بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة القلم

اللہ کی طرف سے پے درپے سورتیں  نازل ہورہیں  تھیں  جن میں  مشرکین کے اعتراضات کے مختلف پہلوؤ ں  سے مدلل جوابات دیئے جارہے تھے مگرمشرکین اپنی جگہ سے ہٹنےکو تیار نہ تھے ،بلکہ نصیحت حاصل کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مشرکین کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیارکرچکی تھی کہ یہ سورة نازل ہوئی جس میں  پھر مخالفین کے اعتراضات وشبہات کے جواب دیئے گئے،سورة کاآغازقسمیہ کلمات سے ہے ،اس سورة کے تین مضامین کچھ اس طرح ہیں ۔

xمخالفین مکہ کے شبہات کاازالہ:کفارمکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیوانہ اورمجنون کہتے تھے،اس کے بارے میں  فرمایا کہ جوکلام آپ پیش کررہے ہیں  وہ اخلاق وکردارکی قدروں  کا امین ہے اوریہ لوگ عنقریب آگاہ ہوں  گے کہ مجنون کون ہے اورفرزانہ کون؟لہذامخالفت کاجوطوفان تمہارے خلاف اٹھایاجارہاہے اس کادباؤ ہرگزقبول نہ کرو،دراصل یہ ساری باتیں  کی ہی اس لیے جارہی ہیں  کہ تم کسی نہ کسی طرح دب کران سے مصالحت کرنے کے لیے تیارہوجاؤ ،خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ومناقب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے مخالفین کی اخلاقی پستی،کمینگی اور کج فکری بھی بیان کی گئی ہے ،فرمایاکہ تم میں  ایک ایساشخص(ولیدبن مغیرہ) بھی ہے جوزیادہ قسمیں  کھانے والا،بے وقار ، کمینہ ،عیب گو،چغل خور،بھلائی سے روکنے والا، حد سے بڑھ جانے والا،گناہ گار،گردن کش پھرساتھ ہی بے نسب بھی ہے،اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ کردار اوراخلاق حسنہ کے تم خود شاہد اورگواہ ہو۔

xمخالفین مکہ کونصیحت:یمن کے قریب واقع ایک باغ والوں  کی مثال بیان فرمائی جس کامالک اس کی پیداوارمیں  سے غرباء پرخرچ کیاکرتاتھااوراللہ کے حکم سے باغ بھی پوری پیداواردیتاتھالیکن اس کے مرنے کے بعدجب اس کی اولاداس باغ کی وارث بنی تو وہ ساری نعمتوں  کے مل جانے کے باوجودناقدری وناشکری کرتے تھے،ان میں  سے ایک شخص نے جب ان کونصیحت کی توانہوں  نے اس نصیحت کونہ ماناجب سب کچھ تباہ وبربادہوگیاتواس وقت ان کی آنکھیں  کھلیں ،اس مثال کے بعداہل مکہ کوتنبیہ کی کہ مجرموں  اورفرماں برداروں  کا انجام ایک سانہ ہوگابلکہ وہ لوگ جن کواللہ کی عبادت کاحکم دیاجاتاہے اوروہ انکارکررہے ہیں ،قیامت کے روزاگریہ میدان حشرمیں  سجدہ ریزبھی ہوناچاہیں  گے توسجدہ ریز نہ ہوسکیں  گے اوران کو ذلت وخواری کے انجام سے دوچارہوناپڑے گا،قرآن کوجھٹلاکروہ اللہ کے عذاب سے بچ نہیں  سکتے اورقیامت کے دن ان کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کوصبرواستقامت کی تلقین:سورة کے آخرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کوفرمایاکہ دین حق کی راہ میں  اہل اسلام مصائب ومشکلات کو صبرواستقامت سے برداشت کریں ،ان کامرتبہ اللہ کے ہاں  کس قدربلندہوگا،صبرواستقامت کی تلقین کے لیے یونس علیہ السلام کاواقعہ بھی اشارة مذکورہے ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ ‎﴿١﴾‏ مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ‎﴿٢﴾‏ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَیْرَ مَمْنُونٍ ‎﴿٣﴾‏ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ ‎﴿٤﴾‏(القلم)
’’ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں ،تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے، اور بیشک تیرے لیے بےانتہاء اجر ہے، اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔‘‘

عَنْ أَبِی حَفْصَةَ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ: یَا بُنَیَّ، إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِیقَةِ الْإِیمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ یَكُنْ لِیُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ یَكُنْ لِیُصِیبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ: “ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِیرَ كُلِّ شَیْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ “ یَا بُنَیَّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ مَاتَ عَلَى غَیْرِ هَذَا فَلَیْسَ مِنِّی

عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ نے ابوحفصہ سے مروی ہےاپنے بیٹے سے کہامیرے بیٹے!تواس وقت ایمان کی حقیقت نہیں  پاسکتاجب تک یہ یقین نہ کرلے کہ جوکچھ تمہیں  حاصل ہو چکا ہے ،یہ تم سے رہ نہیں  سکتاتھااورجوحاصل نہیں  ہواہے وہ مل نہیں  سکتاتھا،میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ نے فرمایااللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیداکیا پھر اس سے فرمایاکہ لکھو،اس نے کہااے میرے رب!کیالکھوں ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایاقیامت قائم ہونے تک ہرہرچیزکی تقدیرلکھ، اے میرے بیٹے! میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو اس (اعتقاد و یقین کے بغیر) مر گیا تو وہ مجھ سے نہیں  ہے۔ [1]

اورکتاب کی قسم کھاکران عیوب کے بارے میں  جوآپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں  برات فرمائی کہ نبوت سے پہلے اہل مکہ آپ کو صادق وامین جانتے تھے،آپ کی دیانت وامانت اورکامل عقل وفراست عمدہ رائے پراعتمادرکھتے تھے مگرجب آپ پروحی نازل ہوئی توپہلی تباہ شدہ اقوام کی طرح وہ آپ پردیوانہ ہونے کی تہمت لگانے لگے،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ۝۶ۭ [2]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں  اے وہ شخص جس پریہ ذکر نازل ہوا ہے تو یقیناً دیوانہ ہے۔

حالانکہ جس اعلیٰ درجہ کے فصیح وبلیغ کلام(قرآن) کی وجہ سے مشرکین آپ کومجنون کہہ رہے ہیں  وہی بلندپایہ مضامین پرمشتمل پاکیزہ کلام ہی اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے،اس کے علاوہ منکرین حق کے جھوٹ کی تردیدکے لئے اتناہی کافی ہے کہ نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ کاکوئی شخص آپ کے پسندیدہ بلند اخلاق،بہترین خصلتیں  اور پاکیزہ عادتیں  یعنی تہذیب وشائستگی،نرمی وشفقت،امانت وصداقت،حلم وکرم اوردیگرخوبیوں  سے ناواقف نہیں  ہے بلکہ اس کی شہادت دیتاہے کہ آپ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہیں ،آپ کے ذہن اورمزاج غایت درجہ متوازن ہیں ،

سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ أَنْبِئِینِی عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ:أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ:فَإِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ

سعیدبن ہشام نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھااے مومنوں  کی ماں  رضی اللہ عنہا !مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں  بتلائیں ،توآپ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکیاتونے قرآن نہیں  پڑھا؟انہوں  نے کہاہاں  پڑھاہے،آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخلق وہی تھاجس کا قرآن میں  حکم ہے۔ [3]

عَنْ قَیْسِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ بَنِی سُوَاءَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ {إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیمٍ} [4]؟

اور قیس بن وہب سے مروی ہےبنوسوادکے ایک شخص نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں  پوچھا، انہوں  نے پوچھاکیاتونے قرآن میں  یہ نہیں  پڑھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایابیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پرہو۔ [5]

أَنَسٌ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:خَدَمْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِینَ فَمَا قَالَ لِی: أُفٍّ وَلاَ: لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلاَ: أَلَّا صَنَعْتَ

انس رضی اللہ عنہ کابیان ہےمیں  نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن کسی دن اف تک نہیں  کہا اور نہ کبھی فرمایا کہ کیوں  تو نے ایسا کیا اور نہ یہ فرمایا کہ کیوں  تو نے ایسا نہیں  کیا۔ [6]

یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہیں ۔

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ۝۱۹۹ [7]

ترجمہ: اے نبی درگزر کا طریقہ اختیار کرو،معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں  سےنہ الجھو۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۔۔۔ ۝۱۵۹ [8]

ترجمہ:(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں  کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں  تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲۸ [9]

ترجمہ:دیکھو تمہارے پاس ایک رسول آیاہے جو تم ہی میں  سے ہے، تمہارانقصان میں  پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں  کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے توصرف صالح اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایاگیاہے۔ [10]

اس لئے آپ ان کے الزامات اورتہمتوں  پردھیان دیئے بغیر دین حق کی تبلیغ کے لئے کوششیں  کرتے رہیں  ، فریضہ نبوت کی ادائیگی میں  جتنی زیادہ اذیت ناک الزامات وتہمات اور تکلیفیں  آپ برداشت کررہے ہیں  اس پراللہ تعالیٰ اس پر آپ کوکبھی نہ ختم ہونے والابے حدوحساب اجر عطا فرمائے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔عَطَاۗءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۝۱۰۸ [11]

ترجمہ:ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ۔

۔۔۔ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۝۶ۭ [12]

ترجمہ: ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔

فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُونَ ‎﴿٥﴾‏ بِأَییِّكُمُ الْمَفْتُونُ ‎﴿٦﴾‏ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ‎﴿٧﴾‏(القلم)
’’پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے،بیشک تیرا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو خوب جانتا ہےاور وہ راہ یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !بہت جلد(روزمحشر) جب سارے پردے اٹھ جائیں  گے اور حق واضح ہوجائے گا تو آپ اورآپ کے مخالفین ومنکرین جان جائیں  گے کہ بہکاہوا،گمراہ، دیوانہ اورشرپسند کون ہے،جیسے فرمایا

سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ۝۲۶ُ [13]

ترجمہ:(ہم نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ) انہیں  کل ہی معلوم ہوا جاتا ہے کہ کون پرلے درجے کا جھوٹا اوربرخودغلط ہے۔

۔۔۔وَاِنَّآ اَوْ اِیَّاكُمْ لَعَلٰى ہُدًى اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۲۴ [14]

ترجمہ: اب لامحالہ ہم میں  اور تم میں  سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں  پڑا ہوا ہے ۔

تم میں  سے بہکنے والے اورراہ راست والے سب اللہ تعالیٰ پرظاہرہیں اسے خوب معلوم ہے کہ راہ راست سے کس کاقدم پھسل گیاہے اورکون سیدھے راستے پرچل رہے ہیں ۔

‏ فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِینَ ‎﴿٨﴾‏ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُونَ ‎﴿٩﴾‏ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِینٍ ‎﴿١٠﴾‏ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِیمٍ ‎﴿١١﴾‏ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ أَثِیمٍ ‎﴿١٢﴾‏ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِیمٍ ‎﴿١٣﴾‏ أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِینَ ‎﴿١٤﴾‏ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِ آیَاتُنَا قَالَ أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٥﴾ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ ‎﴿١٦﴾‏(القلم)
’’پس تو جھٹلانے والوں کی نہ مان ،وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑجائیں ،اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہنا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا،بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور، بھلائی سے روکنے والا، حد سے بڑھ جانے والا گنہگار، گردن کش پھر ساتھ ہی بےنسب ہو، اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وہ مال والا اور بیٹوں والا ہے،جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے یہ تو اگلوں کے قصے ہیں ، ہم بھی اس کی سونڈ (ناک) پر داغ دیں گے۔‘‘

جب قریش کی اسلام کی دعوت روکنے کی ہرکوشش ناکام ہوگئی توانہوں  نے کچھ لواورکچھ دوکے اصول پر سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے معبودوں  اوران کے دین کے بارے میں  خاموش ہوجائیں  تووہ بھی آپ کے بارے میں  خاموش رہیں  گے لہذا فرمایا گیاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ منکرین حق جوخواہشات نفس کی اطاعت کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَةً۝۰ۭ فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْۢ بَعْدِ اللہِ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۲۳ [15]

ترجمہ:پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں  پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں  پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں  پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں  لیتے؟۔

آپ پر الزامات ،تہمات وغیرہ لگاکراوراہل ایمان کوتکالیف پہنچاکرآپ کودباؤ میں  لاناچاہتے ہیں  تاکہ آپ ان کی گمراہیوں  کی رعایت کرکے اپنے دین میں  کچھ ترمیم کرنے پرآمادہ ہوجائیں  تویہ بھی آپ کے ساتھ مصالحت کرکے مخالفت میں  کچھ نرمی اختیارکرلیں ،لیکن باطل کے ساتھ مداہنت کانتیجہ یہ ہوگاکہ باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں  ڈھیلے ہوجائیں  گے ،اس لئے حق میں  مداہنت حکمت تبلیغ اورکارنبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے ،کافروں  کی اخلاقی پستیوں  کاذکرکیاگیاجن کی خاطر پیغمبر کو مداہنت کرنے سے روکاگیاکہ آپ اس حقیر،ذلیل اورگھٹیاآدمی (ابوجہل سے پہلے قریش کارئیس ولیدبن مغیرہ جس کے نسب کااٹھارہ سال بعدپتہ چلا،یااسودبن عبدیغوث زہری یااخنس بن شریق ثقفی جوبنوزہرہ کاحلیف تھا) سے ہر گزنہ دبیں ، جوجھوٹاہے اوراپنے جھوٹ کوسچاثابت کرنے کے لئے بہت قسمیں  کھانے والاہے ،جو لوگوں  کی بہت زیادہ عیب چینی کرتاہے اورغیبت واستہزاکے ذریعے سے طعنہ زنی کرتاہے،جو لوگوں  کے درمیان فسادڈالنے،عداوت اوربغض پیداکرنے کی غرض سے لگائی بجھائی کرتا پھرتا ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِیطَانِ المَدِینَةِ، أَوْ مَكَّةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَیْنِ یُعَذَّبَانِ فِی قُبُورِهِمَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی كَبِیرٍ ثُمَّ قَالَ:بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لاَ یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الآخَرُ یَمْشِی بِالنَّمِیمَةِ».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ منورہ یامکہ مکرمہ کے ایک باغ میں  تشریف لے گئے(وہاں )آپ نے دوشخصوں  کی آوازسنی جنہیں  ان کی قبروں  میں  عذاب کیا جا رہا تھا، سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان پرعذاب ہورہاہے اورکسی بڑے گناہ کی وجہ سےنہیں ،پھرآپ نے فرمایاان میں  سے ایک شخص پیشاب کے چھینٹوں  سے بچنے کااہتمام نہیں  کرتاتھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیاکرتاتھا۔ [16]

عَنْ أَبِی وَائِلٍ، عَنْ حُذیْفَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا یَنِمُّ الْحَدِیثَ،فَقَالَ حُذَیْفَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ

ابووائل سے مروی ہےحذیفہ رضی اللہ عنہ کوخبرپہنچی کہ فلاں  شخص بات لگادیتاہے(یعنی چغلی کھاتاہے)انہوں  نے فرمایامیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے چغل خورجنت میں  نہ جائے گا۔ [17]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخِیَارِكُمْ قَالُوا: بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ:الَّذِینَ إِذَا رُؤُوا، ذُكِرَ اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ قَالَ:أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِشِرَارِكُمْ؟ الْمَشَّاءُونَ بِالنَّمِیمَةِ، الْمُفْسِدُونَ بَیْنَ الْأَحِبَّةِ، الْبَاغُونَ لِلْبُرَآءِ الْعَنَتَ

اسماء بنت یزیدبن السکن رضی اللہ عنہ سےمروی ہےسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں  تمہیں  نہ بتاؤ ں  کہ تم میں  سب سے بھلاشخص کون ہے ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ضرور ارشاد فرمائیں ،فرمایاوہ کہ جب انہیں  دیکھاجائے تواللہ یادآجائے، پھر فرمایا کیامیں  تمہیں  نہ بتاؤ ں  کہ تم میں  سب سے براشخص کون ہے ؟سب سے بدترشخص وہ ہے جوچغل خورہو،دوستوں  میں  فسادڈلوانے والا ہو،پاک صاف لوگوں  پرتہمت لگانے والاہو۔ [18]

سخت بخیل اورکنجوس آدمی ہے اور کسی کوپھوٹی کوڑی دینے کابھی روادار نہیں  ، ہرنیک کام میں  روڑے اٹکاتاہے اورلوگوں  کودین حق پرآنے سے روکتاہے ،جوہٹاکٹااوربہت کھانے پینے والاہے اوراس کے ساتھ بدخلق ، جھگڑالواورسفاک ہے اوراپنے شرکی وجہ سے معروف و مشہور ہے،

حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ الخُزَاعِیَّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الجَنَّةِ؟كُلُّ ضَعِیفٍ مُتَضَعِّفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ،أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ: كُلُّ عُتُلٍّ، جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ

حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکیامیں  تمہیں  جنتی آدمی کے متعلق نہ بتادوں ؟وہ دیکھنے میں  گرا پڑا عاجزوضعیف ہے (لیکن اللہ کے یہاں  اس کامرتبہ یہ ہے کہ) اگرکسی بات پراللہ کی قسم کھابیٹھے تواللہ تعالیٰ اسے ضرور پوری کردیتاہے، اورکیامیں  تمہیں  جہنمی لوگوں  کے متعلق نہ بتادوں ؟ہربدخو،بھاری جسم والااورتکبرکرنے والا(اہل دوزخ میں  سے ہے)۔ [19]

كُلُّ جَوَّاظٍ جَعْظَرِیٍّ مُسْتَكْبِرٍ

وکیع کی روایت میں ہرکنجوس اورمال جمع کرنے والا،سخت خو،متکبرہے کے الفاظ ہیں ۔ [20]

اورجب حق اس کے پاس آیاتواس نے اسے ٹھکرادیااور کہتاہے کہ یہ تواگلے وقتوں  کے قصے اور افسانے ہیں جن میں  سچ اورجھوٹ دونوں  ممکن ہیں  ،جوبہت مال واولادکی وجہ سے مغرورہوگیاہے اورہماری نعمتوں  کے گن گانے کے بجائے کفران نعمت کرتاہے اور اپنے آپ کوبڑی ناک والا سمجھتاہے ،ہم دنیااورآخرت میں  اس کوایساذلیل وخوارکریں  گے کہ ابدتک یہ عاراس کاپیچھانہ چھوڑے گا،جیسے فرمایا

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا۝۱۱ۙوَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا۝۱۲ۙوَّبَنِیْنَ شُهُوْدًا۝۱۳ۙوَّمَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِیْدًا۝۱۴ۙثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ۝۱۵ۤۙكَلَّا۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا۝۱۶ۭسَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا۝۱۷ۭاِنَّهٗ فَكَّرَ وَقَدَّرَ۝۱۸ۙفَقُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ۝۱۹ۙثُمَّ قُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ۝۲۰ۙثُمَّ نَظَرَ۝۲۱ۙثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ۝۲۲ۙثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ۝۲۳ۙفَقَالَ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ۝۲۴ۙاِنْ هٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۝۲۵ۭسَاُصْلِیْهِ سَقَرَ۝۲۶وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ۝۲۷ۭلَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ۝۲۸ۚلَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ۝۲۹ۚۖعَلَیْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ۝۳۰ۭ [21]

ترجمہ:چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں  نے اکیلا پیدا کیا، بہت سامال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں  اسے اور زیادہ دوں ، ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے، میں  تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھاؤں  گا، اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی ، تو اللہ کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی، ہاں ، اللہ کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی، پھر(لوگوں  کی طرف) دیکھا پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا پھر پلٹا اور تکبر میں  پڑگیا آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں  ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آرہا ہے، یہ تو ایک انسانی کلام ہے، عنقریب میں  اسے دوزخ میں  جھونک دوں  گااور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے،کھال جھلس دینے والی، انیس (۱۹)کارکن اس پر مقرر ہیں ۔

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِینَ ‎﴿١٧﴾‏ وَلَا یَسْتَثْنُونَ ‎﴿١٨﴾‏ فَطَافَ عَلَیْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ ‎﴿١٩﴾‏ فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِیمِ ‎﴿٢٠﴾‏ فَتَنَادَوْا مُصْبِحِینَ ‎﴿٢١﴾‏ أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِینَ ‎﴿٢٢﴾‏ فَانطَلَقُوا وَهُمْ یَتَخَافَتُونَ ‎﴿٢٣﴾‏(القلم)
’’بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھاجبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے ، اور انشاء اللہ نہ کہا، پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو رہے تھے، پس وہ باغ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ،اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو، پھر جب یہ چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے۔‘‘

زمین وآسمان کے خزانوں  کامالک خالق کائنات اللہ وحدہ لاشریک ہے جس کے خزانوں  میں  کسی چیزکی کمی نہیں ، وہ فراخ دست اورغنی ہے اس کاکوئی کام حکمت سے خالی ، بے مقصداوربے نتیجہ نہیں  ہوتابلکہ ہرفعل کے پیچھے اعلیٰ درجے کی دانائی و حکمت اوراعلیٰ درجے کی مقصدیت کام کررہی ہوتی ہے وہ اپنے دونوں  مبارک ہاتھوں  سے ان گنت خزانوں  سے اپنی حکمت ومشیت کے تحت کسی پرانعام واکرام کی بارش کرتاہے اوراگرکسی کومحروم رکھتاہے اور اپنی آخری کتاب قرآن مجیدمیں بارباراپنے بندوں  کو ہرموقعہ پر احسان کی تلقین کرتاہے یعنی ضرورت مندوں  اور رشتہ داروں  کی مالی امدادکرنا،کسی کومصیبت سے نجات دلانا،کسی کے حق کوخوبی اورسخاوت سے اداکرنا،کسی کے حق کونہ صرف پوراکرنابلکہ اس سے کچھ زیادہ اداکرنایاکسی سے اپناحق وصول کرتے ہوئے رعایت کرنایا اس کوبالکل چھوڑدینا،اسی طرح اگرجائیدادکی تقسیم کے وقت میراث سے محروم عزیزرشتہ دار اور مساکین جمع ہوجائیں ، روزے کے فدیہ اورقسموں  کے کفارے کے طورپرمسکینوں  کوکھاناکھلاناہو ، فصلوں  اور پھلوں  کی کٹائی کے وقت مساکین کاحصہ ہو، زکواة ،خیرات اورصدقات وغیرہ دینے کے لئے اس کی ترغیب دیتاہے کہ اے میرے بندو !اپنابہترین مال میرے نام پرمیری محبت میں  میرے دیئے ہوئے مال و اسباب میں  سے مسکین، یتیم ،فقیر ،سائل ،ضرورت مند،محتاج ،خاک نشین ،مسافر،قیدی ،غلام بندوں  پر ان کومتکبرانہ اندازیاطالب شہرت اغنیاء کی طرح تن کر، جھڑک کراحسان کرتے ہوئے نہیں  بلکہ ان کاحق سمجھ کران پرخرچ کرو،ان سے نرمی اورعزت کاسلوک کرواورساتھ ہی ان پرخرچ کرنے کے لئے ایک دوسرے کواکساؤ تاکہ مال صرف امیروں  میں  ہی نہ گردش کرتارہے بلکہ یہ محرومین تک پہنچے ،اوریہ اس کی شان کریمی ہے کہ اگراس کے بخشے ہوئے مال کواس کی راہ میں  خلوص نیت کیساتھ بغیرکسی ذاتی غرض سے خرچ کیا جائے تووہ اسے اپنے اوپر قرض قراردیتاہے کہ اے میرے بندو!یہ تمہاراخرچ کیاہوامال میرے اوپرقرض حسنہ ہوگاجوضائع نہیں  جائے گایہ میراوعدہ ہے کہ میں  اسے بڑھاتاہی رہوں  گااور تمہارے مال میں  برکت ڈالوں  گااور جتناتم نے دیاہوگا بڑھا کر اس دنیامیں  کم سے کم دس گنا اورآخرت میں  جہاں  کوئی کرنسی نہیں  ہوگی جبکہ تجھے وہاں  شدید ضرورت ہوگی کم سے کم سترگنادوں  گااوراس پراپنی طرف سے بہترین اجربھی عطافرماؤ ں  گا،جیسے فرمایا

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ۝۰ۭ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱ [22]

ترجمہ: جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں  صرف کرتے ہیں  ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانا بویا جائے اور اس کے سات بالیاں  نکلیں  اور ہر بالی میں  سو دانے ہوں  اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

یہی تیرے ہاتھ کادیاہواوہاں تیرے کام آئے گاباقی تیری تمام دولت یہیں  اس دنیامیں  ہی رہ جائے گی،کفن کی جیب نہیں  ہوتی پس تو خالی ہاتھ،خالی دامن اورخالی جیب ہمارے حضورپیش ہوگا اورہمارے بخشے ہوئے مال واسباب کا حساب دے گاکہ ان کوتم نے کیسے حاصل کیاتھااورکس راستے پرخرچ کیا، مگر انسان اتنے بڑے فائدے کے باوجودجس میں  نقصان کاکوئی اندیشہ نہیں  کہ الله کے وعدے سے سچاوعدہ کس کاہوسکتاہے اپنے ہاتھ کی کمائی کو دوسروں  پرخرچ کرنے میں  بڑابخیل واقع ہواہے جس کانتیجہ مال میں  بے برکتی ،فصلوں  کی بیماریاں  کی وجہ سے پیداوار میں نقصانات ،پھلوں  کے نقصانات وغیرہ ہوتاہے اوراگر الله کی مشیت اس کی مقتضی ہوتو بخل کرنے والوں  کووہ اس دنیا میں  ایسا عذاب دیتاہے کہ اس کاسب کچھ مٹ کررہتا ہے اوریہ اس لئے ہوتاہے تاکہ بندہ رب سے ڈرے اوراس کے فرمان کے مطابق مال جائز ذرائع سے حاصل کرے اورجن پرخرچ کرنے کوکہاگیاہے ان پردل کھول کرخرچ کرے ،اوراے میرے بندو!اگرتم ایسانہیں  کروگے اورمال و اسباب کی محبت میں  اس پرسانپ بن کربیٹھے رہوگے اورگن گن کرجمع کروگے توروزقیامت الله تعالیٰ کے نافرمان بندوں  پردوسرے جرائم کے علاوہ ایک شق یہ بھی نافذہوگی کہ وہ مسکین کوکھاناکھلانے کی ترغیب نہ دیتے تھے اورنہ خودہی انہیں  کھاناکھلاتے تھے ،جیسے فرمایا

وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۳۴ۭ [23]

ترجمہ:اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا ۔

وَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۱۸ۙ [24]

ترجمہ:اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں  اکساتے۔

وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ۝۳ۭ [25]

ترجمہ:اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں  اکساتا۔

فیصلے کے بعد الله کے نافرمان،سرکش باغی جب جہنم میں  ہوں  گے تو فرشتوں  کے پوچھنے پراپنا جرم بیان کرتے ہوئے کہیں  گے کہ ہم نمازنہیں  پڑھتے تھے اور مسکین کوکھانانہیں  کھلاتے تھے ،جیسے فرمایا

عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ۝۴۱ۙمَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ۝۴۲قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۝۴۳ۙوَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ۝۴۴ۙ [26]

ترجمہ:وہاں  وہ مجرموں  سےپوچھیں  گےتمہیں  کیا چیز دوزخ میں  لے گئی؟وہ کہیں  گے ہم نماز پڑھنے والوں  میں  سے نہ تھے ،اور مسکین کو کھانا نہیں  کھلاتے تھے۔

ذیل کاواقعہ بھی اسی بخل کی نوعیت کاہے جس میں  کچھ اہل کتاب نے مال کی محبت میں  (جیسے وہ ان کے ساتھ جائے گا) معمولی ساحصہ مساکین کونہ دینے کے لئے،ان کاحق روکنے کے لئے الله کی ناشکری کرتے ہوئے چال چلی مگر الله کی چال کے آگے بھلاکس کی چال کامیاب ہوسکتی ہے، انہوں  نے تھوڑاسابچانے کے لئے چال چلی الله نے ان کی پوری فصل ہی برباد کردی پھر وہ اپنی اس حرکت پربڑے نادم ہوئے۔

جن لوگوں  کاواقعہ بیان ہورہاہے مفسرین کہتے ہیں  یہ لوگ اہل کتاب اورحبشہ کے رہنے والے تھے اپنے والدکی وفات کے بعدیہ باغ ان کوورثہ میں  ملاتھاجس میں  طرح طرح کے میوہ جات کے درخت تھے اورخوب پھل دیتے تھے ان کاوالد بڑانیک بندہ تھااس کاطریقہ کاریہ تھاکہ وہ اپنی اس باغ کی آمدنی کوتین حصوں  میں  تقسیم کرتاتھاایک حصہ اس باغ پر،ایک حصہ اپنے بیوی بچوں  پر اور ایک حصہ الله کے نام پریتیموں  محتاجوں  مسکینوں  پرخرچ کردیتاتھا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَیْنَمَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فِی سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِیقَةَ فُلَانٍ،فَتَنَحَّى ذَلِكَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِی حَرَّةٍ ، فَانْتَهَى إِلَى الْحَرَّةِ، فَإِذَا هِیَ فِی أَذْنَابِ شِرَاجٍ، وَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْكَ الشِّرَاجِ، قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذَلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ، فَتَبِعَ الْمَاءفَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِی حَدِیقَتِهِ یُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک شخص کسی بیابان اورویران جگہ پرتھاکہ اسی دوران اس نے ایک بادل میں  آوازسنی فلاں  کے باغ کوسیراب کرو اس آواز پر وہ بادل ایک جانب چلا گیا اور اس کا پانی ایک پتھریلی جگہ پر جا کر برس گیا، وہ آدمی اس جگہ پہنچا تو وہاں  کچھ نالیوں  کے سرے دکھائی دیئے ان میں  سے ایک نالی ایسی تھی جس میں  وہ سارا پانی جمع ہوگیا،وہ آدمی پانی کے پیچھے چلتا گیا چلتے چلتے وہ ایک آدمی کے پاس پہنچا جو اپنے باغ میں  کھڑا بیلچے سے پانی کوباغ کی طرف پھیر رہا ہے،

فَقَالَ لَهُ: یَا عَبْدَ اللهِ، مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: فُلَانٌ، بِالِاسْمِ الَّذِی سَمِعَ فِی السَّحَابَةِ ، فَقَالَ لَهُ: یَا عَبْدَ اللهِ، لِمَ سَأَلْتَنِی عَنِ اسْمِی؟ قَالَ: إِنِّی سَمِعْتُ صَوْتًا فِی السَّحَابِ الَّذِی هَذَا مَاؤُهُ یَقُولُ: اسْقِ حَدِیقَةَ فُلَانٍ، لِاسْمِكَ، فَمَا تَصْنَعُ فِیهَا؟قَالَ: أَمَّا إِذَا قُلْتَ هَذَا، فَإِنِّی أَنْظُرُ إِلَى مَا خَرَجَ مِنْهَافَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ،وَآكُلُ أَنَا وَعِیَالِی ثُلُثَهُ،وَأَرُدُّ فِیهَا ثُلُثَهُ

اس شخص نے اس باغ والے سے کہا اے الله کے بندے !تیرانام کیاہے ؟اس آدمی نے وہی نام بتایا جواس نے بادل میں  سے سناتھا،اب اس باغ والے نے پوچھاکہ اے الله کے بندے ! تونے میرانام کس لئے پوچھاہے ؟اس نے کہاکہ میں نے اس بدلی میں  جس کاپانی آرہا ہے غیبی آوازسنی تھی کسی کہنے والے نے تمہارانام لے کرکہاتھاکہ فلاں  آدمی کے باغ کوسیراب کردے تو آخر تم اس باغ میں  کیا کرتے ہو (جواللہ کے ہاں اتنے مقرب ہو )اس نے کہاکہ جب تم نے یہ بات کہی ہے تومجھے بتاناہی پڑے گا میں  اس باغ کی پیداوارکودیکھتاہوں اس کی کل پیداوارمیں  سے ایک تہائی (غریبوں  ،مسکینوں ،یتیموں کو)صدقہ کردیتاہوں ،ایک تہائی میں  اور میرے اہل وعیال کھاپی لیتے ہیں  اورایک تہائی دوبارہ اسی باغ میں  استعمال کرلیتاہوں ۔ [27]

جب وہ فوت ہوگیااور باغ بچوں  کے قبضہ میں  آ گیاتوانہوں  نے باپ کے عملوں  سے سبقت کرنے کی بجائے آپس میں  مشورہ کیاکہ ہمارا والد ہرسال اس باغ کی کافی آمدنی غریب غربا پر خرچ کر دیتا تھا یہ اس کا کوئی اچھا طریقہ کارنہ تھاتم خودسوچوہمارے تواپنے اخراجات ہی بمشکل پورے ہوتے ہیں  ہم اس کی آمدنی میں  سے مساکین اور سائلین کوکس طرح دیں اگرہم اتنی ڈھیر ساری رقم ان فقیروں  مسکینوں اور یتیموں  وغیرہ پرخرچ نہ کریں  توہماراگزارہ اچھی طرح ہوسکتاہے ،اورہم بہت اچھے طریقے سے رہ سکتے ہیں  ، تمام بچے شیطان کی اس دلفریب چال میں  آگئے اورانہوں  نے کسی یتیم ومسکین،محرومین کوکچھ نہ دینے کافیصلہ کرلیا حالانکہ یہ باغ الله نے انہیں  اپنے فضل وکرم سے نوازاتھامگروہ بخیلی پرتل گئے، الله کوتوایسے لوگ پسندہی نہیں  ہیں  جوخود بھی کنجوسی کرتے ہیں  اوردوسروں  کوبھی اس کی ہدایت کرتے ہیں  ،انہوں  نے اپنی کنجوسی سے یہ نہ سوچاکہ یہ بخیلی ان کے حق میں  مضرثابت ہوسکتی ہے اوروہ رزق دینے والاان کے ہرعمل سے باخبر ہے ،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أُرَاهُ قَدْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَیُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا شَرْبَةً عَلَى ظَمَأٍ، سَقَاهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنَ الرَّحِیقِ الْمَخْتُومِ، وَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِنًا ثَوْبًا عَلَى عُرْیٍ كَسَاهُ اللهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس مومن نے کسی پیاسے مومن کوایک گھونٹ پانی پلایا الله تعالی ٰ اسے قیامت والے دن رحیق مختوم پلائے گااورجس نے کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلایا الله تعالی ٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گااور جس نے کسی ننگے مومن کولباس پہنایا الله تعالیٰ اسے جنت کا سبزلباس پہنائے گا ۔ [28]

انہیں  اپنی قدرت و اختیار پر ایسا بھروسہ،زعم تھاکہ ان لوگوں  نے آپس میں  قسمیں  کھاکربے تکلف کہہ دیا کہ کل صبح سے پہلے ہی پہلے ہم رات کے وقت ہی پھل اتارلیں  گے اورپھل ومیوے خودہی لے آئیں  گے تاکہ فقیروں  مسکینوں  اورسائلوں  کوپتہ ہی نہ چلے جووہ آکر کھڑے ہوں  اورہمیں  انہیں  کچھ دینا پڑ جائے، اپنی اس تدبیرکی کامیابی پر انہیں  بڑاغرورتھااوراس خوشی میں  الله جوسمیع وبصیرہے اس کوبھی بھول گئے اوران کی زبان سے ان شاء اللہ تک نہ نکلا، یعنی انہوں  نے اپنی تدبیروں  ہی کوسب کچھ سمجھ لیا تھااور الله کی مشیت وارادے سے بالکل ہی آنکھیں  بندکرلی تھیں ،رب کریم کوان کی یہ حرکت کہ محرومین ان کے مال سے کچھ نہ لے سکیں  بڑی ناگوارگزری چنانچہ رات ہی رات میں  قبل اس کے کہ وہ اپنے باغ میں  پہنچیں  آسمانی آفت نے ان کے سارے ہرے بھرے ،پھلوں  سے لدے باغ کوخاکسترکردیا اور وہ ایسے ہو گیاجیسے سیاہ رات اورکٹی ہوئی کھیتی ،

عَنِ ابْنُ عَبَّاسٍ فِی قوله: كَالصَّرِیْمِ قال: مثل اللیْلِ الْأَسْوَد

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما كَالصَّرِیْمِ کے بارے میں  فرماتے ہیں  کہ باغ کامنظراس طرح ہوگیاجیسے سیاہ رات۔ [29]

وَقَالَ الثَّوْرِیُّ، وَالسُّدِّیُّ: مِثْلَ الزَّرْعِ إِذَا حُصِد، أَیْ هَشِیمًا یَبَسًا

سفیان ثوری رحمہ اللہ اورسدی فرماتے ہیں  کہ وہ کٹی ہوئی کھیتی کی مانندہوگیایعنی چوراچورااورخشک ہوگیا۔ [30]

رب کائنات فرماتاہے

اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَهْلُهَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَآ۝۰ۙ اَتٰىھَآ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۲۴ [31]

ترجمہ :دنیاکی زندگی (جس کے نشے میں  مست ہوکرتم ہماری نشانیوں  سے غفلت برت رہے ہو)اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے پانی برسایاتوزمین کی پیداوارجسے آدمی اور جانورسب کھاتے ہیں  خوب گھنی ہوگئی پھرعین اس وقت جب کہ زمین اپنی بہارپرتھی اورکھیتیاں  بنی سنوری کھڑی تھیں  اوران کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پرقادرہیں  یکایک رات کویادن کوہماراحکم آگیااورہم نے اسے ایساغارت کرکے رکھ دیاکہ گویاکل وہاں  کچھ تھاہی نہیں ،اس طرح ہم نشانیاں  کھول کھول کرپیش کرتے ہیں  ان لوگوں  کے لئے جوسوچنے سمجھنے والے ہیں ۔

أَن لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُم مِّسْكِینٌ ‎﴿٢٤﴾‏ وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ ‎﴿٢٦﴾‏ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ یَتَلَاوَمُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ قَالُوا یَا وَیْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِینَ ‎﴿٣١﴾‏ عَسَىٰ رَبُّنَا أَن یُبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٣﴾‏(القلم)
’’کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائےاور لپکے ہوئے صبح صبح گئے (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پا گئے، جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے ہیں ، نہیں نہیں ہماری قسمت پھوٹ گئی، ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے ،تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ظالم تھے، پھر ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے،کہنے لگے ہائے افسوس ! یقیناً ہم سرکش تھے، کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے، ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں ،یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت ہی بڑی ہے، کاش انہیں سمجھ ہوتی۔‘‘

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِیَّاكُمْ وَالْمَعَاصِی إِنَّ الْعَبْدَ لَیُذْنِبُ الذَّنْبَ فَیُحْرَمُ بِهِ رِزْقًا كان هی لَهُ ثُمَّ تَلَا فَطافَ عَلَیْها طائِفٌ مِنْ رَبِّكَ [32] الآیتین.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگوگناہوں  سے بچو، جب انسان گناہ پرگناہ کیے جاتاہے توگناہوں  کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کردیاجاتاہے جواس کے لئے تیارکردی گئی تھی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دوآیات کی تلاوت فرمائی۔ [33]

صبح کے وقت حسب پروگرام یہ لوگ آپس میں  ایک دوسرے کوآوازیں  دینے لگے کہ اگرپھل توڑے کاارادہ ہے تواب کچھ دیرنہ لگاؤ اورسویرے ہی چل پڑوچنانچہ اب یہ اکٹھے ہوکرقوت وشدت ،پختہ ارادے اورمساکین پرغیظ وغضب کااظہارکرتے ہوئے چپکے چپکے باتیں  کرتے ہوئے تاکہ کوئی سن نہ لے اورغریب غرباکوپتہ نہ چل جائے اورخفیہ ہدایات دیتے ہوئے کہ دیکھو ہوشیاررہوکوئی مسکین بھنک پا کر کہیں  آج نہ آجائے جس طرح ہمارے باپ کے زمانے میں  آیا کرتے تھے اوراپناحصہ لے جاتے تھے ، اوراگرکوئی آبھی جائے توہرگزکسی فقیرکوباغ میں  گھسنے نہ دینا ایسی باتیں  کرتے ہوئے وہ باغ کی طرف چلے کہ اب ہم پھلوں  پر قابض ہیں  اورابھی اتارکرلے آئیں  گے مگر جب وہ باغ پر پہنچے توہک دک رہ گئے کہ وہ ہرابھرالہلہاتاہواباغ جس میں  میووں  سے لدے ہوئے درخت اورپکے ہوئے پھل تھے سب کے سب غارت وبربادہوچکے ہیں اورساراباغ جس کے نشے میں  وہ بدمست تھے میووں  سمیت جل کرراکھ کاڈھیرہوگیاہے، پہلے توانہیں  یقین ہی نہ آیاکہ وہ صحیح جگہ پرپہنچے ہیں  بلکہ راہ بھول کرکہیں  اورجگہ آگئے ہیں  مگرجب اردگرددیکھاتویقین آگیاکہ نہیں  آئے توصحیح جگہ پرہیں  یہ آفت زدہ اورتباہ شدہ باغ تو ہماراہی باغ ہے اورواقعی یہ ہماری بدقسمتی ہے ان کاایک بھائی جوعدل وانصاف ،بھلائی اوربہتری والاتھابولا دیکھو میں  توتمہیں  پہلے ہی کہتاتھاکہ ان شاء اللہ کہواور الله تعالیٰ کی حمدوثنابیان کرو،بھائی کی بات سن کروہ کہنے لگے ہمارارب پاک ہے بیشک ہم نے اپنی جانوں  پرظلم کیاہے ہم نے اپنے باپ کے طرزعمل کے خلاف قدم اٹھاکرغلطی کاارتکاب کیاہے تب ان کی سمجھ میں  یہ بات آئی کہ الله نے ہمارے طرزعمل کی پاداش میں  ایسا کردیاہے جس کی سزا الله نے ہمیں  دی ہے ،اب وہ عذاب کے بعداطاعت کرنے لگے ،سزاکے بعداپنی تقصیر کوماننے لگے اورایک دوسرے کوملامت کرنے لگے کہ ہم نے بہت براکیاکہ مسکینوں  کاحق مارناچاہا، کوئی شک نہیں  ہماری سرکشی حدسے بڑھ گئی اس وجہ سے اللہ کا عذاب آیا پھر انہوں  نے آپس میں عہد کیاکہ اب اگر الله نے ہمیں  مال دیا تووہ اپنے باپ کی طرح اس میں  غرباومساکین کاحق اداکریں  گے اس لئے ندامت اورتوبہ کے ساتھ رب سے امیدیں  وابستہ کیں  کہ شایدہمارارب ہمیں  اس سے بہتربدلہ دے،جواللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت کرے،اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مال میں  بخل کرے،یتیموں ،مسکینوں  اورضرورت مندوں  کے حق کوادانہ کرے اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کاشکراداکرنے کے بجائے کفران نعمت کرے تو اسے اس طرح کے عذاب سے دوچارکردیاجاتاہے اورآخرت کاعذاب اس سے بھی بڑاہے ،کاش یہ لوگ اس کوجانتے۔

‏ إِنَّ لِلْمُتَّقِینَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِیمِ ‎﴿٣٤﴾‏ أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ كَالْمُجْرِمِینَ ‎﴿٣٥﴾‏ مَا لَكُمْ كَیْفَ تَحْكُمُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِیهِ تَدْرُسُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ إِنَّ لَكُمْ فِیهِ لَمَا تَخَیَّرُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ أَمْ لَكُمْ أَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ ‎﴿٣٩﴾‏ سَلْهُمْ أَیُّهُم بِذَٰلِكَ زَعِیمٌ ‎﴿٤٠﴾‏ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْیَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِن كَانُوا صَادِقِینَ ‎﴿٤١﴾(القلم)
’’پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں ، کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کردیں گے، تمہیں کیا ہوگیا کیسے فیصلے کر رہے ہو ؟ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟ کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں ؟ یا تم نے ہم سے قسمیں لی ہیں ؟جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لیے وہ سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کرلو، ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہ دار (اور دعویدار) ہے کیا ان کے کوئی شریک ہیں ؟ تو چاہیے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں ۔‘‘

یقیناًخداترس لوگوں  کے لئے ان کے رب کے ہاں  انواع واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنتیں  ہیں ،اوراہل مکہ کو تنبیہ فرمائی جواول تویوم الحساب کو تسلیم ہی نہ کرتے تھے اورتسلیم کربھی لیتے توکہتے تھے کہ جس نے آج ہمیں  مال ودولت اوردیگرنعمتیں  دے رکھی ہیں اگرقیامت ہوئی تووہاں  بھی ہم مسلمانوں  سے بہترہی ہوں  گے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب دنیاکاکوئی بادشاہ امن پسندشہری اورایک مجرم کے ساتھ یکساں  سلوک نہیں  کرتاتوکیااللہ احکم الحاکمین ایساکرے گا ؟تم لوگوں  کو کیا ہو گیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو؟ہرگزنہیں ،یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ وہ تم جیسے مجرموں  اوراہل تقویٰ میں  تمیزنہ کرے اوران دونوں  کاانجام ایک ساکردے، کیاان کے پاس اللہ کی نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس میں  وہی کچھ لکھاہواہے جوان کی چاہت ہے یعنی وہ جنت میں  جائیں  گے اورانہیں  ہروہ چیز حاصل ہوگی جووہ منتخب کریں  گے اور طلب کریں  گے،یاتم میں  سے کون آگے بڑھ کریہ دعویٰ کرتاہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے رہتی دنیاتک کے لئے کوئی پکا عہدوپیمان لیا ہواہے کہ جویہ کہہ رہے ہیں وہی ہوگا اور ان کی بے جااورغلط خواہشات پوری ہوکرہی رہیں  گی ؟ان سے ذراپوچھوتوکہ اس بات کاضامن کون ہے اورکس کے ذمے یہ کفالت ہے کہ وہ قیامت والے دن ان کے لئے وہی کچھ فیصلہ کروائے گاجواللہ تعالیٰ مسلمانوں  کے لئے فرمائے گا،جب ان کے پاس کوئی الہامی کتاب ہے نہ نجات کے بارے میں  اللہ تعالیٰ کے ہاں  ان کے لئے کوئی عہدوپیمان ہے توکیا اپنے باطل معبودوں  کوجن کو انہوں  نے شریک ٹھہرارکھاہے ،جوان کے معاون ومددگارہیں وہ ان کی مددکرکے ان کواچھامقام دلوادیں  گے ؟اگران کے شریک ایسے ہیں  تو اپنی سچائی کے لئے پیش کردوتاکہ ان کی صداقت واضح ہوجائے،جب تم کچھ بھی پیش نہیں  کرسکتے توآخرتمہیں  یہ غلط فہمی کہاں  سے لاحق ہوگئی کہ تم فرمانبرداروں  کے ساتھ انواح واقسام کی لازوال نعمتوں  سے بھری جنت میں  پہنچ جاؤ گے؟

‏ یَوْمَ یُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَیُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا یَسْتَطِیعُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوا یُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ فَذَرْنِی وَمَن یُكَذِّبُ بِهَٰذَا الْحَدِیثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَأُمْلِی لَهُمْ ۚ إِنَّ كَیْدِی مَتِینٌ ‎﴿٤٥﴾
’’پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں ، کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کردیں گے، تمہیں کیا ہوگیا کیسے فیصلے کر رہے ہو ؟ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟ کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں ؟ یا تم نے ہم سے قسمیں لی ہیں ؟جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لیے وہ سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کرلو، ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہ دار (اور دعویدار) ہے کیا ان کے کوئی شریک ہیں ؟ تو چاہیے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں ۔‘‘

دنیامیں  جن لوگوں  کواللہ کی عبادت کاحکم دیاجاتاہے اور وہ صحیح وسالم ہوتے ہوئےانکارکررہے ہیں  ،مگرمیدان محشرمیں  عبادت کرنے والوں  کواورنہ کرنے والوں  کوسجدہ کرنے کے لئے بلایاجائے گا،اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے والے توسجدہ میں  گرجائیں  گےمگریہ لوگ اگر سجدہ ریز ہونابھی چاہیں  گے تونہ ہوسکیں  گے،ان کی کمرتختہ ہوجائے گی اوریہ پیٹھ کے بل چت گرپڑیں  گے، اورذلت وپشیمانی سے ان کی نگاہیں  نیچی ہوں  گی اور تمام خلقت کے سامنے ان کوذلت وخواری کے انجام سے دوچار ہوناپڑے گا اور قیامت کے دن ان کاکوئی عذرقابل قبول نہ ہوگا،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ، فَیَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَیَبْقَى كُلُّ مَنْ كَانَ یَسْجُدُ فِی الدُّنْیَا رِیَاءً وَسُمْعَةً، فَیَذْهَبُ لِیَسْجُدَ، فَیَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہمارارب اپنی پنڈلی سے پردہ اٹھائے گاتوہرمومن مردوعورت اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں  گے،اورصرف وہ باقی رہ جائے گاجودنیامیں  ریاکاری اورشہرت کے لیے سجدہ کیاکرتاتھاوہ جب سجدہ کرناچاہے گاتواس کی پشت ایک سخت تختے کی طرح ہو جائے گی ۔ [34]

 أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْعِبَادَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ، نَادَى مُنَادٍ: لِیَلْحَقْ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا یَعْبُدُونَ، فَیَلْحَقُ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا كَانُوا یَعْبُدُونَ، وَیَبْقَى النَّاسُ عَلَى حَالِهِمْ، فَیَأْتِیهِمْ فَیَقُولُ: مَا بَالُ النَّاسِ ذَهَبُوا وَأَنْتُمْ هَا هُنَا؟ فَیَقُولُونَ: نَنْتَظِرُ إِلَهَنَا، فَیَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُونَهُ؟ فَیَقُولُونَ: إِذَا تَعَرَّفَ إِلَیْنَا، عَرَفْنَاهُ، فَیَكْشِفُ لَهُمْ عَنْ سَاقِهِ فَیَقَعُونَ سُجُودًا، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى {یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَیُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا یَسْتَطِیعُونَ} [35] یَبْقَى كُلُّ مُنَافِقٍ فَلَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یَسْجُدَ، ثُمَّ یَقُودُهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہے جب اللہ تعالیٰ بندوں  کوایک جگہ پر اکٹھاکرے گاتومنادی کرنے والاآوازدے گاہرکوئی اپنے اپنے معبودوں  کے ساتھ مل جائے،تمام لوگ اپنے اپنے معبودوں  کے ساتھ مل جائیں  گے جبکہ کچھ لوگ اپنی سابقہ حالت پرکھڑے رہیں  گے،اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے گااورپوچھے گاکیاوجہ ہے لوگ چلے گئے ہیں  اورتم یہیں  کھڑے ہو؟وہ کہیں  گے ہم اپنے معبودکاانتظارکررہے ہیں ،اللہ تعالیٰ پوچھے گاکیاتم اپنے معبودکوپہچانتے ہو؟ وہ کہیں  گے اگروہ ہمیں  اپناتعارف کروادے توہم پہچان لیں  گے،اتنے میں  اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی سے پردہ اٹھائے گاوہ سجدہ میں  گر پڑیں  گے،اللہ تعالیٰ کے اس قول جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اورسجدے کے لئے بلائیں  جائیں  گے تو(سجدہ)نہ کرسکیں  گے کایہی مصداق ہے، منافق کھڑے کے کھڑے رہ جائیں  گے اورسجدہ نہیں  کرسکیں  گے پھراللہ تعالیٰ جنت کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے گا۔ [36]

انسان فطری طورپربہت جلدبازاورعام حالات میں  جلدگھبراجانے والاہے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنے بے شمارفضائل کے باوجودانسان ہی تھے وہ بھی بعض موقعوں  پرمشکلات و مصائب کوسامنے دیکھ کرگھبراسکتے تھے ، صبرواستقامت کی تلقین سے ان کے دلوں  کومزیدمضبوط اورحوصلہ مندبنانے کے لئے فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان منکرین کامعاملہ جومنزل کلام الٰہی کوجھٹلارہے ہیں ،اس کے پاکیزہ مضامین کو پرانے وقتوں  کے قصے اورافسانے قراردے رہے ہیں ، اس کی ہدایت کو خود ساختہ قراردے رہے ہیں ،کفروشرک کی طغیانی میں  بدمست ہوکرجھوٹے الزامات اورتہمات لگارہے ہیں ہم پرچھوڑدو،ان سے نمٹناہماراکام ہے ،ہم توان کی رسی درازکررہے ہیں ،اس خفیہ تدبیر میں ہم ان پرتمام چیزوں  کے دروازے کھول دیں  گے ، انہیں  صحت ،بہت اولاداوردنیاوی مال واسباب کی فراوانی اورکامیابیوں  سے بہرہ مند کرکے دھوکے میں  مبتلاکردیں گے،جیسے فرمایا

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ۝۵۵ۙنُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶ [37]

ترجمہ:کیا یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم جو انہیں  مال و اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں  تو گویا انہیں  بھلائیاں  دینے میں  سرگرم ہیں ؟ نہیں  ، اصل معاملے کا انہیں  شعور نہیں  ہے۔

جس سے یہ سمجھیں  گے کہ یہ جوکچھ عمل کررہے ہیں  صحیح کر رہے ہیں ،اس طرح یہ حق دشمنی اورظلم وطغیان میں  زیادہ سے زیادہ بدمست ہوتے جائیں  گے، پھرناگہانی ہم انہیں  اپنی گرفت میں  لے لیں  گے،پھران کی ساری امیدیں  منقطع ہوجائیں  گے اورانہیں  ہم سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا،جیسے فرمایا

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَةً فَاِذَا ہُمْ مُّبْلِسُوْنَ۝۴۴ [38]

ترجمہ:پھر جب انہوں  نے اس نصیحت کو جو انہیں  کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں  کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں  تک کہ جب وہ ان بخششوں  میں  جو انہیں  عطا کی گئی تھیں  خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں  پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔

بیشک دشمنوں  کے خلاف تیرے رب کی تدبیربڑی مضبوط اورطاقت ورہوتی ہے،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ} [39]

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ ظالم کومہلت دیے رکھتاہے حتی کہ جب اسے پکڑتاہے توپھراسے نہیں  چھوڑتا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔ [40]

‏ أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ أَمْ عِندَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُونَ ‎﴿٤٧﴾‏ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ‎﴿٤٨﴾‏ لَّوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ ‎﴿٤٩﴾‏ فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٥٠﴾(القلم)
’’کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہوں ، یاکیاان کے پاس علم غیب ہے جسے وہ لکھتے ہوں ، بس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے( انتظار کر) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجا جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی، اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پالیتی تو یقیناً وہ برے حالوں میں چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا،اسے اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیک کاروں میں کردیا۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ ان سے اس بے لوث عالمگیرہدایت پر ان مخالفین سے کچھ مال ومتاع یاکوئی منصب طلب کررہے ہیں جس کے تاوان سے یہ دبے جارہے ہیں  اور دعوت حق پرایمان نہیں  لارہے؟کیاان لوگوں  نے غیب کے پیچھے جھانک کردیکھ لیا ہے کہ وہ حق پرہیں  اوریہ رسول فی الواقع اللہ کابھیجاہواپیغمبرنہیں  ہے ،اورجوحقائق آپ بیان کررہے ہیں  وہ بھی غلط ہیں اس لئے اس کوجھٹلانے میں  اتنی شدت برت رہے ہیں ،نہیں ،ہرگزنہیں ،بلکہ یہ لوگ محض اپنے تعصبات اوربغض وعنادپراڑے ہوئے ہیں ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کے داعی کے لئے حکم فرمایاگیاکہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اپنافریضہ رسالت اداکرتے رہیں  ،وہ وقت ابھی دورنہیں  جب اللہ تعالیٰ تمہاری فتح ونصرت اور تمہارے ان مخالفین کی شکست کافیصلہ فرمادے گا،اس وقت تک جومصائب ومشکلات بھی اس دین کی تبلیغ میں  پیش آئیں  انہیں  صبرواستقامت کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائیں اورمچھلی والے(یونس بن متی علیہ السلام )کی طرح نہ ہوجائیں جنہوں  نے اپنی قوم کی روش تکذیب کودیکھتے ہوئے بے صبری سے کام لیااوراللہ رب العزت کے فیصلے کے بغیرہی ازخوداپنی قوم کو چھوڑکر ترشیش (جہاں  آجکل تیونس آبادہے) جانے کی کوشش کی اورسمندرپرجاکرایک کشتی میں  سوارہوگئے، جس کشتی میں  آپ سوار ہوئے وہ پہلے ہی سواریوں  اور سامانوں  سے اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی ،کشتی ابھی کچھ دوریافاہی پہنچی تھی کہ سمندرمیں  چاروں طرف سے موجیں  اٹھیں  اور سخت طوفان آگیا جس سے کشتی سمندرکی موجوں  میں  گھرگئی اورکھڑی ہوگئی ،سب مسافروں  کوکشتی ڈوبنے کایقین اوراپنی موت نظر آنے لگی چنانچہ کشتی کاوزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کوکشتی سے سمندرمیں  پھینکنے کی تجویزسامنے آئی تاکہ کشتی میں  سوارباقی انسانوں  کی جانیں  بچ جائیں  ،لیکن یہ قربانی دینے کے لئے کوئی تیارنہیں  تھااس لئے کشتی میں  تین مرتبہ قرعہ اندازی کرنی پڑی ،جس میں  ہرمرتبہ یونس علیہ السلام کانام آیااوروہ مغلوبین میں  سے ہوگئے ،چنانچہ یونس علیہ السلام نے طوعاًوکرھاًاپنے آپ کوبھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندرکی موجوں  کے سپرد کر دیا، ادھر الله تعالیٰ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی (غالبا وہیل مچھلی)نے آپ علیہ السلام کوثابت ہی نگل لیااورسمندرمیں  پھرنے لگی،جیسے فرمایا

فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَمُلِـیْمٌ۝۱۴۲ [41]

ترجمہ:آخرکارتو مچھلی نے اسے نگل لیا اور وہ ملامت زدہ تھا۔

یونس علیہ السلام غم اورندامت کے عالم میں  متعدداندھیروں  میں ( یعنی رات کا اندھیرا ، سمندرکااندھیرا،اورمچھلی کے پیٹ کا اندھیرا)میں  گھیرگئے، یونس علیہ السلام انسان ہی تھے اورکوئی بھی انسان اس پرقادرنہیں  ہوسکتاکہ ہروقت اس بلندترین معیارکمال پرقائم رہے جو مومن کے لئے مقررکیاگیاہے ،بسااوقات کسی نفسیاتی موقع پرنبی جیسااعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیرکے لئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتاہے لیکن جونہی اسے اپنی معمولی سی بھی غلطی یاکوتاہی کا احساس ہوتاہے یا الله تعالیٰ کی طرف سے احساس کرادیا جاتاہے کہ اس کاقدم مطلوبہ معیارسے نیچے جارہاہے تو وہ فوراًرب کے حضورتوبہ کرتاہے اوراپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں  اسے ایک لمحہ کے لئے تامل نہیں  ہوتا،چنانچہ یونس علیہ السلام جوفراغی ، کشادگی اورامن وامان کی حالت میں  رب کی بڑی پاکیزگی بیان کرنے والے تھے ، انہوں  نے مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں  میں  بھی رب کی عظمت وپاکیزگی ،اپنے قصور وار ہونے کا اعتراف کرکے رب کے حضورتوبہ کی تسبیح پڑھنی شروع کردی،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۸۷ۚۖ [42]

ترجمہ: آخر کو اس نے تاریکیوں  میں  سے پکارا نہیں  ہے کوئی الٰہ مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بیشک میں  نے قصور کیا ۔

کہ میں  نے جلد بازی میں  تیرے حکم کاانتظار نہیں  کیااوردل میں  حسن ظن کا گمان کرکے وہاں  سے چل دیا الله تعالیٰ جودکھی دلوں  اوراپنے محبوب بندوں  کی پکارکو سنتا ہے نے ان اندھیروں  میں  یونس علیہ السلام کی فریاد کو سنا اوراپنافضل خاص فرماکر انہیں  اندھیروں  سے نجات عطافرمائی اورزندہ سلامت مچھلی کے پیٹ سے باہرنکال لائے،جیسے فرمایا

فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ۝۰ۙ وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نُـــــْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ۝۸۸ [43]

ترجمہ:تب ہم نے اس کی دعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں  کو بچا لیا کرتے ہیں ۔

فَلَوْلَآ اَنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ۝۱۴۳ۙلَـلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖٓ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۝۱۴۴ۚ [44]

ترجمہ:اب اگر وہ تسبیح کرنے والوں  میں  سے نہ ہوتا تو روز قیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں  رہتا ۔

اگراس کے رب کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تووہ ہرقسم کی نباتات سے خالی چٹیل میدان میں  ڈال دیے جاتےاوروہ برے حال میں ہوتے،مگراللہ تعالیٰ نے ان کواپنی رحمت سے ڈھانپ دیااوران کواس حال میں  پھینک دیاگیاکہ وہ ممدوح تھے،اوران کی یہ حالت پہلی حالت سے بہترہوگئی ،پس اس کے رب نے اسے برگزیدہ فرمالیا اور اسے صالح بندوں  میں  شامل کردیا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَا یَنْبَغِی لِعَبْدٍ أَنْ یَقُولَ إِنِّی خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّى

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی شخص میرے متعلق یہ نہ کہے کہ میں  یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں ۔ [45]

‏ وَإِن یَكَادُ الَّذِینَ كَفَرُوا لَیُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَیَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ ‎﴿٥١﴾‏ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِینَ ‎﴿٥٢﴾‏(القلم)
’’اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں ، جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے،درحقیقت یہ (قرآن) تو تمام جہان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہے۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں  کوآپ سے دوررکھنے اورآپ کودلی اذیت پہنچانے کے لئے آپ کو کبھی مجنون کبھی شاعر کبھی جادوگرکہتے ہیں  ،اورجب یہ منکرین حق کلام الٰہی کوسنتے ہیں  تو گھورگھورکرحسد،کینہ اورغیظ وغضب کی نظروں  سے دیکھتے ہیں  گویاتمہیں  نظروں  ہی نظروں  میں  کھاجائیں  گے ، اگر اللہ کی حمایت وحفاظت نہ ہوتی توآپ ان کفارکی حاسدانہ نظروں کا شکار ہو جاتے اور یہ تجھے تبلیغ رسالت سے پھیردیتے،جیسے فرمایا

وَاِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ۝۰ۤۖ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا۝۷۳ [46]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں  نے اس کوشش میں  کوئی کسر اٹھا نہیں  رکھی کہ تمہیں  فتنے میں  ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں  جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں  اپنا دوست بنا لیتے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْعَیْنُ حَقٌّ، وَلَوْ كَانَ شَیْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَیْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانظرحق ہے اگرکوئی چیزتقدیرسے سبقت کرنے والی ہوتی تونظرکرجاتی ،جب تم سے غسل کرایاجائے توغسل کرلیا کرو۔ [47]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَوِّذُ الحَسَنَ وَالحُسَیْنَ، وَیَقُولُ:إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ یُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَیْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَیْنٍ لاَمَّةٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن رضی اللہ عنہ اورحسین رضی اللہ عنہ کوان الفاظ کے ساتھ پناہ دیتے تھے میں  پناہ مانگتاہوں  اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہرایک شیطان سے اورہرزہریلے جانورسے اورہرنقصان پہنچانے والی نظربدسے۔ [48]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، قَالَ: مَرَّ عَامِرُ بْنُ رَبِیعَةَ بِسَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، وَهُوَ یَغْتَسِلُ فَقَالَ: لَمْ أَرَ كَالْیَوْمِ، وَلَا جِلْدَ مُخَبَّأَةٍ فَمَا لَبِثَ أَنْ لُبِطَ بِهِ، فَأُتِیَ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقِیلَ لَهُ: أَدْرِكْ سَهْلًا صَرِیعًا، قَالَ مَنْ تَتَّهِمُونَ بِهِ قَالُوا عَامِرَ بْنَ رَبِیعَةَ، قَالَ:عَلَامَ یَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِیهِ مَا یُعْجِبُهُ، فَلْیَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ، فَأَمَرَ عَامِرًا أَنْ یَتَوَضَّأَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَیَدَیْهِ إِلَى الْمِرْفَقَیْنِ، وَرُكْبَتَیْهِ وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ، وَأَمَرَهُ أَنْ یَصُبَّ عَلَیْهِ قَالَ سُفْیَانُ: قَالَ مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِیِّ: وَأَمَرَهُ أَنْ یَكْفَأَ الْإِنَاءَ مِنْ خَلْفِهِ

ابوامامہ بن سہل بن حنیف فرماتے ہیں میرے والد سہل بن حنیف نہا رہے تھے،عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ان کے قریب سے گزرے تو فرمایا میں  نے آج تک ایسا آدمی نہ دیکھاپردہ دار لڑکی کا بدن بھی تو ایسا نہیں  ہوتا،عامربن ربیعہ کایہ کہناتھاکہ کچھ ہی دیرمیں  سہل بن حنیف بیہوش ہوکرگرپڑے،لوگ ان کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اورآپ سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان کی خبرلیجئے یہ توبیہوش ہوگئے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں  کس کے متعلق خیال ہے کہ (اسکی نظر لگی ہے ؟)لوگوں  نے کہاہاں  عامربن ربیعہ پرہمیں  شک ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں  کوئی کیوں  اپنے بھائی کوقتل کرتاہے،جب تم میں  سے کوئی اپنے بھائی کی ایسی چیزکودیکھے جواسے اچھی لگے تواسے چاہئے کہ اس کے لئے برکت کی دعاکرے، پھر آپ نے پانی منگوایااور عامر رضی اللہ عنہ سے فرمایا وضو کریں ،انہوں  نے چہرہ دھویا اور کہنیوں  تک ہاتھ دھوئے اور دونوں  گھٹنے دھوئے اور ازار کے اندر (ستر) کا حصہ دھویا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دھون سہل پر ڈالنے کا حکم فرمایاسفیان ثوری فرماتے ہیں  کہ معمر نے کہا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل رضی اللہ عنہ کے پیچھے ان پر پانی انڈلینے کا حکم فرمایا۔ [49]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الجَانِّ وَعَیْنِ الإِنْسَانِ حَتَّى نَزَلَتِ الْمُعَوِّذَتَانِ فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاهُمَا.

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اورانسانوں  کی نظربدسے پناہ مانگاکرتے تھے،جب سورة معوذتین نازل ہوئیں  توآپ نے انہیں  لے لیااورسب کوچھوڑدیا۔ [50]

یہ حدیث مبارکہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جن ،انسانوں  کوایذادینے اورتکلیف پہنچانے کے لیے ان پرغلبہ وتسلط حاصل کرسکتے ہیں  لہذاانسانوں  کوچاہیے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں  التجائیں  کرتے رہاکریں  تاکہ وہ خبیث وشریرجنوں  کی شرارتوں  سے محفوظ رہیں ،یہ بھی ثابت ہواکہ نظربد،برحق ہے اوریہ بھی ضروری نہیں  کہ کسی انسان ہی کی نظرلگے بلکہ جنات کی نظربھی لگ سکتی ہے،معوذتین میں  ہرقسم کے شرسے پناہ موجودہے لہذایہ جامع ہیں  ان کی موجودگی میں  دوسری معوذات کی ضرورت نہیں  اگرچہ ان کے پڑھنے کی ممانعت بھی نہیں  ،نظربدکااثرصرف انسان پرنہیں  بلکہ بسااوقات جمادات پربھی اس کاایساشدیداثرہوتاہے جودواؤ ں  وغیرہ سے ختم نہیں  ہوتابلکہ معوذات کی ضرورت پڑتی ہے،اس اثرکی عقلی توجیہ نہ بھی کی جاسکے توبھی اس کاانکارممکن نہیں ،اس دنیامیں  سب کچھ عقل کے مطابق نہیں  ہوتابلکہ بہت سے مسائل میں  انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ، علوم جواب دے جاتے ہیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، أَنَّ جِبْرِیلَ، أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ اشْتَكَیْتَ؟ فَقَالَ:نَعَمْ قَالَ:بِاسْمِ اللهِ أَرْقِیكَ، مِنْ كُلِّ شَیْءٍ یُؤْذِیكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنِ حَاسِدٍ، اللهُ یَشْفِیكَ بِاسْمِ اللهِ أَرْقِیكَ

ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ بیمارہیں ؟آپ نے فرمایاہاں ، توجبرائیل علیہ السلام نے کہا اللہ کے نام سے ہر اس چیز کے شر سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والی ہو اور ہر نفس یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتا ہوں  اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفا دے گا میں  اللہ کے نام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتا ہوں ۔ [51]

بعض روایت میں  کچھ الفاظ کاہیرپھیربھی ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:العَیْنُ حَقٌّ» وَنَهَى عَنِ الوَشْمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناً نظر کا لگ جانابرحق ہے اور جسم گودھوانے سے منع فرمایا۔ [52]

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِیِّ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَیْسٍ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ وَلَدَ جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَیْهِمُ العَیْنُ أَفَأَسْتَرْقِی لَهُمْ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ شَیْءٌ سَابَقَ القَدَرَ لَسَبَقَتْهُ العَیْنُ.

عبیدبن رفاعہ سے مروی ہےاسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جعفرکے بچوں کونظرلگ جایاکرتی ہے توکیامیں  کچھ دم کرالیا کروں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،اگرکوئی چیزتقدیرسے سبقت کرجانے والی ہوتی تووہ نظرتھی۔ [53]

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:أَمَرَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَمَرَ أَنْ یُسْتَرْقَى مِنَ العَیْنِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ نظربدلگ جانے پرمعوذتین سے دم کرلیاجائے۔ [54]

حالانکہ یہ قرآن عظیم اورذکرحکیم جہان والوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل کیاگیاہے توپھراس کولانے والااوربیان کرنے والادیوانہ کس طرح ہو سکتا ہے۔

[1] سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۴۷۰۰ ،مسنداحمد۲۲۷۰۵، مسند البزار ۲۶۸۷، السنن الکبری للبیہقی ۲۰۸۷۵

[2] الحجر۶

[3] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ جَامِعِ صَلَاةِ اللیْلِ، وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ۱۷۳۹،سنن ابوداودکتاب التطوع بَابٌ فِی صَلَاةِ اللیْلِ ۱۳۴۲،مسنداحمد۲۴۲۶۹،صحیح ابن حبان ۲۵۵۱،سنن دارمی ۱۵۱۶،السنن الکبری للبیہقی ۴۸۱۰

[4] القلم: ۴

[5] مسنداحمد۲۴۸۰۰،مصنف ابن ابی شیبة ۳۶۲۸۱

[6] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ حُسْنِ الخُلُقِ وَالسَّخَاءِ، وَمَا یُكْرَهُ مِنَ البُخْلِ ۶۰۳۸،صحیح مسلم کتاب الفضائل باب حسن خلقہ ﷺ۶۰۱۱،شرح السنة للبغوی۳۶۶۵

[7] الاعراف۱۹۹

[8] آل عمران۱۵۹

[9] التوبة ۱۲۸

[10] مسنداحمد۸۹۵۲

[11] ھود۱۰۸

[12] التین۶

[13] القمر۲۶

[14] سبا۲۴

[15] الجاثیة۲۳

[16] صحیح بخاری کتاب الوضوء بَابٌ مِنَ الكَبَائِرِ أَنْ لاَ یَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ۲۱۶ ،صحیح مسلم کتاب بَابُ الدَّلیلِ عَلَى نَجَاسَةِ الْبَوْلِ وَوُجُوبِ الَاسْتِبْرَاءِ مِنْهُ۶۷۷،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الِاسْتِبْرَاءِ مِنَ الْبَوْلِ ۲۰،مسنداحمد۱۹۸۰،صحیح ابن خزیمة۵۵،صحیح ابن حبان ۳۱۲۸،السنن الکبری للنسائی ۲۲۰۶،سنن دارمی ۷۶۶،مصنف ابن ابی شیبة ۱۳۰۴،مسندابی یعلی ۲۰۶۶،شرح السنة للبغوی ۱۸۳

[17] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ غِلَظِ تَحْرِیمِ النَّمِیمَةِ۲۹۰، مسنداحمد۲۳۳۲۵

[18] مسنداحمد۲۷۵۹۹ ، المعجم الکبیر للطبرانی ۴۲۳

[19] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة نٓ والقلم بَابُ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِیمٍ ۴۹۱۸،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ۷۱۸۷ ، المعجم الکبیرللطبرانی ۳۲۵۸،شعب الایمان۷۸۲۴، مسنداحمد۱۸۷۳۰، شرح السنة للبغوی ۳۵۹۳

[20] مسنداحمد۱۸۷۲۸

[21] المدثر۱۱تا۳۰

[22] البقرة۲۶۱

[23] الحاقة۳۴

[24] الفجر۱۸

[25] الماعون۳

[26] المدثر۴۱تا۴۴

[27] مسنداحمد۷۹۴۱،صحیح ابن حبان ۳۳۵۵،السنن الکبری للبیہقی ۷۵۱۲،صحیح مسلم کتاب الزھدباب فضل الانفاق علی المساکین وابن السبیل۷۴۷۳

[28] مسنداحمد۱۱۱۰۱،سنن ابوداودکتاب الزکوٰةبَابٌ فِی فَضْلِ سَقْیِ الْمَاءِ۱۶۸۲،السنن الکبری للبیہقی ۷۸۰۵

[29] تفسیرابن ابی حاتم ۳۳۶۶؍۱۰،تفسیرطبری۵۴۴؍۲۳

[30] تفسیرابن کثیر۱۹۶؍۸

[31] یونس ۲۴

[32] القلم: ۱۹

[33] تفسیر القرطبی ۲۴۴؍۱۸

[34] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ ۴۹۱۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ۴۵۴

[35] القلم: 42

[36] سنن الدارمی۲۸۴۵

[37] المومنون۵۵،۵۶

[38] الانعام۴۴

[39] هود: ۱۰۲

[40] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ ۴۶۸۶،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۸۱ ،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ ۳۱۱۰،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْعُقُوبَاتِ۴۰۱۸

[41] الصافات۱۴۲

[42] الانبیاء ۸۷

[43] الانبیاء ۸۸

[44] الصافات۱۴۳،۱۴۴

[45] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیا بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَإِنَّ یُونُسَ لَمِنَ المُرْسَلِینَ۳۴۱۲،۳۴۱۶، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابٌ فِی ذِكْرِ یُونُسَ عَلَیْهِ السَّلَامُ  ۶۱۵۹،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی التَّخْیِیرِ بَیْنَ الْأَنْبِیَاءِ عَلَیْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ۴۶۶۹،مسنداحمد۳۲۵۲،مسندابی یعلی۵۲۷۸

[46] بنی اسرائیل۷۳

[47] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطِّبِّ وَالْمَرَضِ وَالرُّقَى ۶۷۰۲،جامع ترمذی ابواب الطب بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ العَیْنَ حَقٌّ وَالغَسْلُ لَهَا ۲۰۶۲،صحیح ابن حبان ۶۱۰۷،السنن الکبری للبیہقی ۱۹۶۱۴،مصنف ابن ابی شیبة۲۳۵۹۷

[48] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیا باب ۱۰ ح۳۳۷۱،سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْقُرْآنِ ۴۷۳۷،مسنداحمد۲۱۱۲،مستدرک حاکم ۴۷۸۱،صحیح ابن حبان ۱۰۱۲، مصنف ابن ابی شیبة ۲۳۵۷۷،مصنف عبدالرزاق ۷۹۸۷،شرح السنة للبغوی ۱۴۱۷

[49] سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الْعَیْنُ ۳۵۰۹

[50] جامع ترمذی کتاب الطب بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّقْیَةِ بِالمُعَوِّذَتَیْنِ ۲۰۵۸،سنن نسائی کتاب الاستعاذة الِاسْتِعَاذَةُ مِنْ عَیْنِ الْجَانِّ۵۴۹۶،سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الْعَیْنُ۳۵۱۱،شرح السنة للبغوی۱۲۱۲

[51] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطِّبِّ وَالْمَرَضِ وَالرُّقَى۵۷۰۰،شرح السنة للبغوی۱۴۱۸،مسندابی یعلی۱۰۶۶

[52] صحیح بخاری کتاب الطب بَابٌ العَیْنُ حَقٌّ۵۷۴۰،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطِّبِّ وَالْمَرَضِ وَالرُّقَى ۵۷۰۱،سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الْعَیْنُ ۳۵۰۷،مسنداحمد۴۲۴۵،صحیح ابن حبان۵۵۰۳،شرح السنة للبغوی ۳۱۹۰

[53] جامع ترمذی کتاب الطب بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّقْیَةِ مِنَ العَیْنِ۲۰۵۹،سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الْعَیْنُ۳۵۱۰،مسنداحمد۲۷۴۷۰،شرح السنة للبغوی۳۲۴۳،السنن الکبری للبیہقی۱۹۵۸۷

[54] صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ رُقْیَةِ العَیْنِ۵۷۳۸،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ اسْتِحْبَابِ الرُّقْیَةِ مِنَ الْعَیْنِ وَالنَّمْلَةِ وَالْحُمَةِ وَالنَّظْرَةِ ۵۷۲۰،سنن ابن ماجہ کتاب الطب بَابُ الْعَیْنُ۳۵۱۲

Related Articles