بعثت نبوی کا چوتھا سال

مضامین سورة نوح

اہل مکہ کوتمثیلی زبان میں  سمجھایاگیاکہ نوح علیہ السلام نے بھی تبلیغ کاآغازاسی قوم کے مصائب ومشکلات کے دورمیں  کیاتھاجیساکہ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ہے ، اگر تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرایمان نہیں  لاؤ گے توتمہاراانجام قوم نوح سے مختلف نہیں  ہوگا،اس سورة میں  مرحلہ وارنوح علیہ السلام کاذکرہے۔

xمنصب رسالت کی ذمہ داری۔

xدعوت حق کاآغازاوراس کاطریقہ کار۔

xاس کے بعدعرصہ درازتک حق کے خلاف قوم کامزاحمت کرنا،ضداورہٹ دھرمی۔

xجب نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی سرکشی ،ضداورہٹ دھرمی کی انتہاکودیکھاکہ وہ اپنے خودساختہ معبودوں کوچھوڑنے پرکسی طرح بھی تیارنہیں توآپ اپنی قوم سے مایوس ہوگئے اوراللہ تعالیٰ سے یوں  دعاکی

وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۝۲۶اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۝۲۷ [1]

ترجمہ:اورنوح نے کہا میرے رب !ان کافروں  میں  سے کوئی زمین پربسنے والا نہ چھوڑ،اگرتونے ان کوچھوڑدیاتویہ تیرے بندوں  کوگمراہ کریں  گے اوران کی نسل سے جوبھی پیدا ہوگا بد کاراورسخت کافرہی ہوگا۔

xاس دعاکے بعداللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کوکشتی تیارکرنے کاحکم فرمایا،جب کشتی تیارہوگئی توقوم پراللہ کاعذاب نازل ہوگیاتوکشتی پرسوارچنداہل ایمان کے سواساری قوم کو جس میں  نوح علیہ السلام کابیٹابھی شامل تھاغرقاب کرکے جہنم رسیدکردیاگیااوران کے معبود ،سواع ،یغوث ،یعوق اورنسرانہیں  اس عذاب سے بچانے کے لیے نہ آئے۔

اس سورہ میں  سارے واقعات کااجمالی خاکہ ہے جبکہ تفصیلات متفرق مقامات پرجستہ جستہ موجودہیں ،عام لوگوں  کے مقابلے میں  انبیاء اوررسل کوجوحوصلہ اورجودل گردہ عطا ہوتاہے وہ عام مثالوں  میں  نظرنہیں  آتا،نوح علیہ السلام صدیوں  تک نہایت حوصلے اورمحبت سے اپنی قوم کی اصلاح کے لئے انہیں  سمجھاتے رہے،آخروہ وقت بھی آگیاجب وہ اپنی قوم کیضد،سرکشی اورہٹ دھرمی سے ناامیدہوگئے اوران کی زبان سے بددعاکے الفاظ نکل ہی گئے،اب نبی کی بددعاکیسے ٹل سکتی تھی؟آخرقوم نوح کوغرقاب کردیاگیااوررہتی دنیا تک اس کے انجام کوعبرت بنادیاگیا،اس سورة میں  واقعات کی تفصیل نہایت عبرت انگیزہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن یَأْتِیَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿١﴾‏ قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّی لَكُمْ نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٢﴾‏ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِیعُونِ ‎﴿٣﴾‏ یَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَیُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا یُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٤﴾(نوح)
’’یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو(اور خبردار کردو) اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے ، (نوح علیہ السلام) نے) کہا اے میری قوم ! میں تمہیں صاف صاف ڈرانے والا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہنا مانو،تو وہ خود تمہارے گناہ بخش دے گااور تمہیں ایک وقت مقرہ تک چھوڑ دے گا، یقیناً اللہ کا وعدہ جب آجاتا ہے تو موخر نہیں ہوتا کاش کہ تمہیں سمجھ ہوتی۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ کے مقابلہ میں  کفارمکہ کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیارکرچکی تھی،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کفارمکہ کومتنبہ فرمایاکہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی رویہ اختیارکررہے ہوجو نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم نے اختیارکیاتھااوراگرتم اس رویے سے بازنہ آئے توتمہیں  بھی وہی انجام دیکھناپڑے گاجوان کی قوم نے دیکھا تھا انہوں نے اپنی قوم کوسمجھایاتھاکہ اے میری قوم!جس طرح مجھ سے قبل الله انسانوں  میں  سے اپنے منتخب کردہ رسول بھیجتارہاہے اس طرح اس کائنات کے رب نے اپنی رحمت سے اپنا پیغام تم لوگوں تک پہنچانے کے لئے اس عظیم اورمقدس منصب کے لئے تم میں  سے مجھ پررحم فرما کرمنتخب کیاہے اور حقیقی علم وحکمت اور بصیرت سے نوازا ہے ، میں  صرف ایک انسان ہوں  تمہاری قوم وبرادری سے میراتعلق ہے، میں  وہی زبان بولتاہوں  جوتم بولتے ہوتاکہ الله کے احکام تم اچھی طرح سمجھ سکو ،میرے اخلاق ، افکار و اعمال اور فکر و بصیرت سے بھی تم لوگ خوب واقف ہو،میرے اندرنہ کوئی ربوبیت ہے اورنہ ہی الوہیت اورنہ ہی میرے ہاتھ میں  کوئی قدرت یااختیارہے البتہ میں  اپنے رب کی طرف سے وہ جانتاہوں  جوتم لوگ نہیں  جانتے، میں  اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں  کرتامیں  جوبات بھی کرتا ہوں  حق ہی کرتاہوں ، میرے پاس رب کی طرف سے اس کے مقبول فرشتے وحی لے کر آتے ہیں  میں  تو اس رب کاترجمان اور امانت دار رسول ہوں  ، اپنے دل کی رضاسے میری کامل اورغیرمشروط پیروی و اطاعت اختیارکرو میں  اذن خداوندی سے جوکہتاہوں  اس کی تعمیل میں  چوں  چراں  نہ کروخواہ اس کی مصلحت تمہاری سمجھ میں  آئے یانہ آئے، مجھ پر بھروسہ، اعتماد اوریقین کرو تاکہ میں  الله کی ذات و صفات، الله تعالیٰ کی صحیح معرفت اسکے احکام ومرضیات ابدی سعادت سے بہرہ مند ہونے کے طریقے ،موت کے بعد یقینی حقیقتوں  کی کیفیت بتاؤ ں جوکوئی اورنہیں  بتلاسکتا اورتمہیں  جھوٹے خداؤ ں  کی بندگی سے نجات دلاؤ ں ،تم لوگوں  نے الله کی حدودکوپامال کیاہواہے تمہیں  دھکیل کران حدودکے اندرلاؤ ں  اورجواس حدسے گرادیئے گئے ہیں  انہیں  ابھارکراس حدتک اٹھا لاؤ ں ، اورتم سب کوایک ایسے عادلانہ نظام زندگی کاپابندبناؤ ں  جس میں  کوئی انسان کسی دوسرے انسان کاعبدہونہ معبودبلکہ سب الله کے بندے بن جائیں میرے سامنے میرے رب کی طرف سے ایک روشن، صاف، ہمواراورسیدھی شاہراہ ہے جس پر کوئی ڈر و خوف خطرہ نہیں ، کوئی ڈاکولٹیرا نہیں ، بھول بھلیاں  نہیں ،میں  تم لوگوں  کو خیروعافیت سے منزل مقصود پر پہنچا دوں  گاجس پر رب کی رضا، خوشنودگی اورر حمتیں  ہوں  گی ،لہٰذا ادھر ادھر مت دیکھو ، وقت بربادنہ کرو،بقیہ زندگی کے ان چند لمحوں  کوغنیمت جانو اور فائدہ اٹھاؤ اور اگر تم لوگ روگردانی اورانکارکرتے ہو تومیرا کام رب کے احکامات پوری امانت ودیانت کے ساتھ پہنچادیناہے میں  تم پر دروغہ نہیں  ہوں ہاں  اس رب نے تمہاری سانسیں  گن رکھی ہیں  تمہاری طبعی زندگی کی مہلت چند گھڑیاں  ہیں  جب آخری ساعت آجائے گی توپھر چاہے تم ایمان لے بھی آؤ تووہ تمہیں  کچھ فائدہ نہیں  دے گاتمہاراایمان معتبرنہ ہوگاتمہیں  معاف نہیں  کیاجائے گا، کاش کہ تم میری باتوں  پر غوروفکرکرومگرقوم نے ایک کان سے سنااوردوسرے سے نکال دیا۔

 قَالَ رَبِّ إِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِی لَیْلًا وَنَهَارًا ‎﴿٥﴾‏ فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَائِی إِلَّا فِرَارًا ‎﴿٦﴾‏ وَإِنِّی كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ إِنِّی دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ‎﴿٨﴾‏ ثُمَّ إِنِّی أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا ‎﴿٩﴾‏ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ‎﴿١٠﴾‏(نوح)
’’ (نوح علیہ السلام) نے) کہا اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور زیادہ بھاگنے لگے ، میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لیے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور پھر بڑا تکبر کیا، پھر میں نے انہیں با آواز بلند بلایا، بیشک میں نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور چپکے چپکے بھی، اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ (اور معافی مانگو) وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘

نوح علیہ السلام سے کنی کترانا:

نوح علیہ السلام کی قوم نے وعظ ونصیحت، خلوص ومحبت، ہر دلیل ومنطق، رب کی ہرنشانی کاانکارہی کیا، پرکاہ برابر بھی اسے اہمیت نہ دی ،تمام تروعظ ونصیحت کے باوجودتکذیب کا راستہ نہ چھوڑا،چند روزہ فانی زندگی ،اولاد،مال و متاع اور دنیاوی حیثیت پرتکیہ کر تے ہوئے تکبروغرور پر اڑے ہی رہے، نوح علیہ السلام کی بات سنناتودرکنار وہ ان کی شکل دیکھناتک گوارا نہ کرتے، انہیں  سرراہ دیکھتے تو دور ہی سے راستہ بدل لیتے، پھر بھی اگر کہیں  سامنا ہو بھی جاتا تو کام کا بہانہ کردیتے یا منہ چھپاکر نکل جاتے دور دور رہتے، نوح علیہ السلام نے ہرمحفل ،اجتماعات ،مجلسوں میں کھلے عام دعوت دی ،ایک ایک کوگھروں  میں  فرداًفرداً، علیحدہ علیحدہ، چپکے چپکے، رات ودن منت ولجاحت، پیارومحبت اور درد دل سے نصیحت کرتے کہ ایمان واطاعت کاراستہ اپنالو،اپنے رب سے گزشتہ گناہوں  کی معافی مانگ لو،اس کی رضاکے طریقوں  پرچلو مگرجوقوم سچ حق صحیح بات جاننا ہی نہ چاہے اور آگ کے شعلوں اندھیروں  میں  گم ہوجاناچاہے تو اسکو دوزخ کاایندھن بننے سے کون بچاسکتاہے؟ چنانچہ قوم نوح علیہ السلام الله کے رسول کے مقابلے میں  سرگرم ہی رہی، شیطان مردود کوہی اپناہادی وملجا سمجھ کراس کے دلفریب جال میں  الجھ کر آنکھیں بندکرکے خوابوں  اور خیالوں  میں  بدمست رہی، اپنے معبودوں  پرتکیہ کرتے ہوئے نتائج وعواقب سے بے بہرہ ہوکر مالک حقیقی اللہ وحدہ لاشریک خالق کائنات کے آگے جھکنے سے انکارکردیا(اوراگرآج ہم بھی اپنے آپ کوقرآن وسنت کے ترازومیں  تولیں  توہماری کیفیت بھی اس قوم سے مختلف نہیں )

یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْكُم مِّدْرَارًا ‎﴿١١﴾‏ وَیُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا ‎﴿١٢﴾‏ مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ‎﴿١٣﴾‏ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ‎﴿١٤﴾‏ أَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ‎﴿١٥﴾‏ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ‎﴿١٦﴾‏ وَاللَّهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا ‎﴿١٧﴾‏ ثُمَّ یُعِیدُكُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا ‎﴿١٨﴾‏ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا ‎﴿١٩﴾‏ لِّتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا ‎﴿٢٠﴾‏ (نوح)
’’وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا، اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا،تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے کس طرح سات آسمان پیدا کردیئے ہیں اور ان میں چاند کو خوب جگمگاتا بنایا اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے، اور تم کو زمین سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے، پھر تمہیں اسی میں لوٹا لے جائے گا، اور (ایک خاص طریقہ) سے پھر نکالے گا، اور تمہارے لیے زمین کو اللہ تعالیٰ نے فرش بنادیا ہےتاکہ تم اس کی کشادہ راہوں میں چلو پھرو۔‘‘

دوسراانداز:

تبلیغ کرتے ایک عرصہ گزرگیامگرقوم کے دلوں  میں  گداز،ڈروخوف پیدانہ ہوا تو نوح علیہ السلام نے انسانی فطرت کے مطابق دوسرا طریقہ اختیارکیااورقوم کوثواب وجزاکی ترغیب دینی شروع کی، کہااے میری قوم کے لوگو!تم دیکھتے ہومیرا رب جہاں  چاہتاہے بارش برسادیتاہے ،جس بارش سے تمہارے کھیت کھلیان لہلہااٹھتے ہیں  جس کی نباتات کوتمہارے چوپائے چرتے ہیں  اوران میں  دودھ بنتاہے ،پھرآلائشوں  اورخون کے اندرسے مفیددودھ کی دھاریں  نکلتی ہیں  جوپینے والوں  کے لئے نہایت لذیذ اورقوت بخش غذاکاکام دیتا ہے اور جہاں  چاہتا ہے بارشوں  کوروک دیتاہے تمہاری معاش کاانحصاراسی بارش پرہے لہٰذارب وحدہ لاشریک پر ایمان لاؤ اورمغفرت چاہوپھروہ مزید بارشیں  برسائے گا اورنہریں  نکال دے گاجس سے تمہاری فصلیں ، اجناس جوتمہاری معیشت کاسب سے جامع عنصراورذخیرہ کرنے کی چیزوں  میں  سب سے زیادہ اہم ہے ، سبزیاں  اورترکاریاں اور پھل خوب ہوں  گی تمہارے مویشی فربہ ہوں  گے دودھ وافر مقدار میں  ملے گا دریا پانی سے بھرجائیں  گے جس میں  تمہاری کشتیاں  باربرداری کے لئے چلتی ہیں ،میرارب تمہارے زور بازو اولادمیں  مزید اضافہ کردے گا،اس سے تمہاری افرادی قوت اور معاشی حیثیت اور بڑھ کر مضبوط ہوجائے گی اردگرد تمہاری عزت میں  اضافہ ہوگااور دھاک بیٹھ جائے گی کبھی اپنی ساخت پرغورکروتم دوسرے جانداروں  سے کتنے منفردہو کہ اس نے تمہیں  پہلے مٹی سے پھر غلیظ پانی کی ایک بوندسے ماں  کے پیٹ کے تین اندھیرں میں  خوبصورت اندازسے جیسی چاہی شکل بنائی جوایک دوسرے سے نہیں  ملتیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ۝۰ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ۝۶ [2]

ترجمہ: وہ تمہاری ماؤں  کے پیٹوں  میں  تین تین تاریک پردوں  کے اندر تمہیں  ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے، یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں  ہے پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو ؟ ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِیْنٍ۝۱۲ۚثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۝۱۳۠ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۝۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۝۱۴ۭ [3]

ترجمہ:ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں  تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنادیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں  بنائیں ، پھر ہڈیوں  پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں  سے اچھا کاریگر۔

وَاللهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا۔۔۔۝۱۱ [4]

ترجمہ: اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھرتمہارے جوڑے بنادیے(یعنی مرداورعورت) ۔

هُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّــطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ یُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ۔۔۔۝۶۷ [5]

ترجمہ:وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے، پھرخون کے لوتھڑے سے، پھروہ تمہیں  بچے کی شکل میں  نکالتاہے۔

تمہیں  قوت گویائی بخشی اور تمہارے اوپراپنی مخلوق کٹور ے کی ماند سات تہہ درتہہ آسمان بنائے،جیسے فرمایا

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔۔۔۝۳ [6]

ترجمہ:جس نے تہ برتہ سات آسمان بنائے ۔

تم اس محفوظ چھت سے باہربھی نہیں  نکل سکتے،جیسے فرمایا

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝۳۳ۚ [7]

ترجمہ:اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں  آسمانوں  اور زمین میں  کے کناروں  سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں  نکل سکتے اس کے لیے بڑازورچاہیے۔

تمہاری ضرورت کے لئے سورج کومسخرکردیاجس کی روشنی میں  تم معاش تلاش کرتے ہوجس کی روشنی اورگرمی میں  تمہاری فصلیں  نشوونماپاتی ہیں رات کو تمہارے سکون کے لئے بنایاجس میں  چاندکی ہلکی ٹھنڈی میٹھی روشنی میں  آرام کرتے ہو،جیسے فرمایا

ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا۔۔۔۝۵ [8]

ترجمہ: وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی ۔

تمہارے لئے تمہاری کاروباری و تمدنی ضرورت کے لئے بڑے بڑے کشادہ راستے بنادیئے تاکہ تم آسانی کے ساتھ سفرکرسکو،جیسے فرمایا

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّسَلَكَ لَكُمْ فِیْهَا سُـبُلًا۔۔۔۝۵۳ [9]

ترجمہ:وہی جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں  تمہارے چلنے کو راستے بنائے ۔

وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ۝۰۠ وَجَعَلْنَا فِیْهَا فِجَـاجًا سُـبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ۝۳۱ [10]

ترجمہ:اور ہم نے زمین میں  پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ انہیں  لے کرڈھلک نہ جائےاور اس میں  کشادہ راہیں  بنا دیں  شایدکہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں ۔

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّجَعَلَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱۰ۚ(الزخرف10)

ترجمہ:جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں  تمہاری خاطر راستے بنادیے تاکہ تم اپنی منزل مقصودکی راہ پاسکو۔

رات کو الله سبحانہ وتعالیٰ تم پر نیندمسلط فرمادیتاہے جس میں  تمہیں  کچھ علم نہیں  ہوتاکہ کیا کررہے ہو ایسے ہی الله تم پرموت طاری کردے گا پھروہ ضرور بالضرور جب وہ چاہے گاتمہیں مٹی سے نکال کر جسم وجان کے ساتھ زندہ کرکے یکایک اپنے حضور لاکھڑا کرے گااورتمہارے اعمال کامحاسبہ اور بازپرس کرے گا اوراس کے مطابق ہی تمہیں  جنت جس میں  اسکے انعامات ہی انعامات ہیں  داخل کرے گا یا اس جہنم کاباسی بنائے گاجواسکا عذاب ہے جو بہت ہی برا ٹھکاناہے،وہاں  تم روؤ گے اور گڑگڑا کر اس دنیامیں  واپس آنے کی گزارش کرو گے مگروقت گزر چکا ہوگا ، جیسے فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [11]

ترجمہ: کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں  گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے) اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں  واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں  ہمیں  اب یقین آگیا ہے۔ ۔

لہٰذااس مہلت سے فائدہ اٹھالو اوراس پرایمان لے آؤ اس ایک اکیلے کواپنامعبودمان لو اور کامل اطاعت کروجس طرح اس کی عظمت کاحق ہے اس سے ڈرواور نقصان اٹھانے والوں  میں  نہ رہو،دنیا کے چھوٹے چھوٹے رئیسوں  اورسرداروں  کے بارے میں  توتم یہ سمجھتے ہو کہ انکے وقارکے خلاف کوئی حرکت کرنا خطرناک ہے مگر الله تبارک وتعالیٰ کے متعلق تم یہ توقع نہیں  رکھتے کہ وہ بھی کوئی باوقار ہستی ہوگا اورتمہارے اعمال کامحاسبہ کرئے گا مگرسرداران قوم غرور اور تمکنت کے ساتھ سرجھٹک کرچلے جاتے۔

قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِی وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا ‎﴿٢١﴾‏ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ‎﴿٢٢﴾‏ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ‎﴿٢٣﴾‏ وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِیرًا ۖ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِینَ إِلَّا ضَلَالًا ‎﴿٢٤﴾‏(نوح)
’’ نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! ان لوگوں نے میری تو نافرمانی کی اور ایسوں کی فرماں برداری کی جن کے مال و اولاد نے (یقیناً ) نقصان ہی میں بڑھایا ہے، اور ان لوگوں نے بڑا سخت فریب کیا اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا) اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا (الٰہی) تو ان ظالموں کی گمراہی اور بڑھا۔‘‘

معبودان باطلہ پراصرار:

نوح علیہ السلام کہتے جن معبودوں کی پوجا،پرستش تم کرتے ہو انکی حقیقت کچھ بھی نہیں  ہے،چند نام ہیں جوتم نے اور تمہارے بڑوں  نے سن رکھے ہیں  ، جیسے فرمایا

اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّیْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ۔۔۔۝۲۳ۭ [12]

ترجمہ: دراصل یہ کچھ نہیں  ہیں  مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیئے ہیں  اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں  کی ۔

انہوں  نے کچھ بھی تخلیق نہیں کیااورنہ ہی ان کے قبضہ قدرت میں  کچھ ہے،سوچوتوسہی،کیاتم لوگوں  کے پاس اپنے معبودوں  کی حقانیت کی کوئی دلیل ہے یہ تو خوداپنا اچھا برا بھی نہیں  جانتے،جیسے فرمایا

۔۔۔قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَاۗءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا۔۔۔ ۝۱۶ [13]

ترجمہ:پھران سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں  کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں  رکھتے ؟۔

کیایہ سن،بول یادیکھ سکتے ہیں  ،کیایہ تمہاری رہنمائی کرسکتے ہیں ، تمہاری مددکوپہنچ سکتے ہیں ، زندگی یاموت دے سکتے ہیں ،بیماری سے شفادے سکتے ہیں  یاکوئی ایساکام سندکے ساتھ بتاوجویہ کرسکتے ہوں  اب قوم کے پاس کیا دلیل ہوتی،کیاجواب ہوتا،وہ لاجواب ہو جاتے،کوئی جواب نہ بن پڑتامگراپنی ہٹ دھرمی، ضد نہ چھوڑتے،نوح علیہ السلام نے پشت درپشت قوم کے اجتماعی طرزعمل کودیکھ کرنہ صرف یہ اندازہ فرمالیاکہ ان کے اندرقبول حق کی کوئی صلاحیت باقی نہیں  رہی ہے بلکہ یہ رائے بھی قائم کرلی کہ آئندہ ان کی نسلوں  سے نیک اورایمان دار آدمیوں  کے اٹھنے کی توقع نہیں  ہے ، قوم کے سرداروں  اورمندروں  کے پنڈتوں  نے اپنے جعلی معبودوں  کی کارفرمائی کے بڑے لمبے شاخ درشاخ سلسلے قائم کر رکھے ہیں  جس کے گورکھ دھندے سے پوری قوم کے ذہن ماؤ ف ہیں  اب انکی قوم ایمان کی دولت سے بہرہ مند نہ ہوگی ،سونے پہ سہاگہ یہ کہ رب نے ایسے لوگوں  کومزید بھٹکانے کے لئے وافرمال و مویشی اور کثرت سے اولادیں  دے دی ہیں  توانہوں  نے ایک لمبا عرصہ صبرکے بعدجب وہ بالکل مایوس ہوگئے اپنے رب سے التجاکی اے میرے رب ! توجانتاہے میں  نے تیرا پیغام پہنچانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں  رکھا کسی قسم کی ملامت اورزدوکوب کی پرواہ نہیں  کی مگر مجھے اورتیری دعوت حق کو ٹھکرادیاگیاہے،میری قوم نے میرے بجائے اپنے بڑوں  اوراصحاب ثروت ہی کی پیروی کی جن کے مال واولاد نے انہیں  دنیااورآخرت کے خسارے میں  بڑھایاہے میں  اپنی قوم سے مایوس اور ناامیدہوگیاہوں  لہذااب توبھی ان ظالموں  کوگمراہی کے سواکسی چیزمیں  ترقی نہ دے، میری قوم کے ان سرکش سرداروں  نے لوگوں  کو سختی سے کہاہے کہ نوح علیہ السلام کی دیوانگی کی باتیں  سن کر اپنے ان معبودوں  ودا،سواعاً،یغوث،یعوق اورنسر کی عبادت کرنا ہرگز ہرگز ترک نہ کروجن کو ہمارے بزرگ صدیوں  سے پوجتے چلے آئے ہیں بھلا وہ ایسے ہی گئے گذرے تھے اور انکوکوئی سمجھ نہیں  تھی ،اگر نوح علیہ السلام کے طریقے پرچلو گے توراستے سے بھٹک جاؤ گے اور کہیں  کے نہ رہوگے ۔

مِّمَّا خَطِیئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا ‎﴿٢٥﴾‏ وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِینَ دَیَّارًا ‎﴿٢٦﴾‏ إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ یُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ‎﴿٢٧﴾‏ رَّبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَن دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِینَ إِلَّا تَبَارًا (نوح)‎﴿٢٨﴾‏
’’ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نہیں پایا، اور (حضرت) نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے پالنے والے ! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ، اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو (یقیناً ) یہ تیرے (اور) بندوں کو (بھی) گمراہ کردیں گے اور یہ فاجروں اور ڈھیٹ کافروں ہی کو جنم دیں گے، اے میرے پروردگار ! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایماندار ہو کر میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور کل ایماندار عورتوں کو بخش دے اور کافروں کو سوائے بربادی کے اور کسی بات میں نہ بڑھا ۔‘‘

رب کے حضور التجا:

اپنے گناہوں  کی کثرت،سرکشی،کفرپراصراراوراپنے رسول کی مخالفت کی بناپروہ پانی میں  غرق کیے گئے اورپھرجہنم کی ہولناک آگ میں  جھونک دیے گئے ، پھرانہوں  نے اللہ کے عذاب سے بچانے والاکوئی مددگار،فریادرس اورپناہ دینے والانہ پایا،اورنوح علیہ السلام نے کہااےمیرے رب! ان کافروں  میں  سے کسی ایک کوبھی زمین پربسنے والانہ چھوڑاگرتونے ان کوزندہ چھوڑدیاتویہ تیرے بندوں  کوگمراہ کریں  گے اوران کی نسل سے جوبھی پیدا ہوگابدکاراورسخت کافرہی ہوگا،اےمیرے رب!مجھے اورمیرے والدین کواورہراس شخص کوجومیرے گھرمیں  مومن کی حیثیت سے داخل ہواہے اورسب مومن مردوں  اورعورتوں  کومعاف فرمادے اورظالموں  کے لئے ہلاکت کے سواکسی چیزمیں  اضافہ نہ کر۔

[1] نوح ۲۶،۲۷

[2] الزمر۶

[3] المومنون۱۲تا۱۴

[4] فاطر۱۱

[5] المومن۶۷

[6] الملک۳

[7] الرحمٰن۳۳

[8] یونس۵

[9] طہ۵۳

[10] الانبیاء ۳۱

[11] السجدة۱۲

[12] النجم۲۳

[13] الرعد۱۶

Related Articles