین ان کے پاس آکر انہیں  ان کے دین سے بہکا دیتے ہیں ،

وَحَرَّمَتْ عَلَیْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ یُشْرِكُوا بِی مَا لَمْ أُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا، ثُمَّ إِنَّ اللهَ نَظَرَ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَمَقَتَهُمْ، عَجَمِیَّهُمْ وَعَرَبِیَّهُمْ، إِلَّا بَقَایَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُكَ لِأَبْتَلِیَكَ وَأَبْتَلِیَ بِكَ ، وَأَنْزَلْتُ عَلَیْكَ كِتَابًا لَا یَغْسِلُهُ الْمَاءُ، تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَیَقْظَانًا

اور میں  نے جو چیزیں  ان کے لئے حلال کی ہیں  انہوں  نے وہ چیزیں  ان پر حرام کی ہیں ،اور انہوں  نے انہیں  یہ حکم دیا ہے کہ میرے ساتھ ایسی چیزوں  کو شریک ٹھہرائیں  جس کی میں  نے کوئی دلیل نہیں  اتاری، پھر اللہ تعالیٰ نے اہل زمین پر نظر فرمائی تو سوائے اہل کتاب کے چند باقی ماندہ لوگوں  کے وہ سب ہی عرب وعجم سے ناراض ہوااور فرمایا (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) میں  نے آپ کو بھیجا تاکہ آپ کو آزماؤں  اور آپ کے ذریعے دوسروں  کو آزماؤں ،اور میں  نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جسے پانی نہیں  دھو سکتااور جسے آپ خواب اور بیدار دونوں  میں  تلاوت کریں  گے،

ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِی أَنْ أُحَرِّقَ قُرَیْشًا، فَقُلْتُ: یَا رَبِّ إِذًا یَثْلَغُوا رَأْسِی، فَیَدَعُوهُ خُبْزَةً. فَقَالَ: اسْتَخْرِجْهُمْ كَمَا اسْتَخْرَجُوكَ، فَاغْزُهُمْ نُغْزِكَ، وَأَنْفِقْ عَلَیْهِمْ فَسَنُنْفِقَ عَلَیْكَ، وَابْعَثْ جُنْدًا نَبْعَثْ خَمْسَةً مِثْلَهُ، وَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَكَ مَنْ عَصَاكَ،

پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ قریش کو جلا دوں ،میں  نے عرض کیا کہ پروردگار! وہ تو میرے سر کو کھائی ہوئی روٹی بنا دیں  گے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم انہیں  میدان میں  آنے کی دعوت دینا جیسے وہ تمہیں  دعوت دیں  گے،پھر تم ان سے جہاد کرناہم تمہارے ساتھ ہوں  گے،تم اپنے مجاہدین پر خرچ کرنا تم پر خرچ کیا جائے گااور اپنا لشکر روانہ کرناہم اس کے ساتھ پانچ گنا لشکر مزید روانہ کر دیں  گےاور اپنے مطیعین کو لے کر نافرمانوں  سے قتال کرنا،

وَأَهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ: ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ، وَرَجُلٌ رَحِیمٌ رَقِیقُ الْقَلْبِ لِكُلِّ ذِی قُرْبَى، وَمُسْلِمٍ، وَرَجُلٌ فَقِیرٌ، وَأَهْلُ النَّارِ خَمْسَةٌ: الضَّعِیفُ الَّذِی لَا زَبْرَ لَهُ، الَّذِینَ هُمْ فِیكُمْ تَبَعًا – أَوْ تُبَعَاءَ، شَكَّ یَحْیَى – لَا یَبْتَغُونَ أَهْلًا، وَلَا مَالًا، وَالْخَائِنُ الَّذِی لَا یَخْفَى لَهُ طَمَعٌ – وَإِنْ دَقَّ – إِلَّا خَانَهُ، وَرَجُلٌ لَا یُصْبِحُ وَلَا یُمْسِی إِلَّا وَهُوَ یُخَادِعُكَ عَنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ وَذَكَرَ الْبُخْلَ وَالْكَذِبَ، وَالشِّنْظِیرَ الْفَاحِشَ

اور اہل جنت تین طرح کے ہوں  گے،ایک وہ منصف بادشاہ جو صدقہ وخیرات کرتا ہو اور نیکی کے کاموں  کی توفیق اسے ملی ہوئی ہو،دوسرا وہ مہربان آدمی جو ہر قریبی رشتہ دار اور مسلمان کے لئے نرم دل ہواور تیسرا وہ فقیر جو سوال کرنے سے بچے اور خود صدقہ کرے،اور اہل جہنم پانچ طرح کے لوگ ہوں  گے،وہ کمزور آدمی جس کے پاس مال ودولت نہ ہو اور وہ تم میں  تابع شمار ہوتا ہو، جو اہل خانہ اور مال کے حصول کے لئے محنت بھی نہ کرتا ہو،وہ خائن جس کی خیانت کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہو، اور وہ معمولی چیزوں  میں  بھی خیانت کرے،اوروہ آدمی جو صبح وشام صرف تمہیں  تمہارے اہل خانہ اور مال کے متعلق دھوکہ دیتا رہتا ہو، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخل، کذب اور بیہودہ گوئی کا بھی تذکرہ فرمایا ۔ [11]

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اورحکمت بالغہ کوواضح فرمایاکہ خالق کائنات نے پیدائشی طورپر انسان کی عقل وشعور میں  تقوی اورفجور ،خیر اور شر،نیکی اوربدی دونوں  کے میلانات،رجحانات اورمحرکات ودیعت کر دیے ، جیسے فرمایا

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ۚ [12]

ترجمہ: اور ہم نے اس کو خیر و شرکے دونوں  نمایاں  راستے دکھادیے ۔

اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۝۳ [13]

ترجمہ:ہم نے اس کوراستہ دکھا دیا خواہ شاکربن کر رہے یا کافر ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ،قَالَ: عَلَّمَهَا الطَّاعَةَ وَالْمَعْصِیَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اس آیت’’پھرسمجھ دی اس کوبدکاری سے اوربچ کرچلنے کی۔‘‘ کے معنی یہ ہیں  اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے خیر اور شر کو واضح فرمادیاہے۔ [14]

پھرواضح ہدایت کے لئے انبیاء اورکتابوں  کاسلسلہ جاری فرمایاتاکہ لوگ نیکی کواپنائیں  اوربرائی سے اجتناب کریں ،ایک مقام پر نفس لوامہ(یعنی ضمیر) کا ذکر فرمایاجوانسان کوبرائی پرملامت کرتاہے۔

وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللوَّامَةِ۝۲ۭ [15]

ترجمہ : اورنہیں  میں  قسم کھاتاہوں  ملامت کرنے والے نفس کی ۔

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ۝۱۴ۙوَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗ۝۱۵ۭ [16]

ترجمہ: بلکہ انسان خودہی اپنے آپ کو خوب جانتاہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں  پیش کرے۔

عَنْ أَبِی الْأَسْوَدِ الدِّیلِیِّ، قَالَ: قَالَ لِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ: أَرَأَیْتَ مَا یَعْمَلُ النَّاسُ فِیهِ وَیَتَكَادَحُونَ فِیهِ، أَشَیْءٌ قُضِیَ عَلَیْهِمْ، وَمَضَى عَلَیْهِمْ مِنْ قَدَرٍ قَدْ سَبَقَ، أَوْ فِیمَا یَسْتَقْبِلُونَ، مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِیُّهُمْ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، وَأُكِّدَتْ عَلَیْهِمُ الْحُجَّةُ؟ قُلْتُ: بَلْ شَیْءٌ قُضِیَ عَلَیْهِمْ، قَالَ: فَهَلْ یَكُونُ ذَلِكَ ظُلْمًا؟ قَالَ: فَفَزِعْتُ مِنْهُ فَزَعًا شَدِیدًا، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: لَیْسَ شَیْءٌ إِلَّا وَهُوَ خَلْقُهُ، وَمِلْكُ یَدِهِ، {لَا یُسْأَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْأَلُونَ} [17] . قَالَ: شَدَّدَكَ اللَّهُ، إِنَّمَا سَأَلْتُكَ، أَظُنُّهُ أَنَا، لَأَخْبُرَ عَقْلَكَ.

ابواسوددیلی سے روایت ہےمجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے پوچھایہ بتایئے کہ لوگ جوکوشش اورعمل کرتے ہیں  کیایہ کوئی ایسی چیزہے جس کاپہلے سے فیصلہ کردیاگیاہے اورسابقہ تقدیرکے مطابق اسے لکھ دیاگیاہے یایہ جوعمل کرتے ہیں  ان کاتعلق ان امورسے ہے جنہیں  لے کران کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے ہیں  اوران پرحجت تمام کردی گئی ہے؟میں  نے جواب دیاکہ یہ وہ چیزہے جس کاان کے بارے میں  پہلے سے فیصلہ کردیاگیاہے، توانہوں  نے کہاکیایہ ظلم نہیں  ہے ؟ میں  یہ بات سن کربہت زیادہ گھبراگیااورمیں  نے کہاکہ ہرچیزاللہ کی مخلوق اوراس کے ہاتھ کی ملکیت ہے،’’وہ جوکام بھی کرے اس سے پوچھانہیں  جاسکتاجبکہ بندوں  سے پوچھاجائے گا۔‘‘انہوں  نے کہااللہ تعالیٰ آپ کوسیدھے رستے پرقائم رکھے، میں  نے آپ کی عقل کااندازہ لگانے کے لیے یہ سوال پوچھاتھا،

إِنَّ رَجُلًا مِنْ مُزَیْنَةَ أَوْ جُهَیْنَةَ، أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَیْتَ مَا یَعْمَلُ النَّاسُ فِیهِ وَیَتَكَادَحُونَ: أَشَیْءٌ قُضِیَ عَلَیْهِمْ، وَمَضَى عَلَیْهِمْ مِنْ قَدَرٍ سَبَقَ، أَوْ فِیمَا یَسْتَقْبِلُونَ، مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِیُّهُمْ عَلَیْهِ السَّلَامُ وَأُكِّدَتْ بِهِ عَلَیْهِمُ الْحُجَّةُ؟ قَالَ:فِی شَیْءٍ قَدْ قُضِیَ عَلَیْهِمْ قَالَ: فَفِیمَ نَعْمَلُ؟ قَالَ: مَنْ كَانَ اللَّهُ خَلَقَهُ لِإِحْدَى الْمَنْزِلَتَیْنِ یُهَیِّئُهُ لَهَا، وَتَصْدِیقُ ذَلِكَ فِی كِتَابِ اللَّهِ: {وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا} [18]

خاندان مزینہ یاجہینہ کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرااورعرض کی تھی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ فرمائیں  کہ لوگ جوکوشش اورعمل کرتے ہیں  کیایہ کوئی ایسی چیزہے جس کاپہلے سے فیصلہ کردیاگیاہے؟ اورسابقہ تقدیرکے مطابق اسے لکھ دیاگیاہے، یایہ جوعمل کرتے ہیں  ان کاتعلق ان امورسے ہے جنہیں  لے کران کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے ہیں  اوران کے ساتھ ان پرحجت تمام کردی گئی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلکہ یہ وہ چیزہے جس کاان کے بارے میں  پہلے سے فیصلہ کردیاگیاہے، اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! توپھرہم عمل کیوں  کریں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجسے اللہ تعالیٰ نے دومرتبوں  میں  سے کسی ایک کے لیے پیداکیاہوتووہ اسے اس کے لیے تیار فرما دیتا ہے،اورکتاب اللہ میں  اس بات کی اس طرح تصدیق بھی موجودہے’’اورنفس انسانی کی اوراس ذات کی قسم جس نے اسے ہموارکیا،پھراس کی بدی اوراس کی پرہیزگاری اس پرالہام کردی۔ ‘‘ [19]

ایک غلط فہمی کے ازالے کے لئے فرمایاکہ فضیلت وعظمت کامعیارمال ودولت کی نموداورشاہ خرچی کرکے لوگوں  سے دادوصول کرنانہیں  ہے اصل معیارفضیلت تقویٰ اورپرہیزگاری ہے ، چنانچہ ان نمایاں  ترین اورمتضاد چیزوں  کی قسمیں  کھاکرفرمایاجوشخص اپنے نفس کوفجوریعنی شرک ،معصیت اوراخلاقی آلائشوں سے پاک کرے اور اس کو ابھار کر تقویٰ کی بلندی پرلے جائے وہ اخروی فوزوفلاح سے ہمکنارہوگا اس کوبہترین اندازسے خوش آمدیداور لاجواب انعامات سے نوازاجائے گا ،جیسے فرمایا

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۝۱۴ۙوَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى۝۱۵ۭ [20]

ترجمہ:فلاح پاگیاوہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اوراپنے رب کانام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔

اور جو شخص اپنے نفس کے اندر پائی جانے والی نیکی کے رجحانات کو ابھارنے اورنشوونمادینے کے بجائے ان کودبادے ، اس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف لے جائے وہ خسارہ پانے والے لوگوں  میں  شامل ہوکرعذاب جہنم کامستحق ہو گا ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّ بِهَذِهِ الْآیَةِ {وَنَفَسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا} [21] وَقَفَ، ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاهَا أَنْتَ وَلِیُّهَا وَمَوْلَاهَا وَخَیْرُ مَنْ زَكَّاهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان آیات کی تلاوت فرماتے وَنَفَسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا اورنفس انسانی کی اوراس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا ، پھراس کی بدی اوراس کی پرہیزگاری اس پرالہام کردی، اوریہ دعاکرتے اے اللہ!تومیرے نفس کو اس کی پرہیزگاری عطافرماتوہی اس کا دوست اورکارسازہے اوراسے بہترپاک فرمانے والاہے۔ [22]

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْهَرَمِ، وَعَذَابِ، الْقَبْرِ اللهُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِیُّهَا وَمَوْلَاهَا، اللهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا یُسْتَجَابُ لَهَا

زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعامانگاکرتے تھےاے اللہ! میں  تجھ سے عاجزہونے اورسستی اوربزدلی اوربخل اور بڑھاپے اورعذاب قبرسے پناہ مانگتاہوں ،اے اللہ!میرے نفس کو تقویٰ عطاکراوراسے پاکیزہ بنا،آپ ہی پاکیزہ بنانے والوں  میں  سے بہترہیں  اور تو ہی کارسازاورمولیٰ ہے،اے اللہ!میں  تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتاہوں  جونفع دینے والانہ ہواورایسے دل سے جوڈرنے والانہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیرہونے والانہ ہو اور ایسی دعاسے جو قبول ہونے والی نہ ہو۔ [23]

‏ كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ‎﴿١١﴾‏ إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا ‎﴿١٢﴾‏ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْیَاهَا ‎﴿١٣﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا ‎﴿١٤﴾‏ وَلَا یَخَافُ عُقْبَاهَا ‎﴿١٥﴾‏(الشمس)
’’ (قوم) ثمود نے اپنی سرکشی کی باعث جھٹلایا، جب ان میں کابڑا بدبخت کھڑا ہوا،انہیں اللہ کے رسول نے فرمادیاتھاکہاللہ تعالیٰ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی (باری کی حفاظت کرو) ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کو جھوٹا سمجھ کر اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، پس ان کے رب نے ان کے گناہوں کے باعث ان پر ہلاکت ڈالی اور پھر ہلاکت کو عام کردیا اور اس بستی کو برابر کردیا،وہ نہیں ڈرتا اس کے تباہ کن انجام سے۔‘‘

ایک تاریخی نظیرپیش کرنے کے لئے صالح علیہ السلام کی تباہ شدہ قوم ثمودکاذکرفرمایاجن کے آثارمکہ مکرمہ سے قریب ترین شمالی حجازمیں  موجودتھے اوراہل مکہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں  میں  ہمیشہ گزرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے اس قوم کی تباہی کاچرچاعام تھا،فرمایااللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے قوم ثمودکی ہدایت ورہنمائی کے لئے صالح علیہ السلام کومبعوث کیا مگرقوم نے اپنی سرکشی وطغیانی میں  دعوت حق کوجھٹلایااوراس فجورکوچھوڑنے کے لئے تیارنہ ہوئے جس میں  وہ مبتلاہوچکے تھے ،صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہااگرتم سچے ہو تو ایساایسا معجزہ ہمارے سامنے پیش کرو ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک حاملہ اونٹنی کی شکل میں  معجزہ دکھادیا،صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہایہ اللہ کی اونٹنی ہے یہ جہاں  چاہے زمین میں  چرتی رہے گی اورایک دن ساراپانی اس کے لئے مخصوص ہوگااوردوسرادن تم سب کے لئے اورتمہارے جانوروں  کے لئے مخصوص ہوگا،یادرکھنااگرتم نے اس کوکسی برے ارادے سے ہاتھ لگایاتوتم پراللہ کاسخت عذاب نازل ہوجائے گا،اپنامن مانااور حیران کن معجزہ دیکھ کراورپانی کی بندش پرقوم کچھ دن توصبرکرتی رہی مگروہ زیادہ دن یہ بندش برداشت نہ کرسکے آخرانہوں  نے اپنے سب سے شریراورسرکش سردارقداربن سالف کوپکاراکہ وہ اس اونٹی کاکانٹانکال دے ،اوروہ بدبخت اللہ کی پکڑسے بے خوف ہو کراس کام کاذمہ لے کرکھڑاہوگیا،صالح علیہ السلام نے اسے سختی سے تنبیہ کی کہ خبردار!اللہ کی اس کامل نشانی کوہاتھ مت لگانااوراس کی پانی پینے کی باری میں  مزاحم نہ ہوناورنہ اللہ کادردناک عذاب نازل ہوکررہے گامگرقوم اپنی سرکشی وطغیانی میں  اتنی آگے نکل چکی تھی کہ انہوں  نے صالح علیہ السلام کی تنبیہ کوکوئی اہمیت نہ دی اور اللہ کی اس نشانی کو مار ڈالا ،جیسے فرمایا

فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ۝۲۹ [24]

ترجمہ:آخرکار ان لوگوں  نے اپنے آدمی کو پکارا اور اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ النَّاقَةَ، وَذَكَرَ الَّذِی عَقَرَهَافَقَالَ:إِذْ انْبَعَثَ أَشْقَاهَاانْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَارِمٌ، عَزِیزٌ مَنِیعٌ فِی رَهْطِهِ، مِثْلُ ابْنِ زَمْعَةَ

عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں  ارشادفرمایااوراس میں  اونٹنی اوراس کی کونچیں  کاٹنے والے کاذکرکرتے ہوئے فرمایاجب اس کاسب سے بڑابدبخت اٹھا،اس (اونٹنی)کومارنے کے لیے ایک شخص اٹھاجوبدخلق،زورآوراورابوزمعہ کی طرح اپنی قوم میں  بڑاطاقتوارتھا۔ [25]

اوراللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکر صالح علیہ السلام سے کہا اب لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں  ڈراتے رہتے تھے،جیسے فرمایا

فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۷۷ [26]

ترجمہ: پھر انہوں  نے اس اونٹنی کومارڈالااور پورے تمردکے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے اورصالح علیہ السلام سے کہہ دیاکہ لے آوہ عذاب جس کی توہمیں  دھمکی دیتاہے اگر توواقعی پیغمبروں  میں  سے ہے۔

صالح علیہ السلام نے کہاتین دن اپنے گھروں  میں  خوب موج مستیاں  کرلوپھراللہ کاعذاب نازل ہوجائے گا،جیسے فرمایا

فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ۝۶۵ [27]

ترجمہ:اس پرصالح علیہ السلام نے ان کوخبردارکردیاکہ بس اب تین دن اپنے گھروں  میں  اوررہ بس لو،یہ ایسی معیادہے جوجھوٹی ثابت نہ ہوگی ۔

چنانچہ وقت مقررہ پراللہ کا عذاب ایک چنگھاڑاورنیچے سے زلزلہ کی شکل میں  نازل ہوااورپوری کی پوری قوم کوصفحہ ہستی سے مٹادیا گیا،جیسے فرمایا

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ۝۷۸ [28]

ترجمہ: آخرکارایک دہلادینے والی آفت نے انہیں  آلیااوروہ اپنے گھروں  میں  اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔

قَالَ قَتَادَةُ: بَلَغَنَا أَنَّ أُحَیْمِرَ ثَمُودَ لَمْ یَعْقِرِ النَّاقَةَ حَتَّى تَابَعَهُ صَغِیرُهُمْ وَكَبِیرُهُمْ وَذَكَرُهُمْ وَأُنْثَاهُمْ، فَلَمَّا اشْتَرَكَ الْقَوْمُ فِی عَقْرِهَا دَمْدَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ بِذُنُوبِهِمْ فَسَوَّاهَا

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ہمیں  یہ بات پہنچی ہے کہ ثمودکے اس سردارنے اس وقت تک اونٹنی کی کونچیں  نہیں  کاٹیں  جب تک اس قوم کے چھوٹوں  بڑوں  ،مردوں  اورعورتوں  نے اس کی بیعت نہیں  کرلی،اس طرح جب ساری قوم اونٹنی کی کونچیں  کاٹنے میں  شریک ہوگئی تواللہ تعالیٰ نے ان کے اس گناہ کی پاداش میں  ان پرتباہی ڈال کرسب کاصفایاکر دیا ۔ [29]

یاد رکھو ، اللہ تعالیٰ کا اقتدارسب سے بالاترہے،اگروہ قوم ثمودکی طرح کسی اور قوم یاشخص کونیست و نابود کردے تو اسے اس امرکاکوئی خوف نہیں  ہوتا کہ اس کاانجام کیاہوگا۔

مہجع رضی اللہ عنہ عنہش بن صالح مولی سیدناعمر رضی اللہ عنہ

ویقال إنّه من أَهْل الیمن أصابه سبیٌ فَمَنّ علیه عُمَر بْن الخطاب

یہ یمن کے کسی گاؤ ں  کے رہنے والے تھے ایک دفعہ لٹیروں  نے گاؤ ں  پرچھاپہ مارا اور انہیں  پکڑکرمکہ مکرمہ لے آئے،یہاں  سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان سے خریدکرآزادکردیا۔ [30]

قَالَ ابْن إِسْحَاق: هُوَ من الیمن وَقَالَ ابْن هشام: هُوَ من عك أصابه سباء

ابن اسحاق کہتے ہیں  یہ یمن سے تعلق رکھتے تھے،اورابن ہشام کہتے ہیں  یہ اصحاب سباکی باقیات میں  سے تھے۔ [31]

ا للہ تعالیٰ نے انہیں  فطرت سعیدسے نوازاتھاقیام مکہ کے دوران میں  ان کے کانوں  میں  دعوت توحیدکی آوازپڑی توانہوں  نے اس کے قبول کرنے میں  ایک لمحہ بھی توقف نہ کیااورہرقسم کے نتائج وعواقب سے بے پرواہوکربلاکشاں  اسلام کی صف میں  شامل ہوگئے،

وَكَانَ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ

تیرہ بعدبعثت میں  سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہجرت کا اذن دیاتووہ بھی دوسرے صحابہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔ [32]

دوہجری میں  غزوہ بدرپیش آیاتومہجع بن صالح رضی اللہ عنہ بھی سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے یوں  ان کواصحاب بدرمیں  ایک ہونے کاشرف حاصل ہوا،

وَجَاءَ عُمَیْرُ بْنُ وَهْبٍ فَنَاوَشَ الْمُسْلِمِینَ فَثَبَتَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى صَفِّهِمْ وَلَمْ یَزُولُوا وَشَدَّ عَلَیْهِمْ عَامِرُ بْنُ الْحَضْرَمِیِّ وَنَشَبَتِ الْحَرْبُ فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِهْجَعٌ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَتَلَهُ عَامِرُ بْنُ الْحَضْرَمِیِّ

عمیربن وھب نے مسلمانوں  کی صفوں  کومنتشرکرنے کی کوشش کی مگرمجاہدین اسلام اپنی صفوں  پرڈٹے رہے اورمنتشرنہ ہوئے اس پرعامربن حضرمی نے بھی حملہ کیا اور جنگ چھڑگئی ،مسلمانوں  میں  سے سب سے پہلے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام مہجع رضی اللہ عنہ نکلے اور نہایت بہادری سے نبردآزماہوئے لیکن بالآخر عامربن حضرمی نے انہیں  تیرمارکر قتل کردیا ۔ [33]

 بعد تعدیل الصفوف كان أَوَّلَ من خرج مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِهْجَعُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فقتله عَامِرِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ بسهم أرسله إلیه،فقیل: إنه أوّل من یدعى من شهداء هذه الأمة، وإنه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال یومئذ: مهجع سید الشهداء

ایک روایت میں  ہےصفوں  کی درستگی کے بعدسب سے پہلےسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام مَهْجَعُ نےمیدان کارزارمیں  اپنی صفوں  سے آگے بڑھ کرمبارزت طلب کی ، دشمن کی طرف سے قریش کانامی جنگجوعامربن حضرمی مقابلے کے لیے نکلا، مہجع رضی اللہ عنہ نے نہایت بہادری سے نبردآزماہوئے لیکن بالآخر عامرنے انہیں  تیرمارکرقتل کردیا، کہاجاتاہے اس امت میں  وہ سب سے پہلے شہیدہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہجع رضی اللہ عنہ سید الشہدا ہیں  [34]

 ثُمَّ بَعَثَ إلَى عَامِرِ بْنِ الْحَضْرَمِیِّ

پھرعامربن حضرمی کو بھیجا ۔ [35]

فَكَانَ أَوّلَ مَنْ خَرَجَ إلَیْهِ مَهْجَعُ مَوْلَى عُمَرَ، فَقَتَلَهُ عَامِرٌ

سب سے پہلے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کاآزادکردہ غلام مہجح رضی اللہ عنہ مقابلے کے لیے نکلے مگرعامرنے انہیں  قتل کردیا۔ [36]

مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فقتله عامر بن الحضرمی بسهم أرسله إلیه

بعض دوسرے ارباب سیرکابیان ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام ممہجح رضی اللہ عنہ جس وقت مشرکین کے خلاف مصروف پیکار تھے عامربن حضرمی نے ان کی طرف تیرپھینکاجوان کے لیے تیرقضا ثابت ہوا۔ [37]

أَوَّلُ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ بَدْرٍ مِهْجَعٍ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ

ابن سعدکابیان ہےغزوہ بدرمیں  سب سے پہلے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام ممہجح رضی اللہ عنہ شہیدہوئے۔ [38]

وَكَانَ أَوَّلُ قَتِیلٍ قُتِلَ مِنَ الْأَنْصَارِ حَارِثَةُ بْنُ سُرَاقَةَ، وَیُقَالُ قَتَلَهُ حَبَّانُ بْنُ الْعَرِقَةَ

یہ بھی کہاجاتاہے انصارمیں  سے سب سے پہلے حارثہ بن سراقہ شہید ہوئے،یہ بھی کہاجاتاہے انہیں  حبان بن العرقہ نے قتل کیاتھا۔ [39]

لَا عَقِبَ لَهُ

انہوں  نے اپنے پیچھے کوئی اولادنہیں  چھوڑی۔ [40]

[1] الیل۲

[2] الانشقاق۱۶،۱۷

[3] الرعد۲

[4] لقمان۱۰

[5] الذاریات۴۸

[6] الغاشیة۲۰

[7] النازعات۳۰

[8] الانفطار۶تا۸

[9] الروم۳۰

[10] صحیح بخاری کتاب اکجنائزبَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ، هَلْ یُصَلَّى عَلَیْهِ، وَهَلْ یُعْرَضُ عَلَى الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ ۱۳۵۸،صحیح مسلم کتاب القدربَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ ۶۷۵۵،مسنداحمد۷۱۸۱

[11] مسند احمد ۱۷۴۸۴،صحیح مسلم كتاب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ بَابُ الصِّفَاتِ الَّتِی یُعْرَفُ بِهَا فِی الدُّنْیَا أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ۷۲۰۷

[12] البلد۱۰

[13] الدھر ۳

[14] تفسیر طبری ۴۵۴؍۲۴

[15] القیامة۲

[16] القیامة ۱۴، ۱۵

[17] الأنبیاء: ۲۳

[18] الشمس: ۸

[19] تفسیر طبری ۴۵۵؍۲۴

[20] الاعلیٰ۱۴،۱۵

[21] الشمس: ۸

[22] المعجم الکبیرللطبرانی۱۱۱۹۱

[23] صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاء بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عُمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یُعْمَلْ۶۹۰۶، مسند احمد ۱۹۳۰۸،سنن الکبری للنسائی ۷۸۱۶، شرح السنة للبغوی۱۳۵۸

[24] القمر۲۹

[25] مسنداحمد۱۶۲۲۳،صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ۴۹۴۲،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ۷۱۹۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ۳۳۴۳،السنن الکبری للنسائی۱۱۶۱۱، تفسیر طبری ۴۵۹؍۲۴

[26] الاعراف ۷۷

[27] ھود۶۵

[28] الاعراف ۷۸

[29] تفسیرطبری۴۶۰؍۲۴

[30] ابن سعد۲۹۹؍۳

[31] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۴۸۶؍۴

[32] ابن سعد۲۹۹؍۳

[33] ابن سعد۱۲؍۲

[34] نهایة الإیجاز فی سیرة ساكن الحجاز۲۲۶؍۱

[35] ابن ہشام ۶۲۳؍۱

[36] مغازی واقدی ۶۴؍۱

[37] السیرة الحلبیة ۲۲۱؍۲

[38] ابن سعد ۲۹۹؍۳

[39] ابن سعد۱۲؍۲

[40] ابن سعد۲۹۹؍۳

Related Articles