بعثت نبوی کا تیرهواں سال

مضامین سورۂ الاعراف (حصہ اول)

اس سورہ کامرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ،رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال سے اہل مکہ اوراردگردکے قبائل کودعوت دین دیتے رہے مگران کی ہٹ دھرمی اورمخالفانہ ضداپنی جگہ برقراررہی ،اس سورہ میں اہل مکہ کے ساتھ ساتھ دوسرے قبائل کو زبردست تنبیہ کی گئی کہ اگر اب بھی تم نے دین اسلام کوقبول نہ کیاتوتمہاراانجام سابقہ امتوں کی طرح ہوگاجنہیں دین اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا،گذشتہ اقوام کے عبرت اموزواقعات بیان کرکے یہودیوں کی منافقانہ روش،ان کی وعدہ خلافیوں کے بدترین انجام کابیان کیاگیا، مسلمانوں کوحکم دیاگیا کہ وہ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِکے روش پرچلتے رہیں اوراس حق کی پاداش کے سلسلہ میں جوبھی مشکلات پیش آئیں انہیں صبرو صلوٰة کے ذریعہ خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اورچیرہ دستیوں کے مقابلہ میں صبروضبط اورعفوودرگزرکی تلقین کی گئی ۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اللہ کے نام سے جوبے انتہامہربان اوررحم فرمانے والاہے

المص ‎﴿١﴾‏ كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْكَ فَلَا یَكُن فِی صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٢﴾‏ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَیْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِیَاءَ ۗ قَلِیلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٣﴾‏ وَكَم مِّن قَرْیَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَیَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ ‎﴿٤﴾‏ فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا إِلَّا أَن قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِینَ ‎﴿٥﴾‏(الاعراف)
’’المص ،یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لیے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے،تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی پیروی مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو،اور بہت بستیوں کو ہم نے تباہ کردیا اور ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت پہنچا یا ایسی حالت میں کہ وہ دوپہر کے وقت آرام میں تھے، سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلی واقع ہم ظالم تھے۔‘‘

ا،ل،م،ص۔یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگراصل مخاطب امت محمدیہ ہے،فرمایایہ ایک جلیل القدر سورۂ ہے جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے، پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہارے دل میں اس کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہ ہونی چاہیے، اورجس طرح سابقہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبرواستقامت کے ساتھ کلام الٰہی کی تبلیغ کی اسی طرح آپ بھی اس کے ابلاغ میں کوئی جھجک ،خوف اوراندیشہ محسوس نہ کریں کہ مخالفین اس کاکیسااستقبال کریں گے،جیسے فرمایا

فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۝۰ۭ كَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ۝۰ۙ لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّہَارٍ۝۰ۭ بَلٰغٌ۝۰ۚ فَہَلْ یُہْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۳۵ۧ [1]

ترجمہ:پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو جس روز یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہوگا کہ جیسے دنیا میں دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے، بات پہنچا دی گئی اب کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا ؟

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ۝۹۷ۙ [2]

ترجمہ: ہمیں معلوم ہے کہ جوباتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کوسخت کوفت ہوتی ہے۔

یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کوضداورہٹ دھرمی اور مخالفت حق کایہ حال ہے انہیں آخرکس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے۔

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰٓى اِلَیْكَ وَضَاۗىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَاۗءَ مَعَهٗ مَلَكٌ۔۔۔۝۰۝۱۲ۭ [3]

ترجمہ:تو اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کرنے سے )چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا ؟یا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا؟۔

اوریہ کلام نازل کرنے کی غرض وغایت یہ ہے کہ تم اس کے پرزور دلائل وبراہین سے منکرین کودعوت حق قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈراؤتاکہ ان پراتمام حجت قائم ہوجائے اوراہل ایمان کوجواس کی صداقت اوراس کے آسمانی کتاب ہونے پریقین رکھتے ہیں نصیحت وعبرت ہو،جیسے فرمایا

وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۵۵ [4]

ترجمہ:البتہ نصیحت کرتے رہوکیوں کہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لئے نافع ہے۔

اوروہ نصیحت یہ ہے کہ لوگو!اللہ کے اس آخری کلام قرآن مجیدکے احکام اورسنت نبوی کی پیروی کرو اسی میں تمہاری دنیاوی سربلندی اور آخروی نجات پنہاں ہے،

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی كَرِبَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:أَلَا إِنِّی أُوتِیتُ الْكِتَابَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ

مقدام بن معدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں قرآن اوراس کے مثل اس کے ساتھ دیاگیاہوں ۔[5]

عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِیَّةَ، قَالَ: كَانَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ یَنْزِلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالسُّنَّةِ كَمَا یَنْزِلُ عَلَیْهِ بِالْقُرْآنِ، وَیُعَلِّمُهُ إِیَّاهَا كَمَا یُعَلِّمُهُ الْقُرْآنَ

حسان بن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام (ایسے )سنت لے کرنازل ہوتے جس طرح قرآن لے کرنازل ہوتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسنت اسی طرح سکھاتے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن سکھاتے تھے۔[6]

کیونکہ زمانہ جاہلیت میں سرداروں نجومیوں اور کاہنوں کی بات کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی حتی کہ حلال وحرام میں بھی ان کوسندتسلیم کیاجاتا تھا اس لئے اس سورۂ کامرکزی مضمون فرمایاکہ لوگو!اللہ ہی کواپنا معبود حقیقی تسلیم کرو اور صرف اس ہدایت کی پیروی اختیار کرو جواللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے ،اگران ہدایات سے روگردانی کرکے کسی دوسرے کی پیروی کرو گے تواس کانتیجہ تباہی و بربادی کے سواکچھ نہیں نکلے گا مگرتم نصیحت کم ہی مانتے ہو،جیسے فرمایا

وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ۔۔۔۝۰۝۱۱۶ [7]

ترجمہ:اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر تم ان لوگوں کی اکثریّت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔

وَمَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ۝۱۰۶  [8]

ترجمہ: ان میں سے اکثراللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کوشریک ٹھیراتے ہیں ۔

سینکڑوں اورہزاروں ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ان کی تکذیب حق وسرکشی کے سبب ہلاک کردیا،جیسے فرمایا

وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ۝۱۰ۧ   [9]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جاچکا ہے مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلّط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَہْلَكْنٰہَا وَہِىَ ظَالِمَةٌ فَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ۝۴۵     [10]

ترجمہ:کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں ، کتنے ہی کنوئیں بےکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں ۔

وَكَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍؚبَطِرَتْ مَعِیْشَتَہَا۝۰ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُہُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِہِمْ اِلَّا قَلِیْلًا۝۰ۭ وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ۝۵۸ [11]

ترجمہ:اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے تھے،سو دیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔

ان پر ہماراعذاب اچانک رات کے وقت جب وہ خواب غفلت کے مزے لے رہے تھے یا دوپہر کے وقت ٹوٹ پڑاجب وہ کھیل کودمیں مصروف تھے ، جیسے فرمایا

اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِـیَہُمْ بَاْسُـنَا بَیَاتًا وَّہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝۹۷اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓی اَنْ یَّاْتِـیَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّہُمْ یَلْعَبُوْنَ۝۹۸ۭ [12]

ترجمہ:پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں ؟یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں ؟۔

اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۴۵ۙاَوْ یَاْخُذَہُمْ فِیْ تَقَلُّبِہِمْ فَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۝۴۶ۙ [13]

ترجمہ:پھر کیا وہ لوگ جو(دعوت پیغمبر کے مخالف میں ) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بےخوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہویا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔

ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاۗءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُ۝۱۶ۙاَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاۗءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا۝۰ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ۝۱۷             [14]

ترجمہ: کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جوآسمان میں ہے تمہیں زمین میں دھنسادے اوریکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے ؟کیاتم اس سے بے خوف ہوکہ جو آسمان میں ہے تم پرپتھراؤکرنے والی ہوابھیج دے ؟ پھرتمہیں معلوم ہوجائے گاکہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے۔

پھر جب ہمارا عذاب ان پرٹوٹ پڑااورانہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیاکہ اللہ اوراس کے رسول کی بات ہی سچ تھی اورمشکل کی اس گھڑی میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی قدرت واختیارکی باتیں محض جھوٹ ثابت ہوئیں تو پھر ان کی زبان پریہی صدا تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے،مگراس وقت اس اعتراف کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا،جیسے فرمایا

فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا۝۰ۭ سُنَّتَ اللهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ۝۰ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۵ۧ [15]

ترجمہ:مگرہماراعذاب دیکھ لینے کے بعدان کاایمان ان کے لئے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہےجوہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہاہے اور اس وقت کافرلوگ خسارے میں پڑگئے ۔

وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ۝۱۱فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَـنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَرْكُضُوْنَ۝۱۲ۭلَا تَرْكُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰى مَآ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــَٔـلُوْنَ۝۱۳قَالُوْا یٰوَیْلَنَآ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ۝۱۴فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ۝۱۵     [16]

ترجمہ:کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری کسی قوم کو اٹھایاجب ان کوہمارا عذاب محسوس ہواتولگے وہاں سے بھاگنے(کہاگیا) بھاگو نہیں ، جاؤ اپنے انہی گھروں اورعیش کے سامانوں میں جن کے اندرتم چین کر رہے تھے شایدکہ تم سے پوچھاجائے ، کہنے لگے ہائے ہماری کم بختی!بے شک ہم خطاوارتھے اوروہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کوکھلیان کردیا زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا۔

مگردنیامیں اس قدرذلت ورسوائی کے بعدبھی نافرمانی کے وبال سے جان نہ چھوٹے گی ،بلکہ ایسے کفارکومیدان حشرمیں بھی ذلت ورسوائی کا سامناکرناپڑے گااوراس وقت وہ حقائق کوبھی جھٹلانہ سکیں گے اوراس دن اپنے اعمال ہی انسان کی سفارش اورنجات کاسبب بن سکیں گے۔

فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِینَ أُرْسِلَ إِلَیْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٦﴾‏ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِم بِعِلْمٍ ۖ وَمَا كُنَّا غَائِبِینَ ‎﴿٧﴾‏ وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٨﴾‏ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآیَاتِنَا یَظْلِمُونَ ‎﴿٩﴾‏ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِی الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیهَا مَعَایِشَ ۗ قَلِیلًا مَّا تَشْكُرُونَ ‎﴿١٠﴾‏(الاعراف)
’’پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھےاور ہم پیغمبروں سے بھی ضرور پوچھیں گے ، پھر ہم چونکہ پوری خبر رکھتے ہیں ان کے روبرو بیان کردیں گے اور ہم کچھ بےخبر نہ تھے،اور اس روز وزن بھی برحق ہے پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے، اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے، اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لیے اس میں سامان رزق پیدا کیا، تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔‘‘

جن قوموں کی طرف ہم نے پیغمبربھیجے ہیں ،روزقیامت ہم ان لوگوں سے یقیناً بازپرس کریں گے کہ ہم نے تمہارے پاس پیغمبربھیجے تھےکیا انہوں نے تمہیں ہماراپیغام ٹھیک ٹھیک پہنچایادیاتھا،اوروہ جواب دیں گے ہاں اے ہمارے رب!تیرے پیغمبرہمارے پاس آئے تھے لیکن وہ اپنے کفروانکاراورفسق ونافرمانی کے لئے کوئی حجت پیش نہ کر سکیں گے ،جیسے فرمایا

وَیَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ۝۶۵فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْۢبَاۗءُ یَوْمَىِٕذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۶۶        [17]

ترجمہ: اور(فراموش نہ کریں یہ لوگ)وہ دن جب کہ وہ ان کوپکارے گااورپوچھے گاکہ جورسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیاجواب دیا تھا ؟اس وقت کوئی جواب ان کونہ سوجھے گااورنہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ ہی سکیں گے۔

اورپیغمبروں سے بھی پوچھیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوم کو پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیااوران کی قوموں نے انہیں اس دعوت کاکیاجواب دیا،وہ عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں ہے ،جیسے فرمایا

یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ۝۰ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۰۹ [18]

ترجمہ:جس روزاللہ سب رسولوں کوجمع کرکے پوچھے گاکہ تمہیں کیاجواب دیاگیاتووہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کوجانتے ہیں ۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِی أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِیَةٌ فِی بَیْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِیَّتِهَا، وَالخَادِمُ رَاعٍ فِی مَالِ سَیِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے ہرایک نگران ہے اوراس کے زیراختیارلوگوں کی بابت اس سے سوال ہوگابادشاہ نگراں ہے اور اس سے اس کی رعایاکے بارے میں سوال ہوگااورہرانسان اپنے گھرکانگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگااورہرعورت اپنے شوہرکے گھرکی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگااورخادم اپنے آقاکے مال کانگراں ہے اوراس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ [19]

پھرہم خودپورے علم کے ساتھ امتوں اورپیغمبروں کی ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کردیں گے آخرہم ان کے احوال دیکھتے اور لکھتے رہے تھے،جیسے فرمایا

 ۔۔۔اَحْصٰىهُ اللهُ وَنَسُوْهُ۔۔۔ ۝۶ۧ       [20]

ترجمہ:وہ بھول گئے ہیں مگراللہ نے ان کاسب کچھ کیا دھراگن گن کرمحفوظ کررکھاہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَاۗىِٕقَ۝۰ۤۖ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ۝۱۷        [21]

ترجمہ:اورتمہارے اوپرہم نے سات آسمان پیدا کیے اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں ۔

کیونکہ وہ ہماری آیات اور نشانیوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤکرتے رہے تھے ،روزمحشراللہ تعالیٰ میزان عدل قائم فرمائے گااور اعمال کوجسم عطا فرما کروزن فرمائے گا۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِہَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷            [22]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہو ہم سامنے لے آئیں گےاور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۶ۙفَہُوَفِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ۝۷ۭوَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ۝۸ۙفَاُمُّہٗ ہَاوِیَةٌ۝۹ۭ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَاہِیَہْ۝۱۰ۭنَارٌ حَامِیَةٌ۝۱۱ۧ [23]

ترجمہ:پھرجس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ دل پسندعیش میں ہوگااورجس کے پلڑے ہلکے ہوں گے اس کی جائے قرارگہری کھائی ہوگی،اورتمہیں کیاخبرکہ وہ کیا چیز ہے ؟ بھڑکتی ہوئی آگ۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۱۰۱ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۝۱۰۳ۚ     [24]

ترجمہ:پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے،اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گےوہی فلاح پائیں گےاور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیاوہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔

اعمال کے وزن کرنے کے بارے میں ایک قول ہے کہ روزقیامت اللہ تعالیٰ اعمال کواجسام میں تبدیل کردے گااورپھرانہیں تولاجائے گا،

أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِیُّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:اقْرَءُوا  الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ شَفِیعًا لِأَصْحَابِهِ،اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَیْنِ الْبَقَرَةَ، وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِیَانِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَیَایَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَیْرٍ صَوَافَّ،تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا تَسْتَطِیعُهَا الْبَطَلَةُ

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناآپ فرمارہے تھےقرآن پڑھواس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کاسفارشی بن کرآئے گا، اوردوچمکتی ہوئی سورتیں سورہ بقرہ اورسورہ آل عمران پڑھو اس لئے کہ وہ قیامت کے دن دوسائبانوں کی یادوبادلوں کی یاپر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈکی صورت میں آئیں گے اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی، سورت البقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔[25]

عَنِ ابْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَجِیءُ الْقُرْآنُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ، فَیَقُولُ: أَنَا الَّذِی أَسْهَرْتُ لَیْلَكَ، وَأَظْمَأْتُ نَهَارَكَ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن اپنے قاری اورعامل کے پاس ایک تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گااورحافظ قرآن کوکہے گامیں نے ہی تجھے راتوں کوجگایااوردن کوپیاسارکھاتھا(یعنی دن کوروزہ رکھتاتھا)۔[26]

 عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: وَیَأْتِیهِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الثِّیَابِ، طَیِّبُ الرِّیحِ  فَیَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُرُّكَ، هَذَا یَوْمُكَ الَّذِی كُنْتَ تُوعَدُ فَیَقُولُ لَهُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ یَجِیءُ بِالْخَیْرِفَیَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ۔۔۔۔وَیَأْتِیهِ رَجُلٌ قَبِیحُ الْوَجْهِ، قَبِیحُ الثِّیَابِ، مُنْتِنُ الرِّیحِ  فَیَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِی یَسُوءُكَ، هَذَا یَوْمُكَ الَّذِی كُنْتَ تُوعَدُفَیَقُولُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ یَجِیءُ بِالشَّرِّفَیَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِیثُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبرمیں مومن کے پاس ایک خوبصورت چہرے والانوجوان ،خوب صورت کپڑے پہنے ہوئے،بہترین خوشبولگائے ہوئے آتاہے اورکہتاہے تجھے آرام اورراحت کی بشارت ہویہی وہ دن ہے جس کاتجھ سے وعدہ کیاگیاتھا،مومن آدمی پوچھتاہے تو کون ہے ؟تیراچہرہ کتناخوبصورت ہے توخیروبرکت لے کرآیاہے،وہ کہتاہے میں تیرانیک عمل ہوں ۔۔۔ اور کافرومشرک اور منافق کے پاس ایک بدصورت،غلیظ کپڑوں والا،بدترین بووالاشخص آتاہے اورکہتاہے تجھے برے انجام کی بشارت ہو،یہ ہے وہ دن جس کاتجھ سے وعدہ کیاگیاتھا کافرکہتاہے توکون ہے؟تیراچہرہ بڑاہی بھداہے ،تو(میرے لئے) برائی لے کرآیاہے وہ کہتاہے میں تیرےاعمال ہوں ۔[27]

دوسراقول ہے کہ کچھ لوگوں کے اعمال کے رجسٹرترازومیں تولے جائیں گے ،

عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العَاصِ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ سَیُخَلِّصُ رَجُلاً مِنْ أُمَّتِی عَلَى رُءُوسِ الخَلاَئِقِ یَوْمَ القِیَامَةِ فَیَنْشُرُ عَلَیْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِینَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ البَصَرِ، ثُمَّ یَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَیْئًا؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِی الحَافِظُونَ؟ فَیَقُولُ: لاَ یَا رَبِّ، فَیَقُولُ: أَفَلَكَ عُذْرٌ؟فَیَقُولُ: لاَ یَا رَبِّ، فَیَقُولُ: بَلَى إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، فَإِنَّهُ لاَ ظُلْمَ عَلَیْكَ الیَوْمَ،

عبداللہ بن عمروبن العاص  رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ میری امت کے ایک شخص کوقیامت کے دن لوگوں کے سامنے لائے گاپھراس کے گناہوں کے رجسٹرکھولے جائیں گے اورہررجسٹرحدنگاہ تک بڑاہوگا،اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاتم ان میں درج کسی گناہ کاانکار کرتاہے؟ کیا میرے معززلکھنے والوں نے تجھ پرظلم کیا ہے ؟ وہ کہے گانہیں اے میرے رب !اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاتجھے کوئی عذر ہے ؟وہ کہے گانہیں اے میرے رب!اللہ تعالیٰ فرمائے گاہمارے پاس تیری نیکی بھی ہے اورآج تجھ پرکوئی ظلم نہیں کیاجائے گا

فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِیهَا: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَیَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ مَا هَذِهِ البِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلاَّتِ، فَقَالَ: إِنَّكَ لاَ تُظْلَمُ، قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلاَّتُ فِی كَفَّةٍ وَالبِطَاقَةُ فِی كَفَّةٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلاَّتُ وَثَقُلَتِ البِطَاقَةُ، فَلاَ یَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَیْءٌ.

پھرایک پرچہ لایاجائے گا جس پر اشھدان لاالٰہ الااللہ واشھدان محمدعبدہ ورسولہ لکھاہوگا،اللہ تعالیٰ اسے دے کرفرمائے گااپنے اعمال کاوزن کرنے کے لئے جا،وہ عرض کرے گا اے میرے رب! یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیاحیثیت رکھتا ہے،اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھ پرظلم نہیں کیاجائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھر وہ پرچہ میزان کے ایک پلڑے میں اوروہ گناہوں کے رجسٹرایک پلڑے میں رکھ دیاجائے گا تووہ سب رجسٹرہلکے ہوجائیں گے اوروہ پرچہ بھاری ہوجائے گااوراللہ کے مبارک نام کے آگے کوئی چیزبرابرنہیں ہو سکتی ۔[28]

اورتیسراقول یہ ہے کہ اعمال کرنے والے کاوزن کیاجائے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّهُ لَیَأْتِی الرَّجُلُ العَظِیمُ السَّمِینُ یَوْمَ القِیَامَةِ، لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَقَالَ: اقْرَءُوا، {فَلاَ نُقِیمُ لَهُمْ یَوْمَ القِیَامَةِ وَزْنًا ،[29]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھرکم موٹا تازہ شخص آئے گالیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھرکے پرکے برابربھی کوئی قدرنہیں رکھے گااورفرمایاکہ پڑھو،’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کوماننے سے انکارکیااوراس کے حضورپیشی کایقین نہ کیااس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے قیامت کے روزہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔‘‘[30]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ كَانَ یَجْتَنِی سِوَاكًا مِنَ الْأَرَاكِ، وَكَانَ دَقِیقَ السَّاقَیْنِ، فَجَعَلَتِ الرِّیحُ تَكْفَؤُهُ، فَضَحِكَ الْقَوْمُ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مِمَّ تَضْحَكُونَ؟ قَالُوا: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، مِنْ دِقَّةِ سَاقَیْهِ، فَقَالَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَهُمَا أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ مِنْ أُحُدٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک مرتبہ وہ پیلو کی مسواک چن رہے تھے، ان کی پنڈلیاں پتلی تھیں جب ہواچلتی تو وہ لڑ کھڑانے لگتے تھےلوگ یہ دیکھ کر ہنسنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم کیوں ہنس رہے ہو؟ لوگوں نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی پتلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ دونوں پنڈلیاں میزان عمل میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں ۔[31]

الغرض جیسااللہ تعالیٰ چاہے گالوگوں کے اعمال،اس کے اعمال کارجسٹر یاخودلوگوں کو عدل وانصاف کے ساتھ تولا جائے گا ، پھر جن لوگوں کے ساتھ جتناحق ہوگا ان کے پلڑے اتنے ہی بھاری ہوں گے اور وہی فلاح پائیں گے اور اللہ انہیں لازوال انواع واقسام کی نعمتوں ،رواں چشموں اورگھنے سایوں والے باغوں میں داخل فرمائے گا اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کوخسارے میں مبتلاکرنے والے ہوں گے۔یعنی فیصلہ ترازومیں وزن کے لحاظ سے ہوگاکسی دوسری چیز یعنی شکل وصورت ، حسب نسب اورنسبت کاذرہ برابرلحاظ نہیں کیاجائے گا، لوگو!ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اورتمہارے لئے یہاں ہرطرح کا سامان زیست فراہم کیا مگر انواع و اقسام کی نعمتوں کے باوجودتم لوگ اپنے مالک حقیقی کے کم ہی شکر گزارہوتے ہو۔جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا۝۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۝۳۴ۧ  [32]

ترجمہ:اگرتم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تونہیں کرسکتے حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑاہی بے انصاف اورناشکراہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ لَمْ یَكُن مِّنَ السَّاجِدِینَ ‎﴿١١﴾قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِینٍ ‎﴿١٢﴾‏ قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِیهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِینَ ‎﴿١٣﴾‏(الاعراف)
’’اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا، حق تعالیٰ نے فرمایا تو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کونسا امر مانع ہے جب کہ میں تم کو حکم دے چکا ، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیاہے ، حق تعالیٰ نے فرمایا تو آسمان سے اتر، تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے سو نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے۔‘‘

ابلیس ،آدم علیہ السلام اورنسل آدم :

ہم نے تمہاری تخلیق کامنصوبہ بناکرتمہارامادہ آفرنیش تیارکیا،پھراس سوکھی مٹی کے بدبوداراورلیس دار گارے کواپنے دونوں ہاتھوں سے بہترین انسانی صورت اوربہترین قامت عطاکی ،پھراپنی روح میں سے کچھ اس میں پھونکا،پھرجب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجودمیں آگیاتوفرشتوں کوحکم دیاکہ آدم  علیہ السلام کی تعظیم واکرام کے لئے سجدہ کرو،جیسے فرمایا

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ۝۷۱فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ۝۷۲ [33]

ترجمہ:تصورکرواس وقت کاجب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہاکہ میں ایک بشرمٹی سے پیداکرنے والاہوں ،پھرجب میں اسے پوری طرح تیارکرلوں اوراس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں توسب اس کے آگے سجدہ میں گرجانا۔

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ۝۲۹ [34]

ترجمہ:اورتصورکرواس وقت کاجب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہاکہ میں خمیراٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشرپیداکرنے والاہوں پھرجب میں اسے پوری طرح تیارکرلوں اوراس کے اندراپنی روح سے کچھ پھونک دوں توتم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔

اللہ کے اس حکم پرسب فرشتوں نے بلاچوں وچرا ں سجدہ کیامگرابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا،اللہ تعالیٰ نے پوچھااے ابلیس ! جس کومیں نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیامیں نے اسے وہ شرف اورفضیلت عطاکی جوکسی اورکوعطانہیں کی تونے میرے حکم کی نافرمانی کرکے میری اہانت اورتحقیرکاارتکاب کیا،جواب دوکس چیزنے اس بات پر مجبورکیاکہ تواسے سجدہ نہ کرے ، ابلیس آدم علیہ السلام کے شرف وعظمت کونظراندازکرکے تکبرسے بولامیں اس انسان سے بہتر ہوں تونے مجھے آگ سے پیداکیاہے اوراسے مٹی سے ،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرشتے نورسے پیداکیے گئےاورابلیس آگ کی لپٹ سے پیداکیاگیا اورآدم علیہ السلام اس سے جوقرآن میں بیان ہوایعنی مٹی سے۔[35]

عَنِ الْحَسَنِ، قَوْلُهُ: {خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِینٍ} قَالَ:قَاسَ إِبْلِیسُ، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ قَاسَ

حسن بصری رحمہ اللہ سے آیت کریمہ ’’آپ نے مجھ کوآگ سے پیداکیااوراس کوآپ نے خاک سے پیداکیا۔‘‘کی تفسیرمیں روایت ہے کہ یہ ابلیس کاقیاس تھااورابلیس ہی نے سب سے پہلے قیاس سے کام لیا۔[36]

عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ قَاسَ إِبْلِیسُ، وَمَا عُبِدَتِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ إِلَّا بِالْمَقَایِیسِ

ابن سیرین رحمہ اللہ کابھی قول ہے کہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیاوہ ابلیس تھااورسورج اورچاندکی پرستش بھی قیاس ہی کی وجہ سے کی گئی ہے۔[37]

اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی کھلی سرتابی اور بڑائی کے زعم پرفرمایااچھااب توآسمان سے نیچے زمین پر اترجاجوطاہرلوگوں کاگھرہے ،تجھے کوئی حق نہیں ہے کہ آسمان پررہ کر بڑائی کا گھمنڈ کرے، حالانکہ بڑائی صرف اللہ رب العالمین کوہی زیب دیتی ہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:الْكِبْرِیَاءُ رِدَائِی، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِی ،فَمَنْ نَازَعَنِی وَاحِدًا مِنْهُمَاقَذَفْتُهُ فِی النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ عزوجل فرماتاہے بڑائی میری(اوپرکی)چادرہے اورعظمت میری(نیچے کی)چادرہے جوکوئی ان میں سے کسی ایک کوبھی کھینچنے کی کوشش کرے گا(میراشریک ہونے کی کوشش کرے گا) میں اسے جہنم میں جھونک دوں گا۔ [38]

فرمایانکل جاکہ یہاں سے، درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جوخوداپنی ذلت وخواری چاہتے ہیں ۔

قَالَ أَنظِرْنِی إِلَىٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ ‎﴿١٤﴾‏ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِینَ ‎﴿١٥﴾‏ قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیمَ ‎﴿١٦﴾‏ ثُمَّ لَآتِیَنَّهُم مِّن بَیْنِ أَیْدِیهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَیْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِینَ ‎﴿١٧﴾‏ قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿١٨﴾(الاعراف)
’’ اس نے کہا مجھ کو مہلت دیجئے قیامت کے دن تک،اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی ،اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گاپھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیے گا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا جو شخص ان میں تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘

تکبر،رسوائی کاسبب:

شیطان کو یہ توکچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھاکہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کانظام ،دل آویزبہشت وہولناک جہنم کو کھیل تماشا کے طورپر نہیں بنایا گیا ہے اورنہ ہی رب بے مقصد کام کرتا ہے،اب اللہ نے آدم کواپنے دونوں ہاتھوں سےپیداکیاہے تو یقینا ًا س کو خلافت کااتنابڑامنصب عطافرما کرزمین میں بسایا جائے گا پھر اس کاکوئی انجام بھی ہوگا ، انسانوں کے اعمالوں کی کچھ جزاوسزابھی ضرورہوگی ، چنانچہ اب میں رب پر یہ ثابت کروں گا کہ اس ادنیٰ مٹی کے جوہر سے بنائے ہوئے انسان کوہرمخلوق پر ترجیح دے کر اس کو جو مقام،منصب تو نے عطاکیا وہ صحیح نہیں ، اس منصب کاصحیح حق دار میں تھا،اس طرح ابلیس کو اپنے راندہ درگاہ ایزدی ہونے پر جواسے قلق اورمایوسی ہوئی اس نے اسے آدم علیہ السلام کے کھاتے میں ڈال دیااس طرح سجدہ اعزازکے ساتھ ہی آدم علیہ السلام کو ایک بہت بڑے خطرناک ،چالاک دشمن سے پالاپڑ گیاجس نے آدم علیہ السلام اوراس کی اولادکورب العزت کی نگاہ سے گراناہی اپنامقصدحیات بنالیا اس لئے اس نے بڑی جرت وبیباکی سے رب سے قیامت تک شروفسادپھیلانے کی مہلت چاہی اور رب نے اپنی حکمت ،ارادے اورمشیت کے مطابق اسکی درخواست بخوشی منظور فرمالی ،تو اس نے ڈھٹائی سے اللہ تعالیٰ کوچیلنج دیااور بولااچھا توجس طرح تونے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے ،جیسے مشرکین مکہ کہتے تھے

 وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ ۔۔۔۝۳۵  [39]

ترجمہ:یہ مشرکین کہتے ہیں اگراللہ چاہتاتونہ ہم اورنہ ہمارے باپ دادااس کے سواکسی اور کی عبادت کرتے اورنہ اس کے حکم کے بغیرکسی چیزکو حرام ٹھیراتے۔

میں بھی اب تیری سیدھی راہ پرانسانوں کی گھات میں لگارہوں گاآگے اورپیچھے ،دائیں اوربائیں ہر طرف سے ان کوگھیروں گایعنی تمام اطراف سے ان پرحملہ آورہوں گا اور اپنے مکروفریب اورجھوٹے وعدوں سے ہرخیرونیکی کے راستے سے ان کوروکوں گا اور شر کوان کی نظروں میں پسندیدہ بناکراس کواختیارکرنے کی ترغیب دوں گا اورتوان میں سے اکثر کو شکر گزارنہ پائے گا یعنی اکثرلوگوں کومیں توحیدسے ہٹاکر شرک میں مبتلا کر دوں گا،

قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {ثُمَّ لآتِیَنَّهُمْ مِنْ بَیْنِ أَیْدِیهِمْ} أُشَكِّكُهُمْ فِی آخِرَتِهِمْ، {وَمِنْ خَلْفِهِمْ} أُرَغِّبُهُمْ فِی دُنْیَاهُمْ {وَعَنْ أَیْمَانِهِمْ} أشبَه عَلَیْهِمْ أَمْرَ دِینِهِمْ {وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ} أُشَهِّی لَهُمُ الْمَعَاصِی.

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’ میں آگے سے‘‘آنے کے معنی یہ ہیں میں انہیں آخرت کے بارے میں شک میں مبتلاکردوں گا’’اورمیں پیچھے سے‘‘ آنے کے معنی یہ ہیں کہ میں انہیں دنیاکی محبت میں مبتلاکردوں گا’’اورمیں دائیں طرف سے ‘‘آنے کے معنی یہ ہیں کہ میں ان پردین کے معاملے کو مشتبہ کردوں گا’’اور میں بائیں طرف سے‘‘ آنے سے مرادیہ ہے کہ میں ان میں گناہوں اور نافرمانیوں کی خواہش پیداکردوں گا۔[40]

ایک مقام پر فرمایا

قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ۝۰ۡلَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا۝۶۲     [41]

ترجمہ: ابلیس بولا دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کرڈالوں بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے ۔

عَنْ سَبْرَةَ بْنِ أَبِی فَاكِهٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ الشَّیْطَانَ قَعَدَ لِابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِهِ، فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ لَهُ: أَتُسْلِمُ وَتَذَرُ دِینَكَ، وَدِینَ آبَائِكَ، وَآبَاءِ أَبِیكَ؟ قَالَ: فَعَصَاهُ، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: أَتُهَاجِرُ وَتَذَرُ أَرْضَكَ، وَسَمَاءَكَ، وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِی الطِّوَلِ قَالَ:فَعَصَاهُ فَهَاجَرَ

سبرة بن فاکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناشیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بیٹھتاہےاورکہتاہے تواپنے آپ اوراپنے باپ داداکے دین کوکیوں چھوڑتاہے،آدمی اس کی باتوں میں نہیں آتااوراسلام قبول کر لیتا ہے، وہ اس کوہجرت کے راستے سے روکتاہے اور کہتاہے کہ تو اپنے وطن کوکیوں چھوڑتاہے ؟ اور مہاجر کی مثال ایسی ہے جیسے گھوڑااپنے لم دوڑمیں ،لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتااورہجرت کرگزرتاہے

قَالَ: ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِیقِ الْجِهَادِ، فَقَالَ: هُوَ جَهْدُ النَّفْسِ، وَالْمَالِ، فَتُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ، فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ، وَیُقَسَّمُ الْمَالُ قَالَ:فَعَصَاهُ فَجَاهَدَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَمَاتَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ قُتِلَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّةٌكَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ یُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ

پھرجہادکی روک کے لئے آتاہے اس سے کہتاہے کہ تو اپنی جان اورمال سےکیوں جہادمیں جاتاہے ؟وہاں قتل کر دیاجائے گا پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی اورتیرامال اوروں کے قبضے میں چلاجائے گالیکن مسلمان اس کی نہیں مانتااورجہادمیں قدم رکھ دیتاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے یہ کام کیےپس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں داخل کرےاور اگروہ ماراجائے توایسے لوگوں کااللہ عزوجل پرحق ہے کہ انہیں جنت میں داخل کرے اوراگروہ جانورسے گرکرہی مرجائے توایسے لوگوں کااللہ پرحق ہے کہ وہ انہیں جنت میں داخل کرے یاڈوب کر مر جائےتوبھی ایسے لوگوں کااللہ پرحق ہے کہ انہیں جنت میں داخل کرے۔[42]

مگرفی الواقع شیطان نے اپناگمان سچاکر دکھایا ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۰وَمَا كَانَ لَہٗ عَلَیْہِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَةِ مِمَّنْ ہُوَمِنْہَا فِیْ شَكٍّ۝۰ۭ وَرَبُّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ۝۲۱ۧ   [43]

ترجمہ:ان کے معاملہ میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایااورانہوں نے اسی کی پیروی کی ،بجزایک تھوڑے سے گروہ کے جومومن تھا،ابلیس کو ان پر کوئی اقتدار حاصل نہ تھا مگر جو کچھ ہوا وہ اس لیے ہوا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آخرت کا ماننے والا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں پڑا ہوا ہے، تیرا رب ہر چیز پر نگران ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اسے لعنت کرتے ہوئےفرمایا نکل جا یہاں سے ذلیل اور دھتکاراہوا۔

 اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ۝۴۲  [44]

ترجمہ: بیشک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرابس نہ چلے گاتیرا بس تو صرف ان بہکے ہوے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں ۔

اوریقین رکھ کہ ان میں سے جوتیری پیروی کریں گےتجھ سمیت ان سب سے جہنم کوبھردوں گا۔

قَالَ فَالْحَقُّ۝۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۝۸۴ۚلَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۸۵  [45]

ترجمہ:اللہ تعالی نے فر ما یا تو حق یہ ہے ا و ر میں حق ہی کہا کر تا ہو ں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لو گو ں سے بھر دوں گا جوانسا نوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔

قَالَ اذْہَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ فَاِنَّ جَہَنَّمَ جَزَاۗؤُكُمْ جَزَاۗءً مَّوْفُوْرًا۝۶۳ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَیْہِمْ بِخَیْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْہُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْہُمْ۝۰ۭ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۶۴اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ۝۰ۭ وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِیْلًا۝۶۵ [46]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں تجھ سمیت ان سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزا ہے،تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ سا جھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس ،یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا، اور توکل کے لیے تیرا رب کافی ہے۔

اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ،اس لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرنی چاہیے کہ شیطان کسی بھی طرف سے حملہ آورہو،

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ: لَمْ یَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَعُ هَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ حِینَ یُصْبِحُ وَحِینَ یُمْسِی:اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِی دِینِی وَدُنْیَایَ وَأَهْلِی وَمَالِی، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی، وَآمِنْ رَوْعَاتِی، اللَّهُمَّ احْفَظْنِی مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ، وَمِنْ خَلْفِی، وَعَنْ یَمِینِی، وَعَنْ شِمَالِی، وَمِنْ فَوْقِی، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح وشام ان دعاؤں میں سے کسی دعاء کو ترک نہ فرماتے تھے ’’اے اللہ! میں دنیا و آخرت میں آپ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں ،اے اللہ! میں آپ سے اپنی دنیا اور دین اپنے اہل خانہ اور مال کے متعلق درگذر اور عافیت کی درخواست کرتا ہوں اے اللہ! میرے عیوب پر پردہ ڈال دیجئے اور خوف اورپریشانی سے مجھے امن عطاء کیجئے اے اللہ! آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر کی جانب سے میری حفاظت فرما اور میں آپ کی عظمت سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے نیچے سے اچک لیا جائے یعنی زمین میں دھنسنے سے۔‘‘[47]

‏ وَیَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٩﴾‏ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطَانُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَا وُورِیَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَیْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّی لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِینَ ‎﴿٢١﴾‏ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّیْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِینٌ ‎﴿٢٢﴾‏(الاعراف)
’’اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو ،پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے،پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بےپردہ کردے اور کہنے لگاکہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ،اور ان دونوں کے رو برو قسم کھالی کہ یقین جانیے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں، سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے روبرو بےپردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟۔‘‘

جنت الماویٰ میں داخلہ:

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوجمعہ کے روز جنت الماویٰ میں داخل کردیا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْهِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِیهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِیهِ أُخْرِجَ مِنْهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین دن جس میں سورج نکلتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے اسی دن میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئےاور اسی دن میں ان کو جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن میں ان کو جنت سے نکالا گیا۔

اور فرمایا جنت کی لازوال نعمتوں میں سے جوتمہیں پسندہو سب کچھ کھاؤ پیو اورمزے اڑاؤاورآزمائش کے طورپرپابندی عائدکردی کہ اس خاص درخت کے پاس نا پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤگے، اورتاکیدکے طورپرفرمایا

فَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰی۝۱۱۷ [48]

ترجمہ:ہم نے آدم سے کہا کہ دیکھو یہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاو۔

ان دوہدایات کے بعدآدم علیہ السلام اور اماں حوّا جنت الماویٰ میں بڑے آرام وسکون سے رہ رہے تھے ہم جنس ساتھی بھی تھااور اب تنہائی بھی نہیں تھی ، شاہی خلعت فاخرہ بھی زیب تن تھی جو نہ تو میلی ہوتی تھی اورنہ ہی بوسیدہ ،انہیں جنت میں انہیں کسی چیز کی کمی اورکسی قسم کارنج وخوف نہ تھا رب کریم کاقرب حاصل تھا،اللہ تعالیٰ کی انگنت نعمتوں سے فیض یاب تھے اور یقیناً ہمیشہ وہاں رہنے کے خواہشمند تھے اوربھلا اللہ کی ایسی نعمتوں میں کون نہیں رہناچاہے گا،اسی خواہش کی آڑ لیکر شیطان جس کا آنا جاناابھی بندنہیں ہواتھا آدم علیہ السلام کی گھات میں لگا ہوا موقع محل کاجائزہ لے رہاتھا ،وہ خیرخواہی کالبادہ پہن کرآہستہ آہستہ آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ کے دلوں میں وسوسے ڈالنے لگاکہ جنت کی یہ انواع واقسام کی لازوال نعمتیں تمہیں ہمیشہ کے لئے نہیں مل گئیں بلکہ بہت جلدتم ان سے محروم ہو جاوگے اس لئے تواس درخت(شجر خلد) سے تمہیں کوروکاگیاہے اگر تم ایسی نعمتوں میں ہمیشہ رہنے کے آرزومند ہو تو اس کا علاج یہ درخت ہے جس سے تمہیں روکا جارہا ہے،اگرتم اس درخت کا پھل کھالوگے توفرشتے بن جاؤگے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرام وسکون سے یہاں رہتے رہوگے ،جیسے فرمایا

فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا یَبْلٰى۝۱۲۰  [49]

ترجمہ:لیکن شیطان نے اسکو پھسلایا کہنے لگا آدم بتاوں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے ۔

شیطان لعین کو اندازہ تھاکہ رب کے فرمان کی خلاف ورزی کے کیانتیجے نکلتے ہیں اس لئے اس مردود نے سب سے پہلی ضرب انسان کوسیدھی راہ سے ہٹانے کے لئے چلی یہ تھی کہ اس کے جذبہ شرم وحیا پر ضرب لگائے اور برہنگی کے راستے سے اس کے لئے فواحش کا دروازہ کھولے اور اس کو جنسی معاملات میں بد راہ کردے جو ہر برائی کا راستہ ہے ، ایک عرصہ تک وہ ایسی باتیں بناتارہااور پھر مزیدیقین دلانے کے لئے  اللہ  کی بابرکت ذات کی قسم بھی اٹھائی تو آدم علیہ السلام شیطان لعین کی باتوں میں رفتہ رفتہ خلقی اور طبعی کمزوری جو انسان میں موجود ہے عزم وارادے کی کمزوری میں مبتلاہوگئے، او ر ہرنیک شریف آدمی کی طرح  اللہ  کی قسم اٹھانے پر شیطان جس کاہر وعدہ جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہوتاہے پر اعتبار کر بیٹھےاوراس شجرممنوعہ کے پھل کوکھالیا ،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ: {وَقَاسَمَهُمَا إِنِّی لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِینَ}فَحَلَفَ لَهُمَا بِاللَّهِ حَتَّى خَدَعَهُمَاوَقَدْ یُخْدَعُ الْمُؤْمِنُ بِاللَّهِ، فَقَالَ: إِنِّی خُلِقْتُ قَبْلَكُمَا وَأَنَا أَعْلَمُ مِنْكُمَافَاتَّبِعَانِی أُرْشِدْكُمَا

قتادہ رحمہ اللہ نے اس آیت’’اور اس نے قسم کھاکر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ۔‘‘کی تفسیرمیں بیان کیاہے کہ ابلیس نے آدم وہوادونوں کے سامنے اللہ کے نام کی قسم کھائی اوراس طرح انہیں دھوکادیااورمومن اللہ کے نام کی وجہ سے دھوکاکھاہی جاتاہے،چنانچہ ابلیس نے اللہ کے نام کی قسم کھاکرکہاکہ میں تم سے پہلے پیداہواہوں اورمیں تم سے زیادہ جانتاہوں لہذاتم دونوں میری بات کوتسلیم کرومیں تمہاری رہنمائی کروں گا۔[50]

تو پھر کیا تھااللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کا صدور ہوتے ہی  اللہ تعالیٰ نے سزاکاحکم سنا دیا اور وہ تمام آسائشیں ان سے چھین لی گئیں جو سرکاری انتظام سے ان کو مہیا کی جاتی تھیں اور اس کا اولین ظہور جنت کاحریری لباس چھن جانے کی شکل میں ہوا، اللہ  تعالیٰ نے انسان کے اندر شرم وحیا کا فطری جذبہ رکھا ہے اور اس کا اولین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں آدمی فطرتاً محسوس کرتا ہے لہذا جب سرکاری پوشاک اچانک اتر گئی اورآدم  علیہ السلام اوراماں حوادونوں ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہوگئے تو دونوں دوڑکر جنت کے درختوں کے پتوں کو توڑ کر اپنے اپنے جسم کو ڈھانکنے اورچھپانے لگے،غذاپانی اورجنت جیسے مسکن سے محرومی کی نوبت توبعدکوہی آنی تھی،

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ آدَمَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ كَانَ رَجُلًا طُوَالًا، كَأَنَّهُ نَخْلَةٌ سَحُوقٌ، كَثِیرَ شَعْرِ الرَّأْسِ، فَلَمَّا وَقَعَ بِمَا وَقَعَ بِهِ مِنَ الْخَطِیئَةِ، بَدَتْ لَهُ عَوْرَتُهُ عِنْدَ ذَلِكَ، وَكَانَ لَا یَرَاهَا. فَانْطَلَقَ هَارِبًا فِی الْجَنَّةِ، فَعُلِّقَتْ بِرَأْسِهِ شَجَرَةٌ مِنْ شَجَرِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهَا: أَرْسِلِینِی، قَالَتْ: إِنِّی غَیْرُ مُرْسِلَتِكَ. فَنَادَاهُ رَبُّهُ: یَا آدَمُ، أَمِنِّی تَفِرُّ؟ قَالَ: رَبِّ، إِنِّی اسْتَحَیْتُكَ

ابی بن کعب سے روایت ہےآدم علیہ السلام طویل قدتھے گویاوہ کھجورکاتن آوردرخت ہوں اورانکے سرپرکالے گھنے بال تھے،جب انہوں نے ممنوعہ درخت سے کھالیاتوآپ کے سترکی پوشیدہ چیزجسے وہ پہلے نہیں دیکھتے تھے ظاہرہوگئی، توشرم وحیاکی وجہ سے دونوں اپناسترچھپانے کے لئے جنت سے بھاگنے لگے توجنت کے ایک درخت نے آپ کوسرسے پکڑکرروک لیا،آدم علیہ السلام نے کہا مجھے چھوڑدو،اس درخت نے کہانہیں میں آپ کونہیں چھوڑوں گا،اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کو مخاطب ہوکر فرمایا کیامجھ سے بھاگتے ہو؟ انہوں نے کہانہیں اے میرے رب! بلکہ میں آپ سے حیا کرتا ہوں ۔[51]

جیسے فرمایا

 :فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۔۔۔ ۝۱۲۱۠ۖ [52]

ترجمہ:نتیجہ یہ ہواکہ فوراًہی ان کے سترایک دوسرے کے آگے کھل گئے اورلگے دونوں اپنے آپ کوجنت کے پتوں سے ڈھانکنے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتِ الشَّجَرَةَ الَّتِی نَهَى اللَّهُ عَنْهَا آدَمَ وَزَوْجَتَهُ السُّنْبُلَةُ، فَلَمَّا أَكَلا مِنْهَا بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَكَانَ الَّذِی وَارَى عَنْهُمَا مِنْ سَوْءَاتِهِمَا أَظْفَارُهُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ، وَرَقِ التِّینِ یُلْصِقَانِ بَعْضَهَا إِلَى بَعْضٍ، فَانْطَلَقَ آدَمُ مُوَلِّیًا فِی الْجَنَّةِ، فَأَخَذَتْ بِرَأْسِهِ شَجَرَةٌ مِنَ الْجَنَّةِ، فَنَادَاهُ: یَا آدَمُ، أَمِنِّی تَفِرُّ؟ قَالَ: لا، ولكنى استحیتك یَا رَبِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ درخت جس سے آدم وحواکومنع فرمایاگیاتھاوہ گندم کادرخت تھا جب دونوں نے اسے کھایاتوان کی شرم گاہیں کھل گئیں اوروہ جلدی جلدی اپنے اوپرجنت کے درختوں کے پتے ڈالناشروع ہوئےاوروہ پتے انجیرکے درخت کے تھے جوایک دوسرے کے ساتھ چپک جاتے تھے، پس آدم علیہ السلام دوہراہوکرجنت میں بھاگنے لگے اورایک درخت میں پناہ لی، اللہ تعالیٰ نے ندادی کیامجھ سے بھاگتے ہو؟انہوں نے کہا نہیں اے میرے رب! بلکہ میں آپ سے حیا کرتا ہوں ۔[53]

ایک روایت یوں ہے

فَلَمَّا أَصَابَ الْخَطِیئَةَ فِی الْجَنَّةِ بدت له سوأته فَخَرَجَ مِنَ الْجَنَّةِ فَلَقِیَتْهُ شَجَرَةٌ فَأَخَذَتْ بِنَاصِیَتِهِ، فَنَادَاهُ رَبُّهُ أَفِرَارًا مِنِّی یَا آدَمُ، قَالَ: بَلْ حَیَاءً مِنْكَ وَاللَّهِ یَا رَبِّ

آدم  علیہ السلام اپنے آپ کوپتوں سے چھپانے کے لئے بھاگے توایک درخت نے ان کے پیشانی کے بال پکڑ لئے آدم علیہ السلام اس سے لڑنے جھگڑنے لگے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم مجھ سے بھاگتے ہو، آدم علیہ السلام نے عرض کیااے مالک !تجھ سے شرم آتی ہے۔[54]

عَنْ مُجَاهِدٍ:یَخْصِفَانِ عَلَیْهِمَا مِنَ الْوَرَقِ كَهَیْئَةِ الثَّوْبِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے جنت کے پتوں کواپنے اوپر اس طرح لپیٹناشروع کردیاجس طرح کپڑے کوتن بدن پرلپیٹ دیا جاتا ہے۔[55]

تب ان کے رب نے انہیں پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے روکانہ تھا اور کہا نہ تھا کہ شیطان سے بچ کررہناوہ تمہاراکھلادشمن ہے؟ اس واضح تنبیہ کے باوجودتم شیطان کے وسوسوں کاشکارہوگئے۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٢٣﴾‏ قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِینٍ ‎﴿٢٤﴾‏ قَالَ فِیهَا تَحْیَوْنَ وَفِیهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ ‎﴿٢٥﴾(الاعراف)
’’ دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ،حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گےاور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک، فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے ۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:قَالَ: قَالَ آدَمُ، عَلَیْهِ السَّلَامُ: یَا رَبِّ، أَلَمْ تَخْلُقْنِی بِیَدِكَ؟ قِیلَ لَهُ: بَلَى. وَنَفَخْتَ فِیَّ مِنْ رُوحِكَ؟ قِیلَ لَهُ: بَلَى. وعَطستُ فقلتَ: یَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَسَبَقَتْ رحمتُك غَضبَك؟ قِیلَ لَهُ: بَلَى، وَكَتَبْتَ عَلَیَّ أَنْ أَعْمَلَ هَذَا؟ قِیلَ لَهُ: بَلَى. قَالَ: أَفَرَأَیْتَ إِنْ تبتُ هَلْ أَنْتَ رَاجِعِی إِلَى الْجَنَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی تھی کہ اے میرے پروردگار!کیاتونے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدانہیں کیا؟جواب ملاہاں ،اس کے بعدآدم علیہ السلام نے عرض کی کیاتونے مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟جواب ملا ہاں ،آدم علیہ السلام نے عرض کی اورجب مجھے چھینک آئی توتونے فرمایااللہ تجھ پررحم کرے جواب ملادرست ہے،(اللہ تعالیٰ کے اس جواب کے پیش نظر)آدم علیہ السلام نے عرض کی(اس طرح)تیری رحمت کوتیرے غضب پرسبقت حاصل ہوئی،جواب ملا ہاں ،  آدم علیہ السلام نے عرض کی کیامیرا(یہ)عمل میرے اعمال میں پہلے سے نہیں لکھاگیا تھا ؟جواب ملاہاں ، (آخر میں )آدم علیہ السلام نے عرض کی(پس)اگرمیں توبہ واستغفار کرلوں توکیاتیرے پیش نظریہ ہے کہ تومجھے جنت میں بھیج دے گا؟ جواب ملاہاں ۔[56]

ایک روایت ہے کہ دونوں نے اللہ کوواسطے دیئے جیساکہ مشہورہے ،

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِیئَةَ قَالَ یَا رَبِّ أسألك بحقِّ محمَّد أن غَفَرْتَ لِی فَقَالَ اللَّهُ فَكَیْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ بَعْدُ؟ فَقَالَ: یَا رَبِّ لِأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِی بِیَدِكَ وَنَفَخْتَ فِیَّ مَنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِی فَرَأَیْتُ عَلَى قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَعَلِمْتُ أنَّك لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أحبَّ الْخَلْقِ إِلَیْكَ، فَقَالَ اللَّهُ: صَدَقْتَ یَا آدَمُ إِنَّهُ لَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَیَّ وَإِذْ سَأَلْتَنِی بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلَا محمَّد مَا خَلَقْتُكَ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آدم علیہ السلام سے لغزش صادرہوگئی توانہوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی اے پروردگار! میں آپ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ آپ میری مغفرت فرمادیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایاتو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوکیسے جان لیاجبکہ اس کواب تک میں نے پیدانہیں فرمایا؟ آدم علیہ السلام نے عرض کیا اے پروردگار! جب آپ نے مجھے اپنے ہاتھوں پیدافرمایااورآپ نے مجھ میں جان ڈالی، تومیں نے اپناسر اٹھایاتومیں نے عرش پر لکھادیکھا تھا لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ تومیں نے جان لیاتھا کہ جس ذات کانام آپ نے اپنے نام کے ساتھ ملایاہے اس سے بڑھ کرآپ کے نزدیک اورکوئی محبوب نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم تونے سچ کہاوہ میرے نزدیک مخلوق میں سب سے محبوب ہیں اورچونکہ تونے ان کے وسیلے سے مجھ سے دعاکی ہے توپس میں نے تیری بخشش کردی، اوراگر محمد نہ ہوتے تومیں تمہیں بھی پیدانہ کرتا۔[57]

قَالَ الْبَیْهَقِیُّ تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَهُوَ ضَعِیفٌ

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت میں راوی عبدالرحمن بن زیدبن اسلم کذاب ہے اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔

اس روایت میں آدم علیہ السلام پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ استعمال کرنے کی تہمت لگائی گئی ہے جبکہ قرآن اورحدیث کے مطابق دعاکے لئے صرف تین وسیلے یاواسطے اختیار کیےجاسکتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنٰی، نیک اعمال، اورزندہ انسان سے دعاکرواکر ،بلکہ آدم علیہ السلام توبہ واستغفارکے وہ کلمات کہنے لگے جواللہ نے انہیں سکھائے ،جیسے فرمایا

فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ۔۔۔ ۝۰۝۳۷        [58]

ترجمہ:اس وقت آدم نے اپنے رب سے کلمات سیکھ کرتوبہ کی جس کواس کے رب نے قبول کرلیا۔

ایک مقام پرفرمایا

۔۔۔وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۝۱۲۱۠ۖثُمَّ اجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَهَدٰى۝۱۲۲    [59]

ترجمہ: آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا،پھر اس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔

یہاں وہ کلمات بیان فرمائے جواللہ نے انہیں سکھائے تھے۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا۝۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۲۳        [60]

ترجمہ:اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپرستم کیااب اگر تونے ہم سے درگزرنہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔

وَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِم فِی قَوْلِهِ: {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ} هِیَ الْكَلِمَاتُ الَّتِی تَلَقَّاهَا آدَمُ مِنْ رَبِّهِ

ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ نے ’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپرستم کیااب اگر تونے ہم سے درگزرنہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔‘‘کے بارے میں کہاہے کہ یہ وہ کلمات تھے جوآدم علیہ السلام نے اپنے رب سے سیکھے تھے۔[61]

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی ،اللہ تعالیٰ نے اپنی منشاکی تکمیل کے لئے جس کے لئے انسان کوپیداکیاگیاتھافرمایااب تم دونوں یہاں سے نکل کرنیچے زمین پر اترجاؤ،جیسے فرمایا

قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعًۢا۔۔۔۝۱۲۳      [62]

ترجمہ: فرمایا تم دونوں (فریق یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔

ابلیس اورتم ایک دوسرے کے دشمن ہواورایک مقررہ مدت تک زمین ہی تمہاراٹھکانہ اسی میں تمہاراسامان زیست رکھ دیاگیاہے،وہیں تم کواپنی زندگی کی مقررہ گھڑیاں پوری کرنی ہیں اور اسی میں مر کر دفن ہوناہے اورپھرجب اللہ چاہے گااعمال کی جوابدہی کے لئے اسی میں سے تم کونکال لائے گا،جیسے فرمایا

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى۝۵۵  [63]

ترجمہ:اس زمین سے ہم نے تم کوپیداکیاہے اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اوراسی سے تم کودوبارہ نکالیں گے۔

یَا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُوَارِی سَوْآتِكُمْ وَرِیشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَیْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ یَا بَنِی آدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ یَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ یَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِیلُهُ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّیَاطِینَ أَوْلِیَاءَ لِلَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿٢٧﴾(الاعراف)
’’اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کرہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں،اے اولاد آدم ! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کردیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے، وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو، ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔‘‘

لباس اورداڑھی جمال وجلال :

کتب سیرت میں ہے کہ اہل عرب کا خیال تھا کہ جن کپڑوں کو پہن کراللہ کی نافرمانیاں کی ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں پہن کر طواف کیا جاسکے،البتہ قریش جوخودکوحمس کہتے تھے اپنے کپڑوں میں  طواف کرتے تھے اورجن لوگوں کوقریش کپڑے ادھاردیں وہ بھی ان کے دیے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتاتھایاوہ شخص کپڑے پہنے طواف کرسکتاتھاجس کے پاس نئے کپڑے ہوں ،پھرطواف کے بعدہی انہیں اتارڈالتاتھاکہ اب یہ کپڑے کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتے پس جس کے پاس نیا کپڑا نہ ہواورکوئی قریشی بھی اس کواپناکپڑاادھارنہ دیتا تووہ شخص دن کے وقت ننگاہوکرطواف کرلیتاتھا،

كَانُوا یَطُوفُونَ بِالْبَیْتِ عُرَاةً یَقُولُونَ: نَطُوفُ كَمَا وَلَدَتْنَا أُمَّهَاتُنَا فَتَضَعُ الْمَرْأَةُ عَلَى قُبُلِهَا النِّسْعَةَ أَوِ الشَّیْءَ فَتَقُولُ:الْیَوْمَ یَبْدُو بَعْضُهُ أَوْ كُلُّهُ فَمَا بَدَا مِنْهُ فَلا أُحِلُّهُ

چنانچہ مردننگے ہوکرطواف کرتے اور کہتے کہ جیسے ہماری ماؤں نے ہمیں پیدا کیا اسی حالت میں طواف کریں گے اور عورتیں (رات کے وقت طواف کرنے کے لیے) اپنی شرمگاہ کے آگے چمڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا یاکوئی اور چیزرکھ لیتی اور کہتی اس کاتھوڑاساحصہ ظاہرہوجائے گا اور جتنا بھی ظاہرہومیں اسے اس کے لئے جائزنہیں رکھتی۔[64]

کیونکہ ان کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور وہ اسے نیک کام سمجھ کر اس کا ارتکاب کرتے تھےاس لئے اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کومتنبہ کیاکہ فطری شرم وحیاکوبالائے طاق رکھ کر دوسروں کے سامنے اپنی ستر کھول دینااور برہنہ ہوکربیت اللہ کاطواف کرنانیکی کاعمل نہیں بلکہ شیطانی کام ہے ،تمہارے جدامجدآدم  علیہ السلام اورحواکو گمراہ کرنے کے لئے شیطان نے پہلا واریہی توکیاتھاکہ اس نے اپنے مکروفریب سے ان کے باعزت لباس اتروادیئے تھے جس کے باعث انہیں جنت سے نکلناپڑاتھااوراب تم اسی کے اشاروں پراپنی ستر دوسروں کے سامنے کھول رہے ہو، فرمایا اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کوڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کاذریعہ بھی ہو اوربہترین لباس تقویٰ کالباس ہے،

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ، فِی قَوْلِهِ:{وَلِبَاسُ التَّقْوَى}یَتَّقِی اللَّهُ فَیُوَارِی عَوْرَتَهُ، ذَلِكَ لِبَاسُ التَّقْوَى

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم ’’اور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے۔ ‘‘کے بارے میں کہتے ہیں جوشخص اللہ تعالیٰ سے ڈرکراپنے سترکے مقام کوچھپالیتاہے تویہ لباس تقویٰ ہے ۔[65]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، قَالَ: لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَوْبًا جَدِیدًا فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی كَسَانِی مَا أُوَارِی بِهِ عَوْرَتِی، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِی حَیَاتِی، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی كَسَانِی مَا أُوَارِی بِهِ عَوْرَتِی، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِی حَیَاتِی

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نیالباس پہناتوکہاتمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسالباس پہنایاجس سے میں اپنا ستر چھپاؤں اوراپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں ،  پھر فرمایامیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو( نیا لباس پہن کر)یہ دعاپڑھتے ہوئے سناہے’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسالباس پہنایاجس سے میں اپنا ستر چھپاؤں اوراپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں ۔‘‘[66]

یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے شایدکہ لوگ اس سے سبق لیں ، اہل ایمان کو شیطان اوراس کے چیلے چانٹوں کی مکاریوں سے ڈرایافرمایااے بنی آدم!اپنے کھلے دشمن ابلیس کے شب خون سے ہوشیاراورچوکنے رہوکہیں ایسانہ ہوکہ وہ تمہارے سامنے گناہ اورمعاصی کوآراستہ کرکے تمہیں اس کی طرف ترغیب دے اورتم اس کی اطاعت کرلو جس طرح اس نے تمہارے والدین کوفتنے میں مبتلاکرکے جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پرسے اتروادیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے،پھرکیاتم اللہ کے اس باغی اوراپنے کھلے دشمن کو اپنادوست بناتے ہو ، جیسے فرمایا

۔۔۔ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّیَّتَهٗٓ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِیْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ۝۰ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا۝۵۰   [67]

ترجمہ: اب کیاتم مجھے چھوڑ کراس کواوراس کی ذریت کواپناسرپرست بناتے ہوحالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ؟بڑاہی برابدل ہے جسے ظالم لوگ اختیارکررہے ہیں ۔

وہ اوراس کے ساتھی (شیطان اوراس کاقبیلہ)تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ، اس لئے تمہیں ان کے مکروفریب سے بچنے کااہتمام اورفکربھی زیادہ کرناچاہیے ،ان شیاطین کے شکاراہل ایمان نہیں بلکہ کفارومشرکین اورمنافقین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، جیسے فرمایا

اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ۝۹۹اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْرِكُوْنَ۝۱۰۰ۧ    [68]

ترجمہ: اسے ان لوگوں پرتسلط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اوراپنے رب پربھروساکرتے ہیں ،اس کازورتوانہی لوگوں پرچلتاہے جواس کواپناسرپرست بناتے اوراس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں ۔

تاہم اہل ایمان پربھی وہ ڈورے ڈالتا رہتا ہے،کچھ اور نہیں توشرک خفی(ریاکاری)اورشرک جلی میں ہی ان کو مبتلا کر دیتا ہے ۔

وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَیْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٢٨﴾‏ قُلْ أَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِیمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَرِیقًا هَدَىٰ وَفَرِیقًا حَقَّ عَلَیْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّیَاطِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ‎﴿٣٠﴾‏(الاعراف)
’’ اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتلایا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا ،کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے؟ آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا اور یہ کہ تم ہر سجدہ کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خاص اللہ ہی کے واسطے رکھو، تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے، بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی ہے، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لیاہے اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ راست پر ہیں۔‘‘

یہ مشرکین جب کسی شرمناک کام کاارتکاب کرتے ہیں توخوش فہمی سے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤاجدادکواسی طریقہ پرپایاہے اوراللہ ہی نے ہمیں ایساکرنے کاحکم دیاہے اگریہ اللہ کا فرمان نہ ہوتاتوہمارے آباؤاجدادایساکیوں کرتے ،اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عذر کی تردیدفرمائی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکہ اللہ تعالیٰ توشرم وحیااور پاکیزگی کاحکم دیتا ہے ، وہ اپنے بندوں کوبے حیائی اورفحش کاحکم نہیں دیاکرتا،اگرتمہارے مذہب میں ایساحکم ہے تویہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارامذہب اللہ کی طرف سے نہیں ہے کیاتم اللہ کا نام لے کروہ باتیں کہتے ہوجس کی تم کوئی سند نہیں رکھتے؟اس سے بڑھ کراللہ پراورکون سابہتان ہوسکتاہے ،اللہ کاحکم تویہ ہے کہ ہرعبادت کو رسولوں کی لائی ہوئی شریعت اور اخلاص کے ساتھ عمل کرو ،اوراس میں اللہ وحدہ لاشریک کے سواکسی اورکی بندگی کاشائبہ تک نہ ہواورہرمشکلات ومصائب میں صرف اللہ رب العالمین کو پکاروجو تمہاری فریادوں کوسنتااورپوراکرنے کی قدرت رکھتاہے ،جس طرح اس نے تمہیں اب پیداکیاہے ،اسی طرح ایک معین وقت پروہ تمہیں تمہاری قبروں سے اعمال کی جوابدہی کے لئے دوبارہ زندہ کرے گا،

قَالَ ابْنُ زَیْدٍ، فِی قَوْلِهِ:{كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ}قَالَ:كَمَا خَلَقَهُمْ أَوَّلًا، كَذَلِكَ یُعِیدُهُمْ آخِرًا

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم کاآیت کریمہ’’تم کواللہ نے جس طرح شروع میں پیداکیاتھااسی طرح تم دوبارہ پیداہوگے۔‘‘کے بارے میں قول ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں پہلی بارپیداکیااسی طرح وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا فرمائے گا۔[69]

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَامَ فِینَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا: {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُهُ}[70] الآیَةَ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعظ میں فرمایا لوگو ! تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ، ننگے بدنوں بے ختنہ جمع کیے جاؤگے’’ جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیاتھااسی کاپھراعادہ کریں گے یہ ہماراوعدہ ہے جسے ہم پورا کرکے ہی رہنے والے ہیں ۔‘‘[71]

ایک گروہ کو تواس نے راہ راست پرچلنے کی توفیق عطافرمادی ہے مگر دوسرے گروہ نے گمراہی کے اسباب اختیارکیے اورہلاکت کے اسباب پرعمل پیراہوئے ،

عَنْ عَلِیٍّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ:كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ فَرِیقًا هَدَى وَفَرِیقًا حَقَّ عَلَیْهِمُ الضَّلَالَةُ،قَالَ: إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ بَدَأَ خَلْقَ ابْنِ آدَمَ مُؤْمِنًا وَكَافِرًا كَمَا قَالَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: هُوَ الَّذِی خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَمِنْكُمْ مُؤْمِنٌ،ثُمَّ یُعِیدُهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ كَمَا بَدَأَ خَلْقَهُمْ مُؤْمِنًا وَكَافِرًا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ’’جس طرح اس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے،اور ایک گروہ کو تو اس نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘کے بارے میں روایت کیا ہے فرمایااللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی پیدائش اس طرح شروع کی کہ ان میں سے کچھ مومن اورکچھ کافرتھے،جیساکہ اس نے فرمایاہے’’وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیاپھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن اوروہ روزقیامت انہیں اسی طرح دوبارہ پیدا فرمائے گاجس طرح پہلی مرتبہ انہیں مومن اورکافرپیداکیاتھا۔‘‘[72]

 عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:فَوَالَّذِی لَا إِلَهَ غَیْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ الْكِتَابُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، فَیَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ الْكِتَابُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَیَدْخُلُهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بےشک تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کر لیتا ہے اور جہنم میں داخل ہو جاتا ہےاور تم میں سے کوئی اہل جہنم جیسے اعمال کرتا رہتا ہےیہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہےتو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جنت والا عمل کر لیتا ہےاور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔[73]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جَنَازَةٍ، فَأَخَذَ شَیْئًا فَجَعَلَ یَنْكُتُ بِهِ الأَرْضَ، فَقَالَ:مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ الجَنَّةِ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا، وَنَدَعُ العَمَلَ؟ قَالَ: اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَیُیَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَیُیَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى}[74]الآیَةَ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز لی اور اس سے زمین کریدنے لگے پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا ٹھکانا دوزخ اور جنت میں نہ لکھ دیا گیا ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو پھر ہم اپنے لکھے پر بھروسہ کیوں نہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمل کرو اس لئے کہ ہر شخص کو اسی چیز میں آسانی ہوتی ہے جس کے لئے پیدا کیا گیا ہے،جو شخص اہل سعادت میں سے ہوگا اس کو نیک بختوں کے عمل میں آسانی ہوگی،اور جو شخص اہل شقاوت میں سے ہوگا اس کو بدبخت کے عمل میں آسانی ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت’’ تو جس نے(اللہ کی راہ میں ) مال دیا اور (اللہ کی نافرمانی سے ) پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانااس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے ۔‘‘[75]

اس لئے اللہ تعالیٰ نے گمراہی کوان پرواجب کردیا کیونکہ انہوں نے اللہ کے بجائے شیاطین کواپنارفیق بنالیاہے اس لئے وہ اللہ کی مددوتوفیق سے محروم ہوگئے ،مگر وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پرہیں ،یعنی ان کے ہاں حقائق بدل گئے اورانہوں نے باطل کوحق اورحق کوباطل سمجھ لیا۔

یَا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ ‎﴿٣١﴾‏ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةَ اللَّهِ الَّتِی أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٣٣﴾(الاعراف)
’’اے اولاد آدم ! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت پر اپنا لباس پہن لیا کرو، اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو،بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا،آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہونگی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لیے بھی ہیں، ہم اس طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں،آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کواور ناحق کسی پر ظلم کرنے کواور اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤجس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کوکہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔‘‘

برہنہ ہوکرطواف ممنوع قرار دیاگیا:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ننگے مرددن کوطواف کرتے تھے اورننگی عورتیں رات کو،اس وقت عورتیں کہاکرتی تھیں

مَنْ یُعِیرُنِی تِطْوَافًا؟ تَجْعَلُهُ عَلَى فَرْجِهَاوَتَقُولُ:الْیَوْمَ یَبْدُو بَعْضُهُ أَوْ كُلُّهُ فَمَا بَدَا مِنْهُ فَلَا أُحِلُّه

کون دیتاہے مجھ کوایک کپڑاکہ میں اسے اپنی شرمگاہ پرڈال لیتی اورکہتی آج اس کے خاص جسم کاکل حصہ یاکچھ حصہ ظاہرہوجائے لیکن کسی کووہ اس کادیکھناجائزنہیں کرتیں ۔[76]

چنانچہ اس کے برعکس اہل ایمان کوحکم فرمایاکہ اے بنی آدم!ہرعبادت کے موقع پرحسب استطاعت صاف ستھرے مکمل لباس سے آراستہ رہو،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْبَسُوا مِنْ ثِیَابِكُمِ الْبَیَاضَ، فَإِنَّهَا مِنْ خَیْرِ ثِیَابِكُمْ، وَكَفِّنُوا فِیهَا مَوْتَاكُمْ، وَإِنَّ مِنْ خَیْرِ أَكْحَالِكُمُ الْإِثْمِدَ یَجْلُو الْبَصَرَ وَیُنْبِتُ الشَّعَرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سفید کپڑے پہنا کروکیونکہ یہ سب سے بہترین لباس ہے اور ان ہی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو اور تمہارا بہترین سرمہ اثمد ہے جو بینائی کو تیز کرتا ہے اور پلکوں کے بال اگاتا ہے۔[77]

اوریہ صرف عبادات تک محدود نہیں ہے بلکہ مردوں کے لیےگھٹنوں سے لے کرناف تک کے حصے کوڈھانپناہرحال میں ضروری ہے چاہئے آدمی خلوت میں ہی ہو کیونکہ سترڈھانپنابدن کی زینت ہے، اوراللہ نے جوپاکیزہ رزق تمہیں عطاکیاہے اسے کھاؤپیومگراس کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوزنہ کروخواہ یہ تجاوزحلال کوحرام کرلینے کی شکل میں ہویاحرام کوحلال کرلینے کی شکل میں ہو،اللہ تعالیٰ مقررہ حدوں سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا،

قَالَ بَعْضُ السَّلَفِ: جَمَعَ اللَّهُ الطِّبَّ كُلَّهُ فِی نِصْفِ آیَةٍ:وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلا تُسْرِفُوا

حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں بعض علمائے سلف کہتے ہیں اس آدھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ساری طب اورحکمت کو جمع فرمادیا اور کھاؤ اور پیومگراسراف نہ کرو۔[78]

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالبَسُوا وَتَصَدَّقُوا، فِی غَیْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِیلَةٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:كُلْ مَا شِئْتَ، وَالبَسْ مَا شِئْتَ ، مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ، أَوْ مَخِیلَةٌ

مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو چاہوکھاؤ،پیو، پہنو ،اورخیرات کرو البتہ اسراف اورتکبر سے گریزکرو، اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جوتیراجی چاہے(بشرطیکہ حلال ہو)کھاؤاورجوتیراجی چاہے (مباح کپڑوں میں سے)پہن مگردوباتوں سے ضروربچواسراف اورتکبرسے۔ [79]

الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِی كَرِبَ الْكِنْدِیَّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مَلَأَ ابْنُ آدَمَ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ، حَسْبُ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، فَثُلُثُ طَعَامٍ، وَثُلُثُ شَرَابٍ، وَثُلُثٌ لِنَفْسِهِ

مقدام بن معدی کرب کندی سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابن آدم نے پیٹ سے زیادہ بدترین کسی برتن کو نہیں بھرا،حالانکہ ابن آدم کے لئے تو اتنے لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں ،اگر زیادہ کھانا ہی ضروری ہوتواسے چاہیے کہ ایک تہائی کھانا کے لیے،ایک تہائی پانی پینے کے لیےاور ایک تہائی سانس لینے کے لئے رکھے۔[80]

جس طرح مشرکین ننگے ہوکربیت اللہ کا طواف کرتے تھے اسی طرح حج میں چربی کوبھی اپنے اوپرحرام جانتے تھے ،چنانچہ فرمایاکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوزینت وآرائش کی چیزیں جواللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیداکی ہیں ان کوکس نے حرام قرار دے دیا اور کس نے اللہ کی بخشی ہوئی حلال وطیب چیزیں ممنوع کردیں ؟یعنی اللہ نے تودنیاکی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بندوں ہی کے لئے پیداکی ہیں پھر اللہ انہیں بندوں کے لئے کیوں حرام کرقراردے گا ،اللہ نے تووسعت رکھی ہے مگرتم خودہی تنگی میں مبتلا ہوتے ہو،کہویہ ساری حلال وطیب چیزیں دنیاکی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں گو کفارو مشرکین بھی ان سے فیض یاب اورمتمتع ہولیتے ہیں اوربسااوقات اہل ایمان سے بڑھ کر انہیں نعمتوں سے نواز دیاجاتاہے مگر روزقیامت تویہ نعمتیں خالصتہ اہل ایمان کے لئے ہوں گی اورکفارومشرکین ان سے کچھ بھی نہ پاسکیں گے، اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جوعلم رکھنے والے ہیں ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو کہ میرے رب نے ہرطرح کے بے شرمی ،بے حیائی اور فواحش کے کام خواہ وہ کھلے بندوں کیے جائیں یا چھپ کرکیے جائیں حرام قراردیئے ہیں اور گناہ یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا أَحَدَ أَغْیَرُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا، وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَیْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل سے زیادہ کوئی شخص غیرت مند نہیں ہو سکتااسی لئے اس نے ظاہری اور باطنی فحش کاموں سے منع فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ تعریف کو پسند کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔[81]

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ:الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِی صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْهِ النَّاسُ

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اورگناہ کے بارے میں پوچھاگیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلائی حسن خلق کوکہتے ہیں اورگناہ وہ ہے جوتیرے سینے میں کھٹکے اورلوگوں کے اس پرمطلع ہونے کوتوبرا سمجھے۔[82]

اورناحق ظلم وتعدی ،سرکشی اور غرور کوبھی اس نے حرام کیاہے اوریہ کہ اللہ وحدہ لاشریک کی ذات ،صفات اورافعال میں تم کسی کو شریک کروجس کے لئے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اوریہ کہ اللہ کے نام پرکوئی ایسی بات کہوجس کے متعلق تمہیں علم نہ ہوکہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہیں ۔

یَا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ ‎﴿٣١﴾‏ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةَ اللَّهِ الَّتِی أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ‎﴿٣٢﴾‏ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٣٣﴾(الاعراف)
’’اے اولاد آدم ! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت پر اپنا لباس پہن لیا کرو، اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو،بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا،آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہونگی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لیے بھی ہیں، ہم اس طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں،آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کواور ناحق کسی پر ظلم کرنے کواور اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤجس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کوکہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔‘‘

موت کی ساعت طے شدہ اوراٹل ہے :

اللہ تعالیٰ نے اولادآدم کوجنت سے نکال کرزمین پرآبادکردیااور ہرقوم کوآزمانے کے لئے مہلت کی ایک معین مدت مقررفرمادی ہے کہ وہ اس عرصہ میں اللہ کوراضی کرنے کی کوشش کرتی ہے یااس کی سرکشی اوربغاوت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے،بعض دفعہ یہ مہلت پوری زندگیوں تک محیط ہوتی ہےاوراللہ ان کوآخرت میں ہی سزادے گااوربعض کودنیامیں ہی عذاب سے دوچارکردیتاہے ،پھرجب کسی قوم کی مقررہ مدت آن پوری ہوتی ہے توپھرایک گھڑی بھرکی تاخیروتقدیم بھی نہیں ہوتی،جیسے نوح  علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاتھا۔

یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَیُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۔۔۔۝۴ [83]

ترجمہ:اللہ تمہارے گناہوں سے درگزرفرمائے گااورتمہیں ایک وقت مقررتک باقی رکھے گا۔

اوریہ بات اللہ نے آغازتخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ اے بنی آدم! یادرکھو اگر تمہارے پاس خودتم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنارہے ہوں یعنی ہماری طرف دعوت دے رہے ہوں توجو کوئی ہمارے رسولوں اورہماری دعوت پرایمان لائے گااور تقویٰ اختیارکرے گایعنی شرک اوردیگر کبیرہ اورصغیرہ گناہ سے بچ گیا اورظاہری وباطنی اعمال کی اصلاح کرلی اس کے لئے بخشش ومغفرت اورجنت کے انعامات کی نویدہو گی اوراس کے برعکس جولوگ ہمارے رسولوں اور ہماری آیات کی تکذیب کریں گے اوران کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآیَاتِهِ ۚ أُولَٰئِكَ یَنَالُهُمْ نَصِیبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَیْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِینَ ‎﴿٣٧﴾قَالَ ادْخُلُوا فِی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِی النَّارِ ۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا ۖ حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِیهَا جَمِیعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ ‎﴿٣٨﴾‏ وَقَالَتْ أُولَاهُمْ لِأُخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ‎﴿٣٩﴾‏(الاعراف)
’’ سو اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھےیا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے، ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وہ ان کو مل جائے گا، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وہ کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے ،وہ کہیں گے کہ وہ سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے،اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ، جس وقت بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب اس میں سب جمع ہوجائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا تھا سو ان کو دوزخ کا عذاب دوگنا دے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب ہی کا دوگنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں، اور پہلے لوگ پچھلے لوگوں سے کہیں گے کہ پھر تم کو ہم پر کوئی فوقیت نہیں سو تم بھی اپنی کمائی کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔‘‘

ظاہرہے کہ اس سے بڑاظالم اورکون شخص ہوگاجوبالکل جھوٹی باتیں گھڑکراللہ کی طرف منسوب کرے یااللہ کی نازل کردہ سچی آیات کوجھٹلائے ایسے لوگ اپنے نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنی عمر اور رزق حاصل کرتے رہیں گے، جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۶۹ۭمَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ    [84]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دو کہ جولوگ اللہ پرجھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگزفلاح نہیں پا سکتے،دنیاکی چندروزہ زندگی میں مزے کرلیں پھرہماری طرف ان کوپلٹنا ہے۔

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا یَحْزُنْكَ كُفْرُہٗ۝۰ۭ اِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ فَنُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۲۳نُمَـتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ۝۲۴ [85]

ترجمہ:اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے، انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے ، پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں ،یقینا اللہ سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے،ہم تھوڑی مدت انہیں دنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں پھر ان کو بےبس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔

یہاں تک کہ موت کی وہ مقررہ گھڑی آجائے گی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے پہنچیں گے اس وقت وہ ان سے بطورطنزپوچھیں گے کہ بتاؤاب کہاں ہیں تمہارے وہ معبودجنہیں تم اللہ کو چھوڑکر پکارتے تھے؟جن سے حیثیت ومرتبہ ،رزق اوراولاد امیدیں وابستہ کرتے تھے،جنہیں مشکل کشاسمجھتے تھے،اب ضرورت کاوقت ہے اگر مشکل گھڑی میں وہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں یااس تکلیف کودور کر سکتے ہیں توان کوبلاؤ، اوروہ بے بسی ولاچاری سے جواب دیں گے کہ سب ہم سے گم ہوگئے،اللہ کے عذاب کے مقابلے میں ہمارے کسی کام کے نہیں ،ابھی تو یہ غرورتکبرمیں مبتلاہیں اورحق کوحق تسلیم نہیں کرتے مگرجان کنی کے وقت خوداپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرحق تھے، فرشتے ان سے کہیں گے جاؤتم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤجس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن وانس جاچکے ہیں ،ہرگروہ جوکفروشقاق اورشرک وتکذیب میں ایک جیسے ہوں گے جب جہنم میں داخل ہوگاتواپنے پیش رو گروہ پرلعنت کرتا ہوا داخل ہوگا جیسے فرمایا

۔۔۔یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۔۔۔۝۰۝۲۵ۤۙ  [86]

ترجمہ:روزقیامت تم ایک دوسرے کا انکار کروگے اورایک دوسرے پرلعنت بھیجوگے۔

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ۝۱۶۶ وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ كَـمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا۝۰ۭ كَذٰلِكَ یُرِیْہِمُ اللہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ۝۰ۭ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۝۱۶۷ۧ [87]

ترجمہ:جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی اپنے پیروؤں سے بےتعلقی ظاہر کریں گے مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا،اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بےزاری ظاہر کر رہے ہیں ، ہم ان سے بےزار ہو کر دکھا دیتے ،یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں ، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

حتی کہ جب جہنم میں اولین وآخرین،ائمہ ضلالت اوران کے پیروکارومقلدین سب جمع ہوجائیں گے توروساء وقائدین کے پیروکاراپنے سرداروں اورروساء کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے رب!یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کوگمراہ کیالہذا انہیں آتش جہنم کادوگنا عذاب دے،کیوں کہ انہوں نے ہمیں گمراہ کیا اورناپاک اعمال کوہمارے سامنے مزین کرکے پیش کیاجیسے فرمایا

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۝۶۷رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا۝۶۸ۧ      [88]

ترجمہ: اور کہیں گے اے رب ہمارے ! ہم نے اپنے سرداروں اوراپنے بڑوں کی اطاعت کی اورانہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کردیا اے رب!ان کو دوہراعذاب دے اوران پرسخت لعنت کر۔

جواب میں ارشاد ہوگاایک دوسرے کوطعنے دینے ،کوسنے اور ایک دوسرے پرالزام دھرنے سے کوئی فائدہ نہیں تم سب ہی اپنی اپنی جگہ بڑے مجرم ہواس لئے تم سب کو دوہراہی عذاب ہے ،ایک سزااپنے جرائم کی اوردوسری سزادوسروں کے لئے جرائم پیشگی کی میراث چھوڑآنے کی مگرتم جانتے نہیں ہو،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ۝۸۸    [89]

ترجمہ:جن لوگوں نے خودکفرکی راہ اختیار کی اوردوسروں کواللہ کی راہ سے روکاانہیں ہم عذاب پرعذاب دیں گے اس فسادکے بدلے جووہ دنیامیں برپاکرتے رہے۔

ایک مقام پر فرمایا

وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ۔۔۔۝    [90]

ترجمہ:ہاں ضروروہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی۔

لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَہُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا یَزِرُوْنَ۝۲۵ۧ [91]

ترجمہ:یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں اور ساتھ ساتھ کچھ ان لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بر بنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں ، دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں ۔

اورسرداروروساء اپنے پیروکاروں سے کہیں گے کہ اگرہم قابل الزام تھے توتم کوہم پرکونسی فضیلت حاصل تھی، اب اپنی کمائی کے نتیجہ میں عذاب کامزاچکھویعنی ہم گمراہی ، ضلالت اورعذاب کے اسباب اختیار کرنے میں مشترک ہیں تمہیں ہم پرکون سی فضیلت ہے،

عَنِ السُّدِّیِّ: {وَقَالَتْ أُولَاهُمْ لِأُخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ} [92]فَقَدْ ضَلَلْتُمْ كَمَا ضَلَلْنَا

سدی کہتے ہیں ’’اورپہلے لوگ پچھلے لوگوں سے کہیں گے کہ پھرتم کوہم پرکوئی فوقیت نہیں ۔‘‘اس کے معنی یہ ہیں ، کہ تم بھی گمراہ تھے جس طرح کہ ہم گمراہ تھے ۔[93]

اللہ تعالیٰ نے اہل دوزخ کی اس باہمی تکرارکوایک مقام پریوں بیان فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚۖ یَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ۝۳۱قَالَ الَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ۝۳۲وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللهِ وَنَجْعَلَ لَهٗٓ اَنْدَادًا۝۰ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ۝۰ۭ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۳۳ [94]

ترجمہ:کاش! تم دیکھوان کاحال اس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اس وقت یہ ایک دوسرے پرالزام دھریں گے ،جولوگ دنیامیں دباکررکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ اگرتم نہ ہوتے توہم مومن ہوتے ،وہ بڑے بننے والے ان دبے ہوئے لوگوں کوجواب دیں گے کیاہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکاتھاجوتمہارے پاس آئی تھی ؟نہیں بلکہ تم خودمجرم تھے ،وہ دبے ہوئے لوگ ان بڑے بننے والوں سے کہیں گے نہیں بلکہ شب وروزکی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفرکریں اوردوسروں کواس کا ہمسر ٹھیرائیں ، آخر کار جب یہ لوگ عذاب دیکھیں گے تواپنے دلوں میں پچھتائیں گے اورہم ان منکرین کے گلوں میں طوق ڈال دیں گے ،کیالوگوں کواس کے سوا اورکوئی بدلہ دیاجاسکتاہے کہ جیسے اعمال ان کے تھے ویسی ہی جزاوہ پائیں ۔

الْمُنْذِرَ بْنَ جَرِیرٍ، یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِی صَدْرِ النَّهَارِ، فَجَاءَ قَوْمٌ عُرَاةً حُفَاةً مُتَقَلِّدِی السُّیُوفِ، عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَغَیَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا، وَبَثَّ مِنْهُمَا، رِجَالًا كَثِیرًا، وَنِسَاءً، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِهِ، وَالْأَرْحَامَ، إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیبًا، وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ،

جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم لوگ ایک روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ابھی دن کا آغاز ہی ہوا تھا اس دوران کچھ لوگ ننگے جسم ننگے پاؤں اور تلواروں کو لٹکائے ہوئے آئے قبیلہ مضر میں سے بلکہ تمام کے تمام لوگ قبیلہ مضر کے تھے،یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیاان کی غربت کی کیفیت دیکھ کر پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور پھر باہر تشریف لائےاوراس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ کو اذان پڑھنے کا حکم فرمایاچنانچہ انہوں نے اذان پڑھی اور نماز تیار ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، پھر خطبہ پڑھا اور ارشاد فرمایا’’ اے ایمان والو! تم لوگ اپنے پروردگار سے ڈرو کہ جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس میں سے اس کی بیوی پیدا کی پھر ان دونوں سے بہت سے مردوں اور خواتین کو پھیلایا (یعنی لوگ اس سے باہمی ہمدردی اور خیرسگالی سے کام لیں ) اور تم لوگ اس خدا سے ڈرو کہ تم جس کے نام کے ذریعہ سے مانگتے ہو ایک دوسرے سے اور رشتوں کے ذریعہ سے بلاشبہ خداوند قدوس تم کو دیکھ رہا ہے اور تم لوگ خداوند قدوس سے ڈرو’’اور ہر ایک آدمی دیکھ لے کہ جو اس نے کل کے دن کے واسطے (یعنی قیامت کے دن کے واسطے اس نے سامان کیا ہے)۔‘‘

تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِینَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ، مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ، حَتَّى قَالَ: وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا، بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَیْتُ كَوْمَیْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَثِیَابٍ، حَتَّى رَأَیْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ،

آدمی اپنے دینار سےصدقہ خیرات کرےاپنے درہم سے صدقہ کرے اپنے کپڑے سے صدقہ کرےایک صاع گیہوں سے صدقہ ہےیک صاع کھجورسے صدقہ کرے  حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچاہے کھجور کا ٹکڑاہی صدقہ کرے،پھر انصارمیں سے ایک آدمی (اشرفیوں سے بھری) اتنی بھاری تھیلی اٹھاکرلایاکہ اس کی ہتھیلی اس سے عاجزہورہی تھی بلکہ عاجزہوہی گئی تھی،اس کے بعد لوگوں کاتانتابندھ گیا حتی کہ میں نے دو ڈھیر دیکھےایک غلے کااورایک کپڑوں کا،میں نے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کی زیارت کی جواس طرح چمک دمک رہا تھاگویاکہ اس پر سونا چڑھادیاگیاہو

فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا، وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً، فَعَلَیْهِ وِزْرُهَا، وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَیْئًا

اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اسلام میں نیکی اور بھلائی کا راستہ نکالے (بشرطیکہ وہ کام شریعت میں موجودہواورجس سے کہ مذہب اسلام میں ترقی حاصل ہو) تو اس شخص کو اس نیک راستہ پر چلنے کا اجر و ثواب ہے اور ان لوگوں کا ثواب بھی اس کو ملے گا جو کہ اس پر عمل کرتے جائیں گے لیکن عمل کرنے والا کا اجر وثواب کم نہ ہوگااور جو شخص اسلام میں برا طریقہ جاری کرے گا (جوشریعت میں موجودنہ ہوتویہ بدعت ہوگی) تو اس پر اس راستہ کے نکالنے کا عذاب ہے اور ان لوگوں کا عذاب بھی اس شخص پر ہے جو کہ اس پر عمل کریں گے لیکن عمل کرنے والوں کے عذاب میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔[95]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، لِأَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا میں جوانسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیاجاتاہے اس کے خون ناحق کاایک حصہ آدم کے اس پہلے بیٹے کوپہنچتاہے جس نے اپنے بھائی کوقتل کیاتھاکیونکہ قتل انسان کاراستہ سب سے پہلے اسی نے کھولاتھا۔[96]

إِنَّ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ ‎﴿٤٠﴾‏ لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ ‎﴿٤١﴾‏ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٤٢﴾‏ وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِی مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٤٣﴾‏(الاعراف)
’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں، ان کے لیے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہوگا اور ہم ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ہم کسی شخص کو اس کی قدرت سے زیادہ کسی کا مکلف نہیں بناتے ، وہی لوگ جنت والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،اورجو کچھ ان کے دلوں میں (کینہ) تھا ہم اس کو دور کردیں گے، ان کے نیچے نہریں جاری ہونگی، اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا،واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے، اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے ۔‘‘

بدکاروں کی روحیں دھتکاری جاتی ہیں :

یقین جانوجن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے اوررسولوں کے مقابلہ میں سرکشی وبغاوت کارویہ اختیارکیا ہے ان کے لئے آسمان کے دروازے ہرگزنہ کھولے جائیں گے، اوران کاجنت میں جانااتناہی ناممکن ہے جتناسوئی کے ناکے سے اونٹ کاگزرنا

عَنْ سَعِیدٍ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ} قَالَ: لَا یُرْفَعُ لَهُمْ عَمَلٌ صَالِحٌ وَلَا دُعَاءٌ

سعیدبن جبیرکاآیت کریمہ’’ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔‘‘کے بارے میں قول ہے اس سے مرادیہ ہے کہ آسمان کے دروازوں سے ان کاکوئی نیک عمل یادعانہیں اٹھائی جائے گی۔[97]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ: لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، قَالَ: لِأَرْوَاحِهِمْ وَلَا لِأَعْمَالِهِمْ

ابن جریج نے اس آیت کریمہ’’ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔‘‘ کی تفسیرمیں فرمایاہے کہ ان کے اعمال اوران کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔[98]

اورنہ ان کی روحوں کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے،اس کی تائیداس روایت سے بھی ہوتی ہے،

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَیْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ،فَیَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَیَقُولُ: أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِیثَةُ، اخْرُجِی إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ، قَالَ: فَتُفَرَّقُ فِی جَسَدِهِ، فَیَنْتَزِعُهَا كَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَیَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ یَدَعُوهَا فِی یَدِهِ طَرْفَةَ عَیْنٍ حَتَّى یَجْعَلُوهَا فِی تِلْكَ الْمُسُوحِ،وَیَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِیحِ جِیفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کافرآدمی دنیاسے کوچ کرنے لگتاہے اورآخرت کی طرف روانہ ہوتاہے تواس کی طرف سیاہ چہرے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں ،ان کے پاس ٹاٹ(کے کفن ) ہوتے ہیں  اوروہ اس سے حدنگاہ کے فاصلہ پربیٹھ جاتے ہیں ،پھرملک الموت(عزرائیل علیہ السلام )آتاہے اوراس کے سرکے پاس بیٹھ جاتاہے اورکہتاہے اے خبیث روح! نکل اوراللہ کے غصے اورغضب کی طرف چل،روح جسم کے اندرچھپنے کی کوشش کرتی ہے اورفرشتے اسے اس طرح باہرکھینچتے ہیں جیسے کانٹے دارلوہے کی سیخ گیلی اون سے باہرنکالی جاتی ہے،فرشتہ اس کی روح نکال لیتاہے تودوسرے فرشتے لمحہ بھرکے لئے بھی ملک الموت کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے ٹاٹ (کے کفن)میں لپیٹ لیتے ہیں اوراس روح سےروئے زمین پرکسی مردارسے اٹھنے والی بدترین سڑاندجیسی بدبوآرہی ہوتی ہے

فَیَصْعَدُونَ بِهَا فَلَا یَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الْخَبِیثُ؟ فَیَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِی كَانَ یُسَمَّى بِهَا فِی الدُّنْیَاحَتَّى یُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَافَیُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا یُفْتَحُ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ ،[99]

فرشتے اسے لے کراوپرآسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں جہاں کہیں ان کاگزرمقرب فرشتوں کی جماعت پرہوتاہے تووہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے ؟جواب میں فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں ابن فلاں کی روح ہے ، اور اس کابدترین نام بتاتے ہیں جودنیامیں لیاجاتاتھا یہاں تک کہ یہ اسے آسمان دنیا کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں فرشتےآسمان کادروازہ کھولنے کے لئے درخواست کرتے ہیں دروازہ کھولانہیں جاتا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت’’  ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گےان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا ۔‘‘کی تلاوت فرمائی۔[100]

جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ۔۔۔۝۰۝۷۲ [101]

ترجمہ:جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اوراس کاٹھکاناجہنم ہے ۔

مجرموں کو ہمارے ہاں ایساہی بدلہ ملاکرتاہے،ان کے لئے تو جہنم کابچھونااورجہنم ہی کااوڑھناہوگایہ ہے وہ جزاجوہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ،بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کومان لیا ہے اورعمل صالحہ اختیار کیے ہیں ،اوراس بات میں ہم ہر ایک کواس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دارٹھہراتے ہیں ،یعنی ایمان اورعمل صالحہ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جو انسانی طاقت سے زیادہ ہوں اورانسان ان پرعمل کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں ،جیسے فرمایا

لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۔۔۔۝۰۝۲۸۶ۧ         [102]

ترجمہ:اللہ کسی متنفس پراس کی مقدرات سے بڑھ کرذمہ داری کابوجھ نہیں ڈالتا۔

۔۔۔ لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا۔۔۔۝۰۝۷ۧ [103]

ترجمہ:اللہ نے جس کوجتناکچھ دیاہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔

۔۔۔وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ۔۔۔۝۰۝۷۸ۧ        [104]

ترجمہ:اللہ نے دین میں تم پرکوئی تنگی نہیں رکھی۔

فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔۔۔۝۱۶ [105]

ترجمہ:جہاں تک تمہارے بس میں ہواللہ سے ڈرتے رہو۔

وہ اہل جنت ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے دنیامیں ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کچھ رنجشیں ،بدمزگیاں اورآپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں گی انہیں ہم اپنے فضل سے نکال دیں گے، کیونکہ جنت اوراہل جنت کے شایان شان نہیں کہ کینہ دل میں رکھاجائے ،چنانچہ ان کے دل ایک دوسرے کے بارے میں آئینے کی طرح صاف ہوجائیں گے اوروہ مخلص دوستوں کی حیثیت سے جنت میں داخل ہوں گے ،جیسے فرمایا

وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ۝۴۷ [106]

ترجمہ:ان کے دلوں میں جوتھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے ،وہ آپس میں بھائی بھائی بن کرآمنے سامنے تختوں پربیٹھیں گے ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا خَلَصَ المُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَیْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَیَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ كَانَتْ بَیْنَهُمْ فِی الدُّنْیَا حَتَّى إِذَا نُقُّوا وَهُذِّبُوا، أُذِنَ لَهُمْ بِدُخُولِ الجَنَّةِ، فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ بِمَسْكَنِهِ فِی الجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِی الدُّنْیَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں جنت اوردوزخ کے درمیان ایک پل پرروک لیاجائے گا اوروہیں ان کے مظالم کابدلہ دے دیاجائے گاجووہ دنیامیں باہم کرتے تھے،پھرجب پاک صاف ہوجائیں گے توپھرانہیں جنت میں داخلے کی اجازت دی جائے گی،اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے ان میں سے ہرشخص اپنے جنت کے گھرکواپنے دنیاکے گھرسے بھی زیادہ بہترطورپرپہچان لے گا۔             [107]

عَنِ السُّدِّیِّ: {وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ} ،الأعراف: 43 ] ، قَالَ:إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا سِیقُوا إِلَى الْجَنَّةِ، فَبَلَغُوا، وَجَدُوا عِنْدَ بَابِهَا شَجَرَةً فِی أَصْلِ سَاقِهَا عَیْنَانِ، فَشَرِبُوا مِنْ إِحْدَاهِمَا، فَیُنْزَعُ مَا فِی صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ، فَهُوَ الشَّرَابُ الطَّهُورُ. وَاغْتَسَلُوا مِنَ الْأُخْرَى، فَجَرَتْ عَلَیْهِمْ نَضْرَةُ النَّعِیمِ، فَلَمْ یَشْعَثُوا وَلَمْ یَتَّسِخُوا بَعْدَهَا أَبَدًا

سدی رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ’’ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔‘‘کی تفسیرمیں فرمایاہےکہ اہل جنت کوجب جنت کی طرف لے جایاجائے گا تووہ جنت کے دروازے پرایک ایسادرخت پائیں گے جس کے تنے کے پاس دوچشمے ہوں گے وہ ان میں سے ایک چشمے کاپانی پئیں گےتواس سے ان کے سینوں کاتمام کینہ جاتارہے گااوریہی شراب طہورہے، اوردوسرے چشمے کے پانی سے وہ غسل فرمائیں گے تواس سے ان کے چہروں پرراحت کی تازگی پھیل جائے گی، تواس کے بعدکبھی بھی ان کے چہروں پرکسی قسم کاکوئی میل کچیل نظرنہیں آئے گا۔[108]

جنت میں ان کے بالاخانوں کے نیچے انواع و اقسام کی نہریں بہتی ہونگی،اہل جنت اس بات پر پھول نہیں جائیں گے کہ ہم نے دنیامیں ایسے ایسے عمل صالحہ کیے تھے جس کے صلے میں ہمیں جنت ملی ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنااورشکرواحسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ایمان اور عمل صالحہ کی توفیق بخشی اور پھر انہیں بارگاہ الٰہی میں قبولیت کادرجہ بھی حاصل ہوا،یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اوراس کا فضل ہے اگریہ رحمت اورفضل الٰہی نہ ہوتاتوہم یہاں تک نہ پہنچ سکتے تھے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَنْ یُنَجِّیَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ، قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟قَالَ:وَلاَ أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّهُ بِرَحْمَةٍ، سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَاغْدُوا وَرُوحُوا، وَشَیْءٌ مِنَ الدُّلْجَةِ، وَالقَصْدَ القَصْدَ تَبْلُغُوا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کومحض اس کا عمل نجات نہیں دلاسکے گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اورآپ کوبھی نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں مجھے بھی نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ مجھےاپنے دامن رحمت میں نہ سمیٹ لے،پس تم کو چاہئے کہ درستی کے ساتھ عمل کرواورمیانہ روی اختیارکرو،صبح اورشام ،اسی طرح رات کوذراساچل لیا کرو اور اعتدال کے ساتھ چلاکرومنزل مقصودکوپہنچ جاؤگے۔[109]

ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کرآئے تھے ،دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پراپنااحسان نہ جتائے گابلکہ جواب میں ارشادہوگا کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہوبھیگ کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہیں ان اعمال صالحہ کے صلہ میں ملی ہے جوتم دنیامیں کرتے رہے تھے۔

وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ وَیَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ ‎﴿٤٥﴾(الاعراف)
’’اور اہل جنت اہل دوزخ کو پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعدہ فرمایا تھا ہم نے اس کو واقعہ کے مطابق پایا، سو تم سے جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا تم نے بھی اس کو واقعہ کے مطابق پایا ؟ وہ کہیں گے ہاں، پھر ایک پکارنے والا دونوں کے درمیان میں پکارے گا کہ اللہ کی مار ہو ان ظالموں پر جو اللہ کی راہ سے اعراض کرتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے تھےاور وہ لوگ آخرت کے بھی منکر تھے۔‘‘

اہل جنت اوراہل جہنم میں مکالمہ :

پھرجب مومن جنت میں امن وچین سے بیٹھ جائیں گے تو اہل دوزخ کوشرمندہ کرنے کے لئے پکارکرکہیں گے کہ ہمارے رب نے ہم سے جووعدے کیے تھے ہم نے ان ساروں کوٹھیک پالیاہے،یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیامیں دعوت حق پر ایمان لانے اورعمل صالحہ اختیارکرنے پرہم سے انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنت کاوعدہ فرمایا تھاہم نے اس کے وعدہ کوسچاپایاہے ،اس نے اپنی رحمت سے ہمیں جنت میں داخل کردیااورہم نے وہاں وہ سب کچھ ویساہی دیکھا جواس نے ہمارے لئے بیان کیا تھا ، اور تمہارے کفر اورمعاصی پرتمہارے رب نے جووعدہ تم سے فرمایاتھاکیاتم نے بھی اسے سچاپایا؟یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پرکفارکے ستر مقتولین کو جب وہ کنوئیں میں پھینک دیے گئے تھے خطاب کرکے کہی تھی اے ابوجہل بن ہشام،اے عتبہ بن ربیعہ،اے شیبہ بن ربیعہ اوردوسرے سرداروں کابھی نام لیاتھااورفرمایاتھا

أَیَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لاَ أَرْوَاحَ لَهَا؟فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ

کیاآج تمہارے لئے یہ بات بہترنہیں تھی کہ تم نے دنیامیں اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟بے شک ہم سے ہمارے رب نے جووعدہ کیاتھاوہ ہمیں پوری طرح حاصل ہو گیا تو کیا تمہارے رب کاتمہارے متعلق جووعدہ (عذاب کا)تھاوہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا، اس پر سیدناعمر رضی اللہ عنہ بول پڑےاے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ایسے لوگوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں جوہلاک ہوچکے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جوکچھ میں کہہ رہاہوں وہ تم لوگوں سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن اب جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔[110]

وہ ندامت سے جواب دیں گے ہاں ہمارے رب نے جووعدہ ہم سے کیا تھا ہم نے بھی ان کوٹھیک پایا ہے ،پس تمام مخلوق کے سامنے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اللہ کاوعدہ سچا ہے ،جیسے ایک مقام پر فرمایا

فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَاۗءَلُوْنَ۝۵۰قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّىْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌ۝۵۱ۙیَّقُوْلُ اَىِٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ۝۵۲ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ۝۵۳قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ۝۵۴فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَاۗءِ الْجَحِیْمِ۝۵۵قَالَ تَاللهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِ۝۵۶ۙوَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ۝۵۷اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ۝۵۸ۙاِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ۝۵۹ [111]

ترجمہ:پھروہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکرحالات پوچھیں گے ، ان میں سے ایک کہے گادنیامیں میراایک ہم نشین تھاجومجھ سے کہاکرتا تھا کیاتم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟کیا واقعی جب ہم مرچکے ہوں گے اورمٹی ہوجائیں گے اورہڈیوں کاپنجربن کررہ جائیں گے توہمیں جزاوسزادی جائے گی ،اب کیاآپ لوگ دیکھناچاہتے ہیں کہ وہ صاحب اب کہاں ہیں ؟ یہ کہہ کرجونہی وہ جھکے گاتوجہنم کی گہرائی میں اس کودیکھ لے گااوراس سے خطاب کر کے کہے گااللہ کی قسم توتومجھے تباہ ہی کردینے والاتھااگرمیرے رب کافضل شامل حال نہ ہوتاتو آج میں بھی ان لوگوں میں سے ہوتاجوپکڑے ہوئے آئے ہیں ،اچھاتوکیااب ہم مرنے والے نہیں ہیں ؟ موت جوہمیں آنی تھی وہ بس پہلے آچکی؟اب ہمیں کوئی عذاب نہیں ہونا۔

تب ایک پکارنے والااہل جہنم اوراہل جنت کے درمیان پکارکرکہے گاکہ اللہ کی رحمت سے ابدی دوری اورمحرومی ہو ان ظالموں پرجو خودتوگمراہ تھے ہی اس کے ساتھ لوگوں کو راہ حق اورشریعت ہدیٰ سےروکتے تھے اور اپنی خواہش نفس کے مطابق اللہ کی شریعت کو ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے تاکہ اس پرکوئی عمل نہ کرے اورحیات بعدالموت اوراعمال کی جوابدہی کے منکرتھےاس لئے فسق وفجورمیں ڈوبے ہوئے تھے۔

وَبَیْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِیمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَیْكُمْ ۚ لَمْ یَدْخُلُوهَا وَهُمْ یَطْمَعُونَ ‎﴿٤٦﴾‏ ۞ وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا یَعْرِفُونَهُم بِسِیمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَىٰ عَنكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِینَ أَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ۚ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمْ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ‎﴿٤٩﴾‏(الاعراف۴۶تا۴۹)
’’اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے وہ لوگ ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے السلام علیکم ! ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے ،اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر، اور اہل اعراف بہت سے آدمیوں کو جن کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے پکاریں گے کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا ،کیا یہ وہی ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت نہ کرے گا، ان کو یوں حکم ہوگا کہ جاؤ جنت میں تم پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم مغموم ہو گے۔‘‘

 جنت اورجہنم میں دیواراوراعراف والے :

ان دونوں گروہوں کافروں اورمومنوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی،

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ:الْأَعْرَافُ: حِجَابٌ بَیْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ سُورٌ لَهُ بَابٌ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اعراف جنت اورجہنم کے درمیان ایک حجاب ہےایک دیوارہے جس میں دروازہ ہوگا۔[112]

جیسے ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ۝۰ۭ بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ۝۱۳ۭ [113]

ترجمہ:پھران کے درمیان ایک دیوارحائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا،اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اورباہرعذاب۔

اس کی بلندیوں (اعراف)پرکچھ اورلوگ ہوں گے،

عَنْ حُذَیْفَةَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَصْحَابِ الْأَعْرَافِ قَالَ فَقَالَ: هُمْ قَوْمٌ اسْتَوَتْ حَسَنَاتُهُمْ وَسَیِّئَاتُهُمْ فَقَعَدَتْ بِهِمْ سَیِّئَاتُهُمْ عَنِ الْجَنَّةِ وَخَلَّفَتْ بِهِمْ حَسَنَاتُهُمْ عَنِ النَّارِ، قَالَ فَوَقَفُوا هُنَاكَ عَلَى السُّوَرِ حَتَّى یَقْضِیَ اللَّهُ فِیهِمْ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے جب اہل اعراف کی بابت پوچھاگیاتوانہوں نے فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اوربرائیاں برابرہوں گی ،ان کی نیکیاں جہنم میں جانے سے اور برائیاں جنت میں جانے سے مانع ہوں گی اوروہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے تک درمیان میں معلق ہوں گے۔[114]

کیونکہ جنتیوں کے چہرے روشن اورتروتازہ اور جہنمیوں کے چہرے سیاہ اورآنکھیں خوف ودہشت سے نیلی ہوں گی،اس لئے اعراف پربیٹھے ہوئے یہ لوگ دونوں گروہ کواس کی علامت سے پہچانیں لیں گےاوراہل جنت کو پکار کرکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو،یہ لوگ ابھی تک جنت میں داخل تونہیں ہوئے ہوں گے مگراس میں داخل ہونے کے امیدوار ہوں گے،اورجب غیراختیاری طورپر ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھریں گے اوروہ ان کوبہت ہی ہولناک اورقبیح منظرمیں دیکھیں گے تو کہیں گے توبارگاہ الٰہی میں التجاکریں گےاے ہمارے رب!ہمیں جہنم میں مبتلائے عذاب ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا ،پھریہ اعراف کے لوگ دوزخ میں ائمہ کفروضلالت کوان کی علامتوں سے پہچان کر کہیں گے کہ دنیامیں تم اپنی شان وشوکت ،حیثیت ومرتبہ ،مضبوط جتھوں اورمال و دولت پر بڑا گھمنڈکرتے تھے،اوران ہی کی محبت میں دین حق قبول کرنے سے گریزاں تھے مگراب تم نے دیکھ لیاہے کہ آج تمہاری شان وشوکت ،حیثیت ومرتبہ اور بڑے جتھے جن کی طاقت پرتمہیں بڑافخرونازتھا تمہارے کسی کام آئے اورنہ ہی تمہاراوہ مال ودولت تمہارے کسی کام آیا جن کوتم بڑی چیزسمجھتے تھے،اہل اعراف کہیں گے یااللہ کی طرف سے اہل جہنم کو کہاجائے گاکیایہ اہل جنت وہی غریب ومسکین اورمفلس ونادرقسم لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم نفرت وحقارت سے قسمیں کھاکھاکرکہتے تھے کہ اگریہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہوتے تودنیامیں مفلوک الحال اورکمزور ہرگزنہ ہوتے اورمزید جسارت کرتے ہوئے دعویٰ کرتے تھے کہ جس طرح دنیامیں اللہ نے ہمیں ہرطرح کی نعمتوں سے نوازاہواہے اسی طرح روز قیامت بھی اللہ کی رحمت ہم پر ہو گی ا ن کو تو اللہ اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا؟ مگر تمہارے دعویٰ کے برعکس آج انہی کمزوراورمفلوک الحال لوگوں سے کہاگیاہے کہ سلامتی کے ساتھ جنت کی لازوال نعمتوں میں داخل ہو جاؤجہاں تمہارے لئے نہ خوف ہے نہ رنج،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَكُوْنَ۝۲۹ۡۖوَاِذَا مَرُّوْا بِهِمْ یَتَغَامَزُوْنَ۝۳۰ۡۖوَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِیْنَ۝۳۱ۡۖوَاِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْٓا اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ۝۳۲ۙوَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَیْهِمْ حٰفِظِیْنَ۝۳۳ۭفَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ یَضْحَكُوْنَ۝۳۴ۙعَلَی الْاَرَاۗىِٕكِ۝۰ۙ یَنْظُرُوْنَ۝۳۵ۭهَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۝۳۶ۧ [115]

ترجمہ:مجرم لوگ دنیامیں ایمان لانے والوں کامذاق اڑاتے تھے جب ان کے پاس سے گزرتے توآنکھیں مارمارکران کی طرف اشارے کرتے تھےاپنے گھروں کی طرف پلٹتے تومزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے اورجب انہیں دیکھتے توکہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں حالانکہ وہ ان پرنگراں بناکرنہیں بھیجے گئے تھے ،آج ایمان لانے والے کفارپرہنس رہے ہیں مسندوں پربیٹھے ہوئے ان کاحال دیکھ رہے ہیں ،مل گیاناکافروں کوان کی حرکتوں کاثواب جووہ کیاکرتے تھے۔

وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِینَ ‎﴿٥٠﴾‏ الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا ۚ فَالْیَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ یَوْمِهِمْ هَٰذَا وَمَا كَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ ‎﴿٥١﴾‏(الاعراف)
’’اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو یا اور ہی کچھ دے دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے، جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کی کافروں کے لیے بندش کردی ہے، جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیاوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا، سو ہم (بھی) آج کے روز ان کا نام بھول جائیں گے جیسا کہ وہ اس دن بھول گئے اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔‘‘

اہل جنت اوراہل دوزخ کاایک مکالمہ:

جب اہل جہنم کوعذاب پوری طرح گھیرلے گااوروہ بے انتہابھوک اورانتہائی تکلیف دہ پیاس میں مبتلاہوں گے تواپنے قریبی اہل جنت رشتہ داروں وغیرہ سے گڑگڑاکر درخواست کریں گے کہ ہمیں پینے کے لئے ایک دو گھونٹ پانی دے دویااللہ تعالیٰ نے تمہیں جورزق عنایت فرمایا ہے اسی میں سے ایک دو لقمیں ہمیں بھی کھانے کے لئے دے دو،پہلے گزرچکاہے کہ روز قیامت کھانے پینے کی نعمتیں صرف اہل ایمان کے لئے ہوں گی۔

۔۔۔ خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ۔۔۔  ۝۳۲ [116]

ترجمہ: اورقیامت کے روز توخالصتہ انہی کے لئے ہوں گی۔

اس کی مزید وضاحت جنتیوں کی زبان سے کردی گئی کہ اہل جنت جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں ان منکرین حق پر حرام کر دی ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ}قَالَ: یُنَادِی الرَّجُلُ أَخَاهُ أَوْ أَبَاهُ، فَیَقُولُ: قَدِ احْتَرَقْتُ، أَفِضْ عَلَیَّ مِنَ الْمَاءِ، فَیُقَالُ لَهُمْ: أَجِیبُوهُمْ، فَیَقُولُونَ:إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِینَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ’’ اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ پھینک دو۔‘‘ کی تفسیرمیں بیان کی گیاہے آدمی اپنے باپ یابھائی کوپکارکرکہے گاکہ میں آگ سے جل گیاہوں لہذامجھ پرپانی بہا دو توان سے یہ کہاجائے گاکہ تم ان دوزخیوں کویہ جواب دو کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں ان منکرین حق پرحرام کردی ہیں ۔

جنہوں نے دنیا میں دین قیم کے بدلے لہوولعب کواختیارکرلیاتھااورجن کو دنیانے اپنی زیب وزینت سے اوردنیاکی طرف بلانے والوں کی کثرت نے دھوکے میں ڈال دیا، فرمایا آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلادیں گے جس طرح وہ ابلیس کے ساتھی بن کر یوم الحساب کوبھولے رہے اورجاہلانہ ضداورتعصبات میں گم ہوکرہماری آیتوں کاانکار کرتے رہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ ۔۔۔[117]

ترجمہ:یہ اللہ کوبھول گئے تواللہ نے بھی انہیں بھلادیا۔

قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ [118]

ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرمائے گاہاں اسی طرح توہماری آیات کوجبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں تونے بھلادیاتھااسی طرح آج توبھلایا جا رہا ہے ۔

 وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَـمَا نَسِیْتُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۔۔۔ ۝۳۴ [119]

ترجمہ:اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم بھی اسی طرح تمہیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔

عَنِ السُّدِّیِّ، قَوْلُهُ:{فَالْیَوْمَ نَنْسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ یَوْمِهِمْ هَذَا} قَالَ: كَمَا تَرَكُوا أَنْ یَعْمَلُوا لِلِقَاءِ یَوْمِهِمْ هَذَا

سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات بھولے رہے۔ ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ ہم انہیں رحمت سے محروم کر دیں گے جس طرح انہوں نے آج کے اس دن کی ملاقات کے لیے عمل کوچھوڑ دیا تھا۔[120]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ: فَیَلْقَى الْعَبْدَ، فَیَقُولُ: أَیْ فُلْ أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ،وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَیْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟ فَیَقُولُ: بَلَى،قَالَ: فَیَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِیَّ؟ فَیَقُولُ: لَا، فَیَقُولُ: فَإِنِّی أَنْسَاكَ كَمَا نَسِیتَنِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ روز قیامت بندے سے کہے گااے فلاں بندے!کیامیں نےتجھے عزت واکرام سے نہیں نوازاتھااورتجھ کوبیوی بچے نہیں دیئے تھے؟اورگھوڑوں اوراونٹوں کو تیرے تابع نہیں کر دیاتھا؟اورتو لوگوں سے چوتھائی حصہ (بطورچنگی)وصول نہیں کرتا تھا؟بندہ کہے گاہاں ، یہ سب باتیں صحیح ہیں ، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گاکیاتومیری ملاقات کایقین رکھتاتھا؟بندہ کہے گانہیں ، تواللہ تعالیٰ فرمائے گاپس جس طرح تومجھے بھولارہاآج میں تجھے بھول جاتاہوں ۔[121]

وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَىٰ عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ‎﴿٥٢﴾‏ هَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِیلَهُ ۚ یَوْمَ یَأْتِی تَأْوِیلُهُ یَقُولُ الَّذِینَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَیَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِی كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٥٣﴾‏(الاعراف)
’’اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے جس کو ہم نے اپنے علم کامل سے بہت واضح کر کے بیان کردیاہے، وہ ذریعہ ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں،ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس کے اخیر نتیجہ کا انتظار ہے، جس روز اس کا اخیر نتیجہ پیش آئے گااور اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے، سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ ہماری سفارش کر دے یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم لوگ ان اعمال کے جن کو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال کریں، بیشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے سب گم ہوگئیں ۔‘‘

ہم نے تواپنے علم کامل کے مطابق ایک ایسی کتاب بھیج دی تھی جوتمام مطالب کوکھول کھول کربیان کرتی اورحق وباطل اوررشدوضلالت کے درمیان واضح طورپرفرق کرنے والی تھی،جیسے فرمایا

كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍ۝۱ۙ          [122]

ترجمہ:فرمان ہے،جس کی آیتیں پختہ اورمفصل ارشادہوئی ہیں ،ایک دانااور باخبرہستی کی طرف سے ۔

پھراس کی جوتفصیل ہے وہ بھی علم پرہے ،جیسے فرمایا

لٰكِنِ اللهُ یَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ۔۔۔ ۝۱۶۶ۭ [123]

ترجمہ:(لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں )مگراللہ گواہی دیتاہے کہ اے نبی! جوکچھ اس نے تم پرنازل کیاہے اپنے علم سے نازل کیاہے۔

ان لوگوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایاتوان کی بدقسمتی ورنہ جولوگ اس کتاب پرایمان لے آئے وہ ہدایت ورحمت الٰہی سے فیض یاب ہوئے ،یعنی اللہ تعالیٰ نے رسولوں اورکتابوں کونازل کرکے ان کی ہدایت ورہنمائی کا پورابندوبست کردیاتھا اب اگرانہوں نے اس سے استفادہ حاصل نہیں کیااورمستحق عذاب ہوئے توان کی بدقسمتی ہے، جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵ [124]

ترجمہ: اورہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ(لوگوں کوحق وباطل کافرق سمجھانے کے لئے)پیغام برنہ بھیج دیں ۔

اب کیایہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت قائم ہو جائے جس کی یہ کتاب خبردے رہی ہے؟مگرجس روزقیامت قائم ہوجائے گی اوریہ لوگ مشاہدہ کرلیں گے تووہی لوگ جنہوں نے اسے فراموش کردیاتھا کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے رسول سچے تھے ، ان کی دعوت اوررب کی کتابیں برحق تھیں ، کاش! اب ہمیں کچھ شفارشی مل جائیں جوہمارے حق میں سفارش کریں اورہمیں اس ہلاکت سے نجات دلائیں ؟مگرانہیں کوئی سفارشی نہ ملے گا،جیسے فرمایا

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَ۝۴۸ۭ       [125]

ترجمہ:اس وقت سفارش کرنے والوں کی کوئی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔

یاہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیاجائے تاکہ جوکچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کرکے دکھائیں ، جیسےایک اورمقام پر ارشاد فرمایا

وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۷          [126]

ترجمہ:جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کاش! کوئی صورت ایسی ہوکہ ہم دنیامیں پھرواپس بھیجے جائیں اوراپنے رب کی نشانیوں کونہ جھٹلائیں اورایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔

۔۔۔فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِـــعِ الرُّسُلَ ۔۔۔ ۝۴۴ۙ [127]

ترجمہ:اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی سی مہلت اوردیدےہم تیری دعوت کولبیک کہیں گے اوررسولوں کی پیروی کریں گے۔

 وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [128]

ترجمہ:کاش! تم دیکھووہ وقت جب یہ مجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضورکھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے)اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیااورسن لیااب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ،ہمیں اب یقین آگیاہے ۔

وَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۔۔۔۝۰ ۝۳۷ۧ [129]

ترجمہ:وہ وہاں چیخ چیخ کرکہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے ۔

 اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰى عَلٰی مَا فَرَّطْتُّ فِیْ جَنْۢبِ اللهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَ۝۵۶ۙاَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۝۵۷ۙاَوْ تَـقُوْلَ حِیْنَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۵۸ [130]

ترجمہ:کہیں ایسانہ ہوکہ بعدمیں کوئی شخص کہے افسوس! میری اس تقصیرپرجومیں اللہ کی جناب میں کرتارہابلکہ میں تومذاق اڑانے والوں میں شامل تھایاکہے کاش! اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تومیں بھی متقیوں میں سے ہوتا؟یاعذاب دیکھ کرکہے کاش! مجھے ایک موقع اورمل جائے اورمیں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں ۔

قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ۝۱۱ [131]

ترجمہ:وہ کہیں گے اے ہمارے رب !تونے واقعی ہمیں دو دفعہ موت اوردودفعہ زندگی دے دی ،اب ہم اپنے قصوروں کااعتراف کرتے ہیں اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ۔

مگراعتراف حق کرنے یادوبارہ دنیامیں بھیجے جانے کی آرزواورکسی سفارشی کی تلاش سب بے فائدہ ہوں گی ، وہ معبودبھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑکرعبادت کرتے تھے ،جن کومصائب ومشکلات میں پکارتے اوران سے لاحاصل امیدیں وابستہ کرتے تھے،جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے چڑھاوے چڑھاتے اورنذرونیازپیش کرتے تھے ، وہ ان کی مددکرسکیں گے نہ سفارش اورنہ عذاب جہنم سے چھڑاہی سکیں گے،جیسے فرمایا

ثُمَّ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ۝۷۳ۙمِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَـیْـــــًٔا۔۔۔۝۰۝۷۴ [132]

ترجمہ:پھران سے پوچھاجائے گاکہ اب کہاں ہیں اللہ کے سواوہ دوسرے الٰہ جن کوتم شریک کرتے تھے؟وہ جواب دیں گے کھوئے گئے وہ ہم سے ،بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیزکونہ پکارتے تھے۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٥٤﴾‏ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً ۚ إِنَّهُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ ‎﴿٥٥﴾‏ وَلَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِیبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٥٦﴾‏(الاعراف)
’’ بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر قائم ہوا ، وہ شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں،یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہواہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے، تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی ،واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں، اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی ہے فساد مت پھیلاؤ اور تم اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے، بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے ۔‘‘

درحقیقت تمہارارب اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جس نے ساتوں آسمانوں ،زمینوں اوران کے درمیان جوکچھ ہے کوچھ دنوں میں تخلیق کردیا(مگران دنوں کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتاہے)

كَمَا أَخْبَرَ بِذَلِكَ فِی غَیْرِ مَا آیَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، وَالسِّتَّةُ الْأَیَّامُ هِیَ: الْأَحَدُ، وَالِاثْنَیْنُ، وَالثُّلَاثَاءُ، وَالْأَرْبِعَاءُ، وَالْخَمِیسُ، وَالْجُمُعَةُ،وَفِیهِ اجْتَمَعَ الْخَلْقُ كُلُّهُ

جیساکہ اسے قرآن مجیدکے دیگرکئی ایک مقامات پربھی بیان کیاگیاہے ،ان چھ دنوں سے اتوار، سوموار،منگل،بدھ،جمعرات اورجمعہ مرادہیں ،جمعے کے دن ہی ساری مخلوق جمع ہوئی۔[133]

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْهِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِیهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ،وَفِیهِ أُخْرِجَ مِنْهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے بہتردن جس میں سورج نکلتاہےجمعہ کادن ہے،اسی دن آدم علیہ السلام پیداہوئےاوراسی دن جنت میں داخل ہوئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے۔[134]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِی فَقَالَ:خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ یَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِیهَا الْجِبَالَ یَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ یَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ یَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِیهَا الدَّوَابَّ یَوْمَ الْخَمِیسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِی آخِرِ الْخَلْقِ، فِی آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِیمَا بَیْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّیْلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میراہاتھ پکڑااورفرمایااللہ تعالیٰ نے مٹی کوہفتے کے دن پیداکیااوراس میں پہاڑوں کواتوارکے دن پیداکیااوردرختوں کواس میں سوموارکے دن پیداکیااورشرکومنگل کے دن پیداکیااور خیر کو بدھ کے دن پیداکیااور جاندارچیزوں کوجمعرات کے دن پیداکرکے اس میں پھیلادیا اورآدم علیہ السلام کوآخری مخلوق کے طورپرجمعے کے دن کی آخری گھڑیوں میں عصراوررات کے درمیان کی کسی گھڑی میں پیدافرمایاتھا۔[135]

پھروہ اپنے جلال ،اپنی عظمت اوراپنی لامحدودسلطنت کے لائق اپنے تخت سلطنت پرجلوہ فرماہوا،لیکن کس طرح کس کیفیت کے ساتھ اسے ہم بیان نہیں کرسکتے نہ کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں کیونکہ اس کے مشابہ کوئی چیزنہیں جیسے فرمایا

۔۔۔ لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ۝۰ۚ وَهُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۝۱۱  [136]

ترجمہ:کائنات کی کوئی چیزاس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اوردیکھنے والا ہے ۔

چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استادنعیم بن حمادخزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

مَنْ شَبَّهَ اللَّهَ بِخَلْقِهِ فَقَدْ كَفَرَ وَمَنْ جَحَدَ مَا وَصَفَ اللَّهُ بِهِ نَفْسَهُ فَقَدْ كَفَرَ وَلَیْسَ فِیمَا وَصَفَ اللَّهُ بِهِ نَفْسَهُ وَلَا رَسُولَهُ تَشْبِیهٌ، فَمَنْ أَثْبَتَ لِلَّهِ تَعَالَى مَا وَرَدَتْ بِهِ الْآیَاتُ الصَّرِیحَةُ وَالْأَخْبَارُ الصَّحِیحَةُ، عَلَى الْوَجْهِ الَّذِی یَلِیقُ بِجَلَالِ اللَّهِ تَعَالَى، وَنَفَى عَنِ اللَّهِ تَعَالَى النَّقَائِصَ،فَقَدْ سَلَكَ سَبِیلَ الْهُدَى

جوشخص اللہ کو اس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے اس نےکفرکیا اورجوشخص اللہ تعالیٰ کی ان صفات میں سے کسی صفت کاانکارکرے جواللہ تعالیٰ نے اپنی ذات گرامی کے لیے بیان فرمائی ہیں تواس نے بھی کفرکیا،اللہ تعالیٰ نے اپنی جوصفات بیان فرمائی ہیں یااس کے رسول نے اس کی جوصفات بیان کی ہیں ان میں کوئی تشبیہ نہیں ہے،جوشخص اللہ تعالیٰ کے لیے ان صفات کوثابت کرےجن کا ذکرآیات کریمہ اوراحادیث صحیحہ میں ہے اوروہ ان کوتسلیم کرےجس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے شایان شان ہیں اورتمام نقائص کی اس کی ذات سے نفی کرے ،ایسی روش ہی راہ ہدایت ہے۔[137]

جو اپنی قدرت کاملہ سے رات کودن پرڈھانک دیتا ہے اورپھردن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے اوریہ گردش لیل ونہارہمیشہ جاری رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی بساط لپیٹ دے گااوربندے اس جہان فانی سے دوسرے جہان میں منتقل ہوجائیں گے ،جس نے اپنی حکمت بالغہ سے چمکتادہمکتا سورج اورٹھنڈی روشنی والا چانداورآسمان کی زینت تارے پیداکیے،اوراس کی تمام مخلوق اس کے تابع فرمان ہیں ،جیسے فرمایا

وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ۝۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَ۝۳۷ۙوَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِــیْمِ۝۳۸ۭوَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۝۳۹لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۝۴۰    [138]

ترجمہ:ان کے لئے ایک اور نشانی رات ہے ،ہم اس کے اوپرسے دن ہٹادیتے ہیں تو ان پر اندھیراچھاجاتاہےاورسورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلاجارہاہے ،یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہواحساب ہے ،اورچانداس کے لئے ہم نے منزلیں مقررکردی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتاہواوہ پھرکھجورکی سوکھی شاخ کے مانندرہ جاتاہے نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاندکوجاپکڑے اورنہ رات دن پرسبقت لیجاسکتی ہے سب ایک ایک فلک میں تیررہے ہیں ۔

خبرداررہو!کائنات کی چھوٹی بڑی تمام مخلوق کو اللہ وحدہ لاشریک نے تخلیق کیا ہے،وہی کائنات کابلاشرکت غیرے حاکم ہے،تمام اختیارات اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں عملاً اسی کاہی حکم نافذہوتاہے ،اللہ وہ ہے جواپنی ذات کے اعتبارسے بھی اپنی عظمت اوصاف اورکمال صفات کی بناپربہت بابرکت ہے اورمخلوق کوبے پایاں بھلائی اور بے شمارنیکی سے نواز کر دوسروں کوبھی برکت عطا فرماتاہے ،پس اس کائنات میں جوبرکات نظرآتی ہیں وہ اس کی رحمت کے آثارہیں ،اوروہ اکیلاہی سارے جہانوں کا مالک و پروردگارہے،

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَمْ یَحْمَدِ اللَّهَ عَلَى مَا عَمِلَ مِنْ عَمَلٍ صَالِحٍ، وَحَمِدَ نَفْسَهُ، قَلَّ شُكْرُهُ وَحَبِطَ عَمَلُهُ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللَّهَ جَعَلَ لِلْعِبَادِ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئًا فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى أَنْبِیَائِهِ، لِقَوْلِهِ: {أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ} ،[139]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے کسی نیکی پراللہ کی حمدنہ کی بلکہ اپنے نفس کوسراہاپس اس نے کفرکیااوراس کے اعمال غارت ہوئے،اورجس نے یہ عقیدہ رکھاکہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کوبھی دیئے ہیں تواس نے اس کے ساتھ کفرکیاجواللہ نے اپنے نبیوں پرنازل فرمایاہے، کیونکہ اس کافرمان ہے’’ سب مخلوق بھی اسی کی ہے اورحکم بھی(اسی کاہے) اللہ رب العالمین بڑی برکت والاہے ۔‘‘[140]

جیسے فرمایا

تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّقَمَـــرًا مُّنِیْرًا۝۶۱وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۝۶۲            [141]

ترجمہ:بڑامتبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اوراس میں ایک چراغ اور ایک چمکتاہواچاندروشن کیا،وہی ہے جس نے رات اوردن کوایک دوسرے کاجانشین بنایا ، ہراس شخص کے لئے جوسبق لیناچاہے یاشکرگزارہوناچاہے۔

آداب دعاو ذکر فرمایاکہ لوگو!اپنی مشکلات ومصائب میں صرف اپنے رب کوعاجزی وانکساری کے ساتھ چپکے چپکے پکاروکیونکہ باآوازبلنداورعلانیہ گڑگڑانے سے ریا کا اندیشہ ہوتاہے یقیناً وہ حدسے تجاوزکرنے والوں کوپسندنہیں کرتا،

عَنْ أَبِی نَعَامَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ سَمِعَ ابْنَهُ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْیَضَ عَنْ یَمِینِ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ، سَلِ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَعُذْ بِهِ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یَكُونُ قَوْمٌ یَعْتَدُونَ فِی الدُّعَاءِ وَالطَّهُورِ

ابونعامہ سے مروی ہےعبداللہ بن مغفل نے اپنے بیٹے کویہ دعاکرتے ہوئے سنااے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتاہوں کہ جب میں جنت میں داخل ہوں توجنت کے دائیں طرف مجھے سفیدمحل عطافرمانا،انہوں نے کہااے بیٹے!اللہ تعالیٰ سے جنت کاسوال کرواوردوزخ سے پناہ مانگومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے کہ کچھ لوگ دعااورطہارت میں حدسے بڑھ جائیں گے۔[142]

زمین کے انتظام میں فسادبرپانہ کروجب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کوچھوڑکرکسی اورکواپناولی وسرپرست اور کار ساز اور کار فرماقراردے کرمددکے لئے نہ پکارو اوراللہ کے سواکسی اورسے امیدیں وابستہ نہ کرو، جیسے فرمایا

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ۔۔۔ ۝۴۱ [143]

ترجمہ:خشکی اورتری میں فسادبرپاہوگیاہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے۔

اوراللہ ہی کوپکاروخوف کے ساتھ اورطمع کے ساتھ یعنی اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اوراس کے ثواب کی امیدرکھتے ہوئے اسے پکارو،نیزیہ امیدبھی رکھوکہ اللہ تعالیٰ اس دعاکوقبول فرمائے گااوراس بات سے بھی ڈروکہ کہیں اللہ تعالیٰ دعاکوردنہ کردے ۔

ان آیات میں چارچیزوں کی تلقین کی گئی ہے۔

۱ ۔اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری باآوازبلندنہیں بلکہ خفیہ طریقے سے دعاکی جائے ،

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَكُنَّا إِذَا عَلَوْنَا كَبَّرْنَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، وَلَكِنْ تَدْعُونَ سَمِیعًا بَصِیرًا

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھےجب ہم کسی بلندجگہ پرچڑھتے توتکبیرکہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگو!اپنے اوپررحم کرو تم کسی بہرےیا غائب اللہ کونہیں پکاررہے ہوتم تواس ذات کوپکارتے ہوجوبہت زیادہ سننے والا،بہت زیادہ دیکھنے والاہے۔[144]

۲۔ دعامیں زیادتی نہ کی جائے یعنی اپنی حیثیت اورمرتبہ سے بڑھ کردعانہ کی جائے۔

۳ ۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑکرکسی اورکواپناولی وسرپرست اورکارسازاورکارفرمادے کرمددکے لئے نہ پکاراجائے ورنہ اللہ کے سواکسی اورسے امیدیں وابستہ کی جائیں ۔

۴۔ بارگاہ الٰہی میں دعاکرتے ہوئے اللہ کے عذاب کاڈربھی دل میں ہواوراس کی رحمت کی امیدبھی ہونی چاہیے ۔

اس طریقہ سے دعاکرنے والے محسنین ہیں ،یقیناًاللہ کی رحمت نیک کردارلوگوں سے قریب ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ۝۰ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۵۶ۚ [145]

ترجمہ: مگرمیری رحمت ہرچیزپر چھائی ہوئی ہے اوراسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گاجونافرمانی سے پرہیز کریں گے،زکواة دیں گے اورمیری آیات پرایمان لائیں گے۔

 وَهُوَ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ‎﴿٥٧﴾‏وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِی خَبُثَ لَا یَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَشْكُرُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ (الاعراف)
’’اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کردیتی ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں، تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں، پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں، یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو ، اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے ، اس طرح ہم دلائل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو شکر کرتے ہیں۔‘‘

تمام مظاہرقدرت اس کی شان کے مظہرہیں :

اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت وربوبیت کے اثبات میں مزیددلائل بیان فرماکرپھراس سے احیاء موتی کااثبات فرمایا کہ وہ اللہ ہی ہے جوبھینی بھینی خوشگوار ہواؤں کوبارش برسانے سے پہلے خوشخبری لئے ہوئے بھیجتاہے،جیسے فرمایا

وَهُوَالَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ۝۰ۭ وَهُوَالْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ۝۲۸ [146]

ترجمہ:وہی ہے جولوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعدمینہ برساتاہے اوراپنی رحمت پھیلادیتاہے ۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ یُّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ۔۔۔۝۴۶       [147]

ترجمہ:اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے۔

پھرجب وہ ہوائیں پانی سے بھرے ہوئے بوجھل سیاہ بادل اٹھالیتی ہیں ،اوربعض دوسری ہوائیں ان کواکٹھاکرتی ہیں تووہ انہیں کسی مردہ سرزمین کی طرف حرکت دیتاہے اور وہاں امرت بھری بوندوں کو برسا کر اسی مری ہوئی زمین سے یکایک طرح طرح کے پھل نکال لاتاہے جو رنگوں ،ذائقوں ،خوشبوؤں اورشکل وصورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، جیسے فرمایا

 وَاٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ۝۰ۚۖ اَحْیَیْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ۝۳۳وَجَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ۝۳۴ۙ لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ۔۔۔ ۝۳۵ [148]

ترجمہ:ان لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ،ہم نے اس کوزندگی بخشی اوراس سے غلہ نکالاجسے یہ کھاتے ہیں ،ہم نے اس میں کھجوروں اورانگوروں کے باغ پیداکیے اوراس کے اندرسے چشمے نکالے تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ۔

دیکھوجس طرح ہم پانی کے ذریعے سے مردہ زمین میں روئیدگی پیدا کردیتے ہیں اوروہ انواع واقسام کے غلے اورپھل پھول پیداکرتی ہے اسی طرح روزقیامت تمام انسانوں کوجن کی ہڈیاں بوسیدہ ہوکرمٹی میں مل کرمٹی ہوچکی ہوں گی ہم دوبارہ زندہ کریں گے اوران سے ان کے اعمال کامحاسبہ کریں گےشایدکہ تم اس روزمرہ کے مشاہدے سے نصیحت حاصل کرو،جیسے فرمایا

فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللہِ كَیْفَ یُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰى۝۰ۚ وَہُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۵۰ [149]

ترجمہ:دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جلا اٹھاتا ہے ، یقینا وہ مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

جوزمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص اورخسیس نباتات کے سواکچھ نہیں نکلتاجس میں کوئی فائدہ اورکوئی برکت نہیں ہوتی یعنی وعظ ونصیحت قبول کرنے والادل بارش کوقبول کرنے والی زمین کی طرح آیات الٰہی کوسن کرایمان وعمل صالح میں مزیدپختہ ہوتاہے اوردوسرادل اس کے برعکس شورزدہ زمین کی طرح ہے جوبارش کاپانی قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے توبرائے نام ،جس سے پیداواربھی نکمی اوربرائے نام ہوتی ہے ،

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ مَا بَعَثَنِی اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَیْثِ الكَثِیرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِیَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِیرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِیَ قِیعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِی دِینِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِی اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ یَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ یَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم وہدایت کے ساتھ بھیجاہے اس کی مثال زبردست بارش کی طرح ہے جوزمین پر(خوب)برسے، بعض زمین جوزرخیز ہوتی ہے وہ پانی کواپنے اندرجذب کرلیتی ہےاور بہت چارہ اورگھاس خوب اگاتی ہےاوربعض زمین جوسخت ہوتی ہے وہ پانی کوروک لیتی ہے(یعنی اس میں پانی جذب نہیں ہوا) اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتاہےوہ اس سےخودبھی پیتے ہیں اورکھیتوں کوبھی سیراب کرتے ہیں ،اورکچھ زمین کے بعض خطوں پرپڑتاہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں ،نہ پانی روکتے ہیں اورنہ ہی سبزہ اگاتے ہیں تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ کی دین میں سمجھ حاصل کرے اور اس کووہ چیز نفع دےجس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں ،اس نے علم دین سیکھااورسکھایااوراس شخص کی مثال جس نے سرنہیں اٹھایا(یعنی توجہ نہیں کی)اوراسے قبول نہیں کیاجوہدایت دے کرمیں بھیجاگیاہوں ۔[150]

اسی طرح ہم دلائل وبراہن کوطرح طرح سے پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جواپنے رب کی نعمتوں کااعتراف اوراقرارکرکے اس کے شکرگزارہوتے ہیں ،اوران نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق تصرف کرتے ہیں ۔

لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿٥٩﴾‏ قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٦٠﴾‏ قَالَ یَا قَوْمِ لَیْسَ بِی ضَلَالَةٌ وَلَٰكِنِّی رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٦١﴾‏ أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِیُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَیْنَاهُ وَالَّذِینَ مَعَهُ فِی الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِینَ ‎﴿٦٤﴾(الاعراف)
’’ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں ، مجھ کو تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے،ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم ! مجھ میں تو ذرا بھی گمراہی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا رسول ہوں، تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں،اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرائے اور تاکہ تم ڈر جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے، سو وہ لوگ ان کی تکذیب ہی رہے تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور ان کو جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے غرق کردیا،بے شک وہ لوگ اندھے ہو رہے تھے ۔‘‘

سورت کے آغازمیں آدم علیہ السلام کاقصہ بیان ہواتھاپھراس کے متعلقات بیان فرمائے ،اب پھرانبیاء کے واقعات بیان فرمائے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ بَیْنَ نُوحٍ، وَآدَمَ، عَشْرَةُ قُرُونٍ، كُلُّهُمْ عَلَى شَرِیعَةٍ مِنَ الْحَقِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں آدم علیہ السلام اورنوح  علیہ السلام کے درمیان دس پشتوں کافاصلہ ہے جوشریعت حق یعنی اسلام پر گزرے تھے۔[151]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ وَغَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ عُلَمَاءِ التَّفْسِیرِ: وَكَانَ أَوَّلُ مَا عُبِدَتِ الْأَصْنَامُ، أَنَّ قَوْمًا صَالِحِینَ مَاتُوا، فَبَنَى قَوْمُهُمْ عَلَیْهِمْ مساجدَ وَصَوَّرُوا صُوَرَ أُولَئِكَ فِیهَا، لِیَتَذَكَّرُوا حَالَهُمْ وَعِبَادَتَهُمْ، فَیَتَشَبَّهُوا بِهِمْ. فَلَمَّا طَالَ الزَّمَانُ، جَعَلُوا تِلْكَ الصُّوَرَ أَجْسَادًا عَلَى تِلْكَ الصُّوَرِ. فَلَمَّا تَمَادَى الزَّمَانُ عَبَدُوا تِلْكَ الْأَصْنَامَ وَسَمَّوْهَا بِأَسْمَاءِ أُولَئِكَ الصَّالِحِینَ وَدًّا وَسُوَاعًا ویَغُوث وَیَعُوق وَنَسْرَا. فَلَمَّا تَفَاقَمَ الْأَمْرُ بَعَثَ اللَّهُ، سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى -وَلَهُ الْحَمْدُ وَالْمِنَّةُ -رَسُولَهُ نُوحًا یأمرهم بعبادة الله وحده لا شریك

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اوردیگرکئی علمائے تفسیرنے بیان کیاہے پھرسب سے پہلے توحیدربی سے انحراف یعنی بتوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی، جب قوم کے صالحین فوت ہوگئے توان کے عقیدت مندوں نے ان پرسجدہ گاہیں (عبادت خانے)قائم کردیں اوران میں ان نیک لوگوں کی تصویریں بناکر لٹکادیں ،ان کامقصدیہ تھاکہ اس طرح ان کی عبادت کی کیفیت سے وہ بھی اللہ کاذکر کیاکریں گےاورذکرالٰہی میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے،جب طویل زمانہ گزرگیاتوانہوں نے ان تصویروں کے بجائے ان کے مجسمے تراش لیےاورپھرکچھ اورعرصہ گزرنے کے بعدان کی پوجاپاٹ شروع ہوگئی، اوران مجسموں کوقوم نوح کےانہی صالحین ود،سواعا،یعوق ،یغوث اورنسرکے نام سے موسوم کردیا،جب یہ معاملہ بہت ہی شدت اختیارکرگیاتو اللہ تعالیٰ نے نوح  علیہ السلام کو اسکی قوم کی اصلاح کے لئے بھیجا انہوں نے اپنی قوم کوحکم دیاکہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ۔[152]

لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بت صرف سونے چاندی ،لکڑی اور پتھروغیرہ کی مورتی کانام ہے مگرایسانہیں ہے بلکہ ہروہ چیزجوآپ کے دل میں اللہ سے زیادہ اہمیت اختیارکرجائے وہی آپ کابت ہے،جیسے فرمایا

اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًا۝۴۳ۙ           [153]

ترجمہ:کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو ؟کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو ؟۔

نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کووعظ ونصیحت کرتے ہوئے کہا اے برادران قوم!طاغوت کی پرستش سے تائب ہو کرصرف اپنے معبودحقیقی اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرواس کے سوا تمہارا کو ئی الٰہ نہیں ہے،وہی تمہاراخالق اوررازق اوروہی تمام امورکی تدبیرکرنے والاہے،اس کے سواہرچیزمخلوق اوراللہ تعالیٰ کی تدبیروتصرف کے تحت ہے اورکسی معاملے میں اسے کوئی اختیارنہیں ،اورانہیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے کہا اگرتم لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکردعوت حق قبول نہ کی تو میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ،مگرقوم کے سرداروں اوردولت مندرہنماؤں نے اس تنبیہ پرکوئی توجہ نہ کی اوربدترین جواب دیا کہ تم صرف ہمارے جیسے ایک بشرہواورہمیں اپنے آباؤاجدادکے دین سے ہٹاناچاہتے ہواورہم سمجھتے ہیں کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو،ہرقوم کےفاسقوں اورفاجروں کاہمیشہ یہی حال ہوتاہےوہ خودکوسیدھے راستہ پراوراللہ کے برگزیدہ بندوں کوگمراہ ہی سمجھتے ہیں ۔

وَاِذَا رَاَوْہُمْ قَالُوْٓا اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ۝۳۲ۙ [154]

ترجمہ:اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں ۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ۝۰ۭ وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ھٰذَآ اِفْكٌ قَدِیْمٌ۝۱۱         [155]

ترجمہ:جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت نہ لے جا سکتے تھے چونکہ انہوں نے اس سے ہدایت نہ پائی اس لیے اب یہ ضرور کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے۔

نوح علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا اے برادران قوم ! میں کسی طرح کی گمراہی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں توہدایت یافتہ اورراہ ہدایت دکھانے والاہوں ،اورفرمایا میں اللہ رب العالمین کا رسول ہوں جومیرااورتمہارااورتمام مخلوق کارب ہے،جومختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کونوازتاہے،اوراس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انہیں عقائدصحیحہ ،اعمال صالحہ اوراخلاق حسنہ کاحکم دیتے ہیں اوران کے منافی اورمتضادامورسے روکتے ہیں ،میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں پوری خیرخواہی اورایمان داری کے ساتھ تمہاری ہدایت ورہنمائی کے اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارا خیرخواہ ہوں اور مجھے  اللہ  کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہے ،اس لئے جوچیزمتعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اوراگرتم علم رکھتے ہوتومیرے حکم کی تعمیل کرو،کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خودتمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاددہانی آئی جس کی حقیقت،صداقت اورحال سے تم واقف ہو تاکہ تمہیں اللہ کے دردناک عذاب سے ڈرائے اور تم غلط روی کوچھوڑکر پرہیزگاری اختیارکروتاکہ تم پر رحم کیا جاے؟ جیسے فرمایا

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَةً۝۰ۚۖ مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِیْنَ۝۲۴ۚ [156]

ترجمہ:اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگے کہ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم جیسااس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے، اللہ  کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتایہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں (کہ بشر رسول بن کر آے)۔

نوح  علیہ السلام نے ساڑھے نوسوسال تک اپنی قوم کو شدومدسے تبلیغ کی،مگرقوم نے دعوت حق نہ سننے کی گویاقسم ہی کھالی تھی۔

 قَالَ رَبِّ اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَهَارًا۝۵ۙفَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَاۗءِیْٓ اِلَّا فِرَارًا۝۶وَاِنِّىْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ فِیْٓ اٰذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا۝۷ۚثُمَّ اِنِّىْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا۝۸ۙثُمَّ اِنِّىْٓ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا۝۹ۙفَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ۙ [157]

ترجمہ: (آخرکار نوح علیہ السلام )نے عرض کیااے میرے رب! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب وروز پکارا مگر میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا اور جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے انہوں نے کانوں میں انگالیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اڑ گے اور بڑا تکبر کیا پھر میں نے ان کو ہا نکے پکارے دعوت دی،پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایامیں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔

مگرقوم انہیں بہکاہوااور دیوانہ کہنے لگی ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ [158]

ترجمہ: انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا قراردیا اورکہا کہ نوح علیہ السلام دیوانہ ہے،اور وہ بری طرح جھڑکا گیا ہے ۔

اِنْ هُوَاِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِیْنٍ۝۲۵    [159]

ترجمہ: کچھ نہیں بس اس آدمی کو ذرا جنون لاحق ہو گیا ہے کچھ مدت اور دیکھ لو(شاید افاقہ ہو جاے)۔

پھرانہوں نے دعوت قبول نہ کرنے کی یہ توجیہ پیش کی۔

 قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝۱۱۱ۭ [160]

ترجمہ: انہوں نے جواب دیاکیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے؟ ۔

اورپھرقوم نے اپنے معبودان باطلہ کوچھوڑنے سے صاف انکار کردیا

 وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۝۰ۥۙ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا۝۲۳ۚ [161]

ترجمہ:انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو وداور سواع کواور نہ یغوث او ر یعوق او رنسر کو۔

آخرکارجب مہلت کاوقت ختم ہوگیاتوہم نے نوح  علیہ السلام اوراہل ایمان کوایک کشتی میں نجات دی اورباقی قوم کو تکذیب حق اوراس کامذاق اڑانے کی پاداش میں پانی میں غرق کردیا۔

فَاَنْجَیْنٰہُ وَاَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَجَعَلْنٰہَآ اٰیَةً لِّــلْعٰلَمِیْنَ۝۱۵ [162]

ترجمہ:پھر نوح علیہ السلام کو اور کشتی والوں کو ہم نے بچا لیا اور اسے دنیا والوں کے لیے ایک نشان عبرت بنا کر رکھ دیا۔

مِمَّا خَطِیْۗـــٰٔــتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا۝۰ۥۙ فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَنْصَارًا۝۲۵   [163]

ترجمہ:اپنی خطاؤں کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے پھر انہوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔

یقیناًوہ اندھے لوگ تھے جوحق دیکھتے تھے اورنہ اس پرایمان لانے کوتیارتھے ۔

کفارومشرکین کاذہن ہمیشہ سے ایک ہی رہاہے اس لئے ان کے پیغمبروں پراعتراض بھی ایک جیسے ہی رہےاوراسی طرح ان کاانجام بھی ایک جیساہی ہواہے ،ہرقوم نے رسولوں کی اس لئے تکذیب کی کہ کوئی بشررسول نہیں ہوسکتارسالت کے لئے توکوئی فرشتہ ہوناچاہئے تھا،وہ رسولوں کی دعوت حق کوسن کراسے دیوانہ اوربہکاہواکہتے ،رسولوں پریہ الزام لگاتے کہ یہ ہمیں ہمارے آباؤاجدادکے صحیح دین سے ہٹاناچاہتاہے اورایک دوسرے کواپنے دین پرجم جانے کی تلقین کرتے ،رسول اوراہل ایمان کی مفلسی کا مذاق اڑاتے اورکہتے کہ اس نرالی دعوت کو پیش کرنے کامقصدیہ ہے کہ یہ ہم پراپنااقتداراوربرتری قائم کرناچاہتاہے ،دعوت حق پرغوروفکرکرنے کے بجائے رسولوں اوراہل ایمان کواپنے مشرکانہ دین پرواپس لانے کے لئے ان پرمظالم ڈھاتے ،انہیں ملک بدرکرنے کی دھمکی دیتےاورکہتے اس نے یہ کتاب خودتصنیف کرلی ہے اوراللہ پر جھوٹ گھڑا ہے ، پھرمعجزات کامطالبہ کرتے اورپھرکھلم کھلااللہ کے عذاب کوچیلنج کردیتے،اہل مکہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراسی طرح کے الزامات لگاتے تھے ،یہ قصے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مخاطبوں کوسمجھایاجائے کہ تم سے پہلی امتیں بھی اپنے رسولوں پراس طرح کے اعتراضات کر چکی ہیں اوردعوت حق قبول نہ کرنے کی پاداش میں عبرت کا نشانہ بن گئیں اگرتم بھی انہی قوموں کی روش پرقائم رہے اوردین حق کوقبول نہ کیا توتمہاراانجام ان قوموں سے مختلف نہیں ہوگا۔

وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿٦٥﴾‏ قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِی سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِینَ ‎﴿٦٦﴾‏ قَالَ یَا قَوْمِ لَیْسَ بِی سَفَاهَةٌ وَلَٰكِنِّی رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٦٧﴾‏أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِینٌ ‎﴿٦٨﴾‏ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِیُنذِرَكُمْ ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَةً ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ (الاعراف)
’’اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو بھیجا ،انہوں نے فرمایا اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، سو کیا تم نہیں ڈرتے، ان کی قوم میں جو بڑے لوگ کافر تھے انہوں نے کہا ہم تم کو کم عقلی میں دیکھتے ہیں، اور ہم بیشک تم کو جھوٹے لوگوں میں سمجھتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم ! مجھ میں ذرا بھی کم عقلی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں،تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیر خواہ ہوں،اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرائے اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیادہ دیا، سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کو فلاح ہو۔‘‘

[1] الاحقاف۳۵

[2]الحجر ۹۷

[3] ھود۱۲

[4] الذاریات۵۵

[5] سنن ابی داودکتاب السنة بَابٌ فِی لُزُومِ السُّنَّةِ ۴۶۰۴

[6] المراسیل لابی داود۵۳۶،صحیح السنة للمروزی ۱۰۲

[7] الانعام۱۱۶

[8] یوسف ۱۰۶

[9] الانعام۱۰

[10] الحج۴۵

[11] القصص۵۸

[12] الاعراف۹۷،۹۸

[13] النحل۴۵تا۴۶

[14]الملک ۱۶، ۱۷

[15] المومن ۸۵

[16] الانبیاء۱۱تا۱۵

[17] القصص ۶۵، ۶۶

[18] المائدة۱۰۹

[19]صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الجُمُعَةِ فِی القُرَى وَالمُدُنِ ۸۹۳، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ فَضِیلَةِ الْإِمَامِ الْعَادِلِ، وَعُقُوبَةِ الْجَائِرِ، وَالْحَثِّ عَلَى الرِّفْقِ بِالرَّعِیَّةِ، وَالنَّهْیِ عَنْ إِدْخَالِ الْمَشَقَّةِ عَلَیْهِمْ۴۷۲۴

[20] المجادلة۶

[21] المومنون۱۷

[22] الانبیائ۴۷

[23] القارعة۶تا۱۱

[24] المومنون۱۰۱تا۱۰۳

[25] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ فَضْلِ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، وَسُورَةِ الْبَقَرَةِ۱۸۷۴

[26] سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ ثَوَابِ الْقُرْآنِ ۳۷۸۱

[27] مسنداحمد ۱۸۵۳۴،الترغیب والترھیب للمنذری۵۳۹۶

[28] جامع ترمذی کتاب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَمُوتُ وَهُوَ یَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ۲۶۳۹،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ مَا یُرْجَى مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۴۳۰۰

[29] الكهف: 105

[30] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الکہف بَابُ أُولَئِكَ الَّذِینَ كَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ۴۷۲۹،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین باب صِفَةِ الْقِیَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ ۷۰۴۵

[31] مسند احمد ۳۹۹۱

[32] ابراہیم۳۴

[33]ص ۷۱، ۷۲

[34] الحجر۲۸،۲۹

[35] صحیح مسلم کتاب الزھد بَابٌ فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَةٍ ۷۴۹۵،مسنداحمد۲۵۱۹۴

[36] تفسیرطبری۳۲۷؍۱۲

[37] تفسیرطبری۳۲۷؍۱۲

[38] سنن ابوداودکتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی الْكِبْرِ ۴۰۹۰، مسند احمد ۸۸۹۴

[39] النحل ۳۵

[40] تفسیرطبری۳۳۸؍۱۲

[41]بنی اسرائیل۶۲

[42] مسنداحمد ۱۵۹۵۸، سنن نسائی کتاب الجہادمَا لِمَنْ أَسْلَمَ وَهَاجَرَ وَجَاهَدَ۳۱۳۹،المعجم الکبیر للطبرانی ۶۵۵۸،السنن الکبری للنسائی۴۳۲۷،مصنف ابن ابی شیبة۱۹۳۲۹

[43] سبا۲۰،۲۱

[44] الحجر۴۲

[45] ص ۸۴، ۸۵

[46]بنی اسرائیل۶۳تا۶۵

[47] مسنداحمد۴۷۸۵

[48] طہٰ ۱۱۷

[49] طہ۱۲۰

[50] تفسیرطبری۳۵۱؍۱۲

[51] تفسیرطبری۳۵۴؍۱۲

[52] طہ۱۲۱

[53] تفسیر طبری۳۵۳؍۱۲

[54] البدایة والنہایة۸۷؍۱

[55] تفسیرطبری۳۵۳؍۱۲

[56] البدایة والنہایة۸۱؍۱

[57] البدایة والنہایة۹۱؍۱

[58]البقرة ۳۷

[59] طہ۱۲۱،۱۲۲

[60] الاعراف۲۳

[61] تفسیر طبری ۳۵۷؍۱۲

[62] طہ۱۲۳

[63] طہ۵۵

[64] تفسیرطبری۳۷۷؍۱۲،تفسیرابن ابی حاتم ۱۴۶۴؍۵، تفسیر القرطبی ۱۸۹؍۷، تفسیرابن کثیر۴۰۲؍۳،ابن ہشام۲۰۲؍۱، البدایة والنہایة۳۰۵؍۲

[65] تفسیر طبری ۳۶۸؍۱۲

[66] جامع ترمذی ابواب الدعوات باب احادیث شتیٰ۳۵۶۰،سنن ابن ماجہ کتاب اللباس بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا لَبِسَ ثَوْبًا جَدِیدًا  ۳۵۵۷

[67] الکہف۵۰

[68] النحل۹۹،۱۰۰

[69] تفسیرطبری۳۸۵؍۱۲

[70] الأنبیاء: 104

[71] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ كَیْفَ الحَشْرُ۶۵۲۶،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۷۲۰۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَنْبِیَاءِ۳۱۶۷

[72] تفسیر طبری۳۸۲؍۱۲

[73] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۸،صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ۶۷۲۳،سنن ابوداودكِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۷۰۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْقَدَرِ بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الأَعْمَالَ بِالخَوَاتِیمِ۲۱۳۷،سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِی الْقَدَرِ۷۶،مسنداحمد۴۰۹۱

[74] اللیل: 6

[75] صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ۶۷۳۳،صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى۴۹۴۹

[76] صحیح مسلم کتاب التفسیربَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى خُذُوا زِینَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ۷۵۵۱

[77] مسنداحمد۲۲۱۹،سنن ابوداود كِتَاب الطِّبِّ بَابٌ فِی الْأَمْرِ بِالْكَحْلِ ۳۸۷۸

[78] تفسیرابن کثیر ۴۰۸؍۳

[79]صحیح بخاری كِتَابُ اللِّبَاسِ باب قول اللہ تعالیٰ قل من حرم زینة اللہ

[80] مسنداحمد۱۷۱۸۶،جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ كَثْرَةِ الأَكْلِ۲۳۸۰،السنن الکبری للنسائی ۶۷۳۹

[81] مسنداحمد۳۶۱۶،صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الغَیْرَةِ۵۲۲۰،صحیح مسلم كتاب التَّوْبَةِ بَابُ غَیْرَةِ اللهِ تَعَالَى وَتَحْرِیمِ الْفَوَاحِشِ۶۹۹۲

[82] صحیح مسلم کتاب البروصلة بَابُ تَفْسِیرِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ۶۵۱۶،جامع ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِی البِرِّ وَالإِثْمِ۲۳۸۹

[83] نوح ۴

[84] یونس۶۹،۷۰

[85] لقمان۲۳،۲۴

[86] العنکبوت ۲۵

[87] البقرة۱۶۶،۱۶۷

[88] الاحزاب ۶۷،۶۸

[89] النحل۸۸

[90] العنکبوت۱۳

[91] النحل۲۵

[92] الأعراف: 39

[93] تفسیر طبری ۴۲۰؍۱۲

[94] سبا۳۱تا۳۳

[95] سنن نسائی کتاب الزکوٰة بَابُ التَّحْرِیضِ عَلَى الصَّدَقَةِ۲۵۵۵

[96] مسند احمد ۳۶۳۰

[97] تفسیرطبری۴۲۳؍۱۲

[98] تفسیرطبری۴۲۳؍۱۲

[99] الْأَعْرَافِ: 40

[100] مسند احمد ۱۸۵۳۴، اثبات عذاب القبرللبیہقی ۴۴، مصنف ابن ابی شیبة۱۲۰۵۹،الترغیب والترھیب للمنذری ۵۳۹۶

[101] المائدة۷۲

[102] البقرة۲۸۶

[103] الطلاق ۷

[104] الحج۷۸

[105] التغابن۱۶

[106] الحجر۴۷

[107] صحیح بخاری کتاب المظالم باب قصاص المظالم ۲۴۴۰

[108] تفسیرطبری۴۳۹؍۱۲

[109] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ ۶۴۶۳، وکتاب المرضی بَابُ تَمَنِّی المَرِیضِ المَوْتَ ۵۶۷۳،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۱۱، مسند احمد ۷۵۸۷

[110] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ ۳۹۷۶،صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۲۳ ،مسنداحمد۱۲۴۷۱

[111] الصافات۵۰تا۵۹

[112] تفسیرطبری۴۵۱؍۱۲

[113] الحدید۱۳

[114] تفسیرطبری ۴۵۳؍۱۲،تفسیرابن کثیر۳۷۵؍۳ ، تفسیرالخازن ۲۰۲؍۲

[115] المطففین۲۹تا۳۶

[116] الاعراف ۳۲

[117] التوبة ۶۷

[118] طہ ۱۲۶

[119] الجاثیة۳۴

[120] تفسیرابن ابی حاتم۱۴۹۲؍۵

[121] صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ باب الدنیاسجن للمومن وجنة للکفر ۷۴۳۸

[122] ھود۱

[123] النسائ۱۶۶

[124] بنی اسرائیل۱۵

[125] المدثر۴۸

[126] الانعام۲۷

[127] ابراہیم۴۴

[128] السجدة۱۲

[129] فاطر۳۷

[130] الزمر۵۶تا۵۸

[131] المومن ۱۱

[132] المومن۷۳،۷۴

[133] تفسیرابن کثیر۴۲۶؍۳

[134] صحیح مسلم كِتَابُ الْجُمُعَةِ بَابُ فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَةِ ۱۹۷۶، السنن الکبری للنسائی۱۶۷۵

[135] صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ بَابُ ابْتِدَاءِ الْخَلْقِ وَخَلْقِ آدَمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ۷۰۵۴

[136] الشوریٰ۱۱

[137] تفسیر ابن کثیر ۴۲۶؍۳

[138] یٰسین۳۷تا۴۰

[139]الأعراف: 54

[140] تفسیرطبری ۴۸۶؍۱۲

[141] الفرقان ۶۱،۶۲

[142] مسنداحمد۲۰۵۵۴،سنن ابوداودكِتَاب الطَّهَارَةِ بَابُ الْإِسْرَافِ فِی الْمَاءِ۹۶،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الدُّعَاءِ بَابُ كَرَاهِیَةِ الِاعْتِدَاءِ فِی الدُّعَاءِ۳۸۶۴

[143] الروم۴۱

[144] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا عَلاَ عَقَبَةً۶۳۸۴، وکتاب الجھادبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنْ رَفْعِ الصَّوْتِ فِی التَّكْبِیرِ۲۹۹۲،صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ اسْتِحْبَابِ خَفْضِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ۶۸۶۲

[145]الاعراف ۱۵۶

[146] الشوریٰ۲۸

[147] الروم۴۶

[148]یٰسین ۳۳تا ۳۵

[149] الروم۵۰

[150] صحیح بخاری کتاب العلم بَابُ فَضْلِ مَنْ عَلِمَ وَعَلَّمَ ۷۹،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ بَیَانِ مَثَلِ مَا بُعِثَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ۵۹۵۳

[151] تفسیرطبری۲۷۵؍۴

[152] تفسیرابن کثیر۴۳۱؍۳

[153] الفرقان۴۳

[154] المطففین۳۲

[155] الاحقاف۱۱

[156] المومنون۲۴

[157]نوح ۵تا ۱۰

[158]القمر۹

[159] المومنون ۲۵

[160] الشعرائ۱۱۱

[161]نوح ۲۳

[162] العنکبوت۱۵

[163] نوح۲۵

Related Articles