بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة اللیل

سورہ الشمس کے مضامین کی ایک جھلک اس سورہ میں  بھی نظرآتی ہے،سورہ کاآغازرات کی تاریکی،دن کے اجالے اورمخلوقات کی مختلف انواع کی تذکیرو تانیث کے ذکرکے ساتھ ہے یعنی جس طرح رات دن میں  اختلاف ہے اسی طرح انسانی زندگی اپنے عمل وکردارکے اعتبارسے دومختلف زاویوں  میں  منقسم ہے۔

xکردارکے پہلے رخ کا ذکر ہواکہ انسان مال ودولت کواللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کراس کی رضاکے لئے خرچ کرے ،اس کے دل میں  اللہ کاخوف ہو،نیکی اورخیر کی راہ کوسمجھنے اور اس پرچلنے والوں  کی معاونت کرے،ایسے لوگوں  کے لئے اللہ تعالیٰ خیرکی راہ پرچلناآسان کردیتاہے۔

انسانی کردار کا دوسرا رخ یہ بیان کیاگیاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت پر کمربستہ ہو،ہرخیرکے کام میں  رکاوٹ پیداکرے توایسے لوگوں  کاانجام پہلے طبقے کے لوگوں  سے بالکل مختلف ہوگا،ایسے لوگوں  کے لئے اللہ تعالیٰ شراورتباہی کاراستہ آسان فرما دیتاہے۔

انسانوں  کی مجموعی کیفیت کاذکرہے کہ یہ مال ودولت کے معاملے میں  بڑے حریص ہیں  ،اس مال ودولت کے حصول کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں  کرتے حالانکہ اگربغوردیکھاجائے تویہ واضح ہوجائے گا کہ انسان کوقبرمیں  خالی ہاتھ ہی جاناہے اوراس وقت دنیاکی یہ دولت قطعاًکسی کام نہ آئے گی۔

z دوسرامضمون یہ بیان کیاگیاہے کہ دنیاکی زندگی دراصل ایک امتحان ہے،اس مقصدکے لئے انسان کوپیدائشی طورپرعقل وشعورسے بہرہ ورکیا گیا اورپھر اس کی مزیدراہنمائی کے لئے آسمانی تعلیمات اورانبیاء کاسلسلہ جاری فرمایاتاکہ یہ انسان اپنی منزل کے لئے صحیح راہ کاتعین کرلے ،نیز یہ کہ دنیاوآخرت دونوں  کامالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ،انسان اللہ تعالیٰ سے جوچیزطلب کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کووہی عطافرمادیتے ہیں ،البتہ اس کی تعلیمات اور اس کے بھیجے ہوئے انبیاء کوجھٹلانے والوں  کے لئے شعلہ مارتی اوربھڑکنے والی آگ ہے اوراس آگ سے ایماندار،خداترس اورمال کوبے غرض اللہ کی راہ میں  خرچ کرنے والے بچ جائیں  گے،ان آخری آیات کے بارے میں  مفسرین کی یہ رائے ہے کہ یہ آیات سید ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تعریف میں  نازل ہوئیں  اورقرآن کریم نے آپ کو الاتقی کے لقب سے ملقب کیا،نیزیہ بھی فرمایاکہ اللہ تعالیٰ آپ پراس قدر نعمتیں  اتاریں  گے کہ آپ راضی ہوجائیں  گے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  میں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَىٰ ‎﴿١﴾‏ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ‎﴿٣﴾‏ إِنَّ سَعْیَكُمْ لَشَتَّىٰ ‎﴿٤﴾‏ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ ‎﴿٥﴾‏ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ ‎﴿٦﴾‏ فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْیُسْرَىٰ ‎﴿٧﴾‏ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ ‎﴿٨﴾‏ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ ‎﴿٩﴾‏ فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ ‎﴿١٠﴾‏ وَمَا یُغْنِی عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّىٰ ‎﴿١١﴾(اللیل)
’’قسم ہے رات کی جب چھا جائے، اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو، اور قسم ہے اس ذات کی جس نے نر مادہ کو پیدا کیا، یقیناً تمہاری کوشش مختلف قسم کی ہے جس نے دیا (اللہ کی راہ میں ) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گاتو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے، لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کردیں گے، اس کا مال اسے (اوندھا) گرنے کے وقت کچھ کام نہ آئے گا۔‘‘

قسم ہے رات کی جبکہ وہ افق پرچھاجائے،اوردن کی جبکہ وہ روشن ہواورخالق کائنات کی جس نے نرومادہ پیداکیا،جیسے فرمایا

وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا۝۸ۙ [1]

ترجمہ:اور تمہیں  ( مردوں  اورعورتوں  کے)جوڑوں  کی شکل میں  پیداکیا۔

انسانوں  کی طرح اس نے پھلوں  کے بھی جوڑے پیداکیے ہیں ۔

۔۔۔وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ۔۔۔ [2]

ترجمہ: اسی نے ہر طرح کے پھلوں  کے جوڑے پیدا کیے ہیں ۔

صرف انسانوں  اورپھلوں  کے ہی نہیں  بلکہ ہرچیزکے جوڑے بنائے ہیں ۔

وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹ [3]

ترجمہ: اور ہر چیزکے ہم نے جوڑے بنائے ہیں  شایدکہ تم اس سے سبق لو۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح نراورمادہ ،دن اوررات،اندھیرااوراجالا ایک دوسرے سے مختلف اورہردوکے آثار ونتائج باہم متضادہیں ،اسی طرح تم لوگ جن مقاصدمیں  اپنی کوششیں  صرف کر رہے ہووہ بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مختلف اور اپنے نتائج کے اعتبارسے متضاد ہیں  ، جس نے اللہ کے عطاکیے ہوئے پاکیزہ مال کوجمع کرنے کے بجائے اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے مستحقین پرخرچ کیا،اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی،اللہ کے ا حکام وفرائض کوپورا کرنے اورفسق وفجور، جرائم اوربدکاریوں  سے بچنے کی کوشش کی اورکفروشرک اوردہریت کوچھوڑکرتوحید،آخرت اوررسالت کوحق مانا ،اس کوہم دنیا میں  امن وسکون اور قدرومنزلت عطا کریں  گے ، اس کے لئے گناہ کرنامشکل اورنیکی کرناآسان بنادیں  گے ،یعنی ہرقدم پراللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کواس راستے پرچلنے کی توفیق وتائیدملے گی ، جیسےفرمایا

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۔۔۔ ۝۹۷ [4]

ترجمہ:جوشخص بھی نیک عمل کرے گاخواہ وہ مردہو یا عورت،بشرطیکہ ہووہ مومن، اسے ہم دنیامیں  پاکیزہ زندگی بسر کرائیں  گے ۔

ایک مقام پر یوں  فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۝۹۶ [5]

ترجمہ: یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں  اور عمل صالح کر رہے ہیں  عنقریب رحمان ان کے لیے دلوں  میں  محبت پیدا کر دے گا۔

ایک مقام پر اللہ کی راہ میں  خرچ کرنے والوں  کا اجروثواب یوں  بیان فرمایا

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ۝۰ۭ وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱ [6]

ترجمہ:جولوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں  صرف کرتے ہیں  ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویاجائے اوراس سے سات بالیں  نکلیں  اورہربال میں  سودانے ہوں  ،اسی طرح اللہ جس کے عمل کوچاہتاہے افزونی عطافرماتاہے،وہ فراغ دست بھی ہے اورعلیم بھی۔

ایک مقام پر اللہ کی راہ میں  خرچ کرنے کی مثال یوں  فرمائی،

 وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍؚبِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِ۝۰ۚ فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ۝۰ۭ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۝۲۶۵ [7]

ترجمہ: بخلاف اس کے جولوگ اپنے مال محض اللہ کی رضاجوئی کے لئے دل کے پورے ثبات وقرارکے ساتھ خرچ کرتے ہیں  ،ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی سطح مرتفع پرایک باغ ہو،اگرزورکی بارش ہوجائے تو دوگنا پھل لائے اوراگرزورکی بارش نہ بھی ہوتوایک ہلکی پھوارہی اس کے لئے کافی ہوجائے ،تم جوکچھ کرتے ہو،سب اللہ کی نظرمیں  ہے۔

عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ یُعْتِقُ عَلَى الْإِسْلَامِ بِمَكَّةَ ،فَكَانَ یُعْتِقُ عَجَائِزَ وَنِسَاءً إِذَا أَسْلَمْنَ ،فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ: أَیْ بُنَیَّ، أَرَاكَ تَعْتِقُ أُنَاسًا ضُعَفَاءَ، فَلَوْ أَنَّكَ تَعْتِقُ رِجَالًا جُلَداء یَقُومُونَ مَعَكَ وَیَمْنَعُونَكَ وَیَدْفَعُونَ عَنْكَ؟!فَقَالَ: أیْ أبَت، إِنَّمَا أُرِیدُ -أَظُنُّهُ قَالَ مَا عِنْدَ اللهِ، قَالَ: فَحَدَّثَنِی بعض أهل بیتی أَنَّ هَذِهِ الْآیَةَ أُنْزِلَتْ فِیهِ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْیُسْرَى}[8]

عامربن عبداللہ بن زبیرسے روایت ہےسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں  اسلام لانے والے غلاموں  کوخریدکرآزادکردیتے تھے،آپ خاص طورپربوڑھوں  اورعورتوں  کوجب وہ مسلمان ہوتے آزاد کیا کرتے تھے،آپ کے والدنے کہااے بیٹا!میں  تمہیں  دیکھتاہوں  کہ تم کمزورلوگوں  کوآزادکرتے ہواگرتم قوی وصحت مندلوگوں  کوآزادکروتووہ تمہارے ساتھ کھڑے ہوں  گے تمہاری حفاظت کریں  گے اوردشمن کوتم سے دورہٹائیں  گے؟ آپ نے جواب دیااباجان!میں  تواس ثواب کاطلب گارہوں  جواللہ تعالیٰ کے پاس ہے،عامرکہتے ہیں  کہ مجھے میرے بعض اہل خانہ نے بتایاکہ یہ آیات انہی کے بارے میں  یہ آیت ’’جس نے دیا(اللہ کی راہ میں  )اورڈرا(اپنے رب سے)اورنیک بات کی تصدیق کرتارہے گاتوہم بھی اس کوآسان راستے کی سہولت دیں  گے۔‘‘ نازل کی گئی ہیں ۔ [9]

اورجس نے بخل کیااوراللہ کے عطا کیے ہوئے مال کواس کی رضا کے لئے خرچ کرنے کے بجائے مادی فائدوں  ہی کواپنی ساری تگ ودواورمحنت و کوشش کا مقصودبنالیا،اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت نہ کی ،اللہ کے نازل کردہ احکام وفرائض کو تسلیم نہ کیااور دنیا کی رنگینیوں  میں  مست ہو کر اور آخرت سے بے خوف ہوکرفسق وفجوراورگناہوں  میں  ڈوبارہا،اس سے بھلائی کے راستے پرچلنے کی توفیق سلب کرلیں  گے ، برائی کے تمام دروازے اس کے لئے کھول دیے جائیں  گے، بدی کرنااس کے لئے آسان اورنیکی کرنے کاخیال ہی اس کے لئے سوہان روح ہو گا ،جیسے فرمایا

فَمَنْ یُّرِدِ اللهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاۗءِ۝۰۔۔۔ ۝۱۲۵ [10]

ترجمہ:پس (یہ حقیقت ہے کہ)جسے اللہ ہدایت بخشنے کاارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں  ڈالنے کاارادہ کرتاہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اورایسابھینچتاہے کہ (اسلام کاتصور کرتے ہی) اسے یوں  محسوس ہونے لگتاہے جیسے اس کی روح آسمان کی طرف پروازکررہی ہے۔

ایک مقام پر یوں  فرمایا

وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَـمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۱۰ۧ [11]

ترجمہ:ہم اسی طرح ان کے دلوں  اورنگاہوں  کوپھیررہے ہیں  جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پرایمان نہیں  لائے تھے ،ہم انہیں  ان کی سرکشی ہی میں  بھٹکنے کے لئے چھوڑے دیتے ہیں ۔

ایک مقام پر یوں  فرمایا

۔۔۔وَاِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ۝۴۵ۙالَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۝۴۶ۧ [12]

ترجمہ:بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگرفرماں  برداربندوں  کے لئے مشکل نہیں جوسمجھتے ہیں  کہ آخر کار انہیں  اپنے رب سے ملناہے اوراسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ایک مقام پرمنافقین کے بارے میں  یوں  فرمایا

۔۔۔وَلَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ كٰرِهُوْنَ۝۵۴ [13]

ترجمہ:وہ نماز کی طرف آتے بھی ہیں  تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں  اورراہ للہ میں  خرچ کرتے بھی ہیں  توبادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں ۔

ایسے ہی لوگوں  کے بارے میں  یوں  فرمایا

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا۔۔۔۝۹۸ [14]

ترجمہ:ان بدویوں  میں  ایسے ایسے لوگ موجودہیں  جوراہ للہ میں  کچھ خرچ کرتے ہیں  تواسے اپنے اوپرزبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں ۔

عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام، قَالَ:كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَقِیعِ الغَرْقَدِ فِی جَنَازَةٍ ، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَجَعَلَ یَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِی الْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللهُ مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِیَّةً، أَوْ سَعِیدَةً

سیدناعلیٰ رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہےبقیع غرقد میں  ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ ایک جنازے میں  تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے پاس تشریف لائے اوربیٹھ گئے،توہم بھی آپ کے گردوپیش بیٹھ گئےآپ کے ہاتھ میں  چھڑی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک جھکالیااورسوچ میں  ڈوبے چھڑی کے ساتھ زمین کو کریدنے لگےپھرآپ نے اپنا سر مبارک اٹھایااور فرمایاتم میں  سے کوئی ایک شخص یاکوئی ایک جانداربھی نہیں  مگر جنت دوزخ میں  اس کی جگہ لکھ دی گئی ہے، اورساتھ ہی یہ بھی لکھ دیاگیاہے کہ وہ بدبخت ہے یاسعادت مند،

 فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: یَا نَبِیَّ اللهِ أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَیَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَیَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ؟فَقَالَ:اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُیَسَّرٌ: أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَیُیَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ، فَیُیَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ ، ثُمَّ قَالَ نَبِیُّ اللَّهِ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْیُسْرَى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى}[15]

توقوم میں  سے ایک آدمی نے کہااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !توکیاہم اپنی اس کتاب پرتوکل کرکے عمل کرنا چھوڑنہ دیں ؟ جواہل سعادت میں  سے ہوگاوہ عنقریب اہل سعادت کی طرف چلاجائے گااورجوبدبخت ہوگاوہ عنقریب اہل شقاوت کی طرف چلاجائے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعمل کرتے رہوہرایک توفیق دیاگیاہے ،نیک بختوں  کوسعادت کے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے اوربدبختوں  کوبدبختوں  والے اعمال کی توفیق ملتی ہے، پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ نے یہی آیتیں  ’’جس نے دیا(اللہ کی راہ میں )اورڈرا(اپنے رب سے)اورنیک بات کی تصدیق کرتارہے گاتوہم بھی اسکوآسان راستے کی سہولت دیں  گے،لیکن جس نے بخیلی کی اوربے پرواہی برتی اورنیک بات کی تکذیب کی توہم بھی اس کی تنگی ومشکل کے سامان میسرکردیں  گے۔‘‘ تلاوت فرمائیں ۔ [16]

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِی یَذْكُرُ، أَنَّ أَبَاهُ، سَمِعَ أَبَا بَكْرٍ، وَهُوَ یَقُولُ:قُلْتُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللهِ أَنَعْمَلُ عَلَى مَا فُرِغَ مِنْهُ أَوْ عَلَى أَمْرٍ مُؤْتَنَفٍ؟قَالَ:بَلْ عَلَى أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: فَفِیمَ الْعَمَلُ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ: كُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم عمل اس بنیادپرکرتے ہیں  جس سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے یانئی بنیادپر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس بنیادپرجس سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے،میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھرعمل کرناکیوں  ہے؟ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرایک کواس عمل کی توفیق دے دی جائے گی جس کے لیے اسے پیداکیاگیاہے۔ [17]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَیْتَ مَا نَعْمَلُ فِیهِ أَقَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ فِی شَیْءٍ مُبْتَدَإٍ، أَوْ أَمْرٍ مُبْتَدَعٍ؟فَقَالَ عُمَرُ: أَلا نَتَّكِلُ؟ قَالَ:فِیمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَقَالَ:اعْمَلْ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ فَكُلٌّ مُیَسَّرٌ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَیَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاءِ فَیَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ بتائیں  کہ ہم جوعمل کرتے ہیں  کیایہ اس بنیادپرہے جس سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے یایہ کوئی نیاکام ہے یایہ نوایجادہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ اس بنیادپرہے جس سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے،اے ابن خطاب!عمل کرتے رہوہرایک کوتوفیق دے دی جائے گی،اگرکوئی اہل سعادت میں  سے ہواتووہ سعادت کے کام کرے گااورجواہل شقاوت میں  سے ہواتووہ شقاوت کے عمل کرتارہے گا۔ [18]

عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَعْمَلُ لِأَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ؟ أَمْ لِأَمْرٍ نَأْتَنِفُهُ؟ قَالَ: لِأَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ،فَقَالَ سُرَاقَةُ: فَفِیمَ الْعَمَلُ إِذًا؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ عَامِلٍ مُیَسَّرٌ لِعَمَلِهِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہےمیں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاہم ایک ایسے امرکے لیے عمل کریں  جس سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے یاایک ایسے امرکے لیے جیسے ہم نئے طورپرسرانجام دیتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسے امرکے لیے جس سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے، توسراقہ نے عرض کی توپھرعمل کیوں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرعمل کرنے والے کواس عمل کی توفیق دے دی جاتی ہے۔ [19]

اوریہ مال جس کے حصول کے لئے وہ جائزو ناجائز اور حلال وحرام ہر طریقہ اختیار کرتاہے،جس مال کے غرور نے اسے سرکش بنادیاہے ،جس کی بناپروہ اللہ تعالیٰ سے بے نیازبنارہااوراس میں  بخل کرتارہا،جب وہ مرجائے گا اور خالی ہاتھ قبرمیں  جائے گااور جہنم کے گڑھے میں  جا گرے گاتودنیاکی یہ دولت قطعاً اس کے کچھ کام نہ آئے گی ۔جیسے فرمایا

وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ ھُوَخَیْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ۔۔۔ ۝۱۸۰ۧ [20]

ترجمہ:جن لوگوں  کواللہ نے اپنے فضل سے نوازاہے اورپھروہ بخل سے کام لیتے ہیں  وہ اس خیال میں  نہ رہیں  کہ یہ بخیلی ان کے لئے اچھی ہے، نہیں !یہ ان کے حق میں  نہایت بری ہے جوکچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کررہے ہیں  وہی قیامت کے روزان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔

إِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدَىٰ ‎﴿١٢﴾‏ وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ ‎﴿١٣﴾‏ فَأَنذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّىٰ ‎﴿١٤﴾‏ لَا یَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى ‎﴿١٥﴾‏ الَّذِی كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ‎﴿١٦﴾‏ (اللیل)
’’بیشک راہ دکھا دینا ہمارا ذمہ ہے اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے، میں نے تو تمہیں شعلہ مارتی ہوئی آگ سے ڈرا دیا ہے، جس میں صرف وہی بدبخت داخل ہوگا جس نے جھٹلایا اور (اس کی پیروی سے) منہ پھیرلیا۔‘‘

دنیاکی زندگی دراصل ایک امتحان کے سواکچھ نہیں  ہے ،جیسے فرمایا

یٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ۝۰ۡوَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الْقَرَارِ۝۳۹ [21]

ترجمہ: اے قوم!یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔

اس دنیامیں  زندگی گزارنے کے دوراستے ہیں  ،ایک جرنیلی راستہ تووہ ہے جوسیدھارب کی طرف جاتاہے،جس پرچلنے میں  کوئی اونچ نیچ نہیں ، کسی لٹیرے سے لٹنے کاکوئی خطرہ نہیں  اوراس کے ساتھ بے شمارٹیڑھے راستے ہیں  جورب کی رحمت سے دور اور ظلمتوں کے قریب لے جاتے ہیں ، اس لئے صراط مستقیم کوواضح کرنے کاذمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے خود لے لیا،چنانچہ فرمایا راہ راست یعنی حلال وحرام،خیروشر اورہدایت وضلالت کوواضح کر نے کاذمہ اللہ تعالیٰ کاہے جواس نے پوراکردیا ہے، اس سلسلہ میں  اس نے انسان کوپیدائشی طورپرعقل وشعورسے بہرہ ور کیا، اور پھراس کی مزیدرہنمائی کے لئے آسمانی تعلیمات اورانبیاء کاسلسلہ جاری فرمایاہے ، جیسے فرمایا

وَعَلَی اللهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ ۔۔۔۝۹ۧ [22]

ترجمہ: اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھاراستہ بتاناجبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں  ۔

اصل حقیقت یہی ہے کہ اللہ ہی دنیاوآخرت کامالک ہے،وہ جس طرح چاہے اس میں  تصرف کرتاہے ،جوانسان اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب کرتاہے اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے تحت اس کودنیاعطافرمادیتاہے اور جو آخرت کی بھلائی چاہتاہے تواس کاعطاکرنابھی اللہ کے اختیارمیں  ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْھَا۝۰ۚ وَسَنَجْزِی الشّٰكِرِیْنَ۝۱۴۵ [23]

ترجمہ:جوشخص ثواب دنیاکے ارادہ سے کام کرے گااس کوہم دنیاہی میں  سے دیں  گے اورجوثواب آخرت کے ارادہ سے کام کرے گااس کوہم آخرت میں  سے دیں  گے،اورشکرکرنے والوں  کوہم ان کی جزاضرور عطاکریں  گے ۔

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖ۝۰ۚ وَمَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ۝۲۰ [24]

ترجمہ: جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کوہم بڑھاتے ہیں  اورجو دنیا کی کھیتی چاہتاہے اسے دنیاہی میں  سے دیتے ہیں  مگرآخرت میں  اس کاکوئی حصہ نہیں  ہے۔

پس اللہ نے تمہیں  دونوں  راستے بتلا کر جہنم کی آگ سے ہوشیارکردیاہے لہذااس کے دردناک اوررسواکن عذاب سے بچنے کی کوشش کرو،

عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ یَخْطُبُ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَخْطُبُ یَقُولُ: أَنْذَرْتُكُمُ النَّارَ، أَنْذَرْتُكُمُ النَّارَ، حَتَّى لَوْ أَنَّ رَجُلًا كَانَ بِالسُّوقِ، لَسَمِعَهُ مِنْ مَقَامِی هَذَا، قَالَ: حَتَّى وَقَعَتْ خَمِیصَةٌ كَانَتْ عَلَى عَاتِقِهِ عِنْدَ رِجْلَیْهِ

سماک بن حرب سے مروی ہے میں  نےنعمان رضی اللہ عنہ کوچادر اوڑھے ہوئے خطاب کے دوران یہ کہتے ہوئے سناکہ میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم باربار فرمارہے تھے لوگومیں  تمہیں  جہنم کی آگ سے ڈراچکا،لوگو!میں  تمہیں  جہنم کی آگ سے ڈرارہاہوں ، اگر کوئی شخص اتنی اتنی مسافت پر ہوتا تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو سن لیتاحتی کہ یہ فرماتے فرماتے وہ چادرجوآپ کے کندھے مبارک پرتھی کندھے سے سرک کرآپ کے قدموں  کے پاس گرگئی۔ [25]

النُّعْمَانَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا یَوْمَ القِیَامَةِ لَرَجُلٌ، تُوضَعُ فِی أَخْمَصِ قَدَمَیْهِ جَمْرَةٌ یَغْلِی مِنْهَا دِمَاغُهُ

اورجہنم کے سب سے ہلکے عذاب کے بارے میں  نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ فرمارہے تھےسب سے ہلکے عذاب والاجہنمی قیامت کے دن وہ ہوگاجس کے دونوں  قدموں  کے نیچے دوانگارے رکھ دیے جائیں  گے جن کی حرارت سے اس کا دماغ ابل رہاہوگا۔ [26]

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَهُ نَعْلَانِ وَشِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ، یَغْلِی مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا یَغْلِ الْمِرْجَلُ، مَا یَرَى أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْهُ عَذَابًا وَإِنَّهُ لَأَهْوَنُهُمْ عَذَابًا

ایک اور روایت میں  نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے ہلکے عذاب والاجہنمی وہ ہوگاجس کی دونوں  جوتیاں  اوردونوں  تسمے آگ کے ہوں  گے جن سے اس کادماغ اس طرح ابل رہاہوگاجس طرح ہنڈیاجوش کھارہی ہو،باوجودیکہ سب سے ہلکے عذاب والایہی ہے لیکن اس کے خیال میں  اس سے زیادہ عذاب والااورکوئی نہ ہوگا۔ [27]

جوبدبخت اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ تعلیمات اوراس کے مبعوث کیے ہوئے پیغمبروں  کوجھٹلائے گا اوراس سے منہ موڑے گااسے جہنم کی شعلہ مارتی اور بھڑکنے والی آگ میں  داخل کیاجائے گا ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:كُلُّ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ یَأْبَى؟قَالَ:مَنْ أَطَاعَنِی دَخَلَ الجَنَّةَ ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری ساری امت جنت میں  جائے گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حیران ہوکرپوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جنت میں  جانے سے کون انکارکرے گا؟فرمایاجومیری اطاعت کرے گاوہ جنت میں  داخل ہوگااورجس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں  داخل ہونے سے انکار کردیا۔ [28]

 وَسَیُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ‎﴿١٧﴾‏ الَّذِی یُؤْتِی مَالَهُ یَتَزَكَّىٰ ‎﴿١٨﴾‏ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ ‎﴿١٩﴾‏ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ ‎﴿٢٠﴾‏ وَلَسَوْفَ یَرْضَىٰ ‎﴿٢١﴾‏(اللیل)
’’اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہوگا، جو پاکی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال دیتا ہےکسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہوبلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے، یقیناً وہ (اللہ بھی) عنقریب رضامند ہوجائے گا ۔‘‘

اوراس دردناک عذاب کی جگہ جہنم سے وہی دورکرکے وہی جنت میں  داخل کیاجائے گاجونہایت متقی اورپرہیزگارہوگاجوریاکاری ،شہرت یاکسی کااحسان اتارنے یاکسی کوزیر احسان کرنے یاکسی اور دینوی فائدے کے لئے نہیں  بلکہ اخلاص سے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنامال خرچ کرتاہوگا ،جوشخص ان صفات عالیہ سے متصف ہوگااللہ تعالیٰ اسے جنت کی نعمتیں  اورعزت وشرف عطافرمائے گاجس سے وہ راضی ہوجائے گا،اکثرمفسرین کہتے ہیں  یہ آیتیں  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں  نازل ہوئی تھیں  ۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِی سَبِیلِ اللهِ، نُودِیَ مِنْ أَبْوَابِ الجَنَّةِ: یَا عَبْدَ اللهِ هَذَا خَیْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاَةِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّلاَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجِهَادِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّیَامِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الرَّیَّانِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللهِ مَا عَلَى مَنْ دُعِیَ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ یُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللهِ مَا عَلَى مَنْ دُعِیَ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ یُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَاقَالَ:نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجواللہ کے راستے میں  دوچیزیں  خرچ کرے گااسے فرشتے جنت کے دروازوں  سے بلائیں  گے کہ اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ اچھا ہے،جوشخص نمازی ہوگااسے نمازکے دروازہ سے بلایاجائے گا،جومجاہدہوگااسے جہادکے دروازے سے بلایاجائے گاجوروزہ دارہوگااسے باب ریان سے بلایا جائے گا، اور جوزکوة ادا کرنے والاہوگا اسے زکوة کے دروازہ سے بلایاجائے گا،اس پرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھامیرے ماں  باپ آپ پرفداہوں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جولوگ ان دروازوں  (میں  سے کسی ایک دروازہ)سے بلائے جائیں  گے مجھے ان سے بحث نہیں  ،آپ یہ فرمائیں  کہ کیاکوئی ایسابھی ہوگاجسے ان سب دروازوں  سے بلایاجائے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں  اورمجھے امیدہے کہ تم بھی انہیں  میں  سے ہو گے۔ [29]

[1] النبا۸

[2] الرعد۳

[3] الذاریات۴۹

[4] النحل ۹۷

[5] مریم۹۶

[6] البقرة۲۶۱

[7] البقرة۲۶۵

[8] اللیل: ۶

[9] تفسیر طبری۴۷۱؍۲۴

[10] الانعام۱۲۵

[11] الانعام ۱۱۰

[12] البقرة ۴۶

[13] التوبة۵۴

[14] التوبةہ ۹۸

[15] اللیل: 6

[16] سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۴۶۹۴،صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة واللیل اذایغشی بَابُ قَوْلِهِ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى۴۹۴۵،مسنداحمد۱۱۱۰،صحیح ابن حبان ۳۳۴، السنن الکبری للنسائی ۱۱۶۱۴،مسندابی یعلی ۵۸۲

[17] مسنداحمد۱۹۹؍۱

[18] مسنداحمد۱۹۶

[19] مسنداحمد۱۴۶۰۰

[20] آل عمران۱۸۰

[21] المومن۳۹

[22] النحل۹

[23] آل عمران۱۴۵

[24] الشوریٰ۲۰

[25] مسنداحمد۱۸۳۹۸

[26] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ ۶۵۶۱ ،جامع ترمذی ابواب الجھنم باب ۱۵۴۷،ح ۲۶۰۴،مسنداحمد۱۸۳۹۰،مصنف عبدالرزاق ۱۸۴۴۷،مستدرک حاکم۸۷۳۲

[27] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا۵۱۷ ،مصنف ابن ابی شیبة۳۴۱۳۲

[28] صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۷۲۸۰، مسنداحمد۸۷۲۸

[29] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابٌ الرَّیَّانُ لِلصَّائِمِینَ۱۸۹۷،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ مَنْ جَمَعَ الصَّدَقَةَ، وَأَعْمَالَ الْبِرِّ۲۳۷۱

Related Articles