بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة المطففین

اہل عرب اللہ تعالیٰ کی صفات کومانتے تھے مگر عقیدہ آخرت کے منکرتھے ان کا خیال تھاکہ زمانہ ہی انہیں  پیداکرتااورمارتاہے، زندگی بس اسی دنیاکی زندگی ہے ،مرنے کے بعد زندہ ہونابعیدازقیاس ہے ، کوئی روزجزانہیں ،کوئی جنت اورکوئی جہنم نہیں  ہے۔

وَقَالُوْا مَا هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِكُنَآ اِلَّا الدَّهْرُ۔۔۔ ۝۲۴ [1]

ترجمہ :اور یہ لوگ کہتے ہیں  کہ جوکچھ ہے یہی ہماری دنیاکی زندگی ہے،یہیں  ہمارامرنااورجیناہے اورگردش ایام کے سواکوئی چیزنہیں  جوہمیں  ہلاک کرتی ہو۔

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙ [2]

ترجمہ : کہتے ہیں  کیاجب ہم مرکرخاک ہوجائیں  گے اورہڈیوں  کاپنجررہ جائیں  گے توپھراٹھاکھڑے کیے جائیں  گے؟۔

وہ اپنے یقین میں  اتنے پختہ تھے کہ قسمیں  کھاکرکہتے تھے۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ۝۰ۙ لَا یَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَّمُوْتُ۔۔۔۝۰۝۳۸ۙ [3]

ترجمہ :یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں  کھاکرکہتے ہیں  کہ اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا۔

اس لئے انہیں  اللہ کی بارگاہ میں  جوابدہی اور جزاوسزاکاکوئی خوف نہیں  تھا،آخرت سے غفلت کے نتیجے میں انہیں  کھلی چھٹی تھی کہ اللہ کی زمین پر جوچاہیں  کرتے پھریں ، مسافروں  اورحاجیوں  کامال چوری کریں ،قافلوں  پرڈاکے ڈالیں  اورلوگوں  کامال ہڑپ کرلیں ، معاشی ضروریات پوری کرنے اور کمزوردشمن قبائل کوختم کرنے کے لئے حملہ کر کے قتل وغارت کریں ،ان کی عورتوں  کی کھلے میدانوں  میں  عصمت تارتار کریں  اور عورتوں  وبچوں  کوغلام بنالیں ،ان کے مال ومویشی ہانک کرلے جائیں ،بچیوں  کوزندہ دفن کردیں ،ناپ تول میں  کمی بیشی کامرض ہر دور میں  عام رہا ہے ،اس مقصدکے لئے خرید وفروخت کے پیمانے مختلف رکھے جاتے تھے ، شعیب علیہ السلام کی قوم کواسی خرابی کے باعث عذاب سے دوچار کیا گیا تھا، اس جگہ اس خرابی کی بنیاد اور سبب کاذکرکیاکہ آخرت کی جوابدہی سے بے خوف ہونے کے باعث انسان میں  یہ مرض پیداہوتاہے کیونکہ آخرت کی جوابدہی کافکر راست بازی اورراست گوئی میں  بنیادی حیثیت کاحامل ہے کیونکہ آخرت کے منکرامانت ودیانت کو اچھائی اورخوبی سمجھ کراگراپنابھی لیں  گے توذاتی غرض ومفادکے موقع پروہ بددیانتی اور خیانت کی طرف مائل ہوسکتے ہیں  جبکہ آخرت کے خوف سے امانت ودیانت اپنانے والا کسی بھی صورت میں  برائی کی طرف مائل نہیں  ہوسکتا ، الحاصل اخلاق حسنہ پرمعاشرے کے تمام افراد کو کار بند کرنے کے لئے لازم ہے کہ عقیدہ آخرت کوراسخ کیاجائے ، جس طرح دوسرے لوگوں  نے جوابدہی سے بے خوف ہو کر اللہ کی زمین پرفساد برپاکیاہواتھا اسی طرح عرب کے تجارت پیشہ لوگ بھی اخلاقی طورپردیوالیہ ہوچکے تھے ، انہوں  نے بھی مختلف پیمانے رکھے ہوئے تھے جب انہوں  نے دوسروں  سے مال لیناہوتاتو صحیح پیمانے سے پورا پور اناپ کرلیتے مگرجب دوسروں  کودینے کامعاملہ ہوتاتوصحیح پیمانے کے بجائے کمی والے پیمانے سے ناپ کردیتے ،جب اسلام آیاتواس نے ناپ تول میں  میں  کمی کی سخت مذمت اورصحیح ناپنے اورتولنے کی سخت تاکیدکی ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۔۔۔۝۰۝۱۵۲ [4]

ترجمہ:اورناپ تول میں  پوراانصاف کرو۔

 وَاَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِیْمِ۔۔۔۝۳۵ [5]

ترجمہ:پیمانے سے دوتوپورابھرکردو اورتولوتوٹھیک ترازو سے تولو ۔

اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ۝۸وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ۝۹ [6]

ترجمہ:اس کاتقاضایہ ہے کہ تم میزان میں  خلل نہ ڈالو،انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازومیں  ڈنڈی نہ مارو۔

سورة کے آغازمیں  فرمایابڑی خرابی ہے ناپ تول میں  کمی کرنے والوں  کی کہ جب لوگوں  سے ناپ کرلیتے ہیں  توپوراپورالیتے ہیں  اورجب انہیں  ناپ کریاتول کردیتے ہیں  توکم دیتے ہیں  ،یہ مرض ہردورمیں  عام رہاکہ خریدوفروخت کے پیمانے مختلف رکھے جاتے،اس سے قبل قوم شعیب کے واقعات میں  بھی اس خرابی کے باعث عذاب کا ذکر ہے ، اس جگہ اس خرابی کی بنیاداورسبب کاذکرکیاکہ آخرت کی جوابدہی سے بے خوف ہونے کے باعث یہ مرض انسان میں  پیداہوتاہے کیونکہ آخرت کی جوابدہی کا فکرراست بازی اورراست گوئی میں  بنیادی حیثیت کاحامل ہے،کیونکہ آخرت کے منکرامانت ودیانت کواچھائی اور خوبی سمجھ کراپنا بھی لیں  گے توذاتی غرض ومفادکے موقع پروہ بددیانتی اور خیانت کی طرف مائل ہوسکتے ہیں  جبکہ آخرت کے خوف سے امانت ودیانت اپنانے والاکسی بھی صورت میں  برائی کی طرف مائل نہیں  ہوتا،الحاصل اخلاق حسنہ پرمعاشرے کے تمام افرادکوکار بند کرنے کے لئے لازم ہے کہ عقیدہ آخرت کوراسخ کیا جائے ،اس سورةمیں  ان لوگوں  کے انجام کاذکرہے جواہل جنت ہیں  اوراس بارے میں  مزید فرمایا کہ اہل جنت کفارکے انجام کودیکھ کرآخرت میں  سکون حاصل کریں  گے۔

اس کے علاوہ اس سورة میں  یہ باتیں  خصوصیت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں  جو انسانی نفسیات کے تجزئیے میں  شاہکارکادرجہ رکھتی ہیں ۔

xان لوگوں  کی ذہنی حالت کاذکرکیاجودوغلے پن کاشکار ہیں ، دو چہرے رکھتے ہیں اپنے لئے کچھ اوراوردوسروں  کے لئے کچھ اور،اس سلسلہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں  سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں  ہوسکتاجب تک اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی پسندنہ کرے جواپنے لئے کرتاہے۔

xاس ذہنی بیماری کاسبب یہ بتلایاکہ یہ لوگ اللہ کے سامنے جوابدہی اوراحساس ذمہ داری سے محروم ہیں  یہ لوگ روزجزاء کو جھٹلاتے ہیں  ۔

پھرروزجزاکوجھٹلانے والوں  کی نفسیات یوں  بیان فرمائی۔

xیہ لوگ حدسے گزرنے والے ہیں  اوربدعمل لوگ ہوتے ہیں ۔

xہ لوگ اللہ کی نازل شدہ آیات،اس کی تعلیمات اورانبیاء کے وعظ ونصیحت کودورحاضرمیں  قابل عمل نہیں  سمجھتے بلکہ پرانے وقتوں  کی کہانیاں  قرار دیتے ہیں ۔

xان کے اعمال کی سیاہی کے باعث ان کے دل زنگ آلودہوجاتے ہیں  اوردل کاآئینہ صاف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیتیں  حقائق الٰہیہ کے صحیح عکس سے محروم ہوجاتی ہیں  ۔

xاس زنگ اور سیاہی دل کی وجہ سے وہ قیامت کے دن بھی پروردگارکی دیدسے محروم رکھے جائیں  گے۔

xیہ لوگ دنیاوی زندگی میں  تواہل ایمان پرہنستے رہے،ان کودیکھ کرآنکھوں  ہی آنکھوں  میں  اشارے کرتے رہے لیکن قیامت کے دن صورتحال الٹ جائے گی،اس دن اہل ایمان جنت میں  اونچی مسندوں  پربیٹھے ہوئے کفارکی ناگفتہ بہ حالت کودیکھ کردل ہی دل میں  خوش ہوں  گے کہ اللہ تعالی نے انہیں  اس انجام سے بچالیااورکفارکی حالت پہ سب کوہنسی آرہی ہوگی ، یہ وہ لوگ ہوں  گے جودنیامیں  بہت جلال وشان کے دعویٰ دارتھے اور ان کی زندہ بادپکاری جاتی تھی لیکن اب وہ انتہائی ذلت کے عالم میں  ہوں  گے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ ‎﴿١﴾‏ الَّذِینَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ یُخْسِرُونَ ‎﴿٣﴾‏ أَلَا یَظُنُّ أُولَٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ‎﴿٤﴾‏ لِیَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿٥﴾‏ یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٦﴾‏ (المطففین)
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں  کمی کرنے والوں  کی کہ جب لوگوں  سے ناپ کرلیتے ہیں  تو پورا پورالیتے ہیں ، جب انہیں  ناپ کر یا تول کردیتے ہیں  تو کم دیتے ہیں ، کیا انہیں  مرنے کے بعد اٹھنے کا خیال نہیں ، اس عظیم دن کے لئے جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونگے۔

ناپ تول میں  کمی کے نتائج:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ كَانُوا مِنْ أَخْبَثِ النَّاسِ كَیْلًا،فَأَنْزَلَ اللهُ سُبْحَانَهُ: {وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ} فَأَحْسَنُوا الْكَیْلَ بَعْدَ ذَلِكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبارسے بہت برے تھے جب یہ آیت مبارکہ ’’ بڑی خرابی ہے ناپ تول میں  کمی کرنے والوں  کی ۔‘‘َنازل ہوئی توانہوں  نے ناپ تول بہت درست کرلی۔ [7]

اللہ تعالیٰ نے دھمکایا کہ دین وآخرت میں  ہلاکت ہے ان لوگوں  کے لئے جوناپ تول میں  کمی بیشی کرتے ہیں ، جو لوگ اپناحق توپوراپورا وصول کرتے ہیں  مگرگاہک کوپورامال دینے کے بجائے کم وزن دے کرنقصان پہنچاتے ہیں ، شعیب علیہ السلام کی قوم میں  یہی بیماری تھی ،وہ لوگوں  کوناپ اورتول کم کرکے دیتے تھے اس لیے انہوں  نے اپنی قوم سے کہاتھا۔

 وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا۝۰ۭ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۝۰ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـیَاۗءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۸۵ۚ [8]

ترجمہ:اور مدیَن والوں  کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو بھیجا اس نے کہا اے برادران قوم!اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں  ہے،تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں  کو ان کی چیزوں  میں  گھاٹا نہ دو ، اور زمین میں  فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے ، اسی میں  تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے متعددمقامات پراس کاحکم فرمایا

۔۔۔وَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۔۔۔۝۱۵۲ۙ [9]

ترجمہ: اور ناپ تول میں  پورا انصاف کرو۔

وَاَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِیْمِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۝۳۵ [10]

ترجمہ:پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ،یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی یہی بہتر ہے۔

اَوْفُوا الْكَیْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ۝۱۸۱ۚ [11]

ترجمہ:صحیح ترازوسے تولواورلوگوں  کوان کی چیزیں  کم نہ دو ۔

وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ۝۹ [12]

ترجمہ: انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں  ڈنڈی نہ مارو ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِینَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِهِنَّ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ: لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِی قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى یُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِیهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِی لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِهِمُ الَّذِینَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَالْمِیزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِینَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْهِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوا،

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایااے مہاجرین کے گروہ !پانچ باتیں  ہیں  جب تم میں  مبتلا ہواوراللہ کی پناہ مانگتاہوں  اس سے کہ تم ان میں  مبتلاہو،جب کسی قوم میں  علانیہ فسق وفجورہوتاہے(جیسے شراب خمروغیرہ)توان میں  طاعون آتا ہے (یعنی وبا)اورایسی ایسی بیماریاں  پیداہوتی ہیں  کہ اگلے لوگوں  میں  وہ بیماریاں  کبھی نہیں  ہوتی تھیں ،اورجب کوئی قوم تول اورماپ میں  چوری کرتی ہےتوان پرقحط اترتاہےاورسخت مصیبت پڑتی ہےاوربادشاہ وقت ان پرظلم کرتاہے، اورجب کوئی قوم اپنے مال کی زکوٰة نہیں  دیتی تواللہ ان پربارش کوروک دیتاہے اوراگردنیامیں  چارپائے نہ ہوتے توبالکل پانی نہ پڑتا،

وَلَمْ یَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی أَیْدِیهِمْ، وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَیْنَهُمْ

اورجب کوئی قوم اللہ اوراس کے رسول کاعہدتوڑتی ہے (یعنی اللہ کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت پرعمل کرناچھوڑدیتی ہے)تواللہ ان پرایک دشمن مسلط کرتاہے جوان کی قوم کانہیں  ہوتا اوروہ ان کے مال جوان کے ہاتھوں  میں  ہوتے ہیں  چھین لیتاہے،اورجب مسلمان حاکم اللہ تعالیٰ کی حکومت پرنہیں  چلتے اوراللہ نے جونازل کیاہے اسے اختیارنہیں  کرتے (بلکہ اپنے عقلی قانون اورقواعدپرچلتے ہیں  یاظلم وتعدی پر کمر باندھتے ہیں ) تواللہ ان کے اندرلڑائی ڈال دیتاہے۔ [13]

اللہ تعالیٰ نے وعیدسنائی کہ اس طرح ناپ تول میں  ڈنڈی مارنے والوں  کو یہ خوف نہیں  کہ روزقیامت اللہ تعالیٰ انہیں  دوبارہ جسم وجان کے ساتھ زندہ فرمائے گا ،اورمیدان محشرمیں  انہیں رب العالمین کی بارگاہ میں  ننگے بدن اورننگے پیروں  پرکھڑے ہوکر ذرہ ذرہ کا حساب دیناہوگا،جیسے فرمایا

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِهَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [14]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں  گے پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا، جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں  گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں  ۔

یٰبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶ [15]

ترجمہ:(اور لقمان نے کہا تھا کہ) بیٹا!کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں  یا آسمانوں  یا زمین میں  کہیں  چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا ، وہ باریک بیں  اور باخبر ہے ۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [16]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ہولناک دن کی مقدارتمہاری گنتی کے مطابق پچاس ہزارسال ہوگی۔ [17]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ العَالَمِینَ حَتَّى یَغِیبَ أَحَدُهُمْ فِی رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَیْهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس دن لوگ حساب دینے کے لئے رب العالمین کے دربار میں  کھڑے ہوں گے تو پسینہ انسانوں  کے آدھے آدھے کانوں  تک پہنچا ہوگا۔ [18]

الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:تُدْنَى الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ، حَتَّى تَكُونَ مِنْهُمْ كَمِقْدَارِ مِیلٍ قَالَ سُلَیْمُ بْنُ عَامِرٍ: فَوَاللهِ مَا أَدْرِی مَا یَعْنِی بِالْمِیلِ؟ أَمَسَافَةَ الْأَرْضِ، أَمِ الْمِیلَ الَّذِی تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَیْنُ قَالَ:فَیَكُونُ النَّاسُ عَلَى قَدْرِ أَعْمَالِهِمْ فِی الْعَرَقِ، فَمِنْهُمْ مَنْ یَكُونُ إِلَى كَعْبَیْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَكُونُ إِلَى رُكْبَتَیْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَكُونُ إِلَى حَقْوَیْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یُلْجِمُهُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا قَالَ:وَأَشَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ إِلَى فِیهِ

مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرماتے تھےقیامت والے دن سورج مخلوق کے اتناقریب ہوگاکہ ایک میل کی مقدارکے قریب فاصلہ پرآجائے گا، سلیم بن عامرنے کہااللہ کی قسم ! میں  نہیں  جانتاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میل سے زمین کی مسافت والامیل مرادلیاہے یاوہ سلائی جس سے سرمہ آنکھوں  میں  ڈالا جاتا ہے،پس لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں  ڈوبےہوں  گے، یہ پسینہ کسی کے ٹخنوں  تک،اورکسی کے گھٹنوں  تک اورکسی کی کمر تک ہوگااوراورکسی کے لئے یہ لگام بناہواہوگا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا [19]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تَدْنُو الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَى قَدْرِ مِیلٍ، وَیُزَادُ فِی حَرِّهَا كَذَا وَكَذَا یَغْلِی مِنْهَا الْهَامُّ كَمَا تَغْلِی الْقُدُورُ یَعْرَقُونَ فِیهَا عَلَى قَدْرِ خَطَایَاهُمْ مِنْهُمْ مَنْ یَبْلُغُ إِلَى كَعْبَیْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَبْلُغُ إِلَى سَاقَیْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَبْلُغُ إِلَى وَسَطِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یُلْجِمُهُ الْعَرَقُ

ابو امامہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت کے دن سورج صرف ایک میل کی مسافت کے برابرقریب آجائے گا اور اس کی گرمی میں  اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ دماغ ہانڈیوں  کی طرح ابلنے لگیں  گے،اور تمام لوگ اپنے اپنے گناہوں  کے اعتبار سے پسینے میں  ڈوبے ہوئے ہوں  گے،چنانچہ کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں  تک ہوگااور کسی کا پنڈلی تک اورکسی کاجسم کے درمیان تک اور کسی کے منہ میں  پسینے کی لگام ہوگی۔ [20]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فِی قَوْلِهِ: {یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ} قَالَ: یَمْكُثُونَ أَرْبَعِینَ عَامًا رَافِعِی رُءُوسِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، لَا یُكَلِّمُهُمْ أَحَدٌ قَدْ أَلْجَمَ الْعَرَقُ كُلَّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ ’’جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونگے۔‘‘کے بارے میں  روایت ہے لوگ چالیس سال تک اپنے سروں  کوآسمان کی طرف اٹھائے کھڑے رہیں  گےاوران سے کوئی بات بھی نہیں  کرے گا اورپسینے نے نیک وبدسب کولگام پہنارکھی ہوگی۔ [21]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، فِی قَوْلِهِ: {یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ} قَالَ: یَقُومُونَ مِائَةَ سَنَةٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونگے۔‘‘َکے بارے میں  روایت ہے، لوگ سوسال تک کھڑے رہیں  گے۔ [22]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کھڑے ہونے کی تنگی سے پناہ مانگاکرتے تھے،

عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَیْدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: بِأَیِّ شَیْءٍ كَانَ یَفْتَتِحُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قِیَامَ اللَّیْلِ فَقَالَتْ: لَقَدْ سَأَلْتَنِی عَنْ شَیْءٍ مَا سَأَلَنِی عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ كَانَ إِذَا قَامَ كَبَّرَ عَشْرًا، وَحَمِدَ اللَّهَ عَشْرًا، وَسَبَّحَ عَشْرًا، وَهَلَّلَ عَشْرًا، وَاسْتَغْفَرَ عَشْرًا، وَقَالَ:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی وَاهْدِنِی وَارْزُقْنِی وَعَافِنِی وَیَتَعَوَّذُ مِنْ ضِیقِ الْمَقَامِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

عاصم بن حمیدسے مروی ہے میں  نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے نوافل کس دعا سے شروع فرماتے تھے؟انہوں  نے فرمایا تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی ہے جو اب تک کسی نے نہ پوچھی تھی،فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو دس مرتبہ اللہ اکبرکہتے،دس مرتبہ الحمدللہ کہتے،دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے، دس مرتبہ الاالٰہ الا اللہ کہتے اور دس مرتبہ استغفراللہ پڑھتے، اور پھر فرماتے ’’ اے اللہ مجھے بخش دے،مجھے ہدایت عطافرمامجھے رزق عنایت فرمااورعافیت اورصحت نصیب فرما اور میں قیامت کے دن کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ چاہتاہوں ۔ ‘‘[23]

كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ ‎﴿٧﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّینٌ ‎﴿٨﴾‏ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ‎﴿٩﴾‏ وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِینَ ‎﴿١٠﴾‏ الَّذِینَ یُكَذِّبُونَ بِیَوْمِ الدِّینِ ‎﴿١١﴾‏ وَمَا یُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِیمٍ ‎﴿١٢﴾‏ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِ آیَاتُنَا قَالَ أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٣﴾‏ كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿١٤﴾‏ كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ‎﴿١٥﴾‏ ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِیمِ ‎﴿١٦﴾‏ ثُمَّ یُقَالُ هَٰذَا الَّذِی كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ‎﴿١٧﴾ (المطففین)
یقیناً بدکاروں  کا اعمالنامہ سجین میں  ہے ،تجھے کیا معلوم سجین کیا ہے،(یہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے، اس دن جھٹلانے والوں  کی بڑی خرابی ہے، جو جزا اور سزا کے دن کو جھٹلاتے رہے، اسے صرف وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے آگے نکل جانے والا (اور) گناہ گار ہوتا ہے، جب اس کے سامنے ہماری آیتیں  پڑھی جاتی ہیں  تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں  کے افسانے ہیں ، یوں  نہیں  بلکہ ان کے دلوں  پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے، ہرگز نہیں  یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں  رکھے جائیں  گے، پھر یہ لوگ بالیقین جہنم میں جھونکے جائیں  گے، پھر کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے وہ جسے تم جھٹلاتے رہے۔

ہرگزنہیں ،اللہ کی زمین پرفسادپھیلانے ،ناپ تول میں  کمی کرنے ،اللہ کی آیات کوجھٹلانے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے ،دین میں  نئی نئی باتیں  شامل کرنے ،اللہ کوچھوڑ کر غیراللہ کوپکارنے والوں  وغیرہ کے اعمال خبیثہ قیدخانے کے رجسٹرمیں  درج کیے جارہے ہیں ،اورتمہیں  کیامعلوم کہ اس قیدخانے کادفترکیاہے؟یہ وہ دفترہے جس میں  ہرمجرم کی مکمل چارج شیٹ لکھی ہوئی ہے، یہ بھی کہاجاتاہے کہ سجین ساتویں  زمین کاسب سے نچلاحصہ ہے جوکہ معادمیں  فجارکامستقراورٹھکانہ ہے ،

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:فَیَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِی سِجِّینٍ فِی الْأَرْضِ السُّفْلَى

جیسےبراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں  ہےاللہ تعالیٰ کافرکی روح کے بارے میں  فرماتاہے اس کی کتاب کوسجین میں  لکھ دوجوزمین کانچلاحصہ ہے۔ [24]

ان لوگوں  کے لئے ہلاکت وبربادی ہے، جولوگ عقیدہ آخرت کوقول وفعل سے جھٹلاتے ہیں ،اوراس عقیدے کوقول وفعل سے ہروہ شخص جھٹلاتاہے جواللہ کی قائم کردہ حدودکو پھلانگتا ہے ،جوحلال وحرام کی تمیزنہیں  کرتا ، جوبہت زیادہ گناہوں  کاارتکاب کرنے والاہے جب ایسے لوگوں  کوایک وقت مقررہ پرقیامت کے قائم ہونے ،حیات بعدالموت اورمیدان محشرمیں اعمال پر جزا کا اور جنت وجہنم کی خبردی جاتی ہے توتکبروعناداور سرکشی میں اسے شدت سے جھٹلاتے ہوئے کہتے ہیں  چھوڑوجی یہ تو متقدمین کے جھوٹے قصے کہانیاں  ہیں ،بھلاحیات بعدالموت کیسے ممکن ہے ؟جیسے فرمایا

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۝۲۴ۙ [25]

ترجمہ:اورجب کوئی ان سے پوچھتاہے کہ تمہارے رب نے یہ کیا چیزنازل کی ہے ،توکہتے ہیں  اجی وہ تواگلے وقتوں  کی فرسودہ کہانیاں  ہیں ۔

وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا۝۵ [26]

ترجمہ:کہتے ہیں  یہ پرانے لوگوں  کی لکھی ہوئی چیزیں  ہیں  جنہیں  یہ شخص نقل کراتاہے اوروہ اسے صبح وشام سنائی جاتی ہیں ۔

ہرگزنہیں بلکہ یہ قرآن کلام الٰہی ہے ، اللہ کے فرمان کے مطابق یقیناًقیامت قائم ہوگی اوراللہ کی بارگاہ میں انہیں  اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی،اصل بات یہ ہے کہ جن بڑے بڑے گناہوں  کایہ ارتکاب کرتے چلے آرہے ہیں ان کا زنگ ان کے دلوں  پرپوری طرح چڑھ گیاہے،دل کاآئینہ صاف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیتیں حقائق الٰہیہ کے صحیح عکس سے محروم ہوچکی ہیں اس لئے سراسرمعقول باتیں  جودلیل سے ثابت کی جارہی ہیں  انہیں  افسانہ نظرآتی ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیئَةً نُكِتَتْ فِی قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ عَادَ زِیدَ فِیهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن جب گناہ کرتاہے تواس کے دل پرایک سیاہ نکتہ پڑجاتاہے،اگر وہ توبہ کرلیتاہے اورآئندہ کے لئے اس سے باز آتا ہےاوراستغفارکرتاہے تواس کادل چمک کرصاف ہوجاتاہےاوراگرتوبہ کے بجائے گناہ پرگناہ کیے جاتاہے تووہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتی کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے۔ [27]

ہرگز نہیں  ، بالیقین اس روزجب اللہ اوراس کے رسول کے اطاعت گزارانواع و اقسام کی نعمتوں  بھری جنتوں  میں دیدارالٰہی کاشرف حاصل کریں  گے توانہیں  جنت کی ہرنعمت دیدارالٰہی کے مقابلے میں ہیچ محسوس ہوگی،جیسے فرمایا

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝۲۲ۙاِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۝۲۳ۚ [28]

ترجمہ:اس روزکچھ چہرے تروتازہ ہوں  گے ،اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں  گے ۔

مگر ان بدنصیب لوگوں  کو جہنم کی تنگ جگہ میں  جھونک دیاجائے گا اوریہ دیدارالٰہی کی سعادت سے محروم ہوں  گے،جیسے فرمایا

بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ۝۰ۣ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًا۝۱۱ۚاِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا۝۱۲وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭ [29]

ترجمہ:اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس گھڑی کو جھٹلاچکے ہیں  اورجواس گھڑی کوجھٹلائے اس کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیاکررکھی ہے ،وہ جب دورسے ان کودیکھے گی تویہ اس کے غضب اورجوش کی آوازیں  سن لیں  گے اورجب یہ دست وپابستہ اس میں  ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں  گے تواپنی موت کوپکارنے لگیں  گے (اس وقت ان سے کہاجائے گا)آج ایک موت کونہیں  بہت سی موتوں  کو پکارو۔

فرشتے حقارت وذلت کے طورپر انہیں  کہیں  گے اے جہنمیوں !یہ وہی روزجزاہے، وہی جنت و جہنم ہے جس کی تمہیں  خبردی جاتی تھی مگر تم قول وفعل سے اسکی تکذیب کرتے تھے ۔

‏ كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ ‎﴿١٨﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّیُّونَ ‎﴿١٩﴾‏ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ‎﴿٢٠﴾‏ یَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ ‎﴿٢١﴾‏ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ ‎﴿٢٢﴾‏ عَلَى الْأَرَائِكِ یَنظُرُونَ ‎﴿٢٣﴾‏ تَعْرِفُ فِی وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیمِ ‎﴿٢٤﴾‏ یُسْقَوْنَ مِن رَّحِیقٍ مَّخْتُومٍ ‎﴿٢٥﴾‏ خِتَامُهُ مِسْكٌ ۚ وَفِی ذَٰلِكَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَمِزَاجُهُ مِن تَسْنِیمٍ ‎﴿٢٧﴾‏ عَیْنًا یَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ ‎﴿٢٨﴾ (المطففین)
یقیناً یقیناً نیکوکاروں  کا نامہ اعمال علیین میں  ہے، تجھے کیا پتہ کہ علیین کیا ہے ؟ (وہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے، مقرب (فرشتے) اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ، یقیناً نیک لوگ (بڑی)نعمتوں  میں  ہونگے، مسہریوں  میں  بیٹھے دیکھ رہے ہونگے، تو ان کے چہروں  سے ہی نعمتوں  کی ترو تازگی پہچان لے گا، یہ لوگ سر بمہر خالص شراب پلائے جائیں  گے جس پر مشک کی مہر ہوگی، سبقت لے جانے والوں  کو اسی میں  سبقت کرنی چاہیے ،اور اس کی آمیزش تسنیم ہوگی، وہ چشمہ جس کا پانی مقرب لوگ پئیں  گے۔

ہرگزنہیں ان لوگوں  کا گمان صحیح نہیں  کہ اللہ انہیں  مرنے کے بعددوبارہ زندہ نہیں  کرے گا اور ان کے اعمال کامحاسبہ نہیں  کرے گا،بے شک اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار،اللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں  سرجھکانے ،اللہ کے احکامات وفرائض کوکماحقہ پوراکرنے ،اللہ کی حدودکوقائم کرنے ،حرام وحلال کی تمیزرکھنے ،اوراللہ کی رضاو خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مستحقین میں  اپنے پاکیزہ مال تقسیم کرنے،اللہ کے دین کونافذکرنے کی کوشش کرنے،اللہ کی راہ میں  جدوجہدکرنے والے لوگوں  کے اعمال انعام یافتہ لوگوں  کے دفترمیں  درج ہیں جوآسمانوں  میں  یاجنت میں  یاسدرة المنتٰی یاعرش کے پاس جگہ ہے ،اورتمہیں  کیامعلوم کہ ان بلندپایہ ، انعام یافتہ لوگوں  کادفتر کیا ہے؟ یہ بھی ایک لکھی ہوئی کتاب ہے جس کی حفاظت ونگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں ،یقیناًانعام یافتہ لوگ جنتوں  میں  داخل کیے جائیں  گے، اپنے موتیوں  کے محلوں  اورگھنے درختوں  کے سائے کے نیچے ،رواں  چشموں  کے کناروں  پرخوبصورت بچھونوں  سے آراستہ اونچی مسندوں  پربیٹھے اللہ کاعطاکردہ ملک ومال اورنعمتوں  کے نظارے کر رہے ہوں  گے،اعزازوتکریم ، آسائشوں  ،سہولتوں ،لذتوں اورنعمتوں  کی ارزانی و فراوانی کی وجہ سے خوشحالی وشادابی کی رونق واضح طورپران کے چہروں  سے محسوس ہورہی ہو گی، اوروہ اپنے حسن وجمال اورچہروں  کی شادابی سے پہچان لئے جائیں  گے کہ یہ جنتی ہیں ، جنت کے مختلف شراب کے رواں  چشموں  کے علاوہ جنت کے خدام انہیں  مشک کی مہر لگے ہوئے برتنوں  میں  بغیرکسی چیزکی آمیزش والی عمدہ و نفیس ترین شراب بھی پیش کریں  گے،بعض کے نزدیک اس شراب میں  کستوری کی آمیزش ہوگی جس سے اس کاذائقہ دوبالا اورخوشبومزیدخوش کن اورراحت افزاہوجائے گی ،بعض کہتے ہیں  یہ ایسی شراب ہوگی جس کی خوشبوکستوری کی طرح ہوگی ،جولوگ دوسروں  پرسبقت حاصل کرناچاہتے ہوں  وہ ایسے عملوں  میں  سبقت حاصل کریں  جس کے صلے میں  جنت اوراس کی یہ انمول اورلافانی نعمتیں  حاصل ہوں ،جیسے فرمایا

اِنَّ ھٰذَا لَهُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۶۰لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ۝۶۱ [30]

ترجمہ:یقیناًیہی عظیم الشان کامیابی ہے ،ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنے والوں  کوعمل کرناچاہیے ۔

جنت کی اس اعلیٰ ترین شراب میں  تسنیم کی آمیزش ہو گی ، یہ بلندی سے نیچے کی طرف بہتا ہوا چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ جنتی شراب پئیں  گے۔

‏ إِنَّ الَّذِینَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا یَضْحَكُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ یَتَغَامَزُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِینَ ‎﴿٣١﴾‏ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَمَا أُرْسِلُوا عَلَیْهِمْ حَافِظِینَ ‎﴿٣٣﴾‏ فَالْیَوْمَ الَّذِینَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ یَضْحَكُونَ ‎﴿٣٤﴾‏عَلَى الْأَرَائِكِ یَنظُرُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا یَفْعَلُونَ ‎﴿٣٦﴾‏(المطففین)
گناہ گار لوگ ایمانداروں  کی ہنسی اڑیا کرتے تھے، ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں  آنکھ کےاشارے کرتے تھے، اور جب اپنے والوں  کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں  کرتے تھے ،اور جب انہیں  دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراہ (بےراہ) ہیں ،یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں  بھیجے گئے، پس آج ایمان والے ان کافروں  پر ہنسیں  گے، تختوں  پر بیٹھے دیکھ رہے ہونگےکہ اب ان منکروں  نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پا لیا ۔

دنیامیں  شیطان کے یہ چیلے اہل ایمان کوحقیرجانتے ہوئے ان کااستہزاومذاق اڑاتے اورحقارت وتذلیل کے لئے ان پرآوازے کستے تھے،برے برے القاب دیتے تھے ، جب ان کودیکھتے توایک دوسرے کو آنکھوں  ،پلکوں  اورہاتھوں سے اشارے کرکے ان کی تحقیراوران کے مذہب پرطعن کرتے تھےاورکہتے تھے یہ دیکھوجنت کے والی اورحوروں  کے خاوندجارہے ہیں ،جن کے پاس نہ رہنے کامکان ہے نہ پہننے کولباس ،جن کی کوئی مجلس ہے نہ دوستی ،ان کے پاس دووقت کی روٹی توموجودنہیں  مگردنیاوآخرت میں  کامیابی کے خواب دیکھ رہے ہیں ،کفارمکہ مال ودولت کی فراوانی اوررزق کی کشادگی کوحق کی نشانی سمجھتے تھے،وہ اس زعم میں  مبتلاتھے کہ اللہ ہم پرراضی اورہمارے عقائداورنظریات پرخوش ہےتبھی تواس نے ہمیں  تمام دنیاوی نعمتوں  ،لذتوں  اورآسائشوں  سے نوازرکھاہے،مگر وہ بھول گئے کہ اللہ نے ان سے زیادہ مال ودولت رکھنے والی قوموں  کوان کے شرک اوراعمال خبیثہ کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹادیا،جیسے فرمایا

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْیًا۝۷۴ [31]

ترجمہ: حالاں  کہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں  کوہلاک کرچکے ہیں  جوان سے زیادہ سروسامان رکھتی تھیں  اورظاہری شان وشوکت میں  ان سے بڑھی ہوئی تھیں ۔

وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍؚبَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا۝۰ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا۝۰ۭ وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ۝۵۸ [32]

ترجمہ:اورکتنی ہی ایسی بستیاں  ہم تباہ کرچکے ہیں  جن کے لوگ اپنی معیشت پراتراگئے تھے ،سودیکھ لووہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں  ان کے بعدکم ہی کوئی بساہے ، آخرکارہم ہی وارث ہوکررہے۔

اورجب واپس گھروں  کوپلٹتے تو اپنی حرکات خبیثہ پرخیالوں  ہی خیالوں  میں  لطف اندوزہوتے ہوئے گھروں  کولوٹتے تھے کہ آج فلاں  مسلمان کا مذاق اڑاکر اور اس پر آوازے اورپھبتیاں  کس کرکس قدرلطف اٹھایااورلوگوں  میں  اس کی خوب گت بنی،ایک معنی یہ ہے کہ جب گھروں  کوواپس پلٹتے تووہاں  خوشحالی اور فراغت ان کا استقبال کرتی اورجوچاہتے وہ انہیں  مل جاتااس کے باوجودانہوں  نے اللہ کاشکرادانہیں  کیابلکہ اہل ایمان کی تحقیراوران پرحسدکرنے میں  ہی مشغول رہے،کفرپرآمادہ ہو کر جب اللہ وحدہ لاشریک کے ماننے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے ،اللہ کی بارگاہ میں  پیشانی جھکانے ،حیات بعدالموت ،جزاوسزا کاعقیدہ رکھنے اورپاکیزہ زندگی گزارنے والے لوگوں  کودیکھتے توطعنہ کے طور کہتے یہ ہمارے آباؤ اجدادکے دین سے بھٹکے ہوئے لوگ ہیں  ،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے انہیں  آخرت اورجنت ودوزخ کے چکرمیں  الجھادیاہے،یہ موجودہ آرام وعیش کواس جنت کی موہوم امیدپر چھوڑرہے ہیں ، جیسے فرمایا

قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۝۱۰۹ۚۖفَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰٓی اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِیْ وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ۝۱۱۰اِنِّىْ جَزَیْتُهُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْٓا۝۰ۙ اَنَّهُمْ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۱۱۱ [33]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ جواب دے گادورہومیرے سامنے سے،پڑے رہواسی میں  اورمجھ سے بات نہ کرو،تم وہی لوگ توہوکہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگارہم ایمان لائے ہمیں  معاف کردے ،ہم پررحم کرتوسب رحیموں  سے اچھارحیم ہے توتم نے ان کامذاق بنالیایہاں  تک کہ ان کی ضدنے تمہیں  یہ بھی بھلادیاکہ میں  بھی کوئی ہوں  اورتم ان پرہنستے رہے ،آج ان کے اس صبرکامیں  نے یہ پھل دیاہے کہ وہی کامیاب ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے مذاق اڑانے والوں  کوتنبیہ کی کہ ان کفار و مشرکین کومومنوں  کی کیاپڑی ہے کہ ان کے عقائد،اعمال وافعال پرنظررکھتے ہیں ، ان پرتبصرے کرتے ہیں ،اللہ نے انہیں  اہل ایمان پرنگران یاوکیل بناکرتونہیں  بھیجاہے، دیکھو آج جبکہ سب حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے ،حق وباطل کافیصلہ چکادیاگیاہے ،اہل ایمان کوجنت میں  اور کفارومشرکین اورگناہ گاروں  کوجہنم میں  ڈال دیاگیاہے ،تو اہل توحید جنت میں  خوبصورت کپڑوں  سے آراستہ اونچی مسندوں  پرتکیوں  سے آسودگی کے ساتھ پشت لگائے ان بدکاروں  کی گفتہ بہ حالت کودیکھ کر،ان کی آہ وپکارسن اوران کو عذاب جہنم میں  غوطہ زن دیکھ کر دل ہی دل میں ان پرہنس رہے ہوں  گے کہ یہ دنیامیں  بہت جلال وشان کے دعویٰ دارتھے ، اوران کی زندہ بادپکاری جاتی تھی ،یہ ہمیں  بہکے ہوئے کہتے تھے اب انہیں  اچھی طرح معلوم ہوگیاکہ کون بھٹکاہواتھااورکون سیدھے راستے پرگامزن تھاآخر کفارو مشرکین کو اپنی ان حرکتوں  کاپوراپورابدلہ مل ہی گیاجووہ اہل ایمان کے خلاف کرتے تھے، ان کے ہنسی، مذاق اوربرے القاب کے بدلے آج ان پرہنسی اڑرہی ہے۔

[1] الجاثیة۲۴

[2] الواقعة ۴۷

[3] النحل ۳۸

[4] الانعام۱۵۲

[5] بنی اسرائیل۳۵

[6] الرحمٰن۸،۹

[7] سنن ابن ماجہ كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ التَّوَقِّی فِی الْكَیْلِ وَالْوَزْنِ۲۲۲۳، تفسیر طبری ۲۷۷؍۲۴

[8] الاعراف۸۵

[9] الانعام۱۵۲

[10] بنی اسرائیل۳۵

[11] الشعراء ۱۸۱

[12] الرحمٰن۹

[13] سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْعُقُوبَاتِ ۴۰۱۹

[14] الانبیاء ۴۷

[15] لقمان۱۶

[16] الزلزلة۷،۸

[17] صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ۲۲۹۰

[18] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورة المطففین بَابُ یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ العَالَمِینَ ۴۹۳۸، صحیح مسلم کتاب الجنة بَابٌ فِی صِفَةِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ أَعَانَنَا اللهُ عَلَى أَهْوَالِهَا ۷۲۰۵، شعب الایمان ۲۵۴،شرح السنة للبغوی ۴۳۱۶،مسنداحمد۴۶۹۷

[19] صحیح مسلم صفة القیامة والجنة بَابٌ فِی صِفَةِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ أَعَانَنَا اللهُ عَلَى أَهْوَالِهَا ۷۲۰۶،جامع ترمذی ابواب القیامة بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الْحِسَابِ وَالْقَصَاصِ ۲۴۲۱، مسنداحمد۲۳۸۱۲،صحیح ابن حبان ۷۳۳۰،شرح السنة للبغوی ۴۳۱۷

[20] مسنداحمد۲۲۱۸۶

[21] تفسیرطبری۲۸۱؍۲۴

[22] تفسیرطبری ۱۸۹؍۲۴

[23] سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابُ مَا یُسْتَفْتَحُ بِهِ الصَّلَاةُ مِنَ الدُّعَاءِ۷۶۶، سنن نسائی کتاب قیام اللیل بَابُ ذِكْرِ مَا یُسْتَفْتَحُ بِهِ الْقِیَامُ ۱۶۱۸،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوات بَابُ مَا جَاءَ فِی الدُّعَاءِ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنَ اللیْلِ۱۳۵۶،مصنف ابن ابی شیبة ۲۹۳۳۶،شرح السنة للبغوی۹۵۱

[24] مسند احمد ۱۸۵۳۴

[25] النحل۲۴

[26] الفرقان۵

[27] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ ۳۳۳۴،سنن ابن ماجہ کتاب الذھدبَابُ ذِكْرِ الذُّنُوبِ ۴۲۴۴ ،صحیح ابن حبان ۲۷۸۷، مسند احمد ۷۹۵۲، شرح السنة للبغوی۱۳۰۴

[28] القیامة۲۲،۲۳

[29] الفرقان۱۱تا۱۳

[30] الصافات۶۰،۶۱

[31] مریم۷۴

[32] القصص۵۸

[33] المومنون۱۰۸تا۱۱۱

Related Articles