بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة الطور

اس سورة کے آغازمیں  آخرت کوموضوع بنایاگیاہے ،کوہ طور،کھلے ہوئے کاغذپرلکھی ہوئی اس کتاب کی ،بیت معمور،موجزن آسمان اورسمندرکی قسم کھاکرفرمایاکہ قیامت یقیناًواقع ہو گی اورکسی ہستی میں  یہ طاقت نہیں  کہ اسے برپاہونے سے روک سکے اوراس حقیقت کو جھٹلانے والوں  کاانجام جہنم ہوگااورجن لوگوں  نے ایمان قبول کرلیاہے اور تقویٰ کی روش اختیارکی وہ اللہ تعالیٰ کے انمول انعامات سے سرفرازہوں  گے،اس حقیقت کے اظہارکے بعدقریشی سرداروں  پر تنقید کی گئی ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون ، کاہن اورشاعرقراردیتے تھے اوریہ سب کچھ اس لئے کیاجاتاتھا کہ لوگوں  کوبہکایاجاسکے،مکہ مکرمہ کے سرداررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو اپنے لئے ایک مصیبت سمجھتے تھے اوراس کوشش میں  رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طورپرآپ سے چھٹکاراحاصل کیا جاسکےاس مقصدکے لئے وہ ہر حربہ استعمال کرتے،جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات اس تگ ودومیں  رہتے تھے کہ ان لوگوں  کوجہالت وگمراہی کے تاریک غاروں  سے نکال کرراہ ہدایت پرلے آئیں  ، قریش مکہ آپ کی بات تسلیم نہ کرنے کے لئے ایک اور عذر لنگ بھی پیش کرتے تھے کہ ہم آپ کی باتوں  کے تب قائل ہوں  گے کہ آپ ہمیں  کوئی معجزہ دکھائیں  جیساکہ پہلے انبیاء کے ہاتھوں  معجزات کا ظہور ہوا اس بارے میں  فرمایاکہ یہ صرف ان کی ایک حجت ہے اگر ان کومعجزہ دکھابھی دیاجائے توتب بھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کوتسلیم نہ کریں  گے بلکہ اس میں  کوئی تاویل کرکے اپنے کفرپر مصرہوجائیں  گے،ان باتوں  کے بعد سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاگیاکہ آپ ان لوگوں  کے اعتراضات اوران کی طعن وتشنیع کوخاطرمیں  نہ لائیں  اوردین حق کے پیغام کو پہنچانے کے لئے دعوت کا سلسلہ جاری رکھیں اللہ آپ کی حفاظت فرمائے گااوریہ آپ کاکچھ نہیں  بگاڑسکیں  گے، اوردعوت حق کے سلسلہ میں  جورکاوٹیں  آئیں  یاکفارکی جانب سے مزاحمت ہوتو صبرواستقامت کے ساتھ ان تمام مزاحمتوں  کامقابلہ کیاجائے اوراللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح وتحمید سے قوت حاصل کی جائے۔

جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ زمانہ کفرمیں  قیدیوں  کے سلسلہ میں  بات چیت کرنے کے لیے مدینہ منورہ آئے،جب وہ پہنچے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمغرب میں  سورہ طورکی تلاوت فرمارہے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ’’بے شک تیرے رب کاعذاب واقع ہوکررہے گا۔‘‘پڑھی توجبیربن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  مجھے یوں  لگاکہ میرادل پھٹ جائے گاچنانچہ میں  نے نزول عذاب کے ڈرسے اسلام قبول کرلیا،پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرما ئی

 اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ۝۳۵ۭاَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝۰ۚ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ۝۳۶ۭ [1]

ترجمہ: کیایہ کسی خالق کے بغیرخود پیداہوگئے ہیں ؟ یایہ خود اپنے خالق ہیں  ؟ یا زمین اور آسمانوں  کوانہوں  نے پیداکیاہے؟اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں  رکھتے۔توفرماتے ہیں  کہ یہ آیات سن کرمجھے خیال ہواکہ میرادل اورہوش وحواس اڑجائیں  گے ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَالطُّورِ ‎﴿١﴾‏ وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ ‎﴿٢﴾‏ فِی رَقٍّ مَّنشُورٍ ‎﴿٣﴾‏ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِ ‎﴿٤﴾‏ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ‎﴿٥﴾‏ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ ‎﴿٦﴾‏ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ‎﴿٧﴾‏ مَّا لَهُ مِن دَافِعٍ ‎﴿٨﴾‏ یَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا ‎﴿٩﴾‏ وَتَسِیرُ الْجِبَالُ سَیْرًا ‎﴿١٠﴾‏ فَوَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿١١﴾‏ الَّذِینَ هُمْ فِی خَوْضٍ یَلْعَبُونَ ‎﴿١٢﴾‏(الطور)
قسم ہے طور کی، اور لکھی ہوئی کتاب کی جو جھلی کے کھلے ہوئے ورق میں  ہے، وہ آباد گھر کی، اور اونچی چھت کی، اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی، بیشک آپ کے رب کا عذاب ہو کر رہنے والا ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں ، جس دن آسمان تھرتھرانے لگے گا، اور پہاڑ چلنے پھرنے لگیں  گے، اس دن جھٹلانے والوں  کی (پوری) خرابی ہے، جو اپنی بیہودہ گوئی میں  اچھل کود رہے ہیں ۔

کوہ طورجس پراللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایاتھااوریہیں  پرتورات عطاکی تھی ،اورباریک چمڑے پرلکھی ہوئی لوح محفوظ جس میں  ہرچیزلکھی ہوئی ہے،یاقدیم زمانے میں  لکھنے کے لیے ہرن کی کھال سے تیارکردہ باریک جھلی، یاقرآن مجیدجواوراق میں  لکھاہواہے ،مکہ مکرمہ میں  واقع بیت اللہ جوہروقت عمرہ ،حج اورطواف وزیارت کرنے والوں  سے بھرا رہتاہے،جیسے ایک اورمقام پراس کی قسم کھائی گئی۔

وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ۝۳ۙ [2]

ترجمہ: اوراس پرامن شہر(مکہ)کی قسم۔

یا بیت اللہ کے عین اوپرساتویں  آسمان پربیت المعمور

فَرُفِعَ لِی البَیْتُ المَعْمُورُ فَسَأَلْتُ جِبْرِیلَ،فَقَالَ: هَذَا البَیْتُ المَعْمُورُ یُصَلِّی فِیهِ كُلَّ یَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ،إِذَا خَرَجُوا لَمْ یَعُودُوا إِلَیْهِ آخِرَ مَا عَلَیْهِمْ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پرتشریف لے گئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبیت معموردکھایاگیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے اس کے بارے میں  دریافت کیا،توانہوں  نے جواب دیایہ بیت المعمورہے،اس میں  روزانہ سترہزار فرشتے نمازپڑھتے ہیں اورایک مرتبہ پڑھ کرجواس سے نکل جاتا ہے توپھرکبھی داخل نہیں  ہوتا۔ [3]

بغیرستونوں  کے بلندوبالاآسمان جو زمین کے اوپرایک چھت کی طرح ہے ،جیسے فرمایا

وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۝۰ۚۖ وَّهُمْ عَنْ اٰیٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ۝۳۲ [4]

ترجمہ:اورہم نے آسمان کوایک محفوظ چھت بنادیامگریہ ہیں  کہ کائنات کی نشانیوں  کی طرف توجہ ہی نہیں  کرتے ۔

یا بعض کے نزدیک عرش جوتمام مخلوقات کے لیے چھت ہے، اورپانی سے بھرے موجزن سمندرکی، یابعض کے نزدیک اس سے مرادوہ سمندر ہے جس میں  قیامت کے دن آگ بھڑکائی جائے گی،جیسے فرمایا

 وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ۝۶۠ۙ [5]

ترجمہ: اور جب سمندربھڑکادیے جائیں  گے۔

وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّـــرَتْ۝۳ۙ [6]

ترجمہ:اورجب سمندرپھاڑدیے جائیں  گے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان پانچ حقائق وآثارکی قسم کھاکرپورے زورکے ساتھ فرمایاکہ اللہ تعالیٰ اپنے قول اور وعدے کے خلاف نہیں  کرتااس لئے یقیناً ایک وقت مقررہ پر قیامت قائم ہوکررہے گی،تم سے پہلی قوموں  نے بھی اپنے زعم میں  اپنے معبودوں  پربھروسہ کیا تھاکہ وہ انہیں  اللہ کے عذاب سے بچالیں  گے مگرجب اللہ کاعذاب واقع ہواتونہ وہ لوگ ہی بچے اورنہ ہی ان کے باطل معبود،اس لئے اپنے باطل معبودوں  پرتکیہ کرنے کے بجائے رب کی طرف پلٹ آؤ ،اسی میں  تمہاری نجات ہے،اگراللہ نے عذاب نازل فرمادیاتواللہ کے سواکسی میں  یہ مجال نہیں  کہ اسے روک یاٹال سکے،کوئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کامقابلہ نہیں  کر سکتا اورنہ ہی کوئی بھاگ کراس سے بچ سکتاہے،

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ زَیْدٍ الْعَبْدِیِّ أن عُمَرُخَرَجَ یَعِسّ الْمَدِینَةَ لَیْلَةٍ ومعه غلام له وعبد الرحمن بن عوف،فَمَرَّ بِدَارِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَوَافَقَهُ قَائِمًا یُصَلِّی فَوَقَفَ یَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ فَقَرَأَ: {وَالطُّورِ}حَتَّى بَلَغَ {إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ}قَالَ: قَسَمٌ وَرَبِّ الْكَعْبَةِحَقٌّ،فَنَزَلَ عَنْ حِمَارِهِ وَاسْتَنَدَ إِلَى حَائِطٍ فَمَكَثَ مَلِیًّا ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مِنْزِلِهِ فَمَكَثَ شَهْرًا یَعُودُهُ النَّاسُ لَا یَدْرُونَ مَا مَرَضُهُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

جعفربن زیدعبدی سے روایت ہے امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ ایک رات مدینہ منورہ میں  بھیس بدل کرنکلے، ان کاغلام اورعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کے ہمراہ تھے ،ان کا گزر مسلمانوں  کے ایک ایسے گھرکے پاس سے ہواجس میں  اللہ تعالیٰ کاایک بندہ کھڑا نماز پڑھ رہاتھا آپ نے اس کی قرات کوبغورسنناشروع کیاتودیکھاکہ وہ سورہ الطورپڑھ رہا تھا یہاں  تک کہ وہ اس آیت کریمہ ’عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ‘  پرپہنچا تو انہوں  (سیدناعمر رضی اللہ عنہ ) نے کہارب کعبہ کی قسم !یہ عذاب برحق ہے،پھراپنے گدھے سے نیچے اترآئے اوردیوارکے ساتھ ٹیک لگاکرکھڑے ہوئےاورخاصی دیرتک کھڑے رہے،پھراپنے گھرکی طرف لوٹ آئےاورایک مہینے تک بیماررہے، لوگ آپ کی بیمارپرسی کے لیے آتے تھے مگرجانتے نہیں  تھے کہ آپ کامرض کیاہے۔ [7]

اور یہ عذاب اس دن واقع ہوگاجب اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسرافیل علیہ السلام صورمیں  پھونک دیں  گے جس کی آوازسے عالم بالاکاسارانظام درہم برہم ہوجائے گا،پاش پاش کرنے والی کڑکیں  اورمہیب آوازیں  ہرسوہلچل مچادیں  گی ،ہرطرف ایک اضطراب برپاہوگا اورزمین کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی جس کی وجہ سے پہاڑ جو زمین کاتوازن قائم کرنے کے لئے نصب کیے گئے تھے اوردیگرمجسم فلکیات فضامیں  دھنکی ہوئی رنگ برنگی روئی کے گالوں  کی طرح اڑتے پھریں  گے،(چونکہ پہاڑوں  کے رنگ مختلف ہیں ، اس لیے جب وہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اور بےوزن ہو کر اڑنے لگیں  گے تو ایسے معلوم ہونگے جیسے رنگ برنگ کا دھنکا ہوا اون اڑ رہا ہو)جیسے فرمایا

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ۝۵ۭ [8]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح ہوں  گے۔

وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِہْنِ۝۹ۙ [9]

ترجمہ:اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں  گے۔

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَةً وَّہِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۔۔۔۝۸۸ [10]

ترجمہ:آج تو پہاڑوں  کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں  مگر اس وقت یہ بادلوں  کی طرح اڑ رہے ہوں  گے۔

اورآپس میں  ٹکراٹکراکر ریت کے ذروں  کی طرح غباربن کر اڑجائیں  گے،جیسے فرمایا

وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا۝۲۰ۭ [11]

ترجمہ:اور پہاڑ چلائے جائیں  گے یہاں  تک کہ وہ سراب ہو جائیں  گے۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّہِیْلًا۝۱۴ [12]

ترجمہ:یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں  گے اور پہاڑوں  کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں  ۔

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙ [13]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا۔

مگر قیامت کے منکرین کے لئے جواس ہولناک دن سے لاپرواہ لہوولعب میں  مشغول، کفروباطل میں  مصروف اورحق کی تکذیب واستہزامیں  لگے ہوئے ہیں  اس دن بڑی خرابی ہے۔

 یَوْمَ یُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ‎﴿١٣﴾‏ هَٰذِهِ النَّارُ الَّتِی كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ‎﴿١٤﴾‏ أَفَسِحْرٌ هَٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ ‎﴿١٥﴾‏ اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَیْكُمْ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٦﴾‏(الطور)
جس دن وہ دھکے دے کر آتش جہنم کی طرف لائے جائیں  گے، یہی وہ آتش دوزخ ہے جسے تم جھوٹ بتلاتے تھے ،(اب بتاؤ) کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھتے نہیں ؟ جاؤ دوزخ میں ، اب تمہارا صبر کرنا اور نہ کرنا تمہارے لیے یکساں  ہے، تمہیں  فقط تمہارے کئے کا بدل دیا جائے گا۔

جس دن انہیں  دھکے مارمارکریعنی سختی کے ساتھ نارجہنم کی طرف دھکیلاجائے گایاانہیں  چہروں  کے بل گھسیٹے ہوئے دوزخ کی طرف لایاجائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ۔۔۔ ۝۹۷ [14]

ترجمہ: ان لوگوں  کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں  گے۔

اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ اِلٰى جَہَنَّمَ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ سَبِیْلًا۝۳۴ۧ [15]

ترجمہ:جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں  ان کا مؤقف بہت برا اور ان کی راہ حد درجہ غلط ۔

وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ۔۔۔۝۹۰ [16]

ترجمہ:اور جو برائی لیے ہوئے آئے گا ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں  پھینکے جائیں  گے ۔

یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ۝۰ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ۝۴۸ [17]

ترجمہ:جس روز یہ منہ کے بل آگ میں  گھسیٹے جائیں  گے اس روز ان سے کہا جائے گا کہ اب چکھو جہنم کی لپٹ کا مزا۔

اس وقت دروغہ جہنم ان سے ملامت کے طورپر کہے گا کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم دنیامیں  جھٹلایاکرتے تھے ،پھرمزیدجھڑک کرکہے گادنیامیں  اللہ کے پیغمبرتمہیں  عذاب جہنم سے خبردارکرتے تھے مگرتم رسولوں  کی دعوت کوجادوقراردیتے تھے،اس پاکیزہ دعوت کامذاق اڑاتے تھے،اس دعوت کاراستہ روکنے کے لیے بھرپورکوشش کرتے تھےاب جبکہ تم اپنی آنکھوں  سے جہنم کواپنے سامنے دیکھ رہے ہوتو اب بتاؤ یہ جادوہے یاجس طرح تم دنیامیں  حق کے دیکھنے سے اندھے تھے یہ عذاب بھی تمہیں  نظر نہیں  آ رہاہے؟جاؤ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں  جھلسو،جہنم کی آگ تمہیں  ہرطرف سے گھیرلے گی اس کے اندرتم خواہ صبرکرویاآہ وفغاں  کرواب تم اس سے کسی طرح چھوٹ نہیں  سکتے اللہ مالک یوم الدین نے تم پرکوئی ظلم نہیں  کیااورنہ وہ کسی پرظلم کرتا ہے بلکہ اس نے تمہیں  تمہارے عقائدواعمال کے مطابق ہی پوراپوا بدلہ دیا ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۹۰ [18]

ترجمہ: کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟ ۔

 إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَعِیمٍ ‎﴿١٧﴾‏ فَاكِهِینَ بِمَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ وَوَقَاهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِیمِ ‎﴿١٨﴾‏ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِیئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٩﴾‏ مُتَّكِئِینَ عَلَىٰ سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ ۖ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِینٍ ‎﴿٢٠﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُم بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَیْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِینٌ ‎﴿٢١﴾(الطور)
یقیناً پرہیزگار لوگ جنتوں  میں  اور نعمتوں  میں  ہیں ، جو انہیں  ان کے رب نے دے رکھی ہیں  اس پر خوش خوش ہیں ، اور ان کے پروردگار نے انہیں  جہنم کے عذاب سے بچا لیا ہے،تم مزے سے کھاتے پیتے رہو ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے ، برابر بچھے ہوئے شاندار تختے پر تکیے لگائے ہوئے، اور ہم نے ان کے نکاح بڑی بڑی آنکھوں  والی (حوروں ) سے کرا دیئے ہیں ،اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں  ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں  گے، اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں  گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے۔

جہنمیوں  کے برعکس متقی وپرہیزگار لوگوں  کوان کارب اپنے فضل وکرم سے دوزخ کے المناک عذاب سے بچاکرنعمتوں  بھری جنتوں  میں  داخل فرمادے گا، جہاں  وہ باریک ریشم کے سبزلباس اوراطلس ودیباکی پوشاک پہن کرجنت کی لازوال انواع واقسام کی نعمتوں  اورگھنے سایوں  والے باغات میں  ہوں  گے ،ان کارب انہیں  جوگوناں  گوں نعمتیں  عطافرمائے گاان سے فرحت وسرورکے ساتھ لطف اندوز ہو رہے ہوں  گے ،اوران سے کہاجائے گادنیامیں اپنے ان عقائدو اعمال صالحہ کے صلے میں  ہرطرح کی پریشانیوں  سے بے خوف ہوکران نعمتوں  کو کھاؤ اوران بہتے چشموں  سے پیو ،جیسےفرمایا

 كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِیْۗــــًٔۢـــابِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ۝۲۴ [19]

ترجمہ:(ایسے لوگوں  سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں  میں  کیے ہیں ۔

كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِیْۗــــًٔۢـــابِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۴۳ [20]

ترجمہ:کھاؤ اورپیومزے سے اپنے ان اعمال کے صلے میں  جوتم کرتے رہے ہو۔

وہ رواں  چشموں  کے کنارے ،گھنے درختوں  کے نیچے،نفیس فرشوں  پرخوبصورت بچھونوں  سے آراستہ اونچی مسندوں  پرآمنے سامنے گاؤ تکیے لگائے شاہانہ شان سے بیٹھے نعمتوں  سے لطف اندوزہورہے ہوں  گے،جیسے فرمایا

عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ۝۱۵ۙمُّتَّكِـــِٕیْنَ عَلَیْهَا مُتَقٰبِلِیْنَ۝۱۶ [21]

ترجمہ:مرصع تختوں  پرتکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں  گے۔

عَلٰی سُرُرٍ مُّتَـقٰبِلِیْنَ۝۴۴ [22]

ترجمہ:تختوں  پر آمنے سامنے بیٹھیں  گے۔

اورہم حسین و جمیل،نازک اندام، نو خیز اور ہم سن خوبصورت آنکھوں  والی حوریں  ان سے بیاہ دیں  گے،جیسے فرمایا

وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ۝۴۸ۙكَاَنَّهُنَّ بَیْضٌ مَّكْنُوْنٌ۝۴۹ [23]

ترجمہ:اوران کے پاس نگاہیں  بچانے والی، خوبصورت آنکھوں  والی عورتیں  ہوں  گی،ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی ۔

وَحُوْرٌ عِیْنٌ۝۲۲ۙكَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۝۲۳ۚ [24]

ترجمہ:اوران کے لیے خوبصورت آنکھوں  والی حوریں  ہوں  گی ،ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔

وَزَوَّجْنٰہُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ۝۵۴ۭ [25]

ترجمہ: اور ہم گوری گوری آہو چشم عورتیں ان سے بیاہ دیں  گے ۔

الغرض جنتیوں  کے چاروں  طرف نعمتیں  ہی نعمتیں  ہوں  گی اوروہ بے فکرہوکران سے لطف اندوزہورہے ہوں  گے جیسے فرمایا

وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْكًا كَبِیْرًا۝۲۰ [26]

ترجمہ:وہاں  جدھربھی تم نگاہ ڈالوگے نعمتیں  ہی نعمتیں  اورایک بڑی سلطنت کاسروسامان تمہیں  نظرآئے گا۔

ان نعمتوں  کے علاوہ یہ بھی اللہ کا فضل وکرم ہوگاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں  وہ اپنے اخلاص وتقوی اورعمل وکردارکی بنیادپرجنت کے اعلی درجوں  پرفائزہوں  گے اوران کی اولادبھی کسی درجہ ایمان میں  اپنے والدکے نقش قدم پرچلی ہوگی توہم ان کی اولادکے بھی درجے بلندکرکے جنت میں ان کے والدکے ساتھ ملادیں  گے تاکہ ان کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوں ،جیسے فرمایا

جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰــتِهِمْ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ۝۲۳ۚ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ ۔۔۔۝۲۴ۭ [27]

ترجمہ: وہ خودبھی ان میں  داخل ہوں  گے اوران کے آباؤ اجداداوران کی بیویوں  اوران کی اولادمیں  سے جوجوصالح ہیں  وہ بھی ان کے ساتھ وہاں  جائیں  گے،ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں  گے اور ان سے کہیں  گے تم پر سلامتی ہے۔

ایک مقام پر فرشتوں  کی دعاکاذکرفرمایا

رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰــتِهِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۸ۙ [28]

ترجمہ: اے ہمارے رب! داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں  میں  جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، اور ان کے والدین، بیویوں  اور اولاد میں  سے جو صالح ہوں  (ان کوبھی وہاں  ان کے ساتھ پہنچا دے) تو بلاشبہ قادر مطلق اور حکیم ہے۔

اوران کے عمل میں  کوئی گھاٹاان کونہ دیں  گے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ اللهَ لَیَرْفَعُ ذُرِّیَّةَ الْمُؤْمِنِ فِی دَرَجَتِهِ ، وَإِنْ كَانُوا دُونَهُ فِی الْعَمَلِ، لِتَقَرَّ بِهِمْ عَیْنُهُ ثُمَّ قَرَأَ: وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَیْءٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ تعالیٰ مومن کی اولادکواس کے درجے میں  سربلندکردے گا، خواہ وہ عمل میں  اس سے کم ترہوتاکہ اس کی اپنی اولادکی وجہ سے آنکھیں  ٹھنڈی ہوں ،پھرانہوں  نے اس آیت کریمہ ’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں  ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کوان تک پہنچا دیں  گے اوران کے اعمال میں  کوئی کمی نہیں  کی جائے گی ۔‘‘ کی تلاوت کی۔ [29]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُم بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ، قَالَ: هُمْ ذُرِّیَةُ الْمُؤْمِنِ، یَمُوتُونَ عَلَى الْإِیْمَانِ ،فَإِنْ كَانَتْ مَنَازِلُ آبَائِهِمْ أَرْفَعَ مِنْ مَنَازِلِهِمْ أُلْحِقُوا بِآبَائِهِمْ، وَلَمْ یَنْقُصَوْا مِنْ أَعْمَالِهِمُ الَّتِی عَمِلُوا شَیْئًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ ’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں  ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کوان تک پہنچا دیں  گے ۔‘‘کی تفسیرمیں  روایت ہے،اس سے مرادمومن کی وہ اولاد ہے جوایمان کے ساتھ فوت ہو،اگران کے آباء کے مراتب ان کے مراتب سے بلندہوئے توانہیں  بھی اپنے آباء کے مراتب میں  پہنچادیاجائے گا اوران کے اعمال میں  کوئی کمی نہیں  کی جائے گی۔ [30]

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: سَأَلَتْ خَدِیجَةُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَلَدَیْنِ مَاتَا لَهَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هُمَا فِی النَّارِ .قَالَ: فَلَمَّا رَأَى الْكَرَاهِیَةَ فِی وَجْهِهَا قَالَ:لَوْ رَأَیْتِ مَكَانَهُمَا لَأَبْغَضْتِهِمَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَلَدِی مِنْكَ؟ قَالَ:فِی الْجَنَّةِ قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْمُؤْمِنِینَ وَأَوْلادَهُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمُشْرِكِینَ وَأَوْلادَهُمْ فِی النَّارِ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: (وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِإِیمَانٍ، أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّاتِهِمْ

امیرالمومنین سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دوبیٹوں  کی بابت پوچھاجوزمانہ جاہلیت میں  فوت ہوگئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ دوزخ میں  ہیں ،پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پرناگواری کے اثرات دیکھے توفرمایااگرتم ان کی جگہ دیکھ لوتوانہیں  ناپسندکرو،ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سے میرے دوبیٹے فوت ہوئے ہیں ان کے بارے میں  کیاارشادہے؟فرمایاوہ جنت میں  ہیں ،راوی کہتے ہیں  کہ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن اوران کی اولادجنت میں  جائے گی اورمشرک اوران کی اولادجہنم رسیدہوگی،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں  ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں  گے، اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں  گے۔‘‘ [31]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْقِنْطَارُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ أُوقِیَّةٍ، كُلُّ أُوقِیَّةٍ خَیْرٌ مِمَّا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِی الْجَنَّةِ فَیَقُولُ: أَنَّى هَذَا؟ فَیُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے اور ایک اوقیہ زمین و آسمان کی درمیانی کائنات اور ہر چیز سے بہتر ہے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااولادکے دعا و استغفارسے آباء کے درجات میں  اضافہ ہوتاہے، جب ایک شخص کے جنت میں  درجات بلندہوتے ہیں  تووہ اللہ سے اس کاسبب پوچھتا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تیری اولادکی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔[32]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جب انسان مرجاتاہے تواس کے عمل کاسلسلہ منقطع ہوجاتاہے البتہ تین چیزوں  کاثواب موت کے بعدبھی جاری رہتاہے،ایک صدقہ جاریہ(وہ صدقہ جومیت نے اپنی زندگی میں  خودکیاہونہ کہ میت کی طرف سے اس کی وفات کے بعدکیاجائے)دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں  (مثلاًتصنیف شدی کتابیں  یاتربیت شدہ شاگرد) اورتیسری نیک اولادجواس کے لیے دعاکرتی ہو۔ [33]

ہرشخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے ،جیسےفرمایا

كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌ۝۳۸ۙ [34]

ترجمہ:ہرشخص اپنے کسب کے بدلے رہن ہے۔

یعنی وہاں کوئی جان کسی دوسرے کابوجھ نہ اٹھائے گی،جیسے فرمایا

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۳۸ۙ [35]

ترجمہ:یہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں  اٹھائے گا ۔

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔۔۝۷ [36]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا ۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى۔۔۔۝۱۸ [37]

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائےگااور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنی حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں  نہ ہو۔

اورنہ کسی پرکسی دوسرے کاگناہ ڈالاجائے گا بلکہ جوجیساعمل کرے گا اسی کے مطابق ہی جزاپائے گا۔

 وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَهُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ یَتَنَازَعُونَ فِیهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِیهَا وَلَا تَأْثِیمٌ ‎﴿٢٣﴾‏ وَیَطُوفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ ‎﴿٢٤﴾ (الطور)
ہم نے ان کے لیے میوے اور مرغوب گوشت کی ریل پیل کردیں  گے ،(خوش طبعی کے ساتھ) ایک دوسرے سے جام (شراب) چھینا جھپٹی کریں  گے ، جس شراب کے سرور میں  تو بیہودہ گوئی ہوگی نہ گناہ، اور ان کے ارد گرد ان کے نو عمر غلام پھر رہے ہونگے، گویا موتی تھے جو ڈھکے رکھے تھے۔

ہم جنتیوں  کوہرطرح کے پھل اورمختلف پرندوں  کابھوناہواگوشت جس چیزکوبھی ان کاجی چاہے گاخوب دیے چلے جائیں  گے،جیسےفرمایا

وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۝۲۰ۙوَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ۝۲۱ۭ [38]

ترجمہ:وہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذپھل پیش کریں  گے کہ جسے چاہیں  چن لیں اورپرندوں  کے گوشت پیش کریں  گے کہ جس پرندے کا چاہیں  استعمال کریں ۔

وہ ہنسی خوشی ایک دوسرے سے خاص مقدارمیں  بھرے جام شراب لپک لپک کرلے رہے ہوں  گے ، وہ ایسی نفیس شراب ہوگی جو نہ بدذائقہ ہوگی اورنہ بدبودار،اس شراب کوپینے سے سروروکیف توحاصل ہوگامگراس میں  یہ تاثیرنہیں  ہوگی کہ اس کوپی کرکوئی بہک جائے اورنہ یہ اتنا مدحوش کرے گی کہ حواس معطل ہوجائیں  ، جیسےفرمایا

لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙ [39]

ترجمہ:جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان کی عقل میں  فتور آئے گا۔

یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍؚ۝۴۵ۙبَیْضَاۗءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۴۶ۚۖلَا فِیْهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا یُنْزَفُوْنَ۝۴۷ [40]

ترجمہ:شراب کے چشموں  سے ساغربھربھرکران کے درمیان پھرائے جائیں  گے ، چمکتی ہوئی شراب جوپینے والوں  کے لیے لذت ہوگی نہ ان کے جسم کواس سے کوئی ضررہوگااورنہ ان کی عقل اس سے خراب ہو گی ۔

اوران کی خدمت میں  ہمیشہ نوعمررہنے والے لڑکے دوڑتے پھررہے ہوں  گے جوانہی کی خدمت کے لئے مخصوص ہوں  گے ،جیسے فرمایا

یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙبِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۝۱۸ۙ [41]

ترجمہ:ان کی مجلسوں  میں  ابدی لڑکے شراب چشمہ جاری سے لبریزپیالے اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں  گے ۔

جوحسن وجمال اورصفائی ورعنائی میں ایسے ہوں  گے جیسے چھپاکررکھے ہوئے موتی تاکہ ہاتھ لگنے سے اس کی چمک دمک ماندنہ پڑ جائے۔

‏ وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِی أَهْلِنَا مُشْفِقِینَ ‎﴿٢٦﴾وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِی أَهْلِنَا مُشْفِقِینَ ‎﴿٢٦﴾‏ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ‎﴿٢٧﴾ إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِیمُ ‎﴿٢٨﴾‏ (الطور)
اور آپس میں  ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں  گے، کہیں  گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں  کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا، اور ہمیں  تیز و تند گرم ہواؤں  کے عذاب سے بچا لیا، ہم اس سے پہلے ہی اس کی عبادت کیا کرتے تھے، بیشک وہ محسن اور مہربان ہے۔

اسی دوران یہ لوگ آپس میں  ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر دنیامیں  گزرے ہوئے معاملات اوراحوال کے بارے میں  پوچھیں  گے کہ دنیامیں  وہ کن حالات میں  زندگی گزارتے اورایمان وعمل کے تقاضے کس طرح پورے کرتے رہے،یہ کہیں  گے کہ ہم اپنے اہل وعیال میں  غفلت میں  زندگی نہیں  گزارتے تھے بلکہ ہمیں  ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھاکہ اپنے بیوی بچوں  کی محبت میں  ہم سے کوئی ایسافعل سرزدنہ ہوجائے جس سے ہم اپنی عاقبت خراب کربیٹھیں  ، آخرکاراللہ نے ہدایت اورتوفیق کے ساتھ ہم پراحسان فرمایا اور ہمیں  تیز و تند جھلسادینے والی ہواکے عذاب سے بچالیا،دنیامیں ہم اسی وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے تھے اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں  گردانتے تھے ،مختلف عبادات میں  اسی کاتقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے ،اپنی مشکلات ومصائب میں اسی سے دعائیں  مانگتے تھے ، اوراسی سے اپنی بخشش ومغفرت ، نعمتوں  بھری جنت میں  داخلہ اور عذاب سموم سے بچنے کی دعائیں  کرتے رہتے تھے ،اور اپنے اعمال پراترانے کے بجائے اللہ رب العزت کے احسانوں  کویادرکھیں  گے اور کہیں  گے اس نے ہماری دعائیں  قبول فرمائیں  ہمیں  جنت سے بہرہ ورکیااور عذاب جہنم سے بچالیا،بیشک وہ واقعی بڑاہی محسن اوررحیم ہے۔

 فَذَكِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ ‎﴿٢٩﴾‏الطور)
تو آپ سمجھاتے رہیں  کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ تو کاہن ہیں  نہ دیوانہ۔

آخرت کاایک ہلکاسانقشہ پیش کرنے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دیتے ہوئے فرمایا!یہ سرداران قریش،یہ جاہل مذہبی پیشوااوراوباش لوگ عوام کی توجہ ہٹانے ،ان کو بدگمان کرنے اورفریب دینے کے لئے آپ کوکبھی کاہن(جوتشی،غیب گو ) کبھی مجنون(فاترالعقل ،دیوانہ) کبھی شاعراورکبھی خودقرآن تصنیف کرنے کاالزام لگاتے ہیں ،آپ ان الزامات ،ایذارسانی اورتکذیب کی کچھ پرواہ نہ کریں  اور اللہ کے بندوں  کوغفلت سے چونکانے اورحقیقت سے خبردارکرنے کے لئے وعظ وتبلیغ اورنصیحت کیے جائیں  ، کیونکہ اللہ کے لطف وکرم سے نہ آپ کاہن ہیں  اورنہ ہی فاترالعقل ،بلکہ آپ اللہ کی طرف سے منصب رسالت پرفائزہیں  اور ہماری طرف سے آپ کو باقاعدہ وحی کی جاتی ہے جوکاہن پرنہیں  کی جاتی،اورجوکلام آپ لوگوں  کوسناتے ہیں  وہ دانش وبصیرت کاآئینہ دارہوتاہے،اگرانہیں  شک ہے توہمارایہ چیلنج ہے کہ اس کے مقابل اورکلام لاکر دکھا دیں  ۔

‏ أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَیْبَ الْمَنُونِ ‎﴿٣٠﴾‏ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّی مَعَكُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِینَ ‎﴿٣١﴾أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُم بِهَٰذَا ۚ أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ (الطور30تا32)
کیا کافر یوں  کہتے ہیں  کہ یہ شاعر ہے، ہم اس پر زمانے کے حوادث (یعنی موت) کا انتظار کر رہے ہیں ، کہہ دیجئے ! تم منتظر رہو میں  بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں  میں  ہوں ، کیا ان کی عقلیں  انہیں  یہی سکھاتی ہیں  یا یہ لوگ ہی سرکش ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ قُرَیْشًا لَمَّا اجْتَمَعُوا فِی دَارِ النَّدْوَةِ فِی أَمْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: احْتَبِسُوهُ فِی وِثَاقٍ، ثُمَّ تَرَبَّصُوا بِهِ رَیْبَ الْمَنُونِ حَتَّى یَهْلَكَ، كَمَا هَلَكَ مَنْ هَلَكَ قَبْلَهُ مِنَ الشُّعَرَاءِ: زُهَیْرٌ وَالنَّابِغَةٌ، إِنَّمَا هُوَ كَأَحَدِهِمْ، فَأَنْزَلَ اللهُ فِی ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمْ: أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ رَیْبَ الْمَنُونِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےآخردارالندوہ میں  سرداران قریش کااجلاس منعقدہواجس میں  مشورہ کیاگیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے شاعروں  کی طرح ایک شاعرہیں  ، اوراس کے پاس جوچیزآتی ہے وہ شاعری ہے ،انہیں  بھی زہیراورنابغہ شاعروں  کی طرح ہلاک ہونے تک قیدکرلیاجائےمگراللہ نے ان کی حسرت ان کے دل میں  ہی دفن کردی اوروہ کچھ بھی نہ کرسکے،اس پریہ آیتیں  ’’کیاکافریوں  کہتے ہیں  کہ یہ شاعرہے ہم اس پرزمانے کے حوادث(یعنی موت)کاانتظارکررہے ہیں ۔‘‘ نازل ہوئیں ۔ [42]

یہ لوگ سراسرضد،ہٹ دھرمی اوربغض وعنادکے جوش میں  محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن مجنون اورشاعرہونے کے بے سروپا الزامات لگاتے ہیں  ، آخربیک وقت کوئی شخص مجنون ،کاہن اورشاعر کیسے ہوسکتاہے،جیسے فرمایا

وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ۝۰ۭ اِنْ هُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ۝۶۹ۙ [43]

ترجمہ: ہم نے اس ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو شعر نہیں  سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے، یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

اورقریش مکہ جوبڑے مشائخ اوربڑے عقلمندبنے پھرتے ہیں  اس انتظارمیں  ہیں  کہ شایدحوادث زمانہ سے حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کوموت آجائے یاہمارے کسی معبودکی مارپڑجائے جن کی یہ بڑے زورشورسے مخالفت کرتاہے یاکوئی شخص اس کی دعوت سن کرآپے سے باہرہوجائے اوراسے قتل کردے اورانہیں  چین وراحت نصیب ہوجائے جو اس کی دعوت توحیدنے ہم سے چھین لیا ہے،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس حماقت آمیزبات کے جواب میں  ان سے کہہ دیں کہ انتظارکروکہ پہلے موت کس کوآتی ہے ؟اورانجام کارغلبہ اور غیرفانی کامیابی کسے حاصل ہوتی ہے اور ہلاکت وبربادی کس کامقدربنتی ہے؟سرداران قریش جو تیرے بارے میں  جواس طرح اناپ شناپ جھوٹ اورغلط سلط باتیں  کرتے رہتے ہیں کیاان کی دانائی ان کویہی سجھاتی ہےکہ باوجودجاننے کے پھربھی تیری نسبت غلط افواہیں  اڑائیں  اوربہتان بازی کریں ،حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑے سرکش اورگمراہ لوگ ہیں  اوریہی سرکشی اورگمراہی انہیں  ان باتوں  پربرنگیختہ کرتی ہے۔

 أَمْ یَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَل لَّا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ فَلْیَأْتُوا بِحَدِیثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِینَ ‎﴿٣٤﴾(الطور33-34)
کیا یہ کہتے ہیں  اس نبی نے (قرآن) خود گھڑ لیا ہے، واقع یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے، اچھا اگر یہ سچے ہیں  تو بھلا اس جیسی ایک (ہی) بات یہ (بھی) تو لے آئیں ۔

اچھااگرسیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم !نے یہ پاکیزہ کلام خودتصنیف کرلیاہے توتم جواپنی زبان دانی کے مقابلے میں  دوسروں  کوکمترجانتے ہو،تم میں  بہترین منجھے ہوئے شاعربھی ہیں توتم جو نہایت فصیح عرب اوربڑے بلیغ لوگ ہوتمام جنوں  سمیت سب مل کر ایساکلام بنالاؤ ،اگرپوراکلام نہیں  بناسکتے تواپنے دعوی کے ثبوت میں اس جیسی دس سورتیں  بناکرلاؤ ،جیسے فرمایا

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۳ [44]

ترجمہ:کیا یہ کہتے ہیں  کہ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں  تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو( تمہارے معبود)ہیں  ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہوتو بلا لو اگر تم( انہیں  معبود سمجھنے میں ) سچے ہو ۔

اچھادس سورتیں  نہیں  بناسکتے توایک آدھ سورت ہی بنا لاؤ ، جونظم ،اعجازوبلاغت ،حسن بیان ،ندرت اسلوب ،اوروسیع ترین موضوع میں  اس کامقابلہ کرسکے تاکہ تمہاری مخالفت کی صداقت ثابت ہو،جیسے فرمایا

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۝۰۠ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۳ [45]

ترجمہ:اگر تمہیں  اس امر میں  شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں  کو بلا لو ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ۔

 اَمْ یَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۳۸ [46]

ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں  کہ پیغمبر نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہواگر تم اپنے اس الزام میں  سچے ہو تو ایک سورۂ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک اللہ کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو ۔

مگریہ ہمارا دعویٰ ہے کہ تم اورتمہارے منجھے ہوئے شاعراورتمام جن وانس مل کر بھی قیامت تک قرآن کی نظیرلانے سے عاجزہی رہیں  گے، اس لئے آخرت کی فکر کرواور قرآن کی صداقت کوتسلیم کرلو،حقیقت یہ ہے کہ یہ اس دعوت حق کوتسلیم نہیں  کرناچاہتے اورراہ فرارحاصل کرنے کے لئے تمہیں  کاہن ، مجنون ، شاعر اور قرآن جیسی جلیل القدرکتاب کوتمہاری تصنیف قراردے کر بے سروپاالزامات لگارہے ہیں ۔

أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا یُوقِنُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَیْطِرُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ یَسْتَمِعُونَ فِیهِ ۖ فَلْیَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِینٍ ‎﴿٣٨﴾‏ أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ‎﴿٤٠﴾‏ أَمْ عِندَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُونَ ‎﴿٤١﴾‏ أَمْ یُرِیدُونَ كَیْدًا ۖ فَالَّذِینَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِیدُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ أَمْ لَهُمْ إِلَٰهٌ غَیْرُ اللَّهِ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا یُشْرِكُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ وَإِن یَرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا یَقُولُوا سَحَابٌ مَّرْكُومٌ ‎﴿٤٤﴾‏ (الطور35تا44)
’’کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں  ؟ یا خود پیدا کرنے والے ہیں ، کیا انہوں  نے ہی آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے، بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ،یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں  یا (ان خزانوں  کے) یہ دروغہ ہیں ؟ یا کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر سنتے ہیں  ؟ (اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا کوئی روشن دلیل پیش کرے، کیا اللہ کے تو سب لڑکیاں  ہیں  اور تمہارے ہاں  لڑکے ہیں  ؟ کیا تو ان سے کوئی اجرت طلب کرتا ہے کہ یہ اس کے تاوان سے بو جھل ہو رہے ہیں ، کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں  ؟ کیا یہ لوگ کوئی فریب کرنا چاہتے ہیں  تو یقین کرلیں  کہ فریب خوردہ کافر ہی ہیں ، کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے ؟ (ہرگز نہیں ) اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے ، اگر یہ لوگ آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتا ہوا دیکھ لیں  تب بھی کہہ دیں  کہ یہ تہ بتہہ بادل ہے۔

توحیدربوبیت اورتوحیدالوہیت کی دعوت پر مشتمل ان آیات میں  مشرکین مکہ کے سامنے یہ سوال رکھاگیاکہ جودعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کررہے ہیں  آخراس میں  وہ کیابات ہے جس پرتم لوگ اس قدربگڑرہے ہو،ان چبھتے ہوئے سوالات نے مشرکین کی چولیں  ہلاکررکھ دیں ۔

xکیاتمہاراکوئی خالق نہیں  جس نے تم کوتخلیق کیاہویایہ کہ تم کسی ایجاداورموجدکے بغیروجودمیں  آئے ہیں اگرایساہے توپھرکسی کویہ حق نہیں  ہے کہ انہیں  کسی بات کاحکم دے یاکسی بات سے منع کرےمگریہ بات عین محال ہے بغیرموجدکے کوئی چیزوجودمیں  نہیں  آتی،جب ایسانہیں  ہے بلکہ انہیں  ایک پیداکرنے والے نے پیداکیاہے توظاہرہے انہیں  پیدا کرنے کاایک خاص مقصدہے اورپیداکرنے والاپیداکرکے یوں  ہی کس طرح چھوڑدے گا۔

xیاتم نے خوداپنے آپ کوتخلیق کرلیاہے ،یہ بھی عین محال ہے کیونکہ اس بات کاتصورنہیں  کیاجاسکتاکہ کوئی اپنے آپ کوبذات خودوجودبخشے،اس کے علاوہ یہ اللہ کے خالق ہونے کااعتراف کرتے ہیں جب یہ دونوں  باتیں  باطل ثابت ہوگئیں  تویہ بات متعین ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہی سب مخلوقات کی تخلیق فرمائی ہے،اوروہ اکیلاہی معبودہے جس کے سواکسی اورہستی کی عبادت مناسب ہے نہ درست۔

xاورکیاتم لوگوں  نے ساتوں  آسمانوں  اورزمین کی تخلیق کی ہے اوراس کانظام قائم کیاہے؟یہ بھی عین محال ہے کسی بھی مخلوق میں  یہ قدرت نہیں  کہ کائنات کی تخلیق کرسکے،اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں  اوراللہ کے وعدوں  اوروعیدوں  کے بارے میں  شک وشبہ میں  مبتلاہیں ۔

xکیاان جھٹلانے والوں  کے پاس تیرے رب کی رحمت کے خزانے ہیں  کہ جسے چاہیں  عطاکریں  اورجسے چاہیں  محروم کردیں ؟اس لئے انہوں  نے اللہ تعالیٰ کواپنے بندے اوررسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت سے سرفرازکرنے سے روک دیاہے گویاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے ان کے سپردکردیئے گئے ہیں حالانکہ وہ اس سے حقیراورذلیل ترہیں  کہ یہ کام ان کے سپردکیاجائے،ان کے ہاتھ میں  توخوداپنی ذات کے لئے نفع ونقصان،زندگی اورموت اورمرنے کے بعدزندہ ہونانہیں  ہے،جیسے فرمایا

اَهُمْ یَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ۝۰ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۔۔۔ ۝۳۲ [47]

ترجمہ:کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں  ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں ۔

xیاوہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اوراس کے اقتدارپرقہراورغلبہ سے مسلط ہیں ؟مگرمعاملہ ایسانہیں  ہے بلکہ وہ توعاجزاورمحتاج ہیں ۔

xاورکیاان کے پاس غیب کاعلم ہے اوروہ ملااعلیٰ کی باتیں  سنتے ہیں  اورایسے امورکے بارے میں  خبریں  دیتے ہیں  جنہیں  ان کے سواکوئی نہیں  جانتا،اگریہ ملااعلیٰ کی باتیں  سننے

کے دعوے دارہیں  توکوئی صریح دلیل لائیں ۔

xاس سے زیادہ مضحکہ انگیزعقیدہ اورکیاہوسکتاہے کہ تم اللہ رب العالمین کے لئے اولادتجویزکرتے ہواوراولادبھی وہ جسے تم اپنے حق میں  باعث ننگ وعارسمجھتے ہیں  (یعنی بیٹیاں ) اوراپنے لئے بیٹے ہی بیٹے؟کیسی بے ڈھنگی تقسیم کرتے ہیں ۔

xاوراے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !جس طرح عام مذہب کے ٹھیکیدار اپنی دوکانداریاں  چمکانے کے لئے اجرت طلب کرتے ہیں  کیاآپ ان سے اس تبلیغ رسالت پرکوئی اجرمانگتے ہیں کہ وہ اس کی ادائیگی سے بوجھل ہورہے ہیں ؟حالانکہ معاملہ ایسانہیں  ہے آپ توان کوکسی معاوضے کے بغیرعلم سکھلانے کے خواہش مندہیں ،اورمال حاصل کرنے کے بجائے ان پرزیادہ سے زیادہ مال خرچ کرتے ہیں  تاکہ ان کے دلوں  میں  علم وایمان جاگزیں  ہوجائے۔

xاورکیاغیب سے انہیں  معلوم ہوتاہے اوریہ اسے لکھ لیتے ہیں  کہ اللہ ایک نہیں  ہے بلکہ وہ سب بھی الٰہی صفات واختیارات رکھتے ہیں  جنہیں  تم نے معبود بنا رکھاہے ،کیاتم لوگوں  نے فرشتوں  کودیکھاہے کہ وہ لڑکیاں  ہیں  اورنعوذباللہ اللہ کے ہاں  پیداہوئی ہیں ،کیاواقعی تمہیں  علم ہے کہ قیامت برپا نہیں  ہو گی اورمرنے کے بعدکوئی دوسری زندگی نہیں جس میں  تمہارامحاسبہ ہواورجزاوسزادی جائے،اوراگرقیامت قائم ہوگئی توتمہاراانجام کیاہوگا ۔

xکیایہ لوگ آپ اورآپکی لائی ہوئی کتاب میں  جرح وقدح کرکے کوئی سازش کرناچاہتے ہیں ،جس کے ذریعے سے وہ آپ کے دین اورآپ کے کام کوفاسدکرناچاہتے ہیں  تو ان کوجان لیناچاہیے ان کی سازشیں  ان کے سینوں  ہی میں  رہیں  گی اوراس کیدومکر کاسارانقصان انہی کی طرف لوٹے گا۔

xیااللہ کے سواان کاکوئی معبودہے جسے پکاراجائے ،اس سے کسی نفع کی امیدرکھی جائے اوراس کے ضررسے ڈراجائے،اللہ پاک ہے ان سے جن کووہ شریک ٹھہراتے ہیں ،اقتدارمیں  اس کاکوئی شریک ہے نہ واحدنیت اورعبودیت میں ۔

xمشرکین نے حق کے مقابلے میں  سرکشی کرتے ہوئے باطل پرنہایت سختی سے جم گئے ہیں ،اگرحق کے اثبات کے لئے ہرقسم کی دلیل قائم کردی جائے توپھربھی وہ اس کی اتباع نہیں  کریں  گے بلکہ اس کی مخالفت کرتے رہیں  گے اوراس سے بغض وعنادرکھیں  گے یعنی اگروہ بہت بڑی نشانیوں  میں  سے آسمان کاٹکڑاعذاب بن کرگرتادیکھیں  توضد، ڈھٹائی اورہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس کی تاویل کرکے کسی نہ کسی طرح اپنے کفرپرجمے رہنے کابہانہ ڈھونڈنکالیں  گے اور کہیں  گے یہ توتہہ بہ تہہ گہرابادل ہے جو امنڈا چلا آرہاہے ،جیسے فرمایا

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ۝۱۴ۙلَقَالُوْٓا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ۝۱۵ۧ [48]

ترجمہ:اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دہاڑے اس میں  چڑھنے بھی لگتے تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں  کو دھوکا ہو رہا ہےبلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔

یعنی معجزات جویہ طلب کررہے ہیں ان کی چاہت کے مطابق ہی دکھادیئے جائیں  بلکہ خودانہیں  آسمانوں  پرچڑھادیاجائے تب بھی یہ کوئی بات بناکرٹال دیں  گے اورایمان نہ لائیں  گے۔

 فَذَرْهُمْ حَتَّىٰ یُلَاقُوا یَوْمَهُمُ الَّذِی فِیهِ یُصْعَقُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ یَوْمَ لَا یُغْنِی عَنْهُمْ كَیْدُهُمْ شَیْئًا وَلَا هُمْ یُنصَرُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَإِنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَٰلِكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٤٧﴾‏(الطور)
تو انہیں  چھوڑ دے یہاں  تک کہ انہیں  اس دن سے سابقہ پڑے جس میں  یہ بےہوش کردیئے جائیں  گے، جس دن انہیں  ان کا مکر کچھ کام نہ دے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں  گے، بیشک ظالموں  کے لیے اس کے علاوہ اور عذاب بھی ہیں ، لیکن ان لوگوں  میں  سے اکثر بےعلم ہیں ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ انہیں  ان کے حال پرچھوڑدیں  ،روزقیامت انہیں  خودمعلوم ہوجائیگاکہ کیاسچ تھااورکیاجھوٹ،اس دن ان کی تمام فریب کاریاں ، مکاریاں ، چالبازیاں  ، چالاکیاں دھری کی دھری رہ جائیں  گی،ان کی سازشوں  کاتاروپودبکھرجائے گا،ان کی دوڑدھوپ رائیگاں  جائے گی اوریہ اللہ کے عذاب سے نہ بچ پائیں  گے ، آج جن ہستیوں  کویہ اپنامددگارجانتے ہیں  اورمددکے لئے پکارتے ہیں  اس دن سب کے سب منہ تکیں  گے اورکوئی ان کی سفارش کرنے اورمددکرنے والانہ ہوگا ،اوران لوگوں  کے لئے اللہ کاعذاب صرف قیامت کے دن ہی نہیں  ہوگا بلکہ دنیامیں  بھی وقتاًفوقتا ً تنبیہ کے لئے شخصی اورقومی مصیبتیں  نازل کرکے عذاب کامزہ چکھاتے رہیں گے تاکہ یہ اپنی باغیانہ روش سے بازآکر رجوع کریں ،جیسے فرمایا

وَلَنُذِیْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۲۱ [49]

ترجمہ:اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیامیں  (کسی نہ کسی چھوٹے)عذاب کامزاانہیں  چکھاتے رہیں  گے،شایدکہ یہ(اپنی باغیانہ روش سے) باز آ جائیں ۔

مگران میں  سے اکثرلاعلم ہیں  اورنہیں  جانتے کہ اللہ کی نافرمانیاں  رنگ لائیں  گی ،اس لئے تائب نہیں  ہوتے اور گناہ پرگناہ کیے جاتے ہیں ،

عَنْ عَامِرٍ الرَّامِ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَصَابَهُ السَّقَمُ، ثُمَّ أَعْفَاهُ اللهُ مِنْهُ، كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ، وَمَوْعِظَةً لَهُ فِیمَا یَسْتَقْبِلُ ، وَإِنَّ الْمُنَافِقَ إِذَا مَرِضَ ثُمَّ أُعْفِیَ كَانَ كَالْبَعِیرِ، عَقَلَهُ أَهْلُهُ، ثُمَّ أَرْسَلُوهُ فَلَمْ یَدْرِ لِمَ عَقَلُوهُ، وَلَمْ یَدْرِ لِمَ أَرْسَلُوهُ

عامررام رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کو جب کوئی بیماری آتی ہے اورپھراللہ اسے عافیت اورشفادے دیتاہے تووہ اس کے سابقہ گناہوں  کاکفارہ بن جاتی ہے اورآئندہ کے لئے نصیحت کاسبب ہوتی ہے،اورجب منافق بیمارہوکرصحت مندہوجاتاہے تواس کی مثال اونٹ کی سی ہے ، وہ نہیں  جانتاکہ اسے کیوں  رسیوں  سے باندھا گیا اور کیوں  کھلاچھوڑدیاگیا۔ [50]

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْیُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِینَ تَقُومُ ‎﴿٤٨﴾‏ وَمِنَ اللَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ‎﴿٤٩﴾‏(الطور)
تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں  صبر سے کام لے، بیشک تو ہماری آنکھوں  کے سامنے ہے، صبح کو جب تو اٹھے اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کر، اور رات کو بھی اس کی تسبیح پڑھ، اور ستاروں  کے ڈوبتے وقت بھی۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کفارومشرکین کے بے سروپاالزامات پرکان نہ دھریں  اورصبرواستقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پرڈٹے رہیں ،ہم نے آپ کواپنے حال پرنہیں  چھوڑ دیابلکہ ہم دشمنوں  سے آپ کی نگرانی کررہے، اورجب کسی مجلس سے اٹھیں  تورب کی حمدوتسبیح بیان کریں ،

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: بِأَخَرَةٍ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ مِنَ الْمَجْلِسِ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیْكَ فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَتَقُولُ قَوْلًا مَا كُنْتَ تَقُولُهُ فِیمَا مَضَى، فَقَالَ:كَفَّارَةٌ لِمَا یَكُونُ فِی الْمَجْلِسِ

چنانچہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنےآخری ایام میں جب کسی مجلس سے اٹھتے تویہ کلمات فرماتے تھے اے اللہ!میں  تیری حمدکے ساتھ تسبیح کرتا ہوں  ، میں  (دل وجاں  سے)گواہی دیتا ہوں  کہ تیرے سواکوئی معبودنہیں ،میں  تجھ سے (اپنے صغیرہ و کبیرہ گناہوں  کی)مغفرت چاہتاہوں  اورتیرے حضورتوبہ کرتا ہوں ،ایک آدمی نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ یہ کلمات کہتے ہیں  جوپہلے نہیں  کہاکرتے تھے(اس کی کیاوجہ ہے؟)آپ نے فرمایااس دعاسے مجلس میں  جوباتیں  ہوتیں  ہیں  ان تمام کاکفارہ ہوجاتاہے۔ [51]

یاجب نیندسے بیدارہو کر بستر سے اٹھیں  تورب کی حمدوتسبیح بیان کیاکریں ،

حَدَّثَنِی عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّیْلِ، فَقَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی، أَوْ دَعَا، اسْتُجِیبَ لَهُ، فَإِنْ تَوَضَّأَ وَصَلَّى قُبِلَتْ صَلاَتُهُ

چنانچہ عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص رات کوبیدارہوکریہ دعاپڑھے اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  وہ اکیلاہے ،اس کاکوئی شریک نہیں ،ملک اسی کے لئے ہے اورتمام تعریفیں  بھی اسی کے لئے ہیں  اوروہ ہرچیزپرقادرہے،تمام تعریفیں  اللہ ہی کے لئے ہیں ،اوراللہ کی ذات پاک ہے،اور اللہ کے سواکوئی معبودنہیں  اور اللہ سب سے بڑاہے، اللہ کی مددکے بغیرنہ کسی کوگناہوں  سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی ہمت ،پھریہ پڑھے اے اللہ میری مغفرت فرمایا(یہ کہاکہ)کوئی دعا کرے تو اسکی دعاقبول ہوتی ہے،پھراگراس نےوضو کیا (اور نماز پڑھی)تونمازبھی مقبول ہوتی ہے۔ [52]

یاجب نمازکے لئے کھڑے ہوں  تواللہ کی حمدوتسبیح سے اس کاآغازکیاکریں ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ كَبَّرَ، ثُمَّ یَقُولُ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَیْرَكَ، ثُمَّ یَقُولُ:لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ یَقُولُ:اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِیرًا ثَلَاثًا،أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ هَمْزِهِ، وَنَفْخِهِ، وَنَفْثِهِ

چنانچہ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کوقیام فرماتے تو اللہ اکبرکہتے پھریوں  کہتےاے اللہ !توپاک ہے ، تمام تعریفوں  کامستحق ہے،تیرانام برکتوں  والاہے،تیری بزرگی بہت بلندوبالاہے، تیرے سوامعبودبرحق کوئی اورنہیں  ،پھرتین بارکہتے لاالٰہ الااللہ(اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ) کہتے،پھرتین بارکہتے اللہ اکبرکبیرا(اللہ سب سے بڑااوربہت بڑاہے) میں  اللہ سننےوالے،جاننے والے کی پناہ چاہتاہوں  کہ شیطان مردودمجھ پرکوئی جنون کااثرڈالے یامجھے تکبرپرآمادہ کرے یاغلط شعروشاعری کی طرف لے آئے،اس کے بعدآپ قرائت فرماتے۔ [53]

یاجب دعوت حق دینے کے لئے کھڑے ہوں  تواللہ کی حمدوتسبیح سے اس کاآغازکریں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامستقل معمول تھاکہ اپنی خطبوں  کاآغازہمیشہ اللہ کی حمدوتسبیح سے فرمایاکرتے تھے ، اورمغرب وعشااورقیام اللیل (تہجد)اورفجرکی نمازوں  میں  اللہ کی حمدوتسبیح (تلاوت قرآن) کیا کریں ،فجرسے مرادفجرکی دوسنتیں  ہیں  ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمْ یَكُنِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَیْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَیِ الفَجْرِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نمازکی فجرکی دورکعتوں  سے زیادہ پابندی نہیں  کرتے تھے۔ [54]

عَنْ عَائِشَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا

ایک روایت میں  عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافجرکی دوسنتیں  دنیاومافیہاسے بہترہیں ۔ [55]

یعنی فجرکی دوسنتوں  کاثواب اس بات سےبہترہے کہ اسے ساری دنیادے دی جائے ،لہذاانہیں  سفرمیں  بھی نہ چھوڑاجائے۔

غزوہ بدرکے بعد قریش کے قیدیوں  کی رہائی کی بات چیت کرنے کے لئے کفارمکہ کی طرف سے جبیربن مطعم مدینہ آئے ،اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کونمازمغرب پڑھاتے ہوئے سورہ طورکی تلاوت فرمارہے تھے ،وہ کہتے ہیں  میں  کان لگائے سن رہاتھا

فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الآیَةَ: {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ أَمْ هُمُ الخَالِقُونَ، أَمْ خَلَقُوا السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بَلْ لاَ یُوقِنُونَ، أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ المُسَیْطِرُونَ} قَالَ: كَادَ قَلْبِی أَنْ یَطِیرَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت ’’ کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہوگئے ہیں  ؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں  ؟ یا زمین اور آسمانوں  کو انہوں  نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں  رکھتے ۔‘‘پرپہنچے تومیری یہ حالت ہوگئی کہ گویامیرادل سینے سے اڑاجارہاہے۔بعدمیں  ان کے مسلمان ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دن یہ آیات سن کراسلام ان کے دل میں  جڑ پکڑ چکا تھا۔ [56]

مُعَیْقِیْبُ بنُ أَبِی فَاطِمَةَ الدَّوْسِیُّ کاقبول اسلام:

مکہ مکرمہ میں  کچھ ایسے غریب الدیارلوگ بھی تھے جوکسی مجبوری یاضرورت(غلامی یاتلاش روزگار)کے باعث مکہ مکرمہ میں  آبسے تھے،معیقیب بن ابی فاطمہ الدوسی بھی انہیں  لوگوں  میں  تھے وہ تلاش روزگارکے سلسلہ میں  مکہ مکرمہ آئے اور

مُعَیقیب بْنِ أبی فَاطِمَةَ الدَّوسی حلیف بنی عَبْدِ شَمْسٍ

معیقیب بن ابی فاطمہ الدوسی بنی عبدشمس بن عبدمناف کے حلیف بن کررہنے لگے۔ [57]

حِلْفٌ فِی آلِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ

ایک روایت میں  ہے وہ آل عتبہ بن ربیعہ کے حلیف تھے۔ [58]

معیقیب بْن أَبِی فاطمة الدوسی حلیف لآل سَعِید بْن العاص بْن أمیة

ایک روایت میں  ہے معیقیب بن ابی فاطمہ الدوسی قبیلہ دوس سے تعلق رکھتے تھے اورقبیلہ سعیدبن العاص بن امیہ کے حلیف تھے۔ [59]

وَأَسْلَمَ بِمَكَّةَ قَدِیمًا

تمام ارباب سیرکااس بات پرتواتفاق ہے کہ معیقیب رضی اللہ عنہ دعوت توحید(بعثت نبوی)کے بالکل ابتدائی زمانے میں  مشرف بہ اسلام ہوئے۔ [60]

لیکن قبول اسلام کے بعدغزوہ خیبر(اوائل سات ہجری)تک ان کی زندگی کہاں  اورکیسے گزری اس کے بارے میں  اہل سیرمیں  بہت اختلاف ہے،

وَخَرَجَ مُعَیْقِیبٌ مِنْ مَكَّةَ بَعْدَ أَنْ أَسْلَمَ وَبَعْضُهُمْ یَقُولُ رَجَعَ إِلَى بِلادِ قَوْمِهِ

بعض لوگ کہتے ہیں  (اوائل بعثت میں )وہ مکہ میں  اسلام لائے اور پھراپنے وطن واپس چلے گئے۔ [61]

لیکن حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ اورحافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں  مشرف بہ اسلام ہوئے اوردوسری ہجرت حبشہ میں  شریک ہوئے،جمہوراہل سیرنے اسی روایت کوترجیح دی ہے،قبول اسلام کے بعدمعیقیب رضی اللہ عنہ بھی دوسرے اہل حق کی طرح مشرکین مکہ کے ظلم وستم کاہدف بن گئے،

وَهُوَ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْحَبَشَةِ فِی الْهِجْرَةِ الثَّانِیَةِ

موسی بن عقبہ کے مطابق چھ بعدبعثت میں  مظلوم اہل حق کاایک بڑاقافلہ ہجرت کرکے حبش پہنچامعیقیب رضی اللہ عنہ بھی اس قافلے میں  شامل تھے۔ [62]

بعض روایتوں  میں  ہے کہ وہ غزوہ بدرسے پہلے حبش سے واپس آگئے،

وأقام بها حَتَّى قدم عَلَى النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالمدینة

موسی بن عقبہ کہتے ہیں  ہجرت حبشہ کے بعدوہ وہیں  سکونت پذیررہے یہاں  تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ [63]

وقال ابن منده: أَنَّهُ شَهِدَ بَدْراً

ابن مندہ رحمہ اللہ کہتے ہیں  معیقیب رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں  شریک تھے۔ [64]

شهد بدرا

معیقیب رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں  شریک تھے۔ [65]

أَنَّهُ شَهِدَ بَدْراً. وَلاَ یَصِحُّ هَذَا

لیکن علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بات کہ معیقیب رضی اللہ عنہ غزوہ بدرمیں  شریک ہوئے صحیح نہیں  ہے۔ [66]

بعض کہتے ہیں  معیقیب رضی اللہ عنہ غزوہ بدرسے لے کرتبوک تک تمام غزوات میں  سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کاشرف حاصل کیااوربیعت رضوان میں  بھی شریک ہوئے۔

ثُمَّ قَدِمَ مَعَ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ حِینَ قَدِمَ الأَشْعَرِیُّونَ وَرَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ

لیکن ابن ہشام اوربہت سے دوسرے اہل سیرکابیان ہےمعیقیب رضی اللہ عنہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اوردوسرے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ اس وقت حبش سے مدینہ منورہ آئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبرمیں  مصروف تھے۔ [67]

یہ اصحاب سالہاسال کی جدائی کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے اس قدربے تاب تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراجعت کاانتظارنہ کرسکے اورسیدھے خیبرپہنچ کرزیارت سے شادکام ہوئے،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت مسرت سے ان کااستقبال کیااورہرایک سے معانقہ ومصافہ کیااگرچہ خیبراس وقت فتح ہوچکاتھااوران اصحاب کوغزوہ میں  شریک ہونے کاموقع نہیں  ملا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کومال غنیمت سے حصہ عطافرمایا،

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کومراجعت فرمائی تومعیقیب رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ آئے اور یہیں  مستقل اقامت اختیار کرلی،

شهِد خیبر وما بعدها

غزوہ خیبرکے بعدفتح مکہ،غزوہ حنین،غزوہ طائف اورغزوہ تبوک پیش آئے ،معیقیب رضی اللہ عنہ ان سب میں  شریک ہوئے۔ [68]

حجة الوداع میں  بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے

كَانَ خاتَمُ النَّبیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِن حَدِیدٍ، مَلوِیٌّ عَلَیهِ فِضَّةٌ.فَرُبَّما كَانَ فِی یَدِی

مدینہ منورہ میں  معیقیب رضی اللہ عنہ کو جوخاص شرف حاصل ہواوہ یہ تھاکہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مہرمبارک ان کی تحویل وحفاظت میں  دے دی ،یہ مہرمبارک چاندی کی انگشتری کی صورت میں  تھی اس میں  حبشی نگینہ تھاجس پر محمدرسول اللہ کے الفاظ کندہ تھے ،سیدکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکاتیب وفرامین پرثبت کرنے کے لیے بنوایاتھااسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ہاتھ کی انگشت مبارک میں  پہنتے تھے لیکن اکثریہ معیقیب رضی اللہ عنہ کی تحویل میں  رہتی تھی۔ [69]

حكم الألبانی: ضعیف

قَالَ:كَانَ خَاتَمُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَدِیدٍ مَلْوِیٍّ عَلَیْهِ فِضَّةٌ، وَهُوَ الَّذِی سَقَطَ مِنْ مُعَیْقِیبٍ۔ [70]

 وكَانَ المُعَیقِیبُ عَلى خاتَمِ النَّبیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس طرح وہ خاتم برداررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہورہوگئے تھے۔ [71]

یہ ایک منفرداوربہت بڑااعزازتھااوراس حقیقت کامظہرتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ ایک امین اورنہایت ذمہ دارآدمی تھے،اسی بناپرتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیقیب رضی اللہ عنہ کی بے حدتعظیم وتکریم کرتے تھے

واستعمله أَبُو بَكْر وعمر عَلَى بیت المال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدخلیفة الرسول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق اورامیرالمومنین سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے معیقیب رضی اللہ عنہ کااعزازواکرام برقراررکھااور انہیں  بیت المال پرنگران مقررکیا۔ [72]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ معیقیب رضی اللہ عنہ کانہایت احترام اورلحاظ کرتے تھے

وولاه عمر بْن الْخطاب على بَیت المَال

انہوں  نے اپنے عہدخلافت میں  بیت المال قائم کیاتومعیقیب رضی اللہ عنہ کوبیت المال کانگران مقررفرمایا۔ [73]

واستعمله عمر بْن الخطاب خازنا عَلَى بیت المال

اورامیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں  بیت المال پرنگران مقررفرمایا۔ [74]

علامہ شبلی نعمانی الفاروق میں  رقمطرازہیں ۔

(امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے)عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ارقم کوجونہایت معززصحابی تھے اورلکھنے پڑھنے میں  کمال رکھتے تھے خزانہ کاافسرمقررکیااس کے ساتھ لائق لوگ ان کے ماتحت مقرر کیے گئے جن میں  عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عبیدالقاری بھی تھے ،معیقیب رضی اللہ عنہ کویہ شرف حاصل تھاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگشتری بردارتھے اوراس کی وجہ سے ان کی دیانت اورامانت ہرطرح پرقطعی اورمسلم الثبوت تھی ۔

بعض روایتوں  میں  ہے کہ امیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے معیقیب رضی اللہ عنہ کوزید رضی اللہ عنہ بن ثابت کامددگاربھی مقررفرمایاجوعہدہ کتابت پرفائزتھے ،معیقیب رضی اللہ عنہ افسرخزانہ اورافسرکتابت دونوں  نیابت کافرض انجام دیتے تھے ۔

امیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کومعیقیب رضی اللہ عنہ سے بے انتہامحبت تھے ،ابن سعدکابیان ہے ،

عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ قَالَ:أَمَّرَنِی یَحْیَى بْنُ الْحَكَمِ عَلَى جُرَشٍ ، فَقَدِمْتُهَا فحدثونی أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم قال: لِصَاحِبِ هَذَا الْوَجَعِ الْجُذَامِ اتَّقُوهُ كَمَا یُتَّقَى السَّبْعُ ، إِذَا هَبَطَ وَادِیًا فَاهْبِطُوا غَیْرَهُ، فَقُلْتُ لَهُمْ: وَاللهِ لَئِنْ كَانَ ابْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَكُمْ هَذَا مَا كَذَبَكُمْ، فَلَمَّا عَزَلَنِی عَنْ جُرَشٍ قَدِمْتُ الْمَدِینَةَ فَلَقِیتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ جَعْفَرٍ فَقُلْتُ: یَا أَبَا جَعْفَرٍ مَا حَدِیثٌ حَدَّثَنِی بِهِ عَنْكَ أَهْلُ جُرَشٍ؟

محمودبن لبیدسے مروی ہےمجھے یحییٰ بن الحکیم نے جرش کاامیربنایامیں  وہاں  گیاتولوگوں  نے بیان کیاکہ عبداللہ بن جعفرنے ان لوگوں  سے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض جذام والے کے لیے فرمایاکہ اس سے اس طرح بچوجس طرح درندے سے بچاجاتاہے، جب وہ کسی وادی میں  اترے توتم لوگ دوسری وادی میں  اترو، میں  نے کہاکہ واللہ!اگرابن جعفرنے تم لوگوں  سے یہ بیان کیاہے توغلط نہیں  کہا، جب مجھے جرش سے معذول کردیاگیااورمیں  مدینہ منورہ آگیاتوعبداللہ ابن جعفرسے ملا،میں  نے پوچھااے ابوجعفر!وہ حدیث کیاہے جواہل جرش نے مجھ سے تمہاری طرف منسوب کی ہے؟

قَالَ فَقَالَ: كَذَبُوا وَاللهِ مَا حَدَّثَتْهُمْ هَذَا وَلَقَدْ رَأَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یُؤْتَى بِالإِنَاءِ فِیهِ الْمَاءُ فَیُعْطِیهِ مُعَیْقِیبًا وَكَانَ رَجُلا قَدْ أَسْرَعَ فِیهِ ذَلِكَ الْوَجَعُ فَیَشْرَبُ مِنْهُ ثُمَّ یَتَنَاوَلُهُ عُمَرُ مِنْ یَدِهِ فَیَضَعُ فَمَهُ مَوْضِعَ فَمِهِ حَتَّى یَشْرَبَ مِنْهُ ، قَالَ: وَكَانَ یَطْلُبُ لَهُ الطِّبَّ مِنْ كُلِّ مَنْ سَمِعَ لَهُ بِطِبٍ حَتَّى قَدِمَ عَلَیْهِ رَجُلانِ مِنْ أَهْلِ الْیَمَنِ فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمَا مِنْ طِبٍّ لِهَذَا الرَّجُلِ الصَّالِحِ؟

انہوں  نے کہاواللہ!ان لوگوں  نے غلط کہامیں  نے ان سے یہ حدیث بیان نہیں  کی،میں  نے امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کودیکھاہے کہ ان کے پاس پانی سے بھرابرتن لایاجاتاتھاوہ اسے معیقیب رضی اللہ عنہ کودیتے تھے،اورمعیقیب رضی اللہ عنہ ایسے شخص تھے کہ ان میں  یہ مرض تیزی سے بڑھ رہاتھاوہ اس برتن سے پیتے تھے پھرسیدناعمر رضی اللہ عنہ ان کے ہاتھ سے وہ برتن لے لیتے اوراپنامنہ ان کے منہ کے مقام پررکھ کرپیتے تھے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ جس کے پاس اس مرض کاعلاج سنتے اس سے ان کاعلاج کراتے تھےیہاں  تک کہ یمن سے دوآدمی آئے توان سے پوچھاکیاتمہارے پاس اس نیک شخص کے مرض کاکوئی علاج ہے؟

فَإِنَّ هَذَا الْوَجَعَ قَدْ أَسْرَعَ فِیهِ، فَقَالا: أَمَّا شَیْءٌ یُذْهِبُهُ فَإِنَّا لا نَقْدِرُ عَلَیْهِ وَلَكِنَّا سَنُدَاوِیهِ دَوَاءً یَقِفُهُ فَلا یَزِیدُ، قَالَ عُمَرُ: عَاقِبَةٌ عَظِیمَةٌ أَنْ یَقِفَ فَلا یَزِیدُ ، فَقَالا لَهُ: هَلْ تُنْبِتُ أَرْضُكَ الْحَنْظَلَ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالا: فَاجْمَعْ لَنَا مِنْهُ، فَأَمَرَ مَنْ جَمَعَ لَهُمَا مِنْهُ مِكْتَلَیْنِ عَظِیمَیْنِ، فَعَمَدَا إِلَى كُلِّ حَنْظَلَةٍ فَشَقَاهَا بِثِنْتَیْنِ ثُمَّ أَضْجَعَا مُعَیْقِیبًا ثُمَّ أَخَذَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمَا بِإِحْدَى قَدَمَیْهِ ثُمَّ جُعْلا یُدَلِّكَانِ بُطُونَ قَدَمَیْهِ بِالْحَنْظَلَةِ، حَتَّى إِذَا امَّحَقَتَ أَخْذًا أُخْرَى

یہ مرض ان میں  تیزی سے بڑھ رہاہے،انہوں  نے کہاہم اس پرتوقادرنہیں  ہیں  کہ اس مرض کوختم کردیں  البتہ ہم ایسی دواکرسکتے ہیں  جواس مرض کوبڑھنے سے روک دے اور مزیدنہ بڑھے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایایہی علاج بھی بہت ہے کہ مرض مزیدنہ بڑھے اوروہیں  رک جائے،ان دونوں  نے پوچھاکیااس سرزمین پرخنظل بھی پیدا ہوتا ہے ؟ انہوں  نے کہاہاں ، انہوں  نے کہااس میں  سے کچھ ہمارے لیے جمع کریں ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے حنظل کے دوبڑے ٹوکرے جمع کرنے کاحکم فرمایا، دونوں  نے ہرحنظل کے دوٹکڑے کیے، پھرمعیقیب رضی اللہ عنہ کولٹایااورہرایک نے ان کاایک ایک پاؤ ں  پکڑلیااورحنظل کوان کے پاؤ ں  کے تلوے میں  ملنے لگے، جب وہ ٹکڑاگھس جاتاتودوسراٹکڑالے کرتلوے پرملنے لگتےتھے،

حَتَّى رَأَیْنَا مَعَیْقِیبًا یَتَنَخَّمُ أَخْضَرَ مُرَّاءً ثُمَّ أَرْسَلاهُ، فَقَالا لِعُمَرَ: لا یَزِیدُ وَجَعُهُ بعد هذا أبدا،قال فو الله مَا زَالَ مُعَیْقِیبٌ مُتَمَاسِكًا لا یَزِیدُ وَجَعُهُ حتى مات

ہم نے معیقیب رضی اللہ عنہ کودیکھاکہ وہ سبزوتلخ بلغم تھوکتے تھےپھرانہیں  چھوڑدیااورسیدناعمر رضی اللہ عنہ سے کہااس کے بعدان کامرض کبھی نہیں  بڑھے گا، واللہ!معیقیب رضی اللہ عنہ اسی حالت میں  رہے ان کامرض مزیدبڑھتانہ تھایہاں  تک کہ ان کی وفات ہوگئی،

حَدَّثَنِی خَارِجَةُ بْنُ زَیْدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ دَعَاهُمْ لِغَدَائِهِ فهابوا وكان فیهم معیقیب وكان به جُذَامٌ،فَأَكَلَ مُعَیْقِیبٌ مَعَهُمْ،فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: خُذْ مِمَّا یَلِیكَ وَمِنْ شِقِّكَ فَلَوْ كَانَ غَیْرُكَ مَا آكَلَنِی فِی صَحْفَةٍ وَلَكَانَ بَیْنِی وبینه قِیدِ رُمْحٍ

خارجہ بن زیدسے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے ان لوگوں  کواپنے ناشتے کے وقت بلایاتووہ ڈرے،معیقیب رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے، انہیں  جذام تھا،معیقیب رضی اللہ عنہ نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ناشتہ کیا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے معیقیب رضی اللہ عنہ سے کہا جو تمہارے قریب اورتمہارے نزدیک ہے اس میں  سے لوکیونکہ تمہارے سواکوئی اورہوتاتووہ ایک پیالے میں  میرے ساتھ نہ کھاتا،

عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَیْدٍأَنَّ عُمَرَ وُضِعَ لَهُ الْعَشَاءُ مَعَ النَّاسِ یَتَعَشَّوْنَ ، فَخَرَجَ فَقَالَ لِمُعَیْقِیبِ بْنِ أَبِی فَاطِمَةَ الدَّوْسِیِّ. وَكَانَ لَهُ صُحْبَةٌ وَكَانَ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْحَبَشَةِ: ادْنُ فَاجْلِسْ وَایْمُ اللَّهِ لَوْ كَانَ غَیْرُكَ بِهِ الَّذِی بِكَ لَمَا أُجْلِسَ مِنِّی أَدْنَى مِنْ قِیدِ رُمْحٍ.

خارجہ بن زیدسے مروی ہےامیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے لیے رات کاکھانالوگوں  کے ساتھ رکھاگیاجوکھارہے تھے،وہ معیقیب رضی اللہ عنہ بن ابی فاطمہ الدوسی سے نکلے جوان کے دوست تھے اورمہاجرین حبشہ میں  سے تھےاورکہا میرے قریب آؤ اللہ کی قسم !اگرتمہارے سواکوئی اور ہوتا جسے وہی مرض ہوتاجوتمہیں  ہے تووہ مجھ سے نیزہ بھرسے زیادہ قریب نہ بیٹھتا۔ [75]

مَاتَ سنة أَرْبَعِینَ بعد عَلیّ بْن أبی طَالب وَقد قیل إِنَّه مَاتَ فِی خلَافَة عُثْمَان

معیقیب رضی اللہ عنہ چالیس ہجری میں  سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب کی وفات کے بعدفوت ہوئے اوربعض کہتے ہیں  سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے عہدخلافت میں  آخری دورمیں  وفات پائی۔ [76]

ان کی اولاد میں  صرف ایک صاحبزادے محمد رضی اللہ عنہ بن معیقیب رضی اللہ عنہ کاپتہ چلتاہے،

وله عقب

بعض روایتوں  میں  ہے کہ کوئی اولادنہیں  چھوڑی۔ [77]

[1] الطور ۳۵،۳۶

[2] التین۳

[3] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱،صحیح ابن خزیمة ۳۰۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۵۹۹،مسنداحمد۱۷۸۳۳

[4] الانبیاء ۳۲

[5] التکویر۶

[6] الانفطار۳

[7] تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۰۸؍۴۴

[8] القارعة۵

[9] المعارج۹

[10] النمل۸۸

[11] النبا۲۰

[12] المزمل۱۴

[13] طہ۱۰۵

[14] بنی اسرائیل۹۷

[15] الفرقان۳۴

[16] النمل۹۰

[17] القمر۴۸

[18] النمل۹۰

[19] الحاقة۲۴

[20] المرسلات۴۳

[21] الواقعة ۱۵،۱۶

[22] الصافات۴۴

[23] الصافات ۴۸ ، ۴۹

[24] الواقعة۲۲،۲۳

[25] الدخان۵۴

[26] الدھر۲۰

[27] الرعد۲۳،۲۴

[28] المومن۸

[29] تفسیرطبری ۴۶۷؍۲۵،تفسیرالقرطبی ۶۶؍۱۷،الدر المنثور۶۳۲؍۷،فتح القدیرللشوکانی ۱۲۰؍۵

[30] تفسیرابن ابی حاتم۳۳۱۶؍۱۰

[31] مسنداحمد۱۱۳۱

[32] سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ بِرِّ الْوَالِدَیْنِ۳۶۶۰ ،مسنداحمد۱۰۶۱۰، المعجم الاوسط للطبرانی ۵۱۰۸،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۷۴۰

[33] صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ۴۲۲۳،سنن ابوداودکتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَیِّتِ۲۸۸۰،جامع ترمذی ابواب الاحکام بَابٌ فِی الوَقْفِ۱۳۷۶،سنن نسائی کتاب الوصایا باب فَضْلُ الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَیِّتِ۳۶۸۱، مسند احمد۸۸۴۴،السنن الکبری للنسائی ۶۴۴۵،السنن الکبری للبیہقی ۱۲۶۳۵

[34] المدثر۳۸

[35] النجم۳۸

[36] الزمر۷

[37] فاطر۱۸

[38] الواقعة۲۰،۲۱

[39] الواقعة۱۹

[40] الصافات ۴۵تا۴۷

[41] الواقعة۱۷،۱۸

[42] تفسیرطبری۴۳۵؍۷،تفسیرابن کثیر۴۳۶؍۷

[43] یٰسین۶۹

[44] ھود۱۳

[45] البقرة۲۳

[46] یونس۳۸

[47] الزخرف۳۲

[48] الحجر۱۴،۱۵

[49] السجدة۲۱

[50] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْأَمْرَاضِ الْمُكَفِّرَةِ لِلذُّنُوبِ ۳۰۸۹،شرح السنة للبغوی۱۴۴۰

[51] جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ باب مایقول اذاقام من مجلسہ۳۴۳۲ ، سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی كَفَّارَةِ الْمَجْلِسِ۴۸۵۹، مسند احمد ۱۹۷۶۹،مستدرک حاکم۱۹۷۱،سنن الدارمی۲۷۰۰ ،مصنف ابن ابی شیبة ۲۹۳۲۵ ،مسندابی یعلی۷۴۲۶

[52] صحیح بخاری کتاب التھجد بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللیْلِ فَصَلَّى ۱۱۵۴، سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا تَعَارَّ مِنَ اللیْلِ۵۰۶۰،مسند احمد۲۲۶۷۳،صحیح ابن حبان۲۵۹۶، سنن دارمی ۲۷۲۹،السنن الکبری للبیہقی ۴۶۶۷

[53] صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ حُجَّةِ مَنْ قَالَ لَا یُجْهَرُ بِالْبَسْمَلَةِ ۸۹۲،سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابُ مَنْ رَأَى الِاسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ۷۷۵ ،جامع ترمذی کتاب الصلاة بَابُ مَا یَقُولُ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ۲۴۳،سنن نسائی کتاب الافتاح باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الذِّكْرِ بَیْنَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ وَبَیْنَ الْقِرَاءَةِ ۹۰۰،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوات بَابُ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ۸۰۶، مسنداحمد۱۱۴۷۳،صحیح ابن خزیمة۴۶۷

[54] صحیح بخاری کتاب التھجد بَابُ تَعَاهُدِ رَكْعَتَیِ الفَجْرِ وَمَنْ سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا۱۱۶۹

[55] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَیْ سُنَّةِ الْفَجْرِ، وَالْحَثِّ عَلَیْهِمَا وَتَخْفِیفِهِمَا، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا، وَبَیَانِ مَا یُسْتَحَبُّ أَنْ یُقْرَأَ فِیهِمَا۱۶۸۸، جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی رَكْعَتَیِ الفَجْرِ مِنَ الفَضْلِ ۴۱۶،سنن نسائی کتاب قیام اللیل باب الْمُحَافَظَةُ عَلَى الرَّكْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ ۱۷۶۰

[56] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ فِدَاءِ المُشْرِكِینَ۳۰۵۰، وکتاب التفسیرسورہ والطور۴۸۵۴ ،صحیح مسلم کتاب الصلاة باب القراء ة فی المغرب ۱۰۳۵،سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ قَدْرِ الْقِرَاءَةِ فِی الْمَغْرِبِ۸۰۱،سنن نسائی کتاب الافتتاح الْقِرَاءَةُ فِی الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ۹۸۸،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْمَغْرِبِ۸۳۲

[57] كمال تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۳۱۳؍۱۱

[58] ابن سعد۸۷؍۴

[59] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۴۷۸؍۴، اسد الغابة ۲۳۱؍۵،معرفة الصحابة لابی نعیم۲۵۸۹؍۵

[60] ابن سعد۸۷؍۴،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۳۱؍۵،إكمال تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۳۱۳؍۱۱

[61] ابن سعد ۸۷؍۴

[62] ابن سعد۸۷؍۴،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۳۱؍۵، إكمال تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۳۱۳؍۱۱

[63] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۴۷۸؍۴

[64] أسد الغابة فی معرفة الصحابة ۲۳۱؍۵

[65] إكمال تهذیب الكمال فی أسماء الرجال ۳۱۳؍۱۱

[66] سیر أعلام النبلاء۱۰۳؍۴

[67] ابن سعد۸۸؍۴

[68] تاریخ اسلام بشار ۱۹۴؍۲

[69] سنن ابوداودكِتَاب الْخَاتَمِ بَابُ مَا جَاءَ فِی خَاتَمِ الْحَدِیدِ۴۲۲۴

[70] معرفة الصحابة لابی نعیم۲۵۹۰؍۵

[71] التاریخ الکبیرللبخاری بحواشی محمودخیل ۲۱۲۳،۵۲؍۸

[72] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۴۷۸؍۴

[73] الثقات لابن حبان۴۰۴؍۳

[74] اسدالغابة ۲۳۱؍۵، تاریخ اسلام بشار۱۹۴؍۲

[75] ابن سعد۸۸؍۴

[76] الثقات لابن حبان۴۰۴؍۳، أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۳۱؍۵

[77] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۲۳۱؍۵

Related Articles