بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة لقمان

سورۂ کاآغازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزہ یعنی قرآن مجیدکی عظمت کے بیان سے ہوئی ہے جوکہ ہدایت کاربانی دستورہے ،اس کے بارے میں  انسان دوفریقوں  میں  تقسیم ہوگئے،ایک فریق مومنین کاہے جواس صحیفہ ہدایت کی ہربات کی تصدیق کرتے ہیں  اوردوسرافریق کفارہیں جواس کی آیات سن کربربناء تکبرمنہ موڑلیتے ہیں  گویاانہوں  نے کچھ سناہی نہیں  ۔

اس کے بعدباری تعالیٰ نے اپنی قدرت اوروحدانیت کے چاردلائل ذکرفرمائے ہیں ۔

xیہ کہ اس نے بلندوبالاوسیع آسمانوں  کوبغیرکسی ستون کے پیداکیاہے حالانکہ ان میں  روشن ستارے ،چاندوسورج ،سیارے اور کہکشائیں  بھی ہیں ۔

xیہ کہ زمین کاتوازن قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں  کوزمین میں  میخوں  کی طرح گاڑرکھاہے،اگرپہاڑنہ ہوتے تویہ زمین ،ہوااورپانی کی وجہ سے ادھرادھرحرکت کرتی رہتی۔

xیہ کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمارقسم کے حیوانات،مویشی،چوپائے اورحشرات الارض پیداکیے ہیں ،ان کے علاوہ فضاؤ ں  میں  اڑتے پرندے اورسمندروں  میں  رہنے والے ہزاروں  قسم کے جاندارہیں ،جن کی شکلیں  ،رنگتیں  اورخصوصیات تک اللہ کے سواکسی کومعلوم نہیں ،انسان کے عجزکاتویہ حال ہے کہ وہ مکھی اورچیونٹی تک کی مثال نہیں  بناسکتاچہ جائیکہ صاحب فہم وذکاء بولتاچلتاانسان بناسکے۔

xاللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتاہے،جس کے ذریعے سے وہ انسانوں  اورحیوانات کے لیے انواع و اقسام کے پھل،پھول،غلہ جات،جڑی بوٹیاں  اوردرخت اگاتاہے۔

قدیم فلسفی لقمان جوعرب کے شعراء وخطباء میں  مشہور تھاجنہیں  اللہ تعالیٰ نے علم وعقل اور حکمت ودانائی سے نوازاتھاان کے اقوال عبرت ونصیحت کاخزانہ تھے،اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدہ،عبادت،سلوک اوراخلاق سے متعلق پانچ وصیتیں  ذکرفرمائیں جوانہوں  نے اپنے بیٹے کوفرمائی تھیں ۔

وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَیَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ۝۰ۭؔ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۝۱۳

xاے بیٹا!اللہ کے ساتھ شرک نہ کرناکیونکہ شرک بہت بڑاظلم ہے اوراس کاانجام رسواکن ہے،اس کے بعدخوداللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کاحکم فرمایاہے۔

یٰبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۝۱۶

xاے بیٹا!اللہ علیم ،خبیراوربصیرہے اللہ کے علم سے کوئی چیزمخفی نہیں  ہے،گناہ چاہے کتناہی چھوٹاہواورخواہ کیسی ہی پوشیدہ جگہ پرکیاگیاہواللہ تعالیٰ قیامت کے روزجزاکے لیے اسے سامنے لے آئے گا ۔

یٰبُنَیَّ اَقِـمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَكَ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۱۷ۚ

xاے بیٹا!نمازکواپنے اوقات پرکامل طورپراداکرو،لوگوں  کوہرخیرکی دعوت دواورہربرائی سے منع کرواوراس سلسلہ میں  جومصائب وتکالیف پیش آئیں  ان پرصبرکرو۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝۱۸ۚ

xاے بیٹا! لوگوں  سے منہ پھیرکربات نہ،اور نہ اللہ کی زمین پرفخروغرورسے اکڑکر چل،اللہ کسی خودپسنداورفخرجتانے والے شخص کوپسندنہیں  کرتا۔

وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۝۰ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۝۱۹ۧ

xاے بیٹا!اپنی چال میں  میانہ روی اختیارکرواورکلام کرتے وقت اپنی آوازنیچی رکھو،سب آوازوں سے زیادہ بری آوازگدھوں  کی آوازہوتی ہے۔

مشرکین کی تردیدفرمائی کہ کائنات میں  اللہ کی وحدانیت وقدرت کے ہرسوبکھرے دلائل کامشاہدہ کرنے کے باوجودوہ شرک پراصرارکرتے ہیں  حالانکہ اگرخودان سے سوال کیاجائے کہ آسمانوں  اورزمینوں  کوکس نے تخلیق کیاہے ؟تووہ فوراًاللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کااقرارکریں  گے ۔

سورة کے اختتام پرفرمایاکہ پانچ چیزوں  کاعلم صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے۔

xقیامت کب آئے گی؟

xبارش کہاں  اورکتنی برسے گی؟

xماں  کے پیٹ میں  بچہ کن اوصاف کاحامل ہے؟

xموت کب اورکس جگہ پرآئے گی؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچ مغیبات کوغیب کی چابیاں  قراردیاہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں  اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الم ‎﴿١﴾‏ تِلْكَ آیَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِیمِ ‎﴿٢﴾‏ هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِینَ ‎﴿٣﴾‏ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ یُوقِنُونَ ‎﴿٤﴾‏ أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٥﴾(لقمان)
’’ا،ل،م،یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں جو نیکوکاروں کے لیے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے، جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔‘‘

ا،ل،م،قرآن مجیدکی عظمت اورثمرات کاذکرفرمایاکہ یہ حکمت سے لبریزکتاب کی محکم آیات ہیں  ،جوصراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی اورجہنم کے راستوں  سے بچاتی ہے اللہ کی طرف سے محسنین کے لئے سراسررحمت بن کرنازل ہوئی ہے ، جونہایت اخلاص اورخشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ،والدین ،رشتہ داروں  اور مستحقین کے ساتھ احسان کرتے ہیں ،جوہرطرح کی برائیوں  سے اجتناب کرتے اور نیکیوں  کی طرف سبقت کرتے ہیں ،محسنین کی صرف تین اہم صفات کاخاص طورپرذکرفرمایاجوفرض اورنفلی نمازروں  کواپنے پابندی کے ساتھ قائم کرتے ہیں ،فرض اورنفلی زکوٰة دیتے ہیں ،جیسے فرمایا

اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ۝۲۲ۙالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ۝۲۳۠ۙوَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙ [1]

ترجمہ:مگر وہ لوگ (اس عیب سے بچے ہوئے ہیں )جو نماز پڑھنے والے ہیں ،جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں  ، جن کے مالوں  میں  سائل اور محروم کاایک مقرر حق ہے۔ اورکامل یقین رکھتے ہیں  کہ ایک دن انہیں  اللہ کی بارگاہ میں  اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے پیش ہوناہے ، جیسے فرمایا

 فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ۝۰ۙ فَیَقُوْلُ ہَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَہْ۝۱۹ۚاِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ۝۲۰ۚ [2]

ترجمہ:اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں  دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو، پڑھو میرا نامہ اعمال ،میں  سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والاہے۔

وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ۝۶۰ۙ [3]

ترجمہ:اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں  جو کچھ بھی دیتے ہیں  اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں  کہ ہمیں  اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔

اچھے اعمال ہوں  گے تونعمتوں  بھری جنتوں  میں  داخل کیے جائیں  گے اوراگراعمال بدہوئے توجہنم میں  جھونک دیئے جائیں  گے ،جیسے فرمایا

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَہُمْ فِیْ رَوْضَةٍ یُّحْبَرُوْنَ۝۱۵وَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَاۗیِٔ الْاٰخِرَةِ فَاُولٰۗىِٕكَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ۝۱۶ [4]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے ہیں  اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  وہ ایک باغ میں  شاداں  و فرحاں  رکھے جائیں  گے،اور جنہوں  نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کو ملاقات کو جھٹلایا ہے وہ عذاب میں  حاضر رکھے جائیں  گے۔

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ وَیَزِیْدُہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝۰ۚ وَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنْكَفُوْا وَاسْتَكْبَرُوْا فَیُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۔۔۔۝۱۷۳ [5]

ترجمہ: اس وقت وہ لوگ جنہوں  نے ایمان لاکر نیک طرز عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں  گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا، اور جن لوگوں  نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے ان کو اللہ درد ناک سزا دے گا۔

وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ لَہُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ۝۹وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۝۱۰ [6]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائیں  اور نیک عمل کریں  اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں  سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں  بڑا اجر ملے گا،رہے وہ لوگ جو کفر کریں  اور اللہ کی آیات کو جھٹلائیں  تو وہ دوزخ میں  جانے والے ہیں ۔

۔۔۔اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۴ [7]

ترجمہ:بےشک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہےپھر وہی دوبارہ پیدا کرے گاتاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں  نے نیک اعمال کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے ، اور جنہوں  نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پئیں  اور دردناک سزا بھگتیں  اس انکارِحق کی پاداش میں  جو وہ کرتے رہے ۔

اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذٍ لِّلہِ۝۰ۭ یَحْكُمُ بَیْنَہُمْ۝۰ۭ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۝۵۶وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۝۵۷ۧ [8]

ترجمہ:اس روز بادشاہی اللہ کی ہوگی اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا ،جو ایمان رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں  گے وہ نعمت بھری جنتوں  میں  جائیں  گے اور جنہوں  نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہوگا ان کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔

اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی۝۰ۡنُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۹وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۔۔۔۝۲۰ [9]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے ہیں  اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  ان کے لیے تو جنتوں  کی قیام گاہیں  ہیں  ضیافت کے طور پر ان کے اعمال کے بدلے میں ،اور جنہوں  نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

اس لئے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پوری رغبت کے ساتھ اعمال صالحہ اختیارکرتے ہیں ،یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے سیدھے راستے کی طرف گامزن ہیں ،اوریہی سعادت مندلوگ دین ودنیامیں  فلاح اور نجات سے بہرہ ورہوں  گے،جیسے فرمایا

اُولٰۗىِٕكَ عَلٰی ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ [10]

ترجمہ: ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں  اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔

‏ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَهْوَ الْحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِینٌ ‎﴿٦﴾‏ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِ آیَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ یَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِی أُذُنَیْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٧﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِیمِ ‎﴿٨﴾‏ خَالِدِینَ فِیهَا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٩﴾(لقمان)
’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے، جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے، بیشک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کام بھی نیک(مطابق سنت ) کئے ان کے لیے نعمتوں والی جنتیں ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا سچا وعدہ ہے، وہ بہت بڑی عزت و غلبہ والا اور کامل حکمت والا ہے۔‘‘

روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق کفارمکہ کی ساری کوششوں  کے باوجودپھیلتی جارہی تھی تو نضر بن حارث بن علقمہ بن کلدہ بن عبدمناف بن عبدالدربن قصی نے قریشی سرداروں  سے کہا

یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، إنَّهُ وَاَللَّهِ قَدْ نَزَلَ بِكُمْ أَمْرٌ مَا أَتَیْتُمْ لَهُ بِحِیلَةِ بَعْدُ قَدْ كَانَ مُحَمَّدٌ فِیكُمْ غُلَامًا حَدَثًا أَرْضَاكُمْ فِیكُمْ، وَأَصْدَقَكُمْ حَدِیثًا، وَأَعْظَمَكُمْ أَمَانَةً،حَتَّى إذَا رَأَیْتُمْ فِی صُدْغَیْهِ الشَّیْبَ، وَجَاءَكُمْ بِمَا جَاءَكُمْ بِهِ، قُلْتُمْ سَاحِرٌ لَا وَاَللَّهِ مَا هُوَ بِسَاحِرٍ لَقَدْ رَأَیْنَا السَّحَرَةَ وَنَفْثَهُمْ وَعَقْدَهُمْ، وَقُلْتُمْ كَاهِنٌ لَا وَاَللَّهِ مَا هُوَ بِكَاهِنٍ قَدْ رَأَیْنَا الْكَهَنَةَ وَتَخَالُجَهُمْ وَسَمِعْنَا سَجْعَهُمْ، وَقُلْتُمْ شَاعِرٌ لَا وَاَللَّهِ مَا هُوَ بِشَاعِرٍ قَدْ رَأَیْنَا الشِّعْرَ، وَسَمِعْنَا أَصْنَافَهُ كُلَّهَا:هَزَجَهُ وَرَجَزَهُ، وَقُلْتُمْ مَجْنُونٌ لَا وَاَللَّهِ مَا هُوَ بِمَجْنُونٍ لَقَدْ رَأَیْنَا الْجُنُونَ فَمَا هُوَ بِخَنْقِهِ، وَلَا وَسْوَسَتِهِ، وَلَا تَخْلِیطِهِ

اے گروہ قریش تم کوایسامعاملہ درپیش ہے کہ تم اس کودفع کرنے کے واسطے کوئی حیلہ نہیں  کرسکتے، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے اندرایک نوعمرلڑکاتھاتوبہت پسندیدہ ،راست گفتاراورامانت دارتھا پھر جب وہ سن تمیزکوپہنچااوراس کے چہرہ پرتم نے خدوخال کی نمودیکھی اوروہ تمہارے پاس وہ چیزلایاجولایااورتم کہتے لگے کہ یہ جادوگرہے،اللہ کی قسم! وہ جادوگرنہیں  ہےہم نے جادوگروں  کودیکھاہے اوران کی پڑہنت اوران کے گرہیں  لگانے اورجنترمنترسے ہم خوب واقف ہیں ،اورتم نے کہاکہ یہ کاہن ہےپس اللہ کی قسم وہ کاہن بھی نہیں  ہےکاہنوں  کو بھی ہم نے دیکھاہے اوران کی حالت اوران کے قافیوں  کوہم خوب جانتے ہیں ،اورتم نے کہایہ شاعرہے،اللہ کی قسم!وہ شاعربھی نہیں  ہم شعرکی کل اقسام سے بھی ہم واقف ہیں ،ہزج اوررجزوغیرہ سب کوجانتے ہیں ، اورتم نے کہاکہ یہ مجنون ہے، اللہ کی قسم! وہ مجنون بھی نہیں  ہے کیونکہ ہم نےمجنون کوبھی دیکھاہےاورہم آسیب زدہ کے وسوسہ اورتخلیط اورکل علامات سے ہم آگاہ ہیں (ان الزامات میں  سے آخرکونساالزام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرچسپاں  ہوتاہے کہ اس کا یقین دلاکرتم عوام کواس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکوگے)

یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، فَانْظُرُوا فِی شَأْنِكُمْ، فَإِنَّهُ وَاَللَّهِ لَقَدْ نَزَلَ بِكُمْ أَمْرٌ عَظِیمٌ وَكَانَ النَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ مِنْ شَیَاطِینِ قُرَیْشٍ وَمِمَّنْ كَانَ یُؤْذِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَنْصِبُ لَهُ الْعَدَاوَةَ، وَكَانَ قَدْ قَدِمَ الْحِیرَةَ، وَتَعَلَّمَ بِهَا أَحَادِیثَ مُلُوكِ الْفُرْسِ، وَأَحَادِیثَ رُسْتُمَ وَاسْبِنْدِیَارَ فَكَانَ إذَا جَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا فَذَكَّرَ فِیهِ بالله، وَحَذَّرَ قَوْمَهُ مَا أَصَابَ مَنْ قَبْلَهُمْ مِنْ الْأُمَمِ مِنْ نِقْمَةِ اللهِ خَلَفَهُ فِی مَجْلِسِهِ إذَا قَامَ ثُمَّ قَالَ: أَنَا وَاَللَّهِ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، أَحْسَنُ حَدِیثًا مِنْهُ، فَهَلُمَّ إلَیَّ، فَأَنَا أُحَدِّثُكُمْ أَحْسَنَ مِنْ حَدِیثِهِ، ثُمَّ یُحَدِّثُهُمْ عَنْ مُلُوكِ فَارِسَ وَرُسْتُمَ وَاسْبِنْدِیَارَ ، ثمَّ یَقُول: بِمَاذَا مُحَمَّدٌ أَحْسَنُ حَدِیثًا مِنِّی؟

اے گروہ قریش!تم اپنی حالت پرغورکروکیونکہ اللہ کی قسم ایک امرعظیم تم پرنازل ہواہے،(راوی کہتا ہے ) یہ نضربن حرث شیاطین قریش میں  سے تھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذادہی اور عداوت میں  نہایت کوشش کیاکرتاتھا،(چنانچہ دعوت حق کا مقابلہ کرنے کے لئے)اس نےشہرحیرہ میں  جاکرشاہان عجم اور رستم اوراسفندیارکے قصے سیکھےاورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ وعظ فرماتے اورلوگوں  کوعذاب الٰہی سے ڈراتے اورپہلی امتوں  پر نزول عذاب کاذکرکرتےتوپھرآپ کے تشریف لے جانے کے بعدیہ ان لوگوں  میں  بیٹھ جاتا اورکہتاکہ اے قریش ! میں  تم کوان قصوں  سے زیادہ عجیب وغریب اورلطف انگیزقصت سناتاہوں  جومحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے تم کوسنائے ہیں  اورشاہان فارس کی حکائتیں  نقل کرتااورکہتاکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی گفتگوکس بات میں  مجھ سے اچھی ہے؟۔ [11]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر مزید اضافہ کیاہے کہ نضرنے اس مقصدکے لئے گانے والی لونڈیاں  بھی خریدی تھیں  ،جس کے متعلق وہ سنتاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں  سے متاثرہورہاہے اس پراپنی ایک لونڈی مسلط کر دیتا اوراس سے کہتا کہ اسے خوب کھلاپلااورگاناسناتاکہ تیرے ساتھ مشغول ہوکراس کادل ادھرسے ہٹ جائے ۔

لہوولعب،موسیقی اورلغوباتیں :

چنانچہ اہل شقاوت کابیان فرمایاکہ اورانسانوں  ہی میں  سے کوئی ایسابھی ہیں  جوہدایت اوررحمت کوچھوڑکراپنامال خرچ کرکے لہو الحدیث خرید کرلاتاہے تاکہ لوگوں  کواللہ کے راستہ سے گمراہ کردے مگروہ نہیں  جانتاکہ کتنی انمول چیزکو چھوڑ کر وہ تباہ کن چیزکاسوداکررہاہے ،اس آیت کے ذیل میں  مفسرین و محدثین نے لہوالحدیث سے آلات مزامیر (گانے بجانے کے آلات)اوران حکایات اورکہاوتوں  کوشمارکیاہے جن کی لذت وسرورمیں  عام انسان بہ جاتااوراحکام الٰہی سے دور ہوجاتاہے،

سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ عَنْ قَوْلِهِ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَهْوَ الْحَدِیثِ،قَالَ:هُوَ وَاللهِ الْغِنَاءُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیااللہ تعالیٰ کے قول ’’اوربعض لوگ ایسے بھی ہیں  جولغوباتوں  کومول لیتے ہیں ۔‘‘ سے کیا مرادہے ؟انہوں  نے تین مرتبہ قسم کھا کرفرمایااللہ کی قسم! اس سے مراد گانااور راگ وراگنیاں  ہیں ۔ [12]

اسی سے ملتے جلتے اقوال عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، مجاہد،عکرمہ،سعیدبن جبیر،حسن بصری رحمہ اللہ اورمکحول سے مروی ہیں  ،

وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ:أُنْزِلَتْ هذه الآیة: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَهْوَ الْحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ،فِی الْغِنَاءِ وَالْمَزَامِیرِ

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت ’’اوربعض لوگ ایسے بھی ہیں جولغوباتوں  کومول لیتے ہیں  کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں  کواللہ کی راہ سے بہکائیں ۔‘‘گانے بجانے ،باجوں  گاجوں  کے بارے میں  اتری ہے۔ [13]

وَقِیلَ: عَنَى بِقَوْلِهِ: {یَشْتَرِی لَهْوَ الْحَدِیثِ} : اشْتِرَاءَ الْمُغَنِّیَاتِ مِنَ الْجَوَارِی.

ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’لغوباتوں  کومول لیتے ہیں ۔‘‘سےمرادگانے والی لونڈیوں  کی خریداری ہے۔ [14]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَحِلُّ بَیْعُ الْمُغَنِّیَاتِ وَلَا شِرَاؤُهُنَّ وَلَا تِجَارَةٌ فِیهِنَّ، وَأَكْلُ أَثْمَانِهِنَّ حَرَامٌ

ابو امامہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگانے والیوں  کی خریدوفروخت حلال نہیں  اوران کی قیمت کاکھاناحرام ہے۔ [15]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ الْبَاهِلِیِّ، قَالَ: سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لا یحلّ تَعْلِیمُ المُغَنِّیاتِ، وَلا بَیْعُهُنَّ وَلا شِرَاؤُهُنَّ، وَثمَنُهُنَّ حَرامٌ

ابو امامہ الباھلی سے ایک اورروایت میں ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ لونڈیوں  کو گانے بجانے کی تعلیم دینااوران کی خریدوفروخت کرناحلال نہیں  ہے اوران کی قیمت حرام ہے۔ [16]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ جَلَسَ إِلَى قَیْنَةٍ یَسْمَعُ مِنْهَا صُبَّ فِی أُذُنِهِ الْآنُكُ یَوْمَ الْقِیَامَةِمَنْ جَلَسَ إِلَى قَیْنَةٍ یَسْمَعُ مِنْهَا صُبَّ فِی أُذُنِهِ الْآنُكُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص گانے والی لونڈی کی مجلس میں  بیٹھ کراس کاگاناسنے گاتوقیامت کے روزاس کے کان میں  پگھلا ہوا سیسہ ڈالاجائے گا۔ [17]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: بَیْنَا نَحْنُ نَسِیرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ إِذْ عَرَضَ شَاعِرٌ یُنْشِدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُذُوا الشَّیْطَانَ، أَوْ أَمْسِكُوا الشَّیْطَانَ لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَیْحًا خَیْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مقام عرج(مدینہ منورہ سے ۷۸میل پرایک گاؤ ں ) کی طرف جا رہے تھے کہ ایک شاعر شعر پڑھتے ہوئے نکلا تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایااس شیطان کو پکڑو یا فرمایااس شیطان کو (اس کام سے)روکو،اگرکسی آدمی کا پیٹ پیپ سے بھراہوتویہ اس بات سے بدرجہابہترہے کہ اس کا پیٹ (دماغ)شعروں سے بھراہو۔ [18]

فَقَالَ:لَیَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی الْخَمْرَ یُسَمُّونَهَا بِغَیْرِ اسْمِهَا، یُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ، یَخْسِفُ اللهُ بِهِمْ الْأَرْضَ، وَیَجْعَلُ مِنْهُمْ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیرَ

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری امت کے کچھ لوگ شراب کانام بدل کراسے پئیں  گے ،سازوں  کی دھنوں  اورمغنیاؤ ں  کے گیتوں  سے ان کی تفریح کاسامان کیاجائے گااللہ تعالیٰ انہیں (اس جرم کی وجہ سے)زمین میں  دھنسادے گا (جو باقی رہ گئے)ان میں  سے بعض کوبندراوربعض کوخنزیربنادے گا۔ [19]

حَدَّثَنِی أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِیُّ، وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِی:سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَیَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ، یَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِیرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ، وَلَیَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ، یَرُوحُ عَلَیْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ، یَأْتِیهِمْ یَعْنِی الفَقِیرَ لِحَاجَةٍ فَیَقُولُونَ: ارْجِعْ إِلَیْنَا غَدًا، فَیُبَیِّتُهُمُ اللهُ، وَیَضَعُ العَلَمَ، وَیَمْسَخُ آخَرِینَ قِرَدَةً وَخَنَازِیرَ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ

ابوعامر رضی اللہ عنہ یاابومالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب میری امت میں  ایسی قوم پیدا ہوگی جو زنا ، ریشم ، شراب اور سازباجوں  کو حلال سمجھے گی اور (اس طرح کے)کچھ لوگ ایک پہاڑ کے دامن میں  فروکش ہوں  گے اور جب شام کوان کے چرواہے اپنا ریوڑ لے کر واپس ہوں  گی اس وقت ان کے پاس فقیر کسی ضرورت کی بنا پر آئے گا تو کہیں  گے کہ کل صبح ہمارے پاس آنا(سازباجوں  کوجائزاورحلال سمجھنے والے لوگ مزے سے شب وروزگزاررہے ہوں  گے کہ) اللہ تعالیٰ انہیں  رات ہی کو ہلاک کردے گا اور پہاڑ کو(ان پر) گرا دے گا(جوانہیں  کچل ڈالے گا)اور باقی کو بندر اور سور کی شکل میں  مسخ کردے اور قیامت تک اسی حال میں  رہیں  گے۔ [20]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَیَّ، أَوْ حُرِّمَ الْخَمْرُ، وَالْمَیْسِرُ، وَالْكُوبَةُ قَالَ:وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ قَالَ سُفْیَانُ: فَسَأَلْتُ عَلِیَّ بْنَ بَذِیمَةَ عَنِ الكُوبَةِ، قَالَ: الطَّبْلُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ اللہ نے شراب جوااورڈھولک حرام فرمائے ہیں  اورہرنشہ آورچیزحرام ہے ،سفیان نے کہامیں  نے (اپنے استاد)علی بن بذیمہ سے پوچھاکہ کوبہ کسے کہتے ہیں  ؟توفرمایاطبل(ڈھولک)کوکہتے ہیں ۔ [21]

عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ رَبِّی حَرَّمَ عَلَیَّ الْخَمْرَ، وَالْكُوبَةَ، وَالْقِنِّینَ

قیس بن سعدبن عبادہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًمیرے رب تبارک وتعالیٰ نے مجھ پرشراب ،ڈھولک اورطنبورہ(تونبہ) حرام فرما دیئے ۔ [22]

وَذَكَرَ أَبُو الطَّیِّبِ طَاهِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الطَّبَرِیُّ قَالَ: أَمَّا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فَإِنَّهُ نَهَى عَنِ الْغِنَاءِ وَعَنِ اسْتِمَاعِهِ، وَقَالَ: إِذَا اشْتَرَى جَارِیَةً وَوَجَدَهَا مُغَنِّیَةً كَانَ لَهُ رَدُّهَا بِالْعَیْبِ،

ابوالطیب طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں گانے کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ کاکہناہے کہ وہ اس سے اوراس کے سننے سے منع کرتے ہیں  ،نیزکہتے ہیں  کہ اگرکسی نے کوئی لونڈی خریدی بعدمیں  پتہ چلاکہ یہ توگلوکارہ ہے توخریداراس کے عیب کی وجہ سے لوٹاسکتاہے(یعنی امام صاحب کے نزدیک گلوکارہوناعیب ہے)۔ [23]

قَالَ أَبُو الطَّیِّبِ الطَّبَرِیُّ:وَأَمَّا مَذْهَبُ أَبِی حَنِیفَةَ فَإِنَّهُ یَكْرَهُ الْغِنَاءَ مع إباحته شرب النبیذ، ویجمل سَمَاعَ الْغِنَاءِ مِنَ الذُّنُوبِ. وَكَذَلِكَ مَذْهَبُ سَائِرِ أَهْلِ الْكُوفَةِ: إِبْرَاهِیمَ وَالشَّعْبِیِّ وَحَمَّادٍ وَالثَّوْرِیِّ وَغَیْرِهِمْ، لَا اخْتِلَافَ بَیْنَهُمْ فِی ذَلِكَ

ابوالطیب طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کایہ قول ہے کہ موسیقی حرام ہے حالانکہ وہ نبیذپینے کی اجازت دیتے ہیں  لیکن وہ گاناسنناگناہ بتاتے ہیں  یہی کوفہ کے تمام علمامثلاً ابراہیم نخعی،امام شعبی رحمہ اللہ ،حمادبن زید اور سفیان ثوری کاقول ہے تمام کے تمام اس بات پرمتفق ہیں ۔ [24]

قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى : فِی الرَّجُلِ یُغَنِّی فَیَتَّخِذُ الْغِنَاءَ صِنَاعَتَهُ یُؤْتَى عَلَیْهِ وَیَأْتِی لَهُ، وَیَكُونُ مَنْسُوبًا إلَیْهِ مَشْهُورًا بِهِ مَعْرُوفًا، وَالْمَرْأَةُ، لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ وَاحِدٍ مِنْهُمَا

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ جوشخص گاناگاتاہے اس کا ذریعہ معاش یہی ہوتاہے لوگ اس سلسلہ میں  اس کے پاس آتے اوروہ گانے کے لیے بلایاجاتاہے اس کی طرف گلوکارکی نسبت کی جاتی اوراسی سے وہ پہچاناجاتاہے ایسے ہی اگر کوئی عورت ہے توان دونوں  کی گواہی قابل قبول نہیں ۔ [25]

قَالَ یَزِیدُ بن الولید الناقص:یَا بَنِی أُمَیَّةَ إِیَّاكُمْ وَالْغِنَاءَ فَإِنَّهُ یُنْقِصُ الْحَیَاءَ وَیَزِیدُ فِی الشَّهْوَةِ وَیَهْدِمُ الْمُرُوءَةَ، وَإِنَّهُ لَیَنُوبُ عَنِ الْخَمْرِ وَیَفْعَلَ مَا یَفْعَلُ الْمُسْكِرُ، فَإِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ فَاعِلِینَ فَجَنِّبُوهُ النِّسَاءَ فإنه داعیة الزنا

یزیدبن ولید رحمہ اللہ کاقول ہےاے بنوامیہ!راگ سے دوررہوکیونکہ اس سے شرم وحیاختم ہوجاتی ہے جنسی ہیجان بڑھتاہے وقاروعزت ختم ہوتی ہے اورشراب سے پیداہونے والی قباحتیں  راگ سے بھی پیداہوتی ہیں  اوراگرتم اس قباحت سے بازنہیں  آسکتے توکم ازکم یہ ضرورکروکہ تمہاراراگ عورتوں  کے کانوں  تک نہ پہنچے کیونکہ یہ زناکازبردست سبب ہے۔ [26]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ اللهَ تَعَالَى یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: (أَیْنَ عِبَادِی الَّذِینَ كَانُوا یُنَزِّهُونَ أَنْفُسَهُمْ وَأَسْمَاعَهُمْ عَنِ اللهْوِ وَمَزَامِیرِ الشَّیْطَانِ أَحِلُّوهُمْ رِیَاضَ الْمِسْكِ وَأَخْبِرُوهُمْ أَنِّی قَدْ أَحْلَلْتُ عَلَیْهِمْ رِضْوَانِی

محمدبن منکدر رحمہ اللہ کاقول ہےہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گامیرے وہ بندے کہاں  ہیں  جوخودکویعنی اپنے کانوں  کو گانوں  اورشیطانی سازباجوں  سے بچایاکرتے تھے انہیں  مشک عنبرکے باغات میں  اتارواورانہیں  یہ مسرت افزاپیام سنادوکہ میں  ان پرہمیشہ ہمیشہ کے لیے خوش ہوگیا ہوں  ۔ [27]

اورجوشخص راگ کارسیاہے اس کے بارے میں  امام شافعی رحمہ اللہ کافتوی ہے

(قَالَ):وَهَكَذَا الرَّجُلُ یَغْشَى بُیُوتَ الْغِنَاءِ، وَیَغْشَاهُ الْمُغَنُّونَ إنْ كَانَ لِذَلِكَ مُدْمِنًا، وَكَانَ لِذَلِكَ مُسْتَعْلِنًا عَلَیْهِ مَشْهُودًا عَلَیْهِ فَهِیَ بِمَنْزِلَةِ سَفَهٍ تُرَدُّ بِهَا شَهَادَتُهُ

(اورفرمایا)اورایسے ہی وہ شخص جوان مقامات پرجاتاہے جہاں  راگ کی محفلیں  ہوتی ہیں  اورگویوں  سے اس کی دوستی ہے وہ اس کے گھرآتے ہیں  وہ اس کاعادی ہے ،سرعام ایساکرتاہے ،سب لوگوں  کواس کاعلم ہے تویہ بھی اس قسم کاعیب ہے جیسے حماقت اوراس طرح کے آدمی کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ۔ [28]

فرمایا وہ یہ سب جدوجہد اس لئے کررہاہے تاکہ وہ قرآن کی دعوت کوہنسی ٹھٹھوں  میں  اڑاکر لوگوں  کوحق مبین اورصراط مستقیم سے روک دے ،اس کو جب ہماری ہدایت سے لبریز آیات سنائی جاتی ہیں  تاکہ وہ ان پرایمان لائے اوران کی اطاعت کرے تووہ تکبرکے ساتھ اس طرح اپناچہرہ پھیر لیتاہے گویاکہ اس نے انہیں  سناہی نہیں  گویاکہ اس کے کان بہرے ہیں ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اسے اللہ کے دین اوراس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کے جرم میں  دردناک عذاب کی بشارت سنادو،جیسے فرمایا

یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللہِ تُتْلٰى عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا۝۰ۚ فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۸ [29]

ترجمہ:جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں  اور وہ ان کو سنتا ہےپھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اس طرح اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں ، ایسے شخص کو درد ناک عذاب کا مژدہ سنا دو ۔

البتہ جولوگ ایمان لے آئیں  اور نیک عمل کریں  ان کے لئے نعمت بھری جنتیں  ہیں  جن میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے ، یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی اورجس میں  تغیروتبدل ممکن نہیں  ہے، اور وہ کامل غلبے اور کامل حکمت کامالک ہے۔

‏ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَنْ تَمِیدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِیهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِیهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیمٍ ‎﴿١٠﴾‏ هَٰذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِی مَاذَا خَلَقَ الَّذِینَ مِنْ دُونِهِ ۚ بَلِ الظَّالِمُونَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ‎﴿١١﴾‏(لقمان)
’’اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انھیں دیکھ رہے ہو، اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وہ تمہیں جنبش نہ دے سکےاور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے، اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے، یہ ہے اللہ کی مخلوق، اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ، (کچھ نہیں ) بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں ۔‘‘

شرک کی تردیداوردعوت توحیددیتے ہوئے فرمایااللہ تعالیٰ نے بلندوبالاساتوں  آسمانوں  کوبغیرستونوں  کے پیداکیا،یاایسے ستونوں  پرقائم کیاہے جوتم کونظرنہیں  آتے ،

قَالَ الْحَسَنُ وَقَتَادَةُ: لَیْسَ لَهَا عَمَد مَرْئِیَّةٌ وَلَا غَیْرُ مَرْئِیَّةٍ

حسن بصری رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ آسمانوں  کے نظرآنے والے یانظرنہ آنے والے کوئی ستون نہیں  ہیں ۔ [30]

اللہ نے بلند و بالا ٹھوس پہاڑوں  کومیخوں  کی طرح زمین میں  گاڑدیا تاکہ زمین کی گردش اوررفتارمیں  انضباط پیداہو ،اللہ نے وسیع وعریض زمین میں  تمام اصناف کے جانور ہر طرف پھیلادیے جنہیں  تم کھاتے بھی ہے ،سواری اورباربرداری کے لئے استعمال کرتے ہو اور بطورزینت اورآرائش کے لئے بھی پاس رکھتے ہو ، اوراللہ ہی آسمان سے پانی برساتا ہے اورمردہ پڑی زمین میں  ہر قسم کی عمدہ چیزوں  کے جوڑے اگادیتاہے،آسمان وزمین اور ان کے درمیان جوکچھ ہے ان کو تو اللہ نے تخلیق کیا ہے،اب ذرااللہ کو ان چیزوں  کے نام توبتلاؤ دکھاؤ جن کوتمہارے خودساختہ معبودوں نے تخلیق کیاہے؟جن کی تم پرستش کرتے ہو، جنہیں اپنے نفع یانقصان کامالک سمجھتے اورمشکلات اورپریشانیوں  میں  مدد کے لئے پکارتے ہو ، جب تم تسلیم کرتے ہو کہ کائنات کاخالق صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہےاورکائنات کاتمام نظام بھی وہی چلارہاہے،آسمان وزمین سے رزق بھی وہی دیتاہے اورکوئی ہستی ان کاموں  میں  اس کی شریک نہیں  ہے تو عبادت کامستحق بھی صرف وہی ہوسکتا ہے ،اس کے سواکائنات میں  کوئی ہستی اس لائق نہیں  کہ اس کی عبادت کی جائے اور مددکے لئے پکاراجائے ،اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں  پڑے ہوئے ہیں کیونکہ اللہ کوچھوڑکر ایسی ہستیوں  کی پرستش کرتے ہیں  جو کسی نفع کی مالک ہیں  نہ نقصان کی ،جیسے فرمایا

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ۔۔۔۝۱۸ [31]

ترجمہ:یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں  جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں  نہ نفع ۔

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَنْفَعُہُمْ وَلَا یَضُرُّہُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَہِیْرًا۝۵۵ [32]

ترجمہ:اس اللہ کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں  جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں  نہ نقصان اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں  ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔

جن کے قبضہ قدرت میں  زندگی ہے نہ موت اورنہ وہ مرنے کے بعددوبارہ اٹھانے پرقادرہیں ،جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [33]

ترجمہ:لوگوں  نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں  کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں  ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں  نہ جلا سکتے ہیں ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں  ۔

وَلَقَدْ آتَیْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَنْ یَشْكُرْ فَإِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ ‎﴿١٢﴾‏ وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ یَعِظُهُ یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ ‎﴿١٣﴾‏ وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْكُرْ لِی وَلِوَالِدَیْكَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ ‎﴿١٤﴾‏ وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَنْ تُشْرِكَ بِی مَا لَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ۚ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٥﴾‏ یَا بُنَیَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِی صَخْرَةٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ ‎﴿١٦﴾‏ یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ‎﴿١٧﴾‏ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ‎﴿١٨﴾‏ وَاقْصِدْ فِی مَشْیِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیرِ ‎﴿١٩﴾‏(لقمان)
’’اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر کر، ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے، جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے، اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے ! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے،ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا ،اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے، کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہو ، تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا، پیارے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہوپھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا، اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے،اے میرے پیارے بیٹے ! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا، اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے، لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اکڑ کر نہ چل، کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا، اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے لقمان کوعقل وفہم اور دینی بصیرت میں  ممتازمقام عطافرمایاتھاتاکہ وہ الله تعالیٰ کی نعمتوں  پراس رب کی حمدوثنا اوراس کے احکامات کی فرمانبرداری کریں ، اور بیشک جوبھی رب کی عطاکردہ نعمتوں  پر شکر اوراس کے احکام کی فرمابرداری کرتا ہے اس کافائدہ بھی اسی کو ہوتا ہے،اس کے شکر اورفرمانبرداری کی بدولت الله تعالیٰ اسے اپنی اورنعمتوں  سے نوازتاہے،جیسے فرمایا

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ۝۷ [34]

ترجمہ:اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں  تم کو اور زیادہ نوازوں  گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

اس کے درجات بلند کرتاہے ،جس سے اس بندے کے دل میں  رب کی عظمت بڑھتی ہے ،اس کے ڈرو خوف سے اس کے اعمال ٹھیک رہتے ہیں  اورجس سے وہ بندہ روزقیامت رب کی بخشش کا امیدوار بن جاتاہے اور جو شخص رب کی نعمتوں  کی ناشکری کرتاہے تووہ رب کی رحمتوں  سے دورایک دنیا داربندہ بن جاتا ہے ،ابلیس اس کا دوست ہوتاہے اور وہ بندہ اپنی خواہشوں  کے پیچھے دیوانہ واربھاگتا رہتا ہے اورانجام کارموت کے منہ میں  پہنچ جاتاہے اور قیامت کے روزاس کے پلے کچھ بھی نہیں  ہوگا ،اس پر غفوررحیم رب غضبناک ہوگا اور جہنم اس کاٹھکانہ بنے گی الغرض لوگوں  کو جان لیناچاہیے کہ رب العالمین اس کے شکرکرنے یانہ کرنے سے بے نیازاوراپنی ذات میں  آپ محمود ہے ،جب حکیم لقمان فوت ہونے لگے تو اپنی اولادکووصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹے ! الله تعالیٰ کی ذات وصفات اورافعال میں  کسی کوبھی شریک نہ کرنا ، بیشک اللہ کی ذات وصفات اورافعال میں  کسی غیر کو شریک ٹھہرانا ظلم عظیم ہے،یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بندے کے تمام گناہوں  کوبخش دے گا مگر اس جرم عظیم کوکبھی معاف نہیں  فرماے گا، اللہ کے حکم سے توحیدوعبادت الٰہی کے ساتھ والدین کی فرمانبرداری کرنا،ان سے نرمی وشفقت سے پیش آنا،جیسےفرمایا

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَـمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۝۲۴ۭ [35]

ترجمہ:تیرے رب نے فیصلہ کردیاہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرومگرصرف اس کی،والدین کے ساتھ نیک سلوک کرواگرتمہارے پاس ان میں  سے کوئی ایک یا دونوں  بوڑھے ہوکررہیں  توانہیں  اف تک نہ کہو،نہ انہیں  جھڑک کرجواب دوبلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرواورنرمی اوررحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کررہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگاران پررحم فرماجس طرح انہوں  نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں  پالاتھا۔

تمہاری ماں  نے تمہیں ضعف پرضعف اٹھاکرپیٹ میں  رکھا اورجب تم کوئی ٹھوس چیزنہیں  کھاسکتے تھے اس نے دوبرس تک تمہیں  دودھ پلایا،جیسے فرمایا

وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ۔۔۔۝۰۝۲۳۳ [36]

ترجمہ:جوباپ چاہتے ہوں  کہ ان کی اولادپوری مدت رضاعت تک دودھ پیے تومائیں  اپنے بچوں  کوکامل دوسال دودھ پلائیں ۔

اوراٹھائے اٹھائے پھرتی رہی لیکن اگروہ تمہیں  اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرانے کا حکم دیں  تو اس حکم کوتسلیم نہ کرو آخرتم سب کو ایک وقت اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوکرجوابدہی کرنے ہے ،

سعدبن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ یہ آیت میرے بارے میں  نازل ہوئی ہے،میں  اپنی ماں  کی بہت خدمت کیاکرتاتھا اور ان کاپورااطاعت گزارتھا،جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت دی تومیری والدہ مجھ پربہت بگڑیں  ،

قَالَتْ: یَا سَعْدُ، مَا هَذَا الَّذِی أَرَاكَ قَدْ أَحْدَثْتَ؟ لَتَدَعَنّ دِینَكَ هَذَا أَوْ لَا آكُلُ وَلَا أَشْرَبُ حَتَّى أَمُوتَ، فَتُعَیَّر بِی،فَیُقَالُ:یَا قَاتِلَ أُمِّهِ،فَقُلْتُ: لَا تَفْعَلِی یَا أمَه، فَإِنِّی لَا أَدْعُ دِینِی هَذَا لِشَیْءٍ ، فمكثتْ یَوْمًا وَلَیْلَةً لَمْ تَأْكُلْ فَأَصْبَحَتْ قَدْ جَهِدَتْ، فمكثتْ یَوْمًا آخَرَ وَلَیْلَةً أُخْرَى لَا تَأْكُلْ، فأصبحتْ قَدِ اشْتَدَّ جُهْدُهَا فَلَمَّا رَأَیْتُ ذَلِكَ قُلْتُ: یَا أُمَّهْ، تَعْلَمِینَ وَاللهِ لَوْ كَانَتْ لكِ مِائَةُ نَفْسٍ فخَرجت نَفْسا نَفْسًا، مَا تَرَكْتُ دِینِی هَذَا لِشَیْءٍ فَإِنْ شِئْتِ فَكُلِی، وإن شئت لا تأكلی،فلما رأت ذلك فأكلتْ

اورکہنے لگیں  اے سعد رضی اللہ عنہ !یہ کیسادین تونے اختیارکیاہے جس نے تجھے اپنے آباؤ اجدادکے دین سے برگشتہ کردیاہے،میں  تمہیں  حکم دیتی ہوں  کہ اس دین سے دستبردار ہوجاؤ پھر دھمکی دے کر بولیں جب تک تم اس دین کوترک نہ کروگے اس وقت تک نہ میں کچھ پیوں  گی اور نہ کھاؤ ں  گی اوراسی حالت میں  دم دے دوں  گی،میں  نے اسلام کونہیں  چھوڑاتومیری ماں  نےاپنی دھمکی پرعمل کرنے لگیں ،اورہرطرف سے مجھ پرآوازہ کشی ہونے لگی کہ یہ اپنی ماں  کاقاتل ہے میں  بہت دل تنگ ہوا،اپنی والدہ کی خدمت میں  باربارعرض کیا،خوشامدیں  کیں  ،سمجھایاکہ اللہ کے لیے اپنی ضدسے بازآجاؤ یہ توناممکن ہے کہ میں  اس سچے دین کوچھوڑدوں  ،مگران کی ایک ہی بات تھی کہ اس دین کو چھوڑکرواپس اپنے آبائی دین پر آجاؤ ورنہ میں  اپنی جان دے دوں  گی،اس ضدمیں  میری والدہ پرتین دن کافاقہ گزرگیا اوروہ بھوک وپیاس سے بہت لاغر ہو گئیں  مگراپنی دھمکی پرقائم رہیں ،آخرجب کئی روزہوگئے اوروہ اپنی ہٹ دھرمی سے نہ ہٹیں  تو سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پختہ عزم واستقلال اور وا شگاف اندازمیں  اپنی والدہ سے عرض کی کہ اے امی جان بلاشبہ میں  آپ سے بہت محبت کرتاہوں  لیکن میرے دین سے زیادہ عزیزنہیں  واللہ !ایک نہیں  تمہاری سوجانیں  بھی ہوں  اوراسی بھوک پیاس میں  ایک ایک کرکے سب نکل جائیں  توبھی میں  آخری لمحہ تک اپنے سچے دین اسلام کونہیں  چھوڑوں  گااب چاہے تمہیں  کھاؤ یانہ کھاؤ یہ تم پرمنحصرہے، جب ان کی والدہ نےسعد رضی اللہ عنہ کا رسول سے اس درجہ محبت کا اندازہ کر لیاکہ ان کے لئے وہ اپنی والدہ کوبھی ان پر قربان کرسکتاہے توبادل نخواستہ کھانا پینا شروع کردیا۔ [37]

عَنْ عَلِیٍّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا طَاعَةَ لِبَشَرٍ فِی مَعْصِیَةِ اللهِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخالق کی نافرمانی میں  کسی مخلوق کی اطاعت جائزنہیں ۔ [38]

میری بات ہمیشہ یادرکھنا الله تعالیٰ کاکوئی شریک نہیں  اورنہ ہی کوئی ہمسر، اگر الله تعالیٰ کاکوئی شریک ہوتاتوہر معبود اپنی من مانی کرتا اور اس زمین و آسمان کا نظام ایک دن بھی نہ چل سکتا، جیسے فرمایا

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَہٗٓ اٰلِـہَةٌ كَـمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا۝۴۲ [39]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں  تو وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔

اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان کائنات کانظام چلاتے ہوئے نہ وہ تھکتاہے،

۔۔۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۔۔۔ [40]

اورنہ اسے اونگھ آتی ہے اورنہ نیند ۔

اس نے اپنی قدرت اور اختیارات کسی کو چاہے وہ چھوٹاہویابڑا کسی کونہیں  سونپے ،سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں  ہے ،وہ جوچاہے کرے اسے کوئی پوچھنے والابھی نہیں ، پکارناایک عبادت ہے اور عبادت کے لائق صرف معبود حقیقی ہی ہو سکتا ہے اس لئے اپنی مشکلات ومصائب وپریشانیوں میں  اس کے سوا کسی کونہ پکارنااورنہ ہی کوئی تمہاری فریاد ،پکارکوسن سکتاہے اورنہ تمہاری مددکوپہنچ سکتا ہے،اپنی فریادوں  اور کاموں  میں  اپنی طرف سے جوبھی تدبیرکرسکتے ہوضرور کرنااورپھر اسی رب پرامید،توکل اوربھروسہ رکھنا،وہی بھروسے کے لائق ہے ،تمہاری محنتیں  اورتدابیراپنی جگہ پرمگریادرکھناہوگاوہی جو اس کی منشاومصلحت ہوگی اوراسی میں  تمہارافائدہ بھی ہوگا، ابلیس تمہاراکھلادشمن ہے جس کامقصدحیات ہی یہی ہے کہ انسانوں  کورب کی راہ سے ہٹاکرظلمتوں  میں  گم کردے ،جیسے فرمایا

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ۝۱۶ۙثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِیْنَ۝۱۷ [41]

ترجمہ:بولا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں  مبتلا کیا ہے میں  بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں  کی گھات میں  لگا رہوں  گا،آگے اور پیچھے، دائیں  اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں  گا اور تو ان میں  سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔

اس سے نہایت چوکنارہنااور توحیدکی پکی اورسیدھی راہ کو اپنانااسی میں  تمہاری نجات اوررب کی بخشش ہے ،اور اے میرے بیٹے ! الله تعالیٰ کی پکڑسے بے خوف نہ ہو جانااللہ علام الغیوب ہے،وہ بڑا باریک بین اورخبردارہے اس سے کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام،وہ چاہے اچھاہو یا برا ، بندہ کتنابھی مخفی ترین جگہ پرکرے الله تعالیٰ سے مخفی نہیں  رہ سکتااس کاعلم مخفی ترین چیزتک محیط ہے ،اندھیری رات میں  چلنے والی چیونٹی کی حرکات وسکنات سے بھی وہ باخبرہے، قیامت کے روز الله تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کو حاضر کر دے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۔۔۔۝۴۹ۧ [42]

ترجمہ: جو جو کچھ انہوں  نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں  گے۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَہٗ۝۸ۧ [43]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اور تمہارے اعمال کے مطابق اچھی یابری جزا یا سزا دے گا،جیسے فرمایا

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا ۔۔۔ ۝۴۷ [44]

ترجمہ:قیامت کے روزہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں  گے پھرکسی شخص پرذرہ برابرظلم نہ ہوگا۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ یَعْمَلُ فِی صَخْرَةٍ صَمَّاءَ لَیْسَ لَهَا بَابٌ، وَلَا كُوَّةٌ لَخَرَجَ عَمَلُهُ لِلنَّاسِ كَائِنًا مَا كَانَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتم میں  سے کوئی شخص بے سوراخ کے پتھر میں  بھی عمل کرے گاجس کاکوئی دروازہ ہونہ کھڑکی تو اس کا وہ عمل لوگوں  میں  مشہور ہو جائے گا خواہ وہ عمل کسی طرح کا ہو۔ [45]

اوراے میرے بیٹے ! نماز قائم کرناجو برائیوں  سے بچاتی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ۝۰ۭ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۔۔۔۝۴۵ [46]

ترجمہ: اور نماز قائم کرو یقینا نماز فحش اور برے کاموں  سے روکتی ہے ۔

اورجس سے رب کاقرب حاصل ہوتاہے،رب کے حضوراپنی پیشانی زمین پررکھ کر اس کی خشوع وخضوع سے حمد وثناکرنااس وقت تم رب کے سب سے زیادہ قریب ہوگے لہذا اس وقت رب سے اپنی بخشش طلب کرنااپنی ضروریات بیان کرنا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَقْرَبُ مَا یَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابندہ سجدے میں  اپنے پروردگارسے(اس کی رحمت اورفضل سے) بہت نزدیک ہوتاہے لہذاسجدے میں  بہت دعاکیاکرو۔ [47]

یادرکھووہ دین ہی نہیں  جس میں  نمازنہ ہو،وہ ایمان بے سود ہے ، زبانی دعویٰ ہے جس میں  رب کی یادکے لئے نمازنہ ہو،

وَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: لَا دِینَ لِمَنْ لَا صَلَاةَ لَهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  وہ دین ہی نہیں  جس میں  نمازنہ ہو۔ [48]

رب کے حضور سرنہ جھکانا تکبرہے کفرہے جس کی سزاجہنم ہے،جیسے فرمایا

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۝۴۳ۙ [49]

ترجمہ:وہ (دوزخی)کہیں  گے ہم نماز پڑھنے والوں  میں  سے نہ تھے۔

اور صرف اپنے اعمالوں  میں  نہ گم ہوجاناکہ صرف اپنی نجات کی فکر کرواور دوسروں  کی اصلاح کی فکرنہ کروا ور معروف کاموں  کاحکم نہ دو،برائی کو دیکھو اوراسے بدلنے کی کوشش نہ کرو ،ظالم کوظلم کرتے ہوئے دیکھو اورظالم کاہاتھ نہ پکڑو تو اس وقت تمہارا رب تم پر غصہ ہوگااور الله تعالیٰ تمہاری دعائیں  قبول نہیں  فرمائے گابعیدنہیں  کہ الله تمہیں  بھی اپنے عذاب میں  لپیٹ لے،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَوْا عَنْ الْمُنْکَرِ قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلَا یُسْتَجَابَ لَکُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو قبل ازیں  کہ تم دعائیں  مانگو اور تمہاری دعائیں  قبول نہ ہوں  ۔ [50]

عَنْ قَیْسٍ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَؤونَ هَذِهِ الْآیَةَ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا یَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَیْتُمْ} [51] ، وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ فَلَمْ یُغیرُوهُ أَوْشَكَ أَنْ یَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ

قیس سے مروی ہےایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو’’ اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں  نقصان نہیں  پہنچا سکتا۔‘‘اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں  اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں  تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ [52]

اس لئے لوگوں  کوحق بات کی نصیحت کرتے اوربرے کاموں  پر انہیں نرمی ، حکمت اوردلائل سے منع کرتے رہنا،بلاشبہ یہ بہت ہی مشکل راہ ہے، اس راہ میں  مشکلات ہی مشکلات ہیں  ،اس راہ میں  شدائدو مصائب اور طعن و ملامت ناگزیرہے، پھرتم پراس پسندیدہ کام کے عوض جو بھی مصیبت آجائے توآہ وفغاں  نہ کرنے لگ جانا،گھبراکرکنارہ کش نہ ہوجانابلکہ الله تعالیٰ پربھروسہ رکھنا اور مضبوطی سے صبرکا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم وہمت کے کاموں  میں  سے ہے اور اہل عزم وہمت کاایک بڑاہتھیارہے،اس کے بغیر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن ہی نہیں  ، الله تعالیٰ صبرکرنے والوں  کو پسندکرتاہے اور بہترین صلہ عنایت کرتا ہے ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۵۳ [53]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں  کے ساتھ ہے۔

اورلوگوں  کوحقیروکمترجان کران سے تکبرسے نہ ملناکہ جب وہ تم سے ہم کلام ہوں  توتوان سے اپنامنہ پھیر لے ،اور ایسی چال یارویہ جس سے مال ودولت یاجاہ ومنصب یاقوت وطاقت کی وجہ سے فخروغرورکا اظہار ہوتا ہواس کااظہارنہ کر،یہ الله تعالیٰ کوناپسندہے اس لئے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے الله تعالیٰ کویہی پسندہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیارکیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کااظہارنہ کرے کہ بڑائی صرف الله تعالیٰ ہی کے لئے زیباہے جوتمام اختیارات کا مالک اورتمام خوبیوں  کامنبع ہے ، جیسے فرمایا

وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۝۳۷ [54]

ترجمہ:زمین میں  اکڑکرنہ چلو،تم نہ زمین کوپھاڑسکتے ہونہ پہاڑوں  کی بلندی کوپہنچ سکتے ہو۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ كِبْرٍ وَلَا یَدْخُلُ النَّارَ مَنْ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِیمَانٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کے دل میں  ایک رائی کے دانے کے برابربھی کبرہوگاوہ شخص جنت میں  نہیں  جائے گااورجس کے دل میں  رائی برابربھی ایمان ہواوہ جہنم میں  داخل نہیں  ہوگا۔ [55]

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُیَلَاءَ لَمْ یَنْظُرِ اللهُ إِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

سالم بن عبداللہ اپنے والدعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اپنا کپڑا(پاجامہ یاتہبندوغیرہ) تکبراورغرورکی وجہ سے زمین پرگھسیٹتاچلے الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظررحمت سے دیکھے گابھی نہیں ۔ [56]

عَنْ أَبِی جُرَیٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَیْمٍ، قَالَ: رَأَیْتُ رَجُلًا یَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْیِهِ، لَا یَقُولُ شَیْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَلَیْكَ السَّلَامُ یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَّتَیْنِ، قَالَ: “ لَا تَقُلْ: عَلَیْكَ السَّلَامُ، فَإِنَّ عَلَیْكَ السَّلَامُ تَحِیَّةُ الْمَیِّتِ، قُلْ: السَّلَامُ عَلَیْكَ “ قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ:أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِی إِذَا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ، أَنْبَتَهَا لَكَ، وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرَاءَ – أَوْ فَلَاةٍ – فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ، رَدَّهَا عَلَیْكَ،

ابوجری جابربن سلیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ ان کی رائے کی مراجعت کرتے تھے (یعنی ان کی رائے کو قبول کرتے تھے) وہ کوئی بات نہیں  کہتے تھے مگر لوگ اسے مان لیتے تھے میں  نے کہا کہ یہ کون ہیں ؟لوگوں  نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،میں  نے کہا علیک السلام اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دو مرتبہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علیک السلام مت کہو اس لیے کہ علیک السلام تو مردوں  کا سلام ہے تم السلام علیک کہو ،راوی کہتے ہیں  کہ میں  نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟ فرمایا کہ میں  اللہ کا رسول ہوں  اس اللہ کا، جب تمہیں  کوئی تکلیف پہنچے تو تم اسے پکاروپس وہ تمہاری تکلیف کو دور کردے گااور اگر تمہیں  کسی سال قحط سالی کا سامنا کرنا پڑے تو اسے پکاروتو وہ تمہارے واسطے (اناج) اگائے گااور جب تم کسی بنجر زمین یا صحرا میں  ہو اور وہ تمہاری سواری گم ہوجائے تو تم اسے پکارو تو وہ اس سواری کو تمہیں  لوٹا دے گا

قَالَ: قُلْتُ: اعْهَدْ إِلَیَّ، قَالَ:لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا، وَلَا عَبْدًا، وَلَا بَعِیرًا، وَلَا شَاةً، قَالَ:وَلَا تَحْقِرَنَّ شَیْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَیْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، فَإِنْ أَبَیْتَ فَإِلَى الْكَعْبَیْنِ، وَإِیَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ، فَإِنَّهَا مِنَ المَخِیلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْمَخِیلَةَ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَیَّرَكَ بِمَا یَعْلَمُ فِیكَ، فَلَا تُعَیِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِیهِ، فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَیْهِ

راوی کہتے ہیں  کہ میں  نے عرض کیا کہ مجھ سے عہد لیجیے، فرمایا کہ تو ہرگز کسی کو برابھلامت کہو، راوی کہتے ہیں  کہ اس کے بعد سے میں  نے کسی کو برا بھلا نہیں  کہاخواہ وہ غلام ہو یا آزاد، اونٹ کو نہ بکری کو،اور فرمایا کہ نیکی کی کسی بات کو حقیر مت سمجھواور اگر تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ملو تو بیشک یہ نیکی ہے،اور اپنے تہبند کو نصف ساق (آدھی پنڈلی) تک اونچا رکھو،پس اگر اس سے انکار کرو تو کم ازکم ٹخنوں  سے اونچا رکھو اور تہبند (شلوار یا پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں  سے نیچے لٹکانے سے بچتے رہو اس لیے کہ یہ تکبر میں  سے ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں  فرماتا، اور اگر کوئی شخص تمہیں  برابھلا کہے اور تمہارے اندر جس عیب کا اسے علم ہو اس سے تمہیں  عار دلائے تو تم اسے اس کے عیب سے عار مت دلانا جو تمہیں  معلوم ہو کہ اس کا وبال تم پر ہی پڑے گا۔ [57]

حَدَّثَنِی عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِیُّ، حَدَّثَتْنِی بِنْتُ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، قَالَتْ: لَمَّا أَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} [58] دَخَلَ ثَابِتٌ بَیْتَهُ، وَأَغْلَقَ عَلَیْهِ بَابَهُ، فَطَفِقَ یَبْكِی، فَفَقَدَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَیْهِ، فَدَنَا لَهُ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: أَنَا رَجُلٌ شَدِیدُ الصَّوْتِ، أَخَافُ أَنْ یَكُونَ قَدْ حَبِطَ عَمَلِی، قَالَ:لَسْتَ مِنْهُمْ بَلْ تَعِیشُ بِخَیْرٍ وَتَمُوتُ بِخَیْرٍ قَالَ: ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {إِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ} [59] ، فَأَغْلَقَ عَلَیْهِ بَابَهُ وَطَفِقَ یَبْكِی، فَفَقَدَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَیْهِ فَأَخْبَرَهُ بِمَا أَنْزَلَهُ اللهُ تَعَالَى،

عطاء خراسانی کہتے ہیں ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس کی بیٹی سے مروی ہے جب سورہ لقمان کی آیت ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو۔‘‘نازل ہوئی تواے لوگوجوایمان لائے ہواپنی آوازیں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازسے بلندنہ کرو۔‘‘تومیرے والدگھرمیں  داخل ہوکربیٹھ گئے اوردروازہ بندکردیااوررونے لگے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  کئی دن نہ دیکھاتوکسی کوان کی خبرلانے کے لیے بھیجا، وہ شخص ان کے پاس پہنچااورگھرمیں  بیٹھنے کی وجہ پوچھی توانہوں  نے کہامیں  ایک ایساشخص ہوں  جس کی آواز بہت بلندہےاورمجھے اندیشہ ہے کہ اگرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلندآوازسے بولاتومیرے تمام اعمال ضائع چلے جائیں  گےاورمیں  خالی ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہوں  گا، پھرجب اللہ تعالیٰ نےیہ آیت’’ اللہ کسی خو پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں  کرتا ۔‘‘ نازل فرمائی توپھرہیبت الٰہی سے لرزہ براندام ہوگئے اورگھرمیں  بیٹھ کردروازہ بندکردیااورروناشروع کردیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  کئی دن نہ دیکھاتوکسی کوان کی خبرلانے کے لیے بھیجا ،

فافتقده رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ وقال ما شأن ثابت ، قالوا یا رسول الله والله ما ندری ما شأنه غیر أنه قد أغلق بابه علیه فطفق یبكی فیه، فأرسل إلیه رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ وقال ما شأنك

ایک روایت میں  ہےجب کئی دن تک ثابت رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں  دیکھاتوپوچھاثابت رضی اللہ عنہ کو کیا ہوا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم ہم نہیں  جانتے کہ اس کے ساتھ کیاہواہے مگر انہوں  نے اپنے پراپنے گھرکے دروازے بندکردیے ہیں  اورروتے جاتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  بلابھیجاجب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھااے ثابت رضی اللہ عنہ !کیاہواہے؟۔ [60]

فَقَالَ: إِنِّی أُحِبُّ الْجَمَالَ، وَأُحِبُّ أَنْ أَسُودَ قَوْمِی، فَقَالَ:لَسْتَ مِنْهُمْ، بَلْ تَعِیشُ حَمِیدًا وَتُقْتَلُ شَهِیدًا، وَیُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ

توانہوں عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  زینت جمال اوراپنی تعریف پسندکرتاہوں مجھے ڈرہے کہ اس آیت کی روسے میں  تباہ نہ ہوجاؤ ں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ثابت رضی اللہ عنہ !کیاتم اس بات پرراضی نہیں  کہ تم اس طرح بھلائی کی زندگی گزاروکہ تمہاری تعریف کی جائے اورشہادت کی موت پاکرتم جنت میں  داخل ہو؟عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ باتیں  تومجھے پسندہیں ۔ [61]

دَخَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهِ وَهُوَ عَلِیلٌ فَقَالَ أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ ،

ایک دفعہ ثابت رضی اللہ عنہ علیل ہوگئے اورچلنے پھرنے کے قابل نہ رہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے ان کے گھرتشریف لائے اوردعافرمائی ۔ [62]

عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَیَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لَا یَبْغِیَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، وَلَا یَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ

عیاض رضی اللہ عنہ بن حمارسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے کہ تم لوگ تواضع اور فروتنی اختیار کرو یہاں  تک کہ کوئی دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور نہ ہی کوئی ایک دوسرے پر فخر ومباہات کرے۔ [63]

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ: أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص یہ کہے کہ میں  یونس بن متی سے افضل ہوں  تو اس نے جھوٹ کہا۔ [64]

اس لئے اپنی چال ورویہ ،زندگی کے ہرمعاملات ،رب کی خوشنودی کے لئے راہ خداخرچ کرنااورعبادات میں  بھی میانہ روی اختیارکرنا، جو میانہ روی اختیارکرتاہے وہ محتاج نہیں  ہوتااور اے میرے بیٹے !چیخ یا چلاکربات کرنے کے بجائے نرمی اورحلیمی سے گفتگوکرنا،چیخ وچلاکرگفتگوکرنا جاہلوں  کا طریقہ کارہے جو پسندیدہ نہیں  اگراونچی آوازسے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آوازسب سے اچھی سمجھی جاتی ،لیکن ایسانہیں  ہے بلکہ گدھے کی آوازسب سے بدتراور کریہہ ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا سَمِعْتُمْ صِیَاحَ الدِّیَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِیقَ الحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّیْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَیْطَانًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب مرغ کی آوازسنوتواللہ تعالیٰ سے اس کافضل طلب کرواس لیے کہ وہ فرشتے کودیکھتاہے،اورجب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے شیطان کی پناہ مانگو اس لئے کہ وہ شیطان کودیکھتا ہے۔ [65]

لقمان حکیم کی مزیدچندنصیحتیں  جو روایات میں  مذکورہیں ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ لُقْمَانَ الْحَكِیمَ كَانَ یَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا اسْتُوْدِعَ شَیْئًا حَفِظَهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالقمان حکیم کہاکرتے تھے کہ جب کسی چیزکواللہ تعالیٰ کے سپردکردیاجائے تووہ اس کی حفاظت فرماتاہے۔ [66]

عَنْ أَبِی مُوسَى الْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ یَعِظُهُ:یَا بُنَیَّ إِیَّاكَ وَالتَّقَنُّعَ، فَإِنَّهَا مَخْوَفَةٌ بِاللَّیْلِ مَذَلَّةٌ بِالنَّهَارِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالقمان نے اپنے بیٹے کونصیحت کرتے ہوئے کہااے میرے بیٹے!تکلف کے ساتھ قناعت سے اجتناب کرو کیونکہ یہ رات کے خوف وخطراوردن میں  ذلیل ہونے کاسبب ہے۔ [67]

عَنِ السُّدِّیِّ بْنِ یَحْیَى قَالَ: قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: أَیْ بُنَیَّ، إِنَّ الْحِكْمَةَ أَجْلَسَتِ الْمَسَاكِینَ مَجَالِسَ الْمُلُوكِ

سدی بن یحییٰ سے روایت ہے لقمان نے اپنے بیٹے سے کہااے میرے بیٹے!حکمت ودانش نے مسکینوں  کو بادشاہوں  کی مجلس میں  بٹھادیاہے۔ [68]

عَنْ عَوْنٍ یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ , أَنَّ لُقْمَانَ , قَالَ لِابْنِهِ:یَا بُنَیَّ , إِذَا أَتَیْتَ مَجْلِسَ قَوْمٍ فَارْمِهِمْ بِسَهْمِ الْإِسْلَامِ , وَلَا تَنْطِقْ حَتَّى تَرَاهُمْ قَدْ نَطَقُوا , فَإِنْ أَفَاضُوا فِی ذِكْرِ اللهِ فَامْضِ مَعَهُمْ , وَإِنْ أَفَاضُوا فِی غَیْرِ ذَلِكَ فَتَحَوَّلَ مِنْهُمْ إِلَى غَیْرِهِمْ

عون بن عبداللہ سے مروی ہے لقمان نے اپنے بیٹے سے کہااے میرے بیٹے !جب تم قوم کی مجلس میں  آؤ توانہیں  سلام کہو پھرایک کونے میں  بیٹھ جاؤ ،اس وقت تک بات نہ کروجب تک یہ نہ دیکھ لوکہ انہوں  نے گفتگوشروع کردی ہے،اگروہ ذکرالٰہی میں  مشغول ہوجائیں  توتم اس میں  بڑھ چڑھ کرحصہ لواوراگروہ کسی اورموضوع پرگفتگوکریں  توان سے کنارہ کشی اختیارکرکے دوسرے لوگوں  کی مجلس کواختیارکرلو۔ [69]

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِیرٍ ‎﴿٢٠﴾‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّیْطَانُ یَدْعُوهُمْ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِیرِ ‎﴿٢١﴾‏(لقمان)
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں ، بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں ، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کرو تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو جس طریق پر اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اسی کی تابعداری کریں گے اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔‘‘

کیاتم لوگ مشاہدہ نہیں  کرتے کہ اللہ نے آسمانوں  میں  مثلاًچاند،سورج ،ستارے،اورزمین میں  مثلاًہوا،بارش ،پانی کی نہریں ،چشمے ،دریا،سمندر،مٹی ، آگ، نباتات، معدنیات اورمویشی وغیرہ سب کوایسے ضابطوں  کاپابندبنادیاہے کہ یہ انسانوں  کے لئے کام کررہے ہیں  اورانسان ان سے فیض یاب ہو رہا ہے ،جیسے فرمایا

وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ۔۔۔۝۱۳ [70]

ترجمہ:اس نے زمین اور آسمانوں  کی ساری ہی چیزوں  کو تمہارے لیے مسخر کر دیا سب کچھ اپنے پاس سے۔

اور اللہ نے اپنی ظاہری نعمتیں  جن کاادراک عقل وحواس سے ممکن ہے اورباطنی نعمتیں  تم پرتمام کردی ہیں  مثلاًرسولوں  کابھیجنا،انسانوں  کی ہدایت ورہنمائی کے لیےکتابوں  کانازل فرمانا،شک وشبہ دلوں  سے دورکرناوغیرہ یہ ایسی نعمتیں  ہیں  جن کاادراک واحساس تمہیں  نہیں  ہے اور نہ تم ان کا شمارہی کرسکتے لیکن اس کے باوجودلوگ اللہ وحدہ لاشریک پرایمان نہیں  لاتے،اس کی نعمتوں  پر شکر اور اطاعت گزارہونے کے بجائے ناشکری اورنافرمانی کرتےہیں ،اور کسی عقلی دلیل یاکسی رسول کی ہدایت یاکسی صحیفہ آسمانی سے ثبوت کے بغیراللہ کے احکام وشرائع اور اس کے وجود کے بارے میں  جھگڑتے ہیں ،جیسے فرمایا

الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىہُمْ۔۔۔۝۳۵ [71]

ترجمہ:اور اللہ کی آیات میں  جھگڑے کرتے ہیں  بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ۝۸ۙ [72]

ترجمہ:بعض اور لوگ ایسے ہیں  کہ کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیرگردن اکڑائے ہوئے اللہ کے بارے میں  جھگڑتے ہیں ۔

اورہرطرح کے واضح دلائل کے باوجوداس کاشریک گردانتے ہیں  ، اور جب ان سے کہاجاتاہے کہ اس ہدایت کی پیروی کرو جواللہ نے رسولوں  کے ذریعے تمہاری رہنمائی کے لئے نازل کی ہے تاکہ تم جہنم کے دردناک عذاب سے نجات پاکرنعمتوں  بھری جنتوں  کے وارث بن جاؤ تویہ جاہل اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ ہم توآنکھیں  بندکرکے ان عقائد ونظریات ،رسم ورواج کی پیروی کریں  گے جس پر ہم نے اپنے باپ داداکوپایاہے،اللہ تعالیٰ نے ان کااوران کے باپ دادا کا رد کرتے ہوئے فرمایاکیایہ پھربھی اپنے آبا ؤ اجداد کی پیروی کریں  گے چاہے شیطان نے ان کے آباؤ اجدادکوراہ راست سے بہکارکھاہواوروہ اس کے چیلے بن کر دوزخ کے عذاب کی طرف بڑھ رہے ہوں  ؟

وَمَنْ یُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ‎﴿٢٢﴾‏ وَمَنْ كَفَرَ فَلَا یَحْزُنْكَ كُفْرُهُ ۚ إِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٢٣﴾‏ نُمَتِّعُهُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ ‎﴿٢٤﴾(لقمان)
’’ اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دے اور ہو بھی نیکوکار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا، تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے، کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا بیشک اللہ سینوں کے بھید تک سے واقف ہے، ہم انھیں گو کچھ یونہی فائدہ دے دیں ، لیکن (بالآخر) ہم انھیں نہایت بیچارگی کی حالت میں سخت عذاب کی طرف ہنکالے جائیں گے۔‘‘

جوشخص اللہ کی نازل کردہ ہدایت کواپنی پوری زندگی کاقانون بنائے اور وہ عملاًحق کااتباع اورمنہیات کاترک کرنے والابھی ہو،اس نے اللہ سے وعدہ لے لیاہے کہ وہ اسے عذابوں  میں  مبتلانہیں  کرے گااورسارے معاملات کاآخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے ، اب جوشخص رسول مبعوث ہونے،جلیل القدراورمضبوط دلائل والی کتاب نازل ہونے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتھک کوششوں  کے باوجود کفروشرک میں  مبتلا رہناپسندکرتاہے توتمہیں  اس کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں  ،ایک وقت مقررہ پرانہیں  پلٹ کرآناتوہماری ہی طرف ہے،پھر ہم انہیں  بتادیں  گے کہ دنیامیں  وہ کفروعداوت،دعوت حق کو مغلوب کرنے،رسولوں  اوراہل ایمان پرظلم وستم کرنے اورلوگوں  کوراہ راست سے روکنے کے لئے کیاجدوجہدکرتے رہے تھے اوران کواس کے صلہ میں  کیا جزادی جائے ،یقینا ًاللہ سے کوئی بھی چیزچھپی ہوئی نہیں  ہے ،وہ توسینوں  کے چھپے ہوئے بھیداورآنکھوں  کی خیانت تک جانتاہے ،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [73]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں ۔

ہم چندروز انہیں  دنیاکی لذتوں  اورنعمتوں  سے شادکام ہونے کا موقع دے رہے ہیں  پھر ان کوبے بس کرکے ایک سخت عذاب کی طرف کھنچ لے جائیں  گے ، جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا۝۰ۡوَلَــنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۵۰ [74]

ترجمہ:حالانکہ کفر کرنے والوں  کو لازما ًہم بتا کر کہیں  گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں  اور انہیں  ہم بڑے گندے عذاب کا مزہ چکھائیں  گے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ ‎﴿٢٦﴾‏ وَلَوْ أَنَّمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٢٧﴾‏ مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ ‎﴿٢٨﴾‏(لقمان)
’’اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟ تو ضرور جواب دیں گے کہ اللہ، تو کہہ دیجئے کہ سب تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں ، آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بڑا بےنیاز اور سزاوار حمد ثنا ہے، روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہوجائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوسکتے، بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے، تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک جی کا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘

حاکم اعلی صرف اللہ تعالیٰ ہے :

یہ مشرکین اعتراف کرتے ہیں  کہ آسمان وزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے ان کاخالق اللہ وحدہ لاشریک ہے ،آسمان وزمین سے رزق بھی وہی عطا فرماتاہے ،توان کے اس اقرارکوان کے انکارکے خلاف حجت بناتے ہوئے کہہ دوہرقسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے ،جب تم ہرچیزکاخالق ورازق اللہ کو تسلیم کرتے ہوتوپھر حمد و ثنا،تسبیح وتمحید،عبادت اوراطاعت کی سزاوارہستی بھی اللہ ہی کی ہونی چاہیے،اس کوچھوڑکراس کی مخلوق اس کی مستحق کیسے ہوسکتی ہے جنہوں  نے اس کائنات میں نہ کچھ پیداکیاہے ،نہ اللہ کی تخلیق میں  حصہ دارہے اورنہ ہی رزق دینے پرقدرت رکھتے ہیں ، مگران میں  سے اکثرلوگ جانتے نہیں  ہیں  کہ اللہ کوخالق کائنات ماننے کے لازمی نتائج اورتقاضے کیا ہیں  ،اس لئے دوسروں  کواس کاشریک ٹھہرارکھاہے ،اوراللہ آسمان وزمین اورچھوٹی بڑی چیز کاخالق ہی نہیں مالک بھی ہے اوروہی کائنات کا مدبر و متصرف ہے، بے شک اللہ کسی کا محتاج نہیں  اورساری مخلوقات اس کی محتاج ہیں ،جیسے فرمایا

مَآ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ۝۵۷ [75]

ترجمہ:میں  ان سے کوئی رزق نہیں  چاہتااورنہ یہ چاہتاہوں  کہ وہ مجھے کھلائیں ۔

اوروہ اپنی ذات وصفات میں  حمدوثناکی سزاوارہے ،اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی ،جلالت شان،اس کے اسمائے حسنٰی ،صفات علیا،اس کے وہ کلمات جواس کی عظمتوں  پردلالت کناں  ہیں  ،اس کے تخلیقی کام اوراس کی قدرت وحکمت کے کرشمے اتنے ہیں  کہ کسی کے لئے ان کااحاطہ یاان سے مکمل آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچناممکن ہی نہیں  ہے ،اگرکوئی ان کوشمارکرنااورتحریرمیں  میں  لاناچاہے تودنیابھرکے درختوں  کے قلم گھس جائیں ، سمندروں  کے پانی کی بنائی ہوئی سیاہی ختم ہوجائے لیکن اللہ کی معلومات ، اس کی تخلیق وصنعت کے عجائبات اوراس کی عظمت وجلالت کے مظاہرکوشمارنہیں  کیاجاسکتا،چاہے سات مزید سمندر روشنائی مہیاکریں  تب بھی اللہ کی باتیں  (لکھنے سے)ختم نہ ہوں  گی،جیسے ارشاد فرمایا

قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا۝۱۰۹ [76]

ترجمہ:اے نبی! کہوکہ اگرسمندرمیرے رب کی باتیں  لکھنے کے لئے روشنائی بن جائے تووہ ختم ہوجائے مگرمیرے رب کی باتیں  ختم نہ ہوں  گی ، بلکہ اگراتنی ہی روشنائی ہم اورلے آئیں  تووہ بھی کفایت نہ کرے ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَةٍ مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ یَدِی عَلَى بَطْنِ قَدَمَیْهِ، وَهُوَ فِی الْمَسْجِدِ، وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ، وَهُوَ یَقُولُ:اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ ، لَا أُحْصِی ثَنَاءً عَلَیْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَیْتَ عَلَى نَفْسِكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں  نے ایک رات بچھونے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونہ پایا،میں  نے ڈھونڈا(حجرے میں  اندھیراتھااورچراغ نہ تھا)میراہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوے پرپڑا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں  تھے اوردونوں  پاؤ ں  کھڑے تھے اورفرماتے تھے اے اللہ! میں  پناہ مانگتاہوں  تیری رضامندی کی تیرے غصہ سے اورتیری پناہ مانگتاہوں  مجھے تیری تعریف کرنےکی طاقت نہیں  توایساہی ہے جیسی تونے خوداپنی تعریف فرمائی ہے۔ [77]

بے شک اللہ غلبہ والا ہے ،تمام اشیاءاس کے سامنے پست وعاجزہیں اوربڑی حکمت والا ہے ،اس کی قدرت تخلیق اتنی عظیم ہے کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک جتنے لوگ پیداہوں  گے ان سب کو آن کی آن میں  پھر پیدا کردینااس کے لئے ایک نفس کے زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے ،وہ جوکچھ پیداکرناچاہتاہے تواسے اسباب ووسائل کی ضرورت نہیں  پڑتی ، وہ توبس اپنا کلمہ قدرت کن کہتاہے اوروہ چیزوجودمیں  آجاتی ہے ،جیسے فرمایا

اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۝۸۲ [78]

ترجمہ:وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍؚبِالْبَصَرِ۝۵۰ [79]

ترجمہ:اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکتے وہ عمل میں  آ جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کے اقوال کو سننے والااوران کے افعال کو دیکھنے والاہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُولِجُ النَّهَارَ فِی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ یَجْرِی إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿٢٩﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا یَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیرُ ‎﴿٣٠﴾‏(لقمان)
’’ کیا آپ نے نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے، سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے، اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے،یہ سب (انتظامات) اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بلندیوں والا اور بڑی شان والا ہے۔‘‘

اللہ کے سامنے ہرچیزحقیروپست ہے :

کیایہ لوگ اللہ کی قدرت کاملہ کامشاہدہ نہیں  کرتے کہ اللہ رات کاکچھ حصہ لے کردن میں  شامل کردیتاہے جس سے دن بڑااوررات چھوٹی ہوجاتی ہے ،اورپھردن کاکچھ حصہ لے کررات میں  شامل کردیتاہے جس سے رات بڑی اوردن چھوٹاہوجاتاہے ، ؟سورج اور چاندکوانسان قدیم زمانے سے معبودبناتا چلا آ رہا ہے اورآج بھی بہت سے انسان انہیں  دیوتامانتے ہیں ،ان کے بارے میں  فرمایاکہ سورج وچاندہویاکوئی اورتارایاسیارہ ،ان میں  کوئی چیزبھی نہ ازلی ہے نہ ابدی ،سب اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہیں  ،اوراللہ تعالیٰ ہی نے ان کی گردش کے لئے ایک منزل اورایک دائرہ متعین کیاہواہے،جیسے فرمایا

 وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ۭوَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝۳۹لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰ [80]

ترجمہ:اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے،اور چاند اس کے لیے ہم نے منزلیں  مقرر کر دی ہیں  یہاں  تک کہ اِن سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے،نہ سورج کے بس میں  یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب ایک ایک فلک میں  تیر رہے ہیں ۔

جہاں  ان کاسفرختم ہوتاہے اور دوسرے روزپھروہاں  سے شروع ہوکرپہلی منزل پر آکرٹھہرجاتاہے اورقیامت تک یہ اس طرح اپناکام جاری رکھیں  گے ،اورجب صورپھونکاجائے گاتوتمام کائنات کے ساتھ یہ بھی بے نورہوجائیں  گے ،جیسے فرمایا

یَسْــَٔـلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَةِ۝۶ۭفَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۝۷ۙوَخَسَفَ الْقَمَرُ۝۸ۙوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۝۹ۙ [81]

ترجمہ:پوچھتا ہے آخر کب آنا ہے وہ قیامت کا دن ؟ پھر جب دیدے پتھرا جائیں  گےاور چاند بےنور ہو جائے گااور چاند سورج ملا کر ایک کر دیے جائیں  گے ۔

ذراسوچوجوچیزاپنی مرضی سے حرکت نہ کر سکے اور حادث ہو وہ معبودکیسے ہوسکتی ہے ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لِأَبِی ذَرٍّ حِینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ:أَتَدْرِی أَیْنَ تَذْهَبُ؟، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنُ لَهَا وَیُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ، فَلاَ یُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنَ لَهَا یُقَالُ لَهَا: ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب سورج غروب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم کومعلوم ہے یہ سورج کہاں  جاتا(غروب ہوتا)ہے؟ میں  نے عرض کیااللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا اس کی آخری منزل عرش الٰہی ہے یہ وہاں  جاتاہے اورزیرعرش سجدہ ریزہوتاہے پھر (وہاں  سے نکلنے کی)اپنے رب سے اجازت مانگتاہے اوراسے اجازت دی جاتی ہے،اوروہ دن بھی قریب ہےجب یہ سجدہ کرے گاتواس کاسجدہ قبول نہ ہوگا اوراجازت چاہے گالیکن اجازت نہ ملے گی، بلکہ اس کوکہاجائے گاتوجہاں  سے آیاہے وہیں  لوٹ جا،چنانچہ وہ تووہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا(جیساکہ قرب قیامت کی علامات میں  آتا ہے)۔ [82]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:الشَّمْسُ بِمَنْزِلَةِ السَّاقِیَةِ تَجْرِی بِالنَّهَارِ فِی السَّمَاءِ فِی فَلَكِهَا، فَإِذَا غَرَبَتْ جَرَتْ بِاللیْلِ فِی فَلَكِهَا تَحْتَ الْأَرْضِ حَتَّى تَطْلُعَ مِنْ مَشْرِقِهَا قَالَ: وَكَذَلِكَ الْقَمَرُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کاقول ہےسورج رہٹ کی طرح ہے دن کوآسمان پراپنے مدار پر چلتارہتاہے، جب غروب ہوجاتاہے تورات کو زمین کے نیچے اپنے مدارپرچلتارہتاہے یہاں  تک کہ مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے،فرمایااسی طرح چاندکامعاملہ ہے۔ [83]

اور تم جوبھی اعمال کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے ،اس سے کوئی چیزپوشیدہ نہیں  ہے، پروردگار عالم یہ سب نشانیاں  اس لئے ظاہرکرتاہے تاکہ تم سمجھ لوکہ کائنات کا نظام چلانے والاصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے،وہی مختارکل ہے، اس کے سواکسی کے پاس کوئی قدرت اور اختیار نہیں  ہے بلکہ سب مخلوق اس کی محتاج ہے اورایک ذرے کو ہلانے کی قدرت بھی نہیں  رکھتی ،اللہ کی عظمت شان، علومرتبت اوربڑائی کے سامنے ہرچیزحقیر اور پست ہے ۔

‏ أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِیُرِیَكُمْ مِنْ آیَاتِهِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ‎﴿٣١﴾‏ وَإِذَا غَشِیَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ ۚ وَمَا یَجْحَدُ بِآیَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ ‎﴿٣٢﴾‏(لقمان)
’’کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لیے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے، یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ،اور جب سمندر پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ، پھر جب وہ (باری تعالیٰ ) انھیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں ، اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں ۔‘‘

طوفانوں ،مصیبتوں  میں  خودساختہ معبودگم ہوجاتے ہیں :

سمندروں  اوردریاؤ ں  میں  کشتیوں  کاچلنابھی اللہ کے لطف وکرم کامظہراوراس کی قدرت تسخیرکاایک نمونہ ہے ،اگروہ پانی میں  کشتی کوتھامنے اورکشتی میں پانی کوکاٹنے کی قوت نہ رکھتاتوپانی میں  کشتیاں  کیسے چلتیں ؟جوانسان تکالیف وپریشانیوں میں صبر اور راحت وخوشی میں  شکرکرنے والا ہوتا ہے وہ اللہ کی نشانیوں  کودیکھ کرحقیقت کاادراک کرجاتاہے اورتوحیدکی راہ پرگامزن ہوجاتاہے ،اور جب سمندر میں سفرکرتے ہوئے کفارومشرکین کی کشتیاں  پہاڑوں  کی طرح بلندوبالا طوفانی موجیں  چھتری کی ماندان پرچھاجاتی ہیں  اورموت کاآہنی پنجہ انہیں  اپنی گرفت میں  لیتانظرآتاہے توشرک ودہریت کو چھوڑکر خلوص نیت سے گریہ وزاری کرتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک کوپکارنے لگتے ہیں اور عہدکرتے ہیں  کہ اگروہ انہیں  اس مصیبت سے نجات دے دے تو ایما ن لائیں  گے ،توحیدکاراستہ اختیارکریں  گے اوراطاعت کریں  گے،مگر جب اللہ انہیں  بچاکرخیریت سے خشکی تک پہنچادیتاہے تواللہ کے اس احسان کے باوجود اللہ کی عبادت واطاعت نہیں  کرتے،جیسے فرمایا

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاهُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷ [84]

ترجمہ : جب سمندر میں  تم پرمصیبت آتی ہے تواس ایک کے سوا دوسرے جن جن کوتم پکاراکرتے تھے وہ سب گم ہوجاتے ہیں ،مگرجب وہ تم کوبچاکرخشکی پرپہنچادیتا ہے توتم اس سے منہ موڑجاتے ہو،انسان واقعی بڑاناشکراہے۔

فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۝۰ۥۚ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَ۝۶۵ۙ [85]

ترجمہ:جب یہ لوگ کشتی پرسوارہوتے ہیں  تواپنے دین کواللہ کے لئے خالص کرکے اس سے دعامانگتے ہیں ،پھرجب وہ انہیں  بچاکرخشکی پرلے آتاہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں  تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پراس کاکفران نعمت کریں  اور(حیات دنیاکے)مزے لوٹیں ۔

اورہماری آیتوں  کاوہی انکار کرتے ہیں  جوعہدشکن اورناشکرے ہوتے ہیں  ۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَا یَجْزِی وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَیْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ‎﴿٣٣﴾‏ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ ‎﴿٣٤﴾‏(لقمان)
’’لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا (یاد رکھو) اللہ کا وعدہ سچا ہے (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے،بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ،وہی بارش نازل فرماتا ہےاور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے ،کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔‘‘

عیسائیت کامشہورعقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پرلٹک کرخودجان دے کرسب لوگوں  کے گناہوں  کاکفارہ اداکیاتھااس نظریہ کو غلط ثابت کیا گیا ، قیامت کے ہولناک دن سے ڈرایا اورتقوی کاحکم دیتے ہوئے فرمایااےلوگو!بچواپنے رب کے غضب سے اورڈرواس دن سے جب کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کوبچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ نہ دے گا اورنہ ہی کوئی بیٹا اپنے باپ کے لئے اپنی جان بطورمعاوضہ پیش کرے گا ،اورنہ بھائی بھائی کے بدلے اورنہ غلام آقاکے بدلے رحم کھاکر اپنی جان پیش کرے گا ،ہرشخص تن تنہا اپنے اعمال کا جواب دہ اوراپنے کیے کی سزاخودبھگتے گا ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَیَاْتِیْنَا فَرْدًا۝۸۰ [86]

ترجمہ:اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہوگا ۔

وَكُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [87]

ترجمہ:سب قیامت کے روز فردا فردا اس کے سامنے حاضر ہوں  گے۔

جب دنیاکاقریب ترین رشتہ باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں  گے تووہاں  فلاں  پیر صاحب کی ارادت کیا کام آئے گی اور آخرت میں  وہ کیادستگیری فرمائیں  گے،

قَالَ وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ: قَالَ عُزَیْرٌ، عَلَیْهِ السَّلَامُ: لَمَّا رَأَیْتُ بَلَاءَ قَوْمِی اشْتَدَّ حُزْنِی وَكَثُرَ هَمِّی، وَأَرِقَ نَوْمِی، فَضَرِعْتُ إِلَى رَبِّی وَصَلَّیْتُ وَصُمْتُ فَأَنَا فِی ذَلِكَ أَتَضَرَّعُ أَبْكِی إِذْ أَتَانِی الْمَلَكُ فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِی هَلْ تَشْفَعُ أَرْوَاحُ الْمُصَدِّقِینَ لِلظَّلَمَةِ، أَوِ الْآبَاءِ لِأَبْنَائِهِمْ؟

وہب بن منبہ کاقول ہے عزیر علیہ السلام نے کہامیں  نے جب اپنی قوم کی آزمائش کودیکھاتواس سے مجھے اس قدرشدیدحزن اورغم لاحق ہواکہ میری نینداڑگئی تومیں  نے اپنے رب تعالیٰ کے حضورگریہ وزاری کی،نمازپڑھی اورروزے رکھنے شروع کردیے،اسی الحاح وزاری کے عالم میں  میں  رورہاتھاکہ میرے پاس ایک فرشتہ آیاتومیں  نے اس سے پوچھاکہ مجھے یہ بتائیں  کہ کیاصدیقین کی روحیں  ظالموں  کے لیے اورباپ اپنے بیٹوں  کے لیے شفاعت کریں  گے؟

قَالَ: إِنِ الْقِیَامَةَ فِیهَا فَصْلُ الْقَضَاءِ وَمُلْكٌ ظَاهِرٌ، لَیْسَ فِیهِ رُخْصَةٌ، لَا یَتَكَلَّمُ فِیهِ أَحَدٌ إِلَّا بِإِذْنِ الرَّحْمَنِ، وَلَا یُؤْخَذُ فِیهِ وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ، وَلَا وَلَدٌ عَنْ وَالِدِهِ، وَلَا أَخٌ عَنْ أَخِیهِ، وَلَا عَبْدٌ عَنْ سَیِّدِهِ، وَلَا یَهْتَمُّ أَحَدٌ بِغَیْرِهِ وَلَا یَحْزَنُ لِحُزْنِهِ، وَلَا أَحَدَ یَرْحَمُهُ، كُلٌّ مُشْفِقٌ عَلَى نَفْسِهِ، وَلَا یُؤْخَذُ إِنْسَانٌ عَنْ إِنْسَانٍ، كَلٌّ یَهُم هَمَّهُ وَیَبْكِی عَوله، وَیَحْمِلُ وَزْرَهُ، وَلَا یَحْمِلُ وِزْرَهُ مَعَهُ غَیْرُهُ.

فرشتے نے جواب دیاقیامت کادن فیصلوں  کادن ہوگاوہ ایسی زبردست بادشاہت کادن ہوگاجس میں  کسی کے لیے کوئی رخصت نہیں  ہوگی،اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیرکوئی بات نہ کرسکے گا اس دن اولادکاباپ سے اورباپ کااولادسے مواخذہ نہیں  ہوگانہ بھائی کے بارے میں  بھائی سے، اورآقاکے بارے میں  غلام سے بازپرس ہوگی، کسی کے بارے میں  کسی کوخیال نہیں  ہوگا،کسی کوکسی کاغم نہ ہوگا،کوئی کسی پررحم نہیں  کھائے گاہرایک اپنے بارے میں  تھرتھرکانپ رہاہوگا،کسی انسان کاکسی دوسرے انسان سے قطعی مواخذہ نہیں  ہوگا،ہرایک اپنے غم میں  مبتلاہوگاہرانسان اپنے انجام کے خوف سے رورہااوراپنے بوجھ کواٹھائے ہوئے ہوگا،بوجھ اٹھانے میں  کوئی اس کے ساتھ شامل نہ ہوگا۔ [88]

اللہ کی ہربات حق وسچ ہے،اےلوگو! دنیا کی زیب وزینت ، اقتداروطاقت اورخوشحالی کانشہ،اللہ کے بارے میں غلط فہمیاں  اور غلط عقائد تمہیں  دھوکے میں  نہ ڈالیں  ،یہ تمہارے کسی کام نہیں  آئیں  گی،تمہارے ذہنوں  میں  غلط عقائدونظریات گھڑنے والاشیطان ہے جو تم کواللہ کے معاملے میں  بے بنیاد امیدیں  فراہم کرتا ہے کہ اللہ غفورورحیم ہے وہ بخش دے گا،بیشک وہ غفورورحیم ہے مگروہ یہ نہیں  کہتاکہ وہ جباروقہاراورحسیب بھی ہے ،اس نے ایک قانون بنایاہے اوراسی کے مطابق روزآخرت وہ ذرہ ذرہ کاحساب کرے گا،جیسے فرمایا

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَہٗ۝۸ۧ [89]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

مومنین کوجنتوں  میں  اورنافرمانوں  کوجہنم میں  داخل فرمائے گا۔جیسے فرمایا

بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْۗــــــــَٔــتُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۝۸۱وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۝۸۲ۧ [90]

ترجمہ: آخر تمہیں  دوزخ کی آگ کیوں  نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکّر میں  پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں  وہ ہمیشہ رہے گااور جو لوگ ایمان لائیں  گے اور نیک عمل کریں  گے وہی جنتی ہیں  اور جنت میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔

وہ اس طرح دھوکادیتاہے کہ اللہ کی رحمت وسیع ہے،اس کی رحمت کاکوئی کنارہ نہیں  ہے ، اس نے روزاول ہی عرش پرلکھ دیاتھاکہ میری رحمت میرے غضب پرحاوی ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللهَ لَمَّا قَضَی الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ گئی ہے۔ [91]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَضَى اللهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِی كِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے جب مخلوق کو وجود عطاء کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس کتاب میں  جو اس کے پاس عرش پر ہے لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ [92]

اوروہ بخش دینے کو پسندکرتاہے،

فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّ اللهَ عَفُوٌّ یُحِبُّ الْعَفْوَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ بخشنے والاہے اوربخش دینے کوپسندفرماتاہے۔ [93]

مگریہ نہیں  کہتاکہ وہ ان لوگوں  کوبخش دیناپسندفرماتاہے جواللہ اوراس کے رسول کے اطاعت گزار ہوتے ہیں  ، اور اگربشری تقاضوں  سے کسی بندے سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے اوروہ اپنے گناہوں  پر نادم ہوکراللہ کی طرف رجوع کرتاہے توبیشک رب بخشنے والااوررحیم ہے،جیسے فرمایا:

وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللہَ یَجِدِ اللہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۱۰ [94]

ترجمہ: اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا ۔

وہ یوں  بھی دھوکادیتاہے کہ تم نے کلمہ توحید لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ پڑھ لیاہے اورتم مسلمانوں  میں  شمارہوگئے ہو اب اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں  عمل صالحہ اختیارکرویانہ کرووہ تمہاری بخشش فرما کر جنت میں  داخل کردے گا ،بیشک اللہ رب العزت مالک الملک ہے وہ جسے چاہے بخش دے اورجسے چاہے گرفت میں  لے لے ،مگر شیطان یہ نہیں  کہتاکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام عدل بھی ہے جس کے مطابق جو جیسا عمل لے کرپیش ہوگااسی کے مطابق ہی جزاپائے گا،جواس طرح دھوکا دیتا رہتا ہے کہ فلاں  بزرگ اللہ کی بارگاہ میں بڑا پہنچا ہواتھا،اللہ اس کی بات کوردنہیں  کرسکتااس لئے اس کے آستانے کولازم کرلو،اس کے لئے نذر و نیازکابندوبست کرو،اس کی قبرپرقربانیاں  کرواورروشنیاں  جلاؤ ،اس کی قبرکی طرف پشت مت کروبلکہ سجدے میں  گرکراپنی گزارشات پیش کرواگریہ خوش ہوگئے تو مشکل کی اس گھڑی میں وہ تمہارے کام آجائے گااوراللہ کی بارگاہ میں  تمہاراسفارشی بن کرکھڑاہو گا،مگریہ نہیں  کہتاکہ کس چھوٹے بڑے کی جرات وطاقت ہے کہ ازخوداللہ کی بارگاہ میں  لب کشائی کی جرات کرے یاکسی کی سفارش کرسکے،جیسے فرمایا

۔۔۔مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۔۔۔۝۲۵۵ [95]

ترجمہ:کون ہے جو اس کی جناب میں  اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ ۔

دراصل اس طرح کے وسوسے ذہنوں  میں  ڈال کر شیطان تمہیں  عمل اور جدوجہدسے غافل کرنے کی کوشش میں  لگارہتاہے ،جیسے فرمایا

یَعِدُھُمْ وَیُمَنِّیْهِمْ۝۰ۭ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۱۲۰ [96]

ترجمہ:وہ ان لوگوں  سے وعدے کرتا ہے اورانہیں  امیدیں  دلاتاہے مگرشیطان کے سارے وعدے بجزفریب کے اور کچھ نہیں  ہیں ۔

وہ یوں  بھی دھوکادیتاہے کہ ابھی توتم جوان ہوابھی توبہت عمرپڑی ہے ،جب بوڑھے ہوں  گے تواللہ تعالیٰ سے گڑگڑاکراپنے گناہوں  کی معافی مانگ لیں  گے ،مگریہ نہیں  کہتاکہ کسی کواپنی عمر کے بارے میں  کیامعلوم ہے ،موت توبچپن اورجوانی میں  بھی آسکتی ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــــًٔا۔۔۔ [97]

ترجمہ: ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں  ایک وقت خاص تک رحموں  میں  ٹھہرائے رکھتے ہیں ، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں  نکال لاتے ہیں ( پھر تمہیں  پرورش کرتے ہیں ) تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں  سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے ۔

کفارومشرکین باربارکہتے تھے کہ قیامت کب قائم ہوگی،جیسے فرمایا

یَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا۔۔۔۝۰۝۱۸۷ [98]

ترجمہ:یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخروہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ ۔

اس کے بارے میں  فرمایا اللہ ایک وقت مقررہ پر قیامت قائم فرمائے گا اور پھرجب چاہے گااعمال کی جوابدہی کے لئے دوبارہ تمام انسانوں  کوزندہ کرکے میدان محشرمیں  جمع فرمائے گااور ترازو عدل قائم کرکے ہرطرح کے جھگڑوں  کافیصلہ کرے گا اس لئے ایسے کام نہ کروجواس وعدے کوسچانہ ماننے والوں  کے ہوتے ہیں  ،وہی جب ،جہاں  اورجتنی بارش چاہتا ہے برساتا ہے ، وہی جانتا ہے کہ ماؤ ں  کے پیٹوں  میں  کیاپرورش پا رہا ہے ،جیسے فرمایا

اَللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ۔۔۔۝۸ [99]

ترجمہ:اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے جو کچھ اس میں  بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں  کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔

کوئی متنفس نہیں  جانتاکہ کل وہ کیا کمائی کرنے والاہےاورنہ کسی شخص کویہ خبرہے کہ کس سر زمین میں  اس کوموت آنی ہے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مِفْتَاحُ الغَیْبِ خَمْسٌ لاَ یَعْلَمُهَا إِلَّا اللهُ: لاَ یَعْلَمُ أَحَدٌ مَا یَكُونُ فِی غَدٍ، وَلاَ یَعْلَمُ أَحَدٌ مَا یَكُونُ فِی الأَرْحَامِ، وَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، وَمَا یَدْرِی أَحَدٌ مَتَى یَجِیءُ المَطَرُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ چیزیں  مفاتیح الغیب ہیں  جنہیں  اللہ کے سواکوئی نہیں  جانتا

xقیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سواکوئی نہیں  جانتا، اس کاعلم نہ کسی فرشتے کو ہے اورنہ کسی نبی مرسل کو۔

x آثار و علائم سے بارش کا تخمینہ تو لگایاجاسکتاہے جوکبھی صحیح نکلتے ہیں  اورکبھی غلط مگربارش کا یقینی علم اللہ کے سواکسی کونہیں ۔

xجدیدٹیکنالوجی سے رحم مادر میں  لڑکے یا لڑکی کا ناقص اندازہ تو لگایاجاسکتاہے لیکن پیداہونے والابچہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت،کتنی زندگی پائے گا ، کیا کمائے گااورکیاکھائے گا اس کاعلم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ۔

xدین کامعاملہ ہویادنیاکا،آنے والے کل کے بارے میں کسی متنفس کوعلم نہیں  کہ وہ کیاکرے گاوہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں ۔

xموت برحق ہے مگرکسی متنفس کو اس کاعلم نہیں  کہ اس کی موت کب اور کہاں  آئے گی۔

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الانعام کی یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ غیب کی کنجیاں  اللہ ہی کے پاس ہیں بحروبرمیں  جوکچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔‘‘ [100]۔ [101]

عَنْ أَبِی عَزَّةَ، قَالَ:قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا أَرَادَ اللهُ قَبْضَ عَبْدٍ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ فِیهَا حَاجَةً

ابوعزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنااللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی کسی سرزمین میں  روح قبض کرنے کاارادہ فرماتاہے تواس علاقے میں  اس کی کوئی ضرورت وحاجت وابستہ کردیتاہے۔ [102]

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا جَعَلَ اللهُ میتَة عَبْدٍ بِأَرْضٍ إِلَّا جَعَلَ لَهُ فِیهَا حَاجَةً

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ جس زمین میں  بھی اپنے کسی بندے کی موت کو مقرر کر دیتا ہے تواس زمین میں  اس کی کوئی حاجت وضرورت متعین فرمادیتاہے۔ [103]

اللہ ہی سب ظاہری وباطنی امورکو جاننے والا اورہرچیزسے باخبر ہے۔

[1] المعارج۲۲تا۲۴

[2] الحاقة۱۹،۲۰

[3] المومنون۶۰

[4] الروم۱۵،۱۶

[5] النسائ۱۷۳

[6] المائدة۹،۱۰

[7] یونس۴

[8] الحج۵۶،۵۷

[9] السجدة۱۹،۲۰

[10] البقرة۵

[11] ابن ہشام۲۹۹،۳۰۰؍۱،الروض الانف۶۸؍۳

[12] تفسیر طبری ۱۲۷؍۲۰،مستدرک حاکم۳۵۴۲،السنن الکبری للبیہقی ۲۱۰۰۳

[13] تفسیرابن کثیر۳۲۹؍۶

[14] تفسیرابن کثیر۳۲۹؍۶

[15] مسنداحمد۲۲۱۶۹،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۰۵۶،تفسیرطبری ۱۲۶؍۲۰

[16] تفسیر طبری ۱۲۶؍۲۰

[17] تفسیرالقرطبی۵۳؍۱۴

[18] صحیح مسلم كتاب الشِّعْرِ۵۸۹۵

[19] اعلام الموقنین عن رب العالمین۹۴؍۳،إغاثة اللهفان من مصاید الشیطان۳۷۴؍۱

[20] صحیح بخاری كِتَابُ الأَشْرِبَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَسْتَحِلُّ الخَمْرَ وَیُسَمِّیهِ بِغَیْرِ اسْمِهِ۵۵۹۰

[21] مسنداحمد۲۴۷۶،سنن ابوداودكِتَاب الْأَشْرِبَةِ بَابٌ فِی الْأَوْعِیَةِ۳۶۹۶

[22] مسنداحمد۱۵۴۸۱

[23] تفسیر القرطبی ۵۵؍۱۴

[24] تفسیرالقرطبی۵۵؍۱۴

[25] الام للشافعی۲۲۶؍۶

[26] البدایة والنہایة۱۹؍۱۰

[27] تفسیرالقرطبی۵۳؍۱۴

[28] الام للشافعی۲۲۶؍۶

[29] الجاثیةہ۸

[30] تفسیرابن کثیر۳۳۲؍۶

[31] یونس۱۸

[32] الفرقان۵۵

[33] الفرقان۳

[34] ابراہیم۷

[35] بنی اسرائیل ۲۳،۲۴

[36] البقرة۲۳۳

[37] تفسیرابن کثیر۳۳۶؍۶،امتاع الاسماع۱۳۷؍۹،تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام ۲۴۱؍۳،ترتیب الأمالی الخمیسیة للشجری۲۰۰۲

[38] المعجم الکبیرللطبرانی۳۱۵۰، مسنداحمد۱۰۶۵، صحیح ابن حبان ۴۵۶۹

[39] بنی اسرائیل۴۲

[40] البقرہ۲۵۵

[41] الاعراف۱۷

[42] الکہف۴۹

[43] الزلزال۷،۸

[44] الانبیاء ۴۷

[45] مسنداحمد۱۱۲۲۹

[46] العنکبوت۴۵

[47] صحیح مسلم كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَا یُقَالُ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۱۰۸۳،السنن الکبری للنسائی ۷۲۷،مسند احمد ۹۴۶۱

[48] تعظیم قدر الصلاة۱۰۷۸

[49] المدثر۴۳

[50] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۴۰۰۴

[51] المائدة: ۱۰۵

[52] مسنداحمد۱

[53] البقرة۱۵۳

[54] بنی اسرائیل۳۷

[55] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الْكِبْرِ۴۰۹۱، مسنداحمد۳۹۱۳، صحیح ابن حبان۲۲۴،مسندابی یعلی ۵۳۳۰، شرح السنة للبغوی ۳۵۸۷

[56] صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا۳۶۶۵ ،سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی إِسْبَالِ الْإِزَارِ۴۰۸۵، مسنداحمد۴۸۸۴، صحیح ابن حبان ۵۴۴۴،السنن الکبری للنسائی ۹۶۳۶،السنن الکبری للبیہقی ۳۳۱۴،مسندابی یعلی ۵۵۷۲

[57] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی إِسْبَالِ الْإِزَارِ۴۰۸۴ ،السنن الکبری للبیہقی ۲۱۰۹۳

[58] الحجرات: ۲

[59] لقمان: ۱۸

[60] المتفق والمفترق۵۹۴؍۱

[61] الروح۱۵؍۱،معجم الصحابة للبغوی ۳۹۱؍۱،معرفة الصحابة لابی نعیم۳۵۹۰؍۶،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۲۰۲؍۱

[62] تهذیب التهذیب۱۲؍۲،الثقات لابن حبان۴۳؍۳

[63] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی التَّوَاضُعِ ۴۸۹۵

[64] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَإِنَّ یُونُسَ لَمِنَ المُرْسَلِینَ۴۶۰۴

[65] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابٌ خَیْرُ مَالِ المُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الجِبَالِ۳۳۰۳،صحیح مسلم کتاب الذکروالدعاء بَابُ اسْتِحْبَابِ الدُّعَاءِ عِنْدَ صِیَاحِ الدِّیكِ۶۹۲۰،سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی الدِّیكِ وَالْبَهَائِمِ۵۱۰۲،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا یَقُولُ إِذَا سَمِعَ نَهِیقَ الحِمَارِ ۳۴۵۹،سنن الکبری للنسائی ۱۰۷۱۴،شرح السنة للبغوی۱۳۳۴

[66] مسنداحمد ۵۶۰۵

[67] تفسیرابن ابی حاتم۳۰۹۸؍۹،مستدرک حاکم۳۵۴۳

[68] الزهدلابن حنبل۵۳۹

[69] شعب الایمان۹۰۰۳

[70] الجاثیة۱۳

[71] المومن۳۵

[72] الحج۸

[73] المومن۱۹

[74] حم السجدہ۵۰

[75] الذاریات ۵۷

[76] الکہف۱۰۹

[77] صحیح مسلم کتاب الصلاةبَابُ مَا یُقَالُ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ۱۰۹۰،سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء بَابُ مَا تَعَوَّذَ مِنْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۸۴۱، مسنداحمد۲۴۳۱۲، صحیح ابن حبان ۱۹۳۲،سنن الدارقطنی ۵۱۵،السنن الکبری للبیہقی ۶۱۴،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۱۴۰،مسندابی یعلی ۴۵۶۵،مصنف عبدالرزاق ۲۸۸۳،شرح السنة للبغوی ۱۳۶۶

[78] یٰسین۸۲

[79] القمر۵۰

[80] یٰسین۳۸تا۴۰

[81] القیامة۶تا۹

[82] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ بِحُسْبَانٍ۳۱۹۹،وکتاب التفسیرسورة یٰسین بَابُ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ۴۸۰۲،۴۸۰۳،وکتاب التوحیدالجھمیةبَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۷۴۲۴،۷۴۳۳، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الزَّمَنِ الَّذِی لَا یُقْبَلُ فِیهِ الْإِیمَانُ۳۹۶، شرح السنة للبغوی ۴۲۹۲

[83] تفسیرابن ابی حاتم ۱۲۸۵

[84] بنی اسرائیل۶۷

[85] العنکبوت۶۵

[86] مریم۸۰

[87] مریم۹۵

[88] تفسیر ابن کثیر۳۵۲؍۶

[89] الزلزال۷،۸

[90] البقرة۸۱،۸۲

[91] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۷۴۲۲

[92] مسنداحمد۷۵۰۰

[93] المسند للشاشی۷۸۱، مصنف عبدالرزاق۱۳۵۱۹،السنن الکبری للبیہقی۱۷۶۱۲

[94] النسائ۱۱۰

[95] البقرة۲۵۵

[96] النسائ۱۲۰

[97] الحج۵

[98] الاعراف۱۸۷

[99] الرعد۸

[100] الانعام۵۹

[101] صحیح بخاری تفسیر سورة القمان وکتاب الاستسقاء بَابُ لاَ یَدْرِی مَتَى یَجِیءُ المَطَرُ إِلَّا اللهُ وَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ لاَ یَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللهُ ۱۰۳۹، ۴۶۲۷، ۴۶۹۷،۴۷۷۸،۷۳۷۹، مسنداحمد۴۷۶۶،صحیح ابن حبان ۶۱۳۴،السنن الکبری للنسائی ۱۱۱۹۴،شرح السنة للبغوی ۱۱۷۰

[102] صحیح ابن حبان۶۱۵۱،مستدرک حاکم۱۲۷

[103] المعجم الکبیرللطبرانی۴۶۱

Related Articles