بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة ق

پوری سورة کابنیادی مضمون آخرت ہے کیونکہ اہل مکہ کواس بات پربڑااچنبھاتھاکہ مرنے کے بعدجب ابتدائے آفرنیش سے قیامت تک مرنے والے تمام انسانوں  کی ہڈیاں  بھی بوسیدہ ہوکرمنتشرہوچکی ہوں  گی سب لوگوں  کودوبارہ زندہ کرکے ان کے اعمال کاحساب کیاجائے گااوراسے جزاوسزادی جائے گی،یہ سب کچھ ان کے لئے محال اور بعیدازامکان تھا،ان شکوک وشہبات کے ازالے کے لئے قرآن مجیدکی عظمت کی قسم کھاکربڑے مختصرطریقے سے خوبصورت چھوٹے چھوٹے مگرفصاحت وبلاغت سے بھرپورفقروں  میں  آخرت کاامکان اوراس کے وقوع پردلائل دیے اورساتھ ہی لوگوں  کومتنبہ کیاکہ حیات بعدالموت کوخواہ بعیدازعقل تصورکرویااس حقیقت کوہی جھٹلادولیکن یہ قطعی اٹل حقیقت ہے کہ تمہارے جسم کاایک ایک ذرہ جوزمین میں  منتشرہوتاہے اللہ کواس کے بارے میں  خوب معلوم ہے کہ انسان کے اجزاء کہاں  کہاں  منتشر ہوئے اوراب ان کا وجودکہاں  ہے،ان منتشرذرات کودوبارہ جمع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاکلمہ کن ہی کافی ہے،نیزفرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری رگ جاں  سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے،وہ براہ راست تمہارے قول وفعل اورتمہارے شعور ،تحت الشعور اورلاشعورمیں  اٹھنے والے وسوسوں  کو دیکھ رہاہے اوراس براہ راست علم کے علاوہ اس نے دو فرشتے بھی مقرر کر رکھے ہیں  جوتمہارے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ اورتمہاری حرکات وسکنات کے ریکارڈکومحفوظ کررہے ہیں ،جب موت آئے گی تووہ انسان کے اعمال نامہ کولپیٹ دیں  گے،پھر میدان محشرمیں تمہارے اعمال کا سارا ریکارڈتمہارے ہاتھوں  میں  تھمادیاجائے گااورہرانسان کواپنے اعمال کاحساب اورجواب دینا ہوگا ، بعث بعدالموت کی دلیل میں  فرمایا کہ نباتات پرغوروتدبرکرو،اللہ کے حکم سے جیسے ہی بارش ہوتی ہے زمین سرسبزہوجاتی ہے،وہ سب نباتات گھاس اورجڑی بوٹیاں  جن کا وجود ظاہری طور پرختم ہو چکا ہوتا ہےبارش کے بعدنئے سرے سے زندگی کی بہاردکھانے لگتی ہیں ،اسی طرح موت کے بعدجب صور اسرافیل پھونکا جائے گا توسبھی انسان زندہ ہو جائیں  گے اورجو پردہ آج مادی کدورت کے باعث تمہاری عقل پر پڑ گیا ہے وہ ہٹ جائے گااوراس وقت تمہیں یہ احساس ہوگاکہ دنیا میں  ہماری زندگی یوں  ہی بیکار یا کھیل تماشے کے طورپرنہ تھی، جزاء وسزا،جنت ودوزخ اورعذاب وثواب کا تذکرہ کرکے فرمایاکہ اگر اسی طرح تم حق کو ماننے کی بجائے بغض وعناد کا شکاررہے تو قیامت کے روز اسی جہنم کاایندھن بنائے جاو گے جسے آج تم فسانہ عجائب سمجھ رہے ہو،اس سورة میں  تسبیح اور صبرکاخصوصی حکم ہے جبکہ انبیاء کی تکذیب اور گمراہی کے انجام کا بھی ذکرکیا گیا ہے ، اقوام سابقہ میں  سے اصحاب الایکہ ،اصحاب الرس، قوم عادو ثمود ، قوم لوط اور فرعون کاذکرعبرت کے لئے ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ ‎﴿١﴾‏ بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَیْءٌ عَجِیبٌ ‎﴿٢﴾‏ أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِیدٌ ‎﴿٣﴾‏ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِیظٌ ‎﴿٤﴾‏ بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِی أَمْرٍ مَّرِیجٍ ‎﴿٥﴾‏ (ق)
ق ! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے، بلکہ انہیں  تعجب معلوم ہوا کہ ان کے پاس انہی میں  سے ایک آگاہ کرنے والا آیا تو کافروں  نے کہا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے، کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں  گے پھر یہ واپسی دور (از عقل) ہے، زمین جو کچھ ان میں  سے گھٹاتی ہے وہ ہمیں  معلوم ہےاور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے، بلکہ انہوں  نے سچی بات کو جھوٹ کہا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچ چکی پس وہ الجھاؤ میں  پڑگئے ہیں  ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن جس کی فصاحت کامل ترین،جس کے الفاظ عمدہ ترین اورجس کے معانی عام اورحسین ترین ہیں ،قرآن کریم جوبہت نفع پہنچانے والا اوربے پایاں  برکات کاحامل ہے کی قسم کھاکرفرمایاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسول ہیں اورتم ضرورقیامت والے دن اٹھائے جاؤ گے ،مگرمحمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوجھٹلانے والے اس بات پر حیرت کرتے ہیں  کہ ان ہی کی طرح کاایک بشر جوان ہی کی قوم وبرادری کاہے ،ان ہی کی زبان بولتاہے ،جس کی زندگی ،سیرت وکرداراورگفتارسے بچپن سے ادھیڑعمرتک یہ خوب آشناہیں اللہ کی طرف سے بشیرونذیربن کر ان میں  مبعوث کردیاگیا ہے ،جیسےفرمایا

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭؔ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ۝۲ [1]

ترجمہ: کیا لوگوں  کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں  سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ(ٖغفلت میں  پڑے ہوئے) لوگوں  کوچونکادے اور جومان لیں  ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے رب کے پاس سچی عزت وسرفرازی ہے؟ (اس پر)منکرین نے کہاکہ یہ شخص توکھلا جادوگر ہے۔

جب اس نے لوگوں  کو گمراہی سے نکالنے کے لئے واضح دلائل وبراہین کے ساتھ اس عارضی دنیا کی حقیقت اوردائمی حیات بعدالموت اوراعمال کی جزاکے بارے میں  خبردار کیا توآخرت کے منکرین نے اپنی عقل و فہم سے نہیں  بلکہ تعصبات اور کفروعنادسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کوجوہرچیزپرقادراورہرلحاظ سے کامل ہے کو جھٹلایااورکہاکہ بھلاابتدائے آفرینش سے قیامت تک مرنے والے تمام انسانوں  کے منتشر اجزا کواسی ہیئت وترکیب میں جمع کرنا اورنیاوجودبخشناکس طرح ممکن ہے،کفارکے اس شبہے کے ازالہ کے لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جوعلام الغیوب ہے جواپنے کامل اور وسیع علم کے ذریعے سے براہ راست جانتاہے کہ ہرانسان کاہرمنتشرزرہ زمین میں کہاں  اور کس حال میں  ہے،اس کے علاوہ ان منتشر زرات کاباقاعدہ ریکارڈ لوح محفوظ جوکہ ہر قسم کے تغیروتبدل سے محفوظ ہے میں  بھی درج ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلَهُ:قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ، یَقُولُ: مَا تَأْكُلُ الْأَرْضُ مِنْ لُحُومِهِمْ وَأَبْشَارِهِمْ وَعِظَامِهِمْ وَأَشْعَارِهِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ ’’زمین جوکچھ ان میں  سے گھٹاتی ہے وہ ہمیں  معلوم ہے۔‘‘ کی تفسیرمیں  روایت ہے ہم جانتے ہیں  کہ زمین ان کے گوشت ،جسموں ،ہڈیوں  اوربالوں  کوکھارہی ہے۔ [2]

اس لئے اللہ کے لئے ان تمام اجزاکوجمع کرکے انہیں  دوبارہ زندہ کردینا قطعا ً مشکل کام نہیں  ہے ،مگران لوگوں  نے اس حقیقت کے واضح دلائل وبراہین پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کے بجائے بلاتامل جھوٹ قراردے دیااوراپنے غلط موقف میں  الجھ کرحقیقت بیان کرنے والے کو اپنی فاسدرائے کے تقاضے کے مطابق شاعر، کاہن ، مجنون اور جادوگر کہنے لگے،کبھی ان پراپنی بڑائی قائم کرنے کابہتان لگانے لگے اورکبھی اللہ کی نازل کردہ کتاب کوانسانی کلام سمجھ کرجھٹلانے لگے۔

أَفَلَمْ یَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنَاهَا وَزَیَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ ‎﴿٦﴾‏ وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَیْنَا فِیهَا رَوَاسِیَ وَأَنبَتْنَا فِیهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِیجٍ ‎﴿٧﴾‏ تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیبٍ ‎﴿٨﴾‏ (ق)
کیا انہوں  نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں  دیکھا ؟کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہےاور زینت دی ہے، اس میں  کوئی شگاف نہیں ،اور زمین کو ہم نے بچھا دیا ہے اور اس میں  ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں  اور اس میں  ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں  اگا دیں  ہیں  تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔

اللہ کے محیرالعقول شاہکار:

اللہ تعالیٰ نے منکرین کوآیات آفاقیہ میں  غوروتدبرکرنے کی دعوت دی کہ کیایہ لوگ اللہ کاتخلیق کیاہوایہ وسیع وعریض عالم بالا نہیں  دیکھتے جوان پر بغیر کسی ستون کے ایک چھتری کی طرح چھایاہواہے،جیسے فرمایا

اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۲ [3]

ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں  کو ایسے سہاروں  کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا۔۔۔۝۱۰ [4]

ترجمہ:اس نے آسمانوں  کو پیدا کیا بغیر ستونوں  کے جو تم کو نظر آئیں  ۔

جس کے نیچے دن کوانسانی معاشی ضروریات کے لئے سورج چمکتاہے،اوررات کوآرام کرنے کے لئے چانداورسیاروں  اور بے حدوحساب ستاروں سے آراستہ کیاہے ، جوپیچھے ہٹ جاتے ہیں  اورچلتے چلتے غائب ہوجاتے ہیں ،جس میں لاکھوں  کہکشاہیں  ہیں  مگراس حیرت انگیزوسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسامسلسل اور مستحکم ہے کہ اس میں  کبھی کسی جگہ کوئی خلل واقع نہیں  ہوا ،جیسےفرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۰ۭ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّهُوَحَسِیْرٌ۝۴ [5]

ترجمہ: جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے ،تم رحمان کی تخلیق میں  کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گےپھرپلٹ کردیکھوکہیں  تمہیں  کوئی خلل نظرآتاہے؟باربارنگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر نامرادپلٹ آئے گی۔

جب اس وسیع نظام میں  تم کوئی فرق وتفاوت نہیں  دیکھتے توکیااللہ کی قدرت سے یہ بعیدہے کہ تمہارے امتحان کی مہلت ختم ہوجانے کے بعدتم سے اعمال کاحساب لینے کے لئے تمہیں  دوبارہ زندہ کرے، اورکیایہ لوگ اس ہمواراورکشادہ زمین کونہیں  دیکھتے کہ اللہ نے اسے کیسے بچھایاہے،اس میں  رنگارنگ کے چھوٹے بڑے پہاڑجمائے ہیں  تاکہ یہ ہل نہ سکے،جیسے فرمایا

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ۔۔۔ ۝۱۹ [6]

ترجمہ:ہم نے زمین کو پھیلایااور اس میں  پہاڑ جمائے۔

وَہُوَالَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ وَاَنْہٰرًا۔۔۔۝۳ [7]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے اس میں  پہاڑوں  کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں  اور دریا بہا دیے ہیں ۔

اس زمین میں  نموکی قوت رکھی ہےجس سے یہ انسانی وجانوروں  کی ضروریات کے لئے انواع و اقسام کی خوش منظر،شاداب اورحسین نباتات،اجناس اورپھلوں کا جوڑاجوڑا اگاتی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ۔۔۔۝۳ [8]

ترجمہ:اسی نے ہر طرح کے پھلوں  کے جوڑے پیدا کیے ہیں ۔

وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۴۹ [9]

ترجمہ:اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں  شاید کہ تم اس سے سبق لو ۔

اگران لوگوں  کے دلوں  میں  حقیقت حال معلوم کرنے کی کچھ بھی لگن ہوتو آسمان وزمین کی تخلیق،اس کے اندربڑی بڑی مخلوق اوربے مثال نظام پرغوروفکرکرکے حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں  کہ اللہ ہی واحد،یکتااوربے نیازہے،جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اورنہ اس کاکوئی ہم سرہے،یہ وہ ہستی ہے جس کے سواکوئی عبادت ،تذلل اورمحبت کے لائق نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوپیغام لے کرمبعوث ہوئے ہیں  وہ سچ ہے اس لئے ہمیں  آخرت کی فکرکرنی چاہیے۔

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِیدِ ‎﴿٩﴾‏ وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِیدٌ ‎﴿١٠﴾‏ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ ۖ وَأَحْیَیْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّیْتًا ۚ كَذَٰلِكَ الْخُرُوجُ ‎﴿١١﴾‏ (ق)
اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کئےاور کھجوروں  کے بلند وبالا درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں بندوں  کی روزی کے لیے، اور ہم نے پانی سے مردہ شہر کو زندہ کردیا اسی طرح (قبروں  سے) نکلنا۔

اوراللہ وحدہ لاشریک آسمان سے بارش کابابرکت پانی نازل فرماتاہےجس سے دریارواں  دواں  ہوجاتے ہیں ،اس پانی سے یکایک مردہ زمین زندہ ہوکرلہلہانے لگتی ہے اور طرح طرح کے پھل مثلا ً انگور،انار،لیموں  اورسیب وغیرہ اوراجناس مثلا ًگیہوں ،مکی،جوار،باجرہ،دالیں  اورچاول وغیرہ پیداکرتی ہے جن کوکاٹ کرآئندہ ضروریات کے لئے ذخیرہ کیاجاتاہے ،اسی زمین میں  اللہ نے بلندوبالاکھجوروں  کے درخت پیداکردیےجوتہ بہ تہ گابھے میں  سے گچھوں  کی صورت میں بھرپورمیوے لاتی اورلدی رہتی ہے ،یہ اللہ کی نشانی ہے کہ جس طرح اللہ بارش سے مردہ زمین کوزندہ اورشاداب کرکے اتنی اعلیٰ درجے کی نباتی زندگی پیداکردیتاہے اسی طرح قیامت والے دن اللہ تعالیٰ انسانوں  کوان کے اعمال کابدلہ دینے کے لئے قبروں  سے زندہ کرکے نکال لائیں  گے،جیسے فرمایا

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۵۷ [10]

ترجمہ:آسمانوں  اورزمین کاپیداکرناانسان کے پیداکرنے کی بہ نسبت یقیناًزیادہ بڑاکام ہے مگراکثرلوگ جانتے نہیں  ہیں ۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳ [11]

ترجمہ: اور کیا ان لوگوں  کو یہ سجھائی نہیں  دیتا کہ جس اللہ نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں  اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں  کو جلا اٹھائے ؟ کیوں  نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔

وَمِنْ اٰیٰتِهٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ اِنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۹ [12]

ترجمہ:اور اللہ کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے، یقینا جو اللہ اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں  کو بھی زندگی بخشنے والا ہے، یقینا وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

 كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ‎﴿١٢﴾‏ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ ‎﴿١٣﴾‏ وَأَصْحَابُ الْأَیْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیدِ ‎﴿١٤﴾‏ أَفَعَیِینَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِی لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیدٍ ‎﴿١٥﴾‏ (ق)
ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں  نے اور ثمود نے اور عاد نے اور فرعون نے اور برادران لوط نےاور ایکہ والوں  نے اور تبع کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی، سب نے پیغمبروں  کو جھٹلایا پس میرا وعدہ عذاب ان پر صادق آگیا، کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے تھک گئے ؟ بلکہ یہ لوگ نئی پیدائش کی طرف سے شک میں  ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے کفارمکہ کوسماوی اورارضی آیات کے ذریعے نصیحت کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایاکہ ان سے پہلے گزری ہوئی قوم نوح علیہ السلام ،اصحاب الرس ،قوم عادوثمود،قوم فرعون،قوم لوط،ایکہ والے(قوم شعیب علیہ السلام ) اورقوم تبع (قوم سبا)نے بھی دعوت توحید، رسولوں  کی رسالت،حیات بعدالموت اور جزاوسزا کوجھٹلایا تھا جس سے وہ شدیداخلاقی بگاڑمیں  مبتلاہوکررہے اورآخرکاران کے کفر،سرکشی اورمخالفت حق کی پاداش میں اللہ نے قوم نوح کو پانی میں  غرق کرکے،قوم عادوثمودکوایک سخت چنگھاڑکے ذریعہ سے ،قوم لوط کوزمین میں  دھنساکر ان کے نجس وجودسے دنیا کوپاک کردیا ، جیسے فرمایا

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِہٖ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَةُ۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا۝۰ۚ وَمَا كَانَ اللہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۴۰ [13]

ترجمہ:آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں  پکڑا پھر ان میں  سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور کسی کو ہم نے زمین میں  دھنسا دیا ، اور کسی کو غرق کر دیا اللہ ان پر ظلم کر نے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔

تم لوگ ان قوموں  سے بہترنہیں  ہوتوکیاتم بھی اپنے لئے یہی عبرت ناک انجام پسندکرتے ہو؟اگریہ انجام پسندنہیں  کرتے توتکذیب کاراستہ چھوڑکرسیدکونین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور حیات بعد الموت پرایمان لے آؤ ،آخرت کے حق میں  عقلی استدلال فرمایاکہ کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات اوراس کے اندرخشکی وتری میں جو مخلوقات ہیں  کوپہلی بار پیدا کرکے یااس وسیع وعریض نظام کائنات کوچلاتے ہوئے تھک گیاہے یااس کی قدرت کمزورپڑگئی ہے کہ وہ قیامت والے دن تخلیق جدیدنہیں  کر سکتا ، معاملہ ایسانہیں  ہے اللہ تعالیٰ مخلوقات کو پیداکرنے سے نہ پہلے عاجزتھا اور نہ اب ہے بلکہ جنوں ،انسانوں  کی تخلیق جدید اوردوسرے عالم کوایک نئے نظام کے ساتھ تخلیق کرناآسان ترہے ،جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ۔۔۔۝۰۝۲۷ۧ [14]

ترجمہ:وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔

اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ۝۰ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ۝۰ۭ وَهُوَبِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـیْمُۨ۝۷۹ۙ [15]

ترجمہ:کیاانسان دیکھتانہیں  ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیداکیااورپھروہ صریح جھگڑالوبن کرکھڑاہوگیا؟اب وہ ہم پرمثالیں  چسپاں  کرتاہے اوراپنی پیدائش کوبھول جاتاہے ، کہتاہے کون ان ہڈیوں  کوزندہ کرے گاجب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟اس سے کہوانہیں  وہی زندہ کرے گاجس نے پہلے انہیں  پیدا کیا تھا اوروہ تخلیق کاہرکام جانتا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳ [16]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں  کو یہ سجھائی نہیں  دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں  اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں  کو جلا اٹھائے؟ کیوں  نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۹ [17]

ترجمہ:اور اللہ کی نشانیوں  میں  سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے، پھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے، یقینا جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں  کو بھی زندگی بخشنے والا ہے، یقینا وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ: كَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِی وَلَمْ یَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِیبُهُ إِیَّایَ فَقَوْلُهُ: لَنْ یُعِیدَنِی، كَمَا بَدَأَنِی، وَلَیْسَ أَوَّلُ الخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ إِعَادَتِهِ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِیَّایَ فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ یَكُنْ لِی كُفْئًا أَحَدٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہےابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے یہ مناسب نہیں  تھا،مجھے اس نے گالی دی حالانکہ اس کے لئے یہ بھی مناسب نہیں  تھا،مجھے جھٹلانایہ ہے کہ کہتاہے کہ میں  اس کودوبارہ نہیں  پیداکروں  گاحالانکہ میرے لئے دوبارہ پیدا کرنااس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ، اس کامجھے گالی دینایہ ہے کہ کہتاہے کہ اللہ نے اپنابیٹابنایاہے حالانکہ میں  ایک ہوں  ، بے نیازہوں ،نہ میرے کوئی اولاد ہے اورنہ میں  کسی کی اولاد ہوں  اورنہ کوئی میرے برابرکاہے ۔[18]

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ ‎﴿١٦﴾‏ إِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ ‎﴿١٧﴾‏ مَّا یَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ ‎﴿١٨﴾ (ق)
ہم نے انسان کو پیدا کیاہے اور اس کے دل میں  جو خیالات اٹھتے ہیں  ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ، جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں  ایک دائیں  طرف اور ایک بائیں  طرف بیٹھا ہوا ہے(انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں  پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔

آخرت کے دلائل وبراہین کے بعدمنکرین آخرت کوفرمایاتم چاہے اس حقیقت کوتسلیم کرویانہ کرومگرتمہارے انکارکے باوجودیہ واقعہ پیش ہوکررہے گا،ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اورہماری قدرت و علم نے انسان کااس طرح احاطہ کیاہواہے کہ ہم اس کے شعور، تحت الشعوراور لاشعورمیں  ابھرنے والے وسوسوں  کوبھی براہ راست جانتے ہیں  ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِی عَنْ أُمَّتِی مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں  گزرنے والے خیالات کومعاف فرمادیاہے یعنی ان پرگرفت نہیں  فرمائے گاجب تک وہ زبان سے ان کااظہاریاان پرعمل نہ کرے۔ [19]

اس کے علاوہ اتمام حجت کے طورپر ہم نے دو بلند مرتبہ فرشتے(کراما ًکاتبین) بھی ہرانسان کے ساتھ مامورکردیئے ہیں  جواس کی زبان سے نکلے ہوئے ہرنیک وبداعمال واقوال کو مستعدی کے ساتھ نازک ترین تفصیلات کے ساتھ نوٹ کرکے اس کانامہ اعمال تیارکررہے ہیں  ،جیسے فرمایا

كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ۝۹ۙوَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ۝۱۰ۙكِرَامًا كَاتِبِیْنَ۝۱۱ۙیَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۱۲ [20]

ترجمہ:ہرگزنہیں ،بلکہ(اصل بات یہ ہے کہ)تم لوگ جزاوسزاکوجھٹلاتے ہوحالانکہ تم پرنگران مقررہیں  ،ایسے معززکاتب جوتمہارے ہرفعل کوجانتے ہیں  ۔

عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الرَّجُلَ لَیَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، یَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، یَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا عَلَیْهِ سَخَطَهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ قَالَ: فَكَانَ عَلْقَمَةُ یَقُولُ:كَمْ مِنْ كَلَامٍ قَدْ مَنَعَنِیهِ حَدِیثُ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ

بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانسان اللہ تعالیٰ کی رضااورخوشنودی کی ایک ایسی بات کہہ دیتاہےجس کے بارے میں  اسے یہ گمان نہیں  ہوتاکہ وہ بات یہاں  تک پہنچ جائے گی جہاں  تک وہ پہنچی ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے اپنی ملاقات کے دن تک اس کے لیے اپنی رضامندی لکھ دیتاہے،اورانسان اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی ایک ایسی بات کہہ دیتاہے جس کے بارے میں  اسے یہ گمان نہیں  ہوتاکہ وہ یہاں  تک پہنچ جائے گی جہاں  تک وہ پہنچی ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے اپنی ملاقات کے دن تک اس کے لیے اپنی ناراضی لکھ دیتاہے، علقمہ فرمایاکرتے تھے کہ کتنی ہی ایسی باتیں  ہیں  جن سے مجھے حدیث بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے منع کردیا۔ [21]

دائیں  جانب کافرشتہ نیکیاں  لکھتاہے اوربائیں  جانب والا فرشتہ برائیاں  لکھتا ہے ،جب انسان فوت ہوتاہے تویہ دفترلپیٹ دیتے ہیں اورروزقیامت اللہ کی بارگاہ میں  ان کی کارگزاریوں  کےناقابل انکار دستاویزی ثبوت پیش کرکے گواہی دیں  گے ۔

 وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِیدُ ‎﴿١٩﴾‏ وَنُفِخَ فِی الصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ یَوْمُ الْوَعِیدِ ‎﴿٢٠﴾ (ق)
’’اور موت کی بےہوشی حق لے کر پہنچی ،یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا، اور صور پھونک دیا جائے گا وعدہ عذاب کا دن یہی ہے۔‘‘

آخرایک وقت مقررہ پر موت اپنی سکرات کاعالم لے کر آپہنچے گی جس سے تم بدکتے اوردوربھاگتے تھے مگراس وقت تم کسی طرح اس سے نجات نہیں  پاسکوگے، اس وقت تمہاری آنکھوں  سے غفلت کے پردے ہٹ جائیں  گے ، ہر منظر صاف اورروزروشن کی طرح عیاں  ہوگا جس سے تمہاراشک دورہوجائے گاجس میں  تم آج مبتلاہواوراپنی روگردانی پرجمے ہوئے ہو، اورتمہیں  یقین آجائے گاکہ حیات بعدالموت اور آخرت برحق ہے ،اس وقت دوسرا عالم صاف طورپرنظرآنے لگے گااور تمہیں  معلوم ہوجائے گاکہ اس میں  تم نیک بخت کی حیثیت سے داخل ہورہے ہو یا بد بخت کی حیثیت سے ،

أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَقُولُ: فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْهِ فِی المَاءِ فَیَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ،یَقُولُ:لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ،إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرموت کی غشی طاری ہونے لگی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے پیالے میں  ہاتھ ڈال اپنے چہرہ مبارک پر پھیرتےاورفرماتے اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ، بلاشبہ موت کی بڑی سختیاں  ہیں ۔ [22]

پھرایک مقررہ دن کو اسرافیل علیہ السلام جوصورکومنہ سے لگائے گردن جھکاکراللہ کے حکم کے منتظرہیں اللہ کے حکم سے صورپھونکیں  گے،

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَیْفَ أَنْعَمُ وَقَدِ التَقَمَ صَاحِبُ القَرْنِ القَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ یَنْتَظِرُ أَنْ یُؤْمَرَ أَنْ یَنْفُخَ فَیَنْفُخَ فَقَالَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ:( فَكَیْفَ نَقُولُ یَا رَسُولَ اللهِ؟)قَالَ: قُولُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الوَكِیلُ(فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِیلُ)

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  کیسے پرسکون ہوجاؤ ں  جبکہ سینگ والے(فرشتے)نے سینگ منہ میں  لے لیاہے ،اپنی پیشانی کوجھکادیاہے اورکان لگائے ہوئے ہے کہ کب اسے حکم دیاجائے پھروہ (صورمیں )پھونک دے!آپ کے ساتھیوں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم کیسے کہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ کہوہمیں  اللہ ہی کافی ہے اوروہ بہت اچھاکارسازہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہاہمیں  اللہ کافی ہے اوروہ بہت اچھاکارسازہے۔ [23]

پہلی قوسین والاجملہ جامع ترمذی میں ،دوسری قوسین والے الفاظ معجم شیوخ ابی بکرالاسماعیلی میں  اورباقی حدیث مسنداحمدکے مطابق ہے۔

جس سے تمام جن وانس اپنی قبروں  سے اسی جسم وجان کے ساتھ زندہ ہوکرمیدان محشرمیں  اپنے اعمال کی جزاکے لئے جمع ہوجائیں  گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَّنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰہُمْ جَمْعًا۝۹۹ۙ [24]

ترجمہ:اور صور پھونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں  کو ایک ساتھ جمع کریں  گے۔

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱ [25]

ترجمہ:پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں  سے نکل پڑیں  گے ۔

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا۝۱۸ۙ [26]

ترجمہ:جس روز صور میں  پھونک مار دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔

اورمنکرین آخرت سے کہاجائے گایہ ہے وہ دن جس کاتجھے خوف دلایاجاتاتھا مگرتواس کے لیے کوئی تیاری نہ کرتاتھا ،اس دن ظالموں  کوعذاب دیاجائے گااورمومنوں  کو ثواب عطا کیا جائے گاجس کااللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیاتھا ۔

 وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِیدٌ ‎﴿٢١﴾‏ لَّقَدْ كُنتَ فِی غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْیَوْمَ حَدِیدٌ ‎﴿٢٢﴾‏ وَقَالَ قَرِینُهُ هَٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیدٌ ‎﴿٢٣﴾‏ أَلْقِیَا فِی جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِیدٍ ‎﴿٢٤﴾‏ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیبٍ ‎﴿٢٥﴾‏ الَّذِی جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَأَلْقِیَاهُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیدِ ‎﴿٢٦﴾‏ (ق)
’’اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا، یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیاپس آج تیری نگاہ بہت تیز ہے، اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا یہ حاضر ہے جو کہ میرے پاس تھا ، ڈال دو جہنم میں ہر کافر سرکش کو جو نیک کام سے روکنے والا حد سے گزر جانے والا اور شک کرنے والا تھا، جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنا لیا تھا پس اسے سخت عذاب میں ڈال دو ۔‘‘

دوفرشتے جن کواللہ تعالیٰ نے ہرشخص کی اوراس کے اعمال کی حفاظت کے لیے مقررکیاہے ہرظالم کومرقدسے اٹھتے ہی گرفتارکرلیں  گے اورپھرانہیں جانوروں  کی طرح ہانک کر میدان محشرمیں  لائیں  گے اوراللہ مالک یوم الدین کی عدالت میں  پہنچ کرنامہ اعمال پیش کرکے عرض کریں  گے یہ شخص جو ہماری سپردگی میں  تھاسرکارکی پیشی میں  حاضر ہے ،

عَنْ یَحْیَى بْنِ رَافِعٍ، مَوْلًى لِثَقِیفٍ قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ یَخْطُبُ فَقَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ {سَائِقٌ وَشَهِیدٌ}قَالَ: سَائِقٌ یَسُوقُهَا إِلَى اللهِ ، وَشَاهِدٌ یَشْهَدُ عَلَیْهَا بِمَا عَمِلَتْ

ثقیف کے مولیٰ یحییٰ بن رافع سے روایت ہے میں  نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کوخطبہ ارشادفرماتے ہوئے سنا انہوں  نے اسی آیت کریمہ’’اس کے ساتھ ایک لانے والاہوگااورایک گواہی دینے والا۔‘‘ کی تلاوت فرمائی انہوں  نے فرمایاکہ ایک چلانے والااسے اللہ کی طرف چلاکرلے جائے گا اوردوسرااس کے اعمال کے بارے میں  گواہی دے گا۔ [27]

اللہ تعالیٰ فرمائے گاآج ہم نے اس پردے کوہٹادیاہے جس نے تیرے دل کوڈھانپ رکھا تھا جس کی بناپرتواپنی روگردانی پر جماہو اتھا مگرآج تیری نگاہیں  بڑی تیزہیں  اورتم میدان محشرکے احوال اورمختلف قسم کے عذاب اورسزاؤ ں  کودیکھ رہے ہوجیسے فرمایا

اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ۝۰ۙ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۳۸ [28]

ترجمہ: جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں  گے اس روز تو ان کے کان بھی خوب سن رہے ہوں  گے اوران کی آنکھیں  بھی خوب دیکھتی ہوں  گے مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں  مبتلا ہیں ۔

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [29]

ترجمہ:کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں  گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے) اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ، ہمیں  اب یقین آگیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اس فردعمل اوراعمال کی گواہی دینے والے فرشتے کی گواہی کی روشنی میں  عدل وانصاف کے تمام تقاضوں  کوپوراکرنے کے بعد فیصلہ فرمائے گا کہ یہ شخص جو خود تودعوت حق کی تکذیب کرنے والا تھاہی مگراس کے ساتھ اپنامال اوراپنی ساری صلاحتیں  وقابلتیں  اوراثررسوخ اس کام میں  صرف کرتاتھاکہ کس طرح دعوت حق کو پھیلنے سے روکا جائے ،ایسے ظالم کوجواپنے ذاتی مفادو اغراض اوردلی خواہشات کی خاطرسب کچھ کرگزرنے کے لئے تیارتھا،جوحرام طریقوں  سے مال سمیٹتااورحرام راستوں  میں  ہی صرف کرتاتھا ، جو لوگوں  کے حقوق پرڈاکا ڈالنے سے نہ چوکتا تھااور اس کی زبان کسی حدکی پابندتھی اور نہ اس کے ہاتھ کسی ظلم وزیادتی سے رکتے تھے،جس کے نزدیک اللہ کی ذات وصفات ، اختیاروحقوق ،رسالت ، ملائکہ ،وحی، کتابیں  اورآخرت الغرض دین کی سب صداقتیں  مشکوک تھیں ،اوریہی شک اوروسوسہ وہ اللہ کے دوسرے بندوں  میں  بھی پھیلاتا پھرتا تھا اوراللہ وحدہ لاشریک کی ذات وصفات ، افعال اورحقوق میں  دوسرے خودساختہ معبودوں  کو شریک ٹھہراتاتھاجوکسی نفع ونقصان،زندگی اورموت اورمرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کاکوئی اختیارنہیں  رکھتے تھے اور فرشتوں کو حکم فرمائے گا تم دونوں  اس ظالم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے سخت ترین عذاب میں  پھینک دو،جس میں  نہ یہ جی سکے گانہ مر سکے گا،جیسے فرمایا

اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [30]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں  وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى۝۱۰ۙوَیَتَجَنَّبُہَا الْاَشْقَى۝۱۱ ۙ الَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى۝۱۲ۚثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [31]

ترجمہ:جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے گا،اور اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بد بخت جو بڑی آگ میں  جائے گاپھر نہ اس میں  مرے گا اور نہ جیے گا ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، عَنْ نَبِیِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: یَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ یَتَكَلَّمُ یَقُولُ: وُكِّلْتُ الْیَوْمَ بِثَلَاثَةٍ: بِكُلِّ جَبَّارٍ، وَبِمَنْ جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَبِمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ، فَیَنْطَوِی عَلَیْهِمْ فَیَقْذِفُهُمْ فِی غَمَرَاتِ جَهَنَّمَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سےمروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآگ سے ایک گردن نکلے گی جوگفتگوکررہی ہوگی اورکہے گی کہ مجھے تین آدمیوں  پرمسلط کردیاگیاہے،ہرجابرسرکش پر ،ہراس شخص پرجواللہ تعالیٰ کے سوااور(بندگان الٰہی)کی عبادت کرے،اورجوناحق کسی انسان کوقتل کرے،یہ آگ ان کوسمیٹ کرجہنم کی ہولناکیوں  میں  گرادے گی ۔ [32]

قَالَ قَرِینُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَیْتُهُ وَلَٰكِن كَانَ فِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ ‎﴿٢٧﴾‏ قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَیَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَیْكُم بِالْوَعِیدِ ‎﴿٢٨﴾‏ مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ ‎﴿٢٩﴾ (ق)
’’اس کا ہم نشین (شیطان) کہے گا اے ہمارے رب ! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا، حق تعالیٰ فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو، میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (وعدہ عذاب) بھیج چکا تھا، میرے ہاں بات بد لتی نہیں نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا ہوں ۔‘‘

وہ شخص اپنی گمراہی کاذمہ دار اپنے شیطان ساتھی کو ٹھہراتے ہوئے کہے گااے میرے رب !تیری نصیحت میرے پاس آچکی تھی مگراس ظالم نے جوہاتھ دھوکرمیرے پیچھے پڑا ہواتھا مجھے گمراہ کرکے چھوڑااس لئے سزاکامستحق یہ ہے ،اوراس کاشیطان ساتھی اس سے بری الذمہ ہوتے ہوئے اوراس کے گناہ کااسی کوذمہ دارٹھہراتے ہوئے کہے گااے میرے رب !میں  نے اسے نہیں  بہکایا تھابلکہ یہ خودہی نیکی سے نفوراورگمراہی پرفریفتہ تھااس لئے تیری پاکیزہ دعوت اسے پسندنہ آئی اوراپنے اختیارسے ہی گمراہ ہوکرحق سے دورہوگیاتھا،مجھے اس پرکوئی زوریا اختیارنہ تھاکہ زبردستی اسے سرکش بنادیتا،میں  نے بغیرکسی دلیل و برہان کے اسے اپنی طرف دعوت دی اور یہ فوراًمیری ترغیبات پر پھسلتا چلا گیا اگریہ تیرامخلص بندہ ہوتاتومیرے بہکاوے میں  ہی نہ آتا،جیسے فرمایا

وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ۝۰ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ اِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۲ [33]

ترجمہ: اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں  نے جتنے وعدے کیے ان میں  سے کوئی بھی پورا نہ کیا ، میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں  نے اس کے سوا کچھ نہیں  کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں  دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبّیک کہا اب مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں  نہ میں  تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں  اور نہ تم میری، اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں  شریک بنا رکھا تھا میں  اس سے بری الذّمہ ہوں ، ایسے ظالموں  کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی آپس کی خصومت کاجواب دیتے ہوئے فرمائے گا جن وانس پر حجت قائم کرنے کے لئے میرے رسول کھلی نشانیاں ،واضح دلائل اورروشن براہین لے کر آئے تھے اورانہوں  نے میری وعیدوں  سے تمہیں  آگاہ کر دیا تھاکہ تم میں  جو بہکائے گاوہ کیا سزا پائے گااورجوبہکے گااسے کیاخمیازہ بھگتناپڑے گا،میری تنبیہ کے باوجودجب تم دونوں  اپنے اپنے حصے کاجرم کرنے سے بازنہ آئے تواب یہاں  عدالت انصاف میں  لڑنے جھگڑنے سے کیاحاصل،اب توتم دونوں  کوسزاملنی ہی ہے ،آج جزاکادن ہے اورمیں  تم دونوں  کوجہنم میں  پھینک دینے کا جو حکم دے چکاہوں  وہ اب بدلہ نہیں  جاسکتا ،میں  اپنے بندوں  پرسرے سے کوئی ظلم نہیں  کرتاکہ بغیرجرم کے جوانہوں  نے نہ کیاہواوربغیرگناہ کے جس کاصدوران سے نہ ہو ا ہو میں  ان کوعذاب دے دوں ؟بلکہ وہ اچھایابراجوعمل کرتے ہیں  اسی کی ٹھیک ٹھیک جزاوسزادیتاہوں  ،ان کی برائیوں  میں  اضافہ کیاجاتاہے نہ ان کی نیکیوں  میں  کمی کی جاتی ہے۔

‏ یَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِیدٍ ‎﴿٣٠﴾‏ وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِینَ غَیْرَ بَعِیدٍ ‎﴿٣١﴾‏ هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِیظٍ ‎﴿٣٢﴾‏ مَّنْ خَشِیَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِیبٍ ‎﴿٣٣﴾‏ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُودِ ‎﴿٣٤﴾‏ لَهُم مَّا یَشَاءُونَ فِیهَا وَلَدَیْنَا مَزِیدٌ ‎﴿٣٥﴾ وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُم بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِی الْبِلَادِ هَلْ مِن مَّحِیصٍ ‎﴿٣٦﴾‏ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیدٌ ‎﴿٣٧﴾‏‏ (ق)
’’جس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کیا تو بھر چکی ؟ وہ جواب دے گی کیا کچھ اور زیادہ بھی ہے ؟ اور جنت پرہیز گاروں کے لیے بالکل قریب کردی جائے گی ذرا بھی دور نہ ہوگی یہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھاہر اس شخص کے لیے جو رجوع کرنے والا اور پابندی کرنے والا ہو، جو رحمان کا غائبانہ خوف رکھتا ہواور توجہ والا دل لایا ہو، تم اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے، یہ وہاں جو چاہیں انہیں ملے گا (بلکہ) ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے، اور اس سے پہلے بھی ہم بہت سی امتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جو ان سے طاقت میں زیادہ تھیں وہ شہروں میں ڈھونڈھتے ہی رہ گئے کہ کوئی بھا گنے کا ٹھکانا ہے، اس میں ہر صاحب دل کے لیے عبرت ہے اور اس کے لیے جو دل متوجہ ہو کر کان لگائےاور وہ حاضر ہو۔‘‘

 متکبروں  کاٹھکانا:

مجرموں  کوجہنم میں  ٹھونس ٹھونس کربھردیاجائے گاکہ اب اس میں  مزیدگنجائش نہ ہوگی،جیسے فرمایا

وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَــَٔــنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۝۱۳ [34]

ترجمہ:(جواب میں  ارشاد ہوگا) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں  نے کہی تھی کہ میں  جہنم کو جنوں  اور انسانوں  سب سے بھر دوں  گا۔

اس وقت اللہ تعالیٰ جہنم کوزبان عطافرماکر اس سے پوچھے گا کیا تو بھرگئی یاابھی کچھ گنجائش ہے؟ مجرموں  پرجہنم کاغیض وغضب پوری طرح بھڑکاہواہوگااوروہ عرض کرے گی اے میرے رب ! اگرچہ میں  بھرگئی ہوں  مگر آج سب مجرموں  کو میرے اندرڈال دےکوئی مجرم چھوٹنے نہ پائے،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا تَزَالُ جَهَنَّمُ یُلْقَى فِیهَا وَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِیدٍ،حَتَّى یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّةِ فِیهَا قَدَمَهُ، فَیَنْزَوِی بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ وَتَقُولُ: قَطْ قَطْ، بِعِزَّتِكَ وَكَرَمِكَ، وَلَا یَزَالُ فِی الْجَنَّةِ فَضْلٌ حَتَّى یُنْشِئَ اللهُ لَهَا خَلْقًا، فَیُسْكِنَهُمْ فَضْلَ الْجَنَّةِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم میں  دوزخیوں  کوڈالاجائے گااوروہ کہے گی کچھ اور بھی ہے ؟یہاں  تک کہ اللہ رب العزت اپناقدم اس میں رکھ دے گاتب وہ سمٹ کرایک میں  ایک راہ جائے گی اور کہنے لگے گی، تیری عزت اورکرم کی قسم ،بس بس، اورجبکہ جنت میں  ابھی خالی جگہ باقی رہ جائے گی یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نئی مخلوق پیدافرمائے گااوروہ وہاں  آبادہوگی۔ [35]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحَاجَّتِ الجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَقَالَتِ النَّارُ: أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِینَ وَالمُتَجَبِّرِینَ، وَقَالَتِ الجَنَّةُ: مَا لِی لاَ یَدْخُلُنِی إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِی أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِی، وَقَالَ لِلنَّارِ: إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِی أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِی، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِلْؤُهَا، فَأَمَّا النَّارُ: فَلاَ تَمْتَلِئُ حَتَّى یَضَعَ رِجْلَهُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ، فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَیُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، وَلاَ یَظْلِمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا، وَأَمَّا الجَنَّةُ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ آپس میں  جھگڑا کریں  گی ،دوزخ کہے گی کہ میں  متکبر اور ظالم لوگوں  کے لئے مخصوص کردی گئی ہوں اور جنت کہے گی کہ مجھ کو کیا ہوگیا ہے کہ مجھ میں  صرف کمزور اور حقیر لوگ داخل ہوتے ہیں ،اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو میری رحمت ہے میں  تیرے ذریعہ سے اپنے بندوں  میں  سے جس کو چاہوں  گا رحمت کروں  گا اور جہنم سے فرمائے گا کہ تو عذاب ہے میں  تیرے ذریعہ سے جن بندوں  کو چاہوں  گا عذاب دوں  گا، اور ان دونوں  میں  سے ہر ایک کے لئے بھرنے کی ایک حد مقرر ہے،لیکن دوزخ نہیں  بھرے گی یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں  اس میں  رکھ دے گا تو وہ کہے گی کہ بس بس،اس وقت دوزخ بھر جائے گی اور ایک حصہ دوسرے حصہ سے مل کر سمٹ جائے گا اور اللہ بزرگ و برتر اپنی مخلوق میں  سے کسی پر ظلم نہیں  کرتا اور جنت کے لئے اللہ تعالیٰ ایک دوسری مخلوق پیدا کرے گا۔ [36]

اورپرہیزگاروں  کے لئے نعمتوں  سے بھری وسیع وعریض جنت کو اتنا قریب کردیاجائے گاکہ جنتیوں  کواس میں  داخل ہونے کے لئے کوئی مسافت طے نہیں  کرنی پڑے گی بلکہ جیسے ہی ان کے حق میں  فیصلہ ہوگاانہیں فی الفور اس میں  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل کردیاجائے گااورکہاجائے گایہی وہ چیزہے جس کاتم سے وعدہ کیاجاتاتھا،ہراس شخص کے لیے جس نے نافرمانی اور خواہشات نفس کی پیروی کاراستہ چھوڑ کرا طاعت اوراللہ کی رضاجوئی کاراستہ اختیارکیااورجواس کی مقررکردہ حدوداوراس کے فرائض کوپور کرنے والا تھا ، جو تنہائی،خلوت میں  بھی بے دیکھے رحمٰن سے ڈرتاتھا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص بھی قیامت کے دن اللہ کے عرش کاسایہ پائے گا جس نےتنہائی میں  اللہ کویادکیا اور(اللہ کی محبت یاخوف سے بے ساختہ)اس کی آنکھوں  سے آنسوجاری ہوگئے۔ [37]

اورجو اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کی نگہداشت کرنے والاتھا ،حکم ہوگاجنت میں  سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ ،جب جنتی اندرداخل ہورہے ہوں  گے توجنت میں  ہرطرف سے فرشتے انہیں  مرحباکہیں  گے اورکہیں  گے جنت کی دائمی نعمتوں  اورمسرتوں  میں  ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ ،جہاں  کبھی موت نہیں  ،جہاں  سے کبھی نکالے جانے کا خطرہ نہیں  ،جہاں  کوئی رنج وغم نہیں اور محنت ومشقت نہیں  ہے اورجنتی اللہ کاشکربجالائیں  گے جس نے اپنی رحمت اورفضل وکرم سے انہیں  جہنم سے بچاکرجنت میں  پہنچایاہے ، وہاں  ان کے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی وہ چاہت کریں  گے ، اور اللہ تعالیٰ ان کے ثواب کوبڑھاتاہی رہے گا۔

لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ ۭ وَلَا یَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ [38]

ترجمہ: جن لوگوں  نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل، ان کے چہروں  پر روسیاہی اور ذلت نہ چھائے گی، وہ جنت کے مستحق ہیں  جہاں  وہ ہمیشہ رہیں  گے ۔

اللہ تعالیٰ انہیں  نعمتوں  پرنعمتیں  عطافرماتاجائے گااوراللہ ان سے پوچھے گاکہ اورکونسی نعمت چاہیے ؟جنتی عرض کریں  گے اے ہمارے رب ! اورکچھ نہیں  چاہیے ،اس پراللہ تعالیٰ فرمائے گاتم نے میری زیارت توابھی تک کی ہی نہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ جنتیوں  کواپنی زیارت کرائے گاتوجنتیوں  کوجنت کی ہرچیزہیچ محسوس ہوگی ،ہم ان سے پہلے بہت سی دعوت حق کی تکذیب کرنے والی قوموں  کوہلاک کرچکے ہیں  جوان لوگوں سے طاقت وقوت اوراسباب ووسائل میں  زیادہ تھیں  اورتجارت وکاروبارکے لیے انہوں  نے دنیاکے ملکوں  کو چھان ماراتھا،انہوں  نے بھی مضبوط قلعے اوربلندعمارتیں  تعمیرکی تھیں  ،انواع واقسام کے باغات لگائے ،نہریں  نکالیں  ،کھیت اگائے اورزمین کوخوب آباد کیا مگر جب وقت مقررہ پران کے عقائدواعمال کے سبب اللہ کاعذاب نازل ہواتوپھروہ اس عذاب سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاسکے ؟اس تاریخ میں  عبرت کاسبق ہے ہر اس شخص کے لیے جوحقائق پرغوروتدبرکرتاہویاجوتباہ شدہ اقوام سے عبرت حاصل کرے ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ‎﴿٣٨﴾‏ فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ‎﴿٣٩﴾‏ وَمِنَ اللَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ‎﴿٤٠﴾ (ق)
’’یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کردیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں ، پس یہ جو کچھ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کریں اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں ، سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے بھی اور رات کے کسی وقت بھی تسبیح کریں اور نماز کے بعد بھی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہ وسیع وعریض تہہ بہ تہہ سات آسمان،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔۔۔۝۳ [39]

ترجمہ:جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے۔

اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۱۵ۙ [40]

ترجمہ:کیا دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے۔

اوراس کے نیچے دہکتاسورج پیداکیا ،جیسے فرمایا

وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا۝۱۳۠ۙ [41]

ترجمہ:اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا ۔

ٹھنڈی اورمیٹھی روشنی والاچاند،انگنت چمکتے ستارے بنائے ،جیسے فرمایا

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ۝۶ۙ [42]

ترجمہ:ہم نے آسمان دنیا کو تاروں  کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۔۔۔ ۝۵ [43]

ترجمہ:ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں  سے آراستہ کیا ہے۔

بے شمارکہکشاؤ ں  کے جھرمٹ،یہ ہموار اور کشادہ زمین اوراس میں  پیوست رنگارنگ پہاڑ،جیسے فرمایا

وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ۝۲۷ [44]

ترجمہ:پہاڑوں  میں  بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں  پائی جاتی ہیں  جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں  ۔

یہ بہتے دریا،پانی کابے بہاذخیرہ سمندر،یہ لاتعدادبحروبر کی مخلوقات اوران سب کاایک مربوط نظام صرف چھ دنوں  (اتوار سے جمعہ تک) میں  پیداکردی ہیں ،اوراتنی بڑی بڑی مخلوقات کوپیداکرکے اللہ تعالیٰ نہ تھک گیااورنہ ہی اسے لاغری لاحق ہوئی نہ لاچاری،

وَقَالَ قَتَادَةُ: قَالَتِ الْیَهُودُ -عَلَیْهِمْ لِعَائِنُ اللهِ-: خَلَقَ اللهُ السموات وَالْأَرْضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ، ثُمَّ اسْتَرَاحَ فِی الْیَوْمِ السَّابِعِ،وَهُوَ یَوْمُ السَّبْتِ، وَهُمْ یُسَمُّونَهُ یَوْمَ الرَّاحَةِ، فَأَنْزَلَ اللهُ تَكْذِیبَهُمْ فِیمَا قَالُوهُ وَتَأَوَّلُوهُ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں  کہ یہودیوں  کاکہناتھااللہ تعالیٰ ان پرلعنت کرے ’’اللہ تعالیٰ نے آسمانوں  اورزمین کوچھ دنوں  میں  پیداکیا۔‘‘اورپھرساتویں  دن یعنی ہفتے کے دن آرام کیا،اوراسے وہ آرام کے دن سے موسوم کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایااورہمیں  کوئی تھکان لاحق نہ ہوئی۔ [45]

پس جواللہ اپنی قدرت عظیم سے اتنی بڑی مخلوقات کو وجود میں  لاسکتاہے اس کے لئے جن وانس اور ایک نئی کائنات کوایک نئے نظام کے ساتھ پیداکردیناکیا مشکل ہے،جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلٰٓی اِنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۳۳ [46]

ترجمہ: اور کیا ان لوگوں  کو یہ سجھائی نہیں  دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے ہیں  اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں  کو جلا اٹھائے ؟ کیوں  نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے ۔

ایک مقام پر فرمایا

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۵۷ [47]

ترجمہ: آسمانوں  اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں ۔

ایک مقام پرفرمایا

ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝۰ۭ بَنٰىهَا۝۲۷۪ [48]

ترجمہ:کیا تم لوگوں  کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اس کو بنایا۔

اگریہ منکرین حق حیات بعدالموت اوراعمال کے حساب کتاب کامذاق اڑاتے ہیں  ،آپ پر جو جلیل القدرکتاب نازل ہوئی ہے اس کی تکذیب کرتے ہیں اورآپ کی مذمت کرتے ہیں ،آپ ان کو نظر اندازکرکے طلوع آفتاب سے پہلے(فجر)غروب آفتاب سے پہلے (ظہر وعصر )رات کے وقت(مغرب وعشا) میں  اپنے رب کی حمدوتسبیح بیان کریں ،کیونکہ اللہ کا ذکرنفس کو سکون عطاکرتااورصبرکوآسان بنادیتاہے ،

عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَیْلَةً یَعْنِی البَدْرَ فَقَالَ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ، كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُّونَ فِی رُؤْیَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُواثُمَّ قَرَأَ: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الغُرُوبِ

جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  موجودتھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندکی طرف نظراٹھائی جبکہ چودھویں  کی رات تھی اورچاندخوب چمک رہاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے رب کو (آخرت میں )اسی طرح دیکھوگے جیسے اس چاندکواب دیکھ رہے ہو،اوراس کے دیکھنے میں  تم کوکوئی زحمت بھی نہیں  ہوگی،پس اگرتم ایسا کر سکتے ہوکہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز(فجر)اورسورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز(عصر)سے تمہیں  کوئی چیزروک نہ سکے توایساضرورکرو،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت’’اوراپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں ،سورج نکلنے سے پہلے بھی اورسورج غروب ہونے سے پہلے بھی۔ کی تلاوت فرمائی۔ [49]

اورنمازسے فارغ ہونے کے بعدبھی نوافل اور ذکر اذکار کریں اوررات کے آخری پہر(تہجد) میں  بھی اللہ کی تسبیح کریں ،یہ زیادتی خاص آپ کے لئے ہے ،آپ کا رب آپ کو مقام محمودمیں  کھڑاکرنے والاہے جیسےفرمایا

وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ۝۰ۤۖ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۝۷۹ [50]

ترجمہ:اور رات کوتہجد پڑھو یہ تمہارے لئے نفل ہے بعید نہیں  کہ تمہارا رب تمہیں  مقام محمود پر فائز کر دے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِینَ أَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَى، وَالنَّعِیمِ الْمُقِیمِ،فَقَالَ:وَمَا ذَاكَ؟قَالُوا: یُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّی، وَیَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَیَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ، وَیُعْتِقُونَ وَلَا نُعْتِقُ، فَقَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَفَلَا أُعَلِّمُكُمْ شَیْئًا تُدْرِكُونَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ وَتَسْبِقُونَ بِهِ مَنْ بَعْدَكُمْ؟ وَلَا یَكُونُ أَحَدٌ أَفْضَلَ مِنْكُمْ إِلَّا مَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضرہوکرعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم مال دارلوگ توبلند درجے اورہمیشگی والی نعمتیں  لوٹ لے گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاہوا؟انہوں  نے عرض کیاوہ ہماری طرح نمازیں  بھی پڑھتے ہیں ،ہماری طرح روزے بھی رکھتے ہیں  ،مگرمال ودولت کی وجہ سے انہیں  ہم پرفوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کرتے ہیں ،عمرہ کرتے ہیں ،جہادکرتے ہیں  ،صدقہ کرتے ہیں ،غلام آزادکرتے ہیں  اورہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں  کونہیں  کرسکتے،ان کی گفتگوسن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں  تمہیں ایسی چیزبتاؤ ں  جسے اگرتم کروتوتم دوسرے لوگوں  سے بازی لے جاؤ گے بجزان کے جو وہی عمل کریں  جوتم کروگے؟

 قَالُوا: بَلَى، یَا رَسُولُ اللهِ ، قَالَ: تُسَبِّحُونَ، وَتُكَبِّرُونَ، وَتَحْمَدُونَ، دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ مَرَّةً،فَرَجَعَ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِینَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: سَمِعَ إِخْوَانُنَا أَهْلُ الْأَمْوَالِ بِمَا فَعَلْنَا، فَفَعَلُوا مِثْلَهُ،فَقَالَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ

انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ضروربتلایئے،فرمایاوہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد ۳۳،۳۳مرتبہ سبحان اللہ اورالحمدللہ اورچونتیس مرتبہ اللہ اکبرکہاکرو،کچھ عرصہ کے بعدپھرمہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اور عرض کی کہ ہمارے مال دار بھائیوں  نے یہ بات بھی سن لی ہے اوروہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں  ، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ تو اللہ کا فضل ہےجسے چاہے عطاء فرمادے۔ [51]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَرَّةٍ یَقُولُ فِی آخِرِ صَلَاتِهِ عِنْدَ انْصِرَافِهِ:سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُونَ، وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلَینَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ

ابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکرجب پلٹتے تھے تومیں  نے آپ کویہ الفاظ کہتے ہوئے سناہےآپ کا رب بڑی عظمت والا اور ان باتوں  سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں  اور سلام ہو پیغمبروں  پر اور تمام خوبیاں  الله ہی کیلئے ہیں  جو تمام عالم کا پروردکار ہے۔ [52]

وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِیبٍ ‎﴿٤١﴾‏ یَوْمَ یَسْمَعُونَ الصَّیْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكَ یَوْمُ الْخُرُوجِ ‎﴿٤٢﴾‏ إِنَّا نَحْنُ نُحْیِی وَنُمِیتُ وَإِلَیْنَا الْمَصِیرُ ‎﴿٤٣﴾‏ یَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَٰلِكَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیرٌ ‎﴿٤٤﴾‏ نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَیْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن یَخَافُ وَعِیدِ ‎﴿٤٥﴾‏ (ق)
’’اور سن رکھیں کہ جس دن ایک پکارنے والا قریب ہی جگہ سے پکارے گا، جس روز اس تند تیز چیخ کو یقین کے ساتھ سن لیں گے یہ دن ہوگا نکلنے کا ،ہم ہی جلاتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، جس دن زمین پھٹ جائے گی اور یہ دوڑتے ہوئے (نکل پڑیں گے)، یہ جمع کرلینا ہم پر بہت ہی آسان ہے، یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ، تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید (ڈراوے کے وعدوں ) سے ڈرتے ہیں ۔‘‘

اسرافیل علیہ السلام جوصورکومنہ سے لگائے حکم الٰہی کے منتظرکھڑے ہیں  ،جس دن اپنے رب کے حکم سے نفخہ ثانیہ پھونکیں  گے تواس ہولناک اورخوف ناک آوازسے زمین پھٹ جائے گی ، اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گاجس سے آنکھ کے جھپکنے میں  مخلوقات کے بدن اگنے لگیں  گے جس طرح کیچڑمیں  پڑاہوادانہ بارش سے اگ جاتاہے،

قَالَ قَتَادَةُ: كُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّهُ یُنَادِی مِنْ صَخْرَةِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ. قَالَ الْكَلْبِیُّ: وَهِیَ أَقْرَبُ الْأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ بِاثْنَیْ عَشَرَ مِیلًا.یَا أَیُّهَا النَّاسُ هَلُمُّوا لِلْحِسَابِ مِنْ مَكانٍ قَرِیبٍ بِحَیْثُ یَصِلُ النِّدَاءُ إِلَى كُلِّ فَرْدٍ مِنْ أَفْرَادِ أَهْلِ الْمَحْشَرِ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بیت المقدس کی چٹان سے صور پھونکا جائے گا، بقول کلبی یہ آسمان سے قریب ترین تقریباً بارہ میل تک کا فاصلہ ہے۔اے لوگو! حساب وکتاب کے لیے چلے آؤ ، یہ آواز ہر فرد اس طرح سنے گا جیسے اس کے قریب سے ہی آواز آرہی ہے۔

وَهُوَ إِسْرَافِیلُ أَوْ جِبْرِیلُ ، وَقِیلَ: إِسْرَافِیلُ یَنْفُخُ، وَجِبْرِیلُ یُنَادِی أَهْلَ الْمَحْشَرِ، وَیَقُولُ: هَلُمُّوا لِلْحِسَابِ،قَالَ مُقَاتِلٌ: هُوَ إِسْرَافِیلُ یُنَادِی بِالْحَشْرِ فَیَقُولُ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ هَلُمُّوا لِلْحِسَابِ مِنْ مَكانٍ قَرِیبٍ

یہ پکارنے والااسرافیل فرشتہ ہوگایاجبرائیل، یہ بھی کہاجاتاہے کہ اسرافیل علیہ السلام صورپھونکیں  گے اورجبرائیل اہل محشرمیں  آوازلگائیں  گے اورکہیں  گے اپنے اعمال کےحساب کتاب کے لئے جمع ہوجاؤ ، مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اسرافیل علیہ السلام میدان حشرمیں  جمع کرنے کے لئے قریب سےپکاریں  گے اورکہیں  گے اے لوگو!اپنے اعمال کے حساب کے لئے جمع ہوجاؤ ۔ [53]

ابتدا پیدا کرنا، پھرلوٹانااورتمام خلائق کوایک جگہ لوٹالانایہ ہمارے لیے بہت آسان ہے ، چنانچہ صورکے آوازپر اولین وآخرین جن وانس اپنے دنیاوی جسم وجان کے ساتھ زندہ ہوکرا پنی قبروں  سے نکل آئیں  گے ،

أَبُو هُرَیْرَةَ، قَالَ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ، وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  اولاد آدم کا سردار ہوں ، اورپہلاشخص ہوں  گاجس سے زمین پھٹے گی،اورمیں سب سے پہلے میں  سفارش کروں  گا اورمیری سفارش ہی سب سے پہلے قبول ہوگی۔ [54]

اورندالگانے والافرشتہ کی پکارہوگی مردواٹھواللہ مالک یوم الدین کے حضورعدالت اورفیصلے کے لئے حاضر ہوجاؤ ، تمام جن وانس پکارنے والے کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے اپنے اعمال کی جزاکے لئے میدان محشرکی طرف تیزتیزدوڑپڑیں  گے ،

مُسْرِعِینَ إِلَى الْمُنَادِی الَّذِی نَادَاهُمْ ذلِكَ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں چنانچہ لو گ اس آوازدینے والےکی طرف دوڑیں  گے جس نے آوازدی ہوگی۔ [55]

جیسے فرمایا

یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۝۵۲ۧ [56]

ترجمہ: جس روز وہ تمہیں  پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکارکے جواب میں  نکل آؤ گے اورتمہاراگمان اس وقت یہ ہوگا کہ بس تھوڑی دیرہی اس حالت میں  پڑےرہے ہیں ۔

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍؚبِالْبَصَرِ۝۵۰ [57]

ترجمہ: اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں  آ جاتا ہے۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۲۸ [58]

ترجمہ: انسانوں  کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھانا تو (اس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔

اس وقت منکرین آخرت اس امرحق کی پکار سن کر جسے وہ دنیامیں  تسلیم کرنے کوتیارنہ تھے ، اور جس کی خبردینے والے پیغمبروں  کاوہ مذاق اڑاتے تھے ایمان لے آئیں  گے کہ آخرت اورحیات بعدالموت بر حق ہے ، جس کی ہمیں  خبردی جاتی تھی اور ہم اسے بعید از عقل وامکان قراردیتے تھے ، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی وتشفی کے لئے فرمایاکہ کفارآخرت کی جوابدہی سے بے خوف ہو کراسلام اورآپ کے خلاف جودل آزارباتیں  کرتے ہیں ،فقرے کستے ہیں ،مذاق اڑاتے ہیں  ان کی قطعا ًپرواہ نہ کریں  اوراپنی ذمہ داری کواحسن اندازسے پوراکرتے رہیں ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ۝۹۷ۙفَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ۝۹۸ۙ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۝۹۹ۧ [59]

ترجمہ:ہمیں  معلوم ہے کہ جوباتیں  یہ لوگ تم پربناتے ہیں  ان سے تمہارے دل کوسخت کوفت ہوتی ہے(اس کاعلاج یہ ہے کہ)اپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کرو،اس کی جناب میں  سجدہ بجالاؤ اوراس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہوجس کاآنایقینی ہے۔

آپ کی دعوت وتذکیرسے وہی نصیحت حاصل کرے گاجواللہ سے اوراس کی وعیدوں  سے ڈرتااوراس کے وعدوں  پریقین رکھتاہوگا،

كَانَ قَتَادَةُ یَقُولُ: اللهُمَّ، اجْعَلْنَا مِمَّنْ یَخَافُ وَعِیدَكَ، وَیَرْجُو مَوْعُودَكَ، یَا بَارُّ، یَا رَحِیمُ

قتادہ رحمہ اللہ یہ دعاکیاکرتے تھے اے اللہ!ہمیں  اپنے ان بندوں  میں  سے بنادے جوتیری وعیدسے ڈرتےاورتیرے وعدے کی امیدرکھتے ہیں  اے احسان کرنے والے!اے رحم فرمانے والے۔ [60]

اورکفارکوتنبیہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجباربناکرنہیں  بھیجاکہ اگرتم اسلام کی حقانیت جاننے کے باوجودمحض بغض وہٹ دھرمی سے اسلام قبول نہ کرنا چاہوتووہ زبردستی تمہیں  اسلام میں  داخل کریں ۔

۔۔۔اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۝۷ۧ [61]

ترجمہ:تم تومحض ڈرانے والے ہوں  اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ اللہ کا کلام بہترین اندازمیں  تم لوگوں  تک پہنچاکرحقیت کو واضح کردیں تاکہ یہ ہوش میں  آکرشیطان کے طاغوتی شکنجے سے نکل کر راہ ہدایت پرگامزن ہوجائیں  ،اگراب بھی یہ نہیں  مانتے تو ہم براہ راست بھی ان لوگوں  کے اعمال جانتے ہیں  اورہمارے معزز کاتبین بھی ٹھیک ٹھیک اعمال نامہ تیار کررہے ہیں  ہم ان سے اچھی طرح نمٹ لیں  گے، ایک وقت مقررہ پرانہیں  یقیناً اپنے اعمال کاخمیازہ بھگتناپڑے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۝۴۰  [62]

ترجمہ:بہرحال تمہارا کام صرف پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہماراکام ہے۔

ثوبان رضی اللہ عنہ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

وَیُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللهِ

ثوبان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ [63]

ثوبان رضی اللہ عنہ کے حسب نسب کے بارے میں  اتناہی معلوم ہے کہ ان کے والدکانام

 جحدر ویقال بجدد وهو من أهل الیمن من حمیر

جحدریا بجددتھااوروہ یمن کے مشہورحمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ خاندان تخت وتاج اور طبل وعلم کامالک رہاتھامعلوم نہیں  کیاافتادپڑی کہ ثوبان رضی اللہ عنہ کوغیروں  کی غلامی اختیارکرنی پڑی ،اسی حالت میں  وہ بارگاہ رسالت میں  پہنچ گئے،

أصابة السبی فأعتقه رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وقال له یا ثوبان إن شئت أتلحق بمن أنت منه فعلت فأنت منهم إن شئت وأن تثبت فأنت منا أهل البیت

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے پرشرافت ونجابت کے آثاردیکھے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادریائے کرم جوش میں  آگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  خریدکر آزاد کر دیا(ہوسکتاہے کسی نے انہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہبہ کردیاہوکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی غلام یاکنیزنہیں  خریدی)اور فرمایا اگرچاہو تو اپنے خاندان میں  چلے جاؤ اوراگرمیرے ساتھ رہنا پسند کروتو میرے گھروالوں  میں  تمہاراشمارہوگا۔ [64]

ثوبان رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے فطرت سعید عطا فرمائی تھی انہوں  نے اپنے خاندان اوروطن پربارگاہ نبوی کوترجیح دی اوربرضاورغبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیارکرنے کے لیےعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  آپ کی خدمت میں  رہوں  گا،

فثبت عَلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ولم یزل معه سفرًا وحضرًا إِلَى حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورجس دن سے وہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن رحمت سے وابستہ ہوئے خلوت وجلوت اورسفروحضرہرحالت میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہےاور وفات تک برابررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے۔ [65]

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نےمیں  اس سے ملتی جلتی روایت اس طرح بیان کی ہے

أن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دعا لأهله، فقلت: أَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَیْتِ ، فقال فی الثالثة: نعم ما لم تقم على باب سدة أو تأتی أمیرا تسأله

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کے لیے دعافرمائی ،میں بھی بارگاہ رسالت میں  حاضرتھا میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  بھی اہل بیت میں  سے ہوں  ؟میں  نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہاں ،جب تک تم کسی امیرکے پاس سائل بن کرنہ جاؤ یاکسی دروازے کی چوکھٹ پرنہ جاؤ ،چنانچہ ثوبان رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد عمر بھر کسی کے سامنے دست سوال درازنہ کیا۔ [66]

انہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدرعقیدت اورمحبت تھی کہ کسی کے منہ سے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کے بجائے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !سننابھی گوارانہ تھا۔

وَعَنْ ثَوْبَانَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ حَبْرٌ مِنْ أَحْبَارِ الْیَهُودِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا مُحَمَّدُ ، فَدَفَعْتُهُ دَفْعَةً، كَادَ أَنْ یُصْرَعَ مِنْهَا فَقَالَ: لِمَ تَدْفَعُنِی؟فَقُلْتُ: أَوَلَا تَقُولُ: یَا رَسُولَ اللهِ؟ فَقَالَ الْیَهُودِیُّ: إِنَّمَا نَدْعُوهُ بِاسْمِهِ الَّذِی سَمَّاهُ بِهِ أَهْلُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اسْمِی مُحَمَّدٌ الَّذِی سَمَّانِی بِهِ أَهْلِی

ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں  کسی جگہ تشریف فرماتھے اورمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی کھڑاتھاکہ ایک یہودی عالم نے آ کر السلام علیک اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کہامجھے یہودی عالم کے اندازتخاطب پرسخت غصہ آیااورمیں  اس کواس زورسے دھکادیاکہ وہ گرتے گرتے بچا، اس نے سنبھل کر پوچھا تم نے مجھے کیوں  دھکادیاہے؟میں  نے اسے کہاتونے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیوں  نہیں  کہا ؟ یہودی عالم بولااس میں  کیاگناہ تھاکہ میں  نے ان کاخاندانی نام لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی نرمی سے فرمایاہاں  میراخاندانی نام محمد ہے ۔ [67]

ثوبان رضی اللہ عنہ نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرحکم کی تعمیل نہایت مستعدی سے کرتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرارشادکوبھی حزرجان بنالیتے تھے اوراپنی ذاتی زندگی میں  بھی اس پرعمل کرنے میں  کوشاں  رہتے تھے ۔

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ یَضْمَنُ لِی خَصْلَةً فَأَضْمَنُ لَهُ الْجَنَّةَ، فَقَالَ ثَوْبَانُ: أَنَا، قَالَ:لَا تَسْأَلْ أَحَدًا شَیْئًاقَالَ: فَكَانَ ثَوْبَانُ یَسْقُطُ سَوْطُهُ فَیَذْهَبُ الرَّجُلُ یُنَاوِلُهُ إِیَّاهُ فَمَا یَأْخُذُهُ مِنْهُ حَتَّى یُنِیخَ بَعِیرَهُ ثُمَّ یَنْزِلُ فَیَأْخُذُهُ.

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص مجھے ایک بات کی ضمانت دے میں  اس کے لیے جنت کی ذمہ داری لیتاہوں ، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس بات کی ضمانت دیتاہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگوں  سے کبھی کوئی سوال نہ کرنا،ارباب سیرکابیان ہے کہ ثوبان رضی اللہ عنہ نے زندگی بھراپنے اس عہدکی شدت سے پابندی کی یہاں  تک کہ اگرسواری کی حالت میں  کوڑا ان کے ہاتھ سے چھوٹ کرزمین پرگرجاتاتوخودسواری سے اترکراسے اٹھاتے تھے اورکسی دوسرے کواس کام کے لیے ہرگز نہ کہتے تھے۔ [68]

اورسنن ابوداودمیں  یہ روایت ثوبان رضی اللہ عنہ سے اس طرح ہے

وَكَانَ ثَوْبَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ یَكْفُلُ لِی أَنْ لَا یَسْأَلَ النَّاسَ شَیْئًا، وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ؟ فَقَالَ ثَوْبَانُ: أَنَا، فَكَانَ لَا یَسْأَلُ أَحَدًا شَیْئًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکون ہے جومجھے یہ ضمانت دے کہ وہ لوگوں  سے کچھ نہیں  مانگے گاتومیں  اس کے لیے جنت کی ضمانت دوں ؟ ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیں  اس کی ضمانت دیتاہوں ،چنانچہ وہ کسی سے کچھ نہ مانگاکرتے تھے۔ [69]

ثوبان رضی اللہ عنہ اپنے آپ کوسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کاغلام کہلانے میں  فخرمحسوس کرتے تھے اورچاہتے تھے کہ دوسرے بھی سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی غلامی کی نسبت سے احترام کریں ۔

قَالَ: شُرَیْحُ بْنُ عُبَیْدٍ: مَرِضَ ثَوْبَانُ بِحِمْصَ وَعَلَیْهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قُرْطٍ الْأَزْدِیُّ، فَلَمْ یَعُدْهُ فَدَخَلَ عَلَى ثَوْبَانَ رَجُلٌ مِنَ الْكَلَاعِیِّینَ عَائِدًا. فَقَالَ لَهُ ثَوْبَانُ: أَتَكْتُبُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ: اكْتُبْ. فَكَتَبَ لِلْأَمِیرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ مِنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ لِمُوسَى وعِیسَى مَوْلًى بِحَضْرَتِكَ لَعُدْتَهُ، ثُمَّ طَوَى الْكِتَابَ وَقَالَ لَهُ: أَتُبَلِّغُهُ إِیَّاهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ. فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ بِكِتَابِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى ابْنِ قُرْطٍ، فَلَمَّا قَرَأَهُ قَامَ فَزِعًا فَقَالَ النَّاسُ: مَا شَأْنُهُ أَحَدَثَ أَمْرٌ، فَأَتَى ثَوْبَانَ حَتَّى دَخَلَ عَلَیْهِ، فَعَادَهُ وَجَلَسَ عِنْدَهُ سَاعَةً، ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ ثَوْبَانُ بِرِدَائِهِ وَقَالَ: اجْلِسْ حَتَّى أُحَدِّثَكَ حَدِیثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ:لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِی سَبْعُونَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَیْهِمْ، وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا

شریح بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں  ایک مرتبہ شہرحمص میں  ثوبان رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے اس زمانے میں  حمص کے گورنر عبداللہ بن قرط ازدی رضی اللہ عنہ تھے وہ ثوبان رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے نہیں  آئے،اسی دوران کلاعیین کا ایک آدمی ثوبان رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آیا تو انہوں  نے اس سے پوچھا کیا تم لکھنا جانتے ہو؟اس نے کہا جی ہاں  !ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا لکھو، چنانچہ اس نے گورنر حمص عبداللہ بن قرط ازدی کے نام خط لکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان کی طرف سے اما بعد!اگر تمہارے علاقے میں  موسیٰ علیہ السلام یا عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی غلام ہوتا تو تم اس کی عیادت کو ضرور جاتے، پھر خط لپیٹ کر فرمایا کیا تم یہ خط انہیں  پہنچا دوگے ؟اس نے حامی بھرلی اور وہ خط لے جا کر عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  پیش کر دیا، وہ خط پڑھتے ہی گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے لوگ جسے دیکھ کر حیرانگی سے کہنے لگے کہ انہیں  کیا ہوا؟ کوئی عجیب واقعہ پیش آیا ہے؟ وہ وہاں  سے سیدھے ثوبان رضی اللہ عنہ کے ہاں  پہنچے گھر میں  داخل ہوئے ان کی عیادت کی اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھ کھڑے ہوئے، ثوبان رضی اللہ عنہ نے ان کی چادر پکڑ کر فرمایا بیٹھ جائیے تاکہ میں  آپ کو ایک حدیث سنا دوں  جو میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار ایسے آدمی جنت میں  ضرور داخل ہوں  گے جن کا کوئی حساب ہوگا اور نہ عذاب اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار افراد مزید ہوں  گے۔ [70]

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: لَمَّا أُنْزِلَتْ {الَّذِینَ یَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ، وَلَا یُنْفِقُونَهَا فِی سَبِیلِ اللَّهِ} [71]

 قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِهِ. فَقَالَ: بَعْضُ أَصْحَابِهِ قَدْ نَزَلَ فِی الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مَا نَزَلَ، فَلَوْ أَنَّا عَلِمْنَا أَیُّ الْمَالِ خَیْرٌ اتَّخَذْنَاهُ فَقَالَ:أَفْضَلُهُ لِسَانًا ذَاكِرًا، وَقَلْبًا شَاكِرًا، وَزَوْجَةً مُؤْمِنَةً تُعِینُهُ عَلَى إِیمَانِهِ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب آیت ’’جو لوگ چاندی اور سونے کو جمع کرتے ہیں  اور اللہ کی راہ میں  خرچ نہیں  کرتے انہیں  ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔‘‘ نازل ہوئی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں  ہم رکاب تھےبعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہایہ آیت صرف سونے چاندی کے بارے میں  نازل ہوئی ہےکاش!ہم کویہ معلوم ہوجاتاکہ کونسامال بہترہے (یعنی سونے چاندی کے سواجن کاحکم اس آیت سے معلوم ہوگیاہے)تواسی کوجمع کریں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سناتوفرمایابہترین مال اللہ کا ذکر کرنے والی زبان ہےاوراللہ تعالیٰ کاشکرکرنے والادل ہےاوروہ مومن بیوی ہے جوشوہرکے دین وایمان کی مددگارہے۔ [72]

عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَائِدُ الْمَرِیضِ فِی مَخْرَفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى یَرْجِعَ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتاہے توبہشت کی میوہ خوری میں  رہتاہے (یعنی بہشت کی میوہ خوری کااہل ہوجاتاہے)جب تک وہ عیادت سے واپس نہ آئے۔ [73]

أن توفی رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فخرج إِلَى الشام، فنزل إِلَى الرملة، وابتنى بها دارًا، وابتنى بمصر دارًا، وبحمص دارًاوشهد فتح مصر ومات بها سنة أربع وخمسین فی خلافة معاویة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد(غالباًعہدفاروقی میں )وہ شام چلے گئے اوررملہ میں  سکونت اختیارکرلی ،امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کومصرکی مہم پر مامور فرمایا توثوبان رضی اللہ عنہ مصرجانے والے مجاہدین میں  شامل ہوگئے اوروہاں  کئی معرکوں  میں  دادشجاعت دی ،مصرسے واپس آکرحمص میں  گھربنالیااوروہیں  مستقل اقامت اختیار کرلی اور ۵۴ہجری میں  امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں حمص میں  وفات پائی۔ [74]

[1] یونس۲

[2] تفسیرطبری۳۲۸؍۲۲

[3] الرعد۲

[4] لقمان۱۰

[5] الملک ۳،۴

[6] الحجر۱۹

[7] الرعد۳

[8] الرعد۳

[9] الذاریات۴۹

[10] المومن۵۷

[11] الاحقاف۳۳

[12] حم السجدة۳۹

[13] العنکبوت۴۰

[14] الروم۲۷

[15] یٰسین ۷۷تا۷۹

[16] الاحقاف۳۳

[17] حم السجدة۳۹

[18]صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سُورَةُ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ۴۹۷۴، صحیح ابن حبان۲۶۷

[19] صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ الخَطَإِ وَالنِّسْیَانِ فِی العَتَاقَةِ وَالطَّلاَقِ وَنَحْوِهِ، وَلاَ عَتَاقَةَ إِلَّا لِوَجْهِ اللهِ۲۵۲۸

[20] الانفطار۹تا۱۲

[21] مسنداحمد ۱۵۸۵۲، جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابٌ فِی قِلَّةِ الكَلاَمِ ۲۳۱۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ كَفِّ اللِّسَانِ فِی الْفِتْنَةِ ۳۹۶۹

[22] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۴۹،وکتاب الرقاق بَابُ سَكَرَاتِ المَوْتِ ۶۵۱۰

[23] جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ ۳۲۴۳،المعجم فی أسامی شیوخ أبی بكر الإسماعیلی۸۷، مسنداحمد۳۰۰۸عن ابن عباس

[24] الکہف۹۹

[25] یٰسین۵۱

[26] النبا۱۸

[27] تفسیرطبری۳۴۸؍۲۲

[28] مریم۳۸

[29] السجدة۱۲

[30] طہ۷۴

[31] الاعلی۱۰تا۱۳

[32] مسنداحمد۱۱۳۵۴

[33] ابراہیم۲۲

[34] السجدہ۱۳

[35] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ قَوْلِهِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِیدٍ۴۸۴۸،وکتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَهُوَ العَزِیزُ الحَكِیمُ، سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمَّا یَصِفُونَ، وَلِلَّهِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ، وَمَنْ حَلَفَ بِعِزَّةِ اللهِ وَصِفَاتِهِ ۷۳۸۴،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ النَّارُ یَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ یَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ۷۱۷۹،السنن الکبری للنسائی ۷۶۷۸، مسنداحمد۱۳۴۵۷

[36] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِیدٍ ۴۸۵۰

[37] صحیح بخاری کتاب الاذان بابُ مَنْ جَلَسَ فِی المَسْجِدِ یَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ ۶۶۰،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ فَضْلِ إِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ ۲۳۸۱، مسند احمد ۹۶۶۵،صحیح ابن حبان ۴۴۸۶،السنن الکبری للنسائی ۵۸۹۰،شرح السنة للبغوی ۴۷۰

[38] یونس۲۶

[39] الملک۳

[40] نوح۱۵

[41] النبا۱۳

[42] الصافات۶

[43] الملک۵

[44] فاطر۲۷

[45] تفسیر طبری۳۷۶؍۲۲،تفسیرابن کثیر ۴۰۹؍۷

[46] الاحقاف۳۳

[47] المومن۵۷

[48] النازعات۲۷

[49] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاة بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ ۵۵۴، صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا۱۴۳۴،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الرُّؤْیَةِ ۴۷۲۹،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی رُؤْیَةِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى۲۵۵۱،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۷۷، مسند احمد ۱۹۱۹۰

[50] بنی اسرائیل۷۹

[51] صحیح بخاری کتاب الاذن بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ۸۴۳،وکتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ بَعْدَ الصَّلاَةِ۶۳۲۹ ،صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَبَیَانِ صِفَتِهِ ۱۳۴۷

[52] مصنف ابن ابی شیبة۳۰۹۷

[53] فتح القدیر۹۶؍۵

[54] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ تَفْضِیلِ نَبِیِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَمِیعِ الْخَلَائِقِ ۵۹۴۰،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی التَّخْیِیرِ بَیْنَ الْأَنْبِیَاءِ عَلَیْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ۴۶۷۳، مسنداحمد۱۰۹۷۲، مصنف ابن ابی شیبة ۳۱۷۲۸،شرح السنة للبغوی ۳۶۲۵

[55] فتح القدیر۹۶؍۵

[56] بنی اسرائیل ۵۲

[57] القمر۵۰

[58] لقمان۲۸

[59] الحجر۹۷تا۹۹

[60] تفسیرابن کثیر۴۱۲؍۷،تفسیرالقرطبی۲۹؍۱۷

[61] الرعد ۷

[62] الرعد۴۰

[63] تاریخ دمشق لابن عساکر۱۶۸؍۱۱

[64] تاریخ دمشق لابن عساکر۱۷۰؍۱۱

[65] اسدالغابة ۴۸۰؍۱، ابن سعد۴۰۰؍۷

[66] الإصابة فی تمییز الصحابة۵۲۸؍۱،التحفة اللطیفة فی تاریخ المدینة الشریفة۲۳۲؍۱

[67] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۳۰۰؍۱،معرفة الصحابة لابی نعیم۵۰۲؍۱

[68] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی ۲۹۹؍۱

[69] سنن ابوداودكِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ كَرَاهِیَةِ الْمَسْأَلَةِ۱۶۴۳

[70] مسنداحمد۲۲۴۱۸

[71] التوبة: 34

[72] مسند احمد ۲۲۳۹۲، جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ۳۰۹۴

[73] صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ فَضْلِ عِیَادَةِ الْمَرِیضِ۶۵۵۱،مسنداحمد۲۲۴۴۵

[74] الإصابة فی تمییز الصحابة۵۲۸؍۱،معجم الصحابة للبغوی۴۱۱؍۱

Related Articles