بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة سبا

سورت کی ابتدااللہ عزوجل کی حمدوثناسے ہوئی جس نے ساری مخلوق کوپیداکیا،اس عظیم الشان کائنات کے لیے مستحکم نظام قائم کیا،نظام عالم کی تدبیرکی ، اسے ہرچیزکی خبرہے اوراس کاکوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں  ہوتا،اپنے وقت میں قوم سباایک دولت وحشمت والی قوم تھی،اللہ نے اہل سباکورزق کی فراوانی ،صحت افزاآب وہوااور زرخیز زمین اورپھل دارباغات جیسی نعمتیں  عطاکی تھیں ،طویل مسافت تک دورویہ باغات چلے جاتے تھے ،نہ گرمی اوردھوپ ستاتی اورنہ ہی بھوک پریشان کرتی ،پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک ڈیم بھی تھالیکن انہوں  نے ان نعمتوں  پراللہ کاشکراداکرنے کے بجائے کفراورناقدری کی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عقائد ونظریات اوراعمال کی بناپرانہیں  داستان عبرت بنادیا، ان کی مثال بیان کرکے بتایاگیاکہ اپنے تعصب وہٹ دھرمی اور لغو حرکات سے بازآجاؤ ورنہ تمہاراانجام اس قوم سے مختلف نہیں  ہو گا،داود علیہ السلام اورسلیمان علیہ السلام کاذکرفرمایاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  بڑی طاقتیں  بخشیں  اوروہ شوکت وحشمت عطاکی جوپہلے کم ہی کسی کوملی ہے مگروہ سب کچھ پاکربھی کبروغرورمیں  مبتلا نہ ہوئے بلکہ اپنے رب کے خلاف علم بغاوت بلندکرنے کے بجائے سراطاعت خم کرکے اس کے شکرگزاربندے ہی بنے رہے ،چنانچہ اگرتم لوگ بھی رب کی نعمتوں  پر شکر کروگے تو اس کے خزانوں  میں  کمی نہیں  وہ تمہارے شکر کرنے پر نعمتوں  میں  مزید اضافہ فرمادے گا،رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  اعلان کیاگیاکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک محدودعلاقہ کے لئے نہیں  بلکہ انہیں  تمام اقوام عالم کے لئے نذیروبشیربناکربھیجاگیاہے ،مشرکین کے بارے میں  بتایاگیاکہ وہ بعث بعدالموت، حساب و کتاب اورجزاوسزا کاانکارکرتے ہیں  ،اللہ نے فرمایا کہ آپ اپنے رب کی قسم کھاکر کہہ دیں  کہ بس وہ آیاہی چاہتی ہے،یعنی کچھ لمباعرصہ نہیں  ہے،جب قیامت کاوقت مقررہ آجائے گاتوپھرنہ ایک لمحہ ادھرہوگانہ ادھر، اہل مکہ کو غورو فکرکی دعوت دی کہ وہ جس انجام کوچاہیں  کامل یقین کے ساتھ پسندکرلیں ،شفاعت کاذکر کیا گیا کہ کفارکے لئے شفاعت کرنے والاکوئی نہیں  ہوگا،تمہارایہ خیال کہ تمہاری کثیر اولاداورمال ودولت تمہیں  اللہ کے عذاب سے بچانے کاباعث بن جائے گی غلط ہے بلکہ ہمارامقرب تووہ ہو گاجوایمان لایااوراعمال صالحہ کرتارہاہو،کفارکے تین مشہور اقوال بیان فرمائے جووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحیدوآخرت پراورخودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پرزیادہ ترطنزوتمسخراوربیہودہ الزامات کی شکل میں  پیش کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں  ہمارے آباؤ اجدادکے طریقے سے ہٹانا چاہتا ہے ،یہ قرآن اللہ کانازل کردہ نہیں  بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خودگھڑلیاہے اوریہ قرآن کھلاجادوہے،کفارکے ان اعتراضات کے بعد انہیں  غوروفکرکی دعوت دی ، روزقیامت گمراہ لیڈروں  اوران کے پیروکاروں  کی ایک دوسرے پرالزام تراشیوں  کا ذکر فرمایا گیا،ایمان،عمل صالح اورحق کی عظمت کاذکر کیا گیااورفخروغرور،دعوت اسلام کی تکذیب اوراعمال باطلہ کی بے ثباتی کابیان اس سورہ کاطرہ امتیاز ہے۔

 بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِی الْآخِرَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِیمُ الْخَبِیرُ ‎﴿١﴾‏ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیهَا ۚ وَهُوَ الرَّحِیمُ الْغَفُورُ ‎﴿٢﴾‏(سبا)
تمام تعریفیں  اس اللہ کے لیے سزاوار ہیں  جس کی ملکیت میں  وہ سب کچھ ہے جو آسمان اور زمین میں  ہے، آخرت میں  بھی تعریف اسی کے لیے ہے، وہ (بڑی) حکمتوں  والا اور( پورا) خبردار ہے، جو زمین میں  جائے اور جو اس سے نکلے ،جو آسمان سے اترے اور جو چڑھ کر اس میں  جائے، وہ سب سے باخبر ہے اور مہربان نہایت بخشش والا۔

اوصاف الٰہی :دنیاوآخرت کی تمام نعمتیں  اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں ،اس لئے اپنے اوصاف حمیدہ کی بناپر ہرطرح کی تعریفات،تسبیحات ،حمدوثنا،شکراورتمام عبادات اللہ وحدہ لاشریک ہی کے لئے سزاوارہیں  جو آسمانوں  ،زمینوں  اوران کے درمیان جوکچھ ہے سب کا خالق ومالک ورازق ہے،دنیامیں  بھی تمام مخلوقات اوراہل ایمان اپنے رب کی حمدوثنامیں  رطب اللسان ہیں  اورروزآخرت بھی اس کے فیصلے،اس کے کامل عدل وانصاف ا سی کی بخشش ورحمت کی بناپر حمدوثنا کے ترانے گائیں  گے ،جیسے فرمایا

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَیْثُ نَشَاۗءُ۝۰ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ۝۷ [1]

ترجمہ: اور وہ کہیں  گے شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنادیا، اب ہم جنت میں  جہاں  چاہیں  اپنی جگہ بنا سکتے ہیں  پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں  کے لیے ۔

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِـھٰذَا۝۰ۣ وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ هَدٰىنَا اللهُ۝۰ۚ لَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۴۳[2]

ترجمہ: اور وہ کہیں  گے کہ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں  راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پاسکتے تھے اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے، اس وقت ندا آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں  ان اعمال کے بدلے میں  ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے ۔

وَقَالُوا الْحَـمْدُ لِلهِ الَّذِیْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ۝۳۴ۙ[3]

ترجمہ: اوروہ کہیں  گے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہم سے غم دور کر دیایقیناً ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدرفرمانے والا ہے۔

وہ اللہ جووحدہ لاشریک ہے اپنے اقتداروتدبیراوراپنے امرونہی میں  بڑی حکمتوں  ودانائی والا ہے ،اورایسے لامحدودعلم کامالک ہے کہ عظیم الشان کائنات کاکوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں  ہے،جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ لَا یَخْفٰى عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۵ۭ[4]

ترجمہ:زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔

رَبَّنَآ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ۝۰ۭ وَمَا یَخْفٰى عَلَی اللہِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ۝۳۸ [5]

ترجمہ:پروردگار! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں  اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں  ،اورواقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں  ہے نہ زمین میں  نہ آسمانوں  میں ۔

۔۔۔وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۝۶۱[6]

ترجمہ:کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں  ایسی نہیں  ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں  درج نہ ہو ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ زمین میں  جوکچھ بھی جاتاہے جیسے بارش،کوئی خزانہ یادفینہ ،نباتات کے بیج یامردہ انسان وحیوانات وغیرہ یااس میں  سے جوکچھ نکلے ،مثلاًمختلف اقسام کی بناتات وغیرہ اورجوکچھ آسمان سے اترتاہے مثلا ًبارش،اولے، گرج،بجلی اور برکات الٰہی ،نیز فرشتوں  اورآسمانی کتابوں  کانزول اور رزق وتقدیر وغیرہ، اور جوکچھ چڑھ کر جائے مثلاًفرشتے ،بندوں  کے نیک اعمال اورارواح وغیرہ وہ سب سے پوری طرح باخبرہے،جیسے فرمایا

قۗ۝۰ۣۚ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ۝۱ۚبَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا شَیْءٌ عَجِیْبٌ۝۲ۚءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا۝۰ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ۝۳قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ۝۰ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِیْظٌ۝۴ [7]

ترجمہ: ق، قسم ہے قرآن مجید کی بلکہ ان لوگوں  کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں  سے ان کے پاس آگیا پھر منکرین کہنے لگے یہ تو عجیب بات ہےکیا جب ہم مر جائیں  گے اور خاک ہو جائیں  گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں  گے )؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے (حالانکہ) زمین ان کے جسم میں  سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں  ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں  سب کچھ محفوظ ہے۔

هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ ۭ یَعْلَمُ مَا یَـلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا ۭ وَهُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ [8]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فر ما ہوا ،اس کے علم میں  ہے جو کچھ زمین میں  جاتا ہے اور کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اتر تا ہے اور جو کچھ اس میں  چڑھتا ہے، وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں  بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی بخشش اورمخلوقات کے لئے اپنی بے پایاں  رحمت کاذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ وہ رب اپنے نافرمان بندوں  کوسزادینے میں  جلدی نہیں  کرتابلکہ سنبھلنے کے لئے ڈھیل دیتااوردرگزرسے کام لیتا ہے،جیسے فرمایا

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْہَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۶۱[9]

ترجمہ:اگر کہیں  اللہ لوگوں  کو ان کی زیادتی پر فورا ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے ، پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں  ہو سکتا۔

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا ۝۴۵ۧ [10]

ترجمہ:اگر کہیں  وہ لوگوں  کو ان کے کیے کرتوتوں  پر پکڑتا تو زمین پر کسی متنفس کو جیتا نہ چھوڑتا مگر وہ انہیں  ایک مقرر وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے پھر جب ان کا وقت آن پورا ہوگا تو اللہ اپنے بندوں  کو دیکھ لے گا۔

اور جب کوئی برائی سے تائب ہوکررجوع کرلے تو دھتکارنہیں  دیتابلکہ بخش دیناپسندکرتاہے،جیسے فرمایا

 نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۴۹ [11]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میرے بندوں  کو خبر دے دو کہ میں  بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں ۔

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [12]

ترجمہ: اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! کہہ دو کہ اے میرے بندو !جنہوں  نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ تو غفور رحیم ہے۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ ۖ لَا یَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِی كِتَابٍ مُّبِینٍ ‎﴿٣﴾‏ لِّیَجْزِیَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ ‎﴿٤﴾‏ وَالَّذِینَ سَعَوْا فِی آیَاتِنَا مُعَاجِزِینَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِیمٌ ‎﴿٥﴾‏ وَیَرَى الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِی أُنزِلَ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَیَهْدِی إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ ‎﴿٦﴾‏(سبا)
کفار کہتے ہیں  ہم پر قیامت نہیں  آئے گی، آپ کہہ دیجئے ! مجھے میرے رب کی قسم ! جو عالم الغیب ہے کہ وہ یقیناً تم پر آئےگی، اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں  ، نہ آسمانوں  میں  نہ زمین میں  بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہر چیز کھلی کتاب میں  موجود ہے، تاکہ وہ ایمان اور نیکوں  کاروں  کو بھلا بدلہ عطا فرمائے یہی لوگ ہیں  جن کے لیےمغفرت اور عزت کی روزی ہے، اور ہماری آیتوں  کو نیچا دکھانے کی جنہوں  نے کوشش کی ہے یہ وہ لوگ ہیں  جن کے لیےبدترین قسم کا دردناک عذاب ہے، اور جنہیں  علم ہے وہ دیکھ لیں  گے کہ جو آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے نازلہوا ہے وہ (سراسر) حق ہےاور اللہ غالب خوبیوں  والے کی راہ کی راہبری کرتا ہے۔

قیامت قائم ہوکررہے گی :

قیامت اورحیات بعدالموت کے منکرین بطوراستہزارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ آخرہمارے جھٹلانے اوراستہزاء کے باوجودہم پرقیامت کیوں  قائم نہیں  ہورہی،اللہ تعالیٰ نے تاکیدکے صیغہ میں  قسم کھاکرفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہومیرے عالم الغیب پروردگارکی قسم ! قیامت توبرحق ہے اور اپنے وقت مقررہ پرضرورقائم ہوجائے گی ، مگراس کے وقت کاعلم اللہ رب العزت کے سواکسی کومعلوم نہیں ،جیسےایک مقام پرقسم کھاکر فرمایا

وَیَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ۝۰ۭؔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ۝۰ۭۚؔ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۝۵۳ۧ [13]

ترجمہ:پھرپوچھتے ہیں  کیاواقعی یہ سچ ہے جوتم کہہ رہے ہو؟کہومیرے رب کی قسم!یہ بالکل سچ ہے اورتم اتنابل بوتانہیں  رکھتے کہ اسے ظہور میں  آنے سے روک دو۔

زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا۝۰ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ۝۰ۭ وَذٰلِكَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ۝۷ [14]

ترجمہ: منکرین نے بڑے دعوے سے کہاہے کہ وہ مرنے کے بعدہرگزدوبارہ نہ اٹھائے جائیں  گے ، ان سے کہو نہیں  میرے رب کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھرضرور تمہیں  بتایاجائیگاکہ تم نے (دنیامیں )کیاکچھ کیاہےاورایساکرنااللہ کے لئے بہت آسان ہے۔

منکرین حیات بعدالموت کاسب سے بڑاشبہ یہ تھاکہ جب انسان مٹی میں  مل کرمٹی ہو چکا ہوگا اور اس کاذرہ ذرہ منتشرہوچکاہوگاتویہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ منتشر اجزادوبارہ پھراکٹھے ہوجائیں  گے ، جیسے فرمایا

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۔۔۔۝۱۰ [15]

ترجمہ:اور یہ لوگ کہتے ہیں  جب ہم مٹی میں  رل مل چکے ہوں  گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں  گے ؟۔

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۔۔۔۝۵ [16]

ترجمہ:اب اگر تمہیں  تعجّب کرنا ہے تو تعجّب کے قابل لوگوں  کا یہ قول ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں  گے تو کیا ہم نئے سروں  سے پیدا کیے جائیں  گے؟۔

بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا شَیْءٌ عَجِیْبٌ۝۲ۚءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا۝۰ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ۝۳ [17]

ترجمہ:بلکہ ان لوگوں  کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں  سے ان کے پاس آگیا پھر منکرین کہنے لگے یہ تو عجیب بات ہے،کیا جب ہم مر جائیں  گے اور خاک ہو جائیں  گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں  گے )؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے۔

اس کے جواب میں  فرمایاکہ وہ اللہ جس کاعلم لامحدودہے، جس کے علم سے کائنات کا کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ،جیسے فرمایا

اِنَّمَآ اِلٰــہُكُمُ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۹۸ [18]

ترجمہ:لوگو، تمہارا الٰہ تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں  ہے، ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔

۔۔۔وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ۧ [19]

ترجمہ: اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔

توپھر تمہارے اجزائے منتشرہ کوجمع کرکے دوبارہ زندہ کر دینااس کے لئے کیوں  ناممکن ہوگا ،جبکہ ذرہ سے بھی چھوٹی بڑی ہرچیز لوح محفوظ میں  درج ہے ، جیسے فرمایا

 قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْہُمْ۝۰ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِیْظٌ۝۴ [20]

ترجمہ:(حالانکہ) زمین ان کے جسم میں  سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں  ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں  سب کچھ محفوظ ہے۔

اوراللہ تعالیٰ نے حیات بعدالموت کی حکمت بیان فرمائی کہ وہ قیامت کو اس لئے قائم کرے گاتا کہ انصاف کے تقاضے کے مطابق اہل ایمان کوجو سچے دل سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولوں  پرایمان لائے اوران کے اسوہ مبارک کے مطابق اعمال صالحہ اختیارکیے کابہترین صلہ عطافرمائے،ایسے لوگوں  کے لئے ان کے ایمان اوراعمال صالحہ کے سبب سے رب کی طرف سے بخشش اور جنتوں  کاپاکیزہ رزق ہے،اور جو لوگ رسولوں  کی نافرمانی کریں ، دین حق کو مغلوب کرنے اورطاغوت کابول بالاکرنے کے لئے معاندانہ جدوجہدکریں  ان کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے،جیسے فرمایا

بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْۗــــــــَٔــتُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۝۸۱وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۝۸۲ۧ [21]

ترجمہ: آخر تمہیں  دوزخ کی آگ کیوں  نہ چھوئے گی ؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکّر میں  پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں  وہ ہمیشہ رہے گا اور جو لوگ ایمان لائیں  گے اور نیک عمل کریں  گے وہی جنتی ہیں  اور جنت میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !یہ منکرین دین حق کومغلوب کرنے کے لئے چاہے کتنا ہی زورکیوں  نہ لگائیں ان کی کوئی تدبیراورسازش کامیاب نہیں  ہوسکتی ،کیونکہ علم رکھنے والوں  کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جوکتاب تم پرنازل کی ہے وہ سراسرحق ہے،اوراس ہستی کی طرف راہ دکھاتاہے جوبڑی عزت والی اورپورے غلبہ والی ہے،اوراپنی مخلوق میں  محمود(قابل تعریف )ہے ،اور ساری مخلوق اسکی حمدوثنامیں  رطب اللسان ہے ۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ یُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ ‎﴿٧﴾‏أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِی الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِیدِ ‎﴿٨﴾‏ أَفَلَمْ یَرَوْا إِلَىٰ مَا بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَیْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیبٍ ‎﴿٩﴾‏(سبا)
اور کافروں  نے کہا (آؤ) ہم تمہیں  ایک ایسا شخص بتلائیں  جو تمہیں  یہ خبر پہنچا رہا ہے کہ جب تم بالکل ہی ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو پھر سے ایک نئی پیدائش میں  آؤ گے،(ہم نہیں  کہہ سکتے) کہ خود اس نے (ہی) اللہ پرجھوٹ باندھ لیا ہے یا اسےدیوانگی ہے، بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں  اور دور کی گمراہی میں  ہیں ،کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں  رہے ہیں  ؟ اگر ہم چاہیں  تو انھیں  زمین میں  دھنسا دیں  یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں ، یقیناً اس میں  پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لیے جو (دل سے) متوجہ ہو۔

ملحدین قیامت کومحال جانتے ہوئے بطورتکذیب واستہزاء کے ایک دوسرے سے کہتے تھے کیاہم بتائیں  تمہیں  ایساشخص یعنی محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جوتمہیں  ناقابل فہم خبردیتاہے کہ جب تمہارے جسم کاذرہ ذرہ منتشرہوکرتمہاراظاہری وجودناپیدہوجائے گااس وقت تمہیں  دوبارہ وہی دینوی شکل وصورت،جسم وجاں  عطافرماکر تمہاری قبروں  سے نئے سرے سے پیدا کیا جائے گا؟ ہماراخیال تویہ ہے کہ یاتواس شخص نے رسالت اوروحی کے نزول کادعویٰ کرکے جان بوجھ کر اللہ کے نام سے جھوٹ باندھنے کی جرات کی ہے یاپھریہ دیوانہ ہو گیاہے اوراسی دیوانگی میں  ایسی غیر معقول اوربے سروپا باتیں  کرتا ہے ،اوریہ وہ کوئی نئی بات نہیں  کرتے تھے بلکہ جتنی بھی اقوام کواللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال بدکے صلہ میں  صفحہ ہستی سے مٹادیاان سب نے بھی پیغمبروں  کویہی کہاتھا،

كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝۵۲ۚ [22]

ترجمہ:یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں  کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں  آیا جسے انہوں  نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون ۔

اللہ تعالیٰ نے کافروں  کی تردیدکرتے ہوئےفرمایابات اس طرح نہیں  ہے جس طرح یہ گمان کررہے ہیں  بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حق سے غایت درجہ دوری اور عقل وفہم اور ادراک حقائق سے قاصرہونے کی بناپر یہ لوگ آخرت پرایمان نہیں  لارہے اوراپنی حماقت کی طغیانی میں اس راستے کی طرف سرپٹ دوڑے جارہے ہیں  جو سیدھا جہنم کے دائمی عذاب کی طرف جاتاہے اوربڑی بدبختی اوردورکی گمراہی میں  مبتلا ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ایک عقلی دلیل کی طرف ان کی توجہ مبذول کی جو حیات بعدالموت کے بعیدنہ ہونے پردلالت کرتی ہے ،فرمایاکیاانہوں  نے کبھی اس آسمان کوجس کی بلندی اوروسعت ناقابل بیان ہے اور وسیع وعریض زمین کو نہیں  دیکھا ؟کیاآسمان کی یہ نیلی چھتری جس سے یہ باہرنہیں  نکل سکتے اور یہ ہموارزمین خودبخوداتفاقا ًوجودمیں  آگئے ہیں ؟کیااس عظیم الشان کائنات کاکسی کجی سے مبرایہ نظام خودبخود قائم ہوگیاہے؟ کیارات کے بعددن اوردن کے بعد رات ازخودآجاتی ہے؟کیاآسمان سے بارش اورپھر زمین سے یہ انواح و اقسام کی نباتات خودبخوداگ آتی ہیں ؟ نہیں ،بلکہ آسمان وزمین کو ایک قادرمطلق ہستی نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ تخلیق کیااوراس کائنات کانظام قائم فرمایاہے، جب اللہ وحدہ لاشریک ان عظیم الشان مخلوقات کو اوران کے درمیان جو کچھ ہے چنددنوں  میں  تخلیق کر دینے کی قدرت رکھتاہے،جیسے فرمایا

اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ۔۔۔۝۵۴ [23]

ترجمہ: درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا ، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ۔۔۔۝۳ [24]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں  اور زمین کو چھ دنوں  میں  پیدا کیا پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے ۔

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۝۰ۚۛ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔــلْ بِہٖ خَبِیْرًا۝۵۹ [25]

ترجمہ:وہ جس نے چھ دنوں  میں  زمین اور آسمانوں  کو اور ان ساری چیزوں  کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں ، پھر آپ ہی عرش پر جلوہ فرما ہوا، رحمان ، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو ۔

وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ۝۰ۤۖ وَّمَا مَسَّـنَا مِنْ لُّغُوْبٍ۝۳۸ [26]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں  کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں  کو چھ دنوں  میں  پیدا کر دیا اور ہمیں  کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔

اس کے لئے اپنی ہی پیداکردہ مخلوق کودوبارہ پیداکردینااوراسے دوبارہ اسی حالت میں  لے آناجس میں  وہ پہلے تھی کیوں  کر ناممکن ہے ؟جیسے فرمایا

اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ۝۰ۭ۬ بَلٰى۝۰۝۰ۤوَهُوَالْخَلّٰقُ الْعَلِـیْمُ۝۸۱ [27]

ترجمہ: کیا وہ جس نے آسمانوں  اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں  ہے کہ ان جیسوں  کو پیدا کر سکے؟ کیوں  نہیں  جب کہ وہ ماہر خلاّق ہے۔

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۵۷ [28]

ترجمہ: آسمانوں  اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو دوبارہ پیدا کرنے کے مقابلے میں  یقینا بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ نہیں  سمجھتے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت کااظہارفرمایاکہ ہم چاہیں  تو انہیں  ان کی نافرمانی کے سبب اس زمین میں  جہاں  یہ اطمینان وسکون سے رہتے ،کھیتی باڑی اور تجارت کرتے ہیں  دھنسا دیں ،یادن یارات کے وقت آسمان سے عذاب کے کچھ ٹکڑے ان پرگرادیں ، پھریہ دیکھ لیں  گے کہ اللہ کے سواان کاکوئی حامی وناصرنہیں  ہے ،اورحیات بعدازالموت برحق ہے ،مگراللہ اپنے رحم وکرم سے اپنے بندوں  کو سوچنے اورسنبھلنے کے لئے مہلت عطافرماتاہے، درحقیقت آسمان وزمین کے کجی سے مبرا نظام میں  ایک نشانی ہے ہراس شخص کے لئے جواخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کاطالب ہو ۔

۞ وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَهُ وَالطَّیْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِیدَ ‎﴿١٠﴾‏ أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ ۖ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿١١﴾ (سبا)
اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا، اے پہاڑو ! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرواور پرندوں  کو بھی (یہی حکم ہے) اورہم نے اس کےلیے لوہا نرم کردیا کہ تو پوری پوری زرہیں  بنا اور جوڑوں  میں  اندازہ رکھ تم سب نیک کام کرو، (یقین مانو) کہ میں  تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں ۔

ہم نے اپنے بندے داود علیہ السلام کودینی اوردنیاوی نعمتوں  سے سرفرازفرمایا،ہم نے انہیں ( سنہ۱۲۰۰ اور سنہ۱۰۰۰ کے درمیان)اپنے پاس سے نبوت کے ساتھ بادشاہت اورکئی امتیازی خوبیوں  سے نوازا تھا،ان میں  سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی ،ہم نے ٹھوس پہاڑوں  اورہوامیں  اڑتے رنگارنگ کے پرندوں  کوحکم دیاکہ جب داود علیہ السلام اللہ کی تسبیح پڑھیں  توتم بھی تسبیح خوانی میں  ان کے ساتھ مصروف ہوجاؤ ،چنانچہ جب داود علیہ السلام اپنی طرب انگیزآوازمیں  اللہ کی تسبیح وتہلیل اورتمجیدوتحمید میں  مصروف ہوتے توجن وانس کے ساتھ ٹھوس پہاڑ، جمادات ،حیوانات اورہوامیں اڑتے پرندے ٹھہرجاتے اور ان کے ساتھ آوازمیں  آوازملاکر رب کی تسبیح وتکبیراورتمجیدوتحمید میں  مصروف ہوجاتے ،اللہ تعالیٰ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کوخوبصورت آوازسے نوازاتھااوروہ بڑے بہترین انداز سے تلاوت قرآن کرتے تھے ،ایک مرتبہ ابوموسیٰ ٰ اشعری رضی اللہ عنہ نہایت خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے ان کی تلاوت سن کررسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اوردیر تک ان کی تلاوت سنتے رہے ،

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِی مُوسَى:لَوْ رَأَیْتَنِی وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ، لَقَدْ أُوتِیتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُدَ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر تم مجھے گزشتہ رات دیکھتے جب میں  تمہارا قرآن مجید سن رہا تھا یقیناً تمہیں  آل داؤد کی خوش الحانی سے حصہ ملا ہے۔ [29]

دوسری امتیازی خوبی یہ عطا فرمائی کہ جنگی اغراض کے لئے لوہے جیسی سخت دھات کوبھٹی میں  تپائے اورہتھوڑے سے کوٹے بغیراسے موم کی طرح جس طرح چاہتے موڑلیتے اورجوچاہتے بنالیتے ،اور انہیں  ہدایت کی کہ اس اہم ترین دفاعی سامان میں  پوری لمبی زرہیں  بنااوران کے حلقے نہ توچھوٹے رکھو کہ ٹھیک طورپرنہ بیٹھیں  اورنہ اتنے بڑے ہوں  کہ ان میں  ڈھیلاپن رہ جائے ،تاکہ یہ زرہیں  لڑنے والے کے پورے جسم کوصحیح طور سے ڈھانک لیں  اوروہ دشمن کے وارسے محفوظ رہے،جیسے فرمایا

وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ۝۰ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ۝۸۰ [30]

ترجمہ:اورہم نے اس کوتمہارے فائدے کے لئے زرہ بنانے کی صنعت سکھادی تھی تاکہ تم کوایک دوسرے کی مارسے بچائے ،پھرکیاتم شکرگزارہو؟۔

(اے آل داود)ان نعمتوں  کے شکرانے میں  عمل صالح کا اہتمام کرو،جوچھوٹابڑاعمل تم کرتے ہووہ مجھ سے چھپاہوانہیں  ہے۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَى اللهِ صِیَامُ دَاوُدَ، كَانَ یَصُومُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا وَأَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَى اللهِ صَلاَةُ دَاوُدَ، كَانَ یَنَامُ نِصْفَ اللیْلِ وَیَقُومُ ثُلُثَهُ، وَیَنَامُ سُدُسَهُ،وَلاَ یَفِرُّ إِذَا لاَقَى

چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے کاسب سے پسندیدہ طریقہ داود علیہ السلام کاطریقہ تھاآپ ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن بغیرروزے کے رہتے تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازکاسب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ داود علیہ السلام کی نمازکاطریقہ تھاآپ آدھی رات تک سوتے اورایک تہائی حصے میں  عبادت کیاکرتے تھے اوربقیہ چھٹےحصے میں  آرام کرتے،ایک خوبی آپ میں  یہ بھی تھی کہ دشمن سے جہادکے وقت منہ نہ پھیرتے تھے۔ [31]

 وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَیْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیرِ ‎﴿١٢﴾‏ یَعْمَلُونَ لَهُ مَا یَشَاءُ مِن مَّحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِیَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِیلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُورُ ‎﴿١٣﴾‏ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوا فِی الْعَذَابِ الْمُهِینِ ‎﴿١٤﴾‏(سبا)
اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی اور ہم نے ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا، اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ماتحتی میں  اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں  سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں  گے، جو کچھ سلیمان چاہتے وہ جنات تیار کردیتے، مثلا قلعے اور مجسمے اور حوضوں  کے برابر لگن اور چولہوں  پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں ، کے شکریہ میں  نیک عمل کرو، میرے بندوں  میں  سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں ، پھر جب ہم نے ان پر پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کے عصا کو کھارہا تھا، پس جب (سلیمان) گرپڑےاس وقت جنوں  نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں  مبتلا نہ رہتے۔

اللہ تعالیٰ نے داودعلیہ السلا م پراپنافضل وکرم بیان کرنے کے بعد ان کے فرزند سلیمان علیہ السلام کاذکرفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کوایسی بادشاہت عنایت فرمائی کہ ان کے بعدکسی کوایسی بادشاہت نصیب نہ ہوسکی ،جیسے فرمایا

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۝۳۵فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَیْثُ اَصَابَ۝۳۶ۙ [32]

ترجمہ:اور کہا کہ اے میرے رب! مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے،تب ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا ۔

یہ ایسی بادشاہت تھی جس میں  انسانوں  کے علاوہ ہوابھی ان کے ماتحت تھی اورجس طرح سلیمان علیہ السلام چاہتے ان کے حکم سے صبح سے دوپہرتک ایک مہینے کی مسافت اوردوپہرسے رات تک ایک مہینے کی مسافت تک حسب ضرورت کبھی نرم اور کبھی تندوتیز ہوتی تھی،اس طرح ایک دن میں  دومہینوں  کی مسافت طے ہوجاتی ،

عَنِ الْحَسَنِ، فِی قَوْلِهِ {غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ} قَالَ:كَانَ یَغْدُو فَیَقِیلُ فِی إِصْطَخْرَ، ثُمَّ یَرُوحُ مِنْهَا، فَیَكُونُ رَوَاحُهَا بِكَابُلَ

حسن بصری رحمہ اللہ کاآیت کریمہ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ کے بارے میں قول ہے سلیمان علیہ السلام صبح کے وقت دمشق سے اپنے تخت پرسفرکرتے اوردوپہرکاکھانااصطخرمیں  تناول فرماتے ، پھر اصطخر سے سفرشروع کرتے تورات کابل میں  بسرفرماتے۔ [33]

اورآپ کے تجارتی بحری جہازوں  کوجہاں  آپ بھیجنا چاہتے پہنچادیتی تھی اس کے علاوہ الله تعالیٰ نے(پہاڑوں  سے) پگھلے ہوئے تانبے کاچشمہ بھی ان کے لئے بہا دیا تھا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جوچاہیں  بنائیں  ، یایہ بھی تاویل کی جاسکتی ہے کہ ان کے دورمیں  تانبے کوپگھلانے اوراس سے طرح طرح کی چیزیں  تیار کرنے کاکام اتنے بڑے پیمانے پرہوتاتھاکہ گویا وہاں  تانبے کے چشمے بہہ رہے تھے، جنات الله تعالیٰ کی ایک سرکش مخلوق ہے جوآگ کی لپٹ سے پیداکی گئی ہے،جیسے فرمایا

وَالْجَاۗنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ۝۲۷ [34]

ترجمہ:اور اس سے پہلے ہم جنوں  کو آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے۔

ان کواللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے تابع فرمان کر دیا تھاجوان کے حکم کے مطابق کام سرانجام تھے اور جنات میں  سے جوہمارے حکم سے سرتابی کرتااس کوہم بھڑکتی ہوئی آگ کامزہ چکھاتے،سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنات ان کے لئے ہروہ چیزبناتے جووہ چاہتے ،وہ ان کے لئے اونچی عالی شان عمارتیں  ، مساجدومعابد،قلعے،مجسمے ،غیرحیوان چیزوں  کی تصویریں ،لشکروں کے بیک وقت کھانے کے لئے چولہوں  پر مستقل جمی ہوئی بڑی بڑی مضبوط تانبے کی دیگیں  تیار کرتے تھے، اوران لشکریوں  کے کھاناکھانے کے لئے بڑے بڑے حوضوں  کے برابربرتن ، سمندروں  میں  غوطے لگاتے اورجواہرات نکال لاتے ،وہ ان کاموں  کے علاوہ اوربھی بہت کچھ کرتے تھے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ عِفْرِیتًا مِنَ الجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَیَّ البَارِحَةَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا لِیَقْطَعَ عَلَیَّ الصَّلاَةَ، فَأَمْكَنَنِی اللهُ مِنْهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِیَةٍ مِنْ سَوَارِی المَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَیْهِ كُلُّكُمْ،فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِی سُلَیْمَانَ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۔قَالَ رَوْحٌ:فَرَدَّهُ خَاسِئًا

ابوہریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچھلی رات کے وقت ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیایااسی طرح کی کوئی بات آپ نے فرمائی وہ میری نمازمیں  خلل ڈالناچاہتاتھا مگر الله تعالیٰ نے مجھے اس پرقابودے دیا اور میں  نے اسے پکڑلیا،اورارادہ کیاکہ اسے مسجدکے ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح تم سب اسے دیکھ سکو، مگراس وقت مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی، انہوں  نے الله تعالیٰ کے حضورگزارش کی تھی  ’’اے میرے رب ، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔‘‘ میں  نے اسے ذلیل کر کے چھوڑ دیا۔ [35]

الله رب العزت نے سلیمان علیہ السلام کو فرمایا اے آل داود! میری دین ودنیاکی ان عطاکردہ نعمتوں  پر قولاًوفعلاًمیرا شکربجالاو،

قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحُبلی : الصَّلَاةُ شُكْرٌ وَالصِّیَامُ شُكْرٌ وَكُلُّ خَیْرٍ تَعْمَلُهُ لِلَّهِ شُكْرٌ وَأَفْضَلُ الشُّكْرِ الْحَمْدُ

ابوعبدالرحمٰن حبلی کہتے ہیں  نمازشکرہے،روزہ شکرہے،ہرنیکی جسے تواللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطرکرے شکرہے، اور افضل شکرحمدہے۔ [36]

عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:أَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَى اللهِ صَلاَةُ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ، وَأَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَى اللهِ صِیَامُ دَاوُدَ وَكَانَ یَنَامُ نِصْفَ اللیْلِ وَیَقُومُ ثُلُثَهُ ، وَیَنَامُ سُدُسَهُ، وَیَصُومُ یَوْمًا، وَیُفْطِرُ یَوْمًاوَلاَ یَفِرُّ إِذَا لاَقَى

عمروبن العاص سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ نمازداود علیہ السلام کی نمازہے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں ،وہ آدھی رات سوتے اور(رات کا)تیسراحصہ قیام کرتے، پھراس(رات)کاچھٹاحصہ سوجاتے تھے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن ناغہ کرتے تھے، اورمیدان جنگ میں  دشمن کے مقابلے سے بھاگتے نہیں  تھے۔ [37]

قَالَ فَضِیلٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا} .قَالَ: قَالَ دَاوُد عَلَیْهِ السَّلَام: یَا رب كَیفَ أشكرك وَالشُّكْر نعْمَة مِنْك ، قَالَ: الْآنَ شَكَرْتَنِی حِینَ عَلِمْتَ أَنَّ النِّعْمَةَ مِنِّی

فضیل رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کاقو ل ’’ اے آل داؤد عمل کرو شکر کے طریقے پر ۔‘‘بارے میں  کہتے ہیں داود علیہ السلام نے عرض کی اے میرے رب!میں  تیراشکرکس طرح اداکرسکتاہوں جبکہ شکراداکرنابھی توتیری نعمت ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایااب تم نے میراشکراداکردیاجب تمہیں  یہ معلوم ہوگیاکہ تمام نعمتیں  میری ہی طرف سے ہیں ۔ [38]

میں  اپنے بندوں  کواولاد،مال ودولت ، مرتبہ وحیثیت ، عزت وشہرت دے کر نوازتاہوں  اورسب کچھ لیکربھی آزماتا ہوں  تاکہ کھرے اورکھوٹے الگ الگ ہو جائیں  ، مگرمیرے بندوں  میں  سے اکثرمیراشکرکرنے کے بجائے ناشکری ہی کرتے ہیں  (شکرسے مرادہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کادل سے اعتراف کرنا،اپنے آپ کواس کامحتاج سمجھتے ہوئے اس نعمت کوقبول کرنا،اس کواللہ تعالیٰ کی اطاعت میں  صرف کرنا اوراس کی نافرمانی میں  صرف کرنے سے گریزکرنا) سلیمان علیہ السلام کے وقت میں  شیاطین اورجنات نے انسانوں  کو بہکایا اور ان میں یہ مشہورکیاکہ وہ غیب کاعلم جانتے ہیں  اور چھپی ہوئی چیزوں  کی اطلاع رکھتے ہیں  ،چنانچہ جب الله تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی موت کافیصلہ نافذکیاتوروح نکلنے کے وقت جیسے وہ اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے ویسے ہی کھڑے رہے اورانس وجنات پران کی موت کی کیفیت نامعلوم رہی اوروہ انہیں  زندہ سمجھتے ہوئے آپ علیہ السلام کی ہیبت سے احکامات کے مطابق سرجھکائے اپنے سخت سخت کاموں  میں  مصروف رہے کہ ایسا نہ ہوکہ ہم ڈھیل کریں  اور الله کے رسول آجائیں  اورہمیں  کڑی سزا دیں  ،اس طرح معلوم نہیں  کتناعرصہ گزرگیا،ایک قول کے مطابق سال بھرکاعرصہ گزرااوراس لاٹھی کوجس لاٹھی کے سہارے آپ علیہ السلام کھڑے تھے دیمک نے چاٹ کرکھوکھلاکردیا توآپ علیہ السلام زمین پر گر پڑے ،اب جنات اورانسانوں  کوآپ کی موت کا پتہ چلاتب تو نہ صرف انسانوں  کوبلکہ خود جنات کوبھی یقین کامل ہوگیاکہ ان میں  کوئی غیب داں  نہیں یہ محض ان کی دھونس ہے ،اگرہمیں  غیب کاعلم ہوتاتواتناعرصہ اس ذلت کی مصیبت میں  مبتلانہ رہتے اس طرح الله تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی موت کے ذریعہ سے اس عقیدے کے فسادکورفع فرمایا۔

اسلام میں تصویراورمجسمہ سازی :

شریعت محمدیہ میں  تصاویرچاہے وہ انسانی ،حیوانی یاغیرجانداراشیاہوں اورمجسمے بنانافعل حرام ہے،اس سلسلہ میں  متعددروایات موجودہیں  جن میں  سے چندپیش ہیں ،

 عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِیسَةً رَأَیْنَهَا بِالْحَبَشَةِ فِیهَا تَصَاوِیرُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِیهِمُ العَبْدُ الصَّالِحُ، أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیهِ تِلْكَ الصُّوَرَ أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اورام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حبش میں (ہجرت حبشہ کے دورمیں ) ایک کنیسہ دیکھاتھاجس میں  تصاویربنی ہوئی تھیں  انہوں  نے اس بات کاذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان لوگوں  کاحال یہ تھا کہ جب ان میں  کوئی صالح آدمی فوت ہوجاتاتو(اس کی تعظیم اوریادکے لیے)اس کی قبرپرایک عبادت گاہ بناکراس میں  تصاویر بنا لیا کرتے تھے،یہ لوگ قیامت کے روزاللہ کے نزدیک بدترین خلائق قرار پائیں  گے۔ [39]

أَخْبَرَنِی عَوْنُ بْنُ أَبِی جُحَیْفَةَ، قَالَ: رَأَیْتُ أَبِی اشْتَرَى حَجَّامًا، فَأَمَرَ بِمَحَاجِمِهِ، فَكُسِرَتْ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الدَّمِ، وَثَمَنِ الكَلْبِ، وَكَسْبِ الأَمَةِ، وَلَعَنَ الوَاشِمَةَ وَالمُسْتَوْشِمَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَلَعَنَ المُصَوِّرَ

ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے اپنے والد کو دیکھا کہ انہوں  نے ایک غلام خریدا جو پچھنے لگاتا ہے، انہوں  نے اس کے اوزار توڑ ڈالے، میں  نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں  نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت اورخون نکالنے کی اجرت سے منع فرمایا ہے اورگودنے والی ،گدوانے والی اورسود کھانے اور کھلانے سے منع فرمایا اور مورت بنانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ [40]

عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللهِ یَوْمَ القِیَامَةِ المُصَوِّرُونَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھےقیامت کے روزاللہ کے ہاں  سخت ترین سزا پانے والے مصورہوں  گے۔ [41]

عَنِ أَبِی مُحَمَّدٍ الْهُذَلِیِّ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جَنَازَةٍ فَقَالَ:أَیُّكُمْ یَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِینَةِ فَلا یَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرَهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّاهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخَهَا؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ. فَانْطَلَقَ، فَهَابَ أَهْلَ الْمَدِینَةِ، فَرَجَعَ، فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أَنْطَلِقُ یَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:فَانْطَلِقْ فَانْطَلَقَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَدَعْ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرْتُهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّیْتُهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخْتُهَا. ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ عَادَ لِصَنْعَةِ شَیْءٍ مِنْ هَذَا، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابومحمدہذلی ،سیدناعلی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں  شریک تھے آپ نے فرمایاتم میں  سے کون ہے جوجاکرمدینہ میں  کوئی بت نہ چھوڑے جسے توڑنہ دے اورکوئی قبرنہ چھوڑے جسے زمین کے برابر نہ کردے اورکوئی تصویرنہ چھوڑے جسے مٹانہ دے،ایک شخص نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس کام کے لئے حاضرہوں ، چنانچہ وہ گیامگر اہل مدینہ کے خوف سے یہ کام کیے بغیرواپس پلٹ آیا، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  جاتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاتم جاؤ ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ مدینہ گئے اورواپس آکرانہوں  نے عرض کیاکہ میں  نے کوئی بت نہیں  چھوڑاجسے توڑ نہ دیا ہو،کوئی قبرنہیں  چھوڑی جسے زمین کے برابرنہ کردیاہواورکوئی تصویرنہیں  چھوڑی جسے مٹانہ دیاہو،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب اگرکسی شخص نے ان چیزوں  میں  کوئی چیز بنائی تو اس نے اس تعلیم سے کفرکیاجومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی ہے۔ [42]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی الحَسَنِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا أَبَا عَبَّاسٍ، إِنِّی إِنْسَانٌ إِنَّمَا مَعِیشَتِی مِنْ صَنْعَةِ یَدِی، وَإِنِّی أَصْنَعُ هَذِهِ التَّصَاوِیرَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: سَمِعْتُهُ یَقُولُ:مَنْ صَوَّرَ صُورَةً، فَإِنَّ اللَّهَ مُعَذِّبُهُ حَتَّى یَنْفُخَ فِیهَا الرُّوحَ، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ فِیهَا أَبَدًا فَرَبَا الرَّجُلُ رَبْوَةً شَدِیدَةً، وَاصْفَرَّ وَجْهُهُ، فَقَالَ: وَیْحَكَ، إِنْ أَبَیْتَ إِلَّا أَنْ تَصْنَعَ، فَعَلَیْكَ بِهَذَا الشَّجَرِ، كُلِّ شَیْءٍ لَیْسَ فِیهِ رُوحٌ

سعید بن ابی الحسن سے مروی ہےمیں  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا اے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ میں  ایساشخص ہوں  کہ میرا ذریعہ معاش میرے ہاتھ کی صنعت ہے اور میں  یہ تصوریں  بناتا ہوں ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا میں  تجھ سے وہی چیز بیان کروں  گا جو میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے کسی چیز کی تصویر بنائی تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتا رہے گا یہاں  تک کہ وہ اس میں  جان نہ ڈال سکے گا، اس شخص نے بہت ٹھنڈی سانس لی اور اس کا چہرہ زرد ہو گیا تو عبداللہ بن عباس نے کہا کہ تیرا برا ہو اگر تو تصویریں  ہی بنانا چاہتا ہے تو ان درختوں  کی جن میں  جان نہیں  ہوتی تصویریں  بنایا کر۔ [43]

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّهَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَةً فِیهَا تَصَاوِیرُ فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ عَلَى الْبَابِ، فَلَمْ یَدْخُلْ، فَعَرَفْتُ فِی وَجْهِهِ الْكَرَاهِیَةَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَتُوبُ إِلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، مَا أَذْنَبْتُ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا بَالُ هَذِهِ النُّمْرُقَةِ؟فَقُلْتُ: اشْتَرَیْتُهَا لِتَقْعُدَ عَلَیْهَا وَلِتَوَسَّدَهَا،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّورِ یُعَذَّبُونَ بِهَا، یُقَالُ لَهُمْ: أَحْیُوا مَا خَلَقْتُمْ وَقَالَ:إِنَّ الْبَیْتَ الَّذِی فِیهِ الصُّورَةُ لَا تَدْخُلُهُ الْمَلَائِكَةُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے ایک گدا خریداجس میں  تصویریں  بنی ہوئی تھیں ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر داخل ہونے کے بجائے دروازے ہی میں  کھڑے ہوگئےاورمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پرکراہت محسوس کی،میں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے سامنےسے توبہ کرتی ہوں میرا گناہ کیاہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ گدا کیسا ہے ؟ میں  نے عرض کیایہ اس غرض کے لئے ہے کہ آپ یہاں  تشریف رکھیں  اور اس پرٹیک لگائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاان تصویروں  کے بنانے والوں  کوقیامت کے روزعذاب دیاجائے گاان سے کہا جائے گاکہ جوکچھ تم نے بنایاہے ان میں  جان ڈالوا ورفرمایا ملائکہ (رحمت)کسی ایسے گھرمیں  داخل نہیں  ہوتے جس میں  تصویریں  ہوں ۔ [44]

عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ، وَقَدْ سَتَرْتُ بِقِرَامٍ لِی عَلَى سَهْوَةٍ لِی فِیهَا تَمَاثِیلُ،فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَتَكَهُ وَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ وَقَالَ:أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ القِیَامَةِ الَّذِینَ یُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس تشریف لائے، میں  نے صحن میں  ایک پردہ لٹکایا ہوا تھاجس پر تصویریں  تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو (غصے سے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور کارنگ بدل گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پردے کواپنے دست مبارک سے پھاڑ ڈالااور فرمایاقیامت کے روزسخت ترین عذاب جن لوگوں  کو دیا جائے گا ان میں  سے وہ لوگ بھی ہیں  جواللہ کی تخلیق کی ماندتخلیق کی کوشش کرتے ہیں ۔ [45]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ، وَقَدْ سَتَّرْتُ عَلَى بَابِی دُرْنُوكًا فِیهِ الْخَیْلُ ذَوَاتُ الْأَجْنِحَةِ، فَأَمَرَنِی فَنَزَعْتُهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفرسے واپس تشریف لائے اورمیں  نے اپنے دروازے پرایک پردہ لٹکا رکھاتھاجس میں  پردارگھوڑوں  کی تصویریں  تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ اسے اتار دو اور میں  نے اتاردیا۔ [46]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصُّورَةِ فِی البَیْتِ، وَنَهَى عَنْ أَنْ یُصْنَعَ ذَلِكَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایاہے کہ گھرمیں  تصویررکھی جائے اوراس سے بھی منع فرمادیاکہ کوئی شخص تصویربنائے۔ [47]

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:وَعَدَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِیلُ، فَرَاثَ عَلَیْهِ، حَتَّى اشْتَدَّ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَقِیَهُ، فَشَكَا إِلَیْهِ مَا وَجَدَ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّا لاَ نَدْخُلُ بَیْتًا فِیهِ صُورَةٌ وَلاَ كَلْبٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کاوعدہ کیامگربہت دیرلگ گئی اوروہ نہ آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے پریشانی ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھرسے نکلے تووہ مل گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شکایت کی تو انہوں  نے کہاہم کسی ایسے گھرمیں  داخل نہیں  ہوتے جس میں  کتایاتصویرہو۔ [48]

عَنْ أَبِی الْهَیَّاجِ الْأَسَدِیِّ، قَالَ: قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِی عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ،وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّیْتَهُ

ابوالہیاج اسدی کہتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہاکیانہ بھیجوں  میں  تم کو اس مہم پرجس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجاتھا؟اوروہ یہ ہے کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑوجسے مٹانہ دو اورکوئی اونچی قبرنہ چھوڑوجسے زمین کے برابرنہ کردو۔ [49]

عَنْ حَنَشٍ الْكِنَانِیِّ، عَنْ عَلِیٍّ: أَنَّهُ بَعَثَ عَامِلَ شُرْطَتِهِ، فَقَالَ لَهُ: أَتَدْرِی عَلَى مَا أَبْعَثُكَ؟عَلَى مَا بَعَثَنِی عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ أَنْحِتَ كُلَّ یَعْنِی صُورَةً، وَأَنْ أُسَوِّیَ كُلَّ قَبْرٍ

حنش الکنانی کہتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی پولیس کے کوتوال سے کہاتم جانتے ہوکہ میں  کس مہم پر تمہیں  بھیج رہا ہوں ؟ اس مہم پرجس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجاتھایہ کہ میں  ہرتصویرکومٹادوں  اورہرقبرکوزمین کے برابرکردوں  [50]

لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِی مَسْكَنِهِمْ آیَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن یَمِینٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ ‎﴿١٥﴾‏ فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَیْهِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَیْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِیلٍ ‎﴿١٦﴾‏ ذَٰلِكَ جَزَیْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا ۖ وَهَلْ نُجَازِی إِلَّا الْكَفُورَ ‎﴿١٧﴾‏ وَجَعَلْنَا بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ الْقُرَى الَّتِی بَارَكْنَا فِیهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِیهَا السَّیْرَ ۖ سِیرُوا فِیهَا لَیَالِیَ وَأَیَّامًا آمِنِینَ ‎﴿١٨﴾‏ فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِیثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ‎﴿١٩﴾‏ وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ إِبْلِیسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِیقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَمَا كَانَ لَهُ عَلَیْهِم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِی شَكٍّ ۗ وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ حَفِیظٌ ‎﴿٢١﴾(سبا)
قوم سبا کے لیے اپنی بستیوں  میں  (قدرت الٰہی کی) نشانی تھی، ان کے دائیں  بائیں  دو باغ تھے (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور شکر ادا کرو، یہ عمدہ شہر اور وہ بخشنے والا رب ہے ، لیکن انہوں  نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کا پانی) بھیج دیا، اور ہم ان کے( ہرے بھرے) باغوں  کے بدلے دو (ایسے) باغ دیئے جو بدمزہ میووں والے اور (بکثرت) جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں  والے تھے،ہم نے ان کی ناشکری کا بدلہ انھیں  دیا، ہم (ایسی) سختسزا بڑےبڑے ناشکروں  کو ہی دیتے ہیں ،اورہم نے ان کے اور ان بستیوں  کے درمیان جن میں  ہم نے برکت دےرکھی تھی چند بستیاں  اور (آباد) رکھی تھیں  جوبر سر راہ ظاہر تھیں اور ان میں  چلنے کی منزلیں  مقرر تھیں  ،ان میں  راتوں  اور دنوں  کو بھی امن وامان چلتے پھرتے رہو،لیکن انہوں  نے پھر کہااے ہمارے پروردگار ! ہمارے سفر دور دراز کر دے چونکہ خود انہوں  نے اپنے ہاتھوں  اپنا برا کیا اس لیے ہم نے انھیں (گذشتہ) فسانوں  کی صورت میں  کردیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیئے، بلاشبہ ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لیےاس (ماجرے) میں  بہت سی عبرتیں  ہیں ، اور شیطان نے ان کے بارے میں  اپنا گمان سچا کر دکھایایہ لوگ سب کے سب اس کے تابعدار بن گئے سوائے مومنوں  کی ایک جماعت کے،شیطان کا ان پر کوئی زور (اور دباؤ) نہ تھا مگر اس لیے کہ ہم ان لوگوں  کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں  ظاہر کردیں  ان لوگوں  میں  سے جو اس سے شک میں  ہیں ، اور آپ کا رب (ہر) ہر چیز پر نگہبان ہے۔

اہل سبااوراہل مکہ میں  مشابہت:

جزیرہ نمائے عرب میں  بارش کم ہوتی ہے اس لئے کوئی مستقل دائمی دریانہیں  ہیں  صرف سلسلہ کوہستان ہے ،پانی پہاڑوں  سے بہہ کرریگستانوں  میں  خشک ہوکر ضائع ہو جاتا ہےاورزراعت کے مصرف میں  نہیں  آتا، قوم سباایک عقل مندقوم تھی انہوں  نے زرعت کوترقی دینے اور اپنے ملک کی خوشحالی کے لئے بارش کے ضائع ہوتے ہوئے پانی کو قابوکرنے کامنصوبہ بنایااورموقع کی مناسبت سے سوکے قریب چھوٹے چھوٹے بندبنائے مگرسب سے بڑابندسدمارب تھا جودارالحکومت کے قریب تھا، مارب کے قریب شہرکے شمالی اورجنوبی دونوں  طرف پہاڑتھےجن کانام کوہ ابلق ہے، جن کے درمیان ایک تنگ وادی ہے جسے وادی اذنیہ کہتے ہیں ،اس وادی کے دہانے پرملوک سبانے ۸۰۰ قبل مسیح میں  چشموں  اوربرساتی نالوں  کے پانی کوجوبارش کے موسم میں  پہاڑوں  کی بلندیوں  سے بہتے تھے روکنے کے لئے مٹی کی ایک مضبوط بیالیس فٹ بلند ، ۱یک سوپچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی دیوارکھڑی کردی تھی اوردیوارکوبڑے بڑے پتھروں  سے ڈھانک دیاتھا،اورپانی کے حسب ضرورت اخراج کے لئے اس کے مشرق ومغرب دونوں  جانب اوپرنیچے دروازے بنادیئے تھے جس کوداہناصدف اوربایاں  صدف کہاجاتاتھا،زمینوں  تک پانی پہنچانے کے لئے سطح آب کوبھی بلندکیااس طرح ان کے ہاتھ میں  زمینوں  کی سیرابی کاایک قدرتی ذریعہ میسرآگیا(عام مسلمان مورخین اس بندکابانی بلقیس ملکہ یمن وحرم سلیمانی کوقراردیتے ہیں ) چنانچہ اس پانی کوپہنچانے کے لئے دارالحکومت کے ۲۰۰ مربع میل تک میں نہروں  کاجال بچھاہواتھاجس کی وجہ سے اردگرد کی زمینیں  بہشت زار ہوگئیں ، پانی کی فراوانی کی وجہ سے ہر طرف زراعت وباغات میں ہریالی اورشادابی ہی نظرآتی تھی ،ہرے بھرے شاداب باغات کی کثرت اور انواع واقسام کے ذائقوں  والے پھلوں  کی فراوانی تھی ، جس سے ملک سباکی پوری سرزمین گلزار بنی ہوئی تھی جس سے ملک بڑا ہی خوشحال ہوگیا،

قَتَادَةُ: أَنَّ الْمَرْأَةَ كَانَتْ تَمْشِی تَحْتَ الْأَشْجَارِ وَعَلَى رَأْسِهَا مِكْتَلٌ أَوْ زِنْبِیلٌ، وَهُوَ الَّذِی تُخْتَرَفُ فِیهِ الثِّمَارُ، فَیَتَسَاقَطُ مِنَ الْأَشْجَارِ فِی ذَلِكَ مَا یَمْلَؤُهُ مِنْ غَیْرِ أَنَّ یَحْتَاجَ إِلَى كُلْفَةٍ وَلَا قُطَّاف، لِكَثْرَتِهِ وَنُضْجِهِ وَاسْتِوَائِه

قتادہ رحمہ اللہ کابیان ہے کہ کوئی عورت اپنے سرپرجھلی رکھ کرچلتی توکچھ دورجانے تک وہ جھلی پھلوں  سے بالکل بھرجاتی تھی،درختوں  سے جوپھل خودبخودجھڑتے تھے وہ اس کثرت سے ہوتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی حاجت نہیں  ہوتی تھی۔ [51]

یہ ملک بری وبحری تجارت میں  ممتاز تھااورزراعت وباغبانی میں  بھی سربلندتھاجورب کی ایک نشانی تھی کیونکہ یہ دونوں  ہی چیزیں  کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کاباعث ہواکرتی ہے اور اچھی آب وہواکی وجہ سے یہ مکھی مچھراوراس قسم کے دیگرموذی جانوروں  سے پاک ایک عمدہ شہر تھا تاکہ وہ رب کی عنایت کردہ نعمتیں  کھائیں  اس کے احکامات پرعمل درآمد کریں  اور رب کاشکربجالائیں  اورنافرمانیوں  سے اجتناب کریں  ،جس سے غفورورحیم رب عفوودرگزرسے کام لیتے ہوئے تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا ۔

عَنْ صُهَیْبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَجِبْتُ مِنْ قَضَاءِ اللهِ لِلْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَ الْمُؤْمِنِ كُلَّهُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَلِكَ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ فَشَكَرَ، كَانَ خَیْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ فَصَبَرَ، كَانَ خَیْرًا لَهُ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں  خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں  سوائے اس مومن آدمی کے، اگراسے راحت اورخوشی پہنچتی ہے توشکرکرکے بھلائی حاصل کرتاہے اوراگربرائی اورغم پہنچتاہے تویہ صبرکرتاہے اوربدلہ حاصل کرتاہے۔ [52]

مگر الله تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں  نے اس قوم میں  غروروتکبربھردیااوروہ رب کے دین سے دورہوتے چلے گئے ،رب کریم نے اپنی سنت کے مطابق انہیں  ان کے کفروشرک اورناشکری پرفورا ًہی نہیں  پکڑلیابلکہ ان کو راہ راست پر پلٹ آنے کی مہلتیں  دیں  ،

عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ الْیَمَانِیِّ، قَالَ: لَقَدْ بَعَثَ اللهُ إِلَى سَبَإٍ، ثَلَاثَةَ عَشَرَ نَبِیًّا

وہب بن منبہ الیمانی کہتے ہیں  ان کی طرف بارہ یاتیرہ پیغمبربھیجے ، جنہوں  نے انہیں  دعوت توحیددی ،عبادت کاطریقہ سمجھایااورمنعم ومحسن کی عطاکردہ نعمتوں  پرشکرگزارہونے کی تلقین کی ۔ [53]

فَأَعْرَضُوا} أَیْ: عَنْ تَوْحِیدِ اللهِ وَعِبَادَتِهِ وَشُكْرِهِ عَلَى مَا أَنْعَمَ بِهِ عَلَیْهِمْ، وَعَدَلُوا إِلَى عِبَادَةِ الشَّمْسِ

کچھ عرصہ تک وہ یونہی رہےلیکن پھرانہوں  نے اللہ کی توحیدکواس کی عبادت کواوراس کی نعمتوں  کے شکرکوبھلادیااورسورج کی پرستش کرنے لگے۔ [54]

جیسے فرمایا

وَجِئْتُكَ مِنْ سَـبَـاٍؚبِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ۝۲۲اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُہُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ۝۲۳وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ۝۲۴ۙ [55]

ترجمہ: میں  سبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں  ،میں  نے وہاں  ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمراں  ہے اس کو ہر طرح کا سروسامان بخشا گیا ہے اور اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے،میں  نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیےاور انہیں  شاہراہ سے روک دیا اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں  پاتے۔

دوسرے معنوں  میں  اہل مکہ کوسمجھایاگیاکہ جس طرح یہ شہرمکہ امن وسکون اورکھانے کے لئے ہرطرح کے پھل اورمیوہ جات باافراط ہیں ،ایسی ہی حالت اہل سباکی بھی تھی ، انہوں  نے اللہ سے کفراوراس کی نعمتوں  کی ناقدری کی توان کے پاس کچھ نہ بچااوراگرتم نے بھی کفران نعمت کی روش اختیارکی توتمہاراحال ان سے مختلف نہ ہوگا،چنانچہ یہی ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے چندسال بعدہی یہ لوگ بدترین قحط کاشکارہوگئے ۔

اہل سباکازوال:

سبا بالکل صلح پسنداورامن ومسرت کی حکومت تھی،اہل سبا ایک تاجرقوم تھی اورآب پاشی کے بہترین نظام کے بدولت زراعت بھی کرتے تھے، اس کے علاقوں  میں  سونے اورجواہرات کی کانیں  کثرت سے تھیں ، اسی صلح پسندی کی وجہ سے سبانے اپنی قوت کازیادہ ترحصہ اسلحہ کے بجائے عمارات پرصرف کیا،اب تک جوتین ہزار کتبات دریافت ہوئے ہیں  وہ زیادہ تران ہی عمارتوں  کی یادگاری لوحیں  ہیں ،نشوان بن سعیدحمیری نے قصیدہ حمیریہ میں  تقریبا ً۲۵ شاہی عمارات کاذکرکیاہے ، ۶۵۰ قبل مسیح سے قبل قوم سبا کا پایہ تخت صرداح تھا(جس کے آثارمغرب کی طرف مارت اورصنعاکے درمیان ابھی تک باقی ہیں  اورخربیہ کے نام سے مشہورہیں )اور بادشاہوں  کالقب مکارب سبا (کاہن بادشاہ،یعنی انسانوں  اوردیوتاوں  کے درمیان واسطہ)ہواکرتاتھا،اسی دورمیں  مشہورمارب بندکی بنارکھی گئی جسے بعدمیں  آنے والے بادشاہ توسیع کرتے رہے،مکارب سبا۳۵۰سوسال تک حکومت کرتے رہے ، ۶۵۰ قبل مسیح سے ۱۱۵ قبل مسیح میں سیاسی وجوہ کی بناپرپایہ تخت صرداع کوچھوڑکرمارب کو(جس کادوسرانام سباتھا) جو مقام سمندرسے ۳۹۰۰ فٹ کی بلندی پر صنعاء سے ساٹھ میل مشرقی جانب واقع ہے پایہ تخت قراردیاگیااوراسے غیرمعمولی ترقی دی ،بادشاہوں  کالقب ملک (بادشاہ) قرار پایا اور قصرشاہی کانام سلحین تھا،۴۸۴ برس تک یہاں سترہ ملوک بادشاہوں  نے حکومت کی، اس دورمیں  مملکت سباجس کے ڈنکے دنیابھرمیں  بجتے تھے زوال نعمت کا سلسلہ شروع ہوا ان میں  مسلسل خانہ جنگیاں  ہوئیں  جس سے بیرونی قوموں  کومداخلت کاموقعہ ملا،پہلے چوتھی ق م کے اواخرمیں  یونانیوں  نے اورپھرایک ہزارسال سے زیادہ مدت تک تجارت کا واسطہ بننے کے بعدپہلی ق م میں  رومیوں  کے ہاتھوں ا ن کی بحری تجارت ختم ہوئی اورپھربہت سے اسباب کی بناپرحبشیوں  کے ہاتھوں  بری تجارت بھی دم توڑگئی ،پھربند ٹوٹنے کی وجہ سے زراعت نے بھی دم توڑدیا اوربالآخر ۵۲۵ ء میں آخری حمیری بادشاہ ذوانواس نے اکسومی حبشیوں  کے ہاتھوں  شکست کھائی توان کی آزادی بھی ختم ہو گئی ، اس طرح یہ قوم کفران نعمت کے سبب اللہ تعالیٰ کے غضب کاشکارہوگئی اوران کانام ونشان تک نہ رہا، حبشی وہاں  ۷۲ سال تک حکمران رہے جن میں  ابراہہ بھی تھاجس نے بیت اللہ پرچڑھائی کی ناپاک جسارت کی تھی جس پراللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے رہتی دنیاتک کے لئے نگاہ عبرت بنادیا ، اس طرح اللہ قادرمطلق نے کفران نعمت کی بدولت اس قوم کوانتہائی عروج سے گراکراس گندے گڑھے میں  پھینک دیاجہاں  سے پھرکوئی مغضوب قوم کبھی سرنہ اٹھاسکے ،ان کی آزادی بحال ہوئی مگرمشہوربندمارب میں  رخنے پڑنے شروع ہوگئے ۔

مارب بندکاٹوٹنا:

قرآن مجیدکے مطابق اہل سباکی تجارت توپہلے ہی رومیوں  اورحبشیوں  کے ہاتھوں  دم توڑچکی تھی جس سے یمن سے شام تک ان کی بستیوں  میں  دھول اڑنے لگی،ان کی تمام نوآبادیاں  بے نشان ہوکررہ گئیں  (انسائیکولوپیڈیابرٹانیکا،مضمون سبا) اس طرح یہ ناشکراورنافرمان قوم بلندیوں  سے پستی میں  چلی گئی، پھرپانچویں  صدی عیسوی ( ۴۵۰ء یا۴۵۱ئ) میں رب کی طرف سے اس قوم کے کفراورناشکری کابدلہ دینے اورمکمل تباہی وبربادی کانشان بنانے کے لئے ان پہاڑوں  پرمسلسل کئی دنوں  تک طوفانی بارش ہوتی رہی جس نے رکنے کانام ہی نہ لیاجس کا پانی بہہ کربندمیں  جمع ہوتارہااوربالآخر بندکی سطح عبورکرگیا اوردیوارکے اوپرسے بہنے لگا،بارش کی وجہ سے پوراعلاقہ پہلے ہی جل تھل ہوچکاتھااورپانی کی نکاسی کاکوئی راستہ نہیں  تھا ایک وقت معین پر تیز و تندسیلابی ریلے نے ان مضبوط بندوں  اورپشتوں  کوجن پران کونازتھاجو انہوں  نے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے بنارکھے تھے ٹوٹ گئے اوراس سے نکلنے والاسیلابی پانی راستے میں  بندپربندتوڑتاچلاگیاجس سے عظیم سیلاب آیاجس سے ایک قیامت برپاہوگئی ، ہرطرف پانی ہی پانی پھیل گیا،آب پاشی کاپورانظام درہم برہم ہوگیا،زورداربارشوں  اورسیلاب کی وجہ سے شاداب اورپھل دارباغات ویران واجاڑ اورزرعی فصلیں تباہ وبرباد ہو کر رہ گئیں ،بستیوں  کے بڑے بڑے خوبصورت مکانات پانی میں  ڈوب کر کھنڈربن گئے،وہی علاقہ جوکبھی جنت نظیربناہواتھاپیلو،جھاؤ ،کیلر،ببول جیسے درختوں سے بھر گیا اور خارداربوٹی بیرکے علاوہ کوئی چیزکھانے کے قابل نہ رہی،یہ تھااس کے کفرکابدلہ جوہم نے انکو دیااور ناشکرے انسان کے سواایسابدلہ ہم اور کسی کونہیں  دیتے،

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: صَدَقَ اللهُ الْعَظِیمُ. لَا یُعَاقَبُ بِمِثْلِ فِعْلِهِ إِلَّا الْكُفُورُ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اللہ عظیم نے سچ فرمایاہے کہ کافراور ناشکرے ہی کواس کے فعل کے مثل سزادی جاتی ہے۔ [56]

تجارتی نظام :

ملک سبا(یمن )اورشام کے درمیان تجارتی شاہراہ تھی جن پرلب سڑک مسلسل بستیاں  آبادکی ہوئی تھیں  جوایک دوسرے سے پیوست تھیں (مفسرین نے ان بستیوں  کی تعداد چار ہزارسات سوبیان کی ہے) جن کی وجہ سے تجارتی کاروانوں  کو ایک توکھانے پینے اور آرام کرنے کے لئے زادراہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں  پڑتی تھی اور دوسرے ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کاجواندیشہ ہوتاہے وہ بھی نہیں  ہوتاتھا،سفرکی مسافتیں  طے کرنے کے لئے ایک آبادی سے دوسری آبادی کافاصلہ معلوم و متعین تھااس لئے وہ لوگ دن ہویارات جس گھڑی چاہتے جان ومال کے کسی اندیشے کے بغیرذادراہ کی مشقت سے بے نیازامن وچین سے منزلوں  کے حساب کے مطابق بہ آسانی کھاتے پیتے اورآرام کرتے اپنا سفر طے کرلیتے تھے ،

وَقَالَ مُجَاهِدٌ، وَالْحَسَنُ، وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ، وَمَالِكٌ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وَقَتَادَةَ، وَالضَّحَّاكِ، والسُّدِّی، وَابْنِ زَیْدٍ وَغَیْرِهِمْ : یَعْنِی: قُرَى الشَّامِ ، یَعْنُونَ أَنَّهُمْ كَانُوا یَسِیرُونَ مِنَ الْیَمَنِ إِلَى الشَّامِ فِی قُرًى ظَاهِرَةٍ مُتَوَاصِلَةٍ

مجاہد،حسن،سعیدبن جبیر،مالک اززیدبن اسلم،قتادہ،ضحاک،سدی،ابن زیداوردیگربہت سے ائمہ تفسیر رحمہ اللہ کاقول ہے کہ ان سے شام کی بستیاں  مرادہیں ،یعنی جب وہ یمن سے شام کی طرف سفرکرتے تواس کے رستے میں  مبارک اورمسلسل بستیوں  کاجال پھیلاہواتھا۔ [57]

الله تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں  نے اس قوم میں  غروروتکبربھردیااوروہ رب کے دین سے دورہوتے چلے گئے ،سفرکی ان سہولتوں  کو انہوں  نے کوئی اہمیت نہ دی بلکہ ان کو ناگوار گزرنے لگیں  اورآبادی کی کثرت کواپنے لئے مصیبت سمجھنے لگے اور جس طرح بنی اسرائیل نے من وسلوٰی کے بدلے لہسن پیازوغیرہ طلب کیاتھا،

وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِـمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّـاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا۔۔۔۝۶۱ۧ [58]

ترجمہ:یاد کرو جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ( علیہ السلام)! ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں  کر سکتےاپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری ، گیہوں  ، لہسن ، پیاز ، دال وغیرہ پیدا کرے ۔

انہوں  نے بھی چاہت کی کہ آبادی اتنی گھٹ جائے کہ سفرکی منزلیں  دور دور ہوجائیں چنانچہ وہ دعاکرنے لگے اے ہمارے رب ! ہمارے سفراس طرح دوردور کردے کہ ہمیں  مسلسل آبادیوں  کے بجائے درمیان میں  سنسان وویران جنگلات اورصحراوں  سے گزرناپڑے ،گرمیوں  میں  دھوپ کی شدت اورسردیوں  میں  یخ بستہ ہوائیں  ہمیں  پریشان کریں  ، راستے میں  بھوک و پیاس اور موسم کی سختیوں  سے بچنے کے لئے ہمیں  ذادراہ کابھی انتظام کرنا پڑے ،اس طرح انہوں  نے خوداپنے ہاتھوں  اپنابراکیا،رب کریم نے اپنی سنت کے مطابق انہیں  ان کے کفروشرک اورناشکری پر فوراًہی نہیں  پکڑلیابلکہ ان کو راہ راست پر پلٹ آنے کی مہلتیں  دیں  ، اپنے رسول بھیجے جنہوں  نے انہیں  دعوت توحیددی اوررب کا شکر کرنے کی تلقین کی مگرانہوں  نے تو واپس نہ آنے کاعہدکررکھا تھا۔

اہل سباکامنتشرہونا:

جب بحری تجارتوں  نے سباکومٹادیاتویمن کی حکومت مشرق سے منتقل ہوکرمغرب میں  حمیریوں  کی طرف چلی آئی ،مشرق سے مغرب کی طرف حکومت کا قبیلہ حمیرمیں  منتقل ہونے اورپھرسیلاب کے نتیجے میں  الله تعالیٰ نے انہیں  ناپیداورمنتشرکردیا ،ان کی ہلاکت کاقصہ زبان زدخلائق ہوگیا اور مجلسوں  اور محفلوں  کاموضوع گفتگو بن گیا، اہل عرب آج بھی کسی گروہ کے انتشارکاذکرکرتے ہیں  توکہتے ہیں

تَفَرَّقُوا أَیْدِیَ سَبَأٍ

وہ توایسے پراگندہ ہوگئے جیسے قوم سباپراگندہ ہوئی تھی۔ [59]

رزق ومعاش کی تلاش میں  مشرقی قبائل میں قبیلہ غسانی اردن وشام کی طرف چلاگیا،قبیلے اوس وخزرج مدینہ میں  جابسے،قبیلہ خزاعہ جدہ کے قریب تہامہ میں  جابسا ،قبیلہ ازدنے عمان میں  ڈیرے ڈال دئیے ،قبیلے لخم ،جذام اورکندہ بھی منتشرہوگئے ، اس کاذکرصرف افسانوں  میں  ہی رہ گیااورانہیں  زمینوں  پر جس پرکبھی بڑے بڑے ہرے بھرے شاداب باغات تھے رب نے جھاڑ جھنکار پیدا کر دیئے جن پراول توکوئی پھل نہیں  لگتا اور اگر لگتابھی ہے توسخت کڑوا،کسیلااور بدمزہ،البتہ کچھ بیری کے درخت بھی تھے جن میں  کانٹے زیادہ اوربیرکم،ابراہہ کے زمانے تک اس بندکی مسلسل مرمت ہوتی رہی مگرسیلاب کی وجہ سے جوآبادی منتشرہوئی تھی وہ یکجانہ ہوسکی،اورسیلاب کی وجہ سے زراعت کاجونظام درہم برہم ہوچکاتھا دوبارہ بحال نہ ہوسکااس طرح قوم سباکانام دنیامیں  باقی نہ رہا بیشک کافروں ،مشرکوں  اور نافرمانوں  پررب کاعذاب بڑاہی سخت ہوتا ہے ، اس قصہ میں  ہر صابر و شاکر انسان کے لئے بڑی ہی نشانیاں  ہیں  ۔شیطان مردودنے رب کی بارگاہ میں  دعویٰ کیاتھا

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۸۲ۙاِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۝۸۳ [60]

ترجمہ:اس نے کہاتیری عزت کی قسم!میں  اب سب لوگوں  کوبہکا کر رہوں  گابجزتیرے ان بندوں  کے جنہیں  تونے خالص کرلیاہے ۔

 قَالَ اَرَءَیْتَكَ ہٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ۝۰ۡلَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا۝۶۲ [61]

ترجمہ:پھر وہ بولادیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں  اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں  ، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں  گے۔

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [62]

ترجمہ:بولا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں  مبتلا کیا ہے میں  بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں  کی گھات میں  لگا رہوں  گا،آگے اور پیچھے، دائیں  اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں  گا اور تو ان میں  سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

اورشیطان نے اپناگمان سچا کردکھایا،اہل سباکے چند مومن لوگوں  کے علاوہ سب ابلیس کے مکروفریب میں  پھنس گئے اورطاغوت کی پرستش کرنے لگے ، اسے اہل سبا پرکوئی تسلط اورغلبہ حاصل نہ تھاکہ وہ زبردستی انہیں  توحیدکی راہ سے بھٹکاکراپنے پیچھے لگالے ،جیسے فرمایا

وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ۝۰ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ اِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۲ [63]

ترجمہ:اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں  نے جتنے وعدے کیے ان میں  سے کوئی بھی پورا نہ کیا ، میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں  نے اس کے سوا کچھ نہیں  کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں  دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبّیک کہااب مجھے ملامت نہ کرواپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں  نہ میں  تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں  اور نہ تم میری، اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں  شریک بنا رکھا تھا میں  اس سے بری الذّمہ ہوں ، ایسے ظالموں  کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے۔

مگریہ اللہ کی حکمت ہے جوشیطان کے تسلط اوربنی آدم کوگمراہ کرنے میں  اس کی فریب کاری کاتقاضاکرتی ہے تاکہ آخرت کے ماننے والوں  اوراس کے بارے میں  شک وشبہ رکھنے والوں  میں  فرق ظاہرہوجائے،اورتیرارب ہرچیزپرنگران ہےاوروہ بندوں  کوان کے اعمال کی پوری جزادے گا۔

 قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۖ لَا یَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِیهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِیرٍ ‎﴿٢٢﴾‏ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیرُ ‎﴿٢٣﴾ (سبا)
کہہ دیجئے ! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں  گمان ہے (سب) کو پکار لو، نہ ان میں  سے کسی کو آسمانوں  اور زمینوں  میں  سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں  کوئی حصہ نہ ان میں  سے کوئی اللہ کا مددگار ہے، شفاعت (شفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں  دیتی بجز ان کے جن کے لیے اجازت ہوجائے، یہاں  تک کہ جب ان کے دلوں  سے گھبراہٹدور کردی جاتی ہےتو پوچھتے ہیں  تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ؟ جواب دیتے ہیں  کہ حق فرمایااور وہ بلند وبالا اور بہت بڑا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خودساختہ معبودوں  کے عجزاوران کی عبادت کابطلان واضح کرتے ہوئے فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جولوگ اللہ کی مخلوق کواللہ کاشریک ٹھہراتے ہیں ،ان سے کہواللہ کوچھوڑکرجن کوتم معبودگمان کرتے ہواگرتمہاراپکارناکوئی فائدہ پہنچاسکتاہے توانہیں پکاردیکھو،ان کی بے بسی اورتمہاری پکارکاجواب نہ دے سکنے پرقدرت کے اسباب ہرلحاظ سے بہت زیادہ اورواضح ہیں ،ان میں  سے کسی کوبھی آسمانوں اورزمین میں  ادنیٰ سی چیزکااختیارنہیں  ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۝۱۳ۭ [64]

ترجمہ: اور جن لوگوں  کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔

نہ توانہیں  خیر پرکوئی اختیارہے نہ شرپر، وہ فائدہ پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں  اور نہ ہی نقصان پہنچانے پر،تمہارے معبودان باطلہ خواہ وہ قلیل ہوں  یاکثیر آسمان وزمین کی ملکیت میں  بھی اشتراک نہیں  رکھتے ہیں  اورنہ ہی انہیں  اس پرتصرف حاصل ہے ، ان میں  سے کوئی آسمان وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے کی تخلیق میں  اورکائنات کانظام چلانے میں  بھی اللہ کاکوئی معاون اوروزیرنہیں  جو اقتدار اور تدبیر مملکت میں  اس کی مددکرے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی بلاشرکت غیرے تمام اختیارات کامالک ہے اورکسی کے تعاون کے بغیرہی کائنات کانظام چلارہاہے (باقی رہی شفاعت تو) اگرتم اس غلط فہمی میں  مبتلاہو کہ یہ روزقیامت ہمارے سفارشی ہوں  گے توتمہیں  معلوم ہوناچاہیے کہ اس عظیم الشان کائنات میں  کوئی چھوٹی بڑی ایسی ہستی موجودنہیں  جو ازخودآگے بڑھ کرکسی کے حق میں  سفارش کرسکے جب تک کہ اللہ اس شخص کو سفارش کی اجازت نہ دے دے،جیسے فرمایا

 ۔۔۔مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِهٖ ۔۔۔ۭ ۝۲۵۵ [65]

ترجمہ:کون ہے جواس کی جناب میں  اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرسکے؟۔

۔۔۔وَلَا یَشْفَعُوْنَ۝۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى۔۔۔ ۝۲۸ [66]

ترجمہ:وہ کسی کی سفارش نہیں  کرتے بجزاس کے جس کے حق میں  سفارش سننے پراللہ راضی ہو۔

وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَـیْــــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللہُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَرْضٰى۝۲۶ [67]

ترجمہ:آسمانوں  میں  کتنے ہی فرشتے موجود ہیں  ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں  آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں  اس کی اجازت نہ دے جس کے لیے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہرطرح کے شرک کی جڑکاٹ کر مشرکین کی تمام امیدوں  پرپانی پھیردیا ،روایت ہے کہ روزقیامت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام محمودمیں شفاعت کے لئے تشریف لے جائیں  گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اورمخلوق کے فیصلے فرمائے،اس وقت کی نسبت

عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فَیَأْتُونِی، فَأَنْطَلِقُ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّی، فَیُؤْذَنُ لِی عَلَیْهِ، فَإِذَا رَأَیْتُ رَبِّی وَقَعْتُ لَهُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِی مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ یَدَعَنِی، ثُمَّ یُقَالُ لِی:ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ یُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّی بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِیهَا، ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِی حَدًّا، فَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَ، ثُمَّ أَرْجِعُ، فَإِذَا رَأَیْتُ رَبِّی وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِی مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ یَدَعَنِی، ثُمَّ یُقَالُ:ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ یُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُ رَبِّی بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِیهَا رَبِّی، ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِی حَدًّا،

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخریہ سب لوگ جمع ہوکرمیرے پاس آئیں  گے،میں  چلوں  گااوراپنے پروردگارکی بارگاہ میں  حاضرہونے کی اجازت مانگوں  گا،مجھے اجازت ملے گی،میں  اپنے پروردگار کو دیکھتے ہی سجدے میں  گرپڑوں  گااورجب تک اس کومنظورہے وہ مجھ کوسجدے ہی میں  پڑارہنے دے گا،اس کے بعدحکم ہوگامحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اپناسراٹھاؤ اورعرض کرو تمہاری عرض سنی جائے گی اور تمہاری درخواست منظورہوگی اورسفارش کروتمہاری سفارش مقبول ہوگی،اس وقت میں  اپنے مالک کی ایسی ایسی تعریفیں  کروں  گاجووہ مجھ کوسکھاچکاہے(یاسکھلائے گا)پھرلوگوں  کی سفارش شروع کردوں  گا،سفارش کی ایک حدمقررکردی جائے گی۔ [68]

روزقیامت جب انبیاء ، ملائکہ یاصالحین میں  سے کوئی سرجھکاکراللہ تعالیٰ سے کسی کے حق میں  سفارش کی اجازت طلب کرے گا اور ڈرتے وکانپتے ہوئے جواب کا منتظرہوگا، جب بارگاہ الٰہی سے اطمینان بخش جواب آئے گاجومشفوع کے چہرے سے ظاہرہوجائے گا تو جس کی شفاعت کی اجازت طلب کی گئی تھی آگے بڑھ کرشفاعت کرنے والے سے پوچھے گارب العزت نے کیاجواب ارشادفرمایاہے ؟شافع جواب دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے شفاعت کی اجازت فرمادی ہے ۔ اس آیت کی ایک تفسیریوں  ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں  کسی امرکافیصلہ کرتاہے توآسمان پر موجود فرشتے خوف وہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں  اوران پربے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے پھر جب ان کی گھبراہٹ دورہوتی ہے توپوچھتے ہیں  توعرش دارفرشتے دوسرے فرشتوں  کوبتلاتے ہیں  کہ حق فرمایا ہے ،پھروہ اپنے سے نیچے والے فرشتوں  کوبتلاتے ہیں  اوراس طرح خبرپہلے آسمان کے فرشتوں  تک پہنچ جاتی ہے۔ [69]

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: إِنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ المَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا لِلَّذِی قَالَ: الحَقَّ، وَهُوَ العَلِیُّ الكَبِیرُ، فَیَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِكَفِّهِ فَحَرَفَهَا، وَبَدَّدَ بَیْنَ أَصَابِعِهِ فَیَسْمَعُ الكَلِمَةَ فَیُلْقِیهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، ثُمَّ یُلْقِیهَا الآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى یُلْقِیَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ یُلْقِیَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ یُدْرِكَهُ، فَیَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَیُقَالُ: أَلَیْسَ قَدْ قَالَ لَنَا یَوْمَ كَذَا وَكَذَا: كَذَا وَكَذَا، فَیُصَدَّقُ بِتِلْكَ الكَلِمَةِ الَّتِی سَمِعَ مِنَ السَّمَاءِ

اس آیت کی ایک تفسیرمیں  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی چیز کے بارے میں  فیصلہ فرماتا ہے توفرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پرجھکالیتے ہیں  اوررب کاکلام ایساواقع ہوتاہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھرپربجائی جاتی ہو،جب ہیبت کم ہوجاتی ہے توپوچھتے ہیں  کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا؟جواب ملتاہے کہ جوفرمایاحق ہے اوروہ علی کبیرہے، بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جوجنات فرشتوں  کی باتیں  سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں  اورجوتہہ بہ تہہ ایک دوسروں  کے اوپرہیں  وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں  ،اوپروالانیچے والے کو،وہ اپنے سے نیچے والے کوسنادیتاہے اوروہ جادوگریاکاہنوں  کے کانوں  تک پہنچادیتے ہیں  ، ان کے پیچھے فورا ًان کے جلانے کوآگ کاشعلہ لپکتاہے لیکن کبھی کبھی تووہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کوپہنچادیتاہے اورکبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلادیاجاتاہے ، کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سوجھوٹ ملاکرلوگوں  میں  پھیلاتاہے،جوایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مریدبن جاتے ہیں  کہ دیکھویہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی۔ [70]

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُمْ بَیْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَیْلَةً مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رُمِیَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، إِذَا رُمِیَ بِمِثْلِ هَذَا؟قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، كُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّیْلَةَ رَجُلٌ عَظِیمٌ، وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِیمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِنَّهَا لَا یُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انصارمیں  سے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مجھے بتلایا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں  تشریف فرماتھے کہ آسمان سے ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردست روشنی ہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاجاہلیت میں  تمہاراخیال ان ستاروں  کے ٹوٹنے کی نسبت کیاتھا؟انہوں  نے عرض کیااللہ اوراس کارسول زیادہ جانتاہےہم اس موقعہ پرسمجھتے تھے کہ یاتوکوئی بہت بڑاآدمی پیداہواہے یامرگیاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتارہ کسی کے مرنے یاپیداہونے سے نہیں  ٹوٹتالیکن ہمارامالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتاہے توحاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،

 ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ، حَتَّى یَبْلُغَ التَّسْبِیحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْیَا ثُمَّ قَالَ:الَّذِینَ یَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَیُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ: قَالَ فَیَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا، حَتَّى یَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْیَا، فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَیَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِیَائِهِمْ، وَیُرْمَوْنَ بِهِ، فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ یَقْرِفُونَ فِیهِ وَیَزِیدُونَ

پھران کی آوازسن کران کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں ،یہاں  تک تسبیح کی نوبت آسمان دنیاتک پہنچتی ہے،پھرجولوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں  سے قریب ہیں  وہ ان سے دریافت کرتے ہیں  کہ تمہارے مالک نے کیاحکم دیاہے؟وہ انہیں  بتاتے ہیں ،اس طرح آسمان والے ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں  یہاں  تک کہ وہ خبر آسمان دنیاتک پہنچتی ہے،ان سے وہ خبر جن اڑالیتےاوراپنے دوستوں  کو آکر سناتے ہیں  ، فرشتے جب ان جنوں  کودیکھتے ہیں  توان تاروں  سے مارتے ہیں ،پھر جو خبر جن لاتے ہیں  اگراتنی ہی کہیں  تو سچ ہے لیکن وہ اس کے ساتھ بہت جھوٹ ملاکرلوگوں  میں  شہرت دیتے ہیں ۔ [71] اوروہ بزرگ وبرترہے۔

قُلْ مَن یَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنَّا أَوْ إِیَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٢٤﴾‏ قُل لَّا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیمُ ‎﴿٢٦﴾‏ قُلْ أَرُونِیَ الَّذِینَ أَلْحَقْتُم بِهِ شُرَكَاءَ ۖ كَلَّا ۚ بَلْ هُوَ اللَّهُ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٢٧﴾‏ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٢٨﴾ (سبا)
’’پوچھئے کہ تمہیں  آسمانوں  اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے ؟ (خود) جواب دیجئے کہ اللہ تعالیٰ، (سنو) ہم یا تم یا تو یقیناً ہدایت پر ہیں  یا کھلی گمراہی میں  ہیں  ؟ کہہ دیجئے ہمارے کئے ہوئے گناہوں  کی بابت تم سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا نہ تمہارے اعمال کی باز پرس ہم سے کی جائے گی، انہیں  خبر دے دیجئے کہ سب کو ہمارا رب جمع کر کے پھر ہم میں  سے سچے فیصلے کر دے گا، وہ فیصلے چکانے والا ہے اوردانا، کہہ دیجئے اچھا مجھے بھی تو انھیں  دکھا دو جنہیں  تم اللہ کا شریک ٹھہرا کر اس کے ساتھ ملا رہے ہو، ایسا ہرگز نہیں  بلکہ وہی اللہ ہے غالب باحکمت ہم نے آپ کو تمام لوگوں  کے لئے خوشخبریاں  سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہ ہاں  مگر (یہ صحیح ہے)کہ لوگوں  کی اکثریت بےعلم ہے۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے پوچھوتمہیں آسمانوں  اورزمین سے رزق کون مہیا کرتاہے؟مشرکین مکہ اللہ کی ہستی سے منکرنہ تھے بلکہ تسلیم کرتے تھے کہ اللہ ہی آسمان سے بارش برساتااور مردہ زمین کوزندہ کرکے اس میں  ہرطرح کی نباتات اورجمادات پیداکرتاہے،مگرچونکہ انہوں  نے دوسروں  کواللہ کے اختیارات میں  شریک ٹھہرارکھاتھااس لئے اس سوال کے جواب میں  نہ ہاں  کہہ سکتے تھے اورنہ ہی اس کاانکارہی کرسکتے تھے اس لئے اپنے عقیدے کے خلاف کچھ کہنے سے خاموش رہے ،فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگروہ اس حقیقت کااقرارنہ کریں  تو آپ خودہی انہیں  جواب دے دیں کہ اللہ ہی جوتمہاراخالق ومالک ہے وہی تمہیں  اورتمام مخلوقات کو آسمانوں  اورزمین سے ہرطرح کا روزی دینے والاہے ،پھرتم کیوں  اس کے ساتھ ان ہستیوں  کی عبادت کرتے ہوجوتمہیں  رزق مہیاکرسکتی ہیں  اورنہ کوئی نفع پہنچاسکتی ہیں ،بلکہ اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع ونقصان ، موت وحیات اورمرنے کے بعد دوبارہ زندگی کاکوئی اختیاررکھتے ہیں  نہ اپنے عبادت گزاروں  کے لئے،اور ان سے کہوہمارے اورتمہارے درمیان فرق تو ظاہر ہوگیاہم تواللہ وحدہ لاشریک کواپنارب مانتے ہیں  اوراسی کی عبادت کرتے ہیں  جوہماراخالق بھی ہے اوررازق بھی ،اورتم لوگوں  نے ایسوں  کواپنامعبودبنارکھاہے جنہوں  نے کچھ بھی تخلیق نہیں  کیا اورتمہیں  رزق دینے پرقدرت نہیں  رکھتے اورروزقیامت ایک دوسرے کاانکارکریں  گے اورایک دوسرے پرلعنت بھیجیں  گے ،جیسے فرمایا

وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ۝۶ [72]

ترجمہ:اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں  گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں  کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکرہوں  گے۔

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷ رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [73]

ترجمہ:جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں  گے اس وقت وہ کہیں  گے کہ کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی،اور کہیں  گے اے رب ہمارے! ہم نے اپنے سرداروں  اور اپنے بڑوں  کی اطاعت کی اور انہوں  نے ہمیں  راہ راست سے بےراہ کر دیااے رب !ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔

اب لامحالا ہم دونوں  بیک وقت راہ راست پرنہیں  ہوسکتے بلکہ ہم میں  سے ایک صراط مستقیم پرہے اورایک نے گمراہی کی راہ اختیارکی ہوئی ہے ،

عَنْ قَتَادَةَ، {قُلْ مَنْ یَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللهُ وَإِنَّا أَوْ إِیَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ} قَالَ:قَدْ قَالَ ذَلِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ لِلْمُشْرِكِینَ، وَاللهُ مَا أَنَا وَأَنْتُمْ عَلَى أَمْرٍ وَاحِدٍ، إِنَّ أَحَدَ الْفَرِیقَیْنِ لَمُهْتَدٍ

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’پوچھئے کہ تمہیں  آسمانوں  اورزمین سے رزق کون پہنچاتاہے ؟(خود)جواب دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ،(سنو)ہم یاتم یاتویقیناہدایت پرہیں  یاکھلی گمراہی میں  ہیں ؟۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں  اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات مشرکین سے کہی تھی کہ اللہ کی قسم !ہم اورتم ایک ہی بات پرنہیں  ہیں  بلکہ ہم دونوں  میں  سے ایک فریق ہی ہدایت پر ہو سکتا ہے ۔ [74]

ان سے کہواللہ کی بارگاہ میں ہرشخص اپنے اعمال کاخود جوابدہ ہوگا،اگرہم گمراہ ہیں  تو اپنی گمراہی وجرائم کاخمیازہ ہم ہی بھگتیں  گے تمہاری اس پرکوئی پکڑنہ ہوگی ،اورجو اعمال بد تم کررہے ہواس کے بارے میں  ہم سے کوئی جواب طلبی نہیں  کی جائے گی ، جیسے فرمایا

وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ۝۰ۚ اَنْتُمْ بَرِیْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۴۱ [75]

ترجمہ:اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں  تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں  کرتا ہوں  اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں  بری ہوں ۔

۔۔۔اَللہُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۭ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۭ لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ۝۰ۭ اَللہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا۝۰ۚ وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ۝۱۵ۭ [76]

ترجمہ: اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں  اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ، اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے ۔

اوراعمال کے فیصلے کے لئے آخرت کاگھرہے اس لئے کسی بھی عقیدہ پرجمنے سے پہلے خوب غوروفکرکرلو بعد میں  پچھتانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ، اوران کوواضح طورپرکہہ دوکہ ایک وقت مقررہ پراللہ تعالیٰ تمام انسانوں  کوان کی قبروں  سے دنیاوی جسم وجاں  اورشکل وصورت کے ساتھ زندہ کرکے میدان محشرمیں جمع کرے گا ،پھرترازوعدل قائم کرکے حق وانصاف کے تمام تقاضوں  کوپوراکرکے فیصلہ چکا دے گا،نیکوکاروں  کوان کے اعمال کے مطابق لازوال نعمتوں  بھری جنتوں میں  اور کفارو مشرکین اوربدکاروں  کودہکتی جہنم میں  داخل فرمائے گا،اس دن تمہیں  ہماری حقانیت وصداقت معلوم ہوجائے گی،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ۝۱۴فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمْ فِیْ رَوْضَةٍ یُّحْبَرُوْنَ۝۱۵ [77]

ترجمہ:جس روز ساعت برپاہوگی،اس دن(سب انسان ) الگ الگ گروہوں  میں  بٹ جائیں  گے ،جو لوگ ایمان لائے اورجنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  وہ ایک باغ میں  شاداں  وفرحاں  رکھے جائیں  گے، اورجنہوں  نے کفرکیاہے اور ہماری آیات کواورآخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے وہ عذاب میں  حاضرکیے جائیں  گے۔

وہ ایسازبردست حاکم ہے جوسب کچھ جانتاہے،ان سے کہو!ذرامجھے دکھاو تو سہی وہ کون سی زورآور ہستیاں  ہیں  جو تمہارے زعم باطل کے مطابق اللہ کی عدالت میں  تمہاری حمایتی بن سکتی اوراللہ کے گرفت سے تمہیں  نجات دلاسکتی ہیں  ،جیسے فرمایا

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللهِ۝۰ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ۝۱۸ [78]

ترجمہ:یہ لوگ اللہ کے سواان کی پرستش کررہے ہیں  جوان کونہ نقصان پہنچاسکتے ہیں  نہ نفع اورکہتے یہ ہیں  کہ یہ اللہ کے ہاں  ہمارے سفارشی ہیں ،اے نبی!ان سے کہوکیاتم اللہ کواس بات کی خبردیتے ہوجسے وہ نہ آسمانوں  میں  جانتاہے نہ زمین میں ؟پاک ہے وہ اوربالاوبرترہے اس شرک سے جویہ لوگ کرتے ہیں ۔

ایک مقام پر یوں  فرمایا

۔۔۔ وَمَا یَتَّبِـــعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۝۶۶ [79]

ترجمہ:اور جو لوگ اللہ کے سواکچھ(اپنے خودساختہ) شریکوں  کو پکار رہے ہیں  وہ نرے وہم وگمان کے پیروہیں  اورمحض قیاس آرائیاں  کرتے ہیں ۔

ہرگز نہیں ،میرے رب کاکوئی نظیرنہیں  نہ ہم سر،وہ عدیم المثیل ہے ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔لَیْسَ كَمِثْلِہٖ شَیْءٌ۔۔۔۝۰۝۱۱ [80]

ترجمہ:کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں  ۔

اس کے سواکوئی الوہیت اورعبادت کامستحق نہیں اور وہ ہرچیزپرغالب ہے اوراس کے ہرکام اورقول میں  حکمت ہے۔

وَیَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ قُل لَّكُم مِّیعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ (سبا)
پوچھتے ہیں  کہ وہ وعدہ ہے کب ؟سچے ہو تو بتادو،جواب دیجئے کہ وعدے کا دن ٹھیک معین ہے جس سے ایک ساعت نہ تم پیچھے ہٹ سکتے ہو نہ آگے بڑھ سکتے ہو۔

تمام نسل انسانیت کے لئے رسول :

اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ کوپوری نسل انسانیت کاہادی اوررہنمابناکربھیجاہے،اوراس کتاب کوبھی یہ اعزازحاصل ہے کہ یہ پوری انسانیت کے لئے نازل ہوئی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت جیسے اہم مضمون کوقرآن مجیدنے متعددمقامات پربیان کیاہے۔

 قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا۔۔۔۝۱۵۸ [81]

ترجمہ: اے محمد!کہوکہ اے انسانو!میں  تم سب کی طرف اس اللہ کاپیغمبرہوں  ۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَۨا۝۱ۙ [82]

ترجمہ: نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پرنازل کیاہے تاکہ سارے جہان والوں  کے لئے خبردارکردینے والاہو ۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۝۱۰۷ [83]

ترجمہ:اے نبی!ہم نے تم کودنیاوالوں کے لئے رحمت بناکربھیجاہے۔

۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۔۔۔۝۰۝۱۹ [84]

ترجمہ:اورمیری طرف یہ قرآن بذریعہ وحی بھیجا گیاہے تاکہ تمہیں  اورجس جس کویہ پہنچے سب کو متنبہ کردوں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کومختلف طریقوں  سے بیان فرمایا۔

جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی المَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے پانچ چیزیں  ایسی دی گئی ہیں  جومجھ سے پہلے کسی نبی کونہیں  دی گئیں ، مہینے کی مسافت پردشمن کے دل میں  میری دھاک بٹھانے سے میری مددفرمائی گئی ہے،اورتمام روئے زمین میرے لئے مسجداورپاک ہے، جہاں  بھی نمازکاوقت آ جائے میری امت وہاں  نمازادا کر دے،اورمال غنیمت میرے لئے حلال کردیاگیاہے جومجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں  تھا،اورمجھے شفاعت کاحق دیا گیاہے،پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجاجاتا تھا مجھے کائنات کے تمام انسانوں  کے لئے نبی بناکربھیجاگیاہے۔ [85]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ قِیلَ: مَا هُنَّ أَیْ رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِی الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں  میں  فضیلت دی گئی ہےکسی نے پوچھا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا چیزیں  ہیں ؟ فرمایا مجھے جوامع الکلم دیئے گئے ہیں  اور رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اورمیرے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا ہے اور میرے لئے زمین کو پاکیزگی بخش اور مسجد بنا دیا گیا ہے،اورمیں  تمام مخلوقات کی طرف(خواہ جن ہوں  یاآدمی،عرب کے ہوں  یاغیرعرب)بھیجاگیاہوں  اورنبیوں  کاسلسلہ مجھ پر ختم کردیاگیاہے۔ [86]

عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَیْنِ ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیری بعثت اورقیامت اس طرح ہیں ،یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت والی انگلی اوردرمیان والی انگلی ملائی(یعنی میرے اورقیامت کے درمیان کوئی نبوت نہیں ،میں  قیامت تک کے لئے نبی ہوں )۔ [87]

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ} قَالَ:أَرْسَلَ اللهُ مُحَمَّدًا إِلَى الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ، فَأَكْرَمَهُمْ عَلَى اللهِ أَطْوَعُهُمْ لَهُ

قتادہ رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ ’’ اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں  کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘کے بارے میں  کہاہے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام عرب وعجم کی طرف بھیجاہے، آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم بھی ہیں  اوراللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والے بھی۔[88]

مگراکثرلوگ آپ کی قدر ومنزلت کونہیں  سمجھتے،جیسے فرمایا

وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ۝۱۰۳ [89]

ترجمہ:مگرتم خواہ کتناہی چاہوان میں  سے اکثرلوگ مان کردینے والے نہیں  ہیں  ۔

اہل ایمان توقیامت اوراس کی ہولناکیوں  کوحق وسچ جان کرکپکپاتے اوراللہ تعالیٰ سے بخشش ومغفرت کی دعائیں  کرتے رہتے تھے مگر آخرت کے منکرین قیامت کوناممکن سمجھتے ہوئے بطور استہزا کے پوچھتے تھے کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگرتم اپنے دعویٰ میں  سچے ہوتو بتلاؤ قیامت کب قائم ہوگی ،جیسے فرمایا

یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِہَا۝۰ۚ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْہَا۝۰ۙ وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہَا الْحَقُّ۔۔۔۝۱۸ [90]

ترجمہ:جو لوگ اس کے آنے پر ایمان نہیں  رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں  مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں  وہ اس سے ڈرتے ہیں  اور جانتے ہیں  کہ یقینا ًوہ آنے والی ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاان سے کہو قیامت تمہارے تقاضوں  سے برپانہیں  ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت قائم کرنے کاایک وقت مقررکررکھاہے جس کاعلم صرف اسی کوہے ،تاہم جب وہ وقت موعودآجائے گا توپھر ایک ساعت آگے ہو گی نہ پیچھے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ اِنَّ اَجَلَ اللهِ اِذَا جَاۗءَ لَا یُؤَخَّرُۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۴ [91]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کامقررکیاہواوقت جب آجاتا ہے تو پھرٹالانہیں  جاتا کاش تمہیں  اس کاعلم ہو ۔

 وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ۝۱۰۴ۭ [92]

ترجمہ:ہم اس کے لانے میں  کچھ بہت زیادہ تاخیرنہیں  کررہے ہیں  بس ایک گنی چنی مدت اس کے لئے مقررہے۔

 وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لَن نُّؤْمِنَ بِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ یَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُولُ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِینَ ‎﴿٣١﴾‏ قَالَ الَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَىٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَكُم ۖ بَلْ كُنتُم مُّجْرِمِینَ ‎﴿٣٢﴾‏ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا ۚ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِی أَعْنَاقِ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ هَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٣٣﴾ (سبا)
اور کافروں  نے کہ ہم ہرگز نہ تو اس قرآن کو مانیں نہ اس سے پہلے کی کتابوں  کو ! اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ظالموں  کو اس وقت دیکھتا جبکہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام لگا رہے ہوں  گے، کمزور لوگ بڑے لوگوں  سے کہیں  گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومنوں  میں  سے ہوتے، یہ بڑے لوگ ان کمزوروں کو جواب دیں  گےکہ یا تمہارے پاس ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں  اس سے روکا تھا؟ (نہیں ) بلکہ تم (خود) ہی مجرم تھے(اس کے جواب میں ) یہ کمزور لوگ ان متکبروں  سے کہیں  گے، (نہیں  نہیں ) بلکہ دن رات مکروفریب سے ہمیں  اللہ کے ساتھ کفرکرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا ہمار ا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا، اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل میں  پشیمان ہورہے ہوں  گے، اور کافروں  کی گردنوں  میں  ہم طوق ڈال دیں  گے انھیں  صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔

 گمراہ پیشواؤ ں  اورپیروکاروں  کاایک دوسرے پرالزام تراشی

قرآن مجیدکے تمام تردلائل سننے کے باوجودمنکرین آخرت اپنے عنادوطغیان کی بناپرکہتے ہیں  کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اوراس قرآن پرہرگزایمان نہیں لائیں  گے اورنہ ہی اس سے پہلے نازل شدہ کتابوں  تورات،انجیل ،زبور،صحف ابراہیم وغیرہ پرایمان لائیں  گے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں  سرزنش کرتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش آپ اس وقت ان مجرمین کاحال دیکھیں جب یہ کفروشرک میں  ایک دوسرے کے مددگار اور اس ناطے سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہیں  اورکسی ناصح کی بات پرکان دھرنے کوتیارنہیں  ہیں  ،روزآخرت اپنے رب کی بارگاہ میں ذلت سے سرجھکائے کھڑے ہوں  گے،میدان محشر میں جہنم کواپنی پوری حشر سامانیوں  کے ساتھ اپنی آنکھوں  کے سامنے دیکھ کر اوراس کی ہولناک آوازوں  کوسن کرخوف سے ان کے چہرے سیاہ پڑچکے ہوں  گے ،جب انہیں  اپنے انجام کااندازہ ہوجائے گا تواس وقت پیشوااورکفروضلالت میں ان کے پیروکارایک دوسرے کو مورد الزام بنائیں  گے ، متبعین، قائدین کفر پرغصہ سے پلٹ پڑیں  گے اورچیخ چیخ کرکہیں  گے تم نے اپنے مکرو فریب اورلفاظی سے ہمیں  پیغمبروں  اورداعیان حق کے پیچھے چلنے سے روکے رکھاتھااگرتم ہمیں  اپنے مکروفریب میں  نہ الجھاتے اورکفر کو ہمارے سامنے مزین نہ کرتے توہم بھی ایمان لانے والوں  میں  شامل ہوتے، مگرقائدین کفر ان کے اس الزام کوردکرتے ہوئے کہیں  گےہمارے پاس تمہیں ہدایت سے روکنے کے لئے کوئی تسلط اوراختیار نہ تھا کہ ہم چندانسان تم کروڑں  انسانوں  کوزبردستی اپنی پیروی پر مجبورکردیتے ،حق کے واضح دلائل تمہارے سامنے تھے لیکن تم نے خودہی اس ہدایت پرغوروفکرنہیں  کیااوراپنی اغراض اورنفسانی خواہشات کی بناپراسے قبول کرنے سے گریزاں  رہے اوراب معصوم ہونے کا ڈھونگ رچاکر اپناقصورہمارے سرپر تھوپنے کی کوشش کررہے ہو، جب تم نے سب کچھ اپنی مرضی سے کیاتومجرم بھی تم ہی ہوہمیں  کیوں  الزام دے رہے ہو ،وہ دبے ہوئے لوگ پیشواؤ ں  سے کہیں  گے نہیں  نہیں ، تم ہمیں  برابرکاشریک کہاں  ٹھہرارہے ہو،ہم مجرم توتب ہوتے جب ہم اپنی مرضی سے پیغمبروں  کی تکذیب کرتے ،جبکہ حقیقت تویہ تھی کہ تم لوگوں نے فریب کاریوں  ، دھوکے بازیوں ،سازشوں اورجھوٹے پروپیگنڈے کاایساطلسم باندھ رکھاتھاجوہمیں  اطمینان دلاتاتھاکہ ہمارے عقائد اورافعال ٹھیک ہیں ،اورتم لوگ دن رات عقلی ڈھکوسلے سنا کر، حق میں  جرح وقدح کرکے ہمیں  سیدھی راہ سے بھٹکانے اور اللہ کے ساتھ کفرکرنے اوراس کا شریک ٹھہرانے پرآمادہ کرتے رہتے تھے ،جس سے بالآخرہم تمہارے پیچھے لگ کرایمان کی دولت سے محروم رہے ، قرآن مجیدمیں  متعدد مقامات پراس مضمون کونقل کیاہے۔

۔۔۔قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝۰ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ۝۳۹ [93]

ترجمہ: ہربعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں  کہے گااے رب!یہ لوگ تھے جنہوں  نے ہم کوگمراہ کیالہذاانہیں  آگ کادوہراعذاب دے ،جواب میں  ارشادہوگاہرایک کے لئے دوہراعذاب ہی ہے مگرتم جانتے نہیں  ہو،اورپہلاگروہ دوسرے گروہ سے کہے گا (اگر ہم قابل الزام تھے )توتم کوہم پرکون سی فضیلت حاصل تھی ،اب اپنی کمائی کے نتیجہ میں  عذاب کامزا چکھو ۔

وَبَرَزُوْا لِلهِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۭ قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللهُ لَهَدَیْنٰكُمْ۝۰ۭ سَوَاۗءٌ عَلَیْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ۝۲۱ۧ [94]

ترجمہ:اوریہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں  گے تواس وقت ان میں  سے جودنیامیں  کمزورتھے وہ ان لوگوں  سے جوبڑے بنے ہوئے تھے کہیں  گےدنیامیں  ہم تمہارے تابع تھے اب کیاتم اللہ کے عذاب سے ہم کوبچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو؟وہ جواب دیں  گےاگر اللہ نے ہمیں  نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی توہم ضرورتمہیں  دکھادیتے اب تویکساں  ہے خواہ ہم جزع و فزع کریں  یاصبربہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ۔

قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَا۝۰ۚ اَغْوَیْنٰهُمْ كَـمَا غَوَیْنَا۝۰ۚ تَبَرَّاْنَآ اِلَیْكَ۝۰ۡمَا كَانُوْٓا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ۝۶۳ [95]

ترجمہ:یہ قول جن پر چسپاں  ہو گا وہ کہیں  گےاے ہمارے رب!بے شک یہی لوگ ہیں  جن کوہم نے گمراہ کیاتھا،انہیں  ہم نے اسی طرح گمراہ کیاجیسے ہم خودگمراہ ہوئے ہم آپ کے سامنے برات کااظہار کرتے ہیں یہ ہماری توبندگی نہیں  کرتے تھے ۔

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۝۶۶وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷ رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ [96]

ترجمہ: جس روز ان کے چہرے آگ پرالٹ پلٹ کیے جائیں  گے اس وقت وہ کہیں  گے کہ کاش! ہم نے اللہ اوررسول کی اطاعت کی ہوتی،اورکہیں  گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں  اور اپنے بڑوں  کی اطاعت کی اورانہوں  نے ہمیں  راہ راست سے بے راہ کردیا،اے رب!ان کودوہراعذاب دے اوران پر سخت لعنت کر۔

وَاِذْ یَتَـحَاۗجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ۝۴۷قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُلٌّ فِیْهَآ۝۰ۙ اِنَّ اللهَ قَدْ حَكَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ۝۴۸ [97]

ترجمہ:پھرذراخیال کرواس وقت کاجب یہ لوگ دوزخ میں  ایک دوسرے سے جھگڑرہے ہوں  گے ،دنیامیں  جولوگ کمزورتھے وہ بڑے بننے والوں  سے کہیں  گے کہ ہم تمہارے تابع تھے اب کیایہاں  تم نارجہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچالوگے؟وہ بڑے بننے والے جواب دیں  گے ہم سب یہاں  ایک حال میں  ہیں اوراللہ بندوں  کے درمیان فیصلہ کرچکاہے۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ۝۲۹ [98]

ترجمہ:وہاں  یہ کافرکہیں  گے کہ اے ہمارے رب! ذرا ہمیں  دکھادے ان جنوں  اور انسانوں  کوجنہوں  نے ہمیں  گمراہ کیاتھاہم انہیں  پاؤ ں  تلے روندڈالیں  گے تاکہ وہ خوب ذلیل وخوارہوں ۔

مگریہ گفتگوانہیں  کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گی ،آخرکارجب یہ دونوں  فریق عذاب جہنم دیکھیں  گے تواس حجت کاتاروپودبکھرجائے گاجس کے ذریعے سے وہ ایک دوسرے پرحجت قائم کرتے تھے کہ وہ عذاب سے بچ جائیں اوروہ جان لیں  گے کہ وہ ظالم ہیں  اورعذاب کے مستحق ہیں  ،جس پروہ اپنے دلوں  میں  پشیمان ہوں  گے مگرظاہرنہیں  کریں  گے مگرجب داخل جہنم ہوں  گے توبلندآوازمیں اپنی ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہیں  گے۔

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِیْ۔۔۔۝۲۹ [99]

ترجمہ:ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گااورکہے گاکاش!میں  نے رسول کاساتھ دیاہوتا،ہائے میری کم بختی کاش! میں  نے فلاں  شخص کودوست نہ بنایا ہوتا اس کے بہکائے میں  آکرمیں  نے وہ نصیحت نہ مانی جومیرے پاس آئی تھی۔

ایک مقام پران کی حسرت یوں  بیان کی گئی ہے۔

وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۰فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ۝۰ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۱۱ [100]

ترجمہ:اوروہ کہیں  گے،کاش ہم سنتے یاسمجھتے توآج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں  میں  شامل نہ ہوتے، اس طرح وہ اپنے قصورکا خوداعتراف کرلیں  گے،لعنت ہے ان دوزخیوں  پر۔

اورہم ان قائدین کفراوران کے متبعین کے پیروں  میں  بیڑیاں ، ہاتھوں  میں  ہتھکڑیاں  اورگردن میں  طوق ڈال کر جہنم میں  دھکیل دیں  گے ،جیسے فرمایا

اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ۝۰ۭ یُسْحَبُوْنَ۝۷۱ۙفِی الْحَمِیْمِ۝۰ۥۙ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ۝۷۲ۚثُمَّ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ۝۷۳ۙ [101]

ترجمہ:عنقریب انہیں  معلوم ہوجائے گاجب طوق ان کی گردنوں  میں  ہوں  گے اور زنجیریں  جن سے پکڑکروہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں  گے اورپھردوزخ کی آگ میں  جھونک دیے جائیں  گے۔

اللهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ، اللهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ

اے ہمارے پروردگار! توہمیں  سلامت رکھنا ،اے ہمارے پروردگار توہمیں  سلامت رکھنا۔

کیاان دونوں  فریقوں  کواس کے سوا اورکوئی بدلہ دیاجاسکتاہے کہ جس طرح وہ کفر،فسق اور نافرمانی کا ارتکاب کرکے رب کے غیض وغضب کودعوت دیتے تھے اب ویسی ہی جزاوہ پائیں ؟ ایک اورمقام پرفرمایا

لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝۳۸ [102]

ترجمہ:ہرایک کو دوگنا عذاب ہے مگرتم جانتے نہیں  ہو۔

 وَمَا أَرْسَلْنَا فِی قَرْیَةٍ مِّن نَّذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ ‎﴿٣٤﴾‏ وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ ‎﴿٣٥﴾‏ قُلْ إِنَّ رَبِّی یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاءُ وَیَقْدِرُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِی تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِی الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ ‎﴿٣٧﴾‏ وَالَّذِینَ یَسْعَوْنَ فِی آیَاتِنَا مُعَاجِزِینَ أُولَٰئِكَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ‎﴿٣٨﴾‏(سبا)
اور ہم نے جس بستی میں  جو بھی آگاہ کرنے والا بھیجا وہاں  کے خوشحال لوگوں  نے یہی کیا کہ جس چیز کے ساتھ تم بھیجے گئے ہوہم اس کے ساتھ جو کفر کرنے والے ہیں ، اور کہا ہم مال اولاد میں  بہت بڑھے ہوئے ہیں  یہ نہیں  ہوسکتا کہ ہم عذاب دیئے جائیں ، کہہ دیجئے کہ میرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ ردیتا ہے اورتنگ بھی کردیتاہے لیکن اکثر لوگ نہیں  جانتے، اور تمہارا مال اور اولاد ایسے نہیں  کہ تمہیں  ہمارے پاس (مرتبوں  سے)قریب کردیں ، ہاں  جو ایمان لائیں  اور نیک عمل کریں  ان کے لیے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہےاور وہ نڈر و بےخوف ہو کر بالا خانوں  میں  رہیں  گے، اور جو لوگ ہماری آیتوں  کے مقابلے کی تگ و دو میں  لگے رہتے ہیں  یہی ہیں  جو عذاب میں  پکڑ کر حاضر رکھے جائیں  گے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تسلیاں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ اگرسرداران مکہ مکرمہ واضح دلائل وبراہین کے باوجود آپ پرایمان نہیں  لارہے اورآپ کے مدمقابل کھڑے ہوکرآپ کو ایذائیں  پہنچارہے ہیں  تویہ کوئی انوکھی بات نہیں  ہے ،آپ سے پہلے ہم نے جب بھی کسی بستی میں  ان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے رسول مبعوث کیا اس بستی کے خوشحال لوگوں  نے پیغمبروں  کی تکذیب ہی کی ہے،اورہرپیغمبرپرایمان لانے والے پہلے پہل معاشرے کے غریب اورنادارقسم کے لوگ ہی ہوتے تھے ، جیسے نوح علیہ السلام کی قوم نے اپنے پیغمبر سے کہاتھا

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝۱۱۱ۭ [103]

ترجمہ:انہوں  نے جواب دیا ہم تجھے مان لیں  حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں  نے اختیار کی ہے؟۔

۔۔۔ وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِیَ الرَّاْیِ۔۔۔ ۝۲۷ [104]

ترجمہ:اورہم دیکھ رہے ہیں  کہ ہماری قوم میں  بس ان لوگوں  نے جوہمارے ہاں  اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیارکرلی ہے ۔

صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبرلوگوں  نے ضعیفوں  سے کہا

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ۝۰ۭ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۷۵ [105]

ترجمہ: اس کی قوم کے سرداروں  نے جوبڑے بنے ہوئے تھے کمزورطبقہ کے ان لوگوں  سے جو ایمان لے آئے تھے کہاکیاتم واقعی یہ جانتے ہوکہ صالح علیہ السلام اپنے رب کا پیغمبر ہے؟ انہوں  نے جواب دیابے شک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجاگیاہے اسے ہم مانتے ہیں ۔

وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا۔۔۔ ۝۵۳ [106]

ترجمہ:دراصل اس طرح ان لوگوں  میں  سے بعض کوبعض کے ذریعہ سے آزمائش میں  ڈالاہے تاکہ وہ انہیں  دیکھ کرکہیں کیایہ ہیں  وہ لوگ جن پرہمارے درمیان اللہ کافضل وکرم ہواہے؟۔

وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ۝۰ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝۲۳ [107]

ترجمہ:تم سے پہلے جس بستی میں  بھی ہم نے کوئی نذیربھیجااس کے کھاتے پیتے لوگوں  نے یہی کہاکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پرپایاہے اورہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کررہے ہیں ۔

وہ دنیاوی مال واسباب کی فراوانی کورضائے الٰہی کامظہرسمجھتے رہے،ان کا خیال تھاکہ اگرقیامت برپاہوئی بھی تو ہمیں  عذاب نہیں  دیاجائے گابلکہ جس طرح دنیا میں  انہیں  اللہ کی وافرنعمتیں  مل رہی ہیں  آخرت میں  بھی ملتی رہیں  گی حالانکہ ایسا نہیں  ہے ،اگر ایساہوتاتواللہ تعالیٰ اپنے فرماں  برداربندوں  کوسب سے زیادہ مال واولاد سے نوازتا،جیسے فرمایا

اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ۝۵۵ۙنُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝۵۶ [108]

ترجمہ: کیایہ سمجھتے ہیں  کہ ہم جوانہیں  مال واولادسے مدددیے جا رہے ہیں  توگویاانہیں  بھلائیاں  دینے میں  سرگرم ہیں ؟ نہیں ،اصل معاملے کاانہیں  شعورنہیں  ہے۔

وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَاَوْلَادُهُمْ۝۰ۭ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ۝۸۵ [109]

ترجمہ: ان کی مالداری اوران کی کثرت اولادتم کودھوکے میں  نہ ڈالے ،اللہ نے توارادہ کرلیاہے کہ اس مال واولادکے ذریعہ سے ان کواسی دنیامیں  سزا دے اوران کی جانیں  اس حال میں  نکلیں  کہ وہ کافر ہوں ۔

ایک مقام پر فرمایا

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا۝۱۱ۙوَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا۝۱۲ۙوَّبَنِیْنَ شُهُوْدًا۝۱۳ۙوَّمَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِیْدًا۝۱۴ۙ ثُمَّ یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ۝۱۵ۤۙكَلَّا۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا۝۱۶ۭسَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًا۝۱۷ۭ [110]

ترجمہ:چھوڑدومجھے اوراس شخص کوجسے میں  نے اکیلا پیدا کیا،بہت سا مال اس کودیا،اس کے ساتھ حاضررہنے والے بیٹے دیے اوراس کے لئے ریاست کی راہ ہموارکی،پھروہ طمع رکھتاہے کہ میں  اسے اورزیادہ دوں ، ہرگز نہیں ،وہ ہماری آیات سے عنادرکھتاہے میں  تواسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤ ں  گا۔

کفارکے مغالطے کے ازالہ کے لئے فرمایا رزق کی کشادگی اورتنگی اللہ کی رضایا عدم رضاکی مظہرنہیں  ہے ،بلکہ اس کاتعلق اللہ کی حکمت ومشیت سے ہے ،اس لئے وہ مال ودولت اپنے فرمانبرداربندوں  کوبھی عطا کرتا ہے اوران لوگوں  کوبھی نوازتاہے جواس کے نافرمان ہیں  مگر اکثر لوگ اللہ کی حکمت کو نہیں  جانتے،ہم نے جومختصرسامال و دولت تمہیں  عطاکیا ہے جس پرتم اترارہے ہواس بات کی دلیل نہیں  ہے کہ اللہ تمہیں  پسندکرتا ہے اوراس کی بارگاہ میں  تمہیں  کوئی خاص مقام حاصل ہےبلکہ اللہ کی محبت اور اس کا قرب حاصل کرنے کاذریعہ توصرف انبیاء ومرسلین کی دعوت پر ایمان اور عمل صالحہ ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ لَا یَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ، وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ إِنَّمَا یَنْظُرُ إِلَى أَعْمَالِكُمْ، وَقُلُوبِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاا للہ تعالیٰ تمہاری شکلیں  اورتمہارے مال نہیں  دیکھتا ، وہ توتمہارے دلوں  اوراعمال کودیکھتاہے۔ [111]

ایسے صالح لوگوں  کے لئے ان کے عمل کی جزاکئی کئی گنا، ایک نیکی کا اجر کم ازکم دس گنا مزید سات سوگنابلکہ اس سے زیادہ تک ہے اوروہ اللہ کی تیارکردہ لازوال نعمتوں  بھری جنتوں  میں بلندوبالا ،موتیوں  سے تیارکردہ محلات میں  اطمینان سے رہیں  گے،

عَنْ عَلِیٍّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ فِی الْجَنَّةِ لَغُرَفًا یُرَى بُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا وَظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ: یَا رَسُولَ اللهِ لِمَنْ هِیَ؟ قَالَ:لِمَنْ أَطَابَ الْكَلامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَدَامَ الصِّیَامَ وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ جنت میں  ایسے بالاخانے ہوں  گے جن کابیرونی منظراندرکی جانب سے،اوراندرونی منظرباہرکی جانب سے نظرآتاہوگا،ایک اعرابی کھڑاہوااوراس نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کس کے لیے ہوں  گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے لیے جو پاکیزہ گفتگوکرے اور کھاناکھلائے اور روزہ رکھنے کومعمول بنالے،اوررات کواس وقت نماز پڑھے جب لوگ سورہے ہوں ۔ [112]

رہے وہ لوگ جوکلمہ حق کو نیچا دکھانے اورطاغوت کو سربلندکرنے کے لئے کوششیں  کرتے ہیں  تووہ عذاب جہنم داخل کیے جائیں  گے۔

‏ قُلْ إِنَّ رَبِّی یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَیَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ ‎﴿٣٩﴾‏وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِیَّاكُمْ كَانُوا یَعْبُدُونَ ‎﴿٤٠﴾‏ قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا یَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ ‎﴿٤١﴾‏ فَالْیَوْمَ لَا یَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَلَا ضَرًّا وَنَقُولُ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِی كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ‎﴿٤٢﴾(سبا)
کہہ دیجئے ! کہ میرا رب اپنے بندوں  میں  جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کرتا ہے، اور جس کے لیے چاہے تنگ کردیتاہے، تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں  خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گااور سب سے بہتر روزی دینے والا ہے، اور ان سب کو اللہ اس دن جمع کرکے فرشتوں  سے دریافت فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے ، وہ کہیں  گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں  کی عبادت کرتے تھے، ان میں  اکثر کا انہی پر ایمان تھا، پس آج تم سے کوئی (بھی)کسی کے لیے (بھی کسی قسم کے) نفع نقصان کا مالک نہ ہوگا اور ہم ظالموں  سے کہہ دیں  گے کہ اس آگ کا عذاب چکھو جو جسے تم جھٹلاتے رہے۔

بطورتاکیدکے دوبارہ فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو،میرارب اپنی حکمت ومشیت سے اپنے بندوں  میں  سے جسے چاہتاہے کھلارزق دیتاہے اورجسے چاہتاہے نپاتلا دیتا ہے،جیسے فرمایا

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۲۶ۧ [113]

ترجمہ:اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔

وہ اپنے نافرمانوں  کوبھی خوب مال واولادسے نوازتاہے لیکن استدراج کے طورپر،اورکبھی اپنے فرماں برداربندوں  کوتنگ دست کردیتاہے تاکہ اس کے اجروثواب میں  اضافہ ہوجائے ، اس لئے مجردمال کی فراوانی اس کی رضاوخوشنودی اوراس کی کمی اس کی ناراضی کی دلیل نہیں  ہے،جیسے فرمایا

اُنْظُرْ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ۝۰ۭ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِیْلًا۝۲۱ [114]

ترجمہ:مگردیکھ لو،دنیاہی میں  ہم نے ایک گروہ کودوسرے پرکیسی فضیلت دے رکھی ہے اورآخرت میں  اس کے درجے اوربھی زیادہ ہوں  گے اوراس کی فضیلت اوربھی زیادہ بڑھ چڑھ کرہوگی۔

اور جوکچھ تم اللہ کی راہ میں  خرچ کرتے ہواس کابدلہ وہ دنیاوآخرت میں  چکادے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْكَ،وَقَالَ: یَدُ اللهِ مَلْأَى لاَ تَغِیضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللیْلَ وَالنَّهَارَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ عزوجل فرماتاہےاے ابن آدم!میری راہ میں  خرچ کروتومیں  بھی تم پرخرچ کروں  گا، اور فرمایا اللہ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا اور خوب سخاوت کرنے والاہے اسے کسی چیز سے کمی نہیں  آتی اور وہ رات دن خرچ کرتا رہتا ہے۔ [115]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ العِبَادُ فِیهِ، إِلَّا مَلَكَانِ یَنْزِلاَنِ، فَیَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَیَقُولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی دن ایسانہیں  جاتاجب بندے صبح کواٹھتے ہیں  تودو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں ،ایک فرشتہ تویہ کہتاہے اےاللہ!خرچ کرنے والے کواس کابدلہ دے اوردوسرا کہتاہے اےاللہ!ممسک اوربخیل کے مال کوتلف کردے۔ [116]

اللہ ہی سب رزاقوں  سے بہتررزاق ہے،اورجس دن وہ تمام انسانوں  کوان کے اعمال کی جزاکے لئے میدان محشرمیں جمع کرے گا پھرمشرکین کوجوفرشتوں  کواللہ کی بیٹیاں  سمجھ کران کی پرستش کیاکرتے تھے ذلیل وخوارکرنے کے لئے فرشتوں  سے پوچھے گا،جیسے اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام سے پوچھے گا۔

وَاِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰــهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ۝۰ۭ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۱۶ [117]

ترجمہ: اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تو نے لوگوں  سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں  کو بھی خدا بنالو؟ تو وہ جواب میں  عرض کرے گاسبحان اللہ، میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا اگر میں  نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا ، آپ جانتے ہیں  جو کچھ میرے دل میں  ہے اور میں  نہیں  جانتا جو کچھ آپ کے دل میں  ہے ، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں  کے عالم ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ان ہستیوں  کوبھی جمع کرے گاجن کوپکارکوسننے والا،مشکلات میں  مشکل کشائی کرنے والا،حاجات میں حاجت روائی کرنے والا،بگڑی تقدیریں  سنوارنے والا،رزق میں  فراوانی کرنے والااوربے اولادوں  کواولاددینے والاسمجھ کردنیامیں  عبادت کی جاتی ہے اورپوچھے گا۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ فَیَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ۝۱۷ۭ [118]

ترجمہ:اوروہی دن ہوگاجب کہ (تمہارارب)ان لوگوں  کوبھی گھیرلائے گااور ان کے ان معبودوں  کوبھی بلالے گاجنہیں  آج یہ اللہ کوچھوڑکرپوج رہے ہیں ،پھروہ ان سے پوچھے گاکیاتم نے میرے ان بندوں  کوگمراہ کیاتھا؟یایہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے ؟۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں  سے بھی پوچھے گاکیایہ لوگ تمہارے کہنے پرتمہاری عبادت کیاکرتے تھے ؟یاکیاتم ان کی اس عبادت سے راضی تھے ،توفرشتے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرکے اظہاربراء ت کریں  گے اورعرض کریں  گے اے ہمارے رب! تواس سے بہت بلنداورپاک ہے کہ تیراکوئی شریک ہو ہم توتیرے بندے ہیں  اور تو ہماراولی ہے، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں  ہے،ہم ان سے اوران کے افعال سے بری الذمہ ہیں ، د راصل یہ شیطانوں  کے پجاری ہیں  کیونکہ وہی ان کوغیراللہ کی عبادت کومزین کرکے دکھا تے اورانہیں  گمراہ کرتے تھے ،ان میں  سے اکثرجنوں کوسچاجانتے اوران کی اطاعت کرتے تھے، جیسےفرمایا

اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا۝۰ۚ وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا۝۱۱۷ۙ [119]

ترجمہ:وہ اللہ کوچھوڑکر دیویوں  کومعبودبناتے ہیں ،وہ اس باغی شیطان کو معبودبناتے ہیں  جس کواللہ نے لعنت زدہ کیاہے۔

اس وقت اللہ تعالیٰ ڈانٹ کر فرمائے گادنیامیں  تم یہ سمجھ کران کی عبادت کرتے تھے کہ یہ تمہیں  فائدہ پہنچائیں  گے ،روز آخرت تمہارے سفارشی ہوں  گے اورتمہیں  اللہ کے عذاب سے نجات دلوائیں  گے لیکن اب تم لوگوں  نے دیکھ لیاکہ یہ کسی بھی بات پرقادرنہیں  ہیں ،اوراللہ مشرکین سے جواللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر جنوں ،فرشتوں  اوراس کی دوسری مخلوقات کی پرستش کرتے تھے کہہ دے گاتم روزآخرت اور اعمال کی جزاکوجھٹلاتے تھے اب تکذیب کے بدلے میں  جہنم کے دردناک عذاب کامزہ چکھو۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا رَجُلٌ یُرِیدُ أَن یَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ۚ وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٤٣﴾‏ وَمَا آتَیْنَاهُم مِّن كُتُبٍ یَدْرُسُونَهَا ۖ وَمَا أَرْسَلْنَا إِلَیْهِمْ قَبْلَكَ مِن نَّذِیرٍ ‎﴿٤٤﴾‏ وَكَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَیْنَاهُمْ فَكَذَّبُوا رُسُلِی ۖ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیرِ ‎﴿٤٥﴾(سبا)
’’اور جب ان کے سامنے ہماری صاف صاف آیتیں  پڑھی جاتی ہیں  تو کہتے ہیں  کہ یہ ایسا شخص ہے جوتمہیں  تمہارے باپ دادا کے معبودوں  سے روک دینا چاہتا ہے (اس کے سوا کوئی بات نہیں ) اور کہتے ہیں  یہ تو گھڑا ہوا جھوٹ ہے اور حق ان کے پاس آچکا ہے پھر بھی کافر یہی کہتے رہے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے، اور ان (مکہ والوں ) کو نہ تو ہم نے کتابیں  دے رکھی ہیں  جنہیں  یہ پڑھتے ہوں ، نہ ان کے پاس آپ سےپہلے کوئی آگاہ کرنے والا آیا ، اور ان سے پہلے کے لوگوں  نے بھی ہماری باتوں  کو جھٹلایا تھا اور انہیں  ہم نے جو دے رکھا تھا یہ تو اس کے دسویں حصے بھی نہیں  پہنچے، پس انہوں  نے میرے رسولوں  کو جھٹلایا (پھر دیکھ کہ) میرا عذاب کیسا (سخت) تھا۔

ان لوگوں  کوجب ہماری واضح آیات سنائی جاتی ہیں  تومشرکین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاجرم بیان کرتے ہوئے تین اعتراضات کرتے ہیں ۔

x یہ شخص ہمیں ان معبودوں  کی پرستش سے ہٹانا چاہتا ہے جن کی ہمارے آباؤ اجدادعبادت کرتے رہے ہیں ۔

xیہ قرآن جسے یہ جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ اللہ کانازل کردہ کہتاہے اللہ پرتراشاہواایک بہتان ہے ،حالانکہ ان کو متعدد باراس کی نظیرلانے کوکہاگیااوروہ اس سے عاجزرہے۔

x ان کافروں  کے سامنے جب اللہ کاپاکیزہ کلام آگیاتوانہوں  نے اس کے وسیع مفہوم ومطالب،معجزانہ نظم واسلوب اور اعجاز و بلاغت کودیکھ کربے عقل لوگوں  کوفریب میں  مبتلاکرنے کے لئے کہہ دیا کہ یہ توصریح جادوہے ۔

حالانکہ اس سے پہلے ہم نے اہل مکہ کو کوئی کتاب نہیں  دی تھی کہ وہ کتاب ان کے لئے کوئی دلیل ہوتی اورنہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی پیغمبربھیجاگیاتھاجس کے اقوال واحوال کی بنیادپردعوت کوٹھکرارہے ہوں  ،جیسے فرمایا

تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۝۵ۙلِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ۝۶ [120]

ترجمہ: (اور یہ قرآن ) غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں  پڑے ہوئے ہیں  ۔

اس لئے یہ لوگ کسی دلیل اور برہان کی بناپرنہیں  بلکہ اپنے آباؤ اجدادکے افعال کودلیل بناکردعوت حق کا انکارکررہے ہیں ، جیسے فرمایا

وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا۔۔۔۝۱۷۰ [121]

ترجمہ:ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں  ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں  کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں  گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔

وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا۔۔۔۝۱۰۴ [122]

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں  کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔

وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا۔۔۔۝۲۱ [123]

ترجمہ:اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں  کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں  گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔

یہودونصاریٰ کو دیکھ کر مدتوں  سے انکی تمناتھی کہ ان کے پاس بھی کوئی پیغمبرآئے اورکوئی صحیفہ آسمانی نازل ہوتوہم اس کے مطیع اورپابندہوجاتے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دیرینہ آرزوپوری کردی اور خود انہی میں  سے خیرالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اوران کی ہدایت ورہنمائی کے لئے عظیم الشان کتاب نازل کی توگمراہوں  کے کہنے پرحق کو جھٹلانے اورانکارکرنے لگے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں  انبیاء کی تکذیب کرنے والی قوموں  کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایامگر یہ کوئی انوکھی بات نہیں  ہے، ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی رسولوں  اور کتابوں  کو جھٹلا چکے ہیں ،وہ بھی بشریت رسول ،حیات بعدالموت اور اعمال کی جزاکے منکرتھے ، ہم نے انہیں  اتنازیادہ مال ودولت ،قوت وطاقت اوراولادوں  سے نوازا تھا کہ تم اس کے عشر عشیرکوبھی نہیں  پہنچے ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِیْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِیْهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً۝۰ۡۖ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَیْءٍ اِذْ كَانُوْا یَجْـحَدُوْنَ۝۰ۙ بِاٰیٰتِ اللهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝۲۶ۧ [124]

ترجمہ:ان کوہم نے وہ کچھ دیا تھاجوتم کونہیں  دیا ہے ،ان کوہم نے کان،آنکھیں  اوردل سب کچھ دے رکھے تھے ، مگرنہ وہ کان ان کے کسی کام آئے ،نہ آنکھیں ،نہ دل کیونکہ وہ اللہ کی آیات کاانکارکرتے تھے اوراسی چیز کے پھیرمیں  وہ آگئے جس کاوہ مذاق اڑاتے تھے ۔

مگر جب انہوں  نے میرے رسولوں  کو جھٹلایا ، ہماری آیات کامذاق اڑایااوراللہ کی پکڑسے بے خوف ہوکر مطالبہ عذاب بھی کر دیاتوہم نے رسولوں  کی نصرت کی ، چنانچہ زمین میں  گھوم پھرکردیکھ لو جھٹلانے والوں  کاانجام کیا ہوا ،جیسے فرمایا

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْہُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۸۲ [125]

ترجمہ:پھر کیا یہ زمین میں  چلے پھرے نہیں  ہیں  کہ ان کو ان لوگوں  کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ ان سے تعداد میں  زیادہ تھے، ان سے بڑھ کر طاقتور تھے، اور زمین میں  ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں  جو کچھ کمائی انہوں  نے کی تھی آخر وہ ان کے کس کام آئی؟۔

اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَــرُوْہَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَــرُوْہَا وَجَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ۝۰ۭ فَمَا كَانَ اللہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۹ۭ [126]

ترجمہ:اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں  چلے پھرے نہیں  ہیں  کہ انہیں  ان لوگوں  کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے ، انہوں  نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں  نے نہیں  کیا ہے، ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں  لے کر آئےپھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھامگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔

اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَكَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً۝۰ۭ وَمَا كَانَ اللہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ عَلِــیْمًا قَدِیْرًا۝۴۴ [127]

ترجمہ:کیا یہ لوگ زمین میں  کبھی چلے پھرے نہیں  ہیں  کہ انہیں  ان لوگوں  کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں  اور ان سے بہت زیادہ طاقتور تھے؟ اللہ کو کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں  ہے ، نہ آسمانوں  میں  اور نہ زمین میں ، وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ دَمَّرَ اللہُ عَلَیْہِمْ۝۰ۡوَلِلْكٰفِرِیْنَ اَمْثَالُہَا۝۱۰ [128]

ترجمہ:کیا وہ زمین میں  چلے پھرے نہ تھے کہ ان لوگوں  کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ؟ اللہ نے ان کا سب کچھ ان پر الٹ دیا اور ایسے نتائج ان کافروں  کے لیے مقدر ہیں ۔

ہم نے کچھ قوموں  کوان کی نافرمانی اورتکذیب کے سبب سمندرمیں  غرق کردیا،کچھ کوسخت طوفانی ہواکے ذریعے سے ہلاک کرڈالا،کچھ قوموں  کوایک سخت چنگھاڑ کے ذریعے سے مٹا دیا ،کچھ کو زلزلےنےفناکردیا، کچھ قوموں  کوزمین میں  دھنسادیااوربعض قوموں  پرہواکے ذریعے سے آسمان سے پتھربرسائے ،جیسے فرمایا

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِہٖ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَةُ۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا۝۰ۚ وَمَا كَانَ اللہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۴۰ [129]

ترجمہ:آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں  پکڑا، پھر ان میں  سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور کسی کو ہم نے زمین میں  دھنسا دیا اور کسی کو غرق کر دیااللہ ان پر ظلم کر نے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔

جب ان پرعذاب کاکوڑا برسا تو مال ودولت ، اولادوں  کے جتھے ،کنبے قبیلے،مضبوط سنگی گھر اوران کے معبودان کے کچھ کام نہ آئے اوروہ ہمیشہ کے لئے نشان عبرت بن کررہ گئے۔

 قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِیرٌ لَّكُم بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ ‎﴿٤٦﴾‏ قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ‎﴿٤٧﴾‏ قُلْ إِنَّ رَبِّی یَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُیُوبِ ‎﴿٤٨﴾‏ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیدُ ‎﴿٤٩﴾‏ قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِی ۖ وَإِنِ اهْتَدَیْتُ فَبِمَا یُوحِی إِلَیَّ رَبِّی ۚ إِنَّهُ سَمِیعٌ قَرِیبٌ ‎﴿٥٠﴾ (سبا)
کہہ دیجئے کہ میں  تمہیں  صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں  کہ تم اللہ کے واسطے (ضد چھوڑ کر) وہ دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں ، وہ تو تمہیں  ایک بڑے (سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے، کہہ دیجئے! کہ جو بدلہ تم سے مانگوں  وہ تمہارے لیے ہے میرابدلہ تو اللہ ہی کے ذمے ہے،وہ ہر چیز سے باخبر اور مطلع ہے، کہہ دیجئے! ہ میرا رب حق (سچی وحی) نازل فرماتا ہے وہ ہر غیب کا جاننے والا ہے، کہہ دیجئے! کہ حق آچکا باطل نہ پہلے کچھ کرسکا ہے اور نہ کرسکے گا ،کہہ دیجئے کہ اگر میں  بہک جاؤں  تو میرے بہکنے (کا وبال) مجھ پر ہے اور اگر میں  راہ ہدایت پر ہوں  توبہ سبب اس وحی کے جو میرا پروردگار مجھے کرتا ہے، وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے ۔

مشرکین کودعوت اصلاح:

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان مکذبین ومعاندین سے کہوکہ میں  تمہیں  تمہارے موجودہ طرزعمل سے ڈراتااور ایک ہی بات کامشورہ دیتاہوں کہ تم اپنی بے جاضد اور انانیت کوچھوڑ کر اخلاص کے ساتھ،تحقیق وجستجوکی خاطر ایک ایک ،دو،دوہوکرمیری بابت غوروفکرکرو ،میری پوری زندگی بچپن سے لیکر اب تک تمہارے اندرگزری ہے ، میرے پاکیزہ کردارکے تم گواہ ہواورمجھے صادق وامین کہتے ہو ،میری عقل ودانش کابھی تمہیں  تجربہ ہوچکاہے اور اب جوفصیح وبلیغ کلام مجھ پرنازل ہواہے جس کی طرف میں  تمہیں دعوت دے رہاہوں ،کیااس میں  کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہوکہ میرے اندردیوانگی ہے ؟اگرتم عصبیت اورخواہش نفس سے بالاہوکر سوچوگے تو یقیناًتم سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کی ذات اوراس کی دعوت میں  ایسی کوئی علامت نہیں  ہے ،وہ توصرف تمہاری ہدایت کے لئے آیاہے تاکہ تم اس عذاب شدید سے بچ جاؤ جوہدایت کاراستہ نہ اپنانے کی وجہ سے تمہیں  بھگتناپڑے گا،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوْا۝۰۫ مَا بِصَاحِبِہِمْ مِّنْ جِنَّةٍ۝۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۸۴ [130]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں  نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں  ہے، وہ تو ایک خبردار ہے جو( برا انجام سامنے آنے سے پہلے) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّةٌ۝۰ۭ بَلْ جَاۗءَہُمْ بِالْحَقِّ وَاَكْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ كٰرِہُوْنَ۝۷۰ [131]

ترجمہ:یا یہ اس بات کے قائل ہیں  کہ وہ مجنون ہے؟ نہیں ، بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہے۔

اوران سے اپنی بے غرضی اوردنیاکے مال ومتاع سے بے رغبتی کا اظہارکرتے ہوئے اور ان کے دلوں  سے شک وشبہ دورکرنے کے لئے کہومیں  جوتمہاری خیرخواہی کے لئے وعظ ونصیحت کرتاہوں اس پرمیں  تم سے کسی بھی طرح کے بدلے کاطالب نہیں  ہوں  ،میں  توصرف یہ چاہتا ہوں  کہ تم طاغوت کے گھٹاگھپ اندھیروں  سے نکل کراللہ وحدہ لاشریک کی بندگی اختیارکرو، اگرمیں  نے تم سے کوئی اجرمانگاہے تووہ تم ہی کومبارک رہےمیرے کام کا اجرتواللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے،اب الزام لگانے والے جوچاہیں  الزام لگاتےرہیں مگرمیری اور تمہاری حالت اس پرخوب روشن ہے،جیسےفرمایا

قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا۝۵۷ [132]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہہ دومیں  اس کام پرتم سے کوئی اجرت نہیں  مانگتامیری اجرت بس یہی ہے کہ جس کاجی چاہے وہ اپنے رب کاراستہ اختیارکرلے ۔

ان سے کہومیرا رب حق کے ساتھ گفتگوفرماتا،اپنے رسولوں  پروحی نازل فرماتااوران کے ذریعے سے لوگوں  کے لئے حق واضح فرماتاہے ، جیسے فرمایا

 رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ۝۰ۚ یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ۝۱۵ۙ [133]

ترجمہ: وہ بلند درجوں  والامالک عرش ہے،اپنے بندوں  میں  سے جس پرچاہتاہے اپنے حکم سے روح نازل کردیتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردارکردے۔

اوراللہ وحدہ لاشریک دلوں  میں  پیداہونے والے وسوسوں  اورشہبات کاجاننے والا ہے،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۝۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۝۱۶ [134]

ترجمہ:ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں  ابھرنے والے وسوسوں  تک کو ہم جانتے ہیں  اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ڈنکے کی چوٹ پرکہواللہ کا پاکیزہ کلام قرآن مجیدنازل ہوگیا ہے،اورسورج کی مانندروشن ہوگیاہے جس سے باطل کے ہتھکنڈے مضمحل ہوکر سراٹھانے کے قابل نہیں  رہے،باطل نہ پہلے کچھ کر سکا ہے اورنہ اب کچھ کرسکے گاجیسےفرمایا

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَزَاهِقٌ۔۔۔۝۰۝۱۸ [135]

ترجمہ: مگرہم توباطل پرحق کی چوٹ لگاتے ہیں  جواس کاسرتوڑدیتی ہے اوروہ دیکھتے ہی دیکھتے مٹ جاتاہے ۔

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ یَوْمَ الفَتْحِ، وَحَوْلَ البَیْتِ سِتُّونَ وَثَلاَثُ مِائَةِ نُصُبٍ فَجَعَلَ یَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِی یَدِهِ، وَیَقُولُ:جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ، جَاءَ الحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ البَاطِلُ وَمَا یُعِیدُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سےمروی ہےفتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں  داخل ہوئے ،اندرچاروں  طرف بت نصب تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمان کی نوک سے ان بتوں  کومارتے جاتے اوریہ آیت

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَزَاهِقٌ

’’ مگرہم توباطل پرحق کی چوٹ لگاتے ہیں  جواس کا سر توڑ دیتی ہے اوروہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے۔‘‘

اوروَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا

’’ اوراعلان کردوکہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تومٹنے ہی والا ہے۔‘‘پڑھتے جاتے تھے۔ [136]

اوران سے کہوتم لوگوں  کے خیال کے مطابق اگرمیں  گمراہ ہوگیاہوں  اور میرایہ نبوت کادعویٰ اورمیری یہ دعوت توحیداسی گمراہی کانتیجہ ہے تو میری گمراہی کاوبال مجھ پر ہے ، اس کی ذمہ داری میں  تم سے بازپرس نہیں  کی جائے گی اوراگرمیں  ہدایت پر ہوں  تواس وحی اور حق مبین کی بناپرہوں  جومیرارب میرے اوپرنازل کرتاہے،وہ سب کچھ سنتا اور قریب ہے۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَأَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ، فَذَكَرَ مِنْ هَوْلِهِ فَجَعَلَ النَّاسُ یُكَبِّرُونَ وَیُهَلِّلُونَ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، وَلَكِنْ تَدْعُونَ سَمِیعًا بَصِیرًا

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفرمیں  تھے،جب ہم کسی بلندجگہ پرچڑھتے توتکبیرکہتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگو!اپنے اوپررحم کرو،تم کسی بہرے یاغائب ذات کونہیں  پکاررہے ہوبلکہ اس کوپکاررہے ہوجوبہت زیادہ سننے والا،بہت زیادہ دیکھنے والاہے۔ [137]

‏ وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِیبٍ ‎﴿٥١﴾‏ وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّىٰ لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِن مَّكَانٍ بَعِیدٍ ‎﴿٥٢﴾‏ وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۖ وَیَقْذِفُونَ بِالْغَیْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِیدٍ ‎﴿٥٣﴾‏ وَحِیلَ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْیَاعِهِم مِّن قَبْلُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا فِی شَكٍّ مُّرِیبٍ ‎﴿٥٤﴾‏(سبا)
اور اگر آپ (وہ وقت) ملاحظہ کریں  جبکہ یہ کفار گھبرائے پھریں  گے پھر نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور قریب کی جگہ سے گرفتار کر لیے جائیں  گے، اس وقت کہیں  گے کہ ہم اس قرآن پر ایمان لائے لیکن اس قدر دور جگہ سے (مطلوبہ چیز) کیسے ہاتھ آسکتی ہے، اس سے پہلے تو انہوں  نے اس سے کفر کیا تھا اور دور دراز سے بن دیکھے بھٹکتے رہے، ان کی چاہتوں  اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا جیسے کہ اس سے پہلے بھی ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا، وہ بھی (انہی کی طرح) شک و تردد میں  (پڑے ہوئے) تھے۔

کاش آپ انہیں  اس وقت دیکھیں  جب میدان محشرمیں کفارعذاب سے چھٹکاراپانے کے لئے گھبرائے پھررہے ہوں  گے لیکن کہیں  بھاگ کرجانہیں  سکیں  گے بلکہ عذاب کی جگہ سے قریب ہی سے دھر لیے جائیں  گے اورجہنم میں  جھونک دیئے جائیں  گے، اس وقت یہ کہیں  گے کہ ہم اللہ پراس کے فرشتوں  پراس کے رسولوں  اوران کی تعلیمات پراورنازل شدہ کتابوں  پرایمان لے آئے،جیسے فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [138]

ترجمہ:کاش تم دیکھووہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضورکھڑے ہوں  گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں  گے)اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیااورسن لیااب ہمیں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں  ہمیں  اب یقین آگیاہے۔

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ۝۸۴فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ سُنَّتَ اللهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ۝۰ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۵ۧ [139]

ترجمہ:جب انہوں  نے ہماراعذاب دیکھ لیاتوپکاراٹھے کہ ہم نے مان لیااللہ وحدہ لاشریک کواورہم انکارکرتے ہیں  ان سب معبودوں  کاجنہیں  ہم اس کاشریک ٹھیراتے تھے،مگرہماراعذاب دیکھ لینے کے بعدان کاایمان ان کے لئے کچھ بھی نافع نہ ہوسکتاتھاکیوں  کہ یہی اللہ کامقررضابطہ ہے جوہمیشہ اس کے بندوں  میں  جاری رہاہے ، اوراس وقت کافرلوگ خسارے میں  پڑگئے۔

چنانچہ اسی ضابطہ کے مطابق اللہ کاعذاب دیکھ لینے کے بعدگریہ زاری ،توبہ وفریاد ، ایمان واسلام کیافائدہ پہنچاسکتاہے جبکہ دنیامیں  اس سے منکر رہے ،دنیاوی زندگی میں انہوں  نےاللہ وحدہ لاشریک نہ مانااورغیراللہ کوخدائی کے اختیارات سونپ کران کی پرستش میں  مگن رہے،اورنہ رسولوں  پر ایمان لائے اور اپنے گمان میں  حیات بعدالموت ، حساب کتاب کوناممکن تصورکرتے تھے، جنت ودوزخ کامذاق اڑاتے تھے اوربلادلیل صادق وامین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجادوگر ،کاہن ،شاعر،مجنون کے القاب اورطرح طرح کے الزامات لگاتے اورآوازے کستے تھے ،اس وقت وہ چاہیں  گے کہ ان کاایمان قبول کرلیاجائے اورعذاب جہنم سے ان کی نجات ہو جائے ،لیکن ان کی خواہش کو رد کر دیا جائے گا جس طرح پچھلی امتوں  کا ایمان بھی اس وقت قبول نہیں  کیاگیاجب وہ عذاب کو دیکھنے کے بعد ایمان لائیں ،اس لئے اب معائنہ عذاب کے بعدان کاایمان کس طرح قبول ہوسکتاہے ،جبکہ دنیامیں  یہ بے یقینی کی کیفیت میں  مبتلا تھے۔

عَنْ قَتَادَةَ فِی قَوْلِهِ: إِنَّهُمْ كَانُوا فِی شَكٍّ مُرِیبٍ قَالَ: إِیَّاكُمْ وَالشَّكَّ وَالرَّیْبَةَ، فَإِنَّهُ مَنْ مَاتَ عَلَى شَكٍّ بُعِثَ عَلَیْهِ، وَمَنْ مَاتَ عَلَى یَقِینٍ بعث علیه .

قتادہ آیت کریمہ ’’ یہ بڑے گمراہ کن شک میں  پڑے ہوئے تھے ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں  شکوک وشبہات سے بچوجوشک کی حالت میں  فوت ہو گااسے شک ہی پر اٹھایاجائے گا، اورجویقین پرمرے گاقیامت والے دن یقین کی حالت پر اٹھایاجائے گا۔ [140]

[1] الزمر۷۴

[2] الاعراف۴۳

[3] فاطر۳۴

[4] آل عمران۵

[5] ابراہیم۳۸

[6] یونس۶۱

[7]ق۱تا۴

[8] الحدید۴

[9] النحل۶۱

[10] فاطر۴۵

[11] الحجر۴۹

[12] الزمر۵۳

[13] یونس۵۳

[14] التغابن۷

[15] السجدة۱۰

[16] الرعد۵

[17] ق۲،۳

[18] طہ۹۸

[19] الطلاق۱۲

[20] ق۴

[21] البقرة۸۱،۸۲

[22] الذاریات۵۲

[23] الاعراف۵۴

[24] یونس۳

[25] الفرقان۵۹

[26] ق۳۸

[27] یٰسین۸۱

[28] المومن۵۷

[29] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْسِینِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ ۱۸۵۱،مسنداحمد۲۲۹۶۹،صحیح ابن حبان ۸۹۲

[30] الانبیاء ۸۰

[31] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابٌ: أَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَى اللهِ صَلاَةُ دَاوُدَ، وَأَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَى اللهِ صِیَامُ دَاوُدَكَانَ یَنَامُ نِصْفَ اللیْلِ وَیَقُومُ ثُلُثَهُ، وَیَنَامُ سُدُسَهُ، وَیَصُومُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا۳۴۲۰،۳۴۱۹،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ یُفْطِرِ الْعِیدَیْنِ وَالتَّشْرِیقَ، وَبَیَانِ تَفْضِیلِ صَوْمِ یَوْمٍ، وَإِفْطَارِ یَوْمٍ۲۷۳۴

[32] ص۳۵،۳۶

[33] تفسیرطبری۳۶۳؍۲۰

[34] الحجر۲۷

[35] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ الأَسِیرِ أَوِ الغَرِیمِ یُرْبَطُ فِی المَسْجِدِ ۴۶۱،۱۲۱۰،۳۲۸۴، ۳۴۲۳،۴۸۰۸ ، صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ جَوَازِ لَعْنِ الشَّیْطَانِ فِی أَثْنَاءِ الصَّلَاةِ، وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ وَجَوَازِ الْعَمَلِ الْقَلِیلِ فِی الصَّلَاةِ۱۲۰۹ ،مسند احمد ۷۹۶۹،السنن الکبری للبیہقی ۳۱۸۴، شرح السنة للبغوی ۷۴۶

[36] تفسیرابن کثیر۵۰۰؍۶

[37] صحیح بخاری كِتَاب التَّهَجُّدِ بَابُ مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ۱۱۳۱ ،وكِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صَوْمِ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ ۱۹۷۹،صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ یُفْطِرِ الْعِیدَیْنِ وَالتَّشْرِیقَ، وَبَیَانِ تَفْضِیلِ صَوْمِ یَوْمٍ، وَإِفْطَارِ یَوْمٍ۲۷۳۹،سنن ابوداودكِتَاب الصَّوْمِ بَابٌ فِی صَوْمِ یَوْمٍ، وَفِطْرِ یَوْمٍ ۲۴۴۸،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصِّیَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِیَامِ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلَامُ۱۷۱۲

[38] تفسیر القرطبی۳۹۸؍۱،الدر المنثور۶۸۰؍۶، تفسیر الماوردی = النكت والعیون۴۳۹؍۴

[39] صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۱۱۸۱،صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ الصَّلاَةِ فِی البِیعَةِ۴۳۴، سنن نسائی کتاب المساجدباب النَّهْیُ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۷۰۵

[40] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ ثَمَنِ الكَلْبِ۲۲۳۸ ،کتاب اللباس بَابُ مَنْ لَعَنَ المُصَوِّرَ۵۹۶۲،وبَابُ الوَاشِمَةِ۵۹۴۵،شرح السنة للبغوی ۲۰۳۹

[41] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ عَذَابِ المُصَوِّرِینَ یَوْمَ القِیَامَةِ۵۹۵۰،صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَیْتًا فِیهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ۵۵۲۸، سنن نسائی کتاب الزینة باب ذِكْرُ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا ۵۳۶۹، مسند احمد۳۵۵۸،السنن الکبری للنسائی۹۷۰۹،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۵۶۷، مصنف ابن ابی شیبة ۲۵۲۰۹

[42] مسنداحمد۶۵۷

[43] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ بَیْعِ التَّصَاوِیرِ الَّتِی لَیْسَ فِیهَا رُوحٌ، وَمَا یُكْرَهُ مِنْ ذَلِكَ۲۲۲۵، وکتاب الباس بَابُ مَنْ صَوَّرَ صُورَةً كُلِّفَ یَوْمَ القِیَامَةِ أَنْ یَنْفُخَ فِیهَا الرُّوحَ، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ۵۹۶۳،وکتاب التعبیربَابُ مَنْ كَذَبَ فِی حُلُمِهِ۷۰۴۲، جامع ترمذی ابواب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُصَوِّرِینَ ۱۷۵۱،سنن نسائی کتاب الزینة باب ذِكْرُ مَا یُكَلَّفُ أَصْحَابُ الصُّوَرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۵۳۶۰، مسنداحمد۱۸۶۶

[44] صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابُ التِّجَارَةِ فِیمَا یُكْرَهُ لُبْسُهُ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ۲۱۰۵،و كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ هَلْ یَرْجِعُ إِذَا رَأَى مُنْكَرًا فِی الدَّعْوَةِ۵۱۸۱ ،وكِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ مَنْ كَرِهَ القُعُودَ عَلَى الصُّورَةِ۵۹۵۷،صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَیْتًا فِیهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ۵۵۳۳،سنن نسائی کتاب الزینة باب التصاویر۵۳۶۷ ،مسنداحمد ۲۶۰۹۰،صحیح ابن حبان۵۸۴۵،شرح السنة للبغوی ۲۳۲۱، السنن الکبری للبیہقی۱۴۵۵۴

[45] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ مَا وُطِئَ مِنَ التَّصَاوِیرِ۵۹۵۴،صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَیْتًا فِیهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ ۵۵۲۵ ، سنن نسائی کتاب الزینة باب ذِكْرُ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا۵۳۵۹

[46] صحیح مسلم کتاب اللباس بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَیْتًا فِیهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ۵۵۲۳ ،سنن نسائی کتاب الزینة باب التَّصَاوِیرُ۵۳۵۴،مسنداحمد۲۵۹۲۱

[47] جامع ترمذی ابواب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الصُّورَةِ ۱۷۴۸،۱۷۴۹

[48] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَیْتًا فِیهِ صُورَةٌ ۵۹۶۰

[49] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِیَةِ الْقَبْر ِ۲۲۴۳،سنن ابوداودكِتَاب الْجَنَائِزِ بَابٌ فِی تَسْوِیَةِ الْقَبْرِ۳۲۱۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِی تَسْوِیَةِ القُبُورِ ۱۰۴۹،سنن نسائی کتاب الجنائزباب تَسْوِیَةُ الْقُبُورِ إِذَا رُفِعَتْ۲۰۳۳،مسنداحمد۷۴۱

[50] مسنداحمد۱۲۸۴، مسند ابویعلی۵۶۳

[51] تفسیرابن کثیر۵۰۷؍۶

[52] مسنداحمد ۲۳۹۲۴،صحیح مسلم کتاب الزھد بَابُ الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَیْرٌ ۷۵۰۰

[53] تفسیرطبری۳۷۸؍۲۰،تفسیرابن کثیر۵۰۷؍۶

[54] تفسیرابن کثیر۵۰۷؍۶

[55] النمل۲۲تا۲۴

[56] تفسیرابن کثیر۵۰۸؍۶

[57] تفسیرابن کثیر۵۰۹؍۶

[58] البقرة۶۱

[59] تفسیرابن کثیر۵۰۹؍۶

[60] ص۸۲،۸۳

[61] بنی اسرائیل۶۲

[62] الاعراف۱۷

[63] ابراہیم۲۲

[64] فاطر۱۳

[65] البقرة۲۵۵

[66] الانبیاء ۲۸

[67] النجم۲۶

[68] صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۷۴۱۰،وکتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ۶۵۶۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِیهَا۴۷۵، مسند احمد ۱۲۱۵۳،السنن الکبری للنسائی ۱۱۳۶۹

[69] تفسیرابن کثیر۵۱۵؍۶

[70] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة سبا بَابُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا الحَقَّ وَهُوَ العَلِیُّ الكَبِیرُ ۴۸۰۰

[71] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ تَحْرِیمِ الْكَهَانَةِ وَإِتْیَانِ الْكُهَّانِ۵۸۱۹،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ سَبَأٍ ۳۲۲۴،مسنداحمد۱۸۸۲، صحیح ابن حبان ۶۱۲۹،السنن الکبری للبیہقی ۱۶۵۱۲

[72] الاحقاف۶

[73] الاحزاب۶۶تا۶۸

[74] تفسیر طبری ۴۰۱؍۲۰

[75] یونس۴۱

[76] الشوری۱۵

[77] الروم ۱۴،۱۵

[78] یونس ۱۸

[79] یونس۶۶

[80] الشوری۱۱

[81] الاعراف۱۵۸

[82] الفرقان۱

[83] الانبیاء ۱۰۷

[84] الانعام۱۹

[85] صحیح بخاری کتاب التیمم باب ۱،ح۳۳۵،صحیح مسلم کتاب المساجدومواضع الصلاة باب المساجدومواضع الصلاة۱۱۶۳ ،سنن نسائی کتاب الغسل باب التیمم بالصعید۴۳۵،صحیح ابن حبان ۶۳۹۸،السنن الکبری للبیہقی ۱۰۱۷،شرح السنة للبغوی ۳۶۱۶

[86] مسنداحمد ۹۳۳۷، صحیح مسلم کتاب المساجدومواضع الصلاة باب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ۱۱۶۷ ، صحیح ابن حبان ۲۳۱۳،السنن الکبری للبیہقی ۴۲۶۵،مسندابویعلی ۶۴۹۱،شرح السنة للبغوی ۳۶۱۷

[87] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَیْنِ۶۵۰۴ ،صحیح مسلم کتاب الفتن بَابُ قُرْبِ السَّاعَةِ۷۴۰۸، مسند احمد ۱۲۲۴۵،صحیح ابن حبان ۶۶۴۱،سنن الدارمی ۲۸۰۱،مسندابویعلی ۲۹۲۵

[88] تفسیرطبری۴۰۵؍۲۰

[89] یوسف ۱۰۳

[90] الشوری۱۸

[91] نوح۴

[92] ھود۱۰۴

[93] الاعراف۳۸،۳۹

[94] ابراہیم۲۱

[95] القصص۶۳

[96] الاحزاب۶۶تا۶۸

[97] المومن ۴۷،۴۸

[98] حم السجدة۲۹

[99] الفرقان ۲۷تا۲۹

[100] الملک۱۰،۱۱

[101] المومن۷۱تا۷۳

[102] الاعراف ۳۸

[103] الشعراء ۱۱۱

[104] ھود۲۷

[105] الاعراف۷۵

[106] الانعام۵۳

[107] الزخرف۲۳

[108] المومنون۵۵،۵۶

[109] التوبة۸۵

[110] المدثر۱۱تا۱۷

[111] صحیح مسلم کتاب البر والصلة بَابُ تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ۶۵۴۳،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الْقَنَاعَةِ۴۱۴۳،صحیح ابن حبان ۳۹۴،مسند احمد ۷۸۲۷،۱۰۹۶۰

[112] تفسیرابن ابی حاتم ۳۰۷۷؍۹، جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ غُرَفِ الجَنَّةِ ۲۵۲۷، مسند احمد ۱۳۳۸

[113] الرعد۲۶

[114] بنی اسرائیل۲۱

[115] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة بَابُ قَوْلِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۴۶۸۴، صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ الْحَثِّ عَلَى النَّفَقَةِ وَتَبْشِیرِ الْمُنْفِقِ بِالْخَلَفِ۲۳۰۸ ،سنن ابن ماجہ کتاب الکفارات بَابُ النَّهْیِ عَنِ النَّذْرِ ۲۱۲۴، مسنداحمد۷۲۹۸،السنن الکبری للبیہقی ۷۸۱۵،مسندابویعلی ۶۲۶۰،شرح السنة للبغوی ۱۶۵۶

[116] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى، فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْیُسْرَى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى، وَكَذَّبَ بِالحُسْنَى، فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ۱۴۴۲ ، صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابٌ فِی الْمُنْفِقِ وَالْمُمْسِكِ۲۳۳۶،السنن الکبری للنسائی ۹۱۳۴،السنن الکبری للبیہقی ۷۸۱۶،شرح السنة للبغوی ۱۶۵۷

[117] المائدة۱۱۶

[118] الفرقان ۱۷

[119] النسائ۱۱۷

[120] یٰسین۵،۶

[121] البقرة۱۷۰

[122] المائدة۱۰۴

[123] لقمان۲۱

[124] الاحقاف۲۶

[125] المومن۸۲

[126] الروم۹

[127] فاطر۴۴

[128] محمد۱۰

[129] العنکبوت۴۰

[130] الاعراف۱۸۴

[131] المومنون۷۰

[132] الفرقان۵۷

[133] المومن۱۵

[134] ق۱۶

[135] الانبیاء ۱۸

[136] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابٌ أَیْنَ رَكَزَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرَّایَةَ یَوْمَ الفَتْحِ؟ ۴۲۸۷

[137] صحیح بخاری کتاب الدعاء بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا عَلاَ عَقَبَةً۶۳۸۴،مسند احمد۱۹۵۲۰،السنن الکبری للبیہقی ۳۰۱۲،مصنف ابن ابی شیبة۸۴۶۳،مصنف عبدالرزاق۹۲۴۴،شرح السنة للبغوی۱۲۸۳

[138] السجدة۱۲

[139] المومن۸۴،۸۵

[140] تفسیرابن ابی حاتم۳۱۶۹؍۱۰

Related Articles