بعثت نبوی کا تیسراسال

مضامین سورة القارعہ

اللہ تعالیٰ نے قیامت کے کئی نام گنوائے گئے ہیں جیسے

اَلْحَاۗقَّةُ (الحاقة۱) الطَّاۗمَّةُالْكُبْرٰى (النازعات۳۴) الصَّاۗخَّةُ (عبس۳۳) الْغَاشِـیَةِ (الغاشیة۱) السَّاعَةَ، الْاٰزِفَةُ، الْوَاقِعَةُ، هَاوِیَةٌ، الْحُطَمَةِ  (الہمزہ۴)  اَلْقَارِعَةُ  (القارعة۱)

وہ واقعہ جس کولازماًپیش آکررہناہے یعنی قیامت۔عظیم ہنگامہ ۔کان بہرے کر دینے والی آواز،ہولناک شور۔چھاجانے والی آفت۔قیامت کی گھڑی۔قریب آنے والی۔ہونےوالاواقعہ۔ عمیق ۔ چکناچورکردینے والی جگہ ۔کھڑکھڑادینے والی،ٹھونکنے والی۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جس طرح دروازہ کھٹکھٹانے والا مکینوں کو خبردارکرتاہے اسی طرح یہ بھی اپنی ہولناکیوں سے دلوں کو بیدار اوراللہ کے دشمنوں کوعذاب سے خبردارکردے گی ۔

قیامت کوعظیم اورہلادینے والی آفت اورحادثہ قراردے کرغافل انسان کوچوکناکیاکہ جب یہ حادثہ رونماہوگاتوگھبراہٹ اوربدحواسی کایہ عالم ہو گا کہ لو گ بھاگتے پھریں گے جیسے روشنی کے گردپروانے،عظیم الشان ،بلندوبالاٹھوس پہاڑبے وزن ہوکرروئی کے گالوں کی طرح اڑتے ہوں گے،قیامت قائم ہونے کے بعدجب اللہ چاہے گامردوں کوان کی قبروں سے زندہ کرکے عدالت قائم کرے گااورنیکی اوربرائی کا موازنہ شروع ہوگا،جن لوگوں کی نیکیوں کاوزن زیادہ ہوگاوہ پسندیدہ زندگی گزاریں گے اورجن لوگوں کابرائی کاپلڑابھاری ہوگاوہ دہکتی بھڑکتی آگ کی گہری خندقوں میں گرادیئے جائیں گے جہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہوگی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الْقَارِعَةُ ‎﴿١﴾‏ مَا الْقَارِعَةُ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ ‎﴿٣﴾‏ یَوْمَ یَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ ‎﴿٤﴾‏ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ ‎﴿٥﴾  (القارعہ)
کھڑ کھڑا دینے والی ،کیا ہے وہ کھڑ کھڑا دینے والی، تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے،جس دن انسان  بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوجائیں گے ،اور پہاڑ دھنے ہوئے رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔

اس سورت میں قیامت کے پہلے مرحلے سے لیکرعذاب وثواب کے آخری مرحلے تک پورے عالم آخرت کا یکجاذکر ہو رہا ہے،اس عظیم واقعہ کی ہولناکی بیان کرنے کے لیے سوال کیاگیاکہ کھڑکھڑادینے والی کیاہے کھڑکھڑادینے والی ؟ اورآپ کوکیاعلم کہ وہ کھڑکھڑادینے والی کیا ہے ؟ پھر قیامت کے پہلے مرحلے میں لوگوں کی جوکیفیت ہوگی وہ بیان فرمائی کہ زمین وآسمان کو پھٹتا ،سورج چاندوستارے آپس میں ٹکراتے اور معدوم ہوتے ،پرہیبت پہاڑوں کو بے حیثیت تنکوں کی طرح ہوامیں اڑتے ،سمندروں میں بھڑکتی آگ اور جنگلی جانوروں کاخوف سے انسانوں کے قریب اکھٹے ہونا دیکھ کر لوگ انتہائی گھبراہٹ کی حالت میں ہوں گے ،خوف ودہشت سے ان کے کلیجے پھٹے جا رہے ہوں گے ،دہشت سے وہ اتنے بدحواس باختہ ہوں گے کہ دیکھنے والایہ سمجھے کہ جیسے وہ نشے میں ہوں ، جیسے فرمایا:

یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰی وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰی وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِیْدٌ۝۲ [1]

ترجمہ:جس روز تم اسے دیکھو گےحال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گےحالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گےبلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔

اوراس اچانک ٹوٹ پڑنے والی عظیم آفت سے پناہ حاصل کرنے کے لئے ٹڈی دل کی طرح ہرطرف بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے ہر طرف پراگندہ ومنتشرہوتے ہیں اوروہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں کارخ کریں ، جیسے فرمایا

 ۔۔۔كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ۝۷ۙ [2]

ترجمہ:گویاوہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں ۔

انسان نظام شمسی کوتباہ ہوتے دیکھ رہے ہوں گے مگرزمین بھی اس تباہی سے مستثنٰی نہیں ہوگی ، زمین کی کشش ثقل بھی ختم ہوجائے گی جس کے نتیجے میں زمین میں مضبوطی سے جمے ہوئے بلندوبالا،سرفلک چوٹیوں واے رنگ برنگ کے ٹھوس اورسخت پہاڑزمین سے نکل کربادلوں اور دھنکی ہوئی رنگ برنگی اون کی طرح اڑتے پھریں گے اورآپس میں ٹکراکرریزہ ریزہ ہورہے ہوں گےاوربکھراہوغباربن کرختم ہوجائیں گے اوران میں سے کچھ باقی نہیں بچے گاجس کودیکھاجائے ،جیسے فرمایا:

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۔۔۔ ۝۸۸ [3]

ترجمہ:آج تو پہاڑوں کودیکھتاہے اورسمجھتاہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں مگراس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑرہے ہوں گے۔

 فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ ‎﴿٦﴾‏ فَهُوَ فِی عِیشَةٍ رَّاضِیَةٍ ‎﴿٧﴾‏ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ ‎﴿٨﴾‏ فَأُمُّهُ هَاوِیَةٌ ‎﴿٩﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِیَهْ ‎﴿١٠﴾‏ نَارٌ حَامِیَةٌ ‎﴿١١﴾‏(القارعہ)
پھر جس کے پلڑے بھاری ہونگے وہ دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا، جن کے پلڑے ہلکے ہونگے اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہے، تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے وہ تند تیز آگ ہے ۔

پھرجب اللہ تعالیٰ چاہے گاسب انسان اپنے مرقدوں سے زندہ ہوکر کان دبائے رب کے حضورپیش ہوجائیں گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَّنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰهُمْ جَمْعًا۝۹۹ۙ [4]

ترجمہ:اور صور پھونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا۝۱۰۲ۚۖ [5]

ترجمہ:اس دن جبکہ صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے)پتھرائی ہوئی ہوں گی۔

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱ [6]

ترجمہ:پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا۝۱۸ۙ [7]

ترجمہ:جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔

اللہ کے حکم سے میدان محشرمیں ترازوعدل نصب کردیاجاے گا،کسی شخص نے رائی کے دانے برابربھی کچھ کیادھراہوگاحاضرکردیاجائے گااورکسی شخص پرذرہ برابرظلم نہ ہوگا،جیسے فرمایا:

 وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِهَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [8]

ترجمہ:قیامت کے روزہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے ،پھرکسی شخص پرذرہ برابرظلم نہ ہوگا،جس کارائی کے دانے برابربھی کچھ کیادھراہوگاوہ ہم سامنے لے آئیں گے اورحساب لگانے کے لئے ہم کافی ہیں ۔

یٰبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [9]

ترجمہ:(اور لقمان نے کہا تھا کہ)اے بیٹے کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا، وہ باریک بیں اور باخبر ہے ۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [10]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

مقدمہ کےگواہ پیش ہوں گے اورحق کے ساتھ گواہی دیں گے ،اللہ اعمال کووزن عطافرمائے گااورترازوعدل میں ہرشخص کے چھوٹے سے چھوٹے اچھے یابرے عمل کوتولا جائے گا،اورانصاف کے تمام تقاضے پورے کرکے فیصلہ چکادیا جائے گا ، اس طرح تمام لوگ دوگروہوں میں منقسم ہوجائیں گے ایک گروہ خوش بخت لوگوں کاہوگا اوردوسرا بد بخت لوگوں کا،ترازوکے ایک پلڑے میں ایمان اور ظاہری وپوشیدہ نیکیاں رکھ دی جائیں گی اوردوسرے پلڑے میں برائیاں ،جس شخص کاایمان اورنیکیوں کا پلڑابھاری ہوجائے گاوہ خوش بخت گروہ میں شامل ہوجائے گا،ان کے انعام کے لئے انگنت لازوال نعمتوں والی جنت،فرشتوں کی ہر طرف سے مرحبامرحباکی آوازیں ، خدمت پرماموربے شمارموتیوں کی طرح چمکتے ہوئے خدام اورسب سے بڑی بات رب کی رضا ہوگی ،اورجن کے وزن ہلکے نکلیں گے یعنی اس کی نیکیاں اتنی نہ ہوں گی جواس کی برائیوں کے برابرہوں ،یااللہ تعالیٰ اسکے اعمال کوکفر،شرک کی وجہ سے وزن ہی نہ دے گا تواس بدبخت کاٹھکانہ جہنم ہوگا،جیسے فرمایا

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ۝۹ [11]

ترجمہ:اوروزن اس روزعین حق ہوگاجن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے اورجن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کوخسارے میں مبتلاکرنے والے ہوں گے۔

اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴اُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا۝۱۰۵ [12]

ترجمہ:وہ کہ دنیاکی زندگی میں جن کی ساری سعی وجہدراہ راست سے بھٹکی رہی اوروہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کوماننے سے انکارکیااوراس کے حضورپیشی کایقین نہ کیا ، اس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ،قیامت کے روزہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔

ا س شخص کے پاوں میں بھاری بیڑیاں پہناکراور گلے میں طوق ڈال کر سر کے بل جہنم کے عمیق گھڑے میں ڈال دیاجائے گا،جیسے فرمایا

اِنَّ لَدَیْنَآ اَنْكَالًا وَّجَحِــیْمًا۝۱۲ۙ [13]

ترجمہ:ہمارے پاس(ان کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ۔

اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَا۟ وَاَغْلٰلًا وَّسَعِیْرًا۝۴ [14]

ترجمہ:کفر کرنے والوں کےلیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔

جہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہوگی اورجہنم کا عذاب اس کو چمٹ جائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا۝۶۵ۤۖ [15]

ترجمہ:اس کاعذاب توجان کالاگو ہے۔

جہنم کی ہولناکی اورشدت عذاب کوبیان کرنے کے لئے سوال کیاگیا اور تم کیا جانو کہ وہ ہاویہ کیا ہے، پھرخودہی تشریح فرمائی ہم تمہیں بتلاتے ہیں وہ سخت حرارت والی آگ ہوگی ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِیَةً،قَالَ:فُضِّلَتْ عَلَیْهِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّینَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری آگ (کی حرارت) جہنم کی آگ (کی حرارت) کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے،عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (ہماری آگ کی حرارت) کافی ہے، فرمایا کہ وہ اس پر انہتر حصہ زیادہ کردی گئی ہے ہر حصہ میں اتنی ہی گرمی ہے۔ [16]

عَنْ یَحْیَى بْنِ جَعْدَةَ:إِنَّ نَارَكُمْ هَذِهِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، وَضُرِبَتْ بِالْبَحْرِ مَرَّتَیْنِ، وَلَوْلَا ذَلِكَ مَا جَعَلَ اللَّهُ فِیهَا مَنْفَعَةً لِأَحَدٍ

یحییٰ بن جعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ آگ باوجوداس آگ کاسترھواں حصہ ہونے کے بھی دومرتبہ سمندرکے پانی میں بجھاکربھیجی گئی ہے اگریہ نہ ہوتاتواس سے بھی نفع نہ اٹھاسکتے۔ [17]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَدْرُونَ مَا مَثَلُ نَارِكُمْ هَذِهِ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ؟لَهِیَ أَشَدُّ سَوَادًا مِنْ دُخَانِ نَارِكُمْ هَذِهِ بِسَبْعِینَ ضِعْفًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم جانتے ہوکہ تمہاری اس آگ اورجہنم کی آگ کے درمیان کیانسبت ہے؟تمہاری اس آگ کے دھوئیں سے بھی سترحصہ زیادہ سیاہ خودوہ آگ ہے۔[18]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَایَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِی بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَیْنِ، نَفَسٍ فِی الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِی الصَّیْفِ،فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِیرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی اے میرے رب!میراایک حصہ دوسرے حصے کوکھائے جارہاہے ،اللہ تعالیٰ نے اسے دوسانس لینے کی اجازت فرمادی ،ایک سانس گرمی میں اورایک سانس سردی میں ، پس جوسخت سردی ہوتی ہے یہ اس کا ٹھنڈاسانس ہے اورنہایت سخت گرمی جوپڑتی ہے وہ جہنم کاگرم سانس ہے۔[19]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَهَنَّمَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب گرمی زیادہ سخت ہوتونمازٹھنڈی کرکے پڑھو اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے۔[20]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا یَنْتَعِلُ بِنَعْلَیْنِ مِنْ نَارٍ، یَغْلِی دِمَاغُهُ مِنْ حَرَارَةِ نَعْلَیْهِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے ہلکے عذاب والاجہنمی وہ ہے جس کے پیروں میں آگ کی دوجوتیاں ہوں گی جس سے اس کادماغ کھدبدیاں لے رہاہوگا۔[21]ہم اس آگ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں ۔

اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ

أَسْلَمَتْ قَدِیمًا بِمَكَّةَ , وَبَایَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ وَهِیَ ذَاتُ النِّطَاقَیْنِ

اسماء رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ ہی میں شروع زمانہ اسلام میں مسلمان ہوگئی تھیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کاشرف بھی حاصل کرلیاتھا،انہی کالقب ذات النطاقین (دوپٹکوں والی)ہے۔[22]

وأسلمت بعد سبعة عشر إنسانا

اسماء رضی اللہ عنہا سترہ مردوعورتوں کے ایمان لانے کے بعددائرہ اسلام میں داخل ہوئیں ۔[23]

إن أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِی بَكْرٍ أسلمت بعد [إسلام] سبعة عشر إنسانًا

اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکرسترہ مرو عورتوں کے ایمان لانے کے بعددائرہ اسلام میں داخل ہوئیں ۔[24]

آپ عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ (سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) کی بیٹی ہیں جو مردوں میں بلاکسی تامل وتردد سب سے پہلے ایمان لائے،

وَأُمُّهَا: هِیَ قُتَیْلَةُ بِنْتُ عَبْدِ العُزَّى العَامِرِیَّةُ ،وَأُخْتُ أُمِّ المُؤْمِنِیْنَ عَائِشَةَ

ان کی والدہ کانام قتیلہ بنت عبدالعزی العامریہ تھا آپ ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں ۔[25]

طَلَّقَ امْرَأَتَهُ قُتَیْلَةَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَهِیَ أُمُّ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ

سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قتیلہ کو جاہلیت میں طلاق دے دی تھی اوریہ اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں ۔[26]

ولدت قبل الهجرة بسبع وعشرین سنة

آپ ہجرت سے ستائیس سال قبل پیداہوئیں ۔ [27]

ولدت قبل التاریخ بسبع وعشرین سنة

آپ تاریخ سے ستائیس سال قبل پیداہوئیں ۔[28]

وَكَانَتْ أَسَنَّ مِنْ عَائِشَةَ بِبِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً

آپ رضی اللہ عنہ ام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں ۔[29]

وَكَانَتْ أَسَنَّ مِنْ عَائِشَةَ، وُلِدَتْ قَبْلَ التَّأْرِیخِ بِسَبْعٍ وَعِشْرِینَ سَنَةً

آپ رضی اللہ عنہ ام المومنین عائشہ صدیقہ سے عمرمیں بڑی تھیں ،آپ ہجرت سے ۲۷سال قبل پیداہوئیں ۔ [30]

حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِیهِ، وَفَاطِمَةُ،عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ:صَنَعْتُ سُفْرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِ أَبِی بَكْرٍ حِینَ أَرَادَ أَنْ یُهَاجِرَ. قَالَتْ:فَلَمْ نَجِدْ لِسُفْرَتِهِ وَلَا لِسِقَائِهِ مَا نَرْبِطُهُمَا بِهِ. قَالَتْ:فَقُلْتُ لِأَبِی بَكْرٍ: وَاللَّهِ مَا أَجِدُ شَیْئًا أَرْبِطُهُ بِهِ إِلَّا نِطَاقِی. قَالَ:فَقَالَ: شُقِّیهِ بِاثْنَیْنِ، فَارْبِطِی بِوَاحِدٍ السِّقَاءَ، وَالْآخَرِ السُّفْرَةَ، فَلِذَلِكَ سُمِّیَتْ ذَاتَ النِّطَاقَیْنِ

ہشام بن عروہ اپنے والدسے اوروہ اپنی والدہ اسماء سے نقل کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کاارادہ کیاتومیں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرکے لیے کھانا تیار کیا لیکن کھانااورمشکیزہ باندھنے کے لیے مجھے کوئی کپڑانہیں مل رہاتھا،میں نےاپنے والدسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں ان دونوں چیزوں کوباندھنے کے لیے اپنے کمربندکے سواکوئی کپڑانہیں پاتی، انہوں نے فرمایاکہ اس کے دوٹکڑے کر لو اور ایک سے کھانااوردوسرے سے مشکیزہ باندھ دو، پس میں نے ایساہی کیااس وقت سے میرانام ذات النطاقین پڑگیا۔[31]

آپ کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا جن کاپہلانکاح امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے حقیقی چچاحارث بن حرب سے ہواان کے انتقال کے بعددوسرانکاح العوام بن خویلدسے ہواتھاجن سے زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئےانہی حواری رسول زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام بن خویلدسے ہوا۔

فَوَلَدَتْ لَهُ عَبْدَ اللَّهِ وَعُرْوَةَ وَالْمُنْذِرَ وَعَاصِمًا وَالْمُهَاجِرَ وَخَدِیجَةَ الْكُبْرَى وَأُمَّ الْحَسَنَ وَعَائِشَةَ

جن سے اسماء رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہا کے یہاں عبداللہ،عروہ،منذر،عاصم،مہاجر،خدیجہ الکبری،ام حسن اورعائشہ آٹھ بچے پیداہوئے۔

اس طرح آپ کوایک صحابی رسول کی اہلیہ ہونے کاشرف ملا،

شدیدة الحیاء قویة الایمان وفقیرة الحال

وہ شدیدحیاء والی قوی ایمان والی فقیرانہ شخصیت کی حامل تھیں ۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ،وَكَانَتِ امْرَأَةً سَخِیَّةَ النَّفْسِ

محمدبن منکدرسے مروی ہے اسماء رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہا بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک فیاض وسخی خاتون تھیں ۔[32]

فلما هاجر النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى المدینة وتبعه أصحابه أرسالا، خرجت أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِی بَكْرٍ بعد أن هاجر النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بأشهر

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ پہنچ گئے توکچھ لوگوں کوانہیں لانے کے بھیجا،اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک ماہ بعد ہجرت کی۔[33]

وهاجرت إلى المدینة وهی حامل بعبد الله بن الزبیر، فوضعته بقباء

جب انہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تواس وقت وہ عبداللہ بن زبیرسے حاملہ تھیں اورمقام قبا پرعبداللہ بن زبیرپیداہوئے۔ [34]

عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ أَخْبَرَهُ عَنْ [أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ أَنَّهَا جَاءَتِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ لَیْسَ فِی بَیْتِی شَیْءٌ إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَیَّ الزُّبَیْرُ فَهَلْ عَلَیَّ جُنَاحٌ أَنْ أَرْضَخَ مِمَّا أَدْخَلَ عَلَیَّ؟ فَقَالَ:ارْضَخِی مَا اسْتَطَعْتِ وَلَا تُوكِی فَیُوكِیَ اللَّهُ عَلَیْكِ

عبادبن عبداللہ بن زبیرسے مروی ہے اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اورعرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میرے گھرمیں زبیر رضی اللہ عنہ کی لائی ہوئی چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اگرمیں اس میں سے کچھ صدقہ خیرات کروں تومجھ پرکوئی گناہ تونہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجہاں تک ہوسکے صدقہ خیرات کیاکرواورتھیلی کامنہ باندھ کرنہ رکھاکروورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپربھی تھیلی کامنہ باندھ دے گا ۔[35]

 عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَدِمَتْ قُتَیْلَةُ ابْنَةُ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ عَبْدِ أَسْعَدَ مِنْ بَنِی مَالِكِ بْنِ حَسَلٍ، عَلَى ابْنَتِهَا أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِی بَكْرٍ بِهَدَایَا، ضِبَابٍ، وَقِرظٍ، وَسَمْنٍ وَهِیَ مُشْرِكَةٌ، فَأَبَتْ أَسْمَاءُ أَنْ تَقْبَلَ هَدِیَّتَهَا، وَتُدْخِلَهَا بَیْتَهَا، فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَا یَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوكُمْ فِی الدِّینِ} [36]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَقْبَلَ هَدِیَّتَهَا وَأَنْ تُدْخِلَهَا بَیْتَهَا

عبداللہ بن زبیرسے مروی ہے قتیلہ بنت عبدالعزی اپنی بیٹی اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ ہدایہ کشمش،گھی اوردرخت سلم کے پتے وغیرہ لے کرآئیں ،سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں ان کوطلاق دے دی تھی،اسماء رضی اللہ عنہا نےان کاہدیہ قبول کرنے اوران کوگھرمیں داخل ہونے سے انکارکردیااورام المومنین عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجوایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں معلوم کرکے بتائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ انہیں گھرمیں داخل ہونے کی اجازت دیں اوران کاہدیہ قبول کریں [37] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الممتحنہ کی آیت۸ ،۹ کی نازل فرمائی، ’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا بر تاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے،وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں ۔‘‘چنانچہ انہوں نے انہیں گھرمیں داخل ہونے کی اجازت فرمائی اوران کی تحفہ قبول فرمالیا۔[38]

وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهَا

آخری عمرمیں آپ رضی اللہ عنہا کی بنیائی زائل ہوگئی تھی ۔ [39]

اسماء رضی اللہ عنہا ہمیشہ سادہ لباس ہی پہنتی تھیں ،

عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَأَنَّ الْمُنْذِرَ بْنَ الزُّبَیْرِ قَدِمَ مِنَ الْعِرَاقِ فَأَرْسَلَ إِلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ بِكِسْوَةٍ من ثیاب مرویة وقوهیة رقاق عتاق بعد ما كُفَّ بَصَرُهَاقَالَ: فَلَمَسَتْهَا بِیَدِهَا ثُمَّ قَالَتْ: أُفٍّ! رُدُّوا عَلَیْهِ كِسْوَتَهُ ، قَالَ: فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَیْهِ وَقَالَ: یَا أُمَّهْ إِنَّهُ لا یَشِفُّ، قَالَتْ: إِنَّهَا إِنْ لَمْ تَشِفَّ فَإِنَّهَا تَصِفُ، قال: فَاشْتَرَى لَهَا ثِیَابًا مَرْوِیَّةً وَقَوْهِیَّةً فَقَبِلَتْهَا وَقَالَتْ: مِثْلَ هَذَا فَاكْسُنِی

ہشام بن عروہ سے مروی ہےمنذربن زبیرجب عراق سے آئے تواسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس انتہائی قیمتی ونفیس مروی وقوہی کپڑے بھیجے،اسماء رضی اللہ عنہا اس وقت نابیناہوچکی تھیں انہوں نے کپڑوں کوہاتھ سے ٹٹول کر فرمایا اف!انہیں ان کے کپڑے واپس لوٹادو، منذربن زبیرکویہ بات شاق گزری اورانہوں نے عرض کیاامی جان!ان کپڑوں میں بدن نہیں جھلکتا، اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایااگرچہ بدن نہ جھلکتاہولیکن یہ کپڑے خوبصورت اوربھڑکیلے توہیں ،پھرمنذرنے ان کے لیے دوسرے مروی وقوہی کپڑے خریدکرپیش کیے جنہیں انہوں نے قبول کرلیااورفرمایااس جیسے کپڑے مجھے پہنایاکرو۔ [40]

عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ أَنَّهَا قَالَتْ:مَا رَأَیْتُ أَسْمَاءَ لَبِسَتْ إِلا مُعَصْفَرًا حَتَّى لَقِیَتِ اللَّهَ وَإِنْ كَانَتْ لَتَلْبَسُ الدِّرْعَ یَقُومُ قیاما من العصفر.

فاطمہ بنت منذرسے مروی ہےفرماتی ہیں کہ میں نے اسماء رضی اللہ عنہا کوہمیشہ عصفرمیں رنگے ہوئے کپڑے ہی پہنے ہوئے دیکھاہے یہانتک کہ وہ اللہ کوپیاری ہوگئیں ،البتہ کبھی کبھی وہ ایسالباس بھی پہن لیاکرتی تھیں جوعصفرکے قائم مقام ہوتاتھا۔[41]

عَنِ الرُّكَیْنِ بْنِ الرَّبِیعِ قَالَ:قَالَ:دَخَلْتُ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ وَهِیَ عَجُوزٌ كَبِیرَةٌ عَمْیَاءُ فَوَجَدْتُهَا تُصَلِّی وَعِنْدَهَا إِنْسَانٌ یُلَقِّنُهَا: قُومِی. اقْعُدِی. افْعَلِی

رکین بن ربیع سے مروی ہےفرماتے ہیں میں اسماء رضی اللہ عنہا بنت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیاوہ بہت بوڑھی اورنابیناہوگئی تھیں ،وہ اس وقت نمازپڑھ رہی تھیں ان کے پاس ایک شخص بیٹھاہواتھاجوبتاتاجاتاتھاکہ کھڑی ہوجاؤ ،اب یہ کرواوراب یہ کرو۔[42]

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: فَرَضَ عُمَرُ الأَعْطِیَةَ فَفَرَضَ لأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ أَلْفَ دِرْهَمٍ

مصعب بن سعدسے مروی ہےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب وظائف مقررکیے تواسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ کاوظیفہ ایک ہزاردرہم مقررفرمایا۔[43]

وتوفیت أسماء بمكة فِی جمادى الأولى سنة ثلاث وسبعین ، وقد بلغت مائة سنة

اسماء رضی اللہ عنہا کامکہ میں جمادی الاولی تہترہجری میں انتقال ہوا، جب وہ فوت ہوئیں تو ان کی عمرسوسال کی تھی۔[44]

سبب نزول سورة التکاثر:

عَنِ ابْنِ بُرَیْدَةَ فِی قَوْلِهِ: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ قَالَ: نَزَلَت قَبِیلَتَیْنِ مِنْ قَبَائِلِ الْأَنْصَارِ، فِی بَنِی حَارِثَةَ وَبَنِی الْحَارِثِ، تَفَاخَرُوا وَتَكَاثَرُوا فَقَالَتْ إِحْدَاهُمَا: فِیكُمْ مثلُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ، وَفُلَانٍ؟ وَقَالَ الْآخَرُونَ مِثْلَ ذَلِكَ، تَفَاخَرُوا بِالْأَحْیَاءِ، ثُمَّ قَالُوا: انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى الْقُبُورِفَجَعَلَتْ إِحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ تَقُولُ: فِیكُمْ مِثْلُ فُلَانٍ؟ یُشِیرُونَ إِلَى الْقَبْرِ وَمِثْلُ فُلَانٍ؟ وَفَعَلَ الْآخَرُونَ مِثْلَ ذَلِكَ ،فَأَنْزَلَ اللَّهُ:أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیمَا رَأَیْتُمْ عِبْرَةٌ وَشُغْلٌ

بریدہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان’’ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ‘‘کے نزول کے بارے میں کہتے ہیں قبائل بنوحارثہ اوربنوحارث میں ایک مباحثہ شروع ہوگیااورہرقبیلے کافرداپنے قبیلے کے افرادکے مفاخر بیان کرنے لگا ایک کہتاتھادیکھوہم میں فلاں شخص ایسا بہادر اور ایسا مالداروغیرہ ہے، دوسرے قبیلے والے اپنے میں سے اس طرح کے لوگوں کوپیش کرتے تھے،جب زندوں کے ساتھ یہ فخرومباہات کرچکے توکہنے لگے آؤ قبرستان چلیں ،وہاں جاکر اپنے آباؤ اجدادکی قبروں کی طرف اشارے کرکے کہنے لگے بتلاؤ اس جیسابھی تم میں کوئی گزراہے،وہ انہیں اپنے مردوں کے ساتھ الزام دینے لگے،اس پس منظرمیں یہ دونوں ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں کہ تم فخرومباہات کرتے ہوئے قبرستان میں پہنچ گئے اوراپنے اپنے مردوں پرفخروغرورکرنے لگے حالاں کہ چاہئے تویہ تھاکہ اس شہر خاموشاں میں آکرعبرت حاصل کرتےاوراپنامرنااورگلناسڑنایادکرتے۔[45]

مگریہ سورت مکی ہے اس لئے مدنی قبائل بنو حارثہ اوربنوحارث میں مفاخرکاکیاسوال پیداہوتاہے،

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُقَاتِلٌ وَالْكَلْبِیُّ: نَزَلَتْ فِی حَیَّیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ: بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ، وَبَنِی سَهْمٍ، تَعَادُّوا وَتَكَاثَرُوا بِالسَّادَةِ وَالْأَشْرَافِ فِی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ كُلُّ حَیٍّ مِنْهُمْ نَحْنُ أَكْثَرُ سَیِّدًا، وَأَعَزُّ عَزِیزًا، وَأَعْظَمُ نَفَرًا، وَأَكْثَرُ عَائِذًا، فَكَثَرَ بَنُو عَبْدِ مَنَافٍ سَهْمًا. ثُمَّ تَكَاثَرُوا بِالْأَمْوَاتِ، فَكَثَرَتْهُمْ سَهْمٌ، فَنَزَلَتْ أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ بأحیائكم فلم ترضوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ،مقاتل رحمہ اللہ اور امام کلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بنی عبدمناف اوربنی سہم میں سے ہرقبیلہ نے ایک دوسرے سے کہاکہ ہم سرداری اور عزت میں تم سے برترہیں ہمارے قبیلے کے افرادکی تعدادبھی تم سے زیادہ ہے ،بنوسہم نے کہا کہ اب ہم اپنے مردوں کوشمارکریں گے،چنانچہ قبرستان میں جاکرفوت شدگان کو شمارکیاگیاتوبنی سہم کے تین گھربڑھ گئے،اس پراللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی جس میں انسان کی غفلت پرمذمت وافسوس کا اظہار کیا گیا۔[46]

وَقَالَ مُقَاتِلٌ وَقَتَادَةُ أَیْضًا وَغَیْرُهُمَا: نَزَلَتْ فِی الْیَهُودِ حِینَ قَالُوا: نَحْنُ أَكْثَرُ مِنْ بَنِی فُلَانٍ، وَبَنُو فُلَانٍ أَكْثَرُ مِنْ بَنِی فُلَانٍ

مقاتل رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورة یہودکے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے یہ کہاکہ بیشک ہم فلاں فلاں قبیلے سے تعدادمیں زیادہ ہیں ۔[47]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلَا یَسْتَطِیعَ أَحَدُكُمْ أَنْ یَقْرَأَ أَلْفَ آیَةٍ فِی كُلِّ یَوْمٍ؟ قَالُوا: وَمَنْ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَقْرَأَ أَلْفَ آیَةٍ فِی كُلِّ یَوْمٍ؟ قَالَ:أَمَا یَسْتَطِیعُ أَحَدُكُمْ أَنْ یَقْرَأَ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ؟!

اس سورة کی فضیلت کے بارے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم میں سے کسی میں یہ طاقت ہے کہ وہ روزانہ ایک ہزارآیات کی تلاوت کرسکے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاروزانہ ایک ہزارآیات کی تلاوت کرنے کی کس میں طاقت ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم میں کوئی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ روزانہ سورہ التکاثرکی تلاوت کر سکے؟۔[48]

[1] الحج۲

[2] القمر۷

[3] النمل ۸۸

[4] الکہف۹۹

[5] طہ۱۰۲

[6] یٰسین۵۱

[7] النبا۱۸

[8] الانبیاء ۴۷

[9] لقمان۱۶

[10] الزلزال۷،۸

[11] الاعراف ۸،۹

[12] الکہف۱۰۴،۱۰۵

[13] المزمل۱۲

[14] الدھر۴

[15] الفرقان ۶۵

[16] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ صِفَةِ النَّارِ، وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۶۵،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابٌ فِی شِدَّةِ حَرِّ نَارِ جَهَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِهَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ۷۱۶۵

[17] مسنداحمد۷۳۲۷،صحیح ابن حبان ۷۴۶۳

[18] المعجم الاوسط للطبرانی۴۸۵

[19] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاة بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِی شِدَّةِ الحَرِّ۵۳۷،وکتاب بدء الخلق بَابُ صِفَةِ النَّارِ، وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۶۰، صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ اسْتِحْبَابِ الْإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِی شِدَّةِ الْحَرِّ۶۱۷

[20] صحیح بخاری کتاب الصلاةبَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِی شِدَّةِ الحَرِّ۵۳۶،صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ اسْتِحْبَابِ الْإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِی شِدَّةِ الْحَرِّ۱۳۹۸

[21] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا۵۱۴،مسنداحمد۱۱۲۱۶

[22] ابن سعد۱۹۶؍۸

[23] اسدالغابة۷؍۷

[24] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۷۸۲؍۴

[25] سیر أعلام النبلاء۵۲۰؍۳

[26] معرفة الصحابة لابی نعیم۳۲۵۴؍۶

[27] الإصابة فی تمییز الصحابة۱۴؍۸

[28] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۷؍۷

[29] سیر أعلام النبلاء ۵۲۰؍۳

[30] معرفة الصحابة لابی نعیم۳۲۵۶؍۶

[31] ابن سعد ۱۹۶؍۸

[32] ابن سعد۱۹۸؍۸،سیراعلام النبلائ۵۲۲؍۳

[33] الإصابة فی تمییز الصحابة۷۹؍۴

[34]اسد الغابة ۷؍۷، الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۷۸۲؍۴، الإصابة فی تمییز الصحابة۱۳؍۸

[35] ابن سعد۱۹۸؍۸

[36] الممتحنة: 8

[37] الممتحنہ۸،۹

[38] ابن سعد۱۹۸؍۸

[39] معرفة الصحابة لابی نعیم ۳۲۵۳؍۶

[40] ابن سعد۱۹۸؍۸

[41] ابن سعد۱۹۹؍۸

[42] ابن سعد۱۹۸؍۸

[43] ابن سعد۱۹۹؍۸

[44] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۷۸۲؍۴، معرفة الصحابة لابن منده۹۸۲؍۱

[45] ابن ابی حاتم محققا۱۹۴۵۳

[46] تفسیر المظہری ۳۳۵؍۱۰، تفسیرالقرطبی۱۶۸؍۲۰، تفسیرالخازن۴۶۴؍۴

[47] فتح القدیر۵۹۶؍۵

[48] مستدرک حاکم۲۰۸۱،شعب الایمان ۲۲۸۷

Related Articles