بعثت نبوی کا تیرهواں سال

مضامین سورۂ الاعراف (حصہ دوم)

ہود علیہ السلام اوران کی قوم :

اور عاداولی جویمن کے ریتلے پہاڑوں میں رہائش رکھتی تھی اوراپنی قوت وطاقت میں بے مثال تھی۔

 الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ۝۸۠ۙ     [1]

ترجمہ:جن کی مانندکوئی قوم دنیاکے ملکوں میں پیدانہیں کی گئی تھی۔

اوروہ قوم خودبھی اپنی قوت کے گھمنڈ میں کہتی تھی۔

 ۔۔۔وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً۔۔۔ [2]

ترجمہ: اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زور آور۔

جن کی شوکت وحشمت ضرب المثل تھی کی طرف ہم نے ان ہی کی قوم کے ایک فرد ہود علیہ السلام کو بھیجااس نے دعوت حق دیتے ہوئے کہااے برادران قوم! اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو،جوتمہاراخالق مالک اوررازق ہے ،اس کی ذات وصفات اورافعال میں کوئی شریک نہیں ہے ،اس کے سواکسی کے پاس کوئی قدرت واختیارنہیں ہے ،بلکہ تمام مخلوق اپنی بقا کے لئے اپنے رب کے درکے فقیرہے،پھرکیاتم غلط عقائد،برے اعمال اوربرے اخلاق سے پرہیزنہ کروگے؟اس کی قوم کے سرداروں ،قائدین نے جو اس کی بات ماننے سے انکارکر رہے تھےجواب میں کہاجودعوت تم ہمیں پیش کررہے ہواسے سن کر ہم تو تمہیں بے وقوف اوربے راہ رو سمجھتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو،ہود علیہ السلام نے کہااے برادران قوم!میں کسی طرح کی گمراہی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ رب العالمین کا رسول ہوں ،اورتمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارا ایسا خیرخواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جا سکتاہے،پس تم پرفرض ہے کہ تم میری رسالت کومانتے ہوئے اوربندوں کے رب کی اطاعت کرتے ہوئے اسے قبول کرو،کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاددہانی آئی تاکہ وہ تمہیں گزشتہ قوموں کے عبرتناک واقعات اورروزمحشراس کی بارگاہ میں پیش ہونےسے ڈرائے، بھول نہ جاؤ کہ تمہارے رب نے قوم نوح علیہ السلام کو غرق کرنے کے بعد تم کو اس کا جانشین بنایا اور تمہیں خوب تنومند کیا، پس  اللہ کی نعمتوں اوراس کے احسانات کوبھی یاد رکھواوراپنے رب کی حمدوثنابیان کرو، اور اس کاشکراداکروکہ اس نے تمہیں زمین میں اقتدارعطاکیاہے اوریہ نہ بھولوکہ وہ تم سے یہ تمام نعمتیں چھین لینے کی قدرت بھی رکھتاہے،اگراللہ کی نعمتوں پراس کے شکرگزارہوگے تو امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا ۖ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٧٠﴾‏ قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ۖ أَتُجَادِلُونَنِی فِی أَسْمَاءٍ سَمَّیْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ فَانتَظِرُوا إِنِّی مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِینَ ‎﴿٧١﴾‏ فَأَنجَیْنَاهُ وَالَّذِینَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ۖ وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِینَ ‎﴿٧٢﴾(الاعراف)
’’ انہوں نے کہا کہ کیاآپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور جس کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں ، پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو ، انہوں نے فرمایا کہ بس اب تم پر اللہ کی طرف سے عذاب اور غضب آیا ہی چاہتا ہے کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے باب میں جھگڑتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ٹھہرا لیا ہے ؟ ان کے معبود ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں بھیجی، سو تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں، غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیااور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ایمان لانے والے نہ تھے ۔‘‘

قوم عادکاباغیانہ رویہ :

آباؤاجدادکی تقلیدہردورمیں گمراہی کی بنیادرہی ہے ،چنانچہ قوم عاد نے بھی دعوت توحیدکے مقابلے میں یہی دلیل پیش کی اورکہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے  اللہ ہی کی عبادت کریں اور ان دوسرے معبودوں کو چھوڑدیں جن کی عبادت ہمارے آباؤاجدادکرتے آے ہیں ؟جیسے قریش مکہ نے کہاتھا

اَجَعَلَ الْاٰلِـہَةَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝۰ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ۝۵ [3]

ترجمہ:کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔

یعنی قوم عادکواللہ تعالیٰ کی بندگی سے انکارنہیں تھامگروہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ دوسرے خودساختہ معبودوں کی عبادت ترک کرنے کوتیارنہ تھے ،مشرک کی ہمیشہ ہی مت ماری ہوئی ہوتی ہے،عقل مندی کاتقاضاتویہ ہوناچاہئے تھاکہ یہ کہاجاتاکہ اے ہمارے رب!اگریہ دعوت حق و سچ ہے اورتیری طرف سے ہے توہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطافرما ، مگراس کے برعکس انہوں نے مطالبہ عذاب کر دیا اور کہا اگر تو سچا ہے تو لے آوہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں بھی یہی کہاتھا

وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲      [4]

ترجمہ: اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ اللہ! اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔

ہود علیہ السلام نے کہاتم پر تمہارے رب کی پھٹکار پڑ گئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑایعنی اب اللہ تعالیٰ کے عذاب کاواقع ہونااٹل ہے، کیا تم مجھ سے لکڑی،پتھروغیرہ کے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کے ناموں صدا،صموداورہباء وغیرہ پر جھگڑتے ہو،

وَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ وَغَیْرُهُ: أَنَّهُمْ كَانُوا یَعْبُدُونَ أَصْنَامًا فَصَنَمٌ یُقَالُ لَهُ: صُدَاء،وَآخَرُ یُقَالُ لَهُ: صمُودوَآخَرُ یُقَالُ لَهُ: الْهَبَاءُ

محمدبن اسحاق وغیرہ نے ذکرکیاہے کہ قوم ہودکے لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے،ان کے ایک بت کانام صداتھا دوسرے بت کانام صمودتھااورتیسرے بت کانام ہباء تھا۔[5]

جوتم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اور انہیں تصرف کے مختلف اختیارات سونپ کران کی پرستش کرتے ہو ، اللہ نے ان خودساختہ معبودوں کی الہیت وربوبیت کے حق میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے،اگریہ واقعی معبودہوتے تواللہ تعالیٰ ان کی تائیدمیں ضرورکوئی دلیل نازل فرماتا،جیسے قوم نوح نے اپنے بتوں کے یہ نام رکھے ہوئے تھے،ودا،سواعا،یغوث،یعوق اورنسر،اورمشرکین مکہ نے اپنے بتوں کے یہ نام رکھے ہوئے تھےالات،العزی،مناة اورہبل وغیرہ اورآج کل کے مشرکانہ عقائدواعمال میں ملوث لوگوں نے یہ نام رکھے ہوئے ہیں ، داتا گنج بخش ،خواجہ غریب نواز ،بابافریدشکرگنج ،عبدالقادرجیلانی غوث اعظم الغرض جن کے معبود یاداتا،یامشکل کشائی یاگنج بخش وغیرہ ہونے کی کوئی دلیل نہ ان قوموں کے پاس تھی اورنہ ان لوگوں کے پاس ہے ،عاد علیہ السلام نےاپنی قوم کووعیددیتے ہوئے فرمایااچھا تو تم بھی اللہ کے عذاب کا انتظار کروجوتم پرٹوٹ پڑنے والاہے اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں بہت جلدتمہیں معلوم ہوجائے گاکہ اللہ کی رحمت کس کے ساتھ ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ فرمادیا،اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر باد تندکی شکل میں اپناعذاب نازل کیاجوسات راتیں اورآٹھ دن مسلسل جاری رہاجس نے ہرچیزکوتہس نہس کرکے رکھ دیااورقوم عاد کے لوگ جنہیں اپنی قوت وطاقت اورجاہ وحشمت پربڑافخروغرورتھاان کے لاشے کھجورکے کٹے ہوئے تنوں کی طرح زمین پرپڑے نظرآتے تھے ،جیسے فرمایا

وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍ۝۶ۙسَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ۝۰ۙ حُسُوْمًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى۝۰ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ۝۷ۚفَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۝۸  [6]

ترجمہ: اور عاد ایک بڑی شدیدطوفانی آندھی سے تباہ کردیئے گئے ،اللہ تعالیٰ نے اس کامسلسل سات رات اورآٹھ دن ان پرمسلط رکھا(تم وہاں ہوتے تو)دیکھتے کہ وہ وہاں اسطرح پچھڑے پڑے ہیں جیسے وہ کھجورکے بوسیدہ تنے ہوں ،اب کیاان میں سے کوئی تمہیں باقی بچا نظر آتا ہے۔

اور اپنی سنت کے مطابق ہود علیہ السلام اوراس کے اہل ایمان ساتھیوں کو اس دردناک عذاب سے بچالیااورباقی مشرک قوم کانام ونشان تک دنیامیں باقی نہ چھوڑا جوہماری آیات کوجھٹلا چکے تھے اوران پرایمان لانے والے نہ تھے،تب ان کاانجام ہلاکت،رسوائی اورفضیحت کی صورت میں ظاہرہوا،جیسے فرمایا

وَاُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّیَوْمَ الْقِیٰمَةِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ۝۰ۭ اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۝۶۰ۧ  [7]

ترجمہ:آخرکاراس دنیامیں بھی ان پرپھٹکارپڑی اورقیامت کے روزبھی ،سنو!عادنے اپنے رب سے کفرکیا ،سنو!دورپھینک دیے گئے عادہودکی قوم کے لوگ۔

وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَیِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آیَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِی أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَیَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٧٣﴾وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِی الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتًا ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ ‎﴿٧٤﴾‏ قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ ‎﴿٧٥﴾‏ قَالَ الَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِی آمَنتُم بِهِ كَافِرُونَ ‎﴿٧٦﴾‏ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوا یَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٧٧﴾‏ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دَارِهِمْ جَاثِمِینَ ‎﴿٧٨﴾‏ فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِینَ ‎﴿٧٩﴾‏‏(الاعراف)
’’ اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے فرمایا اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے، یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لیے دلیل ہےسو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسکو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آپکڑے،اورتم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کے بعد جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو، سو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ،ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ بے شک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیاہے ، وہ متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس بات پر یقین لائے ہوئے ہو ہم تو اس کے منکر ہیں، پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ اے صالح ! جس کی آپ ہم کو دھمکی دیتے تھے اس کو منگوائیے اگر آپ پیغمبر ہیں، پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے، اس وقت (صالح (علیہ السلام)) ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘

قوم ثموداوراس کاعبرت ناک انجام :

اورحجازاورشام کے درمیان وادی القریٰ میں سکونت پذیرعرب کی قدیم ترین قوم ثمودکی طرف ہم نے ان ہی کے قبیلہ کے ایک فرد صالح  علیہ السلام کوبھیجا،دیگرانبیاء ومرسلین کی طرح صالح  علیہ السلام نے بھی قوم کودعوت توحیدپیش کی اور کہااے برادران قوم ! اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کروجوتمہاراخالق ،مالک اوررزاق ہے ،اللہ تعالیٰ کے سواتمہاراکوئی الٰہ نہیں ہے،اوراللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے انکی ہمیشہ سے یہی دعوت رہی ہے۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵       [8]

ترجمہ:ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہےپس تم لوگ میری ہی بندگی کرو ۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔۔۔۝۰۝۳۶       [9]

ترجمہ:ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔

تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک خارق عادت دلیل آگئی ہےجومیری سچائی پردلالت کرتی ہے ، اللہ نے تمہارامعجزہ طلب کرنے پریہ گابھن اونٹنی تمہاری آنکھوں کے سامنے ایک سنگلاخ چٹان سے برآمدکردی ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۵۴ [10]

ترجمہ: لا کوئی نشانی اگرتو سچا ہے ۔

لہذاشرف وفضل کی حامل اس اونٹنی کو چھوڑدوکہ اللہ کی زمین میں آزادانہ چرتی پھرے،اس کوکسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگاناورنہ یکایک اللہ کا درد ناک عذاب تم پرٹوٹ پڑے گا ،قوم عادکے دردناک انجام سے سبق حاصل کروجس نے اپنی قدرت کاملہ سے اس مفسدقوم کوبربادکرکے تمہیں اس کا جانشین بنایااورتم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اس کے ہموارمیدانوں میں نرم زمین سے مٹی لے کراینٹیں تیار کرتے ہواوران پکی ہوئی اینٹوں سے عالی شان محل بناتے اوراس کے پہاڑوں کو مہارت سے تراش کرمکانات بناتے ہو،پس عادکے انجام سے نصیحت حاصل کرواورکفران نعمت اورمعصیت کاارتکاب کرکے اللہ کی زمین پر فسادپھیلانے کے بجائے ان نعمتوں پراللہ کاشکراداکرواوراس کی اطاعت کاراستہ اختیارکرو،اس کی قوم کے نوفسادی روساء اوراشراف جنہوں نے تکبرسے حق کوٹھکرادیاتھا ان مستضعفین سے جو دعوت حق پر ایمان لے آئے تھے کہاکیاتم واقعی یہ جانتے ہوکہ صالح  علیہ السلام اپنے رب کے پیغمبر ہیں ؟ مستضعفین نے اس سوال سے تعرض ہی نہیں کیاکیونکہ وہ صالح  علیہ السلام کے رسول من اللہ ہونے کوبحث کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے اور جواب دیابے شک جودعوت توحید وہ لے کرآئے ہیں وہ حق وسچ اور فطرت کی آوازہےاور ہم اس پرصدق دل سے ایمان لے آئے ہیں ،اس معقول جواب پر بڑائی کے ان مدعیوں نے کہاجس دعوت پرتم لوگ بغیر کچھ سوچے سمجھے ایمان لے آئے ہو ہم اس کوتسلیم کرنے سے انکارکرتے ہیں ،پھرانہوں نے واضح ہدایت کے باوجوداللہ کی اس اونٹنی کومارڈالا،اورپورے تمردکے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے۔

فَكَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْہَا۝۰ڃ فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْۢبِہِمْ فَسَوّٰىہَا۝۱۴۠ۙ    [11]

ترجمہ: مگر انہوں نے اس کی بات کو جھوٹا قرار دیا اور اونٹنی کو مار ڈالا آخرکار ان کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ سب کو پیوند خاک کر دیا۔

۔۔۔وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِہَا۔۔۔ ۝۵۹    [12]

ترجمہ:چنانچہ دیکھ لو ثمود کو ہم علانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا۔

یعنی ساری قوم ہی اس اونٹنی کے قتل پرراضی تھی ،

قَالَ قَتَادَةُ: بَلَغَنِی أَنَّ الَّذِی قَتَلَ النَّاقَةَ طَافَ عَلَیْهِمْ كُلِّهِمْ، أَنَّهُمْ رَاضُونَ بِقَتْلِهَا حَتَّى عَلَى النِّسَاءِ فِی خُدُورِهِنَّ، وَعَلَى الصِّبْیَانِ

قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جس نے اس اونٹنی کوقتل کیاتھاوہ ان میں سے ہرایک پاس گیاتھااوراس نے معلوم کرلیاتھاکہ سب اس کے قتل سے راضی ہیں حتی کہ پردہ نشین عورتوں اوربچوں سے بھی اس نے پوچھاتوسب نے رضامندی کااظہارکیا۔[13]

اوراللہ کے عذاب سے بے خوف ہوکرصالح  علیہ السلام سے کہہ دیا کہ اگرتوواقعی پیغمبروں میں سے ہے تولے آوہ دردناک عذاب جس کی توہمیں دھمکی دیتاہے،صالح  علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے قوم کو خبردارکردیاکہ تین دن مزید اپنے گھروں میں رہ کرنعمتوں اورلذتوں سے استفادہ کرلواس کے بعدتمہارے حصے میں کوئی لذت نہ ہوگی ،اس کے بعداللہ کاعذاب نازل ہو جائے گاجسے تم ٹال نہ سکو گے ، جیسے فرمایا

۔۔۔فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ۝۶۵          [14]

ترجمہ:اس پرصالح  علیہ السلام نے ان کو خبردار کردیاکہ بس تین دن اپنے گھروں میں اوررہ بس لویہ ایسی معیادہے جوجھوٹی نہ ثابت ہوگی۔

آخرکارتین دن کے بعدایک وقت مقررہ پرآسمان سے سخت کڑاکاہواجس کی ہولناک دہشت انگیز چنگھاڑنے ان کے کلیجے پھاڑدیئے اوراس کے ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلے نے سونے پر سہاگا کا کام کیا اورایک ہی ساعت میں وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے،جیسےفرمایا

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ۝۳۱ [15]

ترجمہ:ہم نے ان پر بس ایک ہی دھماکاچھوڑااوروہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑھ کی طرح بھس ہوکررہے گئے۔

اور عذاب سے پہلے صالح  علیہ السلام یہ کہتےہوےان کی بستیوں سے نکل گےکہ اے میری قوم!میں نے اپنے رب کا پیغام پوری امانت ودیانت کے ساتھ تجھے پہنچادیااورمیں نے تیری بہت خیرخواہی کی،مگرمیں کیاکروں کہ تجھے اپنے خیرخواہ پسندہی نہیں ہیں ،نوہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاان کے مساکن اوروادی سے گزرہوا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلاَءِ المُعَذَّبِینَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِینَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِینَ فَلاَ تَدْخُلُوا عَلَیْهِمْ، لاَ یُصِیبُكُمْ مَا أَصَابَهُمْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا ان عذاب والوں کے آثار سے گزروتوروتے ہوئے گزرو (یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو) اگرتم اس موقع پررونہ سکوتوان سے گزروہی نہیں ایسانہ ہوکہ تم پربھی ان جیساعذاب آ جائے۔[16]

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِینَ ‎﴿٨٠﴾‏ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ‎﴿٨١﴾‏وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْیَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ یَتَطَهَّرُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ فَأَنجَیْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْهِم مَّطَرًا ۖ فَانظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿٨٤﴾(الاعراف)
’’اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کا تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا،تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر، بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو، اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا بجز اس کے آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو ، یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں، سو ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے ، اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟۔‘‘

قوم لوط:

اورلوط علیہ السلام (جوابراہیم علیہ السلام پرایمان لائے تھے )کوہم نے خلعت رسالت سے نوازکرسرسبزوشاداب علاقہ میں قیام پذیراہل سدوم کی طرف مبعوث کیا،انہوں نے بھی ہرنبی کی بنیادی دعوت کے مطابق اپنی قوم کواللہ کی توحیداوراپنی اطاعت کی دعوت پیش کی اوردوسری بڑی خرابی کاذکرکیا کہ کیاتم ایسے بے حیاہوگئے ہوکہ وہ فحش کام کرتے ہوجوتم سے پہلے دنیامیں کسی نے نہیں کیا؟تم عورتوں کوچھوڑکرجن کواللہ نے تمہارے لئے پیداکیاہے ،جن سے تمتع کرنافطرت اورجبلی شہوت کے مطابق ہے خلاف فطرت مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو،جیسے فرمایا

قَالَ ہٰٓؤُلَاۗءِ بَنٰتِیْٓ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ۝۷۱ۭ      [17]

ترجمہ:لوط علیہ السلام نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری(قوم کی) بیٹیاں موجود ہیں ! ۔

حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ اللہ کی مقررکی ہوئی حدودکوپھلانگتے ہواوراس کے محرمات کے ارتکاب کی جسارت کرتے ہو،اس کے جواب میں ان کی قوم نے کہا

قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِیْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ۝۰ۚ وَاِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیْدُ۝۷۹          [18]

ترجمہ:انہوں نے جواب دیا تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں ۔

لوط علیہ السلام کی قوم اخلاقی پستی میں اس حدتک گرچکی تھی کہ انہیں اپنے درمیان چندنیک انسانوں اورنیکی کی طرف دعوت دینے والوں اوربرائی سے روکنے والوں کاوجودتک گوارانہ تھا،اس لئے نصیحت پر کان دھرنے کے بجائے قوم نے بطوراستہزاکے کہا کہ نکالوان لوگوں کواپنی بستیوں سے بڑے پاکبازبنتے ہیں یہ،

عَنْ مُجَاهِدٍ:{إِنَّهُمْ أُنَاسٌ یَتَطَهَّرُونَ} قَالَ:مِنْ أَدْبَارِالرِّجَالِ وَأَدْبَارِ النِّسَاءِ

مجاہد رحمہ اللہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت کریمہ’’بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ۔ ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصدیہ تھاکہ یہ لوگ مردوں اورعورتوں کی شرم گاہوں سے پاک رہناچاہتے ہیں ۔[19]

آخرکار عذاب نازل ہونے سے قبل ہم نے لوط علیہ السلام اوراس کے گھروالوں کوبجزاس کی بیوی کے جوایمان نہیں لائی تھی اورجس کی ہمدردیاں مجرمین کے ساتھ تھیں کواس علاقہ سے بچا کر نکال دیا،جیسے فرمایا

فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۳۵ۚفَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۶ۚ            [20]

ترجمہ:پھرہم نے ان سب لوگوں کونکال لیاجواس بستی میں مومن تھے اور وہاں ہم نے ایک گھرکے سوامسلمانوں کاکوئی گھرنہ پایا۔

اورپھراس قوم کی بستیوں کوصبح کے وقت الٹ پلٹ کردیااورپھر ان پر نشان زدہ پتھروں کی تابڑتوڑ بارش برسائی ، جیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ۝۰ۥۙ مَّنْضُوْدٍ۝۸۲ۙمُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ ۔۔۔ ۝۸۳ۧ [21]

ترجمہ: پھر جب ہمارے فیصلہ کاوقت آپہنچاتوہم نے اس بستی کوتل پٹ کردیااوراس پرپکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا ۔

پھراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! دیکھو جو لوگ علانیہ اللہ کی معاصی کاارتکاب اورپیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں کہ ان مجرموں کاکیاانجام ہوتا ہے۔عمل لواطت کتنابڑاگناہ ہے اس کے بارے فرمایا

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ وَجَدْتُمُوهُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ، وَالْمَفْعُولَ بِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجسے تم لوطی فعل کرتے پاؤ(چاہے شادی شدہ ہویا غیر شادی شدہ)توفاعل اورمفعول ( دونوں ) کوقتل کردو۔[22]

اسی طرح اگرکوئی مرداپنی بیوی کے ساتھ عمل قوم لوط کرے تواس کے گناہ کے بارے میں فرمایا

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِی دُبُرِهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوعورت سے دبرمیں مباشرت کرے وہ ملعون ہے۔[23]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا یَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى رَجُلٍ أَتَى امْرَأَةً فِی دُبُرِهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ اس مردکی طرف ہرگزنظررحمت سے نہ دیکھے گاجوعورت سے دبرمیں مباشرت کرے۔[24]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَتَى كَاهِنًافَصَدَّقَهُ بِمَا یَقُولُ ،امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً،مْرَأَتَهُ فِی دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ

ایک اورروایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص کاہن کے پاس گیاجوغیب کی خبریں دیتاہواوراس کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کی ہے اپنی بیوی سے اس کے ایام حیض میں مجامعت کی،اس کی دبرمیں مباشرت کی اس نے اس تعلیم سے کفرکیاجومحمدپرنازل ہوئی ہے۔[25]

وَإِلَىٰ مَدْیَنَ أَخَاهُمْ شُعَیْبًا ۗ قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَیِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَیْلَ وَالْمِیزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٨٥﴾‏ وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِیلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿٨٦﴾‏ وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ یَحْكُمَ اللَّهُ بَیْنَنَا ۚ وَهُوَ خَیْرُ الْحَاكِمِینَ ‎﴿٨٧﴾‏(الاعراف)
’’ اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ اسلام) کو بھیجا، انہوں نے فرمایا اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے ،پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو، اور روئے زمین میں اس کے بعد اس کی درستی کردی گئی فساد مت پھیلاؤ، یہ تمہارے لیے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو، اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو اور اللہ کے راہ سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو، اور اس حالت کو یاد کرو جب تم کم تھے پھر اللہ نے تم کو زیادہ کردیا اور دیکھو کہ کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں کا،اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس حکم پر جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا ایمان لے آئے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لائے تو ذرا ٹھہر جاؤ ! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کئے دیتا ہے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘

قوم شعیب علیہ السلام :

اورحجازکے راستے میں معان کے قریب قیام پذیرایک معروف قبیلہ مدین کی طرف ہم نے انہی کی قوم کے ایک فرد شعیب علیہ السلام کومبعوث کیا ،دوسرے مقام پرمدین والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۷۶ۚۖاِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۷۷ۚ       [26]

ترجمہ:اصحاب الایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا یادکروجب کہ شعیب علیہ السلام نے ان سے کہاتھاکیاتم ڈرتے نہیں ؟۔

شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کواللہ کی توحیدکی دعوت دیتے ہوئے کہااے برادران قوم!طاغوت کی بندگی سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرو،اس پوری کائنات میں اس کے سواکوئی الہ نہیں ہے،وہ وحدہ لاشریک ہے،کوئی اس کامعاون نہیں کوئی اس کاشریک نہیں اورقوم کی اخلاقی پستی اورگراوٹ کاذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے لہذاوزن اورپیمانے پورے کرواورلوگوں کوان کی چیزوں میں گھاٹانہ دو،جیسے فرمایا

وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَ۝۱ۙالَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ۝۲ۙوَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَ۝۳ۭ [27]

ترجمہ:تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں توپوراپورالیتے ہیں اورجب ان کوناپ کریاتول کردیتے ہیں توانہیں گھاٹادیتے ہیں ۔

اورزمین میں دین حق اوراخلاق صالحہ پرزندگی کاجونظام انبیائے سابقین کی ہدایت ورہنمائی میں قائم ہوچکاہے اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اوراخلاقی بدراہیوں سے خراب نہ کرو ، اگرواقعی تم مومن ہوتوتمہارے نزدیک خیروبھلائی،راستبازی اوردیانت میں ہونی چاہیے اورتمہارامعیارخیروشران دنیاپرستوں سے مختلف ہوناچاہیے جواللہ اورآخرت کونہیں مانتے،زندگی کے ہر راستے پررہزن بن کرنہ بیٹھ جاؤکہ لوگوں کو خوف ذدہ کرنے اورایمان لانے والوں کو اللہ کے راستے سے روکنے لگواوراللہ کی سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہوجاؤ ، یادکرووہ زمانہ کہ تم قلیل التعداد تھے پھر اللہ نے اپنی رحمت سے تمہیں بیویاں ،نسل ،صحت،بے حساب رزق اوردشمن سے محفوظ کرکے تمہیں کثیر التعداد اورزورآورکردیا،رب کی اس نعمت کا شکر اداکرو،آنکھیں کھول کراپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے تباہ شدہ اقوام کے آثاروکھنڈرات کودیکھوکہ دنیامیں مفسدوں کا کیاانجام ہوا ہے،اللہ نے ہرقوم کو ان کے ظلم وجبرکے سبب نیست ونابودکرکے نشان عبرت بنادیا،اگرتم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پرجس کے ساتھ میں بھیجاگیاہوں ایمان لاتاہے اوردوسراایمان نہیں لاتاتوصبرکے ساتھ دیکھتے رہویہاں تک کہ  اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے ،اوروہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والاہے،پس وہ اہل حق کی نصرت فرمائے گااورحق کی تکذیب کرنے والوں پرعذاب واقع کرے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ۝۵۲     [28]

ترجمہ:اچھاتواب تم بھی انتظارکرواورہم بھی تمہارے ساتھ منتظرہیں ۔

قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ یَا شُعَیْبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْیَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِینَ ‎﴿٨٨﴾‏ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِی مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا یَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیهَا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ ‎﴿٨٩﴾(الاعراف)
’’ ان قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب ! ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ ،شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں،ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو ، ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کردے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘

اس کی قوم کے متکبراورسرکش سرداروں نے جنہوں نے اپنی لذات میں مستغرق ہوکراپنی خواہشات نفس کی پیروی کی تھی ایمان وتوحیدکی دعوت کوہی ردنہیں کیابلکہ اس سے بھی تجاوزکرکے اللہ کے پیغمبراوراس پرایمان لانے والوں کودھمکی دی کہ یاتواپنے آبائی مذہب پرواپس آجاؤ،نہیں توہم تمہیں اپنی بستی سے جلاوطن کردیں گے،شعیب علیہ السلام نے تعجب سے جواب دیاکیاہمیں زبردستی آباؤاجدادکے مشرکانہ ملت پر پھیراجاے گاخواہ ہم تمہارے دین سے بیزارہی ہوں ، اگرہم تمہاری مشرکانہ ملت میں پلٹ آئیں جبکہ  اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکاہے توہم  اللہ پر جھوٹ گھڑنے اوربہتان طرازی کرنے والے ہوں گے ،راہ راست پرآجانے کے بعد ہمارے لئے توتمہارے آباؤاجداد کے دین کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الا یہ کہ  اللہ ہمارارب ہی ایسا چاہے،ہمارے رب کاعلم ہر چیزکوگھیرے ہوئے ہے،وہ جانتاہے کہ بندوں کے لئے کیادرست ہے اور کس چیزکے ذریعے سے وہ بندوں کی تدبیرکرے ،ہماراتمام کاموں میں توکل اوربھروسہ اللہ تعالیٰ پرہے،ہمیں اس پراعتمادہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر پرثابت قدم رکھے گا اورجہنم کے تمام راستوں سے ہمیں بچائے گا،ہم پراپنی نعمت کااتمام فرمائے گااوراپنے عذاب سے محفوظ رکھے گا،اے رب! ہمارے اورہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اورتوبہترین فیصلہ کرنے والاہے ۔

وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ ‎﴿٩٠﴾‏ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِی دَارِهِمْ جَاثِمِینَ ‎﴿٩١﴾‏ الَّذِینَ كَذَّبُوا شُعَیْبًا كَأَن لَّمْ یَغْنَوْا فِیهَا ۚ الَّذِینَ كَذَّبُوا شُعَیْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٩٢﴾‏ فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَیْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِینَ ‎﴿٩٣﴾‏(الاعراف)
’’اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا اگر تم شعیب (علیہ السلام) کی راہ پر چلو گے تو بیشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے، پس ان کو زلزلے نے آپکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے،جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی وہی خسارے میں پڑگئے،اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم ! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے اور میں نے تو تمہاری خیر خواہی کی، پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں ۔‘‘

اس کی قوم کے سرداروں نے جودعوت حق کوردکرچکے تھے ایک دوسرے کو شعیب علیہ السلام کی اتباع سے ڈراتے ہوئے کہاکہ شعیب علیہ السلام جس ایمان داری اورراست بازی کی دعوت دے رہاہے اوراخلاق ودیانت کے جن مستقل اصولوں کی پابندی کراناچاہتاہے اگران کومان لوگے توبربادہوجاؤگے، اسی طرح اگربے ضرراورپرامن ہوکرقافلوں کو چھیڑنا بند کر دو گے توجومعاشی اورسیاسی فوائدتمہیں حاصل ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گے ،اورآس پاس کی قوموں پرہماری جودھونس قائم ہے وہ باقی نہیں رہے گی، آخرایک وقت مقررہ پر ایک زبردست زلزلے نے ان کو آ لیا ، ایک مقام پرصَّیْحَةُ (چیخ،دھماکا،کڑاکا) کالفظ استعمال ہواہے۔

۔۔۔وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ۔۔۔ ۝۹۴ [29]

ترجمہ: اور جن لوگوں نے ظلم کیاتھاان کوایک سخت دھماکے نے آپکڑا۔

ایک مقام پرظُّلَّةِ(بادل کاسایہ) کے الفاظ استعمال ہوئے۔

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۝۱۸۹ [30]

ترجمہ:انہوں نے اسے جھٹلادیاآخرکارچھتری والے دن کاعذاب ان پرآگیااوروہ بڑے ہی خوفناک دن کاعذاب تھا۔

یعنی تینوں عذاب ان پرایک ساتھ آئے ،پہلے بادل نے ان پرسایہ کیاجس میں شعلے،چنگاریاں اورآگ کے بھبھوکے تھے،پھرآسمان سے سخت قسم کادھماکاہوااوراس کے ساتھ ہی زمین میں بھونچال آگیاجس سے ان کی روحیں پروازکرگئیں اوروہ اپنے گھروں میں بے جان لاشے ہوکرپرندوں کی طرح گھٹنوں میں منہ دے کر اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے ، جن لوگوں نے شعیب  علیہ السلام کو جھٹلایااوراللہ کے رسول اوران کے پیروکاروں کواپنی بستیوں سے نکالنے پرتلے ہوئے تھے،اللہ کے عذاب کے بعد وہ ایسے مٹے کہ گویاکبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے ،اللہ کے عذاب نے ان کولہوولعب اورلذات کی دنیاسے نکال کرحزن وغم ،عقوبت اورہلاکت کے گڑھوں میں منتقل کر دیا ، اور وفور جذبات میں شعیب علیہ السلام یہ کہہ کران کی بستیوں سے نکل گیاکہ اے برادران قوم! میں نے اپنے رب کے پیغامات پوری امانت ودیانت سے تمہیں پہنچادئے اورتمہاری خیرخواہی اورغم خواری کا حق اداکردیاہے اب میں اس معذب قوم پر کیوں رنج وغم کرکے اپنی جان ہلکان کروں جو قبول حق سے انکار کرتی اورکفرووشرک پرڈٹی رہی ہے۔

اوپرمختلف اقوام کے جتنے عبرت ناک قصے بیان کیے گئے ہیں وہ سب قریش مکہ اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرپورے پورے چسپاں ہوتے ہیں ،ہرقصہ میں ایک فریق نبی ہے جس کی تعلیم،جس کی دعوت ،جس کی نصیحت وخیرخواہی اورجس کی ساری باتیں بعینہ وہی ہیں جومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں اوردوسرافریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی اعتقادی گمراہیاں ،جس کی اخلاقی خرابیاں ،جس کی جاہلانہ ہٹ دھرمیاں ،جس کے سرداروں کااستکبار،جس کے منکروں کی اپنی ضلالت پراصرارالغرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایاجاتاتھا،پھرہرقصے کاجوانجام پیش کیاگیاہے اس سے دراصل قریش کوعبرت دلائی گئی ہے کہ اگرتم نے اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبرکی دعوت کوتسلیم نہ کیا اور اصلاح حال کایہ موقع ضائع کردیاتوتمہیں بھی تباہ شدہ اقوام کی طرح تباہی وبربادی سے دوچارہوناپڑے گا۔

وَمَا أَرْسَلْنَا فِی قَرْیَةٍ مِّن نَّبِیٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُونَ ‎﴿٩٤﴾‏ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا یَشْعُرُونَ ‎﴿٩٥﴾‏وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن یَأْتِیَهُم بَأْسُنَا بَیَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ ‎﴿٩٧﴾‏ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن یَأْتِیَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ یَلْعَبُونَ ‎﴿٩٨﴾‏ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ ۚ فَلَا یَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿٩٩﴾(الاعراف)
’’اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ وہ گڑگڑائیں ،پھر ہم نے اس بدحالی کی جگہ خوش حالی بدل دی، یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی اور کہنے لگے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی تو ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا اور ان کو خبر بھی نہ تھی، اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا، کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیںکہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں،اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں، کیا پس وہ اللہ کی اس پکڑ سے بےفکر ہوگئے، سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا ۔‘‘

مختلف انبیاء اوران کی قوموں کامعاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعدجامع ضابطہ بیان فرمایاکہ کبھی ایسانہیں ہواکہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجاہواوراس بستی کے لوگوں نے اس دعوت کامذاق اوررسول کی تکذیب نہ کی ہو،ان اقوام کوراہ راست کی طرف پھیرنے کے لئے ہم نے انہیں مصائب ،قدرتی آفات اوربیماریوں میں مبتلاکیاکہ شایدان کی فخر و غرورسے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو،اس کاغرورطاقت اورنشہ دولت ٹوٹ جائے ،ان کے سخت دل نرم پڑجائیں اورانہیں محسوس ہوجائے کہ سب کچھ ان کے اختیارمیں نہیں ہے بلکہ اوپرکوئی اوربالادست طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں ان کی قسمت کی باگیں ہیں ،اوروہ حقیقت حال سے واقف ہوکر اللہ کی طرف رجوع کریں اوراس کی بارگاہ میں عاجزی سے گڑگڑائیں ،مگرقحط ،قدرتی وبائیں ،تجارتی خسارے ،جنگی شکست اوراسی طرح کی دوسری تکالیف سے بھی جب ان کے اندررجوع الی اللہ کاداعیہ پیدانہ ہوااوروہ اپنے تکبرپرجمے رہے اوراپنی سرکشی میں بڑھتے ہی چلے گئے توہم نے ان کی تنگ دستی کوخوش حالی سے،فقیری کوامیری سے اوربیماری کوصحت وعافیت کے فتنہ سے بدل دیا،یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اوراس بات کوبھول گئے کہ ان پرکیاتکالیف اورمصیبتیں نازل ہوئی تھیں ،اوردونوں حالتوں میں قدرت الٰہی اوراس کے ارادہ کو سمجھنے میں ناکام ہوکرکہنے لگے کہ حالات کااتارچڑھاؤاورقسمت کابگاڑاوربناؤمیں اللہ کی کسی تدبیرکاکوئی دخل نہیں بلکہ یہ توانقلابات زمانہ اورگردش لیل ونہارہے ،ہمارے اسلاف پربھی رنج وراحت کے حالات آتے ہی رہے ہیں ،جبکہ مومنین کاحال اس سے مختلف ہوتاہے،

عَنْ صُهَیْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَیْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَیْرًا لَهُ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کی حالت پرتعجب ہے اس کاثواب کہیں نہیں گیا،یہ بات کسی کوحاصل نہیں ہے،اگراس کوخوشی حاصل ہوتی ہے توشکرکرتاہے اس میں بھی ثواب ہےاورجواس کونقصان پہنچتاہے توصبرکرتاہے اس میں بھی ثواب ہے۔[31]

پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کوسمجھ لیتاہے ، آخرکار ایک وقت مقررہ پرہم نے انہیں اچانک پکڑلیااورانہیں خبرتک نہ ہوئی،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مَوْتِ الْفَجْأَةِ؟ فَقَالَ: رَاحَةٌ لِلْمُؤْمِنِ، وَأَخْذَةُ أَسَفٍ لِلْفَاجِرِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےفرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک موت کے بارے میں پوچھاگیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااچانک موت مومن کے لیے رحمت ہے اورکافرکے لیے افسوس ناک پکڑ۔[32]

یہی ضابطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پربھی برتاگیااورشامت زدہ قوموں کے جس طرزعمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ٹھیک وہی طرزعمل اس سورۂ کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہا تھا ،

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَعَا قُرَیْشًا كَذَّبُوهُ وَاسْتَعْصَوْا عَلَیْهِ،  فَقَالَ:اللَّهُمَّ أَعِنِّی عَلَیْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ یُوسُفَ،فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ، یَعْنِی كُلَّ شَیْءٍ،حَتَّى كَانُوا یَأْكُلُونَ المَیْتَةَ، فَكَانَ یَقُومُ أَحَدُهُمْ فَكَانَ یَرَى بَیْنَهُ وَبَیْنَ السَّمَاءِ مِثْلَ الدُّخَانِ مِنَ الجَهْدِ وَالجُوعِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو دعوت اسلام پیش کی توانہوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اورآپ کے ساتھ سرکشی کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے بددعا کی کہ اے اللہ!میری ان کے خلاف یوسف علیہ السلام جیسے قحط کے ذریعہ مددفرما (اللہ تعالیٰ نے دعاکومقبول فرمایا)چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہوگئی، حتی کہ لوگ مردارکھانے لگے،کوئی شخص کھڑاہوکر آسمان کی طرف دیکھتاتو بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے آسمان اوراس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظرآتا۔[33]

آخرکاراہل مکہ نے جن میں ابوسفیان پیش پیش تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے لئے اللہ سے دعا فرمائیں ،مگر جب آپ کی دعاسے اللہ نے وہ براوقت ٹال دیا اوربھلے دن آئے توان لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں اورجن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے ان کوبھی اشرارقوم نے یہ کہہ کہہ کرایمان سے روکناشروع کر دیاکہ یہ توگردش لیل ونہارہے ،پہلے بھی آخرقحط آتے رہے ہیں یہ کوئی نئی بات تونہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمباقحط پڑگیالہذااس بات سے دھوکا کھا کرمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی باتوں میں نہ پھنس جانا،فرمایااگر بستیوں کے لوگ صدق دل سے ایمان لاتے،ان کے اعمال اس ایمان کی تصدیق کرتے ،اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے توہم ان پرآسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ،یعنی عام طورپرایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اگراللہ کے دین پر عمل کرنے لگیں تو ہماری دنیاتباہ ہو جائے گی ،اورکہاجاتاہے کہ دین کی خاطردنیاکوقربان کرناپڑتاہے ،اس غلط فہمی کاازالہ کرتے ہوئے فرمایاکہ دین پرعمل کرنے میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی ہے اوراسے چھوڑنے پہ دنیاوآخرت دونوں کاخسارہ ہے ، مگر انہوں نے تودعوت حق اوررسولوں کوجھٹلایا اور برائیوں اورحرام کاریوں سے نہ ہٹے ،ہم نے اپنی سنت کے مطابق ایک مقررہ وقت تک انہیں سوچنے سمجھنے اورسنبھلنے کے لئے ڈھیل دی،پھراچانک ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے،جیسے فرمایا

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۴۱ [34]

ترجمہ:خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزاچکھائے ان کوان کے بعض اعمال کاشایدکہ وہ بازآئیں ۔

اور کیابستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہمارا درد ناک عذاب کبھی اچانک ان پررات کے وقت نہ آ جائے گا جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں ؟ یاانہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گاجب کہ وہ کھیل کود رہے ہوں ؟کیایہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں ؟حالانکہ اللہ کی خفیہ چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جوتباہ ہونے والی ہو۔

قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ: الْمُؤْمِنُ یَعْمَلُ بِالطَّاعَاتِ وَهُوَ مُشْفِق وَجِل خَائِفٌ، وَالْفَاجِرُ یَعْمَلُ بِالْمَعَاصِی وَهُوَ آمِنٌ

حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ مومن نیک کام کرتے ہوئے بھی ڑرتا، لرزتا اورخوف کھاتاہے اورفاجرگناہ کے کام کرتے ہوئے بھی امن وسکون میں رہتاہے۔[35]

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْكَبَائِرُ؟قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ،وَالْإِیَاسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ،وَالْقَنُوطُ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کبیرہ گناہ کون کون سے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنااوراللہ کی رحمت سے مایوس ہونااوراللہ کی تدبیراورگرفت سے بے خوف ہونا۔[36]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ: الْإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَالْأَمْنُ مِنْ مَكْرِ اللهِ، وَالْقَنُوطُ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ، وَالْیَأْسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنااور اللہ کی تدبیرسے بے خوف ہونا،اللہ کی رحمت سے ناامیدہونااوراللہ کے فضل سے مایوس ہونا۔[37]

أَوَلَمْ یَهْدِ لِلَّذِینَ یَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏ تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِیُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ یَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِینَ ‎﴿١٠١﴾‏ وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ ۖ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِینَ ‎﴿١٠٢﴾(الاعراف)
’’ اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکور میں ہیں) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ نہ سن سکیں ،ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے، پھر جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے، اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے اور اکثر لوگوں میں وفائے عہد نہ دیکھا اور ہم نے اکثر لوگوں کو بےحکم ہی پایا۔‘‘

اورکیاان لوگوں کوجوتباہ شدہ اقوام کے بعدزمین کے وارث ہوئے ہیں اس امرواقعی نے کچھ سبق نہیں دیاکہ اگرہم چاہیں توان کے قصوروں پرانہیں پکڑسکتے ہیں ؟مگروہ سبق آموزحقائق سے تغافل برتتے ہیں جیسے فرمایا

اَ فَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِهِمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى۝۱۲۸ۧ [38]

ترجمہ:پھرکیاان لوگوں کو(تاریخ کے اس سبق سے)کوئی ہدایت نہ ملی کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کوہم ہلاک کرچکے ہیں جن کی (بربادشدہ)بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جوعقل سلیم رکھنے والے ہیں ۔

اَوَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ كَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِہِمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ۝۰ۭ اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ۝۲۶ [39]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں کو (ان تاریخی واقعات میں ) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟اس میں بڑی نشانیاں ہیں ، کیا یہ سنتے نہیں ہیں ؟۔

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ۝۰ۭ هَلْ تُـحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا۝۹۸ۧ [40]

ترجمہ:ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کوہلاک کرچکے ہیں پھرآج کہیں تم ان کانشان پاتے ہویاان کی بھنک بھی کہیں سنائی دیتی ہے ۔

اورجب وہ تاریخ سے اورعبرتناک آثارکے مشاہدے سے سبق نہیں لیتے،اللہ تعالیٰ انہیں خبردار کرے تووہ متنبہ نہیں ہوتے،پیغمبرانہیں نصیحت کرے مگروہ نصیحت نہیں پکڑتے اور مسلسل گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں توسزاکے طورپر ہم ان کے دلوں پرمہرلگادیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ حق کی آوازکے لئے ان کے کان بندہوجاتے ہیں ، ان کی آنکھیں اللہ کے بصائرنہیں دیکھتیں پھر انذار اور وعظ ونصیحت ان کے لئے بیکارہوجاتے ہیں ،یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنارہے ہیں تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل و براہین اورمعجزات لے کرآئے مگرجس دعوت کووہ جاہلی تعصبات یانفسانی اغراض کی بناپر ایک دفعہ جھٹلاچکے تھے پھر باوجوددلائل کے بھی وہ اس پرایمان نہ لائے ، دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں پرمہرلگا دیتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَاَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا یُشْعِرُكُمْ۝۰ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۹وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَـمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۝۱۱۰ۧ [41]

ترجمہ:یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھاکھاکرکہتے ہیں کہ اگرکوئی نشانی(یعنی معجزہ)ہمارے سامنے آجائے توہم اس پر ایمان لے آئیں گے ،اے نبی!ان سے کہونشانیاں تواللہ کے اختیار میں ہیں اورتمہیں کیسے سمجھایاجائے کہ اگر نشانیاں آبھی جائیں تویہ ایمان لانے والے نہیں ، ہم اسی طرح ان کے دلوں اورنگاہوں کوپھیررہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب)پرایمان نہیں لائے تھے ،ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑے دیتے ہیں ۔

ہم نے ان میں سے اکثرمیں کوئی پاس عہدنہ پایابلکہ اکثرکوفاسق ہی پایا ، روزاول تمام بنی آدم سے عہدلیاگیاتھا

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّــتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰی۝۰ۚۛ شَهِدْنَا۔۔۔۝۱۷۲ۙ [42]

اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۔

اوراللہ تعالیٰ نے اسی پرانہیں پیداکیا ، اسی فطرت اورجبلت میں رکھا گیااور اسی کی تاکیدکے لئے انبیاء مبعوث ہوتے رہے ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ۔۔۔۝۰۝۳۶ [43]

ترجمہ:ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیااوراس کے ذریعہ سے سب کوخبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرواورطاغوت کی بندگی سے بچواس کے بعدان میں سے کسی کواللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پرضلالت مسلط ہوگئی۔

لیکن انہوں نے اپنے پروردگارسے کیے ہوئے اس عہدکوپس پشت ڈال دیا اوراس عہد کے خلاف غیراللہ کی پرستش شروع کردی ،اللہ تعالیٰ کو خالق،مالک،رازق اورلائق عبادت مان کرآئے تھے لیکن دنیامیں اس کے سراسرخلاف کرنے لگے اور بلادلیل ،خلاف عقل ونقل، خلاف فطرت اورخلاف شرع اللہ کے دوسروں کی عبادت میں لگ گئے،

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:وَإِنِّی خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ،وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّیَاطِینُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِینِهِمْ، وَحَرَّمَتْ عَلَیْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے میں نے اپنے تمام بندوں کودین اسلام پرپیداکیاتھامگر شیطانوں نے ان کے پاس آکرانہیں دین سے بہکادیا اوران کے لیے وہ چیزیں حرام قراردے دیں جومیں نے ان کے لیے حلال قراردی تھیں ۔[44]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهِ، أَوْ یُنَصِّرَانِهِ، أَوْ یُمَجِّسَانِهِ، كَمَثَلِ البَهِیمَةِ تُنْتَجُ البَهِیمَةَ هَلْ تَرَى فِیهَا جَدْعَاءَ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہربچہ فطرت اسلام پرپیداہوتاہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ،نصرانی ،مجوسی بنالیتے ہیں ، بالکل اس طرح جیسے جانورکے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں کیاتم نے(پیدائشی طورپر)ان کے جسم کے کسی حصہ کوکٹاہوادیکھاہے۔[45]

ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآیَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَقَالَ مُوسَىٰ یَا فِرْعَوْنُ إِنِّی رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٠٤﴾‏حَقِیقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَیِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِیَ بَنِی إِسْرَائِیلَ ‎﴿١٠٥﴾‏ قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿١٠٦﴾‏ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِینٌ ‎﴿١٠٧﴾‏ وَنَزَعَ یَدَهُ فَإِذَا هِیَ بَیْضَاءُ لِلنَّاظِرِینَ ‎﴿١٠٨﴾‏ (الاعراف)
’’پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا، سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا؟ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں، میرے لیے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل بھی لایا ہوں، سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے، فرعون نے کہا اگر آپ کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے ! اگر آپ سچے ہیں ، پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتًا وہ صاف ایک اژدھا بن گیا اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وہ یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا ۔‘‘

قوم نوح علیہ السلام ،قوم ہود علیہ السلام ،قوم صالح  علیہ السلام ،قوم لوط  علیہ السلام اورقوم شعیب علیہ السلام کے بعد ہم نے موسیٰ علیہ السلام کوواضح دلائل ومعجزات کے ساتھ فرعون مصر اوراس کی قوم کے سرکش سرداروں کے پاس بھیجاجس کی بادشاہی شام سے لبیاتک اوربحرروم کے سواحل سے حبش تک تھی ،وہ اس عظیم الشان ملک کانہ صرف مطلق العنان بادشاہ بلکہ معبودبناہواتھا،مگرانہوں نے بھی ہماری نشانیوں کو (جو خوداپنے من جانب اللہ ہونے پرصریح گواہی دے رہی تھیں ) تکبرکے ساتھ جھٹلایااورانہیں جادوگری قراردے کرٹالنے کی کوشش کی حالانکہ ان کے دلوں میں یقین گھر کر چکا تھا ، جیسے فرمایا

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔۔۔ ۝۱۴ۧ [46]

ترجمہ:انہوں نے سراسر ظلم اورغرورکی راہ سے ان نشانیوں کاانکار کیاحالاں کہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔

پس دیکھوکہ دعوت حق کی تکذیب ، اللہ کی راہ سے روکنے اوررسولوں کے ساتھ استہزا کرنے والوں کاکیاانجام ہوا،موسی علیہ السلام نے دربارمیں پہنچ کر کہااے فرعون ! (جس کانام منفتہ یامنفتاح تھااورہرفرعون کی طرح وہ بھی سورج دیوتاکی اولادسمجھاجاتاتھا)میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہواآیاہوں ، مجھے یہی لائق ہے کہ  اللہ  کے بارے میں وہی باتیں کہوں جوسراسرحق ہوں ، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے اپنی رسالت کی صریح دلیل لے کرآیاہوں لہذاتو بنی اسرائیل کوغلامی سے آزادکرکے میرے ساتھ بھیج دے تاکہ یہ اپنے آبائی مسکن میں جاکرعزت واحترام کی زندگی گزاریں اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ،جوتمہارابھی رب ہے،فرعون نے کہااے موسیٰ ! میں تجھے سچانہیں سمجھتا اورجومطالبہ تم کررہے ہووہ میں نہیں مان سکتااگرتم واقعی رب العالمین کے نمائندے ہوتواپنی رسالت کی تصدیق میں کوئی معجزہ لائے ہو تواسے پیش کرو،اس مطالبہ کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ہاتھ میں پکڑاہوا اپناعصازمین پرپھینکااوروہ عصایکایک ایک جیتاجاگتااژدہابن کرادھرادھردوڑنے لگا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:أَلْقَى عَصَاهُ، فَتَحَوَّلَتْ حَیَّةً عَظِیمَةً فَاغِرَةً فَاهَا، مُسْرِعَةً إِلَى فِرْعَوْنَ، فَلَمَّا رَأَى فِرْعَوْنُ أَنَّهَا قَاصِدَةٌ إِلَیْهِ، اقْتَحَمَ عَنْ سَرِیرِهِ، فَاسْتَغَاثَ بِمُوسَى أَنْ یَكُفَّهَا عَنْهُ، فَفَعَلَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’پھینک اپنا عصا۔ ‘‘ کی تفسیرمیں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پرڈالی تووہ ایک ایسے زبردست سانپ کی شکل میں بدل گئی، جواپنامنہ کھولے ہوئے فورا ًفرعون کی طرف لپک رہاتھا،فرعون نے جب یہ دیکھاکہ سانپ اس کی طرف آرہاہےتووہ اپنے تخت سے نیچے اترآیااورموسیٰ علیہ السلام سے یہ فریادکرنے لگا کہ اسے مجھ سے روکو توموسیٰ علیہ السلام نے اسے روک دیا۔ [47]

اس طرح کی اوربھی روایات ہیں ۔

پھرموسیٰ  علیہ السلام نے اپناہاتھ اپنی بغل میں ڈالااورجب نکالاتووہ بغیر کسی عیب اورمرض کے سب اہل دربار کے سامنے چمک رہاتھا،جیسے فرمایا

 وَاَدْخِلْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَاۗءَ مِنْ غَیْرِ سُوْۗءٍ ۔۔۔ ۝۱۲ [48]

ترجمہ:اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے،یعنی بے عیب۔

ثُمَّ أَعَادَهَا إِلَى كُمِّهِ، فَعَادَتْ إِلَى لَوْنِهَا الْأَوَّلِ موسی علیہ السلام نے جب اسے دوبارہ اپنی بغل میں داخل کیاتوہاتھ کارنگ پہلے جیسا ہوگیا [49]

‏ قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِیمٌ ‎﴿١٠٩﴾‏ یُرِیدُ أَن یُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ‎﴿١١٠﴾‏ قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ‎﴿١١١﴾‏ یَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ‎﴿١١٢﴾‏ وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ ‎﴿١١٣﴾‏ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِینَ ‎﴿١١٤﴾‏(الاعراف)
’’قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کردے سو تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو، انہوں نے کہا کہ آپ ان کو ان کے بھائی کو مہلت دیجئےاور شہروں میں ہر کاروں کو بھیج دیجئے کہ وہ سب ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لا کر حاضر کردیں، اوروہ جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے،کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا؟فرعون نے کہا ہاں اور تم مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے ۔‘‘

اس دورمیں جادوگری کوبڑاعروج حاصل تھااس لئے اہل دربار نے ان دونوں نشانیوں کومن جانب اللہ سمجھنے کے بجائے جادوگری گردانااور آپس میں کہنے لگے یقیناًیہ شخص بڑاماہرجادوگرہے۔

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٗٓ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ۝۳۴ۙ [50]

ترجمہ:فرعون اپنے گردوپیش کے سرداروں سے بولا یہ شخص یقیناً ایک ماہر جادوگر ہے۔

اوراس جادوگری کامقصداس کے سواکچھ نہیں کہ وہ تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرکے خودقابض ہونا چاہتا ہے ، جیسے فرمایا

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یٰمُوْسٰى۝۵۷ [51]

ترجمہ:فرعون کہنے لگااے موسی! کیا علیہ السلام توہمارے پاس اس لئے آیاہے کہ اپنے جادو کے زورسے ہم کوہمارے ملک سے نکال باہرکرے؟۔

اورسیاسی انقلاب کاخطرہ محسوس کرکے کہنے لگے اگرعوام نے اس کایہ پراثر جادودیکھ لیاتواس کے ہم نواہوجائیں گے اوران کی جمعیت ہماری حکومت کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو گی، اب کہواس خطرے کاکیاتوڑکیاجائے ؟پھران سب سرداروں نے ایک رائے پرمتفق ہوکر فرعون کومشورہ دیاکہ موسیٰ علیہ السلام اوراس کے بھائی ہارون علیہ السلام کو انتظارمیں رکھیے اورتمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے کہ ہرماہرفن جادوگرکوآپ کے پاس لے آئیں ،اوران کے ذریعے سے لاٹھیوں اوررسیوں کوسانپوں میں تبدیل کرکے لوگوں کو دکھا دیاجائے تاکہ عامتہ الناس کے دلوں میں اس پیغمبرانہ معجزے سے جوہیبت بیٹھ گئی ہے وہ اگربالکلیہ دورنہ بھی ہوتوکم ازکم شک ہی میں تبدیل ہوجائے گی اوراس طرح عامتہ الناس میں اس کااثررسوخ بڑھ نہیں سکے گا، فرعون نے سرداروں کامشورہ مان لیااور موسیٰ  علیہ السلام سے کہا۔

فَلَنَاْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى۝۵۸قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی۝۵۹فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَـجَمَعَ كَیْدَہٗ ثُمَّ اَتٰى۝۶۰  [52]

ترجمہ:اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویسا ہی جادو لاتے ہیں طے کرلیے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے نہ ہم اس قرارداد سے پھریں گے نہ تو پھریو، کھلے میدان میں سامنے آجا،موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا جشن کا دن طے ہوا اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں ،فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آگیا۔

فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے وقت طے کرکے اپنے مشیروں کو حکم دیاکہ ہرماہرفن جادوگرکودربارمیں پیش کیاجائے ،چنانچہ جادوگروقت مقررہ پرفرعون کے پاس آگئے ،جادوگرطالب دنیاتھے ،وہ دنیاکمانے کے لئے ہی شعبدہ بازی کافن سیکھتے تھے اس لئے موقع غنیمت جان کرانہوں نے مقابلہ کے میدان میں کھڑے ہوکر کہااے فرعون مصر!اگرہم موسیٰ کے مقابلے میں غالب رہے توہمیں اس کاانعام واکرام توضرورملے گا؟فرعون نے جواب دیاہاں ،منہ مانگی اجرت کے ساتھ تم مقرب بارگاہ بھی ہوجاؤگے،جیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ۝۴۱ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ۝۴۲ [53]

ترجمہ:جب جادوگرمیدان میں آئے توانہوں نے فرعون سے کہاہمیں انعام توملے گا اگرہم غالب رہے اس نے کہا ہاں ،اورتم تواس وقت مقربین میں شامل ہوجاوگے ۔

تاکہ وہ انعام کے لالچ میں موسیٰ کاڈٹ کرمقابلہ کریں اورانہیں ہارسے ہمکنارکردیں ۔

قَالُوا یَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِیَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِینَ ‎﴿١١٥﴾‏ قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ ‎﴿١١٦﴾‏ ۞ وَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِكُونَ ‎﴿١١٧﴾‏ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١١٨﴾‏ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِینَ ‎﴿١١٩﴾‏ وَأُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ ‎﴿١٢٠﴾‏قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ ‎﴿١٢١﴾‏ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ‎﴿١٢٢﴾(الاعراف)
’’ان ساحروں نے عرض کیا اے موسٰی ! خواہ آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں،(موسٰی علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ڈالو ، پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھایا، ہم نے موسیٰ (علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنا عصا ڈال دیجئے ! سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا، پس حق ظاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب جاتا رہا، پس وہ لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہو کر پھرے،اور وہ جو ساحر تھے سجدہ میں گرگئے،کہنے لگے ہم ایمان لائے رب العالمین پر، جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے ۔‘‘

یوم الزینة کودارالسلطنت کے میدان میں اب جادوگراورموسٰی مقابلے کے لئے آمنے سامنے آگئے جادوگروں کواپنے آپ پرمکمل اعتمادتھااس لئے موسٰی سے مخاطب ہوکرکہنے لگے اے موسٰی پہلے تم اپناجادوڈالتے ہویاہم ڈالیں ،جیسے فرمایا

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی۝۶۵     [54]

ترجمہ:جادو گربولے موسی ، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں ؟۔

دوسری طرف موسٰی کواللہ کی تائیدحاصل تھی اور انہیں اپنے رب کی نصرت کاکامل یقین تھااس لئے انہوں نے بغیرکسی خوف وتامل کے جادوگروں کو اپنے ہر طرح کے شعبدے ڈالنے کے لئے کہاتاکہ تمام حاضرین پرواضح ہوجائے کہ جادوگروں کی اتنی بڑی تعداد سے جوفرعون جمع کرکے لے آیاہے اوراس طرح ان کے ساحرانہ کمال سے وہ خوف زدہ نہیں ہیں ،دوسرے جادوگروں کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں جب معجزہ ربی سے چشم زدن میں خاک ہوجائیں گی تویہ لوگوں کے لئے زیادہ متاثرکن ہوگاجس سے ان کی صداقت واضح ترہوگی اورلوگوں کے لئے اس دعوت کوقبول کرناسہل ہوجائے گا،اس کے ساتھ جادوگربھی یقیناً یہ سوچنے پرمجبورہوجائیں گے کہ موسٰی کی پاکیزہ دعوت جادونہیں بلکہ اسے رب کی تائیدوحمائیت حاصل ہے کہ آن واحدمیں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے شعبدہ بازیوں کونگل گئی،چنانچہ موسٰی کے انہیں پہل کرنے پرجادوگروں نے بڑے زبردست جادوکامظاہرہ کیااورلوگوں کی آنکھوں پرنظربندی کرکے اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کومیدان مقابلہ میں پھینکاجس سے سارا میدان سانپوں سے بھرگیاجودیکھنے والوں کودوڑتے ہوئے محسوس ہوتے تھے،اتنے سارے سانپوں کولہراتے ہوئے دیکھ کر لوگ دہشت ذدہ ہوگئے ، جادو کے زورسے موسٰی کوبھی ان کی پھینکی ہوئی رسیاں اورلکڑیاں سانپ کی طرح دوڑتی ہوئی اپنی طرف لپکتی ہوئی محسوس ہوئیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایاخوف نہ کرتوہی غالب رہے گا ، جیسے فرمایا

 فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِهٖ خِیْفَةً مُّوْسٰى۝۶۷قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى۝۶۸وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا۝۰ۭ اِنَّمَا صَنَعُوْا كَیْدُ سٰحِرٍ۝۰ۭ وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰى۝۶۹ [55]

ترجمہ:اورموسی علیہ السلام اپنے دل میں ڈرگیاہم نے کہامت ڈرتوہی غالب رہے گا،پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہےابھی ان کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہےیہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادو گر کا فریب ہے اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا خواہ کسی شان سے وہ آئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَلْقَوْا حِبَالًا غِلَاظًا وَخَشَبًا طُوَالًا، قَالَ: فَأَقْبَلَتْ تُخَیَّلُ إِلَیْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے موٹی موٹی رسیاں اورلمبی لمبی لاٹھیاں ڈالی تھیں اوران کے جادوکی وجہ سے یوں معلوم ہوتاتھاکہ وہ میدان میں ادھر ادھر دوڑ رہی ہیں ۔[56]

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کووحی کی کہ اپناعصا میدان میں پھینک دو ،جادوگروں نے جوکچھ بھی کیاتھاایک تخیل،شعبدہ بازی اورجادوتھاجوحقیقت کامقابلہ نہیں کرسکتاتھا، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے جیسے ہی اپناعصامیدان میں پھینکا تو وہ خوفناک اذدھے کی شکل اختیارکرکے آن کی آن میں ان کے اس جھوٹے طلسم کونگلتاچلاگیا،اس طرح جوحق تھاوہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنارکھاتھاوہ باطل ہوکررہ گیا،فرعون اوراس کے ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے اورفتح مندہونے کے بجائے الٹے ذلیل ہوگئے،جادوگرجادوکے فن اوراس کی اصل حقیقت سے بخوبی واقف تھے انہوں نے اپنے جادوکایہ حال دیکھاتوسمجھ لیاکہ موسیٰ  علیہ السلام نے جوکچھ دکھایاہے وہ جادوہرگزنہیں بلکہ وہ واقعہ ہی اللہ کانمائندہ ہے اوراللہ ہی کی مددسے اس نے یہ معجزہ پیش کیاہے چنانچہ انہوں نے اپنے کفرپرقائم رہنے کے بجائے بھرے مجمع میں سجدے میں گرکر اعلان کردیاکہ ہم نے مان لیارب العالمین کو،اس رب کوجسے موسیٰ اورہارون علیہ السلام مانتے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَلْقَفُ مَا یَأْفِكُونَ، لَا تَمُرُّ بِشَیْءٍ مِنْ حِبَالِهِمْ وَخَشَبِهِمُ الَّتِی أَلْقَوْهَا إِلَّا الْتَقَمَتْهُ، فَعَرَفَتِ السَّحَرَةُ أَنَّ هَذَا أَمْرٌ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَیْسَ هَذَا بِسِحْرٍ، فَخَرُّوا سُجَّدًا وَقَالُوا: {آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ [57]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام کا عصا جادوگروں کی جس رسی یالاٹھی کے پاس سے گزرتی اسے فوراًنگل جاتااس سے جادوگروں کویہ معلوم ہوگیاکہ موسیٰ علیہ السلام کے اس عمل کا جادو سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کے اس عمل کوآسمانی تائیدحاصل ہے اس لیے وہ فورا ًسجدہ ریزہوگئے اورپکاراٹھے’’ ہم ایمان لائے رب العالمین پرجو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے۔‘‘[58]

عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: أَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ أَنْ أَلْقِ مَا فِی یَمِینِكَ، فَأَلْقَى عَصَاهُ مِنْ یَدِهِ، فَاسْتَعْرَضَتْ مَا أَلْقَوْا مِنْ حِبَالِهِمْ وَعِصِیِّهِمْ، وَهِیَ حَیَّاتٌ، فِی عَیْنِ فِرْعَوْنَ وَأَعْیُنِ النَّاسِ تَسْعَى فَجَعَلَتْ تَلْقَفُهَا: تَبْتَلِعُهَا حَیَّةً حَیَّةً، حَتَّى مَا یُرَى بِالْوَادِی قَلِیلٌ وَلَا كَثِیرٌ مِمَّا أَلْقَوْهُ، ثُمَّ أَخَذَهَا مُوسَى فَإِذَا هِیَ عَصَاهُ فِی یَدِهِ كَمَا كَانَتْ، وَوَقَعَ السَّحَرَةُ سُجَّدًاقَالُوا:آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالِمِینَ رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ، لَوْ كَانَ هَذَا سِحْرًا مَا غَلَبَنَا

محمدبن اسحاق نے لکھاہے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کووحی کی کہ اپناعصا میدان میں پھینک دو،حکم کی تعمیل میں انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑاہواعصافوراًمیدان میں پھینک دیا، موسیٰ علیہ السلام کے عصاسے بننے والے سانپ نے جادوگروں کی ڈالی ہوئی ایک ایک رسی اورایک ایک لاٹھی کوفرعون اورلوگوں کے سامنےنگلناشروع کردیا حتی کہ میدان میں جادوگروں کی ڈالی ہوئی کوئی چھوٹی بڑی رسی اورلاٹھی نہ بچی،پھرموسیٰ علیہ السلام نے اس سانپ کو پکڑ لیا تووہ حسب سابق ان کے ہاتھ میں پھرعصابن گیا،یہ منظردیکھ کرجادوگرفوراًسجدے میں گرگئے اورپکااٹھے ’’ ہم اللہ رب العالمین پرجوموسیٰ اورہارون علیہ السلام کارب ہے ایمان لاتے ہیں ۔‘‘کیونکہ اگرموسی علیہ السلام جادوگرہوتے تووہ ہم پرکبھی بھی غالب نہ آسکتے۔[59]

قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِی الْمَدِینَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿١٢٣﴾‏ لَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِینَ ‎﴿١٢٤﴾‏ قَالُوا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ‎﴿١٢٥﴾‏ وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآیَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ ‎﴿١٢٦﴾‏(الاعراف)
’’ فرعون کہنے لگا کہ تم موسیٰ پر ایمان لائے ہو بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں ؟ بیشک یہ سازش تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں تاکہ تم سب اس شہر سے یہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو، سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے، میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دونگا ، انہوں نے جواب دیا کہ ہم (مر کر) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے ،اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئےجب وہ ہمارے پاس آئے، اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال ۔‘‘

فرعون اپنے ملک کے ماہرترین جادوگروں سے فتح کی امیدلگائے بیٹھاتھامگران کی واضح شکست اوربھرے مجمع میں اعلان توحیدسے اس کے اوسان خطاہوگئے ،پانسہ پلٹتے دیکھ کراس نے فریب کاری سے کام لیتے ہوئے جادوگروں سے کہا قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم موسیٰ علیہ السلام کے رب پر ایمان لے آے یقینا ًیہ کوئی خفیہ سازش تھی جوتم لوگوں نے اس دارلسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار،مال ودولت اورجاہ وحشمت سے بے دخل کردو،

عَنِ السُّدِّیِّ، فِی حَدِیثٍ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِی مَالِكٍ، وَعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَنْ نَاسٍ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، الْتَقَى مُوسَى وَأَمِیرُ السَّحَرَةِ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَرَأَیْتَكَ إِنْ غَلَبْتُكَ أَتُؤْمِنُ بِی وَتَشْهَدُ أَنَّ مَا جِئْتُ بِهِ حَقٌّ؟ قَالَ السَّاحِرُ: لَآتِیَنَّ غَدًا بِسِحْرٍ لَا یَغْلِبُهُ سِحْرٌفَوَاللَّهِ لَئِنْ غَلَبْتَنِی لَأُومِنَنَّ بِكَ وَلَأَشْهَدَنَّ أَنَّكَ حَقٌّ،وَفِرْعَوْنُ یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ، فَهُوَ قَوْلُ فِرْعَوْنَ:{إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَكَرْتُمُوهُ فِی الْمَدِینَةِ}إِذِ الْتَقَیْتُمَا لِتَظَاهَرَا فَتُخْرِجَا مِنْهَا أَهْلَهَا

سدی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیرمیں اپنی مشہورسندکے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اوردیگرکئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آیت کریمہ إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَكَرْتُمُوهُ فِی الْمَدِینَةِ کے بارے میں روایت کیاہےموسیٰ علیہ السلام اورجادوگروں کے امیرکی ملاقات ہوئی،موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہااگرمیں تم پرغالب آگیاتوکیاتم مجھ پرایمان لے آؤگےاوراس بات کی گواہی دو گے کہ جومیں لایاہوں یہ حق ہے؟جادوگرنے جواب دیاکہ کل میں ایسے جادوکامظاہرہ کروں گاکہ کوئی اس جادوپرغالب نہ آسکے گا، لیکن اللہ کی قسم!اگرتم مجھ پرغالب آگئے تو میں تم پرایمان بھی لے آؤں گااوراس بات کی گواہی بھی دوں گاکہ تم جس دین کولے کرآئے ہویہ ایک سچادین ہےاور فرعون دونوں کوباتیں کرتے ہوئے اس وقت دیکھ رہا تھا اسی وجہ سے اس نے کہاتھا’’یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جوتم لوگوں نے اس دارلسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدارسے بے دخل کردواورساراتصرف اور اقتدارتمہیں حاصل ہوجائے۔‘‘[60]

اورجادوگروں کودھمکی دیتے ہوئے بولااچھاتواس سازش کانتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتاہےمیں تمہارے ہاتھ پاوں مخالف سمتوں سے کٹوادوں گااور اس کے بعد تم سب کوکھجورکے تنوں پرسولی پر چڑھا دوں گا ، جیسے فرمایا

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ۝۰ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ۝۰ ۡ وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی۝۷۱ [61]

ترجمہ:فرعون نے کہاتم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا معلوم ہوگیاکہ یہ تمہارا گروہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی،اچھااب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اورکھجورکے تنوں پر تم کوسولی دیتا ہوں پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۔

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ۝۰ۚ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝۰ۥۭ لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۴۹ۚ      [62]

ترجمہ: فرعون نے کہاتم موسی علیہ السلام کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتاضرور یہ تمہارابڑاہے جس نے تمہیں جادو سکھلایا ہے،اچھاابھی تمہیں معلوم ہواجاتاہے میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواؤں گااورتم سب کوسولی چڑھادوں گا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:لَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِینَ،قَالَ: أَوَّلُ مَنْ صَلَبَ وَأَوَّلُ مَنْ قَطَعَ الْأَیْدِی وَالْأَرْجُلَ مِنْ خِلَافٍ فِرْعَوْنُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں فرعون ہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے انسانوں کوسولی دی اورمخالف جانب سے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزادی۔[63]

فرعون کاجادوگروں کودردناک موت کی دھمکی پر اللہ تعالیٰ نے ان اولین مسلمانوں کو ایمان پرثابت قدمی کی توفیق عطافرمائی اورفرعون کے رعب ودبدبہ کے مقابلے میں ان پر سکینت نازل کی ،دردناک موت کی دھمکی کے جواب میں ان اولین اہل ایمان نے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے خوف وخطر جواب دیا اے شاہ مصر ! ہمیں مطلق پرواہ نہیں کہ تو ہمیں کیسے موت سے ہمکنارکرتاہے ،یہ توتمہیں بھی معلوم ہےیہ زندگی فانی ہے ،موت توجلد یا بدیر آکررہنی ہےاور آخرکارہمیں اپنے اعمال کی جزاکے لیے واپس تواللہ تعالیٰ کے حضور جاناہی ہے،اس دنیامیں دوام توکسی ہستی کونہیں پھراس کا کیاخوف کھاناکہ موت کب اورکیسے آتی ہے ، اگرتوہمیں بے قصورموت سے دوچارکر دے گاتوکیاہوگابس ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے ،اورتجھے بھی اس بات کے لئے تیاررہناچاہئے کہ روزقیامت اللہ تعالیٰ تجھے اس جرم کی سخت سزادے گا، تو جس بات پرہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سواکچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں توہم نے تمام دنیاوی مفادات کوٹھکراکر حقیقت کو اپنا لیا ، ہم اپنے رب سے اپنے گناہوں پرنادم اورشرمسارہیں کہ تیرے اکسانے پر اللہ کے رسولوں سے مقابلے پر آئے مگرہمیں اپنے غفورورحیم رب سے قوی امیدہے کہ اس کھلے میدان میں جب اصل حقیقت حال کھل چکی توہم نے دعوت حقاکوتسلیم کرنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیرنہیں کی اورپیش قدمی کرکے اول مسلمانوں میں شامل ہوگئے،اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کرنے پرہماری خطائیں معاف فرماکرمغفرت ورحم فرمائے گا،جیسے فرمایا

 قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰی مَا جَاۗءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۝۰ۭ اِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا۝۷۲ۭاِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَمَآ اَكْرَہْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ۝۰ۭ وَاللہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی۝۷۳اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی۝۷۵ۙ   [64]

ترجمہ:جادوگروں نے جواب دیا قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آجانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے، تو زیادہ سے زیادہ بس اسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے،ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے، تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔

اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے،اے فرعون !غورسےسن، حقیقت یہ ہے کہ جوروزمحشر جواپنے رب کانافرمان اور مجرم بن کر اس کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے دیکتی ہوئی جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا،اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگاجس نے نیک عمل کیے ہوں گےایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں ۔

 قَالُوْا لَا ضَیْرَ۝۰ۡاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ۝۵۰ۚاِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَآ اَنْ كُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۵۱ۭۧ [65]

ترجمہ:انہوں نے جواب دیاکچھ پرواہ نہیں ،ہم اپنے رب کے حضورپہنچ جائیں گے اورہمیں توقع ہے کہ ہمارارب ہمارے گناہ معاف کردے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں ۔

جادوگروں کے اس جواب کا رعایا کے سامنے ایک ہی مفہوم آیاکہ اگر فرعون کے کہنے کے مطابق سازش کے افسانہ میں کچھ بھی حقیقت ہوتی توملک کے ماہرفن جادوگرخوشی خوشی موت کوگلے لگانے کوتیارنہ ہوجاتے بلکہ اپنی جان کواولیت دیتے ، اس لئے موسیٰ  علیہ السلام اور جادوگروں کی ملی بھگٹ کاافسانہ محض ایک چال ہے ، پھران اولین مسلمانوں نے روئے سخن فرعون سے پھیرکر اللہ کی طرف کرلیااوراس کی بارگاہ میں دست بددعاہوگئے۔

 ۔۔۔رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِـمِیْنَ۝۱۲۶ۧ  [66]

ترجمہ: اے رب! ہم پر صبرکا فیضان کراور ہمیں دنیاسے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمابردارہوں ۔

فرعون کواس دوٹوک جواب کی بھی توقع نہیں تھی اس بے باک جواب نے شعلوں کو ہوادکھانے کاکام کیاجس پرفرعون کے حکم پرانہیں ایسی ہی سزادی گئی جیسے کہی گئی تھی مگراہل ایمان کے قدم نہ ڈگمگائے ،اوروہ اپنے رب سے ڈرتے اور مغفرت کی دعائیں مانگتے ہوئے ہنستے ہنستے سولی پر چڑھ گئے اورقوم کویہ پیغام چھوڑگئے کہ سچ کا راستہ یہی ہے ، صراط مستقیم یہی ہے ،اخروی نجات اسی راہ پرہے کہ  اللہ کی اطاعت اور رسولوں کی پیروی کرلی جائے ، دنیاکی کوئی مخلوق چاہئے جتنی بھی جاہ وحشم کی مالک ہو رب نہیں ہوسکتی ، مخلوق نے تو خود فنا ہو کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاناہے باقی ہمیشہ رب کی ذات بابرکات نے رہناہے جسے موت نہیں ،جسے فنا نہیں ،جیسے فرمایا

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ      [67]

ترجمہ: ہرچیزجواس زمین پرہے فناہوجانے والی ہے اورصرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِیُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَیَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْیِی نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ ‎﴿١٢٧﴾‏ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُهَا مَن یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ ‎﴿١٢٨﴾‏ قَالُوا أُوذِینَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِیَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ قَالَ عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن یُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَیَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْأَرْضِ فَیَنظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٢٩﴾(الاعراف)
’’اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں، اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کئے رہیں، فرعون نے کہا ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کردیں گے اور عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے،موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو، یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ مالک بنا دے اور آخیر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور بجائے ان کے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا ۔‘‘

ہردورکے مفسدین کایہ شیوہ رہاہے کہ وہ اہل ایمان کوگمراہ ،فسادی اوران کی دعوت ایمان وتوحیدکوگمراہی اورفسادسے تعبیرکرتے ہیں ،اسی طرح فرعون کے سرداروں نے جن کوملکی حالات بگڑنے اوراپنی گدی کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی توفرعون کومزیداکسانا ،ابھارناشروع کیا،فرعون کواگرچہ دعوائے ربوبیت تھا۔

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ    [68]

ترجمہ: پھر اس نے کہا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔

لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معبودبھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کاتقرب حاصل کرتے تھے،اس لئے اہل دربار کہنے لگے کہ یہ فسادی لوگ نہ تو تمہیں اپنا رب مانتے ہیں اور ساتھ ہی تمہارے معبودوں کوبھی چھوڑبیٹھے ہیں اوراب ان کے حوصلے اتنے بلندہوگئے ہیں کہ کھلم کھلا تمہاری رعایاکودعوت توحید،مکارم اخلاق اورمحاسن اعمال کی تلقین کے زریعے سے تمہارے آبائی دین کے خلاف بہکاتے پھرتے ہیں ،جس کانتیجہ یہ نکلے گاکہ تمہارے پر امن ملک کی عوام میں بغاوت پھوٹ پڑے گی اور بدامنی پھیل جائے گی جس کاپھرکوئی علاج ممکن نہ ہوگا ان کوچھوٹ دینے کے بجائے جلدازجلدکوئی علاج تجویزکرو،فرعون نے اپنے سرداروں کی بات سن کربے رحمی سے جواب دیا کہ میں اسی حکمت عملی پرگامزن رہوں گا کہ پہلے کی طرح بنی اسرائیل کے لڑکوں کوقتل کیاجائے اورانکی لڑکیوں کوزندہ رہنے دیاجائے اس طرح بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے گی اوریہ کمزور پڑ جائیں گے اوربالآخر ان کانام ونشان ہی مٹ جائے گا ہمیں ایساکرنے کی ان پرقدرت ہے ،یہ ہمارے اس انتظام میں روکاوٹ نہیں ڈال سکتے ،موسٰی سے پہلے بنی اسرائیل کے نومولودلڑکوں کاقتل عام جاری تھااب فرعون کی شکست کے بعدظلم وستم کانیادوردوبارہ شروع ہوگیاتوموسیٰ علیہ السلام  علیہ السلام نے قوم کوتسلی دی اوران کو  اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے اورمصائب وابتلاء کے دورہونے کی امیدرکھتے ہوئے صبرکرنے کی تلقین فرمائی اورساتھ ہی تسلی دی کہ فرعون کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر گھبراؤنہیں بلکہ پامردی کے ساتھ برداشت کرتے جاؤ،حالات کیسے ہی سنگین ہوں تم چٹانوں کی طرح حق پرجمے رہواورمشکلات وتکالیف پرصبرکرو، اگرتم صراط مستقیم پرگامزن رہنے کے لئے رب کے فرامین پر عمل کرتے رہوگے توپھر اللہ کی قدرت وحکمت کے کرشمے دیکھوگے ، زمین اللہ کی ملکیت ہے،فرعون اوراس کی قوم کی ملکیت نہیں کہ وہ اس زمین پرحکم چلائیں ، وہ اپنی مشیت اورحکمت کے مطابق اپنے بندوں میں سے جس کوچاہتاہے اس زمین کاوارث بنادیتاہے ،بالآخرفتح متقین کے لئے ہے ، زمین کااقتداربالآخرتمہیں ہی ملے گااوراللہ تعالیٰ تمہیں امن و عزتوں سے نوازے گا اور تمہارے دشمنوں کوذلیل وخوارکردے گا،موسیٰ  علیہ السلام کی قوم کوصبرکی تلقین کے جواب میں قوم کہنے لگی اے موسٰی !تیری پیدائش سے پہلے بھی رعمیس ثانی کے دورمیں ہم پرمظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں اوراب تیرے رسول ہونے کے بعدفرعون منفتاح کے دورمیں بھی صورت حال وہی ہے اس میں کچھ کمی واقع نہیں ہوئی کیایہ کبھی ختم نہ ہوں گی اورہم ہمیشہ ذلیل وخوارہی ہوتے رہیں گے، موسیٰ  علیہ السلام نے ان کوآل فرعون کے شرسے نجات اوراچھے وقت کی امیددلاتے ہوئے فرمایا اے میری قوم کے لوگو!رب کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کوئی اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتااس کی رحمت سے توکافراورمشرک ہی ہوتے ہیں ،جیسے فرمایا

قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ۝۵۶       [69]

ترجمہ:ابراہیم نے کہا اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ۔

اس کے ہرکام میں حکمت پنہاں ہے، وہ وقت دورنہیں جب تمہارارب تمہارے دشمن فرعون اوراس کی قوم کو ہلاک کردے گااورپھرزمین کاغلبہ تمہیں عنایت کرے گا،مگریہ مت سمجھناکہ یہ خلافت ارضی اوروزارت وامارت یہ دادعیش کے لئے ہے بلکہ پھر تمہاری آزمائش کاایک نیا دور شروع ہوگا ابھی تم تکلیفوں ،مصیبتوں کے زریعہ سے آزمائے جارہے ہوپھرانعام واکرام کی بارش اوراختیار واقتدارسے بہرہ مندکر کے تمہیں آزمایا جائے گاکہ تم اس کے نازل کردہ فرمانوں کے مطابق زندگی گزارتے ہو،اس کے شکرگزاربندے بنتے ہویا ابلیس کے گروہ میں شامل ہوکرکفروشرک اورناشکری کاراستہ اختیارکرتے ہو۔

‏ وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِینَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُونَ ‎﴿١٣٠﴾‏فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَطَّیَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿١٣١﴾‏ وَقَالُوا مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٣٢﴾‏ فَأَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِینَ ‎﴿١٣٣﴾‏ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا یَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ۖ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِی إِسْرَائِیلَ ‎﴿١٣٤﴾‏ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ یَنكُثُونَ ‎﴿١٣٥﴾(الاعراف۱۳۰تا۱۳۵)
’’ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میںتاکہ وہ نصیحت قبول کریں، سو جب ان پر خوشحالی آجاتی تو کہتے یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہئے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو (موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے، یاد رکھو ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے، اور یوں کہتے کیسی ہی بات ہمارے سامنے لاؤ کہ ان کے ذریعے سے ہم پر جادو چلاؤ جب بھی تمہاری بات ہرگز نہ مانیں گے، پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاںاور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے، سو وہ تکبر کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ،اور جب ان پرکوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے کہ اے موسیٰ !ہمارے لیے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے ! جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے، اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم ضرور ضرور آپ کے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی (رہا کر کے) آپ کے ہمراہ کردیں گے،پھر جب ان سے عذاب کو ایک خاص وقت تک کہ اس تک ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے تو وہ فوراً عہد شکنی کرنے لگتے ۔‘‘

ہم نے آل فرعون کوظلم اوراستکبارسے بازرکھنے کے لئے کئی سال تک بارش کے فقدان اوراجناس وپھلوں کی پیداوارکی کمی میں مبتلارکھا کہ شایدوہ غوروفکرکریں اور اپنے معبود حقیقی کی طرف پلٹ آئیں ،مگران کاحال یہ تھاکہ جب کچھ عرصہ کے لئے قحط سالی ٹل جاتی اورغلے اورپھلوں کی پیداوارخوب ہوتی تو اللہ کاشکربجالانے کے بجائے کہتے کہ یہ ہماری محنت کاثمرہ ہے اوراس کے برعکس جب رب کی طرف انہیں کوئی جھٹکاپہنچتاتوکہتے کہ یہ موسیٰ  علیہ السلام اوراہل ایمان کی نحوست کی وجہ سے ہے ،حالانکہ جوبھی خیر ہو یا شر ، خوش حالی ہویا قحط سالی اس کے اسباب تو  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے ہیں ،مو سی علیہ السلام اوران پرایمان لانے والے اس کاسبب نہیں تھے ،ان کی بدشگونی کااصل سبب  اللہ تعالیٰ کے علم میں تھاکہ وہ دعوت حق آنے کے بعداس پر عقل وشعورسے غوروفکر کرتے مگر اس کے برعکس وہ اپنے پرانے کفروشرک پر جمے ہوئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں حق وباطل سمجھنے کی جو فطری تمیزعطاکررکھی تھی اس آوازپرکان نہ دھرے اوراپنے بغض وعنادپرڈٹے رہےحالانکہ ان کے دل اندرسے قائل ہوچکے تھے مگر بغض وعناداورہٹ دھرمی سے کہتے کہ موسیٰ  علیہ السلام انہیں مرعوب کرنے کے لئے جادو کے ہتھکنڈے استعمال کررہاہے،جیسے فرمایا

فَلَمَّا جَاۗءَتْهُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۳ۚوَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۔ ۝۱۴ [70]

ترجمہ:جب ہماری نشانیاں علانیہ ان کی نگاہوں کے سامنے آئیں توانہوں نے کہاکہ یہ کھلاجادوہے حالانکہ ان کے دل اندرسے قائل ہوچکے تھے مگرانہوں نے محض ظلم اور سرکشی کی راہ سے اس کاانکارکیا۔

موسیٰ  علیہ السلام دعوت دین میں سرگرم رہتے مگرقبطی آپ علیہ السلام کوجواب دیتے اے موسٰی توکچھ بھی کرلے اور کوئی بھی نشانی لے آہم تو تجھے جھوٹا اور سازشی سمجھتے ہیں ،ہم تیری دعوت قبول کرکے اپناآبائی دین ودھرم کبھی ترک نہیں کریں گے ،آخرکارہم نے ان پربارش اور اولوں کاطوفان بھیجاجس سے فصلیں اورپھل بربادہوگئے اورانہیں بہت بڑانقصان اٹھاناپڑا ،اورپھرہم نے ان پرٹڈی دل چھوڑے جوباقی ماندہ غلوں ،پھلوں اورہرقسم کی نباتات کو چٹ کرگئی، ٹڈی ایک حلال جانورہے ،

ابْنَ أَبِی أَوْفَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:غَزَوْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَوْ سِتًّا، كُنَّا نَأْكُلُ مَعَهُ الجَرَادَ

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ یاسات غزووں میں شریک ہوئے ہم آپ کے ساتھ ٹڈیاں کھاتے تھے۔[71]

عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَرَادِ، فَقَالَ:أَكْثَرُ جُنُودِ اللَّهِ، لَا آكُلُهُ، وَلَا أُحَرِّمُهُ

سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کی نسبت سوال ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے لشکربہت سے ہیں جنہیں نہ میں کھاتاہوں نہ حرام ٹھیراتاہوں ۔[72]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ، وَدَمَانِ. فَأَمَّا الْمَیْتَتَانِ: فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ وَأَمَّا الدَّمَانِ: فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ

ایک اوررویت میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادومردے اوردوخون ہمارے لئے حلال کئے گئے ہیں مردے تومچھلی اورٹڈی ہے اوردوخون کلیجی اورتلی ہے۔[73]

اورجوؤں اورگھن کے کیڑے پھیلائے جنہوں نے آدمیوں اور غلے کے محفوظ ذخیروں پرحملہ کردیااوران کا بیشترحصہ کوکھاکرختم کردیا، پھر مصرکے لاکھوں مربع میل زمین پرپھیلے ہوئے علاقوں میں ہر جگہ سے مینڈک ایک بلاکی طرح امڈ پڑے جس سے ان کا کھانا پینا سونا ، آرام کرنااورچلناپھرنا حرام ہو گیا ، پھران مینڈکوں کے مرنے سے ہرسو تعفن پھیل گیا،مصریوں نے دریائے نیل کوبھی تقدیس اورخدائی کا درجہ دیاہواتھا،  اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک خاص قسم کا بیکٹریا پیداکردیاجس نے پانی کی آکسیجن کوختم کردیااوراس میں مضرصحت زہریلے مادے پیداکردیئے، جب وہ اپنی روزانہ ضرورت کے لئے نیل کاپانی لیتے تووہ پانی جمے ہوئے سرخ موادمیں بدل جاتااوراستعمال کے قابل نہ رہتااس طرح پانی کاحصول ناممکن ہوگیا،پانی میں یہ مہلک مادے مچھلیوں اورمینڈکوں کے لئے مہلک بنے اور مچھلیاں جو مصریوں کی غذائیت کاایک اہم زریعہ تھیں ختم ہوگئیں ،یہ تمام کھلے کھلے اور جدا جدا عذاب تھے جووقفے وقفے سے ان پر نازل ہوئے اورہر عذاب ایک علیحدہ معجزے کی حیثیت رکھتاہے مگرپھرانہوں نے رب کی قدرت کونہ پہچانااوررسولوں سے مقابلے پرتلے رہے ، ظلم وجبرکرتے نامولود لڑکوں کوقتل کرتے ہوئے ماؤں کی آہ وبکا سے ان کے دل نہ پسیجے،سچ ہے جورب سے نہیں ڈرتاوہ انسانوں سے کیاڈرے گابڑے ہی مجرم لوگ تھے جنہیں رب نے بڑی مہلتیں دیں ،نشانیاں دکھلائیں مگروہ نافرمان ہی رہے ، فرعون اوراہل فرعون کایہ وطیرہ بن گیاکہ رب کی طرف سے جو آفت ان پرنازل ہوتی تواس سے تنگ آکرموسیٰ  علیہ السلام سے کہتے کہ اے موسیٰ  علیہ السلام !رب کی طرف سے جومنصب رسالت تجھے ملاہواہے اس کی بناپراپنے رب سے دعاکرکہ یہ عذاب ہم سے ٹال دے اگر اس دفعہ یہ عذاب تو ہم سے دورکرادے گاتوہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ تیری خواہش کے مطابق بنی اسرائیل کوآزادکردیں گے اورتوجہاں چاہئے ان کولے جانا،موسٰی رب سے دعاکرتے، رب کریم ان کی دعاکوشرف قبولیت عطاکر کے ایک مقررہ وقت تک کے لئے عذاب ٹال دیتا توبنی اسرائیل کوآزادکرنے اورموسیٰ  علیہ السلام پرایمان لانے کے بجائے فوراً اپنے قول وقرارسے پھرجاتے ، قادرمطلق پھردوسراعذاب بھیجتا توپھراسی طرح کرتے لن ترانیاں کرتے ہوئے آتے ،یوں کچھ کچھ وقفوں سے ان پر پانچ عذاب آئے لیکن ان کے دلوں میں جورعونت اوردماغوں میں جوتکبربھرہواتھاوہ دعوت حق کی راہ میں ان کے لئے زنجیرپابنارہااوراتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود وہ ایمان کی دولت سے محروم ہی رہے۔

فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِی الْیَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِینَ ‎﴿١٣٦﴾‏ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ كَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِی بَارَكْنَا فِیهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا یَعْرِشُونَ ‎﴿١٣٧﴾‏وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ یَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا یَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ‎﴿١٣٨﴾‏ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٣٩﴾‏ قَالَ أَغَیْرَ اللَّهِ أَبْغِیكُمْ إِلَٰهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿١٤٠﴾‏ وَإِذْ أَنجَیْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۖ یُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِی ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِیمٌ ‎﴿١٤١﴾‏(الاعراف)
’’ پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا یعنی ان کو دریاؤں میں غرق کردیا اور اس سبب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل ہی غفلت کرتے تھے، اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کردیا،اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا، پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے، کہنے لگے اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے ! جیسے ان کے یہ معبود ہیں، آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے، یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ کیا جائے گا اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے ، فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو تمہارا معبود تجویز کردوں ؟ حالانکہ اس نے تم کو تمام جہان والوں پر فوقیت دی ہے، اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے بچالیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھےاور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی ۔‘‘

اتنی بڑی بڑی نشانیوں کے باوجودوہ ایمان لانے کے لئے اورخواب غفلت سے بیدارہونے کے لئے تیارنہیں ہوئے توبالآخر ہم نے ان سے انتقام لیااورفرعون کواس کے سرداروں سمیت سمندرمیں غرق کردیا ،اور ان کی جگہ ہم نے بنی اسرائیل کوجومغلوب اورغلام بناکررکھے گئے تھے فلسطین کے مشرقی اورمغربی حصہ میں غلبہ عطاکیا جوبکثرت انبیاء کامسکن ومدفن رہااورظاہری شادابی وخوش حالی میں ممتازتھا،اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کاوعدہ خیرپوراہواکیونکہ انہوں نے صبرسے کام لیا تھا ،جیسے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرمایاگیا

قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللهِ وَاصْبِرُوْا۝۰ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلهِ۝۰ۣۙ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ۝۰ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۱۲۸ قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا۝۰ۭ قَالَ عَسٰی رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَیَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۝۱۲۹ۧ [74]

ترجمہ:موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مددمانگواورصبرکرو،زمین  اللہ کی ہے اپنے بندوں میں سے جسکو چاہتاہے اس کاوارث بنادیتاہے اور آخری کامیابی انہی کے لئے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں ،اس کی قوم کے لوگوں نے کہاتیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اوراب تیرے آنے پربھی ستائے جارہے ہیں اس نے جواب دیاقریب ہے وہ وقت کہ تمہارارب تمہارے دشمن کوہلاک کردے اورتم کوزمین میں خلیفہ بنالے پھردیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ۔

ایک مقام پر یوں فرمایا

وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَ۝۵ۙوَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ۝۶         [75]

ترجمہ:اورہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پرجوزمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اورانہیں پیشوابنادیں اورانہی کووارث بنائیں اورزمین میں ان کو اقتدار بخشیں اوران سے فرعون وہامان اوران کے لشکروں کووہی کچھ دکھلادیں جس کاانہیں ڈرتھا۔

اورہم نے فرعون اوراسکی قوم کے کارخانے ،اونچی اونچی عالی شان عمارتیں ،سجے سجائے گھر،انگوروں کے ہرے بھرے باغات جووہ چھتریوں پرچڑھاتے تھے،چشمے اورکھیتیاں وغیرہ تباہ وبربادکردیئے اوربنی اسرائیل کوہم نے معجزانہ طریق پربخیروخوبی بحراحمرسے گزاردیا،شکرگزاری کاڈھنگ تویہ ہونا چاہئے تھاکہ بنی اسرائیل اس رب کے گن گاتے رہتے جس نے ان پراحسان کیے تھے ،ان میں رسول معبوث فرمایاتھا جو ایک عرصہ سے انہیں توحیدربی کی پاکیزہ دعوت دے رہاتھا ،جوشرک کی مذمت اوررب کویادکرنے کے لئے نمازکی تلقین کرتاتھا،فرعون اوراس کی قوم کے باطل معبودوں کی بے بسی اورلاچاری وہ خوداپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے کہ ڈوبتے ہوئے قبطیوں کا کوئی بھی معبود ان کی مددپرقادرنہ ہو سکابلکہ انہوں نے ان کوخسارے میں ڈالے رکھا،لیکن جب ان کوقبطیوں سے آزادی مل گئی تووہ چندہی دنوں سب کچھ بھول گئے ،سمندرسے پار خیروعافیت سے گزرنے کے بعد موسیٰ  علیہ السلام بنی اسرائیل علیہ السلام کوواپس مصرنہیں لے گئے کیونکہ مصرناقابل اصلاح ہوچکاتھااس کی باقیات بھی کم خطرناک نہ تھیں ،اس کے علاوہ بنی اسرائیل کی تربیت بھی مقصودتھی اس لئے اپنی منزل مقصودسرزمین شام وفلسطین کی بستیوں کی طرف ہجرت کرتے ہوئے جنوب کی طرف چل پڑے (پھر داود  علیہ السلام کے زمانہ نبوت ۱۰۱۳ قبل مسیح سے ۹۷۳ قبل مسیح تک بنی اسرائیل کے ساتھ جوبھی واقعات پیش آئے سب جزیرہ نمائے سینا،شمالی عرب ،شرق اردن اورفلسطین میں پیش آئے) اورعیون موسیٰ  علیہ السلام ، مارہ ،ایلیم ،المرخہ اورفاران رفیدیم کے راستے سیناء جاپہنچے (جوآجکل جبل موسٰی کے نام سے منسوب ہے )دوران سفر بنی اسرائیل کاایک بت پرست قوم پرگزر ہوا جومصریوں کی طرح اپنے ہاتھوں پتھرکے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کر رہے تھے،

قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ: وَكَانُوا یَعْبُدُونَ أَصْنَامًا عَلَى صُوَرِ الْبَقَرِ، فَلِهَذَا أَثَارَ ذَلِكَ شُبْهَةً لَهُمْ فِی عِبَادَتِهِمُ الْعِجْلَ

ابن جریج نے لکھاہے یہ لوگ گائے کی صورت کے مطابق بنے ہوئے بتوں کی پوجاکرتے تھے تواس بات نے ان کے دلوں میں پھر سے بچھڑے کی محبت کاولولہ تازہ کردیا۔[76]

بنی اسرائیل ایک عرصہ تک قبطی قوم کے غلام رہے تھے جوفرعون کورب الاعلی ٰ کہتے اوربے شمار چھوٹے بڑے پانچ سو بتوں کی پوجاکرتے تھے، بنی اسرائیل حالانکہ مسلمان تھے مگرغلامی زندگی بسرکرتے ہوئےفرعون کی قوم کامشرکانہ رنگ ان پربھی چڑ ھ چکاتھااس جاہل قوم کودیکھ کر موسٰی کوکہنے لگے کہ اے موسیٰ ! علیہ السلام ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود بنادے جیسے ان لوگوں کامعبودہے تاکہ ہم بھی اسے دیکھ کر عبادت کریں ، موسیٰ نے انہیں ڈانٹ کرکہاتم اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال سے محض ناواقف اور ناشکرے لوگ ہو، ان لوگوں کایہ فعل باطل ہے جو ان لوگوں کے لئے خسارے کاباعث اور رب کو ناراض کرنے والاہے ،کیاتم نے دیکھانہیں جب چندروز بیشتر رب نے تمہیں فرعون اوراس کے لشکروں سے نجات دی ہے، جوایسے ہی بے شمار باطل معبودوں کی عبادت کرتے تھےتوکیاان باطل معبودوں نے فرعون اوراس کے لشکرکو عذاب الٰہی سے بچالیا،اس قوم کے مورتیوں کے پجاری جن کے حال نے تمہیں دھوکے میں مبتلاکردیاہے ان کامقدرتباہی وبربادی کے سواکچھ نہیں ، اور کیامیں رب العالین کے سواجس نے تم پراتنے احسانات کیے فرعون جیسے ظالم اورجابربادشاہ سے تمہیں نجات بخشی جس نے تم پرظلم وستم کے پہاڑتوڑڈالے تھے ،جوتمہاری نسل کشی کرتاتھاتمہاری بیٹیوں کوزندہ رکھتاتھا اور بیٹوں کوقتل کردیتاتھا،تم پرجوبھی ظلم وستم ہوااس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ،چنانچہ رب نے تمہارے صبرکی بدولت تمہیں جہانوں پر فضیلت دی اورپیشوا بنایا، اس قدردان رب کوچھوڑ کر کیا میں تمہاراکوئی اور رب تلاش کروں جواپنی ذات ،صفات اورافعال میں آپ محمود ہے ،مختلف چیزوں سے تراشے ہوئے یہ بے جان بت توکچھ نہیں کرسکتے اور یہ کتنی بڑی ناشکری ہے کہ احسان کرے تم پر اللہ تعالیٰ اور پوجا پاٹ کروتم ان بے جان معبودوں کی جواس کی مخلوق ہے ۔

وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِینَ لَیْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِیهِ هَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿١٤٢﴾‏ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِیقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِی أَنظُرْ إِلَیْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِی وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِی ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَیْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١٤٣﴾‏قَالَ یَا مُوسَىٰ إِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِی وَبِكَلَامِی فَخُذْ مَا آتَیْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِینَ ‎﴿١٤٤﴾‏ (الاعراف)
’’اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ کیااور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا، سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا، اور جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں ایک نظر آپ کو دیکھ لوں ،ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے،پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہو کر گرپڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا بے شک آپ کی ذات منزہ ہےمیں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں، ارشاد ہوا اے موسیٰ ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے تو جو کچھ تم کو میں نے عطا کیا ہے اس کو لو اور شکر کرو ۔‘‘

جب بنی اسرائیل غلامی سے نجات حاصل کرکے جزیرہ نماسینامیں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ  علیہ السلام کوپہلی مرتبہ ستربرگزیدہ آدمیوں کے ہمراہ چالیس راتوں کے لئے کوہ طورکے داہنی طرف بلایاتاکہ بنی اسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کے لئے کتاب(شریعت) دی جائے، موسٰی ،ہارون علیہ السلام کو(اس مقام پرچھوڑکرجوآجکل بنی صالح اورکوہ سیناء کے درمیان وادی شیخ کہلاتی ہے،اوروہ حصہ جہاں بنی اسرائیل نے پڑاؤڈالاتھاآجکل میدان الراحہ کہلاتاہے) اپناخلیفہ بناکرکوہ طورپرچلے گئے ،موسیٰ علیہ السلام جب روانہ ہونے لگے تو اپنے بھائی اوروزیرہارون علیہ السلام کو جن کافرض منصبی بھی ہدایت و اصلاح تھااپنی نیابت کے لئے بنی اسرائیل میں چھوڑگئے اوران کونصیحت فرمائی کہ دیکھومیرے بعدمیری قوم کی اچھے  طورپرجانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کرتے رہنا اور مفسدین کے راستہ پر نہ چلنا،جب موسٰی منتخب آدمیوں کوپیچھے چھوڑکر وقت سے پہلے طورپرپہنچ گئے تواللہ تعالیٰ نے پوچھا

وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُــوْسٰى۝۸۳قَالَ هُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓی اَثَرِیْ وَعَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى۝۸      [77]

ترجمہ:اورکیاچیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسی علیہ السلام !اس نے عرض کیاوہ بس میرے پیچھے آرہے ہیں میں جلدی کرکے تیرے حضور آگیا ہوں اے میرے رب! تاکہ تومجھ سے خوش ہوجاے۔

اور رب سے براہ راست گفتگو ہوئی توموسیٰ  علیہ السلام کے دل میں رب کریم کے دیدارکااشتیاق پیداہوا،التجاکی اے میرے پروردگار!مجھے اپنادیدار کرادے کہ میں بس ایک نظرآپ کو دیکھ لوں ،اللہ رب العالمین نے فرمایااے موسیٰ  علیہ السلام !تم نے گزارش توکی ہے مگراس وقت تم مجھے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،اس سے معتزلہ نے یہ استدلال کیاہے کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدارنہ ہوگا کیونکہ لن ابدی نفی کے لئے آتاہے ،لیکن یہ خیال بالکل ہی بوداہے کیونکہ متواتراحادیث سے ثابت ہے کہ اہل ایمان کوروزقیامت اللہ کا دیدارہوگا،اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝۲۲ۙاِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۝۲۳ۚ       [78]

ترجمہ:اس روزکچھ چہرے تروتازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔

اور مجرم اللہ کے دیدار سے محروم ہوں گے۔

كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ۝۱۵ۭ [79]

ترجمہ: ہرگز نہیں ،بالیقین اس روزیہ اپنے رب کی دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔

یہ نفی دنیا کے لئے ہے آخرت کے لئے نہیں ،آخرت میں تومومنین چہرہ انورکے جلوے سے متمتع ہوں گے ،

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ، آنِیَتُهُمَا وَمَا فِیهِمَا وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، آنِیَتُهُمَا وَمَا فِیهِمَا وَمَا بَیْنَ القَوْمِ وَبَیْنَ أَنْ یَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الكِبْرِ، عَلَى وَجْهِهِ فِی جَنَّةِ عَدْنٍ

عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوجنتیں چاندی کی ہوں گی ،اس کے برتن اورسب چیزیں چاندی کی ہوں گی،اوردوجنتیں سونے کی ہوں گی اس کے برتن اورسب چیزیں سونے کی ہوں گی، اورلوگوں کواپنے پروردگارکے دیکھنے میں کوئی آڑنہ ہوگی،جنت العدن میں سوائے ایک بزرگی کی چادر کے جواللہ کے منہ پرہوگی۔[80]

فرمایا ہاں میں سامنے والے پہاڑپرتجلی کرتاہوں اگرپہاڑمیری تجلی سے اپنی جگہ پرقائم رہا توتم مجھے دیکھ سکو گے، چنانچہ رب نے پہاڑپرتجلی فرمائی ، بھلا پہاڑ رب کی تجلی کوکیسے برداشت کرسکتاتھااس کے پرخچے اڑگئے اورموسٰی  اللہ کے جلال کی برداشت نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوکرگرپڑے،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى:{فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ} قَالَ:قَالَ: هَكَذَا، یَعْنِی أَنَّهُ أَخْرَجَ طَرَفَ الْخِنْصَرِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کریمہ’’ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلّی کی ۔‘‘کی تفسیریوں منقول ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی انگلی خنصرکاایک کنارہ (یااس کے بقدر)ہی ظاہرفرمایاتھا۔[81]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِ اللَّهِ:{فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا}قَالَ: مَا تَجَلَّى مِنْهُ إِلَّا قَدْرُ الْخِنْصَرِ. {جَعَلَهُ دَكًّا} قَالَ: تُرَابًا. {وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا} قَالَ: مَغْشِیًّا عَلَیْهِ ،جَعَلَهُ دَكًّاوَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلّی کی تو اسے ریزہ ریزہ کردیا۔‘‘کے بارے میں روایت ہے اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی انگلی خنصرہی کے بقدرجلوہ فرمایااورپہاڑمٹی کی طرح ریزہ ریزہ کردیا’’اورموسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوکرگرپڑے۔‘‘[82]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الیَهُودِ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ لُطِمَ وَجْهُهُ، وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِكَ مِنَ الأَنْصَارِ لَطَمَ فِی وَجْهِی، قَالَ:ادْعُوهُ فَدَعَوْهُ، قَالَ:لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی مَرَرْتُ بِالیَهُودِ، فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ: وَالَّذِی اصْطَفَى مُوسَى عَلَى البَشَرِ، فَقُلْتُ: وَعَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَخَذَتْنِی غَضْبَةٌ فَلَطَمْتُهُ، قَالَ:لَا تُخَیِّرُونِی مِنْ بَیْنِ الأَنْبِیَاءِ، فَإِنَّ النَّاسَ یَصْعَقُونَ یَوْمَ القِیَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ یُفِیقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ العَرْشِ، فَلَا أَدْرِی أَفَاقَ قَبْلِی أَمْ جُزِیَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سےمروی ہےایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااس کے منہ پرکسی نے طمانچہ ماراتھااس نے کہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے میرے چہرے پر تھپڑ مارا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہیں بلاؤ، لوگوں نے انہیں بلایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاکہ تم نے اسے طمانچہ کیوں ماراہے؟اس نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں یہودیوں کی طرف سے گزراتومیں نے سناکہ یہ کہہ رہاتھااس ذات کی قسم!جس نے موسیٰ علیہ السلام کوتمام انسانوں پر فضیلت دی،میں نے کہااور کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پربھی؟مجھے اس بات پرغصہ آگیااورمیں نے اسے طمانچہ ماردیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیاکرو قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش کردیئےجائیں گے سب سے پہلے میں ہوش آؤں گالیکن موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گاکہ وہ عرش کاایک پایہ تھامے کھڑے ہیں ، اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یاانہیں کوہ طورکی بے ہوشی کے بدلے میں میدان محشرکی بے ہوشی سے مستثنیٰ رکھاگیا۔[83]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شایدموسیٰ  علیہ السلام ان میں سے ہوں جن کااللہ تعالیٰ نے بے ہوشی سے استثنا کر لیا۔[84]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ یَنْبَغِی لِعَبْدٍ أَنْ یَقُولَ: أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے لئے یہ کہنالائق نہیں کہ میں یونس بن متی  علیہ السلام سے افضل ہوں ۔[85]

جب موسٰی کوہوش آیاتو  اللہ  تعالی ٰ کی پاکیزگی اورتعظیم وجلال بیان کرنے لگے بولے اے میرے رب! توپاک ہے، میں تیراعاجزبندہ ہوں اوردنیامیں تیرے دیدار کا متحمل نہیں ہو سکتا،میں تیرے حضوراپنے سوال سے توبہ کرتا ہوں ،رب نے فرمایا اے موسٰی !ہم نے تجھے تمام لوگوں پرترجیح دے کررسول منتخب کیا ہے تاکہ توہماری پیغمبری کرے اورہم سے ہم کلام ہوپس میں نے جومناجات اورکلام تجھے دیاہے اسے تھام لے اورمضبوطی سے اس پراستقامت رکھ اورجتناہوسکے میراشکراداکرو۔

وَكَتَبْنَا لَهُ فِی الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِیلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ یَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ سَأُرِیكُمْ دَارَ الْفَاسِقِینَ ‎﴿١٤٥﴾‏ سَأَصْرِفُ عَنْ آیَاتِیَ الَّذِینَ یَتَكَبَّرُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَإِن یَرَوْا كُلَّ آیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوا بِهَا وَإِن یَرَوْا سَبِیلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوهُ سَبِیلًا وَإِن یَرَوْا سَبِیلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوهُ سَبِیلًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِینَ ‎﴿١٤٦﴾‏ وَالَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ۚ هَلْ یُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٤٧﴾(الاعراف)
’’اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل ان کو لکھ کردی، تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لواور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں، اب بہت جلد تم لوگوں کو ان بےحکموں کا مقام دکھلاتا ہوں ، میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں،جس کا ان کو کوئی حق نہیں اور اگر تمام نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں، اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستے دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں، یہ اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے، اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے، ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے ۔‘‘

اس کے بعدہم نے موسیٰ علیہ السلام کوہرشعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اورہرپہلوکے متعلق یعنی احکام شریعت،عقائد،اخلاق اورآداب وغیرہ کی واضح ہدایت پتھرکی تختیوں پرلکھ کردے دی،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَہُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّہُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۝۴۳ [86]

ترجمہ:پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسی علیہ السلام کو کتاب عطا کی، لوگوں کے لیے بصیرتوں کا سامان بنا کر ہدایت اور رحمت بنا کرتاکہ شاید لوگ سبق حاصل کریں ۔

اوراس سے کہاان ہدایات واحکام کوقائم کرنے کی بھرپورجدوجہدکرو اور اپنی قوم کوحکم دو کہ رخصتوں کی تلاش کرنے،حیلے بہانوں اورفتنوں کی گنجائش نکالنے کے بجائے ان کے بہترمفہوم کی پیروی کریں ،عنقریب میں تم لوگوں کو ان اقوام کے آثاروکھنڈرات دکھلاؤں گا جنہوں نے اللہ کی بندگی واطاعت سے منہ موڑااورغلط روی اختیارکی ،ان عبرت ناک آثاروکھنڈرات کودیکھ کرتمہیں خودمعلوم ہوجائے گاکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی کی راہ سے منہ موڑنے والوں کاکیاانجام ہوتاہے ،میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیردوں گاجو بغیرکسی حق کے اللہ کی زمین میں اللہ کی آیات واحکام کے مقابلے میں اوراللہ کے بندوں کے ساتھ تکبرکرتے ہیں اورایساطرزعمل اختیارکرتے ہیں کہ وہ نہ اللہ کے بندے ہیں اورنہ ہی اللہ رب العالمین ان کارب ہے ،پھروہ حق سے اتنے دورہوجائیں گے کہ کسی طرح کی بھی نشانی انہیں حق کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوگی ،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙوَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۝۹۷ [87]

ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پرتیرے رب کاقول راست آگیاہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آ جائے وہ کبھی ایمان لاکرنہیں دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتانہ دیکھ لیں ۔

احکام الٰہی سے اعراض کرنے والوں کاطریقہ یہ ہے کہ اگرہدایت واستقامت کی راہ ان کے سامنے آجائے جواللہ رب العزت تک اورعزت واکرام کے گھرتک پہنچاتاہے تواسے اختیارنہ کریں گے اوراگرگمراہی کاراستہ نظرآجائے جوبدبختی کی منزل ہے تولپک کراس پررواں دواں ہوجائیں گےاس لئے کہ انہوں نے ہماری عظیم نشانیوں کوجھٹلایااوران سے بے پروائی کرتے رہے ، جس کسی نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایااورروزآخرت اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونے کاانکارکیااوراسی عقیدے پران کی موت واقع ہوئی کیونکہ ان کی کوئی اساس نہ تھی اوران کے صحیح ہونے کی شرط مفقودتھی اس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ، کیالوگ اس کے سواکچھ اورجزاپاسکتے ہیں کہ جیساکریں ویسابھریں ۔

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ یَرَوْا أَنَّهُ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَلَا یَهْدِیهِمْ سَبِیلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِینَ ‎﴿١٤٨﴾‏ وَلَمَّا سُقِطَ فِی أَیْدِیهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِن لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿١٤٩﴾‏وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِی مِن بَعْدِی ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِیهِ یَجُرُّهُ إِلَیْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَكَادُوا یَقْتُلُونَنِی فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٥٠﴾‏ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِأَخِی وَأَدْخِلْنَا فِی رَحْمَتِكَ ۖ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ‎﴿١٥١﴾(الاعراف)
’’ اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیاجو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی،کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بےانصافی کا کام کیا ،اور جب نادم ہوئے اور معلوم ہوا کہ واقعی وہ لوگ گمراہی میں پڑگئے تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب! ہم پر رحم نہ کرےاور ہمارا گناہ معاف نہ کرے تم ہم بالکل گئے گزرے ہوجائیں گے،اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی ؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کرلی، اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے، ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے ! ان لوگوں نے مجھ کو بےحقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو ، موسٰی (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب ! میری خطا معاف فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘

مصرمیں گائے کی پرستش اورتقدیس کارواج تھااوربنی اسرائیل اس سے شدت کے ساتھ متاثرہوچکے تھے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِـجْلَ بِكُفْرِھِمْ۔۔۔۝۰۝۹۳           [88]

ترجمہ: ان کی باطل پرستی کایہ حال تھاکہ دلوں میں ان کے بچھڑاہی بساہواتھا۔

چنانچہ فرعون کی غلامی سے نکلنے کے بعدانہوں نے موسیٰ  علیہ السلام سے ایک پتھرکے معبود کی فرمائش کی اورپھر صرف تین مہینے کے بعد جب موسیٰ علیہ السلام کتاب لینے کے لئے کوہ سیناپرتشریف لے گئے توان کے پیچھے سامری نے بنی اسرائیل کے سونے کے زیورات اکٹھے کرکے بچھڑے کا کھوکھلا پتلا بنا لیااوراس میں خاک کی ایک مٹھی بھی ڈال دی ،چنانچہ اس پتلے میں سے جب ہواگزرتی تواس میں سے بیل کی سی آوازنکلتی تھی ،کیاانہیں نظرنہ آتاتھاکہ وہ نہ ان سے بولتاہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتاہےاور نہ ان کے نفع ونقصان کاکچھ اختیاررکھتا ہے۔مگرپھربھی انہوں نے اسے معبودبناکراس کی پرستش شروع کردی اوروہ سخت ظالم تھے ، جیسے فرمایا

۔۔۔وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ۝۸۷ۙفَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــهُكُمْ وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِیَ۝۸۸ۭاَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِـــعُ اِلَیْهِمْ قَوْلًا۝۰ۥۙ وَّلَا یَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝۸۹ۧ         [89]

ترجمہ:معاملہ یہ ہواکہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لدگئے تھے اورہم نے بس انکو پھینک دیاتھا پھراسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اوران کے لئے ایک بچھڑے کی صورت بنا کر نکال لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی،لوگ پکاراٹھے یہی ہے تمہارا رب اورموسی علیہ السلام کارب،موسی علیہ السلام اسے بھول گیا،کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے۔

پھرجب ان کی فریب خوردگی کاطلسم ٹوٹ گیا اورانہوں نے خوب جان لیا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں توکہنے لگے کہ اگر ہمارے رب نے ہم پررحم نہ فرمایااورشرک کاجوگناہ عظیم ہم سے صادرہواہے اس سے درگزرنہ کیاتوہم بربادہوجائیں گے ،کوہ سیناسے موسی علیہ السلام غصے اوررنج میں بھراہوااپنی قوم کی طرف پلٹے ، آتے ہی انہوں نے قوم سے کہاتم لوگوں نے میرے بعدبہت بری جانشینی کی، کیاتم لوگوں سے اتنا صبرنہ ہواکہ چنددن اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے اوردینی غیرت وحمیت میں بے خود ہو کر غیراختیاری طورپرتورات کی تختیاں زمین پر پھینک دیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَیْسَ الْمُعَایِنُ كَالْمُخْبَرِ أَخْبَرَهُ رَبُّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّ قَوْمَهُ فُتِنُوا، فَلَمْ یُلْقِ الْأَلْوَاحَ ، فَلَمَّا رَآهَا وَعَایَنَهُمْ أَلْقَى الْأَلْوَاحَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پررحم فرمائےمشاہدہ کرنے والاسنی خبروالے کی طرح نہیں ہوتا،اللہ تعالیٰ نے جب انہیں یہ خبردی کہ ان کی قوم کے لوگ ان کے بعدفتنے میں مبتلاہوگئے ہیں توانہوں نے تختیوں کوزمین پرنہ ڈالا مگرانہوں نےجب قوم کوخوددیکھ لیاتوتختیاں زمین پر ڈال دیں ۔[90]

اورہارون علیہ السلام جن کووہ اپناخلیفہ بناکرگئے تھے کے سراورداڑھی کے بال پکڑکراسے کھینچا، موسیٰ  علیہ السلام اورہارون علیہ السلام سگے بھائی تھے ،اس لئے ہارون علیہ السلام نے کہااے میری ماں کے بیٹے! ان لوگوں نے مجھے کمزورسمجھ کر دبالیااورمیرے روکنے پر مجھے مارڈالنے کے درپے ہوگئے،پس توشرک کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ مجھے شامل کرکے ان جیسامعاملہ نہ کرو،جیسے فرمایا

قَالَ یٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْٓا۝۹۲ۙاَلَّا تَتَّبِعَنِ۝۰ۭ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ۝۹۳ قَالَ یَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَاْسِیْ۝۰ۚ اِنِّىْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ۝۹۴    [91]

ترجمہ:موسی علیہ السلام (قوم کوڈانٹنے کے بعد ہارون علیہ السلام کی طرف پلٹااوربولا) ہارون علیہ السلام !تم نے جب دیکھاتھاکہ یہ گمراہ ہورہے ہیں توکس چیزنے تمہارا ہاتھ پکڑاتھاکہ میرے طریقے پرعمل نہ کرو کیاتم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی،ہارون علیہ السلام نے جواب دیااے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی نہ پکڑنہ میرے سرکے بال کھینچ،مجھے اس بات کاڈرتھا کہ تو آکر کہے گاتم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اورمیری بات کا پاس نہ کیا،ہارون علیہ السلام سے تسلی بخش جواب سن کرموسٰی نے رب سے دعافرمائی اے رب! مجھے اورمیرے بھائی کو معاف کراورہمیں اپنی رحمت میں داخل فرماتوسب سے بڑھ کررحیم ہے۔

‏ إِنَّ الَّذِینَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِینَ ‎﴿١٥٢﴾‏ وَالَّذِینَ عَمِلُوا السَّیِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِهَا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٥٣﴾‏ وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ ۖ وَفِی نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِینَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُونَ ‎﴿١٥٤﴾‏ (الاعراف)
’’بے شک جن لوگوں نے گو سالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی اور ہم افتراپردازوں کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں، اور جن لوگوں نے گناہ کے کام کئے اور پھر ان کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو تمہارا رب اس توبہ کے بعد گناہ معاف کردینے والا، رحمت کرنے والا ہے ،اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان کے مضامین میں ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدایت اور رحمت تھی ۔‘‘

جواب میں ارشادہواکہ جن لوگوں نے مجھ معبودحقیقی کوچھوڑکر بچھڑے کواپنامعبودبنایاتھا وہ ہمارے غضب اورزندگی بھرذلت ورسوائی کے مستحق ہوگئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اپنے خالق سے توبہ کرواورآپس میں ایک دوسرے کوقتل کروپھرتمہاری توبہ قبول ہوگی،جیسے فرمایا

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ۝۰ۭ فَتَابَ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۵۴     [92]

ترجمہ: یاد کرو جب موسی علیہ السلام (یہ نصیحت لئے ہوئے پلٹا) تواس نے اپنی قوم سے کہالوگو!تم نے بچھڑے کومعبود بناکراپنے اوپرسخت ظلم کیاہے لہذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کوہلاک کرواس میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے اس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا معاف کرنے والااوررحم فرمانے والاہے۔

چنانچہ شرک کرنے والوں کوجن کی تعدادتورات کے مطابق تین ہزاربیان کی جاتی ہے ایک صف میں کھڑاکردیا گیا اور جو اس گناہ عظیم سے محفوظ رہے تھے انہوں نے ان کوقتل کردیااس طرح رب العالمین نے ان کی توبہ قبول کرلی کہ شایدوہ شکرگزاربندے بنیں ،رب پر جھوٹ باندھنے والوں کوہم ایسی ہی سزادیتے ہیں ، ہمارے توبہ کے دروازے کھلے ہیں جن لوگوں نے شرک،کبیرہ اورصغیرہ گناہوں کاارتکاب کیاپھر شرمندہ ہوکرخلوص نیت سے اپنے گزشتہ گناہوں پرندامت کریں گے اورہماری نازل شدہ ہدایات پر زندگی گزاریں گے توآپ کا رب انہیں معاف کردے گاخواہ یہ زمین بھرہی کیوں نہ ہوں ،اللہ بڑا ہی غفورورحیم ہے،جب موسٰی نے پوری تحقیق کرلی اوران کاغصہ کچھ ٹھنڈاہواتوانہوں نے رب کی عطاکردہ جلیل القدرتختیاں جس میں رب کی طرف سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت اوراپنی رحمت کے احکام دیئے گئے تھے اور جوگرنے کی وجہ سے ٹوٹی نہیں تھیں اٹھالیں ،بعض کہتے ہیں چندتختیاں ٹوٹ گئی تھیں ۔

وَاخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِینَ رَجُلًا لِّمِیقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِیَّایَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖ إِنْ هِیَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِی مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَیْرُ الْغَافِرِینَ ‎﴿١٥٥﴾‏ وَاكْتُبْ لَنَا فِی هَٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَیْكَ ۚ قَالَ عَذَابِی أُصِیبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ وَیُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِینَ هُم بِآیَاتِنَا یُؤْمِنُونَ ‎﴿١٥٦﴾(الاعراف)
’’اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لیے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا تو موسیٰ (علیہ السلام) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار !اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کردیتا، کیا تو ہم میں سے چند بیوقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردے گا ؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے، تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما، اور تو سب معافی دینے والوں سے زیادہ اچھا ہے ،اور ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دے اور آخرت میں بھی، ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے، تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘

اورموسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے ستربرگزیدہ آدمیوں کو منتخب کیا(تاکہ وہ اس کے ساتھ) ہمارے مقررکیے ہوے وقت پرحاضرہوں ،راستے میں ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے اوربجلی کی کڑک نے آ پکڑااوروہ بطورعذاب ہلاک کردیئے گئے ،یہ ستربرگزیدہ آدمی کون تھے ،اس سلسلہ میں بعض مفسرین کی رائے ہے کہ جب موسیٰ  علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو تورات کے احکام سنائے توانہوں نے شک وشبہ کااظہارکیااور کہاہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ کتاب واقعی اللہ تعالیٰ طرف سے نازل شدہ ہے؟ہم توجب تک خوداللہ تعالیٰ کوکلام کرتے ہوئے نہ سن لیں اسے تسلیم نہیں کریں گے ،چنانچہ موسیٰ  علیہ السلام نے اپنی قوم کے ستربرگزیدہ آدمیوں کو منتخب کیااورانہیں کوہ سیناپرلے گئے ،وہاں اللہ تعالیٰ موسیٰ  علیہ السلام سے ہمکلام ہواجسے ان لوگوں نے بھی سنالیکن وہاں انہوں نے ایک نیامطالبہ کردیاکہ ہم توجب تک اللہ کواپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں گے ایمان نہیں لائیں گے ،بعض کی رائے یہ ہے کہ یہ ستر برگزیدہ آدمی وہ تھے جو بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ اور معذرت اور ازسرنواطاعت کاعہداستوار کرنے کے لئے پوری قوم کی طرف سے موسیٰ  علیہ السلام کے ساتھ کوہ سینا پر گئے تھے اوروہاں جاکرانہوں نے اللہ کودیکھنے کی خواہش ظاہرکی ،جیسے فرمایا

وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۵ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۵۶ [93]

ترجمہ:یادکرو جب تم نے موسی علیہ السلام سے کہاتھاکہ ہم تمہارے کہنے کاہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ  اللہ کو(تم سے کلام کرتے)نہ دیکھ لیں ،اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست(بجلی کے) کڑاکے نے تم کوآلیاتم بے جان ہوکرگرچکے تھے مگرپھرہم نے تم کوجلا اٹھایا شاید کہ اس احسان کے بعدتم شکرگزار بن جاؤ۔

۔۔۔فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ۔۔۔ ۝۱۵۳ [94]

ترجمہ:اس سے تو انہوں نے کہاتھاکہ ہمیں اللہ کواعلانیہ دکھادواوراسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پربجلی ٹوٹ پڑی تھی۔

بعض کی رائے ہے کہ یہ ستربرگزیدہ آدمی وہ تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھالیکن انہیں اس سے منع نہیں کیا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، {وَاخْتَارَ مُوسَى قَوْمَهُ سَبْعِینَ رَجُلًا لِمِیقَاتِنَا} قَالَ: كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَهُ أَنْ یَخْتَارَ مِنْ قَوْمِهِ سَبْعِینَ رَجُلًا فَاخْتَارَ سَبْعِینَ رَجُلًافَبَرَزَ بِهِمْ لِیَدْعُوا رَبَّهُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَكَانَ فِیمَا دَعُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَعْطِنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا قَبْلَنَا، وَلَا تُعْطِ أَحَدًا بَعْدَنَافَكَرِهَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ ذَلِكَ مِنْ دُعَائِهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کریمہ’’اور موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کے ستّر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں ۔‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوحکم دیاکہ وہ اپنی قوم سے سترآدمیوں کاانتخاب کریں توانہوں نے ستربرگزیدہ آدمیوں کوکوہ طورپرلے جانے کے لئے انتخاب کیا اورانہیں باہرلے گئے تاکہ وہ اپنے رب تعالیٰ سے دعاکریں ، وہاں جاکرانہوں نے اللہ عزوجل سے دعائیں کیں جن میں ایک دعایہ بھی تھی کہ یااللہ ہمیں تووہ کچھ عطافرماجواس سے قبل تونے کسی کوعطانہیں کیااورنہ آئندہ وہ کسی کوعطاکرنااللہ تعالیٰ کودعاپسندنہ آئی جس پروہ زلزلے اوربجلی کی کڑک سے ہلاک کردئے گئے۔[95]

مگرزیادہ ترمفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں ،موسٰی اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے کہ واپس جاکر قوم کوکیاجواب دیں گے،چنانچہ موسٰی نے رب سے ان کی زندگی کی دعا فرمائی کہ اے ہمارے رب! اگر توچاہتاتوان لوگوں کواس وقت ہلاک کردیتاجب یہ بچھڑے کی پوجاپاٹ میں لگے ہوئے تھے، اے میرے رب! کیاچند لوگوں کی کرنی کی سزاتوہم سب کودے گایہ توتیری آزمائش ہے جس کے زریعہ سے توجس کوچاہتاہے ہدایت دیتا ہے اورجس کوچاہتاہے گمراہ کردیتاہے ،اس دنیااورآخرت میں تو ہی ہمارا کارسازہے، ہماری مغفرت فرمااورہم پررحم کرتو تمام معاف کرنے والوں سے زیادہ بہترمعاف کر دینے والاہے اوراے ہمارے رب! اس دنیامیں بھی ہمارے لئے اپنی رحمت سے بھلائیاں لکھ دے اورآخرت میں بھی بھلائی لکھ دے ہم تم سے توبہ کرتے ہیں ،  اللہ تعالیٰ نے دعاکے جواب میں فرمایاکہ میں اپناعذاب اسی پرواقع کرتاہوں جس پرچاہتا ہوں یعنی اس کوجوبدبخت ہے اوربدبختی کے اسباب اختیارکرتاہے اورمیری بے پایاں رحمت نے عالم علوی اورعالم سفلی ،نیک اوربد،مومن اورکافرسب کو ڈھانپ رکھاہے ،کوئی مخلوق ایسی نہیں جس پراللہ تعالیٰ کی رحمت سایہ کناں نہ ہواوراس کے فضل وکرم نے اس کاڈھانپ نہ رکھاہو۔

۔۔۔رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا۔۔۔ ۝۷ [96]

ترجمہ: اے ہمارے رب! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ۔

جُنْدُبٌ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ فَأَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، ثُمَّ عَقَلَهَا، ثُمَّ صَلَّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَتَى رَاحِلَتَهُ، فَأَطْلَقَ عِقَالَهَا ثُمَّ رَكِبَهَا، ثُمَّ نَادَى: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِی وَمُحَمَّدًا، وَلَا تُشْرِكْ فِی رَحْمَتِنَا أَحَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَقُولُونَ هَذَا أَضَلُّ أَمْ بَعِیرُهُ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ:لَقَدْ حَظَرْتَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ رَحْمَةً وَاحِدَةً یَتَعَاطَفُ بِهَا الْخَلَائِقُ، جِنُّهَا وَإِنْسُهَا وَبَهَائِمُهَا، وَعِنْدَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ، أَتَقُولُونَ هُوَ أَضَلُّ أَمْ بَعِیرُهُ؟

جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ ایک اعرابی آیا اس نے اپنی اونٹنی کوبٹھایاپھراسے باندھ دیا اورپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز اداکی،نماز سے فراغت کے بعد وہ اپنی سواری کے پاس آیااس کی رسی کھولی اور اس پر سوار ہوگیاپھر اس نے بلند آواز سے یہ دعاء کی کہ اے اللہ ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور اپنی اس رحمت میں ہمارے ساتھ کسی کو شریک نہ فرما،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا یہ بتاؤ کہ یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ ؟ تم نے سنا نہیں کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تو نے اللہ کی وسیع اوربے پایاں رحمت کو محدود کر دیاہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے سوطرح کی رحمتیں پیدا فرمائی ہیں اوران میں سے ایک رحمت نازل فرمادی جس کی وجہ سے تمام مخلوقات جن وانس اور حیوانات تک ایک دوسرے پر رحم اور مہربانی کرتے ہیں اور بقیہ ننانوے رحمتیں اسی کے پاس ہیں ، اب بتاؤ کہ یہ زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ ؟ ۔[97]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَیْنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ وَالْهَوَامِّ، فَبِهَا یَتَعَاطَفُونَ، وَبِهَا یَتَرَاحَمُونَ، وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى وَلَدِهَا، وَأَخَّرَ اللهُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَةً، یَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصہ ہیں ،ان میں سے ایک رحمت جنوں ،آدمیوں ،جانوروں اورکیڑوں میں اتاری،اسی ایک رحمت کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے پررحم کرتی ہے اوروحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں اوراس نے اپنی رحمت کے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں  جن کا اظہار روز قیامت ہوگا۔[98]

مگراللہ تعالیٰ کی خاص رحمت جودنیاوآخرت کی سعادت کی باعث ہوتی ہے وہ ہر ایک کونصیب نہیں ہوتی ، اوروہ میں ان لوگوں کے حق میں لکھ دوں گا جو ہمارے احکامات کی نافرمانی سے کنارہ کش رہیں گے،یعنی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ۔۔۔  ۝۵۴ [99]

ترجمہ :تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے ۔

جو نمازقائم کریں گے، غریبوں محتاجوں اورضرورت مندوں کوزکواة دیں گے،ہمارے دین کونافذکرنے کی کوشش کریں گے اورہماری نشانیوں پر ایمان لائیں گے ، جس پر  اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کیا اورانہیں دوبارہ زندہ کردیاکہ شایداس احسان کے بعدوہ  اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جائیں ۔

الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ یَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبَائِثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِی كَانَتْ عَلَیْهِمْ ۚ فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿١٥٧﴾‏ قُلْ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَیْكُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ یُحْیِی وَیُمِیتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِی یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿١٥٨﴾(الاعراف)
’’ جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں،سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہےاس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ ۔‘‘

موسیٰ  علیہ السلام کی دعاکے جواب کے بعدموقع کی مناسبت سے فوراًبنی اسرائیل کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دی گئی ،فرمایاپس آج یہ رحمت ان لوگوں کاحصہ ہے جواس پیغمبرنبی امی کی پیروی اختیارکریں جس کانام اورصفات کاذکرانہیں تورات اورانجیل میں لکھاہواملتاہے ،

عَنْ أَبِی صَخْرٍ الْعُقَیْلِیِّ، حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنَ الْأَعْرَابِ، قَالَ: جَلَبْتُ جَلُوبَةً إِلَى الْمَدِینَةِ فِی حَیَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ بَیْعَتِی قُلْتُ: لَأَلْقَیَنَّ هَذَا الرَّجُلَ فَلَأَسْمَعَنَّ مِنْهُ، قَالَ: فَتَلَقَّانِی بَیْنَ أَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ یَمْشُونَ، فَتَبِعْتُهُمْ فِی أَقْفَائِهِمْ حَتَّى أَتَوْا عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْیَهُودِ نَاشِرًا التَّوْرَاةَ یَقْرَؤُهَا، یُعَزِّی بِهَا نَفْسَهُ عَلَى ابْنٍ لَهُ فِی الْمَوْتِ، كَأَحْسَنِ الْفِتْیَانِ وَأَجْمَلِهِ،

ابوصخرعقیلی سے مروی ہےمجھ سے ایک اعرابی نے یہ بیان کیاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دودھ والے جانور مدینہ منورہ لے گیا جب میں  انہیں بیچ کرفارغ ہواتو میں نے کہاکہ میں اس شخص سے ضرور ملوں گااوران کی دعوت کوسنوں گا،میری آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ملاقات ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے درمیان چل رہے تھےمیں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا حتی کہ یہ حضرات ایک یہودی کے پاس آئے جوتورات کوکھولے ہوئے اسے پڑھ رہاتھااوراس سے وہ اپنے اس بیٹے کے بارے میں تسلی حاصل کررہاتھا جوبڑاہی خوبصورت نوجوان تھااورموت وحیات کی کشمکش میں مبتلاتھا،

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْشُدُكَ بِالَّذِی أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ، هَلْ تَجِدُ فِی كِتَابِكَ ذَا صِفَتِی وَمَخْرَجِی؟ ، فَقَالَ بِرَأْسِهِ هَكَذَا، أَیْ: لَا، فَقَالَ ابْنُهُ: إِی وَالَّذِی أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ إِنَّا لَنَجِدُ فِی كِتَابِنَا صِفَتَكَ وَمَخْرَجَكَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: «أَقِیمُوا الْیَهُودَ عَنْ أَخِیكُمْ ، ثُمَّ وَلِیَ كَفَنَهُ وَجَنَنَهُ وَالصَّلَاةَ عَلَیْهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مخاطب ہوکرفرمایامیں تجھے اس ذات کی قسم دے کرپوچھتاہوں جس نے تورات کونازل فرمایا ہےکیاتواپنی اس کتاب میں میری صفات اورمیری بعثت کاذکرموجودپاتاہے؟ اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہاکہ نہیں ، مگراس کے بیٹے نے کہاہاں ،اس ذات کی قسم جس نے تورات کونازل فرمایاہے ہم اپنی کتاب میں آپ کے اوصاف اورآپ کی بعثت کاذکرموجودپاتے ہیں اورمیں یہ گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہودیوں کواپنے بھائی کے پاس سے اٹھادو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کفن ودفن کااہتمام فرمایااوراس کی نمازجنازہ ادافرمائی۔[100]

عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: لَقِیتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِی عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی التَّوْرَاةِ، قَالَ: أَجَلْ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِی التَّوْرَاةِ كَصِفَتِهِ فِی الْقُرْآنِ: {یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا} [الأحزاب: 45] وَحِرْزًا لِلْأُمِّیِّینَ، أَنْتَ عَبْدِی وَرَسُولِی، سَمَّیْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ، لَیْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِیظٍ وَلَا صَخَّابٍ فِی الْأَسْوَاقِ، وَلَا یَجْزِی بِالسَّیِّئَةِ السَّیِّئَةَ، وَلَكِنْ یَعْفُو وَیَصْفَحُ وَلَنْ نَقْبِضَهُ حَتَّى نُقِیمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ، بِأَنْ یَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَنَفْتَحُ بِهِ قُلُوبًا غُلْفًا وَآذَانًا صُمًّا، وَأَعْیُنًا عُمْیًا. قَالَ عَطَاءٌ: ثُمَّ لَقِیتُ كَعْبًا فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَمَا اخْتَلَفَا حَرْفًا، إِلَّا أَنَّ كَعْبًا قَالَ بِلُغَتِهِ: قُلُوبًا غُلُوفِیَا. وَآذَانًا صُمُومِیَا، وَأَعْیُنًا عُمُومِیَا

عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، اوران سے عرض کی کہ مجھے یہ بتایئے کہ تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیااوصاف لکھے ہوئے ہیں ؟انہوں نے کہااللہ کے قسم !تورات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہی اوصاف بیان کیے گئے ہیں جوقرآن کریم میں مذکورہیں ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہیں گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ آپ ان پڑھوں کے لیے محافظ اورمیرے عبداوررسول ہیں ، میں نے آپ کانام متوکل رکھاہے، آپ بدخواورسخت دل نہیں ہیں اورنہ بازاروں میں شوروغل مچانے والے ہیں ،اور نہ برائی کابدلہ برائی سے دینے والے ہیں بلکہ معاف اوردرگزرکرنے والے ہیں ،ہم اس وقت تک آپ کواپنے پاس نہیں بلائیں گے جب تک کج روملت کوآپ کے ساتھ سیدھاکردیں ، کہ وہ لاالٰہ الااللہ کہنے لگ جائیں ،ہم آپ کے ساتھ بنددلوں ،بہرے کانوں اوراندھی آنکھوں کو درست فرمادیں گے، عطاء بیان کرتے ہیں اس کے بعدمیں کعب سے ملااوران سے یہ سوال کیاتوانہوں نے بھی بعینہ یہی جواب دیاسوائے اس کے انہوں نے غلفاکے بجائے غلوفیااورصماکے بجائے صمومیااورعمیا کے بجائے عمومیا کہا۔[101]

موسیٰ  علیہ السلام کے زمانے میں تم پراللہ کی رحمت نازل ہونے کے لئے جوشرائط عائدکی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اوردراصل یہ انہی شرائط کاتقاضاہے کہ تم اس پیغمبرپرایمان لاؤ،تم سے کہاگیاتھاکہ اللہ کی رحمت ان لوگوں کاحصہ ہے جواللہ کی نافرمانی سے پرہیز کریں تو آج سب سے بڑی بنیادی نافرمانی یہ ہے کہ سیدالامم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب جس کواللہ نے تمہاری طرف مبعوث کیاہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے لہذاجب تک اس نافرمانی سے پرہیزنہ کروگے تقویٰ کی جڑہی سرے سے قائم نہ ہوگی خواہ جزئیات وفروعات میں تم کتناہی تقویٰ بگھارتے رہو،تم سے کہا گیا تھاکہ اللہ کی رحمت سے حصہ پانے کے لئے زکواة بھی ایک شرط ہےتوآج کسی انفاق مال پراس وقت تک زکوٰة کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامت دین حق کی اس جدوجہدکا ساتھ نہ دیاجائے جواس پیغمبرکی قیادت میں ہو رہی ہےلہذاجب تک اس راہ میں مال صرف نہ کروگے زکوٰة کی بنیادہی استوارنہ ہوگی چاہے کتنی ہی خیرات اور نذر ونیاز کرتے رہو،تم سے کہاگیاتھاکہ اللہ نے اپنی رحمت صرف ان لوگوں کے لئے لکھی ہے جواللہ کی آیات پرایمان لائیں توآج جوآیات اس پیغمبرپرنازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کر کے تم کسی طرح بھی آیات الٰہی کے ماننے والے قرارنہیں پاسکتےلہذاجب تک ان پرایمان نہ لاؤگے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہوگی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کاتم کتناہی دعویٰ کرتے رہو ،پیغمبر انہیں نیکی کاحکم دیتاہے ،شرک ،قتل ناحق ،زنا،شراب اورنشہ دارمشروبات پینے ،تمام مخلوق پرظلم کرنے ،جھوٹ ،فسق وفجور اور دیگر برائیوں سے روکتا ہے ، ان کے لئے ماکولات،مشروبات اورمنکوحات میں سے طیبات اور پاک چیزوں کو حلال قراردیتا ہے اورماکولات اورمشروبات میں سے ناپاک چیزوں ،ناپاک اقوال وافعال اورناپاک عورتوں کوحرام قراردیتاہے،اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک وصف یہ ہے کہ آپ کالایاہوادین نہایت آسان،نرم اورکشادہ ہے ،اس دین میں کوئی بوجھ ،کوئی ناروا بندش ،کوئی مشقت اورکوئی تکلیف نہیں ،چنانچہ ان کے فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے ان کے روحانی مقتداؤں نے اپنے تورع کے مبالغوں سے،اوران کے جاہل عوام نے اپنے توہمات اورخودساختہ حدودوضوابط سے ان کی زندگی کوجن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اورجن جکڑبندیوں میں کس رکھا ہے یہ پیغمبروہ سارے بوجھ اتاردیتاہے اور وہ تمام بندشیں توڑکرزندگی کوآزاد کردیتاہے،

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ قَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ بِالْیَهُودِیَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِیَّةِ، وَلَكِنِّی بُعِثْتُ بِالْحَنِیفِیَّةِ السَّمْحَةِ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے یہودیوں اورنصرانیوں کی طرح مبعوث نہیں کیاگیامیں آسان دین حنیفی کے ساتھ مبعوث کیا گیاہے۔[102]

لہذا جولوگ اس پرایمان لائیں اورآپ کی توقیروتعظیم کریں اوراس کی حمایت اورنصرت کریں اور اس روشنی(قرآن اوروحی) کی پیروی اختیار کریں جواس کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی لوگ دنیاواخرت کی بھلائی سے فیضیاب ہوں گے ،یہی لوگ دنیاوآخرت کے شرسے نجات پائیں گے ، جیسے فرمایا

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۝۱۵ۙیَّهْدِیْ بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِهٖ وَیَهْدِیْهِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۱۶      [103]

ترجمہ:تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آ گئی ہے اورایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوجواس کی رضاکی طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتاہے اوراپنے اذن سے ان کواندھیروں سے نکال کراجالے کی طرف لاتا ہے اورراہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔

یعنی نورسے مرادنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مرادنہیں بلکہ قرآن مجیدہے ،ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نوربھی ہے ،جس سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں ،لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانورمن نوراللہ ہوناثابت نہیں ہوتا، چونکہ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں سے اہل تورات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دی ہے اوربسااوقات کوئی شخص اس وہم میں مبتلاہوسکتاہے کہ یہ حکم صرف بنی اسرائیل تک محدودہے ،اس لئے وہ اسلوب اختیارکیا جو عمومیت اورآفاقیت پردلالت کرتاہے ،چنانچہ فرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہوکہ اے انسانو ! میں تم سب عربی وعجمی ،کالے اورگوروں ،اوراہل کتاب اوردیگرتمام قوموں کی طرف اللہ کاپیغمبر ہوں ، جیسے فرمایا

۔۔۔قُلِ اللهُ۝۰ۣۙ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ۝۰ۣ وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۔۔۔۝۰۝۱۹ۘ [104]

ترجمہ: کہومیرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجاگیا ہے تاکہ تمہیں اورجس جس کویہ پہنچے سب کومتنبہ کردوں ۔

۔۔۔وَمَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ۔۔۔۝۰۝۱۷ [105]

ترجمہ:اورانسانی گروہوں میں سے جوکوئی اس کاانکارکرے تواس کے لئے جس جگہ کاوعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔

ایک مقام پر فرمایا

۔۔۔وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۝۰ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ۝۰ۭ وَاللهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰ۧ [106]

ترجمہ:پھراہل کتاب اورغیراہل کتاب دونوں سے پوچھو کیا تم نے بھی اس کی اطاعت وبندگی قبول کی ؟اگرکی تووہ راہ راست پاگئے اوراگراس سے منہ موڑاتوتم پرصرف پیغام پہنچادینے کی ذمہ داری ہے ،آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَعَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ یَهُودِیٌّ، أَوْ نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَا یُؤْمِنُ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے!اس زمانے کا(یعنی میرے وقت اورمیرے بعدقیامت تک)کوئی یہودی یانصرانی(یااورکوئی دین والا)میراحال سنے اور پھراس پرایمان نہ لائے جس کو دے کرمیں بھیجا گیا ہوں (یعنی قرآن)تو وہ جہنم میں جائے گا۔[107]

أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی،نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَةَ شَهْرٍ وَجُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْیُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِی المَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی، وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جومجھ سے پہلے کے انبیاء کونہیں دی گئیں ،مہینے بھرکی مسافت تک رعب سے امدادو نصرت اور میرے لئےساری زمین پاک اورپاک کرنے والی کی گئی ،پھرجس شخص کوجہاں وقت نمازکاوقت آجائے وہ وہیں نمازپڑھ لےاورغنیمتوں کاحلال کیاجاناجوپہلے کسی لئے حلال نہ تھیں اورمجھے شفاعت عطاہوئی ہےاور پہلے کے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے جاتے تھےمجھےتمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیاہے۔[108]

جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کامالک ہے،اس کے سواکوئی معبود حقیقی نہیں ہے،وہ ایک ہے اوراس کی ذات ،صفات اورافعال میں کوئی شریک نہیں ہے،اس کی عبادت کی معرفت صرف اس کے انبیاء ومرسلین کے توسط ہی سے حاصل ہوسکتی ہے ،اس کی جملہ تدابیروتصرفات میں سے زندہ کرنااورمارناہے ،جس میں کوئی ہستی شریک نہیں ہوسکتی ، پس ایمان لاؤاللہ وحدہ لاشریک پراوراس کے بھیجے ہوئے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر جواپنے عقائدواعمال میں راست روہے ،پس جو اللہ اوراس کے ارشادات کومانتا اورنبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیارکرتاہے توامیدہے کہ وہ دنیاوآخرت میں راہ راست پالے گا ۔

وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ یَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ یَعْدِلُونَ ‎﴿١٥٩﴾‏وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۚ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ‎﴿١٦٠﴾‏ وَإِذْ قِیلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٦١﴾‏ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا یَظْلِمُونَ ‎﴿١٦٢﴾‏(الاعراف)
’’اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق انصاف بھی کرتی ہے ،اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں میں تقسیم کرکے سب کی الگ الگ جماعت مقرر کردی اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا جب کہ ان کی قوم نے ان سے پانی مانگا کہ اپنے عصا کو فلاں پتھر پر مارو پس فوراً اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع معلوم کرلیا، اور ہم نے ان پر ابر کا سایہ فگن کیا اور ان کو من و سلوٰی (ترنجبین اور بیٹریں) پہنچائیں، کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں اور انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے، اور جب ان کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ اس آبادی میں جا کر رہو اور کھاؤ اس سے جس جگہ تم رغبت کرو اور زبان سے یہ کہتے جانا( حِطَّةٌ حِطَّةٌ )توبہ ہے اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے،جو لوگ نیک کام کریں گے ان کو مزید برآں اور دیں گے، سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی، اس پر ہم نے ان پر ایک آفت سماوی بھیجی اس وجہ سے کہ وہ حکم کو ضائع کرتے تھے ۔‘‘

جب بنی اسرائیل نے گوسالہ پرستی کے جرم کاارتکاب کیااورحق کی طرف سے اس پرگرفت ہوئی تواس وقت ساری قوم بگڑی ہوئی نہ تھی بلکہ ایک اچھاخاصاصالح عنصر موجود تھا چنانچہ فرمایا موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں ایک گروہ ایسابھی تھاجوحق کے مطابق ہدایت کرتااورحق ہی کے مطابق انصاف کرتاتھا،جیسے فرمایا

لَیْسُوْا سَوَاۗءً۝۰ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللهِ اٰنَاۗءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ۝۱۱۳یُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۝۱۱۴ [109]

ترجمہ:مگرسارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوراہ راست پرقائم ہیں ، راتوں کواللہ کی آیات پڑھتے ہیں اوراس کے آگے سجدہ ریزہوتے ہیں ،اللہ اورروزآخرت پرایمان رکھتے ہیں ،نیکی کاحکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں اوربھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں ۔

وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلهِ۝۰ۙ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللهِ ثَـمَنًا قَلِیْلًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۱۹۹ [110]

ترجمہ:اہل کتاب میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جواللہ کومانتے ہیں ،اس کتاب پرایمان لاتے ہیں جوتمہاری طرف بھیجی گئی ہے اوراس کتاب پربھی ایمان رکھتے ہیں جواس سے پہلے خودان کی طرف بھیجی گئی تھی،اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اوراللہ کی آیات کوتھوڑی سی قیمت پربیچ نہیں دیتے ،ان کااجران کے رب کے پاس ہے اوراللہ حساب چکانے میں دیرنہیں لگاتا۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ۝۵۲وَاِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِـمِیْنَ۝۵۳اُولٰۗىِٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۵۴ [111]

ترجمہ:جن لوگوں کواس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن)پرایمان لاتے ہیں ،اورجب یہ ان کوسنایاجاتاہے تووہ کہتے ہیں کہ ہم اس پرایمان لائے یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ،ہم توپہلے ہی سے مسلم ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کااجردوباردیاجائے گااس ثابت قدمی کے بدلے جوانہوں نے دکھائی ،وہ برائی کوبھلائی سے دفع کرتے ہیں اورجوکچھ رزق ہم نے انہیں دیاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ  [112]

ترجمہ:جن لوگوں کوہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیساکہ پڑھنے کاحق ہے وہ اس (قرآن)پرسچے دل سے ایمان لے آتے ہیں ۔

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙوَّیَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَیَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹۞ [113]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں سے کہہ دوکہ تم اسے مانویانہ مانوجن لوگوں کواس سے پہلے علم دیاگیاہے انہیں جب یہ سنایاجاتاہے تووہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں اورپکاراٹھتے ہیں پاک ہے ہمارارب!اس کاوعدہ توپوراہوناہی تھااوروہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سن کران کا خشوع اوربڑھ جاتاہے ۔

اورہم نے یعقوب علیہ السلام کے دس بیٹوں اوریوسف علیہ السلام کے دوبیٹوں سے بارہ الگ الگ قبیلے بنائے اور انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی اورہرقبیلے پر ایک ایک نقیب بھی مقررکردیاتھاتاکہ وہ ان کے اندراخلاقی ، مذہبی، تمدنی ومعاشرتی اورفوجی حیثیت سے نظم رکھے اوراحکام شریعت کااجراء کرتارہے،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۰ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا۔۔۔۝۰۝۱۲        [114]

ترجمہ:اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہدلیاتھااوران میں بارہ نقیب مقررکیے تھے ۔

فرعون کے غرق ہونے کے بعد موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کوجن کی تعدادکئی لاکھ تھی صحرائے سینا یامیدان تیہ میں لے آئے تاکہ ان کی مزیدتربیت ہو،وہاں ان کو پانی کی شدیدطلب ہوئی جس پر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پانی کے لئے درخواست فرمائی، رب کریم نے موسیٰ علیہ السلام کی دعاقبول فرمائی اورایک اورمعجزہ عطاکرکے موسٰی کوحکم فرمایاکہ فلاں چٹان پراپناعصامارویعنی دعاکے ساتھ کوشش کولازمی قراردیا،چنانچہ خالی دعاجس میں انسانی محنت کا حیلہ شامل نہ ہو قبولیت  اللہ کی سنت نہیں ،موسیٰ  علیہ السلام نے تعمیل حکم میں مطلوبہ پتھرپر عصامارا،عصاکے مارتے ہی رب کے حکم سے پتھرسے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے پھوٹ پڑے(یہ چشمے بحراحمر کے مشرقی بیابان میں سویزسے زیادہ دورنہیں مگر اب ان چشموں کاپانی بہت کچھ سوکھ چکاہے اوربعض کے توآثاربھی معدوم ہوچکے ہیں ،یہ کنوئیں عیون موسٰی کے نام سے مشہورہیں ) تاکہ ان بارہ قبیلوں میں پانی پرباہمی نزاع نہ کھڑاہوجائے ،موسٰی نے ہرقبیلہ کو ایک چشمہ مخصوص کردیااس طرح ہرقبیلہ نے اطمینان کاسانس لیااور اپنے اپنے چشمہ سے سیراب ہونے لگا، اللہ  تعالیٰ نے پھر ہدایت فرمائی کہ ہمارادیاہواپاکیزہ اورحلال رزق کھاؤپیومگرزمین پرفسادنہ پھیلاتے پھرویعنی اس زمین پرجوہرگناہ کی گواہ ہے امن قائم کرو، یہ زمین روزقیامت اپنے اندرسے سب کچھ نکال کر باہر رکھ دے گی ، غیرفطرتی کام نہ کرو،لوگوں پرظلم وزیادتی سے بچواورہماری زمین میں رہنے والی مخلوقات کو تنگ نہ کرو،ہمارے عطاکیے ہوئے رزق اوراس زمین کے پانیوں کوبھی معمولی نعمت سمجھ کر ضائع نہ کرو،ہم نے حدودمقررکی ہوئی ہیں ان حدود کو پامال مت کروبلکہ ان کا احترام کروان سب کاتم سے حساب لیاجائے گااگرہماری ہدایات پرعمل نہیں کروگے توذلیل وخوار ہو جا و گے ۔جیسے فرمایا

 وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ۝۰ۭ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا۝۰ۭ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ۝۰ۭ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۝۶۰     [115]

ترجمہ:یادکروجب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے پانی کی دعا کی توہم نے کہا فلاں چٹان پراپناعصامارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اورہرقبیلے نے جان لیاکہ کون سی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے،(اس وقت یہ ہدایت کردی گئی تھی کہ)  اللہ کادیاہوا رزق کھاؤپیواورزمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔

سفرکرتے ہوئے بنی اسرائیل دشت سین میں ایلیمم اورسیناکے درمیان (جسے آجکل جبل موسٰی کہتے ہیں ) گزر رہے تھے کہ خوراک کے ذخیرے ختم ہوگئے اورنوبت فاقوں پرپہنچ گئی ، اس وقت رب نے اپنی رحمت سے ان پر صحراکی چلچلاتی دھوپ سے بچاؤ کے لئے ابرکاسایہ کیے رکھا،اس لق ودق ویرانے میں کھانے کے لئے من وسلوی فراہم کیاجوان کوبغیرکسی دقت کے پہنچ جاتا تھا اور فلسطین کے آبادعلاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا(مَنّ دھنیے کے بیج کی طرح سفید چھوٹی چھوٹی گول گول چیزتھی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں یہ رات کواوس کے ساتھ آسمان سے برستی تھی ،لوگ اسے جمع کرلیتے اورچکی میں پیستے اوراوکھلی میں کوٹ لیتے تھےپھراسے ہانڈیوں میں ابال کرروٹیاں بناتے تھے،اس کامزہ شہدکے بنے ہوئے پوئے کی طرح تھا ،کھنبیمَنَّ کی اس قسم سے ہے جوبغیرکسی کے بونے کے پیداہو جاتی ہے جو موسٰی پرنازل ہوئی،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الكَمْأَةُ مِنَ المَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءُ العَیْنِ

سعیدبن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھنبی من کی قسم ہے (خودرو ہے) اور اس کا پانی آنکھ کیلئے فائدہ مند ہے۔[116]

اورسلوی بٹیریا چڑیا کی طرح کاایک پرندہ تھاجوجھنڈ کے جھنڈ ان کے پاس آتے جسے ہاتھ بڑھا کر آسانی سے پکڑلیتے اور ذبح کرکے کھا لیتے ،پانی اورخوراک کی وافرفراہمی اوردھوپ سے بجانے کے لئے بادل کے سایہ کی تین نعمتوں کے بعدرب نے انہیں کہہ دیاکہ اس کی عطاکردہ پاک وحلال چیزیں کھاؤاورحرام اورناجائز چیزوں کی طرف تجاوزمت کرو،اورتمہارے اسلاف نے جوکچھ کیاانہوں نے ہم پرظلم نہیں کیاتھابلکہ خوداپنی جانوں پر ظلم وزیادتی کی تھی ،لیکن یہودان کمال مہربانیوں کے باوجود اللہ کاشکر کرنے کے بجائے خوش نہیں تھے ،پھر رب نے حکم دیاکہ تمہارے سامنے جو ایلیایعنی قدس کی بستی ہے اس میں داخل ہوجاؤ اور اور اس شہر کی پیداوار کوجس طرح چاہومزے سے کھاؤ اورجب بستی کے دروازے سے اندرداخل ہوناتوسجدہ ریزہوتے ہوئے اور حطة حطة کہتے ہوئے داخل ہونا (حِطَّةٌ کے دومعنیٰ ہیں ایک یہ کہ  اللہ سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے جانادوسرے یہ کہ لوٹ مار اور قتل عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگزر اورعام معافی کااعلان کرتے جانا)یعنی بارگاہ الہٰی میں عجزوانکساری کا اظہارکرتے اپنے پرانے گناہوں سے مغفرت چاہتے ،اعتراف شکرکرتے اور اللہ کی حمدوثنا کرتے ہوئے اورہم تمہاری خطائیں معاف فرما دیں گے اورنیکی کرنے والوں کواورزیادہ عنایت کریں گے، مگر یہاں بھی بنی اسرائیل نفس کے بندے نکلے ،ان کے اخلاق وکردار اتنے زوال پذیر ہو چکے تھےاوران کی سرتابی اورسرکشی اتنی بڑھ چکی تھی کہ اتنے احسانات اور رحم وکرم کرنے پربھی انہوں نے احکام الہٰی سے تمسخر واستہزاکامظاہرہ کیا

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:قِیلَ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ: {ادْخُلُوا البَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ [117]. فَدَخَلُوا یَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، فَبَدَّلُوا، وَقَالُوا: حِطَّةٌ، حَبَّةٌ فِی شَعَرَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایابنی اسرائیل سے کہاگیاتھاکہ جب شہرمیں داخل ہوتوسجدہ کرتے ہوئے اورحطة کالفظ بولتے ہوئے جانامگروہ سجدہ کرنے کے بجائے سرینون کوزمین پرگھسیٹتے ہوئے داخل ہوئےاورحطة کاجولفظ بولنے کوکہاگیاتھااس کے بجائے دانہ بال کے اندر ہونا چاہیے کہتے ہوئے داخل ہوئے۔[118]

بنی اسرائیل متواترگناہ گاراورنافرمان تو تھے ہی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں پھربھی بہترین نعمتوں اورفضل وکرم سے نوازتارہا،انہیں راہ راست پرلانے کے لئے کبھی ان پر سختی کرتااورکبھی نرمی،یوں حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا،اس طرح رب کریم ان کوشکراداکرنے کا موقعہ فراہم کرتارہا لیکن اب انہوں نے نافرمانیوں کی انتہاکرتے ہوئے رب کے غضب کودعوت دی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے طاعون کی شکل میں ان پراپنا عذاب نازل فرمایا،

فَقَالَ أُسَامَةُ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الطَّاعُونُ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أُرْسِلَ عَلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ، فَلَا تَقْدَمُوا عَلَیْهِ ،وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ

اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاطاعون ایک عذاب ہے جوپہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیاتھا،یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ ایک گزشتہ امت پربھیجاگیاتھااس لئے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو(کہ وہاں طاعون پھیلا ہواہے)تووہاں مت جاؤلیکن اگرکسی ایسی جگہ یہ وباپھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجودہو تووہاں سے مت نکلو۔[119]

اسی مضمون کوایک اورمقام پر فرمایا

 وَظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى۝۰ۭ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ۝۰ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۵۷وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ۝۰ۭ وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۵۸فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِىْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۝۵۹ۧ [120]

ترجمہ:ہم نے تم پرابرکاسایہ کیا،من وسلوٰی کی غذا تمہارے لئے فراہم کی اورتم سے کہاکہ جوپاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں کھاؤ (مگر تمہارے اسلاف نے جوکچھ کیا ) وہ ہم پران کاظلم نہ تھابلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپرظلم کیا،پھر یادکرو جب ہم نے کہاتھاکہ یہ بستی (جوتمہارے سامنے ہے) اس میں داخل ہوجاؤاس کی پیداوارجس طرح چاہو مزے سے کھاؤمگربستی کے دروازے میں سجدہ ریزہوتے ہوئے داخل ہونااورکہتے جاناحطة حطة ہم تمہاری خطاؤں سے درگزر کریں گے اور نیکوکاروں کومزید فضل وکرم سے نوازیں گے مگرجو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کرکچھ اورکردیا آخر کارہم نے ظلم کرنے والوں پرآسمان سے عذاب نازل کیایہ سزاتھی ان نافرمانیوں کی جو وہ کررہے تھے۔

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِی كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إِذْ تَأْتِیهِمْ حِیتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَیَوْمَ لَا یَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِیهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا یَفْسُقُونَ ‎﴿١٦٣﴾‏وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ‎﴿١٦٤﴾‏ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَیْنَا الَّذِینَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا كَانُوا یَفْسُقُونَ ‎﴿١٦٥﴾‏ فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ ‎﴿١٦٦﴾‏ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَن یَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٦٧﴾(الاعراف)
’’ اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے ! جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھےجب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں، اور وہ ہفتہ کے دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بےحکمی کیا کرتے تھے ،اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لیے اور اس لیے کہ شاید یہ ڈر جائیں،سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بےحکمی کیا کرتے تھے، یعنی جب وہ، جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا تم ذلیل بندر بن جاؤ ،اور وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ آپ کے رب نے یہ بات بتلادی کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سزائے شدید کی تکلیف پہنچاتا رہے گا، بلاشبہ آپ کا رب جلدی ہی سزا دے دیتا ہے اور بلاشبہ وہ واقعی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے ۔‘‘

حرام کی طرف بڑھنے سے حلال کاراستہ بندہوجاتاہے :

ایک عرصہ تک بنی اسرائیل ہفتہ کے دن کی حرمت کے رب سے کئے ہوئے عہدوپیمان پرقائم رہے اوراس دن جن کاموں سے روکاگیاتھااس سے بچتے رہے، مگررفتہ رفتہ ان کی فطری کج روی اورسرکشی عودکرآئی اور وہ اپنے اس عہدکوبھی کاروباری اوردنیاوی مصروفیات میں الجھ کرنباہ نہ سکے اورکھلم کھلا اس عہدکی خلاف ورزیاں شروع کردیں اوربڑی بے باکی سے اپنی بدعملیوں پرفخر کرنے لگے جب انسان آخری حدتک دنیاداری میں پھنس جاتاہے تووہ انسانیت کے درجے سے بہت نیچے گرجاتاہے اوراسے مقصدانسانیت سے دور دورکابھی واسطہ نہیں رہتا ، اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کوان کی بے حکمی کی سزادینے کے لئے ہفتے والے دن گھروں میں آگ جلانے،جانوروں اورلونڈی غلاموں سے خدمت لینااور مچھلیوں کاشکارکرنے سے منع کردیاگیاتھاجوان کاقدرتی شکارتھالیکن  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور آزمائش ہفتے والے دن دریائے شورمیں مچھلیاں کثرت سے آتیں اورپانی کے اوپر ظاہرہو ہوکر انہیں دعوت شکاردیتیں اور جب یہ دن گزرجاتاتوہفتہ کے باقی دنوں میں پانی کی تہہ میں چلی جاتیں اورہفتہ کے دن کی طرح نہ آتیں ،کچھ عرصہ تک تویہودی بڑے صبرسے صورت حال کودیکھتے رہے اوررب کی طرف سے اس آزمائش کونہ سمجھ سکے، بالاخر انہوں نے ایک حیلہ کرکے حکم الہٰی سے تجاوز کیا کہ بحرقلزم کے مقام ایلہ یاایلات کے کنارے گڑھے کھودلئے تاکہ ہفتہ کے روز پانی کی لہروں کے ساتھ مچھلیاں اس میں آکر پھنسی رہیں اورجب ہفتہ کادن گزر جاتا تو پھر انہیں پکڑلیتے، کچھ لوگ جمعہ کے روزجال سمندرمیں ڈال جاتے اورہفتہ کے روزجال پڑارہنے دیتے اس طرح ہفتہ کے روزجومچھلیاں جال میں پھنس جاتیں اسے اتوار کو باآسانی پکڑ لیتے ،

أبى هریرة مرفوعا:أَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال: لَا تَرْتَكِبُوا مَا ارْتَكَبَتِ الْیَهُودُ، فَتَسْتَحِلُّوا مَحَارِمَ اللَّهِ بِأَدْنَى الْحِیَلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم بھی اس جرم کاارتکاب نہ کروجس کایہودیوں نے ارتکاب کیاتھاکہ ادنی حیلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کو حلال قراردینے لگو۔[121]

صالحین کی ایک جماعت (جواس حیلے کا ارتکاب نہیں بلکہ اجتناب کرتی تھی) حیلہ گروں کوسمجھاسمجھاکران کی اصلاح سے مایوس بھی ہوگئی تھی تاہم کچھ اورلوگ بھی سمجھانے والے تھے جو انہیں وعظ ونصیحت کرتے تھے ، صالحین کی یہ جماعت انہیں یہ کہتی کہ ایسے لوگوں کووعظ ونصیحت کا کیا فائدہ جن کی قسمت میں ہلاکت وعذاب الہٰی ہے ،نافرمان اورتجاوزکرنے والے کہتے کہ جب تمہارے خیال میں ہلاکت یاعذاب الہٰی ہمارامقدرہے تو پھرہمیں کیوں وعظ ونصیحت کرتے ہوتو وہ جواب دیتے کہ ایک تواپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لئے تاکہ ہم تو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہیں کیونکہ معصیت الہٰی کاارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنااورپھراسے روکنے کی کوشش نہ کرنابھی جرم ہے جس پر اللہ کی گرفت ہوسکتی ہے ،اور دوسرایہ کہ شایدیہ لوگ حکم الہٰی سے تجاوز کرنے سے بازہی آ جائیں ، اس طرح اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجودتھے ۔

حیلہ بازاوران کے سرپرست :وہ جودھڑلے سے احکام الہٰی کی خلاف ورزی کررہے تھے ،جنہوں نے وعظ ونصیحت کی کوئی پرواہ نہ کی اورنافرمانی پراڑے رہےاور اللہ کے حکموں سے سرتابی کو انہوں نے اپناشیوہ اوروطیرہ بنالیا۔

گوشہ نشین:وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگراس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اورناصحوں سے کہتے تھے ان کم بختوں کونصیحت کرنے سے کیاحاصل ہے۔

اس گناہ اورحیلہ بازی سے روکنے والے :وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلابے حرمتی کو برداشت نہ کرسکتی تھی اوروہ اس خیال سے نیکی کاحکم کرنے اوربدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید یہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پرآجائیں اوراگروہ راہ راست نہ اختیارنہ کریں تب بھی ہم اپنی حدتک تواپنافرض اداکرکے  اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی برات کا ثبوت پیش کر ہی دیں اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کاعذاب آیاتوان تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچا لیا گیا کیونکہ اسی نے  اللہ کے حضوراپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اوروہی تھاجس نے اپنی برات کاثبوت فراہم کررکھا تھا باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوااوروہ اپنے جرم کی حدتک مبتلائے عذاب ہوئے ،چنانچہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کاقانون یہی ہے۔

 وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّةً۝۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۝۲۵      [122]

ترجمہ:اوربچواس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طورپر صرف انہی لوگوں تک محدودنہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیاہو،اورجان رکھوکہ اللہ سخت سزادینے والاہے۔

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ حَدَّثَنِی مَوْلًى لَنَا أَنَّهُ سَمِعَ عَدِیًّا یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى یَرَوْا الْمُنْكَرَ بَیْنَ ظَهْرَانَیْهِمْ وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ یُنْكِرُوهُ فَلَا یُنْكِرُوهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ

عدی بن عمیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ خواص کے عمل کی وجہ سے عوام کو عذاب نہیں دیتا، ہاں اگر وہ کھلم کھلا نافرمانی کرنے لگیں اور وہ روکنے پر قدرت کے باوجود انہیں نہ روکیں تو پھر اللہ تعالیٰ خواص اور عوام سب کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ ۔[123]

أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ،سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ::مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ یُغَیِّرَهُ بِیَدِهِ فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِهِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ، فَبِقَلْبِهِ ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناتم میں سے جوکوئی کسی برائی کودیکھے تو(اولاً)اس کوہاتھ سے روکے اوراگروہ اس بات کی استطاعت نہیں رکھتاتوزبان سے( منع کرے )اوراگراس کی بھی استطاعت نہیں رکھتاتودل سے( اس کوبرامانے)اوریہ کمزورترین ایمان ہے۔[124]

عُبَیْدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْعَطَّارُ، نا عَمَّارُ بْنُ سَیْفٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ،عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَوْحَى اللَّهُ إِلَى مَلَكٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَنِ اقْلِبْ مَدِینَةَ كَذَا وَكَذَا عَلَى أَهْلِهَا قَالَ: إِنَّ فِیهِ عَبْدَكَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِكَ طَرْفَةَ عَیْنٍ قَالَ: اقْلِبْهَا عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ یَتَمَعَّرَ لِی سَاعَةً قَطُّ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کووحی فرمائی کہ فلاں بستی کواٹھاکرپلٹ دو،انہوں نے عرض کی اے اللہ!اس بستی میں توتیراوہ بندہ بھی ہے جس نے پلک جھپکتے تیری نافرمانی نہیں کی،اللہ تعالیٰ نے فرمایاپہلے اسے اٹھاکرپھینکواوراس کے اوپربستی کوالٹ دوکیونکہ جب وہاں اللہ کی نافرمانیاں کی جارہی تھیں اس وقت غصہ سےاس کے چہرہ بھی متغیرنہ ہوا۔[125]

یہ روایت راوی عبیدبن اسحاق العطارکی وجہ سے ضعیف ہےجو متروک ہے

وقال البخاری: عنده مناكیر.وقال الأزدی: متروك الحدیث.وقال الدارقطنی: ضعیف.وقال ابن عدی: عامة حدیثه منكر.

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ منکرروایات بیان کرتاہے،الازدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ متروک حدیث ہے،امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف ہے،ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ عام طورپر منکرروایات بیان کرتاہے۔شیخ البانی نے اس روایت کوضعیف روایات میں لکھاہے اورکہاہے کہ یہ سخت ضعیف روایت ہے۔

آج ہم لوگ مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں ، ہمیں اپنی عزیزداری ،مفادات اورتعلقات زیادہ عزیزہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم لوگ کھلم کھلااحکام الٰہی اورسنت رسول کی مخالفت اوربغاوت دیکھتے ہیں اورہمارے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی ،حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اعمال کے مطابق ہی اس کی شخصیت بنتی ہے ، اللہ نے نافرمان لوگوں کی انسانی شکلوں کوجن کاباطن تو پہلے ہی سے بندروں کی طرح ذلیل تھااور جوپوری سرکشی کے ساتھ حکم کی خلاف ورزی کرتے چلے گئے تھے ،ان کی چالاکی ، حجت بازی اور ڈھٹائی کی وجہ سے دوقسطوں میں عذاب نازل ہوا،پہلی قسط جسے بِعَذَابٍۢ بَىِٕیْــسٍۢ فرمایاگیا اور دوسری قسط میں انہیں مسخ کرکے بندر اور سور بنا دئے ، جیسے فرمایا

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕیْنَ۝۶۵ۚفَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۶۶ [126]

ترجمہ:پھرتمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کاقصہ تومعلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کاقانون توڑاتھاہم نے انہیں کہہ دیاکہ بندر بن جاؤاوراس حال میں رہوکہ ہرطرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے،اس طرح ہم نے ان کے انجام کواس زمانے کے لوگوں اوربعدکی آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اورڈرنے والوں کے لئے نصیحت بناکرچھوڑا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ} فَزَعَمَ أَنَّ شَبَابَ الْقَوْمِ صَارُوا قِرْدَةَ وَالْمَشْیَخَةَ صَارُوا خَنَازِیرَفُوَاقا ثُمَّ هَلَكُوا. مَا كَانَ لِلْمَسْخِ نَسْلٌ

عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنہ آیت’’ ہم نے کہا کہ بندر ہوجاؤ ذلیل اور خوار۔‘‘ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں مغضوب گروہ کے نوجوان بندرکی شکل میں مسخ کیے گئے اوربوڑھے سورکی شکل میں مسخ ہوئے،اوریہ لوگ چند یوم بعدہی فنا کر دیے گئے اوران کی نسل نہیں ہوئی۔[127]

اللہ تعالیٰ نے ان کوان کے اعمال کے سبب عبرت ناک سزادی تاکہ دوسرے لوگ رب کے پاکیزہ فرامین کومذاق نہ سمجھیں اور اپنادامن اسے اعمال سے بچائے رکھیں ،اوریادکروجبکہ تمہارے رب نے اعلان کردیاکہ وہ قیامت تک برابرایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتارہے گاجوان کوبدترین عذاب دیں گے،

وَیُقَالُ: إِنَّ مُوسَى، عَلَیْهِ السَّلَامُ، ضَرَبَ عَلَیْهِمُ الْخَرَاجَ سَبْعَ سِنِینَ وَقِیلَ: ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً، وَكَانَ أَوَّلُ مَنْ ضَرَبَ الْخَرَاجَ، ثُمَّ كَانُوا فِی قَهْرِ الْمُلُوكِ مِنَ الْیُونَانِیِّینَ وَالْكَشْدَانِیِّینَ وَالْكَلْدَانِیِّینَ، ثُمَّ صَارُوا فِی قَهْرِ النَّصَارَى وَإِذْلَالِهِمْ وَإِیَّاهُمْ أَخْذِهِمْ مِنْهُمُ الْجِزْیَةَ وَالْخَرَاجَ، ثُمَّ جَاءَ الْإِسْلَامُ، وَمُحَمَّدٌ، عَلَیْهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالسَّلَامُ، فَكَانُوا تَحْتَ صُفَارِهِ وَذِمَّتِهِ یُؤَدُّونَ الْخَرَاجَ وَالْجِزَى، ثُمَّ آخِرُ أَمْرِهِمْ أَنَّهُمْ یَخْرُجُونَ أَنْصَارَ الدَّجَّالِ، فَیَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ مَعَ عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، عَلَیْهِ السَّلَامُ، وَذَلِكَ آخِرَ الزَّمَانِ.

چنانچہ بیان کیاجاتاہے کہ خودموسیٰ  علیہ السلام نے ان پرتاوان مقررکر دیا تھا اوریہ سات اورایک روایت کے مطابق تیرہ سال تک اداکرتے رہےاورسب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام نے ہی خراج لگایاتھا،پھران پریونانیوں ،کسرانیوں ،کلدانیوں اور نصرانیوں کی حکومت ہوئی ان سب حکومتوں کے زمانے میں یہ ذلیل وحقیررہے ان سے جزیہ لیا جاتا رہااورانہیں پستی سے ابھرنے کاکوئی موقعہ نہ ملا،پھرعیسائیوں نے انہیں ذلیل ورسواکیااوران سے جزیہ اورخراج وصول کیا، پھراسلام آیاتو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں پست کیاان سے جزیہ اورخراج برابروصول ہوتارہا،الغرض یہودیوں کی پوری تاریخ اسی ذلت ومسکنت اورغلامی ومحکومی کی تاریخ ہے جس کی خبراللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی ہے ، پھر آخر زمانے میں یہ دجال کے ساتھ مل جائیں گے لیکن مسلمان عیسیٰ  علیہ السلام کے ساتھ جاکران کی تخم ریزی کردیں گے۔[128]

جوبھی اللہ کی شریعت کی مخالفت کرتاہے ،اللہ کے فرمان کی تحقیر کرتا ہے یقینا ًتمہارارب اسے جلدی ہی سزادے دیتاہے اوراگران میں سے کوئی توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرتاہے تویقیناًاللہ بھی اس کے ساتھ بخشش ورحمت سے پیش آتاہے۔

‏ وَقَطَّعْنَاهُمْ فِی الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿١٦٨﴾‏ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ یَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَیَقُولُونَ سَیُغْفَرُ لَنَا وَإِن یَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ یَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِم مِّیثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا یَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِیهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِینَ یَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿١٦٩﴾‏ وَالَّذِینَ یُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِیعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِینَ ‎﴿١٧٠﴾‏ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَیْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِیهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿١٧١﴾‏(الاعراف)
 اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کردیں، بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح کے تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بد حالیوں سے آزماتے رہے شاید باز آجائیں ،پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وہ اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری ضرور مغفرت ہوجائے گی حالانکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے، کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف سے بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں، اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ رکھتے ہیں، پھر کیا تم نہیں سمجھتے، اور جو لوگ کتاب کے پابند ہیںاور نماز کی پابندی کرتے ہیں، ہم ایسے لوگوں کا جو اپنی اصلاح کریں ثواب ضائع نہ کریں گے، اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے اوپر معلق کردیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا اور کہا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور یاد رکھو جو احکام اس میں ہیں اس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ ۔‘‘

ہم نے یہود کوزمین میں گروہ گروہ کرکے بہت سی قوموں میں تقسیم کردیا،جیسے فرمایا

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًا۝۱۰۴ۭ [129]

ترجمہ:اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین میں بسوپھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آن پورا ہوگا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لا حاضر کریں گے۔

کچھ لوگ ان میں نیک تھے جوحقوق اللہ اورحقوق العبادکوپوراکرتے تھے اورکچھ اس کے برعکس اورہم ان کواچھے اوربرے دونوں حالات سے آزمائش میں مبتلاکرتے رہے کہ شایدیہ اپنی حرکتوں سے بازآجائیں اوراللہ کی طرف رجوع کریں ،پھراگلی نسلوں کے بعدایسے نالائق لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے کتاب الٰہی میں اپنی خواہشات اورطمع وحرص کے طرف میلان کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف باطل قول منسوب کرنے لگے اور مال ودولت کے بدلے ناحق فتوے اورحق کے خلاف فیصلے کرنے لگےجس سے ان کے اندررشوت کی بیماری پھیل گئی ،مگر طالب دنیا ہونے کے باوجودیہ مغفرت کی امید رکھتے ہیں ، پھرجب ان کومال اوررشوت پیش کی جاتی تویہ جاننے کے باوجودکہ یہ گناہ ہے مگراس بھروسے پراس گناہ کاارتکاب کرتے ہیں کہ ہم تواللہ کے چہیتے ہیں کسی نہ کسی طریقے سے ہماری بخشش توہوہی جائے گی ،

عَنْ مُجَاهِدٍ:{یَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الْأَدْنَى} قَالَ: مَا أَشْرَفَ لَهُمْ مِنْ شَیْءٍ فِی الْیَوْمِ مِنَ الدُّنْیَا حَلَالٌ أَوْ حَرَامٌ یَشْتَهُونَهُ أَخَذُوهُ، وَیَبْتَغُونَ الْمَغْفِرَةَ {وَیَقُولُونَ سَیُغْفَرُ لَنَا} وَإِنْ یَجِدُوا عَرَضًا مِثْلَهُ یَأْخُذُوهُ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ اسی دنیائے فانی کے فائدے سمیٹتے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں انہیں دنیاکی جوچیزبھی نظرآتی ہے اسے لے لیتے ہیں خواہ وہ حلال ہو یا حرام ، اور اس کے باوجودوہ مغفرت کی تمنارکھتے ہیں ’’اورکہتے ہیں جلدہمیں بخش دیاجائے گا۔‘‘ اوراگر(دوبارہ)ان کے سامنے ویساہی مال آجائے تووہ اسے لے لیں ۔[130]

عَنِ السُّدِّیِّ، قَوْلُهُ: {فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ، [131] إِلَى قَوْلِهِ: {وَدَرَسُوا مَا فِیهِ} ،[132] قَالَ: كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لَا یَسْتَقْضُونَ قَاضِیًا إِلَّا ارْتَشَى فِی الْحُكْمِ. وَإِنَّ خِیَارَهُمُ اجْتَمَعُوا فَأَخَذَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ الْعُهُودَ أَنْ لَا یَفْعَلُوا وَلَا یَرْتَشُوا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ إِذَا اسْتُقْضِیَ ارْتَشَى، فَیُقَالُ لَهُ: مَا شَأْنُكَ تَرْتَشِی فِی الْحُكْمِ؟ فَیَقُولُ: سَیُغْفَرُ لِی، فَیَطْعَنُ عَلَیْهِ الْبَقِیَّةُ الْآخَرُونَ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ فِیمَا صَنَعَ. فَإِذَا مَاتَ أَوْ نُزِعَ، وَجُعِلَ مَكَانَهُ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ یَطْعُنُ عَلَیْهِ فَیَرْتَشِی، یَقُولُ: وَإِنْ یَأْتِ الْآخَرِینَ عَرَضُ الدُّنْیَا یَأْخُذُوهُ. وَأَمَّا عَرَضُ الْأَدْنَى، فَعَرَضُ الدُّنْیَا مِنَ الْمَالِ

سدی رحمہ اللہ آیت کریمہ’’پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اسی دنیائے فانی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کردیا جائے گا اور اگر وہی متاع دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں ، کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو ؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے ۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں یہودی اپنے جس شخص کوبھی قاضی یاحج مقررکرتے تووہ رشوت لینے لگ جاتا،ان کے کچھ اچھے لوگوں نے جمع ہوکریہ عہدوپیمان کیاکہ وہ ایسانہیں کریں گے اورہرگزرشوت نہیں لیں گے،لیکن ان میں سے جب بھی کسی کومنصب قضاء پرفائزکیاجاتاتووہ بھی رشوت لینے لگ جاتااورجب اس سے پوچھاجاتاکہ کیابات ہے تم نے بھی رشوت لینی شروع کردی؟تووہ کہتاہاں ،میں رشوت لیتاہوں لیکن مجھے معاف کردیاجائے گا تورشوت لینے پرباقی بنی اسرائیل اس پرطعن کرتےاورجب وہ مرجاتایااسے معزول کردیاجاتا اوراس کی جگہ کسی اورکومقررکردیاجاتاجوپہلے پررشوت کی وجہ سے طعن کیاکرتاتھاتووہ بھی رشوت لینے لگ جاتااورکہتاکہ اگردوسرے لوگوں کے پاس یہ دینوی مال آتاتوانہوں نے بھی تواس مال کولے لیناتھا ۔[133]

اس طرح نہ یہ اپنے گناہوں پرشرمندہ ہوتے ہیں اورنہ توبہ کرتے ہیں حالانکہ ان سے تورات میں مضبوط عہدوپیمان لیا جا چکا ہے کہ یہ اللہ کے نام پرحق ہی بیان کریں گے اوراسے چھپائیں گے نہیں ،جیسے فرمایا

وَاِذْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَهٗ۝۰ ۡ فَنَبَذُوْهُ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا۝۰ۭ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ۝۱۸۷            [134]

ترجمہ:ان اہل کتاب کووہ عہدبھی یاددلاؤجواللہ نے ان سے لیاتھاکہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کولوگوں میں پھیلاناہوگاانہیں پوشیدہ رکھنانہیں ہوگامگرانہوں نے کتاب کوپس پشت ڈال دیااورتھوڑی قیمت پراسے بیچ دیا، کتنا برا کاروبارہے جویہ کررہے ہیں ۔

اورتورات میں جو لکھاہواہے یہ خوداس کوپڑھ چکے ہیں مگر اس کے باوجودوہ اللہ طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے بازنہیں آتے ،اوران کایہ خیال کہ یہ اللہ کے چہیتے ہیں اوراللہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کوبخش دے گاحالانکہ تورات میں کہیں بھی ان کی غیرمشروط نجات کا ذکرنہیں کیاگیااورنہ کسی پیغمبرنے انہیں ایسااطمینان دلایاہے ،چنانچہ یاد رکھوبخشش ومغفرت کسی کاذاتی یاخاندانی اجارہ نہیں ہے ، وہاں توتمہیں وہی کچھ ملے گاجوکچھ تم دنیامیں بوکرجاؤگے ،اورآخرت کااچھامقام اوربہتربدلہ تو متقین کے لئے ہے کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟ ان میں سے جو لوگ خواہش نفس کے بجائے تقویٰ کاراستہ اختیارکرلیں اورتورات کے احکام پرعمل کرتے ہوئے رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لے آئیں اور نماز کو پابندی اورخشوع وخضوع سے قائم کریں تو یقیناً ایسے مصلحین کااجرہم ضائع نہیں کریں گے،اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ  علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو کتاب کی پابندی کا عہدواقرارکرنے کے لئے دامن کوہ میں جمع کیا ،اللہ تعالیٰ نے ان سے معمولی طورپر عہدواقرارلینے کے بجائے مناسب جاناکہ اس عہدواقرارکی اہمیت ان کواچھی طرح محسوس کرادی جائے تاکہ اقرارکرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادرمطلق ہستی سے اقرارکررہے ہیں اوراس کے ساتھ بدعہدی کرنے کاکیاانجام ہوسکتاہے، چنانچہ جب بنی اسرائیل دامن کوہ میں جمع ہوگئے تو  اللہ  تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں نے بلندوبالاطورپہاڑکو اٹھا کرمعلق ان کے اوپر سائبان کی طرح کھڑا کردیاکہ گویااب وہ ان پرگراہی چاہتا ہے،جیسے فرمایا

 وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِهِمْ ۔۔۔۝۱۵۴ [135]

ترجمہ: اور ان لوگوں پرطورکواٹھاکران سے (اس فرمان کی اطاعت کا)عہدلیا۔

اللہ کے جلال اوراس کی عظمت وبرتری کے اس پرشکوہ ماحول میں موسٰی نے ان سے مقدس تورات پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کا پختہ عہد لیا کہ رب نے جو کتاب تمہیں عنایت کی ہے اسے مضبوطی سے تھامے رہنا اورجو احکامات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا اس طرح امیدکی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ اور پرہیز گاری کی روش اختیار کرو اورایک متقی قوم بن جاؤ، چنانچہ انہوں نے تورات پرعمل کرنے کاعہدتوکرلیامگران کے دلوں میں بچھڑا بسا ہوا تھا جیسے فرمایا

 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ۝۰ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۶۳[136]

ترجمہ: یادکروہ وقت جب ہم نے طورکوتم پراٹھاکرتم سے پختہ عہدلیا تھا اور کہاتھاکہ یہ کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھا مو اورجواحکام ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنااسی ذریعے سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم تقوٰی کی روش پرچل سکوگے۔

 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ۝۰ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاسْمَعُوْا۝۰ۭ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۝۰ۤ وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِـجْلَ بِكُفْرِھِمْ۔۔۔۝۰۝۹۳ [137]

ترجمہ: اس میثاق کو یادکرو جب طور کوتمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیاتھاہم نے تاکیدکی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرواورکان لگاکر سنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیامگرمانیں گے نہیں اورانکی باطل پرستی کایہ حال تھاکہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہواتھا ۔

‏ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِی آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِینَ ‎﴿١٧٢﴾‏ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّیَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ‎﴿١٧٣﴾‏ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿١٧٤﴾‏(الاعراف)
’’اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں، تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بےخبر تھے، یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے ،سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں اور تاکہ وہ باز آجائیں۔‘‘

عہدفطرت :

بنی اسرائیل سے بندگی واطاعت کےعہدکے بعدعام انسانوں کی طرف خطاب فرمایاکہ بنی اسرائیل ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ،درحقیقت تم سب اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہواورتمہیں ایک وقت مقررہ پراس کی جواب دہی کرنی ہے کہ تم نے اس عہدوپیمان کی کہاں تک پابندی کی ،چنانچہ فرمایااوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کویاددلاؤوہ وقت جبکہ تمہارے رب نے تخلیق آدم  علیہ السلام کے موقع پرفرشتوں کوجمع کرکے انہیں تعظیمی سجدہ کرایاگیااورزمین پرانسان کی خلافت کااعلان کیا گیا،

عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ الْجُهَنِیِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَی أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِینَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِیَمِینِهِ فَأَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّیَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَائِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ یَعْمَلُونَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّیَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَائِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ یَعْمَلُونَ

مسلم بن یسار جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی’’ اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ، یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم اس بات سے بےخبر تھے ۔‘‘سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اللہ  تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوپیداکیاپھران کی پشت پراپناداہناہاتھ پھیرا اوران سے اولادنکالی،اورفرمایایہ میں نے جنت کے لئے پیداکی ہےاوریہ لوگ جنتیوں والے عمل کریں گے،پھران کی پشت پراپناہاتھ دوبارہ پھیرااوران سے اولادنکالی، اورفرمایامیں نے ان کودوزخ کے لئے بنایاہےاوریہ دوزخیوں والے عمل کریں گے۔[138]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مَسَحَ ظَهْرَهُ، فَسَقَطَ مِنْ ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّیَّتِهِ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ، وَجَعَلَ بَیْنَ عَیْنَیْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِیصًا مِنْ نُورٍ، ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ فَقَالَ: أَیْ رَبِّ، مَنْ هَؤُلاَءِ؟ قَالَ: هَؤُلاَءِ ذُرِّیَّتُكَ، فَرَأَى رَجُلاً مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِیصُ مَا بَیْنَ عَیْنَیْهِ، فَقَالَ: أَیْ رَبِّ مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ آخِرِ الأُمَمِ مِنْ ذُرِّیَّتِكَ یُقَالُ لَهُ دَاوُدُ فَقَالَ: رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمْرَهُ؟ قَالَ: سِتِّینَ سَنَةً، قَالَ: أَیْ رَبِّ، زِدْهُ مِنْ عُمْرِی أَرْبَعِینَ سَنَةً، فَلَمَّا قُضِیَ عُمْرُ آدَمَ جَاءَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ: أَوَلَمْ یَبْقَ مِنْ عُمْرِی أَرْبَعُونَ سَنَةً؟ قَالَ: أَوَلَمْ تُعْطِهَا ابْنَكَ دَاوُدَ قَالَ: فَجَحَدَ آدَمُ فَجَحَدَتْ ذُرِّیَّتُهُ، وَنُسِّیَ آدَمُ فَنُسِّیَتْ ذُرِّیَّتُهُ، وَخَطِئَ آدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّیَّتُهُ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوپیداکیاتوان کی پشت کوچھوتواان کی پشت سے وہ تمام روحیں نکل آئیں جن کواللہ ان کی اولادسے قیامت تک پیداکرنے والاہےاور ہر انسان کی آنکھوں کے درمیان ایک نورپیداکیاپھراللہ تعالیٰ ان روحوں کوآدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا،آدم علیہ السلام نے پوچھا اے میرے رب !یہ کون لوگ ہیں ؟  اللہ  تعالیٰ نے فرمایایہ تمہاری اولادہے، آدم علیہ السلام کوایک شخص کی آنکھوں کے درمیان نوربہت پسندآیاآدم علیہ السلام نے پوچھااے میرے رب!یہ شخص کون ہے؟  اللہ  تعالیٰ نے فرمایاتمہاری نسل کی آخری جماعتوں میں یہ داؤدہوگا،آدم علیہ السلام نے عرض کیااس کی عمرکتنی رکھی گئی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ساٹھ سال،آدم علیہ السلام نے گزارش کی اے میرے رب!میری عمرسے اس کی عمرمیں چالیس(۴۰)سال بڑھادے،پھرجب آدم علیہ السلام کی باقی عمرگزرگئی اورملک الموت آیاتوآدم علیہ السلام نے فرمایاکیا میری عمرمیں ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں ؟ملک الموت نے کہا آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے داؤد کوہبہ کردیئے ہیں ،فرمایا آدم نے انکارکیاتواس کی اولادبھی انکارکی عادی ہےاورآدم علیہ السلام خودبھول گئے ان کی اولادبھی بھولتی ہےاور آدم نے خطاکی ان کی اولادبھی خطاکرتی ہے۔[139]

اورمستدرک حاکم میں ہے

قَالَ: أَیْ رَبِّ فَزِدْهُ مِنْ عُمْرِی أَرْبَعِینَ سَنَةً قَالَ: إِذَنْ یُكْتَبُ وَیُخْتَمُ وَلَا یُبَدَّلُ

آدم علیہ السلام نے کہااے رب!میری عمرمیں سے اس کی عمرمیں چالیس برس بڑھادے(اللہ تعالیٰ نے)فرمایاتب یہ لکھ دیاجائے گااوراس پرمہرلگادی جائے گی اوراسے بدلانہیں جائے گا۔[140]

الغرض  اللہ تعالیٰ نے پوری نسل آدم کو جوقیامت تک پیداہونے والی تھی بیک وقت زندگی،شعوروادراک اورگویائی کی طاقت بخش کراپنے سامنے حاضرکیاتھااوران سے اپنی الوہیت و ربوبیت کی شہادت لینے کے لئے خود ان کواپنے اوپرگواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیامیں تمہارارب نہیں ہوں ؟تمام اراوح نے سرتسلیم خم کرتے ہوئے کہا بیشک آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پرگواہی دیتے ہیں ،اس لئے ہرانسان کی فطرت میں اللہ کی عظمت ومحبت اوراس کی وحدانیت ودیعت کردی گئی ہے ،جیسے فرمایا

فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ۔۔۔۝۰۝۳۰ۤۙ [141]

ترجمہ:پس( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اور نبی کے پیرو) یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهِ، أَوْ یُنَصِّرَانِهِ، أَوْ یُمَجِّسَانِهِ، كَمَثَلِ البَهِیمَةِ تُنْتَجُ البَهِیمَةَ هَلْ تَرَى فِیهَا جَدْعَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہر بچہ فطرت پرپیداہوتاہے، پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یانصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں بالکل اس طرح جیسے جانورکابچہ صحیح سالم پیداہوتاہےکیاتم نے(پیدائشی طورپر)ان کے جسم کاکوئی حصہ کٹاہوادیکھاہے۔[142]

عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ذَاتَ یَوْمٍ فِی خُطْبَتِهِ: أَلَا إِنَّ رَبِّی أَمَرَنِی أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ، مِمَّا عَلَّمَنِی یَوْمِی هَذَا، كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ، وَإِنِّی خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ، وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّیَاطِینُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِینِهِمْ، وَحَرَّمَتْ عَلَیْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ، وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ یُشْرِكُوا بِی مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا

عیاض بن حمارمجاشعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ میں فرمایاآگاہ رہو!میرے رب نے مجھے حکم کیاہے کہ میں تم کووہ باتیں سکھاؤں جواللہ تعالیٰ نے آج مجھے سکھائی ہیں جومال میں اپنے بندے کودوں وہ اس کے لئےحلال ہےاورمیں نے اپنے سب بندوں کومسلمان بنایاپھران کے پاس شیطان آئے اورانہیں ان کے دین سے بہکادیااورجوچیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں وہ حرام کردیں اورانہیں مجھ سے شرک کرنے کا حکم دیاجس کے لئے میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔[143]

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ یُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَقُولُ اللَّهُ لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِی الْأَرْضِ مِنْ شَیْءٍ، كُنْتَ تَفْتَدِی بِهِ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ، فَیَقُولُ: قَدْ أَرَدْتُ مِنْكَ مَا هُوَ أَهْوَنُ مِنْ هَذَا، وَأَنْتَ فِی صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَا تُشْرِكَ بِی، فَأَبَیْتَ إِلَّا أَنْ تُشْرِكَ بِی

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزقیامت سب سے کم عذاب پانے والے سے پوچھاجائے گا اگرتمام دنیاتیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدیئے میں دے کرمیرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟وہ کہے گاہاں ،اللہ تعالیٰ فرمائے گامیں نے تواس سے بہت ہی ہلکے درجے کی چیزتجھ سے طلب کی تھی، اوراس کاوعدہ بھی تجھ سے لے لیاتھاکہ میرے سواتوکسی اورکی عبادت نہ کرے لیکن تواسے توڑے بغیرنہ رہااوردوسرے کومیراشریک عبادت ٹھیرایا۔[144]

ہم نے یہ اخذعہد اوراپنی ربوبیت کی گواہی اس لئے لی تاکہ روز قیامت تم یہ عذرپیش نہ کرسکو کہ ہم تواس بات سے غافل تھے یایہ نہ کہنے لگوکہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اورہم بعد کوان کی نسل سے پیداہوئے اوران کے نقش قدم پرچلے اوران کے باطل میں ہم نے ان کی پیروی کی، پھرکیاآپ ہمیں ان مشرک لوگوں کے قصورمیں پکڑتے ہیں ،یعنی انسانوں پریہ بات واضح کردی کہ جوشخص بھی شرک کاارتکاب کرے گا،اپنے خالق کے احکام سے بغاوت کرے گا،وہ اپنے گناہوں کاخودذمہ دارٹھہرے گاروزقیامت وہ لاعلمی کاعذرتراش کریاسابقہ نسلوں کی گمراہی کی تقلیدکابہانہ بناکربری نہ ہوسکے گا،اس طرح ہم آیات کوکھول کھول کربیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ بغاوت وانحراف کی روش چھوڑکربندگی واطاعت کی طرف پلٹ آئیں ۔

وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ الَّذِی آتَیْنَاهُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّیْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِینَ ‎﴿١٧٥﴾‏ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُونَ ‎﴿١٧٦﴾‏ سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا یَظْلِمُونَ ‎﴿١٧٧﴾‏ مَن یَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِی ۖ وَمَن یُضْلِلْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿١٧٨﴾‏وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا یَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا یَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ‎﴿١٧٩﴾(الاعراف)
’’اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے بالکل ہی نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا،اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگاسو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اس کو چھوڑ دے تب بھی ہانپے، یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں ، ان لوگوں کی حالت بھی بری حالت ہے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اوروہ اپنا نقصان کرتے ہیں ،جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے والا وہی ہوتا ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے سو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں ، اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے، یہ لوگ بھی چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں۔‘‘

[1] الفجر۸

[2] حم السجدة۱۵

[3] ص۵

[4] الانفال۳۲

[5] تفسیرطبری۵۰۷؍۱۲

[6]الحاقة ۶ تا ۸

[7] ھود۶۰

[8] الانبیائ۲۵

[9] النحل۳۶

[10] الشعرائ۱۵۴

[11] الشمس۱۴

[12] بنی اسرائیل۵۹

[13]۔تفسیرابن کثیر۴۴۱؍۳

[14] ھود۶۵

[15] القمر۳۱

[16] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ الصَّلاَةِ فِی مَوَاضِعِ الخَسْفِ وَالعَذَابِ ۴۳۳ ،صحیح مسلم کتاب الزھدبَابُ لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِینَ۷۴۶۵

[17] الحجر۷۱

[18] ھود۷۹

[19] تفسیرطبری۵۵۰؍۱۲

[20] الذاریات۳۵،۳۶

[21] ھود ۸۲، ۸۳

[22] مسنداحمد ۲۷۳۲،سنن ابوداودکتاب الحدودبَابٌ فِیمَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ۴۴۶۲،جامع ترمذی کتاب الحدودبَابُ مَا جَاءَ فِی حَدِّ اللُّوطِیِّ۱۴۵۶،سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ ۲۵۶۳

[23] سنن ابوداود کتاب النکاح بَابٌ فِی جَامِعِ النِّكَاحِ۲۱۶۲، مسند احمد ۹۷۳۳،۱۰۲۰۶

[24] صحیح ابن حبان ۴۲۰۳،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ النَّهْیِ عَنْ إِتْیَانِ النِّسَاءِ فِی أَدْبَارِهِنَّ۱۹۲۴، مسنداحمد۸۵۳۲

[25] سنن ابوداودکتاب الکھانة والتطیر بَابٌ فِی الْكَاهِنِ ۳۹۰۴، جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ إِتْیَانِ الحَائِضِ۱۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارةبَابُ النَّهْیِ عَنْ إِتْیَانِ الْحَائِضِ۶۳۹

[26] الشعرائ۱۷۶،۱۷۷

[27]المطففین ۱تا ۳

[28] التوبة۵۲

[29]ھود ۹۴

[30] الشعرائ۱۸۹

[31] صحیح مسلم کتاب الزھدبَابُ الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَیْرٌ۷۵۰۰

[32] مسند احمد ۲۵۰۴۲

[33] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سورة الدخان بَابُ یَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِیمٌ ۴۸۲۱

[34] الروم۴۱

[35] تفسیرابن کثیر۴۵۱؍۳

[36] مجمع الزوائد۳۹۱،۱۰۴؍۱

[37] المعجم الکبیرللطبرانی۸۷۸۴

[38] طہ ۱۲۸

[39] السجدة۲۶

[40] مریم۹۸

[41] الانعام۱۰۹،۱۱۰

[42] الاعراف۱۷۲

[43] النحل۳۶

[44] صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ الصِّفَاتِ الَّتِی یُعْرَفُ بِهَا فِی الدُّنْیَا أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ۷۲۰۷

[45]صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا قِیلَ فِی أَوْلاَدِ المُشْرِكِینَ ۱۳۸۵، صحیح مسلم کتاب القدربَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ۶۷۵۵

[46] النمل۱۴

[47] تفسیرطبری۱۶؍۱۳

[48] النمل۱۲

[49] تفسیرطبری۱۶؍۱۳

[50] الشعرائ۳۴

[51] طہ۵۷

[52] طہ ۵۸تا۶۰

[53] الشعرائ۴۱،۴۲

[54] طہ۶۵

[55] طہ۶۷تا۶۹

[56] تفسیرطبری۲۸؍۱۳

[57]،الأعراف: 122

[58] تفسیرطبری۲۹؍۱۳

[59] تفسیر طبری ۳۰؍۱۳

[60] تفسیرطبری۳۳؍۱۳

[61] طہ ۷۱

[62] الشعراء ۴۹

[63] تفسیرطبری۳۴؍۱۳

[64] طہ۷۲تا۷۵

[65] الشعرائ۵۰،۵۱

[66] الاعراف۱۲۶

[67] الرحمٰن۲۶،۲۷

[68]النازعات۲۴

[69] الحجر۵۶

[70]النمل۱۳ ، ۱۴

[71] صحیح بخاری کتاب الذبائح بَابُ أَكْلِ الجَرَادِ ۵۴۹۵،صحیح مسلم کتاب الصیدبَابُ إِبَاحَةِ الْجَرَادِ ۵۰۴۵،سنن ابوداودکتاب الاطعمة بَابٌ فِی أَكْلِ الْجَرَادِ۳۸۱۲

[72] سنن ابوداودکتاب الاطعمة بَابٌ فِی أَكْلِ الْجَرَادِ۳۸۱۳،سنن ابن ماجہ کتاب الصیدبَابُ صَیْدِ الْحِیتَانِ، وَالْجَرَادِ ۳۲۱۹

[73]مسنداحمد۵۷۲۳،سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمة بَابُ الْكَبِدِ وَالطِّحَالِ ۳۳۱۴

[74] الاعراف۱۲۸،۱۲۹

[75] القصص۵،۶

[76] تفسیرابن کثیر۴۶۷؍۳

[77] طہ۸۳،۸۴

[78] القیامة ۲۲، ۲۳

[79] المطففین ۱۵

[80] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سورة الرحمٰن بَابُ قَوْلِهِ وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ۴۸۷۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِثْبَاتِ رُؤْیَةِ الْمُؤْمِنِینَ فِی الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى۴۴۸،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ غُرَفِ الجَنَّةِ ۲۵۲۸،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۸۶

[81] مسند احمد ۱۲۲۶۰

[82] تفسیرطبری۹۷؍۱۳

[83] صحیح بخاری تفسیرسورة الاعراف باب وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِیقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ، قَالَ رَبِّ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْكَ۴۶۳۸،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  ؑ۶۱۵۱

[84] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ وَفَاةِ مُوسَى وَذِكْرِهِ بَعْدُ۳۴۰۸،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ؑ۶۱۵۳

[85] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَإِنَّ یُونُسَ لَمِنَ المُرْسَلِینَ۳۴۱۶،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابٌ فِی ذِكْرِ یُونُسَ عَلَیْهِ السَّلَامُ ۶۱۵۹

[86] القصص۴۳

[87] یونس ۹۶، ۹۷

[88] البقرة ۹۳

[89] طہ ۸۷ تا ۸۹

[90] تفسیرابن ابی حاتم۱۵۷۰؍۵

[91] طہ ۹۲تا۹۴

[92] البقرة ۵۴

[93] البقرة۵۵،۵۶

[94] النسائ۱۵۳

[95] تفسیرابن ابی حاتم ۱۵۷۴؍۵،تفسیر طبری ۱۴۱؍۱۳

[96] المومن۷

[97] مسنداحمد۱۸۷۹۹

[98] صحیح مسلم کتاب التوبة بَابٌ فِی سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى وَأَنَّهَا سَبَقَتْ غَضَبَهُ۶۹۷۲،۶۹۷۴، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِبَابُ مَا یُرْجَى مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۴۲۹۳

[99] الانعام۵۴

[100] مسند احمد ۲۳۴۹۲

[101] تفسیرطبری۱۶۴؍۱۳،صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابُ كَرَاهِیَةِ السَّخَبِ فِی السُّوقِ ۲۱۲۵

[102] مسند احمد۲۲۲۹۱

[103] المائدة ۱۵،۱۶

[104] الانعام۱۹

[105] ھود۱۷

[106] آل عمران۲۰

[107] مسند احمد۸۶۰۹،صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب إیمان أهل الكتاب برسالة الإسلام۳۸۶

[108] صحیح بخاری كِتَابُ التَّیَمُّمِ باب ۱،ح۳۳۵، صحیح مسلم کتاب المساجدباب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ ۱۱۶۳،سنن نسائی کتاب الغسل بَابُ التَّیَمُّمِ بِالصَّعِیدِ۴۳۲

[109] آل عمران۱۱۳،۱۱۴

[110] آل عمران ۱۹۹

[111] القصص۵۲تا۵۴

[112] البقرة۱۲۱

[113] بنی اسرائیل۱۰۷تا۱۰۹

[114] المائدة۱۲

[115] البقرة۶۰

[116] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِیقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ۴۶۳۹ ،صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ فَضْلِ الْكَمْأَةِ، وَمُدَاوَاةِ الْعَیْنِ بِهَا۵۳۴۲

[117] البقرة: ۵۸

[118] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة البقرةبَابُ وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ القَرْیَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا البَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَایَاكُمْ وَسَنَزِیدُ المُحْسِنِینَ۴۴۷۹،صحیح مسلم كتاب التَّفْسِیرِباب فی تفسیرآیات متفرقةعن ابی ہریرہ۷۵۲۳

[119] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ باب ۵۴،ح۳۴۷۳، صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطَّاعُونِ وَالطِّیَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا ۵۷۷۲،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ ۱۰۶۵

[120] البقرة۵۷تا۵۹

[121] إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل۳۷۵؍۵،حدیث ۱۵۳۵

[122]الانفال۲۵

[123] مسنداحمد۱۷۷۲۰

[124] مسنداحمد۱۱۱۵۰

[125] المعجم الاوسط للطبرانی ۷۶۶۱،شعب الایمان ۷۱۸۹

[126] البقرة۶۵،۶۶

[127] تفسیرابن کثیر۲۸۹؍۱

[128]

[129] بنی اسرائیل۱۰۴

[130] تفسیر طبری ۲۱۲؍۱۳

[131] الأعراف: 169

[132]الأعراف: 169

[133] تفسیرطبری۲۱۳؍۱۳

[134] آل عمران۱۸۷

[135] النساء ۱۵۴

[136] البقرة۶۳

[137] البقرة۹۳

[138] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَعْرَافِ ۳۰۷۵،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۴۷۰۳،مستدرک حاکم ۷۴،صحیح ابن حبان ۶۱۶۶،السنن الکبری للنسائی ۱۱۱۲۶،شرح السنة للبغوی ۷۷

[139] جامع ترمذی کتاب یفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَعْرَافِ ۳۰۷۶

[140] مستدرک حاکم۴۱۳۲

[141] الروم۳۰

[142]صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ مَا قِیلَ فِی أَوْلاَدِ المُشْرِكِینَ ۱۳۸۵، صحیح مسلم کتاب القدربَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ ۶۷۵۵

[143] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ الصِّفَاتِ الَّتِی یُعْرَفُ بِهَا فِی الدُّنْیَا أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ ۷۲۰۷، مسند احمد ۱۷۴۸۴

[144] مسند احمد۱۲۳۱۲، صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ ۶۵۵۷،صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ طَلَبِ الْكَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الْأَرْضِ ذَهَبًا۷۰۸۳

Related Articles