بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة المزمل

اس سورت میں  مسلمانوں  کی انفرادی اوراجتماعی تربیت وتزکیہ کاایک جامع پروگرام ہے جس کے اہم اجزاء یوں  ہیں ۔

xروحا نی تربیت کے لئے نصف رات یااس سے کچھ کم قیام اللیل،اورقیام کے دوران قرآن مجید کی ترتیل( تدبر اورتذکر)کے ساتھ تلاوت اورتلاوت کے درمیان اللہ تعالیٰ سے مناجات اورگریہ وزاری۔

xقیام اللیل اورتلاوت کے راستہ تزکیہ اورراست بازی کاحصول ۔

xاللہ تعالی کے نام کاذکراوراس کی کثرت۔

xغیراللہ سے قلبی تعلق کاٹ کراللہ تعالیٰ کی ذات کومحبوب حقیقی بنانا،اسے اپنی حقیقی منزل ٹھہرانااورزندگی کے تمام اعمال اس کی رضاکی خاطرکرنا (الاخلاص للہ)

xتمام معاملات میں  اللہ تعا لیٰ کوکارسازٹھہرانااورصرف اسی پربھروسہ کرنا۔

xکفارکی ریشہ دوانیوں  ،سازشوں  ،بدکلامیوں  اورایذاؤ ں  پر صبرکی تلقین اور ان کامعاملہ اللہ تعالیٰ کے سپردکردینا۔

اس سلسلہ میں  فرعون کاقصہ بیان فرمایاکہ فرعون اوردوسری قومیں  رسولوں  کوجھٹلاکرعذاب کی مستحق بنیں  توتم کیسے وہی روش اختیارکرکے محفوظ رہ سکتے ہو۔

سورت کے اختتام پراللہ نے اپنے رسول مقبول اورمومنین پرتخفیف کااعلان فرمایاکہ نصف رات یاثلث یادوثلث کاقیام ضروری نہیں  بلکہ جتنابھی آسانی سے ممکن ہوقیام اللیل کرلیاکرواورجتناقرآن آسانی سے تلاوت کرسکتے ہواتنی ہی تلاوت کرلو،حقوق اللہ میں نمازکی پابندی کرواورحقوق العبادمیں  زکوٰة اداکرتے اوراللہ کوقرض حسنہ دیتے رہو، یہی نیکیاں  تمہارے لئے توشہ آخرت ہیں ،جن کاتم بہترین صلہ پاؤ گےاوراللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں  اور لغزشوں  کی بخشش مانگتے رہو ۔

 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ ‎﴿١﴾‏ قُمِ اللَّیْلَ إِلَّا قَلِیلًا ‎﴿٢﴾‏ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِیلًا ‎﴿٣﴾‏ أَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا ‎﴿٤﴾‏(المزمل )
اے کپڑے میں  لپٹنے والے! رات (کے وقت نماز) میں  کھڑے ہوجاؤ مگر کم، آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرلےیا اس پر بڑھا دے، اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر۔

جس وقت اس آیات کانزول ہوااس وقت سیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم چادراوڑھ کرسوچکے تھے یاسونے کے لئے چادراوڑھ کرلیٹ چکے تھے ،اسی حالت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اے رسول یااے نبی کہہ کرخطاب کرنے کے بجائے ایک لطیف اندازسے مخاطب فرمایا،اے اوڑھ لپیٹ کرسونے والے اب چادرچھوڑدیں ،اب آپ قیام الیل کریں  ، راتوں  کواللہ کی بارگاہ میں  سجدہ ریزرہیں ،مگرپوری رات نہیں  بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواختیاردیاگیاکہ خواہ یہ قیام آدھی رات سے زیادہ ہویاکم یعنی مطلوب یہ ہے کہ زیادہ رات نماز میں  کھڑے ہو کرگزارواوراس کاکم حصہ سونے میں  صرف کرو ، جیسے فرمایا

وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَسَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا۝۲۶ [1]

ترجمہ:رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو اور رات کے طویل اوقات میں  اس کی تسبیح کرتے رہو۔

وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ۝۰ۤۖ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۝۷۹ [2]

ترجمہ:اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے ، بعید نہیں  کہ تمہارا رب تمہیں  مقامِ محمود پر فائز کر دے۔

وَقَدْ كَانَ وَاجِبًا عَلَیْهِ وَحْدَهُ

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حکم کی بناپرنمازتہجدآپ کے لئے واجب تھی۔ [3]

اورنمازکے قیام کے دوران قرآن مجیدکو دوران رواں  دواں  نہ پڑھیں  بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کریں اورایک ایک آیت پروقف کریں تاکہ ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم ومدعاکوسمجھے اوراس سے تدبر اور تفکر حاصل کرے ، جہاں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات وصفات کاذکرآئے تواس کی عظمت وہیبت دل پرطاری ہو جائے ، رحمت کابیان ہوتودل جذبات تشکرسے لبریز ہو جائے،اللہ کے غضب اوراس کے عذاب کاذکرہوتودل پراس کاخوف طاری ہوجائے ،کسی چیزکاحکم دیاگیاہویاکسی چیزسے منع کیاگیا ہو تو سمجھا جائے کہ کس چیزکاحکم دیا گیا ہے اورکس چیزسے منع فرمایاگیاہے الغرض قرات غوروفکر اورتدبرکے ساتھ ہونی چاہیے ،اس حکم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عمر قیام الیل فرماتے اورقیام کے دوران چھوٹی سورتوں  کوبھی ٹھہر ٹھہرکر خوش آوازی کے ساتھ پڑھتے جس سے چھوٹی سورت بھی بڑی ہوجاتی تھی،اس طرح لمبے قیام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں  اورپنڈلیوں  پرورم آجاتاتھا،

عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ كَیْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:كَانَتْ مَدًّا، ثُمَّ قَرَأَ: {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ} [4] یَمُدُّ بِبِسْمِ اللَّهِ، وَیَمُدُّ بِالرَّحْمَنِ، وَیَمُدُّ بِالرَّحِیمِ

قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہےمیں  نے انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے پوچھا خیرالاولین والاخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات کیسی تھی ؟انہوں  نے بیان کیاکہ مدکے ساتھ ،پھربسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کرسنائی،اورکہابسم اللہ میں  اللہ کی لام کومدکے ساتھ پڑھتے،الرحمٰن میں  میم کومدکے ساتھ پڑھتے اورالرحیم میں  حاء کو مد کے ساتھ پڑھتے۔ [5]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا ذَكَرَتْ أَوْ كَلِمَةً غَیْرَهَا قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ. الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. مَلِكِ یَوْمِ الدِّینِ) یُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ آیَةً آیَةً

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ اس طرح پڑھتے تھے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،ایک آیت الحمدللہ رب العالمین دوسری آیت،الرحمٰن الرحیم تیسری آیت،مالک یوم الدین چوتھی آیت،ہرہرآیت کوالگ الگ پڑھتے تھے ملاتے نہ تھے۔[6]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اقْرَأْ، وَارْتَقِ، وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا، فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آیَةٍ تَقْرَؤُهَا

چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاصاحب قرآن سے کہاجائے گاکہ پڑھتاجااورچڑھتاجا،اوراسی طرح ٹھہرٹھہرکرپڑھ جیسے کہ دنیامیں  پڑھا کرتا تھا ،جہاں  آخری آیت ختم کرے گاوہیں  تیرامقام ہوگا۔[7]

چنانچہ قیام الیل میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حمدوثنابیان کرتے اورسورت کی مناسبت سے رحمت کی دعااور عذاب سے پناہ مانگتے ،

عَنْ حُذَیْفَةَ، قَالَ:صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَةٍ،إِذَا مَرَّ بِآیَةٍ فِیهَا تَسْبِیحٌ سَبَّحَ ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ایک مرتبہ میں  رات کی نمازمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑاہوگیاتوآپ کی قرات کایہ اندازدیکھاجہاں  تسبیح کاموقعہ آتاوہیں  تسبیح فرماتے اور جہاں  دعاکاموقعہ آتاوہاں  دعامانگتےاورجہاں  اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کاموقعہ آتاوہاں  پناہ مانگتے۔[8]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةً فَقَرَأَ بِآیَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ، یَرْكَعُ بِهَا وَیَسْجُدُ بِهَا: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ}[9] ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا زِلْتَ تَقْرَأُ هَذِهِ الْآیَةَ حَتَّى أَصْبَحْتَ، تَرْكَعُ بِهَا وَتَسْجُدُ بِهَا قَالَ:إِنِّی سَأَلْتُ رَبِّی الشَّفَاعَةَ لِأُمَّتِی فَأَعْطَانِیهَا، وَهِیَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لِمَنْ لَا یُشْرِكُ بِاللَّهِ شَیْئًا

ابوذر رضی اللہ عنہ کابیان ہےایک مرتبہ رات کی نمازمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی آیت کودہراتے رہے، إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ’’اگرآپ انہیں  سزا دیں  تووہ آپ کے بندے ہیں  اوراگرمعاف کردیں  توآپ غالب اوردانا ہیں ۔‘‘ میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبح تک ایک ہی آیت کو دہراتے رہے اس کی کیاوجہ ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  اپنے رب سےاپنی امت کے لئے شفاعت کی درخواست کرتارہااوراس نے مجھے عطافرمادی ہے جوشخص اللہ کے ساتھ شرک نہیں  کرے گاوہ اسے بخش دے گا۔ [10]

 إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ هِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا ‎﴿٦﴾‏ إِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِیلًا ‎﴿٧﴾‏ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْهِ تَبْتِیلًا ‎﴿٨﴾‏ رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِیلًا ‎﴿٩﴾‏ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا یَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِیلًا ‎﴿١٠﴾‏ (المزمل )
یقیناً ہم تجھ پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کریں  گے، بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب ہے بالکل درست کردینے والا ہے ، یقیناً تجھے دن میں  بہت شغل رہتا ہے ،تو اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کر، اور تمام خلائق سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجا،مشرق و مغرب کا پروردگار! جس کے سوا کوئی معبود نہیں  تو اسی کو اپنا کارساز بنا لےاور جو کچھ وہ کہیں  تو سہتا رہ، اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! رات کاقیام نفس انسانی کے لئے بالعلوم گراں  ہوتاہے مگررات کوسوکراٹھنانفس کوزیرکرنے کے لئے اورزبان کودرست کرنے کے لئے اکسیرہے اس کے التزام کرنے سے آدمی میں  بڑی ہمت وطاقت اورثابت قدمی پیداہوتی ہے اوروہ اللہ کی راہ میں  زیادہ مضبوطی سے چل سکتاہے ،جبکہ دن کے اوقات میں  یہ مقاصدحاصل نہیں  ہو سکتے ،اس لئے ہم آپ پریہ بوجھ اس لئے ڈال رہے ہیں  کہ اب آپ پرایک کارعظیم کابوجھ ڈال دیاگیاہےجس کے تقاضے کچھ اورہیں  یعنی قرآن مجیدجس کے احکام وفرائض پرعمل کرنا،اس کی حدودکی پابندی ،اس کی تعلیمات کانمونہ بن کردکھانا،اس کی تبلیغ ودعوت کولیکرساری دنیاکے مقابلے میں  کھڑاہونا،اس کے مطابق عقائد وافکار ، اخلاق اورتہذیب وتمدن کے پورے نظام میں  انقلاب برپاکرناایک بھاری اورجاں  گسل عمل ہے،جس سے بڑھ کرکسی بھاری کام کاتصورنہیں  کیاجاسکتا، قرآن جس کا وصف یہ ہواس بات کامستحق ہے کہ اس کے لئے تیاری کی جائے اورتحمل وبرداشت کی یہ طاقت تمہیں  رات کی نمازہی مہیاکرسکتی ہے۔بعض نے ثقل(بھاری پن)سے وہ بوجھ مرادلیاہے جونزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرپڑتاتھاجس سے سخت سردی میں  بھی آپ پسینے سے شرابورہوجاتے تھے،

أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ:فَأَنْزَلَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِی، فَثَقُلَتْ عَلَیَّ حَتَّى خِفْتُ أَنْ تَرُضَّ فَخِذِی، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْهُ

زید رضی اللہ عنہ بن ثابت سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی اس حالت میں  نازل ہوئی کہ آپ اپنازانومیرے زانوپررکھے ہوئے بیٹھے تھے،میرے زانوپراس وقت ایسابوجھ پڑاکہ معلوم ہوتاتھاکہ میری ران اب ٹوٹ جائے گی۔ [11]

قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: وَلَقَدْ رَأَیْتُهُ یَنْزِلُ عَلَیْهِ الوَحْیُ فِی الیَوْمِ الشَّدِیدِ البَرْدِ، فَیَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِینَهُ لَیَتَفَصَّدُ عَرَقًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے مروی ہےمیں  نے سخت کڑاکے کی سردی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اورجب اس کاسلسلہ موقوف ہوا تو آپ کی پیشانی پسینے سے شرابورتھی۔[12]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:إِنْ كَانَ لَیُوحَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَتَضْرِبُ بِجِرَانِهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت میں  ہےجب کبھی آپ پراس حالت میں  وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پرسوارہوں  تواونٹنی اپناسینہ زمین پرٹکادیتی تھی۔[13]

عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أُوحِیَ إِلَیْهِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ، وَضَعَتْ جِرَانَهَا، فَمَا تَسْتَطِیعُ أَنْ تَحَرَّكَ حَتَّى یُسَرّى عَنْهُ

اورہشام بن عروہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں جب کبھی آپ پراس حالت میں  وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پرسوارہوں  تواونٹنی اس وقت تک حرکت نہ کرسکتی تھی نہ گردن اونچی ہوتی جب تک نزول وحی کاسلسلہ ختم نہ ہوجاتا۔[14]

دن کے وقت دعوت دین وتبلیغ اوردینوی ومعاشی کام کاج کی وجہ آپ کو بہت مصروفیات رہتی ہیں  جس کی وجہ سے آپ دل جمعی سے اللہ تبارک وتعالیٰ کاذکرنہیں  کرسکتے ،جبکہ رات کی خاموشی ، سکون اور فراغت کی وجہ سے تلاوت قرآن مجیدزیادہ واضح اور حضور قلب کے لئے زیادہ موثرہوتاہے،جس سے نمازی اس سے زیادہ محفوظ ہوتااوراس کی اثر افرینی کومحسوس کرتا ہےا س لئے اس مشکل کام کی تیاری کے لئے دن کو اموردنیاکی ادائیگی کے ساتھ اور رات کو سب سے کٹ کرجہانوں  کے خالق ومدبررب جس بالا و بلند ہستی کے سواکوئی معبود نہیں  متوجہ ہوجائیں ،اوروہ اس بات کامستحق ہے کہ اس کومحبت وتعظیم اوراجلال وتکریم سے مختص کیاجائے،اس کی عبادت کے لئے یکسو اورہمہ تن ہوکر خشوع خضوع کے ساتھ تسبیح وتحمید اور تکبیروتہلیل کرتے رہیں ،اورجس طرح آپ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے ہیں  اسی طرح اسی ہی کواپنے تمام امورکی تربیرکرنے والا اور محافظ بناکراسی پر توکل اور بھروسہ رکھیں ۔

 وَذَرْنِی وَالْمُكَذِّبِینَ أُولِی النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِیلًا ‎﴿١١﴾‏ إِنَّ لَدَیْنَا أَنكَالًا وَجَحِیمًا ‎﴿١٢﴾‏ وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِیمًا ‎﴿١٣﴾‏ یَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیبًا مَّهِیلًا ‎﴿١٤﴾(المزمل )

اور مجھے اور ان جھٹلانے والے آسودہ حال لوگوں  کو چھوڑ دے اور انہیں  ذرا سی مہلت دے، یقیناً ہمارے ہاں  سخت بیڑیاں  ہیں  اور سلگتی ہوئی جہنم ہےاور حلق میں  اٹکنے والا کھانا ہے اور درد دینے والا عذاب ہے، جس دن زمین اور پہاڑتھر تھرائیں  گے اور پہاڑ مثل بھربھری ریت کے ٹیلوں  کے ہوجائیں  گے۔

پھرکفارومشرکوں  کی شوروغوغاپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوصبرکی تلقین کرکے فرمایاگیاکہ اگریہ مخالفت وستانے پرآمادہ آسودہ حال لوگ جن کوہم نے اپنے زرق کی فراغی عطاکی اور اپنے فضل وکرم سے نوازا سرکشی کرتے ہیں  ،جیسے فرمایا

كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓى۝۶ۙاَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى۝۷ۭ [15]

ترجمہ:ہرگزنہیں ،انسان سرکشی کرتاہے اس بناپرکہ وہ اپنے آپ کوبے نیازدیکھتاہے۔

ان حقائق کودیکھنے اورسمجھنے کے باوجودبھی حقیقت پسندانہ رویہ اختیارنہ کریں  تو آپ غم،غصےاورجھنجھلاہٹ کے بجائے شریفانہ طور پر ان لوگوں  سے بے تعلق ہوجائیں  ، ان کی بیہودگیوں  کونظراندازکردیں  اور ان کی بدتمیزیوں  پرکچھ کہے بغیر ان کو ان کے حال پرچھوڑدیں ہم خودہی ان سے نمٹ لیں  گے، اس زندگی میں  یہ کچھ فائدے حاصل کرلیں  مگر انجام کارانہوں  نے پلٹ کر ہماری طرف ہی آناہے جہاں  ہم انہیں  چھوڑنہیں  دیں  گے بلکہ ہم انہیں  ان کے جرائم کے صلہ میں  بھاری بیڑیاں  پہناکرکہ( یہ جہنم کے گڑھے سے) اٹھ نہ سکیں اورگردن میں  طوق ڈال کر بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اورنہ کم ہونے والی جہنم کی آگ میں  ڈال دیں  گے ، جوانتہائی دردناک اورتکلیف دہ عذاب کی جگہ ہے، جس میں  یہ ایسی خوراک کھائیں  گے جوتلخی ،بدمزگی ،ذائقے کی کراہت اوربے انتہاگندی بدبوکی بناپران کے حلق میں  اٹک کررہے جائے گی، جسے یہ نہ تونگل سکیں  گے اورنہ اگل سکیں  گے،اورپینے کو کھولتاہواگندہ پانی دیں  گے جوان کی انتڑیوں  کو گلادے گااور اس طرح کے اور المناک عذاب دیں  گے ،جہنم کی خوراک اورمشروب کے بارے میں  جیسے متعددمقامات پرفرمایا

۔۔۔كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَهُمْ  [16]

ترجمہ: (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں  یہ جنت آنے والی ہے) ان لوگوں  کی طرح ہوسکتا ہے جو جہنم میں  ہمیشہ رہیں  گے اور جنہیں  ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں  کاٹ دے گا؟۔

ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝۵۱ۙلَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۝۵۲ۙفَمَالِــــُٔـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ۝۵۳ۚفَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَالْحَمِیْمِ۝۵۴ۚفَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِ۝۵۵ۭھٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ۝۵۶ۭ[17]

ترجمہ:پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والوں  !تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والے ہو،اسی سے تم پیٹ بھرو گےاور اوپر سے کھولتا ہوا پانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گے ،یہ ہے(ان بائیں  والوں  کی) ضیافت کا سامان روزجزا میں ۔

اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۝۶۲اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِیْنَ۝۶۳اِنَّهَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِیْٓ اَصْلِ الْجَحِیْمِ۝۶۴ۙطَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ۝۶۵فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـــــُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ۝۶۶ۭثُمَّ اِنَّ لَهُمْ عَلَیْهَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِیْمٍ۝۶۷ۚثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِیْمِ۝۶۸اِنَّهُمْ اَلْفَوْا اٰبَاۗءَهُمْ ضَاۗلِّیْنَ۝۶۹ۙفَهُمْ عَلٰٓی اٰثٰرِهِمْ یُهْرَعُوْنَ۝۷۰وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۷۱ۙوَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْهِمْ مُّنْذِرِیْنَ۝۷۲فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ ۝۷۳ۙ[18]

ترجمہ: بولو ، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟ہم نے اس درخت کو ظالموں  کے لیے فتنہ بنا دیا ہے،وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہےاس کے شگوفے ایسے ہیں  جیسے شیطانوں  کے سر ،جہنم کے لوگ اسے کھائیں  گے اور اس سے پیٹ بھریں  گے ،پھر اس پر پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ملے گااور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہوگی،یہ وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایااور انہی کے نقش قدم پر دوڑ چلے ،حالانکہ ان سے پہلے بہت سے لوگ گمراہ ہو چکے تھے اور ان میں  ہم نے تنبیہ کرنے والے رسول بھیجے تھے۔

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ۝۴۳ۙطَعَامُ الْاَثِیْمِ۝۴۴ۚۖۛكَالْمُهْلِ۝۰ۚۛ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ۝۴۵ۙكَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۝۴۶[19]

ترجمہ:زقوم کا درخت گناہگاروں  کا کھاجا ہوگا تیل کی تچھلٹ جیسا،پیٹ میں وہ اس طرح جوش کھائے گاجیسے کھولتاہواپانی جوش کھاتاہے ۔

فَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا حَمِیْمٌ۝۳۵ۙوَّلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ۝۳۶ۙلَّا یَاْكُلُهٗٓ اِلَّا الْخَاطِـــُٔوْنَ۝۳۷ۧ[20]

ترجمہ:لہذا آج نہ یہاں  اس کا کوئی یار غم خوار ہے اور نہ زخموں  کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا،جسے خطاکاروں  کے سوا کوئی نہیں  کھاتا۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ۝۲ۙعَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ۝۳ۙتَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً۝۴ۙتُسْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍ۝۵ۭلَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ۝۶ۙلَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ۝۷ۭ[21]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روز خوف زدہ ہوں  گے،سخت مشقت کر رہے ہوں  گے، تھکے جاتے ہوں  گے،شدید آگ میں  جھلس رہے ہوں  گے،کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں  پینے کو دیا جائے گا،خاردار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا ان کے لیے نہ ہوگاجو نہ موٹا کرے نہ بھوک مٹائے۔

وَاِنَّ لِلطّٰغِیْنَ لَـشَرَّ مَاٰبٍ۝۵۵ۙجَهَنَّمَ۝۰ۚ یَصْلَوْنَهَا۝۰ۚ فَبِئْسَ الْمِهَادُ۝۵۶ھٰذَا۝۰ۙ فَلْیَذُوْقُوْهُ حَمِیْمٌ وَّغَسَّاقٌ۝۵۷ۙوَّاٰخَرُ مِنْ شَكْلِهٖٓ اَزْوَاجٌ۝۵۸ۭ[22]

ترجمہ: اور سرکشوں  کے لیے بدترین ٹھکانا ہے جہنم جس میں  وہ جھلسے جائیں  گےبہت ہی بری قیام گاہ، یہ ہے ان کے لیے، پس وہ مزا چکھیں  کھولتے ہوئے پانی اور پیپ لہو اور اس قسم کی دوسری تلخیوں  کا۔

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَكْفُرْ۝۰ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا۝۰ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا۝۰ۭ وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ۝۰ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا[23]

ترجمہ:صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے،ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں  کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں  انہیں  گھیرے میں  لے چکی ہیں  وہاں  اگر وہ پانی مانگیں  گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بری آرام گاہ!۔

اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا۝۲۱۠ۙ لِّلطَّاغِیْنَ مَاٰبًا۝۲۲ۙ لّٰبِثِیْنَ فِیْهَآ اَحْقَابًا۝۲۳ۚ لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا۝۲۴ۙ اِلَّا حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًا۝۲۵ۙ جَزَاۗءً وِّفَاقًا۝۲۶ۭ[24]

ترجمہ:درحقیقت جہنم ایک گھات ہے ،سرکشوں  کا ٹھکانا جس میں  وہ مدتوں  پڑے رہیں  گے،اس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں  گے،کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں  کا دھوون ،(ان کے کرتوتوں ) کا بھر پور بدلہ۔

اورجہنم کایہ عذاب ہم انہیں  اس دن دیں  گے جس دن زمین اوربلندوبالا،رنگ برنگ کے پہاڑشدیدزلزلہ سے تہ وبالاہوجائیں  گےاورزمین پرمضبوطی سے جمے ہوئے بڑے بڑے پر ہیبت،ٹھوس وسخت پہاڑآپس میں  ٹکراکربھربھری ریت کے ٹیلوں  کی طرح بے حیثیت ہو جائیں  گے،زمین کی شدیدحرکت اورہوا کی وجہ سے یہ بھربھری ریت آہستہ آہستہ پھیل کراڑتاہواغباربن جائے گی، ساری زمین ایک صاف چٹیل میدان بن جائے گی،کہیں  اونچ نیچ نہیں  ہوگی ،جیسے فرمایا

 وَیَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙفَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙلَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ[25]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے ؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔

یہ چٹیل میدان ، میدان محشر کہلائے گا۔

 إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَیْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَیْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا ‎﴿١٥﴾‏ فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِیلًا ‎﴿١٦﴾‏ فَكَیْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیبًا ‎﴿١٧﴾‏ السَّمَاءُ مُنفَطِرٌ بِهِ ۚ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا ‎﴿١٨﴾ (المزمل )
بیشک ہم نے تمہاری طرف بھی تم پر گواہی دینے والا رسول بھیج دیا ہےجیسے کہ ہم نے فرعون کے پاس رسول بھیجا تھا، تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت (وبال کی) پکڑ میں  پکڑ لیا، تم اگر کافر رہے تو اس دن کیسے پناہ پاؤگے جو دن بچوں  کو بوڑھا کر دے گا ،جس دن آسمان پھٹ جائے گا، اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہو کر ہی رہنے والاہے۔

اے لوگو!اس نبی امی وعربی کے بھیجے جانے پرجوخوشخبری دینے والا،ڈرانے والااورامت پران کے اعمال کے ذریعے سے گواہ ہے(یعنی دنیامیں  ان کے سامنے اپنے قول و فعل سے حق کی شہادت دیں اورآخرت میں  جب اللہ تعالیٰ کی عدالت برپاہوگی اس وقت آپ یہ گواہی دیں  کہ میں  نے ان لوگوں  کے سامنے حق پیش کردیاتھا)اللہ کی شکر ادا کرو ،رب کی حمدوستائش بیان کرو اوراس بے مثال نعمت کااعتراف کرواوراپنے رسول کاانکارکرنے اوراس کی نافرمانی کرنے سے بچو، میخوں  والے سرکش فرعون کی ماندنہ بن جاوجس کی طرف موسیٰ علیہ السلام کوکھلی نشانیوں  کے ساتھ بھیجاگیاتھا، رسول نے اسے بہترین پیرایہ میں  دعوت توحیددی،توحیدکے واضح دلائل بیان کیے، اللہ تعالیٰ کی نشانیاں  پیش کیں  مگراس نے اپنی طاقت کے گھمنڈ، مال ودولت کے غروراوربے جاہٹ دھرمی سے اس پاکیزہ دعوت کو قبول کرنے سے انکارکردیااوراللہ کے رسول کے مقابلہ پرآگیا،جیسے فرمایا

وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۝۲۳ۙاِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ [26]

ترجمہ:ہم نے موسیٰ کوفرعون اور ہامان اور قارون کی طرف اپنی نشانیوں  اورنمایاں  سندماموریت کے ساتھ بھیجا مگر انہوں  نے کہا ساحر ہے کذاب ہے۔

فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِیْنَ۝۳۶[27]

ترجمہ:پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں  کے پاس ہماری کھلی کھلی نشانیاں  لے کر پہنچا تو انہوں  نے کہا کہ یہ کچھ نہیں  ہے مگر بناوٹی جادو اور یہ باتیں  تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں  کبھی سنیں  ہی نہیں  ۔

وَلَقَدْ اَرَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى۝۵۶قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یٰمُوْسٰى۝۵۷فَلَنَاْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى۝۵۸قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی۝۵۹فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَـجَمَعَ كَیْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى۝۶۰[28]

ترجمہ:ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں  دکھائیں  مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا،کہنے لگا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟اچھا ہم بھی تیرے مقابلے میں  ویسا ہی جادو لاتے ہیں ، طے کر لیے کب اور کہاں  مقابلہ کرنا ہے نہ ہم اس قرارداد سے پھریں  گے نہ تو پھریو، کھلے میدان میں  سامنے آجا،موسی (علیہ السلام) نے کہا جشن کا دن طے ہوا اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں ،فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں  آگیا۔

اس کی طاقت اورظلم وستم کی وجہ سے اس کی قوم کے لوگ بھی اس نعمت سے محروم رہے ،آخرایک مقررہ مہلت کے بعداللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے انتہائی شدت کے ساتھ پکڑ لیا اوراسے لشکرسمت غرق کر دیا ، جیسے فرمایا

فَاَخَذَهُ اللهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى۝۲۵ۭ[29]

ترجمہ:آخرکار اللہ نے اسے آخرت اوردنیاکے عذاب میں  پکڑ لیا۔

اس کی سلطنت کے جابرطاقتور سردار، بڑی طاقتوارفوج،مال ودولت سے بھرے خزانے،ہرے بھرے باغات اس کے کچھ بھی کام نہ آسکے،اوراللہ اپنے بندوں  کوبخیروخوبی اس کے چنگل سے بچاکرلے گیا، اگرفرعون کی طرح تمہارے اعمال بھی یہی رہے کہ نہ توخوداس پاکیزہ دعوت کوقبول کرتے ہواورنہ دوسروں  کوقبول کرنے کے لئے آزاد چھوڑتے ہو توہوسکتاہے دنیامیں  ہم تم پرکوئی عذاب نہ بھیجیں  مگر قیامت کے روزکیسے نجات حاصل کروگے جوایک مقررہ وقت پروقوع پذیرہوجائے گا جونہایت ہولناک دن ہوگا، جس کی شدت ہولناکی سے بچے بوڑھے ہو جائیں  گے ،اس دن کی ہیبت اوردہشت کے مارے آسمان پھٹ جائے گا،جیسے فرمایا

 اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ۝۱ۙوَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ۝۲ۙ [30]

ترجمہ:جب آسمان پھٹ جائے گااور اپنے رب کا حکم بجا لائے گا اور اسے یہی واجب بھی ہے۔

سورج ،چاندستارے نیست ونابودہوجائیں  گے کوئی چیزاس کے سامنے حائل نہیں  ہوسکے گی ۔

 إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِیلًا ‎﴿١٩﴾‏ (المزمل )
بیشک یہ نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے۔

یہ وعظ جس کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے دن کے احوال اوراس کی ہولناکیوں  کی خبردی ہے ایک یاددہانی ہے،جس سے اہل تقوی نصیحت حاصل کرتے اور اہل ایمان برائیوں سے رک جاتے ہیں ،پس جوچاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیارکرے،وہ راستہ جس کواللہ تبارک وتعالیٰ نے کھول کھول کربیان فرمایااورپوری طرح واضح کیاہے،اوروہ راستہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے ذریعہ ہی مل سکتاہے ،اس آیت میں  اس امرکی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں  کوان کے افعال پرقدرت اور اختیار عطاکیاہے ، ایسے نہیں  جیسے جبریہ کہتے ہیں  کہ بندوں  کے افعال ان کی مشیت کے بغیرواقع ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ نقل اورعقل دونوں  کے خلاف ہے۔

[1] الدھر ۲۶

[2] بنی اسرائیل ۷۹

[3]تفسیرابن کثیر۲۴۹؍۸

[4] الفاتحة: ۱

[5]صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ مَدِّ القِرَاءَةِ ۵۰۴۶

[6]سنن ابوداودكِتَاب الْحُرُوفِ وَالْقِرَاءَاتِ ۴۰۰۱ ، جامع ترمذی کتاب القراء ت بَابٌ فِی فَاتِحَةِ الكِتَابِ ۲۹۲۷،مسنداحمد۲۶۵۸۵

[7]سنن ابوداودکتاب الوتربَابُ اسْتِحْبَابِ التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَةِ ۱۴۶۴ ، جامع ترمذی کتاب فضائل القرآن بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنَ القُرْآنِ مَالَهُ مِنَ الأَجْرِ۲۹۱۴

[8] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ اسْتِحْبَابِ تَطْوِیلِ الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ۱۸۱۴،سنن نسائی كِتَابُ قِیَامِ اللیْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَابُ تَسْوِیَةِ الْقِیَامِ وَالرُّكُوعِ، وَالْقِیَامِ بَعْدَ الرُّكُوعِ، وَالسُّجُودِ وَالْجُلُوسِ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ۱۶۶۵، مسند احمد۲۳۳۶۷

[9] المائدة: ۱۱۸

[10]مسنداحمد۲۱۳۲۸،شعب الایمان۱۸۸۰

[11]صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة النساء بَابُ لاَ یَسْتَوِی القَاعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِینَ۴۵۹۲

[12]صحیح بخاری کتاب بدء الوحی كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۲، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ عَرَقِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْبَرْدِ وَحِینَ یَأْتِیهِ الْوَحْیُ۶۰۵۸،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَا جَاءَ كَیْفَ كَانَ یَنْزِلُ الوَحْیُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۳۴،سنن نسائی کتاب الافتتاع باب جَامِعُ مَا جَاءَ فِی الْقُرْآنِ۹۳۵

[13]مسند احمد۲۴۸۶۸

[14]تفسیرطبری۶۸۱؍۲۳

[15] العلق۶،۷

[16] محمد۱۵

[17] الواقعة۵۱تا۵۶

[18] الصافات۶۲تا۷۳

[19] الدخان۴۳تا۴۶

[20] الحاقة۳۵تا۳۷

[21] الغاشیة۲تا۷

[22] ص۵۵تا۵۸

[23] الکہف۲۹

[24] النبا۲۱تا۲۶

[25] طہ۱۰۵تا۱۰۷

[26] المومن۲۴

[27] القصص۳۶

[28] طہ۵۶تا۶۰

[29] النازعات۲۵

[30] الانشقاق۱،۲

Related Articles