بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة الفجر

آخرت کی جزاوسزاکومختلف چیزوں  سے مدلل کیاگیاہے،صبح کے اجالے (ذی الحجہ کی)دس راتوں ،اورجفت اورطاق کی اوررات کی جبکہ وہ رخصت ہورہی ہوکی قسم کھاکراللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اس نظام کی بابت کہا گیاکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے وجوداوروحدانیت کے لئے کھلے دلائل ہیں ،تاریخ الامم کی طرف متوجہ فرمایااوربتایاکہ تم سے قبل قوم عاد،ثموداورفرعون نے بھی یہی طریق اپنایاتھاکہ وہ اہل ایمان کوسسک سسک کرمارنے کے لیے زمین میں  کیلوں  سے گاڑدیتے تھے، ان اقوام نے دعوت حق کاراستہ روکنے کے لیے تم سے بھی بڑھ کر زمین پرفسادبرپا کیا تھا مگرکیاوہ حق کی آوازکودباسکے؟کیاوہ اہل ایمان کوختم کرسکے؟ ہرگزنہیں ،بلکہ ایک وقت مقررہ پراللہ تعالیٰ کے عذاب کاکوڑااللہ کے ان دشمنوں  پربرس پڑااوراس نے ان اقوام کی جڑیں  تک اکھاڑ پھینکیں  اور آج دنیامیں  کوئی شخص ان کے ذکر خیرکے لئے موجودنہیں  ہے ، انسانی فطرت کے ایک پہلو کا ذکر کیاکہ جب اس پرنعمتوں  کی بارش ہوتی ہے تویہ اس کواپنااستحقاق سمجھتاہے اور جب آفت ومصیبت آتی ہے تورونا پیٹنا شروع کردیتاہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان مادی اشیاء کی کثرت وقلت کوعزت وقارکاسبب سمجھتاہے،یتیم کے ساتھ ہونے والی بد سلوکی کاذکرکیاگیاکہ انسان اس قدر حریص اورلالچی ہے کہ اپنے خاندان کے کسی فردکی موت سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس کے بے کس ورثاء کے مال پرقبضہ جما لیتا ہے اوراپنی موت سے بے پرواہ ہو جاتاہے،یہ مال ودولت کی حرص وہوس مال ملنے پر اور زیادہ بڑھتی ہے کم نہیں  ہوتی جس کوقبرکی مٹی ہی ختم کرسکتی ہے،آخرت کے محاسبے کے ضمن میں  فرمایاکہ جب محاسبہ ہوگا تواس وقت انسان دوقسموں  میں  تقسیم ہوجائیں  گے شقی لوگ اللہ کے غضب کے حقدارہوں  گےاور حسرت و یاس سے ہاتھ ملیں  گے مگر اس وقت اس کی حسرت وندامت ان کے لئے بے سودہوگی اس دن اللہ کے دشمنوں  کو عذاب سے کوئی نہ چھڑاسکے گااور نیکوکار بندوں  کوجنہوں  نے دنیامیں  یقین کامل کے ساتھ حق کوقبول کیاتھااوراعمال صالحہ اختیارکیے تھے اللہ تعالیٰ اپنی رضاو خوشنودی کی نوید سنائے گا ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے کرنے والا ہے

وَالْفَجْرِ ‎﴿١﴾‏ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ‎﴿٢﴾‏ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ‎﴿٣﴾‏ وَاللَّیْلِ إِذَا یَسْرِ ‎﴿٤﴾‏ هَلْ فِی ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِذِی حِجْرٍ ‎﴿٥﴾(الفجر)
’’قسم ہے فجر کی ! اور دس راتوں کی ! جفت اور طاق کی !اور رات جب وہ چلنے لگے،کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے ۔‘‘

اہل مکہ عقیدہ آخرت کے منکرتھے جبکہ آخرت کاانکارہرقوم کوبگاڑنے اوربالآخرتباہی کے غارمیں  دھکیل دینے کاموجب ہوتاہے اس لئے نبوت کے ابتدائی سالوں  میں  لوگوں  کے ذہنوں  میں  اس عقیدے کوراسخ کرنے اورجوابدہی کا خوف پیداکرنے کے لئے پے درپے ایسی سورتیں  نازل ہوئیں  جن میں  مختلف پرزور دلائل کے ساتھ قیامت ، حیات بعدالموت اورجزاوسزاکوثابت کیاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کوقائل کرنے کے لئے مسلسل تبلیغ وتلقین فرمارہے تھے مگراہل مکہ اس عقیدے کوسختی سے جھٹلا اورمذاق اڑارہے تھے ، جیسے فرمایا

بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ۝۸۱قَالُوْٓا ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۸۲ [1]

ترجمہ:مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں  جو ان کے پیش رو کہہ چکے ہیں ،یہ کہتے ہیں  کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں  گے اور ہڈیوں  کا پنجر بن کر رہ جائیں  گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ؟ ۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ۝۶۷ [2]

ترجمہ:یہ منکرین کہتے ہیں  کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں  گے تو ہمیں  واقعی قبروں  سے نکالا جائے گا ؟۔

وَاِذَا رَاَوْا اٰیَةً یَّسْتَسْخِرُوْنَ۝۱۴۠وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۵ۚۖ ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۱۶ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۱۷ۭ [3]

ترجمہ:کوئی نشانی دیکھتے ہیں  تو اسے ٹھٹھوں  میں  اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں  یہ تو صریح جادو ہے ،بھلا کہیں  ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں  اور مٹی بن جائیں  اور ہڈیوں  کا پنجر رہ جائیں  اس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں  ؟اور کیا ہمارے اگلے وقتوں  کے آبا و اجداد بھی اٹھائے جائیں  گے ؟۔

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸ [4]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مر کر خاک ہو جائیں  گے تو پھر اٹھا کر کھڑے کیے جائیں  گے ؟اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں  گے جو پہلے گزر چکے ہیں ؟۔

چنانچہ اس سورت میں  پوپھٹنے کے وقت کی قسم! کیونکہ فجرکے وقت ایک نہایت فضیلت اورعظمت والی نمازواقع ہوتی ہے ،اوروہ اس کی اہل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھائے ، اورذوالحجہ کی ابتدائی دس راتوں  کی قسم!کیونکہ اس عشرے میں  وقوف ہوتاہے جس میں  اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کومغفرت سے نوازتاہے جس سے شیطان غمگین ہوتاہے،شیطان جس قدرحقیر اور دھتکارا ہواعرفہ کے دن ہوتا ہے اتناحقیراوردھتکاراہواکبھی نہیں  دیکھاگیا،کیونکہ اس روزوہ اللہ تعالیٰ کے بندوں  پرفرشتوں  اوراس کی طرف سے رحمت کو اترتے دیکھتاہے ،

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَا مِنْ أَیَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیهَا أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الْأَیَّامِ یَعْنِی أَیَّامَ الْعَشْرِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ؟ قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَیْءٍ

اس عشرے کی فضیلت کے بارے میں  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کوئی نیک عمل کسی دن میں  اس قدرپسندیدہ نہیں  ہے جتناکہ ان دنوں  میں  پسندیدہ اورمحبوب ہوتاہے،یعنی ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا اللہ کی راہ میں  جہادبھی نہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجہادفی سبیل اللہ بھی نہیں ،مگرجو شخص اپنی جان و مال لے کرنکلا ہواورپھرکچھ بھی ساتھ لے کرنہ پلٹا(یعنی سب کچھ اللہ کی راہ میں  قربان کردیا) ۔ [5]

یا اس سے مراد رمضان کی آخری دس فضیلت والی راتیں  ہیں  ،کیونکہ اس میں  ایک طاق رات ایسی ہے جوہزارمہینوں  کی عبادت سے بہترہے ،جیسے فرمایا

 اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖوَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ۝۲ۭ لَیْلَةُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ۝۳ۭؔ [6]

ترجمہ:ہم نے اس ( قرآن )کو شب قدر میں  نازل کیا ہےاور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ؟شب قدر ہزار مہینوں  سے زیادہ بہتر ہے۔

اورجفت اورطاق یعنی تغیرایام کی قسم،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، رِوَایَةً، قَالَ: لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا، مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا، لاَ یَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ ، وَهُوَ وَتْرٌ یُحِبُّ الوَتْرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سونام ہیں  جوشخص بھی انہیں  یادکرلے گاجنت میں  جائے گااللہ طاق ہے اورطاق کوپسندکرتاہے۔ [7]

اوررات کی تاریکی جب خاتمے پرآلگی ہو، جیسے فرمایا

وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ۝۱۷ۙوَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ۝۱۸ۙ [8]

ترجمہ: اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہوئی اورصبح کی جبکہ اس نے سانس لی۔

یہ قسمیں  کھاکرسامعین سے سوال کیا گیا کہ جس بات کاتم انکار کررہے ہواس کے برحق ہونے کی شہادت دینے کے لئے یہ چیزیں  کافی نہیں  ہیں ؟اللہ کے قائم کیے ہوئے اس حکیمانہ نظام کودیکھنے کے بعدبھی کیا اس امرکی شہادت دینے کے لئے کسی اور چیزکی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ بے نظیر نظام جس اللہ نے قائم کیاہے اس کی قدرت سے یہ بعیدنہیں  ہے کہ وہ آخرت برپاکر دے اوراس کی حکمت ودانائی کایہ تقاضاہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس کرے۔

 أَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ‎﴿٦﴾‏ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ‎﴿٧﴾‏ الَّتِی لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ ‎﴿٨﴾‏ وَثَمُودَ الَّذِینَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ‎﴿٩﴾‏ وَفِرْعَوْنَ ذِی الْأَوْتَادِ ‎﴿١٠﴾‏ الَّذِینَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ ‎﴿١١﴾‏ فَأَكْثَرُوا فِیهَا الْفَسَادَ ‎﴿١٢﴾‏ فَصَبَّ عَلَیْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ‎﴿١٣﴾‏ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ ‎﴿١٤﴾(الفجر)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عادیوں کے ساتھ کیا کیا، ستونوں والے ارم کے ساتھ جس کی مانند( کوئی قوم) ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی، اور ثمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے، اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا ،ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا اور بہت فساد مچا رکھا تھا، آخر تیرے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسایا یقیناً تیرا رب گھات میں ہے۔‘‘

جزاوسزاپرشب وروزکے نظام سے استدلال کرنے کے بعداب اس کے ایک یقینی حقیقت ہونے پرانسانی تاریخ سے استدلال کرتے کیاگیاکہ یہ کائنات کسی اندھے بہرے قانون فطرت پرنہیں  چل رہی ہے بلکہ ایک حکمت والارب اسے چلارہاہے، اللہ کی سلطنت میں  صرف قانون فطرت ہی کارفرمانہیں  بلکہ ایک قانون اخلاق بھی ہے جس کا لازمی تقاضامکافات عمل اورجزاوسزاہے ،بطورمثال تین قوموں  کاذکرفرمایا، قوم عاداولیٰ یاعادارم کے بارے میں  فرمایا کہ ان کاتمدن بڑا شاندارتھا، اونچے اونچے ستونوں  کی بلندوبالا عمارتیں  تعمیرکرناان کی خصوصیت تھی ،جیساکہ ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایاتھا

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْــعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ۝۱۲۸ۙوَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۝۱۲۹ۚ [9]

ترجمہ:یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہراونچے مقام پرلاحاصل ایک یادگارعمارت بناڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصرتعمیر کرتے ہوگویاتمہیں  ہمیشہ رہناہے ۔

قوم عاداپنے زمانے کی ایک بے نظیرقوم تھے ،اپنی قوت اور شان وشوکت کے اعتبارسے کوئی قوم اس وقت دنیامیں  ان کے مقابلے کی نہ تھی،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَّزَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ۔۔۔ [10]

ترجمہ:اورتمہیں  خوب تنومند کیا ۔

اس مادی ترقی اوردرازقامتی وجسمانی زورآوری نے ان کوسخت متکبربنادیاتھااورانہیں  اپنی طاقت کابڑاگھمنڈتھا،جیسے فرمایا

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً۔۔۔۝۰۝۱۵ [11]

ترجمہ:عادکاحال یہ تھاکہ وہ زمین میں  کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اورکہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زورآور۔

ان کاسیاسی نظام چندبڑے بڑے جباروں  کے ہاتھ میں  تھاجن کے آگے کوئی دم نہ مارسکتاتھا،جیسے فرمایا

وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ۝۱۳۰ۚ [12]

ترجمہ:اورجب کسی پرہاتھ ڈالتے ہوجباربن کرڈالتے ہو۔

قوم عادکے بعدسب سے زیادہ مشہورو معروف قوم ثمود کاذکر فرمایاجس کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ تھی اوران کے قصے اہل عرب میں  زبان زدعام تھے ،فرمایاوہ قوم بھی تمدنی طور پراتنی ترقی یافتہ تھی کہ وادی القرٰی کے میدانوں  میں  عمارتیں  تعمیرکرنے کے ساتھ ساتھ پہاڑوں  کوتراش تراش کربڑی مہارت کے ساتھ ان کے اندربڑی بڑی عالی شان عمارتیں  بناتے تھے ،جیسے فرمایا

وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَ۝۱۴۹ۚ [13]

ترجمہ:تم پہاڑکھودکھودکرفخریہ ان میں  عمارتیں  بناتے ہو۔

پھرتیسری قوم فرعون کا ذکر فرمایاجس کے پاس مصرکی وسیع حکومت تھی،سلطنت کوقائم اور لوگوں  پررعب ودبدبہ رکھنے کے لئے اس کے پاس لشکروں  کی کثرت تھی ، مال ودولت کی فراونی تھی ، لاکھوں بنی اسرائیل اس کی غلامی میں  تھے جس سے اس میں  غرور و تکبر بھر گیا اوروہ اپنی سرکشی میں  اتنا آگے بڑھا کہ خودکورب اعلیٰ کہنے لگا،جیسے فرمایا

فَحَشَرَ فَنَادٰى۝۲۳ۡۖ فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ [14]

ترجمہ:اور لوگوں  کو جمع کر کے اس نے پکارکرکہا میں  تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ۝۲۹ [15]

ترجمہ:فرعون نے کہا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں  میں  شامل کر دوں  گا جو قید خانوں  میں  پڑے سڑ رہے ہیں ۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ۝۰ۚ فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰی۝۰ۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۳۸ [16]

ترجمہ:اور فرعون نے کہا اے اہل دربار! میں  تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں  جانتا ، ہامان! ذرا اینٹیں  پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا شاید کہ اس پر چڑھ کر میں  موسیٰ علیہ السلام کے خدا کو دیکھ سکوں ، میں  تو اسے جھوٹاسمجھتا ہوں  ۔

اورمیخوں  والے فرعون کے ساتھ،جیسےفرمایا

۔۔۔وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ۝۱۲ۙ [17]

ترجمہ: اورمیخوں  والافرعون ۔

فرعون کواس لیے میخوں  والاکہاگیاکہ وہ لوگوں  کوسزادینے کے لیے ان کے ہاتھوں  میں  میخیں  گڑوادیتاتھا،

قَالَ الْمُفَسِّرُونَ: كَانَتْ لَهُ أَوْتَادٌ یُعَذِّبُ بِهَا النَّاسَ

مفسرین کہتے ہیں وہ غصے میں لوگوں  کے ہاتھوں  میں میخیں  گڑواکرمرواڈالتاتھا۔ [18]

وَیُقَالُ: كَانَ فِرْعَوْنُ یُوتِدُ أَیْدِیَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ فِی أَوْتَادٍ مِنْ حَدید یُعَلِّقُهُمْ بِهَا

یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ فرعون اپنے مخالفوں  کے ہاتھوں  اورپاؤ ں  میں  لوہے کی میخیں  گاڑکرانہیں  لٹکا دیا کرتا تھا۔ [19]

اس نے اپنی ملکہ آسیہ کوبھی اسلام قبول کرنے کے جرم میں  اسی طرح ہلاک کیاتھا،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ فِی قَوْلِهِ: ذِی الْأَوْتادِ،قَالَ: وَتَّدَ فِرْعَوْنُ لِامْرَأَتِهِ أَرْبَعَةَ أَوْتَادٍ ثُمَّ جَعَلَ عَلَى ظَهْرِهَا رَحًى عَظِیمَةً حَتَّى مَاتَتْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما آیت’’میخوں  والا۔‘‘ کے بارے میں  کہتے ہیں  فرعون نے شدیددھوپ میں اپنی بیوی کوپشت کے بل لٹاکراس کےہاتھوں  میں  چارمیخیں  گڑوادیں  حتی کہ وہ اسی حالت میں  مرگئی۔ [20]

ان تینوں  قوموں  نے اللہ کی زمین پر بڑی سرکشی کی اوربہت فساد پھیلایا، اللہ نے ان تینوں  قوموں  کی رشدوہدایت کے لئے ہود علیہ السلام ،   صالح علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا تھامگرانہوں  نے ان کی سختی سے تکذیب کی ،وہ بھی اللہ کوبھول کرمال ودولت پاکردنیاکی رنگینیوں میں  مگن تھے ، انہوں  نے بھی عقیدہ آخرت کا مذاق اڑایاتھا، جب وہ اپنی سرکشی میں  حد سے گزر گئے تو ایک وقت مقررہ پراللہ نے ان تینوں  سرکش قوموں  پرآسمان سے اپناعذاب نازل فرماکرتباہ وبربادکردیا،اللہ تعالیٰ نے قوم عادپرسخت ہواکا عذاب نازل کردیا ۔

وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍ۝۶ۙسَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ۝۰ۙ حُسُوْمًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى۝۰ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ۝۷ۚ [21]

ترجمہ :اورعادایک بڑی شدیدطوفانی آندھی سے تباہ کردیے گئے ، اللہ تعالیٰ نے اس کومسلسل سات رات اورآٹھ دن ان پرمسلط رکھا(تم وہاں  ہوتے تو ) دیکھتے کہ وہ وہاں  اس طرح گرے پڑے ہیں  جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں ۔

قوم ثمودکوبھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا

فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ۝۵ [22]

ترجمہ: توثمود بے حدخوفناک (اوراونچی)آوازسے ہلاک کردیے گئے ۔

اورفرعون اوراس کے لشکر کو سمندرمیں  غرق کردیاگیا،جیسے فرمایا

وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۰ [23]

ترجمہ:یاد کرو وہ وقت ، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا پھر اس میں  سے تمہیں  بخیریت گزروا دیا ، پھر وہیں  تمہاری آنکھوں  کے سامنے فرعونیوں  کو غرقاب کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کے اعمال دیکھ رہاہے ،جواس کی نافرمانی کرتاہے اسے سنبھلنے کی مہلت عطافرماتاہے مگر جب وہ حد سے گزرتے ہیں  تو اچانک ان پردردناک عذاب کا کوڑا بر سا دیتاہے

فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَیَقُولُ رَبِّی أَكْرَمَنِ ‎﴿١٥﴾‏ وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهُ فَیَقُولُ رَبِّی أَهَانَنِ ‎﴿١٦﴾‏ كَلَّا ۖ بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْیَتِیمَ ‎﴿١٧﴾‏ وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِینِ ‎﴿١٨﴾‏ وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا ‎﴿١٩﴾‏ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ‎﴿٢٠﴾(الفجر)
’’انسان (کا یہ حال ہے) کہ جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا، اور جب وہ اسکو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کی (اور ذلیل کیا) ایسا ہرگز نہیں بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے اور مسکینوں کو کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتےاور (مردوں کی) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو۔‘‘

وسعت رزق کواکرام نہیں بلکہ امتحان سمجھو:

مگرلوگوں  کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ جب اس کارب اس کے امتحان وآزمائش کے لئے اسے مال ودولت کی فراوانی وکشادگی ،جاہ واقتدار اوربے شمارنعمتوں  سے نوازتاہے تواسے اپنااستحقاق سمجھتاہے اورغلط فہمی کاشکارہوکر کہتاہے کہ اللہ اس پربہت مہربان ہے،جیسے فرمایا

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ۝۵۵ۙنُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶ [24]

ترجمہ:کیایہ سمجھتے ہیں  کہ ہم جوانہیں  مال و اولادسے مدددیے جارہے ہیں  توگویاانہیں  بھلائیاں  دینے میں  سرگرم ہیں ؟نہیں  اصل معاملے کاانہیں  شعورنہیں  ہے۔

اور جب وہ اس کی آزمائش کے لئے اس کارزق نپاتلا کردیتاہے تو صبر و قناعت کے ساتھ راضی برضارہنے کے بجائے بدگمانی کا اظہارکرتا ہے اور کہتاہے میرے رب نے میری اہانت کی ، یعنی انسان مادہ پرستانہ سوچ کے تحت عزت اورذلت کامعیارمال ودولت اور منصب کے ملنے یانہ ملنے کوسمجھتاہے ، فرمایا ہرگز نہیں  ، مال ودولت توہم اپنے محبوب بندوں  کوبھی دیتے ہیں  اور ناپسندیدہ افرادکوبھی ،تنگی میں  بھی ہم اپنوں  اوربیگانوں  دونوں  کو مبتلاکرتے ہیں  ،اس لئے عزت و ذلت کا معیارمادی اشیاء کی کثرت وقلت نہیں بلکہ اخلاقی بھلائی یا برائی ہے ،جاہلیت کے اس معاشرے میں  باپ کے مرتے ہی اس کے قریبی رشتہ دارچچا،ماموں  ،بڑابھائی اور ہمسائے وغیرہ سب یتیم سے آنکھیں  پھیرلیتے تھے ،عورتوں  اوربچوں  کوویسے ہی میراث سے محروم رکھاجاتاتھااس لئے ہربااثر اور طاقت ور مرنے والے کی میراث کا مالک بن جاتاتھا ، چنانچہ فرمایاتمہاری اخلاقی حالت تویہ ہے کہ تم لوگ یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بجائے اہانت وبے رحمی کامظاہرہ کرتے ہو،اورمال کی محبت اور بخیل پن میں  حاجت مندوں ، فقرا اور مساکین کو خودکھاناکھلاتے ہواورنہ ہی ایک دوسرے کو اس کی ترغیب دیتے ہو،جیسے فرمایا

فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ۝۲ۙوَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۳ۭ [25]

ترجمہ:وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں  اکساتا۔

دوزخی جہنم میں  داخل کاسبب اس طرح بیان کریں  گے۔

عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ۝۴۱ۙمَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ۝۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۝۴۳ۙوَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ۝۴۴ۙ [26]

ترجمہ:وہاں  وہ مجرموں  سے پوچھیں  گے تمہیں  کیا چیز دوزخ میں  لے گئی؟ وہ کہیں  گے ہم نماز پڑھنے والوں  میں  سے نہ تھےاور مسکین کو کھانا نہیں  کھلاتے تھے۔

اورعبرت حاصل کرنے کے بجائے میراث کامال جوبے کس یتیموں  اور مسکینوں  کاحق تھاناجائزطور پر ہڑپ کرجاتے ہو،مال ودولت کی محبت میں  تمہیں کوئی فکرنہیں  کہ اسے جائزاور حلال طور پرحاصل کیا گیا ہے یاناجائزاورحرام طور پر ، یعنی تم آخرت کے بجائے دنیاکوترجیح دیتے ہو،جیسے فرمایا

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖوَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ [27]

ترجمہ:مگرتم لوگ دنیاکی زندگی کوترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہترہے اورباقی رہنے والی ہے۔

‏ كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا ‎﴿٢١﴾‏ وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ‎﴿٢٢﴾‏ وَجِیءَ یَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ یَوْمَئِذٍ یَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ ‎﴿٢٣﴾‏(الفجر)
’’یقیناً جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی، اور تیرا رب (خود) آجائے گا، اور فرشتے صفیں باندھ کر (آجائیں گے) اور جس دن جہنم بھی لائی جائے گی، اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اسکے سمجھنے کا فائدہ کہاں ؟ ۔‘‘

تم لوگ سمجھتے ہوکہ دنیامیں  جو اچھایابراعمل کرتے رہوگے اس کامحاسبہ نہیں  ہوگا،جیسے فرمایا

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [28]

ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں  فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں  ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں  ہے؟۔

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى۝۳۶ۭ [29]

ترجمہ:کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟۔

اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْهِ اَحَدٌ۝۵ۘ [30]

ترجمہ:کیا اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا ؟۔

ایساہرگزنہیں  ہے ، ایک وقت مقررہ پرقیامت قائم ہوگی ،جیسے فرمایا

اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِیْقَاتًا۝۱۷ۙ [31]

ترجمہ:بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے ۔

جب اللہ تعالیٰ کے حکم پرصورپھونکاجائے گا،جیسے فرمایا

فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ۝۸ۙ [32]

ترجمہ:اچھا، جب صور میں  پھونک ماری جائے گی۔

جس کی ہیبت ناک آوازسے کائنات کاتمام نظام درہم برہم ہوجائے گا،آسمان پھٹ جائے گا ،جیسے فرمایا

 اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ۝۱ۙ [33]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گا۔

اِذَا السَّمَاۗءُ انْفَطَرَتْ۝۱ۙ [34]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گا ۔

وَاِذَا السَّمَاۗءُ فُرِجَتْ۝۹ۙ [35]

ترجمہ:اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا ۔

وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا۝۱۹ۙ [36]

ترجمہ:اور آسمان کھول دیا جائے گا حتی کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا۔

عالم بالا کا نظام ٹوٹنے سے تمام ستارے اور سیارے جو اپنے مدار پر قائم تھےاپنے مدارسے نکل کرآپس میں  ٹکراکربے نورہوجائیں  گے،جیسے فرمایا

وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ۝۲ۙ [37]

ترجمہ:اور جب تارے بکھر جائیں  گے۔

وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۝۲۠ۙ [38]

ترجمہ:اور جب تارے بکھر جائیں  گے۔

فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ۝۸ۙ [39]

ترجمہ:پھر جب ستارے ماند پڑ جائیں  گے۔

وَخَسَفَ الْقَمَرُ۝۸ۙوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۝۹ۙ [40]

ترجمہ:اور چاند بےنور ہو جائے گااور چاند سورج ملا کر ایک کر دیے جائیں  گے۔

اورزمین جھٹکے پر جھٹکاکھانے لگے گی،جیسے فرمایا

 اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ۙ [41]

ترجمہ:جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ۝۶ۙتَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ۝۷ۭ [42]

ترجمہ:جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکااور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا۔

زمین کی کشش ختم ہونے سےپہاڑزمین سے نکل کرہوامیں  اڑنے لگیں  گے، جیسے فرمایا

وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ۝۳۠ۙ [43]

ترجمہ:اور جب پہاڑ چلائے جائیں  گے ۔

وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا۝۲۰ۭ [44]

ترجمہ:اور پہاڑ چلائے جائیں  گے یہاں  تک کہ وہ سراب ہو جائیں  گے۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّهِیْلًا۝۱۴ [45]

ترجمہ:یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں  گے اور پہاڑوں  کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں ۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙوَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً۝۱۴ۙ [46]

ترجمہ:پھر جب ایک دفعہ صور میں  پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑوں  کو اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں  ریزہ ریزہ کردیا جائے گا ۔

یعنی ہوامیں  اڑتے ہوئے پہاڑآپس میں  ٹکراکرٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں  گے اورپھر باریک بھربھری ریت کے ٹیلے بن جائیں  گے، پھر جو زلزلہ زمین کو ہلا رہا ہوگا اس کی وجہ سے یہ ریت بکھر جائے گی اور ساری زمین ایک ہموار چٹیل میدان بن جائے گی۔

زمین کے جھٹکے پرجھٹکاکھانے سے سمندروں  کے نیچے زمین میں  شگاف پڑجائیں  گے جس سے زمین کے اندرسے مختلف گیس کااخراج ہونے لگے گااوروہ آکسیجن کے ملنے سے بھڑک اٹھے گئیں ،جیسے فرمایا

وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّـــرَتْ۝۳ۙ [47]

ترجمہ:اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں  گے ۔

وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ۝۶۠ۙ [48]

ترجمہ:اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں  گے۔

اس طرح زمین کے سب نشیب وفرازبرابرہوجائیں  گےاوروہ ایک ہموارچٹیل میدان کی طرح ہو جائے گی ،جیسے فرمایا

وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙفَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ [49]

ترجمہ: یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گااور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گاکہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔

الغر ض اللہ تعالیٰ پھر ایک نئے قانون کے ساتھ نیاآسمان اورنئی زمین بنائے گا ،جیسے فرمایا

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۴۸ [50]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں  اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں  گے اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بےنقاب حاضر ہو جائیں  گے۔

پھراللہ تعالیٰ سب انسانوں  کوان کی قبروں  سےاسی جسم وجان کے ساتھ زندہ کرکے اعمال کی جزا وسزاکے لئے میدان محشرمیں  جمع کرے گا،جیسے فرمایا

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا۝۱۸ۙ [51]

ترجمہ:جس روز صور میں  پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱ [52]

ترجمہ:پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں  سے نکل پڑیں  گے۔

۔۔۔وَّنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰهُمْ جَمْعًا۝۹۹ۙ [53]

ترجمہ:اور صور پھونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں  کو ایک ساتھ جمع کریں  گے۔

ترازوعدل قائم کردیاجائے گا،لوگوں  کے فیصلے کرنے کے لئے رب کائنات میدان محشرمیں  جلوہ فرماہوگا،جیسے فرمایا

وَّالْمَلَكُ عَلٰٓی اَرْجَاۗىِٕهَا۝۰ۭ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ۝۱۷ۭ [54]

ترجمہ:فرشتے اس کے اطراف و جوانب میں  ہوں  گے اور آٹھ فرشتے اس روز تیرے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں  گے۔

ہرآسمان سے مکرم فرشتے نیچے اتریں  گے اورخشوع وعاجزی کے ساتھ سرجھکائے الگ الگ صف بناکر کھڑے ہوجائیں  گے، جیسے فرمایا

یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا۔۔۔۝۳۸ [55]

ترجمہ:جس روزروح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں  گے۔

اس طرح سات صفیں  ہوں  گی جو زمین کوگھیرلیں  گی ،اس روز جہنم کوخوب بھڑکایاجائے گا،جیسے فرمایا

وَاِذَا الْجَــحِیْمُ سُعِّرَتْ۝۱۲۠ۙ [56]

ترجمہ:اور جب جہنم دہکائی جائے گی۔

اورپھراس غیض وغضب سے پھٹتی جہنم کومیدان محشر میں  لایا جائے گا،جیسے فرمایا

وَّعَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِیْنَ عَرْضَۨا۝۱۰۰ۙ [57]

ترجمہ:اور وہ دن ہوگا جب ہم جہنم کو کافروں  کے سامنے لائیں  گے ۔

 وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى۝۳۶ [58]

ترجمہ:اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی۔

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ۝۹۱ۙ [59]

ترجمہ:اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں  کے سامنے کھول دی جائے گی ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُؤْتَى بِجَهَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ ،مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ یَجُرُّونَهَا

اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس دن غیض وغضب سے پھٹی جہنم کو جو ستر ہزارلگاموں  کے ساتھ جکڑی ہوئی ہوگی، اور ہرلگام کے ساتھ سترہزارفرشتے ہوں  گے، گھسیٹ کرمیدان محشرمیں  لوگوں  کے سامنے لائی جائے گی۔ [60]

حَتَّى تَنْصَبَّ عَنْ یَسَارِ الْعَرْشِ، فَلَا یَبْقَى مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ إِلَّا جَثَا لِرُكْبَتَیْهِ یقول: یا ربّ نفسی نفسی

اوراسے عرش کے بائیں  جانب کھڑا کر دیا جائے گاپس اسے دیکھ کر تمام مقرب اورانبیاء گھٹنوں  کے بل گر پڑیں  گے،اورمیرے رب!مجھے بخش دے،اے رب!مجھے بخش دےپکاریں  گے۔ [61]

اپنانامہ اعمال پڑھ کراوریہ ہولناک منظردیکھ کرہرمجرم اپنے کفرو معاصی پرنادم ہو گا اور اس کوسمجھ آجائے گی کہ اب اس کے ساتھ کیاسلوک کیا جانے والاہے ، جیسے فرمایا

وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَةٌ۝۲۴ۙتَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ۝۲۵ۭ [62]

ترجمہ: اور کچھ چہرے اداس ہوں  گے،اور سمجھ رہے ہوں  گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔

مگرروزجزامیں  نصیحت پکڑنے اوراپنی غلطیوں  کوسمجھنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔

یَقُولُ یَا لَیْتَنِی قَدَّمْتُ لِحَیَاتِی ‎﴿٢٤﴾‏ فَیَوْمَئِذٍ لَا یُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ‎﴿٢٥﴾‏ وَلَا یُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ ‎﴿٢٦﴾‏ یَا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ‎﴿٢٧﴾‏ ارْجِعِی إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً ‎﴿٢٨﴾‏ فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ‎﴿٢٩﴾‏ وَادْخُلِی جَنَّتِی ‎﴿٣٠﴾‏(الفجر)
’’وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا، پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی نہ ہوگا،نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی،اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل، اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش، پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں چلی جا۔‘‘

حسرت ویاس اورندامت سے ہاتھ ملتے ہوئے ہرمجرم کہے گاکاش! میں  نے دائمی زندگی کے لئے کوئی تیاری کی ہوتی،ایک مقام پر فرمایا

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸ [63]

ترجمہ:ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گااورکہے گا کاش! میں  نے رسول کاساتھ دیاہوتا،ہائے میری کم بختی ،کاش! میں  نے فلاں  شخص کودوست نہ بنایاہوتا۔

رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِـمِیْنَ۝۲ [64]

ترجمہ:بعید نہیں  کہ ایک وقت وہ آجائے جب وہی لوگ جنہوں  نے آ ج( دعوت اسلام کو قبول کرنے سے )انکار کردیا ہے، پچھتا پچھتا کر کہیں  گے کہ کاش ہم نے سر تسلیم خم کردیا ہوتا۔

اس دن تمام تر اختیارات صرف اللہ مالک یوم الدین کے پاس ہوں  گے ، جیسے فرمایا

یَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـیْــــًٔا۝۰ۭ وَالْاَمْرُ یَوْمَىِٕذٍ لِّلهِ۝۱۹ۧ [65]

ترجمہ:یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں  نہ ہوگا ، فیصلہ اس دن بالکل اللہ کے اختیار میں  ہوگا۔

کسی کواس کی بارگاہ میں  دم زنی یاکسی کی سفارش کرنے کی جرات نہیں  ہوگی ،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔۝۱۰۵ [66]

ترجمہ:جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی الایہ کہ اللہ کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔

۔۔۔مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ۔۔۔۝۲۵۵ [67]

ترجمہ:کون ہے جو اس کی جناب میں  اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ ۔

ایسے حالات میں  اللہ تعالیٰ مجرموں  کو جودردناک عذاب دے گاویساعذاب دینے والاکوئی نہیں  اور اس کی قیدوبند جیسی کسی کی قیدوبندنہ ہوگی ،چنانچہ ایسے لوگوں  کوآگ کی زنجیروں  میں  باندھاجائے گااورچہروں  کے بل گھسیٹتے ہوئے آگ میں  ڈال دیاجائے گا۔اور اہل ایمان وطاعت کو جو امتحان میں  کامیاب ہوں  گے کہا جائے گااے نفس مطمئن !اللہ کے اجروثواب اوران نعمتوں  کی طرف چل جواس نے اپنے بندوں  کے لئے جنت میں  تیارکی ہیں  ،تواللہ تعالیٰ کی عنایات سے خوش ہوااوراللہ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہرا،ایسے نیک فطرت انسانوں  کواللہ تعالیٰ اپنی رضاوخوشنودی کی نویدسناتے ہوئے فرمائے گا میرے نیک بندوں  میں  شامل ہو کرنعمتوں  بھری جنت میں  داخل ہوجاؤ ۔موت کے وقت بھی فرشتے مومنین کو یہی خوش خبری سناتے ہیں ۔

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَیِّبِیْنَ۝۰ۙ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ۝۰ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۳۲ [68]

ترجمہ:ان متقیوں  کو جن کی روحیں  پاکیزگی کی حالت میں  جب ملائکہ قبض کر رہے ہوتے ہیں  تو کہتے ہیں  سلام ہو تم پرجاؤ جنت میں  اپنے اعمال کے بدلے۔

حَدَّثَنِی أَبُو أُمَامَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ:قُلِ اللهُمَّ، إِنِّی أَسْأَلُكَ نَفْسًا بِكَ مُطَمْئِنَةً، تُؤْمِنُ بِلِقَائِكَ، وَتَرْضَى بِقَضَائِكَ، وَتَقْنَعُ بِعَطَائِكَ

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایایہ دعاپڑھاکر، اے میرے رب!میں  تجھ سے ایسانفس طلب کرتاہوں  جوتیری ذات پراطمینان اور بھروسہ رکھتاہو،تیری ملاقات پر ایمان رکھتا ہو ، تیری قضاپرراضی ہو،تیرے دیے ہوئے پرقناعت کرنے والاہو۔ [69]

(نفس کی تین کیفیات ہیں ۔

النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ:

نفس مطمئنہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ خواہشات کی مخالفت کرتاہے اورتوکل علی اللہ اس کارزق ہوتاہے یوں  وہ اپنے رب کے دیے پرپوری طرح مطمئن ہوتاہے اس کی رغبت رب تعالیٰ کاذکروشکراوراس کااثرمخلوق کی بھلائی ہے۔

النَّفْسِ الَّوَّامَةِ :

نفس لوامہ نفس کی وہ حالت ہے جس میں  انسان گناہ کرتاہے لیکن توبہ سے انہیں  دھوتارہتاہے ،اس کی روح پرگناہوں  کاسیاہ پردہ اتناموٹانہیں  ہوتاکہ ہدایت کی روشنی سے وہ کلی طورپرمحروم ہوجائے اس لئے ایسانفس برائی کوبرائی سمجھتاہے ،شیطان مردود کے مکرکوجانتاہے ہارجائے تواوربات ہے لیکن وہ شیطان کامقابلہ بھی خوب کرتاہے ،اس آدمی کاضمیرزندہ رہتاہے ،نفس اگربرائی کی طرف مائل ہوتاہے توروح اس کوراہ راست پرلانے کی کوشش کرتی ہے ،اس کی پہچان یہ ہے کہ گناہ سرزدہونے کی صورت میں  نفس لوامہ کوپریشانی ہوتی ہے اوروہ توبہ کی طرف رجوع کرتاہے ،نفس لوامہ ان شاء اللہ جنت میں  جائے گاتاہم عالم برزخ میں  زندگی کی کوتاہیوں  اوربرائیوں  کی وجہ سے شرمندہ شرمندہ رہتاہےاللہ تعالیٰ نے سورۂ قیامہ میں  نفس لوامہ کی قسم کھائی ۔

وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللوَّامَةِ۝۲ۭ [70]

ترجمہ:اور نہیں  ! میں  قسم کھاتا ہوں  ملامت کرنے والے نفس کی۔

النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ:

یہ وہ نفس ہے جسے جسم کے تقاضوں  اورخواہشات نے گھیراہواہے وہ روح کی آوازکودباتاہے اورجسم کوآگے رکھتاہے یوں  اپنے اختیارکے غلط استعمال سے گناہوں  میں  ڈوبا ہوا ہے ،شیطان اس پرکھلے بندوں  بلاروک ٹوک آتاجاتاہے ،اس بدقسمت کاآخری انجام جہنم ہے ،شیطان جس نے اپناکام کردکھایااسے دھوکادے کرعالم برزخ میں  بھٹکنے کے لیے چھوڑدیتاہے جہاں  حقیقت حال معلوم ہونے پرایسانفس ہمیشہ کی ذلت اورمایوسی کی آگ میں  جلتارہتاہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کاذکر سورۂ یوسف میں فرمایا

وَمَآاُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ۝۰ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۵۳ [71]

ترجمہ:میں  کچھ اپنے نفس کی برارَت نہیں  کر رہا ہوں  ، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے۔

نفس امارہ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ پوری طرح خواہشات کاغلام ہوتاہے ایک کے بعددوسری خواہش اسے کبھی چین نہیں  لینے دیتی۔

[1] المومنون۸۱،۸۲

[2] النمل۶۷

[3] الصافات۱۴تا۱۷

[4] الواقعة۴۷،۴۸

[5] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ فَضْلِ العَمَلِ فِی أَیَّامِ التَّشْرِیقِ ۹۶۹،سنن ابوداودکتاب الصیام بَابٌ فِی صَوْمِ الْعَشْرِ ۲۴۳۸، مسند احمد ۱۹۶۸، مسندالبزار۵۰۰۰،صحیح ابن خزیمة۲۸۶۵،صحیح ابن حبان ۳۲۴،سنن دارمی ۱۸۱۴،السنن الکبری للبیہقی ۸۳۹۲،مصنف ابن ابی شیبة۱۹۵۴۰،مصنف عبدالرزاق ۸۱۲۱،شرح السنة للبغوی ۱۱۲۵

[6] القدر۱تا۳

[7] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابٌ لِلَّهِ مِائَةُ اسْمٍ غَیْرَ وَاحِدٍ۶۴۱۰،صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاء بَابٌ فِی أَسْمَاءِ اللهِ تَعَالَى وَفَضْلِ مَنْ أَحْصَاهَا۶۸۰۹، مسند احمد ۸۱۴۶،مسندابی یعلی ۶۲۷۷

[8] التکویر۱۷،۱۸

[9] الشعراء ۱۲۸،۱۲۹

[10] الاعراف۶۹

[11] حم السجدة۱۵

[12] الشعراء ۱۳۰

[13] الشعراء ۱۴۹

[14] النازعات۲۳،۲۴

[15] الشعراء ۲۹

[16] القصص۳۸

[17] ص ۱۲

[18] فتح القدیر۴۸۵؍۴، تفسیرطبری۱۵۸؍۲۱

[19] تفسیرطبری۴۰۹؍۲۴

[20] فتح القدیر۵۳۳؍۵، تفسیر طبری۴۰۹؍۲۴

[21] الحاقة ۶، ۷

[22] الحاقة۵

[23] البقرہ۵۰

[24] المومنون ۵۵،۵۶

[25] الماعون۲،۳

[26] المدثر۴۱تا۴۴

[27] الاعلیٰ۱۶،۱۷

[28] المومنون۱۱۵

[29] القیامة۳۶

[30] البلد۵

[31] النبا۱۷

[32] المدثر۸

[33] الانشقاق۱

[34] الانفطار۱

[35] المرسلات۹

[36] النبا۱۹

[37] الانفطار۲

[38] التکویر۲

[39] المرسلات۸

[40] القیامة۸،۹

[41] الزلزال۱

[42] النازعات۶،۷

[43] التکویر۳

[44] النبا۲۰

[45] المزمل۱۴

[46] الحاقة۱۳،۱۴

[47] الانفطار۳

[48] التکویر۶

[49] طہ۱۰۵تا۱۰۷

[50] ابراہیم۴۸

[51] النبا۱۸

[52] یٰسین۵۱

[53] الکہف۹۹

[54] الحاقة۱۷

[55] النبا۳۸

[56] التکویر۱۲

[57] الکہف۱۰۰

[58] النازعات۳۶

[59] الشعراء ۹۱

[60] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابٌ فِی شِدَّةِ حَرِّ نَارِ جَهَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِهَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ۷۱۶۴ ، جامع ترمذی ابواب صفة جھنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ النَّارِ۲۵۷۳،مستدرک حاکم ۸۷۵۸

[61] فتح القدیر ۵۳۵؍۵

[62] القیامة۲۴،۲۵

[63] الفرقان۲۷،۲۸

[64] الحجر۲

[65] الانفطار۱۹

[66] ھود۱۰۵

[67] البقرة۲۵۵

[68] النحل۳۲

[69] تفسیرابن کثیر۴۰۱؍۸،تاریخ دمشق لابن عساکر ۸۱؍۳۵

[70] القیامة۲

[71] یوسف۵۳

Related Articles